بچوں کے لئے ایک اور دل چسپ کہانی
حسن بصری اور پریوں کی شہزادی
از قلم
اطہر پرویز
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
حسن بصری اور پریوں کی شہزادی
اطہر پرویز
(’ایک دن کا بادشاہ‘ نامی کتاب سے ماخوذ)
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں ایران اور خراسان کا ایک بادشاہ تھا۔ اس کا نام تھا خواندمیر۔۔ اس کے دربار میں ایک سے ایک بڑا عالم تھا۔ یہ عالموں، شاعروں اور قصہ گویوں کو دربار میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا تھا۔ اس کی علم دوستی کا چرچا دور دور تھا۔ اس کے دربار کا سب سے بڑا قصہ گو تھا۔ ابو علی۔۔ ابو علی بادشاہ کو روزانہ قصے سنایا کرتا تھا۔ آخر ایک دن یہ نوبت آئی کہ اس کے قصوں کا سارا خزانہ خالی ہو گیا۔ ایک دن شاہ خواندمیر نے ابو علی کو بلایا اور اس سے کہا۔۔ : ’’ابو علی! تمھارے قصوں کی گونجیں ہمارے دربار میں ہر طرف گونج رہی ہیں ۔۔ لیکن ہمارا جی چاہتا ہے کہ ہم تم سے ایک ایسی کہانی سنیں، جو آج تک کسی نے نہ سنی ہو اور جو بہت عجیب و غریب ہو اور بے حد دلچسپ ہو۔ اگر اس کہانی کو سناؤ گے تو میں ایک بہت بڑا علاقہ تمھارے سپرد کر دوں گا۔ لیکن اگر تم نے مجھے ایسا قصہ نہیں سنایا تو پھر تمھاری جان کی خیر نہیں۔‘‘
ابو علی نے کہا۔۔ ’’جہاں پناہ! میں کوشش کروں گا لیکن اس کے لیے مجھے ایک سال کی مہلت دی جائے۔‘‘
بادشاہ نے فوراً ابو علی کو ایک سال کی چھٹی دے دی۔ ابو علی نے گھر آ کر اپنے پانچ نوجوان قصہ گویوں کو بلایا جو اس فن میں اس کے شاگرد تھے اور اس کو طرح طرح کے قصے سنایا کرتے تھے۔ اس نے ان کو سارا حال سنا کر کہا۔۔ ’’تم پانچوں دنیا کے کونے کونے میں جاؤ اور ’’حسن بصری کے قصے‘‘ کا پتہ چلاؤ۔۔ میں نے سنا ہے کہ یہ دنیا کا سب سے دلچسپ اور انوکھا قصہ ہے۔ اور تم میں سے جو کوئی اس قصے کا پتہ چلائے گا، میں اس کو مالا مال کر دوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ہر ایک کو پانچ پانچ ہزار دینار دے کر رخصت کیا۔ یہ لوگ ساری دنیا میں گھومتے رہے۔ آخر گیارہ مہینے کے بعد ان میں سے چار تو واپس آ گئے اور انھیں حسن بصری کا قصہ نہ معلوم ہو سکا۔ اب قصہ گو مبارک باقی رہ گیا جو واپس نہیں آیا۔ وہ مختلف ملکوں کی سیر کرتا کرتا دمشق میں پہنچا۔ اس شہر کے کوچوں اور بازاروں کی رونق دیکھ کر اس کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ لیکن جب شہر کے بیچوں بیچ بازار میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہاں بہت بڑی بھیڑ ہے اور لوگ بڑی تیزی کے ساتھ ایک طرف بھاگتے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ لوگ کہاں جا رہے ہیں۔ اتنے میں ایک نوجوان آ کر مبارک سے ٹکرایا اور گھبرا کر بولا۔۔ ’’میرے بھائی! معاف کرنا۔ تم شاید پردیسی ہو۔ ہم لوگ اس وقت شیخ اسحٰق قصہ گو کے پاس قصہ سننے جا رہے ہیں۔‘‘
مبارک نے کہا ’’اگر یہ بات ہے تو پھر تم مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو، کیونکہ میں صرف قصہ سننے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر آیا ہوں‘‘-
نوجوان نے کہا ’’اگر یہ بات ہے تو آؤ تم بھی میرے ساتھ چلو۔‘‘
مبارک اور وہ نوجوان ایک بہت بڑے کمرے میں داخل ہوئے، جہاں بیچوں بیچ میں ایک بہت اونچا تخت تھا۔ اس پر شیخ اسحٰق بیٹھا ہوا تھا اور ارد گرد وہ لوگ تھے جو قصہ سننے کے شوق میں وہاں جمع ہوئے تھے۔ شیخ اسحٰق اپنی داستان بڑے زور شور سے سنا رہے تھے۔ ان کی آواز کی یہ خوبی تھی کہ جیسی بات زبان سے نکلتی تھی اسی کے مطابق اُن کی آواز میں اتار چڑھاؤ پیدا ہوتا تھا۔
جب وہ قصہ سنا چکے تو مبارک نے آگے بڑھ کر قدم بوسی کی، اور بولے۔ ’’حضور! اگر اجازت ہو تو میں بھی کچھ عرض کروں۔‘‘
مبارک نے سر جھکا کر کہا ’’حضور! میرے آقا اور خراسان کے ممتاز داستان گو ابو علی نے آپ کو یہ ایک ہزار دینار کا نذرانہ بھیجا ہے کہ آپ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے داستان گو ہیں اور یہ درخواست کی ہے کہ اسے قبول فرمائیں۔‘‘
شیخ اسحٰق نے کہا۔۔ ’’قصہ گو ابو علی خراسانی نے!۔۔ اُن سے کون واقف نہیں۔ ہم اس نذرانے کو قبول کرتے ہیں اور اپنی طرف سے ان کو ایک نذرانہ بھیجنا چاہتے ہیں۔ تم بتاؤ کہ ابو علی خراسانی کو کیا چیزیں پسند ہیں تاکہ میں ویسا ہی تحفہ بھیجوں۔‘‘
’’حضور! قصہ گو ابو علی خراسانی کے پاس آپ کی دعا سے اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ بس وہ تو نت نئے قصے سننا چاہتا ہے تاکہ اپنے بادشاہ کو سنائے۔ اسے حسن بصری کا قصہ سننے کی آرزو ہے۔ اگر آپ نے سنا ہو تو اس سے بڑھ کر اور کوئی نذرانہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
شیخ اسحٰق نے کہا ’’میرے بھائی یہ عجیب و غریب قصہ ہے۔ سوائے میرے کوئی نہیں جانتا۔ یہ قصہ مجھے میرے استاد نے سنایا تھا، جو، اب دنیا میں نہیں میں یہ قصہ ایک شرط پر دے سکتا ہوں، اور وہ یہ کہ کسی نادان، بیوقوف، جاہل اور بے ایمان آدمی کو نہ سنایا جائے۔‘‘
مبارک نے یہ شرط منظور کر لی اور شیخ اسحٰق نے یہ قصہ سنہرے لفظوں میں لکھوا کر ایک شاندار صندوق میں بند کر کے مبارک کے حوالہ کیا۔ مبارک اُن کو لے کر خراسان کی طرف روانہ ہوا اور چند روز کے اندر وہاں پہنچ گیا۔ اب ایک سال کے ختم ہونے میں صرف چند دن باقی رہ گئے تھے۔ ابو علی نے اس کا بڑا شاندار استقبال کیا اور مبارک نے یہ مبارک خبر سنائی اور حسن بصری کا قصہ ابو علی نے شاہ خواند میر کو اعزاز کے ساتھ پیش کیا اور بڑے اہتمام کے ساتھ بادشاہ کو سنایا۔
حسن بصری کا قصہ یوں ہے:
’’کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں بصرہ میں ایک بڑا خوبصورت نوجوان تھا۔ اس کی خوبصورتی کا چرچا بہت دور دور تھا۔ اس کے ماں باپ اس سے بہت محبت کرتے تھے۔ جب حسن کا باپ مر گیا تو اس نے حسن کے لیے بہت دولت چھوڑی۔ حسن نے کاروبار میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور چند روز میں ساری دولت فضول خرچی میں ختم کر دی۔ حسن کی ماں نے بیٹے کو بہت سمجھایا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ حسن کی ماں کے پاس بہت تھوڑا روپیہ بچ گیا تھا۔ اُس نے حسن کو سمجھا بجھا کر بازار میں ایک سنار کی دکان کھلوا دی۔
حسن کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ جو کوئی بازار سے گزرتا اس کی نظر حسن پر ضرور پڑتی۔ ایک دن جب حسن اپنی دکان میں بیٹھا ہوا کام کر رہا تھا تو اُدھر سے ایک اجنبی اپنی گاڑی میں گزر رہا تھا۔ وہ حسن کو دیکھ کر ٹھہر گیا۔ اس کے بڑی لمبی داڑھی تھی، اور وہ ایک سفید پگڑی باندھے ہوئے تھا۔ وہ حسن کی دکان میں داخل ہوا اور بولا۔۔ ’’اے نوجوان! تم کو دیکھ کر میرا دل بہت خوش ہوا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ تم کو اپنا بیٹا بنا لوں اور تم کو اپنے وہ کام سکھاؤں، جو میں نے آج تک راز کے طور پر رکھے ہیں۔ تم کو دیکھ کر بے اختیار میرا دل تمھاری طرف کھینچ رہا ہے۔ اس کے بعد پھر تم کو زندگی میں کوئی کام کرنا نہیں پڑے گا۔ گھر بیٹھے ہر چیز ملے گی۔‘‘
حسن نے کہا ’’میرے اچھے چچا! میں اس لائق کہاں کہ آپ مجھے اپنا بیٹا بنا لیں، لیکن میرے لیے اس سے زیادہ خوش قسمتی کی بات کیا ہو سکتی ہے‘‘-
اجنبی نے کہا۔۔ ’’کل سے میں اپنا فن سکھانا شروع کروں گا۔ اس وقت مجھے اجازت دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
حسن نے جلدی سے دکان بند کی اور سیدھا گھر گیا۔ اس نے اپنی ماں سے سارا حال سنایا۔ ماں نے کہا ’’بیٹا! پردیسیوں پر اتنا بھروسہ کرنا ٹھیک نہیں۔ تجھ کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ آدمی تجھے دھوکا دے گا۔‘‘
حسن نے کہا۔ ’’ماں! وہ بڑا دولت مند آدمی ہے۔ اور صورت سے بھی بڑا شریف معلوم ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی کہ ہمارے پاس ایسی کون سی دولت ہے جو کوئی آدمی ہم کو دھوکا دے گا۔ مجھے تو اس آدمی کی اچھا ئی میں ذرا سا بھی شبہ نہیں ہے۔‘‘
اس کی ماں خاموش ہو گئی اور حسن جلدی جلدی کھانا کھا کر سونے چلا گیا۔ صبح کو جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ سیدھا اپنی دکان پر گیا اور پردیسی مسافر کا انتظار کرنے لگا۔ ذرا سی دیر بعد وہ آیا۔ حسن نے بڑے ادب سے اٹھ کر اسے آداب کیا۔
پردیسی نے پوچھا۔۔ ’’بیٹا! یہ تو بتاؤ تمھاری شادی ہوئی یا نہیں۔‘‘
حسن نے کہا ’’میں نے شادی نہیں کی۔ حالانکہ میری ماں بہت چاہتی ہے کہ میں جلد از جلد شادی کروں۔‘‘
پردیسی نے کہا۔۔ ’’یہ بڑی اچھی بات ہے۔ ورنہ پھر میں تم کو اپنا راز نہ بتاتا۔ اب یہ بتاؤ کہ تمھاری دکان میں کچھ تانبا پیتل وغیرہ بھی ہے۔‘‘
حسن نے کہا ’’ہاں یہ سب چیزیں ہیں۔‘‘
پردیسی نے کہا۔ ’’پہلے اپنی بھٹی جلاؤ اس پر تھالی رکھو۔۔ اور پھر دھونکنی سے آگ کو تیز کرو۔ اس کے بعد تانبے کے ٹکڑے تھالی پر رکھو، جب تک وہ پگھلنے نہ لگیں۔‘‘
حسن نے ایسا ہی کیا۔ جب تانبا پگھلنے لگا تو پھر پردیسی نے اس پر آہستہ آہستہ کچھ پڑھ کر پھونکا اور جیب سے ایک سفوف کی پُڑیا نکالی اور ذرا سا سفوف چھڑکا۔ ذرا سی دیر میں وہ سونے کی طرح چمکنے لگا تو اسے بھٹی پر سے ہٹا لیا۔ اب تو وہ سچ مچ کا سونا تھا۔ پردیسی نے کہا ’’حسن! جاؤ اور جا کر اسے بازار میں بیچو۔ مجھے یقین ہے کہ تم کو اصلی سونے کے دام ملیں گے۔ لیکن اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔‘‘
حسن نے جا کر اُسے بازار میں بیچا تو واقعی دو ہزار دینار میں بکا۔ اب تو حسن کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ حسن دوڑا دوڑا ماں کے پاس گیا۔ وہ بھی اتنے بہت سے روپے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ لیکن جب اس کو معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ پردیسی نے کیا ہے تو اس نے کہا ’’بیٹا! اس پردیسی سے ہوشیار رہنا۔‘‘
لیکن حسن تو اس وقت بے حد خوش تھا۔ وہ جلدی جلدی کھانا لے کر دکان کی طرف گیا اور اس نے پردیسی کی خوب خاطر مدارات کی اور ایک تانبے کا بڑا ٹکڑا دکھا کر کہا۔۔ ’’چچا جان! اسے بھی سونا بنا دو۔‘‘
سوداگر نے کہا ’’بیٹا! اب زیادہ جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ اگر اب اور سونا لے کر بازار میں گئے تو پکڑ لیے جاؤ گے۔‘‘
حسن نے کہا ’’یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو۔ لیکن مجھے جلدی سے سونا بنانا سکھا دو۔‘‘
سوداگر نے کہا ’’یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ یہ کام میں تم کو بیچ بازار میں سکھاؤں۔ اگر تم اس کو سیکھنا چاہتے ہو تو اپنا سامان لے کر آؤ، میرے ساتھ جلد میرے گھر چلو۔‘‘
حسن اس کے ساتھ ہو لیا۔ جب حسن تھوڑی دور گیا تو اسے اپنی ماں کی بات یاد آ گئی اور وہ جھجھک کر رک گیا۔ پردیسی یہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ حسن میرے یہاں جانے سے ڈر رہا ہے۔ اس نے کہا ’’بیٹا حسن! تم میرے اوپر بھروسہ کرو۔ جیسے میرا گھر ویسے تمھارا گھر۔۔ لیکن اگر تم کہو تو میں تمھارے گھر جا کر سکھانے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
حسن نے یہ بات مان لی اور اسے لے کر اپنے گھر آیا اور ماں سے کہا۔۔ ’’آج وہ پردیسی میرا مہمان رہے گا اور ہم لوگ ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔ اب تو اس پردیسی کے بارے میں تمھارا شک دور ہو جانا چاہیے۔
ماں نے کہا ’’بیٹا! مجھے اس پر ہرگز بھروسہ نہ ہو گا۔ تم جو چاہے کرو۔ میں تم سے کچھ نہیں کہتی، لیکن میں کھانا پکا کر پڑوس میں چلی جاؤں گی اور جب تک یہ آدمی اس گھر میں رہے گا ہرگز قدم نہ رکھوں گی۔‘‘
چنانچہ وہ کھانا پکانے کے بعد پڑوسی کے یہاں چلی گئی اور ان دونوں نے کھانا کھایا۔ جب کھانا کھا چکے تو پردیسی نے اور زیادہ سونا بنایا۔ اب تو حسن بہت خوش ہو گیا۔ اس درمیان میں پردیسی نے ایک سفوف کی پُڑیا نکالی، اسے پانی میں ڈال کر حسن کو پلا دیا۔۔ اس کا پینا تھا کہ حسن بے ہوش ہو گیا۔ پردیسی بہت خوش ہوا اور بولا۔۔ ’’آج برسوں کے بعد میری آرزو پوری ہوئی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے صندوق میں حسن کو ڈالا، اور جو کچھ گھر میں تھا، وہ رکھا اور قلی کے سرپر صندوق رکھوا کر وہاں سے چلا گیا۔ سمندر کے کنارے ایک جہاز تھا جو اُن کے انتظار میں تھا۔۔ اس میں صندوق اور دوسرا سامان رکھوایا۔ در اصل یہ پردیسی بہرام جادوگر تھا اور وہ اس طرح کے لڑکوں کو پکڑ پکڑ کر لاتا اور اپنا غلام بنا لیتا تھا۔ چنانچہ اس نے حسن کو بھی اپنے قبضے میں کر لیا اور جہاز چل پڑا۔ وہ ہر روز دونوں وقت صندوق کھولتا اور حسن کو کچھ کھلا پلا کر پھر صندوق بند کر دیتا۔ آخر وہ ایک چھوٹے سے جزیرے میں اترا۔ یہاں اتر کر بہرام جادوگر نے صندوق کو کھولا، حسن کو نکالا۔ حسن بڑا ڈرا سہما تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ میری ماں ٹھیک کہتی تھی۔ یہ آدمی دھوکے باز تھا۔ لیکن اب کرتا تو کیا کرتا۔ حسن نے آنکھ کھول کر دیکھا تو وہ سمندر کا کنارا۔۔ وہاں ریت پر رنگ برنگے گھونگھے پڑے تھے۔ بہرام اسے وہاں چھوڑ کر پاس کی ایک چھوٹی سی پہاڑی کے پاس جا کر بیٹھ گیا تھا اور وہاں سے اطمینان سے بیٹھے بیٹھے حسن کو دیکھ رہا تھا۔ حسن کی نظر جو اس پر پڑی تو حسن نے چیخ کر کہا ’’تم نے مجھے اپنا بیٹا بنایا تھا۔ کوئی آدمی بیٹے کے ساتھ یہ سلوک کرتا ہے؟‘‘
بہرام جادوگر نے قہقہہ لگایا ’’ارے میں بہرام جادوگر ہوں میں کسی کا باپ نہیں ۔۔ یہی میرا پیشہ ہے ۔۔ اب تم میرے قبضے میں ہو اور تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ جو میں کہوں، وہی کرو۔ اپنی ماں کو بالکل بھول جاؤ۔ بصرے جانے کا خیال چھوڑ دو۔‘‘
حسن کو بہت غصہ آیا۔۔ وہ چیخنے لگا۔۔ ’’دھوکے باز۔۔ کمینے ۔۔ ذلیل۔‘‘
بہرام جادوگر نے کہا۔ ’’اب اپنا غصہ ختم کرو۔ یہ جو سامنے نکیلا پہاڑ نظر آ رہا ہے، یہ بادلوں کا پہاڑ کہلاتا ہے۔ آؤ اس پر چلیں، مجھے یقین ہے کہ وہاں جا کر تم خوش ہو جاؤ گے۔ تم نے ایسی جگہ خواب میں بھی نہ دیکھی ہو گی۔ وہاں جا کر میں تم کو اپنا علم سکھاؤں گا۔‘‘
اب تو حسن کو اپنی بے بسی کا احساس ہوا۔ وہ زور زور سے رونے لگا۔
بہرام نے کہا ’’حسن! اب رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں ۔۔ اب تمھاری بھلائی اسی میں ہے کہ میرا حکم مانو۔‘‘
حسن نے اپنے آنسو پونچھے اور بولا۔۔ ہم اس پہاڑ پر کیسے جائیں گے۔ یہ تو دیوار کی طرح سیدھا ہے۔‘‘‘
بہرام نے کہا۔۔ ’’ابھی ہم پل بھر میں وہاں پہنچتے ہیں۔‘‘ اب بہرام کو اطمینان ہو گیا تھا۔۔ ’’حسن! تم اس کی کوئی فکر نہ کرو۔ ابھی ہم چڑیا کی طرح اُڑتے ہوئے وہاں پہنچتے ہیں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک تانبے کا ڈھول نکالا، جس پر ایک مرغے کی کھال مڑھی ہوئی تھی۔ بہرام نے جیسے ہی ڈھول پر انگلیاں چلائیں، اک دم سے دھول کا ایک غبار سا اٹھا اور ذرا سی دیر میں ایک کالا گھوڑا سامنے آ گیا۔ اس کے پرندوں کے بازو تھے، اور نتھنوں میں سے آگ نکل رہی تھی۔ جادوگر گھوڑے پر بیٹھ گیا اور اس نے اپنے پیچھے حسن کو بٹھایا اور اُن کے بیٹھتے ہی گھوڑا ہوا میں اُڑنے لگا، اور پلک جھپکتے ہی ’’بادلوں کے پہاڑ‘‘ پر پہنچ گیا۔
جیسے ہی وہ پہاڑ پر پہنچا۔ بہرام زور سے چلایا۔۔ ’’’بس اب تم میرے غلام ہو۔۔ میرا حکم مانو۔‘‘
حسن کو بہت غصہ آیا۔ وہ ڈھول پر جھپٹا اور بہرام کو زور سے لات ماری۔۔ اب ڈھول تو حسن کے ہاتھ میں تھا اور بہرام جادوگر لڑکھتا ہوا پہاڑ کے نیچے جا کر ایک چٹان پر گرا اور ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ اب جا کر حسن کو اطمینان ہوا۔ اس نے ڈھول کو غور سے دیکھا لیکن وہ کیا جانے کہ اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے اس نے ڈھول کو تو کمر سے باندھا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہے کہ کچھ دور پر روشنی سی ہو رہی ہے جیسے آگ جل رہی ہو۔ اس نے کہا جہاں آگ ہوتی ہے، وہاں آدمی ضرور ہوتا ہے۔ یہ سوچ کر وہ اس طرف پہنچا۔ لیکن وہ آگ نہیں تھی بلکہ وہاں ایک سنہرا گنبد تھا جو سورج کی روشنی سے چمک رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہاں کوئی نہ کوئی ضرور رہتا ہو گا۔ اسے بڑے زور سے بھوک لگی تھی۔ ضرور یہاں کچھ نہ کچھ کھانے کو مل جائے گا۔ یہ سوچ کر وہ آگے بڑھا تو یہ ایک محل تھا۔ اب تو اُس کی جان میں جان آئی۔ اس نے قریب جا کر دیکھا تو دو بڑی خوبصورت خوبصورت لڑکیاں ایک سنگ مرمر کے پتھر پر بیٹھی تھیں اور شطرنج کھیل رہی تھیں۔ ان میں سے چھوٹی کی نظر اک دم سے حسن پر پڑی تو وہ چونک کر کھڑی ہو گئی اور بولی۔۔ ’’اری بہن! دیکھ تو یہ کون خوبصورت جوان ہے۔ ہو نہ ہو یہ ان بد نصیب نوجوانوں میں سے ہے جسے بہرام جادوگر دھوکا دے کر لاتا ہے اور اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اس شیطان کے قبضے سے نکلا تو کیسے نکلا۔‘‘
یہ سنتے ہی حسن اس کے قدموں پر گر پڑا اور بولا۔ ’’تم سچ کہتی ہو۔ میں وہی بد نصیب ہوں۔‘‘
حسن اس لڑکی کے قدموں پر پڑا زار و قطار رو رہا تھا۔ اسے روتا دیکھ کر اس لڑکی پر بڑا اثر ہوا اور اس نے پھر اپنی بہن سے کہا۔۔ ’’میری بہن! تم گواہ رہنا کہ تمھارے سامنے میں اس نوجوان کو اپنا بھائی بنا رہی ہوں۔ اور اب یہ میرے ساتھ رہے گا۔‘‘
اس نے حسن کو بالکل ایک بھائی کی طرح اپنے ہاتھوں سے اٹھایا اور اسے اندر لے جا کر حمام میں نہلا کر اچھے اچھے کپڑے پہنائے۔ دونوں لڑکیاں اس سے بڑی محبت سے پیش آئیں اسے بہت اچھا اچھا کھانا کھلایا۔ پھر وہی چھوٹی بہن بولی۔۔ ’’بھائی اب تم اپنا نام بتاؤ اور یہ بتاؤ کہ یہاں تک کیسے آئے؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’میرا نام حسن ہے۔ قسمت مجھے یہاں لے کر آئی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ سنایا۔
انھوں نے کہا ’’تم نے اچھا کیا جو اس شیطان کا خاتمہ کر دیا۔ ورنہ ابھی تو یہ نہ جانے کتنوں کو دھوکا دیتا۔‘‘
تب بڑی بہن نے کہا۔۔ ’’گلبرگ! اپنے بھائی کو اپنے بارے میں بھی تو بتاؤ۔‘‘
گلبرگ نے کہا۔۔ ’’میرے اچھے بھائی ہم دونوں شہزادیاں ہیں۔ میرا نام گلبرگ ہے اور میری بڑی بہن کا نام گلنار ہے۔ ہماری پانچ اور بہنیں ہیں۔ ہم سے بھی زیادہ خوبصورت۔ میرا باپ جنوں کا بادشاہ ہے۔ یہ بڑا ظالم ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ہم سے کسی کی شادی ہو۔ اس لیے ایک دن اس نے اپنے وزیر کو بلا کر کہا۔۔ ’’کیا تم کوئی ایسی جگہ جانتے ہو، جہاں کسی انسان کا گزر نہ ہو، تاکہ میں وہاں اپنی ساتوں شہزادیوں کو رکھ سکوں۔‘‘
وزیر نے کہا ’’جہاں پناہ! اب یہ بڑی ہو گئی ہیں۔ ان کی شادی کر دیجیے تاکہ یہ اپنے گھر بار کی ہو جائیں اور آپ کی ذمہ داری کم ہو۔‘‘
اس پر بادشاہ ناراض ہو گیا اور اس نے کہا ’’میں اپنی لڑکیوں کی شادی نہیں کروں گا۔ میں تو ان کو جان سے مارنا پسند کروں گا بجائے اس کے کہ ان کی شادی کروں۔ اگر تم مجھے ابھی اسی وقت کسی ایسی جگہ کا پتہ نہیں بتاتے تو میں تم کو بھی جان سے مار ڈالوں گا۔‘‘
وزیر نے کہا ’’بادلوں کا پہاڑ ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کسی کی پہنچ نہیں ہے۔ اگر آپ حکم دے دیں تو میں شہزادیوں کے لیے ایک بڑا شاندار محل بنوا دوں اور پھر یہ سب وہاں آرام سے رہیں۔‘‘
اس کے بعد یہ محل بن گیا اور ہم لوگ یہاں رہ رہے ہیں اور تب سے یہاں ہیں۔ تم پہلے انسان ہو جو یہاں داخل ہوئے ہو۔ یہاں کا موسم بھی بہت اچھا ہے۔ ہر طرف ہریالی ہے۔ بڑی خوبصورت جگہ ہے۔ ہمیں تو یہ جگہ بے حد پسند ہے۔ بس اگر کوئی کمی ہے تو یہی ہے کہ آدمی کی صورت دیکھنے کو ترس گئے ہیں۔ آج تم کو دیکھ کر اتنا جی خوش ہوا کہ بیان نہیں کر سکتے۔ ذرا سی دیر بعد پانچ دوسری بہنیں بھی آ گئیں۔ وہ بھی حسن کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ ’’اب تم ہمارے ساتھ رہو۔ ہم تم کو کوئی تکلیف نہ ہونے دیں گی۔‘‘
اب حسن خوش خوش وہاں رہنے لگا۔ دن بھر ان تمام شہزادیوں کے ساتھ سیر و تفریح کرتا۔ ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں، سب کا جی لگا رہتا۔ وہ دل میں بہت خوش تھا کہ اس کو اتنی اچھی پیاری بہنیں ملی ہیں۔ وہ اسے جنوں اور پریوں کے قصے سناتیں اور حسن ان کو بصرہ کے لوگوں کے بارے میں بتاتا۔ حسن سب سے بہت محبت کرتا تھا اور خاص طور پر گلبرگ سے جو ہر وقت اس کا خیال رکھتی اور حسن کو ذرا بھی تکلیف نہ ہونے دیتی۔
ایک روز حسن اور ساتوں شہزادیاں ایک ساتھ بیٹھی تھیں۔ گانا بجانا ہو رہا تھا کہ اک دم سے آسمان پر ایک آندھی سی اٹھی، پھر ایسا محسوس ہوا جیسے بادل گرج رہے ہیں۔ ساتوں شہزادیوں نے حسن سے کہا ’’بھائی! تم جلدی سے باغ میں چھپ جاؤ۔‘‘ گلبرگ نے جلدی سے اس کو باغ کے ایک کونے میں چھپا دیا۔ ذرا سی دیر بعد آندھی کا زور کم ہوا اور بہت سے جن آئے اور انھوں نے شہزادیوں سے کہا۔ ’’بادشاہ سلامت! ایک بڑی شاندار دعوت کر رہے ہیں اور آپ کو بلایا ہے۔‘‘ جب گلبرگ نے یہ بات سنی تو حسن کے پاس جا کر بہت روئی اور اس سے بولی۔ ’’میرے بھائی! اب ہم لوگ جا رہے ہیں۔ کچھ دن بعد آئیں گے۔ بادشاہ کا حکم ٹالا نہیں جا سکتا۔ تم یہ کنجیوں کا گچھا لو۔۔ ان میں ہر کمرے کی کنجیاں ہیں۔ تم ہر کمرہ کھول کر استعمال کر سکتے ہو۔ البتہ اس کمرے کو مت کھولنا، جس کی یہ کنجی ہے۔ تم یہیں رہنا۔ یہ محل تمھارا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر گلبرگ نے حسن کو کنجیوں کا گچھا دے دیا۔ اس نے حسن کو خوب اچھی طرح اس کنجی کو دکھایا۔ حسن نے وعدہ کیا اور کہا ’’تم بڑے اطمینان سے جاؤ۔ یہیں رہ کر تمھارا انتظار کروں گا۔ اور جس کمرے کو تم نے منع کیا ہے، اس کو ہرگز نہ کھولوں گا۔‘‘
دوسری بہنیں بھی آئیں اور بڑی محبت سے حسن سے ملیں اور اس سے رخصت ہوئیں پھر ذرا سی دیر کے بعد ساتوں بہنیں جنوں کے ساتھ اپنے باپ کے یہاں چلی گئیں۔
ان کے جانے کے بعد حسن کا جی بہت گھبرایا۔ جب رات ہو گئی۔ اس نے کنجیوں کا گچھا اٹھایا اور ایک ایک کمرہ دیکھنا شروع کیا۔ ان کمروں کی شان و شوکت دیکھ کر تو وہ سخت حیران ہوا۔ ایسا ایسا سامان تھا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا۔ جب ان تمام کمروں کو دیکھ چکا تو اس کی نظر اس کمرے پر پڑی، جس کو گلبرگ نے کھولنے سے منع کر دیا تھا۔ اس نے دل میں سوچا کہ آخر کیا بات ہے کہ گلبرگ نے صرف اس کمرے کو دیکھنے کے لیے منع کیا ہے۔ میں اس کو بھی دیکھوں گا، چاہے کچھ ہو جائے۔ اس نے روشنی کی اور سیدھا اس کمرے کی طرف بڑھا۔ اس نے تالے میں کنجی لگائی۔ کنجی کے لگتے ہی، اک دم سے دروازہ کھل گیا۔ حسن اس میں داخل ہوا۔ لیکن یہ کمرہ تو بالکل خالی تھا۔ اس میں نہ کوئی کرسی میز تھی، نہ آرائش کا کوئی سامان! حسن نے غور سے دیکھا تو اس میں ایک سیڑھی لگی ہوئی تھی، جو اوپر سے ایک بڑے خول کے اندر داخل ہو گئی تھی۔ حسن نے تیزی سے سیڑھی پر چڑھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ وہ چھت کے اوپر پہنچ گیا۔ یہاں تو بڑی کھلی فضا تھی۔ چھت پر سے اسے بڑا خوبصورت میدان نظر آیا۔ یہاں چاند کی روشنی کچھ اس طرح نظر آ رہی تھی جیسے دن نکلا ہو۔ اس نے اتنا خوبصورت منظر اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
داہنی طرف ایک خوبصورت نہر بہہ رہی تھی جس کے دونوں طرف پھولوں کی بڑی خوبصورت کیاریاں تھیں۔ نہر سے بالکل ملا ہوا ایک سنگ مرمر کا حسین محل تھا۔ محل سے اترتی ہوئی سیڑھیاں نہر تک آتی تھیں، جہاں ایک تخت بچھا ہوا تھا۔ اس تخت پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ شاید ہی کسی بادشاہ کو کبھی ایسا تخت نصیب ہوا ہو۔
ابھی حسن یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ اک دم سے کیا دیکھتا ہے کہ بڑے بڑے پرندوں کا جھنڈ چلا آ رہا ہے۔ یہ کُل ملا کر دس تھے۔ یہ سب نہر کے کنارے اتر گئے۔ ان کے پروں کی رنگت ہیروں اور جواہرات سے ملتی جلتی تھی۔ یہ پرندے سب تخت کی طرف بڑھے۔ ان میں سب سے آگے جو پرندہ تھا، وہ سب سے خوبصورت پرندہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے سب اس کا حکم مانتے تھے۔ اک دم سے انھوں نے اپنے پر پھڑپھڑائے اور اپنے پروں کو اس طرح اتار دیا جیسے کوئی کپڑے اتارتا ہو۔ حسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ تو بہت خوبصورت لڑکیاں تھیں جو پرندوں کا لباس پہنے تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے چاند نے لڑکیوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔ وہ سر سے پیر تک ننگی تھیں۔ البتہ ان کے بالوں نے ان کے بدن کو کسی حد تک ڈھک دیا تھا۔ یہ لڑکیاں پانی میں کود پڑیں اور تیرنے لگیں۔ یہ دیر تک پانی میں تیرتی اور کھیلتی رہیں۔ پھر سب سے بڑی لڑکی نے اشارہ کیا اور وہ سب باہر آ گئیں۔ اب یہ لڑکی تخت پر جا کر بیٹھ گئی۔ حسن نے ایسی خوبصورت لڑکی اس سے پہلے کہاں دیکھی تھی۔ وہ تو اس لڑکی کو بس دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر تک تو اسے یہ بھی ہوش نہ رہا تھا کہ وہ کہاں ہے۔ ذرا سی دیر بعد وہ سنبھلا تو اس نے سوچا کہ گلبرگ نے اسی لیے اسے اس کمرے کو کھولنے سے منع کیا تھا۔ حسن غور سے اس لڑکی کو دیکھتا رہا جس کا گورا بدن چاند کی روشنی میں دمک رہا تھا۔ اس کے گھنے بال ہوا سے لہرا رہے تھے۔ اس کی سیاہ چمکدار اور بڑی بڑی آنکھیں حیران ہو کر دیکھ رہی تھیں۔ گھنی گھنی پلکیں آنکھوں پر سایہ کیے ہوئے تھیں ۔۔ صاف شفاف بدن ۔۔ خوبصورت پنڈلیاں ۔۔ بھرے بھرے بازو۔۔ وہ ملکہ کی طرح بیٹھی ہوئی تھی اور نو لڑکیاں چاروں طرف سے اس کو گھیرے ہوئے تھیں۔ حسن تو اس کو دیکھ کر اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ ساری زندگی اسی طرح سے بیٹھا اسے دیکھتا رہے۔ اتنے میں ملکہ نے لڑکیوں سے کہا ’’اب صبح ہو رہی ہے۔ آؤ چلیں۔ ہمیں بہت دور جانا ہے۔‘‘ انھوں نے اپنے پر پہنے اور انھیں پھڑپھڑایا اور اڑنے لگیں اور ذرا سی دیر میں نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ حسن کو ایسا لگا کہ ان کے ساتھ اس کا سکون و اطمینان سب کچھ چلا گیا۔ وہ دیر تک وہاں ٹہلتا رہا، لیکن اب وہاں کچھ بھی نہ تھا، سوائے خاموشی اور سناٹے کے ۔۔ حسن نیچے اترا اور چپ چاپ اپنے بستر پر جا کر لیٹ گیا۔ ساری رات کروٹیں بدلتا رہا۔ جب آنکھ بند کرتا، وہی شکل سامنے آ جاتی۔ اب وہ ہر روز رات کو سیڑھی پر چڑھتا۔ مگر وہ پرندے کہیں نظر نہ آتے۔ اس طرح کتنے دن اور کتنی راتیں گزر گئیں۔ ان کا کہیں پتہ نہ تھا حسن نے کھانا پینا سب کچھ چھوڑ دیا۔
اس طرح کئی دن گزر گئے۔ ایک دن شہزادیاں آ گئیں۔ گلبرگ دوڑتی ہوئی محل کے اندر پہنچی اور حسن کو ڈھونڈھتی ہوئی اس کے پلنگ کے پاس آئی۔ کیا دیکھتی ہے کہ حسن سوکھ کر کانٹا ہو گیا ہے۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ گلبرگ گھبرا کر اس سے لپٹ گئی اور روتے ہوئے بولی۔۔ ’’میرے پیارے بھیا! بتاؤ تم کو کیا تکلیف ہے۔ میں اس کا علاج کروں گی۔‘‘
حسن نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور اب تو اور زور زور سے رونے لگا۔ اس کی زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ اس پر گلبرگ کی حالت اور خراب ہو گئی۔ اس نے کہا ’’میرے بھیا! مجھے سچ سچ بتاؤ تم کو کیا تکلیف ہے۔ یہ تم کو کیا ہو گیا ہے۔ میں تمھاری ہر تکلیف کا علاج کروں گی۔ مجھے بتاؤ تو کیا بات ہے ۔۔ میرے بھیا۔‘‘
حسن نے کہا۔۔ ’’میری پیاری بہن! مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں نے یہ مصیبت خود مول لی ہے۔ اس کا کوئی علاج نہیں۔ غلطی میری ہے اور مجھے اس کی سزا مل رہی ہے۔ تم مجھے اب موت کے پنجوں سے نہیں چھڑا سکتیں۔‘‘
گلبرگ نے کہا ’’بھیا حسن! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ میں بھی مر جاؤں گی۔ مجھے یہ تو بتاؤ کہ آخر بات کیا ہے؟۔‘‘
تب حسن نے کہا۔ ’’بہن! میں نے دس دن سے کچھ کھایا پیا نہیں‘‘- اور یہ کہہ کر اس نے شروع سے آخر تک سارا قصہ سنایا۔
حسن سوچ رہا تھا، وہ یہ سن کر ناراض ہو گی کہ اس کے منع کرنے کے باوجود اس کمرے کا دروازہ کیوں کھولا۔۔ لیکن وہ ناراض نہیں ہوئی اور اس نے حسن کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔۔ ’’میرے بھیا! اب تم بالکل پریشان نہ ہو۔ میں اس لڑکی کو حاصل کرنے کے لیے، جو کچھ کر سکتی ہوں، کروں گی۔ تم ذرا بھی فکر مت کرو۔ بس اپنے آنسو پونچھو اور بالکل پہلے جیسے ہو جاؤ۔ بس میری شرط یہ ہے کہ یہ بات میری بہنوں سے بھی مت کہنا۔۔ وہ اگر اس کمرے کے بارے میں پوچھیں تو کہنا۔۔ ’’میں اس کمرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ وہ اگر یہ پوچھیں کہ تم اتنے دبلے کیسے ہو گئے، تو کہنا ’’۔۔ تم سب کی جدائی میں میرا یہ حال ہوا ہے۔ خبردار ان سے کوئی ایسی بات مت کہنا، جس سے ان کو شک بھی ہو۔‘‘
اب جا کر حسن کو اطمینان ہوا۔ ورنہ وہ ڈر رہا تھا کہ گلبرگ ضرور ناراض ہو جائے گی۔ اس نے کہا ’’تم جیسا کہو گی، میں ویسا کروں گا۔ اب گلبرگ دوڑتی ہوئی گئی اور بہنوں سے بولی ’’ہمارا بھائی حسن بہت بیمار ہے۔ اس نے دس دن سے کچھ کھایا پیا نہیں۔ وہ دن بھر ہمیں اور اپنے ماں باپ کو یاد کرتا تھا اور اسی غم میں اس کی بھوک پیاس سب ختم ہو گئی۔‘‘
اب ساتوں بہنیں دوڑی ہوئی گئیں۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا اور اپنے باپ کے یہاں کے بہت سے دلچسپ حالات سنا سنا کے اسے خوش کیا اور اس طرح حسن کو اپنی ہر سیر و تفریح میں شریک کیا۔ ایک دن سب بہنوں نے شکار کا پروگرام بنایا۔ سب بہنیں چلی گئیں اور گلبرگ کو وہاں حسن کی دیکھ بھال کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر گلبرگ نے حسن سے کہا ’’اب تم بتاؤ کہ تم نے اس لڑکی کو کہاں دیکھا۔‘‘
گلبرگ نے دروازہ کھولا۔۔ وہ دونوں چھت پر پہنچے۔ حسن نے وہاں سے محل کے پاس کے تخت کی طرف اشارہ کیا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں میں نے وہ خوبصورت لڑکی دیکھی تھی، جس کے چاروں طرف نو لڑکیاں بیٹھی تھیں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ گلبرگ کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ وہ گھبرا گئی۔ ’’ارے باپ رے، یہ تم نے کیا کیا—‘‘ جانتے ہو یہ کون تھی۔۔ یہ جنات کے شہنشاہ کی بیٹی ہے۔ یہ اتنا بڑا شہنشاہ ہے کہ میرا باپ اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ وہ یہاں سے ہزاروں میل کے فاصلے پر رہتا ہے۔ وہاں تک تو انسان کا پہنچنا مشکل ہے۔ اس کے محل کے چاروں طرف اتنا کڑا پہرا ہے کہ ہوا کا بھی مشکل ہی سے گزر ہو سکتا ہے۔ وہ لڑکی جو تم نے دیکھی ہے، وہ سب سے چھوٹی شہزادی ہے۔ اس کا نام ’’نوبہار‘‘ ہے۔ جب چودھویں کا چاند چمکتا ہے تو وہ یہاں اپنی سہیلیوں کے ساتھ آتی ہے۔ ان پروں کی بدولت ہی وہ اڑتی ہوئی یہاں پہنچتی ہے۔ اس کو حاصل کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ تم کسی طرح اس کے پروں والے لبادے کو اٹھا لاؤ۔ بس پھر وہ اُڑ نہ سکے گی۔ تم کہیں پاس جا کر چھپ جاؤ۔ جیسے ہی وہ اتارے اور نہانے کے لیے اترے، بس تم اس پر قبضہ کر لو۔ اس کے بعد وہ کتنا ہی خوشامد کرے، یہ پر اسے مت دینا۔ اگر تم نے دے دیا تو گویا یہ سمجھو کہ ہم سب تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ہمارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ اس کے بعد تم اس کے بالوں کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے یہاں لے آؤ۔ پھر دیکھنا کہ وہ کس طرح تمھاری ہو جاتی ہے۔‘‘
حسن اتنا خوش ہوا کہ ناچنے لگا۔ اس نے گلبرگ کے ہاتھ چومنے شروع کر دیے۔ اس کے بعد دونوں نیچے اترے۔ اتفاق سے اگلی رات چودھویں کے چاند کی رات تھی۔ یہی وہ رات تھی جب وہ شہزادی اور اس کی سہیلیاں نہانے آتی تھیں۔ حسن پہلے ہی سے تخت کے پیچھے جا کر چھپ گیا۔ ذرا سی دیر میں اسی طرح دس پرندے پر پھڑپھڑاتے ہوئے اترے۔ انھوں نے بال و پَر کا لبادہ اتارا اور نہر میں نہانے اور تیرنے لگیں۔ حسن نے چپکے سے موقع پا کر شہزادی نو بہار کا لباس وہاں سے اٹھا لیا اور چھپ کر اسی جگہ بیٹھ گیا۔
جیسے ہی شہزادی نو بہار وہاں نہا کر آئی تو سمجھ گئی کہ ضرور کسی نے یہاں سے ان کے لباسوں کو تتر بتر کیا ہے۔ اس نے جو غور سے دیکھا تو اس کا اپنا لباس غائب تھا۔ اب تو وہ خوب زار و قطار رونے لگی۔ اس کی سہیلیوں نے جو یہ حال دیکھا تو انھوں نے جلدی سے اپنے اپنے لبادے اٹھائے اور انھیں پہن کر پرندوں کی شکل اختیار کی اور فضا میں یہ جا وہ جا۔ ذرا سی دیر میں نظر سے اوجھل ہو گئیں۔ بے چاری شہزادی وہاں اکیلی رہ گئی۔ اب حسن باہر نکل آیا۔ اسے دیکھ کر شہزادی اسی حالت میں بھاگی، اس کے بال ہوا میں پھڑ پھڑا رہے تھے۔ حسن نے بہت روکنا چاہا مگر وہ بھاگتی چلی گئی۔ آخر حسن نے اس کا پیچھا کیا اور آخر میں جھپٹ کر اس کے بالوں کو پکڑ لیا اور اسے کھینچتا ہوا اپنے محل میں لے آیا۔ یہاں آ کر بھی وہ اسی طرح روتی چیختی رہی۔ اتنے میں گلبرگ آ گئی اور شہزادی کے قدموں میں گر پڑی اور بولی۔۔ ’’شہزادی! یہ ہماری قسمت ہے کہ آج آپ کے آنے سے ہمارا محل جگمگا رہا ہے۔‘‘
شہزادی نو بہار نے جو نظر اٹھا کر دیکھا تو گلبرگ کو پہچان گئی اور بولی۔۔ ’’ارے یہ تم ہو گلبرگ! یہ سب کچھ تمھارا کیا ہوا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ میرا باپ کیسا ہے ۔۔ ذرا سی دیر میں تمھارا نام و نشان مٹا سکتا ہے۔ تم نے ایک انسان کو محل میں جگہ دی ہے۔ اگر تم نے مدد نہ کی ہوتی تو یہ آدمی نہر تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔‘‘
تب گلبرگ نے کہا۔۔ ’’شہزادی نوبہار! میں جانتی ہوں کہ عورتوں میں تمھاری خوبصورتی کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ نوجوان بھی ایسا ہے، جس کا جواب مردوں میں نہیں ہے ۔۔ اس کی نیت ہرگز یہ نہیں تھی کہ تم کو نقصان پہنچائے۔ بس یہ تو تمھاری محبت کا مارا تھا، اسی لیے بے قصور ہے۔ اس نے جس دن سے تم کو دیکھا تھا، اس کے ہوش و حواس جاتے رہے تھے۔ اس نے تمھاری سہیلیوں میں سے بس تم کو پسند کیا تھا۔‘‘
نو بہار نے جب یہ سنا تو خاموش ہو گئی اور بے بسی سے حسن کو دیکھنے لگی۔
اب گلبرگ نے جلدی سے بڑا خوبصورت لباس پہنایا اور اس کے لیے کھانے کا انتظام کیا۔ جب وہ کھانا کھا چکی تو بولی۔۔ شاید میری قسمت میں یہی لکھا تھا کہ میں اس طرح اپنے ماں باپ سے بچھڑ جاؤں۔ اب تو تقدیر کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے علاوہ چارہ ہی کیا ہے۔‘‘
اب گلبرگ حسن کے پاس گئی اور بولی۔۔ ’’بھیا اب تم نو بہار کے پاس جاؤ۔ سب سے پہلے اس کے قدموں کو چھوؤ، اور پھر اس کے ہاتھوں کو چومو اور اس کے بعد اس کے سر کو پیار کرو۔ اور اس کے بعد اس سے بات کرنا۔‘‘
حسن بڑی تیزی سے نو بہار کے کمرے میں گیا۔ اس نے ویسا ہی کیا، جیسا کہ گلبرگ نے کہا تھا۔۔ ’’اے میری ملکہ! مجھ سے ناراض مت ہو۔ میرے اوپر رحم کرو۔ میں تم کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہچانا چاہتا ہوں۔ میں تو تم سے شادی کروں گا اور اپنے وطن بصرے لے جاؤں گا۔ وہاں میری ایک بہت اچھی سی ماں ہے جو تمھارے ساتھ بیٹیوں کا سا سلوک کرے گی۔ میرے گھر میں آرام و آسائش کا سارا انتظام ہے اور تم کو ایک سے ایک اچھا کھانا کھلاؤں گا۔‘‘
لیکن شہزادی نو بہار کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ حسن نے بڑھ کر دروازہ کھولا تو چھ بہنوں کو پایا جو شکار سے واپس آ گئی تھیں۔ اُن کے ساتھ وہ شکار تھا جسے مار کر لائی تھیں۔ حسن، ان کو دیکھ کر مارے خوشی کے ناچنے لگا۔ وہ بھی حسن کو اتنا خوش دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ انھوں نے دیکھا کہ حسن کا چہرا دمک رہا ہے۔ وہ پھر پہلے جیسا ہو گیا ہے اور پھر حسن بار بار ان کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر چوم رہا تھا۔ وہ سوچنے لگیں کہ ضرور کوئی بات ہے جو حسن، آج بہت خوش ہے۔ اتنے میں گلبرگ آ گئی اور بولی۔۔ ’’ارے میں تم کو اصل بات بتاؤں۔‘‘ ہمارے بھیا نے ایک چڑیا پالی ہے تم اسے کسی طرح ایسا کر لو کہ وہ ہماری بات سمجھنے لگے۔‘‘
بہنوں نے کہا ’’تو اس میں کیا خاص بات ہے جو حسن اتنا شرما رہا ہے۔‘‘
گلبرگ نے کہا ۔۔ ’’بہن وہ تو اتنا اس لیے شرما رہا ہے کہ اسے چڑیا سے بہت محبت ہو گئی ہے۔‘‘
بہنوں نے کہا ’’اس میں شرمانے کی کیا بات ہے۔‘‘
گلبرگ نے کہا۔۔ ’’ادھر آؤ میں بات بتاؤں۔ جب ہم لوگ یہاں سے گئے ہوئے تھے تو حسن کو تمام کمروں کی کنجیاں دے گئے تھے اور منع کر دیا تھا کہ یہ خالی والا کمرہ مت کھولنا۔ اتفاق کی بات یہ ہے کہ اسے وہ کمرہ یاد نہیں رہا اور اس نے غلطی سے وہ کمرہ کھول لیا‘‘ اور یہ کہہ کر گلبرگ نے سارا قصہ سنایا اور کہا۔۔ ’’خیر جو کچھ ہوا اس میں حسن کا قصور نہیں ۔۔ البتہ ہمارے بھائی کی پسند بہت اچھی ہے۔‘‘
اس کے بعد انھوں نے کہا۔۔ ’’اگر یہ بات ہے تو ہم بھی اس کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔‘‘
حسن اور گلبرگ، انھیں لے کر اس کمرے میں گئے جہاں شہزادی نو بہار بیٹھی تھی۔ شہزادی کو دیکھ کر تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان کو ایسا محسوس ہوا، جیسے کمرے میں چاند جگمگا رہا ہے۔ اب تو وہ بہت خوش ہوئیں اور بولیں ’’شہزادی! مبارک ہو۔ ہمارا بھائی سچ مچ تمھارے لائق ہے۔ اتنا خوبصورت اور ایسا پیارا اور بھولا نیک آدمی، انسانوں کی برادری میں مشکل سے ملتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ تمھاری زندگی بڑے مزے میں گزرے گی۔ آؤ ہم اللہ کا نام لے کر تم دونوں کی شادی کر دیں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ سب بہنیں دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لائیں۔ گلبرگ نے حسن کا ہاتھ، نوبہار کے ہاتھوں میں دیا اور بولی ’’میں آج خدا اور اس کے رسول کا نام لے کر تم دونوں کو ایک دوسرے کا شوہر اور بیوی ہونے کا اعلان کرتی ہوں ۔۔ امید ہے کہ تم دونوں ایک دوسرے کو قبول کر و گے۔‘‘ یہ سن کر دونوں نے سر ہلایا اور مسکرا کر شرما گئے۔ اب تو سب نے خوب زور زور سے تالیاں بجائیں اور خوب مزے مزے کے گانے گانے لگیں۔
اس کے بعد تو نوبہار بہت خوش ہوئی اور وہ بھی حسن سے بہت محبت کرنے لگی اور ہر وقت سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتی۔ اس طرح وہ چالیس دن تک ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے رہے کہ اچانک ایک رات کو حسن نے اپنی ماں کو خواب میں دیکھا کہ وہ صحن میں ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے۔ یہ قبر اس نے حسن کی بنا رکھی ہے۔ حسن یہ منظر دیکھ کر سوتے میں ہی چیخ چیخ کر رونے لگا۔۔ ساتوں بہنیں دوڑ پڑیں۔ ہر ایک گھبرا گئی۔ گلبرگ نے شہزادی نو بہار سے پوچھا ’’آخر کیا بات ہے۔ حسن کیوں اس طرح رو رہا ہے۔ پہلے تو کبھی سوتے میں ایسے نہیں رویا تھا۔‘‘
اس نے کہا ’’میں تو سو رہی تھی کہ ان کی چیخ سے اٹھ گئی۔ مجھے بھی کچھ نہیں معلوم۔‘‘
تب انھوں نے حسن کو جھنجھوڑا۔ گلبرگ نے اس کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور تسلی دیتے ہوئے پوچھا تو حسن نے اپنے خواب کا سارا حال سنایا۔۔ یہ سن کر گلبرگ بھی بہت روئی۔
اس کے بعد سب بہنوں نے کہا ’’بھائی! اگر تم اپنے گھر جانا چاہو تو شوق سے جاؤ۔ البتہ ہماری اتنی درخواست ہے کہ ہم کو کبھی نہ بھولنا اور اگر ہو سکے تو سال میں ایک بار ضرور یہاں آنا۔۔ اور کچھ دن ہمارے ساتھ رہنا۔‘‘
اب سب بہنوں نے حسن کا سامان ٹھیک کرنا شروع کر دیا۔ گلبرگ کا برا حال تھا۔ کیونکہ وہ حسن کو ذرا سی دیر کے لیے بھی اپنی نظر سے اوجھل ہونے نہیں دیتی تھی۔
حسن نے اسے تسلی دی اور کہا ’’میری پیاری بہن! میں تمھاری محبت کبھی نہیں بھول سکتا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ سال میں ایک بار ضرور تمھارے پاس آیا کروں گا۔‘‘
اس کے بعد بہنوں نے پوچھا۔۔ ’’بھائی یہ تو بتاؤ کہ تم یہاں سے کیسے جاؤ گے۔‘‘
حسن نے کہا ’’میرے پاس بہرام جادوگر کا ایک ڈھول ہے۔ جس پر مرغے کی کھال مڑھی ہوئی ہے۔ البتہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘
حسن نے وہ ڈھول لا کر دکھایا اور گلبرگ نے اسے اپنی گود میں لے کر ہاتھوں کے اشارے سے بتایا کہ کس طرح اس کو بجایا جاتا ہے۔ حسن نے ایسا ہی کیا۔ جیسے ہی اس نے ڈھول بجایا، دیکھتے کیا ہیں کہ بہت سے گھوڑے، اونٹ اور خچر، ایک قطار میں آ کر کھڑے ہو گئے۔
ساتوں بہنوں نے ان میں سے بہترین جانور چن لیے، اور انھوں نے اپنے پاس سے بہترین قسم کے ساز و سامان سے ان کو لاد دیا۔ ایک سے ایک قیمتی زیورات تحفے کے طور پر پیش کیے۔ گھوڑوں پر طرح طرح کے کھانے پینے کی چیزیں لادیں اور بڑے شاہانہ انداز سے ان کو رخصت کیا۔ اس وقت گلبرگ کی حالت بہت خراب تھی۔ اس کا روتے روتے برا حال ہو گیا تھا۔ اس کی بہنوں نے اسے بہت تسلی دی کہ ’’بہن زیادہ پریشان مت ہو۔ ہمارا بھائی برابر آتا رہے گا۔‘‘
اس طرح یہ قافلہ ہواؤں پر سے گزرتا ہوا ذرا سی دیر میں بصرہ پہنچ گیا۔ جب اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اس وقت حسن کی ماں اس کو یاد کر کے چیخ چیخ کر رو رہی تھی۔ دروازے کی دستک سن کر وہ آئی اور بولی۔۔ ’’میرا بیٹا‘‘۔۔ اور پھر فوراً بے ہوش ہو کر گر پڑی۔
حسن اور نو بہار نے اس کو بڑھ کر اٹھایا۔ اور لے جا کر بستر پر لٹایا اور پنکھا جھلنا شروع کیا۔ ذرا سی دیر میں اسے ہوش آ گیا، تو حسن نے کہا ’’ماں! میری طرف دیکھو ۔۔ یہ میری بیوی ہے ۔۔ اور تمھاری بہو بھی ہے اور بیٹی بھی۔۔ یہ تمھاری خدمت کرے گی۔۔ اب تمھاری پریشانیاں ختم ہو گئیں۔‘‘
حسن کی ماں نے اپنی بہو کو بڑھ کر سینے سے لگا لیا اور بہت پیار کیا۔۔ حسن نے اس کو اپنا سارا حال سنایا۔
پھر وہ جلدی سے بازار گئی۔ وہاں سے بہترین ریشم کے کپڑے خرید کر لائی اور اپنی بہو کو پہنا کر بے حد خوش ہوئی۔ اس کے بعد اس نے بہت مزیدار کھانا پکایا اور بولی ’’اب میرے گھر میں میری بہو آ گئی تو گویا سب کچھ آ گیا۔‘‘
اس طرح دو ایک روز گزر گئے۔ ایک دن اس نے حسن سے کہا۔ ’’بیٹا اب ہمارے لیے بصرہ میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ میری رائے ہے کہ ہم لوگ بغداد چلیں اور ہارون رشید کے سایے میں رہیں۔ ورنہ یہاں کے لوگ ہماری دولت کو شک و شبہ سے دیکھیں گے۔‘‘
حسن کو یہ رائے بہت پسند آئی۔ اس نے اپنے گھر کا سب سامان بیچا اور پھر اپنا ڈھول بجایا۔ ڈھول کا بجنا تھا کہ اونٹ، گھوڑے، خچر۔۔ سب کے سب قطار باندھے کھڑے تھے۔ حسن نے ان میں سے اچھے اچھے جانوروں کو لیا، باقی کو رخصت کیا اور پھر وہاں سے ضروری سامان لاد کر ماں اور بیوی کے ساتھ بغداد کو روانہ ہو گیا۔
بغداد پہنچ کر حسن نے اپنے لیے ایک بڑا شاندار محل لیا۔ اس کو خوب اچھی طرح سجایا۔ بہت ملازم رکھے اور رئیسوں کی طرح وہاں رہنے لگا۔ اب تو ان کی زندگی مزے میں گزر رہی تھی۔ شہزادی نوبہار بے حد خوش تھی۔ ایک دن ان کے یہاں دو بڑے خوبصورت جڑواں بچے پیدا ہوئے۔ حسن نے ان کے نام رکھے منصور اور ناصر۔
اس طرح انھیں بغداد میں رہتے رہتے ایک سال ہو گیا۔ ایک دن حسن کو اپنی وہ ساتوں بہنیں یاد آئیں ۔۔ گلبرگ سے اپنا وعدہ یاد آیا۔ اس نے بازار سے جا کر طرح طرح کے قیمتی تحفے خریدے اور ماں سے کہا کہ ’’میں چند روز کے لیے اپنی بہنوں سے ملنے جا رہا ہوں ۔۔ تم نو بہار کا خیال رکھنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ گھر سے باہر چلی جائے۔ گھر کی تمام کھڑکیاں بند رکھنا۔ کوٹھے پر بھی مت چڑھنے دینا۔۔ اور ایک خاص بات بتاؤں۔ اس مکان کی پچھلی کوٹھری میں رنگین پروں کا ایک لباس ہے۔ اسے کسی طرح بھی نوبہار کو مت دکھانا۔ کہیں ایسا نہ ہو، اس کو دیکھ کر وہ پھر پرندہ بننے کی خواہش کرے۔ اگر ایسا ہوا تو گویا میری زندگی تباہ ہو جائے گی۔ تم مجھے ہرگز زندہ نہ پاؤ گی۔‘‘
حسن کی ماں نے کہا۔۔ ’’بیٹا! تم مجھ پر بھروسہ کر و جیسا تم نے کہا ہے، ویسا ہی ہو گا— بس تم جلدی واپس آنا۔‘‘
اس طرح حسن نے پھر بیوی اور دونوں بچوں کو بہت پیار کیا۔ پھر اُس نے ڈھول بجایا۔۔ جانور اسی طرح آ گئے۔ حسن نے چند گھوڑوں کو چنا اور تمام سامان اکٹھا کیا اور پھر اسی طرح ہوا پر اڑتا ہوا بات کی بات میں اسی محل میں پہنچ گیا، جہاں اس کی ساتوں بہنیں رہتی تھیں۔ جیسے ہی وہ محل میں اترا، شہزادیوں نے دیکھا تو مارے خوشی کے پھولی نہ سمائیں۔ شہزادی گلبرگ کی خوشی کا کوئی ٹھکانا ہی نہ تھا۔ وہ تو دیوانی ہو رہی تھی۔ ذرا ذرا سی دیر میں آ کر بلائیں لیتی۔
ادھر بغداد میں اس کی ماں اور بیوی بچے بڑے مزے میں رہ رہے تھے۔ دو روز بعد نو بہار نے اماں سے کہا۔۔ ’’اماں! مجھے کتنے دن ہو گئے میں نہا نہیں سکی۔ میں چاہتی ہوں کہ حمام میں جا کر نہاؤں۔‘‘
اس کی ساس نے کہا۔۔ ’’بیٹی! میں تیرے نہانے کا انتظام کیے دیتی ہوں، تو باہر مت جا۔۔ اس لیے کہ تیرے ساتھ کون جائے گا۔ میں بڑھیا ہوں، میرے اندر اتنی طاقت کہاں ہے کہ میں حمام تک جا سکوں۔ گھر میں نہانے کا سارا سامان موجود ہے۔ میں تجھے خود اپنے ہاتھوں سے نہلا دوں گی۔‘‘
لیکن نو بہار کو تو ضد چڑھ گئی۔ وہ بھلا کب ماننے والی تھی، بولی ’’ماں! یہ تم کیا کہہ رہی ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ عورتوں کو حمام جانے کی بھی پابندی لگی ہو۔ اگر کوئی شخص کسی کنیز باندی پر بھی یہ پابندی لگا دے تو وہ بھی کہے گی کہ مجھے اور کسی کے ہاتھ بیچ دو۔ میں ایسے گھر میں نہیں رہ سکتی۔ اگر کوئی یہ سوچے کہ عورت پر سختی کرنا چاہیے تو یہ اس کی بیوقوفی ہے اور یہ تو تم بھی جانتی ہو گی کہ اگر عورت کسی بات کو طے کر لے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ اگر تم کو میرے اوپر بھروسہ نہیں ہے تو میرے لیے مرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، یہ کہہ کر وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔
یہ سن کر حسن کی ماں گھبرا گئی۔ اس نے سوچا کہ اب اس کو روکنا مشکل ہے۔ اس نے کہا— ’’بیٹی آؤ چلو۔ میں ہی تم کو حمام تک لے چلوں۔‘‘ اس کے بعد وہ اسے حمام میں لے گئی۔ جب وہ حمام میں داخل ہوئی تو حمام کی تمام عورتیں بھونچکا رہ گئیں۔ انھوں نے اتنی خوبصورت عورت اس سے پہلے کہاں دیکھی تھی۔ اور جب اس نے نہانے کے لیے کپڑے اتارے تو گویا سارا حمام جگمگانے لگا۔ ہر طرف شور مچ گیا اور ذرا سی دیر میں اسے دیکھنے کے لیے ایک بھیڑ لگ گئی کیونکہ ایسی عورت اس سے پہلے کہاں آئی تھی۔ ان عورتوں میں خلیفہ ہارون رشید کی ملکہ زبیدہ کی ایک لونڈی بھی تھی۔ اس نے جو دیکھا تو دنگ رہ گئی۔ جب نہانے کے بعد نو بہار اپنی ساس کے ساتھ واپس جانے لگی تو یہ لونڈی بھی ان کے پیچھے پیچھے گھر تک گئی۔۔ لیکن حسن کے گھر پر پہرا دیکھ کر اس کی اندر جانے کی ہمت نہ ہوئی اور وہ واپس محل میں آ گئی۔ جب ملکہ زبیدہ نے اسے دیکھا تو اس کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ وہ گھبرائی ہوئی تھی۔‘‘
ملکہ نے پوچھا۔۔ ’’یہ کیا بات ہے جو اتنی گھبرا رہی ہے۔؟‘‘
لونڈی نے کہا۔۔ ’’ملکہ! میں کیا بتاؤں کہ میں نے حمام میں کیا دیکھا۔‘‘
ملکہ بے چین ہو گئی اور اس نے کہا ’’جلدی بتا کہ وہاں کون سی چیز تھی جو تیرے ہوش و حواس جاتے رہے۔‘‘
لونڈی نے کہا ’’میں اس کا نام نہیں جانتی۔۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ ایسی خوبصورت لڑکی سارے بغداد میں نہیں ہے۔ میں نے حمام میں سنا ہے کہ یہ بصرہ کے حسن سوداگر کی بیوی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر خلیفہ اس کو دیکھ لیں تو یقین ہے کہ اس کے شوہر کو مروا کر اسے اپنے محل میں لے آئیں گے۔ اگر آپ اس کو دیکھ لیں تو آپ کی نظر اس کے چہرے سے نہ ہٹے۔‘‘
ملکہ نے کہا ’’تو خواب تو نہیں دیکھ کر آئی ہے جو ایسی بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے۔‘‘
لونڈی نے کہا ’’ملکہ! میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ وہ کتنی خوبصورت ہے۔ اگر کوئی سورج کا چراغ لے کر بھی ڈھونڈے تو ایسی لڑکی کہیں نظر نہ آئے۔‘‘
زبیدہ نے کہا ’’میں خود اپنی آنکھ سے اسے دیکھوں گی۔ تب مجھے یقین آئے گا کہ تو سچ کہہ رہی ہے‘‘۔۔ یہ کہہ کر ملکہ نے اپنے چوکیدار مسرور کو بلایا اور کہا۔۔ ’’اس لونڈی کے ساتھ جاؤ اور جس مکان کو یہ بتائے، وہاں حسن سوداگر کی بیوی رہتی ہے، اسے یہاں لے کر آؤ۔‘‘
مسرور اسی وقت دوڑتا ہوا حسن کے محل میں پہنچا۔۔ اس کی ماں محل کے دروازے پر آئی اور بولی ’’۔۔ تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو؟‘‘
مسرور نے کہا ’’میں شاہی محل سے آیا ہوں۔ مجھے ملکہ زبیدہ نے بھیجا ہے جو خلیفہ ہارون رشید کی بیوی ہے۔ میں اس لڑکی کو لینے کے لیے آیا ہوں جو حمام میں نہا کر آئی ہے۔ ملکہ اس سے ملنا چاہتی ہے۔‘‘
حسن کی ماں نے کہا۔۔ ’’ہم لوگ یہاں پردیسی ہیں، اور میرا بیٹا حسن، سفر پر گیا ہوا ہے۔ اس نے جاتے وقت یہ کہا تھا کہ یہ لڑکی گھر سے باہر نہ نکلے ۔۔ مجھے ڈر ہے کہ اگر کہیں یہ باہر جائے گی تو اس پر ضرور کوئی نہ کوئی آفت آئے گی، اور میرا بیٹا اسی غم میں اپنی جان کھو دے گا۔ اسی لیے میں درخواست کرتی ہوں کہ تم ہمیں معاف کر دو۔‘‘
مسرور نے کہا ’’اچھی ماں! تم گھبراؤ مت۔ ہماری ملکہ بہت اچھی ہے۔ وہ صرف تمھاری بہو کو ایک نظر دیکھے گی اور پھر تمھاری بہو کو میں یہاں خیریت کے ساتھ پہنچا دوں گا۔ اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے گا۔ تم بالکل اطمینان رکھو۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔‘‘
جب حسن کی ماں نے دیکھا کہ اب بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ اندر گئی اور اس نے اپنی بہو اور دونوں بچوں کو اچھی طرح سے تیار کیا اور پھر مسرور کے ساتھ نکلی۔ نو بہار نے اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیا تھا۔ حسن کی ماں دونوں بچوں کو گود میں لیے پیچھے پیچھے چل رہی تھی۔ اس طرح وہ خلیفہ کے محل میں داخل ہوئے۔ ان کو ملکہ زبیدہ کی خدمت میں لائے۔ زبیدہ نے کہا۔۔ ’’آؤ بیٹی! میرے قریب آؤ۔ اس گھر میں اس وقت کوئی مرد نہیں ہے۔ تم اطمینان سے اپنا نقاب الٹ سکتی ہو۔‘‘
زبیدہ کے کہتے ہی نو بہار نے اپنا نقاب الٹا اور ایسا لگا کہ جیسے چاند بادلوں میں سے نکل آیا ہے۔ جیسے اک دم سے آبشار پھوٹ پڑا ہو۔ جیسے اک دم سے باغ میں پھول کھل گیا ہو۔ زبیدہ نے جو اسے دیکھا تو وہ بھونچکا رہ گئی۔ لونڈی سچ کہتی تھی۔ ایسی صورت تو سورج کی کرنوں نے بھی نہ دیکھی ہو گی۔ وہ دوڑ کر نو بہار سے لپٹ گئی، اور اسے لپٹا لپٹا کر رونے لگی اور بولی۔۔ ’’میری لونڈی نے تو پھر بھی تیری خوبصورتی کے لیے صحیح الفاظ نہیں ڈھونڈے تھے۔ تم تو ہمارے تصور سے بھی زیادہ خوبصورت ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم ناچنا بھی جانتی ہو گی۔ تم جانتی ہو کہ جسم کی اصل خوبصورتی ناچنے سے ہی ظاہر ہوتی ہے۔ مجھے تم اپنا ناچ دکھاؤ۔‘‘
نو بہار نے کہا۔۔ ’’مجھے ناچنا نہیں آتا۔ میں نے اس فن کی طرف کبھی دھیان نہیں دیا۔ البتہ مجھے اس سے زیادہ حیرت میں ڈالنے والا کام آتا ہے اور وہ یہ کہ میں پرندوں کی طرح اُڑ سکتی ہوں۔‘‘
’’ارے تم اُڑ سکتی ہو۔ یہ تو سچ مچ کا جادو ہے۔ تمھارا جسم دیکھ کر ہی یہ خیال ہوتا ہے کہ تم راج ہنس کا سا بدن رکھتی ہو۔ میں یہ تماشا ضرور دیکھوں گی کہ بغیر پروں کے کیسے اڑا جاتا ہے۔‘‘ ملکہ نے حیرت سے جواب دیا۔
نو بہار نے کہا۔ ’’بغیر پروں کے نہیں ۔۔ میرے پاس پر نہیں ہیں۔ یہ پر میری ساس کے پاس رکھے ہیں۔ اگر یہ دے دے تو میں اُڑ کر دکھاؤں۔‘‘
یہ سن کر تو بڑھیا کانپنے لگی۔ یہ سب کچھ کیا ہو گیا۔
ملکہ زبیدہ نے کہا ’’بڑی بی، جلدی سے وہ پروں کا لبادہ لے آؤ تاکہ ہم سب یہ کھیل دیکھیں۔‘‘
حسن کی ماں نے کہا۔۔ ’’ملکہ! یہ لڑکی آپ کا رعب داب دیکھ کر گھبرا گئی ہے اور بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے، ورنہ کہیں آپ نے بھی سنا ہے کہ کوئی انسان ہوا میں اُڑ سکتا ہے۔ اللہ نے صرف یہ طاقت پرندوں کو دی ہے۔‘‘
لیکن نو بہار نے کہا ’’میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ ملکہ صاحبہ! میرے وہ پر، محل کے ایک کمرے میں بند ہیں۔‘‘
زبیدہ نے فوراً اپنے ہاتھوں سے سونے کا ایک جڑاؤ کنگن اتار کر بڑھیا کو دے کر کہا ’’بڑی بی جاؤ، جا کر کسی طرح وہ لبادہ لے کر آؤ۔ میں اسے دیکھ کر تم کو جوں کا تو واپس کر دوں گی۔‘‘ لیکن پھر بھی بڑھیا اس کے لیے تیار نہ ہوئی۔ تب ملکہ نے مسرور کو بلایا اور اس سے کہا کہ ’’جاؤ، حسن کے محل کی تلاشی لو اور جہاں کہیں بھی وہ عجیب و غریب لبادہ ہو اسے لے کر یہاں آؤ۔‘‘
ملکہ نے بڑھیا سے اس کے محل کی کنجیاں لے کر مسرور کے حوالے کیں۔ مسرور نے سارے محل کی تلاشی لی اور آخر ایک کوٹھری میں لبادہ مل گیا، جو ایک صندوق میں رکھا ہوا تھا۔ مسرور نے اسے لا کر ملکہ کے سامنے ڈال دیا۔ ملکہ نے اسے غور سے دیکھا اور اسے لے کر نو بہار کو دے دیا۔
نو بہار نے اسے اچھی طرح دیکھا اور جب اُسے اطمینان ہو گیا تو اس نے بڑی احتیاط سے اوڑھا۔ جیسے ہی اُسے اوڑھا تو ایسا لگا کہ جیسے وہ انسان نہ ہو بلکہ ایک سفید پرندہ۔۔ اس نے اپنے دونوں بچوں کو اپنے کندھوں پر بٹھایا، پر پھڑپھڑائے اور ایک لمحہ میں یہ جا وہ جا۔۔ ہوا میں اُڑنے لگی۔۔ اور وہیں سے چلائی۔۔ ’’خدا حافظ۔۔ اب میں جا رہی ہوں ہمیشہ کے لیے ۔۔ اور یاد رکھو، جانے والے کبھی نہیں آتے۔‘‘
زبیدہ نے کہا۔۔ ’’نو بہار! واپس آ جاؤ۔ آ جاؤ۔ آ جاؤ۔‘‘
نو بہار نے اُڑتے ہوئے اپنی ساس سے کہا۔ ’’میری پیاری ماں۔ میں جا رہی ہوں اور میرا جانا تمھارے لیے بہت تکلیف دہ ہو گا لیکن کیا کروں۔ میں اس لبادے کو اوڑھنے کے بعد قابو میں نہیں رہتی۔ میں جانتی ہوں کہ یہ خبر سن کر حسن کا کتنا برا حال ہو گا۔ لیکن میں مجبور ہوں، بے بس ہوں ۔۔ اب تو حسن مجھ کو ’’واک واک‘‘ کے جزیرے ہی میں پا سکتا ہے ۔۔ خدا حافظ— خدا حافظ۔۔‘‘
یہ کہہ کر نو بہار بڑی تیزی کے ساتھ اوپر اُڑتی ہوئی فضا میں غائب ہو گئی۔۔ اور بڑھیا دھڑام سے فرش پر گر پڑی۔
ملکہ زبیدہ نے تسلی دے کر کہا ’’بڑی بی! اگر مجھے یہ بات معلوم ہوتی تو میں ہرگز ہرگز یہ ضد نہ کرتی۔ اب مجھے کیا معلوم تھا کہ تمھارے بیٹے کی بیوی ایک پری ہے۔ میں تم سے معافی چاہتی ہوں کہ میری بدولت تم کو یہ دن دیکھنا پڑا۔‘‘
حسن کی ماں نے کہا۔۔ ’’ملکہ! یہ تمھارا قصور نہیں ہے۔ میری قسمت ہی ایسی ہے۔ ہر آدمی اپنی تقدیر اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ میری قسمت میں یہی لکھا تھا اس لیے کوئی کر بھی کیا سکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گھسٹتی اور روتی ہوئی اپنے محل میں آئی۔ وہاں اس نے تین قبریں بنائیں۔ ایک بڑی اور دو چھوٹی۔۔ اب وہ دن دن بھر اپنی بہو اور پوتوں کے لیے روتی رہتی۔
ادھر حسن جب ساتوں شہزادیوں کے پاس پہنچا تو وہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ خاص طور پر چھوٹی بہن گلبرگ تو پھولی نہیں سمائی۔ اس نے بڑی خاطر مدارات کی، اور تین مہینے تک حسن کو اپنے پاس رکھا۔ اس کے بعد جب حسن نے واپسی کا ارادہ کیا تو اس نے وہی ڈھول بجایا۔ اسی طرح وہ تمام جانور آ گئے۔ حسن نے ان میں سے دس اچھے اچھے جانوروں کو تولے لیا، باقی کو واپس کر دیا۔ اب ان ساتوں بہنوں نے سونے چاندی کے ڈھیر لگا دیے اور اس کے بعد دوسرے سامان لادے۔ اس طرح وہ اتنے ساز و سامان کے ساتھ بغداد کے لیے روانہ ہوا، اور خیریت سے اپنے گھر پہنچا۔ جلدی جلدی سامان اتار کر جانوروں کو رخصت کیا۔ جب محل کے اندر داخل ہوا تو وہاں سناٹا پایا۔ اس نے نو بہار اور دونوں بچوں کو تلاش کیا، مگر وہ کہیں نہ ملے۔ وہ دوڑا ہوا پچھلے کمرے میں گیا۔ وہاں کیا دیکھتا ہے کہ وہ صندوق کھلا پڑا ہے۔ جس میں پروں کا لباس رکھا ہوا تھا۔ اس کو دیکھ کر تو وہ گھبرا گیا۔۔ تیزی سے ماں کے پاس پہنچا۔ اس نے بیوی اور بچوں کا حال پوچھا۔۔ اس کی ماں زار و قطار رو رہی تھی۔۔ آخر ماں نے شروع سے آخر تک سارا واقعہ سنایا۔ یہ سننا تھا کہ حسن بے ہوش ہو گیا۔ اس کے بعد اسے ہوش آ گیا لیکن وہ دن رات روتا رہتا۔ نہ کچھ کھاتا نہ پیتا۔ آخر ایک دن اُس کی ماں نے کہا۔
’’بیٹا! اس طرح رونے سے کیا فائدہ۔ اب ایک امید رہ گئی ہے کہ نو بہار نے مجھ سے چلتے وقت یہ کہا تھا کہ اگر حسن آئے اور مجھ سے ملنا چاہے تو کہنا کہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ میں ملوں گی۔‘‘
اس نے بغداد کے لوگوں سے جزیرہ ’’واک واک‘‘ کے بارے میں پوچھا۔ مگر اسے کچھ پتا نہ چلا۔ آخر وہ مایوس ہو کر گھر آیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کرے پھر اک دم سے اسے خیال آیا اور اس نے اپنی ماں سے کہا۔ ’’میں اپنی ساتوں بہنوں کے پاس جاتا ہوں۔ اب وہی میری مدد کریں گی۔‘‘ یہ سوچتے ہی اس نے وہ ڈھول نکالا اور بجایا۔ اسی طرح گھوڑے پر بیٹھ کر ذرا سی دیر میں ’’بادلوں کے پہاڑ‘‘ پر پہنچا۔ جہاں وہ ساتوں بہنیں رہتی تھیں۔ ان ساتوں بہنوں نے جو اسے پھر واپس آتے دیکھا تو وہ حیران رہ گئیں لیکن خوش بھی بہت ہوئیں۔ جب گلبرگ نے حسن کو گلے لگایا تو حسن اپنے آنسوؤں کو نہ روک سکا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔ وہ اسے محل کے اندر لے گئیں۔ جب اسے ذرا سکون ہوا تو پھر اس نے اپنی ساری مصیبت کا حال سنایا اور کہا۔۔ ’’میں تم سے صرف یہ پوچھنے آیا ہوں کہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ کہاں ہے؟
یہ سننا تھا کہ سب بہنیں سناٹے میں آ گئیں اور ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔ آخر ایک ساتھ بولیں۔ ’’میرے بھائی اگر تم کو ہاتھ اٹھا کر آسمان کو چھونا ہو تو یہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ تک پہنچنے کے مقابلے میں زیادہ آسان ہو گا۔‘‘
اب تو حسن کی حالت اور خراب ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے تو جیسے آنسوؤں کی ندیاں بہنے لگیں۔ سب بہنیں تسلی دینے لگیں، تب گلبرگ نے کہا ’’میرے بھائی صبر کرو۔ اللہ نے چاہا تو کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکلے گا۔ تم اپنے آنسو پونچھو میں تمھارے لیے کچھ نہ کچھ کروں گی اور تم کو تمھارے بچوں سے ملا کر دم لوں گی۔ مجھے تو اب یہ خیال آ رہا ہے کہ پروں کے اس لباس کو میں نے اسی وقت کیوں نہ جلا دیا۔ ساری مصیبت اسی کی لائی ہوئی ہے۔ لیکن تقدیر کا لکھا کون مٹا سکتا ہے۔‘‘
اب گلبرگ اپنی بہنوں کے قدموں پر گر پڑی اور بولی۔۔ ’’میری پیاری بہنو! اس جزیرہ ’’واک واک‘‘ کا پتہ لگانے میں تم سب اس کی مدد کرو۔‘‘
ان سب نے عہد کیا کہ ’’ہم ضرور حسن کی مدد کریں گے۔‘‘
ان ساتوں بہنوں کا ایک چچا تھا۔ اس کا نام تھا عبد القدوس۔ وہ سب سے بڑی بہن سے بہت پیار کرتا تھا اور سال میں ایک بار اس کو دیکھنے کے لیے ضرور آتا تھا۔ پچھلی بار جب وہ آیا تو اس نے بڑی بہن کو تھیلی دی، اس میں کوئی سفوف تھا۔ عبد القدوس نے کہا۔ ’’بیٹی! جب تم کو کوئی پریشانی ہو تو ذرا سا سفوف کو آگ میں ڈال دینا، میں فوراً آ جاؤں گا۔‘‘
چنانچہ جب گلبرگ نے رو رو کر بہنوں سے مدد کے لیے کہا تو بڑی بہن بولی۔۔ ’’گلبرگ! میرے کمرے سے وہ سفوف کی تھیلی لاؤ، جو مجھے چچا نے دی تھی۔‘‘
گلبرگ نے وہ تھیلی لا کر دی، بڑی بہن نے اس میں سے ذرا سا سفوف نکالا اور آگ پر ڈالا۔ ذرا سی دیر میں دھواں سا اٹھا اور عبد القدوس ایک سفید ہاتھی پر بیٹھا ہوا وہاں پہنچا اور بولا۔۔ ’’میری بیٹی کہاں ہے؟ اس نے مجھے کیوں یاد کیا؟‘‘
بڑی بہن نے بڑے ادب سے سلام کیا اور کہا۔۔ ’’آپ کو آئے ہوئے سال بھر ہو گیا تھا۔ آپ کے دیکھنے کو بہت دل چاہ رہا تھا۔ اس لیے میں نے آپ کو یاد کیا ہے۔‘‘
عبد القدوس نے کہا ’’میں کل آنے والا تھا۔ لیکن تمھارے یاد کرنے سے آج ہی آ گیا۔ لیکن مجھ سے کوئی بات مت چھپا اپنی پریشانی بتاؤ۔۔ میں تمھاری ہر بات ماننے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
تب بڑی بہن نے حسن کا سارا حال بیان کیا، اور کہا ’’اب آپ کسی طرح ہمارے بھائی حسن کو جزیرہ ’’واک واک‘‘ تک پہنچا دیجیے۔
یہ سنتے ہی چچا عبد القدوس نے اپنی انگلی دانتوں میں دبا لی اور چپ چاپ بیٹھ گیا۔ وہ ذرا سی دیر اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر اس نے کہا۔۔ ’’تم اپنے بھائی سے کہو کہ اب رونے دھونے سے کوئی فائدہ نہیں۔ جزیرہ ’’واک واک‘‘ پر پہنچنا بالکل نا ممکن ہے۔‘‘
یہ سن کر سب بہنیں خاموش ہو گئیں۔ گلبرگ باہر گئی اور حسن کو لے کر اندر آ گئی اور بولی۔۔ ’’اچھے چچا! آپ خود میرے بھائی حسن کو سمجھا دیجیے۔ شاید آپ کی بات کا اثر ہو۔‘‘
جب حسن شیخ کے سامنے آیا تو پہلے اس نے شیخ کے ہاتھوں کو ادب سے چوما۔ پھر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ شیخ نے کہا۔۔ ’’میرے بیٹے! جزیرہ ’’واک واک‘‘ جانے کا خیال چھوڑ دو۔ کیونکہ اگر جنات بھی تمھاری مدد کریں ستارے اور سیارے تمھارا ساتھ دیں تب بھی تم وہاں نہیں پہنچ سکتے کیونکہ یہاں سے جزیرہ کا فاصلہ سات سمندر، سات پہاڑ اور سات وادیاں ہیں اور یہ زمین کے دوسرے کونے پر ہیں۔ وہاں تک انسان ہرگز ہرگز نہیں پہنچ سکتا۔ میری تو رائے ہے کہ تم اپنے گھر چلے جاؤ یا پھر اپنی بہنوں کے ساتھ بادلوں کے پہاڑ پر رہو۔‘‘
جیسے ہی حسن نے یہ سنا، اُس نے بڑے زور کی چیخ ماری اور زمین پر بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ اس کا یہ حال دیکھ کر ساتوں بہنیں رونے لگیں۔ پھر گلبرگ نے اس کا سر اٹھا کر اپنے پیروں پر رکھ لیا۔ جب اسے ہوش آیا تو وہ پھر رونے لگا۔ اور ساتوں بہنوں کا بھی برا حال ہو گیا۔
یہ دیکھ کر شیخ نے کہا۔۔ ’’اچھا تم سب خاموش ہو جاؤ۔‘‘
سب بہنیں خاموش ہو گئیں تو شیخ نے کہا۔ ’’میرے بیٹے! اب رو چکے۔ ہمت سے کام لو۔ اللہ مدد کرے گا۔ دیکھو تمھاری مدد کے لیے کوئی ترکیب سوچتا ہوں۔ آؤ میرے ساتھ چلو۔‘‘
حسن کی جان میں جان آئی۔ اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بہنوں سے رخصت ہوا۔ اس نے گلبرگ کو پیار کیا۔ شیخ نے حسن کو سفید ہاتھی پر اپنے ساتھ بٹھایا۔ اس نے آہستہ سے ہاتھی کے کان میں کچھ کہا۔۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہاتھی ہوا میں اڑنے لگا۔ اس کی رفتار آندھی اور طوفان سے زیادہ تیز تھی۔ وہ تین دن اور تین راتیں برابر اسی رفتار کے ساتھ اُڑتا رہا۔۔ یہاں تک کہ ایک نیلے پہاڑ کی ایک نیلی چوٹی پر پہنچا۔ اس چوٹی پر ایک بڑا سا غار تھا، جس پر ایک لوہے کا دروازہ تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اتنے میں ایک حبشی غلام تلوار کھینچے ہوئے نکلا۔۔ اس نے شیخ کو دیکھ کر تلوار نیچی کر لی، اور شیخ کے ہاتھ کو چوما، اور اپنے ساتھ لے کر غار کے اندر گیا۔ حسن بھی پیچھے پیچھے تھا۔ اس طرح وہ تقریباً دو میل پیدل گئے ہوں گے کہ ایک بہت بڑا قلعہ نظر آیا۔ اس کا پھاٹک سونے کا تھا۔ شیخ نے حسن سے کہا۔ ’’تم یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں۔‘‘ ایک گھنٹے کے بعد وہ آیا تو اس کے ساتھ ایک نیلا گھوڑا تھا۔ اس نے حسن کو بٹھایا اور پھاٹک کے اندر داخل ہوئے۔ ایک بڑا زبردست میدان نظر آیا۔ شیخ نے کہا۔ ’’میرے بیٹے! اب بھی وقت ہے۔ تم چاہو تو ’ بادلوں کے پہاڑ‘ پر جا کر اپنی بہنوں کے ساتھ رہو۔۔ ورنہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ تک پہنچنے کے لیے تم کو بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
حسن نے جواب دیا۔۔ ’’میرے مہربان چچا! آپ کا میں یہ احسان کبھی نہ بھولوں گا، لیکن میں اپنے بیوی بچوں کو پانے کے لیے ہر مصیبت جھیلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
شیخ نے جب دیکھا کہ اب بھی حسن اپنے ارادے پر جما ہوا ہے تو اس نے ایک خط لکھ کر اس کو دیا اور کہا۔۔ ’’اس خط کو اپنے پاس رکھو۔ یہ گھوڑا تم کو کالے پہاڑ کی کالی چوٹی پر لے جائے گا، اور کالے غار کے سامنے تم کو اتارے گا۔ تم گھوڑے کو اندر جانے دینا اور خود باہر انتظار کرنا۔ اس طرح چھ دن گزر جائیں گے۔ چھٹے دن ایک بوڑھا نکلے گا جو سر سے پیر تک کالا ہو گا بس اس کی داڑھی سفید ہو گی اور یہ داڑھی اس کے گھٹنوں تک لٹکی ہوئی ہو گی۔ تم اس کے ہاتھوں کو چومنا اور پھر میرا یہ خط دینا۔ یہ میرے آقا شیخ علی ہیں اور وہی تمھاری مدد کر سکیں گے۔ وہ خط لے کر اندر چلے جائیں گے۔ تم پھر پانچ روز تک انتظار کرنا چھٹے روز اگر وہ پھر آ گئے تو سمجھو کہ تمھارا کام بن جائے گا لیکن اگر کوئی غلام آئے اور تجھے مارنے کا ارادہ کرے تو پھر جان لے کہ تیری جان خطرے میں ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ جو لوگ بڑے کاموں اور بڑے مقصد کو لے کر آگے بڑھتے ہیں، ان کو خطروں کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ اگر تو اس خطرے سے بچنا چاہے تو اب بھی وقت ہے کہ تو واپس جا سکتا ہے۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے۔‘‘
حسن نے کہا ’’میں مرنے سے نہیں ڈرتا ہوں۔ لیکن جس مقصد کو لے کر آگے بڑھا ہوں، اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔‘‘
جب شیخ نے دیکھا کہ حسن اپنے ارادے کا پکا ہے تو اسے ’ خدا حافظ‘ کہہ کر رخصت کیا۔ یہ گھوڑا تیر کی طرح اڑتا چلا جا رہا تھا۔ اس طرح دس روز تک یہ گھوڑا ہوا میں اسی رفتار کے ساتھ اڑتا رہا۔ یہاں تک کہ کالے پہاڑوں کا ایک سلسلہ نظر آیا۔ یہ گھوڑا کالی چوٹی پر پہنچ کر اترا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بہت سے کالے کالے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئے اور اپنے منہ نیلے گھوڑے سے رگڑنے لگے۔ لیکن یہ گھوڑا آہستہ آہستہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ غار کے دروازے پر پہنچا۔ وہاں حسن اتر گیا۔ گھوڑا اندر داخل ہوا۔ حسن باہر رہ گیا۔ پانچ روز تک حسن انتظار کرتا رہا۔ چھٹے دن اس غار میں سے ایک بوڑھا آدمی نکلا جو خود بھی کالا تھا اور کالا لباس پہنے تھا۔ اس کی داڑھی دیکھ کر حسن پہچان گیا۔ اس کے ہاتھ کو چوما اور قدموں پر گر پڑا۔ پھر زار و قطار رونے لگا۔ بوڑھے نے حسن کو اٹھایا اور پوچھا۔۔ ’’کیا بات ہے؟ اپنا مقصد بیان کرو۔‘‘
حسن نے وہ خط بوڑھے کو دے دیا۔ وہ خط لے کر اندر چلا گیا۔ پانچ روز اسی طرح گزر گئے۔ چھٹے روز یہ بوڑھا پھر نکلا۔ اس بار وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اس نے حسن کو اشارہ کیا اور حسن اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔ اب وہ ایک بڑے کمرے میں داخل ہوئے۔ اس کمرے میں ہیرے جواہرات کی پچی کاری تھی۔ کمرے کے چار کونوں میں چار زریں تخت بچھے ہوئے تھے اور ان پر چار درویش بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے سامنے کتابیں کھلی ہوئی تھیں۔ اور ان کے شاگرد بیٹھے ہوئے تھے جو کتابیں پڑھ رہے تھے۔ سفید ریش بوڑھے کو دیکھ کر سب اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو گئے۔ شیخ علی نے حسن سے کہا کہ ’’اپنی داستان ان سے بیان کرو۔‘‘
حسن پہلے تو بہت رویا۔ اس کی زبان سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے۔ پھر اس نے بہرام جادوگر کے بصرہ آنے، اس کو اپنے ساتھ ’’بادلوں کے پہاڑ‘‘ پر لے جانے، اس کے مارے جانے، محل میں سات بہنوں سے ملنے، شہزادی نو بہار کو دیکھنے، اس کو حاصل کرنے، اپنے ساتھ بصرہ اور بغداد لے جانے اور پھر اپنے پیچھے نو بہار کے دونوں بچوں سمیت اڑ جانے کا سارا حال سنایا۔
ان درویشوں نے کہا ’’ارے یہ تو وہی ہے جسے بہرام جادوگر اونٹ کی کھال میں رکھ کر لے گیا تھا اور پھر اس نے بدمعاش جادوگر کو ’’بادلوں کے پہاڑ‘‘ کے نیچے گرا کر مارا تھا۔۔ اے شیخ! یہ آپ کی ہمدردی اور رحم کا مستحق ہے کہ اس کی بیوی اور بچے اس سے الگ ہو گئے ہیں۔ اس کو ملا دیجیے۔‘‘
شیخ علی نے کہا۔۔ ’’میرے عزیزو! یہ سچ ہے لیکن تم خود جانتے ہو کہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ تک پہنچنا کتنا مشکل ہے۔ خاص طور پر جہاں قدم قدم پر پہرا ہے۔ اور میں نے قسم کھائی ہے کہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ پر قدم نہ رکھوں گا اور نہ وہاں کے معاملے میں دخل دوں گا۔‘‘
ان درویشوں نے ایک آواز سے کہا ’’اے شیخ! آپ سچ کہتے ہیں۔ لیکن یہ نوجوان محبت کرتا ہے۔ اپنے بیوی بچوں سے بچھڑا ہوا ہے۔ اسے ہمارے ساتھی اور آپ کے شاگرد عبد القدوس نے بھیجا ہے۔ اس کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔‘‘
حسن فوراً شیخ علی کے قدموں پر گر پڑا، اور زار و قطار رونے لگا۔ اس نے شیخ کا دامن تھام لیا۔۔ شیخ پر بہت اثر ہوا اور انھوں نے کہا۔۔ ’’اچھی بات ہے۔ میں اس کی مدد کروں گا۔ میں نے ایسا نوجوان کبھی نہیں دیکھا جو اپنی دھُن کا اتنا پکا ہو۔‘‘
یہ سننا تھا کہ سب لوگ خوش ہو گئے۔ حسن بھی بہت خوش ہوا۔
شیخ علی نے ذرا سا سر جھکا کر سوچا اور پھر بولا۔ ’’سب سے پہلے تم کو ایک چیز دیتا ہوں۔ جس سے تم خطرے سے بچے رہو گے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے داڑھی کا ایک بال توڑا اور حسن کو دے کر کہا ’’اگر تم کسی مصیبت میں پھنس جاؤ تو اس بال کو آگ میں ڈال دینا، میں تمھاری مدد کے لیے آ جاؤں گا۔‘‘
اس کے بعد شیخ علی نے اشارہ کیا، جیسے کسی کو بلا رہے ہوں۔ ایک جِن سامنے آیا۔ شیخ نے پوچھا۔ ’’تمھارا نام کیا ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا ’’میرا نام دہنش ابن فقطش ہے‘‘
علی نے اس کے کان میں کچھ کہا اور پھر حسن سے بولا ’’۔۔ تم دہنش ابن فقطش کی پیٹھ پر سوار ہو جاؤ۔ یہ تمھیں بادلوں میں سے لیتا ہوا جائے گا اور پھر سفید کافور کی سرزمین پر پہنچا دے گا۔ یہاں پہنچ کر یہ تم کو چھوڑ دے گا۔ اب تم کو پیدل چلنا ہو گا۔ اور جب تم سفید کافور کی سرزمین کے سرے پر پہنچو گے تو اس کے سامنے تم کو جزیرہ ’’واک واک‘‘ دکھائی دے گا۔ اس کے بعد اللہ تیری مدد کرے گا۔‘‘
حسن نے شیخ علی کو ادب کے ساتھ سلام کیا اور چاروں درویشوں اور شاگردوں کا شکریہ ادا کیا اور جِن کی کمر پر چڑھ گیا۔ جِن نے بھی بڑی تیزی کے ساتھ ہوا میں اُڑنا شروع کیا۔ ایک رات اور ایک دن کے سفر کے بعد وہ سفید کافور کی سرزمین پر پہنچے۔ جِن نے حسن کو وہاں لے جا کر چھوڑ دیا اور خود غائب ہو گیا۔ اب حسن نے اپنا سفر پیدل شروع کیا۔ وہ چلتا رہا۔ چلتے چلتے اسے ایک ریگستان نظر آیا۔ اس ریگستان میں اس کو ایک خیمہ سا نظر آیا۔ وہ خیمے کی طرف بڑھا لیکن اس کے پاؤں میں کچھ آہٹ سی ہوئی۔ در اصل وہ جس پر چل رہا تھا وہ ایک دیو تھا، اور جس کو خیمہ سمجھ رہا تھا، وہ دیو کا ایک کان تھا۔ دیو کو بہت غصہ آیا۔ وہ سوتے سے جاگ پڑا۔ اس نے جو پھونک ماری تو حسن اچھل کر ہوا میں اوپر جا پہنچا اور جب پھر نیچے آیا تو دیو نے اسے دبوچ لیا اور اپنے ہاتھوں سے ایسے پکڑ لیا جیسے کوئی چڑیا کو پکڑ لیتا ہے۔ حسن نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح اس کے چنگل سے نکل جائے۔ حسن نے گڑگڑاتے ہوئے کہا ’’خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو۔ مجھے بچاؤ۔۔ مجھے بچاؤ۔‘‘
دیو نے جب سنا تو اس نے سوچا کہ یہ تو بہت اچھے گانے کی آواز ہے۔ کیوں نہ میں اس کو اپنے بادشاہ کے سامنے لے جاؤں۔ یہ سوچ کر وہ اپنے بادشاہ کے پاس لے گیا اور بولا۔ ’’بادشاہ سلامت! میں آپ کے پاس ایک چھوٹا سا جانور لایا ہوں۔ اس کی آواز بڑی باریک ہے اور خوب گاتا ہے۔‘‘
بادشاہ نے حسن کو اپنے ہاتھ سے چھوتے ہوئے کہا ’’۔۔ گاؤ۔۔ گاؤ۔۔ اپنی باریک اور سریلی آواز میں۔‘‘
حسن کچھ نہ سمجھ سکا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ وہ تو یہی سمجھا کہ اب میرا آخری وقت آ گیا۔ اس نے چلانا شروع کر دیا ’’خدا کے لیے مجھے بچاؤ۔‘‘
دیووں کا بادشاہ بہت خوش ہوا۔ وہ سمجھا کہ یہ گانا گا رہا ہے۔ اس نے دیو سے کہا ’’اس کو محل میں لے جا کر میری بیٹی کو دے دو اور اسے ایک پنجرے میں بند کر کے اس کے کمرے میں لٹکا دو تاکہ یہ گا گا کر میری بیٹی کا دل بہلائے۔‘‘
دیو اسے محل میں لے گئے اور ایک بڑے سے پنجرے میں اسے بند کر دیا۔ اس میں ایک کٹورے میں کھانا اور دوسرے میں پانی بھی رکھ دیا۔ دیو زادی نے جب حسن کو دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور اس کے پاس آ کر اس سے پیار کرنے لگی۔ اب تو وہ اسے بہت اچھا لگنے لگا۔ وہ ہر دم اسے اپنے پاس رکھتی اور اس کو کبھی اپنے پاس سے الگ نہ کرتی۔ حسن کا ڈھول بھی اس سے چھن گیا تھا اور بال بھی۔۔ یہ دونوں اس نے اندر کمرے میں رکھوا دیے تھے۔ ایک دن وہ دیو زادی اسے پنجرے سے نکال کر اچھال اچھال کر کھیل رہی تھی کہ اک دم سے اسے نیند آ گئی۔ حسن نے موقع غنیمت جانا اور جلدی سے وہاں پہنچ گیا جہاں یہ دونوں چیزیں رکھی تھیں۔ اس نے چپ چاپ بال کو جلایا۔ بال کا جلنا تھا کہ شیخ علی وہاں آ گئے اور انھوں نے اس کا حال پوچھا۔ حسن نے شروع سے آخر تک سارا حال کہہ سنایا اور خوشامد کرنے لگا کہ ’’مجھے اس قید سے نکالو۔‘‘
شیخ نے کہا ’’میرے عزیز! اب بھی وقت ہے کہ تم نو بہار اور بچوں کا خیال چھوڑ دو اور میرے ساتھ چلے چلو۔۔ ابھی جزیرہ ’’واک واک‘‘ نہیں آیا اور مصیبتیں شروع ہو گئیں۔‘‘
حسن نے کہا۔ ’’چاہے میری جان چلی جائے، لیکن میں جب تک اپنے بیوی بچوں کو نہ دیکھ لوں، مجھے چین نہ پڑے گا۔ میرے پاس میرا ڈھول ہے، مجھے اس سے بھی مدد ملے گی۔‘‘
شیخ علی نے کہا۔۔ ’’جزیرہ‘‘ واک واک‘‘ کی سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ وہاں سارے جادو بے کار ہو جاتے ہیں۔ بس صرف جزیرہ ’’واک واک‘‘ کے بادشاہ کا جادو چلتا ہے اور اس جادو کا ہم کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘‘
حسن نے کہا ’’میرے مہربان! مجھے تم کسی طرح جزیرہ ’’واک واک‘‘ پہنچا دو۔ پھر میں تم سے کچھ نہ کہوں گا۔۔ تمھارا بڑا احسان ہو گا۔
شیخ نے کہا ’’اچھی بات ہے، اپنی آنکھ بند کرو اور ذرا سی دیر بعد پھر کھولنا۔‘‘
حسن نے آنکھ بند کی اور پھر جو کھولی تو وہاں نہ دیو زادی کا محل تھا اور نہ سفید کافور کی سرزمین۔ وہ ایک جزیرے میں اکیلا کھڑا ہوا تھا۔ وہاں نہ کوئی آدمی تھا اور نہ کوئی آدم زاد۔
ابھی وہ ٹھیک سے دیکھ بھی نہ سکا کہ ہر طرف سے سفید سفید پرندے آسمان پر چھا گئے اور اندھیرا سا ہو گیا۔ وہ اتنی تعداد میں تھے کہ انھوں نے سورج کو گھیر لیا تھا، اور وہ بڑے زور زور سے چیخ رہے تھے، ’’واک واک‘‘ اب تو وہ سمجھ گیا کہ ہو نہ ہو وہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ میں آ پہنچا ہے۔ یہ پرندے حسن کی طرف بڑھے تو حسن دوڑ کر ایک سامنے والی جھونپڑی میں پہنچ گیا۔ وہ ابھی جھونپڑی میں چھپ کر بیٹھا ہی تھا کہ اک دم سے اسے ایسا لگا، جیسے زمین ہل رہی ہے اور ہر طرف سے بادل اور طوفان آگے بڑھ رہے ہیں۔ پھر ان بادلوں میں سے عورتوں کی ایک فوج بر آمد ہوئی۔ یہ عورتیں ہتھیاروں سے لیس تھیں، جیسے فوجیوں کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ سنہرے گھوڑوں پر سوار بڑی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہی تھیں ۔۔ ان کے آگے آگے ایک گورے رنگ کی پری تھی۔ وہ سر پر ایک خود پہنے تھی۔ اس کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ حسن اسے دیکھ کر ڈر گیا۔ جیسے ہی وہ قریب آئی، حسن اس کے قدموں پر گر پڑا اور بولا۔۔ ’’اے جزیرے کی ملکہ! میرے اوپر رحم کرو۔ مجھے یہاں سے مت نکالو۔ میں اپنے بیوی بچوں سے بچھڑا ہوا ہوں ۔۔‘‘
پری اپنے گھوڑے پر سے اتری۔ اس نے باقی فوج کو واپس جانے کا حکم دیا۔۔ اس نے اپنے لباس کو اس کی طرف کر دیا۔ حسن نے اس کو چوما اور اس کے قدموں پر گر پڑا۔ اس نے اپنا سر اٹھا کر جو دیکھا تو وہ ایک بڑھیا پری تھی، بڑی بڑی آنکھیں۔ پری کو اس پر رحم آ گیا۔ اس نے کہا۔۔ ’’تم پریشان مت ہو۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ کسی کو یہ نہ پتا چلے کہ تم کون ہو۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ تم بھی میرے اور سپاہیوں کی طرح لباس پہن لو۔ پھر تم کو کوئی پہچان نہ سکے گا۔ پھر میں تمھاری کہانی سنوں گی۔‘‘
ذرا سی دیر میں بڑھیا پری نے اسے وہ لباس، زرہ بکتر اور ہتھیار لا کر دیے۔ ان کو پہننے کے بعد ایسا لگا جیسے کہ وہ اُن میں سے ایک ہے۔ پھر بڑھیا پری اسے لے کر سمندر کے کنارے آئی اور بولی۔۔ ’’اب تم اپنا سارا حال سناؤ۔‘‘
حسن نے اُس سے اپنا سارا حال شروع سے اخیر تک سنایا۔ جب وہ سنا چکا تو بڑھیا پری نے پوچھا۔۔ ’’تمھارے بیوی بچوں کا کیا نام ہے۔‘‘
حسن نے کہا ’’ہم لوگ تو اپنے بچوں کو ناصر اور منصور کہتے تھے اور میری بیوی کا نام نوبہار تھا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ یہاں انھوں نے کیا نام رکھ چھوڑا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے بیوی بچوں کو یاد کر کے زار و قطار رونے لگا۔
بڑھیا پری نے کہا۔۔ ’’حسن! تم کو میں اپنے بیٹے کی طرح سمجھوں گی۔ تم بالکل پریشان نہ ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تمھاری بیوی یہاں کی پریوں میں سے ایک ہے۔ کل صبح یہاں کی پریاں کپڑے اتار کر سمندر کے کنارے نہانے آئیں گی۔ میں ایسی کوئی ترکیب کروں گی کہ یہ سب تمھارے سامنے سے گزریں۔ اس کے بعد تم اپنی بیوی کو پہچان لینا۔۔‘‘
اب تو حسن کی جان میں جان آئی وہ بہت خوش ہوا۔ بڑھیا پری نے اسے سارے جزیرے کی سیر کرائی۔ پری بھی حسن سے بہت خوش ہوئی اور اس نے حسن کو بہت پیار کیا اور کہا تم اطمینان رکھو تم کو کوئی نقصان نہ پہنچے گا۔ میں تمھاری ہر آرزو پوری کروں گی۔‘‘
حسن کو اب پری بہت اچھی لگی اور اس نے کہا۔۔ ’’میں تمھارا احسان کبھی نہ بھولوں گا اور زندگی بھر تمھاری خدمت کروں گا۔‘‘
اگلے روز صبح صبح بڑھیا پری حسن کو لے کر سمندر کے کنارے آئی اور اسے ایک چٹان کے پاس چھپا کر بٹھا دیا۔ ذرا سی دیر کے بعد باجا بجنے لگا۔ ہر طرف ڈھول تاشے کی آواز سنائی دینے لگی۔ اتنے میں بہت سی لڑکیاں آئیں۔ انھوں نے اپنے اپنے لباس اتار کر کنارے پر ڈالے اور پانی میں کود پڑیں۔ دور سے حسن کو ایسا لگا جیسے کہ پانی میں سفید سفید کنول کے پھول کھل گئے ہیں ۔۔ پھر ان کے بال پانی میں اس طرح لہرا رہے تھے، جیسے سمندر سے جھاگ نکل رہا ہو۔
حسن نے ایک اک عورت کو غور سے دیکھا۔ لیکن نو بہار جیسی تو ان میں کوئی بھی نہ تھی۔ اس نے اُداس ہو کر بڑھیا پری سے کہا۔۔ ’’اچھی ماں! میری نو بہار تو ان میں نہیں ہے۔‘‘
بڑھیا پری نے کہا۔۔ ’’بیٹا حسن! پریشان نہ ہو۔۔ شاید دور ہونے کی وجہ سے تم پہچان نہ سکے۔ میں ابھی اُن کو تمھارے سامنے سے گزرنے کے لیے کہتی ہوں۔‘‘
اس نے تالیاں بجائیں اور وہ سب عورتیں اسی طرح سے سامنے سے گزریں۔ ان میں سے ایک سے ایک خوبصورت تھیں لیکن پھر بھی نو بہار، نو بہار تھی۔ حسن نے مایوس ہو کر بڑھیا پری سے کہا۔۔ ’’ماں! سچ مچ میری نو بہار اُن میں نہیں ہے۔‘‘
بڑھیا پری نے کہا ’’تم فکر مت کرو۔ اب ہمارے بادشاہ کی سات شہزادیاں باقی ہیں، لیکن تم ان کی شکل و صورت تو بتاؤ کہ وہ کیسی ہے تاکہ میں بھی اندازہ لگا سکوں۔‘‘
حسن نے کہا ’’میں کس طرح اس کی تصویر کھینچوں۔ وہ اتنی خوبصورت ہے جتنا کہ انسان ہو سکتا ہے۔ اس کا رنگ اتنا سفید ہے کہ روشنی بھی اس کے مقابلے میں سفید نہیں ہے۔ اس کی کمر اتنی نازک ہے کہ سورج بھی اس پر سایہ نہیں ڈال سکتا۔ اس کی آنکھیں اتنی چمک دار ہیں کہ جنت کی نہر میں اتنی چمک نہ ہو گی۔‘‘ یہ کہہ اس کی آنکھوں میں آ نسو آ گئے۔ اس نے کہا۔۔ ’’میری نو بہار! تمھارے بغیر جیسے میرے پاس اب کچھ نہیں رہا، جیسے میرے ہاتھ پاؤں کٹ گئے، جیسے میری آنکھوں کی روشنی جاتی رہی‘‘ یہ کہہ کر حسن رونے لگا۔ بڑھیا پری نے کچھ سوچ کر کہا ’’حسن! تمھاری باتوں سے مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمھاری نو بہار ہمارے بادشاہ کی بیٹی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو تم مایوس ہو جاؤ۔ اس لیے کہ اس کو حاصل کرنا ایسا ہے، جیسے چاند کو چھو لینا، جیسے ایک چھلانگ میں سمندر پار کر لیا جائے، میری تو یہ رائے ہے کہ تم اس کا خیال ہی چھوڑ دو۔‘‘
یہ سننا تھا کہ حسن دھڑام سے گر پڑا اور بری طرح رونے لگا۔۔ بری طرح۔۔ پھر بولا۔۔ ’’میری پیاری ماں کسی طرح میری مدد کرو۔ اس جزیرے میں کیا ہے جو تم نہیں کر سکتیں۔‘‘
بڑھیا پری نے کہا ’’یہ سچ ہے۔ لیکن تم ان لڑکیوں میں جسے چاہے پسند کر لو اور اپنے گھر لے جاؤ۔ میں خوشی سے اجازت دے دوں گی۔ لیکن اگر بادشاہ کو معلوم ہو جائے کہ میں نے تم کو یہاں رہنے کی اجازت دے دی ہے تو پھر میری جان کی خیریت نہیں ہے۔ تم جتنی دولت چاہو، میں تم کو دے سکتی ہوں، بس تم اس خیال کو چھوڑ دو۔‘‘
حسن بڑھیا پری کے قدموں میں گر پڑا اور بولا ’’میری پیاری ماں! مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔۔ مجھے نہ تو یہاں کوئی عورت چاہیے اور نہ دولت۔۔ میں نے تو صرف اپنے بیوی بچوں کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی ہے‘‘ ۔۔ یہ کہہ حسن پھر چیخ چیخ کر رونے لگا۔
بڑھیا پری کو حسن پر بڑا ترس آیا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے اٹھایا اور کہا ’’۔۔ تم بالکل پریشان نہ ہو۔ اب تو چاہے میری جان چلی جائے، میں تمھاری مدد ضرور کروں گی۔۔‘‘ جزیرہ ’’واک واک‘‘ کوئی ایک جزیرہ نہیں ہے۔ یہ سات جزیروں سے مل کر بنا ہے اور ہر جزیرہ میں بادشاہ کی ایک لڑکی حکومت کرتی ہے اور میرے اس جزیرے پر بادشاہ کی سب سے بڑی لڑکی نور الہدیٰ کی حکومت ہے۔ میں ابھی جا کر اس سے تمھارے بارے میں بات کرتی ہوں۔ اب تم اپنے آنسو پونچھ ڈالو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ شہزادی نور الہدیٰ کے دربار میں گئی اور آداب بجا کر بولی۔ ’’شہزادی صاحبہ! اگر اجازت ہو تو کچھ عرض کروں ۔۔‘‘
شہزادی نے کہا۔ ’’ضرور — ضرور — اگر کوئی فرمائش ہے تو ضرور پوری کی جائے گی۔‘‘
بڑھیا پری نے کہا۔۔ ’’شہزادی صاحبہ! آج مجھے ایک بہت خوبصورت نوجوان ملا ہے جسے سمندر کی لہروں نے کنارے پر لا کر چھوڑ دیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا خوبصورت انسان نہیں دیکھا ہے۔ وہ اپنے بیوی بچوں کو ڈھونڈتا ہوا یہاں پہنچا ہے۔ وہ اپنی بیوی کی جو پہچان بتاتا ہے، اس سے مجھے آپ اور آپ کی بہنوں کا خیال آتا ہے۔‘‘
یہ سننا تھا کہ شہزادی آگ بگولہ ہو گئی اور بولی ’’شیطان کی خالہ! بتا تو نے ایک انسان کو کیسے اس جزیرے میں داخل ہونے دیا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اسی وقت تیرا خون پی لوں اور تیری ہڈیاں چبا ڈالوں ۔۔ تو نے میری بہت خدمت کی ہے، اس کے بدلے میں اس وقت تجھے کچھ نہیں کہتی۔۔ ورنہ ابھی تجھ کو سخت سزا دیتی۔‘‘
یہ سننا تھا کہ بڑھیا پری تھر تھر کانپنے لگی اور شہزادی نے کہا۔۔ ’’کیا تجھے نہیں معلوم کہ بادشاہ کا حکم ہے کہ اس زمین پر کوئی انسان قدم نہ رکھے۔ پھر تو کیسی حفاظت کرتی ہے کہ تیرے ہوتے ہوئے کسی آدمی کی یہ ہمت ہو کہ وہ زندہ سلامت یہاں چلے پھرے۔ میرا باپ سنے گا تو کیا کہے گا۔ بہتر ہے کہ اسی وقت اس کو میرے سامنے حاضر کرو۔ میں اپنے سامنے اس کی کھال کھنچواؤں گی۔‘‘
بڑھیا پری تیزی کے ساتھ حسن کے پاس پہنچی، اور بولی ’’حسن! تو میرے سمجھانے سے نہیں مانا۔ اب بتا میں تیری جان کیسے بچاؤں۔ شہزادی نے تجھے فوراً بلایا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس کو سمجھاتی ہوئی شہزادی کے پاس لے گئی۔ بڑھیا پری راستے بھر حسن کو سمجھاتی رہی کہ شہزادی سے کیسے بات کرے۔‘‘
حسن شہزادی کے دربار میں پہنچا۔ شہزادی نے چہرے پر ایک نقاب ڈال لیا تھا۔ حسن نے جا کر اس کے قدموں کو چوما اور اس کے سامنے گڑگڑانے لگا۔ شہزادی نے بڑھیا پری کو اشارہ کیا کہ اس کا حال پوچھے۔ بڑھیا پری نے کہا۔ ’’پردیسی! شہزادی تمھارا نام اور پتا پوچھتی ہیں ۔۔ اور تمھارے بیوی بچوں کے بارے میں جاننا چاہتی ہیں۔‘‘
حسن نے کہا ’’اے ملکہ عالم! میرا نام حسن ہے۔ میں بصرہ کا رہنے والا ہوں۔ میری بیوی کا نام مجھے نہیں معلوم! لیکن بچوں کا نام ناصر اور منصور ہے۔‘‘
ملکہ نے بڑھیا پری کے ذریعہ پوچھا۔ ’’تمھاری بیوی نے تم کو کیوں چھوڑا؟‘‘
حسن نے کہا ’’یہ تو میں نہیں جانتا۔۔ لیکن اس نے اک دم سے فیصلہ کر لیا۔‘‘
ملکہ نے پوچھا ’’وہ کہاں سے غائب ہو گئی۔‘‘
حسن نے کہا ’’—بغداد میں ہمارے خلیفہ ہارون رشید کے محل سے۔ اس نے پروں کا لباس اوڑھا اور دونوں بچوں کو لے کر اڑتی ہوئی چلی گئی۔ اس نے میری ماں سے کہا ’’تم کو میرے جانے سے تکلیف تو ہو گی لیکن میں ہوا کے نشے میں ہوں اور مجبور ہوں۔ اگر حسن آئے اور مجھے یاد کرے تو کہنا کہ وہ مجھے جزیرہ ’’واک واک‘‘ میں تلاش کر سکتا ہے ۔۔ بس یہ اس کے آخری الفاظ تھے جو اس کی زبان سے نکلے ۔۔ اور یہی وہ دن تھا جب میری دنیا میں اندھیرا چھا گیا۔
شہزادی نے کہا۔۔ ’’یہ عجیب بات ہے۔ اگر تمھاری بیوی تم سے ملنا نہ چاہتی تھی تو پھر اس نے اپنا پتا کیوں بتایا؟ اور یہ بھی سچ ہے کہ اگر وہ تم سے محبت کرتی تھی تو اس نے تم کو کیوں چھوڑا۔؟‘‘
حسن نے کہا ’’ملکہ عالم! میں نے آپ کو ہر بات سچ سچ بتا دی۔ مجھے اس کی محبت میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے۔ لیکن وہ ہوا کے نشے میں مجبور تھی۔ وہ پروں کو دیکھ کر اپنے آپے میں نہیں رہتی تھی۔۔ اچھی ملکہ! میرے اوپر رحم کرو۔ مجھے میری بیوی اور بچوں تک پہنچا دو۔‘‘
شہزادی نے حکم دیا کہ شہر کی تمام عورتیں اور لڑکیاں حاضر کی جائیں۔ تمام لڑکیاں آ گئیں، لیکن حسن نے کہا ’’ملکہ عالم! ان میں کوئی بھی میری بیوی نہیں ہے۔‘‘
شہزادی تھوڑی دیر تک تو سوچتی رہی پھر بولی ’’۔۔ میں نے بہت سوچا لیکن میری سمجھ میں نہیں آ رہا ہے، تجھے کیا سزا دوں۔‘‘
اب بُڑھیا پری کا ڈر کم ہو گیا تھا۔ اس نے ہمت کر کے کہا۔۔ ’’شہزادی! میں نے برسوں آپ کی خدمت کی ہے۔ آج اس کے بدلے میں درخواست ہے کہ اس نوجوان کو سزا نہ دیں ۔۔ اس نے خود بڑی مصیبتیں جھیلی ہیں، تب کہیں یہاں تک پہنچا ہے۔ تم نقاب الٹ کر دیکھو کہ یہ کتنا خوبصورت نوجوان ہے۔ اس کو سزا دینا کہاں تک ٹھیک ہے۔‘‘
شہزادی نے اپنا نقاب اتار دیا۔ اب جو حسن کی نظر پڑی تو وہ چیخ مار کر گر پڑا۔ ’’یا اللہ! یہ تو بالکل میری بیوی ہے۔‘‘
شہزادی نے کہا۔۔ ’’تم غلط سمجھ رہے ہو۔ میری تو شادی بھی نہیں ہوئی ہے۔‘‘
حسن نے کہا۔۔ ’’اے حسین شہزادی! تمھاری صورت میری بیوی سے کتنی ملتی جلتی ہے۔ البتہ بس ذرا سا فرق ہے، جو میں کہہ نہیں سکتا کہ کیا ہے؟‘‘
شہزادی نے سوچا کہ ضرور اس نے میری کسی بہن کو دیکھا ہے اس لیے مجھے اس بات کا پتہ لگانا چاہیے کہ میری کس بہن نے شادی کی ہے تاکہ پھر دونوں کو ایسی سزا دوں کہ یہ بھی زندگی بھر یاد کریں۔ لیکن اس نے بڑھیا پری سے کہا ’’تم میری چھ بہنوں کو یہاں آنے کی دعوت دو۔ کہنا کہ تم لوگ دو سال سے یہاں نہیں آئی ہو۔ تم کو دیکھنے کے لیے میں کتنا بے چین ہوں۔ لیکن یاد رکھنا کہ ان کو حسن کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو۔‘‘
بڑھیا پری بالکل کچھ نہ سمجھی اور اس نے باری باری پانچوں شہزادیوں کو اپنے ساتھ لے لیا۔ پھر وہ چھٹی کے پاس پہنچی۔ یہ سب سے چھوٹی تھی اور اپنے باپ کے ساتھ رہتی تھی۔ جب وہ اپنے باپ سے اجازت لینے کے لیے گئی تو بادشاہ گھبرا گیا اور اس نے کہا ’’بیٹی! تم مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔ میں نے ایک بڑا بھیانک خواب دیکھا ہے کہ اگر تم مجھے چھوڑ کر گئیں تو شاید پھر میں تم کو کبھی نہ دیکھ سکوں گا۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے خزانے میں ٹہل رہا ہوں۔ وہاں اپنے تمام ہیرے جواہرات دیکھ رہا ہوں۔ لیکن سات ہیرے ایسے ہیں جو مجھے بہت اچھے لگے۔ ان میں سے ایک ہیرا جو سب سے چھوٹا ہے، سب سے خوبصورت ہے۔ میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ اور میں اسے خزانے سے لے کر نکلا۔ اتنے میں ایک عجیب و غریب پرندہ اوپر سے اڑتا ہوا آیا اور اس نے جو جھپٹّا مارا تو یہ ہیرا مجھ سے چھین کر لے گیا۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے سیانوں کو بلایا اور اُن سے پوچھا کہ اس خواب کی تعبیر بتاؤ۔۔ جانتی ہو اس نے اس کا کیا مطلب بتایا۔۔ اس نے کہا بادشاہ سلامت! سات ہیرے آپ کی سات بیٹیاں ہیں اور سب سے چھوٹا ہیرا آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی ہے، اسے کوئی یہاں سے لے جائے گا۔ اسی لیے میں نہیں چاہتا کہ تم یہاں سے کہیں جاؤ۔ کہیں راستے میں کوئی ایسی ویسی بات نہ ہو جائے۔‘‘
سب سے چھوٹی لڑکی نے جو واقعی نو بہار تھی، بادشاہ سے بولی۔۔ ’’آپ کو معلوم ہے کہ میری بہن نے کتنی بڑی دعوت کا انتظام کیا ہے۔ پھر دو سال سے ہم ایک دوسرے سے نہیں ملے ہیں۔ اب اگر میں منع کرتی ہوں تو اسے کتنی تکلیف ہو گی۔ آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔ آپ کو معلوم ہے کہ ایک بار میں آپ سے بچھڑ گئی تھی، لیکن پھر آ گئی۔ بھلا کس کی ہمت ہے کہ بادلوں کے پہاڑ، کالے پہاڑ اور اتنی بہت سی وادیوں اور اتنے گہرے سمندروں کو پار کر کے یہاں آ سکے۔ آپ میری طرف سے بالکل پریشان نہ ہوں۔ یہ جزیرہ ’’واک واک‘‘ بڑی محفوظ جگہ ہے۔‘‘
بادشاہ کو اطمینان ہو گیا اور اس نے چند روز کے لیے اجازت دے دی۔ پھر یہ شہزادی اپنے دونوں بچوں کو لے کر، اپنی دوسری بہنوں کے ساتھ نور الہدیٰ کے یہاں پہنچیں۔ یہاں پہلے سے اُن کے استقبال کی تیاریاں کر لی گئی تھیں۔ شہزادی نور الہدیٰ نے بڑا شاندار لباس پہنا تھا اس کے پاس ہی حسن کھڑا ہوا تھا۔ اس نے بڑھیا پری سے کہہ دیا تھا کہ ’’باری باری ہر ایک شہزادی کو میرے سامنے لاؤ۔‘‘
سب سے پہلے ’ نور البدر‘ داخل ہوئی، نیلے کپڑے پہنے ہوئے۔ اس نے شہزادی نور الہدیٰ کے ہاتھ چومے۔ نور الہدیٰ نے کہا۔ ’’حسن! اس کو دیکھو، کیا یہ تمھاری بیوی ہے؟‘‘
حسن نے کہا ’’یہ تو چاند سے بھی زیادہ خوبصورت ہے اور اس کے بال گھٹاؤں سے زیادہ کالے ہیں اور جسم اتنا خوبصورت ہے کہ جیسے خدا نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کو بنایا ہے۔ لیکن یہ وہ نہیں ہے جس کی تلاش میں، میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔‘‘
تب شہزادی نور الہدیٰ نے اس کو اپنے پاس بٹھایا اور دوسری بہن کو بلایا۔ یہ ’ شمس النہار‘ تھی۔ پہلی سے بھی زیادہ خوبصورت شہزادی نور الہدیٰ نے کہا۔ ’’حسن! اس کو دیکھو، کیا یہ تمھاری بیوی ہے؟‘‘
حسن نے کہا۔ ’’یہ تو سورج سے زیادہ روشن ہے اور اس کے گال گلابوں سے زیادہ نرم ہیں کہ جسے خدا نے خود اس کو اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ لیکن یہ وہ نہیں ہے، جس کی تلاش میں، میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔‘‘
شہزادی نور الہدیٰ نے اس کو اپنے پاس بٹھایا اور تیسری بہن کو بلایا۔ یہ ’نور النہار‘ تھی۔ یہ دوسری سے بھی زیادہ خوبصورت تھی۔ شہزادی نور الہدیٰ نے کہا ’’حسن! اس کو دیکھو کیا یہ تمھاری بیوی ہے؟‘‘
حسن نے کہا ’’یہ تو شام کی شفق سے زیادہ خوبصورت ہے اور اس کی آنکھوں کی کجلاہٹ شام کے سلونے پن کو بھی شرماتی ہے۔ جیسے خدا نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کو بنایا ہے۔ لیکن یہ بھی وہ نہیں ہے، جس کی تلاش میں میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔
شہزادی نور الہدیٰ نے اس کو بھی اپنے پاس بٹھایا اور چوتھی بہن کو بلایا۔ یہ ’نجم السحر‘ تھی۔ یہ تیسری سے بھی زیادہ خوبصورت تھی۔ شہزادی نور الہدیٰ نے کہا ’’حسن! اس کو دیکھو کیا یہ تمھاری بیوی ہے؟‘‘-
حسن نے کہا ’’یہ تو صبح کی پہلی کرن سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اس کی چال ایسی ہے، جیسے صبح کی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہو۔ لیکن یہ بھی وہ نہیں ہے، جس کی تلاش میں میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔‘‘
شہزادی نور الہدیٰ نے اسے بھی اپنے پاس بٹھا لیا اور پانچویں بہن کو بلایا۔ اس کا نام تھا۔۔ سیمیں بدن۔۔ شہزادی نے کہا ’’حسن! اس کو دیکھو کیا یہ تمھاری بیوی ہے؟‘‘-
حسن نے کہا ’’یہ تو وہ ہے جس کا بدن پھولوں سے زیادہ نازک ہے۔ خدا نے اسے چاندی سے تراش کر بنایا ہے۔ لیکن یہ بھی وہ نہیں ہے، جس کی تلاش میں، میں مارا مارا پھر رہا ہوں۔‘‘
شہزادی نور الہدیٰ نے بڑھیا پری سے کہا۔ ’’اب جاؤ سب سے چھوٹی بہن کو پیش کرو۔ اس کا نام تھا نور النسا۔۔ جیسے ہی وہ داخل ہوئی، ابھی نور الہدیٰ نے یہ پوچھا بھی نہیں تھا کہ ’’حسن اس کو دیکھو! کیا یہ تمھاری بیوی ہے؟ کہ اس کو دیکھتے ہی حسن بڑے زور سے چیخا اور بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا۔ شہزادی نے فوراً حسن کی آواز کو پہچان لیا اور بڑی تیزی سے اس کی طرف لپکی اور وہ گر کر بے ہوش ہو گئی۔
شہزادی نور الہدیٰ نے فوراً حکم دیا۔ ’’اس کمینے کو یہاں سے لے جاؤ اور شہر کے باہر لے جا کر ڈال دو۔‘‘ یہ سنتے ہی غلام دوڑ پڑے۔ وہ حسن کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور لے جا کر سمندر کے کنارے ڈال دیا۔ جب نور النسا کو ہوش آیا تو نور الہدیٰ نے کہا ’’اے ذلیل لڑکی۔ اس آدمی سے تیرا کیا رشتہ ہے۔ پہلے تو تم نے باپ سے پوچھے بغیر چپ چاپ شادی کر لی اور اس کے بعد اپنے شوہر کو چھوڑ کر چلی آئی۔ اب تو تجھے اپنی جان سے اس کی قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘
تب اس نے کنیزوں کو آواز دی اور کہا کہ ’’بڑھیا پری کو باندھ کر خوب پیٹو۔‘‘
پھر اس نے اپنے باپ کو خط لکھا اور حسن اور نور النسا کا سارا حال بیان کیا اور پوچھا کہ بتائیے کہ اس لڑکی کو کیا سزا دی جائے؟
جب بادشاہ نے شہزادی نور الہدیٰ کا خط پڑھا تو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اس نے لکھا کہ ’’تم سخت سے سخت سزا دو گی تو وہ بھی اس جرم کے مقابلے میں کم ہو گی جو اس لڑکی نے کیا ہے۔‘‘
ادھر شہزادی کے غلام، حسن کو سمندر کے کنارے ڈال آئے تھے۔ جب اسے ہوش آیا تو اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ سمندر کے کنارے ٹہلنے لگا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہے کہ دو لڑکے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔ حسن نے ان کو الگ کر دیا اور کہا ’’تم کیوں لڑ رہے ہو۔‘‘؟
انھوں نے کہا کہ یہ جھگڑا ایک چھڑی اور ٹوپی کے لیے ہے جو وہیں رکھی ہوئی تھی۔
حسن کہا ’’تم دونوں اتنی سی چیز کے لیے جھگڑا کر رہے ہو۔‘‘
ان لڑکوں نے کہا ’’آپ ان کو اتنی سی چیز کہتے ہیں۔ آئیے ہم آپ کو اس کی خاصیت بتائیں۔ ہمارا باپ بہت بڑا جادوگر تھا۔ اس نے جادو کی مدد سے یہ دونوں چیزیں ایک سو پینتیس سال کے بعد تیار کیں۔ اب وہ مر گیا ہے ہم دونوں میں یہ جھگڑا ہے کہ کون کیا لے۔‘‘ اس کے اندر بہت سے طلسم باریک باریک لکھے ہوئے ہیں۔ اس کا مالک تمام جنوں پر حکومت کرتا ہے۔ جب وہ زمین پر چھڑی مارتا ہے تو تمام جنوں کی فوج زمین سے نکلتی ہے۔ اور اس کے حکم کا انتظار کرتی ہے اور جیسا وہ کہتا ہے کرتی ہیں ۔۔ اور ٹوپی کی خاصیت یہ ہے کہ جو کوئی اس ٹوپی کو پہن لے، اس کو کوئی نہ دیکھ سکے۔‘‘
حسن پہلے تو حیران ہوا پھر اس نے سوچا کہ مجھ سے زیادہ اس چھڑی اور ٹوپی کی کسے ضرورت ہو سکتی ہے۔ کسی طرح ان پر قبضہ کرنا چاہیے۔ میں ان کی مدد سے اپنا مقصد حاصل کر سکتا ہوں۔ چنانچہ اس نے لڑکوں سے کہا۔۔ ’’اچھا میں ایک ترکیب کرتا ہوں۔ میں ایک کنکری پھینکوں گا جو کوئی اسے لے کر پہلے آئے گا، اس کو یہ چھڑی دوں گا اور دوسرے کو ٹوپی۔‘‘
دونوں لڑکے راضی ہو گئے۔ حسن نے ایک کنکری اٹھا کر پھینکی۔ وہ دونوں کنکری لانے کے لیے دوڑے۔ حسن نے فوراً اپنے سر پر ٹوپی اوڑھ لی، اور چھڑی کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور دوسری طرف جا کر کھڑا ہو گیا۔ جب لڑکے واپس آئے تو انھیں کوئی آدمی نظر نہیں آیا۔ انھوں نے کہا ’’وہ آدمی کہاں گیا، جس نے ہمارا فیصلہ چکایا تھا۔ حسن قریب ہی کھڑا تھا۔ اب اسے یقین آ گیا کہ اُن میں یہ خاصیت ہے۔ لڑکے ایک دوسرے سے بحث کرنے لگے اور ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے کہ تو نے باپ کی وصیت یاد نہیں دلائی کہ ان دونوں چیزوں کو احتیاط سے رکھنا اور کسی کے ہاتھ میں مت دینا۔‘‘
غرض وہ دونوں لڑکے لڑنے لگے اور حسن وہاں سے آگے بڑھا۔ اس نے سوچا کہ شہر میں جانا چاہیے اور سب سے پہلے بڑھیا پری کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کس حال میں ہے۔ وہ ٹوپی پہنے ہوئے اس محل میں داخل ہوا، جس میں وہ قید تھی۔ اس نے دیکھا کہ بے چاری ایک زنجیر سے بندھی پڑی ہے۔ اس نے جان بوجھ کر چینی کا برتن گرا کر توڑا۔ بڑھیا ڈر گئی اور بولی ’’حضرت سلیمان کی قسم، بتاؤ کہ تم کون ہو۔‘‘
حسن نے کہا۔ ’’میں کوئی جِن یا دیو نہیں ہوں۔ تمھارا بیٹا حسن ہوں۔ جس کی وجہ سے تم اس مصیبت میں پھنسی ہو۔ میں تم کو چھڑانے کے لیے آیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹوپی اُتار دی تو بڑھیا پری نے اسے دیکھا۔
بڑھیا پری بولی ’’بیٹا حسن! تم یہاں سے بھاگ جاؤ۔ تم کو معلوم نہیں کہ شہزادی نور الہدیٰ نے تمھاری تلاش میں غلام بھیجے ہیں۔ تم کو جہاں پائیں گے، جان سے مار دیں گے۔ تمھاری جان خطرے میں ہے بس اب تم بھاگ جاؤ۔ وہ تمھاری بیوی کو بھی مارنا چاہتی ہے۔‘‘
حسن نے کہا ’’تم اب زیادہ وقت مت برباد کرو۔ یہ جادو کی ٹوپی ہمارے کام آئے گی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے بڑھیا پری کو ٹوپی میں چھپا لیا۔
بڑھیا پری نے کہا ’’یہاں سے جلدی چلو۔۔ میں تم کو تمھاری بیوی اور بچوں کے پاس لے چلوں اس لیے کہ ان کی جان بھی خطرے میں ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اسے ایک کوٹھری میں لے گئی، جہاں نو بہار بندھی پڑی تھی۔ حسن نے اندر جا کر جو اس کو اس حال میں دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ وہ لڑکوں کے پاس گیا اور ٹوپی اتاری۔ لڑکوں نے جو باپ کو دیکھا تو اس کو فوراً پہچان لیا اور بڑے خوش ہوئے۔ ماں نے کہا ’’- کیا بات ہے۔‘‘ حسن نے جلدی سے ٹوپی پہن لی۔ ماں نے کہا ’’تمھارا باپ یہاں کہاں سے آیا ہے۔ بلاوجہ شور مچا رہے ہو۔ یہاں تو ہوا کا بھی گزر نہیں ہے، باپ کہاں سے آئے گا۔ وہ بے چارہ تو نہ جانے کس مصیبت میں پھنسا ہو گا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دوسری طرف دیکھا۔ حسن نے پھر ٹوپی اتاری۔ اب بچے پھر خوشی سے اچھلنے لگے اور باپ کو پکارنے لگے۔ ماں نے مڑ کر دیکھا تو حسن نے پھر ٹوپی پہن لی۔ وہ بولی ’’بچو! یہ تم کو کیا ہو گیا ہے۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے اور تم اپنے باپ سے باتیں کر رہے ہو یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ اب تو حسن اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا، اور اس نے ٹوپی اتاری اور اپنی بیوی کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔ نو بہار نے جو حسن کو دیکھا تو گھبرا کر بولی ’’تم یہاں کیسے آئے میرے پیارے حسن! دیکھو انسان قسمت کے ہاتھوں کتنا مجبور ہوتا ہے۔ تم مجھے میرے حال پر چھوڑو۔ ورنہ میری ظالم بہن تم کو زندہ نہ چھوڑے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رونے لگی۔
حسن نے کہا ’’میری پیاری نو بہار! یہ رونے دھونے کا وقت نہیں۔ میں صرف تم کو لینے کے لیے اتنی مصیبتیں جھیلتا ہوا پہنچا ہوں۔ تم کو چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہوں۔‘‘
نو بہار نے کہا ’’- اپنی زندگی خطرے میں مت ڈالو۔ میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے تم اپنی جان دو۔ تم میری بہن کو نہیں جانتے۔‘‘
حسن نے کہا ’’میری نو بہار! تم پریشان مت ہو۔ تمھاری بہن میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ میں تم کو یہاں سے لے کر جاؤں گا۔‘‘
نو بہار نے ہنس کر کہا۔۔ ’’تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ میری بہن یہاں حکومت کرتی ہے تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ لیکن وہ تمھیں اور مجھ کو برباد کر دے گی۔ اس کے پاس بہت بڑی فوج ہے۔ اس لیے تمھاری بہتری اسی میں ہے کہ تم یہاں سے کسی طرح نکل جاؤ۔۔ میری غلطی کی وجہ سے تم نے اتنی مصیبت جھیلی ہے۔ میں تم سے اجازت لیے بغیر چلی آئی۔ کیا بتاؤں میں ان پروں کے لباس کو دیکھ کر قابو میں نہیں رہی۔ اب خود اپنے کیے پر پچھتا رہی ہوں۔‘‘
حسن نے کہا۔ ’’یہ میری غلطی ہے کہ میں تم کو چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اب جہاں کہیں جائیں گے، ساتھ جائیں گے۔ یہ کہہ کر اس نے چھڑی اور ٹوپی کا ذکر کیا کہ کس طرح اس نے یہ جادو کی چھڑی اور جادو کی ٹوپی، ان دو لڑکوں سے حاصل کی جو آپس میں لڑ رہے تھے اور کہا ’ اب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی مدد سے ہم سب یہاں سے نکل جائیں گے۔‘‘
حسن اور نو بہار یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اس وقت شہزادی نور الہدیٰ اُدھر آ نکلی۔ اس نے کوٹھری میں جو یہ آواز سنی تو وہاں آ گئی۔ حسن نے اسے دیکھ کر جلدی سے ٹوپی اوڑھ لی اور نور الہدیٰ کی نظر سے اوجھل ہو گیا۔ اس نے بڑے غصے سے نو بہار سے پوچھا ’’اری چڑیل! بتا تو کس سے باتیں کر رہی تھی۔‘‘
اس نے کہا ’’ان دو بچوں کے علاوہ یہاں کون ہے، جس سے میں باتیں کر سکتی ہوں‘‘-
شہزادی نور الہدیٰ غصے میں تو تھی ہی، اس نے اس کے دو تین چانٹے مارے اور کنیزوں سے کہا کہ اس کو لے جا کر دوسرے کمرے میں ڈال دو۔ کنیزیں اس کو دوسرے کمرے میں لے گئیں تو حسن بھی ان کے پیچھے پیچھے اس کمرے میں داخل ہو گیا۔ یہ بے چاری وہاں زار و قطار رو رہی تھی۔
حسن نے جب دیکھا کہ وہاں کوئی نہیں ہے تو اس نے سر سے ٹوپی اتاری۔ شہزادی نو بہار اور دونوں بچے اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ شہزادی نے کہا ’’تو نے دیکھا کہ میری بہن میرے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔ اس لیے کہتی ہوں کہ تو بھی یہاں سے جان بچا کر نکل جا۔ تو یہاں کے خطروں سے واقف نہیں ہے۔ میری تو جان جائے گی۔ تو میری وجہ سے اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالتا ہے۔ اگر میری بات نہیں مانے گا تو اپنا انجام بھی دیکھ لینا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ کنیزیں دوڑی ہوئی آئیں، شہزادی اور بچوں کو روتے دیکھا۔ حسن نے ٹوپی پہن لی تھی۔ اس لیے اس کو کوئی نہ دیکھ سکا۔ لیکن وہ بے چاری بھی ترس کھا کر رہ گئیں۔ کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ شہزادی نور الہدیٰ کے سامنے وہ کچھ نہیں کر سکتیں، بے بس تھیں۔
شام تک حسن اسی طرح چھپا رہا۔ رات کو جب تمام کنیزیں سو گئیں تو یہ بیوی بچوں کو لے کر محل سے باہر نکلا۔ لیکن دیکھتا ہے کہ محل کا پھاٹک بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ دونوں پریشان ہو گئے لیکن کریں تو کیا کریں۔ ابھی وہ اسی پریشانی میں تھے کہ انھیں پھاٹک کے باہر ایک آواز سنائی دی۔ وہ پہچان گئے کہ یہ آواز اس بڑھیا پری کی ہے۔ اس نے کہا ’’تم لوگ جلدی سے باہر آ جاؤ۔۔ میں پھاٹک کھول رہی ہوں۔‘‘
حسن نے کہا ’’ماں! تمھارا ہم پر بڑا احسان ہے اسے ہم زندگی بھر نہ بھول سکیں گے۔‘‘
بڑھیا پری نے کہا ’’یہ وقت باتیں کرنے کا نہیں ۔۔ تم فوراً باہر جاؤ، وقت خراب مت کرو۔‘‘
اب جو وہ باہر نکلے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑھیا پری ایک مٹی کے مٹکے پر بیٹھی ہوئی ہے اور ایک رسی مٹکے کے گردن میں ڈالے ہوئے ہے، اور اس پر اس طرح سوار ہے جیسے کوئی گھوڑے پر بیٹھتا ہے۔ اس نے حسن سے کہا ’’تم دونوں بچوں سمیت میرے پیچھے آ کر بیٹھ جاؤ۔ ذرا بھی مت ڈرو کیونکہ میں جادو کے چالیس گروں سے واقف ہوں اور میرے لیے یہ بڑی معمولی بات ہے کہ میں اس شہر کو دریا بنا دوں اور یہاں کے رہنے والے مچھلی بن جائیں۔ لیکن میں نے ملکہ کے باپ کے ڈر سے اس فن کو آزمایا نہیں تھا۔ اب تم میرا جادو دیکھنا۔ حسن نے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اس مٹکے پر بیٹھ کر شہر کو پار کیا۔ جیسے ہی وہ شہر سے باہر آیا، حسن نے اپنی چھڑی کو زمین پر مارا۔ اک دم سے زمین پھٹ گئی اور سات دیو زاد نکلے جِن کے جسم کا آدھا حصہ زمین کے اندر اور آدھا زمین کے باہر تھا۔ انھوں نے تین بار زمین کو چوما اور ایک ساتھ کہا۔۔ ’’اے خواجہ! کیا حکم ہے ۔۔ ہم آپ کے فرمانبردار ہیں۔ ہماری وہ طاقت ہے کہ ہم چاہیں تو دریا کو پھاڑ ڈالیں۔ پہاڑوں کو ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیں۔
حسن کی جان میں جان آئی۔ اب جو ذرا ہمت بندھی تو اُس نے پوچھا۔۔ ’’تم کون ہو۔۔ اور کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘
دیو زادوں نے سر جھکا کر عرض کیا۔۔ ’’ہم جنوں کے سات قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر ایک کے انچاس اونچا گروہ ہیں، جو دنیا کے مختلف کونوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہمارا اقتدار ہر جگہ ہے لیکن ہم سب آپ کا حکم مانیں گے۔‘‘
حسن نے کہا ’’میں چاہتا ہوں ۔۔ تم لوگ ہمیں بغداد پہنچا دو۔‘‘
دیو زادوں نے سر جھکا لیا۔۔ حسن نے کہا ’’تم سب خاموش کیوں ہو گئے۔‘‘
انھوں نے کہا ’’در اصل ہم نے حضرت سلیمان ؑ کے زمانے میں قسم کھائی تھی کہ کسی انسان کو اپنے کندھوں پر نہیں بٹھائیں اور ہم نے آج تک اس قسم کو نہیں توڑا۔ پھر بھی ہم تم کو آتشیں گھوڑوں کے ذریعے تم جہاں کہو گے، وہاں پہنچا دیں گے۔‘‘
حسن نے کہا ’’یہاں سے بغداد کا فاصلہ کتنا ہے۔‘‘
دیو زاد نے کہا۔۔ ’’اگر بہت تیزی کے ساتھ سفر کریں تو سات سال کا سفر ہے۔‘‘
حسن نے کہا ’’میں یہاں ایک سال سے بھی کم عرصے میں آیا تھا۔‘‘
دیو زاد نے کہا ’’در اصل اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کچھ لوگوں کو مہربان کر دیا تھا ورنہ تیری کیا مجال تھی جو یہاں آتا۔ یہ شیخ عبد القدوس اور شیخ علی کی برکت تھی کہ سالوں کا سفر دنوں میں طے ہو گیا۔ ان کو اسم اعظم یاد ہے اور اس کی مدد سے یہ سب کچھ ہو گیا۔۔ لیکن ہم کوشش کریں گے کہ آپ کو جلد سے جلد پہنچا دیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئے اور ذرا سی دیر میں تین عجیب و غریب گھوڑے لے کر آ گئے۔ حسن، نو بہار، اور بڑھیا پری دونوں بچوں کے ساتھ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور یہ گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے۔
اس طرح کئی دن گزر گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے سے ایک غبار آ رہا ہے۔ جب بادل چھٹے تو ایک جِن دکھائی دیا، جس کا سر ایک گنبد کا سا تھا، اور دانت سوکھے پیڑ کی شاخوں کی طرح تھے۔ اور منہ غار کی مانند تھا۔ حسن پریشان ہو گیا تو جِن نے سامنے آ کر کہا ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ میں خدا پرست ہوں۔ مجھے آپ کا سارا حال معلوم ہے۔ مجھے جب پتہ چلا کہ آپ میرے علاقے سے گزرنے والے ہیں تو پھر میں نے سوچا کہ میں بھی حفاظت کروں کیونکہ راستہ خطرناک ہے۔ میں تھوڑی دور آپ کے ساتھ چلوں گا، پھر واپس چلا جاؤں گا۔‘‘
اب جا کر حسن کو اطمینان ہوا۔ گھوڑے تیزی سے چلتے رہے، چلتے رہے یہاں تک کہ انھوں نے بہت سے پہاڑوں، دریاؤں اور میدانوں کو پار کیا۔ اس طرح تین دن ہو گئے۔ اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ گرد کا ایک طوفان سا آیا اور اندھیرا سا چھا گیا۔ حسن گھبرا گیا۔ بڑھیا پری نے کہا ’’بیٹا حسن! یہ تو جزیرہ ’’واک واک‘‘ کی فوج چلی آ رہی ہے۔ یہ ہمیں گرفتار کرنے پیچھے پیچھے آئے ہیں۔‘‘
حسن نے کہا۔ ’’اب بتاؤ کیا کیا جائے۔‘‘
بُڑھیا پری نے کہا ’’تم اپنی چھڑی زمین پر مارو۔ اس نے جیسے ہی زمین پر چھڑی ماری۔ جنوں کے بادشاہ آ گئے۔ انھوں نے کہا۔۔ ’’آپ پریشان نہ ہوں۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑ کی بلندی پر ٹھہر جائیں۔ ہم لوگ اُن سے مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ لشکر شہزادی نور الہدیٰ کا ہے، اور آپ کا سارا حال معلوم ہے ۔۔ شہزادی کی سراسر زیادتی ہے۔ آپ کو حق ہے کہ اپنی بیوی بچوں کو اپنے گھر لے جائیں۔‘‘
حسن، اس کی بیوی بچے اور بُڑھیا پری اس پہاڑ کی بلندی پر جا کر چھپ گئے۔ اس کے بعد کیا دیکھتے ہیں کہ دونوں طرف سے فوجیں لڑ رہی ہیں۔ جنگ ایسی ہولناک کہ لاشیں اُڑتی ہوئی آسمان پر جاتی ہیں۔ ہر طرف شعلے نکل رہے ہیں، گرد آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ یہ لڑائی مسلسل تین دن تک ہوتی رہی۔ تین دن تک۔۔ اس کے بعد ہی حسن کے ساتھیوں کی جیت ہوئی۔ شہزادی نور الہدیٰ کو گرفتار کر کے حسن کے سامنے لائے۔ حسن اور اس کے بیوی بچوں کے لیے ایک تخت لایا گیا۔ جنوں کے بادشاہ نے کہا ’’آپ جیسا حکم دیں، ہم ویسی ہی سزا دیں۔‘‘
بُڑھیا پری نے جو اسے دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا، وہ بولی ’’اے ذلیل عورت! تجھے کتوں کے سامنے ڈال دینا چاہیے کہ تیری تکّا بوٹی کر کے کھا جائیں کہ جس نے اپنی بہن کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیا، جو بے چاری بے قصور تھی۔‘‘
نور الہدیٰ زبان سے تو کچھ نہ بولی لیکن اپنی بہن کی طرف دیکھ کر رونے لگی۔
نو بہار کو اس پر رحم آ گیا۔ وہ حسن سے بولی ’’اس کا قصور تو ایسا ہے کہ معافی کے قابل نہیں لیکن میں اپنی طرف سے اس کو معاف کرتی ہوں کہ یہ میری بہن ہے۔ میرے باپ کو میرا غم تو ہو گا ہی لیکن یہ بھی ختم ہو گئیں تو پھر اس کا صدمہ برداشت نہ کر سکے گا۔ آپ اس کو چھوڑ دیں۔‘‘
حسن نے کہا ’’میں نے تیری خاطر اتنی تکلیف اٹھائی اور اب تیری ہی خاطر اس کو معاف کرتا ہوں، تیری بہن کو اس کے ساتھیوں سمیت چھوڑتا ہوں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ نور الہدیٰ گر پڑی اور بولی۔۔ ’’میری اچھی بہن! میں اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے معاف کر دینا۔‘‘
پھر تو دونوں بہنیں ایک دوسرے سے گلے ملیں اور کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ نور الہدیٰ نے کہا ’’واقعی حسن تمھارے قابل ہے۔ اس نے تمھارے لیے کتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ پھر جو آدمی اپنے دشمن کو معاف کر دے وہ یقیناً بہت اچھا ہو گا۔ اس نے ہمیں معاف کر کے ہمیں دوسری بار جیتا ہے۔ تم خوشی خوشی اس کے ساتھ جاؤ۔‘‘
اس کے بعد رات بھر سب لوگ ساتھ رہے اور ہنسی خوشی باتیں کرتے رہے۔ حسن اور نور الہدیٰ میں بھی بڑی دوستی ہو گئی۔ بڑھیا پری اور شہزادی نور الہدیٰ بھی ایک دوسرے سے گھل مل گئیں۔ پھر شہزادی نور الہدیٰ بُڑھیا پری کو اپنے ساتھ لے گئی۔
اب پھر حسن، شہزادی نو بہار اور دونوں بچے اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔ مہینوں کے سفر کے بعد انھیں کالے پہاڑوں کا ایک سلسلہ نظر آیا۔ حسن کو اک دم سے شیخ علی کا خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ اُن کا کتنا بڑا احسان ہے، ورنہ میں کہاں اور جزیرہ واک واک کہاں ۔۔ اب حسن نیچے اترا اور سیدھا شیخ علی کے پاس پہنچا۔ شیخ ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس سے حال پوچھا۔۔ حسن نے سارا ماجرا شروع سے آخیر تک کہہ سنایا اور انھوں نے بچوں سے بھی ملاقات کی۔ شیخ علی نے جب جادو کی چھڑی اور ٹوپی کے بارے میں سنا تو بولے ۔۔ سچ ہے کہ ان دونوں چیزوں کی بدولت تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہو۔‘‘
ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ شیخ عبد القدوس چلے آ رہے ہیں۔ شیخ علی نے ان کو بڑھ کر گلے لگا لیا۔ پھر اُن کی نظر حسن پر پڑی تو وہ اس سے لپٹ گئے۔ پھر حسن نے ان کو بھی سارا قصہ دوبارہ سنایا۔ حسن، تو شیخ عبد القدوس اور شیخ علی کو ایک جگہ پا کر خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا۔ جب حسن وہاں سے رخصت ہونے لگا تو اس نے وہ جادو کی ٹوپی، شیخ علی کو تحفے کے طور پر دے دی اور کہا۔۔ ’’آپ نے میری مدد نہ کی ہوتی تو میں جزیرہ واک واک میں کبھی بھی داخل نہ ہو سکتا۔
اس کے بعد شیخ عبد القدوس کے ساتھ حسن اور اس کی بیوی بچے روانہ ہوئے ۔۔ چلتے چلتے اک دم سے ان کو بادلوں کا پہاڑ نظر آیا۔ شیخ نے کہا ’’حسن! اگر تم چاہو تو اپنی بہنوں سے بھی مل لو۔
یہ سن کر تو حسن بہت خوش ہوا اور وہ سب لوگ سیدھے ساتوں شہزادیوں کے محل میں اترے۔ وہ بہنیں انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ذرا سی دیر میں حسن کی بہن گلبرگ آ گئی۔ وہ حسن کو دیکھ کر مارے خوشی کے اس سے لپٹ گئی اور رونے لگی۔ جب دو بچھڑے ملتے ہیں تو رونا آتا ہی ہے۔ اب حسن نے سارا حال شروع سے آخیر تک بیان کیا۔ گلبرگ نے بچوں کو بہت پیار کیا۔ پھر ان کی خاطر مدارات کی۔ دس روز وہاں رہے۔ یہ دن اس طرح گزرے گویا دن عید تھے اور راتیں شب برات دس روز کے بعد پھر سفر کا سلسلہ شروع ہوا۔ شیخ عبد القدوس جب واپس جانے لگے تو حسن نے جادو کی چھڑی ان کے حوالے کر دی۔ گلبرگ نے حسن کو بہت سے ہیرے جواہرات دیے، اور اس طرح وہ وہاں سے رخصت ہوئے۔ وہاں سے سیدھے بغداد پہنچے۔ گھر پہنچ کر حسن نے ماں کو آواز دی۔ اس کی آنکھیں روتے روتے خراب ہو گئی تھیں۔ انھوں نے جو آواز سنی تو کہا۔ ’’کون ہے جو دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے؟‘‘-
حسن نے کہا ’’ماں! تیرا بیٹا! تیری بہو اور تیرے پوتے آئے ہیں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ بُڑھیا نے جلدی جلدی دروازہ کھولا۔ اپنے بیٹے بہو اور بچوں کو دیکھ کر وہ اک دم سے بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ حسن نے اسے اٹھا کر چار پائی پر ڈالا۔ نو بہار نے پنکھا کرنا شروع کر دیا، اور تب وہ ہوش میں آئی۔
اب تو سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ البتہ سب لوگ بادلوں کے پہاڑ سال میں ایک بار جاتے۔ گلبرگ اُن کو دیکھ کر پھولی نہ سماتی۔ آخر کو حسن کی بہن تھی۔ اس طرح ان کے دن ہنسی خوشی گزرتے رہے۔ اب نو بہار بھی اپنے پروں والے لباس کو بھول ہی گئی۔ وہ تو بس اپنے شوہر اور بچوں سے محبت کرتی اور ان کا خیال رکھتی۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں