زین شکیل کا ایک اور مجموعہ
تیرے نام محبت ہے
شاعر
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
تیرے نام محبت ہے
(غزلیں، نظمیں)
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
زین نذر، رحمان الدین اور سلطان نذر کے نام
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
غزلیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ٭٭٭
ہر شے کا آغاز محبت اور انجام محبت ہے
درد کے مارے لوگوں کا بس اک پیغام، محبت ہے
یہ جو مجھ سے پوچھ رہے ہو، ’’من مندر کی دیوی کون؟‘‘
میرے اچھے لوگو سن لو، ’’اُس کا نام محبت ہے!‘‘
شدت کی لُو ہو یا سرد ہوائیں، اِس کو کیا پروا
کانٹوں کے بستر پر بھی محوِ آرام محبت ہے
بِن بولے اک دل سے دوجے دل تک بات پہنچتی ہے
جو ایسے روحوں پر اُترے، وہ الہام محبت ہے
پگلے! دامن بندھ جاتی ہے، جس کے بخت میں لکھی ہو
تم کتنا بھاگو گے، آگے ہر ہر گام محبت ہے
اب تو بس اک یاد سہارے وقت گزرتا رہتا ہے
اور اُس یاد میں ہر اک صبح، ہر اک شام محبت ہے
ہم جیسے پاگل دیوانے، سود خسارہ کیا جانیں
نفرت کے اس شہر میں اپنا ایک ہی کام محبت ہے
اک لڑکی آدھے رستے میں ہار گئی اپنا جیون
وہ شاید یہ مان چکی تھی، بد فرجام محبت ہے
کچھ آلودہ روحوں والے، ہوس پجاری ہوتے ہیں
زین انہی لوگوں کے باعث ہی بدنام محبت ہے
تُو پگلی! اب کن سوچوں میں گم صم بیٹھی رہتی ہے
بولا ہے ناں اب یہ ساری تیرے نام محبت ہے
٭٭٭
زخم سارے ہی بھر دیے میں نے
سُکھ تری سمت کر دیے میں نے
وہ مرے سنگ تھا اداس تو پھر
رابطے ختم کر دیے میں نے
دکھ اٹھائے تو اپنے سارے سُکھ
اس کی چوکھٹ پہ دھر دیے میں نے
اب تم آئے ہو خواب لینے کو
جانے کس کو کدھر دیے میں نے
نوچتی تھیں بدن تری یادیں
ان کے ناخن کتر دیے میں نے
اب تجھے صبح تک ستائے گی
رات کے کان بھر دیے میں نے
زین وہ یاد بھی نہ رکھے گا
جتنے احسان کر دیے میں نے
٭٭٭
پھول روتے ہیں تو دیتی ہے دہائی تتلی
تُو نے کیا سوچ کے پھولوں سے اڑائی تتلی
مجھ گُلِ ہجر زدہ کو تو ہوا نے روندا
مجھ سے ملنے کو بڑی دیر سے آئی تتلی
میری وہ رات بھی رو رو کے کٹی جب اُس نے
قید مٹھی میں مجھے کر کے دکھائی تتلی
میں نے بے رنگ سا کاغذ پہ بنایا اک پھول
اُس نے اِس پر بھی محبت سے بٹھائی تتلی
ہائے، پَر نوچنے والے یہ تجھے کیا معلوم
کتنی مشکل سے وہ ہم نے تھی کمائی تتلی
اپنی میّت کو کیا دفن اکیلے میں نے
میرے مرنے کی خبر بعد میں لائی تتلی
تم نے اک بار جو آخر پہ بنائی خط میں
خط جلا ڈالا مگر ہم نے بچائی تتلی
زین وہ رنگ محبت کے لٹاتی جاوے
مدتوں بعد بڑے وجد میں آئی تتلی٭٭٭
کچھ بھی ہو سکتے تھے، تسخیر نہیں ہونا تھا!
ہم کو یوں درد کی تصویر نہیں ہونا تھا!
وہ تو تم آئے تو تھوڑا سا یقیں پختہ ہوا
ہم نے تو قائلِ تقدیر نہیں ہونا تھا!
حوصلہ ہار کے جینا بھی کوئی جینا ہے
گر ہی پڑنا تھا تو تعمیر نہیں ہونا تھا!
پاگلا! دیکھتے رہنا تھا روانی کو فقط
ایسے، دریا سے بغلگیر نہیں ہونا تھا!
چاہتے ہم تو تجھے روک ہی لیتے لیکن
بس ترے پاؤں کی زنجیر نہیں ہونا تھا!
میں جو رانجھا نہ ہوا اس پہ گلہ کیوں لوگو
اُس نے ویسے بھی مری ہیر نہیں ہونا تھا!
جیسے اُس شخص کی، اشکوں سے کہانی لکھی
زینؔ یوں اُس نے تو تحریر نہیں ہونا تھا
٭٭٭
خود ہنگامہ آرا ہے یا بد ہنگام محبت
کیونکر ہے مدت سے یارو تشنہ کام محبت
چاہ، خلوص، مروت، خدمت سارے روپ تمہارے
دیکھو تو ہیں جگ میں کتنے تیرے نام محبت
خواہش اٹھنے لگتی ہے تو مر جاتی ہے فوراً
بول ہمارے پاس ہے کیا اب تیرا کام محبت
اک ہم ہیں اور ایک زمانہ آتش زن صدیوں سے
اور کرے گی تُو ہم کو کتنا بدنام، محبت!
جو تھا، جتنا تھا، جیسا تھا قدموں میں رکھ چھوڑا
جانے کس لمحے پائے گی تُو انجام، محبت
جذبوں کی سچائی میں گر فرق ذرا آ جائے
ایسے میں اکثر ہو جاتی ہے ناکام، محبت
تُو تھی سادہ، کملی جھلّی، پھر کیوں بدلے چہرے؟
جا اب زیادہ چھیڑ ہمیں مت، اے مادام محبت!
بس اک بار خلاصی ہو تو اس کے بعد کبھی پھر
بھولے سے بھی لیں گے نہ ہم تیرا نام محبت
اس سے بڑھ کر حیف نہیں اب میں تجھ پہ کر سکتا
آہ محبت، وائے محبت، بدفرجام محبت
زینؔ ہمارے پاس متاعِ درد بچی ہے، جس میں
اک بے سود اداسی ہے اور اک بے نام محبت
٭٭٭
نہ مجھ سے اور کوئی بات مانی جائے گی
خدا کی ذات بڑی ذات مانی جائے گی
سو تُو نے دکھتی ہوئی رگ پہ ہاتھ رکھا ناں
تجھے پتہ تھا تری بات مانی جائے گی
میں کیا کروں یہ مرے عشق کی حمیّت ہے
تمہاری بے رخی سوغات مانی جائے گی
رہیں گے سارے ہی لمحات محترم تیرے
نہ میرے دن نہ مری رات مانی جائے گی
٭٭٭
شہر سے دور بسوں شہر بسانے کے لیے
میں نے کیا سوچ لیا عمر بِتانے کے لیے
یہ بھی اندازِ محبت ہے تجھے کیا معلوم
تجھ کو ہر بات بتاتا ہوں چھپانے کے لیے
یاد آتے ہو تو دکھتی ہے رگِ جاں پل پل
اب تو لوٹ آؤ مجھے یاد نہ آنے کے لیے
یہ بھی کیا لوگ ہیں احساس و جنوں سے عاری
شعر کہتے ہیں فقط نام کمانے کے لیے
مان جاتا ہے تو سینے سے لپٹ جاتا ہے
سو میں ناراض کروں اُس کو منانے کے لیے
زینؔ شاید مجھے اس طور قرار آ جائے
وہ اگر لوٹ کے آ جائے، نہ جانے کے لیے
٭٭٭
دل سے نکلی ہے یہ صدا، مرشد
تیرا لیتا ہوں نام یا مرشد
بے کلی پل رہی ہے سینے میں
ہاتھ دل پر ذرا لگا، مرشد
کیوں فضائیں ہیں پُر فریب اتنی
کیوں ہے خوشبو میں اب وَبا، مرشد؟
توشہِ عاقبت ملے مجھ کو
ایسی دے دے کوئی دعا، مرشد
تہنیت غم نے دی گلے لگ کر
یہ معمّہ عجیب تھا، مرشد
جاگتی جوت ہے ترا چہرا
رُخ سے کاکُل ذرا ہٹا، مرشد
عمر بھر کو تمہارے پہلو میں
چاہیے اک ذرا سی جا، مرشد
سامنا ہے مجھے رذالت کا
ہو کرم کی ذرا نگہ، مرشد
آپ کے نام زندگی کر دی
اور کرتے بھی ہم تو کیا، مرشد؟
کوئی، آنسو بھی پڑھنے والا ہو
ہم بھی روئے ہیں بے صدا، مرشد
یوں لگا عالمِ نزع تھا وہ
ہو رہا تھا کوئی جدا، مرشد
ہم نے قصداً نہیں کیا کچھ بھی
ہم سے ہونا نہیں خفا، مرشد
اس طرح منہ تو پھیر کے مت جا
میری جتنی ہے، دے سزا، مرشد
سانس بھی ساتھ چھوڑ جائے گی
زندگی کیوں ہے بے وفا، مرشد
بخش دے اب تمام تقصیریں
مان بردوں کی التجا، مرشد
٭٭٭
اک ترے خواب سے جب بھی کبھی جاگوں، روؤں
پھر ترے بارے کہیں بیٹھ کے سوچوں، روؤں
ایسے ہو جائے مرے غم کا مداوا شاید
تیری بانہوں میں کبھی ٹوٹ کے بکھروں، روؤں
کتنی روحانی محبت ہے ناں؟ میرے درویش!
میں کہ جب جب بھی دعا میں تجھے مانگوں، روؤں
میری آنکھیں ہیں، مِرے اشک ہیں، میری مرضی
مسئلہ کیا ہے تمہیں؟ جب بھی میں چاہوں روؤں
اُس کی خواہش یہ سجاؤں گا عجائب گھر میں
میں اُسے چھوڑ کے جاتا ہوا دیکھوں، روؤں
٭٭٭
چاہت کا ہر سُود خسارہ لکھتا میں
کیا پایا کیا کھویا، سارا لکھتا میں
تجھ جیسا جب کوئی اور نہیں ہے تو
کیوں پھر اور کسی کو پیارا لکھتا میں
کیسے اپنے درد بھلا کر لوٹ آیا
تو نے جیسے مجھے پکارا، لکھتا میں
میں نے دُکھ نظموں میں لکھنا چھوڑ دیے
اُس کو تھا پر یہی گوارا، لکھتا میں
پہلے کہہ دیتے گر کھیل سمجھنا تھا
جا تُو جیتا، جا میں ہارا، لکھتا میں
لکھتا رہتا صبح و شام تِری باتیں
جی نہ بھرتا پھر دوبارہ لکھتا میں
دکھ بھی آخر اپنے ہی تو ہوتے ہیں
کاش کہ خود کو صرف تمہارا لکھتا میں
٭٭٭
جب بھی بے چین ہوا کرتا ہوں
اپنی حالت پہ ہنسا کرتا ہوں
اتنا آساں تو نہیں بُجھ جانا
اس لیے کم ہی جلا کرتا ہوں
سوچتا ہوں میں تجھے ہر لمحہ
تجھ پہ احسان کیا کرتا ہوں
ایک کمرے میں بسا لی دنیا
شہر میں کم ہی دکھا کرتا ہوں
تُو تو ہنس ہنس کے چلا جاتا ہے
میں پریشان رہا کرتا ہوں
اب میں اکثر ہی کئی لوگوں سے
اپنے بارے میں سنا کرتا ہوں
زین جب وہ بھی نہیں کہتا کچھ
میں بھی چپ چاپ رہا کرتا ہوں
٭٭٭
تمہاری یاد اتاری ہے دور تک خود میں
اداس ہونے کی صورت نکال لی میں نے
تم آؤ کام سبھی کل پہ ڈال دیتا ہوں
تمہارے واسطے فرصت نکال لی میں نے
نہیں تھا خواب میں بھی حوصلہ بچھڑنے کا
سو خواب سے تری فرقت نکال لی میں نے
وہ پوچھ بیٹھا تھا کیا لائے ہو مری خاطر
تو جھٹ سے ساری محبت نکال لی میں نے
٭٭٭
حیرتِ عشق سے نکلوں تو کدھر جاؤں میں
ایک صورت نظر آتی ہے جدھر جاؤں میں
یہ بھی ممکن ہے کہ ہر سانس سزا ہو جائے
ہو بھی سکتا ہے جدائی میں سنور جاؤں میں
یوں مسلسل مجھے تکنے کی نہ عادت ڈالو
یہ نہ ہو آنکھ جو جھپکو تو بکھر جاؤں میں
کیا ترے دل پہ قیامت بھی بھلا ٹوٹے گی؟
گر تجھے دیکھ کے چپ چاپ گزر جاؤں میں
دیکھو انجام تو دینے ہیں امورِ دنیا
جی تو کرتا ہے ترے پاس ٹھہر جاؤں میں
تھام رکھا ہے جو تُو نے تو سلامت ہے بدن
تُو اگر ہاتھ چھڑا لے تو بکھر جاؤں میں
جس قدر بگڑا ہوا ہوں میں یہی سوچتا ہوں
کب ترے ہاتھ لگوں اور سُدھر جاؤں میں
کون ہے، بول مرا، میری اداسی! تجھ بن
تُو بھی گر پاس نہ آئے تو کدھر جاؤں میں
یہ مری عمر فقط چاہ میں تیری گزرے
مر نہ جاؤں جو ترے دل سے اتر جاؤں میں
٭٭٭
چلتا پھرتا ہوا وہ تم نے جو غم دیکھا تھا
کون کہتا ہے کہ تم نے مجھے کم دیکھا تھا
آئینہ آج اٹھایا تو بہت روتے رہے
اپنی صورت کی جگہ ہم نے الم دیکھا تھا
آج کی رات وحی درد بھری اترے گی
آج پھر آپکی آنکھوں کو جو نم دیکھا تھا
اب جو ہر بات پہ روتے ہوئے ہنس دیتا ہے
جانے اس شخص نے کس طرز کا غم دیکھا تھا
تھام کر ہاتھ سلیقے سے گرا دیتے تھے
شہر والوں کا کئی بار کرم دیکھا تھا
عشق میں دو کا تصور نہیں ہو سکتا ناں
ہم نے اک ذات میں اک ذات کو ضم دیکھا تھا
٭٭٭
اب کہانی تو سنانی نہیں آتی مجھ کو
کیا کروں بات گھمانی نہیں آتی مجھ کو
کر دیا کرتے ہیں آنسو مرے غم کو ظاہر
اک نشانی بھی چھپانی نہیں آتی مجھ کو
عشق کرتب تو نہیں ہے مِرے معصوم صِفَت
جھیل میں آگ لگانی نہیں آتی مجھ کو
وہ جو پہلے بھی بتاتے ہوئے دل ڈرتا تھا
اب بھی وہ بات بتانی نہیں آتی مجھ کو
دن نکلنے کو ہے سو جاؤ خدارا اب تو
کوئی پریوں کی کہانی نہیں آتی مجھ کو
٭٭٭
دل و نگاہ میں جو اس کی بال تھا تو کیا ہوا
چلو اگر اسے کوئی ملال تھا تو کیا ہوا
سخی تو جانتا تھا اس سے مانگ کیا رہا ہوں میں
لبوں پہ کوئی اور ہی سوال تھا تو کیا ہوا
ہنسی خوشی تمہارا درد بھی گلے لگا لیا
جو عمر بھر کے واسطے وبال تھا تو کیا ہوا
ترے سوا کسی کی سمت دیکھنا نہیں مجھے
وہ کوئی دوسرا جو با کمال تھا تو کیا ہوا
چلو یہ زعم ہے ہمیں کہ بس اسی کے ہی رہے
اسے جو سارے شہر کا خیال تھا تو کیا ہوا
میں تھک کے ہی گرا تھا، ہار تو نہیں تھی مان لی
جو تھوڑی دیر کے لیے نڈھال تھا تو کیا ہوا
٭٭٭
پھر تو پیڑوں سے بھی دو نام مٹا دینے تھے
تو نے گر عہد مرے دوست بھلا دینے تھے
آج ہی چاند نے بادل میں نہاں رہنا تھا
آج ہی رات نے تارے بھی سُلا دینے تھے
آگ میں جھونک کے جانا تھا مری آنکھوں کو
جاتے جاتے مرے جذبے بھی جلا دینے تھے
میرے کہنے کا کہاں اس نے بھرم رکھنا تھا
اس نے محفل سے کہاں لوگ اٹھا دینے تھے
اے مرے خوفزدہ! شب سے بھلا کیا ڈرنا
میں نے راہوں میں کئی دیپ جلا دینے تھے
میرے انکار نے کرنا تھا مجھے ہی رسوا!
اس نے اک پل میں کئی اشک بہا دینے تھے
یہ سمندر ہی اجازت نہیں دیتا ورنہ
میں نے پانی پہ ترے نقش بنا دینے تھے
جانے کیوں آبِ محبت میں مجھے ہی اس نے
گھول کر درد کے تعویذ پلا دینے تھے!
٭٭٭
میں گُن جو عشق کے گانے لگا ہوں
جنوں کا فیض اب پانے لگا ہوں
بڑا مضبوط ہوں اندر سے لیکن
تمہیں دیکھا تو گھبرانے لگا ہوں
کسی کی یاد کے گھنگرو پہن کر
ابھی میں رقص فرمانے لگا ہوں
مجھے محسوس ہوتا جا رہا ہے
تمہیں تھوڑا سا یاد آنے لگا ہوں
ارے! اتنے خفا کیوں ہو رہے ہو
ابھی آیا تھا، بس جانے لگا ہوں
پرے ہٹ جا غمِ دنیا کہ اب میں
مکمل طیش میں آنے لگا ہوں
کسی روٹھے ہوئے کو پھر منانے
میں خود سے روٹھ کر جانے لگا ہوں
مجھے کیوں چھوڑ کر جاتے نہیں ہو؟
تمہیں، لگتا ہے راس آنے لگا ہوں!
غموں! آؤ سواگت کے لیے سب
یہاں میں خود کو بلوانے لگا ہوں
سمجھ سے ماورا ہے عشق و الفت
یہی میں خود کو سمجھانے لگا ہوں
نگاہیں عرش کی جانب لگی ہیں
زمیں کو وجد میں لانے لگا ہوں
٭٭٭
اس بار بھی میں وجہِ خسارہ سمجھ گیا
آخر دلِ تباہ دوبارہ سمجھ گیا
کچھ وہ بھی اب مزید مسیحا نہیں رہا
کچھ یوں ہوا کہ میں بھی اشارہ سمجھ گیا
تم کس طرح سے جیت گئے یہ پتا نہیں
اچھا تو اس طرح سے میں ہارا سمجھ گیا
خود کو بھی اب سراب ہی لگنے لگا ہوں میں
گرداب کو میں آج کنارہ سمجھ گیا
تم نے کہا کہ تم بھی نہیں اپنے آپ کے
میں سادہ لوح خود کو تمہارا سمجھ گیا
٭٭٭
جلتی کو مت اور جلاؤ، آ جاؤ
مت سورج سے آنکھ ملاؤ، آ جاؤ
سوچوں کا دریا تم کو لے ڈوبے گا
دیکھو اتنی دور نہ جاؤ، آ جاؤ
شہر کے لوگ تو چیخ پکار نہیں سنتے
مجھ کو آ کر حال سناؤ، آ جاؤ
تم بھی تو بیتاب تھے مجھ سے ملنے کو
دور کھڑے ہو مت شرماؤ، آ جاؤ
میں نے تم کو دیکھ کے بازو کھولے ہیں
میرے سینے سے لگ جاؤ، آ جاؤ
لوگ کہیں تقسیم مجھے نہ کر ڈالیں
جلدی آؤ، آ بھی جاؤ، آ جاؤ
یوں میں تم کو روز بلایا کرتا ہوں
آؤ، آؤ، آؤ، آؤ، آ جاؤ
٭٭٭
شام، دریا، ندی، کنارے، تم
مجھ کو لگتے ہو کتنے پیارے تم
اور اک ہم کہ بس تمہارے ہی
اور اک تم کہ بس ہمارے تم
کیوں مری آنکھ سن نہیں پائی
کیوں نہیں آنکھ سے پکارے تم
میں تمہیں بھول ہی نہیں پاتا
ہو گئے یاد مجھ کو سارے تم
مجھ کو یونہی حسین لگتے ہیں
چاندنی شب، اُداس تارے، تم
لے گئے ہو تمام خوشیاں بھی
بس مجھے دے گئے خسارے تم
٭٭٭
تو نے آخر رُلا دیا مجھ کو
قہقہوں میں اُڑا دیا مجھ کو
میں تو ہر موڑ پر میسر تھا
تو نے کیسے گنوا دیا مجھ کو
میرے اندر تجھے نہیں پھونکا
باقی سارا بنا دیا مجھ کو
یاد رکھا تھا مدتوں اس نے
بس اچانک بھلا دیا مجھ کو
تو بھی آخر زمانے جیسا ہے
اپنا چہرہ دکھا دیا مجھ کو
٭٭٭
تنہائی بھی سہہ لیتا ہوں روتا ہوں
سب آنکھوں سے کہہ لیتا ہوں روتا ہوں
کچھ تیری مستی بھی شامل ہوتی ہے
اپنی موج میں بہہ لیتا ہوں، روتا ہوں
ہنس کر ویرانے بھی اپنا لیتے ہیں
ویرانوں میں رہ لیتا ہوں، روتا ہوں
ہنستے ہنستے میں آنکھوں سے بہتا ہوں
جب آنکھوں سے بہہ لیتا ہوں، روتا ہوں
میرے جیسا پاگل ہو گا کون بھلا
سب باتیں جب کہہ لیتا ہوں، روتا ہوں
٭٭٭
خواب میں بھی ترا خیال رہا
یوں بھی سونا مرا محال رہا
تم تو کچھ دیر اشکبار رہے
میں بڑی دیر تک نڈھال رہا
میرے ماتم پہ آ گئیں خوشیاں
موت کا سانحہ کمال رہا
کیوں مرے دن اجڑ اجڑ کے بسے
کیوں مری رات پر زوال رہا
٭٭٭
رات گھر میں اتر گئی ہو گی
وہ بھی دانستہ ڈر گئی ہو گی
کیسا ماتم بپا ہے سینے میں
آرزو کوئی مر گئی ہو گی
میرے اجزا سمیٹنے والی
میرے اندر بکھر گئی ہو گی
اب اسے یاد میں نہیں ہوں گا
اب طبیعت بھی بھر گئی ہو گی
پھر نہیں آج آ سکے ناں تم
پھر قیامت گزر گئی ہو گی
دل کی بستی اجاڑنے والو
چھوڑ بھی دو اجڑ گئی ہو گی
٭٭٭
آج پھر ہوش ٹھکانے لگے ہیں
آپ کو دل سے بھلانے لگے ہیں
ہم جسے سب کو بتاتے رہے تھے
آپ وہ بات چھپانے لگے ہیں
میں کہاں ہوں، مجھے لاؤ کہیں سے
وہ بڑی دور سے آنے لگے ہیں
اے غمِ دنیا ذرا ٹھہر تو جا
ہم انہیں رو کے منانے لگے ہیں
نیند تم ہی نہ چلی جانا کہیں
آج وہ خواب میں آنے لگے ہیں
وہ تو سج دھج کے بھی اجڑا ہی رہے
ہم بھی کس گھر کو سجانے لگے ہیں
تو نے پل بھر میں جو اک بات سنی
مجھ کو کہنے میں زمانے لگے ہیں
ایک تعبیر مٹانے کے لئے
خواب کو آگ لگانے لگے ہیں
دیکھ لو سانس نکلنے لگی ہے
ہم تمہیں چھوڑ کے جانے لگے ہیں
٭٭٭
اس کی آنکھوں کے سمندر میں اترنے کے سوا
کوئی چارہ بھی نہیں تھا ڈوب مرنے کے سوا
تم سمیٹو گے کہاں تک جاؤ اپنی راہ لو!
کچھ بھی تو آتا نہیں مجھ کو بکھرنے کے سوا
کیا مرے زخموں پہ مرہم بھی لگاؤ گے کہو؟
تم تو کرتے ہی نہیں کچھ بھی سنورنے کے سوا
ہم کہ بس قیدِ محبت میں پڑے ہیں آج بھی
سب کیا ہے مرحلہ یہ پار کرنے کے سوا
میری مرضی پوچھنے والے تمہیں معلوم ہے!
اور تم سے کیا کہوں گا میں ٹھہرنے کے سوا
اس کے سب جھوٹے دلائل ماند پڑنے لگ گئے
کچھ نہیں کر پائے گا اب وہ مکرنے کے سوا
٭٭٭
درِ سخا جو ابھی تک ترا کھلا ہی نہیں
ہمارے لب پہ تو یوں بھی کوئی دعا ہی نہیں
ہمیں تو ایک اسی کی طلب نہیں جاتی
کہ جس کا ایک محبت پہ اکتفا ہی نہیں
ابھی یہ لوگ مگن ہیں حروف تولنے میں
ابھی تو شہر نے لہجہ مرا سنا ہی نہیں
مجھے تو یوں بھی مری جان سے عزیز ہو تم
یہ بات الگ ہے کوئی تم سا دلربا ہی نہیں
بس ایک چھوٹا سا آنگن، تمہاری یاد اور میں
مرے مکاں میں اداسی کی انتہا ہی نہیں
بچھڑ کے مجھ سے وہ شاید بہت اداس رہے
کبھی میں پہلے اسے چھوڑ کر گیا ہی نہیں
جو چاہتا ہے کہ بس اس کی دسترس میں رہوں
اسی کے لب پہ مرے نام کی صدا ہی نہیں
اُسے اب اپنے ہی ہاتھوں گنوا کے سوچتے ہیں
ہمارا اُس کے علاوہ تو کوئی تھا ہی نہیں
٭٭٭
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نظمیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے
ان آنکھوں میں ہجر کہیں آباد کیا
دن میں قید کیا شب میں آزاد کیا
ساری عمر تمہارے نام لگا ڈالی
عمر کے اک اک لمحے نے برباد کیا
اب سانسوں میں دور تلک ویرانی ہے
دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔
تم نے کہا تھا خوش رہنا، خوش رہتا ہوں
تم نے کہا تھا ہنس دینا، ہنس دیتا ہوں
اور کوئی گر میرے بارے پوچھے تو
تم نے کہا تھا چپ رہنا، چپ رہتا ہوں
پھر بھی مجھ پر اک دکھ کی سلطانی ہے
دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔
اب بھی ہے معمول وہی، دن، رات وہی
دکھ بھی، دکھ کا طول وہی، اور ذات وہی
اب بھی اکثر تم پر غزلیں کہتا ہوں
اب بھی خود سے کرتا ہوں اک بات وہی
چہرہ جیسا ہے، تصویر پرانی ہے
دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔
دکھ دردوں کی محفل خوب سجاتا ہوں
دکھ سہہ سہہ کر اب میں درد بناتا ہوں
دیواروں کے آنسو بہنے لگتے ہیں
ایسے آنکھ میں بھر کر پانی لاتا ہوں
اب تنہائی بھی میری دیوانی ہے
دیکھو میں نے بات تمہاری مانی ہے۔۔۔
٭٭٭
مرا محور اداسی ہے
تمہاری روح کا عالم
تمہی جانو
زمانے بھر کے رسم و راہ کو
جی جان سے مانو
مرا کوئی دخل کیسے؟
ترا نعم البدل کیسے؟
مری آنکھوں کی بجھتی کربلا
اے یار پیاسی ہے
مرا محور اداسی ہے
٭٭٭
درویش صفت میرے!
درویش صفت میرے!
برباد طبیعت میں
انبار اداسی کے
ایسے ہیں لگے جیسے
شہتوت کے پیڑوں پر
شہتوت لٹکتے ہیں
یہ روح دریدہ ہے
بکھری ہوئی سوچیں ہیں
مرہم کی ضرورت ہے
مرہم تو لگا جاؤ
ہر سوچ سلجھ جائے
پیوند لگا جاؤ
یہ روح تمہاری ہے
ہر زخم تمہارا ہے
اے حرفِ سکوں میرے!
درویش صفت میرے!
٭٭٭
سُن مرے اسیرا سُن
سُن مرے اسیرا سُن
خواب ٹوٹ جانے سے
خواب مر نہیں جاتے
آگ کی محبت میں
ہاتھ جل بھی جائیں تو
درد ٹھہر سکتا ہے
پر نشاں نہیں جاتے
سُن مرے فقیرا سُن
رات کے اُجالے لوگ
چاند چہرے والے لوگ
روشنی میں کھو جائیں
پھر کبھی نہیں ملتے
درد کے امیرا سُن
ضبط کے سفیرا سُن
ہاتھ کے ملانے سے
یا گلے لگانے سے
رابطہ تو رہتا ہے
روح مل نہیں جاتی
اور پھر پرانے لوگ
شام سے سہانے لوگ
یاد نہ بھی آتے ہوں
بھول تو نہیں جاتے
اے مرے اسیرا سُن
سُن مرے فقیرا سُن
٭٭٭
مان جایا کرتے ہیں
اس طرح نہیں کرتے
مان جایا کرتے ہیں!
خواب خواب آنکھوں کو
روندتے نہیں ہیں ناں
مان جایا کرتے ہیں!
عمر قید کا مجرم
ہجر کی اذیت سے
دیر تک نہیں ڈرتا!
آبرو چلی جائے
لوٹ کر نہیں آتی!
بے بسی پلٹ آئے
توڑ تاڑ دیتی ہے!
اور بے کلی دل کو
لے کے اپنی مٹھی میں
یوں جھنجھوڑ لیتی ہے!
رگ نچوڑ لیتی ہے!
اور جب بچھڑ جائیں
دیکھتے نہیں مڑ کر!
ورنہ اے نشاطِ من!
اے مری حریمِ جاں!
آنکھ پھوٹ جاتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
اور جن کو ملنا ہو
ٹھیک سے نہیں ملتے!
درد پھر نہیں سلتے!
اور جینا مرنا بھی
ایک بار کافی ہے
روز جی نہیں اٹھتے
روز تو نہیں مرتے!
مان جایا کرتے ہیں!
اس طرح نہیں کرتے!
اس طرح نہیں کرتے!!!!!!
٭٭٭
بے شمار لوگوں میں
بے شمار لوگوں میں
مت شمار ہو جانا
مت ہماری آنکھوں کا
انتظار ہو جانا
تم نے کس طرح سیکھا
بے قرار ہو جانا
ایک التجا سن لو
تم مری محبت کا
اعتبار ہو جانا
زیست نا مکمل ہے
لوٹ کر چلے آنا
اور میری دنیا میں
بے شمار ہو جانا
اس لئے یہی تم سے
بار بار کہتا ہوں
تم بھلے عقیدہ ہو
ہو مگر محبت کا
جس طرح سے میں چاہوں
اختیار ہو جانا
بے شمار لوگوں میں
مت شمار ہو جانا
٭٭٭
کہو نا یاد کرتے ہو!
انا کے دیوتا!
اچھا چلو مرضی تمہاری
پر
میں اتنا جانتا تو ہوں
کہ جب بھی شام ڈھلتی ہے
تو لمبی رات کی کجلائی آنکھوں میں
ستارے جھلملاتے ہیں
تمہیں میں اس گھڑی پھر چاند کو تکتے ہوئے
شدت سے اتنا یاد آتا ہوں کہ جتنی شدتوں سے
تم خموشی کی ردا کو اوڑھ کر یہ کہہ نہیں پاتے
کہ ہاں! تم یاد آتے ہو!
چلو مانا انائیں اہم ہوتی ہیں
مگر ان سے کہیں زیادہ محبت اہم ہوتی ہے
چلو مانا تمہیں عادت نہیں اظہار کی،
اقرار کی،
اور تم بھی محسن نقوی کی وہ نظم تھی نا جو
"چلو چھوڑو”، کی بس ان چند سطروں سے متاثر ہو
کہ جو کچھ اس طرح سے تھیں
چلو چھوڑو! محبت جھوٹ ہے
عہدِ وفا اک شغل ہے بے کار لوگوں کا
مگر اِس نظم میں پنہاں
جو ہے اک بے بسی کی اوٹ میں ٹوٹا،
تھکا ہارا بڑا ہی مضطرب اور طنزیہ لہجہ
اسے تم نے کبھی محسوس کرنے کی سعی کی
نا مرے جذبات کو سمجھا
مجھے معلوم ہے تم کو محبت ہے مگر تم کہہ نہیں سکتے
انا کے دیوتا!
میں جانتا ہوں ان کہی باتیں
مگر چھوٹی سی یہ خواہش
مجھے تڑپائے رکھتی ہے کہ تم بھی تو
کبھی اپنی انا کا بت گراؤ
وہ سبھی باتیں ذرا شیریں سے لہجے میں سناؤ
وہ سبھی باتیں جنھیں تم کہہ نہیں پائے
جنھیں تم کہہ نہیں سکتے
مجھے معلوم ہے کہ میں تمہیں بے چینیوں کی شدتوں میں
حد سے زیادہ یاد آتا ہوں
مگر تم لب ہلاؤ تو
مری ان رتجگوں کی مٹھیوں میں قید آنکھوں میں
تم اپنی ڈال کر آنکھیں ذرا اک بار دیکھو تو!!
کہو کس واسطے جذبوں کا اپنے خون کرتے ہو
بھلا کیوں روندتے ہو پاؤں میں ایسے گُلِ خوابِ محبت کو
تمہیں ملتا ہی کیا ہے درد سے مجھ کو سدا منسوب رکھنے میں
انا کو اوڑھ کر تم کس لیے یہ خواہشیں اور حسرتیں برباد کرتے ہو
کہو نا یاد کرتے ہو۔۔۔
٭٭٭
December 2015
مجھے وہ۔۔۔
جنوری ہو،
فروری ہو،
مارچ ہو،
یا پھر ہوں دن اپریل کے،
یا ہوں مئی یا جون، جولائی
اگست اور پھر ستمبر کے
یا اکتوبر، نومبر کے
وہ ان سب میں بھی مجھ کو اُس قدر ہی یاد آتا ہے
کہ جتنا اب دسمبر میں!!!!!
٭٭٭
تم چلے آؤ
یاد کے سارے دریچے بھیگتے ہیں
بے بسی کر لا رہی ہے
راستوں پر پھیلتی جاتی اداسی بین کرتی اور
بڑی معدوم سی آواز میں کر لا رہی ہے
بے بسی خود بے حسی کے گیت گاتی جا رہی ہے
کھڑکیوں پر دھول بارش کے کئی قطرے لیے خود میں کبھی کی جم گئی ہے
اور شیشوں پر بنا ہر عکس دیتا ہے صدائیں
گھر کی بے ترتیبیاں ساری تمہیں واپس بلائے جا رہی ہیں
اور اس پر المیہ یہ ہے کہ مجھ کو
چائے
وہ بھی ایک ہی کپ،
خود بنانا پڑ رہی ہے!
٭٭٭
کچی نیند سے جاگی آنکھیں
اس کی بوجھل سی دلربا آنکھیں
میری جانب کبھی جو اٹھتی ہیں
مجھ کو محسوس ہونے لگتا ہے
میرا سارا وجود وزنی ہے
اس کی ہلکی سی مسکراہٹ سے
اس کے اک نیم جاں تبسم سے
٭٭٭
مجھے تم یاد آتے ہو
اگر تم مجھے یاد آؤ
تو اس قدر یاد مت آنا
کہ میں تمہیں سارے کا سارا
یاد کر لوں!
کہیں ایسا نہ ہو
کہ پھر مجھے یاد آنے کے لیے
تم تھوڑا سا بھی باقی نہ رہو!
٭٭٭
کانچ کی گڑیا
سنو!
اے کانچ کی گڑیا
تمہیں چھونے کی خواہش سے بھی ڈرتا ہوں
کہیں پر آنچ نہ آئے
کہیں کچھ ٹوٹ نہ جائے
سنو اے ماہ رُو لڑکی
تمہیں میں نے بتانا ہے
تمہاری صندلیں خوشبو
مجھے محصور رکھتی ہے
محبت کے سحر میں
تم مجھے اتنا بتا ؤ تو!
بھلا تم کون ہو؟
اے ماہ وش
اے ماہ پارہ
چاندنی جیسی
تمہارے دور جانے سے
نہ جانے کیوں مری اب سانس رُکتی ہے
مجھے کیوں موت کا اِحساس ہوتا ہے
سنو!
اے دلربا لڑکی
مجھے دل میں جگہ دے دو
میں صدیوں سے اکیلا ہوں
تمہاری پُر فسوں آنکھوں میں رہنا ہے
مرے سارے ہی لفظوں کو
فقط اپنی زباں دے دو
مری یہ زندگی ڈوبی ہوئی ہے گھپ اندھیروں میں
سنو تم نور ہو تم تیرگی میں نور بھر دو ناں
مجھے سب سے چھپا لو ناں
مجھے اپنا بنا لو ناں
کبھی پیڑوں سے ملنے جاؤ تو
جس پیڑ پر تم سب زیادہ
سبز پتے دیکھ لو تو اس پہ اک پتھر سے
میرا اور اپنا نام لکھنا
اور دونوں نام لکھ کر یہ بھی لکھ دینا
ہوا، آندھی کوئی طوفان
یا غم کا کوئی صحرا
کسی بھی راہ میں آئے
کوئی بھی رُت ہمیں اک دوسرے سے
یوں جدا اَب کر نہیں سکتی
محبت مر نہیں سکتی
٭٭٭
کہو تم کیا کرو گے
کبھی جب شام ڈھلتے
پکارو گے کسی کو
کسی کا نام لو گے
کوئی جب دور ہو گا
تھکن سے چُور ہو گا
تو پھر تم کیا کرو گے؟
مناؤ گے کسے تم؟
کسے دیکھا کرو گے؟
کہو تم کیا کرو گے؟
ذرا سی برہمی گر
جدائی کا سبب ہو
تو پھر یہ جان لینا
محبت یہ نہیں ہے
ذرا سی بات پر بھی
اگر روٹھا کرو گے
تو پھر تم زندگی کو
بسر تنہا کرو گے
تو پھر تم کیا کرو گے؟
تو پھر کس سے کہو گے
کہ سر میں ہاتھ پھیرے
کہ سر میں درد ہے ناں
تمہاری برہمی سے
کوئی جب دور ہو گا
تھکن سے چور ہو گا
تو سر میں درد لے کر
یونہی رویا کرو گے
نظر بھی چیخ اٹھے گی
جگر تک درد ہو گا
جو لاکھوں درد سہہ کر
کسی سے دور ہو کر
تھکن سے چور ہو کر
کبھی کا مر چکا ہے
تو اس ہنستے ہوئے کو
اگر دیکھا کرو گے
بہت ہی دیر تک تم
بہت رویا کرو گے
تو پھر تم کیا کرو گے؟
کہو تم کیا کرو گے؟
٭٭٭
میرے بعد
میری آنکھوں، باتوں میں اور
میرے سارے ہی لفظوں میں
تیری باتیں، تیرا چہرہ
بالکل صاف نظر آتا ہے۔
میرے بعد بھی کب لوگوں نے
تجھ کو جینے دینا ہے۔۔
٭٭٭
محبت روٹھ جاتی ہے
یہ ہے اک کانچ کی گڑیا یہ گر کر ٹوٹ جاتی ہے
یہ اک لمبی مسافت سے کبھی جب لوٹ آئے تو
یہ بن کر آبلہ پاؤں کا اکثر پھوٹ جاتی ہے
تمہیں میں نے کہا بھی تھا اسے مت آزمانا تم
کہ ایسے آزمانے سے محبت روٹھ جاتی ہے
٭٭٭
اور اِک تم ہو کہ بس۔۔۔
عمر کے ویراں پلوں میں
لہلہاتا سرد جھونکا
آتشی سا پیرہن اوڑھے ہوئے
آتا ہے لگ جاتا ہے سینے سے
اچانک ذات کی ویرانیاں
آ کر اسی لمحے
نظر کے سامنے یوں مشتعل انداز میں
اُدّھم مچا دیتی ہیں
جس کے بعد منظر خون آلودہ نظر آتا تو ہے
محسوس لیکن حد سے زیادہ ہونے لگتا ہے
اور ایسے میں
اکیلا میں
وہ تعزیراتِ چاہت کاٹنے لگتا ہوں
تن تنہا
میں اپنی ذات کی ویرانیوں میں
خود کو ہی آواز دیتا ہوں
اور اک تم ہو
مسلسل جو
تماشا دیکھنے میں محو رہتے ہو۔۔
٭٭٭
جانے کیوں!
الجھے بالوں والی لڑکی
سلجھی سلجھی باتیں کر کے
کیوں مجھ کو الجھا دیتی ہے؟
٭٭٭
وہ کون چُپ تھا؟
وہ کون چپ تھا؟
کہ جس کی آنکھیں جو بول اٹھتیں،
تو پھر جہاں کے سکوت سارے ہی ٹوٹ جاتے!
وہ کون ایسا گلِ صِفَت تھا؟
سبک خرامی تھی ختم جس پر
وہ ہولے ہولے سے اپنے نازک قدم جو رکھتا
تو رہگزر بھی مہک سی اٹھتی
وہ چاہتوں کی ردائیں اوڑھے جہاں ٹھہرتا
تو گھر بناتا محبتوں کے
جو گر نہ پاتے
نہ ٹوٹ سکتے تھے اس زمانے کی افراتفری کے موسموں میں
مگر زمانے گزر گئے ہیں
یہ کون چپ ہے؟
کہ جس کی چپ سے وجود گم ہے
اذیتوں میں
کوئی تو اس کو بتا کے آئے
کوئی تو اس کو پیام دے ناں
کوئی کہے ناں!
کوئی تو پوچھے!!!
وہ جس کے ہونے سے زندگی تھی
کہاں پہ گم ہے؟؟؟
یہاں پہ ہر سُو اداسیوں کا ہجوم کیوں ہے؟
فقط دکھوں کی لپیٹ کیوں ہے؟
زمیں فسادی بنی ہوئی ہے!
یہ آسماں بھی تو چڑچڑا سا ہوا ہے کیونکر؟
کوئی تو جا کر کہے ناں اس سے
نظر اٹھائے۔۔۔
سکوت توڑے
وہ جو بھی جیسا بھی ہے وہ بولے
وہ کون چپ تھا؟
جو اپنی آنکھوں سے بے تحاشہ ہی بولتا تھا!
یہ کون چپ ہے؟
کہ جس کی آنکھوں میں رتجگوں کے عذاب ہیں بس۔۔۔۔
٭٭٭
عہدِ نارسائی میں
عہدِ نارسائی میں، خوابِ زندگی لے کر
دور تک بھٹکتے تھے
جانتے تو تم بھی تھے!
راکھ راکھ ہو کر بھی، خاک خاک ہو کر بھی
ہاتھ کچھ نہیں آتا
خواب کی مسافت ہے، ہاتھ خالی رہتے ہیں
مانتے تو تم بھی تھے!
اور باوجود اس کے نیند کو لٹا کر بھی
چین کو گنوا کر بھی،
ہر شبِ عبادت میں، زار زار اکھیوں کے
اشک رکھ ہتھیلی میں،
ہچکیوں کے پھندے میں، میرا نام لے لے کر،
مجھ کو اپنے مولا سے
مانگتے تو تم بھی تھے!
عشق کے عقیدے میں، فہم کیا؟ فراست کیا؟
کارِ عقل کیا معنی؟
عشق کے مخالف گر لاکھ ہی دلیلیں ہوں
جس قدر حوالے ہوں، مستند نہیں ہوتے
مانتے تو تم بھی تھے!
اور ساری دنیا سے، پھر چھڑا کے دامن کو
میری ذات میں آ کر، خود کو سونپ دینے کا
سوچتے تو تم بھی تھے!
اب کی بات چھوڑو تم۔۔
اب میں کچھ نہیں کہتا
کچھ نہیں کہوں گا میں،
اب فقط سہوں گا میں،
اب تو چپ رہوں گا میں
کچھ گلہ نہیں تم سے،
یاد بس دلایا ہے
اس طرح سے ہوتا تھا
عہدِ نارسائی میں
اب میں کچھ نہیں کہتا۔۔۔
٭٭٭
تمہیں ڈھونڈتے ہیں
اور کیا عالمِ وارفتگی ہو
ہم غمِ دنیا سے گھبرائے ہوئے
جب بھی روتے ہیں تمہیں ڈھونڈتے ہیں
٭٭٭
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
مانتا ہی نہیں روایت کو
شدتوں کو زوال آتا ہے
لوگ بھی ایک سے نہیں رہتے
بات گر اک جگہ سے نکلے تو
وہ بھی چہرے بدلتی رہتی ہے
زلف کالی گھنی، سنہری ہو
اس میں چاندی اُتر ہی آتی ہے
لوگ جو پیار کرنے والے ہوں
ان کا شیرینیوں بھرا لہجہ
رفتہ رفتہ بدلتا جاتا ہے
رنگ رُخ کا پگھلتا جاتا ہے
اور پھر تم بھی کون ایسے ہو
جو امر ہو، سدا رہو گے تم
کب تلک مجھ کو خط لکھو گے تم
ساتھ کب تک مرے ہنسو گے تم
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
اس کو ڈھلنا ہے ڈھل ہی جائے گا
رنگ کیا کیا ہمیں دکھائے گا
تم پریشان بس نہیں ہونا
میں اگر سنگ چل نہیں پاؤں
میں اگر ساتھ رہ نہیں پاؤں
سارے الزام میرے سر لکھنا
میری مجبوریاں بھلا دینا
تم مجھے صرف بے وفا لکھنا
تم مِری چاہتوں کو چاہو تو
تم مِرے رابطوں کو چاہو تو
بے وفائی کی انتہا لکھنا
اور مجھ کو بہت بُرا لکھنا
مجھ کو لیکن یقین ہے اک دن
جب کبھی تم اُداس بیٹھو گے
جب مِرے دکھ تمہیں ستائیں گے
مدتوں بعد جب مری باتیں
تم کسی اور کو سناؤ گے
اور کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے
آخری بات یہ کہو گے تم
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں
ہونٹ دھیرے سے کپکپائیں گے
پھر پُر اسرار سی ہنسی آ کر
ایسے ہونٹوں پہ بیٹھ جائے گی
اک نمی وقت کی بَلی چڑھ کے
یونہی آنکھوں میں پھیل جائے گی
وقت بھی کیا عجیب شے ہے ناں!
٭٭٭
اجنبی لڑکی
سنو!
اے اجنبی لڑکی
تمہیں میں اجنبی کہتا تو ہوں لیکن
تمہیں میں اجنبی کب مانتا ہوں!
مجھ میں سکت ہی نہیں
میری مجال اتنی نہیں ہے کہ
تمہارے جس قدر بھی ہیں حوالے
اب میں ان سے کٹ سکوں
میں پھر تمہاری راہ سے بھی ہٹ سکوں
تم سے جدائی موت جیسی ہے
طبیعت مضطرب سی ہے
تمہارے بن
ادھورا پن مجھے اب چاٹنے کو ہر گھڑی رہتا ہے میرے پاس ہی
پہلو میں بیٹھا
زور سے جب چیختا ہے
سچ بتاؤں؟
روح کے اندر بلا کا درد ہوتا ہے
اداسی پھیل جاتی ہے
وہ ناصر کاظمی کہتے جو تھے
کہ گھر کی دیواروں پہ ان کی
کھول کر یہ بال سوئی تھی۔۔
تمہیں اب کیا بتاؤں
اجنبی لڑکی
یہاں کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ عجب سا ہے
اداسی بال کھولے آ تو جاتی ہے
مگر سوتی نہیں
نا جاگتی ہے
نا ہی کوئی بات کرتی ہے
فقط خاموش ہے
مدت سے خاموشی کی چادر اوڑھ کر
اپنے لبوں میں ہی
نجانے کون سا منتر پڑھے جاتی ہے
اور پھر پھونک دیتی ہے
مری لاچاریوں پر بھی
مری بیداریوں پر بھی
مگر جب بھی تمہاری یاد آتی ہے
تو پھر یہ چیختی ہے
اور مرے کانوں میں وحشت گونجنے لگتی ہے
اور اندر تلک جاتی ہے
میری روح کو زخموں کا پہناوا عطا کر کے
نجانے پھر کہاں پر لوٹ جاتی ہے
اداسی بین کرتی ہے
تو پھر بے ساختہ میرے لبوں سے یہ نکلتا ہے
تمہیں میرا یقیں آتا نہیں کیوں کر؟؟
سنو اے اجنبی لڑکی
بتاؤ کس طرح سے میں تمہاری روح میں اتروں؟
بتاؤ کس طرح باور کراؤں میں تمہیں کیسے بتاؤں؟
کہ مجھے تم سے محبت ہو رہی تھی
ہو گئی تھی
ہو گئی ہے
اور بہت ہی دور تک ہوتی چلی جائے گی
میری اجنبی لڑکی
مجھے تم سے محبت بے تحاشہ ہے
بہت زیادہ سے زیادہ ہے
مگر جب پوچھتی ہو
کس قدر ہے
تو نجانے کیوں
تمہیں دکھلا نہیں پاتا
تمہیں بتلا نہیں پاتا
یقین جانو
محبت ناپنے کا کوئی بھی آلہ نہیں ہے پاس میرے
نا ہی میں نے اس طرح کی کوئی بھی خواہش کبھی کی ہے
کہ میں تم کو کبھی لفظوں میں بتلاؤں
کہ ہاں اتنی۔۔
ذرا سی۔۔
اور تھوڑی۔۔
اور زیادہ سی۔۔
یہاں تک بس۔۔
نہیں اے اجنبی لڑکی
محبت کب سماتی ہے
سمندر میں بتاؤ تو
نہ کوئی لفظ ایسا ہے
بتائے جو
کہ ہاں اتنی محبت ہے
یہاں سے ہے شروع اور بس یہاں تک ہے
مگر دیکھو
میں بے پایاں محبت تم سے کرتا ہوں
کنارا ہی نہیں اس کا
کبھی آؤ
کبھی تو ڈوب کر دیکھو
تمہیں شکوہ ہے تو بس یہ
کہ میں کہتا نہیں تم سے
تمہیں خود جان جانا چاہیے تھا ناں
مرے اندر بھی رہتی ہو
مگر تم بے خبر کیوں ہو؟
مری اس زندگانی سے جڑے سارے حوالوں سے جڑی
میری فقط
میری ہی ذاتی
اک مری اپنی
مری اے اجنبی لڑکی
مجھے تم سے محبت ہے
محبت ہے
محبت ہے
بہت زیادہ محبت ہے
بہت زیادہ سے بھی زیادہ محبت ہے
مری اے اجنبی لڑکی۔۔۔!
٭٭٭
ماخذ:
https://zainshakeel.blogspot.com/p/december-2015.html
OOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں