اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


چہل حدیث بنام انیس خواتین ۔۔۔ غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحی، نظامی

چالیس احادیث کا ایک نیا مجموعہ

چہل حدیث

بنام

انیس خواتین

از قلم

غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحی، نظامی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

خواتین  و طالبات کے لیے چالیس احادیث کا شان دار مجموعہ

چہل حدیث

بنام

انیس خواتین

غیاث الدین احمد عارفؔ مصباحی، نظامی

پیش لفظ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ وَنُسَلِّمُ عَلیٰ حَبِيْبِہِ الْكَرِيْمِ سَيِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ آلِہٖ وَأصْحَابِہٖ أجْمَعِيْنَ. أمَّابَعْدُ:

امت مسلمہ میں ’چہل احادیث‘ جمع کرنے کا معمول صدیوں سے جاری ہے اور اس عنوان پر تقریباً ہر زبان میں رسالے دستیاب ہیں ۔اس عمل کا سب سے بڑا مُحَرِّک یہ ہے کہ ہمارے کریم آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے:

مَنْ حَفِظَ عَلٰی اُمَّتِیْ اَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا مِنْ اَمْرِ دِیْنِھَا بَعَثَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْ زُمْرَۃِ الْفُقَہَاءِ وَالْعُلَمَاءِ۔

یعنی :’’جس شخص نے میری امت کی حفاظت کی خاطر دین کے معاملے میں چالیس احادیث حفظ کیں، اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے روز فقہا اور علما کے گروہ میں سے اُٹھائے گا‘‘۔

نیز اسلامی کتب کے ذخیرے میں کچھ اعداد کا جگہ جگہ ذکر آیا ہے انھیں میں ایک ’’چالیس‘‘ کا عدد بھی ہے۔ جس کی اہمیت و فضیلت کی کچھ مثالیں یوں ہیں، مثلاً فرمایا گیا کہ:

جو چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھے گا اُسے دو پروانے (آگ سے نجات اور نفاق سے برأت) عطا کئے جائیں گے۔

مہاجرین فقرا، اغنیا سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔

اگر نمازی کے آگے سے گزرنے کی سزا معلوم ہو جائے تو چالیس سال تک کھڑا رہنا زیادہ آسان ہو گا بنسبت اُس کے آگے سے گزرنے کے۔

جس شخص نے حج کیا ہو اُس کے لیے جہاد میں جانا چالیس حج سے افضل ہے۔

زکاۃ میں مال کا چالیسواں حصہ ادا کیا جاتا ہے۔

ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ رب العزت نے چالیس سال کی عمر مکمل ہونے کے بعد نبوت کے اعلان کا حکم فرمایا۔

اکثر انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی اسی عمر میں نبوت کا اعلان کیا۔

چالیس دن میں تخلیق انسانی میں تبدیلی آتی ہے، خون سے لوتھڑا، پھر گوشت وغیرہ بنتا ہے۔

حضرت یونس علیہ السلام چالیس دن تک مچھلی کے پیٹ میں رہے۔

حضرت موسی علیہ السلام تورات لینے کے لیے چالیس دن تک کوہِ طور پر معتکف رہے۔

بنی اسرائیل اپنی غلطی کی سزا میں چالیس سال تک وادی تیہ میں بھٹکتے رہے۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر ذبح کیا جانے والا مینڈھا چالیس سال تک جنت میں چرتا رہا وغیرہ۔

غرض چالیس کے عدد کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔  چناں چہ اسی فضیلت و اہمیت کے پیش نظر مجھ حقیر سراپا تقصیر نے بھی ’’چہل احادیث‘‘ کا یہ مجموعہ بنام ’’انیس خواتین‘‘ ترتیب دینے کی سعادت حاصل کی ہے، اس میں ان احادیث مبارکہ کو جمع کیا گیا ہے جن کا تعلق خصوصاً عورتوں سے ہے، ہر حدیث پاک کی ایک مختصر تشریح بھی کی گئی ہے تاکہ مفہوم سمجھنے میں آسانی ہو۔

پیش نظر ’’چہل حدیث‘‘ کا یہ مجموعہ اگرچہ خواتین کے نام منسوب کیا گیا ہے مگر یہ در حقیقت ہر فرد کے لیے یکساں مفید ہے اور کیوں نہ ہو احادیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم ساری کائنات کے لیے مشعل راہ ہیں۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ عالی میں دعا ہے کہ اس رسالے کی اشاعت و نظر ثانی نیز ترتیب و ٹائپنگ میں جن احباب نے حصہ لیا ہے انھیں اور مجھ گنہ گار کو سرکار کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل دارین کی سعادتیں عطا فرمائے۔

غیاث الدین احمد عارف ؔمصباحیؔ نظامیؔ

مدرسہ عربیہ سعید العلوم یکما ڈپو، لکشمی پور، ضلع مہراج گنج(یوپی)

حدیث نمبر۔  ۱: علم دین کا سیکھنا

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  ”طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَۃٌ عَلَی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘۔

(سنن ابن ماجہ:  رقم:  ۲۲۴)

ترجمہ:  حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد، عورت)پر فرض ہے‘‘۔

سبق:   اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ ہر مسلمان پر(خواہ مرد ہو یا عورت) علم حاصل کرنا فرض ہے۔  علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اِس حدیثِ پاک کے مطابق جو علم سیکھنا فرض ہیں، وہ اِس طرح ہیں:

ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اُن بُنیادی عقائد کا علم حاصِل کرے، جن سے آدمی صحیح العقیدہ مسلمان بنتا ہے اور جن کے اِنکار و مخالَفَت سے کافِر یا گُم راہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد طہارت یعنی پاکی اور صفائی کا علم حاصل کرے اور ساتھ ہی ناپاک چیزوں اور اُن سے پاکی حاصل کرنے کے بارے میں جانکاری حاصل کرے۔  نماز کے مسائل یعنی اس کے فرائض و شرائط و مُفسِدات (یعنی وہ اعمال جن سے نماز ٹوٹ جاتی ہے)سیکھے تاکہ نَماز صحیح طور پر ادا کر سکے۔  رَمَضانُ الْمبارَک کے روزوں کے مسائل جانے۔ زکاۃ کے مسائل سیکھے تاکہ مالِکِ نصابِ ہونے پر زکاۃ صحیح طرح ادا کر سکے۔ صاحِبِ اِستِطاعت ہو تو حج کے مسائل سیکھے۔ نِکاح کرنا چاہے تو اس کے ضروری مسائل معلوم کرے۔ تاجِر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل کی جانکاری رکھے، کاشتکار (و زمیندار) کھیتی باڑی کے مسائل سیکھے۔  ملازِم بننے اور ملازِم رکھنے والے ملازمت سے متعلق مسائل کی معلومات رکھیں۔ یعنی ہر مسلمان عاقِل و بالِغ مرد و عورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسائل سیکھنا فرضِ عین ہے۔ اسی طرح ہر ایک کے لیے حلال و حرام کا جاننا بھی ضروری ہے۔ یوں ہی زندگی کو خوشگوار بنانے والے پوشیدہ اعمال مثلاً ً عاجِزی، اِخلاص اور توکُّل وغیرہ اور ان کو حاصِل کرنے کا طریقہ اسی طرح پوشیدہ گناہ مثلاً تکبُّر، رِیا کاری، حَسَد وغیرہ کا جاننا بھی انتہائی کارآمد ہے۔

ابن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے اس حدیث کی تفسیر کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ:  اس سے مراد یہ ہے کہ جب کسی مسلمان کو کسی مسئلہ کی ضرورت پڑے تو کسی عالم سے پوچھ لینا ضروری ہے تاکہ اس کا علم حاصل ہو، اور اس کی طرف اشارہ آیت:  «فاسألوا أھل الذکر» میں ہے۔

حدیث نمبر۔  ۲:  اپنی اولاد کو نمازی بنائیں

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  مُرُوا أَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَھ‘مْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِینَ، وَاضْرِبُوھُمْ عَلَیْھَا، وَھ‘مْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوا بَیْنَھ‘مْ فِی الْمَضَاجِعِ۔

(سنن أبی داود، رقم:  ۴۹۵)

ترجمہ:   رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”جب تمھاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو تم ان کو نماز پڑھنے کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کے ہو جائیں تو انھیں اس پر (یعنی نماز نہ پڑھنے پر)مارو، اور ان کے سونے کے بستر الگ کر دو‘‘۔

سبق:  اس حدیث پاک میں ہمیں اس بات کی تعلیم دی گئی ہے کہ جب ہمارے بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو ان کے بستر الگ الگ کر دِیے جائیں۔  چاہے وہ حقیقی بھائی بہن ہی کیوں نہ ہوں۔  مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر و نواہی اور دیگر آداب کی تلقین و مشق کا عمل شروع ہو جانا چاہیے تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے ہمارے بچے بچیاں اسلامی احکام پر عمل کرنے کے عادی ہو جائیں۔

سات سال کی عمر میں اولاد کو نماز کا حکم دیا جائے بلکہ ان کے سامنے والدین خود پابندی سے نماز ادا کر کے عملی نمونہ پیش کریں تاکہ انھیں دیکھ کر بچے ان کے رنگ میں ڈھلنے کی کوشش کریں۔  والدین نماز پنج گانہ ادا کرتے وقت بچے کو اپنے ساتھ کھڑا کریں، کیوں کہ بچہ جب پروان چڑھنے لگتا ہے تو وہ ہر عمل والدین کو دیکھ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  لہٰذا وہ جب نماز پڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو بھی وہ اپنے والدین کی ہی پیروی کرتا ہے اور وہ شکل و صورت اُس کے ذہن میں پوری طرح نقش ہو جاتی ہے۔  پھر وہ ساری زندگی اُسی کے زیر اثر رہتا ہے۔

بچے گھر میں زیادہ تر اپنی ماں کے زیر سایہ رہتے ہیں۔  ماں انھیں جو سکھاتی ہے وہ جلد سیکھ جاتے ہیں۔  اس لیے اچھی ماں کا یہ فریضہ ہے کہ وہ خود بھی نماز ادا کرے، چھوٹی عمر میں ہی بچے کو اپنے ساتھ نماز پڑھانا شروع کر دے۔

والدین اِس بات کا خاص خیال رکھیں کہ اُن کے بچے بُری محفل میں نہ بیٹھیں، کیونکہ جن بچوں کو بُری محفل سے بچنے کی ترغیب نہیں دی جاتی وہ نہ صرف بُرے لوگوں کے عادات و اطوار سے متاثر ہوتے ہیں بلکہ اُنہی کا عملی روپ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔

آپ کے بچے بچیاں جب اسکول جانے لگیں تو اسکول جانے کے دوران اور واپس آنے کے بعد نگرانی کریں کہ وہ کہاں اور کن کن لوگوں سے ملتے ہیں، تاکہ وہ غلط افراد کے درمیان وقت نہ گزاریں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے موبائل اور ان کے دیکھے جانے والے پروگراموں پر کڑی نظر رکھیں اور ان کی کتابوں کی الماری اور بیگ کو بھی چیک کرتے رہیں کہ کہیں ان میں اخلاق سوز رسالے یا کوئی ممنوعہ مواد تو موجود نہیں ہیں۔

بچوں کو اچھی مجلس اور باکردار لوگوں سے میل جول رکھنے کی ترغیب دیں، انھیں میلاد اور دینی محفلوں میں لے جایا کریں کیوں کہ جب بچے دین کی باتیں سنیں گے تو وہ ان کے دل میں اُتریں گی۔  پھر ان اچھی باتوں اور نیک صحبت کی برکت سے بچوں کا ذہن بھی معطر ہو گا اور اُن میں اچھی مجلس میں جانے کی رغبت بھی پیدا ہو گی۔  یوں اچھی صحبت کے فوائد سے مستفید ہو کر وہ معاشرے کے مفید اور مثالی شہری بن سکتے ہیں۔

حدیث نمبر۔  ۳: عورت اسلام سے پہلے

قَالَ عُمَرُ:  وَاللہِ إِنْ کُنَّا فِی الْجَاھِلِیَّۃِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّی أَنْزَلَ اللہُ فِیھِنَّ مَا أَنْزَلَ، وَقَسَمَ لَھ‘نَّ مَا قَسَمَ۔

(صحیح البخاری، رقم:  ۴۹۱۳)

ترجمہ:   حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:  اللہ کی قسم! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی۔  یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کیے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کیے جو مقرر کرنے تھے۔

سبق:   اسلام سے پہلے عرب میں عورت کی خاندانی زندگی نہایت قابل رحم تھی۔  قدر و منزلت تو درکنار اسے جانوروں سے زیادہ وقعت نہیں دی جاتی تھی اور تو اور عورت، جانوروں اور دوسرے ساز و سامان کی طرح رہن تک رکھی جا سکتی تھی۔  یہاں تک کہ فروخت بھی کی جاتی تھی۔  غرضے کہ وہ محض مرد کی خواہشات نفسانی کی تسکین کا ذریعہ تھی اور مرد پر اس کی طرف سے کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی تھی۔  یہ تو اسلام نے بتایا کہ عورت کے بھی مرد پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مرد کے عورت پر ہیں اور وہ ہر طرح کے انصاف اور نیک سلوک کی حق دار ہے۔

اسلام میں عورتوں کے حقوق اور عزت و احترام کے اس تذکرے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانی تہذیب کے اس مرحلے پر جب عورت کو جانوروں سے بھی بدتر تصور کیا جاتا تھا اور اسے کسی عزت و تکریم کا مستحق نہیں سمجھا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورت کو وہ حقوق عطا فرمائے جس سے اسے تقدس اور احترام پر مبنی سماجی و معاشرتی مقام نصیب ہوا۔  اور آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی یہ صرف اسلام کا عطا کردہ ضابطہ حیات ہے جہاں عورت کو تکریم اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت میسر آ سکتی ہے۔

حدیث نمبر۔  ۴: ماں کا بلند رُتبہ

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، قَالَ:  جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:  مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِی؟ قَالَ:  أُمُّکَ، قَالَ:  ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:  ثُمَّ أُمُّکَ، قَالَ:  ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:  ثُمَّ أُمُّکَ؟ قَالَ:  ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ:  ثُمَّ أَبُوکَ۔
(الصحیح لمسلم، رقم:  ۶۵۰۰)

‏‏‏‏ترجمہ:    سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا:  یا رسول اللہ! سب سے زیادہ میرے حُسن سلوک کا حق دار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”تیری ماں۔‘‘ وہ بولا:  پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”تیری ماں۔‘‘ وہ بولا:  پھر کون؟ فرمایا:  ”تیری ماں۔‘‘ وہ بولا:  پھر کون؟ فرمایا:  ”تیرا باپ۔‘‘

سبق:   خواتین اسلام کے لیے یہ بہت بڑی سعادت اور خوش بختی کی ہے کہ اللہ رب العزت نے انھیں ماں جیسا عظیم رتبہ عطا فرمایا ہے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اولاد پر ان کی خدمت کرنا باپ سے مقدم کیا ہے، کیوں کہ ماں بچے کے ساتھ بہت محنت کرتی ہے، نو مہینے حمل کی تکلیفیں برداشت کرنا، پھر پیدائش کے وقت سخت مشقتیں اُٹھانا، پھر دو سال تک دودھ کی شکل میں خون جگر پلانا، پھر پرورش و پرداخت کی بے شمار دقتیں جھیلنا، بیماری اور دُکھ میں ساتھ ساتھ رہنا۔  یہ سب ماں کی وہ قربانیاں ہیں کہ اولاد کے لیے ان کا احسان چُکا پانا، نا ممکن ہے۔ حالاں کہ باپ کی قربانیاں بھی بے حد اور بے شمار ہوتی ہیں اور اولاد کے لیے ممکن نہیں کہ کما حقہ اس کا حق ادا کر سکے مگر شریعت نے ماں کا درجہ مقدم رکھا ہے۔ اولاد کے لیے دونوں (ماں باپ) کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے، کیوں کہ ان کی رضا میں ہی اللہ و رسول کی رضا ہے، ماں باپ کو ناراض کر کے اللہ رب العزت اور اس کے رسولﷺ کو راضی کرنے کا خواب دیکھنا بہت بڑی بھول ہے۔

حدیث نمبر۔  ۵: ماں کی خدمت اور جہاد

عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ جَاھِمَۃَ السلَمِیِّ، قَالَ:  أَتَیْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:  یَا رَسُولَ اللہِ، إِنِّی کُنْتُ أَرَدْتُ الْجَھِادَ مَعَکَ أَبْتَغِی بِذَلِکَ وَجْہَ اللہِ وَالدَّارَالْآخِرَۃَ، قَالَ:  وَیْحَکَ، أَحَیَّۃٌ أُمُّکَ؟ قُلْتُ:  نَعَمْ، قَالَ:  ارْجِعْ، فَبَرّھَا، ثُمَّ أَتَیْتُہُ مِنَ الْجَانِبِ الْآخَرِ، فَقُلْتُ:  یَا رَسُولَ اللہِ، إِنِّی کُنْتُ أَرَدْتُ الْجَھِادَ مَعَکَ أَبْتَغِی بِذَلِکَ وَجْہَ اللہِ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ، قَالَ:  وَیْحَکَ، أَحَیَّۃٌ أُمُّکَ، قُلْتُ:  نَعَمْ یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ:  فَارْجِعْ إِلَیْہَا فَبَرّھَا، ثُمَّ أَتَیْتُہُ مِنْ أَمَامِہِ فَقُلْتُ:  یَا رَسُولَ اللہِ إِنِّی کُنْتُ أَرَدْتُ الْجَھِادَ مَعَکَ أَبْتَغِی بِذَلِکَ وَجْہَ اللہِ وَالدَّارَ الْآخِرَۃَ، قَالَ:  وَیْحَکَ، أَحَیَّۃٌ أُمُّکَ، قُلْتُ:  نَعَمْ یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ:  وَیْحَکَ الْزَمْ رِجْلھَا فَثَمَّ الْجَنَّۃُ۔

(سنن ابن ماجہ، رقم:  ۲۷۸۱)

ترجمہ:   حضرت معاویہ بن جاہمہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہو کر عرض کیا:  میں اللہ کی رضا اور دار آخرت کی بھلائی کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کرنا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”افسوس، کیا تمھاری ماں زندہ ہے؟‘‘ میں نے کہا:  ہاں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”واپس جاؤ، اور اپنی ماں کی خدمت کرو‘‘ پھر میں دوسری جانب سے آیا، اور میں نے عرض کیا:  میں اللہ کی رضا جوئی اور دار آخرت کی خاطر آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”کیا تیری ماں زندہ ہے‘‘؟ میں نے پھر کہا:  ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”اس کے پاس واپس چلے جاؤ اور اس کی خدمت کرو‘‘، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سے آیا اور آپ سے عرض کیا:  اللہ کے رسول! میں نے اللہ کی رضا اور دار آخرت کے لیے آپ کے ساتھ جہاد کا ارادہ کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”افسوس، کیا تمھاری ماں زندہ ہے؟ میں نے جواب دیا:  ہاں! اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”افسوس! اس کے پیر کے پاس رہو، وہیں جنت ہے‘‘۔

سبق:   اس حدیث پاک سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ماں کا درجہ کتنا بلند ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابی رسول کو جہاد میں نہ بھیج کر انھیں ماں کی خدمت کرنے کا حکم فرمایا اور کہا کہ ’’ماں کے قدموں میں پڑے رہو یعنی اس کی خدمت کرو کیوں کہ جنت تو تمھاری ماں کے قدموں میں ہے‘‘۔

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ عام حالات میں جہاد فرض کفایہ ہے اس لیے بعض لوگ پیچھے رہ سکتے ہیں۔ جب والدین کی خدمت کرنے والا کوئی اور بیٹا نہ ہو تو جہاد کی نسبت والدین کی خدمت زیادہ اہم ہے۔ جس طرح جہاد سے جنت ملتی ہے اسے طرح والدین کی خدمت سے بھی جنت ملتی ہے۔  واضح ہو کہ ماں کی خدمت باپ کی خدمت سے زیادہ اہم ہے تاہم باپ کی ناراضی سے بھی بچنا ضروری ہے۔

حدیث نمبر۔  ۶: والدین کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  مِنَ الْکَبَائِرِ أَنْ یَشْتُمَ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ، قَالُوا:  یَا رَسُولَ اللہِ، وھَلْ یَشْتُمُ الرَّجُلُ وَالِدَیْہِ؟ قَالَ:  نَعَمْ، یَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَیَشْتُمُ أَبَاہُ وَیَشْتُمُ أُمَّہُ فَیَسُبُّ أُمَّہُ۔

(الصحیح لمسلم، رقم:  ۲۶۳)

ترجمہ:    حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘‘، صحابہ کرام (رضوان اللہ علیھم اجمعین) نے عرض کیا:  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم! بھلا کوئی آدمی اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے گا؟ آپ نے فرمایا:  ”ہاں، اگر وہ کسی کے باپ کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کے باپ کو گالی دے گا، اور اگر وہ کسی کی ماں کو گالی دے گا، تو وہ بھی اس کی ماں کو گالی دے گا‘‘۔

سبق:   ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے۔  کبیرہ گناہ وہ ہوتا ہے جس کی کوئی اسلامی سزا مقرر ہو، یا جس پر جہنم کی وعید ہو، یا جس پر لعنت یا غضب کا ذکر ہو۔ یہ گناہ، توبہ کے بغیر معاف نہیں ہوتے۔  اور اگر کوئی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے تو باقی چھوٹے گناہ اللہ تعالیٰ مختلف نیک اعمال کے ذریعے بھی معاف فرما دیتا ہے، جیسا کہ قرآن میں ہے کہ

«اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیْآتِ»

[ہود:  114] ”نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں۔‘‘

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کو ”اُف‘‘ تک کہنے اور جھڑکنے سے بھی منع فرمایا ہے: ارشاد باری تعالیٰ کا مفہوم ہے:  ”تم ان کو اُف تک نہ کہو اور نہ اُن کو جھِڑکو بلکہ اُن کو عزت سے مخاطب کرو‘‘۔ گالی دینا تو بہت بڑی بات ہے۔

حالاں کہ آج بہت سے ایسے بد تہذیب لوگ بھی ہیں جو خود اپنے ہی ماں باپ کو گالی دیتے ہیں بلکہ بعض خبیث ترین لوگ اپنے والدین کو مارتے ہیں اور گھروں تک سے نکال دیتے ہیں، کیا انھیں جہنم کے عذاب کا ذرا بھی خوف نہیں ہے؟

کچھ ایسے افراد ہیں جو اپنے والدین کو تو گالی نہیں دیتے مگر دوسروں کے ماں باپ کو گالی دینا کوئی عیب تصور نہیں کرتے تو وہ بھی جان لیں کہ اولاد اگر چہ والدین کو خود گالی نہ دے اور نہ ہی تکلیف دے، لیکن اولاد اگر ایسا کام کرے جس کے جواب میں کوئی ان کے ماں باپ کو گالی دے یا تکلیف پہنچائے تو یہ بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔  لہذا اولاد کا ایسا کام کرنا یا ایسی بات کرنا جس کے نتیجے میں والدین کو گالی دی جائے یا انھیں تکلیف پہنچے، حرام ہے، لہٰذا اگر اپنے والدین کو گالی سے بچانا ہے تو دوسرے کے والدین کو گالی نہ دیں اور نہ انھیں برا بھلا کہیں نیز اچھے اور نیک بن کر اپنے والدین کے لیے سُرخروئی کا باعث بنیں۔

حدیث نمبر۔  ۷: نیک بیوی کون؟

عَنْ أَبِی أُمَامَۃ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّہُ کَانَ یَقُولُ:  مَا اسْتَفَادَ الْمُؤْمِنُ بَعْدَ تَقْوَی اللہِ خَیْرًا لَہُ مِنْ زَوْجَۃٍ صَالِحَۃٍ، إِنْ أَمَرھَا أَطَاعَتْہُ، وَإِنْ نَظَرَ إِلَیْھَا سَرَّتْہُ، وَإِنْ أَقْسَمَ عَلَیْھَا أَبَرَّتْہُ، وَإِنْ غَابَ عَنْھَا نَصَحَتْہُ فِی نَفْسَھِا، وَمَالِہِ۔

(سنن ابن ماجہ، رقم:  ۱۸۵۷)

ترجمہ:    حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے:  ”تقویٰ کے بعد مومن نے جو سب سے اچھی چیز حاصل کی وہ ایسی نیک بیوی ہے کہ اگر شوہر اسے حکم دے تو اسے مانے، اور اگر اس کی جانب دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے، اور اگر وہ اس (کے بھروسے) پر قسم کھا لے تو اسے سچّا کر دکھائے، اور اگر وہ موجود نہ ہو تو عورت اپنی ذات اور اس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے‘‘۔

سبق:   نیک بیوی شوہر کے لیے رحمت ہوتی ہے، ازدواجی زندگی کو جنت کا نمونہ اور خوش گوار و پر سکون بناتی ہے، اس لیے ایک اچھی بیوی وہی ہے جو ان صفات کو ضرور اپنائے جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور نمونہ، حدیث پاک میں بیان فرمایا ہے۔

خوب صورت بیوی کو دیکھنے سے آنکھیں خوش ہوتی ہیں مگر خوب سیرت بیوی کو دیکھنے سے دل خوش ہوتا ہے، کتنے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بیویاں بہت حسین ہوتی ہیں ؛ لیکن ضدی اور جھگڑالو ہوتی ہیں اس لیے شوہر ان کی صورت دیکھنا پسند نہیں کرتا، لہذا بیوی کو چاہیے کہ اپنے کردار، اخلاق، خدمت و وفا داری اور حسنِ سلوک کے ذریعہ شوہر کے دل کو جیتنے کی فکر کرے اور اپنے اخلاق و کردار سے شوہر کے دل پر حکومت کرے، خود کو، بچوں کو اور گھر کو صاف ستھرا اور گھر کی چیزوں کو سلیقے سے رکھے۔

گھر میں شوہر آئے، تو مسکراہٹ سے استقبال کرے، جب وہ گھر سے جائے تو اسے دعاؤں کے ساتھ الوداع کرے، موقع کی مناسبت اور شوہر کی طبیعت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی ضروریات اور مشکلات سنائے، نیچی آواز سے بات چیت کی عادت بنائے، شوہر کے رشتہ دار و متعلقین کے ساتھ عزت و اکرام کا معاملہ کرے، کوئی کام ایسا نہ کرے جس سے شوہر کی نگاہ میں گِر جائے، یا بے وقعت اور بے وفا ثابت ہو جائے۔

حدیث نمبر۔  ۸‘ نیک بیوی دنیا کا بہترین متاع ہے

عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو:  أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم، قَالَ:  الدُّنْیَا مَتَاعٌ، وَخَیْرُ مَتَاعِ الدُّنْیَا:  الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ۔

(الصحیح لمسلم، رقم:  ۳۶۴۹)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:  ”دنیا متاع ہے (چند روزہ سامان ہے۔) اور دنیا کا بہترین متاع (فائدہ بخش سامان) نیک عورت ہے۔

سبق:   نیک عورت دنیا کی بہت بڑی نعمت ہے کیوں کہ وہ دنیا کے معاملات میں بھی اچھی مشیر ثابت ہوتی ہے اور شوہر کے لیے اچھی شریک حیات ہوتی ہے اور آخرت کے معاملات میں بھی خاوند سے تعاون کرتی ہے۔ اس طرح میاں بیوی دونوں کو بلند درجات حاصل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح نیک مرد بھی عورت کے لیے ایک ایسی ہی نعمت ہے۔

عورت کو چاہیے کہ اپنے خاوند کی فرماں بردار بن کر رہے نہ کہ اس کو اپنا فرماں بردار بنانے والی ہو۔  گھر میں اس کی بالا دستی کو تسلیم کرنے والی ہو نہ کہ اپنے کو بالا دست سمجھنے والی، خاوند کی بن کر رہنے والی ہو نہ کہ خاوند کو اپنا بنا کر رکھنے والی اور خاوند کے حق کو سمجھنے والی اور اس کو ادا کرنے والی ہو نہ کہ اس کے برعکس صرف اپنا ہی حق جتلانے اور منوانے والی ہو۔  جب شوہر باہر سے آئے تو عورت مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کرے، نہ کہ منہ بنا کر، اس صورت میں گھر جنت کا نمونہ بنا رہے گا۔

اس سے پہلے یہ حدیث گزر چکی کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ:  کون سی عورت بہتر ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:  ’’وہ عورت کہ جب خاوند اس کی طرف دیکھے تو اسے خوش کن نظر سے دیکھے، جب خاوند اس کو کسی بات کا حکم دے تو اسے بجا لائے اور عورت اپنے نفس اور خاوند کے مال میں اس کی خواہش کے برعکس ایسا رویہ اختیار نہ کرے جو اس کے خاوند کو ناپسند ہو۔  یعنی عورت کا رویہ اور اس کی ہیئت ایسی ہو کہ شوہر اس کو دیکھ کر باغ باغ ہو جائے۔

حدیث نمبر۔  ۹: بیوی اگر شوہر کا زخم چاٹ لے

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ، أَنَّ رَجُلًا أَتَی بِابْنَۃٍ لَہُ إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:  إِنَّ ابْنَتِی ھَذِہِ أَبَتْ أَنْ تَتَزَوَّجَ، قَالَ:  فَقَالَ لھَا:  أَطِیعِی أَبَاکِ۔  قَالَ:  فَقَالَتْ: لَا، حَتَّی تُخْبِرَنِی مَاحَقُّ ‌الزَّوْجِ ‌عَلَی زَوْجَتِہِ؟ فَرَدَّدَتْ عَلَیْہِ مَقَالَتھَا قَالَ:  فَقَالَ:  ‌حَقُّ ‌الزَّوْجِ ‌عَلَی زَوْجَتِہِ أَنْ لَوْ کَانَ بِہِ قُرْحَۃٌ فَلَحَسَتْھَا، أَوِ ابْتَدَرَ مَنْخِرَاہُ صَدِیدًا أَوْ دَمًا، ثُمَّ لَحَسَتْہُ مَا أَدَّتْ حَقَّہُ۔

(المصنف لابی شیبۃ، رقم:  ۱۷۱۲۲)

ترجمہ:    حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص اپنی لڑکی کو نبیﷺ کی بارگاہ میں لے کر آئے اور عرض کیا کہ میری بیٹی نے نکاح کرنے سے انکار کر دیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ:  تو اپنے باپ کی اطاعت کر، اس نے کہا نہیں، جب تک کہ آپ مجھے یہ نہ بتا دیں کہ شوہر کا بیوی پر کیا حق ہے؟ اس نے یہ بات کئی بار دہرایا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ’’بیوی پر شوہر کا حق اتنا (بڑا) ہے کہ اگر شوہر پر کوئی زخم ہو اور بیوی اسے چاٹ لے، یا اس کے نتھنوں سے پیپ یا خون بہہ نکلے اور وہ اسے چاٹ لے، تب بھی وہ اس کا حق ادا نہیں کر سکتی۔

سبق:   اس حدیث پاک کا اگرچہ یہ مطلب نہیں کہ اگر شوہر کو زخم ہو جائے یا اسے خون یا پیپ نکلے تو بیوی اسے اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کرے کیوں کہ اس طرح زخم یا خون کا زبان سے چاٹنا یقیناً ایک غیر فطری عمل ہے، بلکہ یہ محض شوہر کا مقام و مرتبہ سمجھانے کے لیے ایک محاورے کی طرح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسا مان لیا جائے کہ بیوی نے یوں شوہر کی خدمت کی تو اس حد تک خدمت کرنے پر بھی کماحقہ بیوی اپنے شوہر کا حق ادا نہیں کر سکتی۔  لہذا عورت کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنے شوہر کی تابعداری اور فرماں برداری کو پیش نظر رکھے۔

حدیث نمبر۔  ۱۰: جنت میں جانے والی خاتون

عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَۃ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِرِجَالِکُمْ مِنْ أھَْلِ الْجَنَّۃِ؟، قَالُوا:  بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ: النَّبِیُّ فِی الْجَنَّۃِ، وَالشّھَِیدُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالصِّدِّیقُ فِی الْجَنَّۃِ، وَالْمَوْلُودُ فِی الْجَنَّۃِ، ‌وَالرَّجُلُ ‌یَزُورُ أَخَاہُ فِی جَانِبِ الْمِصْرِ فِی الْجَنَّۃِ، أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِنِسَائِکُمْ مِنْ أھَْلِ الْجَنَّۃِ؟، قَالُوا:  بَلَی یَا رَسُولَ اللہِ، قَالَ:  الْوَدُودُ الْوَلُودُ الَّتِی إِنْ ظَلَمَتْ أَوْ ظُلِمَتْ قَالَتْ:  ھَذِہِ نَاصِیَتِی بِیَدِکَ، لَا أَذُوقُ غَمْضًا حَتَّی تَرْضَی۔

(المعجم الکبیر للطبرانی، رقم:  ۳۰۷)

ترجمہ:   حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”کیا میں تمہیں جنتی مردوں کی خبر نہ دوں؟ نبی جنت میں داخل ہو گا، صدیق جنت میں جائے گا، شہید جنتی ہو گا، (نا بالغ) بچہ جنتی ہو گا اور وہ آدمی جنت میں جائے گا جو شہر کے دوسرے کنارے میں بسنے والے بھائی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ملاقات کرنے کے لیے جاتا ہے۔  اب کیا میں تمہیں جنت میں داخل ہونے والی عورتوں کی خبر نہ دوں؟ ہر محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جنم دینے والی خاتون، کہ جب اس پر غصے ہوا جاتا ہے یا اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے یا اس کا خاوند اس پر غصہ ہوتا ہے تو وہ (اپنے خاوند) سے کہتی ہے:  یہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے، میں اس وقت تک نہیں سوؤں گی، جب تک کہا آپ مجھ سے راضی نہیں ہو جاتے۔‘‘

سبق:   اس حدیث پاک میں نبی کریمﷺ نے جنتی مردوں اور عورتوں کی تفصیل بتائی ہے۔ اس میں سرکارﷺ نے جنتی عورتوں کی تین صفات بتائی ہیں کہ عورت اپنے شوہر سے محبت کرنے والی ہو، زیادہ بچے جنم دینے والی ہو، شوہر اگر اس پر غصہ ہو جائے یا اس کے ساتھ برا سلوک کرے تب بھی اسے ہر ممکن طور پر راضی کرنے کی کوشش کرے یہاں تک کہ شوہر کو راضی کیے بغیر نہ سوئے۔

جہاں تک زیادہ بچے پیدا کرنے کا معاملہ ہے تو یہ اللہ کی مرضی پر منحصر ہے وہ جسے چاہے جتنی اولاد سے نوازے، لیکن اپنی طرف سے کوشش جاری رکھنی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ عورت یا مرد یہ سوچیں کہ زیادہ بچے ہوں گے تو ان کی پرورش کون کرے گا؟ ان کی تعلیم و تربیت کیسے ہو گی؟ کیوں کہ رزق کا ذمہ اللہ رب العزت کے ذمۂ کرم پر ہے۔  آج کل تو اس حوالے سے ایک نعرہ بھی دیا جاتا ہے کہ ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ اور اس پر عمل درآمد کے لیے حکومتیں خوب تشہیر کرتی ہیں، بعض ممالک میں اس پر عمل کرانے کے لیے سختی بھی برتی جاتی ہے، یہ سب اس لیے ہے کیوں کہ انھیں اللہ کی قدرت و طاقت کا علم نہیں ہے، جب کہ اس غیر فطری عمل کی وجہ سے بعض ممالک میں پیدائش کی شرح دن بدن گھٹتی جا رہی ہے اور وہ اپنے شہریوں کو دوبارہ زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ ہمارے نبیﷺ کا فرمان اور اسلام کا قانون ہی سب سے افضل و اعلیٰ ہے اور اسی پر عمل کرنے میں دنیا اور آخرت کی بھلائی پوشیدہ ہے، لہذا دنیا کے حسین اور دل فریب نعروں کا چکر چھوڑ کر قوانین اسلام اور فرامین نبویﷺ پر عمل کریں اور جنت کے حق دار بنیں۔

حدیث نمبر۔  ۱۱: جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  إِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَۃُ خَمْسھَا، وَصَامَتْ شھَْرھَا، وَحَفِظَتْ ‌فَرْجھَا، وَأَطَاعَتْ زَوْجھَا قِیلَ لھَا:  اُدْخُلِی الْجَنَّۃَ مِنْ أَیِّ ‌أَبْوَابِ الْجَنَّۃِ شِئْتِ۔

(مسند احمد بن حنبل، رقم:  ۱۶۶۱)

ترجمہ:   حضرت عبد الرحمٰن بن عوف سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  عورت جب اپنی پانچ نمازیں پڑھے اور ماہ رمضان کا روزہ رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے تو جنت کے جس دروازہ سے چاہے داخل ہو جائے۔

سبق:   اس حدیث پاک میں عورتوں کے لیے بہت بڑی بشارت ہے، لہذا ہر خاتون کو چاہیے کہ حدیث پاک میں مذکور پانچ باتوں اور دیگر احکام شرع پر عمل کرتی رہے تاکہ اس پر اللہ کا فضل ہو اور وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔

عورت اپنی پاکی کے زمانہ کی نمازیں ادا کرے، رمضان کے مہینے میں اگر پاک ہو تو روزہ رکھے ورنہ بعد میں قضا کرے اللہ کے فضل سے اسے رمضان کا ہی ثواب ملے گا (ان شاء اللہ) اپنی عزت کی حفاظت کرے کہ عزت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، نیز اپنے شوہر کی فرماں برداری کو اپنے لیے لازم کر لے کہ اسی میں اس کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

حدیث نمبر۔  ۱۲: جس کا شوہر راضی ہو

عَنْ مُسَاوِرٍالْحِمْیَرِیِّ، عَنْ أُمِّہِ، قَالَتْ:  سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَۃَ، تَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، یَقُولُ:  أَیُّمَا امْرَأَۃٍ مَاتَتْ وَزَوْج’ھَا عَنْھَا رَاضٍ دَخَلَتِ الْجَنَّۃَ.

(سنن ابن ماجہ، رقم:  ۱۸۵۴)

ترجمہ:   اُمُّ المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے سنا:  ”جو عورت اس حال میں مرے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔

سبق:   اس حدیث پاک میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی وفادار اور فرماں بردار رہے، اس کی خیرخواہی اور رضا جوئی میں کمی نہ کرے، اپنی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لیے تا دم آخر اس کو خوش رکھنے کی کوشش کرتی رہے، اللہ رب العزت اس کے بدلے میں اسے جنت الفردوس کی بے بہا نعمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔

حدیث نمبر۔  ۱۳: اگر خدا کے علاوہ کسی کا سجدہ جائز ہوتا

عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ:  أَتَیْتُ الْحِیرَۃَ فَرَأَیْتھُُمْ یَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَھ‘مْ، فَقُلْتُ:  رَسُولُ اللہِ أَحَقُّ أَنْ یُسْجَدَ لَہُ، قَالَ:  فَأَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ:  إِنِّی أَتَیْتُ الْحِیرَۃَ فَرَأَیْتھُُمْ یَسْجُدُونَ لِمَرْزُبَانٍ لَھ‘مْ، فَأَنْتَ یَا رَسُولَ اللہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ، قَالَ:  أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِی أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہُ؟ قَالَ:  قُلْتُ:  لَا، قَالَ:  فَلَا تَفْعَلُوا، لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَاءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ، لِمَا جَعَلَ اللہُ لَھ‘مْ عَلَیْہِنَّ مِنَ الْحَقِّ۔

(سنن أبی داود، رقم:  ۲۱۴۰)

ترجمہ:   حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ’’حیرہ شہر‘‘ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے زیادہ حق دار ہیں کہ انھیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر گیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول!(ﷺ) آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”بتاؤ کیا اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟‘‘ وہ کہتے ہیں:  میں نے کہا:  نہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”تم ایسا نہ کرنا، اگر میں (خدا کے علاوہ) کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ ان پر شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے۔

سبق:   سجدہ صرف اللہ وحدہ لا شریک کا حق اور اسی کے ساتھ خاص ہے، دوسرے کسی شخص کے لیے سجدہ قطعاً جائز نہیں ہے۔

نیز اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بیویوں پر اپنے شوہروں کا بہت زیادہ حق ہے جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ:  ’’اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں‘‘ یہ فرمان اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ بیویوں کے لیے لازم ہے کہ اپنے خاوندوں کی حد درجہ عزت و توقیر کریں اور ان کی ہر ممکن خدمت کو اپنا شعار بنائیں مگر ظاہر ہے کہ شرعی حدود و قیود کی پا بندی لازمی ہے۔  نیز یہ حدیث پاک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول کریمﷺ کے ساتھ کمال محبت کی واضح دلیل بھی ہے۔  اس لیے ہمیں بھی اپنے نبی پاکﷺ سے ٹوٹ کر عشق کرنا چاہیے۔

حدیث نمبر۔  ۱۴: لعنتی عورت

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِذَا دَعَا الرَّجُلُ امْرَأَتَہُ إِلَی فِرَاشِہِ فَأَبَتْ فَلَمْ تَأْتِہِ، فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْہَا، لَعَنَتْہَا الْمَلَائِکَۃُ حَتَّی تُصْبِحَ. (سنن أبی داؤد، رقم:  ۲۱۴۱)

ترجمہ:   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کرے اور اس کے پاس نہ آئے جس کی وجہ سے شوہر رات بھر ناراض رہے تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔

سبق:   اس حدیث پاک کی رو سے خاوند کی جنسی خواہش پوری کرنے سے بیوی کا (بلاوجہ) انکار کرنا کبیرہ گناہ ہے، یہ مرد کا عورت پر ایسا حق ہے جسے پورا کرنا عورت پر لازم ہے۔  اس کی بنیادی حقیقت تو یہی ہے جو رسولﷺ نے فرما دی ہے۔  نیز اس طرح بے شمار نفسیاتی اور اجتماعی برائیوں کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور انکار کی صورت میں بہت سے انفرادی، خاندانی اور معاشرتی فساد جنم لیتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہرگز نہیں کہ مرد عورت کی صحت اور طبیعت کا خیال نہ رکھے بلکہ ایک اچھے شوہر کی حیثیت سے اس کا بھی لازمی حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہر معاملے میں حُسن سلوک کا معاملہ کرے۔

حدیث نمبر۔  ۱۵: زیادہ تر عورتیں شوہر کی ناشکری کرتی ہیں

قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  أُرِیتُ النَّارَ فَإِذَا أَکْثَرُ أھَْلَھِا النِّسَاءُ یَکْفُرْنَ، قِیلَ:  أَیَکْفُرْنَ بِاللہِ، قَالَ:  یَکْفُرْنَ الْعَشِیرَ، وَیَکْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَی إِحْدَاھُنَّ الدّھَْرَ، ثُمَّ رَأَتْ مِنْکَ شَیْئًا، قَالَتْ:  مَا رَأَیْتُ مِنْکَ خَیْرًا قَطُّ۔

(صحیح البخاری، رقم:  ۲۹)

ترجمہ:   نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔  کہا گیا یا رسول اللہ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں۔  اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔  اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو۔  پھر تمھاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

سبق:   یہ بات تجربے سے معلوم ہے کہ عورتیں اپنے شوہروں کی بہت زیادہ ناشکری کیا کرتی ہیں، شوہر لاکھ محنت و مشقت سے ان کی خواہشات پوری کرے لیکن اگر کبھی ایک بار بھی ان کے من موافق نہ کر سکے تو فوراً کہہ پڑتی ہیں کہ:  تم نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ میں نے تو کبھی بھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔

اس حدیث پاک میں یہی بتایا گیا ہے کہ عورتوں کو اپنے شوہروں کی ناشکری نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ یہ عذاب جہنم کا سبب ہے، بلکہ ان کے سُکھ دُکھ کا ساتھی بن کر اُن کی اور اپنی زندگی خوشگوار بنانے کی کوشش کرنی چاہیے، اپنے شوہر کی نافرمانی اور ناشکری کرنا انتہائی بُری بات ہے اس سے ہر حال میں بچنا چاہیے۔

حدیث نمبر۔  ۱۶: بلا وجہ طلاق مانگنے والی عورت

عَنْ ثَوْبَانَ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  أَیُّمَا امْرَأَۃٍ سَأَلَتْ زَوْجھَا طَلَاقًا مِنْ غَیْرِ بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَیْھَا رَائِحَۃُ الْجَنَّۃِ.

(سنن الترمذی، رقم:  ۱۱۸۷)

ترجمہ:   حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:  ’’جو کوئی عورت اپنے شوہر سے بلاوجہ طلاق مانگے اُس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔

سبق:   اسلام کے نظام قانون میں طلاق کا اختیار مرد کے پاس ہے۔  مگر اس اختیار کو اس وقت ہی استعمال کرنے کا حکم ہے جب اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔  آخری چارے کے طور پر جائز ہونے کے باوجود طلاق کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔

عورتیں اتنی نادان ہوتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہو کر فوراً اپنے شوہر سے کہہ دیتی ہیں کہ ’’مجھے طلاق دے دو‘‘ جب کہ حدیث پاک سے صاف واضح ہے کہ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر سے بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو طلاق لینے پر مجبور کرے طلاق کا مطالبہ کیا، تو اس پہ جنت کی خوشبو حرام ہے۔ لہذا عورتوں کو اس بُری عادت سے فوراً توبہ کر لینا چاہیے۔

ہاں اگر عورت واقعی یہ محسوس کرتی ہو کہ اس کا اس کے شوہر کے ساتھ نباہ مشکل ہے تو خلع لینا جائز ہے، تاہم جس طرح مرد کو حتی الوسع طلاق سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، اسی طرح عورت کو چاہیے کہ جہاں تک خلع سے بچ کر گھر بسانا ممکن ہو، اس کی کوشش کرے۔

حدیث نمبر۔  ۱۷: بیوی کو لُقمہ کھلانا بھی ثواب

عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِی وَقَّاصٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قَالَ لَہ:  إِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَۃً تَبْتَغِی بَھِا وَجْہَ اللہِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَیْھَا، حَتّیٰ مَا تَجْعَلُ فِی فَمِ امْرَأَتِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ.

(صحیح البخاری، رقم:  ۵۶)

ترجمہ:   حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:  تم جو کچھ خرچ کرتے ہو کہ جس سے تمھارا مقصود رضائے الٰہی ہو تو تمہیں اس پر اجر دیا جاتا ہے۔  یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو (اس پر بھی تمہیں اجر دیا جاتا ہے)۔

سبق:   مذہب اسلام نے ہر موڑ پر عورتوں کا خیال رکھا ہے چناں چہ شوہروں پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کو کھلانے اور پہنانے کی کوشش کریں جیسا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تاکیدی حکم بھی دیا کہ ’’عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرو‘‘۔

لہٰذا وہ تمام چیزیں جو بیوی کے لیے ضروری ہیں مہیا کی جانی چاہئیں اور اس معاملہ میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہئے نہ تو فضول خرچی کی جائے اور نہ بخیلی اور نہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کیا جائے کہ بلاوجہ کی پریشانی بڑھے۔  اور بیوی کو بھی چاہیے کہ اپنے شوہر کی حیثیت سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے، شوہر بیوی پر خرچ کے معاملہ میں وسعت قلبی کا ثبوت دے اور بیوی شوہر کو خوش رکھنے کی پوری کوشش کرے اور جو خدمت اس سے بن پڑے اس سے دریغ نہ کرے، اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ شوہر اور بیوی کے درمیان الفت اور محبت پیدا ہو گی اور یہی فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصود ہے۔

حدیث نمبر۔  ۱۸: عورت غیر محرم کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کرے

عَنْ أَبِی مَعْبَدٍ، قَالَ:  سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، یَقُولُ:  سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَخْطُبُ یَقُولُ: لَا یَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَۃٍ، إِلَّا وَمَعھَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَۃُ إِلَّا مَعَ ذِی مَحْرَمٍ، فَقَامَ رَجُلٌ، فقَالَ:  یَا رَسُولَ اللہِ، إِنَّ امْرَأَتِی خَرَجَتْ حَاجَّۃً، وَإِنِّی اکْتُتِبْتُ فِی غَزْوَۃِ کَذَا وَکَذَا، قَالَ:  انْطَلِقْ، فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ۔

(الصحیح لمسلم، رقم:  ۳۲۷۲)

‏‏‏‏ ترجمہ:   حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ میں فرمایا:  ”کوئی مرد کسی عورت سے ساتھ اکیلا نہ ہو اور عورت سفر نہ کرے مگر محرم کے ساتھ۔‘‘ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری عورت تو حج کو جا رہی ہے اور میرا نام فلاں لشکر میں لکھا گیا ہے۔  تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”کہ تم جاؤ اور اپنی عورت کے ساتھ حج کرو‘‘۔

سبق:   اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ غیر محرم مرد اور عورت کے لیے تنہائی میں علاحدہ ہونا حرام ہے، بلکہ ایک حدیث میں ہے کہ اس صورت میں تیسرا اُن کے ساتھ شیطان ہو گا۔  اسی طرح عورت کے لیے محرم کے بغیر تنہا سفر کرنا بھی حرام ہے۔  دیکھیے کہ حضورﷺ کی موجودگی میں میاں بیوی دونوں کے کتنے مبارک اور اہم اسفار ہیں، شوہر کا نام حضورﷺ کے لشکر میں بطور مجاہد لکھا جا چکا ہے اور بیوی حج کے مبارک سفر پروہ بھی حضورﷺ کے مبارک زمانے میں، قبیلے کی مسلمان عورتوں اور مردوں کی ہم راہی میں روانہ ہو چکی ہیں، لیکن آپﷺ نے لشکر سے ان کا نام کاٹ کر اہلیہ کے ساتھ حج پر روانہ فرمایا؛ تاکہ اہلیہ کا سفر (گو حج کا سفر تھا) بغیر محرم کے نہ ہو۔

اخلاقی پستی کے اس دور میں، عورت کا اکیلے سفر کرنا فتنوں اور گناہوں کو دعوت دینا ہے۔  اس لیے قانون اسلام نیز حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ خواتین، محرم کے ساتھ ہی سفر کریں ؛ کیونکہ محرم کے ساتھ سفر کرنے کا مقصد عورت کو تحفظ دینا اور کسی بھی قسم کے منفی اثرات و حرکات سے بچانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا ہے۔

آج کل ہمارے معاشرے میں بعض نادانوں کے نزدیک اسے بالکل ہی بُرا نہیں سمجھا جاتا اور لوگ غیر محرم کے ساتھ اپنی بچیوں اور عورتوں کو بازار وغیرہ بھیج دیتے ہیں اور جب بات بگڑ جاتی ہے تو آنسو بہاتے ہیں، ابھی گزشتہ دنوں ہم نے ایک افسوسناک خبر پڑھی کہ ایک نادان دیوث مولوی اپنی بیوی کو ایک غیر مسلم کے ساتھ کالج بھیجا کرتا تھا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دنوں میں اس غیر مسلم نے اس کی بیوی کو اپنے دام فریب میں پھنسا لیا اور اسے لے بھاگا اور دونوں نے آپس میں شادی کر لی اور میاں ہاتھ ملتے رہ گئے (العیاذ با اللہ)۔

اگر آپ بھی اپنے آس پاس دیکھیں تو ایسی کتنی مثالیں مل جائیں گی جہاں عورتوں اور بچیوں کو غیر محرم کے ساتھ بھیجنے کا بُرا انجام دیکھنے کو ملا ہے، اس لیے ہم اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں سے کہیں گے کہ آپ خود ہی ایسے کاموں سے بچیں جن سے آپ کا دامن داغدار ہو اور آپ کے خاندان کو رسوائیوں کا سامنا کرنا پڑے۔  لہذا اپنے نبی کی بات مانیں اور عزت کی زندگی گزاریں۔

حدیث نمبر۔  ۱۹ : عورتوں کے لیے پردے کا حکم

عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْھَا، قَالَتْ:  یَرْحَمُ اللَّہُ نِسَاءَ الْم’ھَاجِرَاتِ الْأُوَلَ لَمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ:  وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرھِنَّ عَلَی جُیُوبِھِنَّ(سورة النور آیۃ۳۱) شَقَّقْنَ مُرُوطَھ‘نَّ فَاخْتَمَرْنَ بَھِا”۔

صحیح البخاری، رقم 4758)

ترجمہ:   ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ابتدائے اسلام میں ہجرت کرنے والی عورتوں پر رحم فرمائے جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ

(ولیضربن بخمرھن علی جیوبھن)

(سورۃ النور:  ۳۱) ”اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں‘‘ نازل فرمائی تو انھوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر اوڑھنیاں اور دوپٹے بنا ڈالے۔

سبق:   دین اسلام نے عورت کو بہت ہی بلند مقام و مرتبہ، عزت و احترام اور ابدی حقوق عطا کیا ہے جو دوسرے نظاموں اور مذاہب میں ناپید ہیں، اس لیے جس طرح نماز، روزہ، زکاۃ اور دیگر فرائض کی پابندی ضروری ہے اس طرح ایک مسلمان عورت کے لیے پردہ کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا لازمی حکم ہے، جب کہ پردہ نہ کرنا اللہ تعالیٰ کے حکم کی صریح خلاف ورزی، ناراضی کا سبب اور دُنیا و آخرت میں رسوائی کا باعث ہے۔  جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: ”اے نبی [صلی اللہ علیہ و سلم] اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کرو۔  یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان نہ لی جائیں اور ستائی نہ جائیں‘‘۔  (سورۃ الاحزاب: 17)

بہت افسوس کا مقام ہے کہ اس پر فتن دور میں کثیر تعداد میں مسلم عورتوں کا رجحان فحاشی اور عریانیت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔  بن سنور کر نکلنا، لباس و انداز سے بے حیائی کا مظاہرہ کرنا، مصنوعی خوشبوؤں کی دبیز پردوں میں فحاشی کا تعفن پھیلانا، فیشن ایبل انگریزی وضع کے چست و باریک لباس پہن کر گلیوں، کلبوں، بازاروں، ہوٹلوں، پارکوں، اسکولوں اور کالجوں میں آزاد و بے حجاب غیر محرموں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر گرد و پیش سے بے خبر گھومنا ان کی عادت سی بنتی جا رہی ہے گویا ’’نہ شرمِ نبی نہ خوفِ خدا‘‘۔  یہی وجہ ہے کہ آئے دن عصمت دری کے دل خراش و کرب ناک واقعات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ اللہ رب العزت انھیں عقل سلیم عطا فرمائے۔

حدیث نمبر۔  ۲۰: عورت سراپا پردہ ہے

عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  الْمَرْأَۃُ عَوْرَۃٌ فَإِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفھَا الشَّیْطَانُ.

(سنن الترمذی، رقم:  ۱۱۷۳)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”عورت (سراپا) پردہ ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔

سبق:   یعنی عورت جب بے پردہ ہوتی ہے تو شیطان لوگوں کی نگاہ میں اسے بھلی کر دیتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ اُسے دیکھتے ہیں، لہذا جو شخص عورت کے پردے کو ختم کرے، اُسے مردوں کے لیے دعوتِ گناہ کا ذریعہ بنانے کی کوشش کرے، تووہ تو شیطان کا پورا پورا ہمدرد اور ساتھی ہے۔  آج روشن خیالی اور آزادی کے نام پر ہماری ماؤں بہنوں کو پردے سے دُور کیا جا رہا ہے، اس لیے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں سے گزارش ہے کہ آج کے خود ساختہ روشن خیالوں سے اپنی عزتوں کو بچائیں اور اللہ و رسول سے ڈریں اور یاد رکھیں کہ ’’رب کی پکڑ بہت سخت ہے‘‘۔

حدیث نمبر۔ ۲۱: نابینا سے بھی پردہ کریں

وَعَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ:  أَنَّہَا کَانَتْ عِنْدَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَیْمُونَۃَ إِذَا أَقْبَلَ ابْنُ أُمِّ مَکْتُومٍ، فَدَخَلَ عَلَیْہِ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  احْتَجبَا مِنْہُ، فَقُلْتُ:  یَا رَسُولَ اللہِ أَلَیْسَ ھُوَ أَعْمَی لَا یُبْصِرُنَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  أَفَعَمْیَاوَانِ أَنْتُمَا؟ أَلَسْتُمَا تُبْصِرَانِہ

(سنن أَبی دَاوُدَ، رقم:  ۴۱۱۲)

ترجمہ:   حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ وہ اور بی بی میمونہ(رضی اللہ عنھما) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھیں کہ اسی وقت جناب ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم دونوں ان سے پردہ کرو۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ نابینا نہیں ہیں کہ ہم کو دیکھتے نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تم دونوں بھی نابینا ہو اور کیا تم ان کو نہیں دیکھتیں؟۔

سبق:   حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک نابینا صحابی تھے، اس کے باوجود سرکار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت میمونہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما کو ان سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پردہ کس قدر ضروری اور لازمی ہے۔

شریعت اسلامیہ میں عورت و مرد دونوں کے لیے پردہ واجب ہے، مرد اپنی نظریں نیچی رکھا کرے اور عورت پردہ کرے۔ اسی طرح مرد، اجنبی عورت کو نہ دیکھے اور عورت، اجنبی مرد کو نہ دیکھے۔

آزاد خیال لوگ کہتے ہیں کہ اسلام پردے کے ذریعہ عورتوں کی خود مختاری کو ختم کر دیتا ہے، نہیں بھائی! ایسا نہیں ہے بلکہ در اصل اسلام تو یہ چاہتا ہے کہ بُرائی جہاں سے جنم لیتی ہے اسی جڑ کو ختم کر دیا جائے اور عورتوں کو عزت کی زندگی عطا کی جائے۔

حدیث نمبر۔  ۲۲: دیور موت ہے

عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  إِیَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ:  یَا رَسُولَ اللہِ، أَفَرَأَیْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ:  الْحَمْوُ:  الْمَوْتُ.

(صحیح البخاری، رقم:  ۵۲۳۲)

ترجمہ:   حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  عورتوں میں جانے سے بچتے رہو۔  اس پر قبیلہ انصار کے ایک صحابی نے عرض کیا:  یا رسول اللہ! دیور کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ (وہ اپنی بھاوج کے ساتھ جا سکتا ہے یا نہیں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دیور (یا جیٹھ) کا جانا ہی تو موت ہے (ہلاکت ہے)۔

سبق:    اس حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ مرد کا غیر محرم عورتوں کے پاس جانا، ان سے میل جول رکھنا درست نہیں ہے کیوں کہ اس سے بُرائیاں جنم لے سکتی ہیں اور اسلام بُرائیوں کا سخت مخالف ہے۔

ہمارے معاشرے میں عام طور پر بھاوُج کا دیور سے بے پردہ ہونا معیوب نہیں سمجھا جاتا مگر شریعت اسلامیہ نے اس سے بہت سختی سے منع فرمایا ہے اور اسے موت کی طرح باعث ہلاکت بتایا ہے۔  خیال رہے کہ دیور کو موت اس لیے فرمایا کہ عادتاً بھاوج، دیور سے پردہ نہیں کرتیں بلکہ اس سے دل لگی اور مذاق بھی کرتی ہیں اور ظاہر ہے کہ غیر محرم سے مذاق، دل لگی فتنہ کا باعث ہے۔

اس حدیث کے تحت صاحبِ مرقات نے فرمایا کہ ’’حمو‘‘ سے مراد صرف دیور یعنی خاوند کا بھائی ہی نہیں بلکہ خاوند کے تمام وہ قرابت دار مراد ہیں جن سے نکاح درست ہے جیسے خاوند کا چچا، ماموں، پھوپھا وغیرہ اسی طرح مرد کے لیے بیوی کی بہن یعنی سالی اور اس کی بھتیجی بھانجی وغیرہ سب کا یہی حکم ہے کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی اختیار نہ کریں۔

حدیث نمبر۔  ۲۳‘ عورت سر کے بال نہ منڈائے

عَنْ عَلِیٍّ:  نھَی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَۃُ رَأْسھَا۔

(سنن النسائی، رقم:  ۵۰۵۲)

ترجمہ:    حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے عورت کو سر منڈانے سے منع فرمایا۔

سبق:   اسلام اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ مرد اور عورت ظاہری امور میں مشابہت نہ رکھیں بلکہ دُور سے ہی امتیاز ہونا چاہیے کہ یہ مرد ہے اور یہ عورت۔  مرد کے لیے شریعت نے سر مونڈوانا اور بال کٹوانا جائز قرار دیا ہے، جب کہ عورت کے لیے نہ سر منڈوانا نہ ہی بال کٹوانا تاکہ مرد کے ساتھ مشابہت نہ ہو، اس کے علاوہ لمبے بال مرد کے کام کاج میں بھی رکاوٹ بن سکتے ہیں اور سر ڈھانپنے کی وجہ سے عورت کے لیے لمبے بال کوئی مسئلہ نہیں، اس لیے بال کٹوانا یا منڈوانا مردوں کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے اور سر کے بال رکھنا عورتوں کے ساتھ۔

آج کل غیروں کی دیکھا دیکھی بہت سی مسلمان لڑکیاں بھی ہپّی کٹ بال بنواتی ہیں اور بالکل مردوں کی طرح چھوٹے بال رکھتی ہیں یہ اسلام کی نظر میں ناجائز و حرام ہے۔ اسلام کی شہزادیاں اس طرح کے فیشن سے بچیں اور شریعت سے بغاوت نہ کریں۔

حدیث نمبر۔  ۲۴: کسی کی شرم گاہ دیکھنا حرام ہے

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، عَنْ أَبِیہِ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  لَا یَنْظُرُ الرَّجُلُ إِلَی عَوْرَۃِ الرَّجُلِ، وَلَا تَنْظُرُ الْمَرْأَۃُ إِلَی عَوْرَۃِ الْمَرْأَۃِ، وَلَا یُفْضِی الرَّجُلُ إِلَی الرَّجُلِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَۃُ إِلَی الْمَرْأَۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ.

(سنن الترمذی، رقم:  ۲۷۹۳)

ترجمہ:   حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”مرد، مرد کی شرم گاہ اور عورت، عورت کی شرم گاہ کی طرف نہ دیکھے، اور مرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں ننگا ہو کر نہ لیٹے اور عورت، عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ لیٹے۔

سبق:    اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ دو مردوں یا دو عورتوں کا ایک کپڑے میں لیٹنا جائز نہیں، خواہ کپڑے بھی پہنے ہوئے ہوں، حتی کہ بچے جب دس سال کی عمر میں پہنچ جائیں تو انھیں بھی علیحدہ لٹانے اور سُلانے کا حکم ہے۔

نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ پردہ صرف اجنبی مرد و عورت کے درمیان ہی نہیں بلکہ مرد مرد سے اور عورت عورت سے ایسا انداز اختیار نہ کرے جو شرم و حیا کے منافی ہو۔ عورتوں کو بھی دوسری عورتوں کے پوشیدہ اعضا دیکھنے کی سخت ممانعت ہے۔ بچے کی پیدائش یا اس قسم کی مجبوری کے موقعوں پر بھی صرف وہی عورت دیکھے جس کے بغیر کام نہیں نکلتا، دوسری عورتوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے نیز عورت کو خود بھی چاہیے کہ اپنے وہ اعضا جنھیں پردے میں رکھنا ضروری ہے انھیں دوسری عورتوں کے سامنے ظاہر نہ کرے۔

حدیث نمبر۔  ۲۵ : عورتیں کیسی خوشبو استعمال کریں

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَیْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِیُّ، عَنْ سُفْیَانَ، عَنِ الْجُرَیْرِیِّ، عَنْ أَبِی نَضْرَۃَ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، قَالَ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  طِیبُ الرِّجَالِ مَا ظھَرَ رِیحُہُ وَخَفِیَ لَوْنُہُ، وَطِیبُ النِّسَاءِ مَا ظھَرَ لَوْنُہُ وَخَفِیَ رِیحُہُ.

(سنن الترمذی، رقم:  ۲۷۸۷)

ترجمہ:   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”مَردوں کی خوشبو وہ ہے جس کی مہک پھیل رہی ہو اور رنگ چھپا ہوا ہو اور عورتوں کی خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ظاہر ہو لیکن مہک اس کی چھپی ہوئی ہو‘‘۔

سبق:   اس حدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ مرد ایسی خوشبو لگائیں جس میں بُو ہو اور رنگ نہ ہو، جیسے عطر اور عود وغیرہ، اور عورتیں ایسی چیزوں کا استعمال کریں جس میں رنگ ہو مگر خوشبو نہ ہو مثلاً زعفران اور مہندی وغیرہ یا خوشبو اتنی ہلکی ہو کہ وہ پھیلنے والی نہ ہو بلکہ بہت معمولی ہو۔

آج اس معاملے میں بھی ہمارے معاشرے کی خواتین حد درجہ بے احتیاطی کرتی ہیں اور ایسے ایسے پَرفیومز اور کریمز استعمال کرتی ہیں کہ جِن کی مہک سے پورا ماحول مہک اٹھتا ہے، وہ جس راستے سے جاتی ہیں وہ راستہ خوشبوؤں سے مہک اٹھتا ہے، جس کمرے میں بیٹھتی ہیں وہاں چاروں طرف انھیں کی مہک پھیلی رہتی ہے۔ یاد رہے کہ عورتوں کی زیب و زینت صرف ان کے شوہروں کے لیے ہے، لہذا عورتیں اپنے ہر کام میں سادگی اختیار کریں اسی میں ان کی اور ان کے خاندان کی بھلائی ہے۔

حدیث نمبر۔  ۲۶: عورت غیروں کے لیے بناؤ سنگار نہ کرے

عَنْ مَیْمُونَۃَ بِنْتِ سَعْدٍ وَکَانَتْ خَادِمًا لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ:  قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  مَثَلُ الرَّافِلَۃِ فِی الزِّینَۃِ فِی غَیْرِ أھَْلِہَا کَمَثَلِ ظُلْمَۃِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ لَا نُورَ لھَا.

(سنن الترمذی، رقم:  ۱۱۶۷)

ترجمہ:    حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خادمہ تھیں، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”اپنے شوہر کے علاوہ غیروں کے سامنے بناؤ سنگار کر کے اِترا کر چلنے والی عورت کی مثال قیامت کے دن کی تاریکی کی طرح ہے، اس کے پاس کوئی نور نہیں ہو گا‘‘۔

سبق:   اس میں کوئی شک نہیں کہ زیب و زینت اور سجنا سنورنا عورت کا بنیادی اور فطری حق ہے جو کہ بعض حالات میں اس پر واجب بھی ہو جاتا ہے، لیکن موجودہ زمانے میں نت نئے فیشن اور مقابلۂ حسن کی دوڑ، نے عورت کو بناؤ سنگار کے معاملے میں حد سے آگے نکال دیا ہے۔  اسلام عورت کے بناؤ سنگار کا قطعی مخالف نہیں ہے لیکن وہ عورت کو شو پیس بننے یا بنانے سے روکتا ہے اور یہ قید لگاتا ہے کہ اس کا بناؤ سنگار دنیا کو دکھانے اور شو پیس بننے کے بجائے صرف ایک ہی مرد یعنی اس کے شوہر کے لیے ہو یا اس کے بناؤ سنگار کو صرف اس کے محارم ہی دیکھ سکیں۔

یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ آج بہت ساری خواتین جب گھروں میں ہوتی ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ زیب و زینت سے بالکل نا آشنا ہوں، مگر وہیں جب وہ گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں، یا کسی محفل اور دعوت میں شریک ہوتی ہیں تو مکمل طور پر بناؤ سنگار کر کے سج سنور کر نکلتی ہیں۔ مذکورہ حدیث پاک میں ایسی ہی عورتوں کا ذکر ہے، ایسی عورتیں قیامت میں بے نور ہوں گی اور عذاب کی مستحق ہوں گی۔

حدیث نمبر۔  ۲۷: ایسی عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی ہیں

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ، قال:  قال رسول اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  صِنْفَانِ مِنْ أھَْلِ النَّارِ، لَمْ أَرَھ‘مَا قَوْمٌ مَعَھ‘مْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُونَ بَھِا النَّاسَ، وَنِسَاءٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیلَاتٌ مَائِلَاتٌ، رُءُوسھُُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ، لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یَجِدْنَ رِیحھَا، وَإِنَّ رِیحَہَا لَیُوجَدُ مِنْ مَسِیرَۃِ کَذَا وَکَذَا۔

(الصحیح لمسلم، رقم:  ۵۵۸۲)

‏‏‏‏ ترجمہ:   حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ” دوزخیوں کی دو قسمیں ایسی ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا (یعنی وہ میرے زمانے میں نہیں ہیں) ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہیں جس سے وہ لوگوں کو ماریں گے۔  دوسرے وہ عورتیں ہیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی، ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہیں، وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی، حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آتی ہے۔

سبق:   آج کل فیشن کے نام پر بعض خواتین ایسے ایسے لباس پہن کر سر عام گھومتی ہیں جن کو دیکھ کر انسان تو کیا انسانیت بھی شرما جاتی ہے حالاں کہ مسلمانوں کا یہ شعار نہیں بل کہ اسلام تو عورت کو مکمل پردہ کرنے کا درس دیتا ہے لیکن اکثر خواتین آج اسلام سے دور ہوتی جا رہی ہیں، مغرب کی تقلید میں اس قدر مگن ہیں کہ ان کو اسلامی احکامات پر چلنا بوجھ لگتا ہے۔

اس کے علاوہ کچھ خواتین اور لڑکیوں کا حال یہ ہے کہ وہ بُرقع یا نقاب میں نظر تو آتی ہیں مگر افسوس یہ ہے کہ وہ ایسے ایسے نت نئے ڈیزائنوں والے تنگ اور چُست برقعے ہوتے ہیں جو پردے کے بجائے غیروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔  سیاہ برقعے پر خوبصورت ڈیزائن کے نقش و نگار اور کشیدہ کاری، رنگ برنگے اِسکارف لیے ہوئے عورت دور سے ہی نگاہوں کا مرکز بن جاتی ہے اور اس پر برقعے کا اس قدر چست ہونا کہ جسم کے اعضا ظاہر ہوں اور بھی فتنے کا باعث بن رہا ہے۔  گویا یہ بھی پردہ کے نام پر ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔

اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ باریک اور اَدھ کھُلے کپڑے پہننے سے بچیں، نقاب اور بُرقع ایسا استعمال کریں جو غیروں کی توجہ کا مرکز نہ بنے اور جس سے چھپائے جانے والے اعضا ظاہر نہ ہوں اور اگر وہ جنت میں نہیں جانا چاہتیں یا جنت کی خوشبو نہیں پانا چاہتیں تو پھر تیار رہیں جہنم ان کے استقبال کے لیے سج دھج کر تیار ہے۔

حدیث نمبر۔  ۲۸ : شادی کے لیے لڑکا لڑکی کو دیکھ سکتا ہے؟

عَنِ الْمُغِیرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ، قَالَ:  أَتَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرْتُ لَہُ امْرَأَۃً أَخْطُب’ھَا، فَقَالَ:  اذْھَبْ فَانْظُرْ إِلَیْھَا، فَإِنَّہُ أَجْدَرُ أَنْ یُؤْدَمَ بَیْنَکُمَا، فَأَتَیْتُ امْرَأَۃً مِنْ الْأَنْصَارِ، فَخَطَبْت’ھَا إِلَی أَبَوَیْہَا، وَأَخْبَرْتھُُمَا بِقَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَکَأَنَّھ‘مَا کَرِہَا ذَلِکَ، قَالَ:  فَسَمِعَتْ ذَلِکَ الْمَرْأَۃُ وھَِیَ فِی خِدْرِہَا، فَقَالَتْ:  إِنْ کَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمَرَکَ أَنْ تَنْظُرَ فَانْظُرْ، وَإِلَّا فَإِنِّی أَنْشُدُکَ کَأَنّھَا أَعْظَمَتْ ذَلِکَ، قَالَ:  فَنَظَرْتُ إِلَیْھَا، فَتَزَوَّجْت’ھَا، فَذَکَرَ مِنْ مُوَافَقَتَھِا۔

(سنن ابن ماجہ، رقم:  ۱۸۶۶)

ترجمہ:   حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور میں نے آپ سے ذکر کیا کہ میں ایک عورت کو نکاح کا پیغام دینا چاہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”جاؤ اسے دیکھ لو، اس سے تم دونوں میں محبت زیادہ ہونے کی امید ہے‘‘، چنانچہ میں ایک انصاری عورت کے پاس آیا، اور اس کے ماں باپ کے ذریعہ سے اسے پیغام دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان سنایا، لیکن ایسا معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پسند نہیں آئی، اس عورت نے پردہ سے یہ بات سنی تو کہا:  اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھنے کا حکم دیا ہے، تو تم دیکھ لو، ورنہ میں تم کو اللہ کا واسطہ دلاتی ہوں، گویا کہ اس نے اس چیز کو بہت بڑا سمجھا، مغیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:  میں نے اس عورت کو دیکھا، اور اس سے شادی کر لی، پھر انھوں نے اپنی باہمی موافقت اور ہم آہنگی کا حال بتایا۔

سبق:   علمائے کرام کہتے ہیں کہ لڑکا صرف اسی لڑکی کو دیکھے جس سے وہ واقعی نکاح کرنے کا خواہش مند ہو۔ ورنہ اس بہانے سے لوگوں کی بچیوں کو دیکھتے پھرنا بہت بُری بات ہے۔ اللہ تعالیٰ دلوں کے خیالات سے باخبر ہے، اس سے کسی کی خیانت پوشیدہ نہیں۔

صحابہ اور صحابیات کے دلوں میں فرمان رسولﷺ اور حدیث نبوی کا احترام بہت زیادہ تھا چنانچہ لڑکی کو جب نبیﷺ کا ارشاد بتایا گیا تو وہ فوراً راضی ہو گئی، حالانکہ طبعی طور پر یہ چیز اس کے لیے ناپسندیدہ تھی۔

جب کہ آج کل ہمارے معاشرے میں یہ رواج عام ہوتا جا رہا ہے کہ جب لڑکے کے گھر والے لڑکی دیکھنے آتے ہیں تو نکاح سے قبل ہی انھیں لڑکی کا موبائل نمبر تھما دیا جاتا ہے اور وہ دونوں (لڑکا لڑکی) شادی سے پہلے ہی رات رات بھر آپس میں باتیں کرتے ہیں اور بعض لوگ تو منگیتر کہہ کر ساتھ ساتھ گھومتے پھرتے اور بازاروں کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور طُرفہ تماشہ یہ ہے کہ ماں باپ بھی اسے بُرا نہیں سمجھتے۔ یاد رہے کہ نکاح سے پہلے ایسا کرنا سراسر ناجائز و حرام ہے۔  لہذا اِس سے لازمی طور پر بچنا چاہیے کیوں کہ ہم نے بعض جگہوں پر ایسا بھی دیکھا اور سنا ہے کہ ماں باپ نے اپنی بچیوں کو ان کے منگیتر کے ساتھ کھُلا چھوڑ دیا اور پھر انھوں نے حد سے تجاوز کر کے ناجائز رشتے قائم کیے اور حرام کاری کے مرتکب ہوئے یا درمیان میں ہی ان کے مابین اَن بَن اور اختلاف ہو جانے کے سبب رشتہ بندھنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا، اب نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکی بدنام ہو گئی اور اس کا دوسری جگہ رشتہ لگنے میں دشواریاں درپیش آ رہی ہیں، اس لیے روز اول سے اس طرح کے غیر شرعی خرافات سے بچیں اور نکاح سے پہلے ہر گز ہر گز لڑکے اور لڑکیاں آپس میں کوئی تعلق نہ رکھیں، جو بھی بات چیت کرنی ہو وہ ان کے والدین یا ان کے ذمہ دار ہی کریں تاکہ آنے والی آفت سے بچ سکیں۔

حدیث نمبر۔  ۲۹: ایک صحابیہ کی مہمان نوازی

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ:  أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَ إِلَی نِسَائِہِ، فَقُلْنَ:  مَا مَعَنَا إِلَّا الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  مَنْ یَضُمُّ أَوْ یُضِیفُ ھَذَا، فَقَالَ:  رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ أَنَا فَانْطَلَقَ بِہِ إِلَی امْرَأَتِہِ، فَقَالَ:  أَکْرِمِی ضَیْفَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:  مَا عِنْدَنَا إِلَّا قُوتُ صِبْیَانِی، فَقَالَ:  ھَیِّئِ طَعَامَکِ وَأَصْبِحِی سِرَاجَکِ وَنَوِّمِی صِبْیَانَکِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً، فھَیَّأَتْ طَعَامھَا وَأَصْبَحَتْ سِرَاجھَا وَنَوَّمَتْ صِبْیَانھَا، ثُمَّ قَامَتْ کَأَنّھَا تُصْلِحُ سِرَاجھَا فَأَطْفَأَتْہُ، فَجَعَلَا یُرِیَانِہِ أَنَّہُمَا یَأْکُلَانِ فَبَاتَا طَاوِیَیْنِ، فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَی رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:  ضَحِکَ اللہُ اللَّیْلَۃَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فَعَالِکُمَا، فَأَنْزَلَ اللہُ:  وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُولَئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ۔  [سورۃ الحشر، آیۃ، ۹.]

(صحیح البخاری، رقم:  ۳۷۹۸)

ترجمہ:   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صاحب، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے، آپ نے انھیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا۔  (تاکہ ان کو کھانا کھلا دیں) ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔  اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا۔  چناں چہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے، انھوں نے کہا جو کچھ بھی ہے اسے نکال دو اور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انھیں سُلا دو۔  بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور اپنے بچوں کو (بھوکا) سُلا دیا، پھر وہ دِکھا تو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انھوں نے اُسے بجھا دیا، اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں، لیکن ان دونوں نے (اپنے بچوں سمیت رات) فاقہ سے گزار دی، صبح کے وقت جب وہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم دونوں میاں بیوی کے رات والے نیک عمل کو اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر (دوسرے غریب صحابہ کو) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

سبق:   اس حدیث پاک کی روشنی میں مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:

حضور اکرمﷺ کا عام معمول تھا کہ جب بھی کوئی مسافر مہمان آ جاتا تو ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے حجروں میں پیغام بھیجتے کہ کوئی چیز کھانے کو ہے؟ اگر ستو، کھجوریں، دودھ وغیرہ ہوتا تو وہ بھیج دیتیں اور اگر ان کے پاس کوئی کھانے کی چیز موجود نہیں ہوتی تو آپﷺ یہ خدمت صحابۂ کرام کے سپرد فرماتے۔

مہمان نوازی، مثالی اسلامی معاشرے کی پہچان اور اسلامی بھائی چارے کی روح ہے، اسلام مسلمانوں کو سخاوت اور اِنفاق کی تعلیم دیتا ہے۔  اس حوالے سے مہمان نوازی میں سخاوت بھی ہے اور اِنفاق بھی۔  قرآن و سنت میں اسے باعث اجرو ثواب عمل قرار دیا گیا ہے۔  بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ وہ مہمان کی خاطر تواضع کرے۔

خواتین اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہروں کی ہر جائز بات کو خندہ پیشانی سے قبول کریں اور انھیں راضی رکھیں جیسا کہ مذکورہ حدیث پاک میں ملاحظہ کریں کہ انصاری صحابی(حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ) جب اپنے گھر سرکارﷺ کا بھیجا ہوا مہمان لے آئے تو (ان کی اہلیہ محترمہ صحابیہ حضرت ام سُلیم رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے) اپنے شوہر کا مشورہ قبول کر کے انھیں راضی کیا یہاں تک کہ انھوں نے اپنے شوہر کی رضا کی خاطر اپنے بچوں اور خود کو بھوکا رکھنا بخوشی گوارا کر لیا۔  جس کے سبب اللہ و رسول (ﷺ) کی رضا بھی انھیں مل گئی۔

حدیث نمبر۔  ۳۰: میاں بیوی کے ایک دوسرے پر کیا حقوق ہیں؟

عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، حَدَّثَنِی أَبِی، أَنَّہُ شھَِدَ حَجَّۃَ الْوَدَاعِ مَعَ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللہَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ، وَذَکَّرَ وَوَعَظَ، ثُمَّ قَالَ:  اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَیْرًا، فَإِنَّھ‘نَّ عِنْدَکُمْ عَوَانٍ لَیْسَ تَمْلِکُونَ مِنْھُنَّ شَیْئًا غَیْرَ ذَلِکَ، إِلَّا أَنْ یَأْتِینَ بِفَاحِشَۃٍ مُبَیِّنَۃٍ، فَإِنْ فَعَلْنَ فَاھْجُرُوھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ، وَاضْرِبُوھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرِّحٍ، فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْھِنَّ سَبِیلًا، إِنَّ لَکُمْ مِنْ نِسَائِکُمْ حَقًّا، وَلِنِسَائِکُمْ عَلَیْکُمْ حَقًّا، فَأَمَّا حَقُّکُمْ عَلَی نِسَائِکُمْ، فَلَا یُوَطِّئَنَّ فُرُشَکُمْ مَنْ تَکْرَہُونَ، وَلَا یَأْذَنَّ فِی بُیُوتِکُمُ لِمَنْ تَکْرَہُونَ، أَلَا وَحَقُّہُنَّ عَلَیْکُمْ، أَنْ تُحْسِنُوا إِلَیْھِنَّ فِی کِسْوَتِھِنَّ، وَطَعَامِھِنَّ. (سنن ابن ماجہ، رقم:  ۱۸۵۱)

ترجمہ:   حضرت عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی، پھر فرمایا:  ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، اس لیے کہ عورتیں تمھاری ماتحت ہیں، لہٰذا تم ان سے اس (جماع) کے علاوہ کسی اور چیز کے مالک نہیں ہو، مگر یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اگر وہ ایسا کریں تو ان کو خواب گاہ سے جدا کر دو، ان کو مارو لیکن سخت مار نہ مارو، اگر وہ تمھاری بات مان لیں تو پھر ان پر زیادتی کے لیے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو، تمھارا عورتوں پر حق ہے، اور ان کا حق تم پر ہے، عورتوں پر تمھارا حق یہ ہے کہ وہ تمھارا بستر ایسے شخص کو روندنے نہ دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور وہ کسی ایسے شخص کو تمھارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں، جسے تم ناپسند کرتے ہو، سنو! اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اچھی طرح ان کو کھانا اور کپڑا دو‘‘۔

سبق:   اس حدیث پاک میں مختلف نصیحتیں کی گئی ہیں۔ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔ لیکن اس کے ساتھ بیوی کا بھی یہ فریضہ ہے کہ غیر مردوں سے ناجائز تعلقات کی راہ ہموار نہ کرے اور کسی بھی اجنبی مرد سے گپ شپ کے لیے اپنے پاس گھر میں آنے کی اجازت نہ دے۔ مہمانوں کی تعظیم و تکریم یقیناً ضروری ہے لیکن اگر کوئی ایسا شخص آتا ہے جسے خاوند اچھا نہیں سمجھتا تو عورت کو چاہیے کہ خاوند کے جذبات کا خیال رکھتے ہوئے اسے اجازت دینے سے معذرت کر لے، یا کہہ دے کہ مرد گھر میں نہیں، پھر آ جائیے گا۔

بعض اوقات بیوی کا کردار و اخلاق اس قدر خراب ہو جاتا ہے کہ جسمانی سزا ناگزیر ہو جاتی ہے لیکن اس موقع پر بھی اسلام میں عورتوں کے ساتھ رعایت کی گئی ہے چناں چہ سرکار صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اگر جسمانی سزا ضروری محسوس ہو تو اس میں بھی نرمی کا پہلو مد نظر ہونا چاہیے‘‘ یعنی صرف اس حد تک سختی کی جائے یا سزا دی جائے جو تنبیہ کے لیے ضروری ہو اس سے زیادہ نہیں کیوں کہ مقصود، اصلاح ہے غصہ نکالنا یا بدلہ لینا نہیں۔

حدیث نمبر۔  ۳۱ : نبیﷺ کا اہل خانہ کے ساتھ اخلاق

عَنْ الْأَسْوَدِ رضی اللہ عنہ قَالَ:  سَأَلْتُ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنھا مَا کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یَصْنَعُ فِی بَیْتِہ؟ قَالَتْ:  کَانَ یَکُوْنُ فِی مھِْنَۃِ أھَْلِہ، تَعْنِی خِدْمَۃَ أھَْلِہ، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاۃُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاۃِ.

(صحیح البخاری، رقم:  ۶۴۴)

ترجمہ:   حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ:  حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے کاشانۂ اقدس میں کیا کیا کام کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا:  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر والوں کے کاموں میں مشغول رہتے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔

سبق:   اس حدیث مبارک سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے نبی کریمﷺ اپنے اہل و عیال اور گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک فرماتے، کبھی کسی کو ناراضی یا شکایت کا موقع نہ دیتے، بل کہ ہمیشہ ان کی دل جوئی کا خیال رکھتے تھے۔ آپﷺ کے انکسار و تواضع کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ آپﷺ اپنے گھر میں اہلِ خانہ کے کام میں ہاتھ بٹا لیتے تھے، بکری کا دودھ نکالتے، اپنے کپڑے سی لیتے، جوتی ٹھیک کر لیتے وغیرہ۔  یہ انبیا اور مرسلین خصوصاً ہمارے پیارے نبیﷺ کے اخلاق عالیہ میں سے ہے کہ وہ اپنے اعمال میں تواضع اور انکسار اختیار فرماتے تھے، آسائش پسندی اور ناز و نعمت کی زندگی گزارنے سے دُور رہتے تھے۔  اس لیے ہمیں بھی انھیں کے اُسوۂ مبارکہ پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔

حدیث نمبر۔  ۳۲: بہتر شخص کون ہے؟

عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنھا قَالَتْ:  قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:  خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِأھَْلِہ، وَأَنَا خَیْرُکُمْ لِأَہْلِی.

(سنن الترمذی، رقم:  ۳۸۹۵)

ترجمہ:   اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:  تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔

سبق:   حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو۔  یہ حدیث بڑی جامع ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم مرد ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بہن کے لیے اچھے بھائی، بیوی کے لیے بہترین شوہر اور گھر والوں کے لیے اچھے فرد ثابت ہوں۔  یہی حال عورتوں کا بھی ہو کہ وہ ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بھائی کے لیے اچھی بہن، شوہر کے لیے اچھی بیوی، ساس سسر کے لیے اچھی بہو اور دیگر گھر والوں کے لیے نیک عورت ثابت ہوں، اگر واقعی معاملہ ایسا ہے تو یہ ان کے اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہے۔

مگر آج ہم میں سے بیشتر کا عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔  ہمارا سلوک باہر والوں کے ساتھ تو اچھا ہوتا ہے مگر اپنے اہل خانہ کے ساتھ ہم بُرا رویہ پیش کرتے ہیں۔  یقیناً یہ ہمارے بد اخلاق ہونے کی دلیل ہے اور اللہ و رسول(جلّ و علی و صلی اللہ علیہ و سلم) کی مرضی کے خلاف ہے۔

حدیث نمبر۔  ۳۳: جن کی اولاد وفات کر جائیں

عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِیِّ، قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:  غَلَبَنَا عَلَیْکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا یَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَھ‘نَّ یَوْمًا لَقِیَھ‘نَّ فِیہِ فَوَعَظَھ‘نَّ وَأَمَرَھ‘نَّ، فَکَانَ فِیمَا قَالَ لَھ‘نَّ، مَا مِنْکُنَّ امْرَأَۃٌ تُقَدِّمُ ثَلَاثَۃً مِنْ وَلَدَھِا إِلَّا کَانَ لھَا حِجَابًا مِنَ النَّارِ، فَقَالَتْ:  امْرَأَۃٌ وَاثْنَتَیْنِ، فَقَالَ:  وَاثْنَتَیْنِ.

(صحیح البخاری، رقم:  ۱۰۱)

ترجمہ:   حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے فائدہ اٹھانے میں) مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہماری (نصیحت کے) لیے (بھی) کوئی دن خاص فرما دیں۔  تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرما لیا۔  اس دن عورتوں سے آپ نے ملاقات کی اور انھیں وعظ فرمایا اور (مناسب) احکام سنائے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا تھا اس میں ایک یہ بات بھی تھی کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے) تین (لڑکے) آگے بھیج دے گی تو وہ اس کے لیے دوزخ سے پناہ بن جائیں گے۔  اس پر ایک عورت نے کہا، اگر دو (بچے بھیج دے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں! اور دو کا بھی یہ حکم ہے۔

سبق:   اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ علمائے کرام کو چاہیے کہ جہاں وہ مردوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں، مسائل بتاتے ہیں، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی پردے میں رہ کر وعظ و نصیحت کا اہتمام کریں۔ آج الحمد اللہ بہت ساری بچیاں بھی عالمات و فاضلات بن رہی ہیں لہذا اُنھیں چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ ناخواندہ خواتین کو شریعت کے مسائل کی جان کاری دیں، اس سے وہ ثواب کی حق دار بھی ہوں گی اور عورتوں سے جہالت کا خاتمہ بھی ہو گا۔

اس حدیث پاک میں سرکارﷺ نے ان عورتوں کو تسلی دی ہے جن کے چھوٹے بچے انتقال کر جائیں چنانچہ سرکارﷺ نے فرمایا کہ:  دو چھوٹے بچوں کی موت ماں کے لیے بخشش کا سبب ہے۔  پہلی مرتبہ تین بچے فرمایا، پھر دو۔  اسی طرح ایک حدیث پاک میں ایک بچے کے انتقال پر بھی یہ بشارت آئی ہے۔  کچے ّ بچے ّ کے لیے بھی یہی بشارت ہے۔

حدیث نمبر۔  ۳۴ : اولاد سے محبت کرنے والی عورت

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  خَیْرُ نِسَاءٍ رَکِبْنَ الْإِبِلَ صَالِحُ نِسَاءِ قُرَیْشٍ، أَحْنَاہُ عَلَی وَلَدٍ فِی صِغَرِہِ، وَأَرْعَاہُ عَلَی زَوْجٍ فِی ذَاتِ یَدِہِ.

(صحیح البخاری، رقم:  ۵۰۸۲)

ترجمہ:   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اونٹ پر سوار ہونے والی (عرب) عورتوں میں بہترین عورت قریش کی صالح عورت ہوتی ہے جو اپنے بچے سے بہت زیادہ محبت کرنے والی اور اپنے شوہر کے مال و اسباب میں اس کی بہت عمدہ نگہبان و نگراں ثابت ہوتی ہے۔

سبق:   محبت، بچوں کی نفسیاتی حاجات و ضروریات میں ایک اہم شے ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ والدین کی جانب سے اس ضرورت و تشنگی کو پورا کیا جائے۔  والدین اگر بچوں سے محبت نہیں کریں گے تو اس کے نتیجے میں بچوں میں محرومی پیدا ہو گی اور محرومی سے بچوں کے اندر متعدد نفسیاتی روگ اور بگاڑ جنم لیں گے۔  والدین جب اپنے بچوں سے محبت سے پیش آتے ہیں تو اس سے ان کو نفسیاتی سکون اور قلبی قرار ملتا ہے، لہٰذا ماں باپ کو اپنی اولاد سے محبت میں بخل و تردد سے کام نہیں لینا چاہیے۔  یقین جانیے کہ بچوں کو والدین کی محبت کی اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی انھیں کھانے پینے اور سانس لینے کی ضرورت ہے بلکہ محبت و چاہت کی حاجت خوراک سے بھی بڑھ کر ہے۔

اگرچہ والدین کا اپنی اولاد سے محبت کرنا ایک قدرتی عمل ہے مگر اس کے باوجود اس میں بہت سے لوگ لاپروائی اور بے اعتنائی برتتے ہیں جس سے ان کے بچے دھیرے دھیرے ان سے دوری اختیار کر لیتے ہیں اور پھر بعد میں پچھتاتے ہیں، تعویذ گنڈوں کے چکر میں باباؤں کے چکر لگاتے ہیں اور لوگوں سے شکایتیں کرتے پھرتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہم سے دُوری بنا کر رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ اگر ماں باپ شروع سے بچوں سے نرمی اور محبت کا معاملہ رکھیں تو شاید ایسے دن نہ دیکھنے پڑیں اور ہمارے رب عز و جل اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی یہی ہے کہ اپنے بچوں سے محبت سے پیش آیا کریں تاکہ وہ بھی آپ کی محبت کا جواب محبت سے دیں۔

حدیث نمبر۔  ۳۵: یتیم بچوں کی پرورش کرنے والی عورت

عَنْ أَبِی ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، قَالَ:  قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:  أَنَا أَوَّلُ مَنْ یُفْتَحُ لَہ بَابُ الْجَنَّۃِ إِلَّا أَنَّہ تَأْتِی امْرَأَۃٌ تُبَادِرُنِی، فَأَقُوْلُ لھَا:  مَا لَکِ؟ مَنْ أَنْتِ؟ فَتَقُوْلُ:  أَنَا امْرَأَۃٌ قَعَدْتُ عَلیٰ أَیْتَامٍ لِی.

(مسند أبی یعلی، رقم:  ۶۶۵۱)

ترجمہ:   حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:  میں وہ پہلا شخص ہوں جس کے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا مگر یہ کہ ایک عورت جلدی سے میرے پاس آئے گی، میں اُس سے پوچھوں گا:  تمھارا کیا مسئلہ ہے؟ تم کون ہو؟ وہ عرض کرے گی:  میں وہ عورت ہوں جو اپنے یتیم بچوں کی پرورش کے لیے بیٹھی رہی (تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے جنت میں داخل فرما دیں گے)۔

سبق:   اس حدیث پاک سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ جنت کا دروازہ سب سے پہلے ہمارے نبیﷺ کے لیے کھولا جائے گا بلکہ دیگر احادیث کریمہ سے یہ بھی ثابت ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب پاکﷺ کو مالک جنت بنایا ہے اور امت مسلمہ کے بے شمار افراد کو مولیٰ تعالیٰ آپ کی شفاعت سے جنت میں داخل فرمائے گا۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ جو بیوہ خواتین اپنے یتیم بچوں کی پرورش کرتی ہیں ان کے اس اچھے عمل کا بدلہ یہ ہے کہ مولیٰ تعالیٰ انھیں سرکار کریمﷺ کی شفاعت سے جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا۔ یہ بیوہ خواتین کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔

حدیث نمبر۔  ۳۶: عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنھما قَالَ:  وُجِدَتِ امْرَأَۃٌ مَقْتُوْلَۃً فِی بَعْضِ مَغَازِی رَسُوْلِ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فَنھَی رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ.

(صحیح البخاری، رقم:  ۱۰۹۸، ۲۸۵۲)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کسی غزوہ [جنگ] میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی (سختی سے) ممانعت فرما دی۔

سبق:    ہمارے نبیﷺ عورتوں اور بچوں پر بے انتہا شفقت فرماتے تھے، یہاں تک کہ جنگ کے میدان میں بھی آپﷺ نے کفار و مشرکین کی عورتوں کو بھی قتل کرنے سے منع فرما دیا۔

آج کچھ دشمنان اسلام، مذہب اسلام کو دہشت گردی کا مذہب ثابت کرنے کے لیے دن رات ایک کیے رہتے ہیں، حالاں کہ اسلام تو ایک ایسا امن کا مذہب ہے جس نے جنگ جیسے نازک موقعوں پر بھی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے، یہاں تک کہ درختوں کو کاٹنے، کھیتیوں، مکانوں کو آگ لگانے سے سختی سے روکا ہے، اسلام کا قانون کہتا ہے کہ جو جنگ نہیں کرتے ان سے جنگ نہ کیا جائے، جو امن چاہتے ہیں انھیں امن دیا جائے، قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ:  جس نے کسی ایک جان کو بھی بلاوجہ قتل کیا گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔  جس مذہب میں ایسے امن کے قوانین ہیں اس پر دہشت گردی کا الزام لگانا سراسر دشمنی اور عداوت پر مبنی ہے۔

حدیث نمبر۔  ۳۷: زیورات کی زکاۃ

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ، عَنْ جَدِّہِ، أَنَّ امْرَأَۃً أَتَتْ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعھَا ابْنَۃٌ لھَا وَفِی یَدِ ابْنَتَھِا مَسَکَتَانِ غَلِیظَتَانِ مِنْ ذھَبٍ، فَقَالَ لھَا: ” أَتُعْطِینَ زَکَاۃَ ھَذَا؟ قَالَتْ:  لَا، قَالَ:  أَیَسُرُّکِ أَنْ یُسَوِّرَکِ اللہُ بِھِمَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سِوَارَیْنِ مِنْ نَارٍ؟ قَالَ:  فَخَلَعَتْھُمَا، فَأَلْقَتْھُمَا إِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَقَالَتْ:  ھُمَا لِلہِ عَزَّ وَجَلَّ وَلِرَسُولِہِ.

(سنن أبی داود، رقم:  ۱۵۶۳)

ترجمہ:   ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی، اس بچی کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا:  ”کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو؟‘‘ اس نے کہا:  نہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ” کیا تمہیں یہ اچھا لگے گا کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمہیں آگ کے دو کنگن ان کے بدلے میں پہنائے‘‘۔  عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اس عورت نے دونوں کنگن اتار کر انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے ڈال دِیے اور بولی:  یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔

سبق:   سونا چاندی خواہ زیورات کی شکل میں ہوں یا کسی اور شکل میں، فقہائے احناف کے ہاں بقدر نصاب ہونے کی صورت میں ان پر زکاۃ واجب ہے، سونے اور چاندی میں زکاۃ واجب ہونے کے جو دلائل ہیں وہ عام ہیں ان میں زیورات یا غیر زیورات کی تفصیل نہیں ہے، نیز بعض احادیث میں صراحت کے ساتھ استعمال شدہ زیورات کی زکاۃ کی عدم ادائیگی پر سخت عذاب کا بھی ذکر ہے۔

اس کے علاوہ قرآن عظیم کی آیتِ شریفہ ہے جس کا ترجمہ ہے:  ’’ا ور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے (یعنی زکاۃ نہیں نکالتے) انھیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی، جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں، یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا، اب چکھو مزا اس جوڑنے کا۔

(ترجمہ: کنزالایمان۔ سورۂ التوبہ ۳۴، ۳۵)

یعنی وہ مال جس کی زکاۃ نہ دی جائے قیامت کے دن اسے جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا یہاں تک کہ شدت حرارت سے سفید ہو جائے گا پھر اس کے ساتھ زکاۃ ادا نہ کرنے والوں کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا یہ وہ مال ہے جو تم نے اپنے لیے جمع کر رکھا تھا تو دنیا میں اپنا مال جمع کر کے رکھنے اور حق داروں کو ان کا حق ادا نہ کرنے کے عذاب کا مزہ چکھو۔

اس لیے اگر آپ کے پاس بقدر نصاب سونا یا چاندی ہے تو ضرور اس کی زکاۃ نکالیں تاکہ اللہ کے عذاب سے بچ جائیں۔

حدیث نمبر۔  ۳۸: عورتوں کی جہاد میں شرکت

عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ، قَالَ:  لَمَّا کَانَ یَوْمُ أُحُدٍ انْھَزَمَ النَّاسُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ:  وَلَقَدْ رَأَیْتُ عَائِشَۃَ بِنْتَ أَبِی بَکْرٍ وَأُمَّ سُلَیْمٍ وَإِنَّھ‘مَا لَمُشَمِّرَتَانِ أَرَی خَدَمَ سُوقِھِمَا تَنْقُزَانِ الْقِرَبَ، وَقَالَ غَیْرُہُ:  تَنْقُلَانِ الْقِرَبَ عَلَی مُتُونِھِمَا، ثُمَّ تُفْرِغَانِہِ فِی أَفْوَاہِ الْقَوْمِ، ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنَھِا، ثُمَّ تَجِیئَانِ فَتُفْرِغَانَھِا فِی أَفْوَاہِ الْقَوْمِ.

(صحیح البخاری، رقم:  ۲۸۸۰)

ترجمہ:   حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب جنگ احد میں لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دُور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابو بکر اور حضرت اُم سلیم رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں اور مجھے ان کے پیروں کی پازیب نظر آ رہی تھی دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں، پھر لوٹ کر جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں۔

سبق:   حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور مبارک میں عورتیں جہاد میں حصہ لیتی تھیں۔  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کو جہاد میں حصہ لینے کی حوصلہ افزائی فرمائی، عورتوں کی یہ حیثیت اسلامی معاشرے میں ان کے فعال کردار اور نمایاں مقام کا مظہر ہے۔

چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور مبارک میں ایسی خواتین کا تذکرہ ملتا ہے۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول منقول ہے، آپ فرماتی ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سات جہاد کیے میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی ان کے لیے کھانا پکاتی تھی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی۔‘‘

مذکورہ حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ عورتیں جہاد میں شریک تو ہوتیں تھیں مگر لڑتی نہ تھیں، بلکہ وہ صرف مرہم پٹی یا پانی وغیرہ کے انتظامات اور مجاہدین کے ہتھیاروں کو دُرُست کرنے میں ہاتھ بٹاتی تھیں، بعض مواقع پر صحابیات زخمی مجاہدین کے دفاع کا فریضہ بھی سر انجام دیا کرتی تھیں اور اپنا بچاؤ بھی کرتی تھیں، اسی وجہ سے ان کی طرف جہاد کی نسبت بھی کی گئی ہے۔

نیز اس حدیث پاک کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام عورتوں کو قیدی بنا کر رکھنے کا حامی نہیں ہے جیسا کہ اسلام کے دشمن الزام لگاتے ہیں بلکہ مذہب اسلام انھیں شریعت کے حدود میں رہ کر ہر جائز کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

حدیث نمبر۔  ۳۹: جس عورت کا نامکمل بچہ ساقط ہو جائے

عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ:  قَالَ رَسُوْلُ اللہِّ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم:  إِنَّ السِّقْطَ لَیُرَاغِمُ رَبَّہُ إِذَا أَدْخَلَ أَبَوَیْہِ النَّارَ. فَیُقَالُ:  أَیُّھَا السِّقْطُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہُ! أَدْخِلْ أَبَوَیْکَ الْجَنَّۃَ، فَیَجُرُّہُمَا بِسَرَرِہِ حَتَّی یُدْخِلَھ‘مَا الْجَنَّۃَ.

(ابن ماجۃ، رقم:  ۱۶۰۸)

ترجمہ:   حضرت مولیٰ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:  ناتمام بچہ (5 یا 6 ماہ کا ساقط بچہ) جب اپنے ماں باپ کو جہنم میں جاتے ہوئے دیکھے گا تو اپنے رب سے جھگڑا کرے گا۔  کہا جائے گا:  اے اپنے رب سے جھگڑنے والے ناتمام بچے! اپنے ماں باپ کو جنت میں داخل کر دے۔  وہ اپنے ماں باپ کو اپنی ناف سے باندھ کر کھینچ کر جنت میں لے جائے گا۔

سبق:   اس حدیث پاک میں اُن والدین کو جن کے نامکمل بچے ساقط ہو جائیں اور وہ صبر کر کے اللہ کی مرضی پر راضی رہیں انھیں اس کی بشارت دی گئی ہے کہ بروز قیامت وہ ناتمام بچے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اپنے ماں باپ کی سفارش کریں گے۔  حدیث کے الفاظ ہیں کہ ’’بچہ اپنے رب سے جھگڑا کرے گا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے باصرار سفارش کرے گا، اور اپنے والدین کو بخشوانے کی جی جان سے کوشش کرے گا یہاں تک کہ اس کی سفارش قبول کی جائے گی اور اس کی سفارش پر اللہ رب العزت کرم فرما کر اس کے والدین کو جنت عطا فرما دے گا۔

لہذا اگر کسی خاتون کا حمل (نامکمل بچہ) ساقط ہو جائے تو اسے شکوہ شکایت نہیں کرنا چاہیے بل کہ اللہ رب العزت کی رضا پر راضی رہ کر صبر کرنا چاہیے، اللہ رب العزت کے یہاں اس کا بدلہ جنت ہے۔

حدیث نمبر۔  ۴۰: بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے جتنی ہیں

عَنْ عَائِشَۃَ، أَنّھَا قَالَتْ:  جَاءَتْنِی مِسْکِینَۃٌ تَحْمِلُ ابْنَتَیْنِ لھَا، فَأَطْعَمْت’ھَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ، فَأَعْطَتْ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِنْھُمَا تَمْرَۃً، وَرَفَعَتْ إِلَی فِیھَا تَمْرَۃً لِتَأْکُلھَا، فَاسْتَطْعَمَتْھَا ابْنَتَاھَا، فَشَقَّتِ التَّمْرَۃَ الَّتِی کَانَتْ تُرِیدُ أَنْ تَأْکُلھَا بَیْنَھ‘مَا، فَأَعْجَبَنِی شَأْنُہَا فَذَکَرْتُ الَّذِی صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:  إِنَّ اللہَ قَدْ أَوْجَبَ لھَا بَھِا الْجَنَّۃَ، أَوْ أَعْتَقھَا بَھِا مِنَ النَّارِ.

(الصحیح لمسلم، رقم:  ۶۶۹۴)

‏‏‏‏ترجمہ:   حضرت ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مسکین عورت اپنی دونوں بیٹیوں کو لیے ہوئے میرے پاس آئی، میں نے اس کو تین کھجوریں دیں۔ اس نے ہر ایک بیٹی کو ایک ایک کھجور دیا اور تیسری کھجور کھانے کے لیے منہ سے لگایا اتنے میں اس کی بیٹیوں نے (وہ کھجور بھی کھانے کو مانگ لیا) اس نے اس کھجور کے جس کو خود کھانا چاہتی تھی ان دونوں کے لیے دو ٹکڑے کیے (یعنی دو ٹکڑے کر کے وہ بھی بیٹیوں کو دے دیے)، مجھے یہ حال دیکھ کر تعجب ہوا، پھر میں نے جو اس نے کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا۔  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  ”اللہ تعالیٰ نے اس سبب سے اس کے لیے جنت واجب کر دی یا اس کو جہنم سے آزاد کر دیا۔‘‘

سبق:   یہ حقیقت ہے کہ دور جاہلیت میں لوگ بیٹیوں کو بوجھ اور شرم کا باعث سمجھ کر زندہ دفن کر دیا کرتے تھے لیکن افسوس ہے کہ آج کے ماڈرن اور جدید کہلانے والے دَور میں بھی بیٹیوں کو بہت سے نادان بوجھ سمجھتے ہیں، بیٹیاں پیدا ہونے پر اُن کے چہرے گِر جاتے ہیں، دل پر مایوسی چھا جاتی ہے، بعض ظالموں نے تو ’’الٹرا ساونڈ سسٹم‘‘ سے پتا لگا کر آج بھی بیٹیوں کو قتل کرنے کا ایک نیا طریقہ کھوج نکالا ہے، پیدائش سے پہلے ماں کے پیٹ میں ہی اُنھیں ضائع کرنے کا جُرم عظیم کرتے ہیں، ایسے بھی واقعات آئے دن سننے میں آتے ہیں کہ کچھ دیُّوث قسم کے شیطانی صفت لوگ اپنی بیویوں کو محض اس لیے طلاق دے دیتے ہیں یا ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں کہ ان کے پیٹ سے بیٹا نہیں پیدا ہوتا، جب کہ اس میں اس عورت کا کیا قصور ہے جو بیٹا نہیں پیدا کرتی، یہ اختیار تو اللہ رب العزت کے دست قدرت میں ہے کہ وہ جسے چاہے بیٹا عطا کرے اور جسے چاہے بیٹی عطا کرے۔  اولاد چاہے بیٹا ہو یا بیٹی اللہ کی رحمت ہے، بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے تو جا بجا بیٹیوں کی فضیلت بتائی ہے چناں چہ ایک موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے فرمایا کہ:  ”جو شخص لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے اور پھر ان سے نیک سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم کی آگ سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔

معلوم ہوا کہ بیٹیاں صرف رحمت ہی نہیں بلکہ ماں باپ کے لیے جنت بھی ہیں شرط یہ ہے کہ ماں باپ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں، ان کی صحیح تعلیم و تربیت کر کے ان کے لیے بہتر رشتے کا انتخاب کر دیں۔  بہر حال ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیٹیوں کو جو مقام عطا کیا ہے وہ ساری دنیا کے لیے مثال اور نمونہ ہے۔ لہذا بیٹیوں کے معاملے میں اللہ سے ڈریں اور ان پر کوئی ایسا ظلم نہ کریں جو آپ کے لیے وبال جان اور جہنم کا سبب بن جائے بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک کر کے جنت کے حق دار بن جائیں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید