ایک عمدہ شاعر کی عمدہ نظم
کیسر بائی کی ٹھمری بھیرویں
شاعر:
وحید احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
کیسر بائی کی ٹھمری بھیرویں
ڈاکٹر وحید احمد
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
بیان
اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا واقعہ کیا ہے۔ تو میں کہوں گا کہ خلائی اڑن طشتری وائجر 1 کی پرواز۔ بادی النظر میں یہ بیان ایک sweeping statement معلوم ہوتی ہے۔ مگر میں چونکہ اس پر یقین رکھتا ہوں، اس لئے عرض کیا ہے۔
وائجر 1 (Voyger 1) امریکی خلائی ادارے ناسا کی فخریہ پیشکش ہے۔ یہ ایک space probe ہے جو 5 ستمبر 1977 کو چھوڑا گیا۔ اس کا مقصد نظام شمسی سے باہر بین النجوم خلا میں زندگی کے آثار دریافت کرنا ہے۔ $ 865 ملین کی رقم سے بنا یہ پراجیکٹ ناسا کا flagship پروگرام ہے۔ اس وقت بھی وائجر ون محو پرواز ہے۔ وہ اکتوبر 2024 میں زمین سے 7۔24 ارب کلومیٹر یا 4۔15 ارب میل کے فاصلے پر بین النجوم خلا یعنی Interstellar space میں اڑ رہا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس کا رابطہ بالآخر زمین سے منقطع ہو جائے گا۔
وائجر 1 میں ایک گولڈن پلیٹ رکھی گئی ہے۔ جو ایک توا ہے جیسا پرانے زمانے میں گراموفون پر سٹائلس کی مدد سے بجتا تھا۔ ہمارے بزرگ اسی پر فلمی گانے سنتے تھے۔ اس توے میں زمین کی بہت سی بنیادی تفصیلات ہیں جو خلا کی ممکنہ مخلوق کو زمین کے تعارف کے طور پر بھیجی گئی ہیں۔ یہ دراصل زمین کا Metanarrative ہے، ایک التجا ہے کہ ہم یعنی انسان دنیا میں جینے کی مشقت کھینچ رہے ہیں۔ اے ممکنہ خلائی مخلوق ! ہماری خواہش ہے کہ ہم آپ سے منسلک ہو کر جاودانی ہو جائیں۔ یہ پراجیکٹ ناسا کے مدار المہام کارل سیگن کے دماغ کی اختراع ہے۔ اس میں اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کا جو پیغام خلائی مخلوق کے نام ریکارڈ ہے، وہ یہ ہے:
This is a present from a small, distant world, a token of our sounds, our science, our images, our music, our thoughts and our feelings. We are attempting to survive our time so we may live into yours.
جمی کارٹر سے ایسے گھٹیا، بچگانہ اور گرے ہوئے پیغام کی توقع تو کی جا سکتی تھی، کہ سیاستدان تھا مگر کارل سیگن جیسے سائنسی genius سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ زمین کا مہابیانیہ اتنے گرے ہوئے اور شرمناک انداز میں لکھوائے گا۔ آخر یہ لوگ کیا چاہتے ہیں۔ پچھلی دو صدیوں سے امریکہ نے دنیا تباہ کر دی ہے۔ جب دیکھو دنیا میدان جنگ بنی ہوتی ہے۔ ہوا ناپاک اور سمندر گدلے کر دئیے ہیں۔ اور اب وہ خلا کی خوشامد کر رہے ہیں کہ ہمیں بچاؤ۔ جب 1977 میں وائجر ون چھوڑا گیا، عین اس سال زمین پہ کیا ہو رہا تھا وہ اس نظم میں بیان ہے۔ زمین ہم نے خود تباہ کی اور منت خوشامد خلا کی کر رہے ہیں کہ ہمیں بچاؤ۔ جو اپنے گھر میں تباہ ہوئے وہ خلا میں جا کر کیا آباد ہوں گے، سوال یہ ہے۔
گولڈن ریکارڈ میں دنیا کی چنیدہ موسیقی بھیجی گئی ہے۔ جس میں مشہور سمفنیاں اور کئی ملکوں کے گیت ہیں۔ ان میں برصغیر سے جو گیت چنا گیا وہ کیسر بائی کیرکر کی ٹھمری بھیرویں ہے، جس کی استھائی ہے:
جات کہاں ہو
اکیلی گوری
جانے نہ پئیوں رے
(کہاں جا رہی ہو، اکیلی گوری، تمہارے تو پاؤں نہیں جانتے۔۔)
کیسر بائی جےپور گھرانے کی لافانی آواز ہے۔ پچھلی صدی کے آغاز میں ان کا طوطی بولتا تھا۔ کارل سیگن کی ٹیم نے سب سے شاندار کام بس یہی کیا ہے کہ دنیا بھر سے بہترین موسیقی کا انتخاب کیا۔ وہ شاید اس لئے کہ انہیں Robert E Brown عرف Bob Brown کی خدمات میسر آ گئی تھیں جو ایک ماہر Ethnomusicologist تھے۔ انہوں نے کیسر بائی کیرکر کو چنا اور کہا کہ اس سے عمدہ آواز انہوں نے نہیں سنی۔ ہم برصغیر کے کتنے لوگ ہیں جو کیسر بائی کو جانتے ہیں؟ ۔۔۔۔۔ بہرحال۔ لتا منگیشکر سے کسی نے پوچھا کہ آپ فقط ایک گائیک کا نام لیجئے، جو بے مثال ہے تو انہوں نے بلا حیل و حجت کیسر بائی کیرکر کا نام لیا تھا۔ کیسر بائی کی وہی ٹھمری اس نظم کی بنیاد ہے۔ وہ ٹھمری جو اس وقت بھی زمین سے دور اربوں میل کے فاصلے پر اڑ رہی ہے۔
اس نظم کا ایک اور بنیادی کردار گیلیلیو ہے جسے کلیسا نے اس کے سائنسی انکشافات پر معتوب کیا۔ اب چرچ اس سے معافی مانگتا ہے۔ یہ وہی چرچ ہے جس نے چاند جیسی 19 سالہ جون آف آرک کو صدیوں پہلے جلایا اور اب معافی مانگتا ہے، جس نے کوپرنیکس کو مارا اور اب معافی مانگتا ہے۔ گیلیلیو نے جو چاند دریافت کئے تھے، وائجر ون نے انہی چاندوں کا طواف کیا۔۔۔۔ یہ حسن اتفاق بھی ہے اور مکافات عمل بھی۔
میری یہ نظم ایک شاعر کا بھرپور احتجاج ہے جو میں نے پورے دل سے لکھی ہے۔ اس زمین کا باشندہ اور گلوبل ویلیج کا شہری ہونے کے ناطے میرا یہ حق ہے کہ میں جبر و استبداد کرنے والے سامراج سے سوال کروں کہ تم ہوتے کون ہو ساری دنیا کی نمائندگی کرنے والے اور اپنے ہی طور پر خلا کو مخاطب کر کے زمین کا رونا رونے والے؟ تم کہاں کے دانش ور ہو کہ زمین کا مہابیانیہ ڈرافٹ کرو اور بھیج دو۔ کارل سیگن بہت بڑا ماہر طبیعات، سائنس دان اور ماہر فلکیات تھا مگر دانش ور ہرگز نہیں تھا۔ اس نے زمین کا مہابیانیہ خلا میں بھیج کر بنی نوع انسان کا مذاق اڑایا ہے اور یہ نظم اس بےشرم رویے پر بھرپور احتجاج کرتی ہے۔
یہ نظم ادبی مجلے "تسطیر” کے موجودہ شمارے میں بڑے اہتمام سے شامل ہے۔ میں پیارے بھائی نصیر احمد ناصر کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
میری نظم کی وڈیو نوجوان ادیب اور سسٹم ایکسپرٹ ساجد حیات نے انتہائی محنت سے بنائی ہے۔ اس کی تیاری میں کئی مہینوں کے رت جگے شامل ہیں۔ اسے جتنی بڑی سکرین پہ دیکھیں گے اتنی ہی یہ اجاگر ہو گی۔ میں ان کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
(یہ نظم پانچویں صدی قبل مسیح کے دو عظیم الشان یونانی سائنس دانوں Empedocles اور Parmenides کے نام ہے جنہوں نے طبیعات اور فلکیات کو نظم کی شکل میں لکھا۔ یہ دونوں فلسفے کے بنیادی شعبے ontology کے بانی ہیں)
وحید احمد
14 اکتوبر 2024
یہ نظم ۔۔۔ نجمہ ثاقب
ڈاکٹر وحید احمد اردو نظم کے حالیہ منظر نامے میں بہت بڑا نام ہیں۔
اور ان کی اس نظم کو اردو ادب کی تاریخ میں ایک بڑی نظم قرار دیا جا سکتا ہے ۔
اس کے فنی محاسن کا اندازہ تو اہل ادب اور نقاد حضرات ہی لگا سکتے ہیں۔ البتہ میں نے اسے جتنی مرتبہ بھی پڑھا ۔ میرے خون میں عجیب سا ابال اٹھتا رہا اور اعصاب کھنچنے لگ گئے۔
ڈاکٹر وحید احمد کی اس نظم کو میں نے سرسری پڑھا ۔ مگر اس پہلی قرات نے سہ سے چہار بار اور پھر بار بار پڑھنے پہ مجبور کیا۔ مجھے یوں لگا کہ ہر مرتبہ نظم نے مجھ پہ ایک نئے خیال کی تفہیم کا در کھولا ہے ۔ تاریخ ،سماجیات، مذہب ،فلسفہ ہر معاملے میں میں علم کے کم ترین درجے پہ ہوں ۔ پھر بھی مل ملا کہ میں جو کچھ اس نظم سے سمجھ پائی ہوں ۔ اس کے مطابق نظم کا خیال بیک وقت ادق بھی ہے اور منفرد بھی ۔یہ رنج و الم اور تلخی میں ڈوبا طنزیہ بیانیہ ہے جو بیک وقت کئی زمانوں میں چلتا ہے ۔ اور مختلف ادوار میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کو نظم کی سکرین پہ مجسم کرتا ہے ۔ اس طنز کی زد میں آج کی وہ استعماری قوت ہے جو سپر پاور کہلاتی ہے جو اپنے تئیں خود کو تہذیب اور تمدن کا علمبردار سمجھتی ہے۔ وہ اس وقت زمین پہ برپا فساد اور اس کے تیزی سے ختم ہوتے وسائل پہ پریشان ہے ۔ یہ دنیا کو تباہی کے دہانے پہ کھڑا دیکھ کر اس کے مستقبل کے لیے بری طرح تشویش میں مبتلا ہے۔ اور مستقبل کی پیش بندی کے لیے کسی ایسی جگہ کی متلاشی ہے جہاں انسان کو بوقت ضرورت پناہ مل سکے ۔ گویا وہ تہذیب جو خدا یا کسی نجات دہندہ کے تصور کو بری طرح ریجیکٹ کر چکی ہے ۔ اسے بھی اب کسی مافوق الفطرت مخلوق کی تلاش اور آرزو ہے جو زمین پہ رہنے والوں سے زیادہ طاقتور اور مہذب ہے ۔جس کے کائنات میں کہیں نہ کہیں موجود ہونے کا اسے یقین ہے۔ لہذا اب اسے ڈھونڈ نا ہے۔ اور اس سے رحم کی بھیک مانگنی ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ” وائجر 1″ کو سیکرٹ مشن پہ خلا میں بھیج رہی ہے ۔ یہ وائجر ان دیکھی دنیاؤں میں زمین والوں کی طرف سے خیر سگالی کا پیغام لے کر جائے گا ۔اس پیغام رسانی کے لیے جو ذریعہ چنا گیا ہے۔ وہ میوزک ہے ۔ جسے آرٹ کا بہترین اظہاریہ سمجھا جاتا ہے۔
چونکہ آرٹ اور فن میں ترقی اصل میں تہذیبی ترقی کی معراج سمجھی جاتی ہے۔ لہذا اس کے ذریعے انجانی مخلوق کو یہ باور کروانا ہے کہ ہم دنیا والے اصل میں امن پسند اور محبتی لوگ ہیں۔ امریکی حکومتی اور دیگر کار پردازوں کی میٹنگ کے بیان میں شاعر نے یہاں گہرا طنزیہ نکتہ بیان کیا ہے ۔ جس کے مطابق ایک طرف دنیا بھر میں جنگوں کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔ دوسری طرف ایلوس پریسلے اور مارلن منرو جیسے فنکاروں کی وفات پر امریکی معاشرہ گہری سوگواری میں ڈوب گیا ہے یہ دلیل ہے اس بات پہ کہ وہ لوگ آرٹ اور فن کے کس قدر دلدادہ ہیں۔ تیسری طرف اسی مہذب ترین معاشرے میں چند سیکنڈ کے لیے بلیک آؤٹ ہوتا ہے تو انہی مہذب شہریوں سے پرلے درجے کے جرائم اور لوٹ کھسوٹ سرزد ہو نے لگتے ہیں۔۔ یہ چوٹ ہے اس تہذیب کی منافقت ، دوغلے پن اور کمینگی پہ۔ وقت کے اس منظر نامے میں شاعر نے اس جگہ دو سپرپاورز کے بزعم خود لاف گزاف اور تعلی اور انتشار میں برابر کی شرکت داری پر بھی طنز کیا ہے۔ جہاں روس اپنے صدر کے بیان کی صورت میں افغانستان پہ اپنی جارحیت کو جسٹیفائی کرتا نظر آتا ہے۔
( مجھے علم نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق کس سکول آف تھاٹ سے ہے ۔ اور یہاں روس کی امن پسندی کا تذکرہ محض اس کے صدر کی جانب سے کی گئی گفتگو ہے یا ڈاکٹر صاحب سوشلزم کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ بہرحال مصنف کو اپنے سکول آف تھاٹ کے اظہار کی آزادی ہے۔ اور بطور قاری اس سے اتفاق اور اختلاف کیا جا سکتا ہے۔) البتہ یہاں روسی کی جانب سے صلیبی جنگوں کے چھڑنے کے خدشے کا اظہار دل میں کچھ کھبا نہیں ۔ کہ اشتراکیت کی تاریخی یادداشت میں صلیبی جنگوں کا تذکرہ کہاں ہے؟ جو روسی صدر افغانستان میں امریکی عمل دخل پہ اس کا حوالہ دے رہا ہے ۔ کیا یہاں شاعر کا نقطہ نظر سمجھنے میں میں چوک گئی ہوں ؟ میرے نزدیک روس اور امریکہ دونوں استعمار ہیں۔ یہ سوشلزم اور سرمایہ دارانہ نظام کی کشمش تھی جس میں امریکہ وقتی طور پہ جیت گیا ہے ۔
نظم میں شاعر سیاست ،مذہب دونوں سے بے زاری کا اعلان کرتا ہے۔ سیاستدان جو انسانیت کا قاتل ہے وہ اپنے گناہوں پہ پردہ ڈالنے کے لیے آرٹ کا سہارا لے رہا ہے اور زمین کا قتل کرنے کے بعد خود کو اس کا نمائندہ بنا کر پیش کر رہا ہے ۔ اس بددیانتی اور بد طینتی کے باعث وہ قابل نفرت ہے۔
کسی ایلین سے معذرت خواہانہ مدد کی درخواست مذہبی توہم پرستی کی ہی شکل ہے۔
وہ کہہ رہا ہے کہ کائنات کا مرکز کوئی فوق البشر ہستی نہیں بلکہ خود انسان ہے۔
وہ امریکہ کے اس خط کو انسان کی توہین اس لئیے قرار دیتا ہے کہ اس نے انسان کے بجائے کسی اور قوت کو کائنات کا مرکز سمجھا۔
گویا ۔۔
سب سے عظیم شے انسان ہے۔
انسان کی اصل طاقت علم اور سائنسی ترقی ہے۔
اور انسانیت کی معراج آرٹ ہے۔
سیاست اور مذہب انسان کے دشمن، احمق، سطحی، منافق اور فسادی ہیں۔ اپنے اس خیال کو طاقت بخشنے کے لیے شاعر نے حکومت اور کلیسا ہر دو کی مثال دی ہے۔ منظر نامے میں سب سے شاندار اینٹری گیلیلیو کی ہے ۔ گیلیلیو کو علم اور کھوج کی علامت بنایا گیا ہے ۔ یسوع سے اس کی تائید کروا گویا اسے آسمانی آشیر باد دے دی ہے۔
شاعر کے نزدیک اصل ترقی علم کی تھی جس کا سہرا اس گلیلیو کو جاتا ہے جس کے فلکی نظریات اور ایجادات کی بنا پر یہ خلائی دریافتیں اور یہ اسفار ہو رہے ہیں ، مگر اس کے اپنے وقت میں مذہب نے اسے مصلوب کر دیا تھا۔
وہ گلیلیو کی سزائے موت کو گویا مسیح کے مصلوب ہونے سے تعبیر کر رہا ہے۔ اور اب انیس سو ستر کی دہائی میں کلیسا کی معذرت اور گلیلیو کی از سر نو تدفین کو اہل مذہب اور اہل سیاست کا ڈرامہ قرار دے کر اس سے بے زاری کا اظہار کرتا ہے ۔
وہ مسیح سے کہلواتا ہے کہ گیلیلیو ، اصل کلیسا تو رصد گاہ ہیں
وہ تری فلکیاتی رصد گاہ
جو کہکشاں کے علمی ذخیرے کی نوری رصد گاہ تھی
بس کلیسا وہی ہے
جہاں تو نے عدسے لگائے تھے
اور مشتری کے حسیں چاند دیکھے تھے
میرا کلیسا وہی ہے
تری روح تیرے ہی چاندوں میں آئے گی
تیری یہ دریافت ہی
اب ترا مستقل مستقر ہے
مرے چاند آ
اور سختی نہ جھیل
اپنے چاندوں میں آ
اپنے چاندوں سے کھیل
اور سن۔۔۔۔۔
خود نما مذہبی پیشواؤں کی بے فیض ، ژولیدہ ، مکروہ، روحیں
کسی چاند کی آرزو میں ہمیشہ بھٹکتی رہیں گی۔ کیسے؟
علم اور سائنس کا کام محض کھوج ہے ، انسانی فلاح اور کائنات کو ایکسپلور کرنا ہے۔
اس کے دیے گئے علم کو کسی فوق البشری قوت سے معذرت خواہانہ خیرات کے لئے استعمال کرنا ، اس کے علم کی توہین ہے۔
شاعر نے گیلیلیو کی زبانی کائنات کو عناصر میں ترتیب و تخریب کے کھیل سے تعبیر کیا ہے ۔ لیکن
کیا وہ یہاں روح اور اس کی افزائش کو مکمل نظر انداز کر دیں گے ؟
اور کیا وہ عقلیت پسندوں کی سوچ کے با وصف ہر مذہب کو مردہ مذہب گردانتے ہیں۔؟
یہ سوالات بہرحال قاری کے ذہن میں ابھرتے ہیں ۔
اور نظم کے مرکزی خیال سے مکمل اتفاق کے باوجود کہیں کہیں اختلاف کی گنجائش چھوڑ جاتے ہیں ۔ اور یہی فکر کا تنوع ہے جو تخلیقی میں حسن پیدا کرتا ہے ۔
اختتام بھی دیکھیے یہ نظم کا خوبصورت ترین حصہ ہے
’’ کہاں جا رہی ہو
او گوری اکیلی کہاں جا رہی ہو
تمہارے تو پاؤں نہیں جانتے تم جہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔!!‘‘
اچانک وہ گاتے ہوئے ہنس دیا
اور پھر وائجر کو مخاطب کیا
پھر سے گانے لگا:
’’کہاں جا رہی ہو؟؟
تمہارے تو پاؤں نہیں جانتے تم جہاں جا رہی ہو !!‘‘ یعنی گیلیلیو نے دنیا والوں کے پیغامات کا توا توڑ کر پھینک دیا ہے ۔ اب وہ اکیلا ٹھمری کے ساتھ اڑا جا رہا ۔ وائجر اب اس سمت جائے گا ۔ جدھر وہ اسے لیے جا رہا ہے ۔
٭٭٭
کیسر بائی کی ٹھمری بھیرویں
آسمانوں سے خیرات آئے گی
اس آرزو میں ترستی زمیں بچھ رہی ہے
مگر ساتھ
آتشیں کھیل کی ممکنہ تیاریاں ہو رہی ہیں
بساط یسار و یمیں بچھ رہی ہے
نیا کھیل ہے
تازہ مہرے بنیں گے
نئے کارخانوں کی تازہ مشینوں کے
بیدار پُرزوں کی غُراہٹیں ہیں
پسِ پردہ
فوجی جوانوں کے ٹکٹکاتے بوٹوں کی دہشت بھری آہٹیں ہیں
گراں بار بحرِ سیاست مسلسل تلاطم میں ہے
اور چمکتی ہوئی لہر کروٹ بدل کر
کہیں اٹھ رہی ہے
کہیں بچھ رہی ہے
زمیں بچھ رہی ہے
۲۰ اگست ۱۹۷۷
بھرے اوول آفس میں
ایجنسیاں
صدرِ نوخیز کو اتنی گھمبیرتا سے
بریفنگ کا اُپدیش سرگوشیوں میں بیاں کر رہی ہے
کہ واشنگٹن سارا سکتے میں ہے
سن ستتر کے اب تک ہوئے
سارے چھوٹے بڑے واقعات
اور ان کا اثر
گرم کافی کے اوپر دھواں دے رہا ہے
دھواں
جس میں بے رنگ بارود ہے
صدرِ والا !
یہ ناسا کی تاریخ میں شادمانی کا دن ہے
فلوریڈا سے وائجر ٹو بڑی کامیابی سے چھوڑا گیا
اور وہ
اب خلا کی طرف محوِ پرواز ہے
اس کا ہر سنگِ میل اور سارے مدارج
بڑی خوش خرامی سے طے ہو رہے ہیں
اور اب
وائجر ون کو اگلے مہینے کے آغاز میں
لانچ کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں
ابھی چار دن بیشتر ایک صدمہ ہوا
سب کے محبوب ایلوس کی موت ایک چرکا ہے
امریکیوں کے دلوں پر
وہاں شہر ممفِس میں اس کے جنازے پہ
کوئی پچھہتر ہزار آدمی عورتیں
ایک انسانی زنجیر کی سوگواری میں ویران کھڑے تھے
وہاں سب کو
پندرہ برس بیشتر
میریلن مونرز کی جواں مرگ ساعت کی یاد آ رہی تھی
کہ جب لاس اینجلس کے اشکوں بھرے آسماں کے تلے
سیاہ گریہ کی غمگیں چادر تنی تھی
اسی سال
جب تیرہ جولائی کو
شہر نیو یارک کے سب علاقوں کی بجلی معطل ہوئی
تو اندھیرے میں
کالے جرائم کا عفریت پاگل ہوا
کون سا جرم ہے
چند گھنٹوں میں جو شہر میں نہ ہوا
شرمساری سے سر ہے کہ اٹھتا نہیں
ایک اچھی خبر ہے
کہ اب سوویت یونین میں دراڑیں نظر آ رہی ہیں
درانتی کے دندان جھڑنے لگے ہیں
ہتھوڑے کے آہن میں زنگ لگ گیا ہے
اُدھر پاک فوج اپنا طے کردہ کردار ادا کر رہی ہے
یہاں جنگ ہو گی
معیشت ہمارے تسلط میں ہے
ساری دنیا میں ڈالر ترقی پہ ہے
اور ہمارا درفشِ جہاں دار سرمایہ داری
مسلسل بلندی پہ ہے’’
۔۔۔۔۔۔۔
کریملن میں
پولٹ بیوروکا اجلاس سیشن میں ہے
سرخ رنگت کی ہر چیز فیشن میں ہے
کارٹر کی بریفنگ کی ساری خبر
روس پہنچی ہوئی ہے
برزنیف نے اپنا چہرہ لہب کر کے عزمِ مصمم ہو یدا کیا
‘‘ یہ جو امریکہ ہے
اس کے سر پہ ہمیشہ سے سودا رہا ہے
اسے جنگ کرنے کا ایسا جنوں ہے
جو سر سام بن کر اِ سے روندتا ہے
ابھی دو برس بیشتر ویت نام
ایک دلدل کی صورت
اسے اپنے پاتال میں کھینچتا تھا
فقط دو برس دھوپ میں بیٹھ کر
اس نے مکروہ دلدل کی مٹی سکھائی
اور اب
اس کو افغان مٹی کی خشکی نظر آ رہی ہے۔
کھلی کار میں کینیڈی کی جو گردن میں گولی لگی تھی
وہ گولی
کیوبا کے مزائلوں کی شباہت لیے تھی
سنو صدر داؤد خاں!
تم جزیرہ نمائے عرب کے جہادی گروہوں کو
جو راستہ دے رہے ہو
تمہیں ہم اُسی راستے میں پڑی
سرخ مٹی کی خشکی میں مٹی کریں گے
یہ پنڈی عرب اور کابل کے نادان اور اہلِ ایمان جاہل جہادی
جو حق اور باطل کا اندھا وظیفہ
زبانوں پہ رکھے چلے آ رہے ہیں
انہیں کچھ خبر ہے
وہ کس جال کی بے خبر مچھلیاں ہیں؟
وہ کس کارِ عصیاں کی کٹھ پتلیاں ہیں
مسلمان تاریخ پڑھتے نہیں
کیا انہیں یاد ہے
سات سو سال پہلے
صلیبی لڑائی کا جب آخری معرکہ اپنے خونخوار جوبن پر
تھا
تو صلیبیوں کے لشکر کو
آتش بجاں یلدرم نے ہزیمت بھری ہار دی تھی
خلش اس کی
اب نسل در نسل چل کر نئی شکل میں خوں فشانی کرے گی
مجھے جنگ ہوتی نظر آ رہی ہے
جو امریکہ اور سوویت یونین سے سوا معرکہ ہے
کسی کو پتا ہے یہ کیا معرکہ ہے
صلیبی لڑائی کی توسیع ہے
یہ مقدس لڑائی کا اک سلسلہ ہے
خوشی کی خبر
اس برس سوویت یونین ساٹھ برسوں کا ہونے کو ہے
ریڈ سکوائر پر اک جشنِ تاسیس
اس شان و شوکت سے ہوگا
کہ دھرتی کے سینے میں
پاتال بھی سانس لینے لگے گی
ہمارا وطن
سوویت یونین، اک حقیقت ہے
اک تیر ہے
جو زمانے کے خود ساختہ بورژوائی دلوں میں ترازو ہوا ہے
یہ سب سامراجی خداؤں کے بت پاش کرتا رہے گا
کہ یہ سرخ پیغام
تاریخ کی جدلیاتی حقیقت کا پیغام ہے
جو ہمیشہ دلوں میں اترتا رہے گا۔
۵ ستمبر ۱۹۷۷
آج ناسا
کہ جودومانِ خلا ہے
بہت شادماں ہے
کہ آج اس کے خوابِ مسلسل کی تعبیر ہونے لگی
وائجر ون
بالآخر خلاؤں میں پرواز بھرنے کو ہے
اس جہاں میں جو کوئی نہیں کر سکا
یہ وہ کرنے کو ہے
انتظامِ خلائی و پیمائی کے کار پرواز
تحقیقی عملہ
فلوریڈا کے مستعد اور مسلح محافظ
طلسماتی پرواز کے منتظم
سب کے سب منتظر ہیں
تجسس بھری اور بے تاب آنکھوں کے نم
قرینہ میں ابھار آ گیا ہے
پپوٹوں کی گیلی جھپک بڑھ گئی ہے
لپکتے ہوئے گرم تار نظر کی لپک بڑھ گئی ہے
عموداً کھڑے سرد لانچر پہ راکٹ کے پہلو میں
جکڑا ہوا وائجر ہے
اور اک طشتِ زر ہے
جو اس وائجر میں بڑی آرزوؤں سے رکھا گیا
طشتِ زر کیا ہے
ناسا کے لفظوں میں یہ کارل سیگن کے
تخلیقی اور سائنسی ذہن کا
زندہ اور قابلِ فخر شہکار ہے
یہ زمیں کا
خلاؤں کی مخلوق کے نام بیرنگ خط ہے
جو فانی بنی نوعِ انساں کو بس جادوانی کرے گا
اور انسان پھر ان خلاؤں پہ بھی حکمرانی کرے گا
تو یہ طشتِ زر
سمعی بصری تفاصیل کا اک تَوا ہے
توا کیا ہے ، انسائیکلو پیڈیا ہے
جو سٹائلس کے آخر میں ہیرا جڑی نوک سے بج اٹھے گا
خلاؤں کی خدمت میں یہ گرامو فون
ایک تحفے کی صورت میں رکھا گیا ہے
جسے کہکشاؤں میں ذہنِ رسا رکھنے والے سنیں گے
تو ان کو زمیں کا تعارف ملے گا
زمیں کی ہواؤں کی رفتار کی دھار سے کاٹتا
وائجر اڑ رہا ہے
ہوا میں ہوا وائجر اڑ رہا ہے
خلائی سٹیشن کے
شیشے میں لپٹے ہوئے ایک کیبن میں
آسودہ کافی کا ایک گھونٹ بھر کر
بریفنگ کے ہونٹوں نے
اس کے مدارح پہ پھر بات چھیڑی
‘‘ یہ دو سال اڑنے کے بعد اپنا رخ پھیر کر
مشتری کی طرف چل پڑے گا
اور اس کے حسیں چاند ’’اروپا‘‘ کی آب و ہوا مس کرے گا
اروپا۔۔۔۔۔
جو گیلیلیو کا دکھایا ہوا چاند ہے
اس کے اک سال کے بعد یہ
زحل کے ٹایٹن چاند کی ثقل مہمیز پر سے پھسلتا ہوا
فلائی بائی کرے گا
۱۲ مارچ ۱۷۳۷
کلیسا نے احکام جاری کئے ہیں
کہ ماضی کی کوتاہیوں کے ازالے کا دن آگیا
پہلی تدفین کی اک صدی بعد
گیلیلیو کی بڑے احترام اور سرکاری اعزاز کے ساتھ تدفین ہوگی
فلورنس کی ایک نا مہرباں
دفن گہ کے زمانوں سے اجڑے ہوئے
سب سے گمنام کونے میں
گیلیلیو کی شکستہ اور اجڑی ہوئی روح روتی ہے
نوحہ کناں ہے
‘‘یسوع پاک!
تو جس کلیسا کی کھڑکی سے قیدی پرندوں کو آزاد کرتا تھا
اب جانور اس کو پامال کرتے ہیں
اور روندتے ہیں
کلیسائی دہشت گروں نے مجھے
میرے سچ بولنے کی سزا پر اذیت بھری موت دی تھی
مجھے کوڑا کرکٹ سمجھ کر زمیں میں دبایا گیا
دیکھ لے !
مجھ کو اک بار پھر دفن کرنے کی
تیاریوں میں لگے ہیں یہ وحشی درندے
یسوع پاک تو دیکھ لے!!
کہ مری لاش کی اک تسلسل سے بے حرمتی ہو رہی ہے
مرا جسم
مر کے بھی ہجرت کی جو سختیاں سہ رہا ہے
وہ زندہ مہاجر بھی سہتے نہیں ہیں
کبھی میں یہاں ہوں
کبھی میں وہاں دفن ہوں
لوگ میری کٹی انگلیاں، دانت، ناخن اٹھا لے گئے ہیں
کہ ان کو فلورنس کے میوزیم میں سجا کر رکھیں گے
اے جیسس کرائسٹ!
جو دنیا مری لاش کا پرزہ پرزہ تماشا کرے گی
تو پھر تیری رحمت بتا کیا کرے گی
یسوع معظم!
تجھے میگڈلینِ مقدس کا میں واسطہ دے رہا ہوں
تجھے بالِ جبریل کا واسطہ
تو مری روح کو اس جہاں سے اٹھا لے
تو عیسیٰ نے فوراً کہا:
’’ میرے گیلیلیو !
وہ تری فلکیاتی رصد گاہ
جو کہکشاں کے علمی ذخیرے کی نوری رسدگاہ تھی
بس کلیسا وہی ہے
جہاں تو نے عدسے لگائے تھے
اور مشتری کے حسیں چاند دیکھے تھے
میرا کلیسا وہی ہے
تری روح تیرے ہی چاندوں میں آئے گی
تیری یہ دریافت ہی
اب ترا مستقل مستقر ہے
مرے چاند آ
اور سختی نہ جھیل
اپنے چاندوں میں آ
اپنے چاندوں سے کھیل
اور سن۔۔۔۔۔
خود نما مذہبی پیشواؤں کی بے فیض ، ژولیدہ ، مکروہ، روحیں
کسی چاند کی آرزو میں ہمیشہ بھٹکتی رہیں گی
۵ مارچ ۱۹۷۹
خلا در خلا وائجر اڑ رہا ہے
اور اس کے لرزتے ہوئے ایک پہلو میں سویا ہوا
طشتِ زر اُڑ رہا ہے
یہ پرواز اب مشتری کے علاقے میں داخل ہوئی
چاند اروپا کی پھیلی کشش
وائجر کے قریب آتی پرواز مَس کر رہی ہے
یہ پرواز اب چاند کی ثقل سے گہری مہمیز لے گی
جو اس کو خلا میں دھکیلے گی
اور زحل کے راستے کا تعین کرے گی
ابھی وائجر چاند کی دسترس میں سفر کر رہا تھا
کہ اک دُھند چلتی ہوئی اس تک آئی
یہ گیلیلیو تھا
’’چلو چاند گاڑی میں چلتے ہیں
اور سیر کرتے ہیں۔۔۔۔ !!!
ہم بھی تو دیکھیں
کہ انسان نے کیسی گاڑی بنائی
جو بین النجوم آسمانی سفر کے ارادے میں ہے‘‘
وائجر اڑ رہا ہے
وہ جب زحل کے چاند ٹائیٹن سے گزرا
تو گیلیلیو نے کئی سال پہلے سے بھیجا ہوا
طشتِ زر کھول کر سامنے رکھ دیا
اور اس پر سٹائلس کو زندہ کیا
گیت بجنے لگے
وائجر اڑ رہا ہے
خلاؤں کی پہنائی میں باخ کی نغمگی اڑ رہی ہے
تو موزارٹ کی سمفنی اڑ رہی ہے
بیتھوون کی دل کو چراتی ہوئی راگنی اڑ رہی ہے
اور ان سب سے بڑھ کر
بڑی ہی مدھر بھیرویں اڑ رہی ہے
یہ رس دار ٹھمری ہے جے پور کی کیسر بائی کیر کرکی
ہمکتے ستارے جسے سن رہے ہیں
‘‘کہاں جا رہی ہو
او گوری اکیلی کہا جا رہی ہو
تمہارے تو پاوں نہیں جانتے تم جہاں جا رہی ہو۔۔۔۔!!!
دھنیں سن کے گیلیلیو اپنے بچپن میں واپس گیا
جب وہ پیسا میں بربط بجاتا تھا، گاتا تھا، اور ناچتا تھا
وہ خاموش لمحوں میں
بچپن کی آواز سننے لگا
سر کو دھنیے گا
اس نے پھر طشتِ زر کھول کر سامنے رکھ دیا
اور اس پر سٹائلس کو زندہ کیا
پھر زمیں زاد دانش وروں کے مدار المہام
اور طبیعات کے دیوتا
کارل سیگن کا پیغام سننے لگا
جو زمیں نے خلاؤں کو بھیجا ہے
امریکا سے کارٹر کہہ رہا ہے
’’خلا پور کے ذہنِ رسا رکھنے والے
ذہین و متین ممکنہ باسیو!
ہم کو انسان کہتے ہیں
ہم لوگ جینے کی کوشش میں ہیں
اور خواہش یہ ہے
آپ کے ساتھ جی پائیں ہم
اور پھر جاودانی بنیں ۔۔۔۔۔!!!‘‘
بس یہ سننا تھا اور اس نے اپنی ہتھیلی پہ سر رکھ دیا
اس نے آواز کا سلسلہ کاٹ کر
طشتِ زر رکھ دیا
‘‘کب یہ اندھا توہم
یہ انسان کے ذہن میں سرسراتا ہوا وہمی آسیب کا
وسوسہ ختم ہوگا
کہ انسان ہی
مرکزِ کائنات و حیات و ممات
اور ہاں
جانِ ارض و سماوات ہے
ان زمیں زاد
بے قاعدہ سانس لیتے ہوئے لوتھڑوں کو
کوئی کیسے سمجھائے
اے خبطِ عظمت کے مارے ہوئے بے خبر جاندارو
عناصر کی ترتیب و تخریب ہی اک حقیقت ہے
تم کیا ہو
کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔!!!
طشتِ زر کا یہ پیغام مایوس کن ہے
زمیں کا مہابیانیہ
اور اس درجہ سطحی !!
اس درجہ سطحی!!
لجاجت بھرا
معذرت کی غلاظت میں غلطاں
کسی عادی مجرم کا اقبالِ حلفی
جو گھٹیا وکیلوں کے اصرار پر
سستے اشٹام پیپر کے بھدے ورق پر
حروفِ غلط جوڑ کر
بے محل اور دُشنام انداز میں
ذمہ داری سے عاری
زمانے سے محو اور متروک انگلش میں لکھا گیا۔‘‘
یہ کہنا تھا
اور طیش میں آئے گیلیلیو نے
لجاجت کی بُو سے بھرا طشتِ زر توڑ ڈالا
اور اس کا بُرادہ خلا میں اچھالا
برادے کی رنگت سیاہی بھری تھی
زمیں کا مہا بیانیہ ذرہ ذرہ ہوا تھا
برادے کے پیچھے
طلسموں بھرے ٹائٹن چاند کی زرد چادر تنی تھی
۲۰ اگست ۲۰۲۳
وائجر اڑ رہا ہے
زمیں کی مقدس حدوں سے پرے
کوئی پندرہ ارب میل کے فاصلے پر اڑا جا رہا ہے
یہ بین النجوم اور موہوم جانب اڑا جا رہا ہے
یہ بے انتہا غیر معلوم جانب اڑا جا رہا ہے
کہیں دُور پچھلے خلاؤں کی پہنائی میں
طشتِ زر کا برادہ پڑا ہے
مگر وائجر اب اکیلا نہیں ہے
کلیسا کا معتوب
پیسا کا بربط نواز
اس کے ہمراہ ہے
بھیرویں گا رہا ہے
جو شِو نے بنائی تھی کومل سروں میں
جسے بندرابن میں منوہر بجاتا
تو پھولوں سجی گوپیاں ناچتی تھی
کلیسا کا معتوب
جے پور گھرانے کے اس کیسری انگ میں گا رہا ہے
جو استاد اللہ دیا خان صاحب
نے ترتیب دی تھی
’’کہاں جا رہی ہو
او گوری اکیلی کہاں جا رہی ہو
تمہارے تو پاؤں نہیں جانتے تم جہاں جا رہی ہو۔۔۔۔۔۔!!‘‘
اچانک وہ گاتے ہوئے ہنس دیا
اور پھر وائجر کو مخاطب کیا
پھر سے گانے لگا:
‘‘کہاں جا رہی ہو؟؟
تمہارے تو پاؤں نہیں جانتے تم جہاں جا رہی ہو!!‘‘
٭٭٭
شاعر کی اجازت سے
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں