مشہور عربی تفسیر "تفسیر جلالین” کا اردو ترجمہ
تفسیر جلالین،جلد پنجم
منزل چہارم، سورۃ الشعراء تا سورۃ یاسین
جلال الدین السیوطی، جلال الدین المحلّی
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
۳۶۔ سورۃ یٰس
سُورَۃُ یٰسٓ مَکِّیَۃٌ وَھِیَ ثَمَانُونَ اٰیَۃً وَّخَمْسُ رُکُوعَاتٍ
سُوْرَۃُ یٰسٓ مَکِّیَّۃٌ اِلَّا قَوْلُہٗ وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا اَلْاٰیَۃَ، اَوْ مَدَنِیَّۃ وَھِیَ ثَلٰثٌ وَثَمَانُوْنَ اٰیَۃً
سورة یٰس مکی ہے سوائے وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا کے جو مدنی ہے، اور اس میں تراسی (۸۳) آیتیں ہیں۔
آیت نمبر ۱ تا ۱۲
ترجمہ: شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے یسٓن اس سے اللہ کی کیا مراد ہے وہی بہتر جانتا ہے قسم ہے محکم قرآن کی جو عجیب نظم اور انوکھے معانی سے محکم ہے بلاشبہ اے محمد آپ مرسلین میں سے ہیں (اور) سیدھے راستہ پر ہیں علیٰ اپنے ماقبل (مرسلین) سے متعلق ہے (اور طریق مستقیم سے مراد) انبیاء سابقین کا طریقہ ہے، جو کہ توحید اور ہدایت کا راستہ ہے، اور قسم وغیرہ کے ذریعہ تاکید کافروں کے قول لَسْتَ مُرسَلاً کو رد کرنے کے لئے ہے یہ قرآن اس (خدا) کا نازل کردہ ہے جو اپنے ملک میں غالب اور اپنی مخلوق پر مہربان ہے (تنزیل العزیز) مبتداء محذوف یعنی القرآن کی خبر ہے تاکہ آپ ایسی قوم کو آگاہ کریں کہ جس کے آباء (و اجداد) کو آگاہ نہیں کیا گیا یعنی جن کو (فترت) یعنی وقفہ کے زمانہ میں آگاہ نہیں کیا گیا، لِتُنْذِرَ، تنزیل کے متعلق ہے، اسی وجہ سے یہ قوم ایمان و ہدایت سے بے خبر ہے ان میں سے اکثر لوگوں پر (تقدیری طور پر) بات ثابت ہو چکی ہے تو یہ اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال رکھے ہیں اس طریقہ سے کہ طوق نے ہاتھوں کو گردن کے ساتھ جکڑ دیا ہے چنانچہ وہ بندھے ہوئے ہاتھ ٹھوڑی تک پھنسے ہوئے ہیں اَذْقان ذَقَنٌ کی جمع ہے اور ذَقَنْ دونوں جبڑوں کے ملنے کی جگہ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے ہیں ان کو جھکا نہیں سکتے اور یہ ایک تمثیل ہے، اور مراد ہے کہ لوگ ایمان کا اقرار نہیں کرتے اور نہ اپنے سروں کو ایمان کے لئے جھکاتے ہیں اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے اور ایک آڑ ان کے پیچھے کر دی، دونوں جگہ سین کے فتحہ اور ضمہ کے ساتھ ہے جس کی وجہ سے ہم نے ان کے اوپر پردہ ڈال دیا تو وہ دیکھ نہیں سکتے یہ بھی ایک تمثیل ہے ان پر ایمان کے راستوں کو مسدود کرنے کے لئے اور ان کو آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، دونوں ہمزوں کی تحقیق اور ثانی کو الف سے بدل کر، اور ثانی کی تسہیل (نرمی) کے ساتھ، اور مسہلہ اور غیر مسہلہ کے درمیان الف داخل کر کے، اور ترک ادخال کر کے وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں آپ تو صرف اس شخص کو نصیحت کر سکتے ہیں جو نصیحت یعنی قرآن کی پیروی کرے اور غائبانہ طور پر یعنی رحمٰن کو بغیر دیکھے رحمٰن سے ڈرے آپ کا ڈرانا اس کو فائدہ دے سکتا ہے سو آپ اس کو مغفرت کی اور عمدہ عوض کی کہ وہ جنت ہے خوشخبری سنا دیجئے، اور بیشک ہم مردوں کو اٹھانے کے لئے زندہ کریں گے اور انہوں نے اپنی زندگی میں جو اچھے برے اعمال کر کے آگے بھیجے ہیں اور جو اعمال پیچھے چھوڑے ہیں جن کے نقش قدم پر بعد میں چلا گیا ہم ان کو زندہ کریں گے ہم ان کو لوح محفوظ میں قلمبند کر لیتے ہیں تاکہ ان کو ان اعمال کی جزاء دی جائے اور ہم نے ہر چیز کو روشن کتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھ رکھا ہے، روشن کتاب لوح محفوظ ہے کُلَّ شئ اس فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہے جس کی بعد والا فعل (اَحصینَاہ) تفسیر کر رہا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ: یٰسٓ قراء سبعہ نے نون کے سکون کے ساتھ پڑھا ہے، اس کے علاوہ نون کا ضمہ، فتحہ، کسرہ تین قراءتیں اور بھی ہیں مگر شاذ ہیں
قولہ: اللہ اعلم بمرادہٖ حروف مقطعات کے بارے میں یہ قول سب سے اسلم اور احوط ہے، ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ یٰسٓ لغت بنی طے میں ’’یا انسان‘‘ کے معنی میں ہے، اور ابن الحنفیہ سے مروی ہے یٰسٓ ’’یامحمد‘‘ کے معنی میں ہے۔
قولہ: والقرآن الحکیم واؤ قسمیہ ہے اور القرآن مقسم بہ ہے اِنّکَ لمِنَ الْمُرسَلِیْنَ جواب قسم ہے۔
قولہ: مُقْمَحُوْنَ یہ اقماحٌ سے مُقْمَحٌ اسم مفعول کی جمع مذکر ہے قَمْحٌ مادہ ہے گردن پھنسنے کی وجہ سے سر اوپر کو اٹھے ہوئے، بَعیْرٌ قامِعٌ وہ اونٹ جو پانی پینے کے بعد آنکھیں بند کر کے سر اٹھا کر کھڑا ہو، چونکہ دوزخیوں کی گردنوں میں طوق پھنسنے ہوئے ہوں گے جس کی وجہ سے ٹھوڑیاں اوپر کو اٹھ جائیں گی، جس کی وجہ سے لامحالہ سر بھی اوپر کو اٹھ جائیں گے۔ (لغات القرآن)
قولہ: تنزیل العزیز یہ ھٰذا مبتداء محذوف کی خبر ہے یا اَمْدَحُ فعل محذوف کی وجہ سے منصوب ہے ای اَمْدَحُ تَنْزِیْلَ العزِیْزِ یا نَزَّلَ
محذوف کا مفعول مطلق ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ای نَزَّلَ تنزِیْلاً ۔
قولہ: فِی لوحٍ محفوظٍ یہ نکتُبُ کا ظرف ہے، بہتر ہوتا کہ مفسرؒ تعالیٰ فی لوح محفوظ کے بجائے فی صحف الملائکۃ کہتے اس لئے کہ دنیا میں اعمال کی کتاب صحف ملائکہ میں ہوتی ہے نہ کہ لوح محفوظ میں۔
قولہ: کُلَّ شیئٍ اپنے مابعد فعل کی وجہ سے منصوب ہے، اور یہ باب اشتغال سے ہے ای اَحْصَیْنَا کُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنَاہ۔
قولہ: آثار، اَثَرْ کی جمع ہے نشان کو کہتے ہیں، یہاں عملی نمونے مراد ہیں خواہ اچھے ہوں یا برے۔
تفسیر و تشریح
سورة یٰسٓ کے فضائل: احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ وغیرہ نے معقل بن یسار سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا یٰسٓ قلب القرآن لا یقْرَؤھَا عَبْدٌ یُرِیْدُ اللہ وَالدَّ الْآخِرَۃَ اِلَّا غُفِرَلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذنبِہٖ وَمَا تَأخَّرَ فَاقرءوھَا عَلیٰ مَوتَاکُمْ معقل بن یسار نے روایت کیا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یٰسین قرآن کا دل ہے، جو بندہ اس کو خالص لوجہ اللہ اور طلب آخرت کے لئے پڑھے گا، اللہ تعالیٰ اس کے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف فرما دیں گے، لہٰذا تم اس کو اپنے مردوں کے پاس پڑھا کرو۔ (فتح القدیر اختصارًا)
امام غزالیؒ تعالیٰ نے فرمایا سورة یٰسین کو قلب قرآن فرمانے کی یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ اس سورت میں قیامت حشر و نشر کے مضامین خاص تفصیل اور بلاغت کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، اور اصول ایمان میں سے عقیدۂ آخرت وہ چیز ہے جس پر انسان کے اعمال کی صحت موقوف ہے، خوف آخرت ہی انسان کو عمل آخرت پر آمادہ اور مستعد کر سکتا ہے اور وہی اس کو نا جائز خواہشات اور حرام سے روکتا ہے تو جس طرح بدن کی صحت قلب پر موقوف ہے اسیطرح ایمان کی صحت فکر آخرت پر موقوف ہے۔ (روح)
سورة یٰسین کے دوسرے نام: سورة یٰسین کو حدیث شریف میں عظیمہ بھی کہا گیا ہے، اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ تورات میں اس سورت کا نام مُعِمہ آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والے کے لئے دنیا و آخرت میں خیرات و برکات کو عام کرنے والی، اور بعض روایات میں اس کا نام مدافعہ بھی آیا ہے، یعنی اپنے پڑھنے والوں سے بلاؤں کو دفع کرنے والی، اسی طرح بعض روایات میں اس کا نام قاضیہ آیا ہے یعنی حا جات کو پورا کرنے والی۔ (روح المعانی)
یٰسٓ یہ حروف مقطعات میں سے ہے اور جمہور مفسرین کا مشہور قول تو وہی ہے کہ اس کی صحیح اور حقیقی مراد تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، احکام القرآن میں امام مالکؒ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یٰسین اللہ کے اسماء میں سے ایک ہے اور ایک روایت میں ہے کہ یہ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’اے انسان‘‘ اور انسان سے مراد نبی کریمﷺ ہیں۔
کسی کا یٰسین نام رکھنا کیسا ہے؟ امام مالکؒ تعالیٰ نے اس کو اس لئے پسند نہیں فرمایا کہ ان کے نزدیک یہ اسماء الہٰیہ میں سے ہے اور اس کے صحیح معنی معلوم نہیں اس لئے ممکن ہے کہ اس کے کوئی ایسے معنی ہوں کہ اللہ کے ساتھ مخصوص ہوں البتہ اگر اس لفظ کو یٰسین، یاسین کے رسم الخط سے لکھا جائے تو یہ کسی انسان کا نام رکھنا جائز ہے، کیونکہ قرآن کریم میں آیا ہے سَلاَمٌ علیٰ آل یاسین یا الیاسین۔ (ابن عربی، معارف)
یٰسٓ۔۔ الحکیم یعنی قسم ہے حکمتوں سے پُر قرآن کی، قرآن کریم اپنی اعجازی شان اور پُر حکمت تعلیمات اور پختہ مضامین کے لحاظ سے اس بات کا بڑا زبردست شاہد ہے کہ جو نبی امی کو لے کو آیا ہے یقیناً وہ اللہ کا بھیجا ہوا اور بل اشک و شبہ راہ مستقیم پر ہے، اس کی پیروی کرنے والوں کو کوئی منزل مقصود سے بھٹکنے کا نہیں۔
تَنْزِیْلَ العَزِیزِ الرَّحِیْمِ یعنی یہ قرآن حکیم اس خدا کا نازل کیا ہوا ہے جو زبردست بھی ہے کہ منکرین کو سزا دیئے بغیر نہ چھوڑے، اور رحم کرنے والا بھی ہے کہ ماننے والوں کو نوازشوں اور بخششوں سے مالا مال کر دے اسی لئے آیات قرآنیہ میں بعض آیات شان لطف ومہر کا اور بعض شان غضب وقہر کا پہلو لئے ہوئے ہیں۔
لتنذر۔۔۔ غافلون یعنی بہت ہی مشکل اور کٹھن کام آپ کے سپرد ہوا ہے کہ قوم (عرب) کو اس قرآن کے ذریعہ ہوشیار اور بیدار کریں جس کے پاس صدیوں سے کوئی بیدار کرنے والا نہیں آیا، وہ جاہل اور غافل قوم جسے نہ خدا کی خبر اور نہ آخرت کی، نہ ماضی سے عبرت نہ مستقبل کی فکر، نہ مبدأ پر نظر اور نہ منتہا پر، نہ نیک و بد کی تمیز اور نہ بھلے برے کا شعور، اس کو اتنی ممتد جہالت و غفلت کی تاریکیوں سے نکال کر رشد و ہدایت کی صاف شاہ راہ پر کھڑا کرنا کوئی معمولی اور آسان کام نہیں ہے، بلاشبہ آپ پوری قوت و تندہی کے ساتھ ان کو اس غفلت و جہالت کے خوفناک نتائج اور بھیانک و ہولناک مستقبل سے ڈر کر فلاح و بہبود کے اعلیٰ مدارج پر پہنچانے کی کوشش کریں گے، لیکن آپ کو بہت سے ایسے افراد بھی ملیں گے جو کسی قسم کی نصیحت پر کان دھرنے والے نہیں، شیطان ان پر پوری طرح مسلط ہو چکا ہے کہ ان کی حماقتوں اور شرارتوں کو ان کی نظر میں خوشنما اور آراستہ کر کے دکھلا رہا ہے، اس وقت ایک طرف شیطان کی بات لَاُ غْوِیَنَّھُمْ اجمَعِیْنَ اِلَّا عِبَادَکَ مِنْھُمُ المُخْلَصِیْنَ (مخلصین کے سوا میں سب کو بہکا کر رہوں گا) سچی ثابت ہوتی ہے اور دوسری طرف حق تعالیٰ کا قول لَأ مْلَئَنَّ جَھَنَّمَ مِنْکَ ومِمَّنْ تَبِعَکَ مِنْھُمْ اجمعین (تجھ سے اور تیرے پیروکاروں سے دوزخ کو بھر دوں گا) ثابت اور چسپاں ہو جاتا ہے۔
لقد۔۔۔ اکثرھم (الآیۃ) حق تعالیٰ نے کفر و ایمان اور دوزخ و جنت کے دونوں راستے انسان کے سامنے کر دیئے ہیں، اور ایمان کی دعوت کے لئے انبیاء اور کتابیں بھی بھیج دیں، انسان کو اتنا اختیار بھی دے دیا کہ وہ بھلے برے میں تمیز کر سکے، جو بدنصیب نہ غور و فکر سے کام لے اور نہ دلائل قدرت میں غور کرے نہ انبیاء کی دعوت پر کان دھرے اور نہ واقعات و حادثات کو دیکھ کر چشم عبرت دا کرے، تو اس نے اپنے اختیار سے جو راہ اختیار کر لی تو حق تعالیٰ نے اس کے لئے اسی کے اسباب جمع فرما دیئے ہیں، اسی کو اس طرح تعبیر کیا ہے لَقَد حقَّ القَولُ علیٰ اکثرِھِمْ فھُمْ لاَ یٗؤمِنُوْنَ یعنی ان میں سے بیشتر لوگوں پرتو ان کے سواء اختیار کی بناء پر یہ قول حق جاری ہو چکا ہے کہ یہ ایمان نہ لائیں گے۔
انا۔۔۔ اعناقھم (الآیۃ) اس آیت میں مذکورہ لوگوں کے حال کی ایک تمثیل بیان فرمائی ہے کہ ان کی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کے گردن میں ایسے طوق ڈال دیئے گئے ہوں کہ ان کا چہرہ اور آنکھیں اوپر اٹھ جائیں، جو نہ اپنے وجود کو دیکھ سکے اور نہ اس کو واستہ ہی نظر آئے، تو ظاہر ہے کہ ایسا شخص خود کو کسی کھڈ میں گرنے سے نہیں بچا سکتا۔
وجعلنا۔۔۔ سدًّا (الآیۃ) مذکورہ لوگوں کی یہ دوسری تمثیل ہے، ان لوگوں کی مثال اس شخص جیسی ہے کہ اس کے چاروں طرف دیوار کھڑی کر دی گئی ہو، اور وہ اس چہار دیواری میں محصور ہو کر رہ گیا ہو جس کی وجہ سے وہ باہر کی چیزوں سے بالکل بے خبر ہے، ان کافروں کے گرد بھی ان کی جہالت اور مزید برآں عناد و ہٹ دھرمی نے محاصرہ کر لیا ہے، کہ باہر کی حق باتیں ان تک پہنچتی ہی نہیں۔ امام رازی نے فرمایا کہ نظر سے مانع دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک مانع تو ایسا ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے خود اپنے وجود کو بھی نہ دیکھ سکے، دوسرا وہ کہ اپنے گرد و پیش کو نہ دیکھ سکے، ان کفار کے لئے حق بینی سے دونوں قسم کے مانع موجود تھے، اس لئے پہلی تمثیل پہلے مانع کی ہے کہ جس کی گردن نیچے کو جھک نہ سکے، وہ اپنے وجود کو بھی نہیں دیکھ سکتا، اور دوسری تمثیل دوسرے مانع کی ہے کہ گرد و پیش کو نہیں دیکھ سکتا۔ (روح، معارف)
جمہور مفسرین نے مذکورہ تمثیل کو ان کے کفر و عناد کی تمثیل ہی قرار دیا ہے، اور بعض حضرات مفسرین نے بعض روایات کی بناء پر ایک واقعہ کا بیان قرار دیا ہے، کہ ابوجہل اور بعض دوسرے لوگ آنحضرتﷺ کو قتل کرنے یا ایذاء پہنچانے کا پختہ عزم کر کے آپ کی طرف بڑھے، مگر اللہ نے ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا، جس کی وجہ سے آپ ان کو نظر نہ آئے عاجز ہو کر نامراد واپس آ گئے، اسی قسم کے متعدد واقعات تفسیر ابن کثیر، روح المعانی، قرطبی وغیرہ میں منقول ہیں، مگر ان میں پیشتر روایات ضعیف ہیں جس کی وجہ سے ان پر آیت کی تفسیر کا مدار نہیں رکھا جا سکتا۔
ونکتب۔۔ آثارھم، ماقَدَّموا سے وہ آثار مراد ہیں جو انسان خود اپنی زندگی میں کرتا ہے اور آثارھم سے وہ اعمال مراد ہیں جس کے عملی نمونے (اچھے یا برے) وہ دنیا میں چھوڑ جاتا ہے، اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اقتداء میں لوگ وہ اعمال اختیار کرتے ہیں، جس طرح حدیث میں ہے، جس نے اسلام میں کوئی نیا طریقہ جاری کیا اس کے لئے اس کا اجر بھی ہے اور اس کا بھی کو اس کے بعد اس پر عمل کرے گا، بغیر اس کے کہ ان میں سے کسی کے اجر میں کمی ہو، اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس پر اس کے اپنے گناہوں کا بھی بوجھ ہو گا اور اس کے بعد اس پر عمل کرے گا اس کے ان میں سے کسی کے بوجھ میں کمی ہو۔ (صحیح بخاری، مسلم، کتاب الزکوٰۃ) اسی طرح ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے (۱) ایک علم جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں (۲) دوسرے نیک اولاد جو مرنے والے کے لئے دعائے خیر کرے (۳) تیسرے صدقہ جاریہ جس سے لوگ اس کے مرنے کے بعد بھی فیضیاب ہوں۔ (صحیح مسلم کتاب الوصیۃ)
ونکتب۔۔ آثارھم کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کار خیر میں اگر کوئی آدمی چلت پھرت اور کوشش کرتا ہے تو اس کے ہر قدم یعنی اس کی کوشش اور سعی کا اجر اس کو دیا جاتا ہے، عہد نبوی میں مسجد نبوی کے قریب کچھ جگہ خالی پڑی تھی، بنی سلمہ کے مکانات مسجد نبوی سے ذرا فاصلہ پر تھے، بنو سلمہ نے مسجد نبوی کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا، جب نبی کریمﷺ کے علم میں یہ بات آئی تو آپﷺ نے ان کو مسجد کے قریب ہونے سے روک دیا، اور فرمایا دِیَارَکُمْ تکتبُ آثارکمْ (اور یہ جملہ آپ نے دو مرتبہ فرمایا) یعنی تمہارے گھر اگرچہ (مسجد نبوی سے) دور ہیں لیکن وہیں رہو جتنے قدم تم چل کر آتے ہو وہ لکھے جاتے ہیں (صحیح مسلم کتاب المساجد)
آیت نمبر ۱۳ تا ۳۲
ترجمہ: آپ ان سے ایک مثال (یعنی) ایک بستی انطاکیہ والوں کی مثال اس وقت کی بیان کیجئے جب اس بستی میں کئی رسول آئے مثلاً مفعول اول ہے اور اَصحٰبَ القریۃِ مفعول ثانی ہے، جب وہ ان کے پاس اذجاءَ ھَا الخ اصحاب القریۃ سے بدل الاشتمال ہے، اور مرسلون سے عیسیٰؑ کے قاصد مراد ہیں یعنی جب ہم نے ان کے پاس (اول) دو کو بھیجا تو ان لوگوں نے دونوں کی تکذیب کی اِذْاَرْسَلْنَا اول اِذْ سے بدل ہے، پھر ہم نے تیسرے سے تقویت دی فَعَزَّزْنَا میں تخفف اور تشدید دونوں قراءتیں ہیں یعنی دو کی تیسرے کے ذریعہ تائید کی، سو ان تینوں نے کہا ہم تمہارے پاس بھیجے گئے ہیں تو ان لوگوں نے جواب دیا تم تو ہمارے ہی جیسے انسان ہو اور خدا نے کوئی چیز نازل نہیں کی، تم محض جھوٹ بولتے ہو، فرستادوں نے کہا ہمارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں، رَبَّنَا قائم مقام قسم ہے اور اس قسم کے ذریعہ اور لام کے ذریعہ ماقبل کی بہ نسبت زیادتی انکار کی وجہ سے اِنَّا الیکُمْ لمُرْسَلُوْنَ میں تاکید زیادہ لائی گئی ہے اور ہمارے ذمہ تو واضح طور پر (پیغام) پہنچا دینا ہے اور بس جو معجزات واضحہ سے مؤیَّد ہے، اور وہ (معجزہ) اندھوں کو بینا کرنا اور کوڑھی و مریض کو تندرست کرنا اور مردوں کو زندہ کرنا ہے وہ کہنے لگے تمہاری وجہ سے بارش موقوف ہونے کے سبب سے ہم کو نحوست لاحق ہو گئی اگر تم باز نہ آؤ گے تو ہم تم کو سنگسار کر دیں گے اور تم کو ہماری طرف سے سخت تکلیف پہنچے گی، ان فرستادوں نے کہا تمہاری نحوست تو تمہارے کفر کی وجہ سے تمہارے ساتھ ہے، کیا تم اس کو نحوست سمجھتے ہو کہ تم کو نصیحت کی گئی بلکہ (خود) تم ایسے لوگ ہو کہ اپنے شرک کی وجہ سے حد سے تجاوز کر گئے ہو، ہمزۂ استفہام ان شرطیہ پر داخل ہے اور اس کے ہمزہ میں تحقیق و تسہیل، اور دونوں صورتوں میں اس کے اور دوسرے یعنی (ہمزۂ استفہام) کے درمیان الف داخل کرنا ہے (اور ترک کرنا ہے) اور ذُکِّرْتُمْ بمعنی وُعِظْتُمْ اور خُوِّفْتُمْ ہے اور جواب شرط محذوف ہے یعنی تَطَیَّرْتُمْ وَکَفَرْتُمْ اور یہی محل استفہام ہے اور مراد اس سے تو بیخ ہے اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص کہ جس کا نام حبیب نجار تھا اور وہ رسولوں پر ایمان لاچکا تھا، اور اس کا مکان شہر کے پرلے کنارے پر تھا، جب اس نے قوم کا رسولوں کو جھٹلانا سنا تو دوڑتا ہوا آیا اس نے کہا اے میری قوم ایسے رسولوں کی اتباع کرو ثانی اِتَّبِعُوْا اول اِتَّبِعُوْا کی تاکید (لفظی) ہے، جو تم سے تبلیغ رسالت پر کوئی صلہ نہیں چاہتے اور وہ سیدھے راستہ پر ہیں، تو اس سے کہا گیا کہ کیا تو (بھی) ان کے دین پر ہے؟ اس نے جواب دیا مجھے کیا (عذر) ہے کہ میں اس کی بندگی نہ کروں کہ جس نے مجھے پیدا کیا؟ یعنی اس کی بندگی کرنے سے مجھے کوئی مانع نہیں ہے اور اس کی عبادت کا مقتضی (باعث) موجود ہے، اور تمہارا حال بھی ایسا ہی ہے (جیسا میرا ہے) اور مرنے کے بعد تم کو اس کے پاس لوٹ کر جانا ہے، أئَتَّخِذُ کے دونوں ہمزوں میں وہی قراءتیں ہیں جو أئَنْذَرْتَھُمْ میں گذر چکی ہیں، اور یہ استفہام بمعنی نفی ہے کیا میں اس کو چھوڑ کر اس کے غیر کو یعنی بتوں کو معبود بناؤں؟ اگر خدا حق میں نقصان کا ارادہ کرے تو ان کی شفاعت مجھے کوئی فائدہ نہ دے جس کی تم (ان سے) توقع رکھتے ہو، اور نہ وہ مجھے چھڑا سکیں (لا ینقذونَ) اٰلَھَۃً کی صفت ہے، اگر میں ایسا کروں یعنی اگر میں غیر اللہ کی بندگی کروں تو بلاشبہ کھلی گمراہی میں پڑ گیا، میں تو تمہارے پروردگار پر ایمان لا چکا سو میری طرف دھیان دو یعنی میری بات سنو، تو ان لوگوں نے اس کو سنگسار کر دیا تو وہ مرگیا، بوقت انتقال اس کو حکم دیا گیا جنت میں داخل ہو جا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ جیتے جی جنت میں داخل ہو گیا کاش میری قوم کو میرے پروردگار کی طرف سے میری مغفرت کا اور مجھے معزز لوگوں میں داخل کرنے کا علم ہو جاتا اور ہم نے اس (حبیب) کی قوم پر آسمان سے اس کے مرنے کے بعد ان کو ہلاک کرنے کے لئے فرشتوں کا لشکر نہیں بھیجا اور نہ ہم کو کسی کے ہلاک کرنے کے لئے ملائکہ کو اتارنے کی ضرورت تھی ما نافیہ ہے ان کی سزا تو صرف ایک چیخ تھی جو ان پر جبرئیلؑ نے ماری، سو وہ اچانک بجھ کر رہ گئے یعنی خاموش مردہ ہو کر رہ گئے ان (کافر) بندوں پر اور جیسے ان لوگوں پر جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی افسوس کہ وہ ہلاک کر دیئے گئے اور یہ حسرت کو ندا شدت الم کی وجہ سے ہے اور اس کو ندا مجازاً ہے یعنی اے حسرت یہ تیری حاضری کا وقت ہے لہٰذا تو حاضر ہو جا، ان کے پاس کبھی کوئی رسول نہیں آیا کہ اس کا مذاق نہ اڑایا ہو کلام حسرت کے سبب کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے اس کلام کے استہزاء پر دلالت کرنے کی وجہ سے جو مقتضی ہے ان کی ہلاکت تک جو حسرت کا مسبب عنہ (یعنی سبب) ہے۔
فائدہ: حسرت کا سبب ہلاکت اور ہلاکت کا سبب استہزاء گویا کہ استہزاء بواسطہ ہلاکت کا سبب ہوا۔
کیا اہل مکہ کو نبی کے بارے میں لَسْتَ مُرْسَلاً کہتے ہیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ ہم ان سے پہلے بہت سی امتوں کو ہلاک کر چکے ہیں اور وہ ہلاک شدگان ان کے یعنی اہل مکہ کے پاس (دنیا میں) لوٹ کر آنے والے نہیں اور استفہام تقریری ہے یعنی غور کیا کَمْ خبر یہ ہے، اور کثیراً کے معنی ہے، اور اپنے مابعد کا معمول ہے اور اپنے ماقبل کو اس میں عمل سے روکنے والا ہے، کیا یہ لوگ ان سے عبرت حاصل نہیں کرتے اور اَنَّھُمْ الخ معنی مذکورہ کی رعایت کے ساتھ ماقبل ہے اور معنی میں اِنَّا اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ کثیراً کے ہے، اور سب کے سب محشر میں زندہ کرنے کے بعد ہمارے روبرو حساب کے لئے حاضر کئے جائیں گے ان نافیہ ہے یا مخففہ ہے کُلٌّ یعنی تمام مخلوق، کُلٌّ مبتداء ہے، لمَّا تشدید کے ساتھ اِلَّا کے معنی میں ہے یا تخفیف کے ساتھ ہے، اور لام فارقہ ہے اور ما زائدہ ہے، جمیعٌ مبتداء کی خبر (اول) ہے، اور معنی میں مجموعُوْنَ کے ہے، محضرون للحساب خبر ثانی ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ: وَاضْرِبْ لَھُمْ مثلاً یہ کلام مستانف ہے، اور مخاطب آپﷺ ہیں، مفسر علام نے مثلاً کو اِضْرِبْ بمعنی اِجْعَلَ کا مفعول اول اور اصحابَ القریۃِ کو مفعول ثانی قرار دیا ہے مگر واضح اور احسن یہ ہے کہ اصحابَ القریۃِ مفعول اول اور مثلاً مفعول ثانی ہو، بعد میں چونکہ اصحاب القریۃ کی تشریح آ رہی ہے، اس لئے مفعول اول کو مقدم کر دیا تاکہ اجمال و تفصیل متصل ہو جائیں۔
قولہ: واضرب لھم الخ اس کا عطف ہو ای فانذرھم واضرب لھم اور ’’ضرب مثل‘‘ بعض اوقات ایک عجیب قصہ کی دوسرے عجیب قصہ کے ساتھ مطابقت و مماثلت بیان کرنے کے لئے بولا جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول ضرب اللہ مثلاً للذین کفروا امرأتَ نوحٍ اور بعض اوقات تطبیق و مماثلت کے قصد کے بغیر حالت غریبہ کو بیان کرنے کے لئے بھی اضربْ مثلاً، بولا جاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے قول وضربنا لکم الْاَ مثَال پہلی صورت میں آیت کے معنی ہوں گے اجعل اصحابَ القریۃ مثلاً لِھٰؤلاءِ فی الغلو فی الکفر والا صرار فی التکذیب ای طَبَقَ حالھم بحالھم، اصحاب القریۃ سے پہلے مثل مضاف محذوف ہے، اِضرب لھم مثلاً مثل اصحاب القریۃ اور یہ مضاف مثلاً سے بدل الکل عن الکل ہے، اور بعض حضرات نے عطف بیان بھی مانا ہے، مگر یہ ان کے نزدیک ہے جو تعریف وتنکیر کے اختلاف کے باوجود بدل صحیح مانتے ہیں۔
قولہ: القریۃ قاف کے فتحہ اور کسرہ کے ساتھ الضیعۃ اولمصر الجامع، بستی، آبادی، جمع قُریٰ وقِریٰ (اعراب القرآن) یہاں قریہ سے روم کا مشہور شہر انطار کیہ مراد ہے۔
قولہ: المرسلین حضرت عیسیٰؑ نے اہل انطاکیہ کے پاس اولاً اپنے حواریوں میں سے دو قاصد جن کا نام یحییٰ اور بولس تھا بھیجے تھے، اور وہب نے کہا ہے کہ ان کا نام یوحنَّا اور بَولَسْ تھا، اور صادق، مصدوق بھی کہا گیا ہے، اس کے بعد تیسرا قاصد بھیجا، اس کا نام شمعون تھا۔ (اعراب القرآن)
قولہ: الیٰ آخرہٖ ای آخر القصہ قولہ: اِذ اَرْسلنا، اِذ جاءَ ھا المرسلون سے بدل المفصل من المجمل ہے۔
قولہ: رُسُل عیسیٰ عیسیٰؑ کے قاصد، مشہور یہی ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ بلا واسطہ اللہ کے رسول تھے اور عیسیٰؑ کے رسولوں کو بھی اللہ کے رسول کہا جا سکتا ہے اس لئے کہ حضرت عیسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے ان کو بھیجا تھا۔
قولہ: تَطَیَّرْنَا کے اصل معنی پرندوں سے نیک یا بدفال لینا، یہاں مطلقاً بدفال لینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، عرب کی عادت تھی کہ وہ پرندوں سے فال (شگون) لیا کرتے تھے، اگر بائیں جانب سے دائیں جانب کو پرندہ اڑ کر سامنے سے گذر جاتا تو عرب اس کو نیک فال مانتے تھے اور اس کو الطائر السانح کہتے تھے، اور اس کی ضد یعنی دائیں جانب سے بائیں جانب کو اڑ کر جانے والے پرندے سے بدفالی لیتے تھے اور اس الطائر البارح کہتے تھے، اس کے بعد ہر بد فال کے لئے استعمال ہونے لگا۔ (مصباح)
قولہ: رَبُّنا یَعْلَمُ اِنَّا اِلَیْکُمْ لَمُرْسَلُوْنَ، اِنَّا اِلَیْکُمْ مرسلُوْنَ میں دو تاکیدوں کا استعمال ہوا ہے ایک جملہ اسمیہ اور دوسرے اِنَّ اس لئے کہ وہاں تکذیب اور نفی میں بھی زیادہ تاکید نہیں تھی، یہاں چونکہ کئی تاکیدوں کے ساتھ انکار و تکذیب مؤکد ہے، اس لئے اثبات میں بھی کئی تاکیدات لائی گئی ہیں، اول قسم جو کہ قائم مقام تاکید کے ہے دوم اِنَّ تیسرے جملہ اسمیہ چوتھے لام تاکید۔
قولہ: بکفر کم باسببیہ ہے ای بسبب کفر کم
قولہ: أئِنْ ذُکِّرْ تُمْ ہمزۂ استفہام انکاری تو بیخی ان شرطیہ پر داخل ہے، دونوں کو جواب کی ضرورت ہے اگر ہمزۂ استفہام اور شرط جمع جائیں تو سیبویہ ہمزۂ استفہام کا جواب قرار دیتے ہیں اور جواب شرط محذوف مانتے ہیں، اور یونس شرط کا جواب مانتے ہیں اور جواب استفہام محذوف مانتے ہیں، مفسر علام محلی نے جواب الشرط محذوف کہہ کر اشارہ کر دیا کہ ان کے نزدیک سیبویہ کا مذہب راجح ہے، سیبویہ کے نزدیک تقدیر عبارت یہ ہو گی اَئِنْ ذُکِّرْ تُمْ تتَطَیَّرونَ اور یونس کے نزدیک ائِنْ ذکِّرْتُمْ تطیَّروا جزم کے ساتھ، مفسر علام نے بمَا غَفَرَلی رَبِّی کی تفسیر بغفرانہٖ سے کر کے اشارہ کر دیا کہ مصدریہ ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ما موصولہ ہو اس صورت میں عائد محذوف ہو گا، اور تقدیر عبارت یہ ہو گی بالَّذِیْ غفرہٗ ربِّی من الذنوب اور استفہامیہ بھی صحیح ہے ای بایِّ شیئٍ غفرلی ای بامر ٍ عظیمٍ وھو تو حیدی وصدقی بالحق (صاوی) حسرت کو ندا دینا مجازاً ہے اس لئے کہ حسرت میں منادیٰ بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔
قولہ: یَاحَسْرَۃً علَی العِبَاد اس میں تین احتمال ہیں (۱) یہ اللہ کا کلام ہو (۲) ملائکہ کا کلام ہو (۳) مومنین کا کلام ہو اور اَلْعبَاد سے مراد تمام کفار ہوں، اس صورت میں الف لام جنس کا ہو گا، اور کہا گیا ہے کہ العباد سے مراد رُسُل ہوں اور علیٰ بمعنی مِن ہو اور قائل کفار ہوں، تقدیر عبارت یہ ہو گی یَاحَسْرَۃً علَیْنَا مِن مخالفۃ العِبَادِ مگر پہلی صورت اولیٰ ہے جو مفسر علام نے بیان کی ہے۔
قولہ: اِلَّا کانوا بہٖ یَستھْزِءُوْنَ یہ جملہ یاتیْھمْ کے مفعول سے حال ہے۔
قولہ: مَسوقٌ لِبَیَانِ سببِھَا یہ جملہ مستانفہ ہے اور سبب حسرت کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے، گویا کہ یہ ایک سوال مقدر کا جواب ہے، سوال کیا گیا، ماوَجْہُ التَّحَسُّر علیھمْ؟ جواب دیا گیا مَا یاتِیْھِمْ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بہٖ یَستَھْزِءُوْنَ یعنی یہ جملہ بالواسطہ سبب حسرت کو بیان کرنے کے لئے ہے کہ استہزاء سبب ہلاکت ہے اور ہلاکت سبب حسرت ہے تو گویا استہزاء سبب حسرت ہے۔
قولہ: لا شتمالِہٖ ای لِدَلَالَۃِ ھَذا الکلام علی الإستھزاءِ ۔
قولہ: الَمْ یَرَوْا الخ یہاں رویۃ سے رویت علمیہ مراد ہے یعنی کیا اہل مکہ کو علم نہیں کَمْ خبر یہ ہے اور اَھْلَکْنَا کا مفعول مقدم ہے اور قَبْلَھُمْ اَھْلَکْنَا لا ظرف ہے اور مِنَ القرُوْنِ کَمْ کا بیان ہے اَلَمْ یَرَوْا میں استفہام تقریر یعنی مابعد نفی کا اقرار کرانے کے لئے ہے یعنی علم ہے کَمْ خبر یہ مابعد یعنی اَھْلَکْنَا کا معمول ہے ماقبل یعنی لَمْ یَرَوا کا معمول نہیں ہے اس لئے کہ کَمْ خبر یہ صدارت کلام کو چاہتا ہے لہٰذا اس کا ماقبل اس میں عامل نہیں ہو سکتا ورنہ تو اس کی صدارت باطل ہو جائے گی۔ (صاوی)
قولہ: مُعَلِّقَۃٌ مَا قَبْلَھَا عَنِ العَمَلِ یعنی کم خبر یہ نے اپنے ماقبل یعنی لم یَرَوا کو لفظاً عمل سے روک دیا ہے اگرچہ معنی میں عمل جاری ہے۔
سوال: عمل سے مانع کم استفہامیہ ہوتا ہے نہ کہ خبر یہ، اور یہ کم خبریہ ہے؟
جواب: چونکہ کم میں استفہامیہ ہونا اصل ہے، لہٰذا تعلیق (مانع) ہونے میں کم خبریہ کو کم استفہامیہ کے قائم مقام کر دیا ہے۔ (جمل)
تفسیر و تشریح
واضرب۔۔۔ القریۃ ضرب مثل کا استعمال دو طریقوں پر ہوتا ہے (۱) کسی عجیب و غریب معاملہ کو ثابت کرنے کے لئے اسی جیسے عجیب و غریب معاملہ کی مثال بیان کرنے کو کہتے ہیں (۲) مطلقاً کسی عجیب و غریب معاملہ کو بغیر کسی واقعہ کی تطبیق و مماثلت کے بیان کرنے کو کہتے ہیں۔ اوپر جن منکرین نبوت و رسالت کفار کا ذکر سابقہ آیات میں آیا ہے ان کو متنبہ کرنے کے لئے قرآن کریم نے بطور مثال پہلے زمانہ کا ایک قصہ بیان کیا ہے جو ایک بستی میں پیش آیا تھا۔
یہ بستی کونسی تھی اور وہ قصہ کیا تھا؟ قرآن کریم نے اس بستی کا نام نہیں بتایا، تاریخی روایات میں محمد بن اسحٰق نے حضرت ابن عباسؓ اور کعب احبار، اور وہب بن منبہ سے نقل کیا ہے کہ یہ بستی انطاکیہ تھی، جمہور مفسرین نے اسی کو اختیار کیا ہے، معجم البلدان کی تصریح کے مطابق انطاکیہ ملک شام کا مشہور اور عظیم الشان شہر ہے جو اپنی شادابی اور استحکام میں معروف ہے، اس شہر میں نصاریٰ کے عبادت خانے بکثرت تھے، زمانہ اسلام میں اس کو فاتح شام امین الامتہ حضرت ابوعبیدہ جراحؓ نے فتح کیا تھا، روح البیان میں سہیلی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ شہر انطاکیہ کو آباد کرنے والا ایک شخص تھا جس کا نام انطیقس تھا، اسی شخص کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس شہر کا نام انطاکیہ ہو گیا، بائبل کتاب اعمال کے آٹھویں اور گیارہوں باب میں ایک قصہ کے مشابہ قدرے تفاوت کے ساتھ انطاکیہ کا بیان ہوا ہے۔ (فوائد عثمانی ملخصًا)
اس قصہ کا ذکر مومنین کے لئے بشارت اور مکذبین کے لئے عبرت ہے، معجم البلدان میں یاقوت حموی نے یہ بھی لکھا ہے کہ حبیب نجار (جس کا واقعہ اس آیت میں آگے آ رہا ہے) اس کی قبر بھی انطاکیہ میں معروف ہے، دور دور سے لوگ اس کی زیارت کے لئے آتے ہیں، اس تصریح سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں قریہ کا ذکر ہے وہ یہی انطاکیہ ہے، لیکن ابن کثیر نے تاریخی حیثیت ماننی پڑے گی، صاحب فتح المنان نے ابن کثیر کے اشکالات کے جوابات بھی دیئے ہیں، مگر سہل اور بے غبار بات وہی ہے جو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ تعالیٰ نے بیان القرآن میں اختیار فرمائی ہے، کہ آیات قرآنی کا مضمون سمجھنے کے لئے اس قریہ کی تعیین ضروری نہیں ہے، اور قرآن کریم نے بھی اس کو مبہم رکھا ہے تو اس کی تعیین کے لئے اتنا زور صرف کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ سلف صالحین کا یہ ارشاد کہ اَبْھِمُوْا مَا اَبْھَمَہُ اللہ یعنی اللہ نے جس چیز کو مبہم رکھا ہے تم بھی اس کو مبہم رکھو، اس کا مقتضی بھی یہی ہے۔
اذ۔۔۔ سلون یہ فرستادے حضرتؑ کے حواریین میں سے تھے، آیا ان کو حضرت عیسیٰؑ نے اہل انطاکیہ کی جانب تعلیم و تبلیغ کی عرض سے بحکم خداوندی بھیجا تھا، یا حضرت عیسیٰؑ کے رفع الی السماء کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کو تبلیغ دین کے لئے اہل انطاکیہ کی جانب بھیجا تھا دونوں احتمال ہیں (فتح القدیر) اہل انطاکیہ نے ان کی تکذیب کی، کہا گیا ہے کہ ان میں سے دو کے نام یوحنا اور شمعون تھے، اور بعض نے سمعان، ویحییٰ وبولس کہا ہے، ان کے ناموں کی کسی صحیح روایت سے تصدیق نہیں ہو سکتی، اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بلاواسطہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر تھے یا حضرت عیسیٰؑ کے بھیجے ہوئے قاصد، اگر یہ حضرات بلا واسطہ پیغمبر تھے تو ان کی بعثت حضرت عیسیٰؑ سے پہلے ہوئی تھی۔ (فوائد عثمانی ملخصًا)
اولاً دو رسول بھیجے گئے تھے جب بستی والوں نے ان کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کی تائید و تقویت کے لئے ایک تیسرا رسول بھیج دیا، پھر ان تینوں رسولوں نے بستی والوں کو خطاب کر کے کہا اِنَّا اِلَیْکُمْ مُرْسَلُوْنَ ۔
قالو۔۔ مثلنا بستی والوں نے کہا تم میں کونسا سرخاب لا پر ہے جو اللہ نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے، تم ہم سے کس بات میں بڑھ کر تھے جس کی وجہ سے اللہ نے تم کو نبوت و رسالت کے لئے منتخب فرمایا تم خواہ مخواہ اللہ کا نام لیتے ہو، معلوم ہوتا ہے تم تینوں نے سازش کر کے ایک بات گھڑلی ہے۔
قالو۔۔ بکم تطیر کے معنی بدفالی کے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اس بستی والوں نے ان قاصدوں کی بات نہ مانی، بلکہ کہنے لگے کہ
تم لوگ منحوس ہو، بعض روایات میں ہے کہ ان کی نافرمانی اور فرستادوں کی بات نہ ماننے کی وجہ سے اس بستی میں قحط پڑھ گیا تھا، اس لئے بستی والوں نے ان کو منحوس کہا، تو ان حضرات نے کہا۔
طائر۔۔ معکم یعنی تمہاری نحوست تمہارے ہی ساتھ ہے، مطلب یہ ہے کہ یہ خشک سالی وغیرہ سب تمہارے اعمال کا نتیجہ ہیں، وجاء اقصی المدینۃِ رجُلٌ یَّسْعٰی پہلی آیت میں اس بستی کو قریہ سے تعبیر کیا ہے اور اس آیت میں مدینہ سے، قریہ عربی زبان میں مطلقاً بستی کو کہتے ہیں خواہ بڑی ہو یا چھوٹی اور مدینہ بڑے شہر کو کہتے ہیں، یعنی شہر کے دور و دراز علاقہ سے یہ شخص تیزی کے ساتھ دوڑ کر یا اہتمام کے ساتھ آیا۔ دوڑ کر آنے والا شخص کون تھا؟ یہ کیا کام کرتا تھا؟ قرآن اس بارے میں خاموش ہے تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کا نام حبیب تھا، اور مشہور یہ ہے کہ یہ نجار تھا، لکڑی کا کام کرتا تھا۔ (ابن کثیر)
تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بھی شروع میں بت پرست تھا۔
واقعہ کی تفصیل: مذکورہ قصہ کا حاصل یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریوں میں سے دو کو اہل انطاکیہ کی دعوت و تبلیغ کے لئے بھیجا، ایک کا نام صادق اور دوسرے کا نام مصدوق تھا، (ناموں میں اختلاف ہے) جب یہ دونوں حضرات شہر انطاکیہ کے قریب پہنچے تو ان کی ملاقات حبیب نامی ایک بوڑھے سے ہو گئی، جو جنگل میں بکریاں چرارہا تھا، دعا سلام کے بعد شیخ نے ان سے پوچھا تم کون لوگ ہو اور کہاں سے آرہے ہو، تو ان دونوں حضرات نے جواب دیا ہم حضرت عیسیٰؑ کے قاصد ہیں، ہم تم کو بتوں کی عبادت سے رحمٰن کی عبادت دیتے ہیں، شیخ نے معلوم کیا کیا تمہارے پاس نشانی ہے، کہا ہاں! ہم مریضوں کو اچھا کر دیتے ہیں، اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو اللہ کے حکم سے صحت مند کر دیتے ہیں، اور یہ ان حضرات کی کرامت اور حضرت عیسیٰؑ کا معجزہ تھا، شیخ نے کہا میرا ایک لڑکا ہے جو سالہاسال سے بیمار ہے، چنانچہ یہ دونوں حضرات شیخ کے ہمراہ اس کے لڑکے کو دیکھنے کے لئے اس کے گھر چلے گئے، ان دونوں حضرات نے مریض پر ہاتھ پھیر دیا، لڑکا بحکم خداوندی اسی وقت تندرست ہو گیا، چنانچہ یہ خبر آناً فاناً پورے شہر میں پھیل گئی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر سینکڑوں لوگوں کو شفاء عطا فرمائی، ان کا ایک بت پرست بادشاہ تھا جس کا نام انطیخا تھا، روح البیان میں اس بادشاہ کا نام بحناطیس رومی اور انطیخس لکھا ہے، شدہ شدہ ان حضرات کی خبر بادشاہ کو بھی پہنچ گئی، بادشاہ نے ان کو اپنے دربار میں بلایا اور معلوم کیا تم کون ہو؟ جواب دیا ہم حضرت عیسیٰؑ کے قاصد ہیں، بادشاہ نے معلوم کیا تمہارے آنے کا کیا مقصد ہے؟ ان حضرات نے جواب دیا ہم اس بات کی دعوت دینے آئے ہیں، کہ ان بہرے گونگے بتوں کی بندگی ترک کر کے قادر مطلق، دانا و بینا ایک خدا کی بندگی کرو، بادشاہ نے کہا کیا ہمارے معبودوں کے علاوہ بھی کوئی معبود ہے؟ ان دونوں حضرات نے جواب دیا، ہاں! جس نے تجھ کو اور تیرے معبودوں کو پیدا کیا، بادشاہ نے کہا اس وقت یہاں سے چلے جاؤ، ہم تمہارے معاملہ میں غور کر لیں، ان دونوں حضرات کے دربار سے نکلنے کے بعد لوگوں نے ان کا پیچھا کیا اور پکڑ لیا، ہر ایک کو سو سو کوڑے مارے اور جیل میں بند کر دیا، اس کے بعد حضرت عیسیٰؑ نے اپنے حواریین میں سے سب سے بڑے حواری شمعون کو ان کی تائید و حمایت کے لئے بھیجا، شمعون ہیئت اور لباس بدل کر اس قربہ میں داخل ہوا، اور بادشاہ کے مصاحبین میں شامل ہو گیا، لوگ اس سے مانوس ہو گئے حتی کہ بادشاہ بھی اس سے مانوس ہو گیا، شمعون عبادت میں بظاہر بادشاہ کے طور طریقے اختیار کرتا رہا ایک روز موقع پا کر شمعون نے بادشاہ سے کہا سنا ہے کہ آپ نے دو آدمیوں کو اس بناء پر قید میں ڈال رکھا ہے کہ وہ تیرے معبودوں کے علاوہ کسی دوسرے معبود کا عقیدہ رکھتے ہیں، کیا آپ نے ان سے گفتگو کی ہے اور ان کی پوری بات سنی ہے؟ بادشاہ نے جواب دیا میں غصہ کی وجہ سے نہ ان کی پوری بات سن سکا اور نہ ان کی تحقیق حال ہی کر سکا، شمعون نے کہا میں چاہتا ہوں کہ آپ ان کو بلائیں اور پوری بات سنیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کہتے ہیں، چنانچہ بادشاہ نے ان دونوں کو بلایا، جب دونوں دربار میں حاضر ہو گئے تو شمعون نے سوال کیا تم کو یہاں کس نے بھیجا ہے؟ جواب دیا کہ اس اللہ نے جس نے ہر شئ کو پیدا کیا اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، شمعون نے کہا اختصار کے ساتھ کچھ اور تفصیل بیان کرو، انہوں نے کہا اِنَّہٗ یَفْعَلُ مَایَشَاءُ ویَحْکُمُ مَایُرِیْدُ پھر شمعون نے کہا تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ ان حضرات نے کہا کو آپ چاہیں، چنانچہ بادشاہ کے حکم سے ایک لڑکا لایا گیا جو نابینا تھا، حتی کہ اس کی آنکھوں کے نشانات بھی نہیں تھے، یہ حضرات اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے تاآنکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھوں کے نشانات ظاہر فرما دیئے، ان حضرات نے مٹی کی دو گولیاں لے کر آنکھوں کے نشانات میں رکھ دیں، اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ آنکھ کی پتلیاں بن گئیں، اور ان سے نظر آنے لگا، بادشاہ کو نہایت تعجب ہوا، شمعون نے بادشاہ سے کہا اگر آپ اپنے معبودوں سے دعا کرتے تو کیا یہ ممکن تھا؟ بادشاہ نے شمعون سے کہا تجھ سے کوئی راز پوشیدہ نہیں، ہمارے معبود جن کی ہم بندگی کرتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ دیکھتے ہیں اور نہ وہ کسی کو نفع پہنچا سکتے ہیں، اور نہ نقصان، بادشاہ نے حضرت عیسیٰؑ کے قاصدوں سے کہا اگر تمہارا معبود مردے کو زندہ کر دے تو میں اس پر ایمان لے آؤں گا، ان حضرات نے جواب دیا ہمارا معبود ہر شئ پر قادر ہے، بادشاہ نے کہا، یہاں ایک میت ہے جس کا ایک ہفتہ قبل انتقال ہوا ہے اور وہ ایک دیہاتی کا لڑکا ہے اس کا باپ سفر میں ہے، میں نے اس کے والد کے آنے تک میت کو دفن کرنے سے منع کر دیا ہے، حتی کہ اب اسمیں تعفن بھی ہو گیا ہے، ان دونوں حضرات نے علانیہ اور شمعون نے خفیہ دعاء کرنی شروع کی، چنانچہ وہ لڑکا بحکم خداوندی اٹھ کھڑا ہوا، اور کہنے لگا مرا انتقال ایک ہفتہ پہلے ہوا تھا، اور میں مشرک تھا، چنانچہ مجھکو جہنم کی سات وادیوں میں داخل کر دیا گیا، میں تمکو اس دین و مذہب کے بارے میں خدا سے ڈراتا ہوں جس پر تم ہو، چنانچہ یہ لوگ اللہ پر ایمان لے آئے، زندہ ہونے والے لڑکے نے کہا میرے سامنے آسمان کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں، اور مجھے ایک حسین و جمیل نوجوان نظر آرہا ہے جو ان تینوں یعنی شمعون اور اس کے دونوں ساتھیوں کی سفارش کر رہا ہے، اور میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور عیسیٰ اس کی روح اور اس کے کلمہ ہیں، ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ دیکھکر بادشاہ اور اس کی قوم کے کچھ افراد ایمان لے آئے، ایک روایت میں ہے کہ بادشاہ نے دعوت حق قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ان کے قتل کے درپے ہو گیا جب حبیب نجار کو یہ صورت حال معلوم ہوئی تو وہ شہر کے دور دراز کنارے سے دوڑتا ہوا آیا، اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی اور پھر اپنے مومن ہونے کا اعلان ان کلمات سے کر دیا اِنِّی آمنتُ بِرَبِّکُمْ فاسْمَعُوْنِ یہ خطاب رسولوں کو تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پوری قوم کو خطاب ہو اور اللہ کو
ان کا رب کہنا اظہار حقیقت کے طور پر تھا، اگرچہ وہ اس کو تسلیم نہ کرتے تھے (واقعہ کی تفصیل روح البیان اور صاوی سے ماخوذ ہے)
قیل۔۔ الجنۃ (الآیۃ) قرآن کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حبیب نجار کو شہید کر دیا گیا اس لئے کہ دخول جنت یا آثار جنت کا، شاہدہ بعد از مرگ ہی ہو سکتا ہے، تاریخی روایات میں حضرت عباسؓ مقاتل، مجاہد، ائمہ تفسیر سے منقول ہے کہ اس شخص کا نام حبیب بن اسماعیل نجار تھا، اور یہ ان خوش نصیب لوگوں میں ہے جو ہمارے رسول محمدﷺ پر آپ کی بعثت سے چھ سو سال پہلے ایمان لایا، جیسا کہ تبَّع اکبر کے متعلق منقول ہے کہ رسول اللہﷺ کی بشارت کتب سابقہ میں پڑھ کر آپ پر ایمان لایا تھا، تیسرے بزرگ جو آپ پر آپ کی بعثت و دعوت سے پہلے ایمان لائے ورقہ بن نوفل ہیں، جن کا ذکر بخاری شریف میں ابتداء وحی کے واقعات میں ہے، یہ بھی آپﷺ کی خصوصیات ہے کہ آپ کی بعثت بلکہ ولادت سے بھی پہلے آپ پر بعض حضرات ایمان لائے، ایسا معاملہ کسی اور رسول کے ساتھ نہیں ہوا۔
وما۔۔۔ السماء (الآیۃ) یہ اس قوم پر آسمانی عذاب کا ذکر ہے جس نے رسولوں کی تکذیب کی، اور حبیب نجار کو مار مار کر شہید کر دیا تھا، اور عذاب کی تمہید کے طور پر فرمایا کہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کے لئے ہمیں آسمان سے کوئی لشکر بھیجنا نہیں پڑا، اور نہ ایسا لشکر بھیجنا ہمارا دستور ہے، کیونکہ اللہ کا ایک ہی فرشتہ بڑی بڑی بہادر قوموں کو تباہ کر دینے کے لئے کافی ہے، اس کو فرشتوں کا لشکر بھجنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس تمہید کے بعد ان پر آنے والے عذاب کو بیان فرمایا کہ بس اتنا ہوا کہ حضرت جبرئیل امین نے شہر پناہ کے دروازے کی چوکھٹ کے دونوں بازو پکڑ کر ایک ایسی زور دار چیخ ماری کہ سب کے پتّے پھٹ گئے اور روح پرواز کر گئی اور بجھ کر ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔ (معارف ملخصًا)
آیت نمبر ۳۳ تا ۵۰
ترجمہ: اور ایک نشانی ان کے لئے مرنے کے بعد زندہ ہونے پر مردہ زمین ہے اٰیۃٌ لھُمْ خبر مقدم ہے اَلْمیتۃُ تخفیف اور تشدید کے ساتھ ہے کہ ہم نے اس کو پانی کے ذریعہ زندہ کیا والارض الخ مبتداء مؤخر ہے، اور ہم نے اس زمین سے غلہ مثلاً گندم پیدا کیا سو اس سے یہ لوگ کھاتے ہیں اور (نیز) ہم نے زمین میں کھجوروں اور اناروں کے باغات پیدا کئے اور اس میں کچھ چشمے جاری کئے تاکہ لوگ اس کے پھل کھائیں، ثمَرہ میں یعنی (ث، م) دونوں میں فتحہ اور ضمہ ہے، یعنی تاکہ مذکورہ کھجور وغیرہ کے پھلوں میں سے کھائیں اور ان پھلوں کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا تو پھر یہ لوگ اپنے اوپر خدا تعالیٰ کے انعامات کا شکر ادا کیوں نہیں کرتے؟ وہ پاک ذات ہے جس نے تمام زمینی نباتات (مثلاً) غلہ وغیرہ کے اور خود ان کے اندر نر و مادہ کے جوڑے اور ان عجیب و غریب مخلوقات کے جن کو وہ جانتے بھی نہیں جوڑے پیدا کئے اور خدا تعالیٰ کی قدرت عظیمہ پر ایک نشانی رات ہے کہ جس کے اوپر سے ہم دن کو اتار لیتے ہیں تو وہ یکایک اندھیرے میں داخل ہو جاتے ہیں اور منجملہ قدرت کی نشانیوں میں سے یا دوسری نشانی سورج ہے جو اپنے مستقر میں رواں دواں ہے کہ اس سے (سرِمو) تجاوز نہیں کرتا اور سورج کی یہ گردش اس کے ملک میں غالب باخبر خدا کی مقرر کردہ ہے اور چاند کی بھی اس کی رفتار کے اعتبار سے ہم نے ہر ماہ میں اٹھائیس منزلیں اٹھائیس راتوں میں مقرر کر دیں، اگر تیس مہینہ دن کا ہوتا ہے تو چاند (آخری) دو راتوں میں پوشیدہ ترہتا ہے، اور اگر مہینہ ۲۹ دن کا ہوتا ہے تو چاند ایک رات پوشیدہ رہتا ہے حتی کہ چاند اپنی آخری منزل میں دیکھنے والے کو کھجور کی پرانی شاخ کے مانند نظر آتا ہے اور قمر پر نصب اور رفع دونوں جائز ہیں، یہ فعل (محذوف) کی وجہ سے منصوب ہے، جس کی بعد والا فعل (قَدَّرْنا) تفسیر کر رہا ہے، یعنی چاند (آخری راتوں میں) کھجور کی شاخ کے مانند ہو جاتا ہے جب کہ وہ پرانی ہو کر پتلی اور ٹیڑھی اور زرد ہو جائے اور نہ آفتاب کی مجال کہ چاند کو جا پکڑے چنانچہ رات، دن ختم ہونے سے پہلے نہیں آتی اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں گردش کر رہا ہے، کلٌّ کی تنوین مضاف الیہ کے عوض میں ہے جو کہ وہ سورج چاند اور تارے ہیں، شمس و قمر وغیرہ کو ذوی العقول وغیرہ کے درجہ میں اتار لیا گیا ہے، اور ان کے لئے ہماری قدرت کی ایک نشانی یہ ہے کہ ہم نے ان کی ذریت یعنی ان کے آباء و اجداد کو بھری ہوئی کشتی یعنی نوح کی کشتی میں سوار کیا اور ایک قراءت میں ذرِّیۃ کے بجائے ذرِّیَاتٌ ہے اور ہم نے ان کے لئے اس جیسی یعنی نوح کی کشتی جیسی چیزیں پیدا کیں، اور وہ چھوٹی بڑی کشتیاں ہیں، جن کو لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سکھانے سے نوحؑ کی کشتی جیسا بنا لیا جن پر یہ لوگ سوار ہوتے ہیں، اور اگر ہم چاہیں تو ان کو کشتیوں کی ایجاد کے باوجود غرق کر دیں پھر نہ تو ان کا کوئی فریادرس ہو اور نہ ان کو خلاصی دی جائے مگر یہ ہماری مہربانی ہے اور ان کو ایک وقت تک فائدہ دینا منظور ہے یعنی ان پر ہماری مہربانی اور ان کو لذت اندوزی کا موقع دینا ہی خلاصی (نجات) دے سکتا ہے اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ تم اس عذاب سے ڈرو جو دوسروں کے مانند، دنیا کا عذاب تمہارے سامنے ہے اور تمہارے پیچھے ہے یعنی آخرت کا عذاب تاکہ تم پر رحم کیا جائے تو انہوں نے اعراض کیا اور ان کے پاس ان کے رب کی جانب سے کوئی نشانی نہیں آتی مگر یہ کہ اس سے منہ پھیر لیتے ہیں، اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے تم کو جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرو یعنی فقراء صحابہ نے ان سے کہا تھا کہ خدا کے عطا کردہ اموال میں سے ہمارے اوپر خرچ کرو تو ان کافروں نے مومنوں سے بطور استہزاء کہا کیا ہم ایسے لوگوں کو کھانا کھلائیں اگر اللہ چاہتا تو خود ان کو کھلاتا جیسا کہ اے مومنو! تمہارا اعتقاد ہے (اے مومنو!) اس (اعتقاد) کے باوجود تمہارا ہم سے کھانا طلب کرنا صریح غلطی ہے اور ان (کافروں) کے کفر کی صراحت کا یہ عظیم موقع ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم وعدۂ بعث میں سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدۂ کب پورا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، یہ تو ایک چیخ کے منتظر ہیں اور وہ اسرافیل کا نفخۂ اولیٰ ہے اور وہ ان کو اس حالت میں آپکڑے گی کہ وہ باہم لڑ جھگڑ رہے ہوں گے یَخِصِّمُوْنَ تشدید کے ساتھ، اس کی اصل یَخْتَصِمُوْنَ ہے تا کی حرکت خا کی طرف منتقل کر دی گئی اور ت کو صاد میں مدغم کر دیا گیا، اور وہ اس چیخ سے غافل ہوں گے باہم جھگڑے کی وجہ سے اور فروخت اور کھانے پینے وغیرہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے، اور ایک قراءت میں یَخْصِمُوْنَ بر وزن یَضْرِبُوْنَ ہے سو ان کو نہ تو وصیت کرنے کا موقع ملے گا اور نہ وہ اپنے اہل کی جانب اپنے بازاروں اور مشغلوں سے لوٹ سکیں گے بلکہ بازاروں اور مشغلوں ہی میں مر جائیں گے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ: وَاٰیَۃٌ لھُم الْاَرْضُ المیتَۃُ اَحْیَیْنَاھَا، اٰیَۃٌ خبر مقدم ہے اور یہ تقدیم اہتمام کے لئے ہے، تنوین تعظیم کے لئے ہے ای وعلامۃٌ عظیمَۃٌ ودلاَلۃٌ واضِحۃٌ علی إحیاء بعد الموت۔
قولہ: لھُمْ ای اھل مکۃ لھم اٰیۃٌ کے متعلق بھی ہو سکتا ہے، اس لئے کہ آیت بمعنی علامۃٌ ہے یا کائنۃٌ کے متعلق ہو کر اٰیۃ کی صفت ہے اَلْاَرْضُ المَیْتَۃُ بترکیب توصیفی مبتداء مؤخر ہے۔
قولہ: اَحْیَیْنَا ھَا بعض حضرات نے کہا کہ اَحْیَیْنَا ھَا علامت قدرت کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے جملہ مستانفہ ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اَحْیَیْنَا جملہ ہو کر الارْضُ المیتَۃُ کی صفت ہو، مفسر علام کی عبارت سے اسی کی تائید ہوتی ہے، اس لئے کہ مبتداء کو اَحْیَیْنَاھَا کے بعد ذکر کیا ہے، اگر مفسر علام کے نزدیک اَحْیَیْنَاھَا جملہ مستانفہ ہوتا تو مبتداء کو اَحْیینَاھا سے مقدم ذکر کرتے۔
قولہ: وجَعَلْنَا اس کا عطف اَحْیَیْنَاھَا پر ہے۔
قولہ: مِنْ نخیلٍ، نخْلٌ اور نَخِیْلٌ دونوں کے ایک ہی معنی ہیں لیکن النخل اسم جمع ہے اس کا واحد نَخْلۃٌ ہے لفظ نخلۃ اہل حجاز کے نزدیک مؤنث ہے اور تمیم ونجد کے نزدیک مذکر ہے اور نخیل بالاتفاق مؤنث ہے (صاوی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسرؒ تعالیٰ کا بعد میں آنے والا مِنَ النخیل وغیرہ مناسب نہیں ہے، بلکہ بہتر وغیرھا ہے اس لئے کہ ہٖ ضمیر کا مرجع ماسبق میں مذکور نخیلٌ ہے جو کہ بالاتفاق مؤنث ہے۔
قولہ: ثمر المذکور منَ النخیل وغیرہٖ مفسرؒ تعالیٰ کا مقصد اس عبارت کے اضافہ سے ایک اعتراض کا دفعیہ ہے، اعتراض یہ ہے کہ ثمرہ کی ضمیر نخیل اور اعناب کی طرف راجع ہے اول تو اعناب اور نخیل جمع ہیں جو کہ واحد مؤنث کے حکم میں ہیں، اس لحاظ سے من ثمرھا ہونا چاہیے اور اگر اعناب اور نخیل کو دونوع تسلیم کر لیا جائے تو پھر (ھما) ضمیر تثنیہ کی ہونی چاہیے، حالانکہ مفسرعلام نہ تو واحد مؤنث کی ضمیر لائے اور نہ تثنیہ کی، بلکہ واحد مذکر کی ضمیر لائے ہیں، جو بظاہر درست نہیں معلوم ہوتی، مذکورہ عبارت سے اسی اعتراض کا جواب دیا ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ نخیل واعناب کو مذکور کے معنی میں لے کرواحد مذکر کی ضمیر لانا درست ہے، یا
ثمرہٖ ماءٌ کی طرف راجع ہے جو کہ مِنَ العُیُون سے مفہوم ہے، اس لئے کہ وجود پانی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (فتح القدیر شوکانی)
سوال: الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ دونوں معرف باللام ہونے کی وجہ سے معرفہ ہیں، اور اَحْیَیْنَاھَا جملہ ہونے کی وجہ سے نکرہ کے حکم میں ہے، اس صورت میں اگر اَحْیَیْنَاھَا کو اَلْاَرْضُ المَیْتَۃُ کی صفت قرار دیا جائے تو معرفہ کی صفت کا نکرہ ہونا لازم آتا ہے، جو قاعدۂ مطابقت کے منافی ہے۔
جواب: الارض المیتۃُ پر الف لام جنس کے لئے ہے، اس لئے کہ کوئی معین ارض مراد نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ الف لام معرفہ کا فائدہ نہیں دے گا، جس کی وجہ سے نکرہ کا صفت بننا درست ہے، اس کی نظیر شاعر کا یہ قول ہے۔ ؎
وَلَقَدْ اَمُرُّ عَلَی اللَّئِیْمِ یَسُبُّنِیْ
فمَضَیْتُ ثمۃ قُلتُ لا یَعْنِیْنِیْ
قولہ: اَخْرَجنا مِنْھَا حبًّا فمنہ یاکلون، حَبٌّ، حَبَّۃٌ کی جمع ہے اس غلہ کو کہتے ہیں جس کو پیسا جائے جیسے گندم جَو وغیرہ اور بَذرٌ اس غلہ کو کہتے ہیں جس سے تیل نکالا جائے، جیسے رائی، سرسوں وغیرہ۔ قولہ: فمنہُ ای من الحب۔
سوال: تقدیم صلہ سے حصر سمجھ میں آتا ہے، اصل میں اَخْرَجْنَا حَبًّا یاکلون منہ ہے، منہ کی تقدیم سے حصر مستفاد ہو رہا ہے کہ اکل مذکورہ قسم کے غلوں میں منحصر ہے، حالانکہ یہ بد یہی البطلان ہے، اس لئے کہ مذکورہ دونوں قسم کے غلوں کے علاوہ بھی بہت سے غلے کھائے جاتے ہیں۔
جواب: تقدیم صلہ جنس ما کوئی کو حبوب میں منحصر کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اکثر ماکول کو حبوب میں حصر کرنے کے لئے ہے، اس لئے کہ حبوب ہی اکثریت سے کھائی جانے والی غذا ہے۔
قولہ: مِنَ العیون کی تفسیر بعضھا سے کر کے اشارہ کر دیا کہ مِن تبعیضیہ ہے، بیانیہ بھی قرار دینا صحیح ہے۔
قولہ: وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیھم اس کا عطف مِن ثمرہ پر ہے ای لیا کُلُوا مِنْ ثمَرِہٖ ویَاکُلُوْا مِمَّا عَمِلَتْ ایدیھم کالعصیر والدبس ونحوھما یعنی کھجور اور انگور کے پھل کھائیں جو ان سے بناتے ہیں مثلاً عرق (جوس) شیرہ وغیرہ یہ ترجمہ اس صورت میں ہو گا جب کہ ما سے ما موصولہ مراد ہو، اور بعض حضرات نے ما کو نافیہ کہا ہے، یعنی تاکہ مذکورہ چیزوں کو کھاؤ جن کو تم نے پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ اس کا پیدا کرنے والا خدا ہے، یعنی مذکورہ اشیاء کے پیدا کرنے میں تمہارے ہنر یا حکمت کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ تم تو اپنے پاس موجود کو بھی مٹی میں ملا کر بظاہر ضائع کر دیتے ہو، یہ محض خدا کا فضل و کرم اور اس کی صفت وقدرت ہی ہے کہ جس دانہ کو تم نے گلنے سڑنے کے لئے مٹی میں دفن کر دیا خدا نے اپنی قدرت و رحمت سے اس کی نہ صرف حفاظت فرمائی بلکہ اس کو اضعافاً مضاعدا دو گنا چوگنا کر کے تمہارے حوالہ کر دیا مَا مصدر یہ بھی ہو سکتا ہے، ای لیا کلوا من عمل ایدیھم
قولہ: اَفَلاَ یَشکُرُوْنَ ہمزہ محذوف پر داخل ہے، تقدیر عبارت یہ ہے أیَنْتَفِعُوْنَ بھٰذہ النعم فَلاَ یشکرونَھَا۔
قولہ: سُبحانَ الَّذِیْ، سبحان مصدر بمعنی تسبیح ہے اس پر نصب نیز مفرد کی جانب اضافت لازم ہے مفرد خواہ اسم ظاہر ہو جیسے سُبحَانَ اللہ اور سبحانَ الَّذی یا اسم ضمیر ہو جیسے سبحانَہٗ أن یکونَ لہٗ، سُبحانَ الَّذِی خلَقَ الازْوَاج کُلَّھَا جملہ مستانفہ ہے ترک شکر پر تنزیہہ کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے (روح المعانی) بعض حضرات نے کہا ہے کہ دونوں آیتیں یعنی اٰیۃٌ لھم الارض المیتۃُ الآیۃٌ لھمْ الَّیْلُ نسلخُ کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔
قولہ: اٰیَۃٌ لَّھُمُ الَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّھَارَ، اٰیۃٌ خبر مقدم ہے، اور اللیلُ مبتداء مؤخر ہے، کما سَبَقَ اور نَسْلَخُ، لیلٌ کے آیات قدرت میں سے ہونے کی کیفیت کا بیان ہے۔
قولہ: نَسْلَخُ مضارع جمع متکلم (ن، ف) سَلْخًا کھال اتارنا، مطلقاً کسی چیز کو اتارنا، زائل کرنا، یعنی ہم دن کو رات کے اوپر سے اتار لیتے ہیں، فَاِذَا ھُمْ مُظْلِمُونَ تو وہ تاریکی میں رہ جاتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ کائنات میں ظلمت اصل ہے اور نہار (روشنی) طاری ہے، جس طرح جانور کے اوپر کھال اتارنے کے بعد گوشت ظاہر ہو جاتا ہے، اسی طرح دن کو رات کے اوپر سے اتارنے کے بعد رات باقی وہ جاتی ہے، مفسرؒ تعالیٰ نے نَسْلَخُ کی تفسیر نَفْصِلُ سے کر کے اشارہ کر دیا کہ نَسْلَخُ نکشِفُ کے معنی میں نہیں ہے ورنہ تو فاِذا ھُمْ مظلِمونَ کے بجائے فاِذَاھُم مبصرون ہونا چاہیے، اس لئے کہ آیۃ کے معنی یہ ہوں گے و آیتہ اللیلُ نکشفُ ونظھرُ منہُ النھارَ نفصل (منہُ) میں من بمعنی عن ہے، اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ لیل، نہار سے مقدم ہے، اس لئے کہ مسلوخ منہ مسلوخ سے مقدم کرتا ہے۔ (جمل)
قولہ: مُظلِمُونَ اَظْلَمَ القَوْمُ سے ماخوذ ہے ای دَخَلُوْا فی الظلام۔
قولہ: من جملۃ الآیۃ اس کا عطف الْاَرْضُ مبتداء پر ہے یعنی عطف مفرد علی المفرد ہے۔
قولہ: اَوْ اٰیۃٌ اُخریٰ یہ دوسری ترکیب کی طرف اشارہ ہے یعنی الشمس مبتداء ہے اور تجری اس کی خبر ہے، اس صورت میں عطف علی الجملہ ہو گا۔
قولہ: والقمرُ کذٰلِکَ یعنی قمر من جملہ آیات کے ایک آیۃ ہے یا دوسری مستقل آیۃ ہے، یہ ترکیب صرف اس صورت میں ہو گی جب کہ القمر مرفوع پڑھا جائے، اور اگر القمر کو منصوب پڑھیں تو فعل مقدر کی وجہ سے منصوب ہو گا اور اس صورت میں مااضمر عاملہ کے قبیل سے ہو گا، تقدیر عبارت یہ ہو گی قَدَّرْنَا الْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ اور اگر مرفوع پڑھیں تو سابق مبتداء یعنی الارض المیتۃ یا اللیل پر وطف ہو گا اور تقدیر عبارت اٰیۃٌ لھُمُ القمرُ ہو گی، یا القمرُ خود مبتداء ہو اور خبر قدَّرنَاہُ ہو۔
قولہ: المَنَازِلَ اس میں تین ترکیبیں ہو سکتی ہیں (۱) قَدَّرْنِا کا مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہو سکتا ہے، اس صورت میں قَدَّرْنَا بمعنی صَیَّرنا ہو گا (۲) قَدَّرْنَاہ کی ضمیر سے حال ہو، اس صورت میں منازل کے پہلے مضاف محذوف ماننا لازم ہو گا، اس لئے کہ خود قمر منازل نہیں ہے بلکہ ذومنازل ہے، تقدیر عبارت یہ ہو گی قَدَّرناہُذومنازلَ (۳) یہ کہ مَنَازِلَ ظرف ہو، ای قدَّرنا سَیْرہٗ فی مَنازِلَ علامہ جلال الدین محلی نے اپنے قول مِنْ حیثُ سیرہٖ سے اسی ترکیب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (جمل)
قولہ: العُرْجُوْنَ بروزن فُعْلُوْنَ شاخ خرما، جو خرما کانٹے کے بعد کھجور پر خشک ہو کر زرد، پتلی اور مثل ہلال ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔
قولہ: شَمَاریخَ یہ شَمْروخٌ کی جمع ہے، یہ عُرْجون ہی کی تشریح ہے اس میں تشبیہ مرکب ہے، اس لئے کہ ہلال کو عرجون کے ساتھ
تین اوصاف میں تشبیہ دی گئی ہے دِقَّتْ، تَقَوُّس اور اصفرار۔
قولہ: نُزِّلُوا مَنْزِلَۃَ العُقلاءِ اس عبارت کے اضافہ کا مقصد ایک سوال مقدر کا جواب ہے۔
سوال: کُلٌّ یا عموم پر دلالت کرنے کی وجہ سے یا تنوین کے مضاف الیہ کے عوض میں ہونے کی وجہ سے مبتداء ہے ای کُلُّ اَحَدٍ من الشمس والقمر والنجوم فی فلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ، یَسْبَحُوْنَ مبتداء کی خبر ہے، مبتداء غیر ذوی العقول ہے اور اس کی خبر یسْبَحُوْنَ واؤ نون کے ساتھ لائی گئ ہے، جو کہ ذوی العقول کے ساتھ خاص ہے، لہٰذا یَسْبَحُوْنَ واؤ نون کے ساتھ معلوم نہیں ہوتا۔
جواب: یَسْبَحُوْنَ سَبحٌ سے مشتق ہے جس کے معنی تیرنے کے ہیں اور یہ ذوی العقول کی صفت ہے، چونکہ غیر ذوی العقول کی طرف ذوی العقول کے فعل کی نسبت کی گئی ہے، اس لئے غیر ذوی العقول کو ذوی العقول کے درجہ میں اتار لیا گیا جس کی وجہ سے یَسْبَحُوْنَ کو خبر لانا درست ہو گیا۔
قولہ: اٰیۃ لَّھُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَھُمْ، اٰیَۃٌ لَّھُمْ خبر مقدم ہے اور اَنَّا حَمَلْنَا مصدر کی تاویل میں ہو کر مبتداء مؤخر ہے، ایْ حَمْلُنَا ذُرِّیَّتَھُمْ الفُلْکِ اٰیَۃٌ دَالَّۃٌ عَلیٰ بَاھِرِ قُدْرَتِنَا۔
قولہ: ای اٰبائَھُمْ الاصول اس عبارت سے اشارہ کر دیا کہ ذُرِّیَّۃٌ لا اطلاق جس طرح فروع پر ہوتا ہے اصول پر بھی ہوتا ہے اس لئے کہ یہ ذَرَّۃ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی خلق کے ہیں اور فروع اصول سے مخلوق ہیں لہٰذا اب وہ اعتراض ختم ہو گیا کہ نوحؑ کی کشتی میں سوار ہونے والے اصول اہل مکہ تھے نہ کہ فروع، اور بعض حضرات نے مذکورہ اعتراض کا یہ جواب بھی دیا ہے، کہ فی الفلکِ میں الف لام جنس کا ہے جس سے جنس کشتی مراد ہے نہ کہ خاص کشتی نوح، اس لئے کہ اس آیت کا مقصد اہل مکہ پر احسان جتانا ہے اور ظاہر ہے مطلق کشتی مراد لینے میں امتنان بالواسطہ اور بلا واسطہ دونوں شامل ہیں۔ (لغات القرآن للدرویش)
قولہ: کغَیرِ کُمْ ای کالمؤمنین۔ قولہ: اَعْرضُوا اس اضافہ سے اشارہ کر دیا کہ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ کا جواب شرط اَعْرَضُوْا محذوف ہے۔
قولہ: وَخَلَقْنَا لَھُمْ مِنْ مِّثْلِہٖ یہ دوسرا امتنان ہے جو پہلے امتنان پر مرتب ہے، اٰیۃ کے معنی یہ ہیں جَعَلْنَا سفینَۃَ نوحٍ اٰیۃً عظیمۃً علیٰ قُدْرَتِنَا و نِعٌمَۃً للخلق و عَلَّمْنّا ھم صَنْعَۃَ السَّفِینَۃِ فعمِلُوا سُفُنًاکبارًا وصغَارًا لِینْتَفِعُوْا بِھَا۔
قولہ: وَخَلَقْنَا لَھُم مِنْ مِّثْلہٖ مایرکبونَ من، مثلہٖ مامفعول مؤخر سے حال ہے اور مثلہٖ کی ضمیر فُلْکٌ کی طرف راجع ہے۔
قولہ: فی معتقد کم ھٰذا اے مومنو تمہارے اس اعتقاد کے باوجود کہ اللہ ہی رازق ہے وہی سب کو کھلاتا پلاتا ہے تو پھر ہم سے کیوں کھانا وغیرہ طلب کرتے ہو؟ اس صورت میں الذین کفروا میں کافر سے مراد خدا کے وجود کا منکر (دہریہ) ہو گا اور اگر مطلب یہ ہو کہ جس کی روزی خدا نے بند کر دی ہو اور خدا ہی ان کو کھلانا نہ چاہتا ہو تو ہم اس کی مرضی اور مشیئت کے خلاف کھانا کھلانے والے کون ہوتے ہیں؟ اس صورت میں الذین کفروا میں کافر سے مراد مشرک ہے جو کہ خدا کے وجود کا قائل ہے مگر اس کے ساتھ شریک کرتا ہے، اس دوسرے مطلب کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ مسلم مساکین کو بکثرت کھانا کھلایا کرتے تھے، ایک روز ابوجہل کی حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملاقات ہو گئی، تو کہنے لگا اے ابوبکر کیا تمہارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کھلانے پر قادر ہے؟ صدیق اکبرؓ نے فرمایا ہاں! تو پھر کیا وجہ ہے وہ ان کو نہیں کھلاتا؟ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جواب دیا، اللہ تعالیٰ بعض کو فقر کے ذریعہ اور بعض کو غنا کے ذریعہ آزماتا ہے، اور فقراء کو روزہ کا اور اغنیاء کو سخاوت کا حکم دیا ہے، تو ابو جہل کہنے لگا (واللہ یا ابابکر اَن انت الافی ضلال) اے ابوبکر تم تو غلط فہمی کا شکار ہو، کہ تم یہ سمجھتے ہو وہ ان کو کھلانے پر قادر ہونے کے باوجود نہیں کھلانا چاہتا مگر تم کھلانا چاہتے ہو!! (صاوی)
قولہ: موقع عظیمٌ قائلین کے کفر کی صراحت کرنے میں کفار کی تبکیت وتقیبح کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ کفار کی دو قسموں کی طرف اشارہ ہو گیا ایک وہ جو سرے سے خدا کے وجود کا منکر ہو یہاں کافر سے یہی قسم مراد ہے اور دوسرے وہ جو خدا کے وجود کا تو منکر نہ ہو مگر اس کا شریک ٹھہراتا ہو، ماسبق میں اللہ تعالیٰ کے قول اَلَمْ یَرَوْا کَمْ اَھْلَکْنَا قَبْلَھُمْ مِنَ القُرُوْنِ (الآیۃ) میں دوسری قسم کے کفار مراد ہیں۔ (صاوی و جمل)
قولہ: ویَقُوْلُوْنَ متیٰ ھٰذا الوعد یہ قول کفار کی قسم ثانی یعنی مشرکین کی طرف راجع ہے۔
قولہ: واُدغمت فی الصاد یعنی تا کو صاد سے بدلنے کے بعد صاد میں ادغام کر دیا گیا۔ (واللہ اعلم بالصواب)
تفسیر و تشریح
سورة یٰسین میں زیادہ تر مضامین آیات قدرت اور اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات بیان کر کے آخرت پر استدلال اور حشر و نشر کے عقیدے کو پختہ کرنے سے متعلق ہیں، مذکورۃ الصدر آیات میں قدرت الٰہیہ کی ایسی ہی نشانیاں بیان فرمائی ہیں جو ایک طرف اس کی قدرت کاملہ کے دلائل واضحہ ہیں، تو دوسری طرف انسانوں اور عام مخلوقات پر حق تعالیٰ کے خاص انعامات و احسانات اور ان میں عجیب و غریب حکمتوں کا اثبات ہے۔
مشرکین اور بعث بعد الموت کا عقیدہ: بعث بعد الموت کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ ان کے مشاہدے اور تجربے کے منافی تھا، بلکہ وہ اس عقیدے کو عقل کے بھی خلاف سمجھتے تھے، یہ بات کسی طرح ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی، ان کا کہنا تھا کہ انسان کے مرنے اور جسم کے گل سڑ کر ریزہ ریزہ ہو جانے کے بعد عقل اس کو باور نہیں کرتی کہ ان ذرات کو دوبارہ جمع کر کے ایک مکمل انسان بنا کر کھڑا کر دیا جائے گا، اور بظاہر ان کا مشاہدہ بھی اس بات کی تائید کرتا تھا اس لئے کہ ہزار ہا سال گذرنے کے بعد بھی مردوں میں سے کوئی شخص زندہ ہو کر دنیا میں نہیں آیا تھا۔ مذکورۃ الصدر آیات میں عقلی دلائل اور مشاہداتی مثالوں سے نہ صرف یہ کہ ان کے شک و تردد کو رفع کرنے کی کوشش کی گئ ہے، بلکہ یہ ثابت کیا گیا کہ بعث بعد الموت نہ صرف یہ کہ عقلی طور پر ممکن بلکہ کائناتی مثالوں سے ثابت اور واقع ہوتی ہے، ان ہی مشاہداتی ثالوں میں ایک مثال مردہ زمین کو زندہ کرنا ہے، جس کو واٰیۃ لھُمُ الْاَرْضُ المیتَۃُ (الآیۃ) سے بیان فرمایا ہے، بعث بعد الموت کے اثبات کے لئے یہ ایسی واضح اور کھلی ہوئی دلیل ہے کہ ہر انسان پر وقت اپنی نظروں سے دیکھتا ہے، اس مثال کو سمجھنے کے لئے نہ بہت زیادہ علم و دانش کی ضرورت اور نہ عقل و فلسفہ کی، ایک معمولی سمجھ رکھنے والا شخص بھی معمولی توجہ سے سمجھ سکتا ہے، موسم گرما میں زمین پر جبکہ چہار سو خاک اڑتی نظر آتی ہے کہیں ہریالی کا نام و نشان نہیں ہوتا ہے، آسمان سے بارش برستی ہے تو مردہ زمین میں ایک قسم کی زندگی پیدا ہو جاتی ہے، جس کے آثار اس میں پیدا ہونے والی نباتات اور اشجار اور ان کے ثمرات سے ظاہر ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مردہ زمین کو زندہ کر کے ہم اس سے ان کی بقائے حیات کے لئے صرف غلہ ہی نہیں اگاتے، بلکہ ان کے کام و دہن کی لذت کے لئے انواع و اقسام کے پھل بھی کثرت سے پیدا کرتے ہیں، یہاں صرف دو پھلوں کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ کثیر المنافع ہونے کے ساتھ ساتھ عربوں کے لئے مرغوب تھے، نیز ان کی پیداوار بھی عرب میں زیادہ ہوتی ہے۔
وما۔۔ ایدیھم جمہور مفسرین نے آیت میں ما کو نفی کے لئے قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے، کہ ان پھلوں کو ان کے ہاتھوں نے نہیں بنایا، اس جملہ کا مقصد غافل انسان کو اس پر متنبہ کرنا ہے کہ ذرا تو اپنے کام اور محنت میں غور کر، تیرا کام اس باغ و بہار میں اس کے سوا کیا ہے؟ کہ تو نے زمین کو نرم کر کے بیج کو اس میں ڈال دیا، مگر اس بیج سے درخت اگانا، اور فرض پر برگ وبار لانا، ان سب کاموں میں تیرا کیا دخل ہے؟ یہ تو خالص قادر مطلق حکیم ودانا ہی کا فعل ہے، اس لئے تیرا فرض ہے کہ ان چیزوں سے فائدہ اٹھاتے وقت اس کے خالق و مالک کو فراموش نہ کرے، اسی مذکورہ صورت حال کی سورة واقعہ کی آیت اَفَرَأَیْتمْ تِحْرُثُوْنَ ءَ اَنْتُمْ تَزْرَ عُوْنَہٗ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعُوْنَ یعنی دیکھو تو جو چیز تم بولتے ہو اس کو نشو و نما دے کر تم نے بنایا ہے یا ہم نے؟ مطلب یہ ہے کہ ان غلوں اور پھلوں کی پیداوار میں بندوں کی سعی و محنت، کد و کاوش اور تصرف کا کوئی دخل نہیں ہے، یہ پیداوار محض اللہ کا فضل و کرم ہے پھر انسان ان نعمتوں پر اس کا شکر کیوں ادا نہیں کرتے؟ ابن جریر وغیرہ بعض مفسرین نے وَمَا عَمِلَتْہُ میں لفظ ما کو اسم موصول الذی کے معنی میں قرار دے کر یہ ترجمہ کیا ہے کہ سب چیزیں اس لئے پیدا کی گئی ہیں کہ لوگ ان کے پھل کھائیں اور ان چیزوں کو بھی کھائیں جن کو انسان ان نباتات اور پھلوں سے خود اپنے ہاتھوں کے کسب و عمل سے تیار کرتا ہے، مثلاً پھلوں سے مختلف حلوے، اچار چٹنی تیار کرتا ہے اور بعض پھلوں اور دانوں سے تیل نکالتا ہے جو انسان کے کسب و عمل کا نتیجہ ہے بغیر انسانی عمل دخل کے خدا کا اپنی قدرت سے پھلوں کو پیدا کرنا، اور انسان کو اس بات کا سلیقہ سکھانا کہ ایک پھل کو دوسری چیزوں سے مرکب کر کے طرح طرح کی خوش ذائقہ اشیاء خوردنی تیار کرے، یہ دوسری نعمت ہے، اس تفسیر کی تائید حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی قراءت سے بھی ہوتی ہے، کیونکہ ان کی قراءت میں لفظ ما کے بجائے مِمَّا آیا ہے، یعنی مِمَّا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ دنیا کے تمام حیوانات نباتات اور پھل کھاتے ہیں اور بعض حیوانات گوشت بھی کھاتے ہیں، کچھ مٹی کھاتے ہیں، لیکن ان سب جانوروں کی خوراک مفردات ہی سے ہے، گھاس کھانے والا گھاس، گوشت کھانے والا گوشت کھاتا ہے، ان چیزوں کو دے کر اشیاء کے ساتھ مرکب کر کے قسم قسم کے کھانے تیار نہیں کرتا، یہ سلیقہ اور طریقہ صرف انسان ہی کو آتا ہے، آپ نے کبھی نہ دیکھا ہو گا، آپ نے کبھی نہ دیکھا ہو گا، کہ کسی حیوان نے پھلوں کو نچوڑ کر رس نکالا ہو یا مختلف پھل فروٹوں کو ملا کر چاٹ بنائی ہو، یہ سمجھ اور عقل اللہ تعالیٰ نے صرف انسان ہی کو عطا فرمائی ہے، پھر نہ معلوم انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا؟
سبحٰن۔۔ کلھا (الآیۃ) یعنی انسانوں اور حیوانوں کی طرح ہم نے ہر مخلوق میں جوڑے یعنی نر و مادہ کا نظام رکھا ہے، علاوہ ازیں زمین کی گہرائیوں میں بھی جو چیزیں تمہاری نظروں سے غائب ہیں، جن کا علم تم نہیں رکھتے، ان میں بھی زوجیت (نر و مادہ) کا یہ نظام ہم نے رکھا ہے، غرضیکہ ہم نے ہر چیز کو جوڑے سے پیدا کیا ہے، حتی کہ دنیا و آخرت بھی زوج ہے، اور یہ حیات آخرت کی عقلی دلیل بھی ہے، صرف ایک اللہ کی ذات ہے جو مخلوق کی اس صفت زوجیت سے اور دیگر تمام نقائص سے پاک ہے وہ وتر (فرد) ہے، زوج نہیں ہے اس لئے کہ وہ مخلوق نہیں ہے۔
واٰیۃ۔۔۔ النھار (الآیۃ) زمینی مخلوقات میں قدرت خداوندی کی نشانیاں بیان کرنے کے بعد آسمانی اور آفاقی مخلوقات میں قدرت خداوندی کا بیان ہے، سلخ کے لفظی معنی کھال اتارنے کے ہیں، کسی چیز کے چھلکے اتارنے کو بھی مجازاً سلخ کہہ سکتے ہیں جب جانور کی کھال اتار دی جاتی ہے تو اندر کا گوشت نظر آنے لگتا ہے، اسی طرح غلاف اور چھلکا اتار دیا جائے تو اندر کی چیز ظاہر ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس مثال سے اشارہ دے دیا کہ اس جہان میں اصل ظلمت ہے اور روشنی عارضی اور طاری ہے جو تاروں اور سیاروں کے ذریعہ زمین تک پہنچتی ہے، اگر روشنی کو ظلمت کے اوپر سے اتار لیا جائے تو اصل یعنی ظلمت باقی رہ جاتی ہے، اسی کو عرف میں رات کہتے ہیں۔ (معارف)
والشمس۔۔۔ العلیم آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آفتاب اپنے مستقر کی طرف چلتا رہتا ہے، مستقرَّ یہ ظرف کا صیغہ ہے، جائے قرار کو بھی کہتے ہیں، اور وقت قرار کو بھی، اور لفظ مستقر منتہائے سیروسفر کے معنی میں بھی آتا ہے، بعض حضرات مفسرین نے اس جگہ مستقر سے مستقر زمانی مراد لیا ہے، یعنی وہ وقت جب کہ آفتاب اپنی حرکت مقررہ پوری کر کے ختم کر دے گا، اور وہ قیامت کا دن ہے اس تفسیر کے مطابق آیت کے معنی یہ ہیں کہ آفتاب اپنے مدار پر ایسے محکم اور مضبوط نظام کیساتھ حرکت کر رہا ہے جس میں کبھی ایک سکینڈ کا فرق نہیں آتا، ہزارہا سال اس روش پر گذر چکے ہیں، مگر یہ حرکت دائمی نہیں، اس کا ایک خاص مستقر ہے جہاں پہنچ کر نظام شمسی کی یہ حرکت ختم ہو جائے گی اور وہ قیامت کا دن ہے، یہ تفسیر حضرت قتادہ سے منقول ہے۔ (ابن کثیر، معارف)
سورۂزمر کی ایک آیت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ مستقر سے مراد مستقر زمانی یعنی قیامت کا دن ہے، آیت یہ ہے خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالَاَرْضَ بِالحَقِّ یُکَوِّرُ اللَّیْلَ علَی النَّھَارِ وَیّکَوِّرُ النَّھَارَ عَلَی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِیْ لَاِجَلٍ مُّسَمًّی اس آیت میں بھی تقریباً وہی بیان ہے جو سورة یٰسین کی مذکورہ آیت میں ہے، اس آیت میں فرمایا کہ شمس و قمر دونوں اللہ کے حکم کے مسخر اور تابع ہیں، ان میں سے ہر ایک، ایک خاص میعاد تک کے لئے چل رہا ہے، یہاں اَجَلٌ مُّسَمّٰی کے الفاظ ہیں، جس کے معنی میعاد معین کے ہیں، اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ شمس و قمر دونوں کی حرکت دائمی نہیں، ایک میعاد معین یعنی روز قیامت پر پہنچ کر ختم اور منقطع ہو جائے گی، سورة یٰسین کی آیت مذکورہ میں بھی ظاہر یہی ہے کہ لفظ مستقر سے یہی میعاد معین یعنی مستقر زمانی مراد ہے، اس تفسیر کی رو سے نہ آیت کے مفہوم و مراد میں کوئی اشکال ہے، نہ قواعد ہئیت و ریاضی کا اس پر کوئی اعتراض۔ (معارف)
اور بعض حضرات مفسرین نے اس سے مراد مستقر مکانی لیا ہے، جس کی بناء ایک حدیث صحیح ہے حدیث میں ہے کہ حضرت ابو زرؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا، جانتے ہو سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں، آپ نے فرمایا سورج جا کر عرش کے نیچے سجدہ کرتا ہے، اس کے بعد دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرتا ہے جب اجازت مل جاتی ہے تو طلوع ہوتا ہے، ایک وقت آئے گا کہ اس سے کہا جائے گا، واپس لوٹ جا، یعنی جہاں سے آیا ہے وہیں چلا جا۔ (صحیح بخاری، بدأالخلق، باب صفت الشمس والقمر بحسبان، مسلم کتاب الایمان بابٍ بیان الزمن الذی لا یقبل فیہ الایمان)
آفتاب کے زیر عرش سجدہ کرنے کی تحقیق: مذکورہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مستقر سے مراد، مکانی مستقر ہے یعنی وہ جگہ کہ جہاں آفتاب کی حرکت کا ایک دور پورا ہو جائے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ جگہ عرش کے نیچے ہے، اس صورت میں آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ آفتاب ہر روز ایک مستقر مکانی کی جانب چلتا ہے، پھر وہاں اللہ کے سامنے سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت طلب کرتا ہے، اجازت ملنے پر دوسرا دور شروع کرتا ہے۔ لیکن واقعات و مشاہدات اور ہئیت و فلکیات کے بیان کردہ اصولوں کے بناء پر اس میں متعدد قوی اشکالات ہیں۔
پہلا اشکال: یہ کہ عرش رحمٰن کی جو کیفیت قرآن و سنت سے سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ تمام زمینوں کے اوپر محیط ہے، زمین اور آسمان مع سیارات ونجوم سب کے سب عرش کے نیچے محصور ہیں، اور عرش رحمٰن ان تمام کائنات سماویہ و ارضیہ کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے، اس لحاظ سے آفتاب تو ہمیشہ اور ہر حال میں زیر عرش رہتا ہی ہے، پھر غروب کے بعد زیر عرش جانے کا کیا مطلب ہو گا؟
دوسرا اشکال: یہ عام مشاہدہ ہے کہ آفتاب جب کسی جگہ غروب ہوتا ہے تو اسی آن دوسری جگہ طلوع ہوتا ہے اس، طرح کہ آفتاب کا طلوع و غروب ہمہ وقت ہوتا رہتا ہے، اس لحاظ سے تو ہر وقت آفتاب سجدہ ریز رہتا ہے، پھر غروب کے بعد زیر عرش سجدہ ریز ہونے کا کیا مطلب؟
تیسرا اشکال: اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آفتاب اپنے مستقر پر پہنچ کر وقفہ کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کر کے اگلے دورے کی اجازت لیتا ہے، حالانکہ آفتاب کی حرکت میں کسی وقت بھی انقطاع نہ ہونا کھلا ہوا مشاہدہ ہے، اور پھر چونکہ طلوع و غروب مختلف مقامات کے اعتبار سے ہر وقت ہی ہوتا رہتا ہے، تو یہ وقفہ اور سکون بھی ہر وقت ہونا چاہیے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ آفتاب کسی وقت بھی حرکت میں نہ ہو، نیز اگر حالت وقفہ میں بھی حرکت میں ہو تو یہ اجتماع ضدین ہے اس لئے کہ سکون اور حرکت آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور اجتماع ضدین محال ہے۔ یہ اشکالات صرف فنون ریاضی اور فلکیات ہی کے نہیں ہیں، بلکہ مشاہداتی اور واقعاتی بھی ہیں، جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
طلوع و غروب سے متعلق فیثا غورثی نظریہ: حالیہ خلائی سفر اور چاند تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اتنی بات تو یقینی کر ہی دی ہے کہ تمام سیارات آسمان سے نیچے کی فضا میں ہیں، آسمان کے اندر مرکوز نہیں ہیں، قرآن کریم کی آیت کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ سے بھی اسی نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے، اس نظریۂ فیثا غورثی میں یہ بھی ہے کہ روزانہ کا طلوع و غروب آفتاب کی گردش سے نہیں بلکہ زمین کی گردش سے ہے، اس نظریہ کے اعتبار سے حدیث مذکور پر ایک اعتراض کا اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کا جواب سمجھنے سے پہلے یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جہاں تک مذکورہ آیت پر اشکالات کا سوال ہے تو اس پر مذکورہ اشکالات میں سے کوئی بھی اشکال نہیں ہوتا، آیت کا مفہوم تو صرف اتنا ہے کہ آفتاب کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی منظم اور مستحکم حرکت کا پابند بنا دیا ہے کہ وہ اپنے مستقر کی طرف برابر ایک حالت پر چلتا رہتا ہے، اگر اس مستقر سے تفسیر قتادہ کے مطابق مستقر زمانی لیا جائے یعنی روز قیامت تو معنی یہ ہیں کہ آفتاب کی یہ گردش دائمی ہے اور ایک ہی حالت پر ہوتی رہے گی، آخر کار قیامت کے دن ختم ہو جائے گی، اور اگر مستقر مکانی لیا جائے تو بھی اس کا مستقر مدارشمسی کے اس نقطہ کو کہا جا سکتا ہے جہاں سے اول تخلیق کے وقت آفتاب نے گردش شروع کی اسی نقطہ پر پہنچ کر اس کا شبا نہ روز کا ایک دورہ مکمل ہوتا ہے، کیونکہ یہی نقطہ اس کا منتہائے سفر ہے اس پر پہنچ کر نئے دورے کی ابتداء ہوتی ہے۔ ماقبل میں جیتنے اشکالات ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے آیت مذکورہ کے بیان پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا البتہ حدیث مذکورہ پر جس میں یہ آیا ہے کہ آفتاب غروب کے وقت زیر عرش پہنچ کر سجدہ کرتا ہے اور اگلے دورے کی اجازت طلب کرتا ہے، یہ اشکالات وارد ہوتے ہیں اور اس آیت کے ذیل میں یہ بحث اسی طرح چھڑی کہ حدیث کے بعض الفاظ میں اس آیت کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، ان اشکالات کے جوابات محدثین و مفسرین نے مختلف دیئے ہیں، مگر ان سب میں سب سے زیادہ صاف اور بے غبار بات وہ ہے جو علامہ شبیر احمد صاحب عثمانیؒ تعالیٰ نے اپنے مقالے ’’سجود الشّمس‘‘ میں اختیار فرمائی ہے، اور متعدد ائمہ تفسیر کے کلام سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
اصل بات: اصل بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ کے چند مظاہر ذکر کر کے انسان کو توحید اور اپنی قدرت کاملہ پر ایمان لانے کی دعوت دی ہے، اس میں سب سے پہلے زمین کا ذکر کیا جو ہر وقت ہمارے سامنے ہے وَآیَۃ لَّھُمُ الْاَرْضُ المَیْتَۃُ پھر اس پر پانی برسا کر درخت اور نباتات اگانے کا ذکر ہے، جس کو ہر انسان دیکھتا اور جانتا ہے اَحیَیْنَاھَا (الآیۃ) اس کے بعد آسمان اور فضائے آسمانی سے متعلق چیزوں کا ذکر شروع کر کے پہلے لیل و نہار کے روزانہ انقلاب کا ذکر فرمایا وَآیَۃٌ لَّھُمُ اللَّیلُ (الآیۃ) اس کے بعد شمس و قمر جو سیارات اور نجوم میں سب سے بڑے ہیں، ان کا ذکر فرمایا، ان میں پہلے آفتاب کے متعلق فرمایا وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَّھَا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ اس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مقصد یہ بتلانا ہے کہ آفتاب اپنے ارادے اور اپنی قدرت سے گردش نہیں کر رہا، بلکہ یہ ایک عزیز و علیم کے مقرر کردہ نظم کے تابع گردش کر رہا ہے، آنحضرتﷺ نے غروب آفتاب کے قریب حضرت ابوذر غفاریؓ کو ایک سوال و جواب کے ذریعہ اسی حقیقت پر متنبہ ہونے کی ہدایت فرمائی جس میں بتلایا کہ آفتاب غروب ہونے کے بعد عرش کے نیچے اللہ کو سجدہ کرتا ہے، اور پھر اگلا دورہ شروع کرنے کی اجازت طلب کرتا ہے، جب اجازت مل جاتی ہے تو حسب دستور آگے چلتا ہے اور صبح کے وقت مشرق کی جانب سے طلوع ہوتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں کے آفتاب کے طلوع و غروب کے وقت عالم دنیا میں ایک نیا انقلاب آتا ہے، جس کا مدار آفتاب پر ہے، رسول اللہﷺ نے اس انقلابی وقت کو انسانی تنبیہ کے لئے موزوں سمجھ کر یہ تنبیہ فرمائی کہ آفتاب کو خودمختار، اپنی قدرت سے حرکت و گردش کرنے والا نہ سمجھو۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کے اذن و مشیئت کے تابع چل رہا ہے، اس کا ہر طلوع و غروب اللہ تعالیٰ کی اجازت سے ہوتا ہے یہ اس کی اجازت کا تابع ہے اس کی اجازت اور تابع فرمان حرکت کرنے ہی کو سجدہ قرار دیا گیا، کیونکہ ہر چیز کا سجدہ اس کے مناسب حال ہوتا ہے، جیسا کہ قرآن نے خود تصریح فرمائی ہے کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلوٰتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ یعنی ساری مخلوق اللہ کی تسبیح اور عبادت میں مشغول ہے، مگر ہر ایک کی عبادت اور تسبیح کا طریقہ الگ الگ ہے، اور ہر مخلوق کو اس کی عبادت اور تسبیح کا طریقہ سکھلا دیا جاتا ہے، مثلاً انسان کو اس کی تسبیح کا طریقہ سکھلا دیا گیا ہے، اس لئے آفتاب کے سجدے کے یہ معنی سمجھنا کہ انسان کے سجدہ کی طرح زمین پر ماتھا ٹیکنے ہی سے ہو گا صحیح نہیں۔ قرآن و سنت کی تصریحات کے مطابق عرش خداوندی تمام آسمانوں، سیاروں، زمینوں پر محیط ہے، تو یہ بات ظاہر ہے کہ آفتاب ہر وقت اور ہر جگہ زیر عرش ہی ہے اور جبکہ تجربہ شاہد ہے کہ آفتاب جس وقت ایک جگہ غروب ہو رہا ہوتا ہے، اسی وقت دوسری جگہ طلوع ہو رہا ہوتا ہے، اس لئے اس کا کوئی لمحہ طلوع و غروب سے خالی نہیں، تو آفتاب کا زیر عرش رہنا بھی دائمی اور ہر حال میں ہے اور غروب ہونا بھی ہر حال میں ہے، اسی دائمی زیر عرش اور تابع فرمان ہونے کو سجدہ کرنے سے تعبیر کر دیا گیا ہے، گویا کہ ایک معنوی مفہوم مثال کے ذریعہ سمجھایا گیا ہے، اور یہ سلسلہ روز قیامت تک جاری رہے گا، جب قیامت قریب آئے گی تو علامات قرب قیامت کے طور پر آفتاب کو واپس لوٹا دیا جائے گا، جس کی وجہ سے آفتاب مغرب کی جانب سے طلوع ہو گا، اس وقت توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا، اس کے بعد کسی کا ایمان اور توبہ قبول نہیں ہو گی، اس لئے کہ یہ ایمان بالغیب نہیں رہا آفتاب کے روزانہ زیر عرش جا کر سجدہ کرنے اور آئندہ طلوع ہونے کی اجازت طلب کرنے کا حدیث میں جو ذکر ہے یہ حکم خداوندی کے امتثال کی ایک تمثیل ہے جس کو مجازاً سجدے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
والقمر۔۔۔ القدیم، عرجونَ کھجور کی خشک شاخ کو کہا جاتا ہے، جو مڑ کر کمان جیسی ہو جاتی ہے، قَدَّرَ تقدیر سے بنا ہے، تقدیر کے معنی کسی چیز کو زمان یا مکان یا صفات کے اعتبار سے ایک مخصوص مقدار اور پیمانہ پر رکھنے کے ہیں، لفظ مَنَازِلَ منزل کی جمع ہے جس کے معنی جائے نزول کے ہیں اللہ تعالیٰ نے شمس و قمر دونوں کی رفتار کے لئے خاص حدود مقرر فرمائی ہیں، جن میں سے ہر ایک کو منزل کہا جاتا ہے چاند چونکہ اپنا دورہ ہر مہینہ میں پورا کر لیتا ہے اس لئے اس کی منزلیں تیس ہوتی ہیں، مگر چونکہ چاند ہر مہینہ میں کم از کم ایک رات اور زیادہ سے زیادہ دو راتیں غائب رہتا ہے، اس لئے عموماً چاند کی منزلیں اٹھائیس کہی جاتی ہیں، اس غیبوبت کے زمانہ کو محاق کہتے ہیں، جس ماہ منزلیں ۲۹ ہوں گی تو محاق ایک رات ہو گا اور جس ماہ منزلیں ۲۸ ہوتی ہیں تو محاق کی مدت دو رات ہوتی ہے، اور آفتاب کا دورہ سال بھر میں پورا ہوتا ہے، اس کی منزلیں تین سو ساٹھ یا پینسٹھ ہوتی ہیں، مذکورہ مقدار تخمینی ہے۔
قمری ماہ کی تحقیق مدت: چاند کے مدار کا طول تقریباً ۱۳ لاکھ ۷۴ میل ہے، یہ تین سو ساٹھ درجوں پر منقسم ہے اس لئے کہ ہر چیز میں ۳۶۰ درجہ فرض کر لئے گئے ہیں چاند اس مسافت کو ۲۷ ۱/۴ دونوں میں طے کرتا ہے یعنی چاند زمین کے گرد اپنی گردش ۲۷ ۱/۴ دنوں میں پوری کرتا ہے۔ اگر زمین گردش نہ کرتی تو ایک نئے چاند سے دوسرے نئے چاند تک کی مدت یہی ہوتی، لیکن زمین مع چاند کے سورج کے گرد گردش کرتی ہے، اس لئے ایک نئے چاند سے لے کر دوسرے نئے چاند کی نمود رتک تقریباً ۲۹ ½ دن لگتے ہیں، اگر بالکل ٹھیک حساب کریں تو یہ مدت ۲۹ گھنٹے ۱۴ منٹ اور ۲، ۸ سیکنڈ ہے، اس مدت کو ایک قمری مہینہ کہتے ہیں۔
حرکت قمر کی مقدار: چاند اپنے مدار کے ۳۶۰ درجوں میں سے فی یوم ۱۳ درجے ۱۰ دقیقہ ۳۵ ثانیہ، ۲ ثالثہ طے کرتا ہے۔
فائدہ: ہر دائرہ میں ۳۶۰ درجے اور ایک درجہ میں ۶۰ دقیقہ اور ہر دقیقہ میں ۶۰ ثانیہ اور ثانیہ میں ۶۰ ثالثہ ہوتے ہیں۔ (فلکیات جدیدہ، ص ۳۰۳/۳۰۴، مولانا محمد موسیٰ صاحب)
جعل۔۔۔ منازل (الآیۃ) قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ بضمیر مفرد استعمال کیا ہے، حالانکہ منزلیں شمس وقمر دونوں کی ہیں، بعض مفسرین نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ ضمیر مفرد ہے مگر مراد کُلُّ واحد ہے، جس کے نظائر عربی زبان اور خود قرآن میں بکثرت موجود ہیں، بعض مفسرین حضرات نے یہ جواب دیا ہے کہ منزلیں اگرچہ شمس و قمر دونوں کے لئے ہیں مگر بیان صرف چاند کی منزل کا مقصود ہے، اس لئے قَدَّرَہٗ کی ضمیر قمر کی طرف راجع ہے، وجہ تخصیص کی یہ ہے کہ آفتاب کی منزلیں تو آلات رصدیہ اور ریاضی کے حساب کے بغیر معلوم نہیں ہو سکتی، اس کا طلوع و غروب سال کے تمام ایام میں ایک ہی ہیئت سے ہوتا رہتا ہے، مشاہدہ سے کسی کو یہ معلوم نہیں ہو سکتا، کہ آج آفتاب کونسی منزل میں بخلاف چاند کے کہ اس کی حالات ہر روز مختلف ہوتے ہیں، چاند کے تغیرات کے مشاہدہ سے بے علم لوگ بھی تاریخوں کا پتہ چلا سکتے ہیں، مثلاً چاند کو دیکھ کر یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آج قمری کونسی تاریخ ہے؟ مگر سورج کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ آج شمسی تاریخ کونسی ہے؟ آیت مذکورہ میں چونکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان عظیم الشان نشانیوں سے انسان کا یہ فائدہ بھی وابستہ ہے کہ ان کے ذریعہ وہ سال و ماہ کا حساب کرتا ہے یہ حساب اگرچہ شمس و قمر دونوں سے معلوم ہو سکتا ہے اور دنیا میں دونوں ہی قسم کی تاریخیں قدیم زمانہ سے رائج ہیں، لیکن قمر کے ذریعہ ماہ وسال کا حساب مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے، بخلاف شمس کے کہ اس کے حسابات سوائے ریاضی دانوں کے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، اس لئے اس آیت میں شمس و قمر کا ذکر کرنے کے بعد جب ان کی منازل مقرر کرنے کا ذکر فرمایا تو بضمیر مفرد قَدَّرہٗ فرمایا۔
احکام اسلام کا مدار قمری تاریخوں پر ہے : شریعت میں احکام کا مدار قمری تاریخوں پر اس لئے رکھا گیا ہے کہ قمری تاریخی معلوم کرنا کے لئے آسان ہے، خواہ وہ لکھا پڑھا آدمی ہو یا اَن پڑھ، شہری ہو یا دیہاتی، دین اسلام چونکہ دین یُسر، سہولتوں کا دین ہے اسی مصلحت کے پیش نظر اکثر شرعی احکام کا دارومدار قمری تاریخوں پر رکھا ہے، ایک ایسے شخص کے لئے کہ جو آبادی سے دور کہیں ریگستان یا پہاڑوں میں رہتا ہے نہ تو وہ پڑھا لکھا ہے اور نہ اس کے پاس کوئی ایسی چیز کہ جس سے وہ شمسی تاریخ معلوم کر سکتے تو آپ ذرا غور فرمائیں کہ کیا وہ شخص سورج کو دیکھ کر تاریخ معلوم کر سکتا ہے؟ بخلاف تاریخ کے کہ وہ قمر کو دیکھ کر تاریخ کی تعیین کر سکتا ہے
اس کا یہ مطلب نہیں کہ شمسی تاریخوں کے ذریعہ حساب رکھنا یا استعمال کرنا نا جائز ہے، بلکہ اس کو اختیار ہے کہ اپنے روزمرہ کے حساب میں خواہ سمشی تاریخوں کا استعمال کرے یا قمری کا یعنی ان شرعی احکام کے علاوہ کہ جن کا مدار شریعت نے قمری تاریخوں پر رکھا ہے مثلاً روزہ، حج، عدت، اپنے روزمرہ کے حسابات شمسی تاریخوں سے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے مگر شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے تاکہ رمضان حج وغیرہ کے اوقات، معلوم ہو سکیں، فقہاءؒ تعالیٰ نے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہ فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ (معارف)
لا۔۔۔ النھار سورج کے لئے یہ ممکن نہیں کہ چاند کو رفتار میں پکڑ لے یعنی سورج کی سلطنت دن میں ہوتی ہے اور چاند کی رات میں، یہ نہیں ہو سکتا کہ چاند کی ضو افشانی کے وقت سورج چاند کو آ دبائے، یعنی دن آگے پڑھ کر رات کا کچھ حصہ اڑا لے، تا رات آگے بڑھ کر دن ختم ہونے سے پہلے آ جائے، جس زمانہ اور جس وقت جس خطہ میں جو اندازہ رات دن کا قادر مطلق نے رکھ دیا ہے شمس و قمر یا لیل و نہار یا کسی بھی کرہ کی یہ مجال نہیں کہ ایک لمحہ بھی آگے یا پیچھے ہو سکیں، کیا یہ اس بات کا واضح نشان نہیں کہ یہ سب عظیم الشان کُرّات ایک زبردست دانا ہستی کے قبضۂ اقتدار میں ہیں، سب اپنا اپنا کار مفوضہ انجام دے رہے ہیں، کسی کی مجال نہیں کہ سرموہی مدبر کون و مکان کے حکم سے انحراف کر سکے، پھر جو ہستی رات دن اور چاند سورج کو ادل بدل کرتی ہے وہ تمہارے فنا کرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنے سے عاجز کیوں ہو گی؟
نکتہ: لا الشمس ینبغی لھَا اَن تُدْرِک القَمَرَ کی تعبیر اختیار فرمائی، لاَ القمرُ ینبغی لَہٗ اَنْ یُّدْرِکَ نہیں فرمایا، اس لئے کہ چاند سورج کو پکڑ لیتا ہے سورج چاند کو نہیں پکڑ سکتا، اس لئے کہ چاند کی رفتار سورج کی رفتار سے بہت زیادہ تیز ہے سورج مسافت کو ایک سال میں طے کرتا ہے چاند اس کو ایک ماہ میں طے کر لیتا ہے، البتہ بعض اوقات چاند سورج کو پکڑ سکتا ہے اس لئے کہ چاند اپنی تیز رفتاری کی وجہ سے بعض اوقات آفتاب کے پاس سے گذرے تو کہا جا سکتا ہے کہ چاند نے سورج کو پکڑ لیا۔
ولا۔۔ النھار اور رات دن پر سابق نہیں ہو سکتی اس کا آسان اور سیدھا ایک مطلب تو یہ ہے کہ رات دن ختم ہونے سے پہلے نہیں آ سکتی، ایک مطلب اس کا یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ رات درمیان میں دن کو چھوڑ کر سبقت نہیں کر سکتی، بایں طور کہ دو راتیں بغیر درمیان میں دن کے آئے ہوئے ایک ساتھ جمع ہو جائیں، اس سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ دن تخلیق میں رات پر سابق ہے، قال فی الروح وَاسْتَدَلَّ بالآیۃ أنَّ النَّھَارَ سابِقٌ علَی اللَّیْلِ فِی الْخَلْقِ حالانکہ مخلوقات میں اصل ظلمت ہے، نور طاری ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیل تخلیق میں نہار پر سابق ہے، مذکورہ دونوں باتوں میں تعارض ہے، نیز اگر اللہ تعالیٰ کے قول وَلَا اللیلُ سابِقُ النَّھَارِ سے نہار کا سابق ہونا معلوم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے قول یُغْشِی اللیلَ النھارَ یَطْلُبُہٗ (سورۂ اعراف) سے رات کا سابق ہونا معلوم ہوتا ہے حالانکہ ان دونوں باتوں میں تضاد ہے مذکورہ تضاد کا بعض مفسرین نے یہ جواب دیاہی کہ لیل سے مراد آیت یعنی قمر ہے، اور نہار سے مراد یعنی شمس ہے اور قمر، شمس کو حرکت یومیہ میں نہیں پکڑ سکتا، اور ولا اللیل سابق النھار میں لیل سے مراد نفس لیل ہے اور چونکہ لیل و نہار ایک دوسرے کے تعاقب میں ہیں اس وجہ سے ہر ایک دوسرے کا طالب بھی ہے۔ (روح المعانی ملخصًا)
وکل۔۔ یسبحون یعنی آفتاب و ماہتاب دونوں اپنے اپنے مدار میں تیرتے رہتے ہیں، فلک کے معنی اس دائرہ کے ہیں جس میں کوئی سیارہ گردش کرتا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چاند آسمان میں مرکوز نہیں جیسا کہ بطلیموسی نظریہ میں ہے، جس کو فیثا غورث اور جدید سائنس نیز انسان کے چاند پر پہنچنے، نے غلط ثابت کر دیا ہے، بلکہ آسمان کے نیچے ایک خاص مدار میں گردش کرتا ہے، چاند کے علاوہ تمام سیارے زیر آسمان فضا ہی میں گردش کناں ہیں، لہٰذا اس معجزۂ معراج پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لئے کہ معراج آسمانوں سے بھی اوپر تک رسائی کا نام ہے۔
شان نزول: واذا۔۔ اللہُ یہ آیت مکہ کے بعض جبارین مثلاً عاص بن وائل سہمی وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، نیز اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مشرکین مکہ نے حقوق اللہ کو ترک کیا تھا حقوق العباد کے ترک کے بھی مرتکب ہوئے تھے، اگر کوئی حاجت مند مسکین ان سے کچھ طلب کرتا تو کہہ دیتے کہ جب اللہ ہی نے تم کو محروم کر دیا تو میں تم کو دینے والا کون ہوتا ہوں؟ اور میری کیا مجال کہ میں خدا کی مشئیت میں دخل دوں، اگر اس کو کھلانا ہوتا تو وہ خود ہی تم کو کھلا دیتا، معلوم ہوا تم کو اس کے کھلانے کا ارادہ ہی نہیں ہے، اِذاقیل لَھُمْ شرط ہے، اس کا جواب محذوف ہے اور وہ اعرضوا ہے، اس کے محذوف ہونے پر آئندہ آیت کے الفاظ دال ہیں، یعنی ان کے پاس ان کے رب کی جو بھی آیت آتی ہے وہ اس سے اعراض ہی کرتے ہیں۔
آیت نمبر ۵۱ تا ۶۷
ترجمہ: اور صور پھونکا جائے گا وہ (ایک) سینگ ہے، اور دوسرا صور زندہ کرنے کے لئے ہو گا اور دونوں نفخوں کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہو گا پھر جب وہ یعنی مردے قبروں سے نکل کر تیزی سے اپنے پروردگار کی طرف چلنے لگیں گے ان میں سے کافر کہیں گے، ہائے ہماری کمبختی یا تنبیہ کے لئے ہے ہائے ہماری ہلاکت، وَیْلٌ ایسا مصدر ہے کہ اس کا لفظی فعل نہیں آتا، کس نے ہم کو ہماری قبروں سے اٹھا یا؟ اس لئے کہ وہ دونوں نفخوں کے درمیان سوئے ہوئے ہوں گے، ان کو عذاب نہ دیا جا رہا ہو گا، یہ وہی (بعث) ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا، اور رسول نے اس کے بارے میں سچ کہا تھا ایسے وقت اقرار کریں گے کہ ان کا اقرار کچھ فائدہ نہ دے گا، اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ بات کافروں سے کہی جائے گی بس وہ ایک زوردار آواز ہو گی جس سے یکایک سب جمع کر کے ہمارے پاس حاضر کر دیئے جائیں گے، پھر اس دن کسی شخص پر ذرا (بھی) ظلم نہ ہو گا اور تم کو بس ان ہی کاموں کا بدلہ ملے گا جو تم کیا کرتے تھے، اس دن دوزخیوں کے عذاب سے بے خبر عیش و نشاط کے مشغلوں میں ہوں گے، ان چیزوں کی وجہ سے جن سے وہ لذت اندوز ہو رہے ہوں گے، جیسا کہ دوشیزاؤں سے صحبت، نہ کہ ایسا کوئی کام کہ جس میں تعب و مشقت ہو، اس لئے کہ جنت تعب و مشقت کی جگہ نہیں ہے، شغُل غین کے سکون اور ضمہ کے ساتھ ہے، فَاکِھُوْنَ بمعنی ناعمونَ بمعنی خوش وخرم، یہ اِنّ کی دوسری خبر ہے اور پہلی خبر شُغْلٌ ہے، وہ اور ان کی بیویاں سایوں میں مسہریوں پر ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے ھُمْ مبتداء ہے ظلال ظُلّۃ یا ظِلٌّ کی جمع ہے (فی ظلال) اول خبر ہے یعنی ان پر دھوپ نہیں آئے گی اَرَائِکِ اَرِیْکَۃٌ کی جمع ہے، اس مسہری کو کہتے ہیں جو خیمے میں ہوتی ہے یا اس فرش کو کہتے ہیں جو خیمے میں ہوتا ہے مُتَّکِئُوْنَ دوسری خبر ہے اور (متکئونَ) علی کا متعلق ہے، وہاں ان کے لئے میوے اور جو وہ فرمائش کریں گے موجود ہو گا، ان کو پروردگار مہربان کی طرف سے سلام فرمایا جائے گا، سلام مبتداء ہے، اور قولاً خبر ہے، یعنی ان کو سلام علیکم فرمائے گا، اور اللہ تعالیٰ ان کے اختلاط کے وقت فرمائے گا اے مجرمو آج (مومنوں) سے الگ ہو جاؤ اور اے اولاد آدم کیا میں نے تم کو رسولوں کی زبانی تاکیدی حکم نہیں دیا تھا یہ کہ شیطان کی بندگی یعنی اس کی اطاعت نہ کرنا وہ تمہارا صریح دشمن ہے، یعنی اس کی عداوت کھلی ہوئی ہے اور صرف میری بندگی کرنا یعنی توحید کا اقرار کرنا اور میری اطاعت کرنا یہی سیدھا راستہ ہے وہ (شیطان) تم میں سے ایک کثیر مخلوق کو گمراہ کر چکا ہے جبلاً جَبِیْلٌ کی جمع ہے جیسے قدمًا قدیمٌ کی جمع ہے، اور ایک قراءت میں ب کے ضمہ کے ساتھ ہے جُبُلاً سو کیا تم اس کی عداوت یا اس کے گمراہ کرنے کو یا اس عذاب کو جو ان پر نازل ہوا، نہیں سمجھتے تھے کہ ایمان لے آتے اور ان سے آخرت میں کہا جائے گا یہی ہے وہ جہنم جس جا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا آج اس میں اپنے کفر کی وجہ سے داخل ہو جاؤ آج ہم ان کافروں کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے، ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ اے ہمارے پروردگار ہم مشرکین میں سے نہیں تھے، جو کچھ یہ (دنیا میں) کر رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کریں گے اور ان کے پیر وغیرہ گواہی دیں گے، اور اگر ہم چاہیں تو ان کی آنکھوں کو ملیا میٹ کر دیں یعنی مٹا کر اندھا کر دیں، پھر یہ راستہ کی طرف اپنی عادت کے مطابق دوڑیں تو اس وقت کیسے دیکھ سکیں گے؟ یعنی نہیں دیکھ سکیں گے اور اگر ہم چاہیں تو ان کو جہاں ہیں وہیں بندروں خنزیروں یا پتھروں میں تبدیل کر دیں اور ایک قراءت میں مکاناتِھِمْ ہے جو کہ مکانۃٌ کی جمع ہے معنی میں مکان کے، یعنی ان کے گھروں میں پھر یہ لوگ نہ آگے چل سکتے اور نہ پیچھے لوٹ سکتے یعنی یہ لوگ نہ جانے پر قادر ہوتے اور نہ آنے پر۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ: الصور ای القرآن جس کو آج کل بوق (بگل) کہا جاتا ہے، (ج) اَبْوَاق وبِیْقان وبِیْقاتٌ۔
قولہ: اَلَاجْدَاثُ جمع جَدْثٍ بمعنی قبر۔ قولہ: یَنْسِلُوْنَ (ن، ض) نَسْلاً دوڑنا، مجبوراً تیز چلنا۔
قولہ: یا للتنبیہ لفظ تنبِیْہ کے اضافہ سے اس سوال کا جواب ہے کہ نداء عقلاء کے ساتھ مختص ہے اور وَیلٌ ذوی العقول میں نہیں ہے، لہٰذا اس کو ندا دینا درست نہیں ہے جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یا نداء کے لئے نہیں ہے، بلکہ تنبیہ کے لئے ہے لہٰذا کوئی اعتراض نہیں ہے یا مجازاً ویل، کو نداء ہے ای یَا وَیْلَنَا احضر فھٰذا اوانُ حضورِکَ جمہور کے نزدیک یا وَیْلَنَا ہے، اور ابن ابی لیلیٰ نے یاوَیْلَتَنَا پڑھا ہے
قولہ: مَنْ بَعَثَنَا جمہور کے نزدیک مَنْ استفہامیہ مبتداء ہے اور بَعَثَنَا اس کی خبر ہے اور مِن کسرۂ میم کے ساتھ بطور شاذ پڑھا گیا ہے، اس صورت میں جار مجرور سے مل کر وَیْلنا سے متعلق ہو گا، اور بَعْثٌ مصدر ہو گا۔
قولہ: وَیْلَنَا ویلٌ ایسا مصدر ہے کہ اس کا لفظً فعل مستعمل نہیں ہے، البتہ معناً اس کا فعل ھَلَکَ استعمال ہوتا ہے۔
قولہ: مَنْ مَرْقَدِنَا یہ بَعَثَنَا سے متعلق ہے مَرْقَدِنَا مصدر میمی ہے، نیند، سونا، اور اسم مکان بھی ہو سکتا ہے، یعنی خوابگاہ (قبر) مفرد کو مصدر ہونے کی وجہ سے جمع کے قائم مقام کر دیا ہے۔
قولہ: ھٰذا مَا وَعَدَ الرحمٰنُ وصَدَقَ المرسلُونَ، وَعَدَ اور صَدَقَ کا مفعول محذوف ہے ای وَعَدَنا بہٖ وصدقونا فیہ مفسر علام نے اَقَرُّوْا حین لاَ یَنْفَعُھُمْ الاقرارُ کے اضافہ سے اشارہ کر دیا کہ ھٰذا مَا وَعَدَ الرحمٰنَ الخ کفار کا قول ہے ھٰذا مبتداء ہے اور مَا وَعَدَ الرحمٰن جملہ ہو کر خبر۔
قولہ: وَعَدَ الرحمٰن، قالُوْا محذوف کا مفولہ ہونے کی وجہ سے محل میں نصب کے ہے۔
قولہ: قِیْل یقال لھم ذٰلک مفسر علام نے اس عبارت سے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ بعض حضرات نے مَا وَعَدَ الرحمٰن کو اللہ، یا مومنین یا ملائکہ کا قول قرار دیا ہے۔
قولہ: فاکِھُوْنَ ای الناعِمُونَ اسم فاعل جمع مذکر (س) فُکاھَۃً آرام پانا، مزے اڑانا، استہزاء کرنے والے، صاحب معجم القرآن نے لکھا
ہے فکِھِیْنَ اور فاکِھِیْنَ کے معنی ہیں مسلمانوں کا مذاق بنا کر مزے لینے والے۔ (لغات القرآن)
علَی الْاَرَائِکِ یہ متَّکِئُونَ کا متعلق مقدم ہے، اور متکئون اپنے متعلق سے مل کر ھُمْ مبتداء کی خبر ثانی ہے۔
قولہ: مَایَدَّعُوْنَ، یَدَّعُوْنَ اصل میں یَدْتَعِیُوْنَ تھا، بروزن یَفْتَعِلُوْنَ یاء پر ضمہ دشوار سمجھ کر ماقبل یعنی ع کو دے دیا، التفاء ساکنین کی وجہ سے ی گرگئی، پھر ت کو دال سے بدل دیا اور دال کو دال میں ادغام کر دیا۔
قولہ: سَلَامٌ قولاً مِّن رَّبٍّ رَّحیْمٍ اس جملہ کی ترکیب میں مختلف اقوال ہیں، جمہور نے سَلاَمٌ رفع کے ساتھ پڑھا ہے، اور اُبَیَّ وابن مسعود و عیسیٰ نے سَلاَمًا نصب کے ساتھ پڑھا ہے، نصب یا تو مصدریت کی وجہ سے ہے یا حال ہونے کی وجہ سے ہے ای خالِصًا، علامہ محلی نے منصوب بنزع الخافض قرار دیا ہے اور ای بالقول کہہ کر اس کی طرف اشارہ کر دیال اور رفع کی چند وجوہ ہیں (۱) مَاعَدَّعُوْنَ کی خبر ہے (۲) ما سے بدل ہے یہ زمخشری کا قول ہے، شیخ نے کہا ہے اگر سلامٌ بدل ہو تو مَا یَدّعونَ سے مخصوص تمنا مراد ہو گی، تاکہ بدل واقع ہونا صحیح ہو جائے، اور ظاہر یہ ہے کہ ما یَدَّعُوْنَ، کُلَّ مَا یَتَمَنَّاہُ کو عام ہے، اس صورت میں بدل واقع ہونا صحیح نہیں ہے (۳) مَا کی صفت ہے مگر یہ اس صورت میں صحیح ہو گا کہ جب ما کو نکرہ موصوفہ مانا جائے، اور اگر الَّذِیْ کے معنی میں لیا جائے یا مصدریہ لیا جائے تو صفت واقع ہونا دشوار ہو گا، نکرہ و معرفہ میں مخالفت ہونے کی وجہ سے (۴) مبتداء محذوف کی خبر ہونے کی وجہ سے مرفوع ہو، ای ھُوَ سَلاَمٌ (۵) سَلَامٌ مبتداء اور اس کی خبر قَوْلاً کا ناصب ای سَلَامٌ یُقَالُ لھُمْ قولاً بعض حضرات نے سَلَامٌ علیکُمْ تقدیر مانی ہے (۶) سَلَامٌ مبتداء اور مِن رَّبِّ العٰلَمِیْنَ اس کی خبر، اور قولاً مضمون جملہ کی تاکید کے لئے ہے، اور مع اپنے عامل کے مبتداء خبر کے درمیان جملہ معترضہ ہے۔ (لغات القرآن للدرویش) قولہ: اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ یہ استفہام توبخیی ہے۔
قولہ: لاَ تُطِیعُوہ یہ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوا الشّیْطانَ کی تفسیر ہے، مقصد اس شبہ کا ازلہ ہے کہ شیطان کی بندگی تو کوئی بھی نہیں کرتا، پھر شیطان کی بندگی سے منع کرنے کے کیا معنی؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ عبادت بمعنی اطاعت ہے یعنی شیطان کی اطاعت ہی کی وجہ سے لوگ غیر اللہ کی بندگی کرنے لگے، شیطان کے کہنے سے بندگی کرنا گویا کہ شیطان کی بندگی کرنا ہے، اَنْ لاَّ تَعٌبُدُوْا میں اَنْ تفسیر یہ ہے، اس لئے کہ ماقبل میں لفظ آمُرُ کُمْ جو کہ بمعنی قول ہے موجود ہے لہٰذا اَنْ کا تفسیر یہ ہونا صحیح ہے۔
قولہ: اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ یہ وجوب ممانعت کی علت ہے۔ قولہ: وَلَقَدْ اَضَلَّ مِنْکُمْ یہ تعلیل کی تاکید ہے۔
قولہ: جِبِلاًّ با اور جیم کے کسرہ اور لام کی تخفیف کے ساتھ، اس کے علاوہ دو قراءتیں اور ہیں (۱) جیم اور با دونوں کے ضمہ (۲) جیم کے ضمہ مع با کے سکون اور لام کی تخفیف کے ساتھ، مذکورہ تینوں قراءتیں سبعیہ ہیں۔
قولہ: تُوْعَدُوْنَ بِھا، بِھا کا اضافہ کر کے اشارہ کر دیا تُوْعَدُوْنَ جملہ ہو کر صلہ ہے اور اس کا عائد بھا محذوف ہے۔
قولہ: بِمَا کُنْتُمْ ای بسبب ما کنتم تکفرونَ، بِمَا میں مامصدریہ ہے ای بسبب کفرکُمْ ۔
قولہ: وَلَوْ نشَاءُ لَطَمَسْنَا عَلیٰ اَعْیُنِھِمْ، لَوْ شرطیہ ہے نَشَاءُ فعل بافاعل ہے، نَشَاءُ کا مفعول بہ محذوف ہے، ای لَوْ نَشَاءُ طَمْسَھَا لَطَمَسْنَا ھَا، لَطَمَسْنَا جواب شرط ہے۔ قولہ: فَاَنّٰی یُبْصِروْنَ استفہام انکاری ہے یعنی نہیں دیکھ سکیں گے۔
قولہ: وَلَوْ نَشَاءُ لَمَسَخْنَا ھُمْ ای لَوْ نَشَاءُ مَسْخَھُمْ لَمَسَخْنَاھ ۔
قولہ: عَلیٰ مَکَانَتِھِمْ عَلیٰ بمعنی فِی ہے، جیسا کہ شارحؒ تعالیٰ نے فی منَازِلِھِمْ کہہ کر اشارہ کر دیا ہے۔
تفسیر و تشریح
ونفخ۔۔ الصور لوگ بازاروں میں خریدو فروخت میں اور دیگر کاموں میں حسب عادت بحث و تکرار میں مشغول ہوں گے، کہ اچانک صور پھونک دیا جائے گا، اور قیامت برپا ہو جائے گی، یہ نفخۂ اولیٰ ہو گا، جسے نفخۂ فزع بھی کہتے ہیں، اس کے بعد دوسرا نفخہ ہو گا اس کو نفخۃ الصعق کہتے ہیں، جس سے اللہ کی ذات کے سوا شئ پر موت طاری ہو جائے گی، یہ نفخۂ ثالثہ ہے، جس کو نفخہ البعث و النشور کہتے ہیں، اس نفخہ کے بعد لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے، اور فرشتے ان کو بعجلت سختی کے ساتھ دھکیل کر میدان حشر میں لے جائیں گے، قبروں سے نکلنے کے وقت کافر کہیں گے، ہائے ہماری کمبختی ہماری خوابگاہوں سے ہم کو کس نے اٹھا دیا، مرقَدْ خوابگاہ کو کہتے ہیں، اور مطلقاً خواب کو بھی کہتے ہیں، ظاہر ہے کہ کافروں اور مشرکوں کو قبر میں خواب کہاں نصیب ہو گی؟ وہ تو عذاب قبر میں مبتلا رہیں گے، تو پھر کافروں کے یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ ہم کو کس نے خواب سے بیدار کر دیا؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے، شاہد نفخۂ ثانیہ کے درمیان ان پر نیند کی حالت طاری کر دی جائے، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قیامت کے، ہولناک منظر کو دیکھ کر عذاب قبر ہی کو غنیمت سمجھیں گے، اور نیند سے تشبیہ دیں گے، یا پھر مرقد بمعنی مضجع ہو اور نیند کے معنی سے تجرید کر لی جائے۔ (فوائد عثمانی)
ھٰذا۔۔ الرَّحْمٰنُ (الآیۃ) مشرکوں اور کافروں کو یہ جواب اللہ کی طرف سے اس وقت ملے گا، یا مستقبل کو حاضر قرار دے کر اب جواب دے رہے ہیں، یعنی کیا پوچھتے ہو کس نے اٹھایا؟ ذرا آنکھیں کھولو یہ وہی بعد الموت ہے جس کا وعدہ خدائے رحمٰن کی طرف سے کیا گیا تھا، اور پیغمبر جس کی خبر برابر دیتے رہے تھے۔
جمیع۔۔ محضرون یعنی نفخۂ بعث کے بعد نہ کوئی بھاگ سکے گا اور نہ روپوش ہو سکے گا، ماقبل کی آیت میں جہنمیوں کی پریشانیوں کا ذکر تھا، قرآن اپنے اسلوب اور عادت کے مطابق اہل جنت کا حال بیان کر رہا ہے، کہ اہل جنت اپنی تفریحات میں مشغول ہوں گے، یہ بھی ممکن ہے کہ اس جگہ یہ لفظ ’’فی شُغُلٍ‘‘ اس خیال کے دفع کرنے کے لئے بڑھایا ہو، کہ جنت میں جب نہ کوئی عبادت ہو گی اور نہ فرض و واجب اور نہ کسب معاش کا کوئی کام تو کیا اس بیکاری میں آدمی کا جی نہ گھبرائے گا، اس کے جواب میں فرمایا کہ ان کو اپنی تفریحات ہی کا بڑا شغل ہو گا، جی گھبرانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بہشت میں ہر قسم کے عیش و نشاط کا سامان ہو گا، دنیا کی مکروہات سے آزاد ہو کر آج سیرو تفریح اور عیش و عشرت ہی ان کا مشغلہ ہو گا، اہل جنت اپنی بیویوں اور حور و غلمان کے ہمراہ تفریحی مشغلوں میں مست و مگن ہوں گے، اور اعلیٰ درجہ کے خوشگوار سایوں میں مسہریوں پر آرام کر رہے ہوں گے، ہر قسم کے میوے اور پھل ان کے لئے حاضر ہوں گے، خلاصہ یہ کہ جس چیز کی جنتیوں کے دل میں تمنا اور آرزو ہو گی وہ شئ فوراً حاضر کی جائے گی، یہ تو جسمانی لذتوں اور راحتوں کا حال تھا آگے روحانی لذتوں کا ذکر ہے، جن کی طرف سَلَامٌ قَوْلاً مِّنْ رَّبٍ رَّحِیْمٍ سے اشارہ کر دیا، یعنی اس مہربان پروردگار کی طرف سے جنتیوں کو ہدیۂ سلام پیش کیا جائے گا، خواہ فرشتوں کے ذریعہ یا بلا واسطہ رب العالمین جنتیوں کو سلام ارشاد فرمائیں گے جیسا کہ ابن ماجہ کی روایت میں مذکورہ ہے، اس وقت کی عزت و عظمت، لذت و فرحت کا کیا کہنا (اللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا ھٰذِہِ النِّعْمَۃَ العظمٰی بحرمۃِ نبیکَ محمد صلَّی اللہ علیہ وسلَّمَ) ۔
وامتا۔۔ المجرمون میدان حشر میں جب مردے اپنی اپنی قبروں سے نکلیں گے تو نیک و بد کافر و مومن سب مخلوط ہوں گے، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا کَاَنَّھُمْ جَرَادٌ مُّنْتَشِرٌ یعنی وہ منتشر ٹڈیوں کی طرح ہوں گے، بعد میں گروہوں کی شکل میں سب کو الگ الگ کر دیا جائے گا، اور مجرموں سے کہا جائے گا، وامتازوا الیومَ ایھا المجرمون کہ جنتیوں کے عیش و آرام میں تمہارا کوئی حصہ نہیں
الم۔۔ الیکم (الآیۃ) یعنی تمام بنی آدم بلکہ جنات کو بھی مخاطب کر کے قیامت میں کہا جائے گا کہ کیا میں نے دنیا میں تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا، یہاں سوال ہوتا ہے کہ کوئی بھی شیطان کی عبادت نہیں کرتا اور نہ کفار کرتے تھے، بتوں یا دیگر چیزوں کو پوجتے تھے، اس لئے ان پر شیطان کی عبادت کا الزام کیسے عائد ہوا؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ کسی کی اطاعت مطلقہ کرنا کہ ہر کام میں ہر حال میں بے چوں و چرا اس کا کہنا مانے، اسی کا نام عبادت ہے، اسی معنی میں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے والد آزر سے کہا تھا یٰاَبَتِ لاَ تَعْبُدِ الشَّیْطَانَ ۔ (سورۂ مریم)
الیوم۔۔۔ افواھھم محشر میں حساب کتاب کے لئے پیشی میں اول تو ہر شخص کو آزادی ہو گی جو چاہیے عذر پیش کرے مگر مشرکین وہاں قسمیں کھا کر اپنے شرک و کفر سے مکر جائیں گے، کہیں گے وَاللہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ (سورۂ انعام) اور بعض یہ بھی کہیں گے کہ فرشتوں نے جو کچھ ہمارے اعمال ناموں میں لکھ دیا ہے ہم اس سے بری ہیں، اس وقت اللہ تعالیٰ ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے، تاکہ بول نہ سکیں، البتہ اللہ تعالیٰ اعضائے انسانی کو قوت گویائی عطا فرمائے گا، ہاتھ کہیں گے کہ ہم نے فلاں فلاں کام کئے تھے، اور پیر اس پر گواہی دیں گے اس طریقہ سے اقرار اور شہادت کے ذریعہ جرم ثابت ہو جائے گا، اس آیت میں انسان کے ہاتھوں اور پیروں کا بولنا ذکر کیا گیا ہے، دوسری آیت میں انسان کے کان، آنکھ اور کھال کا بولنا مذکور ہے شَھِدَ علْھِمْ سَمْعُھُمْ وَاْصَارُھُمْ وَجُلُوْ دُھُمْ اور ایک جگہ فرمایا گیا وَتَشْھَدُ عَلَیْھِمْ اَلْسِنَتُھُمْ یعنی خود ان کی زبانیں گواہی دیں گی۔
سوال: زبانوں کا گواہی دینا، مونہوں پر مہر لگانے کے منافی ہے۔
جواب: منہ پر مہر لگانے اور زبانوں کے گواہی دینے میں کوئی تنافی و تعارض نہیں ہے، اس لئے کہ منہ پر مہر لگانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے اختیار سے کچھ نہ بول سکیں گے بلکہ ان کی زبان ان کی مرضی کے خلاف شہادت دے گی۔
حکمت: کسب اعمال میں اگرچہ تمام اعضاء کا دخل ہوتا ہے، مگر ہاتھوں کا دخل زیادہ ہوتا ہے، اس وجہ سے ہاتھ گویا فاعل مباشر ہوتے ہیں، اسی لئے قرآن کریم میں بہت سی جگہ فعل و کسب ہاتھوں کی طرف کی گئی ہے مثلاً یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرأُ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ، وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ، بِمَا کَسَبَتْ اَیٌدِی النَّاس، فبمَا کَسَبَت اَیْدِیْکُمْ بخلاف پیروں کے کہ ان کی طرف فعل کی نسبت نہیں کی گئی، تو گویا کہ پیر، ہاتھوں کے اعتبار سے اکتساب اعمال میں اجنبی ہیں، ہاتھوں کا تکلم بمنزلہ اقرار کے ہے، اور اقرار فاعل کا معتبر ہوتا ہے، اور پیر بمنزلہ اجنبی کے ہیں اور شاہد کے لئے اجنبی ہونا مناسب ہے، اس لئے ہاتھوں کی طرف تکلم کی پیروں کی طرف شہادت کی نسبت ہے، گویا کہ ہاتھ مباشر ہیں، اور پیر حاضر، اقرار مباشر سے ہوتا ہے اور شہادت حاضر سے۔
حکمت: روز محشر ہاتھوں کا تکلم بمنزلہ دعوے کے ہے اور ہاتھ بمنزلہ مدعی اور نفس بمنزلہ مدعا علیہ ہے اس لئے کہ حقیقی فاعل نفس ہی ہے، اور مدعی خود گواہ نہیں بن سکتا، گواہ مدعی کے علاوہ ہوتا ہے اور وہ پیر ہیں، اس وجہ سے تکلم کی نسبت ہاتھوں کی طرف اور شہادت کی نسبت پیروں کی طرف کی ہے۔
ولو۔۔۔ اعینھم (الآیۃ) یعنی بینائی سے محرومی کے بعد انہیں راستہ کس طرح دکھائی دیتا؟ لیکن یہ تو ہمارا حلم و کرم ہے کہ ایسا نہیں کیا، مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہماری آیتوں سے جس طرح دل کی آنکھیں بند کر لی ہیں، اس کا تقاضہ تو یہ تھا کہ ہم ان کی ظاہری آنکھوں کو بند کر کے دنیا میں اندھا کر دیں کہ ان کو راستہ ہی نہ سوجھے مگر ہم نے اپنی رحمت اور حلم و کرم کی وجہ سے ایسا نہیں کیا، اور جس طرح یہ لوگ شیطانی راستوں سے ہٹ کر رحمانی راستوں پر چلنا چاہتے، ہم کو قدرت ہے کہ ان کی صورتیں مسخ کر دیں، کہ ایک جگہ پتھر کے مانند پڑے رہیں، ہل بھی نہ سکیں۔
آیت نمبر ۶۸ تا ۸۳
ترجمہ: اور جس کی ہم عمر دراز کر کے معمر (سن رسیدہ) کر دیتے ہیں تو اس کی تخلیق کو پلٹ دیتے ہیں اور ایک قراءت میں تنکیس سے تشدید کے ساتھ ہے، تو وہ اپنی قوت و شباب کے بعد کمزور اور بوڑھا ہو جاتا ہے، تو کیا یہ سمجھتے نہیں کہ جو ذات اس بات پر کہ جو ان کو معلوم ہے قادر ہے، وہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے کہ وہ ایمان لے آئیں، اور ایک قراءت میں تاء کے ساتھ ہے، اور ہم نے اس کو شعر گوئی نہیں سکھائی، یہ کافروں کی اس بات کا جواب ہے کہ محمدﷺ کو کچھ قرآن کے نام سے پیش کرتے ہیں، وہ شعر ہے اور نہ گوئی آپ کی شایان شان ہے جس کو وہ پیش کرتے ہیں وہ تو محض نصیحت ہے، اور احکام وغیرہ کو ظاہر کرنے والا قرآن ہے، تاکہ اس شخص کو قرآن کے ذریعہ جو زندہ ہو متنبہ کرے یعنی جو اس سے کہا جائے اسے سمجھتا ہو اور وہ اہل ایمان ہیں، اور کافروں پر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے، اور کافر مردوں کے مانند ہیں (اس لئے کہ) جو بات ان سے کہی جاتی ہے اس کو نہیں سمجھتے کیا یہ لوگ اس بات کو نہیں جانتے کہ ہم نے اپنے دست قدرت سے بلا شریک و معین کے پیدا کی ہوئی چیزوں میں سے منجملہ دیگر لوگوں کے ان کے لئے جانور وہ اونٹ گائے اور بکریاں ہیں پیدا کئے جن کے وہ مالک بنے ہوئے ہیں قابو میں کر دیا ان میں سے بعض ان کی سواریاں ہیں اور بعض کو ان میں سے کھاتے ہیں اور ان کے لئے ان میں اور منافع بھی ہیں، جیسا کہ ان کی صوف، رواں اور ان کے بال اور پینے کی چیزیں ہیں، (مثلاً) ان کا دودھ یا دودھ کا محل (تھن) مشارب مشرَبٌ کی جمع ہے بمعنی شُربٌ کیا لوگ اپنے اوپر جانوروں کے ذریعہ احسان کرنے والے کا شکر ادا نہیں کرتے کہ ایمان لے آئیں، یعنی انہوں نے ایسا نہیں کیا اور انہوں نے غیر اللہ (یعنی) بتوں کو معبود بنا لیا ہے کہ ان کی بندگی کرتے ہیں کہ شاہد ان کی طرف سے ان کو مدد پہنچے، کہ اللہ کے عذاب سے ان کے اعتقاد کے مطابق ان (بتوں) کی سفارش سے (عذاب سے) محفوظ رہ سکیں (مگر) ان کے معبود ان کی ہرگز مدد نہیں کر سکتے ان معبودوں کو ذوی العقول کے درجہ میں اتار لیا گیا ہے وہ یعنی ان کے ضمی معبود جن سے مدد کی توقع رکھنے کی وجہ سے ان کے لشکر میں ان (عابدین) کے ساتھ جہنم میں حاضر کئے جائیں گے، تو آپ کے بارے میں ان کا قول لَسْتَ وغیرہ آپ کو رنجیدہ نہ کرے بیشک ہم اس بات کو اور اس کے علاوہ کو خوب جانتے ہیں جن باتوں کو یہ چھپاتے ہیں اور جن کو ظاہر کرتے ہیں، ہم ان کو اس کا بدلہ دیں گے کیا انسان کو یہ معلوم نہیں اور وہ عاص بن وائل ہے کہ ہم نے اس کو نطفۂ منی سے پیدا کیا حتی کہ ہم نے اس کو قوی اور مضبوط کر دیا پھر اس نے بعث کا انکار کر کے خصومت کو ظاہر کر دیا اعلانیہ اعتراض کرنے لگا یعنی ہم سے سخت مخاصمت کرنے لگا، اور اس نے اس بارے میں ہماری شان میں ایک عجیب بات کہی اور اپنی اصل (حقیقت) کو بھول گیا کہ وہ نطفہ منی سے پیدا شدہ ہے اور وہ اس کی بیان کردہ عجیب بات سے زیادہ عجیب ہے کہتا ہے ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہو گئی ہوں کون زندہ کر سکتا ہے؟ رمیم بمعنی بالیۃٌ (بوسیدہ) رَمیمۃ ۃ کے ساتھ نہیں کہا ( جیسا کہ قیاس کا تقاضا تھا) اس لئے کہ رمیم اسم ہے نہ کہ صفت، روایت کیا گیا کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی لی، اور اس کو ریزہ ریزہ کر دیا، اور آپﷺ سے کہا کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس ہڈی کو بعد اس کے کہ وہ کہنہ اور بوسیدہ ہو گئی زندہ کر سکتا ہے؟ تو آپﷺ نے جواباً ارشاد فرمایا: ہاں کیوں نہیں، اور تجھ کو دوزخ میں داخل کرے گا آپ جواب دیجئے کہ ان کو وہ ذات زندہ کرے گی جس نے ان کو اول بار پیدا کیا اور وہ اپنی تمام مخلوق کے بارے میں پیدا کرنے سے پہلے اور پیدا کرنے کے بعد مجملاً و مفصلاً جانتا ہے، اور وہ ایسی ذات ہے کہ جس نے تمہارے لئے منجملہ دیگر لوگوں کے مرخ اور عفار یا ہر سبز درخت سے سوائے عناب کے آگ پیدا کی پھر تم اس سے آگ سلگالیتے ہو، اور یہ بعث (بعد الموت) پر قادر ہونے کی دلیل ہے، اس لئے کہ اس نے اس میں پانی اور آگ اور لکڑی (متضاد چیزیں) جمع کر دیں، پانی آگ کو نہیں بجھاتا اور نہ آگ لکڑی کو جلاتی ہے، جس نے آسمان اور زمین جیسی چیزیں پیدا فرمائیں کیا وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسے صغیر انسانوں کو پیدا کر سکے؟ ضرور پیدا کر سکتا ہے یعنی وہ اس بات پر قادر ہے خود ہی جواب دے دیا وہ بڑا پیدا کرنے والا ہے اور ہر شئ کا جاننے والا ہے اس کی شان تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کی تخلیق کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے اور ایک قراءت یکون نصب کے ساتھ ہے، یقولَ پر عطف کی وجہ سے وہ پاک ذات ہے اس کے دست قدرت میں ہر چیز کا اختیار ہے (ملکوت) میں واؤ اور تا زیادہ کئے گئے ہیں اور تم سب کو آخرت میں اسی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
تحقیق و ترکیب و تسہیل و تفسیری فوائد
قولہ: نُعَمِّرْہُ ای نُطِیْلُ اَجَلَہٗ ہم اس کی عمر دراز کر دیتے ہیں۔ جمع متکلم مضارع مجزوم۔
قولہ: نُنَکِّسْہُ ای نُقَلِّبْہُ ای نَجْعَلْہُ علیٰ عَکسِ مَا خَلَقْنَاہُ ہم اس کی تخلیق پلٹ دیتے ہیں (اعراب القرآن) یعنی ہم بتدریج اس کی حالت بدل دیتے ہیں حتی کہ ضعف میں اس کی بچوں جیسی حالت ہو جاتی ہے۔
قولہ: وَمَنْ نُعَمِّرْہُ (الآیۃ) یہ جملہ مستانفہ ہے، قوت سے ضعف کی طرف انسان کی حالت کے بدلنے کی کیفیت کو بیان کرنے کے لئے لایا گیا ہے مَنْ اسم شرط اور نُعَمِّرْ فعل شرط ہے نُنَکِّسْہُ جواب شرط ہے۔
قولہ: اَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ فا عاطفہ ہے، تقدیر عبارت یہ ہے اَتَرَکُوا التَّکُّرَفَلاَ یَعْقِلُوْنَ ۔
قولہ: وَمَا عَلَّمْنَاہُ الشِّعْرَ یہ آپ یہ آپﷺ پر کفار کی جانب سے شاعر ہونے کے الزام کا جواب ہے، اس کا عطف سورت کی ابتداء میں اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ جملہ قسمیہ پر ہے۔
قولہ: الشِّعْرَ معروف ہے (ج) اشعاد، شعر لغت میں علم دقیق اور احساس لطیف کو اور موزون و مقفی کلام کو کہتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ شعر یا تو منطقی ہوتا ہے اور یا وہ جو مقدمات کا ذبہ پر مشتمل ہو، اسی لئے ان ادلہ کو جو مقدمات کا ذبہ سے مرتب ہوں، ادلہ شعریہ کہتے ہیں، اور اصطلاح میں کلام مقفٰی و موزون علی القصد کو کہتے ہیں، آخری قید سے وہ شعر خارج ہے جو کہ بلا قصد اتفاقی طور پر جاری ہو گیا ہو، جیسا کہ آیات شریفہ اور بعض کلمات نبویہ اس لئے کہ ان میں بلاقصد اتفاقی طور پر علم عروض کے مطابق وزن ہو گیا ہے۔ (حاشیہ جلالین ملخصًا)
قولہ: اَوَلَمْ بَرَالإنسانُ (الآیۃ) ہمزہ استفہام انکاری تعجبی ہے، محذوف پر داخل ہے، واؤ عاطفہ ہے تقدیر عبارت یہ ہے اَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا رویت سے مراد رویت علمیہ ہے اَنا خلَقْنَاہُ مِن نطفۃٍ قائم مقام دو مفعولوں کے ہے۔ قولہ: خَصِیْمٌ، المخاصمُ المُجادل۔
قولہ: خَلَقْنَا لھُمْ لام حکمت کے لئے ہے، ای حِکْمَۃُ خَلْقِنَا ذٰلِکَ اِنتِفَاعُھُمْ ۔
قولہ: فی جملۃ الناسِ اس سے اشارہ کر دیا کہ یہ نعمتیں ان ہی کے لئے مخصوص نہیں ہیں بلکہ سب کے لئے ہیں۔
قولہ: مَافِعَلُوْا ذء لک اس سے اشارہ کر دیا کہ اَفَلَا یَشْکُرُوْنَ میں ہمزۂ استفہام انکاری ہے۔
قولہ: نُزِّلُوا مَنْزِلَۃَ العُقَلاَءِ یہ اس شبہ کا جواب ہے کہ لا یَسْتَطِیْعُوْنَ سے مشرکین کے ضمی معبود مراد ہیں جو کہ غیر ذوی العقول ہیں اس کی جمع واؤ، نون کے ساتھ لانا درست نہیں ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ عابدین اور معبودین میں مشاکلت کے طور پر ذوی العقول کے درجہ میں اتار کر واؤ نون کے ساتھ جمع لائی گئی ہے۔
قولہ: وَھُمُ لَھُمْ جُنْدٌ مُّحْضَرُوْنَ، ھم، مبتداء جندٌ خبر اول، مُحْضَرُوْنَ خبر ثانی اور لَھُمْ جند کے متعلق ہے، مُحْضَرُوْنَ جندٌ کی صفت بھی ہو سکتی ہے۔
قولہ: اَیْ اٰلِھَتُھُمْ مِن الاصْنَامِ اس عبارت کے اضافہ سے شارح کا مقصد ھُمْ ضمیر کا مرجع متعین کرنا ہے، یعنی وہ بت ان کے لئے لشکر کے مانند ہیں مُحْضَرُوْنَ ای مُعَدُّوْنَ لحَفظِھم یعنی اپنی حفاظت کے لئے تیار کردہ لشکر ہے جو دنیا میں (ان کے خیال میں) ان کی حفاظت کرے گا (روح المعانی) دوسرا قول یہ بھی ہے کہ ھُمْ کا مرجع کفار ہیں یعنی کفار عابدین ان کے لئے حاضر باش لشکر کے مانند ہیں کہ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ (جمل)
قولہ: مِنْ ذٰلکَ ای قو لُھُمْ لَسْتَ مُرْسَلاً ۔ قولہ: الَّذِی جَعَلَ لَکُمْ یہ الَّذِی أنشأھَا سے بدل ہے۔
قولہ: اِلاَّ العُنَّابُ عناب کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کے رگڑنے سے آگ نہیں نکلتی، اور یہی وجہ ہے کہ قصارین (دھوبی) عناب کی لکڑی کا مطارق (موسلہ) بناتے ہیں تاکہ رگڑنے سے کپڑے میں آگ نہ لگ جائے۔ (صاوی)
تفسیر و تشریح
وَمَنْ نُعَمِّرْہُ (الآیۃ) نُعَمِّر تعمیر سے بتدریج عمر دراز کرنا، اور نُنَکِّسْہُ تَنْکِیْسٌ سے پلٹنا، اوندھا کرنا، بتدریج سابقہ حالت کی طرف لوٹانا، سفیان سے منقول ہے کہ تنکیس اسّی سال کی عمر میں ہوتی ہے، وَالحق اَنَّ زمانُ ابتداء الضعف والانتقاص مختلف لا ختلاف الأ مزجۃِ والعوارض (روح المعانی) یعنی تحقیقی بات یہ ہے کہ تنکیس کی کوئی مدت متعین نہیں ہے یہ امزجہ اور عوارض کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے۔
وما۔۔ الشعر مشرکین مکہ نبی کریمﷺ کی تکذیب کے لئے مختلف قسم کی باتیں کہتے رہتے تھے، ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ شاعر ہیں، اور یہ قرآن آپ کی شاعرانہ تک بندی ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کی نفی فرمائی ہے یعنی نہ آپ شاعر ہیں اور نہ قرآن شعری کلام کا مجموعہ ہے بلکہ یہ تو صرف نصیحت و موعظت ہے، شاعری میں بالعموم مبالغہ، افراط و تفریط اور محض تخیلات کی ندرت کاری ہوتی ہے، یوں گویا کہ اس کی بنیاد جھوٹ پر ہوتی ہے، کہا گیا ہے اَعْذَبُہٗ اَکْذَبُہٗ یعنی شعر میں جتنا زیادہ مبالغہ اور جھوٹ ہو گا اتنا ہی وہ مزیدار ہو گا علاوہ ازیں شاعر محض گفتار کے غازی ہوتے ہیں کردار کے نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے نہ صرف یہ کہ اپنے پیغمبر کو شعر نہیں سکھلائے، بلکہ اس کے مزاج و طبیعت کو ایسا بنایا کہ شعر سے اس کو کوئی مناسبت ہی نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کبھی کسی کا شعر پڑھتے تو اکثر صحیح نہ پڑھ پاتے، اور اس کا وزن ٹوٹ جاتا جس کی مثالیں احادیث میں موجود ہیں، یہ احتیاط اس لئے کی گئی کہ منکرین پر اتمام حجت اور ان کے شبہات کا خاتمہ کر دیا جائے اور یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ قرآن اس کی شاعرانہ تک بندی کا نتیجہ ہے، جس طرح آپ کی امت بھی قطع شبہات کے لئے تھی، تاکہ لوگ قرآن کی بابت یہ نہ کہہ سکیں کہ یہ تو فلاں سے سیکھ کر یا کتب سابقہ کا مطالعہ کر کے مرتب کر لیا ہے، البتہ بعض مواقع پر آپ کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ کا نکل جانا جو دو مصرعوں کی طرح ہوتے اور شعری اور ان وبحور کے بھی مطابق ہوتے، آپ کے شاعر ہونے کی دلیل نہیں بن سکتے، کیونکہ ایسا آپ کے قصدوارادہ کے بغیر ہوا، اور ان کا شعری قالب میں ڈھل جانا ایک اتفاق تھا، جس طرح غزوۂ حنین کے موقع پر آپ سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن الحارث لگام پکڑے ہوئے تھے، اس موقع پر چند افراد کے علاوہ کوئی آپ کے ساتھ نہیں رہا تھا تو آپ کی زبان پر بے اختیاریہ رجز جاری ہو گیا: ؎
اَنا النبیُّ لا کَذِبْ اَنَا ابن عبد المطلب
اسی طرح ایک موقع پر آپ کی انگشت مبارک پتھر سے زخمی ہو گئی تو آپ نے فرمایا: ؎
ھَلْ انتِ اِلاَّ اِصْبَعٌ دمیتِ وفی سبیل اللہِ ما لقیت (صحیح بخاری، مسلم کتاب الجھاد، روح المعانی)
اس کے علاوہ ایک دو شعر کہنے یا پڑھنے سے شاعر نہیں ہو جاتا اور نہ اس کو شاعر کہا جاتا ہے، عرف شاعر اسی کو کہا جاتا ہے جو شعر گوئی پر قدرت اور مشغلہ رکھتا ہو، جس طرح کبھی کبھار کپڑا سینے والا خیاط نہیں کہا جاتا بلکہ درزی وہی ہوتا ہے جو خیاطی کا پیشہ کرتا ہو ورنہ تو ہر شخص خیاط کہلائے گا۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے یہ شعر پڑھا: ؎
سَتبدی لک الاَیَّامُ ما کنت جاھِلاً
ویاتیک مَنْ لم تزوَّد بالاخبار
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا، لیس ھٰکذا یا رسول اللہ فقال رسول اللہﷺ اِنِّی واللہ مَا اَنا بشاعرٍ ولا ینبغی لی۔
اولم۔۔۔ لھم (الآیۃ) اس آیت میں چوپایوں، جانوروں کی تخلیق میں انسانی منافع اور ان میں قدرت کی عجیب و غریب صنعتکاری کا ذکر فرمانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ایک اور احسان عظیم کو بتلایا گیا ہے، یہ چوپائے کہ جن کی تخلیق میں کسی انسان وغیرہ کا کوئی دخل نہیں ہے، خالص دست قدرت کے بنائے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ ان سے انسانوں کو نفع اٹھانے کا موقع دیا بلکہ ان کا ان کو مالک بھی بنا دیا، کہ وہ ان میں جس طرح چاہیں مالکانہ تصرف کر سکتے ہیں، اگر ہم ان میں وحشی پن رکھ دیتے (جیسا کہ بعض جانوروں میں ہے) تو یہ چوپائے ان سے دور بھاگتے اور وہ ان کی ملکیت اور قبضے ہی میں نہ آ سکتے، یہ خدا کے کرم و احسان ہی کا نتیجہ ہے کہ ان جانوروں سے جس طرح کا بھی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ انکار نہیں کرتے ہیں، مثلاً ان کی اون اور بالوں سے مختلف کی عمدہ اور آرام دہ چیزیں بنتی ہیں، اور بار برداری اور کھیتی باڑی کے بھی کام آتے ہیں، حتی کہ بوقت ضرورت ان کو ذبح کر کے کھاتے بھی ہیں۔
ملکیت کے بارے میں سرمایہ داری اور اشتراکیت کا نظریہ: گذشتہ صدی کے اوئل سے معاشی نظریات میں یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں سرمایہ اور دولت اصل ہے یا محنت، سرمایا دارانہ نظام معیشت کے قائل دولت اور سرمایہ کو اصل قرار دیتے ہیں، اور سوشلزم اور کمیونزم (اشتراکیت) والے محنت کو اصل علت تخلیق و ملکیت قرار دیتے ہیں۔
قران کریم کا نظریۂ معیشت: قرآن کریم کی مذکورہ صراحت نے بتلا دیا ہے کہ تخلیق اشیاء اور ان کی ملکیت میں دونوں (یعنی سرمایہ اور محنت) کا کوئی دخل نہیں، کسی چیز کی تخلیق انسان کے قبضے میں نہیں، تخلیق براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے، اور عقل کا تقاضہ ہے کہ جو جس کو پیدا کرے وہی اس کا مالک ہو، اس سے ثابت ہوا کہ اشیاء عالم میں حقیقی ملکیت حق تعالیٰ کی ہے، انسان کی ملکیت صرف اللہ تعالیٰ کے عطا کرنے سے ہو سکتی ہے۔ (معارف)
واتخذوا۔۔۔ الھۃً (الآیۃ) یہ ان کے کفران نعمت کا اظہار ہے کہ مذکورہ نعمتیں جن سے فائدہ اٹھاتے ہیں، سب اللہ کی پیدا کردہ اور عطا کردہ ہیں، لیکن یہ بجائے اس کے کہ اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکرادا کریں یعنی اس کی عبادت و اطاعت کریں، غیروں سے امید وابستہ کرتے ہیں اور انہیں معبود بناتے ہیں۔
لا۔۔۔ جندٌ (الآیۃ) جندٌ سے مراد بتوں کے حمایتی اور ان کی طرف سے مدافعت کرنے والے اور مُحْضَرونَ سے مراد حاضر باش دنیا میں ان کے پاس رہنے والے ہیں، مطلب یہ ہے کہ یہ جب بتوں کو معبود سمجھتے ہیں، وہ ان کی مدد کیا کریں گے؟ یہ مشرکین خود اپنے معبودوں کی مدد اور حفاظت کرتے ہیں، ان کے معبودوں کو اگر کوئی برا کہے ان کی مذمت کرے، تو خود یہی لوگ ان کی حمایت و مدافعت میں سرگرم ہو جاتے ہیں، نہ کہ وہ معبود۔ بعض حضرات نے جُنْدٌ سے مراد فریق مخالف لیا ہے، آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جن چیزوں کو انہوں نے دنیا میں معبود بنا رکھا ہے یہی قیامت کے روز ان کے مخالف ہو کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔
اور حضرت حسن و قتادہ سے اس کی یہ تفسیر منقول ہے کہ ان لوگوں نے بتوں کو معبود تو اس لئے بنایا تھا کہ یہ ان کی مدد کریں گے اور ہو یہ رہا ہے کہ وہ تو ان کی مدد کرنے کے قابل نہیں خود یہی لوگ جو ان کی عبادت کرتے ہیں ان کے خدام اور سپاہی بنے ہیں۔
اولم۔۔ نسان (الآیۃ) کیا یہ انسان اتنا نہیں سمجھتا کہ جس اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حقیر نطفہ سے پیدا کیا ہو وہ دوبارہ اس کو زندہ کرنے پر کیوں قادر نہیں؟ اس کی قدرت احیاء موتیٰ کا ایک واقعہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک شخص نے مرتے وقت وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسے جلا کر اس کی آدھی راکھ سمندر میں اور آدھی راکھ تیز ہوا میں اڑا دی جائے، چنانچہ اس کے ورثاء نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا، اللہ تعالیٰ نے اس کی تمام راکھ جمع کر کے اسے زندہ فرمایا اور اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے کہا تیرے خوف سے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرما دیا۔ (صحیح بخاری، الانبیاء)
الذی۔۔۔ نارًا (الآیۃ) کہتے ہیں کہ عرب میں دو درخت ہیں مرخ اور غفار، اگر ان کی دو لکڑیاں آپس میں رگڑی جائیں تو آگ پیدا ہوتی ہے، سبز درخت سے آگ پیدا کرنے سے اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اس کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں ہے وہ ہر شئ پر قادر ہے، مردوں کو زندہ کرنا اس کے لئے اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ ابتداءً پیدا کرنا۔
٭تم بحمد للہ٭
٭٭٭