مجموعے "چاند کی گود میں” سے ایک طویل مضمون کی علیحدہ ای بک
انار کلی
از قلم
محمد اشفاق ایاز
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں….
اقتباس
عالم پناہ شہنشاہ جلال الدین اکبر اپنے آگرہ کے قلعہ میں محل کے پائیں باغ میں اداسی اور غم کی تصویر بنے، پشت پر ہاتھ باندھے، دھیرے دھیرے قدم اٹھا تے چہل قدمی کر رہے تھے۔ پھر وہ باغ کے وسط میں حوض کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ پاؤں کو جوتی اور شلوار سمیت حوض کے پانی میں لٹکا دیا اور ایک ہاتھ سے کنارے پر پڑے پتھر اٹھا اٹھا کر پانی ابلتے فوارے کو یوں مارنے لگے جیسے شیطان کو کنکریاں مار رہے ہوں۔ شہنشاہ صبح کی سیر کو محل سے نکلے تھے۔ ابھی تو منہ بھی نہیں دھویا تھا۔ اسی عالم میں دوپہر ہو گئی تھی۔
ادھر دربار میں نورتن اور وزیر اعظم بڑی بے چینی سے شہنشاہ کی آمد کا انتظار کر رہے تھے مگر ان کی آمد کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ملکہ عالیہ سے دریافت کیا گیا تو پتہ چلا کہ آج صبح سیر کو گئے تھے اس کے بعد کچھ پتہ نہیں۔ وزیر اعظم مان سنگھ اس لئے پریشان تھا کہ اگر بادشاہ سلامت کو کچھ ہو گیا تو اس کی وزارتِ عظمیٰ مٹی میں مل جائے گی۔ نورتن اس لئے متفکر تھے کہ شاید اس سے بڑا خوشامد پسند بادشاہ انہیں پھر کبھی میسر ہو بھی یا نہیں۔ ان کی نوکریوں کا کیا بنے گا۔ درباری اور دیگر اہل کار بھی اسی تشویش کا شکار تھے کہ آخر بات کیا ہوئی۔ کہیں بادشاہ سلامت ملکہ عالیہ سے لڑ کر تو نہیں گئے۔ کہیں انہیں تاوان کی خاطر اغوا تو نہیں کر لیا گیا۔ کہیں انہیں شہزادہ سلیم کی تخت پر قبضہ کرنے کی سازش کا پتہ تو نہیں چل گیا۔ یا پھر شاہی طبیب نے انہیں غلطی سے کوئی ایسا نسخہ تو نہیں دے دیا جس سے انہیں رانیوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
در اصل یہ پہلا واقعہ نہیں تھا۔ گزشتہ سات روز سے بادشاہ سلامت کا دیر سے دربار میں آنا معمول بن چکا تھا۔ ان کی الجھن اور پریشانی چہرے سے صاف عیاں تھی جیسے ان پر مصیبت کا کوئی پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔ دربار ایک تو دیر سے شروع ہونے لگا تھا۔ دوسرے چند لمحے بعد ہی برخاست کر دیا جاتا اور قصیدہ خواں اپنے قصیدے بغل میں ہی دبائے واپس گھروں کو چلے جاتے اور شہنشاہ پشت پر ہاتھ باندھے واپس حرم میں تشریف لے جاتے۔ آج تو حد ہی ہو گئی۔ درباری حاضر تھے۔ نورتن اپنے اپنے گاؤ تکیوں کے ساتھ ٹیک لگائے مجرائی انداز میں براجمان تھے۔ وزیر اعظم مان سنگھ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بارہ بجنے میں ایک سیکنڈ پہلے ہی عقلمندانہ فیصلہ کیا اور دربار بر خاست کر کے خود بادشاہ سلامت کی تلاش میں نکل پڑا۔
مان سنگھ نے چند خاص غلاموں کو بھی اعتماد میں لے کر بادشاہ کی تلاش میں روانہ کیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی محل میں چہ میگوئیوں کا سیلاب آ گیا۔ غلاموں، نوکرانیوں اور حرم سراؤں کی حرکت میں تیزی آنے لگی اور وہ اِدھرسے اُدھر گردش کرنے لگے۔ مان سنگھ اس غیر معمولی اتھل پتھل سے گھبرا گیا۔ سمجھا کہیں محل میں بغاوت ہی نہ ہو گئی ہو۔ وہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے راہداری میں آ گیا۔ ایک نوکرانی قریب سے گزری مان سنگھ نے اسے روک کر اس افراتفری کا سبب پوچھنا چاہا تو وہ بے دھیانی میں ’’وے ٹٹ پینیاں چھڈ پراں ہو‘‘ کہہ کر آگے نکل گئی۔ نوکرانی محل کی ایک کھڑکی میں جا کر کھڑی ہو گئی جو پائیں باغ کی طرف کھلتی تھی۔۔۔۔۔
مان سنگھ نے دیکھا وہ تمام کھڑکیاں اور دروازے جو پائیں باغ کی طرف کھلتے تھے وہاں نوکرانیوں، غلاموں اور حرم سراؤں کی بھیڑ لگی ہے۔ ان سب کی نظریں ایک چیز پر مرکوز ہیں۔ مان سنگھ نے ایک نوکرانی کو پرے دھکیل کر خود نظارہ کیا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ شہنشاہ معظم جلال الدین اکبر فوارے کے حوض میں جوتی اور شلوار سمیت پاؤں لٹکائے حوض کے فوارے کواس طرح وٹے مار رہے ہیں۔ جیسے حج کے دنوں میں حاجی شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں۔ یہ وٹے حوض کی مرمت کے لئے کل ہی منگوائے گئے تھے۔ مان سنگھ نے جو یہ حالت دیکھی تو دوڑتا ہوا سیدھا بادشاہ سلامت کے پاس پہنچا اور کورنش بجا لایا۔ اسی عالم میں اگر وہ طبلِ جنگ بھی بجا لاتا تو بادشاہ سلامت کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑتا۔ کورنش بجا لانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ باد شاہ سلامت اپنی دھن میں مست بڑے درد ناک انداز میں تان سین کی موسیقی میں ترتیب دیا ہوا فلم ’’عشق نہ پچھے ذات‘‘ کا یہ نغمہ دلدوز انداز میں گا رہے تھے۔
ہم چلے اس جہاں سے
دل اٹھ گیا یہاں سے
مر چلے ہم ادھر
خوش رہیں وہ ادھر
اب اٹھے گا جنازہ یہاں سے
مان سنگھ نے سوچا شاید بادشاہ سلامت کی طبع نازک شدید گرمی کی وجہ سے اس حال کو پہنچی ہے مگر یہ موسم تو کہر اور دھندکا تھا۔ مان سنگھ نے یہ بھی سوچا کہیں جہاں پناہ کو منہ اندھیرے نکلنے کی وجہ سے سرسام نہ ہو گیا ہو مگر سر پر شاہی پگڑی کی موجودگی میں سرسام کیسے ہو سکتا تھا۔ اسی کشمکش میں اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے اشارے سے پائیں باغ میں کھلنے والی کھڑکیوں اور دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔
غلام اور نوکر دورہ ٹ گئے کھڑکیاں بند ہو گئیں تو مان سنگھ شہنشاہ سلامت عالم پناہ جلال الدین اکبر کے قریب گیا اور شانے پر ہاتھ رکھ کر مؤدبانہ کہا۔ ’’جہاں پناہ!‘‘
شہنشاہ نے وٹے والا ہاتھ روکا اور گردن کو موڑتے ہوئے کہا۔ ’’کون ہے بدتمیز؟‘‘
’’میں ہوں جہاں پناہ! آپ کا نمک خوارِ خاص، مان سنگھ‘‘۔ مان سنگھ نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
’’جاؤ جا کر اپنا کام کرو مان سنگھ! آج سے تم تخت کے وارث ہو‘‘۔
مان سنگھ سنجیدہ ہو گیا۔ وہ سکھ تھا مگر عقلمند بھی تھا۔ وہ سمجھ گیا ضرور کچھ انہونی ہوئی ہے۔ کہیں ملکہ عالیہ نے مزید بچے کی خواہش تو نہیں کر دی یا ان کے حرم میں اتنی ڈھیر ساری لونڈیاں، نوکرانیاں تھیں۔ کسی نے ان کے متعلق ’’نازیبا الفاظ‘‘ تو استعمال نہیں کئے تھے۔ کہیں بادشاہ سلامت نے انگور کی بیٹی کو منہ تو نہیں لگایا۔ اگر ایسا تھا بھی تو پھر صبح سے اب تک نشہ اتر جانا چاہئے تھا۔ یہ گانا، یہ دنیا سے بیزاری اور بادشاہت تباہ کُن۔ آخر کس صبح روشن کی دلیل ہے۔ وزیر اعظم ابھی کڑیاں ملا ہی رہے تھے کہ بادشاہ سلامت کی آواز گونجی۔
’’مان سنگھ! ہم نے بہت جی لیا، بہت عیش کر لی، بس ہمارے جنازے اور ار تھی کا ایک ساتھ بندوبست کیا جائے۔‘‘
مان سنگھ ہاتھ باندھ کر جھکا اور اس عالم میں کہا۔ ’’شہنشاہ سلامت! آپ کا اقبال بلند ہو۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے اتنی دھن، دولت بلیک منی، محل، نوکرانیاں، ملکائیں ہوتے ہوئے بھی آپ کے دل سے غم اور دکھ کے بادل۔۔۔۔۔ یا حضرت ماجرا کیا ہے؟‘‘
’’مان سنگھ۔۔۔۔۔۔ یہ ہمارا فیصلہ ہے۔۔۔۔ تخت کے اب تم وارث ہو‘‘ بادشاہ سلامت گرجے۔
’’مگر بادشاہ سلامت ہٹے کٹے شہزادہ سلیم کے ہوتے ہوئے آپ مجھ پر اتنی نوازش کیوں کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں مجھے اس کے ہاتھوں مروانے کا قصد تو نہیں کر لیا حضور نے۔‘‘
شہنشاہ عالم نے بھر پور قہقہہ لگایا۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا وٹہ زور سے حوض میں پھینکا۔ پانی کے چھینٹے اڑ کر مان سنگھ کے چہرے پر پڑے مگر وہ خاموش رہا۔ بادشاہ سلامت نے ایک ایک کر کے پاؤں حوض سے باہر نکالے اور کنارے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ بادشاہ سلامت نے مان سنگھ کو اپنے قریب بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔
’’بادشاہ سلامت! آپ کئی روز سے دربار کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ درباری تشویش میں مبتلا ہیں۔ قصیدہ خواں اپنے قصیدوں کو سنبھالے حیران ہیں۔ اگر آپ کے دکھ کی خبر عوام تک پہنچ گئی تو آپ کا ککھ کنڈا نہ رہے گا۔ عوام آپ کو کمزور سمجھ کر آپ کی تکا بوٹی کر کے کھا جائیں گے۔ پہلے ہی عوام آپ کے دین الٰہی سے سخت بے زار ہیں۔‘‘ مان سنگھ نے ذرا فاصلہ رکھ کر صورتحال سے مطلع کیا مبادا بادشاہ سلامت ایک وٹہ اس کے منہ پر نہ دے ماریں۔
مان سنگھ اب ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جلال الدین اکبر نے جواب دیا اور آسمان کی طرف منہ کر کے گنگنانے لگے۔
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسین ہے