تصنیف حیدر ( ادبی دنیا) کی پیشکش
آنکھ بھر اندھیرا
منتخب نظموں کا برقی مجموعہ
ابرار احمد
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
آنکھ بھر اندھیرا
چمکتی ہیں آنکھیں
بہت خوب صورت ہے بچہ
وہ جن بازوؤں میں
مچلتا ہے، لو دے رہے ہیں
چہکنے لگے ہیں پرندے
درختوں میں پتے بھی ہلنے لگے ہیں
کہ لہراتے رنگوں میں
عورت کے اندر سے بہتی ہوئی روشنی میں
دمکنے لگی ہے یہ دنیا
وہ بچہ اسے دیکھے جاتا ہے
ہنستے، ہمکتے ہوئے
اس کی جانب لپکنے کو تیار
عورت بھی کچھ
زیر لب گنگنانے لگی ہے
لجاتے ہوئے
کسی سر خوشی میں
بڑھاتا ہے وہ ہاتھ اپنے
تو بچہ اچانک پلٹتا ہے
اور ماں کے سینے میں چھپتا ہے
عورت سڑک پار کرتی ہے
تیزی سے، گھبرا کے
چلتی چلی جا رہی ہے
ادھر کوئی دیوار گرتی ہے
شاعر کے دل میں
وہیں بیٹھ جاتا ہے
اور جوڑتا ہے یہ منظر
اندھیرے سے بھرتی ہوئی آنکھ میں!
٭٭٭
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
دریچے سے لگی آنکھیں، پلٹتی ہیں
پلٹ کر لوٹ آتی ہیں
رسوئی میں اندھیرا ہے
کوئی برتن کہیں بجتا نہیں ہے
کھلا رہتا ہے دروازہ
نشستوں پر گرے پتے بتاتے ہیں
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
یہ کل کی بات ہے آتش دہکتی تھی
سلگتی کیتلی کی بھاپ سے چہرے دمکتے تھے
لڑھکتے قہقہے، ٹکرا کے دیواروں سے ہم پر لوٹ آتے تھے
کہیں خوابوں کی تلچھٹ کے نشے میں چور ہو کر
دن کی گلیوں سے گزرتے تھے
کبھی آنکھوں میں خالی پن کے ڈورے کھینچ کر
تکتے تھے اس دنیا کے چہرے کو
کدھر کو کھو گئے
ماچس بجاتے، گیت گاتے دل زدہ ساتھی
نہ جانے کون سی سمتوں سے ہنستے، گنگناتے آ دھمکتے تھے
کہیں افسوس کی تانیں لیے
افسوں کی گہری نغمگی لے کر
کدھر کو عازم ہجر مسلسل ہیں
کہاں سوئے پڑے ہیں خواب کی بیمار جکڑن میں
کہولت ہے یا بیماری
سہولت ہے کہ دشواری
در و دیوار کو تکتے ہیں
اور گرتے پلستر، نم زدہ اینٹوں کی سیلن میں
کہیں تحلیل ہوتے جا رہے ہیں
وہ روز عید ہو، چھٹی کا یا پھر کام کا دن ہو
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
کوئی آسیب ہے شاید
جو دیواروں سے اپنی ہانپتی تاریکیاں لے کر پڑا رہتا ہے قدموں میں کسی منحوس لذت کی طرح
بستر سے اٹھنے ہی نہیں دیتا
نہ جانے کیا ہوا ہے
رونقیں آنے نہیں دیتیں کہ ویرانی نے گھیرا ڈال رکھا ہے
کہ گہری دھند ہے اطراف میں پھیلی ہی
کوئی آشوب زر ہے یا کشاکش زندگی کی ہے
کہ سیل عمر کا کوئی تھپیڑا ہے
کسی کے گھر کوئی آتا نہیں ہے
ہمارے گھر کوئی آتا نہیں ہے
٭٭٭
روشنی میرے اندر ہے
عجب خواب تھا!
جو تری نرم آنکھوں سے بہتا چلا جا رہا تھا
کہیں نیند کے ایک جھونکے کی صورت بہت نیلا پانی تھا
پانی—-جسے میں نے سوچا بہت تھا
زمیں پر مگر پہلے دیکھا نہیں تھا
——
وہاں چار سو غیر آبادیاں تھیں، قدامت کے آثار تھے
ریت پر پاؤں دھنستے گئے تھے
وہیں پر پڑے ہیں!
وہ مہکار تھی، جیسے شالاط
اطراف میں بال کھولے ہوئے پھر رہی ہو
وہی خواب تھا جس نے امجد کو اپنی پکڑ میں لیا–
وہ مٹی میں مٹی یہ کب جانتا تھا
ہوا کا کوئی بھی ٹھکانا نہیں ہے
وہ اگلے دیاروں کو مہکانے کب کی نکل بھی چکی ہے—–
وہ ہر رات لکھنے کو خط سوچتا
اجنبی، بے نشاں منزلوں کی طرف پھینک دیتا
وہ لفظوں کے پیکر بناتے ہوئے، روز جیتا رہا، روز مرتا رہا
وہ بھاگا اندھیرے کے پیچھے
زمیں آسماں کے کناروں تلک تیز سایکل چلائی
اور آخر کو لوٹا کہ دندانے ٹوٹے پڑے تھے
وہ جیمی ہو کوئی کہ شالاط ہو
واقعہ ہو کہ ہو خواب کوئی
اسے دیکھتی ہیں جو آنکھیں، وہی جانتی ہیں
وہی دل سمجھتا ہے اس بھید کو
جس کے اسرار کو عمر بھر جھیلتا ہے
مگر غیر ممکن سا یہ خواب میرا
ہے میرے زمانے کا پرتو
کسی مختلف وقت کے دائرے میں رکا یہ شبستان
مرے گرد پھیلا ہوا ہے—
ادھر سے ادھر سر کو ٹکرا رہا ہوں
میں بکھری ہوئی نیند میں
بہت دور تک بے اماں تیرگی ہے
مگر یوں بھی ہے
میں اسی میں چمکتا ہوا راستہ دیکھتا ہوں
سو ٹھہرا رہوں گا نواح محبت میں—–
ترے خواب کو طاق میں رکھ کے دیکھا کروں گا
اسے اپنی وحشت سے ڈھانپے رہوں گا
کہ جینا غضب ہے
اسی رنگ شب میں اگر روشنی ہے
تو وہ میرے اندر ہے
باہر نہیں ہے
٭٭٭
(شالاط، مجید امجد کے حوالے سے)