کلامِ اقبال( بانگِ درا) کی مشہور شرح
مطالبِ بانگِ درا
از قلم
مولانا غلام رسول مہر
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…….
خضر راہ
یہ نظم اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے سینتیسویں سالانہ اجلاس میں پڑھی تھی جو اپریل 1922ء میں اسلامیہ ہائی سکول اندرون شیرانوالہ دروازہ میں منعقدہ ہوا تھا۔ عالم اسلام کے لیے وہ وقت بے حد نازک تھا۔ قسطنطنیہ پر اتحادی قابض تھے۔ سلطنت عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بج چکی تھی۔ اتحادیوں کے ایما پر یونانیوں نے اناطولیہ میں فوجیں اُتار دی تھیں۔ شریف حسین جنگ کے زمانے میں انگریزوں اور فرانسیسیوں کو عرب کے مختلف حصوں میں براہ راست مداخلت کا موقع مل گیا تھا۔ اس طرح مسلمانوں پر رنج و قلق کی گھٹائیں چھا گئیں۔ ہمارے ملک میں ہجرت کی تحریک جاری ہوئی، پھر خلافت اور ترک موالات کا دور شروع ہوا۔ ہزاروں مسلمان قید ہو گئے۔ ادھر دنیائے اسلام کے رو برو نئے نئے مسائل آ گئے۔ اقبال نے ان ہی میں سے بعض اہم مسائل کے متعلق حضرت خضرؑ کی زبان سے مسلمانوں کے سامنے صحیح روشنی پیش کی اور نظم کا نام ’’خضر راہ‘‘ اسی وجہ سے رکھا کہ یہ مشکلات و مصائب کے نہایت نازک دَور میں راہ نمائی کا مینار تھی۔
یہ نظم سننے کے لیے بے شمار آدمی جمع ہو گئے تھے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ پورا مجمع بیس ہزار سے کم نہ ہو گا۔ بعض اشعار پر اقبال خود بھی بے اختیار روئے اور مجمع بھی اشکبار ہو گیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اقبال پر جتنی رقت ’’خضر راہ‘‘ پڑھنے کے دوران میں طاری ہوئی اتنی کسی نظم کے دوران میں نہ ہوئی۔ ابتداء میں نظم میں صرف دو عنوان تھے۔ پہلے دو بندوں کا عنوان تھا ’’شاعر‘‘ کا خطاب حضرت خضرؑ سے۔ باقی نو بندوں کا عنوان تھا ’’جواب خضر‘‘۔ نظر ثانی میں اقبال نے مختلف مسائل پر الگ الگ عنوان قائم کر دیے۔
خضر راہ اقبال کی مختلف نظموں میں بعض وجوہ سے یگانہ حیثیت کی مالک ہے۔ مثلاً
1۔ اس کا عام انداز دوسری نظموں سے بالکل جداگانہ ہے۔
2۔ اگرچہ اِس میں پرانے اُسلوب کے تمام محاسن موجود ہیں لیکن اظہارِ خیال کا طریقہ ایسا اختیار کیا گیا ہے جسے مغربی ادب سے گہرا قرب حاصل ہے۔
3۔ اس میں نہ صرف دنیائے اسلام بلکہ پورے عالم انسانیت کے اہم ترین مسائل ایسے رنگ میں بیان کیے گئے ہیں کہ ان سے عوام و خواص اپنے اپنے مدارج فہم و تصور کے مطابق یکساں مستفید ہو سکتے ہیں۔
4۔ دوسری نظموں کے مقابلے میں اس کا انگریزی یا فرانسیسی یا جرمن یا اطالوی ترجمہ بہت سہل ہے اور اس ترجمے کو دیکھ کر اہل مغرب مشرقی ادب کی خصوصیات سے واقفیت حاصل کیے بغیر ہی متمتع ہو سکتے ہیں۔
ابتدا میں انہیں اشاروں پر قناعت کی جاتی ہے۔ آخر میں نظم کے مطالب ترتیب سے بیان کر دیے جائیں گے۔
شاعر
ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر
گوشۂ دل میں چھپائے اک جہانِ اضطراب
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر
انجم کم ضو گرفتارِ طلسم ماہتاب
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر
جس کی پیری میں ہے مانندِ سحر رنگِ شباب
کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرارِ ازل!
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب
دل میں یہ سن کر بپا ہنگامۂ محشر ہوا
میں شہید جستجو تھا یوں سخن گستر ہوا
معنی
سکوت اَفزا: خاموشی بڑھانے والی۔ حد درجہ خاموش۔ پیک جہاں پیما: دنیا کی سیر کرنے والا۔ دُنیا میں گھومنے پھرنے والا قاصد۔
ترجمہ و تشریح
میں ایک رات دریا کے کنارے اِدھر اُدھر کے نظارے دیکھنے میں مگن تھا۔ میرے دل کے کونے میں پریشانیوں کی ایک دُنیا چھپی ہوئی تھی۔ رات کا سماں حد درجہ سنسان تھا۔ ہوا ساکن تھی۔ دریا دھیمے دھیمے چل رہا تھا۔ اسے دیکھ کر حیرانی ہوتی تھی کہ یہ دریا ہے یا پانی کی تصویر یعنی رفتار اتنی دھیمی تھی کہ وہ اصل کے بجائے صرف ایک تصویر نظر آتی تھی۔ جس میں حرکت بالکل نہیں ہوتی۔ بے قرار لہریں دریا کی گہرائیوں میں اس طرح مست خواب تھیں، جس طرح دودھ پینے والا بچہ پنگوڑے میں بے خبر سو جاتا ہے۔ رات کے جادو سے پرندے گھونسلوں میں پابند ہو چکے تھے۔ ستاروں کی روشنی چاندنی کے طلسم میں پھنس کر بہت ماند پڑ چکی تھی۔
ان تین چار شعروں میں رات کا سماں ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے گویا ماحول اپنی حقیقی صورت میں سامنے آ گیا ہے۔ اور ہر شعر حسن فکر و نظر کی ایک بولتی تصویر ہے۔
اس عالم میں کیا دیکھتا ہوں کہ دُنیا کی پہنائیوں میں چکر لگانے والے حضرت خضرؑ نمودار ہو گئے ہیں۔ اُن کے بڑھاپے میں بھی صبح کی طرح جوانی کا رنگ اور رعنائی نمایاں ہے۔ حضرت خضرؑ کو پیر اس لیے کہا کہ عام تصور کے مطابق ان کی عمر لمبی ہے۔ صبح سے تشبیہ سفیدی کے باعث دی پھر صبح میں روشنی کی اُسی سفیدی کے باعث ایک خاص شان اور سج دھج ہوتی ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال نے اس ایک مصرع کے چند الفاظ میں کتنی خوبیاں جمع کر دی ہیں۔
حضرت خضرؑ نے مجھ سے فرمایا: اے ازلی بھیدوں کی تلاش میں بے قرار پھرنے والے! کیا تجھے معلوم نہیں کہ دل کی آنکھ کھلی ہو تو اس دنیا کی تقدیر سے پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ اور برہنہ شکل میں سامنے آ جاتی ہے؟
یہ ارشاد سنتے ہی دل میں قیامت کا سا ہنگامہ بپا ہو گیا۔ میں بھیدوں کی تلاش میں حد درجہ سرگرم تھا اور حضرت کی خدمت میں میں نے یوں عرض کیا:
اے تری چشم جہاں ہیں پر وہ طوفان آشکار
جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش
’کشتی مسکین‘ و ’جان پاک‘ و ’دیوار یتیم‘
علم موسیٰؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش
چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد
زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا و دوش
زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقۂ دیرینہ چاک
نوجوان اقوامِ نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش
گرچہ اسکندر رہا محرومِ آب زندگی
فطرتِ اسکندری اب تک ہے گرمِ ناؤ نوش
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفیﷺ
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش
آگ ہے اولاد ابراہیمؑ ہے نمرود ہے!
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!
معنی
۱۔ کشتی مسکین، ۲۔ جان پاک، ۳۔ دیوار یتیم۔ ان سے اشارہ تین واقعات کی طرف ہے جن کا ذکر سورہ کہف میں ہوا۔ یعنی حضرت موسیٰؑ خدا کے خاص بندوں میں سے ایک بندے سے ملے۔ جسے براہ راست علم عطا کیا گیا تھا۔ حضرت موسیٰؑ نے ان کے ساتھ رہ کر یہ علم سیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ خدا کے اس خاص بندے نے فرمایا کہ آپ صبر نہ کر سکیں گے۔ بہرحال حضرت موسیٰؑ اور خدا کا وہ بندہ سفر کے لیے نکلے۔ اسی سفر میں تین واقعات پیش آئے۔
1۔ سمندرکے کنارے پہنچے اور کشتی میں سوار ہوئے۔ خدا کے خاص بندے نے کشتی میں ایک دراڑ نکال دی۔ حضرت موسیٰؑ یہ دیکھ کر بول اُٹھے۔ کیا آپ نے کشتی میں اس لیے دراڑ نکال دی کہ مسافر غرق ہو جائیں؟ ’’کشتی مسکین‘‘ سے اشارہ اس واقعے کی طرف ہے۔
2۔ دونوں آگے چلے تو ایک لڑکا ملا۔ خدا کے خاص بندے نے اُسے قتل کر ڈالا۔ حضرت موسیٰ بولے اُٹھے کہ آپ نے ایک بے گناہ کی جان لی لے۔ حالانکہ اس نے کسی کی جان نہ لی تھی۔ آپ نے کیسی برائی کی بات کی۔ ’’جان پاک‘‘ سے اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے۔
3۔ آگے بڑھے تو ایک گاؤں کے لوگوں سے کہا کہ کھانے کا انتظام کر دو۔ انھوں نے انکار کر دیا۔ اس گاؤں میں ایک پرانی دیوار گرا چاہتی تھی۔ خدا کے خاص بندے نے اس کی مرمت کر دی۔ حضرت موسیٰؑ بول اُٹھے آپ چاہتے تو اس محنت کا معاوضہ ان سے لے لیتے۔ ’’دیوار یتیم‘‘ سے اشارہ اس واقعہ کی طرف ہے۔
یہاں حضرت موسیٰؑ اور خدا کے بندے کا ساتھ ختم ہو گیا۔ رخصت ہوتے وقت خدا کے اُس بندے نے ان تینوں کاموں کے معقول سبب بیان کر دیے۔ مثلاً: کشتی میں دراڑ اس وجہ سے نکالی گئی کہ ایک ظالم بادشاہ کشتیاں بیگار میں پکڑ رہا تھا۔ اس کشتی کو بھی لیتا تو چند مسکینوں کی روزی کا ذریعہ ختم ہو جاتا۔ لڑکے کو قتل اس لیے کیا کہ وہ اپنی سرکشی اور کفر سے نیک والدین کو دکھ پہنچائے گا۔ اُمید ہے کہ خدا انھیں بہتر لڑکا دے دے۔ دیوار اس لیے درست کر دی کہ وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی ملکیت تھی۔ اور اس کے نیچے خزانہ گڑا ہوا تھا۔ دیوار ڈھے جاتی تو لوگ خزانہ نکال کر لے جاتے۔
قرآن میں ان واقعات کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ ہم ظاہر کی نظروں سے جو کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ضروری نہیں کہ حقیقت بھی وہی ہو۔ ہو سکتا ہے بعض ظاہر برائیوں کے پس پردہ نیکی موجود ہو۔ حکم اگر چہ ظاہری پر لگایا جاتا ہے، تاہم غور و فکر، چھان بین اور تحقیق و کاوش کی پوری کوشش کرنی چاہیے تاکہ پہلو ڈھکا چھپا نہ رہ جائے۔ خدا کے اس خاص بندے کا نام صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات میں خضر بتایا گیا ہے۔ حیرت فروش: حیران۔ ہکا بکا۔ صحرا نورد: بیابان طے کرنے والا۔ پیرایہ پوش: لباس پہنے ہوئے۔ فطرت اسکندری: ملوکیت یعنی بادشاہی کی طرف۔ ہاشمی: اشارہ ہے شریف حسین کی طرف جو سلطنت عثمانیہ کی طرف سے ۱۹۰۸ ء میں مکہ شریف مقرر ہوا تھا۔ پہلی جنگ یورپ میں وہ سلطنت عثمانیہ سے باغی ہو کر اتحادیوں سے مل گیا۔ اسے حجاز کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ اس کے بیٹے امیر فیصل کو پہلے شام پھر عراق کی سلطنت دے دی گئی۔ دوسرے بیٹے امیر عبد اللہ کے لیے حجاز کے شمال میں شرق اُردن کی سلطنت قائم کر دی گئی۔ ترکمان سخت کوش: سختیاں سہنے والے ترک۔
ترجمہ و تشریح
حضور والا! آپ کی نگاہیں دُنیا کی حقیقتوں سے واقف ہیں۔ وہ ان طوفان کے متعلق بھی سب کچھ جانتی ہیں جن کے ہنگامے ابھی دریا کی تہہ میں چپ چاپ سو رہے ہیں یعنی آپا ان اہم واقعات کو بخوبی جانتے ہیں جو ابھی پیش نہیں آئے اور مستقبل میں کسی خاص موقع پر ان کا ظہور ہو گا۔
مسکینوں کی کشتی میں دراڑ نکالنے، بظاہر ایک بے گناہ بچے کو قتل کرنے اور یتیم بچوں کی دیوار مزدور لیے بغیر بنا دینے کے واقعات قرآن مجید میں بیان ہو چکے ہیں۔ ان سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ جیسے بلند مرتبہ پیغمبر کا علم بھی آپ کے علم کے سامنے حیرت کا پیکر بن گیا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰؑ ظاہر پر حکم لگاتے تھے اور حکم بالکل درست تھا۔ لیکن ان واقعات کی تہ میں چھپا ہوا علم صرف آپ کو تھا جو خدا نے اپنی خاص رحمت سے آپ کو عطا کیا تھا۔ حضرت موسیٰؑ کو ان اسباب کا علم عطا نہ ہوا تھا۔
آپ آبادیوں کو چھوڑ کر جنگلوں اور بیابانوں میں گھومتے رہتے ہیں۔ آپ کی زندگی اس طرح گزر رہی ہے کہ عام انسانوں کی زندگی کے خلاف نہ اس میں دن ہے نہ رات نہ آئندہ کل ہے۔ نہ گزشتہ کل۔ از راہِ عنایت فرمائیے کہ زندگی کا بھید کیا ہے؟ وہ شے جسے بادشاہی کہتے ہیں، کیا چیز ہے؟ سرمایہ اور محنت، مال داروں اور مزدوروں میں جو جھگڑا اور غوغا بپا ہے اس کا سبب کیا ہے؟ ملاحظہ فرمائیے کہ ایشیاء کی سر زمین زمانۂ قدیم سے عظمت کی مالک چلی آتی تھی۔ اب اس کی عظمت کا پرانا لباس جگہ جگہ سے تار تار ہو رہا ہے۔ جو قومیں کل تک گمنامی میں ڈوبی ہوئی تھیں وہ قوت و طاقت حاصل کر کے ساری دُنیا پر چھا رہی ہیں۔ اور اُن کے نوجوان اچھے اچھے لباسوں میں آراستہ ہیں۔
عام روایت کے مطابق اگرچہ سکندر آپ کی پیروی کے باوجود چشمۂ حیوان سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پی سکا اور بالکل محروم رہ گیا، لیکن سکندری یعنی بادشاہ کی فطرت اب تک جی بھر کر پی پلا رہی ہے اور ہر قسم کے مزے اُڑا رہی ہے یہ بھی دیکھیے کہ شریف حسین جو حضرت ہاشم کی اولاد ہونے کا دعویدار ہے۔ حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے پاک دین کی عزت و وقعت بیچ رہا ہے۔ حالانکہ اس پر اِس عزت و وقعت کی حفاظت فرض تھی۔ اور یہ اس کے جد امجد کی میراث تھی، لیکن ترک جو ہاشمی نہ تھے، اس دین کی حفاظت میں ہر قسم کی سختیاں اُٹھا رہے ہیں۔ مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں اور خاک و خون میں مل رہے ہیں۔
حضرت دیکھیے، عجیب سماں پیش نظر ہے آگ کا الاؤ شعلہ افروز ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کی اولاد کھڑی ہے نمرود جو رو ظلم پر تلا بیٹھا ہے۔ فرمائیے کیا پھر کسی کو قوت ایمان کا امتحان ہونے والا ہے؟
آگ سے مراد مصیبتوں کا وہ طوفان ہے جو ہر طرف سے مسلمانوں پر اُمڈا چلا آتا تھا۔ اولاد ابراہیمؑ سے مقصود ملت اسلامیہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے ملت ابیکم ابراہیم حنیفا۔ نمرود سے اشارہ ان جابر اور ظالم قوتوں کی طرف ہے جو مسلمانوں کو مٹا دینے پر تلی بیٹھی تھیں۔ دوسرے مصرع میں حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جب نمرود نے بتوں کو توڑنے اور توحید کی صدا بلند کرنے پر انھیں آگ میں جلا دینے کا حکم دے دیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ اس امتحان میں پورے اُترے۔ خدا کی رحمت سے آگ اُن پر ٹھنڈی ہو گئی۔ اقبال کے نزدیک 1922-21ء میں پھر ویسی ہی حالت پیدا ہو چکی تھی۔ اس لیے وہ حضرت خضرؑ سے پوچھتے ہیں کہ کیا حضرت ابراہیمؑ والا امتحان دہرایا جائے گا؟
جوابِ خضر
(صحرا نوردی)
کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے
یہ تگا پوئے دما دَم زندگی کی ہے دلیل
اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں
گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام
وہ حضر بے برگ و سامان، وہ سفر بے سنگ و میل
وہ نمودِ اختر سیماب پا ہنگام صبح
یا نمایاں بام گردوں سے جبینِ جبرئیل
وہ سکوت شام و صحرا میں غروبِ آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیلؑ
اور وہ پانی کے چشمے پر مقامِ کارواں
اہل ایمان جس طرح جنت میں گرد سلسبیل
تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش
اور آبادی میں تو زنجیریِ کشت و نخیل
پختہ تر ہے گردشِ پیہم سے جامِ زندگی
ہے یہی اے بے خبر رازِ دوامِ زندگی
معنی
تگا پوئے دما دم: لگاتار دوڑ دھوپ اور سعی و کوشش۔ رہین خانہ: گھر کے گوشے میں بیٹھنے والا۔ بانگ رحیل: کوچ کی صدا۔ حضر: قیام۔ ٹھہراؤ، سفر کے برعکس۔ بے سنگ و میل: جس میں راستے کا کوئی نشان ہو۔ نہ مسافت کا کوئی حساب۔ چشم جہاں بین خلیل: لفظی معنی: حضرت ابراہیمؑ کی دنیا کو دیکھنے والی آنکھ۔ اس سے اشارہ سورہ انعام کی ان آیات کی طرف ہے جن میں حضرت ابراہیمؑ کی زبان سے اُن کی قوم کے غلط عقیدے واضح کیے گئے ہیں۔ وہ قوم ستارہ پرست تھی۔ تاروں، چاند اور سورج کی پوجا کرتی تھی۔ حضرت ابراہیمؑ نے نہایت پر تاثیر انداز میں بیان فرمایا کہ جو چیزیں ٹک نہ سکیں اور اپنے قیام کے لیے دوسرے سہارے کی محتاج ہوں وہ پوجا کے لائق نہیں ہو سکتیں۔ ستارہ نکلا اور ڈوب گیا، چاند روشن ہوا چھپ گیا۔ سورج کے طلوع ہوتے ہی دُنیا میں اُجالا ہو گیا۔ لیکن دن کی منزل پوری کر کے وہ بھی ڈوب گیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے یہ حقائق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ چیزیں خدا نہیں ہو سکتیں۔ خدا وہ ہے جس نے زمیں اور آسمان بنائے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوں سورہ انعام کی آیت از 75 تا 79)۔ کشت و نخیل: کھیتی باڑی اور باغات۔
ترجمہ و تشریح
حضرت خضرؑ شاعر کے جواب میں فرماتے ہیں:
بھلا میرے جنگلوں اور بیا بانوں میں گھومنے پر تجھے حیرانی کیوں ہے؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ لگاتار دوڑ دھوپ اور سعی و کوشش ہی زندہ رہنے کے دلیل ہے؟ جہاں یہ دوڑ دھوپ ختم ہوئی، زندگی بھی ختم ہو گئی۔ اے گھر کے کونے میں بیٹھے رہنے والے تو نے وہ سماں دیکھا ہی نہیں، جب قافلہ کوچ کے لیے تیار ہوتا ہے۔ اور اس کی آواز سے بیابان کی فضا گونج اُٹھتی ہے۔ تو کیا جانے کہ وہ منظر دل و دماغ میں کیا کیا ولولے پیدا کرتا ہے اور ہمت و سرگرمی کے کیسے کیسے روح افزا پیغام دیتا ہے۔
پھر تجھے کیا معلوم کہ ریت کے ٹیلوں پر ہرن جب بے پروائی سے چوکڑی بھرتے ہیں تو یہ نظارہ کتنا دل کش ہوتا ہے؟ وہ کسی سازو سامان کے بغیر جہاں موقع پاتے ہیں ٹھہر جاتے ہیں اور جب سفر پر نکلتے ہیں تو ان کے راستے میں کوئی نشان ہوتا ہے۔ جس سے پتہ چل سکے کدھر جانا ہے۔ نہ مسافت کوئی اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے میلے چلے اور کتنے میل اور چلنا ہے۔
وہ صبح تیزی سے چلنے والے ستارے کا نمودار ہونا جیسے آسمان کی چھت پر سے حضرت جبریلؑ کی پیشانی نمودار ہو۔ ستارۂ صبح اور جبیں جبریلؑ میں تشبیہ بلحاظ نور بالکل نئی ہے۔ پھر شام کا وقت آتا ہے تو ہر طرف خاموشی چھا جاتی ہے۔ اس حالت میں سورج غروب ہونے کا نظارہ بڑا ہی دل کش ہوتا ہے۔ یہ نظارہ تھا جسے دیکھ کر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی آنکھ میں نئی روشنی پیدا ہوئی تھی۔ وہ آنکھ جس کی نظر زمانے بھر کی حقیقتوں پر تھی۔
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، اس شعر میں اشارہ سورہ انعام کی اُن آیات کی طرف ہے جن میں حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ نے ایک خاص انداز میں اپنی قوم کے غلط عقیدوں کی تردید کرتے ہوئے توحید کی دعوت دی تھی۔ اقبال فرماتے ہیں کہ آفتاب کے ڈوبنے پر حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: یہ خدا نہیں ہو سکتا اس لیے کہ خود قائم نہیں رہ سکتا اور سہارے کا محتاج ہے۔ حقیقت کی یہی روشنی تھی جس بنا پر فرمایا کی حضرت ابراہیمؑ کی آنکھ ’’روشن تر‘‘ ہو گئی۔
پھر پانی کے چشمے پر قافلے کے ٹھہر جانے کا سماں دیکھو۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہشت میں ایمان والے لوگ نہر سلسبیل کے کناروں پر جمع ہو گئے ہیں۔
ان تمام شعروں میں حضرت خضر نے بیابان کے نظر افروز اور ایمان افزا نظارے پیش کر کے شاعر پر اپنی صحرا نوردی کا سبب واضح کیا ہے۔ ساتھ ہی دعوت دی ہے کہ یہی نظارے زندگی کی روح و رواں ہے۔ ان ہی میں وہ حوصلے پرورش پاتے ہیں جو کائنات کی تسخیر کا سامان بن سکتے ہیں۔ شہروں اور آبادیوں کی زندگی میں نظارے نہیں مل سکتے لہٰذا یہ ولولے پیدا نہیں ہو سکتے۔
سب سے آخر میں یہ کہ محبت جنون ہر وقت نئے ویرانے کی تلاش میں رہتا ہے۔ آج یہاں ہے کل وہاں، پرسوں تیسری جگہ اور تو آبادی میں بیٹھا ہوا اپنے کھیتوں اور باغوں کا قیدی بن گیا ہے۔ کسی دوسری جگہ کا خیال بھی تیرے دل میں نہیں آ سکتا۔
اگر حقیقت پر نظر ہو تو واضح ہو جائے کہ زندگی کا پیالہ لگا تار گردش ہی سے زیادہ پختہ ہوتا ہے اوراسے بے خبری زندگی کے ہمیشہ باقی رہنے کا راز یہی ہے۔
زندگی
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی
اپنی دُنیا آپ پیدا کر اگر زِندوں میں ہے
سرِّ آدم ہے، ضمیرِ کن فکاں ہے زندگی
زندگانی کی حقیقت کوہکن کے دل سے پوچھ
جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں ہے زندگی
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحر بے کراں ہے زندگی
آشکارا ہے یہ اپنی قوت تسخیر سے
گرچہ اک مٹی کے پیکر میں نہاں ہے زندگی
قلزم ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
خام ہے جب تک تو ہے مٹی کا ایک انبار تو
پختہ ہو جائے تو ہے شمشیر بے زنہار تو
معنی
کن فکاں: کائنات کوہکن: لفظی معنی: پہاڑ کاٹنے والا۔ مراد ہے فرہاد سے جس کے متعلق مشہور ہے کہ اس نے اپنی محبوبہ کے لیے اس کی فرمائش کی تعمیل میں پہاڑ کاٹ کر نہر نکالی تھی۔ جوئے شیر: لفظی معنی: دودھ کی نہر۔ مشہور ہے کہ فرہاد نے یہ نہر اس غرض سے نکالی تھی کہ شیریں کے محل میں تازہ دودھ پہنچتا رہے۔ لیکن جن لوگوں نے بلند پہاڑوں کی پیشانی سے اُترنے والی ندیوں کا بہاؤ دیکھا ہے، انہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ دور سے یہ ندیاں اتنی سفید نظر آتی ہیں جیسے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں۔ غالباً اسی وجہ سے فرہاد کی ندی کا نام جوئے شیر پڑ گیا۔ اُردو محاورے میں جوئے شیر لانے سے مراد ہے نہایت مشکل اور کٹھن کام انجام دینا۔ شمشیر بے زنہار: بے پناہ تلوار۔
ترجمہ و تشریح
شاعر نے پہلے صحرا نوردی کا سبب پوچھا تھا۔ حضرت خضرؑ نے اس کا جواب تیسرے بند میں دے دیا۔ اس کے بعد میں شاعر کا سوال یہ تھا کہ زندگی کا راز کیا ہے؟ آئندہ دو بندوں میں خضر زندگی کی حقیقت بیان فرماتے ہیں، کہتے ہیں:
شاید تیرے دل میں وسوسہ پیدا ہو کہ زندگی کو ہمیشگی کہاں نصیب ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ مرتے رہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے تعلق میں نفع اور نقصان کا سوال آ ہی نہیں سکتا۔ یہ اس سے بالا ہے اور دیکھ کر کبھی جان کی حفاظت زندگی اور کبھی جان کو خدا کی راہ میں سونپنا اور قربان کر دینا زندگی ہے۔ مراد یہ ہے کہ جان کی حفاظت تو ہر حال سب کے نزدیک زندگی کا نشان ہے ہی، لیکن اس حقیقت کا اندازہ بہت ہی کم لوگ کرتے ہیں کہ کبھی جان دے دینا بھی زندگی کا نشان بن جاتا ہے۔ خصوصاً اس حالت میں کہ بلند مقاصد کی خاطر ایسی قربانی کے سوا انسان کے لیے چارہ نہ رہے۔
اقبال کے شعروں میں بہتر اور خوب تر کی نشان دہی مناسب معلوم نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ تمام اشعار زیادہ سے زیادہ پاکیزہ اور پُر معنی ہیں، لیکن یہ مصرع کہ:
ہے کبھی جہاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
ان کے اشعار میں واقعی اعجاز کی حیثیت رکھتا ہے۔ آٹھ نو لفظوں میں انھوں نے انتہائی حسن بیان سے جو وسیع مضمون ادا کر دیا ہے، کائنات انسانی کو پوری تاریخ حریت و صداقت اس کی شرح و تفسیر ہے۔ حقیقتوں کے بیان میں یہ بلند مقام صرف انہیں ہستیوں کو نصیب ہوتا ہے، جن پر فیضان الٰہی کی خاص بارش ہو۔
انسان زندگی کو عام طور پر دنوں، مہینوں اور برسوں سے ناپتے ہیں۔ حضرت خضرؑ فرماتے ہیں کہ زندگی کی پیمائش کے لیے آج اور کل یعنی دنوں کا پیمانہ استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔ یہ تو ہمیشہ قائم رہنے والی چیز ہے۔ لگاتار دوڑ رہی ہے۔ اور ہر وقت جوان رہتی ہے۔ تو اگر اپنے آپ کو زندوں میں سمجھتا ہے تو اپنی دنیا آپ پیدا کر۔ زندگی کیا ہے؟ کائنات کا ضمیر ہے۔ حضرت آدمؑ کا بھید ہے یعنی کائنات کی پیدائش اور حضرت آدمؑ کا ظہور زندگی ہی کے کرشمے ہیں۔ جو وجود زندگی کی اس حقیقت سے آشنا ہو۔ وہ اپنی دُنیا پیدا کر لے گا۔
تو زندگی کی حقیقت فرہاد کے دل سے پوچھ۔ وہ تجھے بتائے گا کہ زندگی تیشے، بھاری پتھروں اور جوئے شیر لانے ہی کا دوسرا نام ہے۔ مطلب یہ کہ جن لوگوں نے عظیم الشان کارنامے انجام دیے اور دُنیا میں نام پیدا کیا۔ ان کی سرگزشت حیات پر نظر ڈالو گے تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ لگا تار سختیاں اُٹھاتے، مشکلات جھیلتے اور مصیبتیں برداشت کرتے رہے، لیکن ہمت کبھی نہ ہاری۔ اس سلسلے میں فرہاد کی زندگی صرف ایک مثال ہے۔
زندگی غلامی اور محکومی کی حالت میں گھٹتے گھٹتے ایک ایسی ندی رہ جاتی ہے جس میں پانی بہت تھوڑا ہو، لیکن آزادی کی حالت میں یہ ایسا سمندر بن جاتی ہے، جس کے کناروں کا پتا کوئی نہ بتا سکے۔
اگرچہ زندگی مٹی کے ایک جسم میں پوشیدہ ہوتی ہے، لیکن اس کا اظہار تسخیر کی قوت کے ذریعے سے ہوتا ہے یعنی زندگی اسے نہیں کہتے کہ مٹی کا ایک جسم چلتا پھرتا، کھاتا پیتا اور سانس لیتا رہے۔ زندگی کی حقیقی حیثیت معلوم کرنے کا ذریعہ یہ ہے کہ مٹی کے جسم میں تسخیر کی قوت کتنی ہے؟
تسخیر سے مراد کائنات کی تسخیر یعنی اس کائنات میں جو کچھ ہے، اس کے بھید معلوم کرنا اور ان پر قابو پانا۔
تو زندگی کے سمندر میں بلبلے کی طرح اُبھرا ہے۔ یہ دنیا نقصان کا گھر ہے۔ یہاں تیرا امتحان لیا جاتا ہے۔ جب تک تو خام ہے، اس وقت تک مٹی کا ایک ڈھیر بنا رہے گا۔ اگر پختہ ہو جائے گا تو بے پناہ تلوار بن جائے گا۔
مراد یہ ہے کہ انسان مٹی کا ایک پتلا ہے اس کی حیثیت زندگی کے سمندر میں بلبلے سے زیادہ نہیں، لیکن وہ اپنی قوتوں سے کام لے کر پختگی کی اُس منزل پر پہنچ سکتا ہے کہ بے پناہ تلوار بن جائے جس کی کاٹ کو کوئی چیز نہ روک سکے۔ اگر اپنی قوتوں سے زیادہ کام نہ لے تو خام رہ جائے گا اور اس کی حیثیت مٹی کے ڈھیر سے زیادہ نہیں ہو گی۔ امتحان یہی ہے کہ انسان اپنی قوتوں سے کام لے کر پختہ ہوتا ہے یا کام نہ لیتے ہوئے خام رہ جاتا ہے۔
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
زندگی کی قوت پہناں کو کر دے آشکار
تا یہ چنگاری فروغِ جاوداں پیدا کرے
خاکِ مشرق پر چمک جائے مثالِ آفتاب
تا بدخشاں پھر وہی لعل گراں پیدا کرے
سوئے گردوں نالۂ شب گیر کا بھیجے سفیر
رات کے تاروں میں اپنے راز داں پیدا کرے
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!
معنی
بدخشاں: افغانستان کا ایک صوبہ۔ پرانے زمانے سے مشہور چلا آتا ہے کہ یہاں اعلیٰ درجے کے لعل کی بہت بڑی کان تھی اور لعل بدخشاں نے دُنیا بھر میں شہرت حاصل کر لی۔ کہتے ہیں کہ اب بھی وہاں قیمتی پتھروں کی کئی کانیں ہیں۔
ترجمہ و تشریح
جس دل میں سچائی کے لیے مرنے کی تڑپ ہو۔ اسے چاہیے کہ اپنے خاکی جسم میں وہ جان پیدا کرے جو قربان ہو جانے کو اپنا پہلا اور آخری فرض سمجھے۔ مراد یہ ہے کہ سچائی کے لیے قربانی کی منزل سہل نہیں، بڑی کٹھن ہے۔ اس کے لیے کٹ مرنے کی سچی تڑپ اُسی دل میں پیدا ہو سکتی ہے جو قربانی کے ولولوں سے معمور ہو۔ اس نے اپنے لیے جو عارضی زمین اور آسمان پید کر رکھے ہیں اور اپنے تصورات سے ایک عجیب ماحول بنا لیا ہے۔ اُسے جلا کر راکھ بنا دینا چاہیے اور اس راکھ سے اپنی دنیا پیدا کرنی چاہیے۔ مراد یہ ہے کہ صداقت نہیں رکھتیں، جو مسلمانوں نے اپنے دماغوں میں پیدا کر رکھے ہیں۔ مثلاً اُونچے اُونچے عہدے، مال و دولت، عزت و حکومت وغیرہ۔ یہ سب چیزیں بے حقیقت ہیں ان چیزوں کی طرف آنکھیں بند نہ کر لی جائیں اور صداقت کی خدمت کامل بے فرضی سے انجام نہ دی جائے، ہم اپنا فرض کیوں کر ادا کر سکتے ہیں؟
دُنیوی اغراض سے بالکل قطع نظر کرتے ہوئے زندگی کی پوشیدہ قوت آشکارا کرنی چاہیے۔ اسی حالت میں یہ چنگاری ہمیشہ قائم رہنے والی روشنی پیدا کر سکتی ہے۔ یہ مشرق کی سر زمین پرسورج کی طرح چمک سکتی ہے۔ اور وہی چمک بدخشاں میں دوبارہ انمول لعل پیدا کر سکتی ہے۔
آخری شعر کا مطلب تھوڑی سی تفصیل کا محتاج ہے۔ لعل اور یاقوت بننے کے متعلق فارسی اور اُردو ادب میں ایک روایت چلی آتی ہے، جس کی اصل معلوم نہیں۔ روایت یہ ہے کہ بعض اوقات سورج کی کرنیں پہاڑ کے کسی سوراخ میں سے اندر جاتی ہیں تو ان کی حرارت سے پتھر کا ایک حصہ پگھل کر پانی بن جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں زمین کی گردش کے باعث سوراخ کرنوں کے رُخ پر نہیں رہتا۔ اس وجہ سے پگھلا ہوا حصہ ٹھنڈا ہو کر پتھر بن جاتا ہے۔ لیکن ایسا پتھر جس میں کرنوں کی روشنی محفوظ رہتی ہے یہ لعل اور یاقوت ہوتا ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ زندگی کی قوت ایک چنگاری ہے، جس میں ہمیشہ قائم رہنے والی روشنی ہے۔ یہ ایشیا کی سر زمین پر سورج کی طرف چمکنے لگے تو بدخشاں سے پھر نہایت قیمتی لعل و یا قوت پیدا ہونے لگیں۔
زندگی کی چھپی ہوئی قوت آشکارا کرنے والے کو چاہیے کہ رات کو نالہ و فریاد کو آسمان کی طرف اپنا ایلچی بنا کر بھیجے تاکہ رات کے تاروں میں اس کے راز دان پیدا ہو جائیں۔ مطلب یہ کہ اسے لگاتار جد و جہد اور ہر قسم کی قربانیوں پر آمادگی کے علاوہ رات کے وقت بارگاہ تعالیٰ میں خلوص سے دعائیں بھی کرنی چاہئیں۔
یہ قیامت کی گھڑی ہے اور تو قیامت کے میدان میں کھڑا ہے۔ اے غافل! اگر تیرے پاس عمل کا کوئی سرمایہ ہے تو اسے پیش کر۔ مراد یہ ہے کہ قیامت کا سماں نمودار ہے۔ یہاں عمل کی قوت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اور سر توڑ جدہ جہد کے سوا کچھ نہیں آ سکتا۔
سلطنت
آ بتاؤں تجھ کو رمز آیۂ اِنَّ الملوک
سلطنت اقوامِ غالب کی ہے ایک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سلا دیتی ہے اُس کو حکمراں کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں سازِ دلبری
خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰؑ طلسم سامری
سروری زیبا فقط اس ذات بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی، باقی بتان آزری
از غلامی فطرتِ آزاد را رسوا مکن
تا تراشی خواجۂ از برہمن کافر تری
ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طب مغرب میں مزے بیٹھے، اثر خواب آوری
گرمیٕ گفتارِ اعضائے مجالس، الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں! قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
معنی
ان الملوک: اشارہ ہے سورہ شمس کی آیت کی طرف: اِنّ الْمُلوکَ اَذا دَخَلُوا قَریۃً اَفْسَدُوھا و جَعَلُوا اعَزَّۃ اَھْلِہا اَذِلَّۃ وَکَذَلِکَ یَفْعَلُون (بادشاہ جب کسی بستی میں گھستے ہیں تو اسے تباہ کر دیتے ہیں۔ اور وہاں کے سرداروں کو بے عزت کر ڈالتے ہیں۔) اور وہ ایسا ہی کچھ کریں گے، جب حضرت سلیمانؑ کی طرف سے ملکہ سبا کو دعوت نامہ پہنچا اور اس نے اپنے مشیروں سے صلاح کی تو خود کہا کہ جنگ کی صورت پیش آ جانے پر ملک برباد ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل: حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے۔ اسی وجہ سے ان کی اولاد کو قرآن مجید میں بنو اسرائیل کہا گیا ہے۔ یہاں اسرائیل سے اشارہ حضرت موسیٰؑ کی طرف ہے۔ طلسم سامری: سامری سے وہ شخص مراد ہے جس نے حضرت موسیٰؑ کی غیر حاضری میں بنو اسرائیل سے زیور لے کر چاندی سونے کا ایک بچھڑا بنا دیا تھا اور قوم اس کی پوجا میں لگ گئی تھی۔ یہ جادو کا کھیل تھا جسے حضرت موسیٰؑ نے توڑ کر رکھ دیا۔ استبداد: مطلق العنان شخصی حکومت۔ ظلم و جبر۔ پائے کوب: ناچنے والا۔ مجلس آئین: قانون وضع کرنے والی مجلس۔ جنگ زرگری: دکھلاوے اور فریب کاری کی جنگ۔
ترجمہ و تشریح
حضرت خضرؑ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ سلطنت کیا چیز ہے؟ سوال موجودہ زمانے کے طریق حکمرانی کے متعلق تھا۔ حضرت خضرؑ اسی کی حقیقت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آ میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ آیہ ان الملوک کی رمز کیا ہے۔ یعنی جب کوئی قوم دوسری قوم پر غالب آ جاتی ہے تو وہ کیا طور طریقے اور کیا رنگ ڈھنگ اختیار کرتی ہے؟ خوب سمجھ لے کہ غلبہ حاصل کرنے والی قوموں کی حکمرانی محض ایک جادو گری ہے۔ وہ کس طرح؟ یوں کی جب محکوم لوگوں کی آنکھیں کھلتی ہیں تو اور ان میں بیداری پیدا ہوتی ہے تو حکمران جادو کے زور سے انھیں سلا دیتا ہے۔ حکمران کے جادو کی تاثیر کا یہ عالم ہوتا ہے کہ غلام کی آنکھ غلامی کے طوق کو اپنی محبوبیت اور آرائش کا سامان سمجھنے لگتی ہے۔ حکمران کا جادو کیا ہوتا ہے؟ یہ کہ کبھی کوئی رعایت دے دی۔ کسی کو بڑا عہدہ عطا کر دیا یا قانون ساز مجلس بنا دی، حق انتخاب دے دیا۔
اس شعر میں محمود سے مراد حکمران اور ایاز سے مراد محکوم اور غلام ہیں۔
آخر کبھی نہ کبھی محکوم کا خون جوش میں آ جاتا ہے اور کوئی موسیٰؑ جیسا رہنما اُٹھ کر حاکم کے سامری طلسم کو توڑ ڈالتا ہے۔ حقیقی شہنشاہی صرف خدا کی بے مثال ذات پاک کے لیے زیبا ہے۔ اصل حکمران وہی ہے، باقی سب آزر کے تراشے ہوئے بت ہیں۔ تو اپنی آزادی فطرت کو غلامی میں پھنسا کر ذلیل نہ کر۔ اگر تو کسی کو آقا بنائے گا اور یہ بت تراشے گا تو سمجھ لے کہ تو برہمن سے بھی برا کافر ہو گا۔
یورپ جس جمہوری نظام کو لیے پھرتا ہے یہ کوئی نیا ساز نہیں، وہی پرانا ساز ہے جس کی پردوں سے پہلے شہنشاہی کے ترانے نکلتے رہے اور اب بھی وہی ترانے نکل رہے ہیں۔
جمہوریت کے لباس میں شہنشاہی اور مطلق العنانی کا جن ناچ رہا ہے تو سمجھتا ہے کہ یہ آزادی کی نیلم پری ہے۔ مطلب یہ کہ یورپ والوں نے محکوم ملکوں اور جو نمائندہ ادارے قائم کیے تھے وہ حقیقت میں آزادی کی دستاویز نہ تھے۔ بلکہ انھوں نے اپنی مطلق العنانی کو ایسا لباس پہنا دیا تھا، جسے جمہوری کہا جا سکے۔ محکوموں نے اسے آزادی سمجھ کر خوشی خوشی قبول کر لیا اور وہ حقیقی آزادی کے لیے کوششیں چھوڑ بیٹھے۔
ان شعروں میں ان اصلاحات کی طرف بطور خاص اشارہ ہے، جو ہمارے ملک کو 1921ء میں ملی تھیں اور جنھیں مانٹیگو چیمسفورڈ اصلاحات کا مقاطعہ (بائیکاٹ) کیا۔ یہ 1937ء میں ختم ہوئیں اور ان کی جگہ نظام جاری ہوا جسے صوبائی خود مختاری کا نظام کہتے ہیں۔
حاکموں نے کئی اصلاحات پیدا کر لیں مثلاً: قانون ساز مجلسیں بنا دیں۔ بعض ایسی چیزیں جاری کر دیں جنھیں اصلاحات یا رعایات یا حقوق کا نام دیا۔ جیسے نظام حکومت میں اصلاح، چھوٹی قوموں کے لیے خاص رعایتیں، خاص طبقوں کے لیے مخصوص حقوق، خاص عہدوں کو اہل ملک کے لیے عام کر دینا۔ اقبال فرماتے ہیں کہ پورہ یورپی طب کی یہ تمام دوائیں ذائقے میں بہت میٹھی ہیں۔ یہ ایسی گولیاں ہیں جن پر شکر کی تہہ چڑھی ہوتی ہے۔ لیکن ان کا اثر یہ ہوتا ہے کہ کھانے والوں پر غفلت کی نیند طاری ہو جائے۔ وہ اپنے اصل حقوق کو بھول جائیں اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہیں۔
پھر قانون ساز مجلسوں کا نقشہ دیکھو، ممبر بڑھ بڑھ کر ایسی پُر زور تقریریں کرتے ہیں کہ الامان و الحفیظ لیکن حقیقت کیا ہے؟ یہ کہ سرمایہ داروں نے عوام کو فریب دینے کے لیے یہ طریقے اختیار کر لیے ہیں۔
یہ رنگ و بو کا ایک سراب ہے۔ ایک دھوکا اور طلسم ہے جسے تو نے باغ سمجھ لیا۔ اے غافل! یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ تو نے قفس کو اپنا آشیاں قرار دے لیا۔ یعنی جس پھندے نے تیرے ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھ دیے اسی کو تو اپنا نشیمن سمجھ بیٹھا۔
سرمایہ و محنت
بندۂ مزدور کو جا کر میرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
ساحرِ المُوط نے تجھ کو دیا برگ حشیش
اور تو اے بے خبر سمجھا اسے شاخِ نبات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چن چن کے بنائے مسکرات
کٹ مَرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے
سُکر کی لذت میں تو لُٹوا گیا نقد حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اُٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دَور کا آغاز ہے
معنی
ساحر الموط: الموط ایک قلعہ کا نام ہے جو قزوین کے پہاڑی علاقے میں ایک دشوار گزار مقام پر واقع تھا۔ ساحر الموط سے مراد فرقہ باطنیہ کا رئیس حسن بن صباح ہے۔ یہ اسمعیلی فرقہ کا داعی تھا۔ پھر اس نے ایک محفوظ مقام حاصل کر کے فدائیوں کی ایک عجیب و غریب جماعت پیدا کی جو مدت دراز تک اسلامی حکمرانوں اور بلند مرتبہ آدمیوں کے لیے دہشت کا سامان بنی رہی۔ مشہور ہے کہ حسن بن صباح نے الموت میں ایک جنت بنائی تھی جس میں نہایت خوبصورت عورتیں رکھیں۔ جو لوگ اس کے مرید بنتے تھے، انہیں بھنگ پلا کر مد ہوش کر لیا جاتا اور اس جنت میں پہنچا دیا جاتا۔ چند روز وہاں رہنے کے بعد پھر باہر لے آتے اور کہتے کہ باطنی مقاصد کے لیے جان دینے پر آمادہ ہو جاؤ تو پھر اس جنت میں پہنچ جاؤ گے۔ ہلاکو خاں تاتاری نے اس قلعے کو فتح کر کے صباحی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ برگ حشیش: بھنگ کی پتی۔ شاخ نبات: مصری کوزے تیلیاں۔ خواجگی: آقائی۔ سرمایہ داری۔ مسکرات: نشہ لانے والی چیزیں۔ سکر: نشہ۔
ترجمہ و تشریح
شاعر نے ایک سوال سرمائے اور محنت کی کشمکش کے متعلق کیا تھا۔ حضرت خضرؑ اس کے جواب میں فرماتے ہیں: تو مزدور کو میرا پیغام سنا دے۔ یہ خضر کا پیغام نہیں بلکہ وہ آواز ہے جو کائنات کے دل سے اُٹھی ہے۔ پیغام یہ ہے کہ اے مزدور! تجھے سرمایہ دار کھا گیا۔ صدیاں گزر گئیں اور تیری برات شاخ آہو پر رہی یعنی تیرا حق تجھے نہ ملا۔
’’برات عاشقاں بر شاخ آہو‘‘ فارسی کی ضرب المثل ہے۔ لفظی معنی: عاشقوں کا حصہ ہرن کے سینگ پر۔ محاورے میں مراد یہ ہے کہ عاشقوں کا حصہ ایسی شاخ سے وابستہ ہو جائے جو پھل نہیں لاتی یعنی مراد حاصل نہ ہونا۔ ناکام رہنا۔
دولت مزدور کی محنت سے پیدا ہوتی ہے، لیکن مزدور کے دولت پیدا کرنے والے ہاتھ پر کام کی اُجرت اس انداز میں رکھی جاتی ہے جیسے دولت مند آدمی غریبوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں۔ مراد یہ کہ عام طور پر زکوٰۃ کو غریبوں کا حق نہیں سمجھا جاتا بلکہ دولت مند اسے اپنی خیر و بخشش کا کرشمہ سمجھتے ہیں۔ بالکل یہ حالت سرمایہ داروں کی رہی کہ مزدور کی محنت سے دولت پیدا ہوتی تھی، لیکن سرمایہ دار ساری دولت خود سمیٹ لیتے اور تھوڑی سی رقم مزدور کو دے دیتے ہیں وہ بھی اس رنگ میں نہیں کہ اس کا حق ہے، محض یہ سمجھتے ہوئے کہ اس پر احسان کر رہے ہیں۔
مبادا کسی کو غلط فہمی ہو۔ زکوٰۃ ان لوگوں کا حق ہے جن کا ذکر قرآن میں آ چکا ہے جن لوگوں پر زکوٰۃ واجب ہے وہ اپنی طرف سے کچھ نہیں دیتے۔ غریبوں کا حق ان کے حوالے کرتے ہیں۔ جو زکوٰۃ نہیں دیتے وہ دوسروں کا حق ہضم کر جانے کے مجرم ہیں۔
کوہ الموط کے جادو گرنے تجھے بھنگ کی پتی پلا دی۔ اے بے خبر! تو نے اسے کوزے کی مصری سمجھ لیا۔ سرمایہ دار آقاؤں نے مزدوروں کو مد ہوش رکھنے کے لیے عجیب عجیب چیزیں بنائیں۔ مثلاً نسل اور قومیت کا امتیاز، ذات پات کی تقسیم، کالے گورے کی تفریق، مذہبی نظام جس کی وجہ سے یورپ میں پادری اور ہندوستان میں برہمن صدیوں تک عوام پر مسلط رہے۔ پھر بادشاہوں نے بڑی بڑی سلطنتیں بنا لیں۔ یورپ والے نئی تہذیب لے کر آ گئے۔ یہ تمام ہتھکنڈے جمہور کو اپنے پھندے میں پھانسنے کے حیلے تھے۔ آہ اے نادان۔ تو ان خیالی دیوتاؤں کے لیے لڑ لڑ کر جان قربان کرتا رہا اور ان ہی کے نشے میں مد ہوش ہو کر زندگی کی بازی ہار بیٹھا۔
سرمایہ دار مکر کی چال چل چل کر بازی لے گیا اور مزدور اپنی سادگی و سادہ لوحی کی بنا پر مات کھا گیا۔
ماضی کی سرگزشت یہی ہے لیکن اے مزدور اب تجھے خواب غفلت سے بیدار ہونا چاہیے۔ اب دُنیا کی محفل نے اور ہی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ سرمایہ داروں کے ہتھکنڈوں کا زمانہ گزر گیا۔ اب مشرق و مغرب میں تیرا دور شروع ہوتا ہے۔
ہمت عالی تو دریا بھی نہیں کرتی قبول
غنچہ ساں غافل ترے دامن میں شبنم کب تلک
نغمۂ بیداریِ جمہور ہے سامانِ عیش
قصۂ خواب آورِ اسکندر و جم کب تلک
آفتابِ تازہ پیدا بطن گیتی سے ہُوا
آسماں! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
توڑ ڈالیں فطرت انسان نے زنجیریں تمام
دوریِ جنت سے روتی چشم آدم کب تلک
باغبانِ چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار
زخم گل کے واسطے تدبیر مرہم کب تلک؟
کرمک ناداں طواف شمع سے آزاد ہو
اپنی فطرت کے تجلی زار میں آباد ہو
ترجمہ و تشریح
ہمت بلند ہو تو وہ کسی کے دیے ہوئے دریا بھی قبول نہیں کر سکتی۔ اے بے سمجھ! تو کلی کی طرح اپنے دامن میں شبنم کے چند قطروں پر کب تک قیامت کیے بیٹھا رہے گا؟
جمہور کی بیداری کے ترانے قلب و روح کے لیے عیش کا سامان ہیں۔ سکندر اور جمشید جیسے بادشاہوں کے وہ قصے کب تک سنتے رہیں جن کے چھڑتے ہی آنکھوں پر نیند طاری ہو جاتی ہے۔ زمانے کے بطن سے نیا سورج طلوع ہو گیا۔ اے آسمان! ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تک کیا جائے؟ انسانی فطرت کے لیے جتنی زنجیریں تیار کی گئی تھیں، وہ سب ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالی گئیں۔ آخر آدم کی آنکھ کب تک جنت کی جدائی میں آنسو بہاتی رہتی؟
باغبان کی سعی و کوشش یہ تھی کہ پھول کے زخم کے لیے مرہم کا بندوبست کر لے، لیکن بہار نے آ کر یہ پیغام دے دیا کہ ان بے حقیقت تدبیروں سے کیا حاصل ہو گا؟ میں خود ہر زخم کا علاج کرنے کے لیے تیار ہوں۔
ان تمام اشعار میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ پرانا دَور ختم ہو چکا۔ سرمایہ داری اور ملوکیت کے لیے اب کوئی گنجائش نہیں۔ جمہور غفلت سے بیدار ہو گئے۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے انسانی فطرت کو آزادی کا جو پیغام دیا تھا، اس کی برکتیں ظاہر ہونے لگیں۔ غرض پرستوں نے اس فطرت کے لیے مختلف ناموں سے جتنی زنجیریں تیار کی تھیں، وہ ٹوٹ گئیں۔ اب کاروبار عالم کی باگ ڈور جمہور کے ہاتھ میں ہو گی۔ اب پھول اپنے زخم کے علاج کے لیے باغبان کے پاس نہ جائے گا، بلکہ بہار سب زخموں کا علاج کرے گی۔ سورج نکل آیا، پرانے ستارے ڈوب گئے۔ اے نادان مزدور! تو بھی سرمایہ داری کی شمع کے گرد چکر لگا نا چھوڑ دے اور خدا نے تیری فطرت میں جو جلوے رکھے ہیں ان سے فائدہ اُٹھا۔
دُنایئے اِسلام
کیا سناتا ہے مجھے ترک و عرب کی داستان
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز و ساز
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیلؑ
خشت بنیاد کلیسا بن گئی خاکِ حجاز
ہو گئی رسوا زمانے میں کُلاہِ لالہ رنگ
جو سراپا ناز تھے، ہیں آج مجبور نیاز
لے رہا ہے مے فروشانِ فرنگستاں سے پارس
وہ مئے سرکش، حرارت جس کی ہے مینا گداز
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز
ہو گیا مانند آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیرا دل نہیں دانائے راز
گفت رومی ’’ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند‘‘
می ندانی ’’اوّل آں بنیاد را ویراں کنند‘‘
معنی
تثلیث: تین خدا۔ عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ باپ، بیٹا، اور روح القدس تینوں مل کر خدا بنتے ہیں اور تینوں مظہر الوہیت ہیں۔ تثلیث کے فرزندوں سے مراد ہے عیسائی۔ میراث خلیل: حضرت ابراہیمؑ کی میراث یعنی اسلامی ورثہ یعنی توحید۔ کلاہ لالہ رنگ: اشارہ ہے سرخ ٹوپی کی طرف جو ایران کے قزلباشوں کی خاص کلاہ تھی۔ پارس: فارس۔ ایران۔ گاز: سونا کاٹنے والی قینچی۔
ترجمہ و تشریح
شاعر نے حضرت خضرؑ سے سے آخری سوال یہ کیا تھا کہ ایشیا کی آبرو مٹ رہی ہے۔ یورپ کی قومیں جنھیں نئی نئی دولت اور سلطنت ملی ہے، ہر مقام پر کامیاب ہو رہی ہیں۔ ہاشمی خاندان کا ایک فرد دین کی عزت بیچ رہا ہے۔ ترک اس عزت کی حفاظت کے لیے خاک کو خون میں مل رہا ہے۔ بتائیے یہ کیا اور کیوں ہو رہا ہے؟ حضرت خضرؑ فرماتے ہیں:
تو مجھے ترکوں اور عربوں کی کہانی کیا سناتا ہے؟ کیا میری نگاہوں سے مسلمانوں کی کیفیت چھپی ہوئی ہے؟ میں جانتا ہوں کہ عیسائی قومیں اسلامی میراث چھین لے گئیں اور حجاز کی خاک پاک سے کلیسا کی بنیاد کے لیے اینٹیں بنے لگیں۔
اس شعر میں اقبال یہ بتانا چاہتا ہے کہ مسلمانوں نے مشرق و مغرب میں جو عظیم الشان سلطنتیں قائم کی تھیں۔ وہ ایک ایک کر کے عیسائی حکمرانوں کے قبضے میں چلی گئیں۔ مثلاً: اندلس، سراکش، الجزائر تیونیشیا، طرابلس، مصر، شام، فلسطین اور عراق وغیرہ۔ حجاز اجنبی اثرات سے محفوظ تھا۔ شریف حسین نے اسے بھی محفوظ نہ رہنے دیا۔ قزلباشوں کی سرخ ٹوپی زمانے بھر میں ذلیل ہو گئی۔ جن کے روبرو پہلے لوگوں کی گرد نیں جھکتی تھیں۔ اب وہ خود مجبوری کی حالت میں دوسرے کے سامنے جھک رہے ہیں۔ ایران یورپ کے شراب فروشوں سے وہ تیز تند شراب لے رہا ہے۔ جس کی حرارت صراحی کو پگھلا دے سکتی ہے۔
یہ دونوں شعر ایران کے متعلق ہیں، جسے برطانیہ اور روس نے آپس میں تقسیم کر لیا تھا اور وہاں یورپی تہذیب و تمدن بہ صد ذوق و شوق اختیار کیا جا رہا تھا۔
یورپ کی پُر فریب چالوں سے ملت اسلامیہ کا وہی حال ہو گیا جس طرح قینچی سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی ہے۔
اس شعر میں یورپ کی پُر فریب چالوں سے مراد وطنیت ہے جو یورپی قوموں کی تقلید میں مسلمانوں نے بھی اختیار کر لی تھی۔ یعنی ہر قوم نسل اور جغرافیے کی بنا پر الگ قوم ہونے اور آزادی کرنے کی دعوے دار بن گئی۔ مذہبی رشتے پس ڈال دیے گئے۔ چالیس کروڑ مسلمان جو وحدت کی حالت میں ساری دُنیا پر بھاری تھے وہ متعدد قوموں اور حکومتوں میں بٹ گئے۔ تفرقے کے علاوہ ان میں سے بعض باہم لڑتے بھی رہے یوں اسلامی قوت مجروح ہو کر رہ گئی۔
مسلمان کا لہو پانی کی طرح ارزاں ہو گیا۔ تو اس وجہ سے بے چین ہے کہ تیرا دل اصل راز سے آگاہ نہیں تو نے مولانا رومؒ کا یہ قول نہیں سنا؟ کہ جس پرانے مقام کو نئے سرے سے آباد کرنا چاہتے ہیں، کیا تو نہیں جانتا کہ سب سے پہلے اس کی بنیاد اُکھاڑتے ہیں؟
مولانا روم کا اصل شعر یہ ہے:
ہر بنائے کہنہ کآباداں کنند
اول آں بنیاد را ویراں کنند
اقبال نے اس شعر کو نظم کی اختیار کردہ بحر میں لانے کے لیے پہلے اور دوسرے مصرع میں ’’گفت رومی‘‘ اور ’’می ندانی‘‘ کا اضافہ کر دیا۔
’’ملک ہاتھوں سے گیا ملت کی آنکھیں کھل گئیں‘‘
حق ترا چشمے عطا کردست غافل در نگر
مومیائی کی گدائی سے تو بہتر ہے شکست
مورِ بے پر! حاجتے پیش سلیمانے مبر
ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
پھر سیاست چھوڑ کر داخل حصارِ دیں میں ہو
ملک و دولت ہے فقط حفظ حرم کا اک ثمر
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خر گاہی ہو یا اعرابیِ والا گہر
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اُڑ گیا دنیا سے تو مانند خاکِ رہ گزر
تا خلافت کی بِنا دُنیا میں ہو پھر اُستوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابو بکرؓ و علیؓ ہشیار باش
معنی
ترک خر گاہی: شاہی خیموں والا ترک۔ اعرابی ولا گہر: عالی خاندان عرب۔
ترجمہ و تشریح
ملک چھن گیا اور ملت غفلت کی نیند سے جاگ اُٹھی۔ اے بے خبر! خدا نے تجھے آنکھ عطا کر رکھی ہے، خوب غور سے دیکھ۔
اس شعر کا پہلا مصرع ’’شمع اور شاعر‘‘ کے ایک شعر سے لیا گیا ہے، جسے اقبال نے نظر ثانی کے وقت قلم زد کر دیا تھا۔ شعر یہ تھا
ملک ہاتھوں سے گیا مفت کی آنکھیں کھل گئیں
سرمۂ چشم دشت میں گرد رم آہو ہوا
بھیک مانگ کر مومیائی حاصل کرنے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ انسان اپنے جوڑوں کا شکستہ رہنا گوارا کر لے۔ اگرچہ تو بے پر چیونٹی ہے لیکن خود داری کا تقاضا یہ ہے کہ کسی سلیمان کے روبرو بھی اپنی غرض نہ لے جائے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان جس مصیبت میں مبتلا ہو چکے ہیں اس سے نجات پانے کی کیا صورت ہو؟ اقبال خضر علیہ السلام کی زبان سے فرماتے ہیں کہ مشرق کی نجات ملت اسلامیہ کے باہم ربط و ضبط اور اتحاد پر موقوف ہے۔ افسوس کہ ایشیا والوں نے ابھی تک یہ نکتہ سمجھا۔ یہ بھید نہیں پایا۔
اے مسلمان! تو سیاست کو ترک کر دے اور دین کے قلعے میں داخل ہو جا۔ یعنی مسلمان کا نصب العین سیاست نہیں دین ہے۔ اسے ہر وقت دین ہی کے لیے اور دین ہی کی ہدایات کے مطابق سرگرم عمل رہنا چاہیے۔ اسے اگر پہلے سلطنت اور دولت عطا ہوئی تھی تو یہ صرف کعبے کی حفاظت کا ثمرہ تھی۔ اب بھی ملک و دولت اسی حفاظت کی برکت سے نصیب ہوں گی۔ افسوس مسلمان دین کی حفاظت سے غافل ہو گیا اور سیاست کو اس نے اپنا نصب العین بنا لیا۔ جب اس نے دین کو ترک کر دیا یا اس سے غفلت اختیار کر لی تو نہ اس کے پاس ملک رہا نہ دولت۔
مسلمانوں کے لیے کعبہ کی نگہبانی اور حفاظت سب سے بڑا فرض ہے۔ اس فرض کی بجا آوری کے لیے دریائے نیل کے کنارے سے کاشغر تک سب مسلمانوں کو متحد ہو جانا چاہیے۔
مشرق میں کاشغر اور مغرب میں نیل سے مراد یہ نہیں کہ دوسرے مسلمانوں پر یہ فرض عائد نہیں ہوتا شاعر نے شرق و غرب کے دو مشہور مقامات کا ذکر کر دیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ دُنیا میں جتنے مسلمان آباد ہیں اُن سب کو اس نصب العین کے لیے جمع ہو جانا چاہیے۔
ان میں جو قوم جماعت یا فرد رنگ اور نسل کے امتیازات میں اُلجھا رہے گا، وہ مٹ جائے گا، خواہ وہ شاہی خیموں میں رہنے والا ترک ہو یا اُونچے گھرانے کا عرب۔ اگر مسلمان نے نسل کو مذہب پر ترجیح دی تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ راستے کے غبار کی طرح اِس دنیا سے ہوا ہو جائے گا۔
اُٹھ اور اپنے بزرگوں کا سا دل و جگر کہیں سے ڈھونڈ۔ اس کے بغیر دنیا میں اسلامی خلافت کی بنیاد استوار نہیں ہو سکتی۔
تیری حالت کیا ہے؟ تُو تو پوشیدہ اور ظاہر خفی اور جلی، اُصولی اور جزوی باتوں میں فرق نہیں کر سکتا اور نہیں سمجھتا کہ بنیادی چیزیں کون سی ہیں اور غیر بنیادی کون سی۔ تُو تو حضرت ابو بکرؓ اور حضرت علیؓ کے متعلق جھگڑوں میں گرفتار ہے۔ کیا تو ہوش نہ سنبھالے گا؟
آخری شعر میں اقبال نے مسلمانوں کی فرقہ بندیوں اور باہمی کشمکشوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ فرقہ بندی صرف خلافت کے باب میں اختلافات ہی تک محدود نہیں بلکہ اس کی سینکڑوں شاخیں ہیں۔ پھر ایک ایک فرقہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر کئی کئی طبقوں میں بنا ہوا ہے۔ جو قومیں متحد و جد و جہد سے اُونچے درجے پر پہنچتی ہیں، ان کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔
عشق کو فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ
تو نے دیکھا سطوتِ رفتار دریا کا عروج
موجِ مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں آج تو اُس خواب کی تعبیر دیکھ
اپنی خاکستر سمندر کو ہے سامانِ وجود
مر کے پھر ہوتا ہے پیدا یہ جہانِ پیر، دیکھ
کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دَور کی دھُندلی سی ایک تصویر دیکھ
آزمودہ فتنہ ہے اک اور بھی گردُوں کے پاس
سامنے تقدیر کے رُسوائیِ تدبیر دیکھ
مسلم استی سینہ را از آرزو آباد دار
ہر زماں پیش نظر ’لا یخلف المیعاد‘ دار
معنی
لا یخلف المیعاد: اشارہ ہے سورہ آل عمران کی آیت کی اس ٹکڑے کی طرف: ان اللّہ لا یخلف المیعاد (یقیناً اللہ کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہو سکتا۔)
ترجمہ و تشریح
آخری بند میں اقبال نے حضرت خضرؑ کی زبان سے ملت اسلامیہ کا پیغام دیا ہے اور کامیابی کی خوشخبری سنائی ہے۔
عشق کا فرض یہ تھا کہ جو مصیبتیں آ چکی تھیں، ان پر خدا کی بارگاہ میں نالہ و فریاد کرتا۔ یہ کام انجام پا چکا۔ اب ذرا دل تھام کر بیٹھ اور اس فریاد کی تاثیر دیکھ۔
تو رفتارِ دریا کی شان و شوکت کا عروج دیکھ چکا ہے اب ذرا یہ بھی دیکھ کہ بے قرار موج کس طرح اس کے پاؤں میں زنجیر بنتی ہے؟
جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں، اس شعر میں ’’شمع اور شاعر‘‘ کی مشہور پیش گوئی کی طرف اشارہ ہے:
دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اے زنجیر پا ہو جائے گی
اقبال کی مراد یہ تھی کہ یورپی قومیں طاقت و قوت کی ایسی منزل پر پہنچی ہوئی ہیں، جسے دیکھتے ہوئے کسی کو خیال نہیں آ سکتا کہ ان پر زوال طاری ہو گا، لیکن وہ اپنی دولت اور قوت ایجاد کی بنا پر ہلاکت سے جو سامان تیار کر رہی ہیں، وہی انہیں تباہ کر کے رکھ دیں گے۔ یہ پیش گوئی جنگ یورپ سے دو سال پیشتر کی گئی تھی اور جنگ یورپ نے اس کے پورا ہونے کا ابتدائی سامان فراہم کیا۔ لہٰذا اقبال نے ’خضر راہ‘ میں کہا کہ تو دریا کہ جوش و خروش کا عروج دیکھ چکا۔ اب دیکھ کہ اس کے اندر سے تباہ کار قوتیں کیونکر اُبھرتی ہیں۔ ان قوتوں کا مظاہرہ اقبال کی وفات سے تھوڑا عرصہ بعد دوسری جنگ یورپ میں شروع ہوا، جس نے یورپ کی تہذیب کو ادھ موا کر دیا۔ اس کی دولت کے خزانے ختم ہو گئے۔ اب تیسری جنگ کے خطرے سے یورپ اور امریکہ پر رعشہ طاری ہے اہل بصیرت کا خیال ہے کہ یہ جنگ ہوئی تو یورپی تہذیب صفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرف مٹ جائے گی۔
اسلام نے عوام کی آزادی کا جو خواب چودہ سو سال پیشتر دیکھا تھا۔ اے مسلمان! دیکھ آج اس خواب کی تعبیر تیری آنکھوں کے سامنے ہے۔ بیداری کا پیغام برگ و بار لا رہا ہے، جو حجاز کی پاک سر زمین میں دیا گیا تھا۔
سمندر کو دیکھ، وہ جل کر راکھ بنتا ہے۔ وہی راکھ اس کے لیے زندگی کا سامان بن جاتی ہے۔ اسی طرح یہ بوڑھی دُنیا بھی مر کر دوبارہ زندہ ہو رہی ہے۔
تو آنکھیں کھول اور میرے کلام کے آئینے میں آنے والے زمانے کی دھندلی سی تصویر دیکھ لے۔
میں تجھے خبردار کرتا ہوں کہ آسمان کے پاس ایک اور آزمایا ہوا فتنہ موجود ہے۔ وہ فتنہ لازماً بپا ہو گا۔ اس کا آنا مقدر ہو چکا ہے۔ روک تھام کی ہر تدبیر اس کے مقابلے میں ناکام رہے گی۔
اس فتنے سے مراد غالباً دوسری جنگ یورپ تھی یا ممکن ہے کوئی اور جنگ ہو جو ابھی آنے والی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ وہ فتنہ رُک نہیں سکتا۔ تقدیر کے سامنے تدبیر نہیں چل سکتی۔ اپنی حیات مستعار کے آخری دَور میں انھیں زیادہ تر یہی خیال رہتا تھا کہ جنگ شروع ہوئی یا نہیں۔ انھیں جنگ کا پختہ یقین تھا۔
تو مسلمان ہے اپنے سینے کو آرزو سے آباد رکھ اور ہر وقت یہ آیت پیش نظر رکھ کہ اللہ کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہو سکتا۔
خلاصہ مطالب
اب نظم کے مطالب کا خلاصہ ترتیب وار ملاحظہ فرما لیجیے۔
1۔ اس کے پہلے بندوں میں شاعر نے ساحل دریا کے منظر کی تصویر کھنچتے ہوئے حضرت خضرؑ کو دیکھا اور ان سے صحرا نوردی، زندگی، سلطنت، سرمایہ و محنت اور دنیائے اسلام کے متعلق سوالات کیے۔
2۔ تیسرے بند میں حضرت خضرؑ نے صحرا نوردی کے مقاصد بیان کیے۔ اقبال کے نزدیک صحرائی زندگی قوم کی آسانی، اخلاقی، دماغی اور دینی تربیت کا بہترین ذریعہ ہے۔
3۔ چوتھے اور پانچویں بند میں حضرت خضرؑ نے زندگی کی حقیقت بیان فرمائی اور یہ بتایا کہ صداقت کے لیے مرنے کی تڑپ زندگی کا سب سے بلند مقام ہے۔
4۔ چھٹے بند میں حضرت خضرؑ نے سلطنت کے متعلق سوال کا جواب دیا اور اس سلسلے میں دُنیا دار حکمرانوں کے طریق حکمرانی پر نہایت عمدہ روشنی ڈالی۔
5۔ ساتویں اور آٹھویں بند میں سرمایہ اور محنت پر بحث فرمائی اور اس سلسلے میں مزدوروں کو یہ بھی بتا دیا کہ پرانا دَور ختم ہو چکا۔ اب جمہور کا دَور آ گیا ہے۔
6۔ نویں اور دسویں بند میں یہ بتایا کہ دنیائے اسلام کی حالت کیا ہے۔ یورپ کی چالوں نے کس طرح ملت کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ مسلمان کا نصب العین سلطنت نہیں، دین ہے۔ دین کی حفاظت کے لیے تمام مسلمانوں کو متحد ہو جانا چاہیے اور نسل و رنگ یا فرقہ بندی کا کوئی امتیاز باقی نہ رہنا چاہیے۔
7۔ آخری بند میں یہ بتایا گیا ہے کہ یورپ کی برتری قائم نہیں رہ سکتی۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کی عہد پراعتماد رکھنا چاہیے اور فرض انجام دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے، جو اسلام نے اس کے ذمے لگایا۔
٭٭