آسامی کہانی کا اردو روپ جو سہ ماہی "سمت” ، شمارہ 53 ، جنوری تا مارچ 2022ء میں شامل کیا گیا
اسمعیل شیخ کی تلاش میں
سمت کا شمارہ یہاں ہے
اصل کہانی : ہومین برگاہوتری، ترجمہ : اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
اقتباس
میں شاید زمان و مکاں سب کچھ بھول کر شہر کے مصروف ترین راج پتھ کے بیچوں بیچ کھڑا آس پاس کے لوگوں کو اچرج میں ڈال کر جسم کی پوری قوت کے ساتھ پکار اٹھا تھا — ’اسمعیل!‘
پکار ختم ہوئی نہیں کہ میں نے دوڑنا شروع کر دیا تھا۔
زندگی میں کی گئی ایک عام سی غلطی کا بھی شاید کوئی کفّارہ نہیں ہے۔ اسمعیل کو اگر میں نام لے کر نہ پکارتا تو اس آدمی سے میری ملاقات ہو پاتی!۔ جس آدمی کی تلاش میں لگاتار پانچ سالوں سے کرتا آ رہا ہوں۔ لیکن میری آواز سنتے ہی اسمعیل تماش بین آدمی کی طرح اچانک غائب ہو گیا۔ میں نے مورکھوں کی طرح ایک بھیانک غلطی اور کر لی۔
لیکن اسمعیل کو مجھے کھوج کر نکالنا ہی ہے۔ ایک بار جو اسے دیکھ لیا ہے، اب وہ مجھ سے بچ کر بھاگ نہیں سکتا۔ کچھ دوری سے میں نے دیکھ لیا تھا کہ میری آواز سن کر پل بھر وہ شک و شبہ سے میری طرف دیکھ کر راستے کی سکری گلی میں غائب ہو گیا۔ میں بھاگ کر اس گلی کے منھ تک پہنچ گیا تھا۔
گلی کے سامنے کی پان کی دکان پر کھڑے ہو کر دو جوان سگریٹ پھونک رہے تھے۔ مجھے اس کشمکش کی حالت میں دیکھ کر وہ آپس میں ہی کچھ بتیاتے رہے۔ ان کا اس طرح کا پر اسرار سلوک دیکھ کر میرے من میں انجانا سا ڈر سما گیا۔ اپنی زبان سے انجان لوگوں کے سامنے اکیلے مسافر کو لگنے والا ڈر جیسا۔ ان کی طرف ایک بار نظر دوڑا کر میں جلدی ہی گلی میں گھس گیا۔ ساتھ ساتھ میرے پیٹھ پیچھے ایک عجیب سی ہنسی کا جیسے فوارہ پھوٹ پڑا۔
کچھ قدم بڈھا کر میں ذرا سہم کر ٹھٹک گیا۔ اس وقت دوپہر کے تین بج رہے تھے، مگر اس گلی کو اندھیرے نے گھیر رکھا تھا۔ میں چاروں اور نظر دوڑا کر ماحول کا جائزہ لے رہا تھا۔گلی کے دونوں سروں پر دو بڑی بڑی عمارتیں کھڑی تھیں۔ عمارت جہاں ختم ہوئی، وہیں پر راستے کو روکے ایک لکڑی کی دیوار تھی۔ دیوار پر دروازے کی طرح آنے جانے کا تنگ سا راستہ بنا ہوا ہے۔ اس سے صرف ایک ہی آدمی آ جا سکتا ہے۔ دیکھنے پر ہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ عام راستہ نہیں ہے۔ اندر کے کسی ایک گھر میں داخلے کے لیے وہ راستہ بنا ہوا ہے۔ اسمعیل اس طرف کہاں جا سکتا ہے، یہ سوچ کر میں حیران ہو گیا۔ اس کا مجھے پیچھا کرنا ہی ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ اس اندھیری گلی میں جانے کے لیے مجھے ڈر سا لگ رہا تھا۔ میں کچھ دیر اس حالت میں کھڑا رہا۔ اچانک اس لکڑی کی دیوار کے اندر سے کسی عورت کی کھلکھلاہٹ سنائی دی۔ کھلکھلاہٹ بھی ایک زبان ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ تھوڑا عجیب میل ہے۔ کچھ لمحوں تک میرا ذہن لسانیات کی تحقیق میں مگن رہا۔ راز کا پردا جیسے دھیرے دھیرے اٹھ رہا تھا۔ میں دیوار پھاند کر بھیتر کی گلی میں داخل ہوا۔
’’ارے کتے کا بچہ!‘‘
اچانک بھیتر گھس کر کسی سے ٹکرانے کی صورت حال کا جائزہ لینے کے پہلے ہی سننے کو ملا یہ میٹھا میٹھا تخاطب! ساتھ ہی ناک میں شراب کی بو آئی۔ میں سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔ اس آدمی پر نظر پڑتے ہی میرا پورا جسم برف ہو گیا۔ ایک کی آنکھیں خوب لال تھیں۔ پورے چہرے پر گول گول نشان۔ ناک نے بیچ میں گھس کر چہرے کو اور زیادہ مکروہ بنا ڈالا تھا۔ اس آدمی نے ایک نیلی لنگی اور ایک کالا کوٹ پہنا ہوا تھا۔ پیشہ ور خونی کی بے رحم نظر سے وہ آدمی کچھ لمحوں تک میرے چہرے پر نظریں گاڑ کر دیکھتا رہا، اس کے بعد کھسیا کر ہنستے ہوئے میری طرف بڑھنے لگا۔
’’ارے سالا! تو مجھے پہچان نہیں پا رہا ہے؟ تیری ۔۔۔‘‘
ایک فحش گالی سے اپنا تعارف کرا کے وہ میرا ایک ہاتھ پکڑنے کے لیے آگے بڑھ آیا۔ ادھر ڈر اور دہشت سے میرا جسم کانپنے لگا۔ میرے سامنے جیسے یہ کوئی آدمی نہیں ہے، بھیانک موت کے کلبلانے والے کیڑوں سے بھرا ایک گوشت کا لوتھڑا، اس کے لمس ہی سے میری آنکھوں کے سامنے میرے ہاتھ پیر ٹوٹ کر گر پڑیں گے۔ اس کے قریب پہنچتے ہی میں آنکھ موند کر کسی حملہ آور کی طرح سے ہاتھ اٹھا کر چلا اٹھا: ’’مت چھو، مجھے مت چھو۔‘‘
وہ آدمی یکایک رک گیا۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا کہ اچانک وہ آدمی بھی نرم پڑ گیا ہے۔ نہایت مسکین بھکاری کی سی شرم اور اذیت سے اس کا چہرہ بھر گیا ہے۔ اس کی بیمار آنکھیں آنسوؤں سے دھندلانے لگیں :
’’ارے سالا، تجھے بھی پتہ چل گیا کیا رے؟‘‘ ٹوٹے ہوئے لہجے میں اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’کس کے پتہ چلنے کی بات کر رہا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ارے کتے کا بچہ، تیری ۔۔۔ تو نہیں دیکھ رہا ہے میری بیماری؟ ارے تجھے بھی یہ بیماری لگ جائے گی۔ بھاگ، بھاگ، بھاگ یہاں سے۔ یہاں سب بیمار ہیں۔ سب سڑے ہوئے، بدبو سے بھرے ہوئے۔ دس سال سے میں نے ان کے ساتھ کاروبار کیا ہے۔ مجھے سب پتہ ہے۔ ان لوگوں نے ہی مجھے یہ بیماری دی ہے۔ اب یہ مجھے دیکھتے ہی دروازہ بند کر دیتی ہیں۔ سالی سب رنڈیاں ہیں — تھو۔‘‘
اس بیچ میں بھول گیا تھا کہ مجھے اسمعیل کا پیچھا کرنا ہے۔ شاید وہ بہت دور تک نکل گیا تھا۔ میں پھر چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سلگا لیا، ایک سگریٹ اس آدمی کی طرف بڑھا کر پوچھا : ’’تھوڑی دیر پہلے ادھر سے ایک لمبی داڑھی والے اور پاجامہ پہنے کسی آدمی کو جاتے دیکھا ہے؟‘‘
’’ارے سالا، میرے رہتے ہوئے تو دوسرے آدمی کو کیوں کھوجتا ہے رے؟ اس گلی میں مجھ سے زیادہ اس کے رہنے والوں سے واقف اور کون ہے رے؟ لیکن مجھے پانچ پورا لگے گا۔‘‘
اس کے ساتھ فضول باتیں کرنے سے کوئی فائدہ نہیں، میں نے سوچا۔ اس کی بات پر دھیان دئیے بنا میں فوراً آگے بڑھ گیا۔ آگے بڑھتے ہی میں نے سنی رندھے ہوئے گلے سے کھسیا کر ہنسنے کی آواز۔ صرف ہنسی، کھلکھلاہٹ۔ اندھی گلی کے ان عجیب باشندوں کے لیے ہنسی ہی لنگوا فرینکا ہے۔
اچانک عورتوں کے گروہ سے کھلکھلاہٹ کی آوااز گونج اٹھی۔ میں چونک اٹھا۔ گھوڑے کے کھر کی بھانتی تین قطار میں کھڑی جھوپڑیوں کے بیچ وہ گلی ختم ہو گئی تھی۔ بیچ کے کھلے آنگن میں ہی کچھ عورتیں بیڑی پھونکتی ہوئی کھڑی تھیں۔ ان کے جذبات سے عاری چہروں پر گھنے میک اپ کا لیپ، ان کے جسموں اور کپڑوں سے نکلتی تیز خوشبو اور اس سے بھی زیادہ سستی ان کے بدنوں سے نکلتی ہوئی مخصوص بو، وہ کھڑی تھیں ہوش و حواس کی شام کے اندھیرے میں بھتنیوں کی طرح۔ میں نے ان سے پوچھا : ’’کیا تھوڑی دیر پہلے ادھر جاتے ہوئے کسی آدمی کو جاتے دیکھا؟‘‘ میرا سوال سن کر وہ ایک دوسرے کے جسموں پر گرتی ہوئی کھلکھلانے لگیں۔ میرا سوال جیسے ان کے لیے بالکل بے معنی ہے، جیسے میں پتھر کے زمانے کے آدمی کی بھاشا میں بول رہا ہوں۔ کیا اسمعیل ان میں سے کسی جھونپڑی میں چھپ کر رہ سکتا ہے، میں سوچنے لگا۔ میں نے پھر نرمی سے پوچھا: ’’کیا کسی آدمی کو ادھر سے جاتے ہوئے دیکھا ہے؟‘‘
ٹوٹی ہوئی ایک مردانی آواز میں ایک ہڈیوں کی ڈھانچہ عورت نے پوچھا، ’’کیسا آدمی ہے رے بابو؟ کسی کو بھگا کر لے آیا ہے کیا؟ اگر لے آیا ہے تو لے جانے دو۔ عورت کی کیا کمی ہے؟ ۔۔۔‘‘
چار پانچ عورتوں کی کھلکھلاہٹ میں اس کے آخری جملےسمجھ نہیں سکا۔
میں بالکل ادھیڑ بن میں پڑ گیا۔ اسمعیل اسی طرف آیا تھا، یہ میں نے صاف دیکھا تھا۔ سامنے سے جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ کہیں چھپنے کے لیے یہی اکلوتا مقام ہے۔ لیکن یہ عورتیں کسی سوال کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتی ہیں۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟ شاید اب ایک ہی ترکیب باقی بچی ہے۔ ان کے گھر گھر میں جا کر تلاش کرنا۔ آخر وہی کرنے کا فیصلہ لیا۔ ایک سرے سے گھروں کی تلاش کرنے کے مقصد سے میں سامنے کے گھر کی طرف بڑھا۔
میں نے جس گھر کی بات کی ہے، اس کا دروازہ بند تھا۔ اس لئے وہاں کسی آدمی کے رہنے کے امکانات ہی زیادہ ہیں۔ میں نے جیسے ہی دروازے کو ڈھکیلا باہر کھڑی عورتیں شک و شبہ سے چلا اٹھیں ۔۔۔ ’’ارے، بھیتر آدمی ہے۔‘‘
میں ٹھٹک گیا۔ اچانک ٹوٹے ہوئے دروازے سے میری نظر اندر گئی۔ تب مجھے ہوش آیا کہ اندر رہنے والے آدمی کو اس وقت پریشان کرنا بڑا غیر انسانی کام ہوگا۔ میں دوسرے دروازے پر پہنچ گیا۔ دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا۔ میں نے دروازے کو ڈھکیلا۔ ایک خوبصورت جوان عورت آئینہ کے سامنے بیٹھ کر سنگھار کر رہی تھی۔ میرے پیر کی آہٹ سن کر اس نے مڑ کر دیکھا۔ بغیر کسی جذبے کے لہجے میں ہونٹ پر لپ سٹک لگاتے ہوئے اس نے کہا : ’’بیٹھو گے؟‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بلیٹ کی طرح دو اور الفاظ آ کر میرے کانوں سے ٹکرائے جنہیں میں بیان نہیں کر سکتا۔
سنگھار ختم کر کے وہ اٹھی اور میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ عورت سچ مچ حسین تھی۔ اس کی رعونت اور غرور نے اسے اور خوبصورت بنا دیا تھا۔ ان گنت مردوں کے چومنے سے زخمی ہوئے اس کے ہونٹوں کی طرف میں کچھ پل بغیر پلک جھپکائے دیکھتا رہا۔ کتنے ہونٹوں کو اس نے چوما ہے، یہ وہ شاید وہ بھول گئی ہے، پر کیوں چوما تھا اسے وہ کیسے بھلا سکتی ہے؟ ’’بیٹھنا نہیں چاہ رہے ہو تو چلے جاؤ۔ دروازے پر تمہیں ایسے کھڑے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی بھاگ جائیں گے، بڑے ہی پر سکون لہجے میں اس نے کہا:
’’تم کیا ہو؟ سننیاسن یا طوائف؟‘‘
’’تمہارے جیسا پاگل میں نے نہیں دیکھا ہے۔ کیوں یہ باتیں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’ایسی حالت میں تم جیسی ایک طوائف کے بستر پر اگر البرٹو کا ناول پڑا ہوا ہو، اور اگر یہ طے ہو کہ اس کی قاری تمہیں چھوڑ کر اور کوئی نہیں ہے، تو تمہارے ساتھ دو پل اچھی باتیں کیوں نہ کی جائیں؟‘‘
میری بات سننے پر اس کی نظر بستر پر پڑی۔ بستر پر البرٹو مورویا کا ناول ‘وومن آف روم’ پڑا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر چوری پکڑی جانے والی ایک نرم مسکراہٹ کھل اٹھی۔
’’آپ دوسرے ہیں۔‘‘
’’اس کا مطلب؟‘‘
’’میرے یہاں آنے والے لوگوں میں سے، آدمی کی زبان میں بات کرنے والے آپ دوسرے شخص ہیں۔ اس کے پہلے ایک اور آیا تھا۔ ایک کالج کا لڑکا۔‘‘
میں نے دیکھا کہ لڑکی مجھے ’آپ‘ کہہ کر مخاطب کر رہی ہے۔ میرے تئیں شاید وہ انسانیت کا لمس محسوس کر رہی ہے اور اپنے پیشے کو بھول گئی ہے۔ مجھے بھی اسے انسانیت کا احترام دینا مناسب لگنے لگا۔ ایک عام سے احترام سے میں نے کہا : ’’اگر آپ اجازت دیں تو کسی دن میں آپ کو کچھ کتابیں دے جاؤنگا۔ اب اجازت دیجیے۔ خدا حافظ۔”
کچھ لمحے تک لڑکی تعجب میں بت بنی رہی۔ سچ مچ مجھے جاتا دیکھ کر وہ ہوش میں آئی۔ یکایک اس نے کہا— ’’رکیے، رکیے، کہاں جا رہے ہیں؟ بالکل نئے معنی میں کہہ رہی ہوں، ذرا بیٹھ جائیے نا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’آپ اس بستی میں کیوں آئے ہیں؟‘‘
اسمعیل کے بارے میں اسے ذرا تفصیل سے کہنا مناسب سمجھا کیونکہ بستی میں صرف وہی ایک عورت لگتی ہے جو مجھے اس سلسلے میں مدد کر سکتی ہے۔
’’میں ایک آدمی کے پیچھے بھاگتے ہوئے یہاں پہنچا ہوں۔ اس آدمی کو میں بہت دنوں سے کھوج رہا ہوں— لگ بھگ پانچ سالوں سے۔ وہ بھی ایک خاص وجہ سے مجھ سے بھاگ رہا ہے۔ آج راستے میں اسے دیکھ کر اچانک بے تاب ہو کر نام لے کر میں نے اسے پکارا۔ وہ میری آواز سنتے ہی بھاگ کر اس گلی میں آ گھسا ہے۔ میں بھی اس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آ پہنچا۔ لیکن یہاں آ کر میں اپنے کو کھو بیٹھا۔ اچھا، ادھر سے پار ہو جانے کے لیے کیا اس گھر کے پیچھے سے کوئی راستا ہے۔‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تب تو ان میں سے کسی گھر میں وہ گھسا ہوگا۔ لیکن کون اسے اس طرح رہنے دے گا؟‘‘
’’روپیہ دینے پر کون نہیں رہنے دے گا؟ پر اس کے اس طرح آپ سے بھاگتے رہنے کی کیا وجہ ہے؟ آپ ہی کیوں اسے اس طرح کھوج رہے ہیں؟‘‘
’’وہ کافی لمبی بات ہے۔ اتنی لمبی بات بتانے لگوں گا تو اسمعیل کہیں غائب ہو جائے گا۔‘‘
’’وہ اب تک کہیں بھاگ نہیں گیا ہوگا، یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟‘‘
’’ارے یہ تو ہو سکتا ہے۔ باتوں میں پھنسے رہنے کے سبب میں اصلی بات بھول ہی گیا تھا۔ خیر جو بھی ہو، اب بھی ایک بار آپ جائزہ لے لیں۔ میں اسے کھوجتے ہوئے یہاں تک آ سکتا ہوں۔ وہ شاید ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔ بلکہ راستے میں جاتے وقت پکڑ لیے جانے کے ڈر سے وہ ضرور یہیں کہیں چھپا ہوگا؟‘‘
’’وہ آدمی آپ کا کیا لگتا ہے؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘
’’دشمن؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
میرا جواب سن کر لڑکی نے ایک لمبی آہ بھری۔ اس کے بعد وہ اپنے سے ہی کہنے لگی : ’’کون جانتا ہے کہ اس تلاش کے آخر میں کیا ہے؟‘‘