ایک عظیم شخصیت کے تعلق سے تفصیلی معلومات
حیات و تعلیماتِ شیخ عبد القادر جیلانی
از قلم
محمد جاوید یوسف دیوان
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے ابتدائی حالات زندگی
پیدائش و نسب
حضرت پیران پیر کا اصلی نام سید عبد القادر جیلانی ہے کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین ہے۔ عام مسلمان ان کو شاہ بغداد محبوب سبحانی اور غوث اعظم کے نام سے جانتے ہیں۔ محی الدین آپ کا خدائی خطاب ہے۔
آپ کا اصلی وطن نیف ہے جو قدیم ایران کے ایک صوبے گیلان کا ایک علاقہ تھا۔ عربی زبان میں اسی گیلان کو جیلان کہا جاتا ہے اسی نسبت سے آپ کو گیلانی یا جیلانی کہا جاتا ہے۔ اکثر تاریخ دانوں کے نزدیک حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا سن ولادت 470 ہجری مطابق 1077 عیسوی ہے۔
آپ نجیب الطرفین سید ہیں یعنی ماں اور باپ دونوں کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔ والد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام حسن تک رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچتا ہے اور والدہ کی طرف سے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک۔
حضرت شیخ کے والد کا لقب جنگی دوست تھا فارسی زبان میں جس کا مطلب مجاہد ہوتا ہے اس لیے کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کا بڑا شوق رکھتے تھے اور اللہ کی راہ میں شہادت ان کی سب سے بڑی تمنا تھی۔ والد ماجد کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے: ابو محمد عبد القادر بن ابو صالح جنگی دوست، موسی بن ابو عبد اللہ بن یحیی بن محمد بن داود بن موسی بن عبد اللہ بن موسی جون بن عبد اللہ محض بن حسن مثنی بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
آپ کی والدہ ماجدہ انتہائی نیک سیرت اور پرہیز گار خاتون تھیں ان کا نام فاطمہ اور لقب ام الخیر تھا۔ والدہ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب یوں ہے: ابو محمد عبد القادر بن ام الخیر ام الجبار فاطمہ بنت سید عبد اللہ الصومعی بن ابو جمال الدین بن سید محمد بن سید محمود بن ابو عطا بن کمال الدین عیسی بن ابو علا الدین بن محمد جواد بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق بن محمد باقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہم اجمعین۔
یہ بلند و بالا نسب کسی بھی شخص کے لیے فخر و عزت کی بات ہے لیکن حضرت شیخ تواضع کے طور پر اس کا ذکر اور اس پر فخر کرنا پسند نہیں فرماتے تھے۔ اس لیے کہ اسلام میں مدار نجات ایمان اور عمل صالح پر ہے نہ کہ کسی نسبت یا تعلق پر۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
جس کا عمل دیر لگائے گا اس کا نسب جلدی کر کے اسے آگے نہ بڑھائے گا۔ (صحیح مسلم)
اور رسول اللہﷺ نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ اور اپنی پھوپھی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے خطاب فرمایا:
اے صفیہ! اللہ کے رسول کی پھوپھی میں اللہ کے ہاں تمہیں بچا نہیں سکتا اور اے فاطمہ! (محمد کی بیٹی) میرے مال سے جو چاہو لے لو مگر میں اللہ کے یہاں بچا نہیں سکتا۔ (صحیح بخاری)
جس کے سامنے رسول اللہﷺ کے یہ ارشادات موجود ہوں وہ کسی نسبت و تعلق کو کیا اہمیت دے گا اور کس طرح اس کی بنیاد پر اپنی نجات کا خیال بھی دل میں لائے گا۔
بغداد کا سفر
حضرت شیخ نے ابھی ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ آپ کے والد کا انتقال ہو گیا اس طرح آپ بہت چھوٹی عمر میں یتیم ہو گئے۔ اس کے بعد آپ اپنے انتہائی نیک اور صالح نانا، حضرت سید عبد اللہ صومعیؒ کی سرپرستی میں آ گئے جنہوں نے انتہائی شفقت اور محبت سے اپنے نواسے کی تربیت کی۔ حضرت شیخ ابھی جیلان کے مکتب میں زیر تعلیم تھے کہ آپ کے نانا جان کا بھی انتقال ہو گیا۔ اب آپ کی سرپرستی اور تعلیم و تربیت کا سارا بوجھ والدہ پر آ پڑا۔ انہوں نے یہ ذمہ داری بڑی ہمت اور صبر و استقامت سے پوری کی اور اس طرح آپ کی تربیت کی کہ حضرت شیخ کم عمری ہی میں تقوی، اچھے اخلاق، دنیا سے بے تعلقی اور آخرت سے لگاؤ اور طلب علم سے مالا مال تھے۔
حضرت شیخ نے جیلان ہی میں قرآن پاک کا ختم کیا اور ساتھ ہی چند دوسری دینی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ اسی دوران آپ نے کاشتکاری بھی کی اور دیگر گھریلو کام بھی انجام دیتے رہے۔ جیلان ایک چھوٹا سا علاقہ تھا جہاں حضرت شیخ کی علم کی پیاس بجھانے کے لیے وسائل ناکافی تھے اور کچھ اور باتیں بھی تھیں جس سے لازم ٹھہرا کہ آپ مزید علم حاصل کریں۔ آپ نے اپنی والدہ محترمہ سے اس کی اجازت مانگی۔ ایک بوڑھی ماں کے لیے جوان، ہونہار اور فرماں بردار بیٹے کی جدائی یقیناً ایک مشکل مرحلہ تھی لیکن صابر و شاکر ماں نے دین کی خاطر اجازت دے دی۔ اس زمانے میں بغداد کے دینی مدارس کی پورے عالم میں شہرت تھی لہذا وہی آپ کی منزل مقصود قرار پائی۔
والد مکرم کے ترکے سے آپ کی والدہ کے پاس اسی (80) دینار تھے جس میں سے چالیس دوسرے بھائی کو ملے اور چالیس آپ کے حصے میں آئے جو آپ کی والدہ نے آپ کے کپڑوں میں بغل کے نیچے سی دئیے۔ رخصت کرتے وقت والدہ نے فرمایا کہ میں تو شاید اب جیتے جی تمہاری صورت نہ دیکھ سکوں گی اور اپنی دعاؤں سے حضرت شیخ کو نوازا اور نصیحت فرمائی: اے میرے بیٹے! جھوٹ سے بچنا اس لیے کہ مومن جھوٹ نہیں بولتا۔ اے بیٹے! ہمیشہ سچ بولنا اور ہم نے ہمیشہ تمہیں یہی نصیحت کی ہے اور امید ہے کہ تم ہماری نصیحت پر عمل کرو گے۔
حضرت شیخ والدہ سے رخصت ہو کر قافلے کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ قافلہ جب ہمدان سے کچھ آگے پہنچا تو ساٹھ ڈاکو اس پر حملہ آور ہو گئے اور قافلے میں موجود ہر فرد سے اس کی قیمتی چیزیں چھین لیں۔ ایک ڈاکو حضرت شیخ کی طرف بھی آیا۔ اس نے سوال کیا: کیا تمہارے پاس بھی کچھ مال ہے؟ آپ نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا: ہاں میرے پاس چالیس دینار ہیں۔ اس ہاں نے اسے یقیناً حیران کر دیا۔ بے یقینی کی حالت میں اس نے اپنا سوال دہرایا: کیا تمہارے پاس بھی کچھ مال ہے؟ سچائی اور صداقت سے بھرپور آواز میں جواب ملا: ہاں! گناہوں میں ڈوبا ہوا یہ انسان سچ کی خوشبو محسوس نہ کر سکا۔ وہ آپ کو اپنے سردار کے پاس لے گیا اور پورا قصہ بیان کیا۔ سردار نے بھی وہی سوال کیا: کیا تمہارے پاس بھی کچھ مال ہے؟ جواب وہی تھا: ہاں۔ یہ جواب اس کے لیے بھی ناقابل یقین تھا۔ پوچھا: کہاں ہیں؟ حضرت شیخ نے جواب دیا: میری بغل کے نیچے خفیہ جیب میں سلے ہوئے ہیں۔ سردار نے اس جیب کو پھاڑ کر دیکھا تو واقعی چالیس دینار نکل آئے۔ سارے ڈاکو یہ دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے۔ نوازنے والے کے انداز بھی نرالے ہوتے ہیں۔ وہ جو اب تک لوٹتا تھا اب اس کے اپنے لٹنے کا سامان ہو رہا تھا۔ سردار نے پوچھا: آخر کس وجہ سے تم نے ہمیں ان دیناروں کے متعلق بتا دیا جب کہ تم جانتے ہو کہ ہم یہ لوٹ لیں گے؟ حضرت شیخ نے اسی اطمینان سے جواب دیا: میری ماں نے رخصت کرتے وقت نصیحت کی تھی کہ ہمیشہ سچ بولنا، مسلمان کبھی جھوٹ نہیں بولتا اور میں اس کے خلاف نہیں کر سکتا۔ یہ جواب گویا خشک کھیتی پر بارش کا پہلا قطرہ تھا۔ سردار رو پڑا اور کہا: ایک تم ہو جسے اپنی ماں کے ساتھ کئے ہوئے عہد کا اتنا خیال ہے اور ایک میں ہوں کہ سالوں سے اپنے رب کے عہد کو توڑ رہا ہوں۔ اے لڑکے! گواہ رہ، میں آج سے اس کام سے توبہ کرتا ہوں۔ اس کے تمام ساتھیوں نے بھی اپنے سردار کو دیکھ کر اس کام سے توبہ کر لی اور تمام مال قافلے والوں کو واپس کر دیا اور قافلہ حضرت شیخ کی برکت سے بحفاظت بغداد پہنچا۔
یہ ہدایت و اصلاح کے ابھرتے سورج کی پہلی کرن تھی جو آنے والے وقت میں امت مسلمہ کے تن نیم مردہ میں حرارت و توانائی کا ذریعہ بننے والا تھا۔ اس واقعہ سے حضرت شیخ کی ایک کرامت بھی ظاہر ہوئی جو ہر کرامت سے بڑی کرامت ہے یعنی بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ ہدایت کی طرف پھیر دینا۔ یہ سب سے بڑی کرامت اس لیے ہے کہ اس دنیا میں انبیا علیہم السلام کو بھیجنے کا مقصد عقائد و اعمال کی اصلاح ہوتا ہے۔ اور انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے علمائے کرام اور اولیائے عظام بھی اپنے اپنے وقت میں یہی کام انجام دیتے ہیں اور اسی میں وہ انبیا کے وارث ٹھہرتے ہیں۔ اسی میں ان کی بڑائی ہے کہ وہ اللہ کی راہ بتاتے ہیں۔ لوگوں کو اچھے کاموں کو کرنے کی تلقین کرتے ہیں اور برے کاموں سے کو روکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعوت و تبلیغ میں یہ اثر رکھا ہے کہ بہت سے لوگ سیدھی راہ پر آ جاتے ہیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
اللہ کی قسم، اگر اللہ تعالیٰ تیرے ذریعے سے ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح بخاری)
آخر کار کئی ماہ کے سفر کے بعد حضرت شیخ 488 ہجری میں اٹھارہ سال کی عمر میں بغداد میں داخل ہوئے۔
حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اور امت مسلمہ کے حالات
اس سے پہلے کہ ہم حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے بغداد پہنچنے کے بعد کے حالات پیش کریں جن میں ان کی تعلیم اور بعد میں اصلاحی کام کی تفصیل ہے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان حالات کا ایک جائزہ پیش کریں جن میں اس وقت امت مسلمہ گھری ہوئی تھی۔
اس جائزے سے ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ وہ کیا حالات تھے جن میں حضرت شیخ نے بغداد میں اپنے اصلاحی کام کا آغاز کیا، ان کے سامنے کیا مقاصد تھے، ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے کیا طریقہ کار اختیار کیا اور ان کے کام کے نتیجے میں امت میں کیا تبدیلی آئی۔
ان حالات کو پڑھتے ہوئے آپ کو بار بار یہ احساس ہو گا کہ گویا یہ ہمارے اپنے دور کا ذکر ہے۔ سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی جیسے مسائل جو حضرت شیخ سے پہلے اور ان کی زندگی میں مسلمانوں کو درپیش تھے آج بھی امت مسلمہ انہی تمام مسائل کا شکار ہے گویا زمانہ گھوم پھر کر اسی مقام پر آ کھڑا ہوا ہے جہاں آج سے صدیوں پہلے تھا۔
سیاسی حالات
حضرت شیخ کی ولادت سے پہلے امت مسلمہ کو سیاسی ابتری، مذہبی انتشار اور معاشرتی خرابی نے مکمل طور پر گھیر رکھا تھا اور امت ایک ایسے دور میں تھی جس کو تاریخ دان امت مسلمہ کا سیاہ دور کہتے ہیں۔
مسلمانوں کے سیاسی انتشار کا آغاز تیسری صدی ہجری میں عباسی خلیفہ مامون کے زمانے سے ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلافت بغداد کی سیاسی مرکزیت روز بروز کمزور ہوتی چلی گئی۔ تعداد کے اعتبار سے مسلمان کم نہ تھے لیکن عالم اسلام مختلف ملکوں میں تقسیم تھا۔ جگہ جگہ چھوٹی چھوٹی خود مختار ریاستیں وجود میں آ چکی تھیں اور خلیفہ بغداد کی کوئی عملی حیثیت نہیں تھی۔ اس کی عزت کی جاتی تھی لیکن سارے اختیارات مختلف علاقوں کے طاقتور حکمرانوں کے ہاتھوں میں تھے۔
مسلمانوں میں انتشار کا آغاز 205 ہجری میں ہوا جب طاہر بن حسین نے خراسان میں خلافت بغداد سے الگ ایک آزاد ریاست قائم کی جو 259 ہجری تک قائم رہی۔ طاہر بن حسین مامون کی فوج کا سربراہ تھا۔ اس ریاست کا دارالحکومت نیشاپور تھا۔ اس کے بعد 320 ہجری میں آل بویہ نے ایران میں ایک آزاد ریاست قائم کر لی اور ان کا اثر خلافت بغداد تک بڑھ گیا۔ آل بویہ شیعہ تھے اور وہ بغداد کی سیاست پر بڑی حد تک حاوی تھے۔ 432ہجری میں سلاجقہ کی مملکت کی بنیاد پڑی۔ یہ مملکت 583 ہجری تک قائم رہی۔ سلاجقہ جو ترک نسل سے تھے ان کی یہ سلطنت خراسان اور ماوراء النہر کے ان علاقوں میں قائم ہوئی جہاں پہلے سامانی اور غزنوی برسر اقتدار تھے۔ افریقہ میں بھی مختلف گروہوں میں اقتدار کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ اسپین کا حال بھی مختلف نہ تھا۔ مسلمانوں کی یہ عظیم مملکت خانہ جنگیوں کا شکار تھی۔ مختلف علاقوں میں خود مختار ریاستیں قائم تھیں جس کا فائدہ عیسائیوں کو پہنچ رہا تھا اور وہ اس نا اتفاقی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے تھے اور مسلمانوں کو اسپین سے مٹانے کے لیے متحد ہو رہے تھے۔ مصر میں فاطمیوں کی حکمرانی تھی۔ فاطمی اصلا شیعہ تھے اور انہوں نے شام پر بھی قبضہ کر لیا تھا ان کا اثر و رسوخ خلافت بغداد تک پھیلا ہوا تھا۔ فاطمی حکومت کے قیام سے اہلسنت و الجماعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ ہندوستان بھی مختلف سلطنتوں میں تقسیم تھا اور ہندو راجے اپنی ذلت آمیز شکستوں کا بدلہ لینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ یمن جیسا چھوٹا ملک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ ہر شہر ایک خود مختار ریاست کی صورت اختیار کر چکا تھا۔
غرض یہ کہ عالم اسلام متعدد سرحدوں میں تقسیم ہو چکا تھا اور اسلامی ممالک میں خانہ جنگی چھڑی ہوئی تھی۔ بے سکونی کا دور دورہ تھا۔ نہ شہروں میں امن تھا اور نہ دیہات پر سکون تھے۔
ایک اور فتنہ جو حضرت شیخ کے دور میں موجود تھا وہ فدائیوں کی جماعت تھی جس کا بانی ایک شیطان صفت انسان حسن بن صباح تھا۔ وہ اپنے حامی کو جسے فدائی کہا جاتا تھا حشیش پلاتا اور نشے کے عالم میں اسے اپنی بنائی ہوئی جنت میں پہنچا دیتا۔ وہاں حوریں اس کی خاطر تواضع کرتیں۔ فدائی کو چند روز اس جنت میں رکھنے کے بعد دوبارہ دنیا میں لے آیا جاتا۔ وہ دوبارہ جنت میں جانے کی خواہش کرتا تو اسے کہا جاتا کہ اگر وہ فلاں کارنامہ انجام دے یا فلاں کو قتل کر دے تو اسے ہمیشہ کے لیے اس جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ یہ فدائی مختلف بھیسوں میں پورے عالم اسلام میں پھیلے ہوئے تھے اور گمراہیاں پھیلا رہے تھے۔ ان کا مقصد اہلسنت کو فنا کرنا تھا۔ ان فدائین کے ذریعے حسن بن صباح نے عالم اسلام کے بہت سے نامور علما اور فقہا قتل کروا دئیے۔ ان میں نظام الملک طوسی بھی تھا جس نے بغداد، نیشاپور، اور طوس میں مدارس نظامیہ قائم کر کے سنی علما کی کھیپ تیار کی جس نے دینی حلقوں میں گمراہ فرقوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی۔ نظام الملک اہلسنت کا محسن تھا اور یہی بات حسن بن صباح کے دل میں کھٹکتی تھی۔
حضرت شیخ کے دور کا سب سے اہم تاریخی واقعہ صلیبی جنگیں ہیں جن کا آغاز 488 ہجری (1095ء) میں ہوا۔ اس وقت حضرت شیخ کی عمر 18سال تھی۔ 488 ہجری میں عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری نے تمام یورپ کے سب حکمرانوں کو حکم دیا کہ یروشلم کو مسلمانوں سے چھین لینے کے لیے جنگ کی تیاری کریں اور یہ فتوی جاری کیا کہ جو عیسائی اس جنگ میں شرکت کرے گا وہ اس کے اگلے پچھلے تمام گناہ معاف کر دے گا اور جان دینے والوں کو جنت میں جگہ دینے کا وعدہ کیا۔ پوپ کا وعدہ گویا خدا کا وعدہ تھا۔ اس فتوے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سارا یورپ جنگ کی تیاریاں کرنے لگا۔ اس کے چار سال بعد عیسائیوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا اور مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ ان کے گھوڑوں کے پیر خون میں ڈوب گئے اور زندہ بچنے والوں پر زندگی دوبھر کر دی۔ شام و فلسطین سے مہاجرین کا تانتا بندھ گیا اور یہ مصیبت زدہ لوگ بغداد آنے لگے۔ فتح قدس کے بعد یورپ کی یہ متحدہ قوت سرزمین حجاز و عراق پر حملے کے لیے پر تول رہی تھیں۔
اجتماعی حالات
رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرام سے فرمایا:
اللہ کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ تم مفلس ہو جاؤ گے میں تو اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر وسیع ہو جائے گی (یعنی مالدار ہو جاؤ گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر وسیع ہوئی تھی اور ان ہی کی طرح تم لوگ اس کو حاصل کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاؤ گے (اور یہ مال کی طلب) تمہیں اسی طرح تباہ کر دے گی جس طرح تم سے پہلے لوگ تباہ ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)
اس خدشے کے پیش نظر آپﷺ نے اپنے صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دی:
دنیا میں اس طرح زندگی گزار گویا تو اجنبی ہے یا مسافر ہے (جو راستے کی کسی چیز سے دل نہیں لگاتا تاکہ اپنی منزل تک جلد پہنچ جائے۔ (صحیح بخاری)
صحابہ کرام نے ان باتوں کو غور سے سنا اور پوری طرح اس پر عمل کیا۔ دنیا ان پر بارش کی طرح برسی لیکن ان کے ہاتھوں اور جیبوں میں رہی ان کے دلوں تک نہ پہنچ پائی۔ ان کے دل دنیا کی محبت سے خالی رہے۔ ان کے بعد تابعین میں بھی یہ معاملہ برقرار رہا کہ دنیا اور اس کا مال و متاع ان کے دل پر کوئی اثر نہ کر سکا۔ لیکن جیسے جیسے دور نبوت سے دوری ہوتی گئی مسلمان اس تعلیم کو بھلاتے چلے گئے، دنیا کی محبت ان پر چھاتی چلی گئی اور وہ اس میں ڈوبتے چلے گئے۔ ساتھ ہی جب اسلامی سلطنت کی حدیں وسیع ہوئیں اور مسلمان حکمرانوں کے پاس بے تحاشا مال و دولت آنے لگی تو اس سے بھی مسلمانوں کی عملی زندگی میں بیشمار خرابیاں پیدا ہوئیں اور وہ دنیا کی محبت کا شکار ہو گئے اور آہستہ آہستہ وہ ان تمام خرابیوں میں ملوث ہو گئے جو کثرت مال کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ فضول خرچی کا سلسلہ شروع ہوا۔ سب سے پہلے مساجد کی تعمیر اور ان کی سجاوٹ پر بے دریغ مال خرچ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر فضول خرچی کا یہ سلسلہ لباس و آرائش اور کھانے پینے میں چل پڑا۔ جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پھر گانا بجانا اور شراب نوشی بھی عام ہو گئی۔ یہ تو حکمرانوں اور مالداروں کی حالت تھی۔ اس کے برعکس عوام الناس کی اکثریت غربت اور فقر کی انتہائی پست حالت میں زندگی گزار رہی تھے۔
فکری و مذہبی انتشار
اسلام اپنے ماننے والوں کو طلب علم پر ابھارتا ہے یہی وجہ ہے مسلمان جب بھی کسی علاقے کو فتح کرتے تو جہاں وہ مسجد قائم کرتے وہیں مدرسے کا قیام بھی ضروری سمجھتے تھے۔ اسی تعلیم اور فکر کا نتیجہ تھا کہ مسلمان جہاں بھی علم پاتے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے۔ چنانچہ ایران، ہندوستان، یونان جس جگہ بھی مسلمان پہنچے وہاں کے علوم اور تصانیف کو حاصل کیا۔ عباسی خلفا کے دور میں بیت الحکمت قائم ہوا جہاں خاص طور پر یونانی فلسفے کا عربی زبان میں ترجمہ کیا جاتا تھا۔ اس یونانی فلسفے سے بعض اہل علم مسلمان جن کی دینی بنیاد کمزور تھی بہت متاثر ہوئے۔ بجائے اس کے کہ وہ اس فلسفے کو اسلام کی تعلیمات پر جانچتے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو اس فلسفے کی بنیاد پر جانچنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں ان کے عقائد میں خرابی پیدا ہوئی، کمزور ذہنوں میں شک و شبہات پیدا ہونے لگے اور مسلمانوں میں مختلف گمراہ فرقے پیدا ہوئے جنہوں نے عقل کو اپنا معیار بنایا اور بے فائدہ اور بے حقیقت باتوں پر بحثیں ہونے لگیں۔
سیاسی افراتفری اور فکری انتشار اور بدامنی کا ایک اثر یہ ہوا کہ علوم و فنون کی ترقی رک گئی۔ امت کا درد و غم رکھنے والے علمائے حق گوشہ نشین ہو گئے جس کے نتیجے میں دنیا پرست علما علمی مجلسوں پر چھا گئے اور قرآن و حدیث کے بجائے بے مقصد اور غیر اہم مسائل موضوع بحث بن گئے اور دنیا پرست اور مال و جاہ کے طلب گار علما جو عام لوگوں کی دین سے محبت اور تعلق لیکن ناواقفیت کا فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور عوام الناس کو ان فروعی مسائل کو بنیاد بنا کر آپس میں لڑاتے رہے ہیں انہوں نے ان اختلافات کو اس درجے تک پہنچا دیا تھا کہ ایک دوسرے پر حملے کرنا، گھروں کو لوٹنا یہاں تک کہ مخالفین کی قبروں تک کو اکھاڑنے کے واقعات عام تھے۔ گالی گلوچ اور خون خرابہ تو ایک معمولی بات تھی۔
ان تمام خرابیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان عمل میں سست پڑ گئے، دنیاوی زندگی انہیں پیاری ہو گئی، ان کا آپس کا اتحاد پارہ پارہ ہو گیا، جذبہ جہاد ختم ہو گیا اور وہ اپنی وہ طاقت اور رعب کھو بیٹھے جس سے کفر کی طاقتیں خوف کھاتی تھیں۔
لوگوں کی اخلاقی حالت پر بھی اس کا بہت برا اثر پڑا تھا۔ خود غرضی، لالچ و حرص اور مکر و فریب جیسی خرابیاں عام تھیں۔ بزدلی، خوشامد، چاپلوسی، خیانت، دھوکہ دہی جیسی خرابیاں ان کی زندگیوں کا حصہ بن گئیں تھیں۔ ملی و قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگی تھی اور اس کی خاطر دین و ایمان تک داؤ پر لگا دیا جاتا تھا۔ حکمرانوں کی زندگیاں گناہوں میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اور عوام الناس دنیا داری اور حرص و ہوس میں آلودہ اور ظلم و ستم کا شکار بنے ہوئے تھے۔ اقتدار پرستی اور چند افراد کی بالا دستی نے نئی نئی سازشوں کو جنم دیا۔ مذہب سے دوری ایک فیشن بن گیا تھا۔ بد امنی عام ہو گئی تھی۔
ان حالات میں ایک ایسی شخصیت کی شدید ضرورت تھی جو نہ صرف امت محمدیہ کی منجدھار میں پھنسی کشتی کو سلامتی کی طرف موڑ دے بلکہ اسے آنے والے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی بنا سکے۔ یہ ذات شاہ بغداد، محبوب سبحانی، پیران پیر، محی الدین شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں اس دنیا میں تشریف لائی۔ یہی وہ ذات بابرکت تھی جس نے امت مسلمہ کی خستہ حالی کو ختم کیا، لوگوں سے مایوسی کو دور کیا، امید کا چراغ روشن کیا اور کشتی اسلام کو بھنور سے نکال کر صحیح سمت میں موڑ دیا۔
حضرت شیخ 488 ہجری میں بغداد میں داخل ہوئے اور تقریبا تینتیس (33) سال تک طلب علم اور اصلاح نفس میں گزارے۔ اس مدت میں تمام مذکورہ حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے۔ بغداد کی معاشرتی سماجی اور دینی زندگی کے بگاڑ کو دیکھا۔ ظلم و ستم، فحاشی و تن آسانی اور عیش و عشرت میں ڈوبی ہوئی زندگی ان کے سامنے تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کی باہمی نا اتفاقی اور خانہ جنگی اور دشمنی کو بھی دیکھا، انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ملک، صوبوں اور شہروں کی حکومت حاصل کرنے کے لیے لوگ سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ ہیں۔ انہوں نے درباری اور دنیا پرست علما کا کردار بھی دیکھا جو ذلیل دنیا کی خاطر مسلمانوں کو آپس میں لڑاتے تھے۔ یقیناً حضرت شیخ نے ان حالات اور واقعات کا بھرپور اثر قبول کیا اور یہ احساس ان کے دل میں پیدا ہوا کہ ملت اسلامیہ زوال کی زد پر ہے جس سے بچاؤ کے لیے دوسری کوئی قوت عالم اسلام میں سرگرم عمل نہیں ہے۔ حضرت شیخ کا ایک ملفوظ ملاحظہ فرمائیں:
ہمارے پیغمبرﷺ کے دین کی دیواریں گر رہی ہیں اور پکار رہی ہیں کہ کوئی ہے جو ان کی تعمیر کرے؟ دین محمدی کی نہر خشک ہوا چاہتی ہے۔ اللہ کی عبادت اول تو ہوتی ہی نہیں اور کبھی ہوتی بھی ہے تو دکھاوے اور نفاق کے ساتھ ہوتی ہے۔ کوئی ہے جو ان دیواروں کو سیدھا کرنے اور نہر کو وسیع کرنے اور اہل نفاق کو شکست دینے میں مدد کرے؟ (ملفوظات شیخ)
یہی تعمیر اور امت کو ہلاکت کے بھنور سے باہر نکال کر لانا ہی آپ کا اصلی مقصد تھا۔ یہی آپ کے مواعظ کا اصلی محرک تھا اور اسی لیے آپ نے بغداد کو، جو اس وقت عالم اسلام کا علمی اور روحانی مرکز تھا، اپنی دعوت کا مرکز بنایا تھا تا کہ امت مسلمہ کے قلب میں بیٹھ کر اس کی اصلاح کا کام کیا جائے۔ چنانچہ وہ اپنی پوری قوت اور اخلاص کے ساتھ وعظ و ارشاد دعوت و تربیت، اصلاح نفوس اور تزکیہ قلوب کی طرف متوجہ ہوئے۔ انہوں نے ان مسائل کی جڑ پر کلہاڑا چلایا جو امت کو دیمک کی طرح چاٹ رہے تھے۔ انہوں نے توحید خالص، اخلاص کامل، تقدیر پر ایمان، عقیدہ آخرت کی یاد دہانی، اس دنیا کے فانی ہونے اور اس کے مقابلے میں آخرت کی زندگی کی ہمیشگی، نفاق اور حب دنیا کی برائی اور تہذیب اخلاق کی دعوت پر سارا زور صرف کر دیا۔ ان مواعظ اور خطبات کا خواص و عوام پر بہت زبردست اثر پڑا اور وہ بہت جلد راہ راست پر آ گئے۔ ہزاروں افراد نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کی۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ سینکڑوں یہودیوں اور عیسائیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔
آپ نے صرف واعظانہ کام ہی نہیں کیا بلکہ مجاہدانہ سرگرمیاں بھی آپ کی شخصیت کا حصہ رہیں۔ گو براہ راست آپ نے ان سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا لیکن تاریخ سے ثابت ہے کہ ان کے دور میں بلکہ بعد میں بھی عالم اسلام میں جو جذبہ جہاد بیدار ہوا اس کے پیچھے حضرت شیخ ہی کی تحریک جہاد کام کر رہی تھی۔ اس بات کے ثبوت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ مجاہد اسلام نور الدین زنگیؒ کے دربار میں حضرت شیخ کے مدرسہ قادریہ کے فارغ ہونے والوں کو اعلی عہدے حاصل تھے مثلاً: قطب الدین نیشاپوری اور شرف الدین عبد المومن شوردہ۔ اسی طرح حامد بن محمود حرانی جو حضرت شیخ ہی کے شاگرد تھے نور الدین زنگیؒ کے دربار میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے۔ ایک اور شاگرد علی بن برداون بن زید کندی بھی نور الدین زنگی کے دربار میں خاص قدر و منزلت حاصل تھی۔
فاتح بیت المقدس صلاح الدین ایوبیؒ کے دربار میں بھی حضرت شیخ کے شاگرد موجود تھے مثلاً: زین الدین علی بن ابراھیم بن نجا دمشقی جو حضرت شیخ کے شاگرد تھے صلاح الدین ایوبی کے مشیروں میں شامل تھے۔ فتح بیت المقدس کے وقت ابن نجا اور موفق الدین بن قدامہ اور ان کے بھائی محمد صلاح الدین ایوبی کے ہمراہ تھے اور یہ تمام لوگ حضرت شیخ کے شاگرد تھے۔
ہندوستان میں جہاد کا پرچم شہاب الدین غوری نے بلند کیا۔ اس جہاد کے پیچھے بھی حضرت شیخ کے فیض یافتہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کی کوشش کار فرما تھی۔ حضرت خواجہ حضرت شیخ کے آخری سالوں میں بغداد پہنچے تھے اور وہیں سے لوٹ کر آپ نے ہندوستان کا سفر کیا تھا اور پھر اجمیر کو اپنا مرکز بنایا۔ یہ علاقہ اس وقت کفر و شرک کا بہت بڑا مرکز تھا۔ وہیں سے آپ نے شہاب الدین غوری کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی۔ آپ کے بعد آپ کے خلفا نے اپنی دعوتی اور تبلیغی کوششوں سے پورے ہندوستان کو نور اسلام سے منور کر دیا۔
یہ انہی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ حضرت شیخ کی زندگی ہی میں عیسائیوں کو شکستیں ہونے لگیں اور ان کے وصال کے چند سال کے بعد پورا عالم اسلام عیسائیوں کی یلغار کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا۔ حضرت شیخ کی وفات 561 ہجری میں ہوئی اور اس کے تین چار سال بعد ہی سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے صلیبیوں کو شکست دے دی۔ اس کے کچھ عرصہ کے بعد شہاب الدین غوری نے ہندوستان میں بت پرستوں کو روند کر اسلام کا پرچم بلند کیا۔
حضرت شیخ کی تمام کرامتوں کو ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسرے پلڑے میں آپ کی ان کوششوں کو جس کے نتیجے میں ہزاروں بھٹکے ہوئے راہ راست پر آ گئے اور گلشن اسلام میں دوبارہ بہار آ گئی۔ اسلام کے اصل عقائد اور تعلیمات واضح ہو گئیں امت مسلمہ عمل و جہاد کی طرف لوٹ آئی تو یقیناً یہی پلڑا بھاری ہو گا اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت مانی جائے گی۔ لیکن آج حضرت شیخ کی دوسری کرامتوں کے مقابلے میں ان کی اس کرامت کا بہت کم لوگوں کو علم ہے۔
***