نا معلوم مصنف کی تحریر کردہ داستان جو ۱۸۴۵ء میں شائع ہوئی تھی
قصۂ گرو چیلہ
مرتبہ، ترتیب و تعارف
عبد الرشید
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…….
قصۂ گرو چیلہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
واقفانِ تواریخ قدیم اس قصۂ عجیب و غریب کو کتاب کلیلہ دمنہ سے انتخاب کر کے واسطے سمجھانے نا واقفوں زمانۂ حال کے بزبانِ اردو تختۂ قرطاس پر اس طرح لکھ گئے ہیں۔
قصہ گرو اور چیلے کا
کلیلہ نے کہا، یوں سنتے ہیں کہ ایک گرو کو کسی پادشاہ نے بہت بھاری خلعت دیا۔ جب اس کا چرچا شہر میں ہوا، ایک اٹھائی گیرے نے بھی خبر پائی، اس کا دل للچایا اور اس خلعت پر ایمان ڈگمگایا۔ رات برات چوری کے لیے کنَوٹھے پاس آتا، جاگنے کی آہٹ پا کے دبے پاؤں ہٹ جاتا۔ گرو جی تو جاپ تاپ میں ساری رات کاٹتے تھے، پر چور یہی جانتا تھا۔ بیت:
نہ ریاضت کو جاگتا ہے شیخ
ہے ڈرے چور آن مارے میخ [سودا] (۱)
دیکھو چوری اور سر زوری، دھِرا دھِرا جاتا تھا۔ بیت:
ہو گی کب تک چچا خبرداری
چور جاتے رہے کہ اندھیاری [سودا] (۲)
گرو جی یہ رات کی باتیں دن کو دُہراتے تھے اور اُس کی ڈھٹائی اپنے چیلوں سے فرماتے تھے۔ بیت:
پڑھتا ہوں میں تو سبحہ لیے ہاتھ میں درود سبحہ =تسبیح
صلواتیں مجھ کو آ کے وہ ناحق سنا گیا [میر] (۳)
چور نے دانو گھات بہت لگایا، پر خلعت ہاتھ نہ آیا۔ آخر ہار کر اِسی تاک میں گرو پاس آ کر بالکا (چیلہ) بنا اور رات دن ان کی سیوا (خدمت) کر کے منتر لینے لگا۔ اپنی دوکان گرم کرنے کے مزے میں اُس کا مکر گرو جی کے من تِر نہ آیا، یہ نہ سمجھے کون کیسا ہے کیسا نہیں۔ بیت:
کسی کا گھٹ کٹی وتیرہ ہے
کوئی بھڑوا اٹھائی گیرا ہے [سودا] (۴)
وہ گرو جی کے پاس دن رات رہنے سہنے لگا۔ بیت:
نہیں تھا یہ بھی خالی از کرامات
لیا ایسے کو ہمرہ کر کے دو بات [سودا] (۵)
چور نے گھات لگاتے لگاتے ایک رات وقت پایا، خلعت پر کچھ موقوف نہ تھا پوری ہتھ پھیر کی اور سب گٹھڑی بقچہ لے کر چنپت ہوا۔ فجر کو جو گرو جی اٹھ کر دیکھیں تو گھر میں دانت کریدنے کو تنکا نہیں بچا، سب چیز چوری گئی، تب تو چلّا چلّا کے رونے لگے اور لوگوں سے کہنے لگے۔ قطعہ:
دس جامہ پانچ نیمہ چھ پاجامہ چار شال
بقچہ بنا کے رکھا تھا چوکور لے گیا (چوکور = مربع)
کپڑوں سے کس طرح کی مَچا مَچ بھری ہوئی
گٹھڑی بندھی بندھائی مری چور لے گیا
جتنا یہ پیٹ پیٹ کے سر مار رہ گئے
اِتنا نہ کوئی بولا کہ کس اور لے گیا (اور=طرف)
جو آشنا ملے بھی تو کہتے ہیں کچھ سنا
بھر عمر کی کمائی مری چور لے گیا
وہی کہاوت ہے چیز نہ راکھیں آپنی اور چورَن گاری دیں۔
گانٹھ کا دیجیے عقل نہ دیجیے۔ پھوٹی سہیں آنچی نہ سہیں۔
جو چار پیسے کا ایک تالا آتا تو پاپی کا مال پَراپَت نہ جاتا۔ شعر:
دوس کیا دیجے چور کو صاحب (دوس=الزام)
بند گھر کا جب آپ در نہ کیا
گرو جی نے تاڑا، یہ کام اُسی چیلے کا ہے۔ اُن کی تو تلووں سے لگی تھی وہیں اسے ڈھونڈنے نکلے اور اپنے گاؤں سے اس کی کھوج میں بستی کو چلے۔
قصہ لومڑی حرص والی کا
راہ میں دیکھیں تو دو جانور آپس میں لڑ رہے ہیں۔ گھِسّم گھِسّا، کُٹّم کٹّا، دونوں زخمی زخم میں چوٗر ہیں اور بدن سے لوہوٗ بہہ رہا ہے۔ ان کا تماشا دیکھنے کو ذرہ بات ہی کی بات ٹھہر گئی۔ اتنے میں ایک لومڑی بھی وہاں آن پہنچی۔
نقل: مشہور ہے کہ کسی کا گھر جلے، کوئی آگ تاپے۔ شیطان کے دَکھّے [دھکّے] میں آ گئی، کہیں ٹکّر مارتے وقت بیچ میں آن پڑی، چیونٹی کو موٗت کا ریلا بہت ہے، پِس گئی۔ شعر:
خاکساروں سے موافق کب ہے دنیا کی ہوا
راہ میں تیری گئے جیوں نقش پا برباد ہم [سودا] (۶)
لومڑی بچاری کی ہڈی پسلی چوٗر ہو کے جان فنا ہو گئی۔ گرو جی نے کہا: کھڑے رہنے سے اتنا تو ہوا کہ ایک تجربہ پایا۔ وہاں سے آگے چلے۔
***