فردا
مجید امجد
کا آخری شعری مجموعہ
پیشکش: تصنیف حیدر
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
دیوں کے جلنے سے …
دیوں کے جلنے سے پہلے
شام کی دھندلی ٹھنڈک میں
گھنے درختوں کے پیچھے
کل جب تیرے نام کی زرد سیاہی طلوع ہوئی
اور پھر اس کے بعد
رفتہ رفتہ جب ہر جانب سے
تیرے ذکر کی اک رمزیلی تاریکی ابھری
تاریکی جو تیرے نور کا اک رخ ہے
تو اس دم اک جابر دانائی
روحوں کی ظلمات سے یوں گزری
جیسے اچانک رستہ روک کے کوئی کسی سے کہے :
’’ادھر، ہماری جانب بھی تو دیکھ!
ان مردہ قلبوں کے اندر بجھتے ہوئے بلبوں کی نگری میں پھرنے والے
ہم تو اندھیروں میں بھی تیرے ساتھ ہیں
ہم جو اندھیروں کے اس بھیس میں اپنی روشنیوں میں اجاگر ہوتے ہیں
(11-10-1969)
٭٭٭
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
(بچوں کے لیے)
ہم تارے ہیں
ہم تارے، راج دلارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
خوش خصلت ہیں، خوش طینت ہیں
ہم اس پرچم کی زینت ہیں
ہم جگ مگ کرتے تارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
ان پیلے سبز دیاروں میں
اس دنیا کے اندھیاروں میں
ہم روشنیوں کے سہارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
ہم پھول اور باس اور ہریالی
ہم علم اور امن اور خوش حالی
ہم پاک وطن کے دلارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
اس جیتے دیس میں جینا ہے
خوشیوں کا امرت پینا ہے
یہ باغ، یہ پھول ہمارے ہیں
ہم تارے، چاند ستارے ہیں
(12-10-1969)
٭٭٭
غزل
اک اچھائی میں سب کایا دنیا کی
اس برتاؤ میں ہے سب برتا دنیا کی
پھول تو سب اک جیسے ہیں سب مٹی کے
رُت کوئی بھی ہو دل کی یا دنیا کی
اس اک باڑ کے اندر سب کچھ اپنا ہے
باہر دنیا، کس کو پروا دنیا کی!
ان چمکیلے زینوں میں یہ خوش خوش لوگ
چہروں پر تسکینیں دنیا دنیا کی
اجلی کینچلیوں میں صاف تھرکتی ہے
ساری کوڑھ کلنکی مایا دنیا کی
پھر جب وقت بجھا تو ان پلکوں کے تلے
بہتے بہتے تھم گئی ندیا دنیا کی
جم گئے خود ہی اس دلدل میں، اور خود ہی
کریں شکایت، اہل دنیا، دنیا کی
دنیا کے ٹھکرائے ہوئے لوگوں کا کام
پہروں بیٹھے باتیں کرنا دنیا کی
دلوں پہ ظالم یکساں سچ کا پہرا ہے
کوئی تو جھوٹی ریت نبھا جا دنیا کی
(20-10-1969)
٭٭٭
ننھی بھولی…
ننھی، بھولی، میلے میلے گالوں والی، بے سدھ سی اک بچی
تیری جانب دیکھ رہی ہے، دیکھ اس کی آنکھیں تیری توجہ کی پیاسی ہیں
اس کی نازک، بے حس ٹھوڑی کو اپنی انگلی کی سنہری پور سے مس تو کر، اور
اس سے اتنا تو پوچھ: ’’اچھی بلو! تو کیوں چپ ہے؟‘‘
اور جب وہ منھ پھیر کے اپنی آنکھیں اپنے ہی چہرے پہ جھکا لے
تو ہی بڑھ کر اس کے ماتھے کو اپنے ہونٹوں سے لگا لے، ہاں ایسے ہی
کیوں، اس جھنجھیلوے نے تجھ سے کہا کیا؟
یہ کیا؟ تیری آنکھیں بھیگ گئیں کیوں؟
اس نے تجھ سے کہا کیا؟
ساتوں آسمانوں کے مالک
اتنے پتلے دل والے مالک! ہم بھی روز اس چہرے کی کتھا سنتے ہیں
ہم تو کڑا کر لیتے ہیں اپنا جی، ایسے موقعوں پر!
(6-11-1969)
٭٭٭
گستاپو
باتوں باتوں میں وہ لوگو ں کے ذہنوں سے کوڑا کرکٹ چن لیتا ہے
لوگوں کے ذہنوں سے، اوروں کے بارے میں، ایسی ایسی باتیں چن لیتا ہے
جو دنیا والوں کی کھلی باچھوں میں سفر کرتی ہیں
یہ باتیں اس کی دانست کا سرمایہ ہیں
یہ سرمایہ ایک گھمنڈ ہے کڑواہٹ کا
اس کے رخ پر بکھرا ہوا ہے وہ سب لوہا، جو اس کے دل کا لہجہ ہے
اس کے باہم بھنچے ہوئے ہونٹوں کا دباؤ جب اس کی آنکھوں کو چمکا دیتا ہے
عرش کے محلوں میں فرشتے اپنی شمعیں بجھا دیتے ہیں
میری طرف آج اس نے یوں دیکھا ہے
جیسے میں بھی اس کے غرور کا اک لقمہ ہوں، اس کی دانستوں میں
آخر اس کے پاس اک علم ہے میری بابت
آخر کل ہی تو وہ آسمانوں پر جا کر
اپنے ذہن کی چوپتری پر
آنے والے برے دنوں کا ٹیوا اتار کے لے آیا ہے
(16-11-1969)
٭٭٭
تم کیا جانو…
تم کیا جانو، مجھ سے پوچھو، میں اس مٹی کی سوکھی پتلی تہہ پر کھیلا ہوں
اس مٹی کی تہہ کے نیچے گدلا گاڑھی گہرا پانی ہے سیلانی سیلابوں کا
پھر وہ دن بھی تھے کچھ بڑے البیلے اور تب علم بھی مجھ کو نہ تھا ان دنوں کا جب
ہر ذرہ سورج بن جاتا ہے
ہر سو مٹی کی اس سوکھی پتلی تہہ پر لوگ نرالے دنوں کی خوشی میں چوکڑیاں بھرتے پھرتے تھے
میری طرح سب کالے ذرے چمکیلے خوابوں میں گم تھے
اور کچھ میں بھی تھا اک ایسی دنیا میں، جس میں سارے لوگ اک جیسے تھے
تم کیا جانو، کن جتنوں سے اب میں ان وقتوں کے سارے کھتان اور ساری دلدلیں
پھاند کے اس دنیا تک پہنچا ہوں، جس میں اب میرے سوا سب کچھ ہے!
تم کیا جانو، تم تو آج اک مجھ سے نفرت کرنے والی شفقت اپنی آنکھوں میں بھر کر آئے ہو
یہ نفرت تو اک مزمن بے علمی ہے
اور یہ شفقت بھی تو خود افروز دلوں کی اک متعدی بیماری ہے
میری ساری دعائیں تم پہ تصدق، کیا تم یوں میری بے مائیگیوں کا مول چکا سکتے ہو
دیکھو، تم خود مٹی کی اس سوکھی پتلی سی تہہ پر اور کروڑوں آدمیوں کے ساتھ کھڑے ہو
جس کے نیچے سیلانی سیلابوں کا پانی ہے!
(29-11-1969)
٭٭٭