اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


نثرِ بے نظیر ۔۔۔ میر بہادر علی حسینی

مجلسِ ادبیات عالیہ کی پیشکش

نثرِ بے نظیر

از قلم

میر بہادر علی حسینی

ڈاؤن لوڈ کریں 

 

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ای پب فائل 

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں……

حمد و نعت میں

قلم سے لکھوں پہلے نام خدا

وہ کیا ہے کہ ہو یہ کہانی تمام

کہ حاصل ہو دل کا مرے مدعا

بحقِ نبی سرورِ خاص و عام

حمد کی زیبائش لائق ہے ایسے خالق کو جس نے مجرد و مادی پیدا کیے۔ ادراک و حواس جو ان میں قابل تھے، ان کو دیے۔ انسان کو ان میں شریف تر بنایا، حسن و عشق اس کو عطا فرمایا۔ کون پا سکے اس کی صنعت کے راز، ان کو آپ ہی جانتا ہے وہ بے نیاز۔ رحمت کاملہ کی آرائش سزاوار اس نبی کے ہے، قرآن سا معجزہ جس کے لیے بھیجا اور قصہ ہر ایک پیغمبر کا اس میں بیان کیا۔ بشر کی تاب کیا جو اس کے مقطعات کے اشاروں کو سمجھے یا مرکبات کے معانی کی تہوں کو پاوے۔ تحفہ سلام کا قابل اس کے آل و اصحاب کے ہے جن کا رتبہ عرش سے اعلیٰ ہے اور علم فرشتوں سے بھی بڑا ؎

سراہا ہے حق نے انھیں بارہا

کروں مدح ان کی مرا منہ ہے کیا

بعد اس کے قصۂ بے نظیر و بدرِ منیر کہ نظم میں تصنیف کیا ہوا شاعرِ بے ہمتا، ادا بندِ یکتا، رونقِ بزمِ سخن میر حسن مرحوم متخلص بہ حسن، سعید ازلی، خلف الرشید میر غلام حسین ضاحک دہلوی کا تھا (فی الواقع ہر ایک مصرع اس کا فصاحت و بلاغت میں بے نظیر ہے اور ہر ایک شعر حسن و خوبی میں مثل بدرِ منیر۔ جو سخن دان منصف مزاج و عاشق پیشہ ہیں، اس کی قدر جانتے ہیں اور جن کو اس طرح کی شاعری پر قدرت ہے، ووہی اس کی طرز بہ خوبی پہچانتے ہیں۔ مقابل اس کے نظم کس سے ہو سکے، بلکہ کوئی اس کی رمزوں کو پا تو سکے؟ قاصر ہے زبان اس کی توصیف میں، ہر کہ و مہ مشغول ہے اسی کی تعریف میں)۔ اب اس کو عہد میں شاہ عالم بادشاہ کے اور ریاست میں امیر سراپا تدبیر، فلاطون منش، ارسطو دانش، غربا پرور، آرائش سپاہ و لشکر، زبدۂ نوئینان عظیم الشان، مشیر خاص شاہ کیواں بارگاہِ انگلستان مارکویس ولزلی گورنر جنرل بہادر دام اقبالہ کے سنہ ۱۲۱۷ بارہ سے سترہ ہجری میں مطابق سنہ ۱۸۰۲ اٹھارہ سے دو عیسوی کے، حکم سے صاحبِ خداوند نعمت روشن ضمیر، عالی حوصلہ والا تدبیر جان گلکرسٹ صاحب بہادر دام حشمتہٗ کے، عاصی میر بہادر علی حسینی نے شروع قصے سے موافق محاورۂ خاص کے نثر میں لکھا۔ پہلے اس سے یہ خاکسار اس کہانی کو خاص و عام کی بول چال کے مطابق بہ طرز سہل واسطے صاحبان نو آموز کے تحریر کر چکا تھا، اب جی میں یوں آئی کہ اس داستان شیریں کو (کہ فی الحقیقت قصۂ شیریں سے شیریں تر ہے) اس رویے سے نثر کروں کہ ہر ایک زبان داں و شاعر اس کو سن کر عش عش کرے اور اس ہیچ مدان کی ایک یادگاری دنیا میں رہے۔

کہانی کی ابتدا

کسی شہر کا ایک بادشاہ تھا، رتبے میں شاہنشاہ رعیت پرور، عالم پناہ۔ خزانے اس کے ارب کھرب سے بھرے پُرے۔ جواہر خانے میں طرح بہ طرح کے جواہر ان گنت چوکھے کھرے۔ توشے خانے کے بیچ انواع اقسام کے تھان قیمتی بے شمار۔ پوشاکیں ہر نوع کی شاہانہ و امیرانہ تیار۔ چار وزیر اس کے دانش و عقل میں یکتا، امرا شجاع و دانا ہزارہا۔ سپاہ کی کثرت ملخ و مور سے زیادہ، مرفہ احوال ہر ایک سوار و پیادہ ؎

کوئی دیکھتا آ کے جب اس کی فوج

تو کہتا کہ ہے بحر ہستی کی موج

فیل خانے میں ہزاروں خوب صورت پایل نِجھول ہاتھی۔ اصطبل کے بیچ لکہا گھوڑے پری پیکر عربی و عراقی ؎

طویلے کے اس کے جو ادنیٰ تھے خر

انھیں نعل بندی میں ملتا تھا زر

ملک اس کا رشکِ مینو سواد، بہت بڑا اور نہایت آباد۔ رعیت مال و زر سے سب کی سب آسودہ۔ نہ کسی کو مفلسی کا دھیان، نہ چوری کا اندیشہ۔ زمین اس سرزمین کی سرسبز و شاداب، ہر ایک کی نظر اس کے نظارے سے سیراب۔ کوئیں اندارے پاکیزہ و شیریں جدھر تدھر، تالاب باؤلی جا بجا اپنے اپنے موقع پر۔ ہر ایک چھوٹے بڑے کے گھر میں حوض و نہر، آبِ لطافت لے رہا تھا ہر ایک طرف لہر۔ مکانات گچ کے اکثر خوش اسلوب صاف ستھرے، پیکِ نظر جن پر سوچ سوچ پاؤں دھرے۔ کیا کہیے اس کی آراستگی و فضا، وہ نصف جہان اصفہان تھا گویا۔ اہل حرفہ وہاں کے سب کے سب کاریگری میں بے نظیر، بازار وہاں کا ایک لخت مرقع تصویر۔ موجود وہاں ہر ایک طرح کا عالم، جہاں تہاں ہر ایک وقت گذری کا سا عالم ؎

یہ دلچسپ بازار کا چوک تھا

کہ ٹھہرے جہاں بس وہیں دل رہا

بہار ایسی رکھتے تھے بازار کے رستے، گویا پھول رہے تھے گلزار کے تختے۔ دکانیں دو رستہ پختہ و شفاف یکسر، ایک کا عکس ایک میں آوے نظر۔ ہر ایک گلی کوچے میں سنگ مرمر کا فرش، قلعہ وہاں کا بلندی میں مثل عرش۔ پہاڑ اس کے سامنے ایک رائی، رود نیل سی اس کے گرد کی کھائی۔ اس کی عمارت کی ساخت جو دیکھے ایک آن، معمارِ قضا عمر بھر رہے حیران۔ ہر ایک محل اس کا صفائی میں خانۂ نور، جو دیکھے کہے خدا کی قدرت ہے معمور۔ دن رات عیش و عشرت اور چہل، ناچ راگ کے سوا کچھ اور نہ تھا شغل۔ جو غریب فقیر محتاج اُس ملک میں آیا، فی الفور تونگر ہوا۔ شہر تھا کہ خانۂ دولت، شہریار تھا کہ ابرِ رحمت ؎

نہ دیکھا کسی نے کوئی وہاں فقیر

ہوئے اس کی دولت سے گھر گھر امیر

رشکِ باغ ارم ہر ایک باغ اس کا، بِن رُت کے پھول اور پھل وہاں موجود سدا۔ جہاں خزاں میں رہتا ہو بہار کا سماں، وہاں کی بہار کا کیا کیجے بیاں؟ غم کا اس دیار میں تھا کیا لیکھا؟ بجز لالہ کے کہیں داغ نہ دیکھا۔ جہاں تہاں عیش و عشرت، ہر ایک جا راگ رنگ کی صحبت۔ جس تس مقام پر سیر گھر گھر خوشی، تنگ دلی فقط غنچوں ہی میں تھی۔ رشک و حسد نہ تھا کسی کو کسی سے، باہم رہتے تھے سبھی ملے جلے۔ بادشاہ کو مدام ماہ روؤں سے صحبت، اور جامہ زیبوں سے رغبت۔ ہزاروں غلام پری پیکر اس کی خدمت میں حاضر شام و سحر ؎

کسی طرف سے وہ نہ رکھتا تھا غم

مگر ایک اولاد کا تھا الم

اپنے نہال سلطنت کو جو دیکھتا بے ثمر، پژمردہ ہی رہتا آٹھ پہر۔ اس کا خانۂ دولت جو بے چراغ تھا، اسی واسطے اُس کے دل پر داغ تھا ؎

دنوں کا یہ اس کے عجب پھیر تھا

کہ اس روشنی پر یہ اندھیر تھا

قصہ مختصر ایک روز وزیروں کو بلا کر اس نے اپنے دل کا احوال اظہار کیا کہ مجھے بادشاہت اب منظور نہیں، اور اس بوجھ کے اٹھانے کا مقدور نہیں۔ ملک داری کے سبب بہتیری کاہشیں جان پر لیں، ایک عمر انتظامِ سلطنت میں کوششیں کیں۔ کہاں تک دنیا کی فکر میں دین سے غافل رہوں؟ اور مملکت کی طلب میں جان پر جوکھوں اٹھاؤں؟ اب میں نے دھیان اٹھا دیا زر و مال کا، خواہاں ہوں فقیری کے حال و قال کا۔ سواے اُس کے میرے حق میں کچھ بہتر نہیں کہ وارث تخت و تاج اب تک میرے گھر نہیں ؎

فقیر اب نہ ہوں تو کروں کیا علاج

نہ پیدا ہوا وارث تخت و تاج

اب جوانی نبڑی، پیری نمود ہوئی۔ اتنی حرص دنیا کی کس واسطے اور یہ بکھیڑے کس کے لیے؟ سچ تو یہ ہے جوانی کا جانا زندگانی کا جانا ہے۔ جہاں ڈاڑھی میں سفید بال نکلا، مرگ کا پیغام پہنچا۔

وزیروں نے یہ سن کر عرض کی:

’اے آفتابِ آسمانِ سلطنت! ذرہ وار مضطرب ہونا اور اپنی جان کو ایسے اندیشوں میں کھونا خردمندوں کی شان سے اور عقل کی آن بان سے بعید ہے۔ دنیا داری کے لباس میں فقیری کرنا مزا ہے اور الگ رہنا عین آلودگی میں کام بڑا ہے۔ بستر آرام چھوڑ کر جو ذکر الٰہی میں بے آرام رہے، عبادت اس کی ہے۔ جو بوریے پر تسبیح پڑھا کرے اور جاگے، عادت اس کی ہے۔ صلاح دولت یہ ہے کہ سلطنت میں گدائی کرو اور راحت میں براے خدا اذیت سہو۔ خلق کی رفاہ کے واسطے رنج اٹھاؤ، بے کسوں مظلوموں کے برے وقت میں کام آؤ۔ خدا کی نعمتوں کو رد کرنا اور ناحق دکھ بھرنا نہ دین میں اچھا ہے نہ دنیا میں۔ اس خیال فاسد کو خاطر مبارک سے نکالیے، زمامِ اختیار کو گھبرا کر ہاتھ سے نہ ڈالیے ؎

یہ دنیا جو ہے مزرع آخرت

فقیری میں ضائع کرو اس کو مت

عمل نیک کے پانی سے یہاں اِس کو سینچیے، وہاں پکا پکایا کھلیان لیجیے۔ جلدی کو کام نہ فرمائیے، صبر و تحمل سے ہاتھ نہ اٹھائیے۔ دانا ایک کام کو چھوڑ کر دوسرا اختیار نہیں کرتے۔ مبادا اس بیت سے مخاطب ہوں ؎

تو کارِ زمیں را نکو ساختی

کہ بر آسماں نیز پرداختی

مناسب ہے کہ عدل و انصاف برقرار رہے اور خیر و خیرات لیل و نہار۔ کیوں کہ جو کوئی یہاں دیوے گا، وہی وہاں لیوے گا۔ جس کا ہاتھ نہ کھلا، وہی خالی ہاتھ گیا۔ بادشاہوں کی نجات انھیں باتوں سے ہے۔ حاکم اگر صرف عبادت پر رہے اور ان کاموں کو سہل جان کر چھوڑ دے، نعمت آخرت نہ پائے گا، بلکہ عذابوں کے صدمے اٹھائے گا ؎

رکھو یاد عدل و سخاوت کی بات

کہ اس فیض سے ہے تمھاری نجات

مگر اولاد کی طرف سے جو حضرت کا مزاج مکدر ہے، اس کی بھی تدبیر کرتے ہیں۔ دعا و دوا میں البتہ اثر ہے۔ تعجب نہیں جو اس کے وسیلے سے آپ کے فرزند ہو۔ مایوس نہ ہو جیے۔ ابھی کیا گیا ہے؟ ساٹھ ساٹھ برس کی عمر میں لوگوں کے یہاں اولاد ہوئی ہے۔ حضرت کا تو سن شریف ہنوز اس حد کو نہیں پہنچا۔ لا تقنطوا من رحمة اللہ پر دھیان لگائیے اور یاس کے کلمے خاطر مبارک سے بھلائیے۔ غلام بھی اب نجومیوں رمّالوں کو بلاتے ہیں اور حضور کے طالعوں کا احوال دکھلاتے ہیں۔ ”

القصہ بادشاہ کی خدمت میں اس وضع سے تسلی کے کلمے اور بھی عرض کیے اور بہتیرے بھروسے دیے۔ آخر الامر جتنے طالع شناس شہر میں تھے، ان کو طلب کیا اور اطراف میں بھی جتنے اس کام کے سُنے، ان کو بھی بلا بھیجا۔ ایک دن وہ سب کے سب آ کر جمع ہوئے۔ تب ان کو حضور میں لے گئے۔ وے آداب بادشاہی سے مجرا کر کے یوں دعائیں دینے لگے: آپ کی عمر و دولت پائدار رہے اور بخت بیدار۔ دشمن تیرا سدا غم کی آگ میں جلے۔ تو ہمیشہ پھولے اور پھلے۔

بادشاہ کو ان کے اطوار پسند آئے۔ ارشاد کیا: بیٹھ جاؤ، اپنی کتابیں کھولو، زائچے کھینچو؛ دیکھو تو میری قسمت میں اولاد ہے یا نہیں۔ یہ سن کر پہلے تو رمالوں کی جماعت نے قرعے پھینکے اور زائچے کھینچے۔ پھر عرض کی کہ بیاض خانۂ امید میں قوت پر بیٹھی یوں کہتی ہے کہ ہر ایک نقطہ زائچے کا فردِ خوشی ہے اور ہر ایک زوج شکلِ فرح و شادی۔ اور اولاد کے گھر میں فرح کا خوش حال بیٹھنا معہ شاہد و ناظر دلیل قوی ہے۔ غرض ہم اپنے علم کے طریق سے اجتماع کر کے کہتے ہیں کہ اسی سال میں خاص محل سے حضرت کے یہاں ایک فرزند ارجمند پیدا ہووے اور غبار ملال و کلفت کا آپ کی لوح خاطر سے دھووے۔ آپ خوش و خرم رہا کیجیے اور شراب عیش اور نشاط پیا کیجیے۔

پھر نجومیوں نے بھی التماس کیا: نحوست کے ایام کا دور گذرا۔ زحل کا عمل تمام ہو چکا۔ طالع کے ستارے نے طور بدلا۔ شادی کا دور آیا۔ ایک سے ایک کوکب بھی نظر نیک رکھتا ہے۔ چاہیے کہ آپ کا مطلب جلد حاصل ہو۔

بعد اُن کے پنڈتوں نے جنم پتری بادشاہ کی دیکھی اور سوچ بچار کر کچھ انگلیوں پر گنا۔ راسوں کی طرف دھیان لگایا۔ تُلا، برچھک، دھن، کنبھ پر گیان دوڑایا۔ آخر نج تج سے دیکھ داکھ بولے: اب حضرت کے نصیبوں نے یاوری کی کہ پانچواں آفتاب اور ساتویں مشتری آئی۔ چاہیے من کی منسا رام کی دَیا سے پوری ہو اور چاند سا بالک اپنے گھر میں کھیلتا دیکھو ؎

نکلتے ہیں اب تو خوشی کے بچن

مقرر ترے چاہیے ہو پسر

نہ ہو گر خوشی تو نہ ہوں برہمن

کہ دیتی ہے یوں اپنی پوتھی خبر

لیکن اس کو بارھویں برس بلندی پر خطرہ ہے۔ جب تک بارہ برس کا پورا نہ ہووے، کوٹھے پر نہ چڑھے بلکہ آسمان بھی نہ دیکھے۔

حضرت نے فرمایا کہ جان کی تو خیر ہے؟ وے بولے: البتہ جی جوکھوں تو نہیں پر آوارگی و مسافرت چندے اس کی قسمت میں ہے۔ اغلب کہ اس پر کوئی پری عاشق ہو اور یہ کسی شہزادی پر۔ اس سبب کتنے دنوں دکھ بھرے گا اور گردش میں رہے گا۔

حضرت ان کی باتوں سے کچھ خوش ہوئے اور کچھ ملول۔ فی الواقع دنیا میں ایسی شادی کم ہے کہ جس کے بعد غم نہ ہو۔ آخر کہنے لگے: ان باتوں پر بھروسا نہ کیا چاہیے۔ خدا جو کچھ چاہتا ہے سو کرتا ہے۔ غیب کی خبر بھی اسی کو ہے۔ پر یہ چلن آگے سے چلا آیا ہے، کچھ نیا نہیں۔ ان لوگوں سے پوچھنا اور فال نیک لینا، صدقہ دینا روا ہے۔ ہرچند نجومی عالم غیب نہیں، پر اس سے پوچھنا عیب نہیں ؎

یہ فرما محل میں درامد ہوئے

نجومی وہاں سے برامد ہوئے

از بس کہ اس کا اعتقاد فقط خدا ہی پر تھا، صبح و شام خلوص سے دعائیں مانگنے لگا۔ مسجدوں میں روشنی بلا ناغہ بھیجنی شروع کی، ہر ایک پیر فقیر سے بھی رجوع کی۔ نِدان اس کی امید کا کھیت سبز ہوا اور پھل اس کو ملا۔ جب ایسی لو لگائی، تب منہ مانگی مراد پائی۔ حاصل یہ ہے کہ بادشاہ کی بیاہتا بی بی اسی سال میں حاملہ ہوئی اور بنیاد اولاد کی بندھی ؎

جو کچھ دل پہ گذرے تھے رنج و تعب

مبدّل ہوئے وہ خوشی ساتھ سب

خوشی سے پلا مجھ کو ساقی شراب

کوئی دن کو بجتا ہے چنگ و رباب

کروں نغمۂ تہنیت کو شروع

کہ ایک نیک اختر کرے ہے طلوع

داستان بے نظیر کے پیدا ہونے کے احوال میں

جب نو مہینے خیریت سے گذرے، بادشاہ کے یہاں ایک بیٹا ایسا شکیل پیدا ہوا کہ گھر آنگن اجالا ہو گیا۔ مہر و ماہ کو اس کے جلوے نے پھیکا کر دیا، بلکہ شیدا۔ پری زاد تو کس شمار میں اور انسان کس قطار میں؟ جب حسن و صورت میں اس کا نظیر نہ دیکھا، نام بھی بے نظیر رکھا۔ اندر باہر مبارک سلامت کی دھوم مچ گئی، محل مبارک میں شادی رچ گئی۔ پہلے تو ناظر نے بادشاہ کو معہ عملے آ کر نذر گزرانی، پھر وزیر و امیر ہر ایک چھوٹے بڑے نے۔ اور یہ بیت پڑھی ؎

مبارک تجھے اے شہِ نیک بخت

کہ پیدا ہوا وارثِ تاج و تخت

سکندر نژاد اور دارا حشم

فلک مرتبت اور عُطارد قلم

رہے اس کے اقلیم زیر نگیں

غلامی کریں اس کی خاقانِ چیں

بادشاہ نے یہ خوش خبر سنتے ہی جانماز بچھائی، دو گانہ شکر کا پڑھا اور کہا: فی الحقیقت تجھے فضل کرتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ لازم ہے کہ امیدوار تجھ سے نا امید نہ ہو، آس لگائے رہے، دیر ہونے سے گھبرا نہ جاوے۔ پھر حکم کیا: خزانے کھول دیں اور دن رات خیرات کریں۔ پھر ہر ایک کو خلعت اس کے لائق بخشا اور انعام اکرام دیا۔ وزیروں امیروں کو جاگیریں عنایت فرمائیں، مشایخوں کو گاؤں دیے، فقیروں کو روپے، پیادوں کو گھوڑے۔ غرض ایک عالم کو نہال کر دیا اور مالا مال ؎

خوشی میں کیا یہاں تلک زر نثار

جسے ایک دینا تھا بخشے ہزار

اور جشن کی تیاری کو فرمایا۔ نقیبوں نے پہلے تو نقار خانے کے داروغہ سے کہا: حضور کا حکم ہے کہ نوبت خانے کا نئے سر سے ساز و سرنجام درست کرو اور آج سے جشن کی نوبت بجاؤ۔ اس نے وہیں جھلا جھل کے غلاف سنہری رُپہری نقاروں پر چڑھوا دیے اور جو کچھ لازمہ تھا، شتابی درست کروا دیا۔ نقارچی بھی تاش و بادلے کی کرتیاں پہن، جھمجھماتی پگڑیاں باندھ، نقارے سینک سانک بجانے لگے اور اپنا کرتب دکھانے ؎

کہا زیر سے بم نے بہر شگوں

کہ دوں دوں خوشی کی خبر کیوں نہ دوں؟

پھر شہناے چی بھی ویسے ہی کپڑے پہن، سر پیچ معمولی باندھ موافق اُن کے سُر بنا مِلا سہانی سہانی دھنیں سنانے لگے۔ غرض اپجیں چلنے لگیں اور پرنیں نکلنے ؎

ٹکوروں میں نوبت کے شہنا کی دھن

سگھڑ سننے والوں کو کرتی تھی سن

تُرہی اور قرناے خوشی کا دم لگیں بھرنے اور جھانجھ تالیاں بجا بجا تھرکنے۔ از بس کہ شادیانوں کی آواز بلند ہوئی، تمام خلقت شہر کی اکٹھی ہو گئی کہ تھالی سروں پر پھرنے لگی ؎

نئے سر سے عالم کو عشرت ہوئی

کہ لڑکے کے ہونے کی نوبت ہوئی

محل سے لگا تا بہ دیوان عام

عجب طرح کا ایک ہوا ازدحام

جہاں تک گویّے نچویّے سازندے تھے، اپنے اپنے کرتب کے دھنی، بڑے بڑے نائک اور گُنی طنبوروں کے سُر ملا، سِتاروں کے پردے بنا حاضر ہوئے ؎

کیا بھانڈ اور بھگتیوں نے ہجوم

ہوئی ’آہے آہے مبارک‘ کی دھوم

تنت کار بین، رباب، قانون بجانے لگے اور گائک نٹوے ناچنے گانے۔ کنچنیوں، رام جنیوں، چونہ پزنیوں کی اللہ رے کثرت۔ کشمیریوں، نقلیوں، ہیجڑوں کی بھلّا رے بہتات۔ طبلوں کی تھاپ پکھاوج کی گمک، سارنگیوں مچنگوں کی صدا اور گھنگروؤں کی جھنک یہاں تلک بڑھی کہ قلعۂ مبارک میں کان پڑی آواز سنی نہ جاتی تھی، بلکہ گنبدِ فلک بھی گونج اٹھا تھا ؎

خوشی کی زبس ہر طرف تھی بساط

لگے ناچنے اس پہ اہل نشاط

کناری کے جوڑے چمکتے ہوئے

وہ پاؤں کے گھنگرو جھنکتے ہوئے

وہ بالے چمکتے ہوئے کان میں

پھڑکنا وہ نتھنے کا ہر آن میں

وہ گھٹنا وہ بڑھنا اداؤں کے ساتھ

دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ

کبھو دل کو پاؤں سے مل ڈالنا

نظر سے کبھی دیکھنا بھالنا

دکھانا کبھی اپنی چھب مسکرا

کبھی اپنی انگیا کو لینا چھپا

کسی کے چمکتے ہوئے نورتن

کسی کے وہ مکھڑے پہ نتھ کی پھبن

وہ دانتوں کی مسّی وہ گل برگ تر

شفق میں عیاں جیسے شام و سحر

کسی کے آفتاب سے چہرے کی گرمی و شوخی دلوں کو ذرے کی مانند بے چین کیے دیتی تھی ؎

چمکنا گلوں کا صفا کے سبب

وہ گردن کے ڈورے قیامت غضب

کبھی منہ کتئیں پھیر لینا ادھر

کبھو چوری چوری سے کرنا نظر

دوپٹے کو کرنا کبھو منہ کی اوٹ

کہ پردے میں ہو جائیں دل لوٹ پوٹ

ہر ایک تان میں ان کو ارمان یہ

کہ دل لیجیے تان کی جان یہ

کوئی سنگیت کے علم میں طاق، برم جوگ لچھمی کے رویوں کی مشاق پر ملو لے رہی تھی۔ کوئی ڈیڑھ گت ہی کی پھبن دکھا پاؤں تلے تماش بینوں کے دل روندتی تھی۔ کوئی دائرے سے پرن نکال ہاتھوں کا برن اُبھرن دکھا جاتی، کوئی ڈھِمڈھِمی لیے منہدی کے ہاتھوں سے پھرتے چلتے گت ہی بجا جاتی ؎

غرض ہر طرح دل کو لینا انھیں

کئی طرح سے داغ دینا انھیں

کریں مار ٹھوکر، کبھی قتل عام

کبھی ہاتھ اٹھا، لیویں گرتے کو تھام

کسی جگہ کلاونت دھُرپت کبت گیت گا رہے تھے، کسی مقام پر قوّال قول قلبانہ نقش و گل سنا رہے تھے۔ کہیں بھانڈ ولولہوں کا سماں دکھا رہے تھے، کہیں کشمیرنیوں کے طائفے ناچ ناچ رِجھا رہے تھے۔ محل میں بھی راگ رنگ کا ایسا ہی چرچا تھا اور ایک سماں بندھ رہا تھا۔ ایک طرف ڈومنیاں شادیانے دے رہی تھیں، کسی طرف کلاونت بچیاں تانیں لے رہی تھیں۔ جچا خانے میں مبارک سلامت کی دھوم پڑ رہی تھی، مِراسن مالن دائی انگا ایک ایک اپنے اپنے نیگ پر لڑ رہی تھی۔ چھٹھے دن نیک ساعت جچا کو دائیوں خواصوں نے نہلانے کے واسطے پلنگ سے اٹھایا۔ وہ نازک بدن بارِ ناتوانی سے اٹھ نہ سکتی تھی، پھولوں کی ٹہنی کی مانند ادنیٰ جنبش سے لچکتی تھی۔ غرض جوں توں ان کے سہارے سے اٹھی شانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے نقاہت و نزاکت سے لڑکھڑاتی ہوئی بڑے مان مہت سے جڑاؤ چوکی پر آ بیٹھی، نہایت صفائی اور ستھرائی سے نہائی۔

اس کے بعد دائی نے شہزادے کو بھی بہ احتیاط نفاست و ملائمت سے ایک جڑاؤ لگن میں چاؤ چوچلے سے نہلا کر اس کی گود میں دیا اور دونوں کو اسبند کیا، پھر جچا نے سنہری بادلے کا جوڑا بڑی آب و تاب سے پہنا، بچے کو بھی پہنایا اور ایک پٹی جواہر نگار چمکتی ہوئی اپنے سر سے اور ایک اُس کے سر سے باندھی۔ یہ سماں دیکھ کے مجلس کی مجلس کو چکا چوندھ لگ گئی۔ کوئی کہتی تھی چاند تارے کے آس پاس جڑاؤ ہالا پڑا ہے، کسی کی زبان پر یہ تھا کہ مہرِ حسن و کوکبِ خوبی کے گرد نور نے حلقہ باندھا ہے۔

الغرض اس دم ہر زہرہ جبیں حیران تھی اور ہر ایک نازنین سرگرداں۔ پھر سب امیر زادیوں بلکہ تمام محل کی عورتوں نے بھی نہا نہا پوشاکیں بدلیں، بھاری بھاری بناؤ کیے، مجلس نشاط کی اکٹھی ہوئی، ناچ راگ کی صحبت جمی ؎

چھٹھی تک غرض تھی خوشی کی ہی بات

کہ دن عید اور رات تھی شب برات

تمام روز تو یہی چرچا رہا۔ جب رات ہوئی تب اس مہ جبین جچا کو اور بھی بنا چُنا، گھونگھٹ کاڑھ، سہرا باندھ، چومک روشن کرتا رے دیکھنے کو نکالا۔ پھر بادشاہ نے تیر کمان لے سالیوں کو مان گون سے نیگ مِرگ مارا اور اُس مِرگ نینی کے پلنگ پر ایک پاؤں رکھ کر کھڑے ہو رہے۔

غرض وہ اس روپ سے نکلی: داہنے بائیں اس کے دو خواجہ سرا دعائیں پڑھتے ہوئے، ننگی تلواریں ہاتھوں میں لیے پیپلے ملائے، گرد ہزاروں پری پیکریں چمکی چمکائی بناؤ سنگار کیے ہوئے، بیچ میں آپ البیل پنے سے آستے آستے چلتی تھی اور پاؤں تلے ہر ایک کے دل کو ملتی تھی۔ جوں ہیں اس نے تارے دیکھنے کو گھونگھٹ اٹھا دیا، خوب صورتوں کو بھی عالمِ تصویر بنا دیا۔ چاند اُس آفتاب رو کے آگے ماند لگنے لگا اور ہر ایک تارا آسمان پر تھکت رہ گیا ؎

کہاں ماہ میں اُس کے مکھڑے کی جوت؟

چمکتا نہیں آگے موتی کے پوت

لگے اس کو کب شمع کافور کی

وہ تصویر تھی سر بسر نور کی

آخر وہ تارے دیکھ کر جچا خانے میں داخل ہوئی، جہاں پناہ بھی خواب گاہ میں تشریف لے گئے لیکن مجلس شادی کی بدستور قائم رہی۔ رات چہل ہی میں کٹی۔ صبح ہوئے شہزادے کو ایسے مکان میں لے جا کر رکھا جہاں سے آسمان نظر نہ آوے بلکہ دھوپ بھی دکھائی نہ دے۔ غرض جس طرح ہلال بدلی میں چھپا ہوا بڑھتا ہے، اسی طرح یہ ماہ نو آسمانِ سلطنت کا بھی پردوں کے اندر بڑھنے لگا۔ فضل الٰہی سے بہ خیریت سال تمام ہوا، اس نے نام خدا دوسرے میں پاؤں دیا ؎

برس گانٹھ جس سال اس کی ہوئی

دل بستگاں کی گرہ کھل گئی

جب چوتھا برس لگا، دودھ اس کا بڑھایا۔ پھر ویسا ہی جلسہ شادی کا ہوا بلکہ اس سے بھی دونا۔ جس دن وہ سروِ رواں پاؤں چلا، زمین پر گل نے اپنا ماتھا رگڑا اور نرگس نے اپنی آنکھوں کو ملا ؎

لگا پھرنے وہ سرو جب پاؤں پاؤں

کیے بردے آزاد تب اس کے ناؤں

مے ارغوانی پلا ساقیا

کہ تعمیر کو باغ کی دل چلا

یہ داستان باغ بنانے میں پادشاہ کے شہزادۂ بے نظیر کے لیے

جب وہ نونہالِ چمنِ سلطنت پاؤں پاؤں چلنے لگا، حضرت نے میر عمارت کو حکم کیا کہ ایک خانہ باغ ایسا بنے کہ ثانی اس کا گلزارِ جہاں میں نہ نکلے۔ چنانچہ وہ سعادت مند حکم بجا لایا اور ویسا ہی اس نے بنایا۔ اگر باغ ارم اس کی بہار دیکھے، لالہ کی مانند داغِ حسرت اپنے جگر پر سدا لیے رہے اور گلشن فردوس کا چمن جو اس کا عالم مشاہدہ کرے، نرگس کی طرح تمام عمر حیرت ہی میں کاٹے۔ اس کا ہر ایک مکان جنت کا نمونا، صفائی و شفافی سے اس کے پھولوں کی بہار کا عالم دونا۔ اس کے دروں کی محرابوں کے آگے محرابِ ابروے خوباں جھک جائے اور وہاں کے آئینوں کی آب و تاب سے رخسارِ مہ رویاں شرمائے۔ اسلوب دار و خوش قطع ہر ایک ایواں، زربفت و بادلے کے سائبان جہاں تہاں۔ سنہری رُپہری چھتوں کی وہ نمائش، ہر ایک مکان کے نقش و نگار یہ آرائش۔ جسے دیکھ کر نقش و نگارِ ارژنگ دنگ ہو جائے اور نقّاشِ قضا بھی ایک نظارے میں اپنے ہوش کھو جائے ؎

چقیں اور پردے بندھے زرنگار

دروں پر کھڑی دست بستہ بہار

دیکھنے والوں کی نگاہوں کے لیے ان کی تیلیوں کی ساخت جال تھی۔ جس کی آنکھ ان پر پڑی، نظر وہیں رہی نہ اِدھر آ سکی نہ اُدھر جا سکی۔ مقیّشی ڈوریاں ان کی رکھتی تھیں یہ جھمکڑا گویا تارِ نگاہِ ماہتاب سے ان کو بانٹا تھا۔ ہر ایک مکان میں رنگ برنگ کا فرشِ مخملی، جا بجا مسند شاہانہ قرینے سے لگی ہوئی۔ پاے ہوس اس سے آگے قدم نہ دھرے اور پیکِ نظر بھی نقش قدم کی مانند وہیں بیٹھ رہے۔ لخلخے روپے سونے کے روشن ہر ایک مکان میں، جڑاؤ چھپرکھٹ اور پلنگ بچھے ہوئے ہر ایک دالان میں ؎

زمین پر تھی اس طور ان کی جھلک

ستاروں کی جیسے فلک پر چمک

وہاں کی زمین رنگت اور صفا میں صندلِ سفید کے تختے کی برابر اور غبار اُس کا عبیرِ ٹھٹھئی سے خوش بو تر۔ روشیں صاف ستھری ہموار، چبوترے جا بجا خوش قِطع و اسلوب دار۔ سنگ مرمر کی نہر کے آگے موج آب گہر پانی بھرے، آبشار کی چینوں کے روبرو آئینہ رخوں کی چینِ پیشانی عجز سے اپنا ماتھا رگڑے۔ بلور کے حوض صفائی و شفافی میں جوں سینۂ خوباں اور پُر آب مثل دیدۂ عاشقاں۔ چمن پھولوں سے ایک لخت معمور، ایک سی بہار نزدیک اور دور۔ قرینوں سے لگے ہوئے سروِ سہی، درختوں میں پڑے جھولتے سیب و بِہی۔ روشوں پر جھومے ہوئے درخت میوہ دار، سرسبز و شاداب ہر ایک شاخسار ؎

ہواے بہاری سے گل لہلہے

چمن سارے سیراب اور ڈہڈہے

سبزے کا وہ رنگ ڈھنگ جس نے زمرد بنا دیا روش کا ہر ایک سنگ۔ کیاریوں میں پھولوں کی ریل پیل، کہیں سگند راے کہیں راے بیل۔ مدن بان کی جُدی ہی آن بان، موگرے کا ایک ایک پھول عطر دان۔ موتیا کا موتی سا برن، نفاست پر نازاں نسرین و نسترن۔ نرگس کی چتون سے دیدۂ خوباں کو حیرانی، سیوتی کی صفائی سے رخسارِ آئینہ رُخاں پانی پانی۔ چمبیلی بھی پھول پھول اپنا سماں دکھاتی تھی، چمپے کی باس عالمِ بالا تلک جاتی تھی۔ گلِ چاندنی چاندنی کی زیب و زینت، داؤدی کے دیکھے آتی تھی آنکھوں میں طراوت۔ شبو کے پھولوں کی مہک، رات کو جاتی تھی کوسوں تلک۔ گل ارغواں سے شرمندہ لعلِ بدخشانی، گلِ اورنگ اپنے رنگ میں لا ثانی۔ نافرمان کی پھولی ہوئی ہر ایک ڈالی، لالہ کی لالی دنیا سے نرالی۔ کیاریوں کی سوبھا جعفری اور گیندے کی قطار، ہار سنگار پھلواری کا سنگار۔ سوں جوہی کندن سے اشرف، گل اشرفی رکھتی تھی سونے پر شرف۔ جائی جوہی یا سُمن کی باس، بھلائے دیتی تھی بھوکھ اور پیاس۔ قمریاں سرخوشی سے صدائیں کریں، بلبلیں شوق سے چہچہے بھریں۔ آب جوئیں لہراتی ہوئی بہبہی سی پھریں، ڈالیاں مستانی سی ہر ایک روش پر جھک جھک گریں ؎

گلوں کا لبِ نہر پر جھومنا

اُسی اپنے عالم کا منہ چومنا

کھڑے شاخ در شاخ باہم نہال

رہیں ہاتھ جوں مست گردن میں ڈال

وہ آئینہ جو میں دیکھ اپنا قد

اکڑنا کھڑے سرو کا جد نہ تد

خراماں صبا صحن میں چار سو

دماغوں کو دیتی پھرے گل کی بو

چمن اکثر پٹریوں سے ڈہڈہے، ہر ایک روش پر پھول رنگ برنگ کے بچھے ہوئے۔ انگوروں کی بیلوں کا تاکوں پر اینڈتے پھرنا، مے پرستوں کا ان کی طرف تاک لگائے رہنا۔ قاز و قرقرے نہروں کے ادھر ادھر، مرغابیاں پیرتی پھریں جدھر تدھر۔ تالابوں پر بگلوں کی ڈاریں، چاروں طرف کھڑے مور جھنگاریں۔ مول سریاں چاروں کونوں پر پھولی ہوئیں، ڈالیاں نزاکت سے جھولی ہوئیں ؎

چمن آتش گل سے دھکا ہوا

ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا

درختوں نے برگوں کے کھولے ورق

کہ لیں طوطیاں بوستاں کے سبق

سماں قمریاں دیکھ اس آن کا

پڑھیں باب پنجم گلستان کا

اکثر خوب صورت خوب صورت مالنیں بناؤ کیے سونے روپے کے بیلچے ہاتھوں میں لیے، باغ میں پودھے لگاتی تھیں اور اپنی اپنی محبت کا کانٹا دلوں میں چبھاتی تھیں۔ غرض ہر رُت میں وہاں ایک بہار تھی اور اس پھلواری میں خزاں کو کبھو نہ بار تھی۔

جب دودھ بڑھنے کی شادی ہو چکی، جہاں پناہ نے اُس نونہال کو خادمانِ محل سمیت نئے باغ میں بھجوا دیا اور ہر ایک شخص کو ارشاد کیا کہ خبردار! اس گل برگِ گلزارِ خوبی تک گرم باد کو آنے نہ دیجو بلکہ دیدۂ نرگس کے بھی اِسے سامھنے نہ کیجو۔ چنانچہ وے حکم حضور کا بجا لائیں بلکہ اسی دستور پر رہیں۔ باغ کی بہار بڑھ گئی، تازگی میں افزائش ہوئی۔ ہنسی خوشی کا ہر طرف غل، جدھر دیکھو ادھر ایک نئی طرح کا چہل۔ ددا، دائی انگا، چھوچھو، کھلائی ہر ایک مسرور۔ مغلانیاں چمکی چمکائیاں جوان جوان اپنے عہدوں پر مامور۔ گائنیں پاتریں نوجوشیاں بنی چُنی شراب حسن سے سرشار، ایک سے ایک خوب صورت اور طرح دار۔ ہر ایک اپنے کام کی سُرتی، ہر کسی میں شوخی شرارت اور پھرتی۔ جو ہے سو رشکِ پری اور غیرتِ حور، اپنے اپنے حسن کے غرور سے ہر ایک مغرور۔ خواصوں کے غنچے کے غنچے اور پرے کے پرے، روشوں پر پھرتے ہیں ایک انداز سے ورے اور پرے۔ کوئی کسی سے کر رہی ہے مزاخ، کوئی کسی پر مارتی ہے کلاخ۔ کوئی کہتی ہے راے بیل پر ریل پیل ہے۔ کوئی کہہ رہی ہے کہ چنبیلی چاؤ میں آئی ہے۔ کسی زبان پر یہ ہے کہ پھول کلی کی کلی کھلی جاتی ہے۔ ایک طرف چنپا بھچنپا سی چھٹ رہی ہے، کسی طرف نین سکھ کا دیدار نینوں کو سکھ دے رہا ہے۔ کہیں نرگس کی انکھڑیوں کا دیدۂ نرگس مزا لے رہی ہے۔ ہنس مکھ سچ مچ کی ہنس مکھ، تن سکھ کے ملے جاوے دل کا دکھ۔ آبادی دلوں کی آبادی، شادی گھر گھر کی شادی۔ گل چہرہ سدا گل سے ہم چہرہ، شگوفہ باغ حسن کی شگوفہ۔ مہتاب جھمکڑے میں مہتاب سے بالا۔ گلاب گلاب کے پھول سے آب و تاب میں اعلیٰ۔ غرض ہر ایک پہنے اوڑھے سجی سجائی اپنے اپنے عہدے سے خبردار، کاموں میں ہوشیار ؎

ادھر اور ادھر آتیاں جاتیاں

بجاتی پھرے کوئی اپنے کڑے

کہیں ہوئے رے اور کہیں واچھڑے

کہیں چٹکیاں اور کہیں تالیاں

کہیں قہقہے اور کہیں گالیاں

کسی طرف جگت چل رہی ہے، کہیں کوئی منہدی مَل رہی ہے۔ ایک طرف ٹپّا اڑ رہا ہے، کہیں گوکھرو مُڑ رہا ہے۔ کوئی اپنے مکان میں سوت بوٹی بنا رہی ہے، کوئی سینے میں دل لگا رہی ہے۔ کہیں تار توڑے جاتے ہیں، کسی طرف دل جوڑے جاتے ہیں۔ کوئی حقہ ادا سے لگائے بیٹھی ہے، کوئی نہر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہے۔ کہیں ناز نخرے سے پاؤں دھوئے جاتے ہیں، کہیں بالے میں پھول پروئے جاتے ہیں۔ کوئی شرارت سے کسی کو پکار اٹھتی ہے، کوئی حرم زدگی سے کسی کے دھول مار اٹھتی ہے۔ کوئی مُقابا کھولے کنگھی کر رہی ہے، کوئی کسی پر دھیان دھر رہی ہے۔ کہیں آرسی دیکھی جاتی ہے گھڑی گھڑی، کوئی مسّی کی جما رہی ہے دھڑی۔ کسی دالان میں توتا پڑھایا جاتا ہے، کسی سائبان میں مینا کا پنجرا لٹکایا جاتا ہے۔ کہیں کہانی ہے اور کہیں پہیلی، کوئی روش پر کر رہی ہے اٹھکھیلی۔ حاصل یہ ہے کہ اس سروِ رواں کے یُمن قدم سے گلزار میں ہر ایک سمت ایک سماں بندھ رہا تھا اور مزا گٹھ رہا تھا۔ دن رات چہل ہی میں کٹتی تھی، سواے ہنسی خوشی کے دوسری بات نہ تھی۔ ہر چمن میں گویا پریوں کا اتارا تھا اور ہر روش پر اندر کا اکھاڑا ؎

غرض لوگ تھے یے جو ہر کام کے

یہ سب واسطے اس کے آرام کے

بارے کرمِ رب عزت اور ما باپ کی شفقت سے شہزادہ پل نکلا۔ نام خدا پانچواں برس اسے شروع ہوا۔ پھر اسی دھوم سے مکتب کی شادی ہوئی، شہر میں دوچند آبادی ہوئی۔ معلم، اتالیق، خوش نویس اپنے اپنے کام کے صاحب کمال متعین ہوئے۔ شہزادہ پڑھنے لکھنے لگا۔ پانچ برس کے عرصے میں فارسی عربی معقول منقول سب پڑھ چکا بلکہ ہر ایک علم و ہنر میں کامل ہوا۔ چنانچہ لکھنے میں بھی یہ دست رس پیدا کیا کہ نسخ و نستعلیق و شکستہ و تعلیق و خط غبار و خط گلزار ہر ایک بہ خوبی لکھنے لگا، بلکہ ہفت قلم کے رویے اور طریقے اپنے ہاتھوں میں قید کر جوڑ توڑ حروف کے ایسے لگانے لگا کہ جہاں کے خوش نویسوں نے اس کا ہاتھ چوم لیا اور اصلاح لینے کا ارادہ کیا۔ جو قطع اس کے ہاتھ کا تھا، سو ورق بہار تھا اور جو صفحہ مشق کا تھا سو خط گلزار۔ غرض ایسا خفی و جلی کا مشاق ہوا کہ خطِ شعاع مہر کو شرمندہ کیا اور دبیر فلک کو طفل مکتب بنا دیا۔ سادہ رخی ہی میں ہر ایک خط پر ایسی قدرت اور ہر فن میں یہ کچھ مہارت پیدا کی کہ اکثروں کی ڈاڑھیاں سفید ہو گئیں پر مشق ان کی اِس رتبے کو نہ پہنچی۔ تب تو حضرت اعلیٰ نے استادوں کو حضور میں بلوا کر ہر ایک کو خلعت و انعام و اکرام بخشا۔ گاؤں معاف کر دیے کہ تمام عمر آرام سے بیٹھے کھائیں اور کسی طرح کا ہرج نہ اٹھائیں۔ بعد اس کے پہلوان، پھکیت، تیر انداز، چابک سوار بلکہ جتنے فنونِ سپہ گری کے ماہر اور ان پر قادر تھے، شاہ زادے کی خدمت میں اپنے اپنے وقت پر چھوٹنے لگے اور اس کو اقسام کی ورزشیں اور کثرتیں سکھانے ؎

کماں کے جو درپے ہوا بے نظیر

لیا کھینچ چلے میں سب فنِ تیر

صفائی میں سوفار، پیکاں کیا

گیا جب کے تودے پہ، طوفاں کیا

لکڑی کی بھی گھائیاں چھوٹتے ہی ایسی قبضے میں کیں کہ راوتوں کو پھکانے اور استادوں کو سکھانے لگا۔ کُشتی میں یہ طاق ہوا کہ بڑے بڑے پہلوانوں نے اس کے آگے سری ٹیک کی اور زمانے کے شہ زوروں نے پیشانی عجز سے اس کے قدموں پر رکھ دی۔ گھوڑے پر بھی ایسا چڑھنے لگا کہ شہ سواروں کو غاشیہ بردار اور نیزہ بازوں کو بھالے بردار بنا دیا۔ بندوق لگانے پر جو ٹک طبیعت آئی، کئی دن کے عرصے میں آواز پر گولی مارنے لگا۔ اڑتا جانور تو درکنار اور نشانی کا کیا شمار؟

کئی دن میں سیکھا یہ کسبِ تفنگ

کہ حیراں رہے دیکھ اہل فرنگ

پھر موسیقی پر جو دھیان آیا تو چند روز میں ایسا ہی گانے لگا کہ تان اس کی اگر تان سین سنتا تو اپنے کان پکڑ لیتا اور بیجو باؤرا باؤلا بن جاتا۔ لَے تال سب کے سب اس کے ہاتھوں میں قید، ساتوں سُر کے کھلے ہوئے اس پر بھید۔ کھلی مُندی پر بہ خوبی قادر، راگ اس کے رو برو دست بستہ حاضر ؎

رکھا موسیقی پر جو کچھ کچھ خیال

کیے قید سب اپنے ہاتھوں میں تال

مصوری پر بھی علی ہذا القیاس ایسا ہی چت لگایا کہ تھوڑے دنوں میں مانی و بہزاد کا استاد ہو گیا۔ زمانے کے مصور اس کے ہاتھ کا کام دیکھ کر نقش دیوار بن گئے اور قلم اپنی قدرت کے عجز سے اس کے سامھنے ڈال اٹھے۔

القصہ اتنے ہی سن و سال میں دنیا کے کسب و کمال میں طاق اور شہرۂ آفاق ہوا۔ جمال و کمال اس کا جو کوئی دیکھتا درود بھیجتا۔ فی الواقع سراپا اس کا حسن و اخلاق سے معمور تھا اور وہ صاحب نظروں کا منظور ؎

رِذالوں سے، نفروں سے نفرت اسے

سدا قابلوں ہیں سے صحبت اسے

گیا نام پر اپنے وہ دل پذیر

ہر ایک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر

پلا ساقیا مجھ کو ایک جام مُل

جوانی پہ آیا ہے ایام گل

غنیمت شمر صحبت دوستان

کہ گل پنج روز است در بوستان

ثمر لے بھلائی کا گر ہو سکے

شتابی سے بو لے جو کچھ بو سکے

کہ رنگ چمن پر نہیں اعتبار

یہاں چرخ میں ہے خزان و بہار

یہ داستان سواری کی تیاری میں

جب گیارہ برس خیریت سے گذرے، بارھواں برس آیا۔ الحمد للہ! جس دن کی آرزو تھی سو کریم نے ساتھ خوشی کے دکھایا۔ شادی محل میں چاروں طرف مچ گئی، مبارک بادی کی صدا پھر بلند ہوئی ؎

پڑی جب گرہ بارھویں سال کی

کھلی گل جھڑی غم کے جنجال کی

چار گھڑی دن رہے عرض بیگی کو بادشاہ نے ارشاد کیا کہ صبح سواری مبارک بڑے جلوس سے تیار ہو کہ مَیں شہزادے کو لے کر سوار ہوں گا، تا رعیت اور سپاہ اس کا دیدار دیکھ کر شاد ہو اور بستی ان کے دل کی بھی آباد۔ تم نقیبوں کو تقید کرو، گھر گھر یہ حکم پہنچاویں اور ہر ایک چھوٹے بڑے کو جتاویں کہ زرق برق سے نکلے اور تمام اسباب سواری کا بھی نیا اور جگمگا ہو۔ خبردار ایک سوار میلا اور ایک گھوڑے کا زین پرانا نظر نہ آوے۔ احیاناً کسی کو اس وقت اگر کوئی چیز میسر نہ آوے تو سرکار سے بے تکلف لیوے کہ ما بدولت کی مرضی اور خوشی اسی میں ہے ؎

کریں شہر کو مل کے آئینہ بند

سواری کا ہو نور جس سے دو چند

اتنے میں شام پڑی، آفتاب والشمس پڑھ کے سجدۂ شکر میں گیا اور مہتاب سورۂ نور پڑھتا ہوا نکلا۔ حضرت محل میں تشریف لے گئے۔ تمام رات ناچ راگ رہا۔ مارے خوشی کے محل میں کوئی نہ سُوا ؎

عجب شب تھی وہ جوں سحر رو سفید

عجب روز تھا مثل روزِ امید

القصہ رات آخر ہوئی، چاند نے بالینِ استراحت پر اپنا سر رکھا اور سورج بڑی چمک تمک سے آنکھیں ملتا ہوا اٹھا ؎

کہا شاہ نے اپنے فرزند کو

کہ بابا نہا دھو کے تیار ہو

پلا آتشیں آب پیر مغاں

کہ بھولے مجھے گرم و سردِ جہاں

اگر چاہتا ہے مرے دل کا چین

نہ دینا وہ ساغر جو ہو قُلّتین

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید