اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


ہم عصر علمی و ادبی جرائد کے تناظر میں خرد افروز ’’نگار‘‘ کی انفرادیت ۔۔۔ ڈاکٹر ممتاز کلیانی

ایک عہد ساز جریدے پر ایک اہم کتابچہ

ہم عصر علمی و ادبی جرائد کے تناظر میں خرد افروز ’’نگار‘‘ کی انفرادیت

از قلم

ڈاکٹر ممتاز کلیانی

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں……

 

اقتباس

بر صغیر میں اردو کے ادبی رسائل کی تاریخ میں ’’نگار‘‘ فروری ۱۹۲۲ء میں، اُس وقت طلوع ہوا جب ملک کے ہر علاقے سے اردو کے ادبی جرائد کی ایک معقول تعداد زبان و ادب کی خدمت کے لئے مصروفِ عمل تھی۔ بعض اہم اور رجحان ساز رسائل ’’نگار‘‘سے پہلے اردو ادب کے اُفق پر روشنی بن کر جگ مگ کر رہے تھے اور بعض ’’نگار‘‘ کے بعد اپنے مخصوص و محدود مقاصد کے تحت مطلع ادب پر نمودار ہوئے اور کچھ عرصہ تک اردو زبان و ادب کی خدمت کے با ب میں اپنی بہارِ جاں فزا دِکھلا کر امتدادِ زمانہ کا شکار ہو کر منظر سے غائب ہو گئے۔ 

’’نگار‘‘ اپنے ہم عصر رسائل میں سے واحد ادبی جریدہ ہے جو فروری ۱۹۲۲ء سے تا حال (۲۰۰۰ء) اپنی ماہانہ اشاعتوں سے باقاعدگی کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ ماہانہ اشاعتوں کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرنے والے رسائل میں سے ’’ہمایوں‘‘ جنوری ۱۹۲۲ء سے ۱۹۵۷ء تک شائع ہو کر بند ہو چکا ہے۔ اس دوران میں بھی اس کی اشاعتوں میں وقفے آتے رہے ہیں۔ ’’نیرنگِ خیال‘‘ جنوری ۱۹۲۴ء میں لاہور سے جاری ہوا۔ مختلف اوقات میں اس کے مختلف مدیر رہے ہیں۔ اسے ایک اعتبار سے طویل العُمر ادبی جریدہ کہہ سکتے ہیں لیکن اب بہت عرصے سے اس کی ماہانہ اشاعت کے باقاعدہ سلسلے میں تعطل آ چکا ہے۔

’’ادبی دنیا‘‘ ۱۹۲۹ء میں شائع ہونا شروع ہوا۔ کچھ ہی عرصہ بعد اس کی اشاعت میں تعطل آ گیا۔ ۱۹۵۹ء سے یہ سہ ماہی ادبی جریدے کے طور پر شائع ہونے لگا۔ اس کی کل عمر چوالیس سال بنتی ہے۔

’’ساقی‘‘ شاہد احمد دہلوی کی ادارت میں ۱۹۳۰ء میں دہلی سے جاری ہوا۔ آزادی کے وقت ۱۹۴۷ء میں اس کی اشاعتوں میں بھی تعطل آنا شروع ہوا۔ شاہد احمد دہلوی کی وفات ۱۹۶۷ء کے بعد اس کے چند شمارے ہی منظر عام پر آ سکے۔ آزادی سے پہلے اور بعد اس کی کل زندگی چالیس سال بنتی ہے۔

’’نگار‘‘ کے ہم عصر رسائل زبان و ادب کی خدمت کے سلسلے میں اگرچہ اپنا منفرد کردار رکھتے ہیں لیکن اپنے اس انفرادی کردار کو ’’نگار‘‘ کی طرح طویل عرصہ تک نباہنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ’’نگار‘‘ فروری ۱۹۲۲ء میں آگرہ سے طلوع ہوا تو اس کے مدیر علامہ نیاز فتح پوری کے ذہن میں اردو کی ادبی و صحافتی دنیا میں محض ایک پرچے کا اضافہ کرنا نہیں تھا بلکہ وہ اسے تشنگانِ علم و ادب کی پیاس بجھانے کا ایک اہم وسیلہ بنانے کے عزم کے ساتھ اس پُر خار وادی میں آئے تھے۔ ’’نگار‘‘ کے اجراء سے پہلے وہ مختلف رسائل کے ادارتی عملہ میں شامل رہے تھے اور یہ مشاہدہ و تجربہ کر چکے تھے کہ خالص ادبی رسالے کی صورت میں طویل عرصہ تک مطلعِ ادب پر قائم رہنا اب مشکل ہو چکا ہے۔ معاشرے کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ رسالے کی ادبی جہتوں کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشرتی علوم کو بھی جگہ دی جائے۔ چنانچہ ’’نگار‘‘ کے بانی مدیر علامہ نیاز فتح پوری نے ایسا ہی کیا۔ اور اس کے نتیجہ میں ’’نگار‘‘ اپنی چند اشاعتوں کے بعد نہ صرف مالی لحاظ سے خود کفیل ہو گیا بلکہ اس کے قارئین کا حلقہ اس قدر وسیع ہو چکا تھا کہ بعد کی زندگی میں بینکوں کے دیوالیہ ہو جانے سے ’’نگار‘‘ کا اثاثہ ڈوبا بھی تو اس کی اشاعت میں تعطل نہیں آیا۔ ’’نگار‘‘ اپنے قارئین کی بھرپور معاونت سے اپنی روز افزوں ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ ادبی اور مذہبی مناقشوں سے ایک آدھ دفعہ ’’نگار‘‘ کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوا مگر بانی مدیر کے حلم اور برداشت نے اس کی راہ کھوٹی نہیں ہونے دی۔

’’نگار‘‘ آگرہ سے ۱۹۲۳ء میں بھوپال آ گیا۔ ۱۹۲۷ء میں بھوپال سے لکھنؤ منتقل ہوا۔ لکھنؤ میں یہ جولائی ۱۹۶۲ء تک باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ فروری ۱۹۲۲ء سے جولائی ۱۹۶۲ء تک نیاز فتح پوری کی شب و روز کی مصروفیتوں کا محور ’’نگار‘‘ ہی رہا۔ اس عرصہ میں ’’نگار‘‘ نے اپنی اولین اشاعت سے علم و ادب کا جو معیار پیش کیا تھا، اُس میں برابر اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ’’نگار‘‘ اور نیازؔ کے معیار پر پورا اترنا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ بقول ڈاکٹر محمد احسن فاروقی

’’نگار لکھنؤ کی ذہنی زندگی کے عجائبات میں سے تھا۔ اونچے طبقے میں صاحبِ علم اور صاحبِ ذوق ہونے کی پہچان یہ تھی کہ ’’نگار‘‘ کا خریدار ہو اور نیازؔ صاحب کی رایوں پر بحث کر سکتا ہو۔ ’’نگار‘‘ محض ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک رجحان اور ایک قدر تھا۔ ’’نگار‘‘ کا نام ندوۃ العلماء، سلطان المدارس اور لکھنؤ یونیورسٹی کے ساتھ لیا جاتا تھا اور ’’نگار‘‘ میں مضمون چھپ جانا ویسا ہی تھا جیسے کہ ان علمی اداروں سے سند مل جائے۔‘‘ (۱)

ادبی دنیا میں نئی روایتوں اور تحریکوں کا باعث عام طور پر ادبی رسائل ہی رہے ہیں۔ اردو میں ’’تہذیب الاخلاق‘‘، ’’مخزن‘‘ اور ’’نیا ادب‘‘ کی مثالیں موجود ہیں۔ ’’نگار‘‘ اگرچہ کوئی نئی تحریک پیش نہیں کر سکا مگر ’’نگار‘‘ اپنے کردار کے حوالے سے بعض تحریکوں کو موثر بنانے میں معاون و مدد گار ضرور رہا ہے۔

اُردو میں رومانی تحریک کو ’’مخزن‘‘ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس رومانی تحریک کو پروان چڑھانے میں سجاد حیدر یلدرم، مہدی افادی، ابوالکلام آزاد کے پہلو بہ پہلو نیاز فتح پوری اور ’’نگار‘‘ کا نام بھی آتا ہے۔ ’’نگار‘‘ کی روشن خیالی کی روایت کے ساتھ احساسِ جمال کی روایت اردو میں رومانی نثر میں اضافے کا باعث بنی ہے۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعے سر سید احمد خان نے موضوع اور فکر کے حوالے سے جن رجحانات کو اردو ادب میں رواج دیا تھا ان کے منطقی نتیجے یا ردِّ عمل نے رومانیت کو جنم دیا۔ لیکن نیازؔ کا ’’نگار‘‘ ان دونوں تحریکوں کا حسین امتزاج ہے۔ آزادی فکر اور روشن خیالی نیاز کے یہاں مرصع اور رنگین اسلوب کی چاشنی لئے ہوئے ہے۔ زبان و بیان، مواد اور موضوعات کی پیش کش کے حوالے سے ’’نگار‘‘ کی خدمات پہلے سے موجود اور بعد میں طلوع ہونے والے سبھی رسائل سے اس لئے منفرد ہیں کہ اس نے زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج کا ساتھ اس طرح دیا کہ جدیدیت اور کلاسیکیت، دونوں کو یکساں طور پر اپنے ہاں فروغ دیا۔

قدیم و جدید کے اس خوبصورت امتزاج کا باعث ’’نگار‘‘ کے مدیر علامہ نیاز فتح پوری تھے۔ جن کا مطالعہ اردو، عربی، فارسی اور دیگر زبانوں کے قدیم و جدید ادب کے ساتھ ساتھ یورپ کے جدید علوم اور زبانوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اقدار کے حوالے سے اگر وہ مشرق کے دلدادہ تھے تو علوم کی ترقی اور سماجی ترقی میں مغرب کی کوششیں بھی اُن کو متاثر کئے ہوئے تھیں۔ ’’نگار‘‘ کے دورِ نیاز کا جائزہ یہ واضح کرتا ہے کہ نیازؔ نے اپنے ادبی جریدے کے ذریعے اُس علم و ادب کو فروغ دیا جو تعصبات سے بالاتر ہو کر فکر کی نئی راہیں سُجھاتا ہے، ترقی کے منازل تک لانے میں مددگار ہوتا ہے۔ قنوطیت کے اندھیروں سے نکال کر فکر و نظر کی روشنیوں سے معاشرے کو منور کرتا ہے۔ ’’نگار‘‘ میں فرد کی تہذیب و تطہیر میں حُسن و جمال کی اثر آفرینی ایک مثبت قدر کے طور پر نظر آتی ہے۔ عقل و خرد اور نزاکتِ خیال کی تمام جہتوں کو خوش دلی اور خوش خیالی کے حوالوں سے محترم اور مقدم جانا جاتا ہے۔ بحث و تمحیص اِس کے ہاں علوم کی گرہ کشائیوں کے لئے وسیلے کے طور پر معزز و محترم ٹھہرتی ہے۔ بزرگی احترام کا لبادہ اوڑھ کر یک طرفہ ٹریفک کے اصول پر عقیدت کے پھولوں کی وصولی پر انحصار نہیں کرتی بلکہ بزرگ بننے کے آداب و انداز سکھانے میں دستگیری بھی کرتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نیازؔ و نگارؔ نے اپنے ارتقائی سفر میں جس پہلو کو سب سے زیادہ روشن رکھا وہ روشن خیالی، خرد افروزی اور لبرل ازم کا تھا اور اس نے اردو زبان و ادب کا دامن اس قدر وسیع کر دیا کہ علوم کے سبھی شعبے اس میں سمٹ آئے۔

’’نگار‘‘ ہر لحاظ سے منفرد خصوصیات کا ایک علمی و ادبی جریدہ تھا۔ اس کے مدیر علامہ نیازؔ کی اپنی مخصوص فکری جہت تھی۔ انہوں نے اپنی ادارت کے تمام عرصہ میں قارئین کو جمالیاتی آسودگی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے ذہنی افق کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ اُن کی اس طرح کی کوششوں کا عملی اور ٹھوس ثبوت ’’نگار‘‘ کے وہ خاص کالم ہیں جو مستقل طور پر مدیر کی فکر و نظر کا نتیجہ ہوتے تھے۔ اس طرح کے کالموں میں اولیت ’’ملاحظات‘‘ کو حاصل ہے۔

’’ملاحظات‘‘ کے تحت مدیر نگار، حالاتِ حاضرہ کے معاملات و مسائل پر روشنی ڈالتے تھے۔ ’’ملاحظات‘‘ میں قومی اور بین الاقوامی سیاست کے نشیب و فراز پر روشنی ڈالی جاتی اور ہندوستان کے اردو خواں طبقے کو پیش آمدہ سیاسی تبدیلیوں سے باخبر رکھا جاتا۔ ملاحظات میں سیاست کے علاوہ زندگی کے دوسرے مسائل عقل، وجدان، مذہب اور معاشرت کے موضوعات پر بھی اظہارِ خیال کرتے اور نیازؔ ان میں اپنے وسیع مطالعے کی اساس پر تعصب، تنگ نظری اور جہالت کے اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ’’نگار‘‘ کی یہ نظریاتی جہت نیاز ؔ فتح پوری کے تمام عرصۂ ادارت کے دوران مستقل طور پر قائم رہی۔ اور بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ ’’نگار‘‘ کے ’’ملاحظات‘‘ کی خاطر بہت سے لوگ ’’حلقہ نگار‘‘ میں شامل ہو گئے۔ نظریاتی جہت کا یہ تسلسل عُمر کے تسلسل کی طرح ’’نگار‘‘ کے حصے میں ہی آیا۔ وگرنہ اردو کے دیگر جرائد میں مدیر کی تبدیلی کے ساتھ ہی رسالے کی نظریاتی جہتیں بھی بدل جاتی رہی ہیں۔ نظریاتی جہتوں کے بدلنے کے ساتھ ہی بہت سے قارئین رسالے کے ساتھ اپنا تعلق ختم کر لیتے ہیں جب کہ ’’نگار‘‘ کا حلقہ اثر آغاز سے طویل عرصہ تک ایک جیسا ہی رہا۔ بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہا۔

’’نگار‘‘ کی علم و ادب کی خدمات کا ایک اور منفرد پہلو اس کا کالم ’’باب الاستفسار‘‘ تھا۔ اس کالم کی نوعیت تعلیمی تھی اس میں قارئین کی تاریخی، ادبی اور علمی الجھنوں کو ان کے بھیجے گئے سوالات کی روشنی میں حل کیا جاتا تھا۔ اس کالم کے پس پردہ مقاصد میں روشن خیالی اور خرد افروزی کا فروغ تھا۔ اردو کے ادبی جرائد کی تاریخ میں یہ ’’نگار‘‘ کی عطا ہے کہ اس نے عام قارئین کو انسائیکلوپیڈیائی علم سے روشناس کرایا۔ ’’نگار‘‘ کے اس کالم کی اہمیت و افادیت کی درجہ جاتی تقسیم برائے تفہیم کرتے ہوئے ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں،

’’۱- یہ باب نیازؔ اور نگارؔ کے اس مسلک اور نصب العین کا مظہر ہے، جس کے مطابق سوالات کی حوصلہ افزائی دراصل فکری ارتقاء اور خرد افروزی کے عمل کو تقویت دیتا ہے۔

۲- یہ دروازہ ادیبوں، شاعروں اور عالموں پر نہیں کھلتا بلکہ ہر سطح کے سوال پر وا ہوتا ہے۔

۳- موضوع اور سوال کے اسلوب کی کوئی قید نہیں۔

۴- انسائیکلوپیڈیائی معلومات کی روایت اردو میں نہیں تھی۔

۵- باب الاستفسار میں اٹھائے گئے سوالات فکری و ادبی مباحث کے روپ میں بہ صورت مضامین ’’نگار‘‘ اور معاصر جرائد میں شامل ہوئے۔‘‘ (۲)

’’نگار‘‘ کے منفرد کردار کا حامل ایک اور اہم سلسلہ ’’ما لہٗ و ما علیہ‘‘ تھا جس میں ’’نگار‘‘ کے مدیر ہم عصر شعرا کے کلام کے محاسن و معائب کو زیر بحث لاتے تھے۔ زبان و بیان اور خیال کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزہ لیا جاتا۔ نیازؔ کی اس طرح کی تنقید کو لفظی تنقید کہا گیا۔ شعر کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھنے میں ’’نگار‘‘ کا یہ انداز اردو کے دیگر ادبی جرائد میں نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شعر کی فہم اور علمِ عروض میں جس استدراک کی ضرورت ہوتی ہے وہ نیازؔ کے سوا اس دور کے دوسرے مدیروں میں نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ ادب کے اعلیٰ تصور کو قائم رکھنے میں نیازؔ کے مرتبہ کا بے باک اور نڈر مدیر بھی نیازؔ کے سوا کوئی دوسرا نہیں ملتا۔

’’نگار‘‘ کی روایت میں ایک اور کالم ’’باب الانتقاد‘‘ اس لحاظ سے اہم اور منفرد ہے کہ اس میں مختلف کتابوں اور رسالوں پر تنقید و تبصرہ کیا جاتا تھا۔ یہ تبصرے ’’نگار‘‘ کے مدیر کے علاوہ علم و ادب کی بعض اہم شخصیات تحریر کرتی تھیں۔ اس میں کتابوں کے تعارف سمیت اس کی اہمیت کے پیش نظر گہری تنقیدی نظر ڈالی جاتی تھی۔ جس سے موضوعِ بحث کے داخلی فنی اور موضوعاتی حُسن و قبح واضح ہو کر سامنے آ جاتے۔ ان تبصروں سے نہ صرف مصنف کو رہنمائی ملتی بلکہ مصنف اور اس کی تصنیف کی دنیائے ادب میں حیثیت کا تعین بھی ہو جاتا۔ اکثر و بیشتر یہ تبصرے متوازن انداز میں کئے جاتے لیکن بعض دفعہ ان تبصروں سے ادبی چشمک کے دروازے بھی کھُل جاتے لیکن نیازؔ جس بات کو سچ جانتے اس کا مدلّل انداز میں دفاع بھی کرتے، اس طرح ’’نگار‘‘ کا یہ کردار اُبھر کر سامنے آیا کہ بحث و تمحیص ادب کی مثبت قدر ہے اور مثبت قدروں کے فروغ میں ’’نگار‘‘ اپنے کردار میں بددیانتی کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔

’’نگار‘‘ کی روایت میں نئی کتابوں اور رسائل پر تبصرے کا کالم ’’مطبوعات موصولہ‘‘ بھی باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ اس کالم کے ذریعے علوم و فنون کے سبھی موضوعات کی کتابیں تعارف و تبصرے کے لئے قارئین کے سامنے پیش ہوئیں۔ ’’نگار‘‘ کے یہ تبصرے کتاب کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرتے اور قارئین میں کتاب دوستی کے ذوق کو پروان چڑھانے میں معاون بنے ہیں۔

تخلیقی ادب میں ’’نگار‘‘ اپنی ابتدائی زندگی میں رومانی افسانہ اور رومانی نثر کو فروغ دینے میں رومانی تحریک کا معاون رہا ہے۔ ترقی پسند تحریک کے زمانے میں ترقی پسند ادب کے فروغ میں ’’نگار‘‘ اس حد تک معاون رہا ہے کہ اعلیٰ ادبی معیار کی حامل تحریریں اس کے صفحات میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ ترقی پسند تحریک کے حوالے سے ’’نگار‘‘ کا کردار اُردو کے دیگر ادبی رسائل کے مقابلے میں یوں بھی منفرد ٹھہرتا ہے کہ اس تحریک کے بنیادی مقاصد میں مظلوم اور پس ماندہ لوگوں کی زندگیوں کے مسائل و مصائب کی پیش کش سے متعلق ادب کی افادی قدروں کو اہم جانا گیا۔ ان قدروں کی بازیافت میں سماج کی استعماری قوتوں کے خلاف جہاد اور اس جہاد کی اثر پذیری کے لئے ادبی نعرہ بازی اس کا اہم تعارفی حوالہ بنا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک معقول تعداد اس حقیقت کا ادراک رکھتی ہے کہ مذہب اور ملائیت کا کردار نیم خواندہ معاشرے میں استعماری طاقتوں کا آلہ کار رہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ استعماری طاقتوں اور ان کے آلہ کاروں کا براہِ راست ٹکراؤ روشن خیالی، خرد افروزی اور لبرل ازم کی روشن قدروں سے ہوتا ہے۔ ان روشن قدروں کو عام کرنے کا آغاز ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ آغاز سے بہت پہلے نیازؔ ’’نگار‘‘ کے اجراء ۱۹۲۲ء سے کر چکے تھے۔ یوں ترقی پسندی کی حقیقی قدروں کی اشاعت و ترویج میں ’’نگار‘‘ کو ترقی پسند تحریک کے مقابلے میں بھی اولیت حاصل ہے۔ انیسویں صدی میں اس طرح کا کردار بہت تھوڑے عرصہ کے لے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ نے نبھایا تھا۔ بیسویں صدی میں یہ کردار ’’نگار‘‘ کی منفرد خصوصیت رہا ہے۔

’’نگار‘‘ میں تنقیدی ادب کا روشن تر پہلو اصنافِ ادب اور ادبی شخصیات پر نئے و پرانے لکھنے والوں کے وہ ہزاروں صفحات ہیں جو ’’نگار‘‘ کی اٹھہتر سالہ زندگی میں پھیلے ہوئے ہیں اس سے پہلے واضح کیا جا چکا ہے کہ ’’نگار‘‘ میں لکھنا باعثِ افتخار رہا ہے۔ چنانچہ ’’نگار‘‘ کے صفحات جن ادباء کے رشحاتِ قلم سے جگمگا رہے ہیں ان کی ایک طویل فہرست ہے اِس کے لئے الگ سے ایک ضخیم مقالے کی ضرورت ہے۔

’’نگار‘‘ کی اہم ترین روایت میں اس کے موضوعاتی خاص نمبروں کی مستحکم روایت ہے۔ ’’نگار‘‘ کے خاص نمبروں کی روایت کے آغاز سے پہلے اردو کے بعض ادبی رسائل اس روایت کا آغاز کر چکے تھے۔ لیکن خاص نمبر جس باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ ’’نگار‘‘ نے شائع کیے ہیں وہ کوئی اور ادبی جریدہ شائع نہیں کر سکا۔ ’’نگار‘‘ اب تک اٹھہتر خاص نمبر سالناموں کی صورت میں شائع کر چکا ہے۔ ان میں سے سینتیس خاص نمبر ’’نگار‘‘ کے دورِ اولیں یعنی نیاز فتح پوری کے دور میں شائع ہوئے ہیں جب کہ اکتالیس خاص نمبر دورِ جدید یعنی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے دور میں شائع ہوئے ہیں۔ خاص نمبروں کے حوالے سے علامہ نیاز فتح پوری نے یہ جدت پیدا کی تھی کہ سال کے آغاز میں یہ نمبر شائع ہو جاتے تھے اور پھر سال بھر تک دنیائے ادب میں اپنے موضوع و مواد کے حوالے سے زیر بحث رہتے تھے۔ ’’نگار‘‘ کی اس علمی و ادبی روایت میں تین صورتیں بڑی نمایاں رہی ہیں۔

۱- شخصیات سے متعلق خاص نمبر

۲- اصناف سے متعلق خاص نمبر

۳- موضوعات سے متعلق خاص نمبر

’’نگار‘‘ نے اپنے خاص نمبروں کی روایت کا آغاز ’’مومن نمبر‘‘ ۱۹۲۸ء سے کیا تھا۔ ’’نگار‘‘ کے تمام خاص نمبروں کے انتقادی جائزہ کے بعد یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ ’’نگار‘‘ کے خاص نمبروں نے ایسا علمی و ادبی شعور پیدا کیا جو اردو کی ادبی تاریخ، تنقید اور تحقیق کے فروغ میں بہت زیادہ معاون و مددگار ثابت ہوا۔ ’’نگار‘‘ کے خاص نمبروں کی اس روایت سے متعلق ڈاکٹر انور سدید کی یہ رائے بجا طور پر درست ہے کہ،

’’ان نمبروں کو مستقل نوعیت کی تصنیفات کا درجہ حاصل ہے۔ ادبی صحافت میں موضوعات پر خاص خاص اشاعت پیش کرنے کی یہ پہلی مثال تھی اور اس اختراع کا سہرا نیاز کے سر ہے۔‘‘(۳)

اسی طرح ’’نگار‘‘ کے عمومی کردار اور اس کے خاص نمبروں کے اردو ادب میں کردار کا جائزہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر سید جاوید اقبال کا محاکمہ بھی قابلِ ذکر ہے،

’’علامہ نیاز فتح پوری ایک مختلف قسم کے مدیر تھے ان کا مفاد نہ تو جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام سے وابستہ تھا اور نہ سوشلزم یا کسی اور نظام سے، وہ دائیں اور بائیں بازو کی سیاست سے بھی آلودہ نہیں تھے اس لئے کہ وہ حقیقت میں آزاد مرد تھے اسی لئے انہوں نے آزادی کے ساتھ اردو زبان و ادب کے حوالے سے وہ کام کئے جس کی ضرورت تھی۔ جو باتیں عام شماروں میں کہنے کی تھیں وہ عام شماروں میں کہیں جو خاص میں کہنے کی تھیں وہ خاص شماروں میں کہیں، اگر کسی خاص نمبر میں بہت سے لوگوں سے لکھوانا تھا، تو بہت سے افراد سے لکھوایا، جہاں سارا نمبر خود لکھنا تھا، خود لکھ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’نگار‘‘ میں شامل نیازؔ سمیت دیگر لکھنے والوں کی تحریریں فنی اور موضوعاتی لحاظ سے ایک خاص شعور کی آبیاری کرتی ہیں اسی لے ’’نگار‘‘ کے خاص نمبروں میں تنوع، علمیت، تنقید و تحقیق کے اعلیٰ معیار کے ساتھ جدت اور وقار ملتا ہے، ابتداء سے لے کر آج تک۔‘‘ (۴)

علامہ نیاز فتح پوری مذکورہ بالا ادبی روایات و خدمات کے ساتھ ’’نگار‘‘ کو چالیس سال تک لکھنؤ سے شائع کرتے رہے پھر ناگاہ نیازؔ لکھنؤ سے ہجرت کر کے ۱۹۶۲ء میں کراچی آ گئے۔ کراچی میں اُن کی آمد سے پہلے ڈاکٹر فرمان فتح پوری ’’نگار‘‘ لکھنؤ کا پاکستانی ایڈیشن جولائی ۱۹۶۲ء میں منظر عام پر لا چکے تھے۔ نیاز فتح پوری جولائی ۱۹۶۲ء کا ’’نگار‘‘ لکھنؤ سے نکال کر آئے تھے۔ اگست ۱۹۶۲ء کا پرچہ انہوں نے یہاں کراچی سے آ کر شائع کیا۔ کراچی میں ’’نگار‘‘ کی ترتیب و تدوین اور اشاعت میں نیاز فتح پوری کے مستعد معاون ڈاکٹر فرمان فتح پوری تھے۔ نیازؔ اپنی پاکستان آمد کے چار سال بعد مئی ۱۹۶۶ء میں راہی عدم ہوئے۔ لیکن اپنے پاکستان کے عرصہ قیام میں ’’نگار‘‘ کی مسلسل اشاعت اور روز افزوں ترقی میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی مساعی جمیلہ پر شاداں و فرحاں تھے کہ انہیں اپنی زندگی ہی میں ’’نگار‘‘ کا لائق جا نشین میسر آ گیا تھا۔

’’نگار‘‘ لکھنؤ سے کراچی آ جانے کے بعد ’’نگار پاکستان‘‘ ہو گیا۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری جون ۱۹۶۶ء سے تا حال ’’نگارِ پاکستان‘‘ کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ جامعاتی تدریس سے وابستہ رہنے کے سبب سے ’’نگار پاکستان‘‘ کی روایات میں تنقید و تحقیق کی جہت کا معتدبہ اضافہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی دین ہے۔ ’’نگار پاکستان‘‘ کے ابتدائی خاص نمبروں ’’نیاز نمبر‘‘ ۱۹۶۳ء، ’’تذکروں کا تذکرہ نمبر‘‘ ۱۹۶۴ء، ’’جدید شاعری نمبر‘‘ ۱۹۶۵ء اور ’’اصنافِ ادب نمبر ۱۹۶۶ء سے ہی اردو زبان و ادب کے لئے ’’نگار‘‘ کی تحقیقی روایات کے شاندار دور کا آغاز ہوا۔ ان خاص نمبروں کی اشاعت ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کے بدولت ممکن ہوئی۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری، علامہ نیاز فتح پوری کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے۔ اسی عقیدت کے باعث ہی وہ آج تک مشکل سے مشکل حالات میں بھی ’’نگار‘‘ کو شائع کرتے آ رہے ہیں۔ ’’نگار‘‘ کے لئے علامہ نیاز فتح پوری کے متعین کردہ معیار کو بہ ہر صورت قائم رکھے ہوئے ہیں۔ بعض موضوعات میں ’’نگار‘‘ کا دورِ جدید، دورِ اول سے بہتر معیار دنیائے ادب کے سامنے پیش کر رہا ہے۔

***

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید