یورپ کے ملک فن لینڈ کی تعلیم کے بارے میں تحقیقاتی کتاب
فِن لینڈ کا نظامِ تعلیم
از قلم
محمود الحسن عالمی
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
عوامی جمہوریہ فن لینڈ شمالی یورپ میں واقع ایک خود مختار اور آزاد فلاحی ریاست ہے۔ فن لینڈ کا ہلسنکی شہر آبادی کے اعتبار سے فن لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ فنش دار الحکومت ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔ فن لینڈ نے روس سے آزادی حاصل کرتے ہوئے اپنا پہلا یومِ آزادی 6-دسمبر-1917ء کو منایا۔ اِس کی سرکاری زبانوں میں ’فنش‘ اور ’سویڈش‘ شامل ہے۔ اِس کے جنوب میں خلیج فن لینڈ (سوؤمِن لاھتی)، شمال میں ناروے (نوریا)، مشرق میں روس (وینایا) اور مغرب میں سمندر اور سوئیدن (روؤتسی) واقع ہیں۔ فن لینڈ کی کُل آبادی تقریباً 55 لاکھ اور جغرافیائی رقبہ تقریباً 338,455 km² ہے۔ آپ سرِ زمین فن لینڈ کو جھیلوں کی سرزمین بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ قدرت نے اِسے تقریباً 187,888 انتہائی پُر کشش، دلنشین اور بے نظیر جھیلوں سے بڑی تعداد میں نواز رکھا ہے، جن کی بہتی جوانی کی کشش ہر سال متجسس سیاحوں کی ایک بڑی تعداد کو فن لینڈ میں اپنی طرف کھینچ لاتی ہیں۔ لیکن آپ یقین کیجیے کہ اگر آج میرا قلم فن لینڈ کے اِس رسمی تعارف کے حوالے سے جنبش میں آیا ہے۔ تو اِس جنبشِ قلم کی وجہ وہ بانہیں پھیلاتی، مچلتی ہوئی فنش جھیلیں نہیں بلکہ اِس کا وہ بہترین ملکی تعلیمی نظام ہے جو مجھے فن لینڈ کی اُن پُر کشش جھیلوں سے بھی زیادہ پُر کشش، مُتاثر کن اور دلفریب لگتا ہے جو اِسے صرف شمالی یورپ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے بین الاقوامی تعلیمی نظاموں میں ممتاز، اعلیٰ اور قابلِ تحسین بناتا ہے۔
فن لینڈ 2000ء سے 2018ء تک ’’پیسا ٹیسٹ‘‘ میں لگاتار شرکت کر رہا ہے۔ ’’پیسا ٹیسٹ‘‘ ’’پروگرام فار انٹرنیشنل سٹوڈینٹ اسیسمینٹ ٹیسٹ‘‘ کا مخفف ہے۔ یعنی کہ یہ دنیا کا سب بڑا عالمی امتحان ہے کہ جس میں خود کو تعلیمی لحاظ سے ترقی یافتہ خیال کرنے والے ممالک کے 15 سالہ طالبان علم شرکت کرتے ہیں جن میں اُن کی فکری صلاحیتوں اور علمی قابلیتوں کو تین جدید ترین مضامین یعنی ریاضی، مطالعاتی قابلیت (ریڈنگ) اور سائنس کے ذریعے پرکھا جاتا ہے۔ اِس عالمی امتحان کے نتائج سے نہ صرف کسی بھی ملک کے تعلیمی نظام کی اعلیٰ معیاری کا پتہ لگایا جا سکتا ہے بلکہ نتائج میں اعلیٰ کار کردگی دکھانے والے ممالک کو سائنسی، فکری و علمی اعتبار سے ذہین و فطین اور روشن مستقبل رکھنے والے ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ نتائج اُن ممالک کی عزت و منزلت اور صنعت و تجارت پر براہِ راست اور بلا واسطہ دونوں لحاظ سے بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اِسی عالمی امتحان میں فن لینڈ نے 2000ء تا 2012ء تک درجۂ اول (فرسٹ پوزیشن) حاصل کرتے ہوئے، لگاتار 12 سال تک اِس عالمی امتحان پر راج کیا ہے اور 2012ء کے بعد بھی 2018ء کے آخری ’’پِیسا ٹیسٹ‘‘ تک فن لینڈ کے طلباء کی کارکردگی اِس عالمی امتحان میں نہایت اعلیٰ اور قابلِ تحسین رہی ہے جو فن لینڈ کے تعلیمی نظام کے بے نظیر و بہترین ہونے کی ایک ناقابل فراموش دلیل ہے۔
اگر میں فن لینڈ کے اِس قدر بہترین تعلیمی نظام کے پس منظر کو دیکھوں تو مجھے یہ بات نہایت واضح طور پر دکھائی دیتی ہے کہ اُنھوں نے اِس راز کو پا لیا ہے کہ اقوام کی لازوال بقا اور ناقابل تسخیر ترقی و خوشحالی فوجی اور عسکری قوتوں میں نہیں بلکہ علم کی طاقت میں ہوتی ہے۔ کوئی قوم جغرافیائی لحاظ سے اگر کسی فوجی و عسکری قوت کے اندھا دھند زور سے تباہ و برباد بھی کر دی جائے۔ لیکن وہ نظریاتی لحاظ سے تب تک مکمل طور پر صفحۂ ہستی سے مٹائی نہیں جا سکتی کہ جب تک کوئی اُس قوم کی قومی انفرادیت کے تحت علمی ذہانت کو مکمل طور پر ختم نہ کر دئے اور فن لینڈ کا شمار تو اُن ممالک میں ہوتا ہے کہ جو پچھلی چند ہی صدیوں میں کئی بار فوجی طاقت کے بل بوتے پر تباہ و برباد اور غیر اقوام کے غلام ہو چکے ہیں یعنی فن لینڈ عظیم شمالی جنگ 1709ء کی روسی غلامی سے لے کر (روس-فن لینڈ) جنگ بندی 1944ء تک کئی بار مکمل طور پر جانی و مالی اعتبار سے تباہ حال، روسی غلام اور بدترین شکست کا شکار ہو چکا ہے، لیکن فن لینڈ نے جنگی انتقامات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کو رواں رکھنے کی بجائے اپنی قومی انفرادیت کے تحت اپنی علمی ذہانت اور فکری قابلیت کو زندہ رکھا اور اپنے تعلیمی نظام کو یورپی ترقی یافتہ ممالک کی اندھی تقلید سے دُور رکھتے ہوئے اور اپنی فوجی طاقت کو اندھا دھند بڑھتے ہوئے، تباہ کن ایٹم بمز بنانے کی بجائے، اپنے ملکی تعلیمی نظام پر مالی اور نظریاتی اعتبار سے بھرپور توجہ دی اور آج فن لینڈ کا تعلیمی نظام دنیا کے سب سے بہترین تعلیمی نظام ہونے کا عالمی اعزاز اپنے نام کرتے ہوئے، دنیا کی سب سے بڑی تعلیمی ایٹمی قوت بن چکا ہے۔ میرے اِس دعویٰ کی غیر جذباتیت اور بلا تعصب حقانیت کا ایک سرسری اندازہ آپ اِن تین باتوں سے لگائیے کہ آج فن لینڈ میں شرح خواندگی دنیا میں سب سے زیادہ یعنی تقریباً 99% ہے اور دیگر تعلیمی لحاظ سے نہایت طاقتور ممالک سے لے کر دنیا کے عالمی سُپر پاورز ممالک تک سب فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی کئی خصوصیات کو اپنے ہاں نافذ کر نے کے خواہشمند ہیںٕ نیز اِسی زبردست تعلیمی نظام کی بدولت آج فن لینڈ کا شمار دنیائے یورپ کے سب سے کم ترین بد عنوان ممالک میں ہوتا ہے کہ یہاں عدل و انصاف کا نظام عام سماجی سطح سے لے کر ملک کی اعلیٰ سیاسی سطح تک مجموعی طور پر رائج ہے۔ تو آئیے، اپنی تحریر کا ذرا سا دھارا بدلتے ہوئے فن لینڈ کی اُن تعلیمی خصوصیات، اختراعات اور اصلاحات کا تفصیلی اور تقابلی تجزیہ کرتے ہیں کہ جو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ممالک سے لے کر ترقی یافتہ ممالک کے لیے یکسر مفید، مثالی اور متاثر کن نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
(۱) داخلے کی عمر
فن لینڈ کے اسکولز میں صرف 7 سالہ بچوں کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے، یعنی فن لینڈ میں لازمی تعلیم کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے۔ اِس 7 سالہ عمر کی حد کے پیچھے میرے مطابق یہ حکمت کارِ فرما ہو سکتی ہے کہ بچے اِسی 7 سال کی ابتدائی عمر سے قبل شعوری اور لا شعوری طور پر اپنی بقیہ تمام زندگی کی تمام تر ترجیحات، جذبات اور نظریات کی سرسری اور نا پختہ بنیادیں رکھتے ہیں جو کہ پھر بقیہ زندگی کے ماحولیاتی اور نظریاتی اثرات کے ارتقائی منازل سے گزرتی ہوئی مزید پختہ ہو جاتی ہیں یا پھر بالکل ہی بے معنی سی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ لہذا اِسی نُوعمری کے ابتدائی 7 سالہ دورانیے میں رسمی تعلیم سے بھی کئی گنا زیادہ غیر رسمی تعلیم یا ابتدائی گھریلو تعلیم مفید و مناسب رہتی ہے کہ بچے 7 سال تک کھیل ہی کھیل میں گھریلو غیر رسمی تعلیم اور دوستوں سے اپنے ذاتی مشاہدات اور آزادانہ تجزیے کی بنا پر، فطرت اور ثقافت کو محسوس کر تے ہوئے آزادانہ سوچ سکتے ہیں اور اپنی اِسی کم عمری کی نعمت کی بدولت، رسمی تعلیم کے بوجھ سے آزاد ہوتے ہوئے، اپنے غیر معمولی اور غیر رسمی زاویۂ نگاہ سے دنیا کو دیکھ سکتے ہیں اور سب سے اہم یہ کہ وہ اپنا بچپن بھرپور انداز میں آزادی سے جی سکتے ہیں یوں اِن سارے مراحل میں گزر کر 7 سالہ فنش بچوں میں اسکول تک پہنچنے سے پہلے ہی لا شعوری اور شعوری طور پر علم دوستی، علمی تحقیق و جستجو کا رجحان پیدا ہو چکا ہوتا ہے جبکہ اِس کے برعکس ہمیں دیگر ممالک میں 3 تا 5 سال تک کے کم عمر بچوں کو اسکولز میں داخل کروانے کی مثالیں ملتی ہیں جو کہ نہ صرف کم سِن بچوں کے بچپن پر بے جا شدید دباؤ ڈالتے ہوئے اُن کی اُس پیدائشی آزادی پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے کہ جو اُنھیں قدرت نے بطورِ تحفہ و نعمت عطا کی ہے بلکہ ایک باپ کی نگاہِ شفقت اور ماں کی آغوش کو فراموش کرتے ہوئے قدرت الہٰی میں تحریف کرنے کے بھی مترادف ہے۔
(۲) غیر رسمی گھریلو/ابتدائی تعلیم
فن لینڈ میں ایک ملازمت یافتہ فنش ماں کو بچے کی پیدائش پر حکومت کی جانب سے ملازمت سے، مکمل چار ماہ کی چھٹی کے ساتھ ساتھ پوری تنخواہ بھی دی جاتی ہے اور اگر اِس کے بعد بھی والدین میں سے کوئی ایک اپنے بچے کی نگہداشت کے لیے ملازمت سے چھٹی لینا مناسب سمجھے تو اُسے مزید چھ ماہ کی چھٹی پوری تنخواہ کے ساتھ بآسانی دی دئے جاتی ہے۔ نیز فنش حکومت کی جانب سے، اہلیت کے معیار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے فنش والدین کو بچے کی پیدائش پر ایک خطیر رقم ’چائیلڈ بینیفٹ سکیم‘ کے تحت دی جاتی ہے یہ سکیم بچے کے 17 سال کے ہونے تک جاری و ساری رہتی ہے اِس سکیم کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہے کہ اِس سے والدین کے لیے رسمی تعلیم سمیت غیر رسمی گھریلو تعلیم کی فراہمی کو مالی اعتبار سے بھی یقینی بنایا جا سکے لہذا یہی وجہ ہے کہ فن لینڈ میں والدین ابتدائی گھریلو تعلیم کو نہایت صحت مندانہ طریقہ سے با آسانی دیتے ہیں۔ گھریلو غیر رسمی تعلیم کے حوالے سے یہاں یہ بات بھی قابل غور اور دلچسپ ہے کہ فن لینڈ میں والدین کو بچوں کی پیدائش پر، حکومت کی جانب سے ضروری سامان نگہداشت ’’بے-بی باکس‘‘ کے ساتھ ساتھ ایسی تعلیمی ہدایات بھی دی جاتی ہیں کہ جس میں والدین کو بچوں کی غیر رسمی تعلیمی نشو و نما سے متعلق آگاہ کیا جاتا ہے۔ اس تعلیمی نشو و نما کی اہمیّت کے حوالے سے فنش ماہرِ تعلیم ایوا ہجالا کہتی ہیں کہ ’’ابتدائی گھریلو تعلیم زندگی بھر کی تعلیم کا پہلا اور انتہائی اہم مرحلہ ہے۔‘‘ اعصابی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دماغ کی نشو و نما کا 90 % حصہ بچے کی زندگی کے ابتدائی پانچ سالوں کے دوران ہی تحریک و استعمال میں آ جاتا ہے، اور 85 % عصبی راستے اسکول جانے کی عمر یعنی 7 سال سے پہلے ہی نشو نما پا جاتے ہیں۔ لہذا اِنھی تعلیمات کی آگاہی سے فنش والدین پچپن ہی سے اپنے بچوں کی اخلاقی اقدار اور ذہنی و فکری قابلیت کو پختہ بناتے ہوئے اُنھیں مستقبل کے ایک قیمتی ملکی سرمایہ میں ڈھال دیتے ہیں۔ اِس مقصد کے پیش نظر اکثر فنش والدین بچوں کو ابتدائی و غیر رسمی تعلیم ڈے کیئر سنٹر، کنڈرگارٹن اور پِری اسکول کے ذریعے بھی دینا پسند کرتے ہیں۔ یہ تمام تعلیمی ادارے دیگر حکومتی اسکولز کی طرز کے سنجیدہ اور رائج العام تعلیمی ادارے ہرگز نہیں ہیں اور نہ ہی اِن اداروں کی ابتدائی تعلیم کو لازمی تعلیم سمجھا جاتا ہے یہ فنش والدین کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اِن اداروں کے ذریعے ابتدائی تعلیم فراہم کرے یا پھر بچوں کو گھریلو طرز پر مبنی ابتدائی غیر رسمی تعلیم فراہم کریں۔ آپ اِن نجی اداروں کو بچوں کے تفریح خانے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں کھیل، مستی و کود میں ہی نہایت چھوٹی سطح پر بنیادی اخلاقی اور علم دوست تعلیمات کو کتابی الفاظ و لہجے کے بغیر صرف زبانی، عملی اور جدید و دلچسپ ٹیکنالوجکل ذرائع سے سکھایا جاتا ہے اور اگر آپ فن لینڈ میں اپنے بچوں کو کنڈرگارٹن بھیجتے ہیں تو فنش حکومت بچوں کی نگہداشت کے لیے خصوصی اہتمام کرتی ہے اور ہر سال بچوں کے خرچے کے واسطے سالانہ تقریباً 3842 یورُوز کی خطیر رقم بھی والدین کے حوالے کرتی ہے۔ نیز کنڈرگارٹن عملے کا انتخاب بھی کم از کم بیچلرز کی تعلیم پر ہوتا ہے تاکہ بچوں کی نگہداشت اور تربیت اعلی سطح کی ہو۔ اِن تربیتی اداروں کی ابتدائی و غیر رسمی تعلیم بچوں کے لیے کتنی کار آمد ہوتی ہے اِس حوالے سے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی کے محکمۂ تعلیم سے وابستہ مشہور ماہر تعلیم اِیوا پینِٹیلا کہتی ہے کہ ’’ہم دیکھتے ہیں کہ ڈے کیئر سنٹر اور پِری اسکول میں بچوں کا داخلہ اُن کے لیے بہت اچھا ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہ جگہ نہیں ہے کہ جہاں والدین کام پر جاتے وقت اپنے بچہ پھینک جاتے ہیں۔ (تاکہ وہ بچے کی حفاظت اور نگہداشت کی پریشانی سے آزاد ہو جائیں۔) بلکہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں آپ کے بچے کھیلنے اور سیکھنے کے ساتھ ساتھ نئے نئے دوست بنانے آتے ہیں۔ لہذا بہترین تعلیمی سمجھ بوجھ رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو ڈے کیئر سنٹر میں ڈالنا پسند کرتے ہیں۔‘‘ اور کنڈرگارٹن کے متعلق اِیوا پینِٹیلا کہتی ہے کہ ’’کنڈر گارٹن میں بچوں کو بنیادی طور پر یہ سکھایا جاتا ہے کہ ’سیکھا کیسے جاتا ہے۔؟‘ مطالعاتی قابلیت (ریڈنگ) اور ریاضی کے متعلق باضابطہ ہدایات سکھانے کی بجائے اُنھیں فطرت، جان داروں اور زندگی کے دائرے کار کے متعلق سکھایا جاتا ہے۔‘‘
(۳) مفت مساوی تعلیم
فن لینڈ میں تمام تر تعلیمی ادارے سرکاری تحویل یا نگرانی کے زیر اثر ہیں یعنی فن لینڈ میں کوئی شخص تعلیم کی فراہمی کے نام پر ذاتی ملکیت کی نوعیت کے مہنگے ترین تعلیمی کاروباری اڈے ’پرائیوٹ ایجوکیشن سنٹر‘ چلا ہی نہیں سکتا ہے لہذا وہاں تعلیم کا حصول نہایت آسان، عام اور مفت ہے نیز اسکول کی تعلیم سے وابستہ تمام اشیاء مفت فراہم کی جاتی ہیں مثلاً کتابیں، بستے اور سامان اسٹیشنری وغیرہ مفت تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ الگ بات ہے فنش اسکولز میں بہت زیادہ کتابوں، کاپیوں اور بھاری بھر کم بیگ کا کوئی تصور تک موجود نہیں ہے۔ بہرحال اِسی مفت مساوی فنش تعلیم کی وجہ سے ہی فنش اسکولز کے مابین زیادہ داخلوں کی دوڑ اور اچھے اور بُرے اسکولز کی جاگیرداری قائم نہیں ہو پاتی ہے اور نہ ہی وہاں نجی اور حکومتی اسکولز کے اختلاف سے مختلف تعلیمی مسائل جنم لے پاتے ہیں۔ کیونکہ وہاں تمام مالی طبقوں یعنی امراء، متوسطین اور غرباء کے بچے ایک ہی جماعت میں کرسی سے کرسی جوڑ کر ہر حوالے سے مساوات پر مبنی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
(۴) یکساں تعلیمی نظام اور نصاب
فن لینڈ کے تمام تر تعلیمی اداروں میں سرکاری سطح پر ایک ہی تعلیمی نظام اور نصاب رائج ہے اور اِسی طرح مالی یا نسلی برتری کی تمیز روا رکھے بغیر ہر فنش شہری کو یکساں تعلیمی نظام سے مستفید کیا جاتا ہے۔ جس سے فنش طالبانِ علم میں مساوات اور انفرادی خود اعتمادی جیسی عظیم خصوصیات جنم لیتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اِسی یکساں تعلیمی نظام کی برکت سے فنش طالبانِ علم میں بچپن ہی سے طبقہ واری سوچ کا خاتمہ کرنے کی حد درجہ کاوش کی جاتی ہے۔ یکساں نصاب اور یکساں تعلیمی نظام ہونے کے سبب وہ نظریاتی طور پر اپنی قومی یکجہتی کے زیرِ سایہ ترقی کرتے ہیں۔ نیز حکومتی رائج شدہ نصاب و نظام کو بدلتے ہر چند سالوں کے بعد زمانے کی جدت کے پیشِ نظر نئی سائنسی و فنی تعریفوں، ایجادات و اصلاحات کے مطابق ہم آہنگ کیا جاتا ہے اور تعلیمی نصاب مرتب کرتے وقت طلباء کی ذہنی سطح اور رجحانات کو خوب مد نظر رکھتے ہوئے دلچسپ اور آسان فہم بنایا جاتا ہے۔ یہاں اِس ضمن میں یہ بات بھی نہایت اہم اور دلچسپ ہے کہ فن لینڈ میں تعلیمی نصاب صرف الفاظ کی صورت میں کتابوں کے اوراق پر تحریر کردہ نہیں ہوتا بلکہ نصاب کا آدھا حصہ جہاں الفاظ کی صورت میں موجود ہوتا ہے تو وہی نصاب کا تقریباً آدھا حصہ عملی کام (پراکٹیکل ورک) پر مشتمل ہوتا ہے یعنی کتاب میں جو فنش طلباء کو الفاظ کی صورت میں پڑھایا جاتا ہے اُس کا عملی اطلاق (پراکٹیکل ایپلیکیشن) بھی کر دکھایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں میری عملی اطلاق سے مراد خصوصاً سائنسی طریقہ کار کے حامل مضامین اور موضوعات ہیں جو کہ مشاہدہ، تجربہ و تجزیہ کے قابل ہونے کی بنا پر عملی اطلاق (پراکٹیکل ایپلیکیشن) کے قابل ہوتے ہیں ناکہ وہ مضامین یا موضوعات ہے جو مجموعی طور پر عملی اطلاق سے بالاتر ہوتے ہیں۔ مثلاً معاشرتی علوم، تاریخ، ادب یا مذہبی مضامین جو صرف نظریات و واقعات کی دنیا میں، الفاظ کے پیراہن کو اُوڑھے ہوئے صرف کتابوں ہی کی صورت موجود ہوتے ہیں اِن کے عملی اطلاق کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ اُس زمانے میں ’ٹائم ٹریول‘ کے ذریعے طلباء کو اُس موضوع سے منسلک زمانے میں پہنچا کر براہ راست آنکھوں دیکھا مشاہدہ کروایا جائے یا پھر کوئی ایسی مشین دریافت کی جائے جس میں یہ قابلیت ہو کہ وہ کُل جہاں کے ماضی کو روزِ ازل سے ایک فلم کی صورت میں پردۂ اسکرین پر دکھا سکے جبکہ فی الحال یہ دونوں ایجادات اور مشورے ناممکنات ہونے کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں نیز یہ کہ ادب کے قارئین کے لیے یہ سائنسی نظریات پر مبنی سائنسی مشورے ذرا مبہم اور غیر دلچسپ بھی ہو سکتے ہیں۔ لہذا خلاصہ کلام یہ کہ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ معاشرتی علوم پر سائنسی علوم کی طرز کا پختہ عملی اطلاق (پرایکٹیکل ایپلیکیشن) نہیں ہو سکتا لہذا فن لینڈ میں اُن مضامین و موضوعات کو نوجوانوں کی ذہنی دلچسپی سے ہم آہنگ جدید ترین ذرائع سے سکھا کر، عملی اطلاق کا ایک حد تک حق ادا کر دیا جاتا ہے یعنی کہ ایجوکیشن اینیمیشن، فلمز، ڈاکومینڑیز، گیمز وغیرہ کے ذریعے معاشرتی علوم کو فنش طالبانِ علم کے ذہن میں نہایت آسانی اور دلچسپ طریقے سے فلما دیا جاتا ہے جس سے معاشرتی علوم کے نظریات و واقعات اپنی ممکنہ اصل اور شفافیت سے طالب علموں کے ذہنوں میں دیر پا حافظے (لانگ-ٹرم میموری) کا حصہ بن جاتے ہیں۔
(۵) دوپہر کا کھانا (اسکول مِیل)
حکومتِ فن لینڈ 1948ء سے اپنے تعلیمی اداروں میں ہائی اسکولز کی سطح تک مفت دوپہر کا کھانا ’’اسکول مِیل‘‘ فراہم کر رہی ہے اور اِس حوالے سے فن لینڈ دنیا کا وہ سب پہلا ملک ہے کہ جس نے ایک وسیع پیمانے پر، یعنی اپنی ملکی سطح پر، شعبۂ تعلیم و تدریس کے لیے مفت خوراک رسانی کے نظام کو متعارف کروایا۔ فنش اسکولز میں موجود خوراک رسانی کا نظام (اسکول کیئرٹنگ سسٹم) اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اسکول کو ایسا متوازن، پُر کشش اور گرم کھانا فراہم کیا جائے جو طلباء و اساتذہ سمیت سارے اسکولی عملے کی صحت مندی کے لیے ممد و معاون ہو اور خصوصاً طلباء کی عمر اور رجحان کے مد نظر اُن کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے بہترین و مناسب ہو۔ یہ دوپہر کا کھانا ایک بڑی پلیٹ پر مشتمل ہوتا ہے۔ کھانے کی پلیٹ کا آدھا حصہ تازہ سلاد اور پکی ہوئی سبزیوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ ایک اُبلے آلو، پاستہ یا چاولوں نے پلیٹ کا ایک تہائی حصہ گھیرا ہوتا ہے۔ آخری ایک چوتھائی حصے میں کٹی مچھلی کے گوشت کا ایک ٹکڑا یا مارجرین اور بریڈ ہوتا ہے۔ (مچھلی کا گوشت صرف گوشت خور طلباء کو اُن کی مرضی و پسند کی بنا پر فراہم کیا جاتا ہے۔) نیز مشروبات میں ایک پانی اور ایک دُودھ کا بھرا ہوا گلاس پینے کی خاطر فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دوپہر کے کھانے کے یہ وہ بنیادی اجزاء ہے جو کہ طبی لحاظ سے ایک نہایت متوازن اور صحت مند غذا کو جنم دیتے ہیں اور فنش طالبانِ علم کی ذہنی صلاحیتوں اور جسمانی صحت کو توانا اور مضبوط بناتے ہوئے فن لینڈ کی تعلیمی ترقی کا ایک اہم راز ہے اِسی بنا پر حکومتِ فن لینڈ اِس مفت کھانے (اسکول مِیل) کی فراہمی کو مستقبل کی سرمایہ کاری کہتی ہے جبکہ میرے مطابق اِس مفت کھانے (اسکول مِیل) سے حکومت فن لینڈ اپنے مخصوص قومی و ثقافتی طرز پر مبنی مہذبانہ کھانے کے آداب کو اپنے بچوں کو عملی طور پر سکھانے کی ایک کامیاب کاوش کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فنش والدین کو اسکول لنچ کی تیاری کی کوفت سے بھی آزاد کرواتی ہے۔ بہرحال درج ذیل بالا کھانے کے منیو میں طلباء کی پسند اور مقامی و موسمی تبدیلیوں کے پیشِ نظر اکثر مناسب ترامیم بھی کی جاتی ہیں اور اِن ترامیم کے حوالے سے طلباء، والدین اور دیگر اسکولی عملے سے بھی مشاورت کی جاتی ہے۔ خاص تہواروں یا مخصوص دِنوں میں خاص غذاؤں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ ذائقے کی یکسانیت دُور ہو سکے۔ بالآخر اساتذہ اور طلباء ایک ساتھ، دسترخوان پر بیٹھ کر لذیذ و من پسند کھانا تناول کرنے کے ساتھ ساتھ حد درجہ بے تکلفانہ اور دوستانہ تعلق کے شیریں بھرے، میٹھے جام، محبت بھری چُسکیاں لیتے ہوئے نوش فرماتے ہیں اور خصوصاً طلباء کھانے کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار اور صاف ستھرے ماحول میں اساتذہ کی علمی صحبت سے بھی مستفید ہوتے ہیں۔ مفت کا کھانا کھانے کے بعد طلباء برتنوں اور دسترخوان وغیرہ کی صاف صفائی بھی خود ہی اچھے طریقے سے کرتے ہیں لیکن آپ پریشان نہ ہوئیے کہ یہ صاف صفائی مفت کے کھانے کے عوض یا نام نہاد نظم و ضبط کے نام پر ہرگز نہیں کروائی جاتی، بلکہ طلباء کو زندگی کے عملی، گھریلو اور خصوصاً ازدواجی میدان میں ہر فن مولا بنانے کے لیے کروائی جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ طلباء کو شعوری و لاشعوری دونوں لحاظ سے یہ باور کروانے کی بھی ایک بہترین کاوش ہے کہ کھانے کے برتن دھونا یا صاف ستھرائی کرنا مرد و عورت کی دو اجناس میں صرف ایک جنس یعنی عورت پر ہی بطورِ صنفی کردار، ہرگز فرض نہیں ہے، بلکہ مرد اگر فرصت تلے گھر میں برتنوں اور صاف ستھرائی کے بوجھ تلے دبی عورت کا ہاتھ بٹاتے ہوئے، ایک اچھے بیٹے، اچھے بھائی اور خصوصاً سب سے بڑھ کر ایک اچھے شوہر کی حیثیت سے برتن دھو لے یا گھر کی صاف ستھرائی کر لے تو اُس کی مردانگی کی شان میں کوئی کمی واقع نہ ہو گی اور نہ بطورِ صنفی کردار کے ایسا کرنا غیر فطری، معیوب یا گناہ و جرم کے ضمن میں آئے گا یعنی آپ فن لینڈ کے تعلیمی نظام کی اِس حوالے سے کمال دُور اندیشی اور اعلیٰ علمی قامت تو دیکھے کہ بنیادی جبلی ضرورت کی بھوک مٹاتے، یعنی طلباء کو مفت مزے دار کھانے کِھلاتے ہوئے بھی بہت کچھ سکھا رہے اور برتن دھلواتے بھی برابر سکھاتے ہوئے تعلیم دئے رہے ہیں لیکن تعلیم کا یہ طریقہ تدریس اتنا مزے دار اور دلچسپ ہے کہ عوام الناس کو گمان ہی نہیں ہوتا کہ کھلاتے، پِلاتے اور برتن دُھلواتے ہوئے بچہ کیا کیا کچھ شعوری اور لاشعوری طور پر سیکھ رہا ہے کہ جو اگر صرف وہ نصابی کتب کے رسمی الفاظ تلے سِیکھتا، تو اُسے یہ سب کچھ سیکھنے لیے خاصی طلب و محنت درکار تھی۔ بہرحال فنش طلباء کھانے پینے اور برتن دھونے سے لا شعوری و غیر رسمی طور پر سیکھنے کے بعد دوبارہ رسمی و شعوری تعلیم کے حصول کے لیے، چاق و چوبند کمر کستے ہوئے، اپنی اپنی جماعتوں میں جا گھستے ہیں۔