اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


اکھان گو منشی ۔۔۔ پروفیسر غلام شبیر رانا

ایک خاکہ ایک ناولٹ

اکھان گو منشی

از قلم

پروفیسر غلام شبیر رانا

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

مکمل کتاب پڑھیں……

اکھان گو منشی

پروفیسر غلام شبیر رانا

وہ بات کرتا تو کوئی نہ کوئی اکھان، تلمیح یا ضرب المثل ضرور استعمال کرتا تھا۔ اُس پُر اسرار شخص کا اصل نام تو منشی کھان ایاز تھا مگر چونکہ اُسے پنجابی زبان کے سیکڑوں اکھان زبانی یاد تھے اس لیے شہر کا شہر اُسے اکھان گو منشی کہہ کر پکارتا تھا۔ زندہ تمناؤں اور بیدار اُمنگوں کے رخش پر سوار ہو کر تیزی سے منزل مقصود کی جانب بڑھنے والا یہ شخص آج بہت درماندہ نظر آ رہا تھا۔ سال 2023ء مئی کے مہینے کی پانچ تاریخ تھی، میں جھنگ میں اپنے اُس آبائی مکان میں بیٹھا تھا جسے اَب طوفانِ نوح ؑ کی باقیات قرار دیا جاتا ہے۔ میرے پاس کچھ مہمان آئے ہوئے تھے مختصر ملاقات کے بعد وہ اس شہر نا پرساں کو چھوڑ کر اپنے گھر لاہور روانہ ہونے سے پہلے نجی ملاقاتوں کے سلسلے میں قدیم جھنگ شہر روانہ ہو گئے۔ سہ پہر کے وقت میں سبزی اور پھل خریدنے کے لیے جھنگ صدر کے مصروف ترین بازار کورٹ روڈ کے مشرقی کنارے اور اہم مقام ایوب چوک پہنچا۔ وہاں ایک مانوس اجنبی کو دیکھا جو انتہائی خستگی کے عالم میں کاسۂ گدائی تھامے کورٹ روڈ پر مغربی جانب ریل بازار کی طرف پیدل چل رہا تھا۔ آج سے ساٹھ سال قبل اس شخص کا شمار شہر کے اُن ممتاز ماہرین تعلیم میں ہوتا تھا جو پرائمری سطح کے طالب علموں کی خاک کو اکسیر بنانے اور غبارِ راہ سے نگاہوں کو خیرہ کرنے والے جلوے تعمیر کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اپنی تباہیوں پر اصرار کرنا اور مکمل انہدام کی راہ ہموار کرنا بھی ایک خاص نوعیت کی تخلیقی فعالیت ہے جس کے وسیلے سے احتساب ذات کی صورت تلاش کرنے کی سعی کیا جاتی ہے۔ زندگی بھر سایوں اور سرابوں سے بیزار ہو جانے والا یہ پُر اسرار شخص مصائب و آلام اور ابتلا اور آزمائش کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلنے کے بعد اپنے خون سے ہولی کھیلنے پر تُل گیا تھا۔ خستگی، شکستگی اور بربادی کے اس حال میں بھی وہ بے حِس دنیا کا تماشا دیکھ کر بیتے لمحوں کی چاپ سُن کر تعمیر نو کی موہوم منزلوں کی جستجو میں شہر کے بازاروں میں آگے بڑھ رہا تھا۔ شاید اُسے معلوم ہے کہ اس شہرِ نا پرساں کے بازار بھی مصر کے بازار کے مانند ہیں جہاں جنسِ گراں کے طلب گار معدوم ہیں۔ آلام روزگار کے مہیب بگولوں کی زد میں آنے والے ماضی کے اس فلسفی کو دِل شکستگی، خستگی اور درماندگی کی حالت میں کاسۂ گدائی تھامے دُکان داروں سے خیرات مانگتے دیکھا تو اُردو زبان کے ممتاز شاعر منیر نیازی کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا:
کل دیکھا ایک آدمی اَٹا سفر کی دھُول میں
گُم تھا اپنے آپ میں جیسے خوشبو پھُول میں
زندگی کے معمولات پر نظر رکھنے والے ماہرین علم بشریات کا کہنا ہے کہ زندگی کا انداز ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ پیہم آٹھ عشروں تک خوابوں کی خیاباں سازیوں کے سِحر میں رہنے والا یہ شخص منشی کھان ایاز تھا جو فقیروں کا بھیس بنا کر دنیا کے آئینہ خانے میں بے حِس معاشرے کو تماشا بنا کر اپنی راہ پر چل رہا تھا۔ عالمی ادب کا یہ نباض امیر خسرو کی عہد وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی مثنویوں کا بہت بڑا مد اح تھا۔ اُس نے امیر خسرو کی جن مثنویوں کا عمیق مطالعہ کیا تھا اُن میں مثنوی نہ سپہر، تغلق نامہ، مفتاح الفتوح، دول رانی خضر جان اور قران السعدین شامل ہیں۔ اُس نے بتایا کہ امیر خسرو کی مثنوی قران السعدین کے اشعار کی تعداد 3944 ہے۔ وہ اپنے احباب کو امیر خسرو کا کلام سناتا توتو اُس کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں ہو جاتی۔ امیر خسرو کا کلام اس ذہین تخلیق کار کے لا شعور اور وِجدان میں رچ بس گیا تھا۔ امیر خسرو کے فارسی کلام کو پنجابی زبان کے قالب میں ڈھال کر وہ بہت سکون محسوس کرتا تھا۔ اہلِ کرم کے ہر سوال کا جواب بھی اُس کی پریشاں حالی کے پس پردہ کارفرما سوالات میں پنہاں تھا۔ منشی کھان ایاز کو اِس حال میں دیکھ کر میرا قلب حزیں زور سے دھڑکنے لگا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ بے حِس دنیا نے اِس معلم کو اس قدر اذیت میں مبتلا رکھا کہ اُس کا چہرہ اُس کے قلب و روح زبوں حالی کا مظہر بن گیا۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور سوچا کہ شاید منشی کھان ایاز کے فکر و خیال اور ذہن و ذکاوت پر آلام روزگار کی کالی گھٹا اس قدر ٹُوٹ کر برسی ہے کہ علمی سطحِ فائقہ سے وابستہ یادوں کے سب نقوش یاس و ہراس کی موسلا دھار بارش کی بوچھاڑ میں دھُل گئے ہیں۔ جب اس دانش ور کا رباب فشارِ ضبط سے اضطراب اور بے چینی کی زد میں آتا تو اُس کی آہ و فغاں سرود تک محدود نہ رہتی بل کہ اُس کے مہیب و روح ستاں خواب آنسوؤں کی صورت میں بہنے لگتے۔
ماہرین نفسیات کی رائے تھی کہ اپنی آٹھ عشروں پر محیط تدریسی خدمات اور انسانی ہمدردی کی مظہر نیکیوں کو دریا میں ڈالنے والا یہ شخص خود اپنی ہی تیغِ ادا سے گھائل ہو گیا اور علم و ادب کے اس ماہتاب نے جب سمے کے سم سے آلودہ غموں کی بارش کے پانی میں اپنا عکس دیکھا تو اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی سال سے شہر کی سڑکوں پر ناشاد و ناکارہ گھُومنے والا یہ شخص دُور دراز بستیوں کے گلی کوچوں سے جہاں اعصاب شکن سناٹے اور گہری تاریکیاں پیہم گریہ و زاری میں مصروف رہتی تھیں وہاں سے اینٹیں، روڑے اور پتھر چُن کر اپنے گھر کے سامنے ڈھیر لگا دیتا تھا۔ پتھروں، روڑوں اور اینٹوں کا یہ ڈھیر جب بہت بڑا ہو جاتا تو منشی کھان ایاز کے لواحقین اس ڈھیر کو فروخت کر دیتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گردشِ ایام کی زد میں آنے کے بعد اس فطین شخص اور ذہین معلم کے اچھے دِن ہوا ہوتے چلے گئے اور بے حِس معاشرے نے منشی کھان ایاز جیسے حساس تخلیق کار کے ساتھ وہی سلوک کیا جو وہ اطہر ناسک، ساغر صدیقی، رام ریاض، خادم مگھیانوی اور اماں فضلاں جیسے متعدد اہلِ درد کے ساتھ کر چکا ہے۔ سلسلۂ روز و شب پر گہری نظر رکھنے والے اہلِ نظر جانتے ہیں کہ کشکول کبھی بے مصرف نہیں رہتے ہر دور میں بے حِس معاشرہ ساغر صدیقی اور منشی کھان ایاز جیسے افراد کو ڈھونڈ نکالتا ہے جو کشکول ہاتھوں میں تھام کر گلیوں میں فقیرانہ آ تے ہیں، صدا کر تے ہیں اور سب کو دعا کر کے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب چلے جاتے ہیں۔ عہد شباب میں زندگی بھر کامیاب مہ و سال گزارنے والا منشی کھان ایاز عالمِ پیری میں غموں سے چُور اپنی زندگی کے خستہ و خراب دِن سانس گِن گِن کر گزارنے پر مجبور ہو گیا۔ اپنے کرب کے نشے میں اپنا جی بہلانے والے منشی کھان ایاز کی پُر نم آنکھوں میں گہرے ملال، اضمحلال اور رنج و یاس کا گلابی سا خمار دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس اَلم نصیب، جگر فگار اور معاشرے سے بیزار شخص نے خارزار حیات سے خامشی سے گزرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ مجھے یہ خیال ستانے لگا کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں جہاں سادیت پسندوں کی کثرت ہے وہاں ایسے مجبوروں کی داد رسی اُس وقت ہو گی یعنی جب یہ بے بس لوگ عدم کی جانب کُوچ کر جائیں گے تو اِن کی یاد میں چارہ گری سے گریز کو وتیرہ بنانے والے بروٹس قماش مسخرے اور بے حِس چارہ گر مگر مچھ کے آ نسو بہائیں گے۔ شہر کے لوگوں نے کئی بار منشی کھان ایاز کو حضرت بلالؓ چوک، جھنگ کے شمال میں سرگودھا روڈ کے مشرقی کنارے پر رکھے عفونت زدہ کُوڑے دان میں بیٹھے ردی کاغذ اور پلاسٹک کی اشیا چُنتے دیکھا تھا۔ سب لوگ اپنی دھُن میں مگن رہتے اور کسی نے اس اَ لم نصیب کے چاکِ دامن کو رفو کرنے پر توجہ نہ دی۔
سیلِ زماں کی روانیوں اور اِس کی مہیب موجوں کی طغیانیوں میں ٹھہراؤ کا تصور ہی بعید از قیاس ہے۔ سیلِ زماں کی قیامت خیز موجیں لمحہ لمحہ وقت کے قلزم میں جا گرتی ہیں۔ اپنے من کی غواصی کرنے کے بعد اِس وقت جھنگ کا یہ پُر اسرار شخص ماضی کے قلی فقیر، لُوہلے شاہ، دُڑکی شاہ، میاں مودا، کرموں موچی، بابا آنے والا حجام، چونی والا حکیم، محسن عطار، گھڑونچی والا مصور اور میاں بکھا کے نقشِ قدم پر چل پڑا ہے۔ اقلیم معرفت سے تعلق رکھنے والی یہ وہ پر اسرار ہستیاں ہیں جنھوں نے جب کارِ جہاں کے ہیچ ہونے اور مال و دولتِ دنیا کو فریبِ سُود و زیاں قرار دیا تو اقلیمِ معرفت میں ممتاز مقام حاصل کر لیا۔ واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ منشی کھان ایاز نے کُوڑے کے ہر عفونت زدہ ڈھیر کو دیکھ کر دُم ہِلانے والے اور وہاں سے مفادات کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے بے بصر اور کور مغز خارش زدہ باؤلے سگان راہ پر واضح کر دیا کہ دیو جانس کلبی کے مانند اپنی دنیا کے محرم اور دنیا کو ٹھکرانے والے فقیر کسی مہم جُو سکندر سے مرعوب نہیں ہوتے۔ ساٹھ سال پہلے کے حالات کے چشم دید گواہ اللہ دتہ چھاپہ گر بتایا کرتا تھا کہ آدھی وال چوک سے سرگودھا روڈ پر شمالی جانب جو کچی آبادی ہے اِسے جھنگ کے ایسے بزرگوں کا مسکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے جو معرفت و روحانیت کی متاعِ بے بہا سے متمتع تھے۔ منشی کھان ایاز نے اس بستی میں مقیم اقلیم معرفت کی جن ہستیوں کے ساتھ زندگی بسر کی اُن میں میاں احمد دین، چودھری عبداللہ، ماسٹر خالد حسین، محمد نواز (حکیم)، عبدا لحئی (کسان)، عبدالغفور(حکیم)، منیر حسین (سینیٹری انسپکٹر)، ظفر احسن (ویکسی نیٹر)، اللہ دتہ (چُنگی محر ر)، اللہ دتہ لنگاہ، مہر خالد(بنکار)، رمضان پِتریر (چائے والا)، جیون (مالی)، اقبال عاصی، رانا سلطان، سجاد حسین، منیر حسین معلم، شیر خان، عبدالستار (فاریسٹ گارڈ)، مستری سلطان، اللہ دتہ (معمار)، بشیر احمد (ٹیلی پرنٹر آ پریٹر)، رمضان (ٹیلی فون آپریٹر)، بابا لال دین، بشیر(کریانہ والا)، چاچا عاشق، فضل حسین (ویکسی نیٹر)، اللہ یار (بڑھئی)، کرم دین (ترکھان)، چودھری کرم حسین، مپال (موچی)، ٹلی جفت ساز، خالق شاہ، گامی جولاہا، ریاض گلشن، احمد یار ملک اور پانجا شامل ہیں۔
منشی کھان ایاز نے عالمی کلاسیک اور پنجابی ادب کا وسیع مطالعہ کیا ہے۔ پنجاب کی رومانی داستانوں میں اُس کی دلچسپی کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُسے اِن داستانوں کے کئی حصے زبانی یاد ہیں۔ جن ادب شناس ہستیوں کا ابھی ذکر کیا گیا ہے زندگی بھر اُن کا معمول تھا کہ وہ منشی کھان ایاز سے پنجاب کی منظوم رومانی داستانیں سنتے تھے۔ داستانیں سننے والے خواب عدم میں ہیں اور ترنم سے داستانیں سنانے والا خود کسی بھُولی بسری داستان کا ایسا اجنبی کردا ربن چُکا ہے جو اِس شہر نا پرساں کے نئے مکینوں کے لیے نامانوس ہے۔ سال 2021ء میں کرونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس عرصے میں منشی کھان ایاز نے کسی افعی بروٹس کی پروا نہ کی اور ایک شانِ استغنا کے ساتھ یہ کٹھن وقت گزارا۔ وادیِ خیال کی اجنبی منزلیں مستانہ طے کرنے کا عزم لیے یہ پر اسرار شخص صبح دَم گھر سے نکلتا اور زندگی بے صرف گزارتا رہتا۔ ہر چند لوگ اس پر طنز کرتے اور کھود کھود کر اس کے مسائل کے راز جاننے کی سعی کرتے مگر یہ چپکے چپکے گزر جاتا اور کسی کو اس کے آنے اور جانے کی کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ وہ جانتا تھا کہ چاہے لوگ کچھ کر لیں اُسے ترکِ دنیا سے ہٹا نہیں سکتے۔ ظاہر بین لوگ اس آزردہ مزاج فقیر کے ساتھ چندے تکلف سے رہتے مگر یہ پُر اسرا شخص سدا یہی کہتا ہے کہ اُس نے زندگی کے باقی چند نفس اپنی مرضی کے مطابق فقیرانہ انداز میں بسر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منشی کھان ایاز نے جھنگ میں مقیم پنجابی زبان کی اَن پڑھ اور ضعیف شاعرہ اماں فضلاں کی بہت خدمت کی۔ اماں فضلاں کا کچھ پنجابی کلام آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مراد کو بھی زبانی یاد تھا۔ آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مراد اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔ اُن کی تین بیٹیاں رخسانہ، شبانہ اور نجمہ تھیں۔ رخسانہ کی شادی لاہور میں ہوئی، شبانہ نے جھنگ میں اپنا گھر بسایا جب کہ نجمہ سرگودھا میں اپنے سسرال کی ہو گئی۔ خوش حال گھرانوں میں بیاہی گئی ان بیٹیوں کو اللہ کریم نے اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اس گھرانے کے بارے میں واقعات کو بھول گئے۔ بیٹیوں کی شادی کرنے کے بعد دو برس قبل آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مراد بھی ایک ماہ کے وقفے سے یکے بعد دیگرے راہی ٔ مُلک عدم ہو گئے اور کر بلا حیدری (جھنگ) کے شہر خموشاں میں اپنی بستی بسا لی۔ وہ مکان جو آپا بشیراں اور اُس کے شوہر لالہ مراد نے خون پسینہ ایک کر کے تعمیر کیا تھا صرف پندرہ لاکھ میں بِک گیا۔ تینوں بہنوں نے یہ رقم آپس میں بانٹ لی۔ فروری 2022ء کے وسط میں رخسانہ نے لاہور میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ منشی کھان ایاز نے اماں فضلاں کے پنجابی کلام کو محفوظ کرنے کی خاطر بہت محنت کی۔ آپا بشیراں کے خاندان کے اکثر افراد کو اماں فضلاں کا پنجابی کلام زبانی یاد تھا۔ اضطرار، منشی کھان ایاز، عبدالغنی ظروف ساز اور یارا سازندہ نے یہ کلام محفوظ کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ شبانہ نے مجھے بتایا کہ اُس کی مرحومہ خالہ کا نوجوان بیٹا اضطرار ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے اور منشی کھان ایاز کے ساتھ مِل کر کوڑے دانوں سے کار آمد اشیاچُن کر کباڑیوں کو بیچ کر پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے۔ منشی کھان ایازکو گمان تھا کہ عفونت زدہ کوڑے دانوں میں ایسی پا شکستہ اُمنگیں اور خواب بکھرے ہیں جن کی حقیقت سے سرِ راہ چلنے والے بے خبر لوگ آگاہ نہیں۔ اپنے قلب حزیں کی بھٹی میں وہ اِن خوابوں، تمناؤں اور خواہشوں کو گرم کرتا تھا تا کہ اِن پر جما زنگ اور غبار ختم ہو جائے اور ان کے نقوش پھر سے اُجاگر ہو جائیں۔ اضطرار اور منشی کھان ایاز اپنے بکھرے خواب تلاش کرنے نکلتے ہیں تو انھیں کُوڑے دان سے بے بس لوگوں کے منتشر خواب مِل جاتے ہیں۔ عجیب شعبدہ ہے کہ اِن دنوں ان کی گزر اوقات کا واحد آسرا یہی خواب ہیں۔ کُوڑے دان سے مفت خواب اُٹھا کر دھُپ سڑی کے کباڑی کے پاس بیچنے کے بعد اضطرار اماں فضلاں کے لکھے ہوئے گیت گاتا ہے۔
اساں بے درداں نال لائیاں اکھیاں جَل بھریاں
اساں لاکے توڑ نبھائیاں اکھیاں جَل بھریاں
پھُلاں بھری بہار وِچ سجن وِچھڑ گئے
اوہ رُتاں وَل نہ آ ئیاں اکھیاں جَل بھریاں
منشی کھان ایاز اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ عہد طرب کی یاد میں گریہ و زاری کرنے والی ظلمت بہ دوش زندگی بسر کرنے والی اماں فضلاں نو آبادیاتی دور کے کئی رازوں کی امین تھی۔ اُس نے اپنے عہد کے جن ممتاز ادیبوں اور شاعرات کو دیکھا اُن میں اقبال زخمی، اُستاد دامن، اشفاق احمد، ادا جعفری، سارا شگفتہ، منصورہ احمد، بانو قدسیہ، پروین شاکر رضیہ بٹ، فہمیدہ ریاض، قرۃ العین حیدر، شبنم شکیل، اور فہمیدہ ریاض شامل ہیں۔ ایک ملاقات میں اماں فضلاں نے شریف خان کو بتایا کہ مستریاں والی بستی میں شاکا نامی ایک مزدور اپنی بیوی تاشی کے ساتھ رہتا تھا۔ اُن کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ بچوں کا گھر بسانے کے بعد شاکا نے شہر خموشاں میں اپنا الگ گھر بسا لیا۔ اس کے ایک برس بعد ادھیڑ عمر تاشی نے گھریلو حالات سے تنگ آ کر بھیک مانگنا شروع کر دیا۔ اماں فضلاں نے بتایا کہ وہ ایسے بہت سے بوڑھوں اور ضعیف عورتوں کو جانتی ہے جو راز دارانہ انداز میں متمول گھرانوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ اماں فضلاں نے سوداؔ کے انداز میں ہجویات بھی لکھیں جو لوگوں کو زبانی یاد ہیں۔ مرضی پورہ کی کچی بستی میں بہرام ٹھگ کے پڑپوتے اور تشفی مَل کنجڑے کے نواسے ’’ شینا ‘‘ کی لُوٹ مار سے لوگ تنگ آ گئے۔ منشی کھان ایاز کا نیا مکان اسی بستی کے مشرق میں واقع ہے۔ ممتاز ماہر تعلیم محبوب علی خان جو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور منتقل ہو گئے ہیں گزشتہ صدی کی ستر کی دہائی میں اسی بستی مرضی پورہ میں رہتے تھے۔ جس مقام پر اس وقت جھنگ کا جنرل بس سٹیند ہے سال 1970ء سے پہلے یہاں گورنمنٹ ہائی سکول کے کھیل کے میدان ہوتے تھے۔ جنرل بس سٹینڈ سے ملحق کچی آبادیوں مرضی پورہ، رشید چوک اور رسول پورہ کے علاقے میں ماضی کی جن اہم شخصیات نے قیام کیا اِن میں چودھری ظہور احمد، امتیاز (ماہر شماریات)، ڈاکٹر اعجاز (ماہر امراض گردہ)، زائر حسن (ماہر جغرافیہ)، مشتاق بخاری(ماہر طبیعات)، عبد الرشید خان، نواز جناح(ماہر حیاتیات)، مظہر خان، سیف اللہ، لطیف سپرا، قاضی ذوالفقار، ممتاز بلوچ، اللہ داد، سرفراز سیال، رفیق وِرک، مٹھو مغل، لال خان، غلام حُر، بشارت وقار اور شبیر شاہ شامل ہیں۔ مشکوک نسب کا سفاک درندہ اور اُجرتی بد معاش ’ ’ شِینا ‘‘طویل عرصے سے مردودِ خلائق تھا۔ اس سفاک ڈاکو نے مجبوروں کو اس قدر نڈھال کر دیا کہ شب کی بانو کی آمد کے بعد مسافروں اور مجبوروں کا اپنے گھروں سے نکلنا محال ہو گیا۔ اماں فضلاں اور منشی کھان ایاز کو اِس بات کا قلق تھا کہ چھوٹے جرائم کا ارتکاب کرنے والے کم زور اور چھوٹے چور تو دھر لیے جاتے ہیں مگر ’’ شینا‘‘ جیسے ڈاکو قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کے باوجود دندناتے اور ہنہناتے پھرتے ہیں اور کوئی اُن کو لگام ڈالنے والا نہیں۔
منشی کھان ایاز اِس بات پر خوش تھا کہ اماں فضلاں کے طنزیہ و مزاحیہ کلام میں جہاں زندگی کی نا ہمواریوں اور بے ہنگم تضادات کا ہمدردانہ شعور پایا جاتا ہے وہاں حشو و زائد کا کہیں شائبہ نہیں ہوتا۔ مرضی پورہ میں مقیم عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ شینا کے قبیح کردار کے بارے میں اماں فضلاں کا اندازِ تخاطب گہری معنویت کا حامل ہے۔ ایک رذیل شخص کے قبیح کردار کی بد اعمالیوں کے باوجود اُس ننگ انسانیت درندے سے نفرت کا انداز بے ساختہ اور فطری ہے۔ استعارات، تلمیحات اور تراکیب کے بر محل استعمال سے شاعرہ نے اس ہجو کو عبرت کا تازیانہ بنا دیا ہے۔ آخری عہدِ مغلیہ سے تعلق رکھنے والی امتیاز محل لال کنور (1691- D: 1759 B: )کا تعلق عیاش اور منشیات کے عادی مغل بادشاہ جہاں دار شاہ (عہد حکومت: 1712-1713) سے تھا۔ زہرہ کنجڑن نے لال کنور کی سہیلی ہونے کی وجہ سے قصر شاہی میں بہت عیاشی اور لُوٹ مارکی کی اور منتظر ملکۂ ہند بن بیٹھی۔ مملکت روس سے تعلق رکھنے والی ملکہ الیکزنڈرا(: 1872-1918 Alexandra Feodorovna) کا تعلق رسوائے زمانہ جنسی جنونی راسپوٹین (1869-1916: Grigori Rasputin)سے تھا۔ قدیم زمانے کی یونانی شاعرہ سیفو(Sappho: c 630-c570 BC) اور برطانوی ناول نگار، مضمون نگار اور ناشر ورجینا وولف (1882-1942: Virginia Woolf) کی جنسی بے راہ روی کا بڑے معنی خیز انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔ اصلاح اور مقصدیت کو پیشِ نظر ر کھتے ہوئے شاعرہ نے شِینا جیسے سفاک درندے کے جبر اور مکر کے کریہہ چہرے سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اہلِ نظر اِس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ سیفو اور ورجینا وولف کا انجام کیا ہوا۔ سیفو غروبِ آفتاب کے وقت جزیرہ لیو کاس کی سفید چٹان کی بلندی سے بحیرہ روم میں چھلانگ لگا کر یقینی موت کے منھ میں چلی گئی تھی اور اٹھائیس مارچ 1941ء کوورجینا وولف نے اپنے کوٹ کی جیب میں پتھر ڈال کر شمالی یارک شائر برطانیہ میں اپنے گھر کے نزدیک بہنے والے دریائے آؤز میں کُود کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا۔ اماں فضلاں نے یہ باتیں پروفیسر ارشد چودھری (متوفی: مارچ 2023ء) اور پروفیسر فرخ زہرا گیلانی سے سنی تھیں۔ بہرام ٹھگ، رابی، پونم، رمجانی ٹھگ، گنوا رانتھک، زادو لُدھیک، ظلی، صباحتی اور ناصف بقال قماش کے سفہا اور اجلاف و ارذال کے گروہ سے تعلق رکھنے والا شِینا اپنی خست و خجالت کی وجہ سے معمر شاعرہ اماں فضلاں کی نفرت و حقارت کا موضوع بن گیا۔ زندگی کا ساز بھی منفرد قسم کا ساز ہے جو پیہم بجتا رہتا ہے مگر کوئی بھی اِس ساز کی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ زندگی کے پُر اسرار ساز کی یہی آواز جب ایک لمحے کے لیے تھم جاتی ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ انسان کے تجربات، مشاہدات، جذبات اوراحساسات اس قدر لا محدود ہیں کہ وہ حدِ ادراک سے بھی آ گے نکل گئے ہیں۔ لوگ کہتے تھے کہ انسانیت پر کوہ ستم توڑنے والا ’’ شینا ‘‘ جیسا ضمیر فروش جو زمین کا بوجھ بن گیا تھا، اُس کو تو مرجانا چاہیے۔ ذیل میں شینا کے بارے میں اماں فضلاں کی لکھی ہوئی اِس ہجو کا وہ اقتباس پیش کیا جا رہا ہے جو منشی کھان ایاز کو بہت پسند تھا:
مرضی پورہ دی بستی وِچ ہِک ٹھگ وَسدا ہے شِینا
بھیڈ دے لِیڑے پا کے ایہہ بگھیاڑ بنیا بہوں کمینا
لُٹ، مارتے ٹھگی نال بھریا ایس بہرام خزینہ
رابن ہُڈ دے چور محل وِچ ہے کالے دھن دا دفینہ
لوکائی کرے پَلُوتے ڈُبے ایس مُوذی دا سفینہ
شِینا بھُکھ دے کُڑاب لووے نہ لَبھُس نان شبینہ
نویں الیکزنڈرا ڈھونڈے ایہہ کڑما راسپوٹین
ایس بگھیاڑ دی کنڈ تے اَوڑِک وَیلا پیسیں زِین
لال کنور تے زُہرہ کُنجڑن دا قصہ اے بہوں پارینہ
ایس اِندر دے اکھاڑے وِچ ہن سیفو تے ورجینا
سجاد حسین، کوثر پروین، محمد منیر، خالد، ظفر، عبداللہ، احمد دین، ریاض گلشن اور منشی کھان ایاز نے اسلوبی جمالیات کی مظہر اماں فضلاں کی لکھی ہوئی اس ہجو کو بہت پسند کیا۔ شہر کے لوگوں کی رائے سُن لینے کے بعد اس سفلہ درندے ’’ شینا ‘‘ کی سفاکی کے بارے میں نہ تو کچھ لکھنے کی ضرورت ہے اور نہ اِس موضوع پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش ہے۔ یہ ایک سیدھا اور سادا سا مسئلہ ہے کہ اس قماش کے سفہا اور اجلاف و ارذال اپنے ہی بد بختانہ طرز عمل کے طوفانوں کی زد میں آ جاتے ہیں اور وقت کے سمندر میں غرقاب ہو جاتے ہیں۔ منشی کھان ایاز کا کہنا تھا کہ ضعیف شاعرہ اماں فضلاں نے ’’ شینا ‘‘ جیسے خراب و خوار ابلیس نژاد ڈاکو کے مظالم اور اُس کے خط و خال کے بارے میں اُس کے حسبِ حال جو خیال باندھے ہیں وہ گزرے ہوئے ماہ و سال کے آئینے میں بالکل درست ثابت ہوئے۔ اُردو اَدب میں طنز و مزاح کے ابتدائی نقوش جو جعفر زٹلی (1659-1713)کے اُردو کلام میں ملتے ہیں پنجابی شاعری میں ایسی ہجویات اُسی کی بازگشت قرار دی جا سکتی ہے۔ اماں فضلاں کی ہجویات میں پائی جانے والا غیظ و غضب، تیز دھار کاٹ اور ظلم سے نفرت اُن کے مزاج کاحصہ تھا۔ معاشرتی زندگی میں افراد کے باہمی تعلقات کی تفہیم کے سلسلے میں یہ ہجو کئی حقائق کی گرہ کشائی کرتی ہے۔
آخری عہد مغلیہ، نو آبادیاتی دور اور پس نو آبادیاتی دور میں اماں فضلاں اور منشی کھان ایاز نے اس خطے میں سیاسی نشیب و فراز کو قریب سے دیکھا۔ وہ قندھار سے تعلق رکھنے والی سندھ کی ملکہ ماہ بیگم (پیدائش: 1495ء)، لکھنو کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل (1820-1879)، رضیہ سلطان(D: 1240)، احمدخان کھرل (1776-1857)، رانی جھانسی(1828-1858)، بھگت سنگھ (1907-1931)، محرم لک، دُلا بھٹی (1547-1599) اور برطانوی سامراج کے مخالف مرہٹہ برہمن تانتیا ٹوپ (1813-1859: Tantia Tope) کی بہت بڑے مداح تھے۔ پس نوآبادیاتی دور میں جن ممتاز خواتین نے اس خطے میں تانیثیت کے حوالے سے اماں فضلاں جن خواتین کی تعریف کرتی تھی اُن میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، بے نظیر بھٹو، بانو قدسیہ، عصمت چغتائی، صدیقہ بیگم، پروین شاکر، رضیہ بٹ، کوثر پروین، زاہدہ پروین، ملکہ پُکھراج اور نور جہاں شامل ہیں۔ اماں فضلاں کہا کرتی تھی کہ جھنگ شہر کے حفاظتی بند کے قریب واقع مستریاں والی بستی پر آ سیب کا سایہ ہے۔ بہرام ٹھگ کی باقیات نے اس منحوس اور آسیب زدہ مقام پر اپنے غلیظ پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ یہاں کالی دیوی کے پرستاروں نے زندگی کے سب موسم بے ثمر کر دئیے ہیں۔ پس نو آبادیاتی دور میں قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عشرت کدے ممنوع قرار پائے تو اِن ٹھگوں نے گھوم پھر کر لُوٹ مار کا سلسلہ شروع کر دیا۔ خرچی کی کمائی سے ان ٹھگوں نے چور محل تعمیر کر لیے۔
اپنے معتمد ساتھی اور پڑوسی شبیر رانا کے مشورے پر منشی کھان ایاز نے پیشہ ور ٹھگوں اور عیار لٹیروں کے خلاف کھُل کر لکھا۔ اتوار۔ 19۔ مارچ 2023ء دو پہر کے وقت ضعیف معلم شبیر کے مہمان خانے کے دروازے پر بہرام ٹھگ کے جرائم پیشہ خاندان سے تعلق رکھنے والی نائکہ خاتمہ اور طوائف شاتمہ نے دستک دی۔ اس موقع پر معلوم ہوا کہ خاتمہ کا باپ جو سیاحی وال کی تیامت تفسہہ کا ماموں تھا ایک ماہ قبل ساتواں در کھول کر زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سُدھار گیا۔ نائکہ خاتمہ کی بیٹی کی شادی اُس کے دیور رازو کی اکلوتی اولاد اُمری سے ہو گئی ہے۔ منشی کھان ایاز کا کہنا ہے کہ سیاحی وال کا یہ خسیس خاندان ایسے پیشہ ور ٹھگوں پر مشتمل ہے جس نے ہر دور میں اس علاقے میں قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم رکھا ہے۔ رذیل طوائف شاتمہ کا بھڑوا شوہر اُف تابی خیاط فطرت کی تعزیروں کی زد میں آنے کے بعد فالج کے مرض میں مبتلا ہو گیا اور اپنے کمرے میں پڑی چارپائی تک محدود ہو چُکا ہے۔ خاتمہ نے بتایا کہ سیاحی وال میں بیاہی گئی اُس کی بیٹی جو رفو بونگے کی بہو ہے اُس کے ہاں پانچ ماہ قبل دو جڑواں بچے پیدا ہوئے ہیں جن میں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے آہمی رضو نے اپنے ماموں رمجانی ٹھگ کی بیٹی سمن کو طلاق دے دی اور اپنی چار سال کی بیٹی سمک کو بھی گھر سے نکال دیا۔ سمن نے سبز باغ کے ایک جاگیر دار نوجوان مُرتی سے شادی کر لی اور اپنے ماموں کے بیٹے آہمی رضو کی اولاد اور اپنی بیٹی سمک کو بھی اپنے ساتھ اپنے سسرالی گاؤں سبز باغ لے گئی۔ سبز باغ میں سمن کی یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں سے ایک چل بسی۔ رمجانی ٹھگ کی دو بیٹیاں سبز باغ میں خوش حال زندگی بسر کر رہی ہیں اور آہمی رضو کی بیٹی سمک انھیں بن مانگے مِل گئی ہے یوں جاگر داروں کو سمک کی صورت میں ایک نو خیز کلی دستیاب ہو گئی۔ چھے ماہ قبل بر یام ٹھگ کی بیٹی شہانہ کے بیٹے آہمی رضو کی دوسری بیوی نے ایک بچی کو جنم دیا۔ آہمی رضو کی بہن ہمیری معلمہ جسے رمجانی ٹھگ کے کپوت گنوار انتھک نے طلاق دی تھی اُس نے بھی سرگودھا میں اپنی پسند کی شادی کر لی مگر تین سال گزرنے کے بعد بھی اُس کے آنگن مین کوئی پھول یا کلی نہ کھِل سکی۔ رمجانی ٹھگ کا بیٹا گنوار انتھک جس نے اپنے ماموں کی بیٹی ہُمیری معلمہ کو فارغ کر دیا تھا اور سمی لوہاری سے بیاہ رچا لیا تھا ابھی تک بے اولاد ہے اور ان پڑھ سمی کو ساتھ لے کر جاگیر داروں اور کالے دھن سے عشرت کدے تعمیر کرنے والے نو دولتیے ٹھگوں کے گھر کے سامنے دُم ہلاتا پھرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ سمی لو ہاری کا باپ دِتو آہن گر بھی ساتواں در کھول کر دشتِ عدم کو سُدھارا۔ جھنگ شہر میں مقیم آہمی مُگھی رنگ ساز کا بیٹا جازو اپنی بیٹی کو فیصل آباد کے فیضو کے مرحوم بیٹے ریاضی کے بیٹے کی شریک حیات بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ شادی کی اِس تقریب میں محافظ اتائی کے خاندان نے آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور اُس ضعیف معلم کو فراموش کر دیا جس نے ہر روز شام کے وقت اس خاندان کے افراد کو اِن کے گھر پہنچ کر پرائمری سے ہائی کلاسز تک کسی فیس کے بغیر تعلیم دی۔ جازو کی بیٹی کا شوہر محافظ اتائی کا نواسا ہے یہ وہی جازو ہے جس کی ٹسوے بہانے والی بہن ٹسوں نے محافظ اتائی کی بیٹی تسنیم کو اپنے سسرال سے نکال کر فارغ کر دیا۔ درد مندوں اور ضعیفوں کی چارہ گری کے ذریعے اپنی روح اور قلب حزیں کی تسکین کی سعی کرنا منشی کھان ایاز کا شیوہ ہے۔ منشی کھان ایاز نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ پیمان شکنی، آوارگی اور محسن کُشی سیاحی وال اور مستریاں والا کے ٹھگوں کی سرشت میں شامل ہے۔ یہ بے ثبات سر خوشی کے متلاشی ہیں مگر مقدر کی تیرگی سدا اِن کا تعاقب کرے گی۔ اِن خود غرض اور طوطا چشم درندوں کی مے خانگی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے کہ تلخ انجامی ٔ بہار سے بے خبر یہ بروٹس اپنے رہینِ ستم رہنے والے محسنوں کو ایک جرعہ تک پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
بیتے لمحات کی چاپ سُن کر عجز و انکسار کے پیکر جہاں دیدہ معلم منشی کھان ایاز نے اپنے دیرینہ ساتھی اور دِل فگار و ضعیف معلم شبیر کی خوں فشانیوں کے بارے میں کہا:
’’ ضعیف معلم شبیر کو لوگ علم و ادب کا دائرۃ المعارف قرار دیتے ہیں مگر وہ ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ وہ تو علم و ادب کا ایک معمولی طالب علم ہے۔ میں نے جھنگ کے ضعیف معلم شبیر کے ہمراہ جب بھی اماں فضلاں سے ملاقات کی ہمارے دِل میں یہی تمنا ہوتی تھی کہ اِس بزرگ خاتون سے کوئی نئی بات معلوم ہو گی۔ اماں فضلاں کو جب بھی مٹی کے پکے گھڑے، صحنک، پیالے، پرٹوٹے، کُنّی، استاوے، چٹوری یا صراحی کی ضرورت ہوتی تو وہ مستریاں والی بستی جسے لوگ پاپ کی بستی، نفرت گہہ عالم اور لعنت گہہِ ہستی بھی کہتے ہیں جھنگ شہر میں گھامی ظروف ساز کے پاس جاتی تھی۔ وہ مستریاں والی بستی کے کمینے اور جفا کار مکینوں کے بارے میں سب حالات سے آ گاہ تھی۔ یہاں کے جن بروٹس قماش مکینوں کو میں اچھی طرح جانتا ہوں اُن میں بریام ٹھگ، محافظ اتائی، تشفی کنجڑا، گُلو، ہَکُو اور ناسُو شامِل ہیں۔ اِن جفا پیشہ سفاک درندوں نے یہاں کے کوچوں کو جذبات، احساسات اور افکار کے مذبح میں بدل دیا ہے۔ سال 1971ء میں پورے علاقے میں جس نوجوان نے اعلا تعلیم حاصل کر کے شعبہ تدریس کواپنایا وہ شبیر ہی تھا۔ میں نے اور اماں فضلاں نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر اِس نوجوان فطین معلم کو بہت سمجھایا کہ وہ مستریاں والی بستی کے کیکروں پر انگور کی بیل نہ چڑھائے اور محافظ اتائی کی اولاد کو پڑھانے شام کو اُس کے گھر نہ جائے مگر وہ پیہم دس برس تک ہر سہ پہر کو اپنی بائیسیکل پر تین میل سفر کر کے مستریاں والی بستی جاتا اور محافظ اتائی کی اولاد کو کسی فیس اور معاوضے کے بغیر پڑھاتا۔ محافظ اتائی کی اولاد کے بارے میں مشہور ہے کہ احسان فراموشی اور سادیت پسندی مشکوک نسب کے اِن درندوں کی گھُٹی میں پڑی ہے۔ اگر ایک خارش زدہ بھُوکے سگِ راہ کے سامنے ایک چھیچھڑا پھینک دیا جائے تو وہ بھی اس قدر ممنون ہو جاتا ہے کہ دُم ہلاتا پیچھے پیچھے چلا آتا ہے مگر محافظ اتائی کی اولاد کی عفونت زدہ احسان فراموشی کا یہ حال ہے کہ یہ اپنے محسن کو کاٹنے کو دوڑتی ہے۔ محافظ اتائی کی اولاد ایک ایسی چھلنی کی مانند ہے جس میں بے شمار چھید ہیں۔ محافظ اتائی اور بریو پنساری کی اولاد کی برائیوں کے سوتے اِن کی محسن کُشی ہی سے پھُوٹتے ہیں۔ احسان فراموشی کا خطر ناک زہر محافظ اتائی اور بریو پنساری کی اولاد کے ریشے ریشے میں سرایت کر چکا ہے جس کے نتیجے میں یہ انسانیت سے محروم ہو چُکے ہیں۔ یہ بات کبھی فراموش نہ کریں کہ اگر بہرام ٹھگ کی اولاد نے ایک بے بس ضعیف معلم کو لُوٹ لیا ہے تو سیلِ ماں کے تھپیڑے ان کا سب اسباب بہا لے گئے ہیں۔ جب یہ مست فِیل پہاڑ کے نیچے آئے تو انھیں اپنی اوقات معلوم ہو گئی۔ ٹھگوں کے اس خاندان کی منافقت دیکھ کر سوچتا ہوں کہ کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہر گز نہیں ہوتے۔ بہرام ٹھگ کے خاندان نے بساطِ سیل پہ قصر حباب کی تعمیر میں جس انہماک کا مظاہرہ کیا ہے اُسے دیکھ کر محوِ حیرت ہوں کہ دریا کی متلاطم موجوں میں سراب ہے یا سراب نے دریا کی پُر شور موجوں کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ گنجان آباد شہروں سے دشت کی جستجو کرنے والوں کو نور شاہ بازار جھنگ میں بریام پنساری کی دکان سے گوہر مراد مِل جاتا تھا۔ بہرام ٹھگ کی اولاد بریام پنساری اور محافظ اتائی کے بارے میں شہر کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ درندے معاشرے کے چہرے پر کلنک کا ٹیکہ ہیں۔ ‘‘
پس نو آبادیاتی دور میں جھنگ میں مستحکم زین کی اولاد نے مکر و فریب کی ایسی بساط بچھائی ہے کہ بڑے بڑے سگھڑ سیانے بھی اِن ٹھگوں کے فریب میں آ گئے۔ اِن عیاروں کی راتیں عجیب انداز سے کٹتی تھیں سر شام گھاتیں، اس کے بعد مے نوشی اور نصف شب کے وقت بند قبا سے بے نیاز ہو کر ساز کی لے پر ہم رقص کے ساتھ لپٹ جانا اور مداراتیں ان کا معمول تھا۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو اپنے مکر کی چالوں، عشوہ، ناز، انداز اور غمزۂ غماز سے نوجوان لڑکوں کو فریب دینے میں اس لیے کامیاب ہو گئی کہ نو جوان لڑکے ظاہری چکا چوند اور ملمع سازی سے آسانی سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔ اپنی بوڑھی ماں نائکہ تفسہہ کی تربیت سے ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے ایک سو کے قریب نوجوان لڑکوں کی آبائی میراث پر ہاتھ صاف کیا۔ اپنے عشرت کدے وجد و رقص میں مستانہ وار اور بے باکانہ رہنے والی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو اور اِس کی بہنوں نے شرم و حیا کو بارہ پتھر کر دیا تھا۔ اس عالم آب و گِل میں خالق کائنات نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں مگر محافظ اتائی، بریو پنساری، تشفی کنجڑا اور بہرام جیسے ٹھگ جنھیں خود غرضی اور حرص و ہوس نے کُچل ڈالا ہے اُن کی تسکین کبھی نہیں ہو سکتی۔ اپنے گھٹیا مفادات کی خاطر گرگٹ کے مانند رنگ بدلنے والے بھیڑیے سب اخلاقی اقدار اور تہذیبی معائر کو دریا بُرد کر کے متحد ہو گئے ہیں۔ جھنگ کے ایک ضعیف معلم شبیر کے بیٹے سے منگنی کا ڈھونگ رچا کر پیہم چار برس (2017-2020) تک اُسے لُوٹنے کے بعد ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے اپنے آبائی قصبے سیاحی وال ہی میں ایک نیا شکار پھانس لیا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ تین سال قبل ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے سیاحی وال کے جس متمول شخص کے نوجوان بیٹے سے بیاہ کا ڈھونگ رچا کر لُوٹا اُس کا نام رمضوبھٹیارا ہے جو سال 1981ء میں مگر مچھ نگر کے سرکاری وسطانی مدرسے میں فنی تعلیم پر مامور تھا۔ رمجانی ٹھگ اور نائکہ تفسہہ کی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس بیٹی مصبہا بنو جھنگ کے ایک ضعیف معلم شبیر اور سیکڑوں سادہ لوح لوگوں کو تو پلک جھپکتے میں چُونا لگانے اور فریب دینے میں کامیاب ہو گئی مگر اِس بار اُس کا کچا چٹھا سامنے آنے والا تھا۔ شادی کی اگلی صبح رمضو بھٹیارے کے نو جوان بیٹے نے ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کے منھ پر طلاق کا طمانچہ رسید کا اور دھُتکار کر اِس جعل ساز کو اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔ بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھنے والی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کے خاندان کے بارے میں شہر بھر کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ صیّاد اور جلاد سبھی کا تعلق اسی خاندان سے ہے۔ کاغذ پر لکھے ہوئے شجرۂ نسب اور قریبی رشتہ داروں کی فہرست دیکھ کر کسی بھی شخص کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تکلم کے سلسلے، طرزِ عمل اور تہذیب ہی سے شخصیت کے اسرار و رموز سے آ گاہی ملتی ہے۔
منشی کھان ایاز اور اماں فضلاں نے سدا اِس بات پر اصرار کیا کہ کُوڑے کے عفونت زدہ ڈھیر سے جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھو ڑنے والے خارش زدہ سگان کے غرانے سے گھبرانے کے بجائے خاموشی سے اپنا سفر جاری رکھنا ہی مصلحت کا تقاضا ہے۔ سہ پہر کے وقت خاتمہ اور شاتمہ کے ساتھ یہ نشست اختتام کو پہنچی ضعیف معلم شبیر کے گھر سے کھانا کھا کر نائکہ خاتمہ اور طوائف شاتمہ کسی نئے شکار کو پھانسنے کا منصوبہ بناتی ہوئی اپنے اپنے گھروں کی جانب روانہ ہوئیں۔ وہ اِس حقیقت سے بے خبر تھیں کہ صابر و شاکر انسان کی مثال بھی سمندر کے سکون کی سی ہے جہاں کسی بھی وقت ایسا طوفان آ سکتا ہے جس کی تلاطم خیز موجیں جو رو ستم کی سب چٹانوں کو غرقاب کر سکتی ہیں۔ فطرت کی تعزیریں اگرچہ نہایت سخت ہیں مگر یہ تو نوشتۂ تقدیر ہے۔ بہرام ٹھگ کے رذیل خاندان سے تعلق رکھنے والی یہ بِن بُلائی طوائفیں چلی گئیں تو ضعیف معلم سوچنے لگا کہ اماں فضلاں اور منشی کھان ایاز نے سیاحی وال کی اِن رذیل طوائفوں کے بارے میں ہمیشہ صحیح مشورے دئیے۔ وہ اس بات کی جانب متوجہ کرتے تھے کہ انسان ہر ستم سے بچ نکلتا ہے مگر فریب کاری اور ٹھگی کی تیر اندازی روح اور قلب کو چھلنی کر دیتی ہے۔
منشی کھان ایاز اور اماں فضلاں نے نور شاہ بازار جھنگ شہر میں بہرام ٹھگ کی اولاد کو دیکھا تھا جنھوں نے زندگی کے آخری ایام میں بھی مکر و فریب اور لُوٹ مار کابازار گرم رکھا۔ شہر کے سب لوگ اِن ٹھگوں کے قبیح کردار سے آ گاہ تھے اور کہا کرتے تھے کہ بہرام ٹھگ کے خاندان کے ہر فرد میں ایک خطرناک ڈاکو کی بد روح پنہاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فطرت کی سخت تعزیریں ان کی نیّت کی تصویریں دیکھ کر انھیں خبر دار کر رہی تھیں۔ اماں فضلاں اور منشی کھان ایاز کہا کرتے تھے کہ ہم اُن ابن الوقت درندوں پر اعتماد اور انحصار نہیں کرتے جو نمک حرام ڈیوڑھی میں چھُپے ہیں اس لیے ہم اُن کی غداری کے وار سے بچ نکلتے ہیں۔ منشی کھان ایاز نے یہ بات بر ملا کہی کہ بہرام ٹھگ کی بے غیرت اولاد جس بے دردی اور سفاکی سے سادہ لوح لوگوں کو لُوٹنے میں مصروف ہے اُس سے بہتر ہے کہ وہ چوری چکاری کو وتیرہ بنا لے۔ جھنگ کے ضعیف معلم شبیر نے بروٹس قماش کے درندوں کو اپنی نظروں سے گِرانے اور ایذا دینے والے سادیت پسندوں کے ساتھ نفرت اور حقارت بھرا سلوک کرنے کی جو روش اپنائی وہ اُس کے کردار کی عظمت کی دلیل ہے۔ اُس صابر و شاکر انسان نے اشتعال انگیزی، پچھتاوے، کینہ پروری اور حسد سے اپنا دامن کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔ اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں کا معاملہ ضعیف معلم شبیر اپنے خالق کی عدالت میں پیش کر چکا ہے اور وہ اسی انتظار میں ہے کہ ظلم کا پرچم کب سر نگوں ہو گا اور سیاحی وال کے ٹھگوں کا سفینہ کب غرقاب ہو گا۔ ضعیف معلم شبیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اِسی تکمیل تمنا کی خاطر سانس گِن گِن کر زندگی بسر کر رہا ہے کہ کب سیاحی وال، سبز باغ، مگر مچھ نگر، کہانیاں کاہ اور خشتاں والی کے گُرگ اپنے انجام کو پہنچتے ہیں۔ بہرام ٹھگ کی اولاد بر یام پنساری اور محافظ اتائی کے ہاتھوں جھنگ شہر کے ضعیف معلم شبیر کے مکمل انہدام کی الم ناک کہانی کے بارے میں منشی کھان ایاز نے کہا:
’’ گزشتہ پانچ عشروں سے جھنگ شہر کے ضعیف معلم شبیر کے ساتھ میرے گہرے مراسم رہے ہیں۔ اُس درویش معلم کی عملی زندگی ایک منشور کے مانند ہے جو متعدد رنگ منعکس کرتا ہے۔ اِن رنگوں میں توحید و رسالت سے قلبی وابستگی خلوص، مروّت، وفا، انسان دوستی، ایثار اور علم دوستی کے رنگ نمایاں ہیں۔ چھے جولائی 2017ء کو جب اُس کا نو جوان بیٹا سجاد دائمی مفارقت دے گیا تو اُس نے اپنی روزمرہ زندگی کا ظاہری رُوپ بدلنے کی سعی کی۔ اُس کے تکلم کے سلسلوں کی کہکشاں سامعین کو بصیرت عطا کرتی ہے۔ اس جہاں دیدہ شخص نے زندگی بھر خارزارِ حیات کے آبلہ پا مسافروں کو اُن کی اُمید سے کہیں بڑھ کر حیات و ممات کے اسرار و رموز سے آشنا کرانے کی سعی کی۔ حیف صد حیف کہ اُس نے سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے درندوں اور بہرام ٹھگ کی اولاد کو پرکھنے میں جو مہلک غلطی کی اُس کا خمیازہ وہ اَب تک اُٹھا رہا ہے۔ جب وہ بروٹس قماش کے مسخروں کی چُنگل میں پھنس گیا تو میں نے اور میرے ساتھیوں نے اُسے بہت سمجھایا کہ وہ ہوش سے کام لے، ہوا کا رُخ پہچانے اور بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھنے والے اِن عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگوں کی عیاری اور ٹھگی کی بساط سے بچنے کی کوشش کرے۔ یہ بروٹس اپنے محسن کو اپنے حلقۂ احباب سے ایسے نکال باہر کرتے ہیں جیسے دُودھ سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔ مگر اُس نے ہماری بات سُنی اَن سُنی کر دی۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کے ساتھ اپنے چھوٹے بیٹے کی منگنی کے وقت بھی سارے شہر کے لوگوں نے اُس ضعیف معلم کو روکا۔ جب اِن عیاروں کے سب راز کھُل گئے اور بہرام ٹھگ کی محسن کُش اولاد نے ضعیف معلم کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تو اُس وقت پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چُکا تھا۔ اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے بعد مشکوک نسب کے ان سفہا نے بے بس و لاچار ضعیف معلم شبیر کے ساتھ جو اہانت آمیز سلوک کیا اُس نے بروٹس کو بھی مات دے دی۔ اپنے معتمد ساتھیوں، احباب اور شاگردوں کو نئی فکری جہتیں، علم و عمل کی ندرتیں اور عجز و انکسار کی لائق تقلید روایتیں سمجھانے والا، خلوص، وفا، مروّت، وفا اور ایثار کا پیکر ضعیف معلم شبیر جب دِل کے بازار میں خسارا کر کے اور منافقوں کے ستم گوارا کر کے مایوسی کے عالم میں سر بہ زانو بیٹھا تھا تو میں نے کوشش کی کہ اپنی دانش و بینش کو مستحکم رکھتے ہوئے اُسے حقائق کا سامنا کرنے پر مائل کروں۔ میں نے نفسیاتی سطح پر اس معلم کا جائزہ لیا تو اُس کی زندگی کے تلخ حقائق نے میرے لبِ اظہار پر تالے لگا دئیے۔ میں نے آلامِ روزگار میں گھرے اس شخص کو جھنجھوڑ کر کہا تھا ’’ ہور چُوپو گنے۔ ‘‘
منشی کھان ایاز کی گفتگو کی درو بست اور تجزیاتی سیلِ رواں پر مبنی یہ بات سُن کر اپنے عہد کے تہذیبی و ثقافتی بحران، معاشرتی انتشار، اخلاقی زوال اور آشوب زمانہ پر گہری نظر رکھنے والے معلم مرزا یامین ساحر نے ایک بلند قہقہہ لگایا اور کہا:
’’ پنجابی کی یہ مشہور ضرب المثل تو دہانِ زخم پیدا کرنے والی اختراع ہے۔ جنگل بیلے، سیاحی وال، سبز باغ اور موچی وال کے علاقے میں یہ کثرت سے مستعمل ہے۔ اِس میں مرگِ نا گہانی اور کٹھن حالات کی جمالیات کی نہایت موثر اور چونکا دینے والی نفسیاتی سوچ کورو بہ عمل لانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ نئی نسل کو پنجابی زبان میں مستعمل اِس ضرب المثل کے بارے میں آ گہی فراہم کر دی جائے۔ سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے ایک نو دولتیے رمجانی نے اپنے عزیزوں جھابو، مُرتی، شیدو، آتو اور کھبیب سے مِل کر ٹھگی، منشیات، خرچی اور سمگلنگ سے بہت کالا دھن کمایا۔ بھون، بھوانہ اور سبز باغ کے علاقوں میں شوگر مِلیں بنیں تو رمجانی نے اپنے سسر تشفی مِل کنجڑے اور اُس کی بیوی امیرن بائی سے مشورہ کیا کہ وہ سبز باغ کی نئی شوگر مِل کے سامنے چار مربع میل کے علاقے پر مشتمل زرعی زمین خریدنا چاہتا ہے۔ میں اس سفاک ٹھگ، طالع آزما لٹیرے، آدم خور مہم جُو اور پیشہ ور ڈاکو رمجانی کے بارے میں کئی راز جانتا ہوں۔ اُس نے اپنی نائکہ ساس امیرن بائی سے کہا:
’’تم سب لوگ جانتے ہو کہ کئی بڑے شہروں میں اپنے محلات تعمیر کر چُکا ہوں اور میرے فارم ہاؤس بھی کئی بڑے شہروں کے نواح میں موجود ہیں۔ قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عشرت کدوں سے حاصل ہونے والی کمائی سے میرے پاس اِس قدر دولت جمع ہو چُکی ہے کہ میں فی الفور لب سڑک دو سو ایکڑ زرعی زمین خرید سکتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کی زرعی زمین میں نقد آور فصلوں کی کاشت کاری کے ذریعے دولت کماؤں۔ جھنگ سے سرگودھا جانے والی سڑک پر گاؤں بھون میں شُوگر مل نے کام شرع کر دیا ہے۔ میں بھون کے علاقے میں شوکر مِل کے سامنے جو زمین خریدوں گا اِس میں گنے کی جدید قسمیں (CPF-250,CPF-251,CPF-253)جو ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد نے سال 2019ء میں متعارف کرائی ہیں اُن کی کاشت کی جائے گی۔ اس علاقے کے جاہل کسانوں کو کیا معلوم کہ گنے کی اِن قسموں کو آب پاشی کے لیے تیس فی صد کم پانی درکار ہے جب کہ پیداوار مقامی طور پر مروّج قسموں سے چالیس فیصد زائد حاصل ہوتی ہے۔ مِل کے نواحی علاقوں کے غریب کسان اور محنت کش لوگ میرے کھیتوں کے مزارع بن جائیں گے اور میں مِل کو گنا فراہم کرنے والا سب سے بڑا کسان بن جاؤں گا۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد میں یہ مِل خرید لوں گا اور اِس کے بعد میں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے دو آبہ کے علاقے میں دس کے قریب شوگر مِلیں تعمیر کروں گا۔ اس طرح ملک بھر کی شوگر انڈسٹری پر میرا اجارہ ہو گا۔ ‘‘
معاشرتی زندگی کی اُلجھنوں اور محنتِ شاقہ کے شعور سے بے خبر ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے اپنے بھڑوے باپ کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں کہا:
’’ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ سو پشت سے قحبہ گری ہمارا آبائی پیشہ ہے اور حرص و ہوس اور فریب جیسے متعدی امراض ہماری گھُٹی میں پڑے ہیں۔ ہمارا تعلق بہرام ٹھگ کے خاندان سے ہے اور ہمارے آبا عادی دروغ گو، پیشہ ور ٹھگ اور سفاک قاتل تھے۔ سو پشت سے یہی قحبہ خانے، چنڈو خانے اور عشرت کدے ہمارے لیے خرچی کا وسیلہ بنے رہے ہیں مگر صنعتی دور میں خرچی کی آمدنی کم ہونے لگی اور ہم کسی نئے جہان کی تلاش میں نکل پڑے ہیں۔ سوچتی ہوں کہ اَب طمع کی تسکین کا کوئی نیا طریقہ تلاش کروں۔ لالچ اور گھمنڈنے ہمارے خاندان کے شکھنڈی لوگوں کو پکھنڈی، بیکار اور عیار بنا دیا ہے۔ قحبہ خانے اور چنڈو خانے میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے کی اذیت و عقوبت کا مجھے شدت سے احساس ہے۔ میں نے اپنی شادیوں اور منگنیوں کی ڈبل سنچری مکمل کر لی ہے اور نو دولتیے عیاشوں سے کروڑوں روپے بٹور لیے ہیں۔ گاجر، شکر قندی، مونگ پھلی، چقندر اور شلجم کے کھیتوں میں گھومنے والے گدھے خوب جانتے ہیں ثمر نو رستہ کا لطف کیا ہے۔ بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کا حُسن ڈھلنے لگا ہے توہم اب ہم جاہ و جلال کے رعب و دبدبے اور زر و مال کی چکا چوند سے دولت مند عیاشوں کو چُلّو میں اُلّو بنائیں گے۔ اگرچہ معاشرے نے ہمیں شجرِ ممنوعہ قرار دیا ہے مگر ہم نے کبھی تنقید کی پروا نہ کی۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ دولت، عیش و عشرت، عیاشی اور جنسی جنون باہم متصل ہیں۔ میرے لیے یہ بات حیران کُن مسرت کا سبب ہے کہ اب ہم اپنا قحبہ خانہ بند کر دیں گے اور خرچی کی کمائی سے ہر شہر میں بڑے بڑے کارخانے لگائیں گے۔ اس طرح جو منظر نامہ سامنے آئے گا اُسے دیکھ کر ہمارے حاسدوں کی آنکھیں چُندھیا جائیں گی۔ ‘‘
’’ اونہہ! باگڑ بِلے کو سدا چھیچھڑوں ہی کے خواب آ تے ہیں۔ ‘‘ تشفی مَل کنجڑے نے اپنی گنجی کھوپڑی کو کھجلاتے ہوئے کہا: ’’بھون کے قریب اکڑیاں والا، بیر والا، پبر والا، مکوڑیاں والا، جنڈی والا، کری والا، کیکر والا اور کھجی والا میں خانہ بدوش جھُگی نشینوں کے ڈیرے ہیں۔ یہی صحرا ملک بھر کے سیکڑوں چوروں، رہزنوں اوراُچکوں کی آماجگاہ ہے۔ کماد کی کٹائی اور صفائی کے بعد گنا کھیتوں سے شوگر مِل میں پہچانے سے قبل تمھارے گنے کے کھیتوں کو یہ چور گنے چُوس کر اُجاڑ دیں گے۔ گاؤں کا گاؤں یہ بات کہتا ہے کہ جنڈی والا اور اُس کی نواحی جھُگیوں کے چور اِس قدر عیار ہیں کہ وہ محنت کشوں اور کسانوں کی کوئی فصل کھیت سے کھلیان تک پہنچنے ہی نہیں دیتے۔ میں سمجھتا ہوں تمھارا منصوبہ اس لیے ناکام ہو گا کہ کماد کے کھیتوں کو جنڈی والا کے چور اور بد معاش نے رات کی تاریکی میں گنے چُوس چُوس چُوس کر جاڑ دیں گے۔ جب کماد کے کھیتوں میں گنے ہی نہ ہوں گے اور اِن خراباتوں میں خاک اُڑے تو شوگر مِل میں کیا لے کر جاؤ گے؟ ‘ ‘
ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا:
’’ میں نے بیس سال کے عرصے میں خرچی کی کمائی سے جو زر و مال کمایا وہ سب میں نے زرعی زمین کی خریداری، زمین کی تیاری، ٹریکٹر اور ٹرالیوں کی خرید اور فارم ہاؤس میں گنے کی کاشت پر خرچ کر ڈالی۔ آہ! سیاحی وال کا ہمارا آبائی قحبہ خانہ جس میں عیاش امرا کا تانتا بندھا رہتا تھا میری نانی امیرن بائی، میری ماں نائکہ تفسہہ، بہنوں شگن اور سمن کے بوڑھا ہونے کے بعد وہاں اُلّو بولتا ہے۔ میری عمر بھی اب چالیس سال ہو چُکی ہے اور میں اپنے دیوانوں کو فریب دینے کے لیے کب تک مشاطہ پر انحصار کر سکتی ہوں۔ جنڈی والا کے خانہ بدوش فاقہ کشوں نے ہمارے گنے کے سر سبز و شاداب کھیتوں سے گنے چوری کیے اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر گنے چُوستے رہے۔ اِن موذی، مکار اور چور خانہ بدوشوں نے ہمارے منصوبوں کو ناکام بنایا اور کماد کے ہرے بھرے کھیتوں کو ویران کر کے اپنی موت کو دعوت دی ہے۔ میں لال کنور، زہرہ کنجڑن، تفسہہ اور امیرن بائی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میں تیامت اور کالی دیوی کی پجارن ہوں اور میں ایسی ناگن ہوں جس کا کاٹا پانی تک نہیں مانگتا۔ ہمارے کماد کے کھیتوں کو اُجاڑنے والے جنڈی والا کے خانہ بدوش چور اب ہمارے انتقام سے بچ نہیں سکتے۔‘‘
جنڈی والا کے چوروں کی ڈکیتی کے بارے میں تشفی مَل کُنجڑے اور ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کی باتیں سُن کر رمجانی آگ بگولا ہو گیا اور کہا:
’’تمھاری باتوں نے میری مخمور آنکھیں کھول دی ہیں اور میں نے دس کلو میٹر کے علاقے میں پھیلے اپنے کماد کے کھیتوں کو اُجڑتے دیکھ لیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جنڈی والا کے کھلنڈرے لڑکے میرے کھیتوں سے گنے توڑ کر چُوس رہے ہیں اور اُنھوں نے گنے کے چھلکے میرے گھر کے سامنے بکھیر دئیے ہیں۔ رات کی تاریکی میں ان چوروں نے گنے سے لدی ہوئی میری ٹرالیوں اور ٹرکوں سے سارے گنے کھینچ لیے اور سڑک کے کنارے بیٹھ کر گنے چُوستے رہے اور جُگت اور پھبتی سے میرا مذاق اُڑاتے رہے۔ میں بھی کالی دیوی کا متوالا ہوں میری راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔ میں اِن چوروں کے ساتھ ایسا سلوک کروں گا کہ اُن کو چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ اس وقت دوپہر کا وقت ہے جن لوگوں نے میرے سر سبز و شاداب کھیتوں کے گنے چُرا کر چُوسے ہیں میں اُنھیں دِن میں تارے دکھا دوں گا۔ ‘‘
یہ کہہ کر اُس نے اپنے شریک جُرم ساتھیوں جھابو، عتابی، مرتی، نازی، رضو، فاذو، روفی اور کئی کرائے کے بد معاشوں اور اُجرتی ٹھگوں کو ساتھ لیا اور جنڈی والا کی جھگیوں پر دھاوا بول دیا۔ پچاس کے قریب ٹھگوں کایہ مسلح جتھا مغلظات بکتا ہوا جنڈی والا پہنچا۔ جنڈی والا پہنچ کر شکھنڈی رمجانی نے سب جھُگی نشین خانہ بدوشوں کو بُلایا، جب جنڈی والا کے سب فاقہ کش، لاغر اور خستہ حال مزدور ایک میدان میں اکٹھے ہو گئے تو شکھنڈی رمجانی کے حکم پر اُس کے ساتھ آئے اُجرتی بد معاشوں نے مزدوروں کو بے تحاشا مارنا شروع کر دیا۔ بے بس خانہ بدوش ایک نو دولتیے سے پِٹ رہے تھے اور چیخ پکار کر کے اپنا قصور پُوچھ رہے تھے۔ رمجانی کے منھ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور وہ غراتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ ہور چُوپو گنے۔ ‘‘
رمجانی جو ہر وقت نشے میں بدمست رہتا تھا اُسی وقت اپنی لے پالک بیٹی ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کو ساتھ لے کر سیاحی وال میں اپنے سسرال پہنچا۔ رمجانی نے رازدارانہ لہجے میں تشفی مَل کنجڑے سے کہا کہ انھوں نے اپنے اعدا کا خوب مکوٹھپ دیا ہے۔
قحبہ خانوں، چنڈو خانوں اور عشرت کدوں میں اپنے زندگی بھر کی کمائی لُٹوا دینے والے درماندہ، پریشاں حال، دِل شکستہ اور کِرچیوں میں بٹے لوگوں کے مطالعۂ احوال میں گہری دلچسپی رکھنے والے ماہر علم بشریات مرزا یامین ساحر نے اس سارے معاملے کا پس منظر بتاتے ہوئے کہا:
’’بر صغیر میں نوے سالہ غلامی نے اس خطے کے باشندوں کو ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا کر دیا۔ پس نوآبادیاتی دور میں بھی احساسِ کم تری اور بے حسی کا عفریت ہر سُو منڈلا رہا ہے۔ تیسری دنیا کے باشندوں کی سادگی کا یہ حال ہے کہ مشکوک نسب کے پیدائشی بہرے شکھنڈی مُوذیوں سے یہ توقع وابستہ کر لی گئی ہے کہ وہ آلام روزگار کے مہیب پاٹوں میں پِسنے والے قسمت سے محروم بے بس و مجبور انسانوں کی چیخ پکار اور آہ و فغاں سُن کر کے مرہم بہ دست اُن کے پاس پہنچیں گے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ پس نو آبادیاتی دور میں لُولے لنگڑے اور اپاہج طفیلی مرغانِ باد نُما نے مفادات کے جواہر سمیٹنے کی خاطر لمبی دوڑ، چھلانگوں، بھاری وزن اُٹھانے اور نیزہ بازی کے لیے کھیل کے میدانوں کو اپنی جولاں گاہ بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ چور محل میں پروان چڑھنے والے چور دروازے سے گھُس کر گنجِ قارون پر ہاتھ صاف کرنے والے گنجے بروٹس اپنے عفونت زدہ ہاتھوں میں سادیت پسندی کی کنگھی لیے اپنی گنجی کھوپڑی پر مانگ نکالنے میں انہماک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ وہ طوطا چشم سفہا اور اجلاف و ارذال جنھیں لُکنت کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باعث بات کرنے کا ڈھب تک نہیں آتا وہ بھی سات سُروں میں اپنی بے وقت کی راگنی اَلاپ کر سادہ لوح لوگوں کو سبز باغ دکھاتے ہیں اور اُن کے کانوں میں خس ٹھونستے ہیں۔ بے فکری کے اُڑن کھٹولوں میں جھُولے لینے والے موسیقی کے کور مغز شائقین یہ کچے پکے راگ سُن کرسر دھُنتے ہیں اور خوشی سے پھُولے نہیں سماتے۔ جب وقت اِن مُورکھ شائقین کی دھُنائی کرتا ہے تو اپنی جگ ہنسائی پر وہ بے سُرے بھانڈوں کی بھونڈی چال کے بارے میں سوچ کر کفِ افسوس مَلنے لگتے ہیں۔ اِس بے حِس معاشرے میں ایسے ابلہ بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں جو زندگی کے سفر میں اُن ٹھگوں کو بدرقہ سمجھتے ہیں جو خود بصارت سے یکسر محروم ہیں۔ عالم مد ہوشی میں اپنے محبوب کو وڈیو کالز کرنے، عریاں فلمیں دیکھنا اور گھُپ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیے مارنا بصارت سے محروم اِن ٹھگوں کا وتیرہ ہے۔ یہ سب ایسے کواکب ہیں جن کی اصلیت کسی کو معلوم نہیں۔ اِن عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگوں کی پوری زندگی پیمان شکنی، محسن کُشی اور فریب کاری کے واقعات سے لبریز ہے۔
منشی کھان ایاز نے بتایا کہ سیاحی وال کی رذیل طوائف ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو بھی عریاں امریکی فلموں کی اداکارہ سٹورمی ڈینیلز (Stormy Daniels) کی پیروکار ہے۔ جن کے مقدر میں ڈُوبنالکھا ہوتا ہے وہ سفینوں میں بھی غرقاب ہو جاتے ہیں۔ سال 2006ء میں ساٹھ سالہ امریکی ڈونلڈ ٹرمپ (B,14-06-1946: Donald John Trump) کو اس تین بار مطلقہ ستائیس سالہ سٹورمی ڈینیلز نے اپنی ناگن زلفوں کا اسیر بنا لیا اور دونوں مست باہمی رضامندی سے بندِ قبا سے بے نیاز ہو کر جنس و جنوں کی دلدل میں دھنس گئے۔ عیاش سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت تک تین شادیاں کر چکا تھا۔ اُس کا جنسی جنون تو مغل بادشاہ جہاں دار شاہ اور محمد شاہ رنگیلے سے بھی بڑھ گیا تھا۔ سال 2016ء کے امریکہ کے صدارتی انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے پینتالیسویں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ (20-01-2017 To 20-01-2021: Donald John Trump)نے اس رذیل امریکی طوائف کو اپنی زبان بند رکھنے کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار ڈالر($130,000)کی خطیر رقم ادا کی۔ سال 2022ء میں سٹورمی ڈینیلز نے چوتھی شادی کر لی اور اپنی زبان بندی ختم کر کے سابق امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ کر دیا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں کو بہا لے گئے اور چار۔ اپریل 2023ء کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں ہٹن نیویارک کی ایک وفاقی عدالت نے فرد جُرم عائد کر دی۔ ایک اور جنسی تعلق میں ڈونلڈ ٹرمپ کا خفیہ بچہ ہے جس کا علم ٹرمپ ٹاور کے چوکیدار کو ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے رقم ملنے کے بعد ٹرمپ ٹاور کے چوکیدار نے لبِ اظہار پر تا لے لگا لیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اُس نے پلے بوائے میگزین میں ماڈل کی حیثیت سے کام کرنے والی کیرن میکڈوگل (Karen McDougal) کو بھی ($280,000) بھاری رقم ادا کی تا کہ دس ماہ کے عرصے پر محیط اُس کا جنسی جنون ظاہر نہ ہو۔ امریکہ کی ریاست انڈیانہ سے تعلق رکھنے والی اِس باون سالہ ماڈل نے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دو سال تک (2006-2007) کے عرصے میں اُس سے جنسی تعلق رکھا۔ بیس سال کی عمر میں ماڈلنگ کی دنیا میں قدم رکھنے والی اس امریکی حسینہ کو سال 1998 ء میں سال کی بہترین پلے میٹ کا ایوارڈ ملا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جنسی ہوس کا یہ عالم تھا کہ وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود ایک ماہ میں کم از کم پانچ بار کیرن میکڈوگل سے ملنے کے لیے اُس کے ہاں پہنچتا تھا۔ ہوس اور جنسی جنون کی مجبوریاں اِس قدر حیران کُن ہوتی ہیں کہ طوائفوں کے آشنا خود اُنھی سے راز چھُپانے اور اپنے سینے میں دفن کرنے کی خاطر بھاری رقوم خرچ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ طوائفوں کے تیر ستم سہنے والوں کی مثال اُس گٹھڑی کی ہے جس میں چوروں نے نقب زنی کے بعد گھر بھر کا اثاثہ باندھ رکھا تھا۔ موقع واردات سے فرار کے وقت گٹھڑی کو چوروں سے بھی زیادہ جلدی تھی کہ وہ جلد از جلد اپنی نئی منزل تک پہنچے ورنہ چوروں کے پکڑے جانے کی صورت میں گٹھڑی کا یہ زر و مال پھر سے اپنے سابق مالک کی کال کوٹھڑی میں بند ہو جائے گا۔ اہلِ درد اِن عیاشوں کا المیہ دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ سیکڑوں دورِ فلک ابھی آنے والے ہیں اور اِنھیں اور بھی زیادہ خراب ہونا ہے۔ سٹورمی ڈینیلز اور مصبہا بنو ایسی عیار طوائفیں ہیں کہ گرگٹ کے مانند رنگ بدلنا اور اپنے شکار کواپنے جال میں پھانسنا اور اُن کی زندگیوں کے سب موسموں کو خزاں رُتوں میں بدلنا اِن چڑیلوں کا حربہ ہے۔ انسانی زندگی میں خلوص، مروّت، وفا، ایثار اور محبت کی افادیت، اہمیت اور قوت مسلمہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ مصبہا بنو جیسی طوائفیں محبت کا سوانگ رچا کر سادہ لوح لوگوں کو لُوٹ لیتی ہیں اور اس کے بعد اُنھیں رُسوا کرتی ہیں۔ یہ ہزار ہا افسوس کی بات ہے کہ کسی رذیل طوائف کے ساتھ ایک لمحہ کی نشاط کی خاطر کوئی مرد زندگی بھر کی رسوائیاں سمیٹ لے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ سٹورمی ڈینیلز نے محض بھتہ خوری کے لیے اُس پر یہ جھوٹے اور بے سرو پا الزامات لگائے ہیں۔ راجہ اِندر، محمد شاہ رنگیلا، جہاں دار شاہ، راسپوٹین اور مارلن برانڈو بھی عیاش تھے مگر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو سب کو مات دے دی۔ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر اور انار کلی کی داستان جو ولیم فنچ کی اختراع ہے اَب اُس پر کوئی شخص دھیان نہیں دیتا۔ ‘‘
منشی کھان ایاز نے زندگی بھر پنجابی تہذیب و ثقافت کو پروان چڑھانے کی سعی کی۔ مقامی جولا ہے کے بنائے ہوئے کھدر، کھیس اور چادریں اُسے بہت پسند تھیں۔ پنڈی بھٹیاں (پنجاب)کے بہادرسپوت دُلا بھٹی (23 July 1547,D: 26 March 1599 B:)کی شخصیت کوقدر کی نگاہ سے دیکھتا اور اُسے حریتِ فکر کا ایسا مجاہد قرار دیتا ہے جس نے مغلیہ دور میں مطلق العنان مغل بادشاہ جلال الدین اکبر(1542-1605) کے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ مغل بادشاہ اکبر نے موچی گیٹ، لاہور کے سامنے بیالیس سال کے نو جوان دُلا بھٹی کو سر عام دار پر کھنچوا دیا۔ میانی صاحب لاہور کے شہر خموشاں میں دُلا بھٹی آسودۂ خاک ہے۔ اس سے پہلے دُلا بھٹی کا باپ اور دادا بھی مغل بادشاہ جلال الدین اکبر کے انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے مگر انھوں نے حریت ضمیر کا پرچم بلند رکھا۔ مغلیہ حکومت کے دوران میں نو آبادیاتی دور میں دُلا بھٹی کی یاد میں ’’ لو ہڑی ‘‘ کا تہوار پورے پنجاب میں منایا جاتا تھا۔ مٹی کی محبت میں پنجاب کے آشفتہ سر سپوت ہر عہد میں ایسے قرض بھی ادا کر تے رہے ہیں جو واجب بھی نہیں ہوتے تھے۔ منشی کھان ایاز کو قدرتِ کاملہ کی طرف سے دِلِ بینا سے نوازا گیا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ دُلا بھٹی نے اپنی جان دے کر یہی پیغام دیا کہ ارضِ وطن کا ہر ذرہ دیوتا ہوتا ہے۔ اپنی جنم بھومی کی عزت و آبرو کے تحفظ کے لیے اپنی جان کی بازی لگانا ہر با ضمیر شخص کی ذمہ داری ہے۔ اماں فضلاں نے پنجاب کے بہادر سپوت دُلا بھٹی کے بارے میں بتایا:
’’ مغل بادشاہ اکبر کی اہلیہ جُودھا بائی کو معلوم ہوا کہ پنڈی بھٹیاں کے علاقے میں دو نوجوان کنواری ہندو بہنوں سُندری اور مُندری کے حُسن و جمال کے ہند اور سندھ میں چرچے ہیں۔ سُندری اور مُندری عشوہ و غمزہ و ادا سے اپنے مداحوں کو بہت متاثر کرتی تھیں۔ حسد کی آگ نے جُودھا بائی کو جلا دیا اور اُس نے سُندری اور مُندری کو انار کلی کے انجام سے دو چار کرنے کا تہیہ کر لیا۔ دلآرام کے ساتھ مِل کر ملکہ نے سُندری اور مُندری کو لاہور میں قصر شاہی میں بادشاہ کی کنیز بنانے کا فیصلہ کیا۔ مقامی مغل منصب دار کی سازش کے مطابق اُجرتی بدمعاش اور پیشہ ور ڈاکو لاہور سے سُندری اور مُندری کو اغوا کرنے کے لیے پِنڈی بھٹیاں پہنچے۔ دُلا بھٹی اور اُس کے وفادار ساتھیوں نے بہرام ٹھگ کی نسل سے تعلق رکھنے والے اغوا کاروں، چوروں، ٹھگوں اور بدمعاشوں کو للکارا تو سب بد معاش دُم دبا کر بھاگ نکلے۔ دُلا بھٹی نے جرأت سے کام لیتے ہوئے جابر مغل بادشاہ کی لوہڑی (آفت نا گہانی)کو ناکام بنا دیا۔ دُلا بھٹی نے فی الفور اِن ہندو لڑکیوں کے لیے اُن کے خاندان سے دو ہندو نوجوان بھائی منتخب کیے اور دونوں خاندانوں کی رضا مندی سے اُن کو اِس انداز میں سسرال رخصت کیا جیسے خاندان کا بزرگ اپنی نوجوان بیٹیوں کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے۔ دونوں بہنیں ایک ہی گھر میں بیاہی گئیں اور یوں دیورانیاں بھی بن گئیں۔ شادی کے موقع پر مہمانوں میں شکر تقسیم کی گئی اور شادیانے بجائے گئے۔ مغلیہ دور میں اور نو آبادیاتی دور میں ہر سال تیرہ جنوری کو اسی شادی کی یاد میں لوہڑی کا تہوار منایا جاتا رہا ہے۔ اِن کے بارے میں با ذوق لوگ یہ کہتے تھی کہ حُسن سیرت اور حُسن صورت کایہ امتزاج بہت خوب ہے۔ شادی کے بعد جب یہ دونوں لڑکیاں اپنے سسرال پہنچیں تو گھر کے سر براہ نے بر ملاکہا:
بہکی بہکی نشۂ حُسن میں کھوئی کھوئی
جیسے خیام کی رنگین رباعی کوئی
دِل کے شیشے میں پری بَن کے اُتر آئی ہے
آج گلشن میں نہیں گھر میں بہار آئی ہے
پس نوآبادیاتی دور میں لوہڑی اور دُلا بھٹی کے بارے میں سب واقعات ابلق ایام کے سُموں کی گرد میں اوجھل ہوتے چلے گئے۔ لاہور میں چودہ سال قیام کرنے کے باوجود بادشاہ اکبر پنجاب کے لوگوں کے دِلوں میں جگہ نہ بنا سکا اور اُسے دہلی روانہ ہونا پڑا۔ پنڈی بھٹیاں شہر کے مرکزی چوک پر آج بھی جلی حروف میں ’’دُلا بھٹی ‘‘ چوک کے الفاظ درج ہیں۔ تاریخ کے پیہم رواں عمل کے نتیجے میں سر زمین پنجاب کے بہادروں کی کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ میں اس کے بارے میں یہی کہوں گی:
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے ‘‘
منشی کھان ایاز توحید و رسالت کے ساتھ روحانی عقیدت اور قلبی وابستگی اور جذبۂ عشق سے ہر پست کو بالا کرنے کا آرزو مند تھا۔ زندگی بھر قلزم علم و ادب کے ساحل سے صدف چننے والے منشی کھان ایاز نے یہ شعر سُن کر آہ بھر کر کہا:
’’ اپنی جنم بھومی اور اہلِ وطن سے قلبی وابستگی رکھنے والے دُلا بھٹی جیسے عظیم لوگ دنیا سے رُخصت ہو جاتے ہیں مگر اُن کی یادیں باقی رہ جاتی ہیں۔ حریت فکر و عمل کے مجاہد دُلا بھٹی کا نام تاریخ کے اوراق میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔ حیف صد حیف کہ ہوائے جورو ستم کے بگولوں نے اس جری نو جوان کی زندگی کی شمع بجھا دی۔ جابر مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے دُلا بھٹی پر بے بنیاد الزامات عائد کیے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی متعصب مورخ عمر خیام کی رباعی کو طلائی اوراق پر رقم کرنے کے بجائے سنگلاخ چٹان پر تحریر کر کے اپنے جی کا زیاں کرے تو کیا ایسے ادبی مورخ کی کور مغزی اور بے بصری کے نتیجے میں عمر خیام کی رباعی میں پنہاں گنجینۂ معانی کا طلسم کافور ہو جائے گا۔ میں جب بہت سوچ بچار کرتا ہوں تو اپنی کہکشاں سے غروب ہونے والے نجوم کی یاد مجھے بہت ستاتی ہے۔ رفتگاں کی یادوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا یہ تو قلب و روح کو شکستگی اور خستگی سے بچانے کا ایک وسیلہ ہے۔ اپنی زندگی کی شام ہونے سے پہلے ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ اپنی محفل کے نجوم کی یادوں کی ضیا ساتھ رکھے۔ ایک زمانے کی سعی کے بعد بھی جنھیں بھُلایا نہ جا سکا وہ رفتگاں ہر وقت یاد آنے لگتے ہیں۔ جس علاقے میں میری قیام گاہ ہے ساٹھ سال پہلے یہاں ہر سُو رعنائیاں اور رنگینیاں بِکھری ہوئی ہوتی تھیں۔ حضرت بلال حبشیؓ چوک (کالج چوک) سے شمال کی جانب ہر گام پر راحتیں، عشرتیں اور مسرتیں انگڑائیاں لیتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں کھیتوں اور کھلیانوں کی جگہ کچی آبادیاں بن گئی ہیں جہاں تباہیاں اور رسوائیاں گود پھیلائے کالے دھن کے پجاریوں کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ اس طوفانِ بلا میں مفلسی کے اعصاب شکن مظاہر دیکھ کر اِن دِنوں فقیروں کا بھیس بنا کر یادوں کے بوسیدہ کھنڈرات سے میں اپنے بکھرے ہوئے خواب چُنتا پھرتا ہوں۔ ‘‘
صحراؤں، ریگستانوں، ویرانوں اور شہر خموشاں کے آئینِ آرائش کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ فطرت نے تنہا اس کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ میں دِن بھر سوچتا رہتا ہوں اور رات گئے تک گردشِ ایام کے نشیب و فراز کے مسائل و مضمرات پر غور کرتا ہوں۔ اُمیدوں کی فصل کو تاراج کرنے والے سفاک درندوں نے الم نصیبوں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ شہرِ خموشاں کے ارد گرد کھیتوں کے کنارے کھڑے درختوں اور سائیں سائیں کرتے جنگل کو دیکھ کر دِل میں کرب کی ایک لہر سی اُٹھی اور ایسا محسوس ہوا کہ یہاں کے نیستاں میں کسی پر اسرار قوت نے شبِ تاریک کے دام میں گھات لگا رکھی ہے۔ اس جہاں میں متلاطم دریا تو سدا اپنی طغیانیوں سے کام رکھتے ہیں اُن کی طوفانی لہروں کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ گرداب میں گھری کشتی کے اجل گرفتہ مسافروں کی آہ و فغاں کا انجام کیا ہو گا۔ شام دھواں دھواں ہو رہی تھی اور دو پہر کے مہرباں سائے ڈھل رہے تھے۔ ڈھلتے ہوئے سائے دیکھ کر یہ گماں گزرا کہ تیر کماں سے نکل چکا ہے۔ مکاں کے پاس سے گزرا تو رفتگاں کی یاد کے نشاں اور بیتے لمحات کی داستاں نے نہاں خانۂ دِل پر دستک دی۔ شہر خموشاں کے مستقل ساکنان جنھیں اس علاقے میں مہیب سناٹوں کی فضا راس آ گئی ہے اُن کے لیے دعا کرنے کے بعد سب سوگوار اپنے رنج و الم کے کرب کی گہرائی اور تنہائیوں کے صحرا کی وسعت کا اندازہ کرتے ہوئے واپس اپنے گھروں کی جانب روانہ ہو گئے۔ سوگواروں کے چہرے فق تھے اُنھوں نے آسیب گماں کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھا کہ شامِ الم میں ڈھلنے والی تنہائی کا لرزہ خیز منظر شہرِ خموشاں کے باہر کھڑا ہاتھ ہلا کر اُنھیں سلامِ آخر کہہ رہا تھا۔ کھیتوں کے سے کچھ دُور ایک نہر میں پانی رواں تھا کچھ لوگوں کا گماں تھا کہ اس نہر کے کنارے بیٹھ کر کوئی الم نصیب دیر تک روتا رہا ہے۔ ستارۂ سحر طلوع ہوا تو صبح سویرے میں نے دیکھا کہ طائرانِ خوش نوا نے اُمید فردا کی اطلاع دی۔ خشتاں والی، مگر مچھ نگر، سیاحی وال اور سبز باغ میں لٹنے والے گلا پھاڑ کر یہ کہتے تھے کہ جعل سازوں کے فریب کھا کر جینے سے بہتر ہے انسان فاقوں سے مر جائے۔ اہلِ درد جانتے ہیں کہ یہ بستیاں بہت عجیب ہیں جو کوفے کے قریب ہیں اس کے درو بام کو کرگسوں نے گھیرا ہے اور یہاں کی ہر کٹیا میں کسی نہ کسی لومڑی یا گرگ کا بسیرا ہے۔ یہاں کے زاغ ہاتھوں میں ایاغ کے بجائے چھیچھڑے تھام کر گھات میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اُمنگوں کی کشتی غرقاب ہونے کے بعد منجدھار میں ڈُوبنے والے ساحل پر کھڑے ہوس زر کی خاطر کوچہ کوچہ، قریہ قریہ جھانکنے والے اور مستانہ وار پھرنے والے جعلی چارہ گروں سے کہتے ہیں کہ تم جیسے بروٹس کیا خاک رفوگری کریں گے۔
منشی کھان ایاز نے پیہم نوے برس تک جھنگ کی کچی آبادیوں، دھُپ سڑی، گھڑے بھن، گھوگھے والا، اَوڈاں والی، مرضی پورہ اور نواحی بستیوں میں نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آ راستہ کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منشی کھان ایاز کی مثال ایک فریب خوردہ شاہین کی سی ہے جو ہوائے جو رو ستم میں دخمہ کے گِرد و نواح میں منڈلانے والے کرگسوں میں گھِر گیا تھا۔ اِس کے نتیجے میں وہ اپنی عقابی روح سے محروم ہو گیا اور زاغ و زغن نے اُسے اپنے بد وضع رنگ میں رنگ لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُسے اپنی کوتاہیوں کا شدت سے احساس ہوا مگر وہ جِن سفہا اور بروٹس قماش مسخروں کی خود غرضی کی بھینٹ چڑھ گیا اب اُس کا مداوا ممکن ہی نہ تھا۔ آج ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے وہ سوچتا ہے کہ کاش اُس نے چالیس برس قبل بروٹس قماش مسخروں کو گھونسہ مار کر اپنی بزمِ وفا سے نکال باہر کیا ہوتا۔ مگر اب کفِ افسوس مَلنے سے کیا ہوتا ہے اَب اُسے چاہیے کہ وہ گھونسہ جو چالیس برس قبل اُن بروٹس قماش مسخروں کو نہ مار سکا جنھوں نے اُسے مکمل انہدام کے قریب پہچانے میں قبیح کردار ادا کیا اَب وہی گھونسہ اپنے جبڑے پر مارے۔ اللہ دتہ چھاپے گر نے منشی کھان ایاز کے بارے میں کہا:
’’ زمانہ طالب علمی ہی سے منشی کھان ایاز نے عالمی کلاسیک کا عمیق مطالعہ کیا۔ اردو، پنجابی، دکنی، ہندکو، سندھی، پشتو، فارسی، عربی اور انگریزی ادب پر اُس کی دسترس کا ایک عالم معترف تھا۔ منشی کھان ایاز نے ارسطو، دیو جانس کلبی، امراؤالقیس، البیرونی، فرید الدین عطار اور جابر بن حیان کا وسیع مطالعہ کیا۔ آفتاب اسلام کے طلوع ہونے سے پہلے سولھویں صدی میں کندائٹ (Kindite) کے آخری بادشاہ اور شاعر امرا ؤ القیس(B: 501 Ad ,D: 544 AD: Imru’ al-Qais) جس کا شمار عربی ادب میں صنف قصیدہ کے کا بنیاد گزاروں میں ہوتا ہے۔ امراؤالقیس نے صنف قصیدہ میں مرزا محمد رفیع سودا ؔ کی طرح اپنی مہارت کا لو ہا منوایا۔ امرا و ٔ القیس، رومی، فرید الدین عطار، سعدی اور پنجابی زبان کے کلاسیکی شعرا کا منتخب کلام اُسے زبانی یاد تھا۔ اِن مشاہیر پر اس درویش کی باتیں سُن کر سامعین عَش عَش کر اُٹھتے۔ چالیس سال پہلے کی بات ہے ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد منشی کھان ایاز نے اقلیم معرفت سے اپنا تعلق مستحکم کر لیا۔ وہ ایک ایسے اصطبل میں پھنس گیا تھا جہاں وہ دُم کٹے گدھوں اور خچروں کی پیٹھ پر سیاہ لکیریں کھینچ کر اُنھیں زیبرا بنانے میں انہماک کا مظاہرہ کرتا تھا۔ گدھے، خچر اور استر جب اصطبل سے باہر نکلتے تو ہوائے جور و ستم کی گھنگھور گھٹا کے بعد ہونے والی موسلا دھار بارش میں سیاہ لکیریں دھُل جاتی تھیں۔ اپنی فطرت کے مطابق سب گدھے، خچر اور استر ہنہناتے ہوئے اُس کی طرف بڑھتے اور اُسے دو لتیاں مارتے ہوئے کسی نئی چراگاہ کی تلاش میں سر پٹ دوڑنے لگتے۔ واقفِ حال لوگوں کا کہنا ہے کہ گردشِ ایام کے جھمیلوں اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد منشی کھان ایاز نے درد مندوں اور ضعیفوں سے جو عہدِ وفا استوار کیا تھا اُسی کو گردشِ لیل و نہار کا علاج قرار دیا۔ وہ منھ اندھیرے اپنے گھر سے نکلتا، رستوں سڑکوں اور پارکوں میں بکھرے ردی کاغذ، گتے اور پلاسٹک کی اشیا چُنتا اور انھیں مقامی کباڑئیے کی دکان پر فروخت کر دیتا۔ کچھ عرصے بعد اُس نے پینترا بدلا اور ایک تھیلا تھام کر گھر سے نکلتا۔ راستوں میں پڑے روڑے، پتھر، اینٹیں اور سنگ ریزے اُٹھاتا اور انھیں اپنے تھیلے میں بھر کر اپنے گھر کے سامنے سرگودھا روڈ کے سامنے پھینک دیتا۔ جب یہ ڈھیر بہت بڑا ہو جاتا تو ایک ٹرالی کی قیمت پر فروخت کر دیتا تھا۔ اِن کاموں سے حاصل ہونے والی رقم وہ فاقہ کش ضعیفوں، مفلس و قلاش بیماروں اور یتیموں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ وہ میاں مودا، قلی فقیر، کرموں موچی، رُلدو موہانہ، جھاڑو جھاڑ کھنڈوی کی طرح شہر کی گلیوں میں نا شاد و ناکارہ پھرتا مگر کسی کو اپنے دِل کا حال کبھی نہ بتاتا۔ وہ اکثر یہ کہتا کہ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ مجبور انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے کے لیے ہر موڑ پر کوئی فرینکسٹائن مانسٹر موجود ہوتا ہے۔ اس کا واسطہ بھی فرینکسٹائن مانسٹر سے پڑا مگر وہ ثابت قدم رہا۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ناول نگار میری شیلے (1797-1851: Mary Shelley)نے اپنے ناول میں جس عجیب الخلقت راکشس فرینکسٹائن مانسٹر (Frankenstein’s monster) ‘‘ کاذکر کیا ہے منشی کھان ایاز کبھی اُس سے مرعوب نہ ہوا۔ وہ جری انسان جس نے زندگی بھر حریتِ ضمیر کا علم بلند رکھا اور وقت کے ہر نمرود اور فرعون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ آج کے بے حِس معاشرے نے اُسے دیکھ کر حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لیا ہے۔ ایک علمی و ادبی دائرۃ المعارف کا یوں اچانک فقیروں کا بھیس بنا لینا واقفِ حال لوگوں کو شدید ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ منشی کھان ایاز دریائے جہلم اور چناب کے سنگم پر تریموں ہیڈ ورکس پہنچتا اور دریائے چناب کی لہروں کو دیکھ کر سوہنی کے ڈوبنے پر آنسو بہاتا۔ منشی کھان ایاز کے دیرینہ رفیق خالد بنکار نے بتایا:
’’ مجھے یہ باتیں منشی کھان ایاز نے اُس زمانے میں بتائی تھیں جب وہ علم و ادب کا دائرۃ المعارف تھا۔ اب تو وہ کسی اور جہاں میں کھو گیا ہے مگر ایک زمانہ تھا جب وہ قدیم کھنڈرات پر تحقیق کرنے کے لیے ویرانوں، ریگستانوں، جنگلوں، بیابانوں اور صحراؤں کی خاک چھانتا پھرتا تھا۔ سوچتا ہوں رود کی اور فردوسی کی شاعری کا مداح منشی کھان ایاز نہ جانے کن راہوں کی جانب چل پڑا ہے؟ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ مانی و بہزاد کے کارناموں کا رمز آشنا ریگِ صحرا پر لکھی آڑی ترچھی لکیروں میں اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ اس جنگل بیلے میں محسن کُش غداروں، گرگ آ شتی کو وتیرہ بنانے والے سازشی بھیڑیوں اور مکار لُومڑیوں کی فراوانی ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں سے سُنا ہے کہ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم پر جو ہلکی پھاٹ ہے وہاں 380ملین سال قبل ایسی مچھلیاں پائی جاتی تھیں جنھیں مقامی باشندے ’’ گو گو ’’ کے نام سے پکارتے تھے۔ علم حیوانات میں دلچسپی رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ’’ گو گو ‘‘ مچھلی کا وجود ڈائنو سار سے بھی سو ملین سال پہلے کی بات ہے۔ ان مچھلیوں کے فوسلز جنگل بیلے کے صحرا کی تہہ میں موجود تھے مگر دریائے جہلم اور چناب کی طوفانی لہروں کے کٹاؤ کے نتیجے میں حیاتیاتی ارتقا سے تعلق رکھنے والے کروڑوں سال پرانے یہ سب فوسلز سیلِ زماں کے تھپیڑے کھاتے ہوئے بحیرہ عرب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس سے بڑھ کر لرزہ خیز المیہ کیا ہو گا کہ ریگستان اور صحرا میں پائے جانے والے کائناتی تغیر و تبدل کے مظہر کھنڈرات میں ایام گزشتہ کی تاریخ سے وابستہ متعدد حقائق پنہاں ہیں مگر لوگ ان سے بے خبر ہیں۔ سبز باغ، جنگل بیلے، ماچھیوال، سیاحی وال اور اُٹھان کوٹ کے باشندے ریگستان کے کھنڈرات کی حفاظت سے قاصر رہے اور سیلِ حوادث کے مہیب تھپیڑے اس تھل کی لاکھوں سال کی قدیم اور بیش بہا وراثت کو اُڑا لے گئے اور ماضی میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے آج فطرت کے حصے کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ جنگل بیلے کے صحرا میں واقع ریت کے ان بلند ٹیلوں کے نیچے زمانہ قدیم سے وابستہ جو متاعِ بے بہا دفن ہے اس کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ وہ محو حیرت ہیں کہ لاکھوں برس میں بسنے والے اس علاقے پر کیا اُفتاد پڑی کہ یہ پلک جھپکتے میں ریگِ صحرا میں بدل گیا۔ ایسے داستان گو جن کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں کھنڈرات جیسی ویرانی جھلکتی ہے اور جو صدیوں کے واقعات کے نسل در نسل راوی ہیں وہ ان کھنڈرات سے اخلاقیات کے گنج گراں مایہ کی تلاش پر اصرار کرتے ہیں۔ بعض جہاں دیدہ تاریخ دان یہ بتاتے ہیں کہ جنگل بیلے کا یہ صحرا کروڑوں سال پہلے سر سبز و شاداب نخلستانوں اور باغات کی وجہ سے مشہور تھا مگر فطرت کی تعزیروں کے باعث اس پر اسرار قدیم علاقے پر نا معلوم کیا افتاد پڑی کہ اب یہ نیوزی لینڈ کے اٹھارہ کروڑ سال قدیم جنگل رورنگ فورٹیز (Roaring Forties)کے مشابہ ہے۔ نیوزی لینڈ کے گلستان میں تو وہ درخت جو علاقے کے بانکے پہرے دار تھے درختوں سے پتھر اور فوسلز بن گئے مگر جنگل بیلے کے نخلستان ریت کے ٹیلوں میں بدل گئے۔ جنگل بیلے کے بُور لدے چھتنار کے کچھ آثار پتھروں اور فوسلز کی صورت میں شور کوٹ کے کھنڈرات سے بر آمد ہوئے ہیں۔ ماضی کے واقعات سے وابستہ یہ کھنڈرات در اصل حیات و کائنات کے متعدد رازوں کی گرہ کشائی کرتے ہیں اور یہ بات واضح کر دیتے ہیں یہاں ہر شے مسافر ہے اور ہر چیز راہی ہے جب کہ بقا تو صرف خالقِ کائنات ہی کو حاصل ہے۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے سنگم کے نزدیک جو ہلکی پھاٹ(دریا کی باؤلی شاخ) کے نام سے مشہور ہے یہاں سندھ کے راجا داہر کی بیٹیاں سوریا اور پریمل اکثر سیر اور کشتی رانی کے لیے آتی تھیں۔ ملتان اور شور کوٹ کا راجہ اس زمانے میں راجہ داہر کا مطیع تھا۔ ایک مرتبہ کشتی دریا کی منجدھار میں اُلٹی اور شہزادیوں کی پچاس سہیلیاں دریا کی طوفانی لہروں میں بہہ گئیں۔ اُس وقت سے مقامی باشندے اس جگہ کو ہلکی پھاٹ کہتے ہیں اور یہاں جانے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض توہم پرست لوگ کہتے ہیں یہاں کسی آسیب یا پار وتی دیوی کا سایہ ہے اس لیے ہر سال یہ ہلکی پھاٹ ایک انسان کو نگل لیتی ہے۔ یہاں کے باشندے جو بروٹس سے بھی کہیں بڑھ کر کینہ پرور، عادی دروغ گو اور محسن کُش ہیں راجہ داہر کی بیٹیاں ان سے بہت متاثر ہوئیں۔ سندھ میں محمد بن قاسم کے بہادر سپاہیوں نے جب سندھ کے راجہ داہر کو عبرت ناک شکست دی تو دوسرے جنگی قیدیوں کے ساتھ راجا داہر کی دونوں بیٹیوں کو خلیفہ ولید بن عبد الملک کے پاس بغداد روانہ کر دیا گیا۔ جنگل بیلے سے سازش کی ہوا میں سانس لینے اور ہلکی پھاٹ کا پانی پینے والی ان حسیناؤں نے محمد بن قاسم پر زیادتی کا الزام لگا دیا۔ چچ نامہ کے مصنف نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے کہ کینہ پرور اور منتقم مزاج حسیناؤں کی سازش کی تحقیق کیے بغیر خلیفہ ولید نے محمد بن قاسم کی زندگی کی مشعل گل کر دی۔ انسان اپنے حاسدوں، دشمنوں اور حریفوں سے بچنے کی تدبیر تو سوچ سکتا ہے مگر غداروں اور سازشی درندوں کی عیاری سے بچنے کی تیاری نا ممکن ہے۔ حقائق کی تنسیخ اور صداقتوں کی تکذیب صدیوں سے یہاں کے طوطا چشم لوگوں کا وتیرہ رہا ہے۔ احمق مفسد، طالع آزما مہم جُو اور ہوس پرست اعدا اتنا نقصان نہیں پہنچا سکتے جتنا سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں سے پہنچتا ہے۔ یہاں سے کچھ دُور ہزاروں سال پرانا ایک شہر خموشاں ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اپنے عہد کے متعدد ناگزیر لوگوں سے بھرا ہے۔ یہاں سے نجات حاصل کرنے کے اِن لمحات کو معمولی خیال نہ کرو ایسے لمحات انسانی زندگی میں شاذ و نادر نصیب ہوتے ہیں۔ یہاں کی چڑیلیں اپنے جال میں پھنسنے والوں سے جامد و ساکت تعلق اور میل ملاپ کے بجائے شدید نوعیت کی خنجر آزمائی پر اصرار کرتی ہیں۔ اس جنگل بیلے کی خاردار جھاڑیوں کے گڑھوں، کھروبنوں، غاروں کے سوراخوں، دیمک خوردہ درختوں کی کھوہ اور جھیہڑوں کے پنہاں سوراخوں اور کھنڈرات کی دیواروں کی پوشیدہ دراڑوں اور کھپوں میں کھجور کے ڈپھے، تھوہر کے ڈنٹھل، پوہلی اور پُٹھ کنڈے کے سُڈھے، کیکر کے مُڈھے، خارِ مغیلاں والے کھُگے، جفا کے نیزے، دغا کے تیر، منافقت کی ڈانگ، شقاوت کی سانگ، حسد کے گُرز، کینہ پروری کے بھالے، محسن کُشی کی تلواریں، بے ضمیری کے خنجر، بے غیرتی کے بھاری بھرکم لٹھ، بے وفائی کے ہتھوڑے، ہرجائی پن کے اُسترے، بد زبانی کی قینچیاں، سفلگی کے چھُرے، موقع پرستی کی درانتی، سازشوں کے کلھاڑے، پیمان شکنی کی سناں، اخلاق باختگی کی مُنگلی اور بددیانتی کے کِرپان دھنسے ہیں۔ یہاں کے شکھنڈی اور پکھنڈی اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے بھیشم پتامہ کو بھی زیر دام لانے کی کوششوں میں خجل ہوتے رہتے ہیں۔ انسانیت اور تصور حیات کو خبط کرنے والے کچھ لوگ بلاشبہ سسلین مافیا سے تعلق رکھتے ہیں اور اجل کے فرمان کو ریشم و کمخواب کے پردوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ افسوس منشی کھان ایا زکا واسطہ کسی ارجن کے بجائے ایسے بدبخت شکھنڈی سفہا سے پڑا ہے جو حریتِ ضمیر سے جینے والے وضع دار انسانوں کے خون کا پیاسے ہیں اور چاند چہرے شبِ فرقت پہ وارنے اور انھیں در بہ در اور خاک بہ سر کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بھیڑ کو بھیڑیے، ہرنی کو چیتے اور فاختہ کو عقاب سے دُور رہنا چاہیے۔ خلوص و مروّت اور رشتہ و پیوند کی پُر فریب بساط پر یہ عیار لوگ تم جیسے مخلص اور سادہ لوح لوگوں کو لُوٹ لیتے ہیں۔ اپنے مہمانوں کے لیے یہاں کے ناگ اس جگہ کو دشتِ عنقا بنا دیتے ہیں۔ گردِش ایام اور نوشتۂ تقدیر کے نتیجے میں اس قدر الم ناک انجام تک پہنچنے کے بعد نئے سرے سے اپنی تعمیر کے کام کا آغاز وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ ‘‘
شہر تحیر کے حلقۂ بے دِلاں کو اس بات کا قلق تھا کہ اس رذیل طوائف نے پاسِ مہ و سال بھی نہ رکھا۔ شبیر نامی ایک ضعیف معلم جو محافظۂ رومان مصبہابنو کے ہاتھوں لُٹ چکا تھا کہنے لگا:
’’نائکہ تفسہہ اور رذیل طوائف مصبہا بنو کے ساتھ گزرنے والے چار برسوں (20017-2020) میں لمحے لمحے کی اپنی اِک اعصاب شکن اذیت تھی۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ میں ان سفہا اور اجلاف و ارذال کی تلخ یادوں کے حصار میں ہوں اور سوچتا ہوں کہ اُن کو کس کی گرفت میں رکھوں؟ میں نے سوچا تھا کہ مصبہا بنو میری بہو کی صورت میں صبا صبا آئے گی اور ہمارے گھر کے دکھوں کا مداوا کرے گی مگر اُس نے شفقِ شام غم کے ہاتھوں اپنی بے حِسی، بے ضمیری، بے غیرتی اور بے وفائی کی ایسی منحوس ردا بھیج دی ہے جس سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں۔ میں نے تو مصبہا بنو کو آس کا محور سمجھا مگر وہ سراب نکلی اور میرے قلبِ حزیں کی تعمیر کی آڑ توقعات کا قصر منہدم کر دیا۔ اپنی پیمان شکنی سے مصبہا بنو نے ہم الم نصیبوں اور جگر فگاروں کو جس اذیت میں مبتلا کر دیا ہے کوئی تدبیر اُس کی تلافی، ازالہ یا مداوا نہیں کر سکتی۔ فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہیں اُس نے جو کچھ کیا ہے اُس کا خمیازہ اُسے ہر حال میں اُٹھانا پڑے گا۔ یہ گھر اپنے ہی چراغ کے شعلوں کی زد میں آئے گا اور مصبہا بنو مر کر رسوا ہونے کے بجائے غرقِ دریا ہو گی۔ یہ چربہ ساز، سارق اور کفن دُزد لڑکی ادب میں جعل سازی کے ذریعے شہرت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مرگِ نا گہانی اس کے تعاقب میں ہے اور یہ بہت جلد اسی انجام کو پہنچے گی جس سے امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے (: 1899-1961 Ernest Hemingway)، امریکی شاعرہ سیلویا پلاتھ (: 1932-1963 Sylvia Plath)، اپنے عہد کی مقبول امریکی شاعرہ این سیکسٹن (Anne Sexton: 1923-1974)، امریکی ادیب ایڈگر ایلن پو (: 1809-1849 Edgar Allan Poe، مستقبل کے امکانات پر کام کرنے والے روسی ادیب ولادی میر مایا کوسکی (: 1893-1930 Vladimir Mayakovsky)، جاپانی ادیب یو کیو مشیما (: 1925-1970 Yukio Mishima)، بیسویں صدی کی ممتاز برطانوی ادیبہ ورجینا وولف (: 1882-1941 Virginia Woolf)، قدیم اور مقبول یونانی شاعرہ سیفو (: c.630 BCE-c.570 BCE Sappho)اور شمالی ایران سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگار و محقق صادیغ ہدایت (: 1903-1951 Sadegh Hedayat)کو دوچار ہونا پڑا۔ قزاق اجل کے حکم سے جب کُوچ کا نقارہ بجے گا تو سب ٹھاٹ پڑا رہ جائے گا۔ ‘‘
منشی کھان ایاز نے بتایا کہ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کی شادی سیاحی وال کے ایک امیر خاندان میں کر دی گئی۔ اُس کا شوہر ابزو اس کی جنس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ جب ابزو کے والدین کو مصبہا بنو کی اصلیت معلوم ہو گئی تو انھوں نے اس ٹرانس جنڈر انٹر سیکس سے نجات حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سال 2021ء کے وسط میں ابزو نے مصبہا بنو پر تین حرف بھیجے اور طلاق اس کے منھ پر مار کر اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کے لیے یہ فیصلہ اس کے لیے غیر متوقع نہ تھا وہ پہلے ہی اس خطرے کو بھانپ چکی تھی۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہابنوکو اپنے چھوٹے بھائی اذکار سے اس لیے چِڑ تھی کہ وہ اس کی بڑھتی ہوئی اخلاقی پستی اور جنسی جنون پر گرفت کرتا تھا۔ وہ جب عالمِ غیظ و غضب میں انتقام کے بارے میں سوچتی تو واقعتاً وہ دو قبور کی کھدائی کا فیصلہ کر لیتی تھی جن میں سے ایک میں بالآخر اُسے خود سپردِ خاک ہونا تھا۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو یہ بات اکثر دہراتی تھی:
’’ میری چربہ سازی، جسارت سارقانہ اور حرص و ہوس کسی سے مخفی نہیں۔ اردو اور دکنی زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ کے ایم فل اُردو کے مقالے کے سرقہ کے بعد اب میں نے برودھا جامعہ میں پی ایچ۔ ڈی میں داخلہ لے لیا ہے اور حسین سحر پر ایک مقالہ چُرا لیا ہے۔ میں نے انجام سے بے خبر دانش وروں کا اپنے دام الفت میں اسیر کر رکھا ہے اس لیے میرے پاس زر و مال، فارم ہاؤس، کار اور کالے دھن کا دیا ہوا جلال موجود ہے۔ جمالیات میں دلچسپی رکھنے والوں کی برودھا میں کثرت ہے جنھوں نے مجھے ملازمت اور تعلیم کے مواقع دئیے ہیں۔ میں اپنے تیشۂ حُسن، عشوہ و غمزہ و ادا کے وار سے ہر دیوار میں شگاف ڈالنے کی طاقت رکھتی ہوں۔ میری راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے گا۔ میں کالی دیوی کی پرستار ہوں اور تباہیوں سے میں قلبی وابستگی رکھتی ہوں۔ میری طاقت سے ہونے والی بربادیوں میں سرگودھا میں عزیز اور اُس کی نوجوان بیٹی کا آگ میں جل جانا، شاہ جیونہ میں وسوں کی بیٹی کی زچگی کے دوران میں رحلت، پشاور میں مشتاق کے نواسوں کو زہر دے کر مارنے کا المیہ، دو اپریل 2022ء کو ایک ٹریفک حادثے میں جھامرہ کے قریب جیجاں کی رحلت، گیارہ اپریل 2022ء کو سلانوالی (سرگودھا) میں سفینہ کی موت، اپریل 2022ء میں جہانیاں شاہ میں بلقو کے کم سِن نواسے کی اچانک وفات، بیس اپریل 2022ء کو سفینہ کے بیٹے بر سیم کا نوری گیٹ سرگودھا میں ڈاکوؤں کے ہاتھوں لُٹ جانا، سال 2021 ء کے وسط میں جھنگ کے ریگستانی علاقے میں دریائے جہلم کے کنارے واقع جنگل بیلہ میں نوجوان طالب علم توقیر عباس کا دریائے جہلم میں ڈُوب جانا۔ اور اکیس اگست 2022ء کو نہنگ میں ستاں بی بی کی رحلت شامل ہیں۔ ‘‘
منشی کھان ایاز نے بتایا کہ خوشامدیوں کے نرغے میں گھِری ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو سادیت پسندی اور خود ستائی کے مرض میں مبتلا ایک آدم خور چڑیل ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے منشی کھان ایاز نے کہا:
’’میں مستریاں والی بستی، سبز باغ اور سیاحی وال سے تعلق رکھنے والے اس وضیع خاندان کے بارے میں بہت سے حقائق جانتا ہوں۔ اپنے منھ میاں مٹھو بننے والی یہ چڑیل نجی محفلوں اور اپنے شیدائیوں کے جھُرمٹ میں اپنے تئیں یونانی حسینہ قلو پطرہ (Cleopatra)، سوہنی، صاحباں، سسی، الزبتھ ٹائلر اور جونا لولو بریجیڈا قرار دیتی مگر عارضی حُسن کے انجام پر اُس کی توجہ نہیں تھی۔ وہ یہ بات بھُول جاتی کہ فطرت کی سخت تعزیروں نے اطالوی اداکارہ اور جنسی جنون کی علامت پر کشش حسینہ جینالو بریجیڈا (B: 4th July 1927,D: 16 January 2023: Gina Lollobrigida) اور برطانوی ادکارہ الزبتھ ٹائلر (1932-2011: Elizabeth Taylor) کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ حرص و ہوس کی کُچلی ہوئی لالچی، بے حِس اور سفاک ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنونے سادہ لوح لوگوں کے خلوص کا اُسی طرح تمسخر اُڑایا جس طرح جینا لولو بریجیڈا نے عیاری اور مکاری سے کام لیتے ہوئے ایک ایسے شخص کو عشوہ و غمزہ و ادا کے تیروں سے گھائل کر کے لُوٹ لیا جو اِس پینترے باز حسینہ کے مکر کی چالوں کو نہ سمجھ سکا۔ فانی حُسن کو دائمی سمجھنے والی حسینہ جینا لولو بریجیڈا زندگی کے آخری ایام میں بے بسی کے عالم میں چل بسی۔ اس کے ساتھ ہی حُسن کی فریب کاری کا ایک بھیانک تاریک باب بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہو گیا۔ مشاطہ کی مہارت سے اپنے خد و خال کے جعلی نکھار پر گھمنڈ کرنے والی مکار ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی کشش کھونے لگی اور ایک وقت ایسا بھی آ گیا کہ کوئی بھی با شعور شخص اِس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو نے بالعموم ایسے ریٹائرڈ سرکاری ملازموں اور متمول بوڑھوں کو لُوٹا جو اپنے نوجوان بیٹوں کے سر پر سہرا دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ اِن میں سے کچھ تو فہم و فراست سے عاری، بے بصر، کور مغز اور نا اہل شخص تھے مگر شبیر رانا، معالج جلال، حکیم کمال اور کیمیا دان اظہر جیسے کچھ سُگھڑ سیانے بھی ان انسان دشمن عیاروں کی بساط ٹھگی کو نہ سمجھ سکے اور اپنی زندگی بھی کی کمائی سے محروم ہو گئے۔ رذیل ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو اُن ضعیفوں کی بہو بننے کا سوانگ رچاتی وہ بوڑھے جو چراغ سحری ہوتے تھے۔ وہ فرضی منگنی کی آڑ میں اور جلد شادی کا فریب دے کر اُن کی زندگی بھر کی کمائی لُوٹ لیتی تھی۔ ماچھی وال، سیاہی وال، مکر وال، کانڈی وال اور بھلووال میں مقیم سسلین مافیا کے اس گروہ کے سرغنہ نے بتایا کہ قحبہ خانے، چنڈو خانے اور منشیات فروشی کی آمدنی کی تقسیم کے معاملے پر ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو، گنوار اور اذکار میں اختلافات پیہم بڑھنے لگے۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کو یہ زعم تھا کہ وہ جنگ و جدال کی پُر اسرار یونانی دیوی ایتھینا (Athena)کی طرح طلسمی چھڑی سے حیران کن کام انجام دے سکتی ہے۔ وہ اپنے ابرو اور چشم کی جنبش سے طلسمی چھڑی کا حیران کن کام لیتی تھی لیکن وہ اس تلخ حقیقت سے بے خبر تھی کہ حقیقی حُسن کے سوتے تو دیکھنے والے کے جذبات و احساسات سے پھُوٹتے ہیں۔ ‘‘
منشی کھان ایاز کے پڑوسی اور رفیق کار میاں مہر بان نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں بتایا:
’’سالہا سال کی لُوٹ مار کے بعد ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کی روح اور قلب میں تو سکوتِ مرگ طاری تھا جس کے نتیجے میں حُسن، صداقت اور وفا نے دم توڑ دیا تھا۔۔ وہ اپنے لبوں، چشم اور ابرو کی حرکت سے عیاری سے کام لیتے ہوئے اپنے ایسے شکار کو بھی اپنی گرفت میں لا سکتی تھی خواہ اُسے یونانی فاتح اور مہم جُوہر میس (Hermes) کی عطا کردہ قوت بھی حاصل ہو۔ سیاہی وال، سبز باغ اور اُٹھان کوٹ میں امیرن بائی اور تفسہہ کے قحبہ خانے کے راز جاننے والے بھڑوے کہا کرتے تھے کہ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنوعشوہ و غمزہ و ادا کی چھڑی سے نہ صرف پتھر میں جونک لگا سکتی ہے بل کہ نو دولتیے جوانوں کو اُلّو، گدھا اور اُلّو کا پٹھا بھی بنا لیتی ہے۔ متعدد ہیری پوٹر (Harry Potter) اپنے پُر اسرار طلسمی عمل سے بہرام ٹھگ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ان درندوں کو طلسم ہوش رُبا کے بارے میں جنتر منتر سکھاتے رہتے تھے۔ یہ خونخوار چڑیل اپنے اجل گرفتہ شکار کو اپنے جعلی حسن سے خواب غفلت میں مبتلا کر کے لُوٹ کر اُس کا خون پی جاتی تھی۔ ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو کو یہ بھی زعم تھا کہ وہ یونانی دیو مالا کے مطابق دریاؤں میں بسیرا کرنے والی حسین دیوی تھیٹس (Thetis) ہے۔ شہر کے لوگوں کو یقین ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد اِسے متعدد آشوب دیکھنے پڑیں گے۔ نائکہ خاتمہ نے بتایا کہ جھنگ شہر کے جس ضعیف معلم کو ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنونے جعلی بہو کی منگنی کا رُوپ دھار کر لُوٹا وہ دُکھی انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا متمنی تھا۔ ‘‘
مرزا یا مین ساحر کے منشی کھان ایاز سے قریبی تعلقات تھے۔ منشی کھان ایاز کے بڑے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں مرز یامین ساحر نے اُس کی رہنمائی کی تھی۔ منشی کھان ایاز کی طرح مرزا یامین ساحر بھی ضعیف معلم کے ساتھ روا رکھی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں پر دِل گرفتہ رہتا تھا۔ مرزا یامین ساحر نے ضعیف معلم شبیر کے بارے میں بتایا:
’’ منشی کھان ایاز نے دنیا دیکھی ہے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے۔ مجھے اِس جہاں دیدہ معلم نے جو باتیں بتائی ہیں وہ میں من و عن بتا رہا ہوں۔ منشی کھان ایاز نے ایک بار مجھے بتایا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ جھنگ شہر کا ضعیف معلم شبیر رانا فکر و خیال کے اعتبار سے برطانوی شاعر پی بی شیلے (1792-1822: Percy Bysshe Shelley) کے مہم جُو کردار پرومی تھیس سے گہری مماثلت رکھتا ہے۔ اس کردار کا ذکر پرومی تھیس اَن باؤنڈ(Prometheus Unbound) میں کیا گیا ہے۔ پی بی شیلے کی یہ کتاب جو پہلی بار سال 1820ء میں منظر عام پر آ ئی اِس میں یونانی دیو مالا کا ذکر موجود ہے۔ رذیل ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنونے محسن کُشی اور پیمان شکنی کے اذیت ناک سلسلے سے ضعیف معلم شبیر کی اُمیدوں کے قصر کو منہدم کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ اس ضعیف معلم کو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے وقت جی پی فنڈ کی جو رقم مِلی تھی وہ تمام رقم نائکہ تفسہہ، رمجانی ٹھگ اور ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو عرف کالی دیوی نے مکر کی چالوں سے اینٹھ لی۔ نائکہ تفسہہ نے ایک قبیح منصوبے کے تحت ضعیف معلم کے گھر میں آنا اور وہاں مہمان بن کر راتوں کو قیام کرنا معمول بنا لیا۔ اس قسم کی ملاقاتوں اور بیتی راتوں میں تشفی مَل کنجڑے کی بیٹی اور بہرام ٹھگ کی بہو نے ضعیف معلم کے گھر سے اُس کی بیٹیوں، والدہ اور بیوی کی بیس تولے کے طلائی زیورات، دو لیپ ٹاپ، ایپل کے دو موبائل فون، دو قیمتی گھڑیاں، انعامی بانڈ اور نقد رقوم چرا لیں۔ وہ کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرے جب ٹھگوں کے اِس ٹولے رشتوں کی ردا میں اپنا کریہہ چہرہ چھُپا رکھا ہے۔ ‘‘
منشی کھان ایاز اور چائے کے کھوکھے والے رمضان پتریر میں گاڑھی چھنتی تھی۔ ضعیف معلم شبیر کے حالات سُن کر سب لوگ گہری تشویش میں مبتلا تھے۔ ایک مرتبہ چائے کے اسی کھوکھے کے سامنے لکڑی کے ایک شکستہ سے بنچ پر بیٹھے احباب سے مخاطب ہو کر منشی کھان ایاز نے کہا:
’’ جب سے میں نے ضعیف معلم شبیر کے ساتھ ہونے والی ٹھگی کے بارے میں سُنا ہے مجھے سیاحی وال، سبز باغ، مگر مچھ نگر، خشتاں والی اور کہانیاں کاہ جیسے شہر سنگ دِل کے سب مکینوں سے اس لیے شدید نفرت ہو گئی ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ اِن بستیوں میں مقیم بہرام ٹھگ کی اولاد سفلگی کی سب حدیں عبور کر چکی ہے۔ راحت اور کرب کو جب تک دوسروں کے علم میں نہ لایا جائے اُس کا حقیقی احساس بعید ا زقیاس ہے۔ مشہور ادیب پی بی شیلے کی معرکہ آرا کتاب کا پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ضعیف معلم شبیر رانا نے یونانی دیو مالا کے کردار پرومی تھیس کے مانند جہلم اور چناب جیسے بڑے دریاؤں کی متلاطم موجوں، کوہستانوں، جنگل بیلے کے ریگستانوں اور چٹانوں کی پوشیدہ پناہ گاہوں میں مورچہ زن ڈائنوں، چڑیلوں اور آدم خور بھُوتوں سے فکری تصادم کی راہ اختیار کی۔ وہ سمجھتا ہے کہ جہدِ مسلسل سے حریت فکر و عمل کی جو ضیا حاصل کی اُس کے اعجاز سے سفاک ظلمتیں کافور ہو جائیں گی اور اِس سے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر اہتمام ہو گا۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ بے حسی اور سرد مہری کا مظاہرہ کرنے والے غاصب درندوں کو وہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ وہ الم نصیبوں اور جگر فگاروں کے پاس مرہم بہ دست پہنچ کر اُنھیں زندگی کی تاب و تواں سے متمتع کرنے کا آرزومند ہے۔ دُکھی انسانیت سے قلبی وابستگی ضعیف معلم شبیر کا سب سے بڑا اعزاز و امتیاز سمجھا جاتا ہے۔ اُس کی خواہش ہے کہ آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے مجبور، مظلوم اور مفلوک الحال انسانوں کی تاریک کٹیا میں اسلامی تعلیمات کے مطابق صبر و تحمل اور حوصلے و اُمید کی ضیا سے اُجالا کیا جائے۔ اس کے معجز نما اثر سے دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے اور حریم کبریا سے آشنا کرنے کے حیات آفریں سلسلے کا آغاز ہو گا۔ قلعۂ فراموشی کے اِن سب اسیروں کو وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد یہ بونے جو باون گزے بن کر اپنے تئیں عوج بن عنق خیال کرتے ہیں اپنی اوقات سمجھ لیں گے۔ یہ سب فراعنہ اور دریاؤں کی دیوی تھیٹس دریائے جہلم اور دریائے چناب کی طوفانی لہروں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ جائیں گے۔ ‘‘
مرزا یامین ساحر جو تیل کے ساتھ ساتھ تیل کی دھار دیکھنے پر بھی اصرار کرتا ہے بہت سوچ سمجھ کر بات کرتا ہے۔ عملی زندگی میں وہ سخت قواعد و ضوابط کے بجائے مشاورت کو زادِ راہ بنانے پر اصرار کرتا ہے۔ بہرام ٹھگ کے خاندان سے اُس کے خاندان کی جان پہچان کا عرصہ ایک صدی پر محیط ہے۔ اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر وہ کہا کرتا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے احتیاط، فہم و فراست اور ہوشیاری نا گزیر ہے۔ اُس نے اس معاملے کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:
’’سسلین مافیا کا خیال تھا کہ خاندان کے لیے اذکار کی مثال محض ایک شکستہ مہر کی سی ہے جسے حرف مکرر کے مانند لوحِ جہاں سے مٹانا ضروری ہے۔ اس لیے ٹرانس جنڈر انٹر سیکس مصبہا بنو، نائکہ تفسہہ، گنوار، تیامت، سمن، شگن، آہن گروں اور تسرینہ کے بارے میں وہ سچ بات بر ملا کہہ دیتا تھا اس لیے وہ ان سب کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا۔ زندگی کا بے آواز ساز مسلسل بجتا رہا مگر بے حِس معاشرے نے اپنی سادیت پسندی کے باعث اس پر دھیان نہ دیا۔ آشوب زمانہ سے غافل رہنے والوں کے لیے فطرت نے تازیانہ تھام لیا تھا۔ کوئی شخص اس حقیقت سے آ گاہ نہ تھا کہ روز و شب کے مظالم کا سلسلہ کہاں جا کر تھمے گا۔ صباحت، ظلی، سمن، شگن، رابی، مصبہا بنو، تفسہہ، گنوار، تیامت اور تسرینہ کی بد نیتی اور قبیح کردار کے سانچے میں ڈھل کر آدم خور چڑیلیں بن گئی تھیں۔ اُن کی سادیت پسندی کے ہزاروں رُوپ تھے جن میں خون آشامی سر فہرست ہے۔ ٹھگی، فریب کاری، جعلی چاہت، حقارت اور ہوس کی آگ سے بچنے کی تمنا کرنے والے اذکار کی مشعلِ زیست اچانک لنکا ڈھانے والے گھر کے کسی بھیدی کے فریب کی آندھی کے بگولوں کی زد میں آ گئی۔ اکتیس اگست 2021ء کی شام اذکار کو لاہور میں نامعلوم افراد نے ہلاک کر دیا اور اُس سے نقد رقم، بیش قیمت موبائل فون، دو قیمتی گھڑیاں، قیمتی ملبوسات سے بھرے دو تھیلے جن میں دسویں جنریشن کے دو لیپ ٹاپ اور دس بڑے یو ایس بی(USB) بھی موجود تھے چھین لیے۔ چیرہ دستوں کو فطرت کی سخت تعزیروں کا سب احوال معلوم ہو گیا۔ ‘‘
منشی کھان ایاز نے جب اس سانحہ کے بارے میں سُنا تو وہ توبہ استغفار پڑھنے لگا۔ وہ یہ بات اکثر دہراتا کہ نا انصافی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو صبر و تحمل ختم ہو جاتا ہے اور جب مضطرب دِلوں کی دھڑکن انسان کو بُجھتے جُگوں میں پہنچا دیتی ہے تو انسان سوئے افلاک دیکھنے لگتا ہے۔ آفاق سے اِن درد انگیز نالوں کا جواب ضرور مِلتا ہے۔ فرازِ دِل سے اُترتی ہوئی ماضی کی یادوں کی ندی کی روانی کو دیکھ کر منشی کھان ایاز اپنے پڑوسی شبیر رانا کے بارے میں خواجہ میر درد کا یہ شعر اکثر پڑھتا تھا۔
خلق میں ہیں پر جُدا سب خلق سے رہتے ہیں ہم
تال کی گنتی سے باہر جس طرح رُوپک میں سَم
اپنے احباب کو اس شعر کا مفہوم وہ جن حوالوں سے سمجھا نے کی سعی کرتا تھا اُن کی تفصیل درج ذیل ہے:
نعمت خان کلانونت کے پوتے اور باہلو کھان کے بیٹے گھاسف بقال کھان نے سارنگی کی دھُن پر سمجھایا کہ سَم وہ مقام ہے جہاں سے تال شروع ہوتا ہے۔ بھاٹی کے قحبہ خانوں کی رقاصہ اور نائکہ شباہت کمر نے بتایا کہ سَم سے مراد تال کی اولین ماترا ہے۔ تال کی ہر گردش میں سَم صرف ایک مرتبہ آتا ہے۔ تشفی مَل کنجڑا اور لال کنور کا کہنا ہے کہ ترنم کے سلسلوں سَم کے اظہار پر توجہ مرکوز رہتی ہے اور سَم پر نغمے کی تکمیل ہوتی ہے۔ رُوپک کا ذکر سُن کرگھاسف بقال کھان نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اپنے آبا کے حوالے سے بتایا کہ یہ ایک قدیم، مقبول و مشہور تال ہے جس کی سات ماترائیں ہوتی ہیں۔ ماہر موسیقار رُوپک تال کے بارے میں اِس بات پر متفق ہیں کہ اِس میں پانچواں ماترا جو اِس کا سَم ہے اگرچہ تال کا حصہ تو ہے مگر اِسے بالعموم خالی قرادیا جاتا ہے۔ یگانۂ روزگار شخصیات کے بارے میں بھی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ انھیں سہل نہیں سمجھنا چاہیے وہ اہلِ جہاں میں موجود ہونے کے باوجود اپنا ایک الگ رنگ اور منفرد آہنگ رکھتے ہیں۔ منشی کھان ایاز کا کہنا تھا کہ فلمی موسیقی کے شائقین کا خیال ہے کہ بر صغیر کی متعدد فلموں کے نغمے تال کے پانچویں ماترا رُوپک میں لکھے گئے جو بہت مقبول ہوئے۔ منشی کھان ایاز جب یہ فلمی نغمے گنگناتا تو اُس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگتیں:
آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے
دِل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مِل گئی منزل مجھے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
تیرے میرے مِلن کی یہ رینا
نیا کوئی گُل کھِلائے گی
تبھی تو چنچل ہیں تیرے نینا دیکھو نا
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
تیری بِندیا رے
سجن بندیا لے لے گی
تیری نِندیا رے
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
میرا جیون کورا کاغذ کورا ہی رہ گیا
جو لکھا تھا آنسوؤں کے سنگ بہہ گیا
ہفتہ، 6۔ مئی2023ء کی سہ پہر یہ مضمون مکمل کیا تو ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے یہ خبر نشر ہوئی کہ آج برطانیہ کے شاہی چرچ ویسٹ منسٹر ایبی میں شہنشاہ چارلس سوم (B: 14-11-1948)کی حلف برداری اور تاج پوشی ایک ہزار سالہ رسوم و رواج کے مطابق بہت دھوم دھام سے ہو رہی ہے۔ چارلس کی ماں ملکہ الزبتھ دوم(B: 21-04-1926 D: 08-09-2022)کی وفات کے بعد یہ تقریب منعقد ہوئی۔ تاج پوشی کی اس تقریب کا موقع ستر برس کے بعد آیا ہے۔ آرچ بشپ نے چالیسویں شاہی مطلق العنان شہنشاہ چارلس کو 360 سال پرانا ٹھوس سونے سے تیار کیا ہوا دو کلو سے زیادہ وزنی کنگ ایڈورڈ کا تاج پہنایا اور حلف لیا اور شہنشاہ کو سات سو سال قدیم کرسی پیش کی گئی۔ جب کہ چارلس کی اہلیہ کوئین آف کانسورٹ کمیلا پارکر(B: 17-07-1947)نے کوئین میری کا تاج پہنا۔ لاہور میں کنگ ایڈورڈ کے نام پر ایک میڈیکل یونیورسٹی ہے اور کوئین میری کے نام پر لاہور میں خواتین کا ایک کالج ہے جو نو آبادیاتی دور کی یاد ہیں۔ دو قصر بکھنگم لندن(برطانیہ)میں جشن کا سماں ہے جس میں دنیا بھر سے دو ہزار مقتدر شخصیات نے شرکت کی ہے۔ اس تقریب کے رنگ ہی نرالے تھے کمیلاپارکر جو راز دارانہ طور پر منتظر ملکہ برطانیہ تھی پرنسس آف ویلز لیڈی ڈیانا(01-07-1961-31-08-1997)کو ٹھکانے لگانے کے بعد چارلس کو اپنی زلفوں کا اسیر بنا چکی تھی۔ ٹیلی ویژن پر اس تقریب کے مناظر دیکھے تو حیرت ہوئی کہ آسمان کیسے کیسے رنگ بدلتا رہتا ہے اور زمانہ کس قیامت کی چال چلتا ہے۔ منشی کھان ایاز نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ اس کائنات میں مختلف ممالک کی حکومتیں اور سر براہ پیہم بدلتے رہتے ہیں۔ اِن مہروں کو سچ مُچ کا بادشاہ، وزیر یا داروغہ سمجھنا خود فریبی ہے۔ اقتدار کی کرسی کے لیے موسیقی کے کھیل کایہ چکر یوں ہی جاوداں چل رہا ہے یوں سمجھ لیں کہ کنواں چل رہا ہے۔ اس دستور پر غور کرنا ضروری ہے کہ وقت کا بادشاہ تو کوئی اور ہے باقی ہر مہرہ جو اپنی مجبوری اور بے ثباتی کو جانتے ہوئے بھی مغرور ہے، اُس کی سوچ میں یقیناً کوئی فتور ہے۔ دارا، سکندر، جمشید، بابر، شاہ جہاں، ایڈورڈ اور چارلس کے فرقِ ناز پر ہیرے جواہرات اور سونے سے تیار کیا ہوا تاج موجود ہے مگر منشی کھان ایاز، ساغر صدیقی، رام ریاض اور خادم مگھیانوی کے دوشِ غم پر بوسیدہ گلیم ہے۔ تاریخ ہی اِس بات کا فیصلہ کرے گی کہ ان میں سے کِس شخصیت کی داستانِ حیات عظیم ہے۔ منشی کھان ایاز آب و گِل کے کھیل کو ایک ایسی پہیلی سے تعبیر کرتا تھا جس کی گتھی سُلجھانا بعید از قیاس ہے۔ طوفانِ حوادث کے گرد آلود بگولوں سے بچنے کی خاطر اس دنیا کے باشندے بے بسی کی بوسیدہ چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ اپنے غموں کو دھوئیں میں اُڑانے کے لیے حقے کے کش لگانے کی غرض سے چلموں کی راکھ صاف کر کے اُس میں تمباکو بھرتے ہیں اور اُس پر انگارے رکھ کر کڑوی کسیلی سانسیں لیتے ہیں۔ اِن رفتگاں کے نہ ہونے کی ہونی کے بعد دیکھنے والے چارہ گروں کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ جاتی ہیں۔ دست اجل کے اشارے پر ایک پتنگا دیپک پر جل جاتا ہے تو دوسرا اُس کی جگہ لیتا ہے۔ منشی کھان ایاز ایسی دنیا کا بادشاہ ہے جسے دہشت گردی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ اس کی دنیا میں اقتدار کی رسہ کشی نہیں اور نہ ہی یہاں حرص و ہوس کی مسموم فضا اور سازشوں کا کوئی دخل ہے۔ اِس سوال کا جواب کون دے گا کہ دِل گِیر منشی کھان ایاز جو اپنی دنیا کا بادشاہ تھا فقیر کیسے ہو گیا۔ جاہ و منصب کو للچائی نگاہ سے دیکھنے والوں نے قصر و ایوان میں تو نجومِ فلک سجا دئیے مگر اس بات کی طرف کسی کی توجہ نہ تھی کہ ماہتاب زمین سے دُور ہوتا چلا جا رہا تھا۔ آج شام میں نے دیکھا کہ دنیا وما فیہا سے بے خبر اپنی دھُن میں مگن منشی کھان ایاز جھنگ کی ایک نئی بستی عامر ٹاؤن، جھنگ کی جانب جا رہا تھا۔ دو ہزار سال قدیم شہر خموشاں ’’کربلا حیدری ‘‘ اسی نئی اور پُر اسرار بستی کے شمال میں واقع ہے۔ اس قدیم شہر خموشاں کی زمین کیسے کیسے آسمان کھا چُکی ہے۔ مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ لالۂ صحرائی کی اگلی منزل کون سی ہے۔
کچھ مافوق الفطرت عناصر ایسے بھی ہوتے ہیں جو فطرت کے مقاصد کی نگہبانی تو کرتے ہیں مگر اُن کی اصلیت کو سمجھنا ایک جان جوکھوں کا مرحلہ ہے۔ منشی کھان ایاز کی زندگی کے بارے میں کی جانے والی ہر بات دِل سے نکلتی ہے اور فی الفور سننے والے کے دِل میں اُتر جاتی ہے۔ دُکھی انسانیت کے ساتھ قلبی وابستگی کا جو غیر مختتم سفر اُس نے شروع کیا وہ آج بھی جاری ہے۔ اُس نے تعمیر کی جو بھی تدبیر کی تقدیر نے اُسے تخریب کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اُس کے چہرے کی سدا بہار مسکراہٹ کے پس پردہ مہیب سناٹوں اور سفاک ظلمتوں کے فرغلوں میں لِپٹی پر اسرار کہانی ناگفتہ ہی رہ گئی ہے۔ اُس کی زندگی کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمیشہ گردش ایام کی زد میں رہی اور بدقسمتی کی تیر اندازی نے اُسے چھلنی کر دیا۔ بادی النظر میں کاسۂ گدائی تھامے ایک مفلوک الحال گداگر دکھائی دینے والا خستہ حال شخص ایک انتہائی پُر اسرار شخص ہے جو باطنِ ایام پر گہری نظر رکھتا ہے۔ وہ جری مصلح جو زندگی بھر بہرام ٹھگ کی اولاد کا بے باکی سے مَکُوٹھپنے میں مصروف رہا گردِشِ ایام نے خود اُس کام کو اس طرح ٹھپ دیا کہ وہ دنیا کے آئینہ خانے میں ایک تماشا بن کر رہ گیا۔ ایسے لوگ یادگارِ زمانہ ہوتے ہیں جن کی روزمرہ زندگی کے معمولات فسانہ بن جاتے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ منشی کھان ایاز کی زندگی کی گتھیاں صرف سیلِ زماں کے تھپیڑے ہی سُلجھا سکتے ہیں۔ آج کے قارئین اس شخص کی زندگی کے معمولات کو احاطۂ تحریر میں نہیں لا سکتے مگر اُس کی زندگی پورے معاشرے کے نشیب و فراز پر محیط ہے۔ شمع کے مانند جلنے والے اِس پر اسرار شخص کی کٹھن زندگی کے متعدد راز تو شاید اس شمع کے بجھنے کے بعد ہی سامنے آ سکیں۔ اس شخص کی زندگی کے نا قابلِ فہم اور نا قابل تسخیر اسرار کو قابل فہم بنانے کے لیے انتظار کرنا ہو گا۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید