زین شکیل کا ایک اور شعری مجموعہ، ایک مکمل طویل آزاد غزل
تم خاموش نہیں رہنا
از قلم
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
تم خاموش نہیں رہنا
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
استاد محترم فرحت عباس شاہ کے نام
اک دن وہ مجھ سے یہ بولی آؤ باتیں کرتے ہیں
میں اُس کی باتوں میں آ کر باتیں کرنے لگتا ہوں
وہ یہ بولی میں نے چاند خفا دیکھا ہے خوابوں میں
میں یہ بولا کچھ تعبیریں اکثر الٹی ہوتی ہیں
وہ کہتی ہے مجھ کو چاند کے بارے میں کچھ بتلاؤ
میں کہتا ہوں، آوارہ ہے، تنہا ہے، ہرجائی ہے
وہ کہتی ہے چاند مرے آنگن میں اترا کرتا ہے
میں کہتا ہوں تم بھی دیوانوں سی باتیں کرتی ہو
وہ کہتی ہے وقت سے آگے جانا بہت ضروری ہے
میں کہتا ہوں ہاں ! پر دیکھو، یہ تو اک مجبوری ہے
وہ کہتی ہے کیا، نیندوں کی بربادی کا باعث ہے ؟
میں کہتا ہوں پاگل لڑکی اتنا زیادہ مت سوچو
وہ کہتی ہے میں نے کتنی بار اداسی دیکھی ہے
میں کہتا ہوں اچھا تھا گر تم محسوس بھی کر لیتیں
وہ بولی یہ نیند مری اب کچھ خوابوں سے خائف ہے
میں بولا کچھ خوابوں سے کچھ راتیں بھی تو خائف ہیں
وہ کہتی ہے چلتے چلتے کیوں اکثر کھو جاتے ہو؟
میں کہتا ہوں دیوانے بس ایسے ہی تو ہوتے ہیں
وہ بولی میں آبِ نداست تیری خاطر لائی ہوں
میں یہ بولا اب تو پت جھڑ موسم ہے امیدوں پر
وہ کہتی ہے میں تو اکثر رات سے پردہ کرتی ہوں
میں کہتا ہوں چاند ستارے تم سے پردہ کر لیں گے
وہ بولی یہ عمر تماشا بن بیٹھی ہے لوگوں کا
میں یہ بولا دنیا بھی تو آتش زن ہے صدیوں سے
وہ یہ بولی تم جیسے لاکھوں دیوانے پھرتے ہیں
میں یہ بولا پھرتے ہوں گے لیکن مجھ جیسے ہی کیوں ؟
وہ بولی ہر خواب کا رستہ تیری جانب جاتا ہے
میں یہ بولا ان رستوں پر نیندیں کم کم آتی ہیں
وہ بولی آثارِ بد کیوں چاہت میں آ جاتے ہیں ؟
میں بولا یہ ایک وطیرہ ہو شاید، معلوم نہیں !
وہ کہتی ہے دستِ حنائی اب کس کو دکھلاؤں گی؟
میں یہ بولا اُس کو جس کو رنگ سبھی راس آتے ہوں
وہ بولی میں ہر دکھ سکھ کو آدھا ساجھا کرتی تھی
میں بولا اب چھوڑو بیتی باتوں کا دہرانا کیا
وہ کہتی ہے تم بن اکثر رستے ساتھ نہیں دیتے
میں کہتا ہوں مجھ کو تم بن منزل طعنے دیتی ہے
وہ بولی آرام رساں کچھ لمحے بھی میں کھو بیٹھی
میں بولا اب میں بھی تو آزار اٹھائے پھرتا ہوں
وہ کہتی ہے یاد ہے کیا تم مجھ کو بادل کہتے تھے ؟
میں بولا ہاں تھوڑا تھوڑا شاید مجھ کو یاد ہی ہے
وہ بولی کیا یاد نہیں ہے جب تم بھیگا کرتے تھے ؟
میں بولا ہاں یاد ہے تب تم بالکل ساون جیسی تھی
پھر میں بولا کیوں تم نے دن رات برسنا چھوڑ دیا؟
وہ بولی اب تم نے بھی تو زین! ترسنا چھوڑ دیا
وہ بولی آسیب زدہ ہے جیون اس پر تیرا غم
میں بولا آشفتہ حالی میری بھی دیوانی ہے
وہ یہ بولی شہروں کی ویرانی کس کو کہتے ہیں ؟
میں بولا آبادی کی نادانی اس کو کہتے ہیں !
وہ یہ بولی جذبوں کی زندانی کس کو کہتے ہیں ؟
میں یہ بولا، سانسوں کی آسانی، اِس کو کہتے ہیں !
وہ بولی سچ بتلانا دیوانی کس کو کہتے ہیں ؟
میں یہ بولا، چاہت کی حیرانی، اِس کو کہتے ہیں !
وہ بولی بتلا دکھ کی یزدانی کس کو کہتے ہیں ؟
میں بولا، دکھلا کر آنکھ کا پانی، اِس کو کہتے ہیں !
وہ بولی میں بخت رسیدہ پھرتی ہوں آشفتہ مُو
میں بولا آلاراسی آخر تم کو لے ہی ڈوبی
وہ کہتی ہے دیواروں پر حسرت چھائی رہتی ہے
میں کہتا ہوں چھت سے سارا منظر میں نے دیکھا ہے
وہ بولی آپار غموں سے دامن کیسے بچ پاتا
میں کہتا ہوں درد کا آخر درد مداوا کرتا ہے
وہ کہتی ہے تم کالے کپڑوں میں اچھے لگتے ہو
سو اب میں ہفتے میں دو دن کالا رنگ پہنتا ہوں
عشق نگر میں ہوتے ہیں احرار بھلا کب، وہ بولی
یہ تو تم نے سولہ آنے ٹھیک کہا ہے، میں بولا
وہ کہتی ہے پیڑوں سے دکھ کیسے جھڑنے لگتے ہیں ؟
میں کہتا ہوں جب عاشق سائے میں بیٹھا کرتے ہیں
وہ یہ بولی روح میں دیکھو کیسا اُدّھم برپا ہے
میں بولا تم زیادہ ہی کچھ روحانی ہو جاتی ہو
وہ بولی میں ہنستی ہوں تو یاد مجھے تم آتے ہو
میں یہ بولا ایسے میں، میں اکثر رویا کرتا ہوں
وہ بولی کچھ لوگوں کے اَذہان اذیت دیتے ہیں
میں بولا لوگوں کی سوچیں اک جیسی کب ہوتی ہیں
وہ بولی میں تیری باتیں خود سے ہی کر لیتی ہوں
میں یہ بولا اندر کی ویرانی بھی ڈھل جائے گی
وہ بولی میں خاص ارادت رکھتی ہوں کچھ شاموں سے
میں بولا ہاں شام سے گہرا ناتا ہے دل والوں کا
وہ بولی ارباب نظر تم نے ہو کر کیا کیا دیکھا؟
میں بولا مبہوت اداسی عمروں پر پھیلی دیکھی
وہ بولی اربابِ بصیرت ہونا کیسا ہوتا ہے ؟
میں یہ بولا زیادہ تر نادانی بہتر ہوتی ہے
وہ بولی اربابِ وفا لوگوں کا بچھڑنا کیسا ہے ؟
میں بس اتنا ہی بولا، حیرانی بہتر ہوتی ہے
وہ بولی اربابِ ہَمم ہونے کے لیے کیا بہتر ہے ؟
میں بولا یہ ہونے کو ویرانی بہتر ہوتی ہے
وہ بولی تم اک واحد اَرداس ہو میری ہستی کا
میں بولا تم یہ تو میرا دل رکھنے کو کہتی ہو
وہ بولی اب خوابوں میں ارواح خبیثہ دکھتی ہیں
میں بولا رب توبہ کا دروازہ کھولے رکھتا ہے
وہ بولی اب ہجر میں جل جل سارا روپ اروپ ہوا
میں بولا میں کہتا تھا ناں عشق بڑا بہروپی ہے
وہ بولی یہ دکھ کیوں مجھ کو اُڑ کر ملنے لگتے ہیں
میں کہتا ہوں شاید ان کو خاص محبت ہو تم سے
وہ بولی میں اڑن کھٹولا ہوتی تو ملنے آتی
میں بولا اب نہ ہونے کا دکھ میں کیسے سمجھاؤں
وہ بولی تم اکثر مجھ کو اَز حد یاد آ جاتے ہو
میں بولا میں بھی تو بے کل ہو کر رونے لگتا ہوں
وہ بولی اب ڈر لگتا ہے بد فرجام نہ ہو جاؤں
میں افسردہ ہو کر بولا اتنی نا امیدی کیوں ؟
وہ بولی میں اب تو ایسے پُر حسرت ہی رہتی ہوں
میں کہتا ہوں تم تو میری خواہش بھی ہو حسرت بھی
وہ بولی پُر آب رہا کرتی ہیں میری آنکھیں بھی
میں بولا ان آنکھوں کے آرام کا باعث آنسو ہیں
وہ بولی ہر جذبہ ہے پُر اشک، بتانا مشکل ہے
میں بولا ان جذبوں کا بے نام ہی رہنا اچھا ہے
وہ بولی اپنا جیون پردان کروں گی میں تم کو
میں کہتا ہوں میں نے تو سب کچھ ہی دان کیا تم کو
وہ بولی بے چین پرندے پُرسہ دینے آتے ہیں
پھر بولی تعزیت کے انداز نرالے ہیں ان کے
پھر وہ بولی یہ ہر دکھ کی پردہ پوشی کرتے ہیں
پھر خود بولی لوگوں سے بے چین پرندے اچھے ہیں
پھر وہ بولی کیوں پژمردہ خاطر ہوں بیچاری میں ؟
پھر خود بولی شاید میرے بھاگ میں ایسا لکھا ہو
پھر وہ بولی عمروں لمبی راہیں تک تک ہاری ہوں
پھر بولی شاید لیکھوں نے واپس ہی نہ آنا ہو
پھر وہ بولی جانے کیسا پڑھنت پڑھا کچھ لمحوں نے
پھر خود بولی شاید اس مشکل کا حل نا ممکن ہو
وہ بولی اک پلکا اکثر مجھ سے ملنے آتا ہے
میں بولا پھر تنہائی کا کیونکر شکوہ کرتی ہو؟
وہ بولی اس پلکے سے میں تیری باتیں کرتی ہوں
میں بولا اس دو رنگے پر اور بھروسہ مت کرنا
وہ کہتی ہے آنکھ میں میری کاجل بکھرا رہتا ہے
میں کہتا ہوں میری آنکھ میں دریا ٹھہرا رہتا ہے
وہ کہتی ہے رو دینے سے جی ہلکا ہو جاتا ہے
میں کہتا ہوں ہنس دینے سے اکثر غم چھپ جاتے ہیں
وہ کہتی ہے بارش مجھ کو یوں ہی اچھی لگتی ہے
میں کہتا ہوں قدرت کا رومان سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے بارش میں تم زیادہ ہی یاد آتے ہو
میں کہتا ہوں میرا بھی ارمان سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے تم شعروں میں مجھ کو ہی بس لکھتے ہو!
میں یہ کہتا ہوں میرا دیوان سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے ہم تم حیرانی کے سوا کچھ اور نہیں
میں کہتا ہوں مجھ کو بھی حیران سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے تم تو بس اک شاعر ہو، تم کیا جانو
میں کہتا ہوں شاعر کو نادان سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے دکھ سینے لگتا ہے ہاتھ ملاتا ہے
میں کہتا ہوں دکھ کو بھی انسان سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے میں تم کو محسوس نہیں کیوں کر پاتی
میں کہتا ہوں جذبوں کو بے جان سمجھتی ہو تم تو
فرحت شاہ کہتے ہیں، ” عشق نرالا مذہب ہے "، بولی
میں کہتا ہوں اچھا ہے ایمان سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے میں وعدوں کی سچی بھی ہوں پکی بھی
میں کہتا ہوں اچھا ہے پیمان سمجھتی ہو تم تو
وہ کہتی ہے پھول وہی جو تیری راہ میں بکھرے تھے
میں کہتا ہوں اتنا مقدس میں کیسے ہو سکتا ہوں ؟
وہ بولی میں تنہائی کا ہر لمحہ گن رکھتی ہوں
میں یہ بولا تم میں اتنی باریکی کیسے آئی؟
وہ کہتی ہے میں پانی میں دیپ بہایا کرتی ہوں
میں بولا تم کیا سچ مچ معصوم طبیعت ہو اتنی؟
وہ کہتی ہے غم ظاہر ہو جائے تو بڑھ جاتا ہے
میں بولا کیا غم کا گھٹ جانا بھی ممکن ہوتا ہے ؟
وہ بولی بے چینی کی ہر منزل میں نے دیکھی ہے
میں بولا تیری آنکھوں سے یہ محسوس نہیں ہوتا
وہ کہتی ہے اب تم مجھ سے روٹھے تو میں رو دوں گی
میں کہتا ہوں میں روٹھا تو جانے کیا کچھ کھو دوں گا
وہ بولی میں دور چلی جاؤں گی پھر تم ڈھونڈو گے
میں بولا اک سائے سے تم دور کہاں تک جاؤ گی؟
وہ بولی میں، زین شکیل، سرابوں جیسی لڑکی ہوں
میں بولا تم بالکل میرے خوابوں جیسی لڑکی ہو
وہ بولی اک آس میں جیون بیت گیا تو کیا ہو گا؟
میں بولا گر آس نہیں تو جیون ایک خسارہ ہے
وہ بولی میں کنگن پہنے تم کو کیسی لگتی ہوں ؟
میں بولا تم پر پھولوں کے گجرے زیادہ جچتے ہیں
وہ بولی میرے کپڑوں کی تم تعریف نہیں کرتے
میں بولا کالے کپڑوں میں نکھری نکھری لگتی ہو
وہ کہتی ہے کان کا بالا سرگوشی سی کرتا ہے
میں بولا تم گہنوں سے میری باتیں جو کہتی ہو
وہ بولی گر تم ہی نہیں سنگھار مرا پھر بے معنی
میں یہ بولا میں ہی نہیں، تم نے یہ سوچا بھی کیسے ؟
وہ بولی جگ بیت گئے تکتے تکتے دیواروں کو
میں بولا دیواریں بھی تو تم کو دیکھا کرتی ہیں
وہ بولی اک خواب میں دریا پیاسا دیکھا ہے میں نے
میں بولا تم خوابوں کو سنجیدہ ہی لے لیتی ہو
وہ بولی میں خوابوں کو ترتیب سے دیکھا کرتی ہوں
میں بولا بس دھیان رہے تم بے ترتیب نہ ہو جانا
وہ بولی اس موت سے آگے موت ہے ہر اک رستہ بھی
میں بولا پھر موت سے پہلے بے ایمان نہ ہو جانا
وہ بولی کیا رحمت ہر اک خاص و عام پہ برسے گی؟
میں بولا وہ پلک نواز ہے ہر اک شے پر قادر ہے
وہ بولی کیا روحوں میں بھی فرقہ بندی ہوتی ہے ؟
میں بولا ہاں شاید کچھ آلودہ روحیں ہوتی ہیں
وہ یہ بولی مذہب میں ہے کیونکر اتنی دشواری؟
میں بولا پاگل مذہب تو رستہ ہے آسانی کا
وہ بولی اب لوگ خدا کے نام پہ دھوکا کرتے ہیں
میں بولا وہ لوگ خدا کو مانے ہی کب ہوتے ہیں
وہ کہتی ہے مذہب کے فرقوں کے بارے بتلاؤ
میں کہتا ہوں یہ لوگوں کی آپ بنائی باتیں ہیں
وہ کہتی ہے کیا فرقے مذہب میں لازم ہوتے ہیں ؟
میں کہتا ہوں رب کا تو ایسا کوئی پیغام نہیں
وہ بولی اس دنیا میں کیوں قتل و غارت ہوتی ہے ؟
میں بولا کچھ لوگ درندے ہو جاتے ہیں خواہش میں
وہ بولی میں جب مرنے کا سوچوں تو ڈر جاتی ہوں
میں بولا یہ ایک لحاظ سے اچھا بھی ہے ڈر جانا
وہ کہتی ہے میں نے کھل کر جینا چاہا دنیا میں
میں کہتا ہوں کھل کر جینے کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟
وہ کہتی ہے اس دنیا میں سانسیں گھٹنے لگتی ہیں
میں کہتا ہوں خود سے کمتر لوگوں پر بھی غور کرو
وہ کہتی ہے تم کچھ کہتے کہتے چپ ہو جاتے ہو
میں کہتا ہوں تم کو دیکھے جانا اچھا لگتا ہے
وہ بولی تحقیرِ محبت دنیا والے کرتے ہیں
میں کہتا ہوں ازلوں سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے
وہ بولی میں بے چینی کا گھونگھٹ پہنے رکھتی ہوں
میں بولا یہ بے چینی بھی تم پر کتنی سجتی ہے
وہ بولی تم دل رکھنے کو ایسی باتیں کرتے ہو
میں بولا سچ پوچھو تو دشوار بہت ہے دل رکھنا
وہ کہتی ہے زین تمہیں بس باتیں کرنا آتی ہیں
میں کہتا ہوں باتیں کرنا میں نے تم سے سیکھا ہے
وہ کہتی ہے باتیں کرتے کرتے میں تھک جاتی ہوں
میں نے ہنس کر چہرہ اپنا دوسری جانب موڑ لیا
وہ کہتی ہے کون آنکھوں سے بہتے آنسو چنتا ہے ؟
میں کہتا ہوں وہ اک جو دن رات اداسی بُنتا ہے
وہ بولی تم جب بھی خواب میں بچھڑے، آنکھیں روتی ہیں
میں بولا پاگل لڑکی خوابوں پر میرا زور نہیں
وہ بولی میں نیندوں کی تعذیر اٹھا کر لے آتی
میں بولا پھر خوابوں کی تعبیر کہاں سے لاتی تم؟
وہ بولی گر بس چلتا تقدیر اٹھا کر لے آتی
میں بولا پھر بختوں میں تقصیر بھلا کیا لاتی تم؟
وہ بولی جب مر جاؤں گی، کیا تم کو یاد آؤں گی؟
میں بولا اس بچوں جیسی بات پہ اب میں کیا بولوں ؟
وہ بولی کیوں بے چینی کے بعد نہیں تم مل سکتے ؟
میں بولا ملنا ہوتا، بے چینی سے پہلے ملتا
وہ بولی میں تم سے بچھڑ کر کیسے بال سنواروں گی؟
میں بولا اب بعد کی باتیں پہلے کرنا ٹھیک نہیں
وہ بولی اب روز بروز کے ملنے میں تخفیف کرو
میں بولا کب پہلے میں نے بات تمہاری ٹالی ہے
وہ بولی تدبیرِ فاسد ہے یہ چند پرندوں کی
میں یہ بولا تم تو ان سے باتیں کرتی رہتی تھی
وہ بولی سب تم بن مجھ کو تَر دامن ہی سمجھیں گے
میں بولا وہ پاک خدا پھر غالب حکمت والا ہے
وہ بولی دنیا والے تصلیب مجھے کر ڈالیں گے
میں بولا گر عشق میں سچائی ہے تو پھر ڈرنا کیا؟
وہ بولی میں تربت تربت، اُجڑی اُجڑی لگتی ہوں
میں بولا تم تو بالکل مجھ جیسی ہی ویرانی ہو
وہ بولی میں پیار پریت کے باغوں بچھڑی کوئل ہوں
میں بولا پھر شاید میٹھی بولی تم بھول آئی ہو
وہ بولی میں تتلی کی رنگوں کو اوڑھا کرتی ہوں
میں یہ بولا تتلی کے تو رنگ ہی کچے ہوتے ہیں
وہ بولی میں سوہنی، سسی، ہیر ہوں رادھا جیسی ہوں
میں بولا پھر ان سب کے انجام سے واقف بھی ہو گی؟
وہ بولی تم ازلوں سے مخدوم ہو میرے، اے سانول
میں بولا اب کون مہاریں موڑ کے آیا کرتا ہے !
وہ بولی میں داسی ہوں، میں نیچ، کنیز، دیوانی ہوں
میں یہ بولا میں تو ازلوں سے اک دکھ کا راجہ ہوں
وہ بولی تم مجھ کو اپنے ساتھ کہیں پر لے جاؤ
میں بولا پھر دنیا کے اُس پار کہیں چل بستے ہیں
وہ بولی اب تنہا تنہا رہنے سے بھی کیا حاصل؟
میں بولا تنہائی کے کچھ اپنے راز بھی ہوتے ہیں
وہ بولی میں نے تم کو تسوید کیا تنہائی میں
میں یہ بولا اچھا ہے تم کچھ تو کرتی رہتی ہو
وہ بولی کیا چاہت میں تعزیر کا ہونا لازم ہے ؟
میں بولا ہاں شاید کیونکہ میں نے ایسا ہی دیکھا
وہ بولی یہ بتلاؤ یہ کیسی تیری پریت پیا؟
میں کہتا ہوں تم ہو میری دھڑکن کا سنگیت پیا
وہ بولی میں جیون جیون تیری آس میں تڑپی ہوں
میں بولا میں لمحہ لمحہ خاموشی سے رویا ہوں
وہ بولی جاروب کشی میں یاد کے گھر میں کرتی ہوں
میں بولا یادوں کے گھر کو صاف ہی رکھنا بہتر ہے
وہ بولی اب دردِ فراق تو جان کا بیری لگتا ہے
میں کہتا ہوں یہ تو میرے دل کہ بات کہی تم نے
وہ بولی کیا جاہ حشم ہوتا ہے عشق فقیروں کا؟
میں یہ بولا عشق سے بڑھ کر کون سا منصب ہوتا ہے
وہ بولی، ہوتی ہے جائے عذر بھی عشق کی منزل میں ؟
میں یہ بولا عشق میں اُف کر دینا بھی بربادی ہے
وہ بولی یوں زندہ رہنا جگ درشن کا میلہ ہے
میں بولا میرے سینے میں کوئی بہت اکیلا ہے
وہ بولی جوبن کا ماتا کیا کچھ کروا جاتا ہے
میں بولا ثابت قدمی کا تم دامن تھامے رکھنا
وہ بولی جوبن کو آخر ڈھلنا ہے ڈھل جائے گا
میں بولا ہر چیز فنا کی جانب چلتی رہتی ہے
وہ بولی کیا تم بھی مجھ کو یاد کرو گے ؟ سچ کہنا
میں کہتا ہوں تم بھی بچوں جیسی باتیں کرتی ہو
وہ بولی نسیان سا مجھ کو لاحق ہونے لگتا ہے
میں بولا ایسے میں مجھ کو بھول گئی تو کیا ہو گا
وہ بولی دکھ کے جھرمٹ میں تم کو کیسا لگتا ہے ؟
میں بولا سکھ کے جھرمٹ میں تم کو جیسا لگتا ہے
وہ کہتی ہے جھوٹ کے دفتر کھولے سرد ہواؤں نے
میں کہتا ہوں تم بھی تو سب کی سننے لگ جاتی ہو
وہ بولی چار و ناچار اداسی مجھ کو ملتی ہے
میں کہتا ہوں تم تو پاگل مجھ سے بھی خوش قسمت ہو
وہ بولی بس زین مرے چارہ پرداز ہو ایک تمہی
میں بولا انسانوں سے امیدیں دکھ کا باعث ہیں
وہ کہتی ہے، چاند چڑھے کل عالم دیکھے، کیا مطلب؟
میں بولا تم عشق کے بارے سوچو اور اس کو سمجھو
وہ بولی تم چاند کو ہرجائی کیوں کہتے رہتے ہو؟
میں کہتا ہوں میں تو اس کے سنگ ہی جاگا کرتا تھا
وہ بولی میں سبز رُتوں میں تم سے ملنے آؤں گی
میں بولا تم پہلے پیلی رُت دیکھو گی رستے میں
وہ بولی کیا ایک محبت دوبارہ ہو سکتی ہے ؟
میں کہتا ہوں ایک محبت ایک ہمیشہ رہتی ہے
وہ کہتی ہے سب کچھ کہہ دینا ہی بہتر ہوتا ہے
میں کہتا ہوں ہاں اور پھر سہنا بھی بہتر ہوتا ہے
وہ کہتی ہے اندر کی آواز میں مجھ سے بات کرو
میں کہتا ہوں اکثر چپ رہنا ہی بہتر ہوتا ہے
وہ کہتی ہے دیکھو کیسے عارض رنگ بدلتے ہیں
میں کہتا ہوں آنکھوں سے بہنا ہی بہتر ہوتا ہے
وہ کہتی ہے سچ پوچھو تو میں خوش خوش ہی رہتی ہوں
میں بولا اچھا ہے خوش رہنا ہی بہتر ہوتا ہے
وہ بولی آنکھیں بند کرنا مجھ سے ملنے آ جانا
میں آنکھیں کھولے بھی تم سے مل سکتا ہوں، میں بولا
وہ بولی اب میری باتیں چاند سے مت کہہ دینا تم
میں کہتا ہوں وہ بھی تو اپنے دکھ مجھ سے کہتا ہے
وہ بولی تم سچ بتلانا کیا میں ایک خسارہ ہوں ؟
میں بولا پاگل تم میری ہستی کا سرمایہ ہو
وہ بولی پھر کیوں تم اتنے نالاں نالاں رہتے ہو؟
میں بولا سودائی میری عادت ہی کچھ ایسی ہے
وہ بولی تم پہلے سے کچھ بدلے بدلے لگتے ہو
میں بولا بس لگتا ہی ہوں لیکن بدلا ہی کب ہوں !
وہ بولی کیا محشر کے دن تم مجھ کو پہچانو گے
میں بولا کیا یاد کرو گی تب بھی تم کو مانوں گا
وہ بولی پہلے اپنے اعمال وہاں لے کر جانا
میں بولا میں رحمت سے امید لگائے بیٹھا ہوں
وہ بولی میں جنت میں بس تم کو ہی اپناؤں گی
میں کہتا ہوں، اچھا؟ لیکن یہ دنیا۔۔ ؟ اِس دنیا میں۔۔ ؟
وہ بولی تم کیوں مجھ کر یوں چپ کرواتے رہتے ہو
میں بولا ایسی باتیں تم کرتی ہو، میں ڈرتا ہوں
وہ بولی وہ گیت سنا ہے ؟ "پیار کیا تو ڈرنا کیا”
میں بولا ہاں تم کو پھر بھی کھو دینے سے ڈرتا ہوں
وہ بولی میری چاہت کی تم تحقیر نہیں کرنا
میں بولا اچھا تم جیسا چاہو گی ویسا ہو گا
وہ بولی گر سانسوں میں معز وری ہو تو کیا حل ہے ؟
میں بولا یہ بیماری ہے ہجر کے مارے لوگوں میں
وہ بولی محبوب میں گر مغروری ہو تو کیا حل ہے ؟
میں بولا محبوب اداؤں والے اچھے لگتے ہیں
وہ بولی میں خود سے بھی اب عاجز آئی رہتی ہوں
میں بولا یہ حالت اکثر ہوتی ہے دل والوں کی
وہ کہتی ہے مجھ سے بچھڑ کر زین بہت پچھتاؤ گے
میں کہتا ہوں بہتر ہے تم نیک دعا دے کر جانا
وہ بولی میں کیسے تم بن باقی عمر بتاؤں گی؟
میں بولا جیسے ملنے سے قبل بِتایا کرتی تھی
وہ بولی اس درد کا دارُو درمن ہو تو بتلاؤ
میں بولا میں خود اس کا بیمار ہوں کتنی صدیوں سے
وہ بولی اب کون کرے گا یوں مجھ سے ڈھیروں باتیں ؟
میں دھیمی آواز میں بولا یہ دکھ میرے ساتھ بھی ہے
وہ بولی میرے حق میں تم روز دعا کرتے رہنا
میں بولا تم نہ بھی کہتی تو بھی میں کرتا رہتا
وہ بولی ان سب باتوں سے لگتا ہے تم جی لو گے
میں بولا اک دن تم بھی یہ سوچو گی میں سچا تھا
وہ بولی یہ باتیں خون رُلاتی ہیں خاموش رہو
میں سر نیچے کر کے دھیرے سے یہ بولا، جی بہتر!
وہ بولی خاموش رہے گر تم تو میں پھر رو دوں گی
میں بولا پاگل تم میری آنکھیں بھی پڑھ سکتی ہو
وہ کہتی ہے میں تیری آنکھوں کو دیکھا کرتی ہوں
میں کہتا ہوں ایسے بولو صحرا دیکھا کرتی ہو!
وہ بولی تیری آنکھوں کی رنگت کی دیوانی ہوں
میں بولا اس رنگت سے آگے بھی جاؤ تو مانوں
وہ بولی تیری آنکھوں میں کیوں اتنی گہرائی ہے ؟
میں کہتا ہوں پاگل لڑکی تھل ہے میری آنکھوں میں
وہ کہتی ہے جب روتے ہو منظر کیسا ہوتا ہے ؟
میں کہتا ہوں تھل آنکھوں کا بھیگا بھیگا رہتا ہے
وہ کہتی ہے جو بھی ہے تم مجھ کو اچھے لگتے ہو
میں بولا تم نے تو پل میں میری عمر بڑھا دی ہے
وہ کہتی ہے میں تو فقط تم سے ہی محبت کرتی ہوں
میں کہتا ہوں میں نے خود سے بڑھ کر تم کو چاہا ہے
وہ بولی تم جیون کے ہر سپنے کی تعبیر پیا
میں بولا آ دیکھ مرے ان پیروں میں زنجیر پیا
وہ بولی تم آتی جاتی سانسوں کے سلطان پیا
میں بولا میں چپ، گم صم، سنسان پیا، ویران پیا
وہ مجھ سے بولی تم میری چاہت کے بھگوان پیا
میں بولا میں آپ ہوں اپنی ہستی پر حیران پیا
وہ بولی میں تھل والی، تو میرا سانول ڈھول پیا
بول پیا، مت رول پیا، ذرا دھیرے سے لب کھول پیا
وہ بولی میں لمحہ لمحہ بکھری بکھری رہتی ہوں
میں بولا میں آخر کب تک تم کو سمیٹے رکھ پاتا
وہ بولی یہ خود آرائی راس نہیں مجھ کو آئی
میں بولا پہلے سے سوچا ہوتا تو اچھا ہوتا
وہ بولی خوش اسلوبی سے رخصت ہونا ہے میں نے
میں بولا رخصت ہونا ہے جیسے چاہو ہو جاؤ
وہ بولی ہم دونوں میں اب داد و ستد نہ باقی ہو
میں بولا تم سب کچھ آگ میں جھونک رہی ہو اچھا ہے
وہ بولی دامن افشاں ہونا ہی سب سے بہتر تھا
میں بولا دامن بندھنا تو اس سے زیادہ بہتر ہے
وہ کہتی ہے دستِ طلب نے توڑ دیا ہے دم اپنا
میں بولا تم کیوں میری امید گھٹاتی رہتی ہو
وہ بولی دل کھوٹا کرنے سے بہتر ہے دور رہوں
میں بولا بہتر تو یہ ہے دل کے بارے میں سوچو
وہ کہتی ہے دل کی پھانس مجھے دن رین ستاتی ہے
میں بولا دل کی بے تابی مجھ کو بھی تڑپاتی ہے
وہ بولی گر بات نہ ہو تو دن بھاری ہو جاتا ہے
میں بولا اب شب زادے سے ایسا شکوہ کیا کرنا
وہ بولی اب لوگوں میں تقسیم مجھے نہ کر دینا
میں بولا خود کو تم سے تفریق بھلا کیسے کر دوں
وہ بولی سب چیزوں کو ترتیب سے رکھنا کمرے میں
میں بولا مجھ بے ترتیب کے بارے میں بھی کچھ بولو
وہ بولی میں درد ریاضت کر کر خود سے ہار گئی
میں کہتا ہوں درد سے ڈرنا دل والوں کا کاج نہیں
وہ بولی اب تم بن گھر دوزخ کا نمونہ لگتا ہے
میں کہتا ہوں یہ تو ہر عاشق کا ورثہ ہوتا ہے
وہ بولی پُر درد فضا کی آہ و زاری سنتی ہوں
میں بولا محسوس کرو سب اپنے اندر ہی ہو گا
وہ بولی ’’میں تم سے‘‘، اور پھر آنکھ سے آنسو بہہ نکلے
اب میں ایسے عالم میں کیا بات بھلا کرتا اس سے
آنکھیں ملتے اس نے بات بدلنا چاہی تھی لیکن
میں بولا ’’تم سے‘‘ آگے کی بات ابھی تک رہتی ہے
میرے سُونے جیون کا زرناب تمہی ہو وہ بولی
میں بولا میری دنیا بھی تم سے ہی تو روشن ہے
وہ بولی زنجیرِ عرش کھڑکاتی ہوں تیری خاطر
میں بولا ہو رحم خدا کا، ہر اک حاجت پوری ہو
وہ بولی تم ژولیدہ مُو رہتے ہو، دل دکھتا ہے
میں بولا اس میں بھی خاموشی ہی زیادہ بہتر ہے
وہ بولی میں کہساروں میں تیرا نام پکاروں گی
میں بولا اب یہ سادہ لوحی کے سوا کچھ بھی تو نہیں
وہ بولی کس پر ہے ترا ایمان بتاؤ؟ میں بولا
ساری خدائی ایک طرف اور فضل الٰہی ایک طرف
وہ کہتی ہے تم کو مرے ہم نام بہت مل جائیں گے
میں بولا پاگل اثرات بھی ہوتے ہیں ان ناموں کے
وہ بولی اب تجھ بن کیا میری بھی کوئی ہستی ہے ؟
میں بولا سودائی اب تو جنس بہت ہی سستی ہے
وہ بولی تم میرے ہوتے کیونکر کھوئے رہتے ہو؟
میں کہتا ہوں میرے اندر بھی اک دنیا بستی ہے
وہ کہتی ہے کیا تم مجھ سے ملتے رہنا چاہو گے ؟
میں کہتا ہوں اب شاید یوں ملتے رہنا ٹھیک نہیں
وہ بولی اب کون مری آنکھوں سے آنسو پونچھے گا؟
میں بولا اس کام کا ذمہ اب تم اپنے سر لے لو
وہ بولی آواز اگر دوں گی تو کیا لوٹ آؤ گے ؟
میں بولا آوازیں اکثر دھوکا بھی دے جاتی ہیں
وہ بولی اب میں ہی کہوں سب کچھ کیا تم بھی بولو گے ؟
میں بولا میری خاموشی بھی تو باتیں کرتی ہے
وہ بولی گر تم نہ بولے تو میں کچھ نہ بولوں گی
میں اس کی اس بات پہ بس دھیرے سے ہنسنے لگتا ہوں
وہ بولی اب پریم رتوں کو میں نے راس نہیں آنا
میں بولا اب سکھ نے بھی تو میرے پاس نہیں آنا
وہ بولی تھک ہار گئی اب آس بھی میری ٹوٹ گئی
میں بولا دیکھو تو سارے موسم مجھ سے روٹھ گئے
وہ یہ بولی لگتا ہے انجامِ محبت آ پہنچا
میں بولا انجام ہمارا کہتیں تو بہتر ہوتا
وہ بولی تم اک دن یاد کرو گے میری سب باتیں
میں یہ بولا عمر کا حاصل بھول سکا ہے کون بھلا!
زین شکیل محبت تو اب تک بھی چپ نہ رہ پائی
لیکن اندر کی خاموشی طعنے دینے لگتی ہے
اب یہ چاہا کوئی آ کر بات سنے پر کیا کرتے
کہنے والی عمر ہماری سنتے سنتے بیت گئی
عشق، محبت والے سب دن بیت گئے، دکھ جیت گئے
باتیں کرتی ایک محبت گہرے سوگ میں ڈوب گئی
اب اس کی باتیں میں تنہائی سے کرتا رہتا ہوں
اس نے مجھ کو حکم دیا تھا، تم خاموش نہیں رہنا
٭٭٭
ماخذ:
http://zainshakeel.blogspot.com/p/blog-page_6.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں