جدید شاعر زین شکیل کی ایک طویل نظم
ساحرہ
شاعر
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
ساحرہ
(طویل نظم)
زین شکیل
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
انتساب
اُس خوشبو کے نام
روزِ ازل سے جس کے تعاقب میں چلتے چلتے یہاں تک آ پہنچا
وہ خوشبو جو اب بھی ہمیشہ کی طرح مجھے گھیرے رکھتی ہے۔
ساحرہ!
میں جو اک داستاں گو سا مشہور ہونے لگا ہوں
زمانے میں
کچھ بھی عجب تو نہیں ہے کہ میں بھی کبھی داستاں ہی کہیں ہو کے رہ جاؤں
پائندگی پاؤں
تابندگی چاہے پاؤں یا پاؤں نہیں
اے مری صندلیں ساحرہ!
جس طرح وہ بھی رومانوی داستاں تو نہ تھی،
یہ بھی ویسی ہی بس محض رومانوی داستاں تو نہیں ہے جسے میں سناتا رہوں
ان زمیں زاد، مکروں، فسادوں، فریبوں بھرے،
ان تماشائی لوگوں کو
پھر بھی ترے واسطے کچھ محبت پرونے کی کوشش تو کی
چند نوحوں کے
اور چند بَینوں کے سنگ
اس کو منظور کر
جو بھی جیسا بھی تھا
بین تھے، آرزوؤں کی لاشیں تھیں،
میت تھی، قبریں مزارات تھے
میں نے لفظوں کی مالا میں سارے کے سارے پرو کر
ترے پاؤں میں لا دھرے ساحرہ!
ایک بے چین شاعر سے
تو نے امیدیں لگائیں تو کیوں
اب یہ آزار تن پر پہن
اور مرے ساتھ چل
میں جنھیں کتنے جنموں سے پہنے ہوئے
اک مسافت میں ہوں
اک عجب ہی سفر ہے مری ساحرہ!
کچھ خبر ہی نہیں کس طرف جا رہا ہوں
یہی جانتا ہوں
کسی بھی گلی سے چلوں
اور کسی بھی سڑک سے،
کسی راہ سے بھی نکل لوں
تو آگے فنا کی ہی منزل مری منتظر ہے
مری ساحرہ!
تو فنا سے جو پہلے جدا ہونا چاہے تو آزاد ہے
پر بقا میں جدائی گوارہ نہیں
اک یقیں تو رہے
کہ میں اب بے سہارا نہیں
اب جدائی کا یارا نہیں
***
ساحرہ!
میرے باطن میں گھلنے سوا
کچھ بھی آتا ہے کیا؟
ساحرہ!
آنکھ تیری محبت میں جب آسمانوں کی جانب اٹھے تو دعائیں
دعائیں جو تو بھیجتی ہے نمازوں کے بعد
اور وظائف و اوراد کے بعد
وہ سبز شالوں کو اوڑھے ہوئے سب کی سب
جان! مقبولیت کی طرف اڑتے اڑتے
دکھائی جو دیتی ہیں تو
آنکھ میں کتنے پاکیزگی کے کئی رنگ گھلتے ہیں۔۔ ۔
تو جانتی ہے؟ بتا!
ہم ترے واسطے رات کو کچھ نہیں جانتے
دن کو کچھ بھی سمجھتے نہیں
انتظاری بھی کتنی کٹھن ہے
کہ تو آئے گی تو تجھے
بازوؤں کے پنگھوڑے میں ڈالیں گے
بچوں کی مانند جھولا جھلائیں گے
اور لوریاں دیں گے
ان لوریوں میں محبت پرو کر
تری روح کے کونے کونے میں ایسے اتاریں گے
تیرے بدن کو نکھاریں گے
اور کائناتوں کو تیرے ہی صدقے میں واریں گے
سینے لگائیں گے
دکھ بھول جائیں گے
سارے کے سارے
مجھے چاہئیں بس ستارے
جو تیرے لبوں سے نکل کر
مری روح میں ایک بستی بسانے کو
ہر پل چمکنے دمکنے کو تیار ہوں
اے مری ساحرہ!
تو کہاں سے چلی آئی ہے
ایک مدت کہاں تھی
کہ اب میری آشفتہ حالی پہ رب نے کرم کی جو برسات کی ہے
وہ تیری ہی آمد کی سوغات ہے
اے مری ساحرہ!
***
تیرے بالوں کے گچھے میں
چاہت محبت کے رنگوں ڈھلی
ایک معصوم چڑیا کا اک گھونسلہ
اب بھی آباد ہے
اے میری ساحرہ
***
ساحرہ!
کب ہوائیں چلیں
جب کبھی تو نے بالوں کو کھولا
تبھی تو نے جب اپنے بالوں کو آدھا ہی کھولا
تو خوشبو ملی۔
آ ملی،
رچ گئی،
گھل گئی ہے ہواؤں میں
تیرے نگر سے چلی
میری بستی میں آئی تو
میرے ہی سینے لگی
ساحرہ!
صندلیں ساحرہ!
کیا غضب حسن کا بانکپن بھیجتی ہے
فضاؤں کے ہاتھوں
صدا بھیجتی ہے، ہواؤں کے ہاتھوں
ہوا بھیجتی ہے، وسیلے سے زلفوں کے
الفاظ بھی بھیج دے!
اب محبت کے امرت میں سارے بھگو کر
تو آنکھوں پہ مل لوں
لبوں پہ سجا لوں
گلابی سی آنکھوں سے کیا دیکھتی ہے
تجھے کچھ خبر ہے؟
کہ سارا جہاں ہی گلابی ہوا پھر رہا ہے
تری لال مخمور آنکھوں میں محصور ہو کر
کسی پھول کی طرح کملا گیا ہے
مری ساحرہ!
اپنی بانہیں ذرا دیر وا کر!
کہ میں اس زمانے کی ویرانیوں میں
بسا ایک اپنا ہی گھر دیکھ لوں
اپنے رخ سے پریشان زلفیں ہٹا!
تجھ کو جی بھر کے بس اک نظر دیکھ لوں۔۔
***
اے مری زندگی کی ریاضت!
کہیں زائچوں میں لکھا تھا کہ ہم یوں ملیں گے
کبھی نا کبھی
اور کہیں نا کہیں
یوں اچانک نصیبوں کا رستہ بدلنا،
ستاروں کا تکنا ہمیں،
مسکرانا
تو مسکا کے چندا سے کہنا
یہ کہنا کہ دیکھو یہ دو جسم
صندل کی مہکار روحوں میں لے کر جیے
اک یہاں
اک وہاں
کتنی میلوں کی دوری رہی
ایک دوجے سے
کتنے رہے بے خبر
پھر بھی محسوس کرتے رہے
اور چلتے رہے اک مہک کے تعاقب میں
اور پھر کہاں سے کہاں آ ملے راستے۔
راستے مل گئے،
کھل گئے پھول صحرائی، ویران، افسردہ بے چین جیون میں
ایسے لگا کہ محبت کی دیوی سہاگن ہوئی ہے
محبت کے اوتار نے مانگ میں بھر دیے ہیں کئی پھول
لا موت سے پھول
اور وہ جو مہکار کھوئی ہوئی تھی کئی سال سے
ایک پل میں اچانک ملی ہو
کھِلی ہو کلی زندگانی کی اجڑی ہوئی ایک ویراں گزرگاہ پر
چاند سنتا بڑے غور سے پریم کی یہ کتھا
اور پھر چاندنی کو لٹاتا ہمارے لیے
اور دعائیں ہمیں بھیجتے سب سحاب اور تارے،
نظارے سبھی کہکشائیں
ہمیں دیکھ کر پیار کے دائرے بھی بناتے، دائرے بھی بنا
نشانی لگاتے،
وہ دنیا بناتے ہمارے لیے
جس میں ہم
یعنی میں اور تم ساحرہ!
صندلیں ساحرہ!
ایسا جیون بتانے کو جائیں
جہاں بس زوال محبت نہیں ہو
نمودِ قدورت نہیں ہو
فقط بانسری گونجتی ہو
محبت کے خوشبو بھرے گیت گائیں ہوائیں
چرند و پرند و شجر۔
اور خوشبو وہ خوشبو ہمیں جو یہاں لائی ہے
اس نے اب کے سدا کے لیے جوڑ ڈالا ہمیں ساحرہ!
اے مری زندگی کی ریاضت مری ساحرہ!
***
ساحرہ!
وقت سچا ہے اپنی جگہ
کچھ نہیں چھوڑتا
نقش بھی،
خاک بھی،
راکھ بھی
اور ہم تم جو ہیں وقت کے ہاتھ میں جیسے کٹھ پتلیاں ہیں
ملن کا بھی اک وقت ہے
اور جدائی کا بھی
اور محبت کا کیا وقت ہو گا؟
محبت کا شاید کوئی وقت ہے ہی نہیں
یہ تو ہر وقت ہے
یہ تو بر وقت ہے
اور محبت تو محتاج ہوتی نہیں ہے
کبھی بخت کی
نا کبھی وقت کی
ساحرہ میں تو ایمان لایا تری اس محبت پہ جو
مجھ کو صدیوں سے تکتی رہی تھی زمین و زماں سے پرے
تیری خوشبو پہ ایمان لایا کہ جو
مجھ کو محصور کر ہی چکی آخرِ کار
ایمان لایا تری ان پریشانیوں پہ
کہ جو میرے بیدار ہو کر
کہیں دور کھو جانے پر تجھ کو لاحق ہوئیں
تیری بے چینی اور بے قراری پہ ایمان لایا کہ جو تجھ میں ٹھہری رہی
میرے برباد ہونٹوں کے باعث
تری سرخ آنکھوں پہ ایمان لایا ہوں میں جو کہ تھکتی نہیں ہیں
مجھے دیکھتے دیکھتے،
دل کی شادابیوں سنگ بھی اشک روتے ہوئے
تیری بانہوں پہ ایمان لایا کہ جن میں مرا مضطرب،
ادھ مرا، نیم جاں یہ بدن زندگی کی رمق پا گیا
دل چمک پا گیا
میرا احساس بھی وہ مہک پا گیا
جس سے بچھڑا ہوا تھا زمانوں سے میں اور تو بھی مری ساحرہ!
دیکھ میں تجھ پہ ایمان لایا ہوں ویسے ہی جیسے کہ تُو
مجھ پہ ایمان لائی
مری زندگانی،
مری مشکلوں اور آسانیوں پر،
مرے چاہنے والوں پر،
اور مرے عیبوں اور خوبیوں پر۔
سو آ!
آ مری ساحرہ وقت کا مِل کے انکار کر دیں
اسے مل کے جھٹلا دیں تاکہ
ملن اور جدائی کے اوقات کے سامنے اپنا سر نہ جھکانا پڑے
ہم محبت سدا کے لیے اپنی روحوں کے اندر اتاریں
اور اک دوسرے کے گلے سے لگیں
اور ایمان لائیں بقائے محبت پہ ہم
اور ہمیشہ امر ہوں
مری صندلیں ساحرہ!
***
خواب کیسے بھی ہوں ساحرہ!
یہ تو ہجراں کی ماری ہوئی
سرخ آنکھوں کا کچھ بھی نہیں چھوڑتے
اور غم کے مسافر جو ہوں
کب بھلا خواب ان کے سہانے ہوئے
چاہے کتنے بھی ہوں
خواب میں دیو قد چین، آدم نما گر جو دیکھیں
تو تعبیر میں دکھ ملیں۔۔
خواب میں لال پریاں جو دیکھیں
تو کتنی شبیں آنکھ رو رو گزارے
کبھی شاہزادہ کوئی شاہزادی کو لینے چلا آئے
یا
ایک گڈے کی گڈی سے شادی کراتی ہوئی
ایک بچی کی مسکان
خوابوں میں گر راستہ بھول آئے کبھی،
تو مری ساحرہ تم کو معلوم ہے
اس کی تعبیر میں کتنی رسوائیوں کے بھنور دیکھنے پڑتے ہیں
خواب آنکھوں کی درگت بناتے ہوئے کچھ نہیں سوچتے
چاہے جیسے بھی ہوں
اور بھیانک اگر ہوں
تو پھر ان کی تعبیر سے کیسی امید۔۔؟
اے میرے خوابوں کی دنیا میں گم ساحرہ!
آنکھ تھکتی نہیں
آنکھ خوابوں سے تھکتی نہیں
خواب، لیکن تمہارے ہی ہوں
چاہے کیسے بھی ہوں
ایک مدت ہوئی خوشبوؤں کے سفر پر چلے تھے
تو خوابوں کے کتنے محل ہم بناتے گئے
ہم نے سوچا نہ تھا
ہم نے ہر گز یہ سوچا نہ تھا
ان کی تعبیر تکلیف دیتی رہے گی سدا
ہم اگر سوچتے بھی تو پھر بھی کبھی باز آتے نہیں
آنکھ کے پھوٹنے کا کوئی خوف بھی تو نہیں تھا ہمیں
چاہے ہم جانتے تھے کہ
یہ خواب آنکھوں کا کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے
اب یہ عالم ہے ہم بس اسی کو عقیدہ سمجھتے ہیں
خوابوں کی تعبیر
غم کے مسافر جو ہوں
ان کے خوابوں کی تعبیر
دوزخ کی بھٹی میں پیہم جلا کر یہاں بھیج دی جاتی ہے
چاہے جیسے بھی ہوں،
خواب
آنکھوں کا کچھ بھی نہیں چھوڑتے۔۔
***
ساحرہ!
بھوک کتنی بھیانک ہوا کرتی ہے
میری معصوم اے صندلیں، باؤلی ساحرہ!
ضبط کی کوئی حد بھی اگر ہو تو شاید
اسے موت کہنا بجا ہے
بھلا کس لیے بھوک کی موت مرتے ہوئے لوگ،
دنیا میں موجود ان نعمتوں کو مقدر میں لکھوا کے لاتے نہیں؟
خودکشی جن کو آسان لگتی ہو
اور زندگی کی مسافت کٹھن
اور سنا ہے مقدر تو خود اپنی مرضی کا لکھا ہوا ہو تو سکتا نہیں
ایسا ہوتا اگر
تو مری ساحرہ!
ہر کوئی کائناتوں کی تقسیم کو لا پٹختا زمیں پر
یہ انساں قیامت کا خود غرض اور لالچی۔
بھوک بھی تو عذابوں کی اقسام میں سے کوئی قسم ہے
اور عذاب آئیں تو
آسماں سے اترتی بلائیں یہ کب دیکھتی ہیں کہ کس کا
جنم اپنی مرضی مطابق ہوا
میں نے سڑکوں پہ
لاھور کی اور گجرات کی،
کتنی سڑکوں کے فٹ پاتھ پر
نیم جاں، ادھ مرے اور ہڈوں کا مجسمہ بنے
لاکھ ننگے بدن رینگتے جب بھی دیکھے
تو ایسا لگا
جیسے مجھ پر وہی بھوک کا سا عذاب آ گیا ہو
بھلا ایسے لوگوں کو کیسی تسلی،
بھلا کیا دلاسہ؟
اور ان کے وہ دھولوں اٹے جسم کی قدر و قیمت بھی کیا؟
یہ جنم بھی،
مری ساحرہ!
جس طرح سے عذابوں کی اقسام میں سے کوئی قسم ہو۔۔
***
ساحرہ!
موت اور بین،
اور بین میں
اف۔۔ ۔ بلا کی وہ آہیں۔۔ ۔
اور آہوں میں مدفون اک زندگی۔۔ ۔
لاش اک زندگی کی گواہی سناتی ہوئی،
ایسی چپ،
ایسی خاموش۔
اور بین
اور بین بھی اک طرح کے نہیں
سو طرح کے عجب
بوڑھیوں کے الگ
دوشیزاؤں کے اپنے الگ
لڑکیوں اور لڑکوں کے اپنی طرح کے الگ
اور بچوں کے بالکل الگ
بین تو بین ہوتے ہیں
آہوں بھرے،
اور کراہوں سجے۔۔ ۔
اف وہ بڑھیا
جواں سال بیٹے کی میت پہ بے حال ہو کر تڑپتی ہوئی
کہہ رہی تھی
خدا۔۔
او خدا!
تو زمیں پر اتر
کائناتوں سے نظریں ہٹا
اپنی مصروفیت چھوڑ اور اب ادھر دیکھ لے
تیرے مٹی کے پتلوں نے
ظالم درندوں نے کیا کر دیا
او خدا!
تیری دنیا میں، اور بادشاہی میں تیری،
مرے منتوں اور مرادوں سے جنمے ہوئے لعل کے خون سے
ہولیاں کھیل کر
اُن کلیجوں میں ٹھنڈک پڑی ہے
او سامع!
مری آہ تجھ تک بتا کیوں پہنچتی نہیں ہے؟
او قہار!
کیوں قہر بس اک مری کوکھ پر ہی؟
او جبار!
کیا جبر بس میرے لاڈوں پلے لعل کے واسطے تھا؟
او مالک!
او خالق!
او باری!
او قادر!
تری بادشاہی میں تیرے بنائے ہوئے
چند مٹی کے ظالم درندوں نے
تجھ سے ہی مانگی ہوئی میری معصوم منت کا خوں کر دیا
او خدا!
اور بس میں نے اتنا سنا ساحرہ!
پھر وہ بڑھیا
بہت سال کومے کی حالت میں خاموش
چپ، بے صدا بین کرتی رہی
اور پھر چل بسی۔۔ ۔
ساحرہ!
ساحرہ!
اور مری صندلیں ساحرہ!
مجھ کو آغوش میں اب چھپا
اس قدر چھید ہیں
جو کہ اب تک بھرے ہی نہیں
اس سماعت کے پردے میں
اب بھی بہت زخم ہیں جو کہ اب تک
سلے ہی نہیں۔۔ ۔
ساحرہ اپنی خوشبو سنا
اپنی باتیں دکھا
اب یہی وقت ہے
لمحہ لمحہ یہ مجھ اک بکھرتی ہوئی ریت کو۔
جس قدر بچ گیا
اپنے دامن میں لے
اور محفوظ کر لے
مجھے اپنی خاطر کہیں
اے مری صابرہ، سا حرہ!
***
تو نہ آتی اگر
تو یہ جیون،
یہ سلگا ہوا میرا جیون ابھی کے ابھی
راکھ ہونے کو تھا
بس یہ بجھنے کو تھا
اور تُو ساحرہ!
میرے بے جان جیون میں
ایسے چلی آئی ہے
جیسے اندھیار نگری میں اک روشنی کی کرن
جیسے صحراؤں میں تیز برسات،
تڑپی ہوئی آنکھ کو چین کی نیند
اور نیند میں جیسے خوابِ بہشت و بہاراں
مری ساحرہ!
دیکھ یہ تیرے آنے سے
دکھ مجھ سے ناراض ہونے لگے
لے اڑی ہے مجھے یہ ہوا
جو مجھے اک زمانے سے چھوتی نہ تھی
چھو بھی لیتی تو
ناراض رہتی
اداسی کے کتنے طمانچے لگاتی مجھے
دیکھ یہ تیرے آنے سے کیسے مجھے لے اڑی
ہنس کے سینے لگی
اور میں پنچھیوں کی طرح
تیری پاکیزہ چاہت کے پَر کھول کر
کتنا آزاد اڑنے لگا۔۔
جب تری بات گونجے مرے ذہن کے گنبدوں میں
تو ہنسنے لگوں
تیری خوشبو مجھے گھیر لے راستوں میں
تو تیرے خیالوں میں بیٹھا رہوں،
اس جگہ۔۔
تیری معصوم مسکان دم دم دعائیں اگلتی ہوئی
اک طرف سے چلی آئے
اور میرے سینے لگے تو
میں کھویا رہوں
ان دعاؤں کی میٹھی سی تاثیر میں۔
اور خود کو کروں قید،
تیرے لبوں پہ سجی دھیمی مسکان کی نرم زنجیر میں
ساحرہ!
تیری خوشبو سدا
یونہی آباد رکھے خدا
میں جسے ڈھونڈتے ڈھوندتے
در بدر ہوتے ہوتے
کٹا اور پھٹا یہ بدن لے کے آخر
ترے در تلک آن پہنچا
کہ تُو ہے دکھوں کی دوا
اے مری روح سے لمحہ لمحہ نکلتی ہوئی اک دعا
اے مری ساحرہ!
***
اک ملاقات کا
حال احوال تجھ کو سنانا نہیں تھا مگر
میں سناتے ہوئے ہچکچایا نہیں
تو یہ سمجھا کہ تجھ سے چھپانا بھی کیا
لوگ ہنستے رہے
لوگ حالت پہ ہنستے رہے
اک مصیبت زدہ شخص کی دھڑکنوں کی شکستہ سی دھن پر
بہت دیر ہنستے رہے۔۔
جانے کیوں،
وقت چہرے پہ اتنے طمانچے لگائے بنا بیت جاتا نہیں
جانے کیوں
وقت کنجوس، بے چارہ، مجبور ہے
(ایسا میں نے نہیں۔۔ ۔ اور اک نے کہا تھا)
مگر وقت کنجوس ہے
تھوڑے دل والا،
پل بھر کی مہلت بھی دیتا نہیں
پر مجھے اس کی بے چارگی کے متعلق بتا، ساحرہ!
اور مجبور کیسا؟
مری ساحرہ!
تو بھی اس سے ملی
جس کے چہرے پہ کتنے تمانچوں کے اتنے نشاں تھے
اِسی ایک بے رحم سے وقت کے
آج میں بھی ملا
اس سے کھل کر ملا
ساحرہ! اب وہ ویسا پریشان رہتا نہیں
مضطرب اور بے چین رہتا نہیں
وہ اداسی سے ملتا نہیں
نا سپاسی کو سینے لگاتا نہیں
اب کسی کو بلاتا نہیں۔۔
اس نے مجھ سے کہا
ساحرہ کے سوا
اب کسی سے بھی ملتا نہیں
اور کسی سے نہ ملنے سے اس کے
سبھی زخم بھرنے لگے
چین، سکھ اور خوشی جن سے وہ اک زمانے سے محروم تھا
سب کا سب اس کو ملنے لگا
ساحرہ!
تو محبت کی کن وادیوں سے چلی آئی ہے
اپنی آنکھوں میں چاہت کے تارے لیے
اپنے ہاتھوں میں مہکے سہارے لیے
اے پرستان کی ملکۂ عالیہ!
اس سے پہلے کبھی جب میں اس سے ملا
ہاں! اسی بے قراری کے مارے ہوئے، غمزدہ شخص سے
تو وہ آنسو بہائے بنا کوئی بھی بات کرتا نہیں تھا
اگر لب ہلاتا تو لگتا
ابھی کے ابھی کوئی ماتم بپا ہونے والا ہے
گر سانس لیتا،
فضا میں گھٹن بڑھتی جاتی
جہاں بھی نگاہیں جماتا توہر وہ جگہ
سخت کڑوے سے لہجے میں کہتی
او کمبخت نظریں ہٹا!
نا مرادی سے بھر پور نظریں ہماری طرف سے ہٹا!
ساحرہ!
اس کے الفاظ بس بین ہی بین ہوتے
اور اب تو وہ بالکل بھی ویسا نہیں
اب جہاں بیٹھتا ہے تو
ہر وہ جگہ اس سے کہتی ہے
لجپال!
چاہت کی وادی سے تشریف لائی ہوئی
اس پرستان کی ملکہِ عالیہ ساحرہ کو بلا لے
ہوائیں بھی صندل کے مہکے ہوئے جنگلوں سے
چرا لاتی ہیں،
خوشبوئیں
اس کے چہرے کو چھوتی ہیں،
کر کے نچھاور گزرتی ہیں خود کو
کہ جس سے مہکتا ہے، تن اور بدن
اور صندل کی مہکار
اک آگ بھڑکانے لگتی ہے جذبات میں
اب وہ بولے تو لگتا ہے شیرینیوں کا سمندر بہا ہے
نگاہیں اٹھائے تو سارے نظارے ترستے ہیں
اس کی نگاہوں میں محصور ہونے کی خاطر۔۔
مری صندلیں!
ساحرہ!
اب وہ ویسا نہیں
تیرے سے ملنے سے پہلے تھا جیسا کبھی
ساحرہ!
آج میں زین سے مل کے آیا
تو اچھا لگا
اور اگر اب دوبارہ وہ تجھ سے ملے تو
اداسی کا اس سے
کوئی تذکرہ پھر نہ کرنا
وگرنہ
۔۔ ۔۔ ۔۔ وگرنہ۔۔ ۔۔
۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ وگرنہ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
***
مری ساحرہ رنگ روئیں
تو آنکھوں کی برسات تھمتی نہیں
وادیاں سبز و شاداب رہنے سے تنگ آ گئیں ہوں تو پھر
جنگلوں میں بسیرا بھی کچھ منطقی تو نہیں
اور کتابوں میں مدفون علم و ریاضت
تو صدیوں نچوڑی گئی
اب تو لگتا ہے بس کھوکھلی رہ گئیں ہیں کتابیں سبھی
سب ہی تحریر ہے اور پھر بھی کوئی فیض باقی نہیں
ان کو جھاڑیں تو بس گرد ہی گرد اڑتی ہے
علم اب نکلتا نہیں۔۔
ساحرہ!
شہر کے بارے میں تم نہیں جانتی
میری معصوم، بھولی، مری باؤلی!
شہر میں ایک گھر تھا
یہاں سے کوئی پندرہ میل آگے
وہ گھر جس میں ماں، بہن اک بھائی اور باپ تھا
ان کے ہاں اک درندہ صفت اور بیٹا بھی پلتا رہا
اور کیسا عجب وقت آیا کہ اس نے
خود اپنی ہی ماں، بہن اور بھائی اور باپ کو
گولیوں کا نشانہ بناتے ہوئے
وہ تشدد کیا
اور اس پرورش کا صلہ
موت دے کر دیا
حیف صد حیف ہے
اف۔۔ ۔
ساحرہ!
اے مری زندگی کی سنہری چمک اور دمک!
چھوڑ، ہم کیا کریں
سب کے اپنے گھروں کے مسائل ہوا کرتے ہیں
ہم بھلا کس لیے ٹانگ اڑاتے پھریں
اور کیوں اپنا موڈ آف کرتے پھریں
کون سا ہم پہ ایسی قیامت کوئی ٹوٹی ہے
جو کہ آنسو بہائیں
ہمیں سن کے افسوس جو ہو گیا ہے
تو کافی نہیں؟
ساحرہ، چھوڑ!
اب تو بھی افسردگی کی علامت نہ بن بیٹھ۔۔
میں تیری لا علمیوں پر فدا اپنے جی جان سے
تو ادھر دیکھ اور مسکرا
تا کہ میں اپنی افسردگی کو چھپانے میں
کچھ اور بھی سرخرو ہو سکوں۔۔ ۔
***
راستے
ساحرہ!
راستے اپنی مرضی کے مالک ہوا کرتے ہیں
اک طرح
کیونکہ ہم تو انہیں اپنی مرضی مطابق
کہیں موڑ سکتے نہیں ہیں مگر
ساحرہ!
بعض اوقات رستے کئی دوسرے راستوں کے
بہت گہرے ساتھی ہوا کرتے ہیں
ساتھ چلتے ہیں اک دوسرے کے بہت دور تک
جو مسافر ہوا کرتے ہیں
ان کی رنجش انہیں بھی الگ کرتی جاتی ہے،
اک دوسرے سے۔
جدائی کا صدمہ لیے
چل نکلتے ہیں اک دوسرے کے مخالف
مگر بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے
تھوڑی مسافت کے طے ہونے پر
پھر سے مل جاتے ہیں
اور ایسا بھی ہوتا ہے
پھر وہ ہمیشہ ہمیشہ ہی اک دوسرے سے جدا
سوگ میں ڈوب کر چلتے جاتے ہیں رکتے نہیں
راستے۔۔ ۔
کیا کبھی تو نے کوئی اداسی سے بھرپور
رستہ کہیں پر بھی دیکھا نہیں ساحرہ!
راستے پھر بھی مرضی کے مالک ہوا کرتے ہیں
اور اگر نہ بھی ہوں
ہم تو پھر بھی کبھی اپنی مرضی مطابق
انہیں موڑ سکتے نہیں۔۔
بس بدل لیتے ہیں
اے مری ہمسفر ساحرہ!
تُو کوئی راستہ ایسا چننا
کہ جس کو مرے راستوں سے عداوت نہ ہو
ان میں ذاتی کوئی دشمنی کوئی رنجش نہ ہو
خاص کر ان کے بختوں میں کالی جدائی نہ لکھی ہوئی ہو
مری ساحرہ!
صندلیں!
اے مری ملکہۂ عالیہ!
اب ذرا دیکھ کر۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔
***
دیکھ کر سوچ،
اور سوچ کر جان،
جب جان لے تو سنا
اور سنانے میں دقت جو ہو تو
نگاہیں جھکا
جب نگاہیں جھکا لے تو سن!
مسکرانے کی کوشش بھی کر
ساحرہ!
مسکرانے کی کوشش تو کر
میری آنکھوں گلابوں کی کلیوں پڑھنے کی جرات جو ہے تو ذرا
مسکرانے کی ہمت بھی کر
تیری افسردگی،
میری افسردگی کو بڑھانے سوا کچھ بھی کرتی نہیں
تیری نم آنکھ،
میری ان آنکھوں کے بہتے سمندر میں دریا کی مانند آ گرتی ہے
خشک ہوتی نہیں
تیرا دل،
میرے صحرائی دل کو تسلی تو دیتا ہے برسات کی
پر وہ ساون کی رُت ہے کہ آتی نہیں
کوئی بھولی ہوئی یاد آتی ہے بن بن کے بدلی
برستی نہیں
اپنی زلفوں کو شانوں پہ بکھرا مگر ان کو لہرا نہیں
زخم سلتے نہیں،
نہ سلیں
ان کو سلگا نہیں
جان!
آنکھیں ذرا ایک پل کو اٹھا
اور جی بھر کے باتیں سنا
پر لبوں کو ہلا تو نہیں
پاس آنا نہیں
تو نہ آ
ایسے آ کر مرا دل دکھا تو نہیں
ساحرہ!
نیند آنکھوں سے لے جا مری،
خواب کی منڈیوں میں کہیں
بیچ سستے ہی داموں مگر
اپنی بانہوں میں ڈالے ہوئے نیند کا ہار
میری پریشان راتوں میں آنے کی کوشش تو کر
ساحرہ!
مسکرانے کی کوشش تو کر!
***
مسکرا اور پھر سوچ
پھر سوچ اور جان،
جب جان لے تو دعا کے لیے ہاتھ اپنے اٹھا
جب اٹھا لے تو پھر سوچ!
اور سوچتی جا۔۔
عبادت کے معنی نہ جب تک کھُلیں
نہ ملیں جب تلک ان دعاؤں کی منزل کے رستے
ابھی تک جو پوری نہیں ہو سکیں
سوچتی جا۔۔
بہت سوچ۔۔ ۔
اور سوچ کر دل کو تھپکا،
جگا اور اسے بول
اٹھ!
اور جگا روح کو
اور ہاتھوں میں آ
جب یہ ہاتھوں میں آ جائے
پھر سوچ۔۔
ہر وہ دعا جو کہ نکلی تھی دل سے کہاں جا کے پہنچی بھلا
کسی کے جانب وہ بھیجی تھی
اور کس کی جانب گئی
اور یہ سوچ!
کس کو اگر بھیجتے تو وہ مقبول و منظور ہوتی
تو پھر سوچ کر
اپنے ہاتھوں کی جانب نگاہیں لگا
چار آنسو گرا
اور کچھ بھی نہیں سوچ۔۔ ۔
پھر ہاتھ چہرے پہ مل
اور واپس چلی آ
کہ شاید سبھی ان دعاؤں کو آنکھوں کا پانی ہی سر سبز و شاداب کر دے
مری ساحرہ!
کچھ نہیں سوچ
بس جان لے کہ عبادت کے معنی
محبت میں بہتے ہوئے چند آنسو ہی ہیں
راستے ہیں یہی۔
اور آنسو سمندر سے گہرا ہوا کرتا ہے
اور آنسو بنا
روح دھُلتی نہیں
کعبۂ دل سنورتا، نکھرتا نہیں
ساحرہ!
اپنے ہاتھوں کو یونہی دعا میں اٹھا کر فقط اپنے الفاظ ضائع نہ کر
یہ مناجات ضائع نہ کر
کہ فقط ایک آنسو،
عقیدت میں آنکھوں سے ٹپکا ہوا
لاکھ الفاظ سے
اور مناجات سے
معتبر ہی ہوا کرتا ہے۔۔ ۔
***
ساحرہ!
سوچ اور بول،
جب بول لے تو خموشی کی سن،
کچھ سنائی اگر دے نہ پائے تو پھر بول،
پھر بھی خموشی ملے، جان!
پھر سوچ
جب سوچ لے تو خموشی سنا
جب خموشی سنا لے تو سن!
کچھ سنا؟
ہاں! یہی!
ہاں جی بالکل یہی!
خامشی نے صداؤں کے اندر کی باتیں کہیں
خامشی نے وفاؤں کے بارے میں باریک باتیں کہیں
خامشی نے دعاؤں کی پاکیزگی کے سبھی باب کھولے
مری ساحرہ!
خامشی سوچ اور خامشی بول!
اور خامشی سن!
میں اب خامشی کے کئی اور فیضان تجھ کو بتانے سے قاصر ہوں
جو کے فقط خامشی میں ہی کھل پائیں گے
تو مری خامشی جان!
اور سوچ۔۔
پھر سوچ۔۔ ۔۔
اور خامشی سے مری خامشی میں چلی آ
مری خوش بیاں ساحرہ!
***
عشق بارے بتا؟
حالتِ ضعف میں بھی مری ساحرہ!
اس کا سر ہے کہ جھکتا نہیں
یہ جھجھکتا نہیں ہے
زمانے کے آگے
چھپاتا نہیں ہے یہ اپنے اسیروں کو
اور باز آتا نہیں عصمتیں رولنے سے
یہ ڈرتا نہیں سیدوں کو نچاتے ہوئے
تھیا تھیا گواتے ہوئے
آبروئیں لٹاتے ہوئے
کربلائیں مچاتے ہوئے
آزماتے ہوئے
عشق مجبور ہوتا نہیں ہے مری ساحرہ!
تو نے کس عشق کی بات کی؟
جو بہت چین کی نیند سوتا ہے؟
اور دیر سے جاگتا ہے؟
یا پھر وہ جو آنکھوں کو نیندوں کا دشمن بنا کے رلاتا ہے شب بھر؟
ترے شہر میں عشق نامی وہ بوڑھا جو تھا
ہاتھ میں تھام کر
رنج و غم اور اداسی کی لاٹھی
شب و روز گلیوں میں آوارگی کی علامت جو پھرتا
اسے تو نے دیکھا کبھی؟
اور جو دیکھا ہے تو
تو نے اس عشق کی بات کی؟
ہاں وہی عشق،
ویسا ہی میری گلی میں بھی آتا ہے دن میں کئی بار
اور رات بھر تو مرے گھر کے آگے سے ہٹتا نہیں
میں نے ڈر کے
کبھی رات کو اپنی کھڑکی سے جھانکا نہیں
ساحرہ!
عشق سے جس قدر ہو نگاہیں بچا
اس کی آنکھوں میں آنکھیں ملانے سے بچ
اس کے چہرے کی جھریوں پہ، ضعف اور معصومیت پر نہ جا
میں نے اس واسطے تجھ سے کچھ بھی چھپایا نہیں
یوں نا ہو تُو کبھی سنسناتی ہواؤں کے ہاتھوں
یہ شکوہ مجھے بھیج دے
کہ بتایا نہیں
ساحرہ!
میرے کہنے نہ کہنے سے کچھ ہونے والا نہیں
عشق ہونے کو ہو تو یہ ٹلتا نہیں
اور ہو جائے تو دل میں چین و سکوں اور پلتا نہیں
دل بہلتا نہیں
درد ڈھلتا نہیں
زور چلتا نہیں
نیند راتوں سے ناراض ہو جاتی ہے
اور یہ عشق،
بوڑھا ضعیف اور معصوم ظالم
جو ہر رات آنکھوں کو کھولے ہوئے
سرد نظروں سے تکتا ہے
آنکھوں کو ملتا نہیں
چاند چھپتا ہے
سورج نکلتا ہے پر
رات ڈھلتی نہیں
دن نکلتا نہیں
***
ساحرہ!
رات بھاری رہی
جو کہ کٹتی نہیں تھی مگر
پھر بھی کٹتی رہی
بے قراری رہی
بے قراری ان آنکھوں پہ،
مجبور و مہجور آنکھوں پہ طاری رہی
تیری آہیں گھلیں نم فضا میں
ہواؤں نے مجھ کو بتایا کہ تیری طرف سوگواری رہی
رات بھاری رہی؟
اک محبت جو صدیوں سے بیوہ ہوئی،
اس کی اولاد صدیوں سے یونہی کنواری رہی
ساحرہ!
بم پھٹے!
کتنے لاشے کٹے،
اور جنازے اٹھے
کتنی کوکھوں میں رنجیدگی چھید کرتی گئی
کتنی بہنوں نے آنکھوں میں دریا اتارے سدا واسطے
اور اک اک سہاگن نے سکھ تج دیا
اور آزار و درد و الم اپنے بستر میں دیکھے جو بانہیں پسارے ہوئے،
خود کو ان کے حوالے کیا،
آنسوؤں کے سبھی زیورات و جواہر تنوں پر سجا کر ہمیشہ ہمیشہ کی خاطر۔
مری ساحرہ!
وہ حرامی درندے، وہ خود کش،
جو اسلام کے خیر خواہ بن کے انسانیت کو مٹانے کی خاطر چلے آئے ہیں
اب تو الفاظ ملتے نہیں
ان کو کیا کچھ کہیں۔۔ ۔۔ لعنتی
یہ تو اسلام بالکل نہیں تھا
جو اسلام تھا وہ تو انسانیت کا ہی اک نام تھا
ساحرہ!
تم مبارک شبوں میں،
دعائیں کرو تو مجھے مانگنے کی بجائے
خدا سے کہو!
اے جہانوں کے مالک
رحیم و کریم اور رحمٰن
رحمت کی چادر ہی لہراؤ
دل میں اب اور طاقت نہیں کہ اجڑتے ہوئے
خاندانوں کی، ماں، بہن اور بیٹیوں اور سہاگوں کی آہ و بکا سن سکے
ساحرہ!
دن بھی بھارا رہا۔۔ ۔
شام روتی تڑپتی رہی۔۔ ۔
بے قراری رہی۔۔ ۔
رات بھاری رہی۔۔ ۔
سوگواری رہی۔۔ ۔
آہ و زاری رہی۔۔ ۔۔
***
ساحرہ!
رنگ پہنو تو آنکھوں سے کچھ بھی نہ کہنا
ستاروں سے باتیں کرو تو اماوس میں رونے تڑپنے کو تیار رہنا
اگر چاند کی خواہشیں کر چکو تو
چکوری سے اک بار ملنا
اسے کچھ نہ کہنا
نہ کچھ پوچھنا
اک نظر دیکھنا۔۔
صرف اک ہی نظر۔۔
یہ جو آنکھوں میں تیری سحابوں نے ڈیرہ لگایا ہوا ہے
یہ کن ساونوں کی بھلا دین ہیں؟
تُو نے کتنی بہاروں سے وعدے کیے
اور کتنی خزاؤں کو چکمے دیے؟
آرزو کا کفن اتنا میلا نہیں
جتنا میلا لگا
بین میت پہ ہوں تو بھلے بھی لگیں
ایسے بے چین موسم میں
بے موت سے آدمی کے لیے
اس قدر غم سے لبریز دلپاش بینوں کا مطلب تو فہم و فراست سے بالا ہے
اے ساحرہ!
دکھ درازوں، کتابوں، دیواروں اور ان کی دراڑوں سے، درزوں سے
چھپ چھپ کے تکتے ہیں کیوں؟
سامنے آ کے سینے لگاتے نہیں کس لیے؟
جان!
اس رنج و غم سے بھری نغمگی کا بتا کیا کروں؟
زندگی کے کئی اور بھی راگ ہیں
صرف” تُوڑی” ہی کیوں؟
کوئی "ایمن” بھی ہو۔۔
بانجھ پھولوں سے کیسی امیدیں بھلا؟
اور گلابوں کو سینے لگاتے ہوئے
خار چپ تو نہیں بیٹھتے
خوشبوؤں سے بھری اے مری صندلیں ساحرہ!
مجھ پہ بیتے عذابوں کو رہنے دے اپنی جگہ
ان میں آنے کی کوشش نہ کر
جس قدر رو لیا
تو نے دیکھا نہیں
اب رلانے کی کوشش نہ کر
میری آنکھیں جو پتھر ہوئی ہیں
انہیں آزمانے کی کوشش نہ کر
دور جانے کی کوشش نہ کر!!!
***
روشنی کس بھلائی کی محتاج ہے
اور سائے تو بس روشنی ہی کے محتاج ہیں
آسمانوں سے اترا ہوا نور
مٹی کی زینت بنے نا بنے
جسم مٹی تو ہے
دل جلے نا جلے
راکھ ہونا تو ہے
پیار کی آگ بھی کیا عجب آگ ہے
روح سے جان و دل کو جلاتی ہے
سلگا کے رکھتی ہے جذبات
احساس سے جو دھواں
اک تعلق کی آنکھوں میں لگنے لگے تو
مری ساحرہ!
کچھ دکھائی بھی دیتا نہیں
راہ ہوتی تو ہے
پر سجھائی ہی دیتا نہیں
دل محبت کماتا تو ہے
اور کمائی بھی دیتا نہیں
ساحرہ!
صندلیں! آسمانوں سے اتری ہوئی نور!
کیا تُو نے مجھ سائے کے بارے میں بھی کبھی سوچا ہے؟
سوچا ہے تو تجھے جان کر یہ اذیت تو ہو گی
کہ سائے تو پل بھر کو ہوتے ہیں
اور وہ بھی محتاج،
یہ روشنی ایک پل کو جو روپوش ہو تو گئے یہ ابھی کے ابھی
ساحرہ یہ ترا اور مرا جسم مٹی کی خوراک تیرے مرے اور کس کام ہے
پر تجھے روشنی ماننا اتنا آسان کب تھا
مجھے خود کو سایوں کی سنگت میں رہنا پڑا
اک ذرا دیر ڈھلنا پڑا
کچھ ابھرنا پڑا
اور پھر دیر تک یوں ڈھلے ہی تو رہنا پڑا
ساحرہ!
کیا کبھی تُو نے خود کو ہی سایہ سا محسوس کرنے کی کوشش نہیں کی؟
نہیں نا سہی!
اے مری روشنی!
مجھ کو منظور ہے
پھر بھی مٹی کے جسموں کا انجام سے قبل کچھ تو کبھی سوچ
اے روشنی ساحرہ!
***
بے کلی کا چلن بھی اذیت سے بھر پور ہے
اور اداسی کی رسمیں نبھاتے ہوئے
عمر گھائل ہوئے جا رہی ہے
توجہ کی توجیہہ بھی کچھ تو ہو گی
مگر شام بے رحم ہے
مصلحت کی ڈلی
میں بھی منہ میں چبائے ہوئے
رو دیا۔
رو دیا تو ہنسا ہی نہیں
آبرو نے مجھے کس قدر طعنہ و طنز پہنائے
میں جن کو گلیوں میں لے لے پھرا
جب پھرا تو رکا ہی نہیں
آسمانوں کی تہذیب اپنی ہوا کرتی ہے
اور زمیں کی ثقافت کے بارے میں اچھی طرح تو بھی واقف تو ہے
اے مری ساحرہ!
اس زمیں پہ مسیحاؤں سے واسطہ جو پڑا
تو دوا میں مجھے اضطرابِ بلا گھول کر ہی پلایا گیا
میرے زخموں پہ مرہم لگا کر دبا یا گیا
اور دکھایا گیا
اب جو میں سانس لیتا ہوں،
چلتا ہوں
ہنستا بھی ہوں
(یعنی اب ٹھیک ہوں )
مجھ کو آرام ایسے دلایا گیا
ساحرہ!
آسمانوں پہ ویرانیاں ہوں نہ ہوں
میں زمینوں کے کتنے کھنڈر ہیں جنھیں چھان آیا
مگر آسمانوں کا کوئی مجھے راستہ بھی نہیں مل سکا
یہ بھی ممکن ہے شاید وہاں
کی مسیحائی میں فرق ہو
چاہے آرام آئے نہ آئے
مگر آسمانوں میں بستے ہوئے ان مسیحاؤں کے طور
بے رحم سے ان مسیحاؤں سے
کچھ الگ ہی تو ہوں گے
مری ساحرہ!
آ کسی آسماں کو تلاشیں
جہاں درد و آزار میں اور بیماریوں میں
دوا میں محبت ملا کر پلاتے ہوں
مرہم میں پھولوں کی نرمی لگاتے ہوں
آ اب مرے ہاتھ کو تھام لے
اے مری ہمسفر ساحرہ!
***
لوریاں دے رہی ہے کسے رات
کون اس قدر چین کی نیند سونے کو تیار ہے
نیند کی خاصیت میری نظروں میں زیادہ نہیں
خواب اپنی ہی مرضی مطابق دکھاتی ہے بس
یہ ہماری رضا کی ذرا سی بھی پرواہ کرتی نہیں
ساحرہ!
خواب زیادہ حسیں دیکھنے کے لیے جاگنے کی ریاضت ضروری ہوا کرتی ہے
اور تعبیر۔۔ ۔۔
تعبیر کے بارے میں تم سے کچھ بھی تو کہنے کے لائق نہیں
میں نے بس خواب دیکھے
ابھی تک جو پورے نہیں ہو سکے
اور وہ خواب جو پورا ہونے کی خاطر مرے در پہ آئے
انہیں میں نے دیکھا نہیں
میں نے اک خواب پھر سے جو دیکھا ہے
وہ خواب بھی اپنی تعبیر سے
جان! بچھڑا ہوا ہے
مگر خوبصورت کوئی شے بھی ہو
خواب ہی ہوں بھلے
میں انہیں دیکھنے کے لیے اب بھی تیار ہوں
اور اذیت تو یوں بھی مقدر رہی
اب قیامت گزرنے سے بھی فرق پڑتا نہیں
اے مری ساحرہ!
اب تلک میں ترے خواب میں گم
کہاں سے کہاں آ گیا
جاگ!
اور اپنے سینے لگا لے
زمانوں سے ہلکان،
اور اس تھکے ہارے انسان کو
اے مری شاہزادی!
***
بتا مختصر کیوں کروں؟
تیری باتوں کی تفہیم اتنی کبھی مختصر تو نہیں تھی
تو اب کیا ہوا؟
بولنے دے مجھے!
میری آواز پر چند لفظوں کی اتنی مذمّت پہ خاموش رہنا
کسی بزدلی سے تو کم ہی نہیں
میرے خوابوں کی قبروں میں مدفون اجسام کی روح
اب بھی بھٹکنے سوا کچھ بھی کرتی نہیں
اور تعبیر کے جس قدر تھے کفن
ہر کفن کے جو کونے تھے
کونے سے نکلے ہوئے چند دھاگوں کی تندیں تھی
سب آنسوؤں سے اپاہج تھیں
اور بین اف
بین پر بین
ماتم
بکاؤں کی،
چیخوں کی آواز
اور چند نوچے ہوئے سر کے بالوں کے گچھے،
عزاداریوں کے سمے،
حسرتوں کے عجب سوگ میں
ساحرہ!
رات سونے لگوں تو مجھے
ایسے لگتا ہے جیسے کسی قبر کے ساتھ لیٹا ہوا ہوں
میں کروٹ جو بدلوں تولگتا ہے
مدفون ڈھانچے نے سینے لگایا ہوا ہے
اندھیرا
مری ساحرہ
اور اندھیرا
بھیانک سا احساس پہنے
مری روح میں ایک نیزے کی مانند
پیوست ہوتا ہے ایسے
کہ جیسے
مری روح کی روشنی چھین لینے کے درپے ہوا ہو
زباں تیری باتوں کا مطلب نہیں جانتی
ذہن آوارگی کے سبب سوچنے سے بری ہے
بقایا جو دل ہے مری ساحرہ!
وہ تو تُو نے نجانے کہاں منتقل کر دیا
اس بدن میں تو بس ایک ٹکڑا سا چبھتا ہے مدت سے
جیسے ابھی کے ابھی ٹھک سے ٹکرائے گا
اور تقسیم ہو جائے گا کرچیوں میں
مگر ساحرہ!
یہ کہانی عجب سی نہیں ہے بھلا؟
جو بدن میں بکھر جائے گا
اس کے بارے بتا
اور جو تُو لے گئی اس کے بارے بتا
اور
جو تُو نے میرے حوالے کیا تھا
ذرا اس کے بارے بھی ارشاد کر
تیری آسان باتوں سے نکلے ہوئے کچھ مصائب
جو میرے گلے ہیں پڑے
ان کا میں کیا کروں؟
تیری باتوں کی تفہیم اب میرے بس میں نہیں
اور مرے خواب تکنا کہاں تیرے بس میں رہا
اب کے ایسا نہ ہو
تیری خوشبو یہاں سے بھی اٹھ جائے
اور لمسِ خوشبو کہیں کوچ کر جائے
اس واسطے
میرے اندر کی قبروں میں مدفون رہنا
تجھے زیب دیتا نہیں!
صندلیں ساحرہ!
***
اے گلابوں کی کلیوں میں آرام کرتی ہوئی
نرم گالوں کی لالی پہ اتراتی،
ہنستی ہوئی،
ہنستے ہنستے ہی آنکھوں کو نم کرنے والی
مری بے تحاشہ حسیں ساحرہ!
آ گلابوں کو میں قاف کی وادیوں سے
یہ لالی بھری دونوں اکھیوں پہ لا کر دھروں
خواب خوشبو میں گھل گھل کے آئیں تجھے
خواب آئیں تجھے
تو دکھائیں وہ وادی
وہ وادی دکھائیں جہاں
بنسیا پہ پہاڑی کی دھن بج رہی ہو
کوئی رانجھنا سر پہ باندھے ہوئے لاج کا،
تیرے ہاتھوں بُنا ایک رومال،
چاہت کی لے میں بجاتا رہے
بنسیا،
بنسیا سے نکلتی ہوئی دھن تری جب سماعت کو چھو لے
تو مدہوشیوں کو ذرا ہوش آئے
ترے سامنے پربتوں کے مناظر
تجھے دیکھتے ہوں
ترے پیر چشمے کے پانی کو شیرینیاں بانٹنے میں ہوں مصروف
لال اور گلابی سے لب پریم کے گیت جڑتے رہے
اور فضاؤں میں خوشبو لٹاتے رہیں
ساحرہ!
تیری خاموشیوں پر سبھی کے سبھی لفظ قربان ہوں
تیری آواز پر خامشی حیرتوں کو نچھاور کرے
سب چرند و پرند و شجر اور حجر،
چاند، سورج، ستارے
دن و رات، شام اور اک اک پہر
اک محبت میں گھل گھل کے ابھرے،
نکھرتا رہے
اور گلیوں میں خوشیوں کی بارات کا آنا جانا رہے
ساحرہ!
خواب ایسے نہ ہوں
خواب بالکل بھی ایسے نہ ہوں
جن کی تعبیر ایسی نہ ہو
تلخ جیون میں ایسے سبھی خواب بھی تو اذیت سوا کچھ نہیں
ایک پل کو یہ آنکھیں سرابوں کی دنیا میں رہ کر
حسیں اور خوشیوں کے خوابوں کی دنیا میں رہ کر
ذرا چین پائیں بھی تو
ایک صدیوں تلک کی مسافت جو ہے
پھر اسی کے عذابوں سے رخ پھیر لینا کہاں اپنے بس میں
مری ساحرہ!
اپنے خوابوں کو شب کے غلافوں میں رکھنا نہیں۔۔ ۔
***
لڑکیاں رحمتیں ہیں
مری ساحرہ!
سوچ اور غور کر
رحمتوں کو جلاتے ہوئے ظالموں کے ذرا ہاتھ کانپے نہیں
غیرتیں اپنی آنکھوں پہ باندھے ہوئے
اپنی ماں کی جنی
اپنی ہمشیر بہنوں کے نازک سے جسموں میں
بندوق کی گولیوں سے کئی چھید کرتے ہوئے
ان درندوں کے دل میں ذرا رحم آیا نہیں
ساحرہ!
رحمتیں ہی تو غیرت ہوا کرتی ہیں
اور کتے، یہ وحشی درندے،
یہ قاتل یہ خونی
خدا جانے غیرت کسے جانتے ہیں
خود اپنے ہی بدبخت ہاتھوں سے غیرت کا خوں کرنے والے
وہ رحمت کا خوں کرنے والے
یہاں اپنی غیرت بچاتے ہوئے پھر رہے ہیں
مری ساحرہ!
یہ وہ دنیا نہیں جس میں تو نے مرے سنگ جینے کے خوابوں کو دیکھا
یہ دنیا وہ دنیا نہیں رہ سکی
جس میں جینے کی خاطر
یہاں میں نے
تیرے لیے سانس لی
اور وہاں تو نے میرے لیے سانس لی۔۔
ساحرہ! میرے لہجے کی افسردگی تیرے کس کام کی
چھوڑ!
آ دونوں مل کر تلاشیں کوئی اور دنیا
جہاں خواب جیسی حقیقت کا
بس اک نظامِ محبت ہی رائج ہو،
صدیوں سے اور آنے والے زمانوں میں بھی۔۔
ایسی دنیا کہیں چاہے ہو یا نہ ہو
پھر بھی آ۔۔ ۔
آ کہ کچھ پل تری قربتوں میں کٹیں
زیست الجھن، گھٹن اور مصائب سے
پل بھر کو باہر تو آئے
مری صندلیں ساحرہ!
***
تُو نے پھولوں کی لاشوں کو دیکھا کبھی؟
ساحرہ!
بول دیکھا؟
نہیں؟
میں نے دیکھا ہے!
معصوم کلیوں سے بھرپور نرم اور نازک سے پھولوں کی لاشوں کو
پھولوں کی عمریں بتاؤں؟
کوئی 4 کا، 5 کا اور کوئی صرف 6 سال کا پھول تھا
مدرسوں میں مذہب کی تعلیم پانے چلے آئے تھے
جن کے ماں باپ نے اپنے دارین کی نیکیوں کو کمانے کی خاطر
خود اپنے ہی لخت جگر
مدرسوں میں جو بھیجے کہ یہ پھول محشر میں شاید وسیلہ بنیں بخششوں کا
مگر ساحرہ!
چند ملاؤں نے،
چند جاہل درندوں نے، ملاؤں نے
ایسے معصوم پھولوں کو روندا
زنا در زنا، جبر در جبر
اف ساحرہ!
روح روتی رہی
سسکیاں لے کے روتی رہی
ایک وحشی درندے نے، مُلّا نے
مسجد میں، معصوم سے پھول کی آبرو چھین کر
ایک صف میں لپیٹا
وہیں لاش کو چھوڑ کر بھاگ نکلا۔۔ ۔۔
مری ساحرہ!
یہ دھرم بیچنے والے
تف ان پہ لعنت۔۔ ۔
کوئی دین ایسا نہیں کائناتوں میں
انسانیت سے بڑا اور کوئی کہیں دین ہے ہی نہیں
اور اسلام انسانیت کا ہی سب سے بڑا دین ہے
ساحرہ!
ہاتھ اٹھا اور معصوم پھولوں کی خاطر خدا سے دعا کر
انہیں اُس جہاں میں سدا کے لیے
چین آرام حاصل رہے
ان پہ رحمت رہے
ان پہ اکرام ہو
جو یہاں ان کو حاصل نہیں ہو سکا
اور آمین کر
اپنے ہاتھوں کو چہرے پہ مل
اور آ۔۔
اور آگے چلیں۔۔ ۔۔
***
ساحرہ!
بچپنے کی کوئی بات بھولی نہیں
یاد رہتا نہیں ہے جوانی کا سنگین تر واقعہ۔
اُس پہ بازار ہنستے تھے
جب وہ کھلونوں کو حسرت سے تکتے ہوئے
اپنی آنکھوں میں پانی لیے ماں سے کہتا
کہ مجھ کو وہی ریل گاڑی دلاؤ
فلاں کی دکاں میں پڑی ہے
مجھے وہ دلاؤ
ابھی کے ابھی
ورنہ بک جائے گی
کوئی لے جائے گا
اور سسکی بھی لیتا
اور اپنی نگاہوں سے
شفاف سچے محبت کے، غربت گزیدہ سے
آنسو بہاتا
تو مجبور ماں اس سے کہتی
وہ اچھی نہیں ہے
ابھی لائیں گے کچھ ہی لمحوں میں چلتے ہوئے
ٹوٹ جائے گی
یا چلتے چلتے ٹھہر جائے گی
اس سے اچھی کہیں سے تلاشیں گے
جب ہم کسی اور بازار میں جائیں گے
ساحرہ!
بچپنے میں کوئی کتنا معصوم ہوتا ہے
تم جانتی ہو
دلاسے، تسلی کا مطلب بھلا ایک بچے کو معلوم کیسے پڑے
اس کے آنسو کھلونوں سے مہنگے ہیں بلکہ یہ انمول ہیں
پر اسے کیا خبر
ان کی قیمت کا اندازہ ہونے تلک
سر کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے
اور چہرے پہ جھریوں کا نقشہ ابھر آتا ہے۔۔
***
ساحرہ!
تو مجھے بھی ذرا ایک بچہ سمجھ
اور خود میں ذرا مامتا تو بسا
اور پھر فرض کر
میں ان آنکھوں میں آنسو لیے
سسکیاں لیتے لیتے ترے پاس آ کر تجھے بولتا ہوں
کہ دے ذات کا محل
بس اک مرے ہاتھ میں
دل کے مندر میں آرام کے واسطے سیج کوئی سجا
روح مدت سے پیاسی ہے
اب دیکھ اپنی محبت کی برسات کر
اپنی آنکھوں کو میرے علاوہ کہیں اور ٹکنے نہ دے
دیکھ مجھ کو
مجھے دیکھ اور سوچ
اور ٹھیک سے سوچ
جب ٹھیک سے سوچ لے،
مجھ کو محسوس کر
اور محسوس کرتے ہوئے سب بھلا
کائناتوں کا زیر و زبر
اپنا گھر،
بام و در
ساری دنیا سے ہو بے خبر
صرف اور صرف ہو مجھ میں گم
ساحرہ!
او مری ساحرہ!
کھول آنکھیں
ترا زین بچہ نہیں جو دلاسوں سے بہلے
تسلی کو سینے لگائے
کہ تجھ میں ابھی مامتا کا وہ احساس جاگا نہیں
اور پھر فرض کرنے سے
سچ کی بلی کون دے
ساحرہ!
اے مری صندلیں ساحرہ!
***
میرے الفاظ بھی کھوکھلے ہی تو تھے
اور مری خامشی کی زباں میں یہ لکنت کہاں سے چلی آئی ہے
اے مری ساحرہ!
خواب جنمے گئے ہیں۔
مری آنکھ کی کوکھ نے تیرے خوابوں جنما
تو آنکھوں کو ساون کی ہائے لگی
میری آنکھوں کو اولاد میں ڈھیر آنسو ملے
قربتوں کی عنایات اس سے بھلی اور تھیں ہی نہیں
شاعری بھی نہ ہوتی اگر
تو تجھے حال اپنا بتانا بھی ممکن نہ ہوتا
الگ بات ہے کہ مرے بن کہے تُو سمجھتی تو ہے
میری ہر بات
اور ذات کی سب سرنگوں سے واقف بھی ہے
میری آنکھوں میں خوابوں کی تعداد اتنی نہیں
جتنی تعداد میں آنسوؤں کی قطاریں بہا کرتی ہیں
تیری یادوں کی موم اور اگر بتیاں
میری تنہائیوں میں جلیں
مجھ کو ایسا لگے آنکھ بھی موم بتی کی مانند لمحہ بہ لمحہ پگھلتی ہے
اور اگربتی کے جیسا مہکتی ہے
اور کھوکھلے میرے الفاظ ہی
اس سمے آسرا دینے لگتے ہیں
اور خامشی اپنی لکنت زدہ سی زباں میں
تری بات کرتی ہے
اے ساحرہ!
تیری باتیں کرے
کوئی بھی تیری باتیں کرے
اس کے ہاتھوں کو چوموں
گلے سے لگاؤں
سر آنکھوں پہ اس کو بٹھاؤں
میں قدموں تلے اس کے پلکیں بچھاؤں
بتاؤں اسے
کہ مرے واسطے تُو ہے کیا!
میں دکھاؤں اسے
دل میں تعمیر کردہ ترے واسطے چاہتوں کا محل
ساحرہ!
لفظ جیسے بھی ہیں
کھوکھلے ہی سہی
میں نے وارفتگی میں ترے واسطے کہہ دیے
گر تری آتما کے دروں تک پہنچ جائیں تو
ان کو سینے لگانا
فقط ان کو سننا نہیں
اپنے دل میں ذرا سی جگہ بھی۔۔ ۔۔
مری ساحرہ!
***
ساحرہ!
عشق وہ تو نہیں
جس کی تعریف ہم ان کتابوں میں پڑھتے رہے
کچھ نے بولا کہ برباد ہونے کا اک دوسرا نام ہی عشق ہے
کچھ نے بولا کہ بس جذب و مستی،
کسی نے کہا عشق ظالم ہے، مُلّا نا عالم ہے
اور کوئی کہتا ہے عشق مجازی ہی عشق حقیقی میں جانے کی بس اک کڑی ہے
مری صندلیں ساحرہ!
میں نے اتنا ہی سمجھا
وہی عشق ہے
جس کو لاگے وہی رمز جانے
وگرنہ تو بحث و مباحث سے تو ہر کوئی اپنی اپنی فراست ہی جھاڑے ہے بس
ایک آوارہ انسان نے یہ کہا،
کہ دعا کر کبھی عشق چھو کر نہ گزرے
مجھے ایک درویش نے یہ کہا
کہ دعا کر فقط عشق ہی مانگ۔۔ ۔
اے ساحرہ!
جانتی ہو کہ میں نے دعاؤں میں مانگا ہے کیا
عشق دینا تھا جس نے اسے مانگ کر
پھر ترے در پہ واپس چلا آیا ہوں۔۔ ۔
***
ساحرہ!
میں نے یادوں کی ساری ریاضت تجھے سونپ دی
لے سنبھال اب مجھے میرے الفاظ
سب کھوکھلے ہیں مگر
جان لے
میں ہی ہوں
میرے لفظوں میں قبریں ہیں
ہر قبر میں کچھ نہ کچھ دفن میں
ایک میں میرا سر،
ایک میں دونوں بازو،
کسی میں مرے پیر،
باقی بدن،
ایک اک بال،
دل کا الگ ہی مزار اور سانسوں کا دربار الگ
سب کا سب میں نے تیرے حوالے کیا
مجھ کو امید ہے کہ مری یاد سے
تُو ہی ہے جو وفائیں کرے گی ہمیشہ۔
یونہی غالیہ مُو چلی آئے گی
اور ہر قبر پر تُو گلِ اشک برسائے گی
پھر مبارک سے لمحوں میں
اور تیرے لب بھی ہلیں گے
مرے چین و آرام اور سکھ کی خاطر
وہی سکھ جو اب تک میسر نہیں آ سکا تھا مجھے
وہ دلائے گی تُو
اور رب سے کہے گی۔۔ ۔
کہے گی۔۔ ۔۔
نہیں جانتا کیا کہے گی!
مگر مجھ کو معلوم ہے
میرے حق میں رہیں گی دعائیں تری
ذات بھی بس مجھے کھوجتی ہی رہے گی سدا
اور مرے کھوکھلے جتنے الفاظ ہیں
تُو ہی سمجھے گی بس
تُو ہی جانے گی بس
تُو ہی مانے گی بس
جیسے میں نے بھی چاہا نہیں کہ کوئی
ان کو سمجھے، یا جانے یا مانے
فقط ایک تیرے سوا
اے مری نابغہ!
ساحرہ!
***
طول دوں؟
کس لیے طول دوں؟
اس کہانی کو پھر
میں کوئی اس قدر اہم کب تھا
کہ اب ہونے لگ جاؤں
اے ساحرہ!
لوگ باتیں کریں تو کریں
خواب مرتے ہیں مر جائیں
دکھ ساتھ دے یا نہ دے
میں کہاں تک تری بات کرتا رہوں
جنگلوں سے،
درختوں، پہاڑوں سے
اور کہکشاؤں سے
چاند اور تاروں سے
اور آسماں سے تو کرنا نہ کرنا برابر ہی ہے
ساحرہ!
پریم کی گتھیاں اتنی آسان ہوتی نہیں جتنی لگتی ہیں
تکنے میں
اور ان کو کھولے بنا
یہ بھی ممکن نہیں کہ محبت میں آسودگی کی ذرا سی رمق مل سکے
دل عمیق و فراواں محبت کا قائل رہا ہے سدا
اور پھر درد کی کون پروا کرے
ساحرہ!
آخری بار سینے لگانے کا مطلب پتا ہے تجھے؟
آخری بار سننے سنانے
یا رونے رلانے کا مطلب نہیں جانتی؟
آخری بار
ملنے یا مل کر بچھڑنے کی رسمیں ادا کرنا آساں نہیں
آنسوؤں نے کہاں آخری بار بہنے کی کھائی قسم
آنکھ نے آخری بار تیری زیارت کی خواہش میں عمر حزیں کاٹ دی
تو نے دیکھا نہیں
تو نے مڑ کے بھی دیکھا نہیں
یا یہ بھی ممکن ہے دیکھا ہی ہو
میں کہیں دیکھ پایا نہ ہوں
تُو تو آئی ہے بس
اور گئی ہی نہیں
تو گئی ہی نہیں ہے تو کیوں
پاس میرے نہیں
ساحرہ!
میرے سارے سوالوں پہ اب غور کرنے کی زیادہ ضرورت نہیں
یہ تو بے چینیاں ہیں
یہ بے تابیاں جو کہ بس میں نے تیری طرف بھیج دیں
خط کی صورت،
محبت کے خوشبو بھرے اک لفافے میں
اب تُو پڑھے نہ پڑھے
پاس رکھے یا پھر پھینک دے
اپنے سینے لگائے یا پھر آگ میں جھونک دے
یا اسی خط کو پڑھتے ہوئے
اپنا جیون بتا دے
یہ سب تجھ پہ ہے
اے مری پیار بھریے
مری عاقلہ
ساحرہ!
***
دکھ، درندوں سے بڑھ کر کوئی چیز ہے
سکھ ہمیشہ ہی مظلوم بن کر ملا ہے مجھے
تیری مجبوریاں
مجھ کو دکھ ہی لگیں
اور تُو مجھ کو سکھ
ساحرہ!
میں نے کم ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے
پتہ ہے؟
دعائیں اگر آسمانوں سے بے فیض ہی لوٹ آئیں
تو اس سے بڑی اور کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی
روح پر
اور دل پر
بہت اچھی اور ڈھیر پیاری مری ساحرہ!
جب بھی اترا، تری روح میں
تو بلا کا سکوں پا لیا
تیرے جذبوں کو سمجھا تو
میں نے محبت کا خود میں جنوں پا لیا
ساحرہ!
تو نے پوچھا مجھے
جب زمانے گزر جائیں گے
اور تو مجھ سے پوچھے گی اپنے ہی بارے میں تو
کیا میں تب بھی کہوں گا کہ
ہاں!
تُو مری ساحرہ ہی تو ہے
ساحرہ!
میں نے اپنے جنم سے بھی پہلے تلاشا تجھے
تیری خوشبو تو بچپن میں دیتی رہی لوریاں
مجھ کو ہر رات میں
اور دن میں، میں تیرے تعاقب میں پھرتا رہا
شہر میں،
ہر گلی میں،
محلے میں،
ہر چوک و بازار میں،
جنگلوں میں،
ہواؤں سے پوچھا ترے بارے
اور میں نے دریا کناروں پہ آتی ہوئی ایک اک موج سے
تیرے بارے میں پوچھا
عقیدوں میں،
ساری مبارک شبوں میں،
عبادات میں بھی تجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے عمر کاٹی
تجھے ڈھونڈتے ڈھونڈتے
میں نے کتنے مزارات پر
آرزو کے دیے بھی جلائے
کبھی بھوک کا پیٹ چیرا،
تجھے ڈھونڈنے کے لیے
مفلسوں کی پریشانیوں میں بھی جا کر تلاشا تجھے
بم پھٹے اور لاشوں میں جا کر بھی دیکھا
اجڑتے سہاگوں میں، بیواؤں میں اور یتیموں میں بھی
ہر گھڑی، ہر سمے، سب گمانوں میں بھی اور یقینوں میں بھی
تجھ کو ڈھونڈا ہے سانپوں میں بھی، آستینوں میں بھی
مُندریوں میں بھی، چھلّوں میں بھی اور نگینوں میں بھی
اور مزدوروں کے جو بہے،
ان کی مزدوریوں کے سمے،
ان پسینوں میں بھی۔
دھوپ میں اور برسات میں
دن میں اور رات میں
بات میں
بات کی بات میں
ذات میں
ذات کی رات میں
اور اجالے میں بھی
میں نے تجھ کو ہی ڈھونڈا مری ساحرہ!
وہ جو "لا” سے بہت پاک ہے
اس کو پانے کی خاطر
تجھے ڈھونڈتا ہی رہا
اور اب یوں اچانک مجھے آ ملی ہے
تو کہتی ہے
کیا تم کبھی مدتوں بعد مجھ سے کہو گے؟
کہ
ہاں!
تو مری ساحرہ ہے۔۔ ۔
مری صندلیں ساحرہ ہے۔۔ ۔۔
تو سن!
اب مجھے ڈھونڈ
اور ڈھونڈ لے تو
بہت سوچ
اور سوچ لے تو
مجھے جان
اور جان لے تو
یقیں کر
کہ یہ کوئی بھی داستاں تو نہیں تھی
جسے میں سناتا رہا تھا
زمیں زاد، مکروں، فریبوں بھرے
دوغلے، بے حسی کے انہی رشتہ داروں کو
سارے ہی لوگوں کو
جو ساحرہ ڈھونڈنا تو بہت دور ہے
ساحرہ کو ابھی تک سمجھ ہی نہیں پا رہے
جانتے ہی نہیں
اور مانیں بھی کیسے؟؟
مری ساحرہ!
تو ہمیشہ سے ہی اجلے دل اور اجلی ہی ارواح سے آ کے ملتی رہی ہے
ہمیشہ انہی کو ملے گی
دلوں اور روحوں کی پاکیزگی کے بنا
تجھ کو پانا کسی طور ممکن نہیں۔۔ ۔۔ ۔
حرفِ اول!
مری حرفِ آخر!
جمیل و حسیں!
صندلیں ساحرہ!!!
***
ماخذ:
https://zainshakeel.blospot.com/p/blog-page_32.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں