ناصر کاظمی کے شعری مجموعے ’نشاط خواب‘ سے منتخب کردہ منظوم تراجم
دوسرے دیسوں کی نظمیں
از قلم
ناصر کاظمی
(نشاطِ خواب مجموعے سے تراجم)
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
دوسرے دیسوں کی نظمیں
ناصر کاظمی
(نشاطِ خواب مجموعے سے تراجم)
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
گیت
اُس کا در چٹے پانی پر کھلتا تھا
کاٹھ کے پل کے آمنے سامنے
وہاں وہ ننھی منی سندری
سدا اکیلی رہتی تھی
اور اُس کا کوئی یار نہ تھا —-
نظم: تزے۔ یے
جاڑے کی رات
مرا بستر کیسا سونا ہے
میں راتوں جاگتا رہتا ہوں
جب خنکی بڑھنے لگتی ہے
اور رین پون لہراتی ہے
یہ پردے سر سر کرتے ہیں
ساگر سا شور مچاتے ہیں
میں سوچتا ہوں کبھی یہ لہریں
ترے پاس مجھے پھر لے جائیں!!
نظم: چائن وتنائی
پی، فو، جن
اُس کے ریشمی پھرن کی سرسر اب خاموش ہے
مر مر کی پگڈنڈی دھول سے اَٹی ہوئی ہے
اُس کا خالی کمرہ کتنا ٹھنڈا اور سونا ہے
دروازوں پر گرے ہوئے پتوں کے ڈھیر لگے ہیں
اُس سندری کے دھیان میں بیٹھے
میں اپنے دکھیارے من کی کیسے دھِیر بندھاؤں
نظم: وی تی —-
انہد مرلی شور مچایا
مرشد نے سب بھید بتائے
عقل و ہوش و حواس اُڑائے
مد ہوشی میں ہوش سکھا کر
منزل کا رستہ دکھلایا
انہد مرلی شور مچایا
جلوۂ وحدتِ کامل دیکھا
نقشِ دوئی کو باطل دیکھا
عالم کے اَسرار کو سمجھا
دھیان گیان کے راز کو پایا
انہد مرلی شور مچایا
نورِ حقائق ہوا نمایاں
سرِ حقیقت ہو گئے آساں
فاش ہوا ہر نکتۂ پنہاں
قرب و بعد کا فرق مٹایا
انہد مرلی شور مچایا
سن کر اس مرلی کی باتیں
اُلجھے راز انوکھی باتیں
بھولے سبھی صفاتیں ذاتیں
وحدت نے وہ رنگ جمایا
انہد مرلی شور مچایا
ترجمہ از خواجہ غلام فرید، نومبر 1968ء
(جشنِ فرید منعقدہ ملتان میں پڑھا گیا)
بروکلین گھاٹ کو عبور کرتے ہوئے
(1)
اے مد کے چڑھتے ہوئے دھارے! میں تجھے دیکھ رہا ہوں —-روبرو!
اے مغرب کے بادلو —-اے پہر دوپہر میں ڈوبنے والے سورج —-میں تمھیں بھی دیکھ رہا ہوں۔
اے عام لباس میں ملبوس مرد و زن کے ہجوم —-! تو میرے لیے کس قدر تجسس انگیز ہے!
مسافر کشتیوں میں سوار سینکڑوں لوگ، جو گھروں کو لوٹ رہے ہیں،
میرے لیے اس قدر تجسس انگیز ہیں کہ آپ تصوّر بھی نہیں کر سکتے،
اور اے وہ لوگو، جو آج سے برسوں بعد اسی طرح کشتیوں پر سوار ہو کر ایک ساحل سے دوسرے ساحل کی طرف جاؤ گے تم میرے لیے اور بھی تجسس انگیز ہو اور میں چشمِ تصور میں تمھیں اپنے سامنے اس طرح مجسم پاتا ہوں کہ تم اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔
(2)
میں شب و روز لمحہ بہ لمحہ تمام اشیائے عالم سے غیر محسوس طور پر فیضانِ حیات حاصل کرتا ہوں،
کائنات کا نظام کس قدر سادہ، ٹھوس اور مربوط ہے، جہاں میں جدا —-ہر فرد جدا —- پھر بھی سب اسی نظام کا حصہ،
ماضی اور مستقبل کی جیتی جاگتی تصویریں،
اور گلیوں میں راہ چلتے ہوئے، یاد ریا کو عبور کرتے ہوئے،
معمولی سے معمولی مناظر اور خفیف سے خفیف آوازوں سے پیدا ہونے والی جمالی کیفیات میرے ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہیں۔
میں بہتے جل کی تیز دھارا میں تیرتا ہوا کہیں کا کہیں نکل جاتا ہوں،
یہ سب محسوسات میرے اور آنے والے لوگوں کے درمیان ایک رابطہ قائم کرتے ہیں۔
وہ بھی یقینی طور پر زندگی، محبت، بصارت اور سماعت جیسی نعمتوں سے ہماری طرح بہرہ ور ہوں گے۔ دوسرے لوگ بھی اسی گھاٹ کے دروازوں میں داخل ہوں گے۔
اور ساحل ساحل پار اتریں گے،
وہ بھی مد کے چڑھتے ہوئے پانی کا نظارہ دیکھیں گے،
وہ بھی منہاٹن کے شمال اور مغرب میں جہازوں کو آتے جاتے اور اس کے جنوب اور مشرق میں بروکلِن کی پہاڑیوں کو دیکھیں گے،
وہ ان چھوٹے بڑے جزیروں کا نظارہ کریں گے؛
نصف صدی بعد، وہ لوگ بھی ان سب چیزوں کو دیکھیں گے، جبکہ اسی طرح آدھ ایک گھنٹے میں سورج ڈوبنے والا ہو گا،
آج سے ایک صدی یا کئی صدیوں کے بعد، وہ لوگ ان چیزوں کو دیکھیں گے،
اور ڈوبتے ہوئے سورج، مد کے چڑھتے ہوئے اور جزر کے اترتے ہوئے پانی کے نظاروں سے اسی طرح لطف اندوز ہوں گے۔
(3)
زمان و مکان کی کوئی حقیقت نہیں —- سب مسافت سمٹ کر رہ جاتی ہے،
اے آئندہ نسل کے، بلکہ کئی آنے والی نسلوں کے زن و مرد،
میں بھی تمھارا ہمدم ہوں،
دریا اور آسمان کو دیکھ کر جو احساسات تمھارے دلوں میں جنم لیتے ہیں، ان سے میں بھی آشنا ہوں،
جس طرح تم میں سے کوئی بھی زندہ انبوہ کا ایک فرد ہے، اسی طرح میں بھی تھا،
جس طرح تم اس دریا کے روح پر ور نظارے اور بہتے ہوئے پانی کی ضو فشانیوں سے تازہ دم ہوتے ہو، اسی طرح میرے دل میں بھی ترو تازگی پیدا ہوتی تھی،
جس طرح تم جنگلے پر جھکے ہوئے محسوس کرتے ہو کہ تم پانی کے ساتھ بہے چلے جا رہے ہو،
اسی طرح میں بھی کھڑا ہو جاتا تھا اور اپنے آپ کو پانی کے ساتھ رواں دواں محسوس کرتا۔
میں نے بھی اس قدیم دریا کو بار بار عبور کیا،
میں بھی سال کے آخری مہینے میں مرغابیوں کو فضا میں بہت بلندی پر یوں محوِ پرواز دیکھتا کہ ان کے جسم متحرک ہوتے لیکن پر ساکت ہوتے،
میں ان پرندوں کے جسم کے بعض حصوں کو شوخ زردی سے روشن اور باقی حصوں کو گھمبیر سائے میں ڈوبا ہوا دیکھتا،
یہ پرندے فضا میں آہستہ آہستہ چکر کاٹتے رہتے اور پھر رفتہ رفتہ جنوب کی طرف پرواز کرنے لگتے،
میں موسم گرما کے نیلگوں آسمان کا عکس پانی میں دیکھتا،
میری آنکھیں کرنوں کے جگمگاتے راستے کو دیکھ کر چکا چوند ہو جاتیں،
سورج سے چمکتے پانی میں روشنی کی خوبصورت مرکز گریز لکیروں کو اپنے سر کے ارد گرد رقصاں دیکھتا،
جنوب اور جنوب مغرب کی پہاڑیوں پر ہلکی سی دھند چھائی ہوئی ہوتی،
میں بھی سفید بادلوں کو دیکھتا، جن میں بنفشی رنگ کی جھلک نظر آتی،
میں بھی خلیج کے نچلے حصے سے جہازوں کو آتے ہوئے دیکھتا،
یہ جہاز رفتہ رفتہ میری طرف بڑھتے چلے آتے اور میں ان مسافروں کو دیکھتا جو مجھ سے قریب ہوتے،
میں دو مستولوں والی اور ایک مستول والی کشتیوں کے سفید بادبان اور لنگر انداز جہازوں کو دیکھتا،
ان کے ملاح مستولوں، رسیوں اور چپوؤں پر کام میں جتے ہوئے نظر آتے یا جہاز کو اتھلے پانی سے نکالنے کے لیے چپوؤں کو چلاتے ہوئے صاف نظر آتے،
گول گول مستول، حرکت کرتے ہوئے جہاز اور ان پر سانپ کی مانند بل کھاتے ہوئے جھنڈوں کو دیکھتا،
چھوٹی بڑی دخانی کشتیاں سرگرم سفر ہوتیں اور ان کے کپتان اپنی جگہوں پر مستعد دکھائی دیتے،
متحرک جہاز کے پیچھے پانی کی ایک سفید لکیر دکھائی دیتی اور اس کے پہیوں کے گھومنے سے تھرتھراہٹ کی آواز سنائی دیتی۔
تمام قوموں کے پرچم دیکھتا، جو غروبِ آفتاب کے وقت اتار لیے جاتے،
شام کے جھٹپٹے میں لہروں کے کنارے صدف کی مانند نظر آتے، ایسا محسوس ہوتا جیسے فطرت کے ہاتھ دریا سے پیالے بھر بھر کے نکال رہے ہیں، ان لہروں کے سروں پر رنگین کلغیاں نظر آتیں اور ہر طرف لہروں کی آب و تاب دکھائی دیتی،
پانی کی سطح رفتہ رفتہ دھند لکے میں غائب ہو جاتی، گودی کے قریب پتھر سے بنے ہوئے مال گوداموں کی خاکستری دیواریں،
دریا پر سایوں کا ہجوم، جہازوں کو کھینے والے بڑے سٹیمر کے دونوں طرف چھوٹی کشتیاں مثلاً خشک گھاس لانے والی کشتیاں، جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں،
دریا کے اس پار ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیوں سے بلند ہونے والے شعلے رات کی تاریکی میں اور بھی نمایاں ہو جاتے،
اور ان کی کھلتی بند ہوتی سرخ اور زرد روشنی تاریکی کے پس منظر میں مکانوں کے بالائی حصوں اور گلیوں کے ان حصوں میں نظر آتی جہاں مکانات کا سلسلہ منقطع ہو جاتا۔
(4)
یہ سارے مناظر میرے لیے ویسے ہی تھے جیسے اب تمھارے لیے ہیں،
میں نے ان شہروں سے اور تیز بہتے ہوئے شاندار دریاؤں سے جی بھر کے پیار کیا،
جن مردوں اور عورتوں کو میں نے دیکھا میں نے ان سے قربت محسوس کی،
مجھے دوسرے لوگوں کا بھی قرب حاصل ہو گا —- وہ لوگ جو مجھے دیکھنے کے لیے ماضی میں جھانکتے ہیں، کیونکہ میں نے انھیں دیکھنے کے لیے مستقبل میں جھانکا تھا،
(وہ وقت آ کر رہے گا، خواہ آج ہی شب و روز کے کسی لمحے میں میرے دل کی دھڑکنیں بند ہو جائیں)۔
(5)
پھر ہمارے درمیان حدِ فاصل کیا ہے؟
ہمارے درمیان بیسیوں یا سینکڑوں سال کا وقفہ کیا حقیقت رکھتا ہے؟
اس کی حقیقت کچھ بھی ہو یہ حدِ فاصل نہیں بن سکتا —- مسافت حدِ فاصل نہیں بن سکتی، جگہ حدِ فاصل نہیں بن سکتی،
میں بھی کبھی زندہ تھا اور کئی پہاڑیوں والا برکلن میرا تھا،
میں بھی جزیرہ منہاٹن کے بازاروں میں گھوما ہوں اور اس کے چاروں طرف بکھرے پانی میں نہایا ہوں،
میں نے اپنی ذات میں یک بیک ابھرتے ہوئے عجیب و غریب سوالوں کو محسوس کیا ہے۔
دن کے وقت لوگوں کے ہجوم میں کبھی کبھی یہ سوال میرے ذہن میں ابھرتے،
رات گئے گھر کو لوٹتے ہوئے یا بستر پر لیٹے ہوئے میں ان خیالات میں گم ہو جاتا،
میں ہمیشہ انھی خیالات میں غلطاں و پیچاں رہتا،
میری شناخت بھی میرے وجود سے کی جاتی تھی،
میں جانتا تھا کہ میرے وجود سے میری شناخت ہوتی ہے اور آئندہ بھی میری ذات کی شناخت میرے وجود سے ہو گی۔
(6)
یہ کیفیت صرف آپ کی ذات تک محدود نہیں ہے کہ کبھی کبھی تاریک خیالات آپ کے ذہن پر چھا جاتے ہیں،
میرے ذہن پر بھی اسی طرح تاریک خیالات مسلط ہوتے رہتے ہیں،
مجھے بھی اپنی زندگی کے بہترین افعال لغو اور مشکوک نظر آنے لگتے ہیں،
میرے دل میں رہ رہ کر یہ سوال اُبھرتا کیا میرے عظیم خیالات در حقیقت بے معنی ہیں؟
صرف آپ ہی کو معلوم نہیں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،
میں بھی جانتا ہوں کہ شر کی حقیقت کیا ہے،
میں بھی متضاد خیالات کا شکار رہا،
میں بے تکی باتیں کرتا، شرم سے چہرہ سرخ ہو جاتا، نفرت کرتا، جھوٹ بولتا، چوری کرتا اور کینہ پروری کرتا،
میں اپنی مکاری، غصہ، شہوت اور جنسی خواہشات کے بارے میں زبان کھولنے کی جرأت نہیں کر سکتا،
میں بھی متلون مزاج، مغرور، حریص، کم ظرف، مکار، بزدل اور کینہ پرور تھا، بھیڑیے، سانپ اور سؤر کی خبیث عادات کی مجھ میں کمی نہیں تھی،
پر فریب نظروں اور لغو باتوں کے علاوہ جنسی خواہشات میرے دل و دماغ پر چھائی ہوئی تھیں،
انکار، نفرت، التوا، کمیں گی اور سستی جیسے عناصر میرے اعمال میں شامل تھے،
میں سب باتوں میں نوعِ انسان کے ساتھ برابر کا شریک تھا، انھی جیسے دن گزارتا اور انھی جیسے اتفاقی واقعات سے دوچار ہوتا،
جب نوجوان لوگ مجھے اپنی طرف آتے ہوئے یا کہیں سے گزرتے ہوئے دیکھتے تو نہایت صاف اور بلند آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے،
جب میں کھڑا ہو جاتا تو وہ اپنے بازو میری گردن میں حمائل کر دیتے یا جب میں بیٹھتا تو ان کے جسم بے پروائی کے انداز میں میرے جسم سے مس ہوتے،
میں اپنے کئی محبوبوں کو بازاروں، مسافر کشتیوں یا عوامی اجتماعات میں دیکھتا، لیکن ان سے بات نہ کرتا،
میں باقی لوگوں کی طرح زندگی گزارتا، انھی کی طرح ہنستا، کھیلتا، کھاتا، پیتا اور نیند کے مزے لوٹتا ایسا کردار ادا کرتا، جس سے کسی ایکٹر یا ایکٹریس کے فن کا مظاہرہ ہوتا،
وہی پرانا کردار، جس کی تشکیل خود ہمارے ہاتھوں میں ہے، اس سے خواہ ہم انتہائی بلندی پر پہنچ جائیں خواہ انتہائی پستی کی طرف چلے جائیں یا کبھی بلندی اور کبھی پستی کی طرف مائل ہوں۔
(7)
میں نے تمھیں قریب سے قریب تر ہو کر دیکھا ہے،
اب تم جتنا میرے متعلق خیال کرتے ہو، میں بھی تمھارے متعلق اتنا ہی سوچتا تھا —- میں نے یہ خیالات قبل از وقت ہی اپنے ذہن میں محفوظ کر لیے تھے،
تم نے ابھی جنم بھی نہیں لیا تھا کہ میں گھنٹوں بڑی سنجیدگی سے تمھارے خیالوں میں گم رہتا۔
کس کو معلوم تھا کہ مجھ پر کیا کیا چیزیں گہرا اثر ڈالتی ہیں؟
کون جانتا ہے کہ اس قدر مسافت کے باوجود میں تمھیں اپنی چشمِ بصیرت سے صاف دیکھ رہا ہوں حالانکہ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے؟
(8)
آہ، منہاٹن جو جہازوں کے مستولوں سے پٹا پڑا ہے، کیا میرے لیے اس سے شاندار اور قابلِ تعریف کوئی چیز ہو سکتی ہے؟
یہ دریا، غروبِ آفتاب کا یہ منظر، مد کی ابھرتی ہوئی لہریں جن کے کنارے صدف جیسے ہیں؟
مرغابیاں جن کے جسم متحرک ہیں، دھندلکے میں خشک گھاس سے لدی ہوئی کشتیاں اور رات گئے تک جہازوں سے سامان اتارنے والی کشتیاں؟
کون سے دیوتا ان لوگوں سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں جو گرم جوشی سے میرا ہاتھ پکڑتے ہیں اور جب میں قریب جاتا ہوں تو پیاری آواز میں مجھے میرے خاص نام سے پکارتے ہیں؟
جب جب کسی عورت یا مرد سے میری آنکھیں چار ہوتی ہیں تو ہمارے باہمی ربط سے بڑھ کر اور کس چیز میں لطافت ہو سکتی ہے؟
وہ کون سی چیز ہے جو میری ذات کو تمھارے وجود میں مدغم کرتی ہے اور میرے خیالات کو تمھارے خیالات سے ہم آہنگ کرتی ہے؟
ہم خود ہی ان خیالات کا تجزیہ کر سکتے ہیں، کیا ہم اس پر قادر نہیں ہیں؟
میں نے جس چیز کا ذکر کیے بغیر وعدہ کیا تھا، کیا تم نے اسے قبول نہیں کر لیا؟
کیا یہ حقیقت نہیں کہ مطالعہ سے اس کا علم نہیں ہو سکتا تھا اور تبلیغ سے اسے سرانجام نہیں دیا جا سکتا تھا؟
(9)
اے دریا اپنی روانی سے کام رکھ! مد کی حالت میں موجیں مارتا رہ اور جزر کی حالت میں پرسکون ہو کر چل!
اے صدف جیسے کنارے اور رنگین کلغی رکھنے والی لہرو، خوب اٹکھیلیاں کرو!
اے غروبِ آفتاب کے وقت کے رنگین بادلو، اپنی عظمت کی مجھے بھی جھلک دکھاتے جاؤ اور ان مردوں اور عورتوں کو بھی جو آئندہ نسلوں میں جنم لیں گے!
اے بے شمار مسافرو، ساحل ساحل پار اترتے رہو!
منہاٹن کے اونچے مستولو، اپنے سر اور بلند کرو! بروکلن کی خوبصورت پہاڑیو اپنے سر اور بلند کرو!
اے میرے ششدر اور جستجو پسند دماغ اپنی سرگرمیوں کو تیز تر کر دے! اسی طرح سوالات اور جوابات کی ادھیڑ بن میں لگا رہ!
کائنات کے اسرار کا حل تلاش کرنے میں یونہی سر مارتا رہ!
اے محبت میں سرشار اور پیاسی آنکھو، یونہی گھر، بازار اور لوگوں کے ہجوم کو دیکھتی رہو!
اے نوجوانوں کی آوازو، یونہی مترنم لہجے میں بلند ہوتی رہو اور مجھے میرے خاص نام سے پکارتی رہو!
اے میری دیرینہ زندگی، یونہی وہ کردار ادا کرتی رہ جس سے کسی فنکار کی عظمت ظاہر ہوتی ہے
وہ پرانا کردار ادا کرتی رہ، جس کی بلندی یا پستی ہم سب کے دائرۂ اختیار میں ہے!
اے میرے اشعار کو پڑھنے والو، ذرا سوچو تو سہی کیا میں نامعلوم طریقوں سے تمھیں دیکھ رہا ہوں یا نہیں؟
پاؤں جما لو، دریا کے اوپر جنگلے پر جھک جاؤ، انھیں سہارا دو جو بے پروائی کے انداز میں اپنے جسم کو تمھارے جسم سے مس کیے ہوئے ہیں اور پھر یوں محسوس کرو جیسے تم بھی پانی کے ساتھ بہے جا رہے ہو،
اے سمندری پرندو، اڑتے رہو! ایک طرف کو جھک کر اڑان جاری رکھو یا فضا کی بلندیوں میں لمبے لمبے چکر کاٹتے رہو!
اے آبِ رواں، موسمِ گرما کے آسمان کے عکس کو اپنے سینے میں اتار لے اور اس وقت تک اسے محفوظ رکھ، جب تک نظارہ کرنے والوں کی نیچے جھکی ہوئی آنکھیں سیر نہ ہو جائیں!
اے روشنی کی لہرو، سورج کی شعاعوں سے چمکتے پانی میں میرے عکس سے اسی طرح منعطف ہوتی رہو!
اے جہازو، خلیج کے نچلے حصے سے آتے رہو! اے سفید بادبان والی چھوٹی بڑی کشتیو! کبھی اوپر سے نیچے اور کبھی نیچے سے اوپر کو چلتی رہو!
اے تمام اقوام کے قومی پرچمو، یونہی ہوا میں لہراتے رہو! حسب معمول غروبِ آفتاب کے وقت اترتے رہو!
اے ڈھلائی کے کارخانوں کی چمنیو، اپنے شعلوں کو یونہی فضا میں بلند کرتی رہو! رات کی تاریکی میں اپنے سیاہ سائے ڈالتی رہو! مکانوں کے بالائی حصوں پرا پنی سرخ اور زرد روشنی پھینکتی رہو!
موجودہ دور کے اور مستقبل کے موہوم پیکرو، اپنی حقیقت ظاہر کرتے رہو!
تم روح کے لیے حجاب کا کام دیتے ہو، یونہی روح پر چھائے رہو!
محبتِ الٰہی کی خوشبو میرے لیے اور تمھارے جسموں کو تمھارے لیے معطر کرتی رہے!
اے شہرو، اپنی رونق کو اور دوبالا کرو! اے وسیع اور بھرپور دریاؤ، تمھارے جہاز اسی طرح سامان لاتے رہیں اور تم اس طرح اپنے نظارے جاری رکھو!
اپنی وسعت کو اور زیادہ کرو، روح کو غذا بہم پہچانے کے لیے شاید تم سے بڑھ کو کوئی چیز نہیں،
اے فطرت کے بے زبان اور حسین مبلغو، تم نے بہت عرصہ تک انتظار کیا ہے، تم ہمیشہ انتظار میں محو رہتے ہو،
ہم نہایت گرمجوشی سے تمھارا استقبال کرتے ہیں اور ہمارے جذبات تمھارے حق میں کبھی سرد نہیں پڑیں گے،
تم ہمیں کبھی دھوکا نہیں دو گے یا ہم سے کبھی کنارہ کشی اختیار نہیں کرو گے،
ہم تمھیں اپنے کام میں لاتے ہیں، اور تمھیں کبھی نظرانداز نہیں کرتے —- ہم تمھیں ہمیشہ کے لیے اپنے سینوں میں محفوظ رکھتے ہیں،
ہم تمھاری گہرائی کو نہیں پا سکتے —- ہم تم سے محبت کرتے ہیں —- تم جامع کمالات ہو،
تمھاری بنیادیں ابد پر استوار ہیں،
تم کسی کے لیے بڑے اور کسی کے لیے چھوٹے پیمانے پر روحانی غذا بہم پہچانے کا سبب ہو۔
فوری تحفہ
اس سے پہلے کہ ہم زمین کے ہوں زمین ہماری تھی۔
سو سال سے زیادہ مدت تک وہ ہماری تھی
اس سے پیشتر کہ ہم اس کے باسی بنے ’’میساکوٹس‘‘ اور ’’ورجینیا‘‘ ہمارے تھے
لیکن ہم انگلستان کے تھے، نوآباد تھے،
ہمارے پاس وہ تھا جو ابھی ہمیں ملا نہیں تھا،
ہمارے پاس متاعِ نایافت کے سوا کچھ نہ تھا
ہم کسی چیز کو رو کے ہوئے تھے جس نے ناتواں بنا دیا
اور آخرکار ہمیں احساس ہوا کہ یہ ہم خود تھے
ہم اپنے آپ کو اپنی سرزمین سے دور کھینچے ہوئے تھے،
پھر انجام کار ہم نے اپنے آپ کو سپرد کرنے ہی میں عافیت جانی۔
ہم جیسے بھی تھے ہم نے اپنے آپ کو یکسر سپرد کر دیا
(یہ تحفہ بہت سی جنگوں کی صورت میں تھا)
اُس سر زمین کو جو مغرب کی سمت مبہم طور پر چلی جا رہی تھی،
اُس سر زمین کو جس میں نہ کہانیاں تھیں نہ فن نہ وسعت،
جیسی وہ تھی اور جیسی وہ مستقبل میں ہونے والی تھی۔
٭٭٭
1۔ رابرٹ فراسٹ کے شعری مجموعہ ’’اے وٹنس ٹری‘‘ (مطبوعہ نیویارک، ہالٹ ۱۹۴۲ء) سے ’’دی گفٹ آؤٹ رائٹ‘‘ کا ترجمہ۔
تشکر: یاور ماجد جن سے اس کی فائل کا حصول ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں