اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


عقیدت کے رنگ ۔۔۔ ناصر کاظمی، جمع و ترتیب: اعجاز عبید

مجموعہ نشاطِ خواب سے علیحدہ کردہ نعتوں پر مشتمل برقی مجموعہ

عقیدت کے رنگ

از قلم

ناصر کاظمی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

…. مکمل کتاب پڑھیں

عقیدت کے رنگ

ناصر کاظمی

(نشاطِ خواب مجموعے سے)

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

نعت

(تضمین بر اشعارِ غالب)

یہ کون طائرِ سد رہ سے ہم کلام آیا

جہانِ خاک کو پھر عرش کا سلام آیا

جبیں بھی سجدہ طلب ہے یہ کیا مقام آیا

’’زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا

کہ میرے نطق نے بوسے مری زباں کے لیے‘‘

خطِ جبیں ترا اُمّ الکتاب کی تفسیر

کہاں سے لاؤں ترا مثل اور تیری نظیر

دکھاؤں پیکرِ الفاظ میں تری تصویر

’’مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر

کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے‘‘

کہاں وہ پیکرِ نوری، کہاں قبائے غزل

کہاں وہ عرش مکیں اور کہاں نوائے غزل

کہاں وہ جلوۂ معنی، کہاں ردائے غزل

’’بقدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل

کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے‘‘

تھکی ہے فکرِ رسا اور مدح باقی ہے

قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے

تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے

’’ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے

سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے‘‘

نعت

اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے

تو جانِ سخن موضوعِ سخن اے پاک نبی رحمت والے

اے عقدہ کشائے کون و مکاں ترے وصف نہیں محتاجِ بیاں

عاجز ہے زباں، قاصر ہے دہن اے پاک نبی رحمت والے

اے بدر و حنین کے راہ نما، اے فاتحِ خیبر کے مولا

ترا ایک اشارہ کفر شکن اے پاک نبی رحمت والے

تری یاد ہماری شمعِ یقیں، ترا نام ہمارا نقشِ نگیں

ترے نور سے ہے ملت کا چمن اے پاک نبی رحمت والے

میں کچھ بھی نہیں مجھے کیا ہے غم جب تیرا کرم ہے شاہِ کرم

شاداب ہے میرے تن کا بن اے پاک نبی رحمت والے

نعت

پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں

تمھاری یاد کو ہم زندگی سمجھتے ہیں

تمھارے نور سے معمور ہیں وجود و عدم

اسی چراغ کو ہم روشنی سمجھتے ہیں

قدم پڑا ہے جہاں آپ کے غلاموں کا

ہم اُس زمین کو تختِ شہی سمجھتے ہیں

یہ آپ ہی کا کرم ہے کہ آج خاک نشیں

مقامِ بندگی و قیصری سمجھتے ہیں

سمجھ سکیں گے وہ کیا رُتبۂ نبیِؐ کریم

جو آدمی کو فقط آدمی سمجھتے ہیں

نعت

شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں

یہ بے زبان تمھیں سے کلام کرتے ہیں

زمیں کو عرشِ معلی ہے تیرا گنبدِ سبز

تری گلی میں فرشتے قیام کرتے ہیں

مسافروں کو ترا دَر ہے منزلِ آخر

یہیں سب اپنی مسافت تمام کرتے ہیں

جنھیں جہاں میں کہیں بھی اماں نہیں ملتی

وہ قافلے یہاں آ کر قیام کرتے ہیں

نظر میں پھرتے ہیں تیرے دیار کے منظر

اسی نواح میں ہم صبح و شام کرتے ہیں

سکونِ دل کی انھی سے اُمید ہے ناصر

جو اپنا فیض غریبوں پہ عام کرتے ہیں

25/2/1970

لاہور ٹی وی

نعت

دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے

ہم نے پائی نئی زندگی آپؐ سے

کیوں نہ نازاں ہوں اپنے مقدر پہ ہم

ہم کو ایماں کی دولت ملی آپؐ سے

کل بھی معمور تھا آپ کے نور سے

ہے منوّر جہاں آج بھی آپؐ سے

دُشمنوں پر بھی در رحمتوں کا کھلا

راہ و رسمِ محبت چلی آپؐ سے

دل کا غنچہ چٹکتا ہے صلِ علیٰ

اپنے گلشن میں ہے تازگی آپؐ سے

سب جہانوں کی رحمت کہا آپؐ کو

کتنا خوش ہے خدا، یا نبی آپؐ سے

ختم ہے آپ پر شانِ پیغمبری

یہ روایت مکمل ہوئی آپؐ سے

11/2/1971

نعت

تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج

جشنِ ولادتِ شہِ جن و بشر ہے آج

صدیوں سے فرشِ راہ تھے جس کے لیے نجوم

آغوشِ آمنہ میں وہ رشکِ قمر ہے آج

صبح ازل کو جس نے دیا حسنِ لازوال

وہ موجِ نور زینتِ دیوار و در ہے آج

کس کے قدم سے چمکی ہے بطحا کی سر زمیں

ظلمت کدوں میں شورِ نویدِ سحر ہے آج

اے چشمِ شوق شوکتِ نظارہ دیکھنا

ماہِ فلک چراغِ سرِ رہ گزر ہے آج

شوقِ نظارہ نے وہ تراشا ہے آئنہ

جس آئنے میں جلوۂ آئینہ گر ہے آج

جچتی نہیں نگاہ میں دُنیا کی رونقیں

کیا پوچھتے ہو دھیان ہمارا کدھر ہے آج

ناصر درِ حضورؐ سے جو چاہو مانگ لو

وا خاص و عام کے لیے بابِ اثر ہے آج

19/5/1970

سلام

لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے

یہ گل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لیے

کھڑے ہیں شاہ کمربستہ امتحاں کے لیے

پھر ایسی رات کب آئے گی آسماں کے لیے

دیا بجھا کے یہ کہتے تھے ساتھیوں سے حسینؑ

جو چاہو ڈھونڈ لو رَستا کوئی اماں کے لیے

کہا یہ سن کے رفیقوں نے یک زباں ہو کر

یہ جاں تو وقف ہے مولائے انس و جاں کے لیے

ہمیں تو منزلِ آخر ہے آستانِ حسینؑ

یہ سر جھکے گا نہ اب اور آستاں کے لیے

ستارے ڈوب گئے وقت ڈھونڈتا ہے پناہ

کڑی ہے آج کی شب دَورِ آسماں کے لیے

گواہی باقی ہے اصغر کی لے چلے ہیں حسینؑ

ورق اک اور بھی ہے زیبِ داستاں کے لیے

لٹا ہے دشتِ غریبی میں کارواں کس کا

کہ خاک اُڑاتی ہے منزل بھی کارواں کے لیے

کہاں کہاں نہ لٹا کاروانِ آلِ نبیؐ

فلک نے ہم سے یہ بدلے کہاں کہاں کے لیے

یہ دشتِ کرب و بلا ہے جنابِ خضر یہاں

ہے شرط تشنہ لبی عمرِ جاوداں کے لیے

بہے ہیں کس قدر آنسو چھپے ہیں کتنے ہی داغ

یہ جمع و خرچ ہے باقی حساب داں کے لیے

سکوتِ اہل سخن بھی ہے ایک طرزِ سخن

یہ نکتہ چھوڑ دیا میں نے نکتہ داں کے لیے

سخن کی تاب کہاں اب کہ دل ہے خوں ناصر

زبانِ تیر چلی ایک بے زباں کے لیے

18/3/1970

پاکستان ٹیلیویژن لاہور

رباعیات

گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے

اک مشرقِ نو سینے کے اندر کھل جائے

تصویر اگر کرب و بلا کی کھینچوں

اِک عرصہ قیامت کے برابر کھل جائے

تر آنکھ کروں معدِن گوہر کھل جائے

لوں سانس تو دروازۂ خاور کھل جائے

چپ بیٹھا ہوں مجلس میں عزا کی لیکن

رُو مال ہٹاؤں تو سمندر کھل جائے

کیا نقل کروں شامِ غریباں کی بہار

باقی تھے ابھی دھوپ کے کم کم آثار

بیٹھا تھا سرِ خیمہ کبوتر کوئی

مہتاب سے پر لال لہو سی منقار

موتی تری گفتار کے چنتا ہی رہوں

سر تیری ہر اِک بات پر دھُنتا ہی رہوں

اے کاش یہیں دَورِ فلک تھم جائے

تو کہتا رہے اور میں سنتا ہی رہوں

ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا

میخانہ سلامت رہے دائم تیرا

تجھ سا کوئی ساقی ہے نہ مجھ سا مے خوار

بھر دے بھر دے پیالہ بھر دے میرا

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جن سے اس کی فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید