اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


نشاطِ خواب ۔۔۔ ناصر کاظمی، جمع و ترتیب: اعجاز عبید

اسی نام کے مجموعے سے صرف ادبی نظموں کا انتخاب

نشاطِ خواب

از قلم

ناصر کاظمی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

نشاطِ خواب

(انتخاب نظم، نشاطِ خواب نامی مجموعے سے)

ناصر کاظمی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

مطلعِ اوّل

ہر کوچہ اِک طلسم تھا ہر شکل موہنی

قصہ ہے اس کے شہر کا یارو شنیدنی

تھا اِک عجیب شہر درختوں کی اوٹ میں

اب تک ہے یاد اس کی جگا جوت روشنی

سچ مچ کا اِک مکان پرستاں کہیں جسے

رہتی تھی اس میں ایک پری زاد پدمنی

اُونچی کھلی فصیلیں، فصیلوں پہ برجیاں

دیواریں سنگِ سرخ کی، دروازے چندنی

جھل جھل جھلک رہے تھے پسِ چادرِ غبار

خیمے شفق سے لال، چتر تخت کندنی

فوّارے چھوٹتے ہوئے مر مر کے صحن میں

پھیلی تھی جس کے گرد گلِ بانس کی بنی

ہر بوستاں کے پھول تھے اس عیش گاہ میں

ہر دیس کے پرندوں نے چھائی تھی چھاؤنی

جھرمٹ کبوتروں کے اُترتے تھے رنگ رنگ

نیلے، اُجال، جو گیے، گلدار، کاسنی

پٹ بیجنا سی انکھڑیاں گلِ چاندنی سے تاج

چونچوں میں خس کی تیلیاں پنجوں میں پینجنی

سارنگیاں سی بجتی تھیں جب کھولتے تھے پر

یکبار گونج اُٹھتی تھی سنسان کنگنی

اِستادہ اصطبل میں سبک سیر گھوڑیاں

ٹاپوں میں جن کی گرد ہو گردونِ گردنی

رہتی تھی اس نواح میں ایسی بھی ایک خلق

پوشاک جس کی دھُوپ تھی، خوراک چاندنی

کل رات اس پری کی عروسی کا جشن تھا

دیکھی تھی میں نے دُور سے بس اس کی روشنی

ہر ملک ہر دیار کے خوش وضع میہماں

بیٹھے تھے زیبِ تن کیے ملبوس درشنی

جلنے لگیں درختوں میں خوشبو کی بتیاں

پھر چھیڑ دی ہوائے نیستاں نے سمفنی

ہاتھوں میں رنگترے لیے سر پر صراحیاں

کچی نکور باندیاں نکلیں بنی ٹھنی

کشمش، چھوارے، کاغذی بادام، چار مغز

رکھے تھے رنگ رنگ کے میوے چشیدنی

مرغابیاں تلی ہوئیں، تیتر بھنے ہوئے

خستہ کباب سیخ کے اور نان روغنی

صندل، کنول، سہاگ پڑا، سہرا، عطر، پھول

لائی سجا کے تھال میں اک شوخ کامنی

شیشے اُچھال اُچھال کے گاتے تھے مغبچے

بیٹھی تھی شہ نشین پہ اک دختِ اَرمی

رقاصِ رنگ ناچتے پھرتے تھے صف بہ صف

دُولہا بنا گلال، بسنتی دُلہن بنی

سازوں کی گت پلٹ گئی، طبلے ٹھٹک گئے

پی کر شراب ناچ رہی تھی وہ کنچنی

انگارہ سا بدن جو دَمکتا تھا بار بار

گل منہ پہ ڈھانپ لیتے تھے کرنوں کی اوڑھنی

ہر دانگ باجنے لگے باجے نشاط کے

مردنگ، ڈھول، تان پرا، سنکھ سنکھنی

آکاش سے برس پڑے رنگوں کے آبشار

نیلے، سیہ، سفید، ہرے، لال، جامنی

اتنے میں ایک کفرِ سراپا نظر پڑا

پھرتی تھی ساتھ ساتھ لگی جس کے چاندنی

ماتھے پہ چاند، کانوں میں نیلم کی بالیاں

ہاتھوں میں سرخ چوڑیاں، شانوں پہ سوزنی

پلکیں دراز خطِ شعاعی سی تیز تیز

پتلی ہر ایک آنکھ کی ہیرے کی تھی کنی

ٹھوڑی وہ آئنہ سی کہ بس دیکھتے رہیں

جوبن کے گھاٹ پر وہ کنول دو شگفتنی

گردن بھڑکتی لو سی کہ جی چاہے جل مریں

کالے سیاہ بال کہ بد مست ناگنی

وہ اُنگلیاں شفق سی کہ ترشے ہوئے قلم

اُجلے روپہلے گال کہ ورقے نوشتنی

کندن سا رُوپ، دھوپ سا چہرہ، پون سی چال

دامن کشیدنی، لب و عارض چشیدنی

صورت نظر نواز، طبیعت ادا شناس

سو حسن ظاہری تو کئی وصف باطنی

پردے اُٹھا دیے تھے نگاہوں نے سب مگر

دل کو رہا ہے شکوۂ کوتاہ دامنی

اُڑ اُڑ کے راج ہنسوں نے جنگل جگا دیا

گھوڑوں کی رَتھ میں بیٹھ گئے جب بنا بنی

منہ دیکھتے ہی رہ گئے سب ایک ایک کا

منہ پھیر کر گزر گئی وہ راج ہنسنی

منظر مجھے ہوس نے دکھائے بہت مگر

ٹھہرا نہ دل میں حسن کا رنگِ شکستنی

تارا سحر کا نکلا تو ٹھنڈی ہوا چلی

نیند آ گئی مجھے کہ وہاں چھاؤں تھی گھنی

مطلعِ ثانی

دل کھینچتی ہے منزلِ آبائے رفتنی

جو اس پہ مر مٹے وہی قسمت کے تھے دھنی

وہ شیر سو رہے ہیں وہاں کاظمین کے

ہیبت سے جن کی گرد ہوئے کوہِ آہنی

شاہانِ فقر وہ مرے اجدادِ باکمال

کرتی ہے جن کی خاک بھی محتاج کو غنی

سر خم کیا نہ افسر و لشکر کے سامنے

کس مرتبہ بلند تھی اُن کی فروتنی

کرتی تھی ان کے سایۂ محمود میں قیام

قسمت مآبی، خوش نسبی، پاک دامنی

شب بھر مراقبے میں نہ لگتی تھی اُن کی آنکھ

دن کو تلاشِ رزق میں کرتے تھے جاں کنی

تھی گفتگو میں نرم خرامی نسیم کی

ہر چند وہ دلیر تھے تلوار کے دھنی

جاتے ہیں اب بھی اس کی زیارت کو قافلے

اُس در کے زائروں کو نہیں خوفِ رہزنی

اُس آستاں کی خاک اگر ضو فشاں نہ ہو

برجوں سے آسمان کے اُڑ جائے روشنی

ق

انبالہ ایک شہر تھا، سنتے ہیں اب بھی ہے

میں ہوں اُسی لٹے ہوئے قریے کی روشنی

اے ساکنانِ خطۂ لاہور! دیکھنا

لایا ہوں اُس خرابے سے میں لعلِ معدنی

جلتا ہوں داغِ بے وطنی سے مگر کبھی

روشن کرے گی نام مرا سوختہ تنی

خوش رہنے کے ہزار بہانے ہیں دہر میں

میرے خمیر میں ہے مگر غم کی چاشنی

یارب! زمانہ ممتحنِ اہلِ صبر ہے

دے اس دنی کو اور بھی توفیقِ دُشمنی

ناصر یہ شعر کیوں نہ ہوں موتی سے آبدار

اس فن میں کی ہے میں نے بہت دیر جانکنی

ہر لفظ ایک شخص ہے، ہر مصرع آدمی

دیکھو مری غزل میں مرے دل کی روشنی

شہر غریب

رات سنسان آدمی نہ دیا

کس سے پوچھوں تری گلی کا پتا

شہر میں بے شمار رَستے ہیں

کیا خبر تو کدھر گیا ہو گا

آج کس رُو سیاہ آندھی نے

سبز تاروں کا کھیت لوٹ لیا

تھم گئے ریت کے رواں چشمے

سو گیا گیت ساربانوں کا

آ رہی ہے یہ کس کے پاؤں کی چاپ

پھیلتا جا رہا ہے سناٹا

یہ مرے ساتھ چل رہا ہے کون

کس نے مجھ کو ابھی پکارا تھا

سامنے گھورتی ہیں دو آنکھیں

اور پیچھے لگی ہے کوئی بلا

ڈُوبی جاتی ہیں وقت کی نبضیں

آ رہی ہے کوئی عجیب ندا

اک طرف بے اماں اجاڑ مکاں

اک طرف سلسلہ مزاروں کا

سرنگوں چھتریاں کھجوروں کی

بال کھولے کھڑی ہو جیسے قضا

یہ دِیا سا ہے کیا اندھیرے میں

ہو نہ ہو یہ مکان ہے تیرا

دل تو کہتا ہے در پہ دستک دوں

سوچتا ہوں کہ تو کہے گا کیا

جانے کیوں میں نے ہاتھ روک لیے

یہ مجھے کس خیال نے گھیرا

کسی بے نام وہم کی دیمک

چاٹنے آ گئی لہو میرا

دشتِ شب میں اُبھر کے ڈوب گئی

کسی ناگن کی ہولناک صدا

تیرے دیوار و در کے سایوں پر

مجھ کو ہوتا ہے سانپ کا دھوکا

بوٹا بوٹا ہے سانپ کی تصویر

پتا پتا ہے سانپ کا ٹیکا

آسماں جیسے سانپ کی کنڈلی

تارا تارا ہے سانپ کا منکا

آ رہی ہے لکیر سانپوں کی

ہر گلی پر ہے سانپ کا پہرا

سانپ ہی سانپ ہیں جدھر دیکھو

شہر تیرا تو گڑھ ہے سانپوں کا

تیرے گھر کی طرف سے میری طرف

بڑھتا آتا ہے ایک سایا سا

دھوپ سا رنگ برق سی رفتار

جسم شاخِ نبات سا پتلا

پھول سا پھن چراغ سی آنکھیں

یہ تو راجا ہے کوئی سانپوں کا

ہاں مری آستیں کا سانپ ہے یہ

کیوں نہ ہو مجھ کو جان سے پیارا

ایک ہی پل میں یوں ہوا غائب

جیسے پانی سے عکس بجلی کا

کٹ گئی پھر مرے خیال کی رَو

شیشۂ خواب کار ٹوٹ گیا

ناگہاں سیٹیاں سی بجنے لگیں

رات کا شہر پل میں جاگ اُٹھا

آنکھیں کھلنے لگیں دریچوں کی

سانس لینے لگی خموش فضا

میں تو چپ چاپ چل رہا تھا مگر

شہر والوں نے جانے کیا سمجھا

تیری بستی میں اتنی رات گئے

کون ہوتا بھلا یہ میرے سوا

ارے یہ میں ہوں تیرا شہر غریب

تو گلی میں تو آ کے دیکھ ذرا

سوچتا ہوں کھڑا اندھیرے میں

تو نے دروازہ کیوں نہیں کھولا

میرا ساتھی مرا شریکِ سفر

رہ گیا پچھلی رات کا تارا

کہاں لے آئی تو مجھے تقدیر

میں کہاں آ گیا ہوں میرے خدا

یہاں پھلتا نہیں کوئی آنسو

یہاں جلتا نہیں کسی کا دیا

تیرا کیا کام تھا یہاں ناصر

تو بھلا اس نگر میں کیوں آیا

1954ء

نیا سفر

اندھیروں کی نگری سے پھوٹی کرن

مہکنے لگا خاک دانِ کہن

اُٹھا محملِ وقت کا سارباں

نئی منزلوں کو چلے کارواں

سریلی ہواؤں نے چھیڑا وہ راگ

لگی اوس سے خیمۂ گل میں آگ

صبا گل کی نس نس میں بسنے لگی

اُجالوں کی برکھا برسنے لگی

نئے پھول نکلے نئے روپ میں

زمیں جھمجھمانے لگی دھوپ میں

ترنجِ فلک کی ضیا پھیل کر

زرِ گل بچھانے لگی خاک پر

فضا جگمگائی گلِ سنگ سے

ہوا پھر گئی گردشِ رنگ سے

پہاڑوں سے لاوا نکلنے لگا

جگر پتھروں کا پگھلنے لگا

چمن در چمن وہ رمق اب کہاں

وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں

کراں تا کراں ظلمتیں چھا گئیں

وہ جلوے طبق در طبق اب کہاں

بجھی آتشِ گل اندھیرا ہوا

وہ اُجلے سنہرے ورق اب کہاں

سریلی ہواؤں میں رَس گھول کر

طیور اُڑ گئے بولیاں بول کر

زمیں بٹ گئی، آسماں بٹ گیا

چمن بٹ گیا، آشیاں بٹ گیا

نکلنے لگا آبشاروں سے دُود

ہوا قلزمِ ماہ جل کر کبود

پہاڑوں میں میداں میں جنگل میں آگ

سمندر میں خشکی میں جل تھل میں آگ

گرجنے لگیں آگ کی بدلیاں

جھلسنے لگیں پیاس سے کھیتیاں

وہ آندھی چلی دَورِ آلام کی

کہ رُکنے لگی نبض ایام کی

اُٹھے یوں نجیبانِ انجم سپاہ

گرا ہار کر تاش کا بادشاہ

رہِ جستجو مختصر ہو گئی

ہمالہ کی چوٹی بھی سر ہو گئی

پرانی بہاریں قفس میں گئیں

وہ انساں گئے اور وہ رسمیں گئیں

نئی گردشوں میں گھرا آسماں

زمینِ کہن پر گرا آسماں

’’ہوا ایک جنگل میں آ کر گزر

کسو کو نہیں یاں کسو کی خبر‘‘

ہوا نوحہ گر دشتِ شب کا نقیب

صدا اس کی پرہول، صورت عجیب

یہ وحشی جہاں محوِ فریاد ہو

وہاں کوئی بستی نہ آباد ہو

جہاں گھر بنائے یہ خانہ خراب

وہاں کے مکینوں کو آئے نہ خواب

سرِ شام بستی میں رونے لگے

مگر دن نکلتے ہی سونے لگے

پرانی حویلی کی دیوار پر

کرے ہاؤ ہو ہاؤ ہو رات بھر

پھڑکتا رہا اور روتا رہا

بھرے شہر کی نیند کھوتا رہا

کسی منچلے نے جو دیکھا اُدھر

اُڑایا اُسے کنکری مار کر

اُٹھی اک صدا بام کے متصل

جسے سن کے پھٹ جائے پتھر کا دِل

لیے چونچ میں کنکری اُڑ گیا

گھنے جنگلوں کی طرف مڑ گیا

بلندی سے آخر گرایا اُسے

کسی آبجو میں بہایا اُسے

نہ پھر شہر کی سمت آیا کبھی

وہ نوحہ نہ اُس نے سنایا کبھی

اِدھر فکر سے جان گھلنے لگی

خیالوں کی کھڑکی سی کھلنے لگی

نظر آیا ملکِ سخن کنکری

غزل کنکری اور بھجن کنکری

گھلی کنکری اور پانی ہوئی

پئے گوشِ عبرت کہانی ہوئی

پلٹ کر جو دیکھا سماں اور تھا

کہ پردے میں فتنہ نہاں اور تھا

نیا شور لے کر جمودی اُٹھے

سخن ور گئے اور نمودی اُٹھے

چٹخنے لگے یوں زباں پر سخن

جلے جیسے سوکھے درختوں کا بن

’’نہ بلبل غزل خواں نہ طیروں کا شور

سبھی دیکھتے میر کے منہ کی اَور‘‘

نہاں رازِ مطلوب و طالب رہا

ہر آواز پر میر غالب رہا

بجھے یوں اجالوں میں تیرہ ضمیر

پریشاں ہو جیسے دھُوئیں کی لکیر

نہ چشمِ بصیرت نہ ذوقِ ہنر

ہوئیں ساری اقدار زیر و زبر

رہ و رسمِ اجداد سے کٹ گئے

ہم اپنی روایات سے کٹ گئے

یہاں میر و غالب کا فن کیا کرے

سخن ساز عرضِ سخن کیا کرے

اُجڑتا رہا بوستانِ ادب

مگر پھول کھلتے رہے زیرِ لب

تصوّر کی تیغِ دو دَم چوم کر

چھپے کنج میں ہم، قلم چوم کر

مجھے شورِ چرخ و زمیں لے گیا

تصوّر کہیں سے کہیں لے گیا

بدلنے لگی آسمانوں کی لے

نیا چاند اُترا سرِ برگِ نے

زمیں اجنبی آسماں اجنبی

سفر اجنبی کارواں اجنبی

خنک نیلے نیلے بحیرے کہیں

بحیروں کے اندر جزیرے کہیں

خنک پانیوں پر سفینے رواں

سفینوں پہ اُڑتے ہوئے بادباں

شرابور رستے، معطر فضا

شجر خوب صورت، ثمر خوش نما

سنیلے مکاں اور سجیلے مکیں

مکیں جن کی چھب دل رُبا دل نشیں

کہیں بدلیاں گیت گاتی ہوئیں

کہیں بارشیں گنگناتی ہوئیں

کسی مدھ بھری صبح کی آس میں

شتر مرغ دبکے ہوئے گھاس میں

کہیں پیچ در پیچ بیلوں کے جال

کہیں گھاٹیوں میں رمیدہ غزال

فضا در فضا پھول سی تتلیاں

پروں پر اُٹھائے ہوئے گلستاں

کہیں منزلوں کے دھواں دھار گھیر

کہیں سونے سنسان رستوں کے پھیر

کہیں گردِ مہتاب اُڑتی ہوئی

نشیبوں میں بل کھا کے اُڑتی ہوئی

ہوا تازہ رس پھول چنتی ہوئی

زمیں اَن سنے راگ بنتی ہوئی

ستارے گئے ظلمتوں کو لیے

چٹخنے لگے شاخچوں پر دِیے

کھلا جنت صبح کا در کھلا

بہ آوازِ اللہ اکبر کھلا

مہکنے لگیں دھان کی کھیتیاں

کہ ابرِ بہاری برس کر کھلا

چلے مدتوں کے رُکے راہ رو

کوئی پا برہنہ، کوئی سر کھلا

جنھیں پانیوں میں اُترنا پڑے

وہ ہاتھوں میں رکھتے ہیں خنجر کھلا

لرزنے لگی تنگنائے سخن

کہ شاہینِ معنی کا شہپر کھلا

نئی رُت نے چھیڑا نیا ارغنوں

فضا میں جھلکتا ہے لمحوں کا خوں

ہوے نغمہ زن طائرانِ چمن

کہ عرصے میں اُترے ہیں اہلِ سخن

وہ درویشِ گلگوں قبا آ گئے

وہ رندانِ خونیں نوا آ گئے

نئے دن کا سورج دَمکنے لگا

زمیں کا ستارہ چمکنے لگا

جولائی 54ء

بارش کی دُعا

اے داتا بادل برسا دے

فصلوں کے پرچم لہرا دے

دیس کی دولت دیس کے پیارے

سوکھ رہے ہیں کھیت ہمارے

ان کھیتوں کی پیاس بجھا دے

اے داتا بادل برسا دے

یوں برسیں رحمت کی گھٹائیں

داغ پرانے سب دھُل جائیں

اب کے برس وہ رنگ جما دے

اے داتا بارش برسا دے

کھیتوں کو دانوں سے بھر دے

مردہ زمیں کو زندہ کر دے

تو سنتا ہے سب کی دعائیں

داتا ہم کیوں خالی جائیں

ہم کو بھی محنت کا صلہ دے

اے داتا بادل برسا دے

2/2/1967

گجر پھولوں کے

اک کرن چشم و چراغِ دلِ شب

کیوں اسے خونِ رگِ دل نہ کہوں

رقص کرتی ہے کبھی شیشوں پر

کبھی روزن سے اُتر آتی ہے

کبھی اِک جامۂ آویزاں کی

نرم سلوٹ کے خنک گوشوں میں

گیت بنتی ہے گجر پھولوں کے

ساتواں رنگ

بال کالے، سفید برف سے گال

چاند سا جسم، کوٹ بادل کا

لہریا آستین، سرخ بٹن

کچھ بھلا سا تھا رنگ آنچل کا

اب کے آئے تو یہ ارادہ ہے

دونوں آنکھوں سے اس کو دیکھوں گا

٭٭٭

تشکر: یاور ماجد جن سے اس کی فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید