دعوت فکر دینے والی ایک اور کتاب
احادیث کا شرعی جواز احادیث کی روشنی میں
از قلم
ابو حیان سعید
(ادارہ کا مصنف کی آراء سے اتفاق کرنا ضروری نہیں)
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
احادیث کا شرعی جواز احادیث کی روشنی میں
ابو حیان سعید
(ادارہ کا مصنف کی آراء سے اتفاق کرنا ضروری نہیں)
کیا پوچھ سکتے ہیں کہ احادیث کو رد کرنے اور دوسری صحاحِ ستہ کی احادیث کو شرف قبولیت بخشنے کا معیار کیا ہے؟
کس نے یہ معیار مقرر کیا ہے؟
اس کی بنیاد کیا ہے؟
صرف موضوعات کی بنیاد پر یا راویان کے نسب حسب کی وجہ ہے؟
کیا صحاحِ ستہ کی بقایا احادیث کو کماحقہ تجزیہ کے بعد صحیح کا درجہ دے دیا ہے اس کے بعد کوئی معترض نہیں ہو گا؟
برائے مہربانی سوالات کو مد نظر رکھ کر جواب دینا۔
میرے محترم دوست حیدر ملک صاحب نے حدیث رسولﷺ کے بارے میں چند انتہائی اہم بنیادی سوالات پوچھے۔ جناب حیدر ملک کے تمام سوالات، میں جامع انداز میں مختصر جواب دینا چاہتا ہوں۔
میں حدیث رسولﷺ کے جواز کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں اور احادیث سے ہی اس کی دلیل پیش کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن میں یہ مانتا اور سمجھتا ہوں کہ احادیث رسول کریمﷺ کے دور کی تاریخ ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ میرے دوست کو اس کے زیادہ تر سوالات کے جواب مل جائیں گے۔
آئیے پہلے شروع کرتے ہیں:
رسول کریمﷺ کے دور میں فیصلے کیسے ہوتے تھے۔
تاریخ میں جھانکیں تو حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ رسول کریمﷺ کے دور میں فیصلے کیسے ہوئے …۔
سنن ترمذی #1327
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَکیعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِی عَوْنٍ الثَّقَفِی، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِ مُعَاذٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْیمَنِ، فَقَالَ: کیفَ تَقْضِی؟ فَقَالَ: أَقْضِی بِمَا فِی کتَابِ اللَّهِ۔ قَالَ: فَإِنْ لَمْ یکنْ فِی کتَابِ اللَّهِ؟ قَالَ: فَبِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ۔ قَالَ: فَإِنْ لَمْ یکنْ فِی سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: أَجْتَهِدُ رَأْیی، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ۔
رسول اللہﷺ نے معاذ کو (قاضی بنا کر) یمن بھیجا، تو آپ نے پوچھا: ’’تم کیسے فیصلہ کرو گے؟‘‘، انہوں نے کہا: میں اللہ کی کتاب سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: ’’اگر (اس کا حکم) اللہ کی کتاب (قرآن) میں موجود نہ ہو تو؟‘‘ معاذ نے کہا: تو رسول اللہﷺ کی سنت سے فیصلے کروں گا، آپ نے فرمایا: ’’اگر رسول اللہﷺ کی سنت میں بھی (اس کا حکم) موجود نہ ہو تو؟‘‘، معاذ نے کہا: (تب) میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ کا شکر ہے جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو توفیق بخشی‘‘۔
تبصرہ: یہ روایت ’حدیث معاذؓ‘ کے نام سے بہت مشہور ہے۔ حنفیوں کو یہ روایت بہت پسند ہے لیکن اہل حدیث سلفیوں نے اس روایت کو ’ضعیف‘ کہہ کر رد کیا ہے، لیکن کیوں؟، اس روایت میں لفظ ’أَجْتَهِدُ رَأْیی‘ استعمال ہوا ہے۔ لفظ ’أَجْتَهِدُ رَأْیی‘ (رائے سے اجتہاد) اہلحدیث سلفیوں کے نزدیک قابل نفرت ہے، اسی لیے ناصر الدین البانی اور حافظ زبیر علی زئی اسے ضعیف سمجھتے ہیں۔
سنن ابو داؤد # 3583
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کثِیرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْیانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ زَینَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّکمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَی، وَلَعَلَّ بَعْضَکمْ أَنْ یکونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ فَأَقْضِی لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَیتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِیهِ بِشَیءٍ فَلَا یأْخُذْ مِنْهُ شَیئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّار۔
ام المؤمنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں، تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہو سکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں۔
سنن ابو داؤد #3585
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِیمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِی، أَخْبَرَنَا عِیسَى، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ سَلَمَةَ، عَنِ النَّبِی صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ، بِهَذَا الْحَدِیث، قَالَ: یخْتَصِمَانِ فِی مَوَارِیثَ وَأَشْیاءَ قَدْ دَرَسَتْ، فَقَالَ: إِنِّی إِنَّمَا أَقْضِی بَینَکمْ بِرَأْیی فِیمَا لَمْ ینْزَلْ عَلَی فِیهِ۔
اس سند سے بھی ام المؤمنین ام سلمہؓ سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ دونوں ترکہ اور کچھ چیزوں کے متعلق جھگڑ رہے تھے جو پرانی ہو چکی تھیں، تو آپﷺ نے فرمایا:
میں تمہارے درمیان اپنی رائے سے فیصلہ کرتا ہوں جس میں مجھ پر کوئی حکم نہیں نازل کیا گیا ہے
تاریخ سے ایک صفحہ
امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ (متوفی 40 ہجری) کے پاس حدیث کا ایک نسخہ بھی تھا جس کا نام ’صحیفہ علی‘ تھا۔
صحیح بخاری حدیث نمبر 111
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، قَالَ : أَخْبَرَنَا وَکیعٌ، عَنْ سُفْیانَ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِی، عَنْ أَبِی جُحَیفَةَ، قَالَ : قُلْتُ لِعَلِی : هَلْ عِنْدَکمْ کتَابٌ؟ قَالَ : لَا، إِلَّا کتَابُ اللَّهِ، أَوْ فَهْمٌ أُعْطِیهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ أَوْ مَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ، قَالَ : قُلْتُ، فَمَا فِی هَذِهِ الصَّحِیفَةِ؟ قَالَ : الْعَقْلُ وَفَکاک الْأَسِیرِ، وَلَا یقْتَلُ مُسْلِمٌ بِکافِرٍ۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابو حجیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علیؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔
آئیے صحیح مسلم سے حدیث کے متعلق اندرونی شواہد دیکھتے ہیں۔
عبد اللہ بن عباسؓ کی وفات 68 ہجری میں ہوئی، برائے مہربانی اس روایت کو غور سے پڑھیں کہ ابن عباسؓ کی وفات 68 ہجری سے پہلے جعلی حدیثیں تیزی سے پھیل رہی تھیں اور اصحاب رسول کریمﷺ نے جعلی اور من گھڑت احادیث کو کیسے نظر انداز کیا؟
صحیح مسلم نمبر 21
حَدَّثَنِی أَبُو أَیوبَ سُلَیمَانُ بْنُ عُبَیدِ اللَّهِ الْغَیلَانِی، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ یعْنِى الْعَقَدِی، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، عَنْ قَیسِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ : جَاءَ بُشَیرٌ الْعَدَوِی إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَجَعَلَ یحَدِّثُ، وَیقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ ابْنُ عَبَّاسٍ، لَا یأْذَنُ لِحَدِیثِهِ وَلَا ینْظُرُ إِلَیهِ۔ فَقَالَ : یا ابْنَ عَبَّاسٍ، مَالِی لَا أَرَاک تَسْمَعُ لِحَدِیثِی، أُحَدِّثُک عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَسْمَعُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : ’’إِنَّا کنَّا مَرَّةً إِذَا سَمِعْنَا رَجُلًا‘‘، یقُولُ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ ابْتَدَرَتْهُ أَبْصَارُنَا، وَأَصْغَینَا إِلَیهِ بِآذَانِنَا، فَلَمَّا رَکبَ النَّاسُ الصَّعْبَ وَالذَّلُولَ، لَمْ نَأْخُذْ مِنَ النَّاسِ إِلَّا مَا نَعْرِفُ۔
مجاہد سے روایت ہے بشیر بن کعب عدوی سیدنا ابن عباسؓ کے پاس آئے اور حدیث بیان کرنے لگے اور کہنے لگے کہ رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا ہے ابن عباسؓ نے کان نہ رکھا ان کی طرف نہ دیکھا ان کو۔ بشیر بولے اے ابن عباس! تم کو کیا ہوا جو میری بات نہیں سنتے۔ میں حدیث بیان کرتا ہوں رسول اللہﷺ سے اور تم نہیں سنتے۔ سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ ایک وہ وقت تھا جب ہم کسی شخص سے یہ سنتے کہ رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا تو اسی وقت اس طرف دیکھتے اور کان اپنے لگا دیتے۔ پھر جب لوگ بری اور اچھی راہ چلنے لگے (یعنی غلط روایتیں شروع ہو گئیں) تو ہم لوگوں نے سننا چھوڑ دیا مگر جس حدیث کو ہم پہچانتے ہیں (اور ہم کو صحیح معلوم ہوتی ہے تو اس کو سن لیتے ہیں)۔
امام بخاری کا دعویٰ
’’میں نے اپنی کتاب میں کوئی ایسی حدیث داخل نہیں کی ہے جو صحیح نہ ہو، مگر بہت سی صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں تا کہ کتاب طویل نہ ہو جائے۔‘‘ (تاریخ بغداد، ج 2 ص 8 – 9، تہذیب النووی ج 1، ص 74، طبقات السبکی ج 2 ص 7) بلکہ ایک اور موقع پر وہ اس کی تصریح بھی کرتے ہیں کہ ’’میں نے جو صحیح حدیثیں چھوڑ دی ہیں وہ میری منتخب کردہ حدیثوں سے زیادہ ہیں۔‘‘ اور یہ کہ ’’مجھے ایک لاکھ صحیح حدیثیں یاد ہیں۔‘‘ (شروط الائمۃ الخمسہ، ص 49)
تبصرہ: میرے خیال میں امام بخاری اس زمانے کے سپر کمپیوٹر تھے یا وہ بادام بہت زیادہ کھاتے تھے۔ ان سے جڑی مضحکہ خیز کہانیاں۔
انکار حدیث کا آغاز کیسے اور کب ہوا؟
تاریخ میں ہم پڑھتے ہیں کہ احادیث رسولﷺ بعض صحابہ کرامؓ نے تھوڑی مقدار میں، خاص حالات میں، لو پروفائل پر حدیثیں لکھی اور جمع کیں۔ یہ دلیل بھی درست ہے کہ حدیث کی تالیف تیسری صدی ہجری میں بہت زیادہ مقدار میں شروع ہوئی۔
ام المومنین عائشہ بنت ابوبکرؓ جمع کردہ احادیث کا مجموعہ
وہ ہجرت سے 19 سال قبل مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں، وہ امیر المومنین ابوبکر صدیقؓ کی چھوٹی بیٹی تھیں۔ عائشہؓ وہ واحد کنواری تھیں جن سے رسول اللہﷺ نے شادی کی تھی۔
بیوی اور قریبی ساتھی کی حیثیت سے ام المومنین عائشہ بنت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ سے علم اور بصیرت حاصل کی جو کسی عورت نے حاصل نہیں کی۔ وہ تاریخ کی سب سے زیادہ سیکھنے والی مسلم فقیہہ تھیں۔ آپ کا انتقال 17 رمضان المبارک 57 ہجری کو ہوا اور بقیع قبرستان میں دفن ہوئیں۔
انہوں نے تقریباً 2200 احادیث بیان کیں جیسا کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ سے سنی۔
یہ بہت حیران کن بات ہے کہ بخاری نے عائشہ صدیقہؓ سے صرف 741 احادیث لی ہیں اور 1250 سے زائد رد کی ہیں، دوسری طرف مسلم نیشا پوری نے ان سے 503 احادیث لی ہیں اور 1690 سے زائد روایتوں کو رد کیا ہے۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے ام المومنین عائشہ بنت ابوبکرؓ کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کا مخطوطہ
رسول اللہﷺ کے ایک معروف صحابی، جن کا نام عبد اللہ بن عمرو بن العاص (متوفی 63 ہجری) ہے، نے ایک مخطوطہ تیار کیا تھا جس میں انہوں نے رسول اللہﷺ سے براہ راست روایت کی تھی۔
نبیﷺ سے سنا مخطوطۃ ’صحیفہ الصادقہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔
ابن عباسؓ کے شاگرد مجاہد ابن جبر، (21-103ھ) کہتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کے پاس ایک مخطوطہ دیکھا تو میں نے اس کے بارے میں پوچھا۔ اس نے کہا: یہ الصادقہ ہے اور اس میں وہ ہے جو میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، اور اس میں میرے اور پیغمبر کے درمیان کوئی نہیں ہے۔
ابن سعد طبقہ الکبری دارالصدر 2/373
یہ ’صحیفہ صادقہ‘ بعد میں ان کے پوتے عمرو بن شعیب (متوفی 118ھ) کو منتقل ہوئی، اگرچہ یہ کتاب آج موجود نہیں ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی نے نقل کیا ہے کہ: ’’جب عمرو بن شعیب اپنے دادا سے اپنے والد کے ذریعے روایت کرتے ہیں تو یہ (اس) کتاب سے ہے۔‘‘ (تہذیب التہذیب 8/49)
صحیفہ صادقہ میں حدیث کی تعداد کے بارے میں اختلاف ہے۔ متعدد محدثین نے بتایا ہے کہ صحیفہ صادقہ میں ابی ہریرہؓ سے زیادہ روایتیں ہیں (ابوہریرہؓ نے 5374 حدیث روایت کی ہے) ڈاکٹر حمید اللہ نے بتایا کہ اس کتاب میں تقریباً 10000 (دس ہزار) احادیث ہیں۔ (تاریخ حدیث از ڈاکٹر حمید اللہ، صفحہ نمبر 25) لیکن بعض نے اس میں تقریباً 700 روایات کا بیان کیا ہے، میں آخری بیان پر بحث کرتا ہوں۔
عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ نے رسول اللہﷺ سے تقریباً 700 روایتیں نقل کی ہیں۔ امام بخاری نے صرف 64 حدیثیں لی ہیں اور امام مسلم نے ان سے 56 احادیث لی ہیں۔ امام بخاری نے 636 احادیث کو رد کیا اور امام مسلم نے 646 احادیث کو رد کیا۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے صحابی رسول کریم عبد اللہ بن عمرو بن العاص (متوفی 63 ہجری) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ
امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ (متوفی 40 ہجری) آپ کے پاس حدیث کا ایک نسخہ تھا جس کا نام ’صحیفہ علی‘ تھا۔
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوحجیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علیؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ (بخاری# 111)
علی بن ابی طالبؓ نے ’صحیفہ علیؓ‘ میں رسول کریمﷺ سے 586 احادیث روایت کی ہیں۔ امام بخاری نے 95 احادیث لی ہیں جب کہ انہوں نے 491 حدیثوں کو رد کیا۔ امام مسلم نے 51 حدیثیں لی ہیں جب کہ انہوں نے 532 احادیث کو رد کیا۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے امیر المومنین علیؓ (متوفی 40 ہجری) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
ابوہریرہؓ کی روایات کی تالیفات
ابوہریرہؓ (متوفی: 59ھ) کو روایت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔
تاریخ میں ہم پڑھتے، سنتے ہیں کہ ابوہریرہؓ نے رسول کریمﷺ سے تقریباً 5374 احادیث روایت کی ہیں۔ یہ احادیث کی ایک بڑی تعداد تھی جو ابوہریرہؓ نے 3 سال کے اندر جمع کی تھی۔
(جامع بیان العلم، حدیث 422)
ایک پراسرار چیز جو مجھے احادیث کے ذخیرے کا اتنی بار مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتی ہے کہ امام بخاری نے ابوہریرہ سے 1004 احادیث لیں اور 4370 احادیث کو رد کیا۔ امام مسلم نے 1121 حدیثیں لیں اور 4253 حدیثیں رد کیں۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے ابوہریرہؓ (متوفی: 59ھ) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
انس بن مالکؓ کا مخطوطہ
انس بن مالک (متوفی 92ھ) کے پاس حدیث کا اپنا نسخہ تھا جو انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا۔
معبد بن ہلال تابعی کہتے ہیں کہ جب ہم لوگ انس بن مالکؓ کے پاس تھے تو وہ ہمارے پاس ایک نسخہ لے کر آئے اور کہا میں نے اسے رسول اللہﷺ سے سنا تو میں نے اسے لکھا اور آپﷺ کو پیش کیا۔ (مستدرک الحاکم، حدیث 6452)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ کم عمر صحابہ کرام نے حضورﷺ کے دور حیات میں ہی احادیث کے ذاتی مجموعے بنانا شروع کیے تھے، لیکن بہت کم۔
انس بن مالکؓ نے رسول کریمﷺ سے 2286 احادیث روایت کی ہیں۔ امام بخاری نے 792 احادیث لیں جب کہ انہوں نے 1490 حدیثوں کو رد کیا۔ امام مسلم نے 558 احادیث لیں جب کہ انہوں نے 1728 احادیث کو رد کیا۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے انس بن مالکؓ (متوفی 92ھ) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
عبد اللہ بن عباسؓ کی کتب
ایک اور معروف صحابی اور رسول کریمﷺ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ ابن عباس (متوفی 68 ہجری) رسول کریمﷺ کی وفات کے وقت ابن عباس کی عمر 13 سال تھی۔
موسیٰ بن عقبہ، تابعی (55-141 ہجری) کہتے ہیں: ’’کریب بن ابی مسلم (متوفی 98 ہجری سے پہلے)، ابن عباس کے آزاد کردہ غلام نے ابن عباس کی کتابیں جو اونٹ کے بوجھ کے برابر تھیں ہمارے سامنے رکھ دیا۔‘‘ (ابن سعد کی طبقات الکبریٰ 5/293)
موسیٰ بن عقبہ کا اونٹ کا بوجھ ایک مضحکہ خیز خیال ہے۔
سوال یہ ہے کہ ابن عباس نے اسٹیل پلیٹوں پر احادیث لکھیں؟
عبد اللہ بن عباسؓں نے رسول کریمﷺ سے 1660 احادیث روایت کی ہیں۔ امام بخاری نے 321 احادیث لیں جب کہ انہوں نے 1339 احادیث کو رد کیا۔ امام مسلم نے 594 احادیث لیں جب کہ انہوں نے 1066 احادیث کو رد کیا۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے عبد اللہ بن عباسؓ (متوفی 92ھ) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
عبد اللہ بن مسعودؓ کا مخطوطہ
صحابی رسول اللہ، ایک پر جوش فوجی کمانڈر عبد اللہ بن مسعودؓ (متوفی 32 ہجری)، ان کا نسخہ احادیث بھی تھا۔
عبد الرحمٰن بن عبد اللہ بن مسعود کے پاس ایک کتاب تھی اور انہوں نے قسم کھائی کہ ’’بے شک میرے والد نے اسے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے‘‘۔ (399، جامع بیان العلم)
عبد اللہ بن مسعود نے رسول اللہﷺ سے 848 روایتیں نقل کی ہیں۔ جیسا کہ میں نے حساب کیا کہ امام بخاری نے صرف 219 احادیث لی ہیں اور امام مسلم نے ان سے 133 احادیث لی ہیں۔ امام بخاری نے 629 احادیث کو رد کیا اور امام مسلم نے 715 احادیث کو رد کیا۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے عبد اللہ بن مسعودؓ (متوفی 32 ہجری) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
ابو سعید الخدریؓ کی روایتیں
جب رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے تو ابو سعید خدریؓ کی عمر تقریباً پانچ سال تھی۔
ابو سعید الخدریؓ (متوفی 74ھ) کا تعلق بنی خزرج سے ہے۔ وہ رسول کریمﷺ کے ایک نوجوان ساتھی تھے۔ ابو سعید خدری نے رسول کریمﷺ سے 1170 احادیث روایت کی ہیں۔
ابو سعید الخدریؓ نے 1170 حدیثیں بیان کیں لیکن امام بخاری نے 180 حدیثیں لیں اور 990 احادیث کو رد کیا۔ امام مسلم نے 204 حدیثیں لیں اور 966 احادیث کو رد کیا
جابر بن عبد اللہؓ کا مخطوطہ
جابر بن عبد اللہؓ ہجرت سے پندرہ سال پہلے مدنیہ میں پیدا ہوئے۔ جابر بن عبد اللہؓ (متوفی 70ھ) نے حج کے متعلق احادیث روایت کی ہیں۔
مجاہد، تابعی نے جابر کے نسخے سے روایت کی ہے۔ (طبقات الکبری 5/467)
جابر بن عبد اللہؓ نے رسول اللہﷺ سے تقریباً 1540 روایتیں نقل کی ہیں۔ جیسا کہ میں نے تلاش کیا امام بخاری نے جابر بن عبد اللہؓ سے 281 احادیث لی ہیں اور امام مسلم نے ان سے 445 احادیث لی ہیں۔ امام بخاری نے 1259 احادیث کو رد کیا ہے اور امام مسلم نے 1095 احادیث کو رد کیا ہے۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے جابر بن عبد اللہؓ (متوفی 70ھ) کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
عبد اللہ بن عمرؓ
عبد اللہ بن عمرؓ، متوفی: (73) ہجری۔ آپ ہجرت سے 10 سال پہلے پیدا ہوئے اور چھوٹی عمر میں اپنے والد امیر المومنین عمر بن الخطابؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کر گئے۔ ان کے پاس حدیث کی ایک کتاب تھی۔
انہوں نے رسول اللہﷺ سے 1630 حدیثیں روایت کیں۔
عبد اللہ بن عمرؓ نے 1630 حدیثیں بیان کیں لیکن امام بخاری نے 81 حدیثیں لیں اور 1549 احادیث کو رد کیا۔ امام مسلم نے 32 حدیثیں لیں اور 1598 احادیث کو رد کیا۔
بخاری اور مسلم نیشاپوری نے عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت کردہ احادیث رسول کا انکار کیوں کیا؟
آئیے بخاری اور مسلم نیشاپوری کے دو مشہور اساتذہ کی طرف آتے ہیں جن کے پاس مسند کہلانے والی روایت کا اپنا مجموعہ ہے۔
اسحاق بن راہویہ 161 ~ 238ھ
اسحاق بن راہویہ کا ’مسند اسحاق بن راہویہ‘ کے نام سے حدیث کا اپنا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب 2425 احادیث کا مجموعہ ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ اسحاق بن راہویہ نے ابوہریرہؓ سے صرف 543 حدیثیں لیں اور ابوہریرہؓ سے ہزاروں حدیثیں رد کیں، اسی طرح اسحاق بن راہویہ نے عائشہ صدیقہؓ سے 1272 حدیثیں لیں اور عائشہؓ سے 900 سے زائد احادیث کو رد کیا۔
دوسرے سرے پر ایک انتہائی خوفناک حالت یہ تھی کہ امام بخاری نے اپنے استاد اسحاق بن راہویہ سے صرف 51 احادیث لیں اور امام مسلم نے اپنے استاد اسحاق بن راہویہ سے 66 احادیث لیں، ان کی مسند میں 2425 احادیث ہیں، یعنی امام بخاری اور امام مسلم نے اپنے استاد اسحاق بن راہویہ کی ہزاروں احادیث کو رد کیا ہے۔ ان کے استاد اسحاق بن راہویہ ابوہریرہؓ اور عائشہ صدیقہؓ کی ہزاروں حدیثوں کو رد کرتے ہیں۔
ابوبکر عبد اللہ بن زبیر الحمیدی 150 ~ 219 ہجری
علوم حدیث میں الحمیدی کے نام سے مشہور امام بخاری کے استاد تھے۔ ان کی کتاب ’مسند الحمیدی‘ کے نام سے مشہور ہے۔
عبد اللہ بن الزبیر الحمیدی ایک حافظ، فقیہ شافعی فقہ کے عالم اور الحرام کے شیخ تھے۔ انہوں نے خود امام شافعی کی مجلس میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے سفیان بن عیینہ اور فضیل بن عیاض سے بھی احادیث کا مطالعہ کیا اور روایت کی۔ حدیث کی طرح فقہ میں بھی امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ امام شافعی سے اس فن میں خصوصی مہارت پیدا کی۔ جب امام شافعی مصر گئے تو حمیدی بھی ان کے ساتھ رہے اس طرح وہ امام صاحب کے بکثرت اجتہاد کے امین بن گئے۔ امام شافعی کی وفات کے بعد مصر سے پھر مکہ واپس آ گئے اور وہاں مفتی و فقیہ کی حیثیت سے بڑی شہرت پائی۔ امام شافعی فرماتے کہ میں نے الحمیدی سے بڑھ کر حافظ محدث نہیں دیکھا انہوں نے سفیان بن عیینہ سے 10000 (دس ہزار) حدیثیں نقل کیں امام احمد حنبل فرماتے الحمیدی ہم میں امام ہیں۔ ان کے شاگردوں میں بخاری، نسائی، ترمذی، ابو زرعہ الرازی اور ابو حاتم الرازی شامل تھے۔ 219ھ میں مکہ میں وفات پائی۔
مسند الحمیدی میں 1360 احادیث ہیں۔ حمیدی نے اپنی کتاب میں ابوہریرہؓ سے 254 احادیث، عائشہ صدیقہؓ سے 136 احادیث اور عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ سے 20 حدیثیں لی ہیں۔
الحمیدی نے ابوہریرہؓ، عائشہ صدیقہؓ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص وغیرہ کی ہزاروں حدیثوں کو رد کیا۔
یہ بہت حیران کن بات ہے کہ بخاری نے اپنے استاد حمیدی سے صرف 75 روایتیں لیں اور اپنے استاد حمیدی کی 1250 روایتوں کا انکار کیا۔
امیر المومنین عمر بن الخطابؓ نے حدیث لکھنے اور روایت کرنے پر پابندی لگا دی۔
محمد حسین ہیکل
کتاب ’سیدنا عمر الفاروق‘
عمر ابن الخطاب نے ایک بار حدیث کو تحریر کرنے کے مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جن صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا، انہوں نے اس خیال کی حوصلہ افزائی کی، لیکن انھیں اس بات کا زیادہ یقین تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ ایک دن انہوں نے اپنا ذہن بنا لیا اور اعلان کیا: ’’میں نبیﷺ کی روایات لکھنا چاہتا تھا، لیکن مجھے خدشہ ہے کہ خدا کی کتاب کو پسِ پشت ڈال دیا جائے گا۔ لہذا میں اس کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘
لہذا انہوں نے اپنا خیال بدل لیا اور صوبوں میں مسلمانوں کو ہدایت دی: ’’جس کے پاس نبیﷺ کی کوئی روایت لکھی ہو وہ اسے ختم کر دے۔‘‘ لہذا حدیث زبانی طور پر پھیلتی رہی اور اسے المامون (190 ھ سے 218ھ تک حکومت کی) کے عہد تک جمع نہیں کیا گیا۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ
ذہبی نے بیان کیا: امیر المومنین ابوبکرؓ نے ایک کتاب مرتب کی، جس میں پیغمبر کی 500 روایات تھیں، اور اسے اپنی بیٹی عائشہ کے حوالے کر دیا۔ اگلی صبح انہوں نے اسے واپس لیا اور اسے جلا دیا، یہ کہتے ہوئے کہ: ’’میں نے وہ لکھا ہے جو کچھ میں نے سمجھا تھا لیکن یہ ممکن ہے کہ اس میں کچھ ایسی چیزیں ہوں جو نبی کے بیان کردہ الفاظ کے ساتھ مناسبت نہ رکھتی ہوں۔‘‘ تذکرۃ الحفاظ جلد # 1، صفحہ # 9 ~ 11۔
امیر المومنین عمرؓ کے بارے میں، ہم معمر بن راشد کے حوالے سے یہ سیکھتے ہیں کہ آپ کی خلافت کے دوران میں، عمر نے ایک بار حدیث کی سند کے موضوع پر صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا۔ ہر ایک نے اس نظریہ کی تائید کی۔
اس کے باوجود امیر المومنین عمرؓ ہچکچاتے رہے اور ہدایت اور روشنی کے لئے پورے مہینے خدا سے دعا کرتے رہے۔
آخر کار، یہ کام نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اور کہا: ’’پچھلی قوموں نے کتاب الٰہی کو نظر انداز کیا اور صرف انبیاء کے طرز عمل پر ہی توجہ مرکوز کی، میں قرآن اور پیغمبر کی احادیث کے مابین الجھن کا امکان پیدا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ (طبقات ابن سعد)
تبصرہ: تمام اہل حدیث سلفی نے احادیث کے ذخیرے کو جلانے کے لیے امیر المومنین ابوبکرؓ کے عمل کی روایت کو قبول نہیں کیا۔ الذهبی کی تذکرۃ الحفاظ ان روایات کے ماخذ کے طور پر۔ ان دونوں روایتوں کی طرف رجوع کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ذہبی نے ان دونوں کو ضعیف کیا ہے۔ وہ پہلے کے بارے میں تبصرہ کرتا ہے کہ یہ ’مستند نہیں‘ ہے، اور یہ کہ دوسرا منقطع ہے۔ تذکرۃ الحفاظ جلد # 1، صفحہ # 9 ~ 11
اہل حدیث کی یہ غیر معمولی خصوصیت ہے کہ اپنی مرضی کی بات نہیں تو اس کو ضعیف یا ’مستند نہیں‘ کہہ دیتے ہیں۔
صحیح مسلم نمبر 3004 میں حدیث کے بارے میں کیا ہے؟
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الأَزْدِی، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ زَیدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ یسَارٍ، عَنْ أَبِی سَعِیدٍ الْخُدْرِی، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم قَالَ ’لاَ تَکتُبُوا عَنِّی وَمَنْ کتَبَ عَنِّی غَیرَ الْقُرْآنِ فَلْیمْحُهُ وَحَدِّثُوا عَنِّی وَلاَ حَرَجَ وَمَنْ کذَبَ عَلَىَّ – قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ – مُتَعَمِّدًا فَلْیتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ‘۔
ہداب بن خالد ازدی نے کہا: ہمیں ہمام نے زید بن اسلم سے حدیث بیان کی، انھوں نے عطاء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’مجھ سے(سنی ہوئی باتیں) مت لکھو، جس نے قرآن مجید (کے ساتھ اس کے علاوہ میری کوئی بات (حدیث) لکھی وہ اس کو مٹا دے، البتہ میری حدیث (یاد رکھ کر آگے) بیان کرو، اس میں کوئی حرج نہیں، اور جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے…۔۔ ہمام نے کہا: میرا خیال ہے کہ انھوں (زید بن اسلم) نے کہا: جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
’صحیح مسلم: کتَابُ الزُّهْدِ‘
وَالرَّقَائِقِ (بَابُ التَّثَبُّتِ فِی الْحَدِیثِ وَحُکمِ کتَابَةِ الْعِلْمِ)
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمام بن منبہ اس روایت میں اپنے تبصرے کس طرح زبردستی کرتے ہیں۔
قَالَ هَمَّامٌ أَحْسِبُهُ قَالَ مُتَعَمِّدًا فَلْیتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ
حمام نے لفظ مُتَعَمِّدًا کا اضافہ کیا۔
روایت میں اس قسم کی بد معاشی عام ہے۔ حدیث بیان کرنے والوں میں الفاظ کی دھوکہ دہی عام تھی۔
لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ حدیث کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے۔ حدیث کو رسول کریم کے دور کی تاریخ کے طور پر لیا جا سکتا ہے جو صرف لوگوں کے بیانات تھے۔
میں اپنے آخری الفاظ میں نتیجہ اخذ کرتا ہوں۔
جھوٹی حدیثیں گھڑنا اور الجرح و التعدیل دونوں شیطانی کام ہیں۔
ابتدائی مسلمان علماء کی اکثریت ان میں سے بصری، کوفی، بغدادی، شامی نے الجراح و التعدیل کے مفروضے کے اس وقت کو ضائع کرنے کا طریقہ ایجاد کیا۔ اس قسم کے بے مقصد کاموں میں سینکڑوں لوگوں نے اپنا وقت الجرح و التعدیل میں خراب کیا اور لوگوں کا وقت بھی خراب کیا۔
کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمان علماء کے پاس خراب کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت ہے، وہ درست تھے کیونکہ بے حس مسلم علماء کو ایرانی مجوسی رافضیوں اور ملوک ڈکٹیٹروں یعنی عباسی ملوکوں کی سرپرستی حاصل تھی۔
وہ دن رات جھوٹی حدیثیں گھڑنے میں مصروف ہیں، ایک اور گروہ ان پر تنقید کرنے میں مصروف ہے، دونوں گروہ ملوکوں سے ملنے والی رقم اور اثاثوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ عباسی ملوکوں نے ان کے لیے بہت بڑا فنڈ دیا۔
آج تک وہ مجوسی رافضیوں کے فنڈز سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
یہ سب دھوکہ دہی کا شیطانی کاروبار ہے۔
حوالہ جات
1۔ کتابت و تدوین حدیث، صحابہ کرامؓ کے قلم سے از مولانا ڈاکٹر ساجد الرحمن صدیقی، جامعہ دارالعلوم کراچی۔
2۔ کتابت حدیث از مولانا الحاج سید منّت اللہ رحمانی
3۔ کتابت حدیث، عہد صحابہ میں، از مفتی رفیع عثمانی
4۔ محدثین اور ان کی کتابوں کا تعارف از مولانا سلیم اللہ خان
5۔ علم حدیث اور چند اہم محدثین از سلیم قدوائی
6۔ تاریخ تدوین حدیث از مولانا عبد الرشید نعمانی
7۔ ابتدائی حدیث ادب میں مطالعہ، از ایم ایم اعظمی
8۔ مسند الحمیدی از امام حمیدی
9۔ انکار حدیث کے نتائج از مولانا سرفراز خان صفدر
10۔ اس دور کا عظیم فتنہ از مفتی ولی حسن ٹونکی
11۔ تاریخ حدیث از ڈاکٹر حمید اللہ
12۔ بستان المحدثین از شاہ عبد العزیز محدث دہلوی
13۔ مسند اسحاق بن راہویہ
- حجیتِ حدیث اور انکارِ حدیث، از ڈاکٹر حافظ محمد زبیر، اسسٹنٹ پروفیسر، کامسیٹ، لاہور، پاکستان۔
- …علوم اسلامیہ اور مستشرقین، ڈاکٹر محمد ثناء اللہ ندوی نے عربی سے ترجمہ کیا۔
16۔ الطبقات الکبری، ابن سعد (168 ~230 ہجری)
17۔ سیر أعلام النبلاء – الذهبی (673 ~748 ہجری)
18۔ تهذیب الکمال فی أسماء الرجال – المزی (654~742 ہجری)
19۔ میزان الاعتدال فی نقد الرجال- الذهبی (673 ~748 ہجری)
20۔ تقریب التهذیب – ابن حجر العسقلانی (773 ~852 ہجری)
21۔ تهذیب التهذیب – ابن حجر (773 ~852 ہجری)
22۔ لسان المیزان – ابن حجر (773 ~852 ہجری)
23۔ ثقات ابن حبان (270~354 ہجری)
24۔ الإصابة فی تمییز الصحابة – ابن حجر(773 ~852 ہجری)
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں