اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


گدھا کہانی ۔۔۔ میرزا ادیب، جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ادب اطفال کی ذیل میں ایک اور پیشکش

گدھا کہانی

از قلم

میرزا ادیب

جمع و ترتیب

اعجاز عبید

 


ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

گدھا کہانی

(ایک ناول)

میرزا ادیب

ماخذ: ہمدرد نونہال (نومبر ١٩٨٩ تا اکتوبر ١٩٩٠)

قیمتی تحفہ​

کرم الٰہی ایک چھوٹا سا دکاندار تھا، مگر قصبے کے لوگ اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرم الٰہی ایک نیک دل، سادہ مزاج اور دیانت دار آدمی تھا۔ گاہکوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا۔ کبھی کسی کو اس سے شکایت کا موقع نہیں ملا تھا۔ بڑا ہنس مکھ تھا، مگر ایک غم اس کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا اور وہ غم اسے اپنے بیٹے کی طرف سے تھا۔ باپ نے لاکھ چاہا کہ اسکول میں داخل ہو کر کچھ لکھ پڑھ لے، مگر وہ ہر بار اسکول میں ایک دو گھنٹے گزار کر بھاگ آتا تھا۔ باپ نے جب یہ دیکھا کہ فخرو لکھنے پڑھنے سے بیزار ہے تو کوشش کی کہ وہ دکان داری کرے، لیکن وہ دکان میں بیٹھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔

صبح سویرے کرم الٰہی تو ناشتہ کرنے کے بعد دوپہر کی روٹی ڈبے میں بند کر کے دکان کو روانہ ہو جاتا تھا اور فخرو پہلے تو ڈٹ کر ناشتہ کرتا تھا اور ماں کے چیخنے چلانے کے با وجود گھر سے نکل جاتا تھا۔ صرف دوپہر کو پیٹ بھرنے کی خاطر آ جاتا تھا۔ پیٹ بھر کر پھر غائب ہو جاتا تھا اور شام کو کہیں جا کر لوٹتا تھا۔

ماں باپ، دونوں اسے سمجھا سمجھا کر تھک گئے تھے اور اب تو ساری کوششوں میں ناکام ہو کر انہوں نے فخرو سے کچھ کہنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ فخرو کو اور کیا چاہیے تھا۔ اسے آوارہ گردی کی پوری پوری آزادی مل گئی تھی۔ پہلے شام کو گھر لوٹ آتا تھا، مگر اب رات کے دس بجے سے پہلے اپنی شکل ہی نہیں دکھاتا تھا۔

کرم الٰہی بوڑھا آدمی تھا۔ اس کی صحت روز بروز گرتی جا رہی تھی۔ پھر ایسا وقت آیا کہ وہ دکان پر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس حالت میں اس نے اپنے ایک اعتماد کے قابل رشتے دار کو دکان پر بیٹھا دیا تھا جو شام کے وقت دن بھر کی کمائی کرم الٰہی کے ہاتھ میں رکھ دیتا تھا۔ کرم الٰہی اپنی خوشی سے اسے کچھ دے دے تو دے دے، وہ خود کچھ نہیں مانگتا تھا۔

کرم الٰہی کے اس رشتے دار کا نام ’کالو خاں‘ تھا اور فخرو اسے چچا کہہ کر پکارا کرتا تھا۔ کالو خاں فخرو کی ماں کو آپا کہتا تھا۔ فخرو کے لچھن دیکھ دیکھ کر کالو خاں بھی کڑھتا رہتا تھا، مگر جہاں فخرو کے سگے باپ کو ناکامی ہوئی تھی وہاں وہ کیا کر سکتا تھا۔

کرم الٰہی کو جب اپنی موت کا یقین ہو گیا تو اس نے اپنے بیٹے کو تنہائی میں پاس بلایا اور بولا، ’’فخرو! میں تو اب دنیا سے جا رہا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ تم گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل ہوتے، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ میں کیا کر سکتا ہوں، تمھارے لیے دعا ہی کر سکتا ہوں۔ اللہ تمہیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے۔ میں نے تنہائی میں تمہیں ایک خاص مقصد کے لئے بلایا ہے۔‘‘

فخرو نے اپنی زبان سے تو نہ پوچھا کہ ابّا جان! یہ مقصد کیا ہے جس کے لئے آپ نے مجھے بلایا ہے، مگر یہ سوال اس کی آنکھیں پوچھ رہی تھیں۔

’’میں تم سے کیا کہنا چاہتا ہوں جانتے ہو؟‘‘

فخرو نے آہستہ سے جواب دیا، ’’نہیں۔‘‘

’’اچھا سنو! میرا ایک بڑا پرانا دوست ہے جو یہاں سے کافی دور ایک پہاڑی علاقے میں رہتا ہے۔ اسے لوگ بڑے ادب سے شاہ صاحب کہتے ہیں۔ اس نے ایک بار کہا تھا، کرم الٰہی! میں تمھارے بیٹے کو ایک تحفہ دینا چاہتا ہوں۔ اسے میرے ہاں بھیج دو۔ میں یہ تحفہ اسے دے دوں گا۔‘‘

’’تو ابّا جی!‘‘ فخرو نے بیتابی سے پوچھا۔

’’میں تمہیں اس کے ہاں بھیج نہیں سکا۔ تم سے یہ بات کہی ہی نہیں تھی۔ اب کہتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے دوست کا پتا بتا دیتا ہوں، مگر ابھی اس کے پاس نہیں جانا۔ میرے مرنے کے بعد جانا۔‘‘

’’اچھا ابّا جی۔‘‘

دو روز گزرے تو کرم الٰہی کی طبیعت اور خراب ہو گی۔ اس کی بیوی اور سارے رشتے دار اس کی زندگی سے مایوس ہو گے اور اسی رات کرم الٰہی دنیا چھوڑ گیا۔

ایک ہفتہ تو روتے پیٹتے بیت گیا۔ ایسی حالت میں فخرو اپنے باپ کے دوست کے پاس کیونکر جا سکتا تھا؟

فخرو اپنے منہ بولے چچا کو بھی باپ کی یہ بات بتا چکا تھا۔

ایک روز چچا نے کہا، ’’فخرو! اپنے ابّا کے دوست کے ہاں جا۔ کیا خبر وہ تمہیں کیسا قیمتی تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ میں بھی تمھارے ساتھ چلتا، مگر مجھے دکانداری کرنی ہے۔ تم اکیلے ہی جاؤ اور تحفہ لے کر واپس آ جاؤ۔ ہاں تحفہ سنبھال کر لانا۔‘‘

’’جاتا ہوں چچا۔‘‘

’’پتا یاد ہے نا فخرو۔‘‘

’’یاد ہے، پوری طرح یاد ہے۔‘‘

فخرو یہ پتا کیسے بھول سکتا تھا۔ یہاں سے تو اسے بڑے قیمتی تحفے کے ملنے کی امید تھی۔

جس روز فخرو اور چچا کے درمیان یہ باتیں ہوئیں اس کے دوسرے دن فخرو پوری طرح تیار ہو کر چل پڑا۔

ماں نے اسے روٹی ایک ڈبے میں بند کر کے دی تھی کہ فاصلہ لمبا ہے۔ بھوک لگے گی تو پیٹ بھر لے گا۔

سفر بڑا لمبا تھا، لیکن فخرو نے طے کر لیا۔ کیص گھنٹے متواتر چلنے کے بعد وہ اپنے باپ کے دوست کے گھر پہنچ گیا۔ ایک سفید داڑھی والے بوڑھے نے بڑی محبّت سے اسے گلے سے لگایا اور اپنے گھر کے اندر لے گیا۔

اس گھر میں اس کی بڑی خاطر تواضع ہوئی اور فخرو یہ سوچ سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ جو شخص میری اتنی خاطر کر رہا ہے وہ مجھے تحفہ کتنا اچھا دے گا۔

’’لو بیٹا! اب میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں۔ تمہیں اپنا تحفہ دے دیتا ہوں۔ آؤ میرے ساتھ۔‘‘

یہ بات سن کر فخرو اٹھ بیٹھا۔

’’میرے پیچھے پیچھے آؤ۔‘‘

’’بہتر تایا جان!‘‘

بوڑھا ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں پہنچا، دوسرے سے تیسرے میں۔ اس کے بعد وہ جہاں پہنچا وہ گھر کا آخری کمرہ معلوم ہوتا تھا۔

’’قبول کرو فخرو بیٹا!‘‘

فخرو یہ بات سن کر حیران رہ گیا۔ اس کے تایا جی نے تو اسے کچھ بھی نہیں دیا تھا۔ قبول کیا کرے۔ وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔

’’جی۔‘‘

’’بیٹا! یہ میرا تحفہ ہے۔‘‘

وہ انہیں کیا کہتا۔ تحفہ تو اسے دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

’’میں نے اسی تحفے کا ذکر کیا تھا فخرو بیٹا!‘‘

’’مگر تایا جان! وہ تحفہ مجھے نظر نہیں آ رہا۔‘‘

’’ارے! نظر نہیں آ رہا۔ کیا کہہ رہے ہو؟ وہ دیکھو سامنے دروازے پر۔‘‘

یہ بات سن کر فخرو نے سامنے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں ایک گدھا گھاس کھا رہا تھا۔

’’تایا جان! وہاں تو بس ایک گدھا ہے۔‘‘

’’واہ میرے بیٹے! یہی تو وہ تحفہ ہے۔‘‘

فخرو کو ایک دم یوں لگا جیسے کوئی بھیانک خواب دیکھ رہا ہے۔

’’جی یہ گدھا؟‘‘ وہ صرف اتنا کہہ سکا۔

’’ہاں بیٹا! یہ بہت ہی قیمتی تحفہ ہے۔ ابھی تم اس کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ ایک وقت آئے گا کہ تم سمجھ لو گے کہ یہ کتنا بڑا تحفہ ہے۔‘‘

’’اچھا جی۔‘‘

’’آؤ پہلے کھانا کھالو۔ تھک چکے ہو۔‘‘

فخرو نے اس طرح کھانا کھایا جیسے یہ بھی اس کے لیے ایک مجبوری ہو۔ کھانا بہت لذیز تھا، مگر وہ تو اپنے باپ کے دوست کا قیمتی تحفہ دیکھ کر بڑا پریشان ہو گیا تھا۔

کھانا کھانے کے بعد ان بزرگ نے ایک بڑی نرم اور ملائم رسی کا ایک سرا فخرو کے ہاتھ میں دے دیا۔ دوسرا سرا گدھے کی گردن کے گرد بندھا ہوا تھا۔

’’’دیکھو بیٹا! اس سے بڑی محبّت کا سلوک کرنا۔ دیکھنا اسے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے اور ہاں یہ میرا تحفہ بھی ہے اور میری امانت بھی ہے۔‘‘​

​ فخرو کا جی چاہتا تھا کہ کہے تایا جان! اپنا یہ قیمتی اور نایاب تحفہ اپنے پاس ہی رکھیں۔ مجھے یہ نہیں چاہیے، مگر وہ خاموش رہا۔

گدھے کا مالک کہہ رہا تھا، ’’میں نے جو کچھ کہا ہے وہ تم نے سمجھ لیا نا؟‘‘

’’جی ہاں پوری طرح سمجھ لیا۔‘‘

’’کیا سمجھا ہے بھلا؟‘‘

اب فخرو زبان پر قابو نہ رکھ سکا اور بولا، ’’تایا جی! میں اسے گدھا نہیں بلکہ ہرن سمجھوں گا۔‘‘

’’پاگل ہو گئے ہو۔ ہرن اس کے سامنے کیا حقیقت رکھتا ہے۔ یہ تو۔۔ ۔۔ اب تمہیں کیا بتاؤں کہ یہ کیا ہے۔‘‘

’’معافی چاہتا ہوں تایا جی۔‘‘

’’اب کے میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے۔ خوش خوش ہو جاؤ۔ دنیا کی ایک انمول چیز لیے جا رہے ہو۔ یہ بات بھولنا نہیں۔‘‘

’’اچھا تایا جان!‘‘

اب عجیب تماشا ہوا۔ فخرو نے ہاتھ میں رسی پکڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو گدھا وہیں جم کر کھڑا ہو گیا۔

’’تایا جی! اسے آپ سے بڑی محبّت ہے۔‘‘

فخرو کہنا چاہتا تھا کہ آپ اسے اپنے گھر میں ہی رہنے دیں، لیکن ان کے چہرے پر غصّے کے تاثرات دیکھ کر چپ ہو گیا۔

’’بیٹا! یہ تم سے بھی ایسی محبّت کرے گا جیسے تمہارا سگا بھائی ہو۔‘‘

’’جی!‘‘

’’دیکھو تو سہی ہوتا کیا ہے۔‘‘

یہ کہہ کر بزرگ نے اپنے ہونٹ گدھے کے کان کے قریب لے جا کر کچھ کہا اور فخرو کو اشارہ کیا کہ اسے لے جائے۔ فخرو چلا تو اب گدھا چلنے لگا۔

دروازے سے نکل کر جب فخرو نے یونہی پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ وہ بزرگ رو رہے ہیں۔

’’یہ شخص پاگل ہے۔ پتا نہیں ابّا جی کو یہ کیا سوجھی تھی کہ مجھے ایک پاگل کے ہاں تحفہ لینے کے لیے کہہ دیا۔‘‘

فخرو راہ چلتے ہوئے غصّے کے مارے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور بار بار کسی تانگے یا گاڑی کے آگے آ جاتا تھا، لیکن یہ گدھا تھا کہ فوراً ایک طرف ہٹ جاتا تھا اور فخرو کو بھی ہٹنا پڑتا تھا۔ فخرو نے ایک عجیب بات دیکھی۔ جہاں جہاں سے وہ گزر رہا تھا آنے جانے والے لوگ گدھے کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ گھر پہنچ کر فخرو نے گدھے کو تو چھوڑا باہر اور خود اندر چلا گیا۔

اس کی ماں بری بیتابی سے قیمتی تحفے کا انتظار کر رہی تھی۔ جیسے ہی وہ اندر آیا بولی، ’’کہاں ہے وہ تحفہ؟

’’لے آیا ہوں اماں بہت خوش ہو گی دیکھ کر۔‘‘

’’ہے کہاں؟‘‘

’’باہر ہے۔‘‘

’’باہر کیوں چھوڑ آئے ہو؟ دماغ خراب ہو گیا ہے کیا؟‘‘

’’اماں! وہ اتنا شاندار تحفہ ہے کہ اسے اپنی کٹیا میں لانا مناسب نہیں ہے۔‘‘

’’کیا ہے وہ؟‘‘

’’جا کر دیکھ لو۔‘‘

فخرو کی ماں بھاگ کر باہر گئی اور اسی طرح بھاگ کر واپس آ گئی۔

’’وہاں تو کچھ نہیں ہے۔‘‘

’’اماں! تم نے دروازے کے باہر ایک بے حد شاندار جانور نہیں دیکھا؟‘‘

’’وہ تو گدھا ہے۔‘‘

’’یہی وہ تحفہ ہے۔‘‘

’’ستیا ناس ہو تیرا، ماں سے مخول کرتا ہے۔‘‘

’’نہیں اماں! اللہ کی قسم میں مخول نہیں کر رہا۔ ابّا جی کے بہت ہی پیارے دوست نے یہی بہت ہی پیارا تحفہ دیا ہے۔‘‘

ماں سر پکڑ کر پیڑھی پر بیٹھ گئی۔

در اصل اسے توقع تھی کہ اس کے بیٹے کو کوئی ایسا تحفہ ملے گا جس سے اس کے سارے دلدّر دور ہو جائیں گے، مگر یہ تو گدھا تھا۔

’’ہم اس منحوس گدھے کا کیا کریں گے؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا۔

باہر بڑا شور برپا ہو گیا تھا۔

فخرو نے دروازے کے باہر جھانک کر دیکھا۔ محلے کے لڑکے گدھے کو کانوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہے تھے۔

’’او چھوڑو اسے۔‘‘ وہ پکارا۔

لڑکوں پر اس کا ذرا سا بھی اثر نہ پڑا، بلکہ یہ ہوا کہ ایک شریر لڑکا گدھے کے اوپر جا بیٹھا۔

یکایک ایک عجیب تماشا ہوا۔ گدھے نے دو لتیاں جھاڑیں۔ دو لڑکے پیٹ پکڑ کر بیٹھ گئے۔ انھیں اس حالت میں دیکھ کر باقی لڑکے فوراً بھاگ گئے۔ وہ لڑکا جو گدھے کے اوپر بیٹھا تھا وہ بھی چھلانگ مار کے غائب ہو گیا۔

فخرو نے یہ محسوس کر کے کہ لڑکوں نے اسے بڑا ستایا ہے، اس کی رسی پکڑ کر اندر لے آیا۔ ماں نے جو اسے اپنے سامنے دیکھا تو بپھر گئی، ’’اندر کیوں لے آئے ہو؟‘‘

’’کیا کرتا اماں! وہ لڑکے اسے مار مار کر ادھ موا کر دیتے یا لے جاتے۔‘‘

’’لے جاؤ اسے، میں اسے گھر کے اندر ہرگز نہیں رہنے دوں گی۔‘‘

شام ہو گئی۔ ماں بیٹے کا جھگڑا جاری تھا کہ کالو خاں آ گیا۔ اس نے ساری بات سنی تو بولا، ’’حوصلہ کرو۔ کیا پتا اس میں کیا کیا گن ہیں۔ اسے دوسرے کمرے میں باندھ دیتے ہیں۔‘‘

ماں بڑی مشکل سے گدھے کو گھر میں رکھنے پر تیار ہوئی۔

٭٭٭

گدھا بک گیا​

فخرو کے گھر میں گدھا کیا آیا ماں اور بیٹے کے لئے ایک مسئلہ بن گیا۔ دونوں کی رائے یہ تھی کہ یہ گدھا دے کر ان بزرگ نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ گھر کا خرچ مشکل سے پورا ہوتا ہے اب اس کے چارے کا انتظام کیسے کریں گے اور اس کی رکھوالی کیسے ہو گی۔ ماں کو خدشہ تھا کہ محلے کے بچے اسے چھوڑیں گے نہیں، جب بھی موقع ملا اسے لے جائیں گے اور پھر یہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔

’’چلو اچھا ہوا۔ یہ ہمارے کس کام کا ہے۔‘‘ ماں نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

اور فخرو کا فیصلہ تھا، ’’ماں اسے بیچ دیں تو بہتر ہے۔ کچھ نہ کچھ مل ہی جائے گا۔‘‘

ماں کو یہ بات سوجھی ہی نہیں تھی۔ سن کر خوش ہو گئی۔

یہ خیالات تو ماں اور فخرو کے تھے۔ چچا کو جب ان کے ان خیالات کا علم ہوا تو وہ کہنے لگا، ’’میری رائے یہ نہیں ہے۔ وہ صاحب جنہوں نے اتنی محبّت سے یہ گدھا بطور تحفہ دیا ہے ضرور کوئی خوبی ہے اس میں، ورنہ انھیں خاص طور پر اپنے دوست کرم الٰہی سے اس کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘

ماں بھری بیٹھی تھی، ’’مگر ہم اس کا کریں کیا؟ چارا کہاں سے لائیں گے؟‘‘

چچا بولا، ’’چارے کی کوئی فکر نہ کریں آپا! یہ ذمہ داری مجھ پر چھوڑ دیں۔‘‘

’’یہ تو ہوا، لیکن اس سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

’’فائدہ؟ فائدہ ضرور ہو گا۔‘‘

’’کیا چچا؟‘‘ یہ سوال فخرو نے کیا۔

’’سنو فخرو! تمہیں کچھ کام کرنا پڑے گا۔ صبح سویرے گدھے کو لے کر سبزی منڈی جانا پڑے گا۔ منڈی میں سبزیوں کو اپنی دکانوں تک پہچانے کے لئے دکانداروں کو تانگوں اور ریڑھیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہوتی ہے یا نہیں؟‘‘

’’ہوتی ہے چچا۔‘‘

ماں بیٹے کی بلائیں لے کر بولی، ’’تم کیوں جاتے۔ میرا لال کسی کا محتاج نہیں ہے۔ اللہ نے چاہا تو اب ہر روز منڈی جایا کرے گا۔‘‘

’’ایسا ہی ہو گا۔ جاؤ بیٹا! اللہ تمہارا نگہبان ہو۔ خیر خیریت سے جاؤ اور خیر خیریت سے آؤ۔‘‘

’’اور جیبیں بھر کر آؤ۔‘‘ چچا نے ہنس کر کہا۔

’’ضرور ضرور۔‘‘ ماں خوش ہو کر بولی۔

ماں اور چچا دونوں خوش تھے اور ادھر فخرو کو ایک قدم اٹھانا بھی دوبھر تھا۔

ماں نے بیٹے کی پیشانی چومی اور چچا کچھ دور اس کے ساتھ گیا۔

فخرو پہنچنے کو تو منڈی میں پہنچ گیا، مگر اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کرے تو کیا کرے۔

سبزی فروش دھڑا دھڑ سبزیاں خرید رہے تھے اور تانگوں اور ریڑھیوں پر لاد کر لے جا رہے تھے۔ ہر طرف شور برپا تھا۔ کان پر پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔

فخرو گدھے کی رسی پکڑ ایک طرف کھڑا تھا۔ تین بار دھکّے کھا کر لڑکھڑا چکا تھا اور ہر بار لڑکھڑا کر چچا کو بد دعائیں دے چکا تھا۔ چوتھی بار دھکّا لگا تو وہ اس طرح ڈگمگایا کہ گدھے پر گر پڑا۔

’’اندھے ہو۔ راستے پر کھڑے ہو۔‘‘ ایک شخص نے اسے غصّے سے کہا۔

’’جی۔۔ ۔۔ وہ۔۔ ۔۔‘‘

’’کیا بات ہے؟‘‘ اس شخص نے پوچھا۔

فخرو نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں وہ مقصد بتا دیا جس کے لیے وہ گدھے کے ساتھ گھر سے نکلا تھا۔

’’تو تم گھر سے مزدوری کرنے نکلے ہو۔ کیا نام ہے تمہارا؟‘‘

’’فخرو۔‘‘

’’فخرو کیا نام ہوا؟‘‘

’’میرا نام فخر دین ہے۔‘‘

’’بس یہ بات ہے جس کے لیے دھکّے کھا رہے ہو۔‘‘

’’جی۔‘‘

’’میاں! یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔ شہر میں میری بڑی دکان ہے۔ منوں کے حساب سے سبزیاں لے جاتا ہوں۔ وہ چھکڑے دیکھ رہے ہو۔ ان کے پیچھے میرا اڈا ہے۔ روز آؤ۔ خوب کماؤ۔ آؤ میرے ساتھ۔‘‘

وہ آدمی فخرو کو اپنے ساتھ ایک بیوپاری کے پاس لے گیا۔

’’سراج! اس کے گدھے پر سبزیاں لاد دو۔‘‘

سراج اور دو تین آدمیوں نے مختلف قسم کی سبزیوں سے بھری ہوئی تین بوریاں گدھے پر لاد دیں۔

’’بس یہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔‘‘ اس شخص نے سراج اور اس کے آدمیوں کو گدھے پر نئی بوری رکھنے سے منع کر دیا۔

’’میاں فخرو! یوں کرو یہاں کھڑے رہو۔ میرے چھکڑے سبزیاں لے کر آ جاتے ہیں۔ پھر شہر چلیں گے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔

فخرو گدھے کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا کہ وہ شخص آ گیا۔

’’چلو میاں! میرے چھکڑے چل پڑے ہیں۔‘‘

منڈی سے باہر آ کر وہ شخص ایک چھکڑے میں بیٹھ گیا۔ چھکڑے روانہ ہوئے تو فخرو بھی چلنے لگا اور اس کے ساتھ اس کا گدھا بھی۔ منڈی شہر سے دور نہیں تھی۔ بیس پچیس منٹ کے بعد چھکڑے ایک بڑی دکان کے سامنے رک گئے۔ فخرو بھی ٹھہر گیا۔ دکان سے دو آدمی نکلے اور چھکڑوں کی بوریاں دکان کے اندر لے جانے لگے۔ جب وہ خالی ہو گئے تو گدھے کا سامان بھی اتار لیا گیا۔

اس شخص نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پانچ کا نوٹ نکالا۔ ’’لو میاں! خوش ہو جاؤ۔‘‘

پانچ کا نوٹ دیکھ کر فخرو کا خوشی اور حیرت سے عجب حال ہو گیا۔

’’خوش ہو نا!‘‘

’’جی بڑا خوش ہوں۔‘‘

’’یہ میری دکان ہے۔ میرا اڈا تم نے دیکھ ہی لیا ہے۔ میرا نام ساری منڈی میں مشہور ہے۔ کبھی بھول جاؤ تو کسی سے بھی پوچھ لینا کہ رمضان خاں سبزی والے کے اڈے پر مجھے جانا ہے۔‘‘

گھر جا کر فخرو نے پانچ کا نوٹ اپنی ماں کو دیا تو وہ نہال ہو گئی۔ اس نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ اس کے بیٹے نے زندگی میں پہلی بار کمائی کی ہے۔ چچا دکان بند کر کے آیا تو وہ بھی بہت خوش ہوا۔

پہلے پہل فخرو کو صبح سویرے منڈی جانا ایک مصیبت لگتا تھا، مگر ہر روز پانچ روپے ملنے لگے تو اسے اپنے اس کام سے کچھ دلچسپی ہو گئی۔

ایک رات بہت بارش ہوئی۔ منڈی میں اتنی کیچڑ ہو گئی کہ دو قدم چلنا بھی محال ہو گیا۔ فخرو بڑی مشکل سے رمضان خاں کے اڈے پر پہنچ سکا۔

رمضان خاں پراٹھے، چٹنی، اچار اور شامی کباب اپنے آگے رکھے ناشتہ کر رہا تھا۔

’’آ گئے میاں!‘‘

’’جی۔‘‘

’’آؤ پہلے ناشتہ کرو۔‘‘

فخرو رات کی روٹی اور سالن یا دہی کا ناشتہ کرتا تھا۔ یہ نعمتیں دیکھ کر اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ رمضان خان نے اسے شریک ہونے کے لئے کہا تو اس کا دل للچا رہا تھا تاہم اس نے کہا، ’’شکریہ جی۔‘‘

’’آؤ میاں! آؤ مزے سے کھاؤ۔‘‘

فخرو اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا۔

ناشتے کے بعد رمضان خاں نے چھکڑے پر بوریاں لدوائیں اور انہیں اپنی دکان کی طرف بھجوا دیا۔ فخرو حیران تھا کہ وہ اس کے گدھے کی طرف توجہ کیوں نہیں کر رہا۔

اب آسمان پر سورج پوری طرح چمکنے لگا تھا۔ فخرو دری کے اوپر بیٹھا تھا۔ اس کا گدھا پاس کھڑا تھا اور رمضان خاں مزے سے حقے کے کش لگا رہا تھا۔

’’آج کیا معاملہ ہے۔ رمضان خاں میرے گدھے پر سبزیاں نہیں لدوا رہا۔‘‘

فخرو کو اور تو کچھ نہ سوجھا اٹھ کر اپنے گدھے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

رمضان خان نے اسے کن اکھیوں سے دیکھا اور حقہ پیتا رہا۔

فخرو مایوس ہو گیا اور دری پر بیٹھنے ہی والا تھا کہ رمضان خان نے اسے ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔ فخرو اس کے پاس چلا گیا۔

’’بیٹھ جاؤ۔‘‘

فخرو اس کے پہلو میں بیٹھ گیا۔

رمضان خاں نے منہ سے کچھ نہ کہا اور جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور اس کی جھولی میں ڈال دی۔

’’یا اللہ! یہ کیا؟‘‘

’’میاں!‘‘

’’جی۔‘‘

’’نوٹ جیب میں ڈالو اور جلدی جلدی گھر چلے جاؤ۔ تمہاری ماں تمہاری منتظر ہو گی۔‘‘

’’یہ نوٹ کیسے؟ آج تو میں نے کام بھی نہیں کیا۔‘‘

’’تو۔۔ ۔۔‘‘

’’میاں! یہ مزدوری کب تک کرو گے۔ عزت کا کام نہیں ہے۔ دو سو روپے میں دکان میں ڈھیر سارا سودا ڈالو اور مزے کرو۔‘‘

فخرو کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہہ نہ سکا۔ اٹھا اور گدھے کی رسی تھامی۔

’’اسے چھوڑ دو۔ یہ میں نے خرید لیا ہے۔ دو سو روپے میں۔‘‘

فخرو تنہا گھر پہنچا۔ ماں دروازے پر کھڑی تھی۔ روز فخرو دو ڈھائی گھنٹے کے بعد گھر آ جاتا تھا، مگر اس روز اسے گھر سے گئے ہوئے چھ گھنٹے گزر گئے تھے۔ فخرو آتا ہوا دکھائی دیا تو ماں تیزی سے اس کی طرف گئی۔

’’ہائے میں مر جاؤں۔ اتنی دیر لگا دی۔‘‘

فخرو نے کچھ کہنے کے بجائے نوٹوں کی گڈی ماں کے ہاتھ میں دے دی۔

’’اتنے نوٹ! آج تو میرے لال نے بہت کمائی کی ہے۔‘‘

ماں نے اسے بے اختیار گلے سے لگا لیا اور بار بار اس کا ماتھا چوما۔

’’وہ کہاں ہے؟‘‘

’’وہ رمضان خاں نے خرید لیا ہے۔ یہ روپے اسی کی قیمت تو ہیں۔‘‘

’’او تیرا بیڑا غرق۔ تیرا ستیا ناس کمائی والا گدھا بیچ دیا۔‘‘

’’اماں! میں نے نہیں بیچا۔ اس نے خرید لیا ہے۔‘‘

یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ چچا دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے آ گیا۔

’’تمھارے لاڈلے نے گدھا بیچ دیا ہے۔‘‘

’’کہاں بیچ دیا۔ گدھا تو باہر کھڑا ہے۔‘‘

’’ہیں۔‘‘ ماں اور بیٹے دونوں کے منہ سے نکلا۔

تینوں بھاگے باہر۔ گدھا واقعی دروازے کے باہر کھڑا تھا۔

’’یہ آ کس طرح گیا؟‘‘ ماں نے سوال کیا۔

چچا ہنس کر بولا، ’’یہ آ اس طرح گیا کہ اللہ نے اسے چار ٹانگیں دی ہیں۔ یہ ٹانگیں اسے یہاں لے آئیں۔‘‘

فخرو پیار سے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھرنے لگا۔

’’فخرو، بیچتے ہوئے اس کا خیال نہیں کیا۔ اب اسے پیار کر رہے ہو۔‘‘

ماں کے یہ لفظ سن کر فخرو نے شرم سے سر جھکا لیا۔

محلے کے لڑکے آ پہنچے تھے اور بڑی دلچسپی سے گدھے کو دیکھ رہے تھے۔

’’خالہ جان! ہم اسے ذرا سیر نہ کرائیں۔ اداس لگتا ہے۔‘‘ ایک لڑکا بولا۔

’’نہ نہ۔ بھاگو یہاں سے۔‘‘ خالہ بولی۔

’’لے جاؤ بیٹا!‘‘ چچا نے کہا، ’’کوئی حرج نہیں آپا! محلے کے بچے ہیں، خوش ہو جائیں گے۔‘‘

یہ سننا تھا کہ دو لڑکوں نے گدھے کی رسی پکڑی۔ ماں چیختی رہی۔ لڑکے گدھے کو لے گئے۔

دو گھنٹے گزر گئے۔ لڑکے گدھے کو لے کر واپس نہ آئے۔ ماں گھبرانے لگی۔ ایک گھنٹہ اور بیت گیا۔ ماں چچا سے جھگڑنے لگی ’’اور کراؤ سیر۔ روکا تھا میں نے۔ نہ جانے کہاں لے گئے ہیں بیچارے کو۔‘‘

وقت گزرتا جا رہا تھا اور ماں کے ساتھ فخرو اور چچا کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ شام کے بعد ماں فخرو کو ساتھ لے کر اس لڑکے کے گھر میں گئی جس نے کہا تھا، ’’خالہ اسے سیر نہ کرائیں۔‘‘

’’اکبر! کہاں ہے ہمارا جانور؟‘‘ ماں نے لڑکے سے پوچھا جو چارپائی پہ بیٹھا سلیٹ پر حساب کا کوئی سوال حل کر رہا تھا۔ ماں کا فقرہ سن کر اس نے اپنی ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

’’بہن! اس کا جواب مجھ سے سنو۔ خیر سے تمہارے لاڈلے نے گدھے کے پیسے وصول کر لئے تھے۔ اب تمہارا گدھے سے کیا واسطہ؟‘‘

’’تو۔۔ ۔۔؟‘‘

ماں کہنا چاہتی تھی۔ گدھا تو تمہارا بیٹا ہمارے گھر سے لے کر گیا تھا، مگر بات کہہ نہ سکی۔ اکبر کی ماں فوراً بول اٹھی، ’’وہی لے گیا ہے۔‘‘

’’کون؟‘‘

’’جس نے اسے خریدا ہے۔‘‘

’’اکبر کون ہوتا تھا اسے گدھا دینے والا؟‘‘ ماں کو غصّہ آ گیا۔

اکبر کی ماں نے اسے غور کر دیکھا اور بولی، ’’اکبر بیچارا کیا کرتا۔ اس نے کہا، میں نے پورے دو سو رپے میں اسے خریدا ہے۔ یہ میرا ہے۔ منڈی سے بھاگ آیا ہے۔‘‘

دونوں ماؤں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی۔ اکبر کا باپ بھی آ گیا۔ وہ بھی بیوی کا ساتھ دینے لگا۔

محلے کے دو بزرگوں نے مداخلت کی۔ فخرو کی ماں کو سمجھایا، ’’گدھا جب بیچا جا چکا ہے تو یہ تمہارا نہیں رہا۔ اس کا ہو گیا جس نے اسے خریدا ہے۔‘‘

’’یہ تو ہمارے گھر سے لے کر گیا تھا۔‘‘ فخرو کی ماں نے اپنی طرف سے بڑی زبردست دلیل دی۔

بزرگ نے کہا، ’’یہ ٹھیک ہے اکبر گدھا تمہارے گھر سے لے گیا تھا، مگر یہ چیز اس کی تھی۔ وہ اس کا مالک ہے۔ کیوں فخرو! تم نے گدھا بیچا نہیں تھا؟‘‘

فخرو کیا کہہ سکتا تھا۔ خاموش رہا۔

’’بولتے کیوں نہیں جواب دو۔‘‘ بزرگ نے کہا۔

فخرو نے ہاں میں سر ہلایا۔

’’معاملہ صاف ہے۔ فخرو نے گدھا بیچا ہے۔‘‘

’’اور دو سو روپے وصول کے ہیں۔‘‘ اکبر کی ماں بولی۔

’’تم خاموش رہو اکبر کی ماں، ہمیں فیصلہ کرنے دو۔ تو میں کہہ رہا تھا فخرو نے گدھا بیچا۔ جس نے خریدا وہ اس کا مالک ہو گیا۔ گدھا بھاگ آیا، مگر اس سے خریدنے والے کی ملکیت تو ختم نہیں ہوئی۔‘‘

ماں وہی بات کہے جا رہی تھی، ’’اکبر گدھا ہمارے گھر سے لے گیا تھا۔ اس کا اور اس کے ساتھیوں کا فرض تھا کہ اسے واپس کرتے۔ گدھا لا کر دو ورنہ۔۔۔۔‘‘

اکبر کی ماں لال پیلی ہو گئی۔ کہنے لگی، ’’تمھاری سمجھ پر تو پتھر پڑ گئے ہیں۔‘‘

قریب تھا کہ لڑائی تیز ہو جاتی۔ چچا آ گیا اور وہ منّت سماجت کر کے فخرو کی ماں کو گھر لے جانے لگا۔ فخرو بھی ماں کے ساتھ ساتھ جانے لگا۔

٭٭٭

گدھا ایک بلا ہے ​

سبزیوں کا ایک بڑا بیوپاری بچوں پر رعب جما کر گدھا اپنے گھر لے آیا۔ کئی لڑکے گدھے کے پیچھے پیچھے چلے آ رہے تھے۔ گھر کے قریب پہنچ کر رمضان خاں نے لڑکوں کو ڈانٹ پلائی، ’’جاؤ بھاگو یہاں سے، کبھی گدھا نہیں دیکھا تم نے؟‘‘​

رمضان بڑا رعب و داب والا آدمی تھا۔ لڑکے جانا تو نہیں چاہتے تھے، مگر رمضان خاں سے ڈر کر چلے گئے۔ ​

لڑکوں کے جانے کے بعد رمضان خاں گدھے کی رسی پکڑ کر یوں کھڑا تھا جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔ اس کی بیوی خدیجہ نے اپنے شوہر کو اس حال میں دیکھا تو پوچھا، ’’انور کے ابّا کیا بات ہے؟ کیا سوچ رہے ہو؟‘‘​

’’سوچ رہا ہوں کہ اسے رکھا کہاں جائے؟‘‘​

خدیجہ ہنس پڑی، ’’کیا گدھے کے لیے کوئی خاص مکان بنوانا پڑے گا؟‘‘​

رمضان خاں بیوی کی بات سن کر مسکرایا اور بولا، ’’خدیجہ یہ عام گدھا نہیں ہے۔ عام گدھا ہوتا تو میں اسے کیوں خریدتا؟‘‘​

’’کیا خوبی ہے اس میں؟‘‘​

’’میں نے دیکھا تھا کہ منڈی میں جہاں اسے کھڑا کر دیا جاتا تھا، کیا مجال جو وہاں سے ذرا ادھر ادھر ہو جائے۔ بوجھ سے بھی نہیں گھبراتا تھا۔ ریڑھی پر جتنا بوجھ لاد دیا، خوشی خوشی چل پڑا۔ بڑا اصیل گدھا ہے۔‘‘​

’’اصیل تو مرغ ہوتا ہے۔‘‘ خدیجہ پھر ہنس پڑی۔ ​

’’یہ بھی اصیل ہے۔‘‘​

’’تو اب اسے یہیں پکڑے کھڑے رہیں گے۔‘‘​

’’ٹھیک ہے اسے اب وہاں رکھا جائے گا۔‘‘​

’’کہاں؟‘‘​

رمضان نے بیوی کے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ زور سے بیٹے کو انور کہہ کر پکارا۔ چودہ پندرہ برس کا لڑکا دروازے پر آ گیا۔ ​

’’انور! اسے اسٹور کے ساتھ جو کمرہ ہے نا اس کے اندر چھوڑ آ۔‘‘

انور گدھے کی رسی پکڑنے کے لئے آگے بڑھا۔ ​

’’گدھے پوری بات تو سن لے۔‘‘​

’’ہائے میرے بیٹے کو گدھا کہہ رہے ہو۔‘‘ خدیجہ کو شوہر پر غصّہ آ گیا تھا۔ ​

انور جو گدھے کے پاس رک گیا تھا باپ کو سوالیہ انداز سے دیکھنے لگا۔ ​

’’کمرے کا دروازہ بند کر دینا۔‘‘​

’’اور کھڑکیاں روشندان؟‘‘ انور نے سوال کیا۔ ​

’’دیکھا خدیجہ! گدھوں والا سوال کیا ہے یا نہیں۔ او پگلے! جانور دروازے سے تو نکل سکتا ہے کھڑکیوں اور روشن دانوں سے کیسے نکلے گا؟‘‘​

’’ابّا جی! آپ ہی نے تو کہا تھا کہ یہ گدھا عام گدھا نہیں ہے۔ کیا پتا کھڑکی میں سے نکل جائے۔‘‘​

’’بس اب بکواس نہ کر۔ اسے چارہ پانی ڈالنا تمہارا کام ہو گا۔‘‘ رمضان خاں نے انور کے ہاتھ میں رسی دے دی۔ ​

انور نے گدھے کو اسٹور کے قریب فالتو کمرے میں دھکیل دیا اور باہر آ کر کھیلنے کے لئے دوستوں کے پاس چلا گیا۔ ​

شام ابھی نہیں ہوئی تھی۔ انور کھیل کود کر گھر واپس آیا تو ماں نے کہا، ’’انور! گھر میں ایک مہمان آیا ہوا ہے۔ بھوک لگی ہو گی اسے۔‘‘​

’’یاد آ گیا امی، کرتا ہوں انتظام۔‘‘​

’’تمہارا ابّا تاکید کر کے گیا تھا کہ اسے شام سے پہلے پہلے چارا ڈال دیا جائے۔‘‘​

’’اچھا امی!‘‘​

خدیجہ باورچی خانے میں آ گئی اور کھانا تیار کرنے میں مصروف ہو گئی۔‘‘​

وہ ایک ہانڈی میں سے تھوڑا سا سالن ڈوئی میں ڈال کر یہ اندازہ کر رہی تھی کہ نمک مرچ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ یکایک اسے احساس ہوا کہ باورچی خانے میں کوئی آیا ہے۔ اس نے سامنے دیکھا۔ انور دیوار کے پاس کھڑا تھا۔ ​

’’کیا کر رہا ہے یہاں؟‘‘​

’’امی! وہ کہانی سنی ہے نا آپ نے جس میں ایک جادوگرنی شہزادی کو بکری بنا دیتی ہے۔‘‘​

’’ہاں سنی ہے۔ پھر؟‘‘​

’’امی! یہ جو گدھا ہے نا گدھا نہیں ہے۔‘‘​

’’تو کہنا کیا چاہتا ہے؟‘‘​

’’امی! میں سچ کہتا ہوں۔ یہ گدھے کے روپ میں۔۔۔۔ اماں! کیا کہوں یہ گدھے کے روپ میں کوئی اور ہے۔‘‘​

خدیجہ جھنجھلا گئی، ’’میں پوچھتی ہوں تو کہنا کیا چاہتا ہے؟‘‘​

’’کمرے کے اندر سے۔‘‘ انور نے اپنا دایاں ہاتھ لہرایا۔ ​

’’نہیں ہے کمرے میں؟‘‘​

’’کہہ تو رہا ہوں یہ گدھا نہیں ہے کوئی اور ہے۔‘‘​

خدیجہ نے ڈوئی وہیں ہانڈی کے اوپر رکھی اور تیزی سے نکل کر اس کمرے میں گئی جہاں گدھے کو رکھا گیا تھا۔ ​

’’کہاں ہے وہ؟‘‘​

انور مسکرا کر کہنے لگا، ’’امی! وہ یہاں ہوتا تو گھبرانے کی بات ہی کیا تھی۔ پتا نہیں کس طرح نکل گیا۔ جیسے اسے پر لگ گئے ہوں۔‘‘​

’’اور وہ روشندان سے نکل گیا۔‘‘​

’’اور کیا۔‘‘​

’’اب باپ کو کیا جواب دے گا؟‘‘​

’’ابّا پوچھیں گے تو کہہ دوں گا کہ یہ گدھا نہیں ہے کوئی بڑی خطر ناک چیز ہے۔‘‘​

ماں بیٹا ابھی کمرے سے باہر نہیں نکلے تھے کہ رمضان خاں آ گیا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ کچھ ہو گیا ہے۔ بولا، ’’معاملہ کیا ہے؟‘‘​

خدیجہ اور انور دونوں خاموش کھڑے رہے۔

​’’میں کہتا ہوں کیا ہوا؟‘‘​

انور تو چپ رہا۔ خدیجہ کہنے لگی، ’’کیا مصیبت لے آئے تھے گھر میں۔۔ ۔۔ غائب ہو گیا ہے۔‘‘​

’’کیا؟‘‘ رمضان خان نے سمجھ لیا تھا کہ اس کی بیوی نے کیا کہا ہے۔ پھر بھی اس نے سوال پوچھ لیا۔ ​

’’وہ جسے دو سو روپے میں خرید کر لائے تھے پتا نہیں کیسے چلا گیا۔‘‘ خدیجہ نے جواب دیا۔ ​

’’ابّا! آپ مانیں گے نہیں۔‘‘​

خدیجہ نے بیٹے کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’یہ کہتا ہے اس گدھے میں کوئی اور ہے۔‘‘​

’’ہاں کوئی اور ہے اور میں جانتا ہوں وہ کون ہے؟‘‘​

’’کون ہے ابّا؟‘‘​

’’اس کے اندر تم خود ہو۔‘‘​

’’میں ابّا۔۔ ۔۔ توبہ۔ میں تو انسان ہوں اور یہ گدھا ہے۔‘‘​

’’تم اس کے اندر ہو یا باہر۔ ہو گدھے۔ دونوں دروازے بند کر دیے تھے؟‘‘​

’’جی ہاں۔‘‘​

’’دونوں اندر سے بند کیے تھے؟‘‘​

’’بالکل۔ اندر سے بند کیے تھے۔‘‘​

’’میں نے کہا تھا نا تم گدھے ہو۔ ارے تم نے دونوں دروازے اندر سے بند کر دیے تھے تو تمہیں بھی گدھے کے ساتھ کمرے کے اندر ہونا چاہیے تھا۔‘‘​

انور حیران ہو کر باپ کو دیکھنے لگا۔ ​

’’انور! تمہارا ابّا بالکل ٹھیک کہتا ہے۔ تم نے ایک دروازہ اندر سے بند کیا اور دوسرے سے باہر گئے، مگر اسے بند کرنا بھول گئے۔ کیوں ہے نہ یہی بات؟‘‘​

انور شرمندہ ہو کر خاموش رہا۔ ​

’’یہ پھر وہاں چلا گیا ہے۔‘‘ رمضان خان نے بڑے اعتماد سے کہا۔ ​

’’فخرو کے گھر میں؟‘‘ خدیجہ میں پوچھا۔ ​

’’اور کہاں؟‘‘​

’’میں دیکھ آؤں وہاں جا کر۔‘‘ انور بولا۔ ​

’’میں کہتا ہوں وہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔‘‘​

تھوڑی دیر بعد باپ بیٹا فخرو کے گھر کے آگے فخرو کی ماں سے باتیں کر رہے تھے۔ رمضان خاں ذرا نرمی سے کہہ رہا تھا، ’’دیکھو بہن! یہ گدھا میرا ہے۔ میں اسے دو سو روپے دے کر خرید چکا ہوں، بزرگ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ میں ہی اس گدھے کا مالک ہوں۔‘‘​

’’تو آپ اپنی رقم واپس لے لیں۔‘‘​

’’ہرگز نہیں۔ میں گدھا ہی لوں گا جسے میں نے اتنی بڑی رقم دے کر خریدا ہے۔‘‘ رمضان خاں نے جواب دیا۔ ​

تکرار بڑھ جاتی کہ چچا دکان بند کر کے آ گیا۔ اس نے جھگڑا ختم کرنے کی خاطر دکان کی دیوار سے بندھے ہوئے گدھے کو کھولا اور اس کی رسی رمضان خاں کی طرف بڑھا دی، ’’خاں صاحب! لے جائیے، مگر یہ آپ کے ہاں رہے گا نہیں۔‘‘​

رمضان خاں غصّے سے کہنے لگا، ’’یہ کیا اس کا باپ بھی رہے گا۔‘‘​

’’ٹھیک ہے خاں صاحب! اس کا باپ ہی رہے گا۔ یہ نہیں رہے گا۔‘‘​

رمضان خاں بڑبڑاتا ہوا گدھے کی رسی تھامے چلا گیا۔ ​

رمضان خاں گدھے کو لے کر واپس آیا تو اس کی بیوی اور بیٹے دونوں کی رائے تھی کہ اسے وہاں چھوڑ کر دو سو روپے لے آتے تو اچھا تھا، مگر رمضان خاں کو یہ بات بالکل پسند نہ آئی، گرج کر بولا، ’’نہیں، میں ہار نہیں مانوں گا۔ دیکھوں گا اب کیسے جاتا ہے۔‘‘​

’’تو کیا کر لو گے؟‘‘ خدیجہ کا سوال تھا۔ ​

’’میں اسے وہاں رکھوں گا کہ کہیں جا آ ہی نہیں سکے گا۔ انور آؤ اسے کوٹھے پر لے جائیں۔‘‘​

ماں بیٹے کو یہ کام برا لگا، مگر رمضان خاں تو ایک ضدّی آدمی تھا۔ وہ مجبور ہو گئے۔ کسی نہ کسی طرح گدھے کو اوپر کوٹھے پر پہنچا دیا۔ ​

’’اب رہے گا یہیں۔‘‘​

’’لیکن انور کے ابّا! ہمیں کیا فائدہ ہو گا؟ آخر دو سو روپے۔‘‘​

’’تم چپ رہو۔ میں جانتا ہوں اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔‘‘​

’’کیا ہو گا انور کے ابّا؟‘‘​

’’اس سزا سے بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘​

’’اب اس کے اندر۔‘‘​

’’بکو مت۔ کچھ نہیں ہے اس کے اندر۔ چالاک ہے اور بہت چالاک ہے۔ میں اس کی چالاکی ختم کر کے چھوڑوں گا۔‘‘​

رمضان خاں نے خود کوٹھے پر گدھے کو چارا دیا اور اطمینان کے ساتھ نیچے آ گیا۔ ​

رات کا پچھلا پہر تھا۔ رمضان خاں گہری نیند سو رہا تھا کہ خدیجہ نے اس کا شانہ ہلا کر سرگوشی سے کہا، ’’انور کے ابّا!‘‘​

رمضان خاں سویا رہا۔ خدیجہ نے دوبارہ کہا، ’’انور کے ابّا! اٹھو۔‘‘ اب کے خدیجہ نے اس کا شانہ زور زور سے ہلایا۔ ​

رمضان خاں نے آنکھ کھول دی۔ ​

’’میں نے کہا انور کے ابّا! باہر کوئی ہے۔‘‘​

’’کون؟‘‘​

’’میں کیا جانوں۔ سایہ سا دیکھا ہے۔‘‘​

’’کب؟‘‘​

’’ابھی ابھی۔ دیکھو چور ہو گا یا۔۔ ۔۔‘‘​

رمضان خاں جان گیا اس کی بیوی کیا کہنا چاہتی تھی۔ ​

’’نہیں، نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔‘‘​

’’تم نے سیڑھیوں کا دروازہ بند بھی کیا تھا۔ انور کو بیوقوف کہتے تھے اور اب۔۔ ۔۔‘‘​

رمضان خاں نے جلدی سے بتی جلائی اور دروازے کے پاس آ گیا۔ خدیجہ بھی اس کے پیچھے پیچھے آ گئی۔ ​

دونوں بڑے دروازے کی طرف بھاگے۔ ​

دروازہ بند تھا۔ ​

’’چھت پر تو دیکھا ہوتا۔‘‘ خدیجہ نے کہا۔ ​

’’ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں دیکھتا ہوں چھت پر جا کر۔‘‘​

رمضان خاں جلد ہی واپس آ گیا۔ ​

’’وہاں نہیں ہے۔‘‘ اس نے اپنی بیوی کو اطلاع دی۔ ​

’’نہیں ہے۔ تو نکل گیا۔‘‘​

اور یہ کہتے ہوئے پریشانی اور گھبراہٹ میں خدیجہ نے دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ یکایک گدھا جو اندھیرے میں کہیں کھڑا تھا تیر کی سی تیزی سے نکل گیا۔ ​

’’دروازہ کیوں کھول دیا تھا تم نے؟‘‘ رمضان خان بیوی پر گرجا۔ ​

’’مجھے کیا پتا تھا وہ نامراد یہیں کہیں چھپا کھڑا ہے۔ میں نے تو یہ دیکھنا چاہا تھا کہ باہر تو نہیں چلا گیا۔‘‘ خدیجہ نے اپنی طرف سے دلیل دی۔ ​

’’دروازہ بند تھا۔ باہر کیسے جا سکتا تھا۔ اس گھر کے سب لوگ بیوقوف ہیں۔ اول درجے کے احمق ہیں۔ گدھے کے گدھے ہیں۔‘‘​

’’میں کہتی ہوں اب اس منحوس کو بالکل نہیں لانا۔‘‘ یہ کہہ کر خدیجہ نے دروازہ بند کر دیا۔ ​

’’کیا کیا ہے؟‘‘ رمضان خان نے بیوی سے پوچھا۔ ​

’’کچھ بھی تو نہیں کیا۔‘‘​

خدیجہ ٹکٹی باندھ کر دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ ​

’’میں پوچھتا ہوں دروازہ کھولا کیوں تھا؟‘‘​

خدیجہ گم سم کھڑی رہی۔ ​

’’دروازہ بند رہتا تو وہ منحوس گھر سے نکل سکتا تھا؟‘‘ رمضان خاں کا لہجہ غضب ناک ہو گیا۔ ​

خدیجہ کی حالت اب بھی ویسی کی ویسی تھی۔ ​

’’اب میں نہیں جاؤں گا خود جانا۔ میری دو سو کی رقم ڈوب گئی۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رمضان خاں واپس جانے لگا۔ خدیجہ وہیں کھڑی رہی۔ پھر وہ بھی جانے لگی۔

رمضان خاں منڈی جانے کے لئے صبح سویرے جاگا کرتا تھا۔ اس دن دیر ہو گئی۔ وہ جاگا تو سورج نکل چکا تھا۔ وہ پلنگ سے نیچے اترا تو دیکھا کہ خدیجہ اپنے پلنگ کی پائنتی پر بیٹھی ہے اور چھت کو گھور گھور کر دیکھ رہی ہے۔ ​

’’خدیجہ؟‘‘​

’’ہاں انور کے ابّا۔‘‘​

’’کیا ہے۔ سوئی نہیں تھی؟‘‘​

’’نہیں۔‘‘​

’’کیوں؟‘‘​

’’میں سوچتی رہی ہوں کہ میں نے دروازہ کیوں کھول دیا تھا۔‘‘​

’’اب یہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘​

’’انور کے ابّا! میں نے دروازہ کھول دیا تھا۔ کیوں کھول دیا تھا؟‘‘​

’’میں کیا بتاؤں تم نے کیوں کھول دیا تھا۔‘‘​

’’بتاؤ نا۔‘‘​

’’پاگل ہو گئی ہو۔ دروازہ تم نے کھولا تھا اور پوچھ مجھ سے رہی ہو کہ میں نے دروازہ کیوں کھولا تھا۔‘‘​

’’انور کے ابّا! لگتا ہے یہ کوئی بلا ہے۔ یہ گدھا بلا ہے، کوئی بلا ہے انور کے ابّا۔‘‘​

خدیجہ رونے لگی۔ ​

’’اچھا بلا ہے تو اب اسے ہرگز ہرگز یہاں نہیں لاؤں گا۔ دو سو روپے کا نقصان ہو گیا ہے۔ خیر اب ناشتہ تیار کرو مجھے منڈی جانا ہے۔‘‘​

خدیجہ آہستہ آہستہ اٹھ کر باہر جانے لگی۔ ​

٭٭٭

گدھا رحمت بن گیا​

سات روز گزر گئے تھے اور سبزیوں کا بیوپاری رمضان خاں گدھا لینے کے لیے نہیں آیا تھا۔ فخرو، فخرو کی ماں اور چچا تینوں کو توقع تھی کہ گدھا جب ایک بار پھر اس کے گھر سے کسی نہ کسی طرح واپس آ گیا ہے تو رمضان خاں دوسرے ہی روز آ کر جھگڑا کرے گا اور گدھا اپنے ہاں لے جانے کا اصرار کرے گا، مگر نا جانے کیا بات تھی کہ اس نے اپنی شکل نہیں دکھائی تھی۔ ​

’’اب نہیں آئے گا رمضان کا بچہ۔‘‘ فخرو کی ماں نے خوش ہو کر چچا کو اطلاع دی۔ ​

’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ اس نے سمجھ لیا ہے کہ گدھا اس کے ہاں ٹکے گا نہیں۔‘‘​

’’اور کیا گدھا ہمارا ہے۔‘‘ یہ فخرو کے الفاظ تھے۔ ​

’’مفت میں دو سو مل گئے ہیں چچا‘‘​

’’پاگل ہو گئے ہو فخرو! یہ اس کی امانت ہے۔ جب چاہے گا لے جائے گا۔‘‘​

فخرو پر اوس پڑ گئی۔ ​

’’کالو!‘‘ فخرو کی ماں نے چچا کو مخاطب کیا۔ ​

’’کیوں آپا!‘‘​

’’گھر کے لیے کچھ برتن لانے ہیں۔ فخرو کے کپڑے دیکھ رہے ہو کیا حال ہے ان کا۔‘‘​

’’آپا! تم چاہتی ہو میں یہ امانت کی رقم خرچ کر دوں۔ نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ فخرو کو کل سے کام کرنا ہو گا۔‘‘​

فخرو نے ان سات دنوں میں پہلے کی طرح خوب آوارہ گردی کی تھی۔ اس نے سوچا تھا کہ اب اس کے دن اسی طرح مزے میں گزریں گے۔ لیکن چچا کی بات سن کر وہ سہم سا گیا۔ ​

’’اب منڈی کیسے جائے گا فخرو؟ رمضان خاں اس سے گدھا چھینے بغیر نہیں رہے گا۔‘‘ فخرو کی ماں نے فخرو کی ترجمانی کی۔ ​

’’رمضان خاں کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ چچا نے پوچھا۔ ​

’’منڈی جائے گا تو رمضان اسے دیکھے گا نہیں۔‘‘​

’’آپا! شہر میں صرف ترکاریوں ہی کی منڈی نہیں ہے۔ پھلوں کی منڈی بھی ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘​

فخرو کی ماں خاموش رہی۔ ​

’’ہمارا فخرو پھلوں کی منڈی جایا کرے گا اور وہی کام کرے گا جو اس منڈی میں کرتا تھا۔‘‘​

’’مگر چچا! میں پھل گدھے پر کیسے لادوں گا؟‘‘​

’’کیوں؟ کیا تکلیف ہو گی تمہیں؟ گدھا سبزیوں کا بوجھ اٹھا سکتا ہے تو پھلوں کا بوجھ کیوں نہیں اٹھا سکتا؟​‘‘

یہ لفظ کہہ کر چچا کسی کام سے باہر گیا۔ ​

فخرو کی حالت ایسی تھی جیسے اسے کسی بڑی سزا کا حکم سنایا گیا ہو۔ ماں نے محبّت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ​

’’دکھی کیوں ہوتے ہو فخرو۔ بیٹے کام کرتے ہی اچھے لگتے ہیں۔‘‘​

’’اماں! یہ گدھا، کیا مصیبت آئی ہے ہمارے گھر میں۔ اسے گدھا ہی دینا تھا ہمیں! یہ بھی کوئی تحفہ ہے۔ میرا جی چاہتا ہے اماں! اسے لے جا کر واپس کر آؤں۔‘‘​

’’نہ، نہ پتر! بڑا شریف اور محبّت کرنے والا جانور ہے۔ ہم سے کتنی محبّت کرتا ہے۔ کہیں ٹکتا ہی نہیں۔ فوراً واپس آ جاتا ہے۔‘‘​

فخرو کی ماں نے بیٹے کو سمجھانے کی کوشش کی۔ ​

’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے اماں! میں اب اسے کسی منڈی ونڈی نہیں لے جاؤں گا۔‘‘​

چچا واپس آ گیا تھا اور اس نے فخرو کی بات سن لی تھی۔ ​

’’دیکھتا ہوں تم کس طرح نہیں جاؤ گے۔ مفت کی روٹیاں توڑتے شرم نہیں آتی۔ جوان ہو، تمہاری عمر کے لڑکوں نے گھر سنبھال رکھے ہیں۔ تمہیں آوارہ پھرنے کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ کام کرو گے تو روٹی ملے گی۔ سمجھ لیا نا؟‘‘​

فخرو کی ماں نے دیکھا کہ کالو خاں بڑے غصّے میں ہے تو بولی، ’’کالو، جائے گا۔ منڈی جائے گا میرا کماؤ بیٹا۔‘‘​

’’کماؤ بیٹا ہے تو صبح سویرے جاگ کر پھلوں کی منڈی میں جائے گا۔‘‘​

’’فخرو نے تو پھلوں کی منڈی دیکھی ہی نہیں۔‘‘ ماں نے کہا۔ ​

’’میں دکان بند کر کے اسے اپنے ساتھ لے جاؤں گا اور کسی بیوپاری سے اس کی واقفیت بھی کروا دوں گا۔‘‘​

فخرو اور اس کی ماں خاموش ہو گئے۔ ​

چچا دکان بند کر کے گھر آ گیا اور فخرو کو اپنے ساتھ پھلوں کی منڈی میں لے گیا۔ ایک بیوپاری سے اس کا تعارف بھی کرا دیا۔ ​

’’یہ کل آئے گا گدھے کے ساتھ۔ سودا گدھے پر لاد کر دکان پہنچا دیا کرے گا۔‘‘​

’’اچھا۔‘‘​

بیوپاری مان گیا۔ ​

راستے میں چچا فخرو کو سمجھاتا رہا، ’’اچھے لڑکے کام سے کبھی نہیں گھبراتے۔ کام کرو گے تو سکھ پاؤ گے۔‘‘​

فخرو چچا کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔ ​

دوسرے دن فخرو منڈی میں جانے کے خیال سے آدھی رات تک کروٹیں بدلتا رہا، پھر سو گیا۔ ​

سوتے وقت اس نے دعا کی تھی، ’’اللہ کرے رمضان خاں آ کر گدھے کو اپنے گھر لے جائے۔‘‘​

وہ خواب دیکھ رہا تھا کہ وہ گدھا لیے جا رہا ہے کہ رمضان خاں آتا ہے اور کہتا ہے، ’’میرا گدھا واپس کرو۔‘‘​

وہ گدھے کی رسی رمضان خاں کے ہاتھوں میں دیتا ہے کہ اس کی کان میں چچا کی آواز گونجی، ’’اٹھو! منڈی میں جانے کا وقت ہو گیا ہے۔‘‘​

فخرو اٹھ بیٹھا۔ ​

’’آپا نے ناشتہ تیار کر لیا ہے۔ پیو دودھ کا گلاس اور اللہ کا نام لے کر جاؤ منڈی۔‘‘​

فخرو غسل خانے سے باہر آیا تو ماں دودھ کا گلاس لیے کھڑی تھی۔ ​

’’پی لو میرے چاند! میرے لال پی لو۔‘‘​

فخرو نے آدھا گلاس دودھ پی کر گلاس چوکی کے اوپر رکھ دیا۔ ​

’’باقی پی لو نا۔‘‘ ماں نے اصرار کیا۔ ​

’’اماں بس!‘‘​

چچا گدھے کے ساتھ دروازے کے باہر کھڑا تھا اس نے آواز دی، ’’فخرو! آؤ جلدی کرو۔‘‘​

فخرو کی آنکھوں میں نیند بھری تھی، مگر چچا کے ڈر سے باہر آ گیا۔ ​

چچا نے گدھے کی رسی اس کے ہاتھ میں دی۔ ​

’’بسم اللہ پڑھ کر جاؤ۔ اللہ کامیاب کرے گا۔‘‘ ماں نے فخرو کو پیار کیا اور اسے گدھے کی رسی تھامے آہستہ آہستہ جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ ​

نیند کی وجہ سے فخرو کے قدم بار بار ڈگمگا جاتے تھے۔ وہ خود کو مشکل سے سنبھال کر گدھے کی رسی تھامے چلنے لگتا تھا۔ منڈی اور اس کے درمیان ابھی کافی فاصلہ تھا۔ ​

ایک مقام پر جہاں کئی نئے مکان بنائے جا رہے تھے اس پر نیند نے ایسا غلبہ کیا کہ اس نے اپنا سر گدھے کی گردن پر رکھ دیا اور بازو پھیلا دیے۔ گدھا ذرا رکا اور پھر چلنے لگا۔ ​

گدھا چلا تو وہ تیورا کر گر پڑا۔ ​

’’ارے گدھے!‘‘ اس نے غصّے سے کہا۔ ​

’’ٹھہرو تو ذرا۔ دیکھتا ہوں تجھے۔‘‘ یہ کہہ کر فخرو اس کی پشت پر بیٹھ گیا۔ ​

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ نیند کی وجہ سے اس کا سر جھکے جا رہا تھا۔ ​

تھوڑی دور آگے جا کر اس کا سر پھر گدھے کی گردن سے جا لگا اور اپنے آپ کو سنبھالنے کے بجائے وہ لیٹ گیا۔ اردگرد کے لوگ شوق اور دل چسپی سے یہ تماشا دیکھنے لگے، مگر گدھے نے رکنے کا نام نہ لیا۔ ​

گدھا چلتا گیا چلتا گیا اور فخرو اس کی پشت پر بے خبر سوتا رہا۔ ​

فضا میں سورج چمکنے لگا تھا۔ دھوپ ہر طرف پھیل گئی تھی۔ ​

یکایک گدھا اچھلا اور اس کے اس طرح اچھلنے سے فخرو اس کی پشت سے نیچے زمین پر گر پڑا۔ ​

’’ہیں! یہ میں کہاں آ گیا ہوں۔‘‘​

فخرو نے آنکھیں ملتے ہوئے سامنے دیکھا۔ پہاڑوں کا ایک سلسلہ حد نگاہ تک چلا گیا تھا۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں اونچے اونچے درخت نظر آ رہے تھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ گدھا اسے ایک ویرانے میں لے آیا ہے جہاں دور دور تک کوئی آبادی نہیں ہے۔ ​

’’ہت تیرے کی!‘‘ اس نے آگے بڑھ کر گدھے کے سر پر مکا مارا۔ گدھے پر تو کوئی اثر نہ ہوا، البتہ اس کا ہاتھ دکھنے لگا۔ نیند اب بھی اس کی آنکھوں میں بھری ہوئی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر گدھے کے نیچے گھاس اگی ہوئی تھی۔ ​

اس نے گدھے کا کان پکڑ کر اسے گھاس سے ہٹایا اور خود نرم نرم گھاس پر لیٹ گیا۔ ​

فخرو دیر تک گہری نیند سوتا رہا۔ وہ اس وقت بھی سو رہا تھا جب اس نے آنکھ کھول کر دیکھا کہ گدھا اس کے کرتے کا دامن منہ میں دبائے ایک طرف اسے لیے جا رہا ہے۔ ​

’’اوئے گدھے کے بچے! یہ کیا بدتمیزی ہے!‘‘​

اور اس سے پہلے کہ وہ اپنے کرتے کا دامن گدھے کے دانتوں سے نکالے، گدھے نے منہ کھول کر خود ہی اس کا دامن چھوڑ دیا۔ ​

وہ حیران و پریشان بڑ کے ایک درخت کے نیچے بیٹھا کرتے کا دامن اپنے پیٹ پر پھیلا رہا تھا کہ اس نے گدھے پر نظر ڈالی جو ایک گڑھے میں تھوتھنی ڈالے کھڑا تھا اور سر ہلا رہا تھا۔ ​

وہ اٹھا اور اس گڑھے کے پاس گیا۔ نیچے ایسی چمک تھی کہ وہ ایک دم ڈر کر پیچھے ہٹ گیا۔ ​

گدھے نے تھوتھنی گڑھے سے نکالی۔ اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنی تھوتھنی گڑھے میں ڈال دی۔ ​

فخرو گڑھے کی طرف آیا تو گدھے نے فوراً اپنی تھوتھنی اس میں سے نکال لی۔ ​

اس نے اندازہ لگا لیا کہ گدھا چاہتا ہے کہ وہ گڑھے کے اندر دیکھے۔ فخرو نے دیکھا کہ اب کے چمک زیادہ ہو گئی تھی۔ اس نے ڈرتے ڈرتے اپنا دایاں ہاتھ گڑھے کے اندر ڈالا۔ سخت سی چیزیں اس کے ہاتھ سے مس کرنے لگیں۔

اس نے ہی سخت چیزیں مٹھی میں بند کر کے باہر نکال لیں۔ مٹھی کو کھولا تو ان سخت رنگا رنگ چیزوں سے روشنی اس طرح پھوٹ رہی تھی کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کے ارد گرد چراغ جل اٹھے ہوں۔

وہ ان رنگ برنگے شیشوں کو دیکھتا رہا۔

’’یہ بڑیے قیمتی چیزیں ہیں۔‘‘ اس کے ذہن میں خیال آیا۔

اس نے گڑھے میں بیک وقت دونوں ہاتھ ڈال دیے اور شیشوں کے رنگین ٹکڑوں کو مٹھیوں میں بند کر کے بانہیں باہر نکالیں۔

تین مرتبہ اس نے یہی عمل کیا۔

اس کے آگے رنگین شیشوں کا ڈھیر لگ گیا تھا۔ چوتھی مرتبہ اس نے ہاتھ ڈالا تو صرف ایک ٹکڑا مٹھی میں بند کر کے باہر لا سکا۔

گویا اس نے گڑھے میں دبے ہوئے سارے کے سارے ٹکڑے باہر نکال لیے تھے۔

وہ بار بار ان رنگارنگ ٹکڑوں کو دیکھتا تھا اور اس کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔

اس کے دماغ میں ایک سوال ابھرا، ’’انہیں گھر میں لے جاؤں کیسے؟‘‘

وہ اس سوال پر غور کر ہی رہا تھا کہ گدھے نے آگے بڑھ کر پھر اس کے کرتے کا دامن اپنے دانتوں میں دبا دیا اور جلد ہی اسے چھوڑ دیا۔

’’ٹھیک ہے عقلمند گدھے۔‘‘

اس نے اپنا کرتا اتارا اور سارے ٹکڑے اس میں سمیٹ کر گانٹھ باندھ دی۔

گدھا خود بخود چلنے لگا۔ اس نے پوٹلی گدھے کی پشت پر رکھی اور خود اس کے اوپر اس طرح بیٹھ گیا کہ آنے جانے والوں کی نظر اس پوٹلی پر نہیں پڑ سکتی تھی۔

ویرانے سے نکل کر وہ شہر میں پہنچ گیا۔ اسے راستے کا کوئی علم نہیں تھا۔ گدھا ہی اسے لے آیا تھا۔

ویرانے میں تو اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا، وہاں کوئی تھا ہی نہیں، مگر شہر میں لوگ آ جا رہے تھے، ان کے لیے وہ ایک تماشا بن گیا تھا۔

آدھا دھڑ ننگا اور گدھے پر بیٹھا ہوا۔

عجیب تماشا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر تالیاں بجانے لگے۔ ایک لڑکا اس کی طرف بڑھا تو گدھے نے دولتی ماری جو لڑکے کے ہاتھ پر لگی۔ وہ ہائے کہہ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کے بعد کسی نے گدھے کے پاس آنے کی جرات نہ کی۔

فخرو اسی حالت میں اپنے گھر کے دروازے پر پہنچ گیا۔

اس کی ماں کوئی سودا خرید کر دروازے میں داخل ہو رہی تھی۔

’’وے فٹے منہ تیرا!‘‘ اس نے بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر کہا۔

فخرو نے سنی ان سنی کر دی اور گدھے کو دروازے میں سے نکال کر اندر لے آیا۔

’’وے تو پاگل تو نہیں ہو گیا فخرو‘‘!

فخرو جلدی سے نیچے اترا۔ پوٹلی چارپائی پر رکھ کر اس کے اوپر کپڑے ڈال دیے۔

ماں اس کی پاگلانہ حرکتیں دیکھ دیکھ کر پاگل ہو رہی تھی۔

’’تیرا بیڑا غرق ہو کر کیا رہا ہے تو؟‘‘

’’ماں، چپ۔‘‘ فخرو نے اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پر رکھ دیا۔

’’اللہ کے لیے دروازہ بند کر دو۔‘‘

ماں تو کھڑی ہی رہی۔ فخرو نے جلدی سے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔

’’اماں۔‘‘

’’ہوں۔‘‘

’’خزانہ۔۔ ۔۔ خزانہ اماں۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’اللہ قسم خزانہ!‘‘

فخرو نے کپڑے ہٹا کر پوٹلی کھولی۔ روشنی سے ماں کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

’’دیکھا اماں۔‘‘

’’ہیں یہ کیا؟‘‘

’’چپ اماں۔‘‘

فخرو نے پھر پوٹلی کو کپڑوں میں چھپا دیا۔

’’چچا کو بلا لاؤ اماں۔‘‘

’’تم بلا لاؤ۔‘‘

’’نہیں اماں! میں یہیں رہوں گا۔‘‘

ماں دروازہ کھول کر چلی گئی۔

فخرو نے اندر سے کنڈی لگا لی۔ گھبراہٹ میں اس کا سانس بار بار رک جاتا تھا۔

تھوڑی دیر بعد باہر سے چچا کی آواز آئی، ’’فخرو۔‘‘

فخرو نے دروازہ کھول دیا۔ ماں اور چچا اندر آ گئے۔

’’مصیبت کیا ہے؟‘‘ چچا بولا۔

فخرو نے منہ سے کچھ نہ کہا۔ کپڑے ہٹا کر پوٹلی نکالی۔ پوٹلی میں سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی اور چچا نے جب اسے کھولا تو حیرت سے اس کے ڈیلے پھیل گئے۔

فخرو نے جلدی جلدی واردات سنا دی۔

’’بس اب بالکل خاموش رہو۔ یہ ہیرے ہیں۔‘‘

’’ہیرے!‘‘ ماں اور بیٹے نے منہ سے بیک وقت کہا۔

’’چپ۔۔ ۔۔ چپ۔۔ ۔۔ چپ!‘‘

چچا پوٹلی کوٹھری کے اندر لے گیا اور اسے کہیں چھپا کر باہر آیا۔

شام سے پہلے پہلے چچا نے دو سو روپے خرچ کر کے اعلی درجے کا لباس خریدا۔ ایک اشرفی رو مال میں اچھی طرح باندھی اور گھر سے نکل آیا۔ شام کے بعد لوٹا تو بہت سارا سامان اس کے ساتھ تھا۔ سب نے مل کر سامان ٹیکسی سے اتارا اور گھر کے اندر لے گئے۔

’’ہمارے دن پھر گئے ہیں آپا! اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ یہ گدھا ہمارے لیے رحمت بن گیا ہے۔‘‘ چچا نے کہا۔

تینوں اپنے ہاتھ گدھے کی پشت پر پھیرنے لگے۔

٭٭٭

رمضان خاں گدھا لے گیا​

فخرو کے خاندان کو وہ غیبی خزانہ کیا ملا اس کی تو تقدیر بدل گئی۔ چچا کالو خان ہر روز گھر کے لیے کوئی نہ کوئی نئی چیز خرید لاتا۔ ایک روز وہ ایک لمبی چوڑی دری خرید لایا۔ دوسرے روز چائے کا بڑھیا سیٹ لے آیا۔ آپا کے لیے شان دار لباس تیار کروایا گیا۔ فخرو کے لیے ایسے کپڑے گھر میں آ گئے جن کا اُس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ ​

یہ ساری بڑی خوش گوار تبدیلی گدھے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ اس لیے تینوں ہی اسے بڑا پیار کرنے لگے تھے۔ گھر کے چھوٹے سے لان میں وہ آزادی سے رہتا تھا۔ صاف سُتھری گھاس پر ہر وقت بیٹھا رہتا تھا۔ پانی اسے ایک بڑے سے شیشے کے ٹب میں دیا گیا تھا۔ ​

گدھا بظاہر بہت خوش تھا اور خوش کیوں نہ ہوتا اسے پیار ملا تھا اور پیار کے علاوہ اس کی خوب خاطر تواضع بھی ہو رہی تھی۔ ​

اس روز چچا یہ دیکھنے کے لیے کہ گدھے کے لیے ضرورت کی ہر چیز موجود ہے، دالان میں گیا، گھاس بھی موجود تھی، پانی بھی۔ اس کی نظر دیوار پر پڑی تو وہاں موٹے لفظوں میں لکھا ہوا تھا: ​

’’یہاں بادشاہ سلامت رہتے ہیں۔‘‘​

یہ لفظ فخرو نے لکھے تھے۔ فخرو باقاعدگی سے اسکول کبھی نہیں گیا تھا مگر جتنا وقت اس نے وہاں صرف کیا تھا اس میں تھوڑا سا لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ چچا یہ فقرہ پڑھ کر ہنس پڑا۔ ​

وہ باہر آیا تو دیکھا کہ فخرو شان دار لباس پہنے چائے کا کپ ہونٹوں سے لگائے کرسی پر بیٹھا ہے۔ ​

’’میرے پیارے بھتیجے!‘‘ کالو خاں نے پیار سے کہا۔ ​

’’پیارے چچا جان!‘‘ فخرو نے ادب اور احترام کے ساتھ ذرا جھُک کر جواب دیا۔ ​

’’آج ارادہ کیا ہے پیارے بھتیجے؟‘‘

’’پیارے چچا جان! آج بادشاہ سلامت کو باہر سیر کرانے کا ارادہ ہے۔‘‘

’’نہ بابا ایسا نہ کرنا۔‘‘​

’’کیوں چچا جان؟ دیکھیے نا بادشاہ سلامت ہر وقت ایک جگہ پر رہتے ہوئے گھبرا گئے ہوں گے۔ باہر ٹھنڈی ہوا میں گھومیں پھریں گے تو ان کو خوشی ہو گی۔‘‘​

’’خوشی تو ضرور ہو گی، مگر پیارے بھتیجے وہ رمضان خاں بیوپاری!‘‘ ’’کیسی باتیں کرتے ہیں چچا جان! اب وہ ہمارے بادشاہ سلامت کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ اسی دوران ماں بھی آ گئی۔ ​

’’کیا بحث ہو رہی ہے چچا بھتیجے میں؟‘‘ ماں نے آتے ہی پوچھا۔ ’’اماں! بات یہ ہے میں ذرا بادشاہ سلامت کو سیر کے لیے باہر لے جانا چاہتا ہوں۔‘‘​

’’بادشاہ سلامت! یہ کون ہے؟‘‘ ماں نے حیرت سے پوچھا۔ ​

’’یہ ہیں ہمارے بادشاہ سلامت۔‘‘ فخرو نے گدھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ماں بے اختیار ہنس پڑی اور بولی، ’’سبحان اللہ! یہ بادشاہ سلامت بن گیا۔‘‘ ’’ہمارے لیے تو بادشاہ سلامت ہے نا اماں!‘‘​

’’ضرور ہے، مگر کالو خاں تم کیا کہتے ہو!‘‘ ماں نے چچا سے پوچھا۔ ​

’’آپا! وہ جو ہے ناں رمضان خاں بیوپاری، کوئی شرارت نہ کر دے۔‘‘​

’’ہٹاؤ اُس منحوس کو۔ کچھ کرے تو سہی، اسے اندر کرا دیں گے ہم۔‘‘ ماں نے ہاتھ کو لہراتے ہوئے کہا۔ ​

’’اچھا تمہاری مرضی۔‘‘ یہ کہہ کر چچا اور ماں دونوں چلے گئے۔ اس کے بعد فخرو نے گدھے کے گلے میں بندھی ہوئی ریشمی رسی ہاتھ میں پکڑی اور بڑے ٹھاٹ سے باہر نکلا۔ وہ بازار میں چند قدم ہی چلا ہو گا کہ آنے جانے والے لوگ انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ بالخصوص اسکولوں کو جو بچے جا رہے تھے وہ ان کے پاس آ کر رُک گئے۔ فخرو اکڑ اکٹر کر چل رہا تھا۔ اسے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ایک لڑکا جو کافی شریر تھا دوڑ کر فخرو کے پاس آیا۔ اس نے پہلے تو جھک کر سلام کیا، پھر بولا: ​

’’جناب فخرو جی!‘‘​

’’کیا بات ہے؟‘‘ فخرو نے اکڑی ہوئی گردن اس کی طرف موڑی۔

’’یہ خوب صورت ہرن کہاں سے آیا ہے؟‘‘ جو بچے وہاں جمع ہو گئے تھے یہ فقرہ سُن کر ہنس پڑے۔ اس سے پہلے کہ فخرو جواب دینے کی کوشش کرے ایک اور لڑکا بولا: ​

’’یہ ہرن نہیں ہے۔‘‘​

’’تو کیا ہے؟‘‘ پہلے لڑکے نے پوچھا۔ ’’یہ ایک ایسا نایاب جانور ہے جس کی نسل ختم ہو گئی ہے۔‘‘ تیسرے لڑکے نے مجمع میں سے سر نکال کر تائید کی۔ ’’میرا خیال ہے یورپ کے کسی چڑیا گھر سے تحفے میں بھیجا گیا ہے۔‘‘

’’بالکل درست۔‘‘ کئی لڑکوں نے تائید کی۔ ​

’’ہائے کتنا پیارا ہے۔‘‘ پہلے لڑکے نے گدھے پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔​

’’اور یہ دُم۔‘‘ دوسرے لڑکے نے اس کی دُم کھینچی۔ گدھے نے دولتی جھاڑی۔ ​

لڑکا جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ دولتی ایک اور لڑکے کے سینے میں جا لگی۔ وہ چیخا: ​

’’ہائے مر گیا!‘‘​

ایک لڑکے نے گدھے پر دو ہتڑ مارا۔ گدھے نے ایک مرتبہ اور دولتی جھاڑی اور بھاگ نکلا۔ لڑکے شور مچاتے ہوئے اس کے پیچھے جانے لگے۔ فخرو پریشان ہو گیا۔ اس نے پورے زور سے دوڑنے کی کوشش کی اور گدھے کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے گدھے کی رسی پکڑی ہی تھی کہ لڑکے آ گئے۔ ​

’’مت چھوڑو اِسے۔‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں آئیں۔ فخرو دھکا کھا کر گر پڑا۔ لڑکوں نے گدھے کا گھیراؤ کر لیا۔ ​

​’’چھوڑو بادشاہ سلامت کو!‘‘ فخرو نے چیخ کر کہا۔ ​

یہ سن کر قہقہوں کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ فخرو اٹھنے کو تو اٹھ بیٹھا۔ مگر کچھ نہ کر سکا۔ لڑکے گدھے کو گھیر کر لے جا رہے تھے۔ فخرو ان کی طرف بھاگا لیکن کئی لڑکوں نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ ​

’’چھوڑو، چھوڑو مجھے۔‘‘ لڑکے اسے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ کچھ لڑکے گدھے کو لیے چلے جا رہے تھے۔ وہ اسے کبھی کبھی پیٹ بھی دیتے تھے۔ ​

اچانک قریب سے ایک گرجتی ہوئی آواز آئی: ​

’’چھوڑو بدتمیزو!‘‘​

فخرو نے اُدھر دیکھا۔ کچھ دور رمضان خاں بیوپاری کھڑا تھا۔ ​

’’چھوڑو دو ورنہ ہڈیاں توڑ دوں گا۔‘‘ لڑکوں نے ایک لحیم شحیم آدمی کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا تو رفو چکر ہو گئے۔ ​

’’واہ وا فخرو میاں! کیا شان ہے! سبحان اللہ!‘‘ رمضان خاں نے فخرو کے دائیں شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ​

’’بڑی مہربانی خاں صاحب!‘‘​

’’ارے مہربانی کیسی ہم تو تمہارے خادم ہیں، خادم!‘‘ ’’شرمندہ نہ کریں۔ آج آپ نے میری بڑی مدد کی ہے۔‘‘ فخرو نے بڑے خلوص سے کہا۔ ’’میں نے کہا نا ہم تو تیرے خادم ہیں۔ کوئی ہمارے فخرو کو تنگ کر کے تو دیکھے، ہڈیاں مروڑ دیں گے اس کی۔‘‘​

رمضان خاں کو یوں للکارتے ہوئے دیکھ کر کچھ لوگ وہاں جمع ہو گئے۔ ​

​’’ارے تم کیا تماشا دیکھنے آئے ہو!‘‘ رمضان خاں گرجا۔ وہ لوگ تتر بتر ہو گئے۔ ​

​’’اچھا خاں صاحب!‘‘ فخرو نے اپنے بادشاہ سلامت کی پیٹھ پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’چل بادشاہ سلامت!‘‘​

’’کیا کہا؟‘‘ رمضان خاں نے حیران ہو کر پوچھا۔ ​

’’یہ بادشاہ سلامت ہیں۔‘‘ ’’یہ جناب گدھا صاحب؟‘‘​

’’جی بادشاہ سلامت کہیے خاں صاحب!‘‘ رمضان نے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں پر رکھ دیئے۔ ​

’’غلطی ہو گئی، معاف کرنا۔ یہ گدھا صاحب نہیں بادشاہ سلامت ہیں۔ معاف کر دیا نا؟‘‘​

’’کوئی بات نہیں،‘‘ فخرو نے کہا۔ ’’فخرو دوست!‘‘ رمضان خاں نے فخرو کو جاتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ ’’جی خاں صاحب!‘‘​

’’ایک بات ہے۔ ذرا میرے ساتھ ایک شان دار ہوٹل میں چل کر چائے پی لو۔ اللہ قسم مزہ آ جائے گا۔‘‘​

’’نہ خاں صاحب! کیوں تکلیف کرتے ہیں۔‘‘ ’’میری خوشی اسی میں ہے۔‘‘​

’’تو میری خوشی بھی اسی میں ہے۔‘‘ دونوں ایک قریبی ریستوران کے گئے۔ اب معاملہ گدھے کا تھا کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ ​

’’اسے تو اندر نہیں لے جا سکتے۔‘‘ رمضان خاں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ بادشاہ سلامت باہر رہیں گے۔‘‘​

رمضان خاں فکر مند ہو گیا کہ کوئی اسے لے نہ جائے۔ فخرو نے اس کی فکر مندی بھانپ لی اور بولا: ​

’’خاں صاحب! یہ بادشاہ سلامت بڑے ہی بادشاہ سلامت ہیں۔ کوئی ان کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھا سکتا۔ دو لتیاں جھاڑنے میں ان کا جواب نہیں ہے۔‘‘​

’’تو ٹھیک ہے۔‘‘ رمضان خاں کو اطمینان ہو گیا۔ ​

فخرو نے گدھا ریستوراں کے باہر کھڑا کر دیا اور دونوں اندر چلے گئے۔ فخرو کو ایک بڑی اور شان دار ریستوراں کے اندر جانے کا زندگی میں پہلا موقع ملا تھا۔ وہ رونق، شان و شوکت دیکھ کر حیران و پریشان ہو گیا۔ رمضان خاں نے اسے ایک میز کے سامنے کرسی پر بیٹھا دیا۔ فضا میں ہلکی ہلکی موسیقی کی لہریں سی تیر رہی تھی۔ با وردی بیرے ٹرے اٹھائے ادھر سے ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔ ​

​ایک بیرا ادب سے فخرو کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔​

’’کیا کھاؤ گے فخرو میاں؟‘‘ رمضان خاں نے فخرو سے پوچھا۔ فخرو بھلا کیا جواب دیتا۔ بولا، ’’خاں صاحب! جو آپ پسند کریں۔‘‘​

’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘ اور رمضان خاں نے بیرے کو آرڈر دیا: ​

’’لے آؤ پیسٹری، کیک، کباب اور جو کچھ ہے۔‘‘​

بیرا مسکرا کر چلا گیا۔ چند منٹ بعد ان کی میز پر ڈھیروں چیزیں رکھی تھیں۔ گلاب جامن، پیسٹری، کیک، کباب وغیرہ۔ ​’’کھاؤ یہ سب کچھ تمہارے لیے ہے۔‘‘

’’آپ کھائیں۔‘‘ ’’تو بسم اللہ۔‘‘ رمضان خاں نے گلاب جامن اٹھا کر منھ میں ڈال لی۔ یہی کام فخرو نے کیا۔ رمضان خاں نے پیسٹری کا ایک ٹکڑا اٹھایا۔ اس کے گرد جو کاغذ لپٹا ہوا تھا اسے اتارا اور اسے بھی منھ میں رکھ لیا۔ ​

​فخرو نے اُسے کاغذ اتارتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اس نے اُسی طرح پیسٹری دانتوں کے درمیان رکھ لی۔ ​

سامنے میز کے گرد جو دو آدمی بیٹھے تھے وہ بڑی دل چسپی سے فخرو کو دیکھ رہے تھے۔ ایک تو فخرو کے منھ کے اندر کاغذ تھا اور پھر ان دو آدمیوں کی طنزیہ نظریں۔ فخرو کو پیسٹری حلق سے اُتارنا مشکل ہو گیا۔ عجیب حالت ہو گئی اس کے چہرے کی۔ ایک بیرے نے جلدی سے پانی کا گلاس اسے دیا۔ پانی کے دو گھونٹ پی کر اس کی مشکل دور ہو گئی۔ ​

اس کے بعد فخرو نے کوئی پیسٹری نہ کھائی۔ دوسری چیزیں کھاتا رہا۔ جب سیر شکم ہو گیا تو رمضان خاں نے کہا، ’’فخرو بیٹا٬‘‘ ’’جی خاں صاحب!‘‘​

’’اللہ نے بڑا احسان کیا ہے تم پر۔ تمہارے چچا کی دکان خوب چل رہی ہے۔ بڑا مال آ رہا ہے۔ یہ قیمتی کپڑے۔ سبحان اللہ۔‘‘​

یہ کہتے ہوئے رمضان نے فخرو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ​

’’خاک دُکان چلتی ہے خاں صاحب!‘‘ فخرو کی بات سن کر رمضان مسکرانے لگا۔ ’’تو میاں! یہ مال آیا کہاں سے؟‘‘ فخرو نے بے دھڑک کہہ دیا، ’’یہ بادشاہ سلامت کی مہربانی ہے۔‘‘​

رمضان خاں نے بیرے کو اور چیزیں لانے کے لیے کہا، مگر فخرو نے کہا: ​

’’بس خاں صاحب! پیٹ بھر گیا ہے۔‘‘​

’’آج تو میرا دل چاہتا ہے ساری دنیا کی نعمتیں تمہارے آگے ڈھیر کر دوں۔‘‘​

رمضان خاں ذرا رُکا اور پھر بولا، ’’میرے پیارے بھتیجے یہ تو بتاؤ بادشاہ سلامت نے مہربانی کی کیسے؟‘‘​

فخرو نے وہ سارا واقعہ سنا دیا جس میں خزانہ ملا تھا۔ ​

رمضان خاں ساری روداد چپ چاپ بڑی توجہ سے سنتا رہا۔ جب فخرو سب کچھ سنا کر خاموش ہو گیا تو رمضان خاں کہنے لگا: ​

’’فخرو بیٹا! یہ اللہ کی دین ہے۔ وہ نیلی چھتری والا جس کو چاہے دے جس کو چاہے نہ دے۔ تم بڑے خوش قسمت ہو۔ اللہ تمہیں اور خزانہ دے۔‘‘​

دونوں اٹھے اور باہر آئے۔ گدھا وہیں کھڑا تھا۔ ​

’’معاف کرنا بادشاہ سلامت! تمہیں تکلیف دی۔‘‘ فخرو نے گدھے کے سامنے جھُک کر کہا۔ ’’فکر نہ کرو بیٹا! بادشاہ سلامت بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ معاف کر دیا ہے تمہیں۔‘‘ یہ کہہ کر رمضان خاں گدھے کی پُشت پر ذرا ہاتھ پھیرتے ہوئے تڑپ کر بولا:

’’اُف میرے اللہ!‘‘ خاں صاحب نے جلدی سے ہاتھ اپنے کُرتے پر ملتے ہوئے کہا۔ ​

’’کیا ہوا خاں صاحب؟‘‘

’’میرے اختیار میں ہو تو ان شریر لڑکوں کو مار مار کر گنجا کر دوں۔ ان کی ہڈیاں توڑ ڈالوں۔‘‘

’’ہوا کیا ہے آخر؟‘‘ رمضان خاں نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا: ​

’’تم دیکھ نہیں رہے۔ ان ظالموں نے بادشاہ سلامت کو مارا ہے۔ کان بُری طرح مروڑے ہیں۔ پتا نہیں میں نے کس طرح ہاتھ پھیرا ہے۔ میرے ہاتھوں پر خون لگ گیا ہے۔ توبہ توبہ اللہ کی بے زبان مخلوق پر یہ ظلم!‘‘​

’’اچھا!‘‘ فخرو نے رمضان خاں کی بات پر یقین کر لیا۔ ​

’’اس پر ایک خاص مرہم لگایا جائے تو آرام آئے گا۔‘‘

’’خاص مرہم کہاں سے ملے گا؟‘‘​

فخرو نے پوچھا۔

’’بازار میں نہیں ملتا۔ اس پورے شہر میں نہیں ہے۔ میرے دادا جان نہ جانے کہاں سے لائے۔ زخموں کے لیے تریاق ہے۔ صرف ہمارے گھر میں ہے۔‘‘

’’تو مجھے دے دیں مہربانی ہو گی۔‘‘​

رمضان خاں نے انکار میں سر ہلایا، ’’اس کے لگانے کا خاص طریقہ ہے۔ صرف میں لگا سکتا ہوں یا میری بوڑھی ماں۔‘‘

’’تو کیا کیا جائے؟‘‘

’’بیٹا! اسے صرف ایک رات کے لیے چھوڑ جاؤ۔ کل سویرے تمہارے گھر میں ہو گا۔‘‘​​

فخرو کے چہرے کے اثرات بتا رہے تھے کہ اسے یہ بات منظور نہیں ہے۔ رمضان نے پھر کہا، ’’پیارے بھتیجے! اپنے چاچے کی بات پر شک کرتے ہو۔ لعنت ہے ایسے چاچے پر۔‘‘​

’’نہیں خاں صاحب! میں بھلا کیا کہہ سکتا ہوں۔ مگر میری ماں اور میرا چچا!‘‘​

’’انہیں راضی کرنا میرا کام ہے۔‘‘ رمضان خاں نے گدھے کی رسی پکڑ لی اور دونوں چلنے لگے۔ گدھا بھی ساتھ چل رہا تھا۔ ​

​٭٭٭

گدھے کی کارستانی​

فخرو نے اپنے گھر کی راہ لی تو رمضان خاں بہت خوش خوش گدھے کی رسی پکڑے اپنے مکان کی طرف جانے لگا۔ وہ چلتے ہوئے بڑے سُہانے خواب دیکھ رہا تھا۔ خزانہ پانے کی امید میں اس کا چہرہ خوشی سے سرخ ہو گیا تھا۔ ​

اپنے مکان پر پہنچا تو دیکھا کہ گھر کے بیرونی دروازے پر بڑا سا تالا لگا ہوا ہے۔ ​

’’یہ کم بخت کہاں چلی گئی؟‘‘ اس کی بیوی کبھی کبھی دروازے پر تالا لگا کر اپنے میکے چلی جاتی تھی اور چابی ساتھ والے گھر میں دے جاتی تھی۔ رمضان خاں سوچ ہی رہا تھا کہ ساتھ والے گھر کا ایک بچہ چابی لے کر آ گیا۔ ​

’’یہ چابی دے گئی ہیں چاچی!‘‘ بچے نے کہا۔ ​

’’اچھا! کب آئیں گی۔ کچھ کہہ کر گئی ہیں؟‘‘ رمضان خاں نے بچے سے پوچھا۔ ​

’’کہہ رہی تھیں جلد ہی آ جاؤں گی۔‘‘​

رمضان خاں نے گھر کا دروازہ کھولا اور گدھے کو سب سے آخری کمرے میں بند کر دیا اور باورچی خانے میں جا کر حلوے کی پلیٹ لے آیا۔ یہ حلوا رات کو اس بیوی نے بنایا تھا اور اس کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ رمضان خاں چاہتا تھا کہ جتنی جلدی ممکن ہو گدھے کو لے کر خزانے کی تلاش میں روانہ ہو جائے، مگر فخرو نے اسے بتایا تھا کہ وہ صبح سویرے گھر سے نکلا تھا تو اسے بھی صبح سویرے ہی نکلنا چاہیے۔ اس نے یہ ارادہ کر لیا، مگر اس کی بے تابی بڑھتی جا رہی تھی اور دل میں ڈرتا بھی تھا کہ جب وہ گدھے کے ساتھ باہر جائے گا تو محلے والے اور دوسرے لوگ ضرور اُسے دیکھیں گے اور پوچھیں گے بھئی کہاں جا رہے ہو۔ وہ کسی کو کیا بتائے گا؟ سوچ سوچ کر وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ شام کے اندھیرے میں نکلے تاکہ کوئی شخص اس سے کوئی سوال نہ کرے۔ ​

وقت گزارنا اس کے لیے مشکل تھا۔ اس نے یہ کیا کہ گھر کو تالا لگا کر چابی ہمسائے کے ہاں دے کر منڈی کی طرف روانہ ہو گیا تاکہ وقت گزر جائے اور وہ شام کے اندھیرے میں روانہ ہو سکے۔ ​

ایک گھنٹے کے بعد اس کی بیوی آ گئی۔ بچے نے اسے بتایا کہ چاچا آئے تھے اور گدھے کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ ​

’’یہ مصیبت پھر آ گئی!‘‘ رمضان کی بیوی خدیجہ نے چابی لی، تالا کھولا اور اندر چلی گئی۔ آخری کمرے کی باہر کی کُنڈی لگی ہوئی تھی۔ اس نے کنڈی کھولی، ذرا آگے بڑھی تھی کہ گدھے نے دولتی جھاڑی جو اُس کے پیٹ پر لگی۔ خدیجہ ہائے کر کے بیٹھ گئی۔ غصے سے اس کا بُرا حال تھا۔ ذرا سنبھلی تو گدھے کی پشت پر زور سے دو ہتڑ مارا۔ گدھے نے پھر دولتی ماری۔ دوسری مرتبہ دولتی کھا کر اس کا پارا کافی چڑھ گیا۔ ​

’’ٹھہر تو ذرا! کرتی ہوں تیرا قیمہ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر نکلی اور ایک موٹا سا ڈنڈا اٹھا لائی۔ خود ذرا دور رہ کر اس نے گدھے پر ڈنڈا برسانا شروع کر دیا۔ ​

’’تیرا قیمہ نہ بنا دوں تو میرا نام خدیجہ نہیں۔‘‘ وہ اسے ڈنڈے مارتی گئی، مارتی گئی، مگر گدھا پُر سکون کھڑا رہا۔

’’کوئی بلا ہے یہ!‘‘ وہ دل میں ڈر گئی اور پھولے ہوئے سانس کے ساتھ باہر نکل کر بھاگتی ہوئی باورچی خانے میں چلی گئی۔ چند منٹ بعد اپنے لیے چائے بنانے لگی۔ کیتلی کے پانی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ اس نے چائے کی پتی نکالنے کے لیے الماری کھول کر ڈبا نکالا تو یکایک اس کی نگاہ دروازے پر پڑ گئی۔ گدھا باہر کھڑا تھا اور اس کا سر باورچی خانے کے اندر تھا۔ وہ ڈر کر بولی، ’’چل دفع دور ہو۔‘‘ اس نے چائے کا ڈبہ گدھے کے سر پر دے مارا۔ سر فوراً پیچھے ہٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی وہ تیزی سے نکلی اور ڈرائنگ روم میں چلی گئی اور ابھی صوفے پر بیٹھنا ہی چاہ رہی تھی کہ گدھے نے اپنی تھوتھنی دروازے کے اندر ڈال کر اسے خوف زدہ کر دیا۔ ​

’’یہاں بھی آ گئی بلا!‘‘​

وہ اُٹھی اور دوسرا دروازہ کھول کر نکل بھاگی۔ بے خیالی میں وہ آخری کمرے تک چلی گئی۔ باہر ہی سے اس نے دیکھا کہ گدھا اندر تھا۔ ’’ہیں یہ تو اندر ہے! کیسے میرے پیچھے آ گیا۔‘‘ ڈر کے مارے اس کا بُرا حال تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور دوبارہ ڈرائنگ روم میں آ گئی۔ ​

سامنے ایک دروازے کا پردہ ہل رہا تھا۔ اس نے جو اُدھر دیکھا تو یہ دیکھ کر سخت حیران اور خوف زدہ ہو گئی کہ پردے کے پیچھے گدھے کے پاؤں دکھائی دے رہے تھے۔ وہاں سے نکل کر وہ سونے کے کمرے میں چلی گئی اور جلدی سے لحاف اپنے اوپر ڈال لیا۔ دو تین منٹ کے بعد اس نے لحاف سے منھ ذرا باہر نکال کر دیکھا۔ گدھا اندر آ رہا تھا۔ اس نے تکیہ گدھے کی طر پھینکا۔ تکیہ اس کے جسم سے لگ کر فرش پر گر پڑا۔ اس نے دوبارہ چہرہ لحاف کے اندر کر لیا۔ وہ لحاف کے اندر چھُپی رہی کہ ہمسائے کا لڑکا آ کر بولا، ’’چاچی! باہر وہ آئے ہیں۔‘‘​

​خدیجہ نے یہ آواز سنی تو چہرے سے لحاف ہٹا کر کہا ’’اصغر!‘‘​

’’جی چاچی!‘‘

’’وہ بلا!‘‘ اصغر اس کی بات سمجھ نہ سکا۔ ’’وہ گدھا دیکھا ہے اصغر!‘‘

’’نہیں‘‘​

’’جاؤ اپنے ابا کو بلا لاؤ، جلدی کرو۔‘‘​

اصغر بھاگ گیا۔ تھوڑی دیر بعد اصغر کا ابا آ گیا اور بولو، ’’کیا ہوا بھابھی؟‘‘​

’’یہ گدھا۔۔ ۔ بڑی بلا ہے۔۔ ۔ مار ڈالے گا مجھے۔ ’’اصغر کا باپ ہنس پڑا۔ ​

گدھا مار ڈالے گا۔ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟‘‘​

’’یہ بلا ہے۔ اس کے اندر کوئی بہت بڑی بلا چھپی ہوئی ہے۔‘‘ وہ پھر ہنس پڑا۔ ​

’’کیا ہو گیا ہے بھابی آپ کو!‘‘​

’’تم نہیں جانتے۔ میں جانتی ہوں۔ اللہ کے لیے اسے یہاں سے نکال دو۔‘‘​

’’بھابی وہی لوگ آئے ہیں۔ فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں۔‘‘​

’’اللہ کے لیے جلدی سے اس بلا کو ان کے حوالے کر دو۔ جلدی۔‘‘

’’بھابی آپ تو باہر آئیں۔‘‘ ’’نہ نہ مجھے اس منحوس سے ڈر لگتا ہے۔ جلدی اسے ان کو دے دو۔‘‘​

’’مگر وہ ہے کہاں؟‘‘

’’یہیں تھا۔‘‘

’’یہاں تو کوئی نہیں۔‘‘

’’کہیں ہو گا، جلدی کرو۔ دالان کے ساتھ والے کمرے میں دیکھو۔‘‘​

اصغر کا ابا وہاں چلا گیا۔ خدیجہ بھی آہستہ آہستہ باہر آئی۔ اصغر کا ابا مسکراتا ہوا آ رہا تھا۔ ’’بھابی! وہ تو بڑے آرام سے وہاں ہے۔ دالان کے ساتھ والے کمرے میں۔‘‘​

’’فوراً دے دو۔‘‘​

اصغر کا ابا جانے ہی لگا تھا کہ اس کا بیٹا انور آ گیا۔ ​

​’’تو کہاں مر گیا تھا؟ وہ بلا مجھے مار ڈالتی تو!‘‘​

’’اماں میں دریا پر گیا تھا۔ اور اماں! وہ فخرو۔۔ ۔‘‘​

انور نے اپنا فقرہ مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ اس کی ماں چیخ کر بولی، ’’حوالے کر دو ان کے۔‘‘​

’’اماں! ابا جان۔‘‘​

خدیجہ نے پھر اس کی بات کاٹ کر کہا، ’’میں جو کہتی ہوں۔ حوالے کرو ان کے، نکالو اسے میرے گھر سے۔ فوراً دھکا دو۔‘‘​

انور خاموش کھڑا رہا۔ اصغر کا باپ آ گیا اور بولا: ​

​’’حوالے کر دیا ہے ان کے!‘‘​

’’شکر ہے۔ تم لوگ نہیں جانتے وہ ایک بلا ہے۔ بلا بھی چھوٹی نہیں۔ بہت بڑی بلا۔‘‘​

​اصغر کا باپ ہنس پڑا۔ ’’بھابی! آپ تو خواہ مخواہ ڈر رہی ہیں۔‘‘ ’’ایک گدھے سے!‘‘ انور بولا۔ ​

’’خاموش رہ۔ تو گھر کے باہر تھا۔ کیا پتا تجھے اس بلا نے میرے ساتھ کیا کیا ہے۔‘‘

’’ایک گدھا کیا کر سکتا ہے، اماں!‘‘​

خدیجہ نے غصے میں اپنے بیٹے کے گال پر زور سے تھپڑ مارا۔ ​

’’میں بکواس کر رہی ہوں۔ مخول سمجھتا ہے میری بات کو۔ دُور ہو جا میری آنکھوں سے۔‘‘ انور گال پر ہاتھ رکھے چلا گیا۔ ​

’’بھابی! آج تم کو ہو کیا گیا ہے؟‘‘​

’’پاگل ہو گئی ہوں۔ دماغ پھر گیا ہے میرا۔ بس، چھوڑ دو مجھے۔‘‘ اس لمحے رمضان خاں آ گیا۔ ’’یہ گھر کے دروازے پر کیا میلا لگا ہے؟ ہوا کیا ہے؟‘‘ رمضان خاں نے بیوی سے پوچھا۔ بیوی کے بجائے اصغر کے باپ نے جواب دیا، ’’بھابی ڈر گئی ہیں۔‘‘​

’’کس سے؟‘‘

’’وہ جو گدھا ہے نا؟‘‘

’’ہاں جسے میں نے دو سو روپے میں خریدا تھا۔ اس کمرے میں ہے۔‘‘​

’’اب نہیں ہے۔‘‘

’’کیا کہا اب نہیں ہے!‘‘ ’’اُسے فخرو وغیرہ لے گئے ہیں۔‘‘​

’’لے گئے ہیں۔ کیسے لے گئے ہیں۔ کس نے دیا ہے انہیں؟‘‘​

’’میں نے دیا ہے۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ غصے سے رمضان خاں کا چہرہ تمتمانے لگا۔ ​

’’بھابی اس سے بُری طرح ڈر گئی تھیں۔‘‘

’’میری سمجھ میں خاک بھی نہیں آیا۔ خدیجہ یہ کیا معاملہ ہے؟‘‘​

خدیجہ بھری بیٹھی تھی، بول اٹھی: ​

’’اگر وہ بلا یہاں رہے گی تو میں ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہوں گا۔ کہہ دیا ہے میں نے۔ اب اسے بالکل نہیں لانا۔‘‘​

’’خدیجہ!‘‘ رمضان خاں نے نرمی سے کہا، ’’میں نے اسے دو سو کی رقم دے کر خریدا ہے۔‘‘​

​’’بھاڑ میں جائے دو سو کی رقم۔ میرا آخری فیصلہ ہے۔ اسے لاؤ گے تو میں یہاں نہیں رہوں گی۔ بالکل نہیں رہوں گی۔‘‘​

’’مگر کیوں؟‘‘ اب کے اصغر کے ابا نے جواب دیا، ’’رمضان خاں بھابی کہتی ہے اس گدھے کے اندر کوئی بلا چھُپی ہوئی ہے۔‘‘​

’’چھوٹی نہیں، بہت بڑی بلا۔‘‘ خدیجہ نے کہا۔ ’’پاگل ہو گئی ہو۔ وہ گدھا ہے۔‘‘​

’’گدھا نہیں ہے۔‘‘

’’تو کیا انسان ہے۔‘‘

’’بلا ہے۔ بس میں نے کہہ جو دیا ہے کہ وہ یہاں آیا تو میں ایک منٹ بھی یہاں نہیں رہوں گی۔‘‘​

میاں بیوی میں جھگڑا بڑھتا جا رہا تھا۔ اصغر کے ابا نے صلح صفائی کرانی چاہی: ​

’’رمضان خاں لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس وقت چُپ ہو جاؤ۔ بھابی، تم بھی چُپ ہو جاؤ۔‘‘​

یہ کہتے ہوئے اصغر کا ابا رمضان خاں کو اپنے ساتھ لے گیا۔ ​

رات کو خدیجہ پلنگ پر لیٹنے کو تو لیٹ گئی، مگر نیند کہاں اس کی آنکھوں میں۔ بار بار کروٹ بدلتی تھی اور دروازے کی طرف دیکھتی تھی۔ ​

رمضان خاں قریبی پلنگ پر بیٹھا لیجر میں حساب کتاب لکھ رہا تھا اور کن انکھیوں سے بیوی کو دیکھتا بھی جاتا تھا۔ ​

خدیجہ اٹھ بیٹھی اور پلنگ سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ ’’خدیجہ! کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ وہ گدھا ہے، لیکن عام گدھا نہیں ہے۔ اس کے بارے میں جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتیں۔‘‘​

’’اور جو کچھ میں جان گئی ہوں اس سے تم بے خبر ہو۔‘‘ خدیجہ بولی۔ ​

​’’مثلاً کیا جان گئی ہو؟‘‘​

​’’اس کے اندر بلا چھُپی ہوئی ہے۔‘‘​

’’خدیجہ! سنو ذرا صبر سے سنو۔ اس کے اندر بلا چھُپی ہوئی نہیں ہے بلکہ۔۔۔‘‘​

’’بلکہ کیا؟‘‘ خدیجہ نے پوچھا۔ ​

’’میں بتا نہیں سکتا کہ اس کے اندر ہے کیا۔ اور جو کچھ ہے اس کے ذریعہ سے ہم ایک دن کے اندر اندر لکھ پتی بن سکتے ہیں۔ میں بتاتا ہوں تمہیں کیسے۔‘‘​

رمضان نے جو کچھ فخرو سے سُنا تھا، بیوی کو سُنا دیا۔ ​

’’اب تم ہی بتاؤ اس کے اندر کیا چھُپا ہوا ہے۔ میں کہتا ہوں صرف ایک دن کے لیے مجھے یہ گدھا مل جائے تو میں اپنے گھر میں خزانہ لا سکتا ہوں۔‘‘​

’’خزانہ؟‘‘​

’’خزانہ نہیں تو اور کیا۔ فخرو خزانہ ہی تو لایا تھا۔‘‘​

خدیجہ سوچ میں ڈوب گئی۔ ​

٭٭٭

رمضان خاں کی قسمت​

’’آج کیا پکائیں فخرو پُتر؟‘‘ دیگچی مانجھتے ہوئے فخرو کی ماں نے فخرو سے پوچھا۔ ​

’’اماں جو پکانا چاہیں پکا لیں۔‘‘ فخرو نے جواب دیا۔ ​

’’پُتر! ہر روز پلاؤ، زردہ، قورمہ، چکن، بھُنا ہوا گوشت، تیتر اور بٹیرے کھا کھا کر میں تو تنگ آ گئی ہوں۔‘‘ ماں نے کہا۔ ​

’’تو اماں کوئی نئی چیز پکا لو آج۔‘‘​

ماں نے ذرا سوچ کر کہا، ’’پُتر میرا تو جی چاہتا ہے کہ آج وہی کچھ کھائیں جو پہلے کھایا کرتے تھے۔ دال، چاول، کیوں؟‘‘​

’’بالکل ٹھیک اماں۔‘‘ فخرو نے ناشتے سے اٹھتے ہوئے کہا۔ ​

’’دکان سے لے آؤ۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ایک سیر چاول۔‘‘

فخرو نلکے کے نیچے ہاتھ دھونے لگا۔

’’ایک سیر چاول! نہ اماں۔‘‘​

’’تو کیا ایک من پکاؤں۔ آدھا سیر چاول کافی نہیں ہم تینوں کے لیے؟‘‘​

​’’اماں! مجھے اپنی دکان سے بھی ایک سیر چاول لاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ منڈی جا کر ایک بوری خرید کر لاؤں گا۔ اس سے کم نہیں۔‘‘​

’’اکھٹی ایک بوری! پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘‘​

’’ہاں اماں! اس سے کم کیا لاؤں۔ اب ہم امیر ہو گئے ہیں۔ امیر آدمی ڈھیر ساری چیزیں خریدا کرتے ہیں۔‘‘​

​ماں ہنس پڑی، ’’اچھا چنے کی دال بھی لے آنا۔ آج ہی تو پکانی ہے۔ آدھا سیر نہیں سیر لے آنا۔ پھر کبھی جی چاہا تو پکا لیں گے۔‘‘​

فخرو نے دالان والے کمرے کے دروازے میں سے اندر جھانکا۔ ’’بادشاہ سلامت آئیے ذرا منڈی چلیں۔‘‘ فخرو اپنے گدھے کی رسی تھام کر اسے باہر لانے لگا۔ ​

​’’اماں شرم آتی ہے۔‘‘​

’’فخرو! آج تمہیں بار بار شرم کیوں آ رہی ہے؟ ایک سیر چاول لاتے ہوئے شرم آتی ہے، اب گدھے کو باہر لے جاتے ہوئے شرم آنے لگی ہے۔‘‘​

’’باہر جاتے ہوئے شرم نہیں اماں۔۔ ۔‘‘​

’’تو پھر؟‘‘​

’’اماں! یہ ہیں بادشاہ سلامت، بوجھ اٹھائیں گے؟‘‘​

ماں بے اختیار ہنس پڑی، ’’باؤلے تو نہیں ہو گئے فخرو، تم اسے بادشاہ سلامت سمجھتے ہو تو سمجھا کرو، ہے تو گدھا نا!​‘‘​

فخرو نے جلدی سے اپنے دائیں ہاتھ کی اُنگلی ہونٹوں پر رکھ کر ماں کو چپ ہو جانے کا اشارہ کیا، ’’اماں! یہ تو۔۔ ۔۔‘‘

فخرو کو ایسے الفاظ نہیں ملے جن سے وہ گدھے کے متعلق کوئی تعریفی کلمہ کہتا۔ ​

’’خیر اب جاؤ باتیں نہ بناؤ۔‘‘​

فخرو گدھے کی رسی پکڑ کر چلنے لگا۔ وہ منڈی میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ لوگ اناج کی بوریاں ریڑھوں پر رکھ رہے ہیں۔ اس نے ایک ریڑھے والے سے چاول کی بوری لے جانے کی بات کی۔ ریڑھے والے نے پیسے بتا دیئے۔ اس ریڑھے والے نے ایک قریبی بیوپاری سے چاول کی بوری اٹھا کر اپنے ریڑھے پر رکھ دی اور دال کا لفافہ بھی رکھ دیا۔ ​

’’پیسے؟‘‘ فخرو نے بیوپاری سے پوچھا۔​

’’کوئی پیسہ ویسہ نہیں جناب!‘‘​​

فخرو یہ فقرہ سُن کر حیران ہو گیا، ’’جی میں نے چاول کی بوری اور دال کی جو قیمت ہے وہ پوچھی ہے۔‘‘​​

’’اور میں نے بھی اسی کا جواب دیا ہے۔‘‘ بیوپاری مسکرا رہا تھا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ فخرو نے گھبرا کر پوچھا۔ ​

​’’مطلب وطلب کچھ نہیں۔ پیسہ دھیلا کچھ نہیں۔‘‘​

’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ فخرو جیب سے نوٹ نکال کر انہیں ہاتھ میں پکڑے کھڑا تھا۔ ​

’’آپ لے جائیں بسم اللہ۔‘‘​

’’مگر میں کیسے لے جاؤں قیمت ادا کیے بغیر!‘‘​

’’میں نے اس کی قیمت لے لی ہے۔‘‘ بیوپاری برابر مسکرائے جا رہا تھا۔ ​

’’نہیں لی۔ میں نے ادا نہیں کی۔‘‘ فخرو نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔ ​

’’آپ نے ادا نہیں کی۔ کسی اور نے ادا کر دی ہے برخوردار!‘‘​

​’’کس نے؟‘‘

’’ملنا چاہتے ہو؟‘‘

’’کیوں نہیں؟‘‘

’’تو آؤ۔‘‘​

بیوپاری اسے ایک دُکان کے اندر لے گیا۔ آخری دیوار میں ایک دروازہ دکھائی دے رہا تھا۔ بیوپاری اس میں سے گزرنے لگا۔ ​

’’آ جاؤ بھئی!‘‘ اس نے دروازے میں سے نکلتے ہوئے کہا۔ ​

​فخرو اپنے گدھے کی رسی پکڑے دروازے میں سے گزرنے لگا۔ ​

​دروازے سے کچھ دور ایک چارپائی کے اوپر ایک شخص بیٹھا حقا پی رہا تھا۔ فخرو کی طرف اس کی پیٹھ تھی، اس لیے فخرو اس کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ بیوپاری چُپکے سے کھسک گیا۔ فخرو آگے بڑھا۔ چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص نے منھ اس کی طرف پھیرا۔ یہ رمضان تھا جو اس کو دیکھ کر بولو، ’’آؤ میرے پیارے بھتیجے!‘‘​

’’خان صاحب! یہ کیا؟‘‘ فخرو اور کچھ نہ کہہ سکا۔ ​

’’ارے بیٹھ تو جاؤ۔‘‘ رمضان خاں نے چارپائی کی طرف اشارہ کیا۔ ​

’’چاول اور دال کے پیسے آپ نے کیوں دیئے؟‘‘​

’’تو کیا ہوا۔ ہمارا حساب چلتا رہتا ہے۔‘‘​

رمضان خاں گدھے کو دیکھنے لگا۔ ’’بادشاہ سلامت بھی خیریت سے ہیں نا!‘‘​

فخرو نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔ ’’آپ نے پیسے کیوں دیئے‘‘​

’’پاگلوں کی سی بات کیوں کرتے ہو؟ میاں! تم ٹھہرے ہمارے بھتیجے اور میں تمہارا چچا! میں نے پیسے دے دیئے تو کیا ہوا۔‘‘​

’’شکریہ بہت بہت مگر۔۔ ۔۔ ۔‘‘​

’’ارے پیارے بھتیجے! اس میں شکریے کی کیا بات ہے۔ اللہ جانتا ہے مجھے تم سے کتنی محبت ہے، پیار ہے۔ اب میں تم سے کبھی دو سو روپے نہیں مانگوں گا۔ گدھا نہیں مانگوں گا۔ مجھے بتاؤ میں تمہاری کیا خدمت کر سکتا ہوں۔‘‘​

فخرو شرمندہ ہو گیا۔ ’’چچا جان! ایسا مت کہیں۔ مجھے بتاؤ میں کیا کر سکتا ہوں۔‘‘​

’’تم پیارے بھتیجے ہو۔ میں کچھ نہیں کہوں گا۔ کچھ نہیں مانگوں گا۔‘‘​

ایک شخص شربت کے دو گلاس لے آیا۔ ’’پیو بیٹا!‘‘ رمضان خاں نے ایک گلاس فخرو کی طرف بڑھایا۔ ​

’’مجھے بڑا شرمندہ کر رہے ہیں۔‘‘ فخرو نے شربت کا گلاس خالی کر دیا۔ رمضان خاں نے دوسرا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔

’’توبہ توبہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘​

’’پی لو بیٹا!‘‘​

’’نہیں جی یہ آپ پیئیں۔‘‘ رمضان نے گلاس ہاتھ میں لے لیا اور گھونٹ گھونٹ پی لیا۔ ​

’’تو خاں صاحب!‘‘​

’’پھر خاں صاحب۔ چچا جان کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘ رمضان خاں اسے ڈانٹنے لگا۔ ​

’’اوہ معاف کر دیجیے۔ تو چچا جان! بتائیے نا میں کیا کروں۔‘‘​

رمضان خاں کسی سوچ میں پڑ گیا۔ کئی لمحے بیت گئے۔ گلاس آدھا ہو چکا تھا۔ رمضان خاں نے اسے نیچے رکھ دیا۔ ’’تم میرے بھتیجے! کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ بڑی معمولی بات ہے۔‘‘​

’’بتائیے نا۔‘‘​

’’بتانے کو تو بتا دیتا ہوں، پر دیکھنا مجھے شرمندہ نہ کر دینا۔‘‘ رمضان خاں نے حُقے کے دو لمبے لمبے کش لگائے۔ فخرو کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ’’چاہتا تھا ذرا قسمت آزمائی کر لوں، بس۔‘‘​

’’وہ کیسے؟‘‘​

’’ہو سکتا ہے کہ قسمت مجھ پر بھی مہربان ہو جائے اور مجھے بھی کچھ مل جائے۔ عزیز بھتیجے! تمہارا بادشاہ سلامت مجھے بھی وہاں لے جائے جہاں کوئی خزانہ دبا ہوا ہو۔‘‘​

فخرو سناٹے میں آ گیا۔ رمضان خاں نے اس کی کیفیت بھانپ لی۔ ’’پیارے بھتیجے! میں تو پہلے ہی کہتا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ تم یوں کرو اپنے گھر چلے جاؤ۔ چاول کی بوری اور دال تھوڑی دیر بعد تمہارے گھر پہنچ جائے گی۔‘‘​

فخرو نے محسوس کیا کہ اس کی آواز بھرا گئی ہے۔ اس کا دل نرم پڑ گیا۔ ’’چچا جان!‘‘​

’’کہو بیٹے‘‘​

’’ایسا ہو گا نہیں، یہ بادشاہ سلامت۔۔ ۔۔‘‘​

’’میرا کام نہیں کریں گے۔ یہ کہنا چاہتے ہو؟‘‘ فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ ​

’’یہ اپنی اپنی قسمت ہے۔ قسمت سے تو لڑائی نہیں لڑی جا سکتی۔ اچھا بھتیجے! میری ضرورت ہو تو مجھے یاد کر لینا۔‘‘​

رمضان خاں خاموشی سے حُقے کے کش لگانے لگا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں۔ ’’فخرو! جاؤ بیٹا تمہاری ماں تمہاری راہ دیکھ رہی ہو گی۔‘‘ رمضان خاں نے دائیں ہاتھ سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔

فخرو نے رمضان خاں کے مایوس چہرے کو دیکھا۔ اس کو رحم آ گیا، ’’چچا جان!‘‘​

’’کہو بھتیجے۔‘‘​

’’یہ بھلا ہو گا کیسے؟‘‘​

رمضان خاں نے حُقے کی نے منھ سے نکال کر فخرو کو غور سے دیکھا اور بولا، ’’بڑی آسان ترکیب ہے۔ تم اس کے اوپر لیٹ کر گئے تھے، ہم اسے آزاد چھوڑ دیں گے۔ جدھر جانا چاہے چلا جائے۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے چلیں گے۔ پھر جو کچھ ہونا ہو گا ہو جائے گا۔‘‘ فخرو نے حیرت اور دل چسپی سے اس کی ترکیب سُنی۔ ​

’’کیوں میرے پیارے بھتیجے! کیسی ترکیب ہے؟‘‘ فخرو خاموش رہا۔ ​

’’میں تو پہلے ہی سمجھتا تھا کہ تم مانو گے نہیں۔‘‘​

’’میں مان گیا ہوں۔‘‘​

’’واہ وا، میرے عزیز ترین بھتیجے!‘‘ رمضان خاں نے فخرو کو خود سے لپٹا لیا۔ ​

’’پھر کب؟‘‘ رمضان خاں نے چند لمحوں کے بعد پوچھا۔ ​

’’جب آپ مناسب سمجھیں۔‘‘​

’’آج کیسا رہے گا؟‘‘ رمضان خاں کی آواز سے اس کے دل کی بے تابی ظاہر ہو رہی تھی۔ ​

’’ابھی تو دن کا اُجالا ہے۔‘‘​

’’تو شام کو!‘‘​

’’ٹھیک ہے۔ میں آ جاؤں گا۔ آپ کے گھر شام کو۔‘‘​

فخرو کے جانے کے بعد رمضان خاں وہیں بیٹھا رہا۔ بار بار خوشی سے اس کا چہرہ دمک اُٹھتا تھا۔ ریڑھا چاول اور دال چھوڑ کر واپس آ گیا تو رمضان خاں نے اپنے گھر کی راہ لی۔ ​

’’خدیجہ!‘‘ اس نے اپنی بیوی کو اپنے کمرے میں بُلا کر کہا، ’’آج بہت کچھ ہونے والا ہے۔‘‘

’’کیا ہونے والا ہے؟‘‘ بیوی کی آواز خاصی بلند بھی۔

’’آہستہ بولو۔ دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں۔ سنو! خزانہ۔۔ ۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’خزانہ ملنے والا ہے۔‘‘

خدیجہ ہنس پڑی، ’’اللہ تیری شان!‘‘

’’شام کو جائیں گے۔ کسی سے کچھ نہیں کہنا!‘‘

’’تم نے کچھ بتایا ہی نہیں تو بتاؤں گی کسی کو کیا۔‘‘

’’بس دیکھنا ہوتا کیا ہے۔ تمہارے گھر میں ہیروں کا انبار لگ جائے گا۔ چُپ ہو جاؤ۔‘‘ خدیجہ نے بار بار پوچھا کہ ہو گا کیا، مگر رمضان نے ہر بار اسے خاموش رہنے کی تلقین کر دی۔

شام ہونے ہی والی تھی کہ رمضان خاں ایک بڑا سا تھیلا لے کر اس جگہ جا کھڑا ہوا جہاں سے اس کے گھر کو راستہ جاتا تھا۔ وہ کھڑا رہا۔ شام ذرا ڈھلی تو فخرو گدھے کے ساتھ آ گیا۔ دونوں میں سے کسی نے بھی کچھ نہ کہا اور چل پڑے۔ گدھا آگے آگے اور وہ دونوں پیچھے پیچھے۔ گدھا ایک ویرانے میں پہنچ گیا۔ ایک طرف پہاڑ کھڑے تھے۔ ادھر اُدھر اونچے اونچے پیڑ پھیلے ہوئے تھے۔ اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔ گدھا ایک جگہ رک گیا۔

’’چچا‘‘ فخرو نے سرگوشی کی۔

’’کیا؟‘‘

’’جاؤ، وہاں وہ ٹھہر گیا ہے۔‘‘

’’اچھا۔‘‘

رمضان خاں گدھے کے ایک طرف جھُک کر کھڑا ہو گیا۔ گدھے نے ایک جگہ اپنے پیر سے مٹی ہٹائی اور پیچھے ہٹ گیا۔ رمضان خاں دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ گیا۔ مٹی کے اندر ہاتھ ڈالا تو اس کی انگلیاں سخت چیزوں سے مَس کرنے لگیں۔ اس نے یہ سخت چیزیں تھیلے میں بھرنی شروع کر دیں، یہاں تک کہ اس کی اُنگلیاں پھر مٹی کو چھونے لگیں۔ وہ بھرے ہوئے تھیلے کو اٹھائے واپس جانے لگا۔ مگر گدھا وہاں نہیں تھا، فخرو بھی نہیں تھا۔

وہ تھیلے کا بوجھ اٹھائے ویران راستے پر چلنے لگا۔ ذرا پتا کھڑکتا یا زور سے کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آتی تو وہ ڈر کر تھیلا چھاتی سے لگا لیتا۔ کافی رات گزر چکی تھی۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا۔ اس نے دروازے پر آہستہ سے دستک دی۔ خدیجہ جاگ کر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ لالٹین پکڑے آ گئی اور دروازہ کھول دیا۔

’’خدیجہ! دروازہ بند کر دو۔‘‘ خدیجہ نے تھیلا دیکھ لیا تھا۔ اس نے اسے پکڑنے کے ہاتھ بڑھایا۔

’’صبر کرو۔‘‘

دونوں ایک کمرے میں آ گئے۔ خدیجہ نے لالٹین ایک طرف رکھ لی۔ رمضان خاں کا چہرہ پسینے میں ڈوبا ہوا تھا۔ تاہم اس کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی۔ یہی حال خدیجہ کا تھا۔

’’سب دروازے بند ہیں؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

رمضان خاں نے چارپائی کے اوپر تھیلا رکھ کر اس میں ہاتھ ڈالا اور مُٹھی بھر کر باہر نکالی۔ مُٹھی کو سفید چادر پر خالی کیا تو ادھر اُدھر پتھر کے ٹکڑے بکھر گئے۔ دونوں حیرت زدہ ہو گئے۔

٭٭٭

فخرو کی پٹائی

’’واہ وا! کیا ہیرے اور جواہرات لائے ہو۔ اب تو ہم لکھ پتی اور کروڑ پتی ہو جائیں گے۔‘‘ خدیجہ نے بڑے طنزیہ انداز میں کہا۔

ادھر رمضان خاں کی یہ حالت تھی کہ بھونچکا سے ہو کر رہ گیا تھا۔

’’چُپ کیوں ہو؟ بولتے کیوں نہیں؟‘‘ خدیجہ نے چیخ کر پوچھا۔

’’بڑا دھوکہ ہوا۔‘‘

رمضان خاں کے منھ سے ایک باریک سے آواز نکلی۔

’’بڑی شان سے گئے تھے۔ وہ لڑکا فخرو ایک پاجی دھوکے باز ہے۔‘‘

’’نہیں، اس نے دھوکہ نہیں دیا۔‘‘

’’تو پھر کس نے دیا ہے؟‘‘

’’اس نے، گدھے نے۔‘‘

یہ لفظ سُنتے ہی خدیجہ برس پڑی، ’’نام نہ لو اس بلا کا۔ میں کہتی ہوں وہ بہت بڑا شیطان ہے۔ گدھا نہیں ہے۔ سمجھتے ہی نہیں ہو۔ اب مزہ آ گیا نا۔ کیا کرو گے اس خزانے کا۔ کسی سے کیا کہو گے۔ خزانہ لینے گیا اور پتھر لے آیا۔ میں جانتی تھی یہی کچھ ہو گا۔ مانتے ہی نہیں تھے۔ خزانہ لاؤں گا۔ کیا خزانہ لے آئے ہو۔‘‘

رمضان خاں سخت بے زار ہو گیا تھا، ’’اب چُپ بھی ہوتی ہو یا نہیں؟‘‘

’’میرے چپ ہونے سے کیا ہو گا؟ سنبھالو اپنا خزانہ۔ چھُپا کر رکھو کہیں۔ کسی کی نظر نہ پڑ جائے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ کمرے سے نکل گئی۔

اس کے جانے کے بعد رمضان خاں کی یہ حالت تھی کہ کبھی افسوس سے اپنے ہاتھ ملتا تھا اور کبھی پتھر کے ٹکڑے اٹھا کر انہیں آنکھوں کے قریب لا کر غور سے دیکھنے لگتا تھا۔ اس کے دل میں طرح طرح کے خیال آ رہے تھے۔ خود سے کہتا تھا، ’’گدھے نے میرے سامنے اپنے پاؤں سے مٹی ہٹائی تھی اور مجھے چمک دکھائی دی تھی۔ ہیرے لگتے تھے۔ پھر، پھر!‘‘ اس نے لالٹین بجھا دی اور اندھیرے میں وہیں لیٹ گیا۔

صبح کے دھُندلکے فضا میں پھیل رہے تھے۔ ماسی رکھی کے مرغ نے بانگ دینی شروع کر دی تھی۔ وہ ساری رات گھنٹہ بھر سو سکا تھا اور یہ نیند بھی بُرے بُرے خواب لے کر آئی تھی۔ سارا واقعہ اس کے ذہن میں بار بار اُبھر آتا تھا اور وہ محسوس کرنے لگتا تھا جیسے فخرو کے ساتھ چلا جا رہا ہے۔ ویران مقام پر گدھا مٹی پاؤں سے ہٹانے لگتا ہے اور وہ سخت چیزیں اپنے تھیلے میں ڈال رہا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور وہ پتھر کے ٹکڑوں کے پاس بیٹھا رہا۔

اس کی بیوی صبح ہوتے ہی سب سے پہلے اس کے لیے لسی کا بڑا سا گلاس اور حقہ تازہ کر کے لے آتی تھی، مگر اس صبح وہ نہ آئی۔

اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ اُٹھا اور دروازے پر آیا، ’’کون ہے؟‘‘

’’میں ہوں فخرو۔‘‘

اس نے دروازہ کھول دیا۔ فخرو نے مسرت انگیز لہجے میں کہا، ’’مبارک ہو خاں صاحب، نہ نہ، چچا جان۔‘‘

’’مبارک۔ ہاں ٹھیک ہے۔ اندر آؤ۔‘‘ فخرو اس کے بدلے ہوئے لہجے پر پریشان ہو گیا۔

’’بھتیجے!‘‘

’’جی چچا جان! معاف کرنا رات جلدی چلا گیا۔ وہ بادشاہ سلامت بھاگنے لگے تھے۔ کیا کرتا۔ مجھے بھی پیچھے پیچھے بھاگنا پڑا۔ اللہ کا شکر ہے۔‘‘

’’ہاں، ہاں اللہ کا بڑا شکر ہے اور تمہارا بھی بڑا شکریہ۔ بھتیجے! یہ ہیرے تمہارے بادشاہ سلامت نے دیئے ہیں۔ جتنے چاہو لے لو۔ بلکہ سارے کے سارے لے لو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے رمضان خاں حیران و پریشان فخرو کو کمرے کے اندر لے گیا۔

فخرو نے داخل ہوتے ہی پتھر دیکھے اور اس کی حیرت اور پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا۔

’’وہ دیکھو!‘‘ رمضان خاں نے ٹکڑوں کی طرف اشارہ کیا۔ ’’یہ ہیں وہ ہیرے اور جواہرات جو تمہارے بادشاہ سلامت نے دیے ہیں۔‘‘ فخرو ان ٹکڑوں کو دیکھتا رہ گیا۔

’’تمہیں ملیں ہیرے اور مجھے پتھر کے ٹکڑے۔ دھوکا دیا ہے مجھے!‘‘ رمضان خاں نے گرج کر کہا۔

فخرو ڈر گیا۔ اور تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ بولا، ’’چچا جان! میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں۔ میں نے آپ کو بالکل بالکل دھوکا نہیں دیا۔‘‘

’’تو پھر دھوکا کس نے دیا ہے؟‘‘ فخرو خاموش رہا۔

’’میں پوچھتا ہوں پھر دھوکا کس نے دیا ہے؟‘‘ رمضان خاں دوبارہ گرجا۔

خدیجہ بھی آ گئی تھی۔ ’’کیا کہہ رہے ہو؟ دھوکا کس نے دیا ہے۔ اس نے دیا ہے اور کس نے دیا ہے۔ اس نے۔‘‘ خدیجہ نے زور سے فخرو کی پیٹھ پر دو ہتڑ مارا۔

’’ہائے بے بے!‘‘ فخرو درد سے تڑپ اُٹھا۔

’’اب یہاں سے جائے تو کہیں۔ میں اس کی جان لے کر رہوں گی۔‘‘ خدیجہ پھر دو ہتڑ مارنے کے لیے آگے بڑھی۔ فخرو جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ ’’اتنا بڑا دھوکا ہمارے ساتھ۔‘‘ خدیجہ نے غصے سے کہا۔

فخرو رونے لگا تھا۔ ’’چچی جی! اللہ کی قسم! میں نے کوئی دھوکا نہیں دیا۔‘‘

’’تو یہ کیا پڑا ہے تمہارے آگے؟ اندھے ہو گئے ہو۔ نظر نہیں آتا کچھ؟ یہ ہیرے جواہرات ہیں؟ بولو بولتے کیوں نہیں؟‘‘ خدیجہ نے چند ٹکڑے اٹھا کر فخرو پر دے مارے۔

’’خدیجہ! تم چُپ رہو۔ مجھے پوچھنے دو۔‘‘

’’میں کیوں چُپ رہوں گی۔ سارے شہر کو بتاؤں گی کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔‘‘

’’میں کہتا ہوں مجھے بات کرنے دو۔ تم چلی جاؤ۔‘‘

’’کیوں جاؤں۔ اس کی بوٹیاں نہ نوچوں گی۔‘‘

خدیجہ کی آنکھیں غصے سے سرخ ہو گئی تھیں۔ رمضان خاں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اُسے کمرے سے باہر لے جانے لگا۔

رمضان خاں واپس آیا تو فخرو زار و قطار رہ رہا تھا۔ ’’فخرو!‘‘ رمضان خاں کا لہجہ ذرا نرم تھا، ’’تم کہتے ہو تم نے دھوکہ نہیں دیا۔‘‘

’’اللہ قسم میں سچ کہتا ہوں۔ وہ آپ کو لے گیا تھا۔ بادشاہ۔۔ ۔۔‘‘

’’تاکہ مجھے پتھر ملیں اور تم کو لے گیا تھا تو ہیرے دینے کے لیے۔ ہیں؟‘‘

فخرو نے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے گالوں پر بہتے ہوئے آنسو پونچھے۔

’’جواب دو مجھے، ایسا کیوں ہوا؟‘‘

فخرو دو تین لمحے سسکیاں بھرتا رہا۔ پھر بولا، ’’چچا جان! پتا نہیں کیا بات ہے۔؟‘‘

’’بات تو کوئی ہو گی۔ سچ سچ کہو، بولو، صاف صاف کہو۔‘‘

’’میں کیا کہوں۔ میں اس سے بھائیوں سے بڑھ کر پیار۔۔ ۔۔‘‘

’’وہ گدھا تمہارا بھائی ہے؟‘‘

’’مجھے اس سے بڑا ہی پیار ہے۔ وہ بھی مجھ سے بڑا پیار کرتا ہے۔‘‘ فخرو نے سر جھُکا لیا۔ ایسا لگتا تھا کہ رمضان خاں کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا ہے۔

خدیجہ دروازے پر آ گئی۔ غصے سے اس کی مُٹھیاں بھنچی ہوئی تھیں۔ رمضان خاں نے اسے دیکھا تو غصے سے بولا، ’’میں نے کہا ہے اُدھر رہو۔ پھر آ گئی ہو۔ جاؤ۔ چلی جاؤ، جاتی ہو کہ نہیں۔‘‘ خدیجہ بڑبڑاتی ہوئی چلی گئی۔

رمضان خاں کمرے میں ٹہلنے لگا تھا اور فخرو دیوار سے لگ کر کھڑا تھا۔

’’فخرو!‘‘ رمضان خاں کے لہجے میں بڑی نرمی تھی۔

’’جی چچا جان!‘‘

’’ایک بات غور سے سن لو۔ تم نے بار بار اللہ کی قسم کھائی ہے۔ کھائی ہے کہ نہیں؟‘‘

’’کھائی ہے۔‘‘

’’تو قسم کھا کر یہ بھی کہو کہ یہ گدھا تم لوگوں کا نہیں میرا ہے۔ میں نے دو سو کی رقم دے کر اسے خریدا تھا۔ کھاؤ قسم!‘‘ فخرو ہاں میں سر ہلانے لگا۔

’’کھاؤ قسم!‘‘

’’اللہ قسم۔‘‘

’’کیا اللہ قسم؟‘‘

’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔‘‘

’’قسم کھا کر کہو۔ یہ گدھا آپ خرید چکے ہیں۔‘‘

فخرو نے یہ الفاظ کہے، ’’بادشاہ سلامت آپ خرید چکے ہیں۔‘‘

’’بادشاہ سلامت تمہارے لیے ہو گا۔ میرے لیے گدھا ہے، گدھا کہو۔‘‘

’’جی، گدھا آپ خرید چکے ہیں۔‘‘

’’اور جب خرید چکا ہوں تو یہ میرا ہے۔ ہے کہ نہیں؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

’’تو میری چیز مجھے ملنی چاہیے۔‘‘

’’جی ہاں۔‘‘ فخرو رمضان کی سرخ سرخ آنکھیں دیکھ کر ڈر گیا۔

’’تو میں تمہیں چھوڑے دیتا ہوں۔ گھر جاؤ اور اپنی ماں اور چاچے سے کہہ دو کہ میری امانت میرے حوالے کر دیں، ورنہ حشر نشر کر دوں گا۔‘‘

’’اچھا جی۔‘‘

’’کہہ دو گے ناں۔‘‘

’’جی، جی۔‘‘

’’تو جاؤ۔‘‘

فخرو کمرے سے نکلا۔ اسے خدشہ تھا کہ خدیجہ اسے کہیں دیکھ نہ لے۔ مگر وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ تیزی سے گھر کے بڑے دروازے سے نکل کر جلدی جلدی قدم اٹھانے لگا۔

خدیجہ آ گئی۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھا اور بولی، ’’وہ کہاں ہے؟‘‘

رمضان خاں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بتایا کہ چلا گیا ہے۔

’’کیوں؟‘‘

’’خدیجہ!‘‘ رمضان خاں نے اسے کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا، ’’سنو! میں نے اسے بھیج دیا ہے۔‘‘

’’کیوں؟ ویسے ہی۔ اس دھوکے باز کو!‘‘

’’خدیجہ! اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں نے راز کی بات معلوم کر لی ہے۔‘‘

’’راز کی بات‘‘

’’ہاں مجھے اپنی ناکامی کا علم ہو گیا ہے۔ یہ ایک راز ہے۔ ابھی نہیں۔ تم کو بتاؤں گا مگر تم اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ بس یہ سمجھ لو۔ ہیرے ملیں، خزانہ ملے گا۔‘‘

خدیجہ اپنے شوہر کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

٭٭٭

امانت دَر امانت

کالو خاں، فخرو اور فخرو کی ماں، تینوں باورچی خانے میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ان کے چائے پینے کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ الگ الگ کسی نہ کسی فکر میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ ماں نے لمبا گھونٹ حلق سے اُتارا اور رمضان خاں کو بد دعا دی۔

’’اللہ کرے اسے تو کسی کی آئی آ جائے۔‘‘

’’آپا! کسی کو اس طرح بد دُعا نہیں دیا کرتے۔‘‘ کالو خاں بولا۔

’’کیوں بد دُعا نہ دوں۔ مصیبت بن گیا ہے ہمارے لیے۔ اب کہتا ہے کہ وہ میری امانت ہے۔ میں لے جاؤں گا۔‘‘

کالو خاں مسکرایا، ’’آپا، یہ گدھا اس کی امانت نہیں تو کیا ہے۔ تمہارے لعل نے دو سو روپے لے کر اسے بیچ دیا تھا۔‘‘ فخرو کو اس بات پر غصہ تھا کہ چچا نے گدھے کو گدھا کہا تھا۔ بادشاہ سلامت نہیں کہا تھا۔

’’چچا! وہ بادشاہ سلامت۔۔ ۔‘‘

’’چُپ رہ، بادشاہ سلامت کے بچے! میرا منھ نہ کھلواؤ۔ بادشاہ سلامت ہے تو اُسے دو سو روپے میں بیچ دیا تھا۔‘‘ فخرو کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔

’’وہ اول درجے کا غنڈہ ہے۔ ساری منڈی پر اس کا اثر ہے۔‘‘ چچا نے کہا۔

’’تو ہم کیا کریں۔۔ ۔؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

’’آپا! اصول یہ ہے کہ جو شخص جو چیز خریدتا ہے وہ چیز اس کی ملکیت ہو جاتی ہے۔

’’ہائے اللہ! تو کیا گدھا۔۔ ۔‘‘ فخرو تلملا ا تھا، ’’اماں، بادشاہ سلامت۔‘‘

کالو خاں کے تیور بدل گئے:

’’ارے تو باز آتا ہے کہ نہیں۔ بادشاہ سلامت، بادشاہ سلامت کی رٹ لگا رکھی ہے۔‘‘

کالو خاں سے ڈانٹ سن کر فخرو نے پیالی زمین پر رکھ کر اپنا سر جھُکا لیا۔

’’تم لوگ گھبراؤ نہیں۔ جو کچھ ہو گا بہتر ہو گا۔‘‘ کالو خاں نے کہا تو ماں بولی:

’’پر کالو خاں! وہ گدھا لینے آئے گا تو ہم کیا کریں گے؟‘‘ فخرو اپنے بادشاہ سلامت کی توہین برداشت نہ کر سکا، اُٹھ بیٹھا۔

’’سرکار کا ارادہ کدھر کا ہے؟‘‘ کالو خاں نے اُسے اٹھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔

’’میں بیٹھ نہیں سکتا۔‘‘

کالو خاں نے غصے سے کہا، ’’بیٹھ جاؤ!‘‘ فخرو مجبوراً بیٹھ گیا۔

’’یہ کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ کالو خاں نے کہا۔

’’وہ لینے آ جائے گا۔‘‘ فخرو نے اپنا سوال دہرایا۔

’’تو آ جائے۔‘‘ ماں نے اس طرح دائیں ہاتھ کو ہلایا جیسے کہہ رہی ہو کہ میری سمجھ میں تو خاک نہیں آیا۔ پھر اس نے کہا:

’’کریں گے کیا؟‘‘

’’آپا! مجھے اور تم دونوں کو الگ الگ کام کرنے ہوں گے۔ مجھے جو کچھ کرنا ہے وہ میں کروں گا اور تم دونوں کیا کرو گے؟‘‘

’’ہوں۔‘‘ ماں کے ہونٹوں سے نکلا تو کالو خاں بولا:

’’صرف ایک کام، خاموش رہو گے۔ کچھ بولو گے نہیں، کچھ پوچھو گے نہیں۔ کوئی سوال نہیں کرو گے، بس۔‘‘

’’بتاؤ گے نہیں، خود کیا کرو گے تم؟‘‘ ماں نے سوال کیا۔

’’نہیں، کچھ نہیں بتاؤں گا۔ آپا! بتاؤں کیا۔ یہ جو تمہارا عقل مند بیٹا ہے نا حماقتوں کی پوٹلی ہے۔ سب سے بُری بات یہ ہے کہ اس کا ہاضمہ بہت ہی کمزور ہے۔ کوئی بات چھپتی ہی نہیں۔ اس کے پیٹ کے اندر ایک ڈھول ہے ڈھول۔ بجائے پر آ جائے گا تو بجاتا ہی چلا جائے گا۔ آپا! تم سب کچھ جانتی ہو۔ اب میں جاتا ہوں۔‘‘ کالو اُٹھنے لگا تو اماں نے کہا، ’’جا کہاں رہے ہو کالو خاں؟‘‘

’’آپا! میں تو رو رہا تھا کہ ہمارے فخرو کا معدہ کم زور ہے۔ اب تمہارا حافظہ بھی کم زور ہو گیا ہے۔ میں نے کہا نہیں کہ مجھ سے کچھ مت پوچھو۔ یاد نہیں رہا؟‘‘

’’اچھا بابا، جو جی میں آئے کرو۔‘‘

’’کروں گا۔ کرنے ہی تو جا رہا ہوں۔‘‘ کالو خاں جانے لگا۔

’’واپس کب آؤ گے کالے خاں؟‘‘

کالو نے زور سے اپنا ہاتھ جھٹکا، ’’آپا! کمال کر رہی ہو تم بھی!‘‘

’’توبہ میری اب تم سے کچھ پوچھنا بھی جرم ہو گیا۔‘‘

’’اس سے بڑی خرابی ہو گی آپا۔‘‘

ماں لوٹ آئی۔ کالو خاں ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ دونوں ماں بیٹے بیٹھے رہے۔

’’فخرو پُتر!‘‘ ماں نے بیٹے کو پیار سے پُکارا، ’’تمہارا منھ کیوں سوجا ہوا ہے؟ تمہارے چاچے نے جو کچھ کہا ہے غلط نہیں ہے۔ اگر تجھے ڈانٹتا ہے تو مجھے بھی ڈانٹتا ہے حال آنکہ وہ مجھ سے چھوٹا ہے اور مجھے آپا کہتا ہے۔‘‘

’’تو؟‘‘ فخرو نے زور سے کہا۔

’’سب کچھ ہضم کرو۔ پوچھو کچھ نہیں۔ کسی سے کہو کچھ نہیں۔‘‘ ماں نے یہ الفاظ اُس طرح کہے جس طرح کالو خاں نے کہے تھے۔

ان کے گھر سے کچھ دور کالو خاں گدھے کی رسی پکڑے ایک با رونق بازار میں سے گزر رہا تھا۔ آتے جاتے ہوئے لوگ حیران ہو رہے تھے کہ آج کالو خاں دُکان بند کر کے گدھے کو کہاں لے جا رہا ہے۔ اس سے پہلے انھوں نے فخرو ہی کو گدھے کو لے جاتے ہوئے اور لاتے ہوئے دیکھا تھا۔ کالو خاں بے نیازی سے چلا جا رہا تھا۔ اگر وہ قریب سے گزرتے ہوئے لوگوں پر نظر ڈالتا تو ان کے چہروں پر بکھرے ہوئے سوال کو پڑھ لیتا، مگر اُس نے اِدھر اُدھر دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ آگے ہی آگے چلا جا رہا تھا۔ چلتے چلتے وہ ایک نئی آبادی میں پہنچ گیا۔ کچھ دور جا کر اس نے ایک دو منزلہ عمارت کے دروازے پر دستک گی۔ دروازہ کھل گیا۔ ایک ادھیڑ عمر کا شخص اس کے سامنے کھڑا تھا۔

’’آؤ کالو خاں بڑی مدت کے بعد صورت دکھائی ہے۔‘‘

’’کیا کہوں ہاشم! تم کو معلوم نہیں ہو گا۔ میں دُکان دار بن چکا ہوں۔‘‘

ہاشم نے کہا، ’’مجھے معلوم ہو گیا تھا۔ اور یہ دو معزز مہمان باہر کیوں کھڑے ہیں؟ اندر آؤ۔‘‘

’’ہاشم! ایک تکلیف دینے آیا ہوں۔‘‘

’’اندر آ کر کہو۔‘‘

’’نہیں ہاشم مجھے جلدی جانا ہے۔ سنو تم نے کہا ہے دو معزز مہمان باہر کیوں کھڑے ہیں۔‘‘

’’یار کالو خاں معاف کرنا وہ ہنسی مذاق کی بات تھی۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ان دو معزز مہمانوں میں سے ایک چلا جائے گا۔ دوسرے کی میزبانی تم کرو گے۔ تھوڑے دنوں کے لیے۔‘‘

’’سر آنکھوں پر، مگر یہ چلا جائے گا؟‘‘ ہاشم نے گدھے کی طرف دیکھ کر کہا۔

’’معاملہ اس کے اُلٹ ہے۔‘‘

’’کیا کہا؟ یعنی یہ۔۔ ۔۔‘‘

’’بالکل یہی۔‘‘ دونوں بے اختیار ہنس پڑے۔

’’میں کچھ سمجھ نہیں سکا کالو خاں!‘‘

’’ہاشم! میں یہی تکلیف دینے آیا ہوں۔ اس کی وجہ بتاؤں گا ضرور لیکن ابھی نہیں۔‘‘

’’مگر کالو خاں۔۔ ۔‘‘ کالو نے سمجھ لیا کہ ہاشم کیا کہنا چاہتا ہے۔ بولا، ’’یہ بڑا شریف جانور ہے۔ ذرہ برابر تکلیف نہیں دے گا گھر والوں کو۔ جہاں رکھو پڑا رہے گا۔ جلدی لے جاؤں گا۔ کوئی اعتراض ہے تم کو؟ ہاشم نے جواباً کہا:

کالو خاں! تم میرے بچپن کے دوست ہو۔ میں تمہاری کوئی بات نہ مانوں، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘

’’تو بسم اللہ، اصل میں یہ گدھا امانت در امانت ہے ہمارے پاس۔ میرا بھتیجا جہاں سے اسے لایا تھا امانت کے طور پر لایا تھا۔ پھر اس نے اسے بیچ دیا ہے۔ اب پکڑو اسے۔‘‘

کالو خاں نے گدھے کی رسی ہاشم کے ہاتھ میں دے دی۔

’’کیا مطلب؟ اسی طرح چلے جاؤ گے؟‘‘

’’ہاں تمہارا شکریہ۔ مجھے جانے کی اجازت دو۔‘‘

’’اچھا نہیں لگتا کالو خاں، خیر، تم کہتے ہو تو ٹھیک ہے۔‘‘

کالو خاں دو قدم جا کر رُک گیا۔ ہاشم گدھے کی رسی پکڑے دروازے پر کھڑا تھا۔

’’کیا یاد آ گیا ہے، کہہ ڈالو۔‘‘

’’اس کے یہاں رہنے کا کسی کو بھی علم نہیں ہونا چاہیے۔‘‘

’’راز ہے کوئی؟‘‘

’’یہی سمجھ لو۔‘‘

کالو خاں ایک طرف چلنے لگا۔ اب وہ ایک ایسے علاقے میں پہنچ گیا تھا جہاں تیلی، لوہار، بڑھئی اور کمہار وغیرہ رہتے تھے۔ ایک جگہ کئی گدھے بندھے تھے۔ یہ ایک کمہار کا گھر تھا۔ کالو خاں ایک ایک گدھے کو بڑے غور سے دیکھنے لگا۔ ایک گدھے کے قریب اس کے قدم رُک گئے۔ ایک بچہ ذرا دور کھڑا یہ منظر بڑی دل چسپی سے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگ کر چلا گیا۔ دو تین منٹ بعد ایک آدمی آ گیا اور بولا، ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس کے لہجے سے برہمی نمایاں تھی۔

’’شاید آپ نے مجھے چور سمجھا ہے۔‘‘ کالو خاں نے ہنس کر کہا۔

’’دو مہینے ہوئے ہمارے دو گدھے چوری ہو گئے تھے۔‘‘

’’میں چور نہیں ہوں جناب۔ مگر گدھا ضرور لے جانا چاہتا ہوں، منھ مانگی قیمت دے کر۔‘‘

اب کمہار کا لہجہ بدل گیا۔ وہ بولا، ’’گدھا خریدنا چاہتے ہو؟‘‘

’’جی ہاں، جو قیمت مانگیں گے دوں گا۔‘‘

’’کیوں خریدنا چاہتے ہو؟‘‘

’’بس! مجھے ضرورت ہے۔ قیمت بتائیے۔‘‘

’’ذرا ٹھہر جاؤ۔‘‘ وہ آدمی تیزی سے اندر چلا گیا۔ کالو خاں کھڑا رہا۔ وہ آدمی واپس آ گیا۔ اور آتے ہی پوچھا، ’’کون سا چاہیے؟‘‘

’’یہ۔‘‘ کالو خاں نے اس گدھے پر ہاتھ رکھ دیا جسے وہ غور سے دیکھتا رہا تھا۔

’’کیا دے سکتے ہو؟‘‘

’’جو بھی آپ مانگیں گے۔‘‘

وہ آدمی پھر چلا گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا، ’’یہ میرے خالو کا ہے۔ سات سو سے کم۔۔ ۔‘‘

’’ٹھیک ہے، مجھے یہ قیمت منظور ہے۔‘‘

کالو خاں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹوں کا ایک بنڈل نکالا۔ نوٹ گنے اور بولا:

’’یہ لیجیے۔ دیکھ لیں۔‘‘

کُمہار نے نوٹ گنے۔ سر کے اشارے سے اپنے اطمینان کا اظہار کیا۔ اور کالو خاں گدھے کی رسی پکڑ کر چل پڑا۔

٭٭٭

گدھا بھاگ گیا

کالو خاں نے جب گھر میں پہنچ کر گدھے کو دالان والے کمرے میں بند کر دیا تو وہ اس قدر تھک چکا تھا کہ فوراً چارپائی پر لیٹ جانا چاہتا تھا۔ سب سے پہلے فخرو کی ماں اس کے سامنے آئی جو باورچی خانے میں سے باہر آ رہی تھی۔ اس نے جو کالو خاں کو دیکھا تو بولی:

’’کالو خاں! گدھے کو لے کر کہاں چلے گئے تھے؟ کہاں چھوڑ آئے ہو اسے؟ اتنی دیر غائب کہاں رہے تھے؟‘‘

’’آپا! ایک دم اتنے سوال جڑ دیے ہیں۔ میری بات بھول گئی ہو کیا؟‘‘

’’اب کوئی اس طرح چُپ بھی کیسے رہے۔ وہ گدھا۔۔ ۔‘‘

’’وہیں ہے جہاں ہوتا تھا۔‘‘ کالو خاں نے اس کا فقرہ کاٹتے ہوئے کہا۔: ’’وہاں نہیں تھا۔‘‘

’’نہیں تھا۔ اب تو ہے نا۔ میں بڑا تھک گیا ہوں۔ ایک کپ چائے۔ بس اور کہنا سننا کچھ نہیں۔ کچھ مت پوچھو اس وقت۔‘‘ کالو خاں سونے کے کمرے میں چلا گیا۔

فخرو کی ماں کالو خاں کے لیے چائے بنانے کی خاطر دوبارہ باورچی خانے کی طرف جانے لگی کہ فخرو بھاگتا ہوا آیا اور بولا:

’’اماں! وہ کہاں ہے۔‘‘

’’کون بھئی؟‘‘

’’بادشاہ سلامت اور کون! چچا آ گئے ہیں؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’کہاں ہیں؟‘‘

’’یہیں ہے نا۔ پوچھ کیوں رہے ہو؟ چائے بناتی ہوں۔ لے جاؤ اس کے لیے۔‘‘

ماں باورچی خانے میں گئی تو وہ بھی اس کے پیچھے چلا گیا۔ ’’اماں۔۔ ۔‘‘

’’مت پوچھو مجھ سے کچھ۔ چائے بنانے دو۔‘‘

فخرو خاموش ہو گیا۔ ماں جیسے خود سے مخاطب ہو کر کہنے لگی، ’’پتا نہیں اتنی دیر کہاں رہا ہے۔ کہاں لے گیا تھا اسے؟‘‘

فخرو یہ لفظ کیسے نہیں سن سکتا تھا۔ بولا، ’’اماں! پوچھا کیوں نہیں چچا سے؟‘‘

’’پھر سوال؟‘‘

’’اماں تم بھی بس وہ ہو۔‘‘

’’کیا ہوں میں؟‘‘

’’اماں ہو اور کیا ہو۔‘‘

ماں ہنس پڑی۔ چائے بن چکی تھی۔ ماں نے پیالی میں ڈالی۔

’’اُدھر ہے کمرے میں۔ سو گیا ہو تو جگانا نہیں۔‘‘

’’تو اماں! سوتے ہوئے کیسے چائے پیئے گا؟‘‘

’’فخرو! تم اُلو ہو۔ بھلے مانس اگر سو رہا ہو تو مت جگانا۔‘‘

’’اماں! آپ کا یہ اُلو بیٹا پوچھتا ہے کہ سوتے میں کیسے چائے پیئے گا۔ جگاؤں نہیں۔‘‘

ماں نے ماتھے پر ہاتھ مارا، ’’اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ سکتے۔ چائے واپس لے آنا۔‘‘

’’اچھا۔‘‘ فخرو چائے کا کپ لے کر کمرے کے اندر گیا۔ کالو خاں سو رہا تھا۔ وہ اُس کے سرہانے کھڑا رہا۔ پھر واپس آ گیا۔

صبح ہوئی تو تینوں ناشتا کرنے لگے۔ اچانک دروازے پر دھک دھک کا شور ہونے لگا۔ ’’یہ کیا بھونچال آ گیا ہے۔‘‘ ماں بولی، ’’فخرو دیکھو تو جا کر۔‘‘

فخرو اُٹھا، باہر گیا اور جلد ہی واپس آ گیا:

’’اماں! رمضان خاں بہت سارے لوگوں کو لے کر آیا ہے۔‘‘

’’یا اللہ خیر!‘‘ خوف سے ماں کا چہرہ سفید پڑ گیا۔ مگر کالو خاں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ مزے سے ناشتا کرتا رہا۔

’’کالو خاں، سنا نہیں تم نے۔ وہ لاؤ لشکر لے کر آیا ہے۔‘‘ ’’تو پھر کیا ہے؟‘‘

’’نہ جانے کیا کرے گا۔‘‘

’’آپا! ناشتا کرو آرام سے۔ فخرو! جاؤ کہہ دو میں آ رہا ہوں۔‘‘

فخرو جانے لگا۔ ماں بھی اُٹھی تو کالو خاں نے کہا، ’’آپا! تم بیٹھی رہو۔ میں اکیلے ہی جاؤں گا۔‘‘

’’ہائے میرے اللہ! اکیلے جاؤ گے؟‘‘

’’نہیں فوجی دستہ ساتھ لے کر جاؤں گا۔ چائے دو آپا۔‘‘ ماں کا تو خوف سے بُرا حال تھا۔ کالو خاں نے خود ہی چائے بنائی اور پینے لگا۔

فخرو واپس آ گیا اور بولا، ’’کہتا ہے جلدی آؤ۔‘‘

’’سن لیا ہے۔‘‘ کالو خاں نے گھونٹ گھونٹ چائے پی اور پھر اُٹھ بیٹھا۔ پھر بولا:

’’میں نے جو کچھ کہا تھا اس پر سختی سے عمل کرنا ہو گا۔ بولنا بالکل نہیں۔ سُن لیا؟‘‘

فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ ماں نے آہستہ سے کہا، ’’اللہ خیر کرے۔‘‘

کالو خاں دروازے کی طرف جانے کے بجائے دالان کے پچھلے حصے کی طرف جا رہا تھا۔ دونوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے سوال کیا کہ یہ کیا کر رہا ہے، مگر ان کے ہونٹ بند تھے۔ دو تین منٹ بعد کالو خاں گدھے کے ساتھ دروازے کی طرف جا رہا تھا۔ ایک بار پھر ماں بیٹھے کی آنکھوں نے وہی سوال دُہرایا اور اب کے بھی ان کے ہونٹ خاموش رہے۔ کالو خاں نے دروازہ کھول دیا۔ ماں اور بیٹا اس طرح دروازے کی طرف قدم اٹھا رہے تھے جیسے ان پر جادو کر دیا ہو اور وہ اسی حالت میں چل رہے ہوں۔ کالو خاں گدھے کو لیے دروازے سے نکل گیا تھا اور وہ دونوں دروازے میں کھڑے تھے۔

’’کالو خاں ٬‘‘ رمضان خاں گرجا۔

کالو خاں نے اپنا دایاں ہاتھ بلند کیا:

’’کچھ کہنے سُننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے تم نے خریدا تھا، تمہارا ہے۔‘‘

’’اور کیا میرا ہے۔ سولہ آنے میرا ہے۔‘‘

’’تو لے جاؤ اسے۔‘‘ کالو خاں نے گدھے کی رسی رمضان خاں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ رمضان خاں نے رسی پکڑ لی۔ ’’بس معاملہ ختم؟‘‘ کالو خاں نے رمضان خاں سے مخاطب ہو کر پوچھا۔

رمضان خاں نے اپنا سر آہستہ آہستہ ہلا دیا۔

جو لوگ رمضان خاں کے ساتھ آئے تھے وہ مایوس ہو گئے تھے۔ انہیں امید تھی کہ خوب ہنگامہ ہو گا۔ مزہ آئے گا مگر وہاں تو کچھ بھی نہ ہوا۔

فخرو اور اس کی ماں دروازے سے ہٹ گئے تھے۔ فخرو بِلک بِلک کر رو رہا تھا۔

’’یہ تم نے کیا کیا ہے؟‘‘ ماں نے غصے سے پوچھا۔

’’وہی جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔‘‘ کالو خاں نے بغیر کسی افسوس کے جواب دیا۔ فخرو زیادہ زور زور سے رونے لگا تھا۔

’’فخرو میرے پُتر! میرے اچھے بیٹے! گھبراؤ نہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ کالو نے فخرو کو پیار کیا اور ماں سے کہا، ’’آپا! دُکان پر جا رہا ہوں۔‘‘ اور ذرا بھی رُکے بغیر چلا گیا۔

رمضان خاں گدھے کی رسی پکڑے فاتحانہ شان سے چلا جا رہا تھا۔ لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے تھا۔ کوئی شخص ہجوم میں سے کسی سے پوچھتا کہ ہوا کیا ہے تو جواب ملتا:

’’تم نہیں جانتے؟ رمضان خاں نے گدھا فتح کیا ہے۔‘‘ اس پر قہقہے بلند ہو جاتے۔

اس شام رمضان خاں کے ہاں بڑی شاندار دعوت ہوئی۔ لوگوں میں مٹھائی بانٹی گئی۔ رات کو دیر تک قوالی ہوتی رہی۔ بارہ بجے رمضان خاں بڑی بُری طرح تھک کر پلنگ پر لیٹتے ہی سو گیا۔ صبح سورج نکل چکا تھا جب اس کی آنکھ کھلی۔ اس کی بیوی ہاتھ میں لسی کا گلاس لیے اپنے پلنگ پر بیٹھی تھی۔

’’خدیجہ! تمہاری آنکھیں لال کیوں ہیں؟‘‘ رمضان خاں نے پوچھا تو اس نے کہا کہ رات کو سوئی کہا تھی۔

’’کیوں؟ سوئی کیوں نہیں تھی؟‘‘

’’سوتی کیسے! ساری رات ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہا ہے یہ تمہارا منحوس گدھا۔‘‘

’’ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا رہا ہے، تو کیا وہ مرغے کی طرح ککڑوں کوں کرتا؟‘‘ یہ کہہ کر رمضان نے بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔

’’پر انور کے ابا! پہلے تو کبھی نہیں بولا تھا۔ اب اسے کیا ہو گیا ہے۔ بار بار ڈھینچوں، ڈھینچوں۔ میرے تو کان پک گئے ہیں سُن سُن کر۔‘‘ رمضان کاں نے بیوی کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، ’’خدیجہ، بالکل معمولی بات ہے۔ نئے گھر میں آیا ہے نا۔‘‘

’’پہلے بھی تو یہاں آیا تھا۔ اس کے منھ کو تالا لگ گیا تھا۔ ہاں دو لتیاں ضرور جھاڑتا تھا۔‘‘

’’پیار کرو گی تو دو لتیاں بھی نہیں جھاڑے گا۔ پیار کرو اس سے پیار۔ بالکل ہِل جائے گا۔ چارا دیا ہے اسے؟ میں کل نہیں کہا تھا کہ اسے چارا تم خود دیا کرو گی۔‘‘

’’کہا تھا۔‘‘

’’تو یہاں بیٹھی لسی پی رہا ہو۔ اُدھر وہ بھوکا پیاسا پڑا ہو گا۔ کیسے اس گھر کو اپنا گھر اور تم لوگوں کو اپنے لوگ سمجھے گا؟‘‘

’’گھبراتے کیوں ہو؟‘‘

’’بات ہی گھبرانے کی ہے۔‘‘

’’وہ گیا ہوا ہے چارا لے کر۔‘‘

’’انور گیا ہوا ہے؟‘‘ رمضان خاں نے پوچھا۔

’’ہاں۔‘‘

’’تو جاؤ تم بھی۔ پیار کرو اس سے۔ پھر وہ ہم سب سے پیار کرنے لگے گا اور جب ایسا ہو جائے گا تو بیڑا پار ہو جائے گا۔‘‘

خدیجہ نے لسی کا گلاس خالی کر کے تپائی کے اوپر رکھ دیا۔ رمضان خاں اٹھا اور انگڑائی لے کر باہر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد خدیجہ نے انورا کہہ کر پکارا اور اس کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ کئی منٹ گزر گئے مگر وہ نہ آیا۔ اب خدیجہ اٹھ بیٹھی۔ نلکے کے نیچے رمضان خاں مسواک کر رہا تھا۔ اس کی بیوی کمرے میں جا رہی تھی۔ ’’جا رہی ہو؟‘‘ رمضان خاں نے مسواک منھ سے نکال کر پوچھا۔ ’’ہاں۔‘‘

’’میری بات یاد رکھنا۔ خوب پیار کرنا۔ بالکل ہمارا ہو جائے۔‘‘

خدیجہ گدھے کے کمرے کے پاس پہنچی۔ اس کا بیٹا وہیں تھا اور گدھے کے چہرے کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا۔

’’انور، کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

’’آ جاؤ اماں! اندر آ جاؤ۔‘‘ انور بولا۔

خدیجہ نے ڈرتے ڈرتے قدم رکھا۔ وہ آگے بڑھی اور آگے بڑھی۔ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی۔ انور نے ماں کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’اماں کیا کر رہی ہو؟ کچھ نہیں ہو گا۔‘‘

انور نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ خدیجہ گدھے کے بالکل قریب جا پہنچی، مگر گدھے کو ذرا بھی حرکت نہ ہوئی۔

’’بڑا بھلا مانس ہو گیا ہے اب تو۔ پہلے دیکھتے ہی دولتی مار دیتا تھا۔‘‘ خدیجہ کو گدھے کے دولتی نہ جھاڑنے پر کچھ حیرت ہوئی۔ زیادہ حیرت اس بنا پر ہوئی کہ انور گدھے کے چہرے کو اوپر اٹھا کر اسے غور سے دیکھنے لگا تھا۔

’’یہ کیا کر رہے ہو؟ نیا چہرہ لگا کر تو نہیں آ گیا؟‘‘

’’نیا چہرہ کیوں لگائے گا۔ یہ اس کا اپنا ہی چہرہ ہے۔ پر اماں، یہ وہی؟‘‘

’’کیا کہا؟‘‘

’’میں نے پوچھا ہے کہ یہ وہی ہے؟‘‘

’’تو اور کیا وہی نہیں ہے تو اور کون ہو گا!‘‘

’’اماں، میں نہیں مانتا۔ تم کہو گی کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ پر اماں، میں نے پہلے والے گدھے کے ماتھے پر ایک چمک سی دیکھی تھی جو یہاں نہیں ہے۔ دیکھو ذرا!‘‘

خدیجہ نے جھک کر گدھے کے ماتھے کو دیکھا۔ ’’ہے چمک؟‘‘ انور نے پوچھا۔

’’نہیں چمک ومک تو نہیں ہے۔‘‘

’’یہ کوئی اور گدھا ہے۔ وہ پہلے والا نہیں ہے۔‘‘

’’آؤ تمہارے باپ سے کہتے ہیں۔‘‘

خدیجہ اور انور رمضان خاں کی طرف جانے لگے۔ وہ غسل خانے اندر نہا رہا تھا۔ خدیجہ نے زور سے غسل خانے کے دروازے پر دستک دی۔

’’کون ہے؟‘‘ اندر سے رمضان خاں کی آواز آئی۔

’’جلدی نکلو انور کے ابا۔‘‘

’’کیوں کیا ہوا ہے؟‘‘

’’باہر تو آؤ۔‘‘

رمضان خاں جلدی جلدی نہا کر غسل خانے سے باہر آ گیا۔ ’’ٹھیک طرح نہانے بھی نہیں دیا۔ کیا ہوا ہے؟‘‘ رمضان خاں نے سخت لہجے میں پوچھا۔

’’پہچان کر لائے ہو گدھے کو؟‘‘

’’پہچان کر لایا ہوں۔ کیا وہ گدھے کے بجائے بکرا یا ریچھ ہے۔‘‘

’’گدھا ہے‘‘ انور بولا۔

’’تو پھر؟‘‘

’’ابا، یہ وہ گدھا نہیں ہے۔ کوئی اور ہے؟‘‘ ’’نہیں یہ وہی ہے۔‘‘

’’یہ وہ نہیں ہے۔‘‘ ’’میں بھی کہتی ہوں وہ نہیں ہے۔ وہ نہ تو ڈھینچوں ڈھینچوں کرتا تھا اور دولتی مارے بغیر رہتا ہی نہیں تھا۔ یہ تو وہ ہے ہی نہیں۔‘‘

’’پاگل ہو گئے ہو تم دونوں۔‘‘

اور رمضان خاں گدھے والے کمرے کی طرف جانے لگا۔ کمرے کا دروازہ کھُلا تھا اور دالان والا کمرا بھی کھُلا تھا۔ گدھا نہیں تھا۔

’’بھاگ گیا ابا۔‘‘

’’بھاگو اس کے پیچھے پکڑ کر لاؤ۔‘‘

انور بھاگ گیا اور رمضان خاں بیوی کے ساتھ دالان سے ہو کر باہر سڑک پر آ گیا۔ کچھ دور انور بھاگا جا رہا تھا۔ رمضان خاں بھی گھر سے نکل بھاگا۔ لحیم و شحیم آدمی، تھوڑی ہی دیر بعد پسینے میں تر بتر ہو گیا۔ ایک جگہ وہ ذرا رُکا۔ سائیکلوں والی دکان پر ایک لڑکا سائیکل میں ہوا بھروا رہا تھا۔ کانپتے ہوئے رمضان خاں نے لڑکے سے کہا، ’’گدھا۔‘‘

پھولی ہوئی سانس کی وجہ سے وہ آگے کچھ نہ کہہ سکا۔ لڑکا سمجھا اس نے گدھا کہا ہے۔ غصے سے بولا، ’’گدھے تم ہو، تمہارا باپ ہے۔‘‘

’’میں کہتا ہوں گدھا۔‘‘ رمضان خاں اب کے بھی فقرہ مکمل نہ کر سکا۔

’’کیا گدھا گدھا لگا رکھی ہے۔ کیا کیا ہے میں نے؟‘‘ لڑکا غصے میں آ گیا۔ لوگ جمع ہو گئے۔

لڑکے کو سمجھایا، ’’بزرگ ہے صبر سے کام لو۔‘‘

’’مگر اس نے مجھے گدھا کیوں کہا ہے؟‘‘ لڑکے نے فوراً کہا۔

رمضان خاں کی سانس کسی حد تک درست ہو گئی تھی۔ کہنے لگا، ’’میرا گدھا۔۔ ۔ بھا۔۔ ۔ بھاگ۔۔ ۔ گیا ہے۔‘‘

’’تو یوں کہو نا۔‘‘ لڑکا بولا۔ سب ہنس پڑے اور رمضان آگے جانے لگا۔ مگر گدھا کہیں نہ ملا۔ گھر کے سب لوگ اسے ڈھونڈ چکے تھے۔ مگر وہ نہ ملا۔

٭٭٭

شاہ صاحب کے گھر

کالو خاں دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے گھر آیا۔ فخرو اور اس کی ماں کھانے کی میز پر اس کا انتظار ہی کر رہے تھے۔

’’چچا!‘‘ فخرو نے جلد ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ کالو خاں نے اُسے محبت آمیز نظروں سے دیکھا، ’’پُتر! میں جانتا ہوں تو جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ کھانا کھا لے پھر چلیں گے۔‘‘

’’کہاں چچا؟‘‘

’’جہاں تمہارا بادشاہ سلامت ہے۔‘‘

’’رمضان خاں کے گھر؟‘‘

’’مت پوچھ مجھ سے کوئی سوال۔ تو بادشاہ سلامت سے ملنا چاہتا ہے نا؟‘‘

’’بڑا اُداس ہو گیا ہے۔‘‘ ماں بولی۔

’’ہاں تو مل لے گا۔ میں نے اس سے وعدہ جو کیا ہے۔ آپا! اس سے کہو آرام سے کھانا کھائے۔‘‘ فخرو نے جلدی جلدی دو چار لقمے حلق سے اُتار کر پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگا لیا۔

’’کھا لیا ہے؟‘‘ کالو خاں نے پوچھا۔ ’’ہاں چچا۔‘‘ ’’تو ہاتھ دھو لے۔ میں بھی اُٹھتا ہوں۔‘‘

چند منٹ کے بعد کالو خاں اور فخرو جانے لگے۔ فخرو کالو خاں کے پہلو میں چُپ چاپ چلا جا رہا تھا، مگر جب اس نے دیکھا کہ وہ رمضان خاں کے گھر کے بجائے ایک نئی آبادی کی طرف قدم اٹھا رہے ہیں تو بولا، ’’چچا۔‘‘

’’میں نے کہا ہے بادشاہ سلامت می طرف جا رہے ہیں۔ بے صبری مت کرو۔ چُپ چاپ چلے چلو۔‘‘ وہ چُپ چاپ چلتے گئے اور اسی مکان کے سامنے پہنچ گئے۔ جہاں کالو خاں نے گدھا اپنے پُرانے دوست ہاشم کے حوالے کیا تھا۔ اس نے دروازے پر دستک دی۔ ہاشم آ گیا اور بولا:

’’بہت اچھا کیا جو آ گئے ہو۔ میں خود ہی تمہاری طرف آنے والا تھا۔‘‘

’’خیر تو ہے ہاشم!‘‘

’’اندر آؤ پتا چل جائے گا۔‘‘

’’ہاشم، یہ میرا بھتیجا بھی، بھانجا بھی، بیٹا بھی۔ اس کا نام فخر دین عرف فخرو ہے۔‘‘ کالو خاں نے فخرو کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ ہاشم نے فخرو کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔ تینوں ایک کمرے میں داخل ہو گئے اور کرسیوں پر بیٹھ گئے۔

’’کیا حال ہے ہمارے اس کا؟‘‘

’’اُدھر چلتے ہیں۔ شربت وربت پی لو۔‘‘ ہاشم نے کہا تو کالو خاں نے کہا:

’’نہیں ہاشم، پہلے اُسے دیکھیں گے۔ لے چلو ہمیں اُدھر۔‘‘

ہاشم انہیں ایک طرف لے گیا۔ کمرے کا دروازہ کھولا۔ سامنے فخرو کا بادشاہ سلامت کھڑا تھا۔ ’’میرا بادشاہ سلامت۔‘‘ فخرو بھاگ کر اس سے لپٹ گیا۔

’’چلو اب چھوڑ دو اسے۔‘‘ کالو خاں نے کہا۔ ادھر فخرو گدھے کو چھوڑ کر الگ ہو گیا، ادھر گدھا زمین پر گر پڑا۔

‘‘کیا ہوا بادشاہ سلامت؟‘‘ فخرو گھبرا کر بولا۔ کالو خاں نے فخرو کو آواز دی:

’’اِدھر آ جاؤ تم۔‘‘

گدھا اُٹھنے کی کوشش کرنے لگا، مگر اُٹھ نہ سکا۔‘‘چچا کیا ہو گیا ہے اسے؟‘‘

’’یہ سوال مجھ سے کرو بیٹا۔ اسی لیے تو میں تم لوگوں کو یہاں بُلانا چاہتا تھا۔ جب سے یہاں آیا ہے، صرف ایک مرتبہ اس نے گھاس دانہ کھایا ہے۔‘‘

‘‘اور باقی دن؟ فخرو تڑپا تھا۔

’’نہیں کھایا کچھ اس نے۔‘‘

فخرو پھر گدھے کی طرف جانے لگا۔ ’’فخرو، مت ستاؤ اسے بیمار ہو گیا ہے یا پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔‘‘

’’چچا، ہم سے بچھڑ کر بڑا اُداس ہو گیا ہے۔‘‘

’’یہی بات ہے۔‘‘ ہاشم بولا۔ ’’گھر لے چلیں گے، کیوں چچا؟‘‘

’’ہاں اب خطرہ ٹل گیا ہے۔‘‘

’’خطرہ کیسا‘‘ ہاشم نے پوچھا۔

’’اور چچا، آپ نے تو اُسے رمضان خاں کے حوالے کر دیا تھا؟‘‘

’’وہ اور تھا۔‘‘

’’اور تھا چچا، میں سمجھا نہیں۔‘‘

ہاشم خاموش بیٹھا رہا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا۔ بول پڑا:

’’یہ چچا بھتیجے میں راز و نیاز کیا ہو رہا ہے؟‘‘

’’بات لمبی ہو جائے گی۔ بس یہ سمجھ لو ایک شخص بُری طرح اس کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ میں نے اس سے ملتا جُلتا ایک گدھا خرید کر اس کے حوالے کر دیا ہے۔‘‘

’’پہچانا نہیں اس نے؟‘‘ ہاشم نے سوال کیا۔

’’اصلی اور نقلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اور سنو، پیارے بھتیجے۔‘‘ کالو خاں فخرو سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ’’تم ہو اول درجے کے ڈھنڈورچی۔ ڈھنڈورا مت پیٹنا۔ میرے کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ سمجھے کہ نہیں؟‘‘ فخرو نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

’’ہاشم، سارا قصہ پھر کبھی سناؤں گا۔ فی الحال تم ہمیں اجازت دو۔‘‘

’’ایسا نہیں ہو سکتا۔ مجھے خاطر تواضع تو مہمانوں کی کر لینے دو۔‘‘

’’نہیں ہاشم، اب اجازت ہی دے دو۔ بڑی مہربانی۔ بڑا شکریہ۔ تم کو بڑی تکلیف ہوئی۔‘‘

’’مجبوری ہے پھر تو۔‘‘

فخرو تیزی سے گدھے والے کمرے میں گیا۔ بادشاہ سلامت اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ فخرو نے اس کی رسی پکڑی تو وہ اُٹھ بیٹھا۔ کالو خاں اور ہاشم بھی اُدھر آ گئے۔

’’ٹھہرو میں تانگے کا انتظام کرتا ہوں۔ اس سے چلا نہیں جائے گا۔‘‘ ہاشم نے کہا، پھر تانگے کا انتظام کرنے چلا گیا۔

گدھے کی حالت واقعی بڑی خراب تھی۔ کم زوری کی وجہ سے وہ چند قدم بھی نہیں چل سکتا تھا۔ سب نے مل کر اسے تانگے میں ڈالا۔ اب فخرو ضد کرنے لگا کہ بادشاہ سلامت کو گدی پر بٹھایا جائے اور وہ نیچے بیٹھے گا۔ گدی پر گدھے کو لٹایا جانا مشکل تھا۔ کالو خاں نے فخرو کو ڈانٹا تو وہ گدی کے اوپر بیٹھ تو گیا مگر اس انداز سے کہ پوری طرح بادشاہ سلامت پر جھُکا ہوا تھا۔ اس کا چہرہ بڑا افسردہ تھا۔ بار بار آہیں بھرتا تھا۔

کالو خاں نے ہاشم کا بڑا شکریہ ادا کیا اور تانگا چل پڑا۔ تانگا جب گھر پہنچا تو رات کی سیاہی پھیلنے لگی تھی۔ مکان کے آگے اِکا دُکا آدمی ہی دکھائی دیتا تھا۔ گدھے کو تانگے سے اُتارا گیا تو کالو خاں نے دروازے پر دستک دی۔ دو منٹ بعد دروازہ کھلا۔ گدھے کو دروازے کے سامنے دیکھ کر ماں کے منھ سے بے اختیار نکلا، ’’پھر یہ۔‘‘

کالو خاں نے فوراً انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اُسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔ ’’سب کچھ بتا دوں گا آپا! چُپ رہو۔‘‘ گدھے کو اس کے مخصوص کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ اُس کے کھانے کا سامان ابھی وہاں پڑا تھا۔

’’فخرو، چلو بیٹا اب سو جاؤ کھانا کھا کر۔‘‘

’’پر بادشاہ سلامت تو کچھ کھا ہی نہیں رہا۔‘‘

’’کھا لے گا۔ فکر کیوں کرتے ہو۔ اب اپنے گھر میں ہے۔‘‘

کالو خاں زبردستی فخرو کو باورچی خانے کے باہر کھانے کی میز پر لے گیا۔ ماں نے چاول اور سالن وغیرہ میز کے اوپر رکھ دیا۔ فخرو نے کھانے سے انکار کر دیا، ’’اماں، میں نہیں کھاؤں گا۔ بادشاہ سلامت جو نہیں کھا رہے۔‘‘

کالو خان نے اسے پھر ڈانٹ پلائی، ’’ایک بار کہہ جو دیا ہے۔ اپنے گھر میں ہے۔ وہاں اداس ہو گیا تھا۔ یہاں کھائے پیے گا تو ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

کالو خاں اور ماں کے اصرار پر فخرو نے تھوڑے سے چاول کھا لیے۔ پھر وہ ہاتھ دھو کر کھانے سے اٹھ بیٹھا اور جانے لگا۔

’’تم باز نہیں آؤ گے فخرو۔‘‘ کالو خاں نے غصے سے کہا۔: ’’گدھے کے ساتھ گدھے ہو گئے ہو۔‘‘

ماں نے سمجھایا، ’’جانے دو اسے کالو خاں۔‘‘ فخرو جانے لگا اور دیر تک واپس نہ آیا۔

’’یہ وہاں کر کیا رہا ہے؟‘‘ ماں بولی۔

’’دیکھتے ہیں چل کر۔‘‘

گدھا بیٹھا ہوا تھا اور فخرو سر جھکائے اس کے پاس کھڑا تھا۔ ماں اور چچا کو دیکھ کر فخرو بے اختیار رونے لگا۔ ’’نہیں کھاتے۔‘‘

’’تو تم کیوں اُس کے سر پر چڑھ کر بیٹھے ہو۔ کھا لے گا۔‘‘ کالو خاں نے غصے سے کہا۔

پھر کالو خاں نے اندر جا کر دیکھا۔ کھانے کا سارا سامان ویسے کا ویسا پڑا تھا۔

’’دیکھا آپ نے چچا۔‘‘

’’ہاں دیکھا ہے۔ آ جاؤ اب۔ صبح سوچیں گے۔‘‘

’’صبح تک تو یہ!‘‘

’’کچھ نہیں ہو گا فخرو بیٹا! جانور ہے نا۔‘‘

’’بادشاہ سلامت ہے۔‘‘ فخرو نے اپنے گال سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ کالو خاں ہنس پڑا۔ فخرو کو کالو خاں کی ہنسی بڑی بُری لگی، مگر خاموش رہا۔ ماں آخر فخرو کو سمجھانے میں کام یاب ہو گئی۔ کالو خاں تو پہلے ہی انہیں وہاں چھوڑ کر سونے کے لیے چلا گیا تھا۔

فخرو لیٹنے کو تو لیٹ گیا، مگر بار بار کروٹیں بدلتا رہا۔

آدھی رات کے وقت ماں کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ فخرو پلنگ پر نہیں ہے۔

’’وہیں ہو گا۔‘‘ اس نے دل میں سوچا اور اُٹھ کر وہاں گئی۔ فخرو لالٹین ہاتھ میں لیے گدھے کے پاس دیوار سے لگ کر کھڑا تھا۔

’’فخرو پُتر۔‘‘ فخرو چُپ رہا۔ ’’فخرو کیا ہوا ہے تجھے؟‘‘ ’’اماں۔۔ ۔‘‘ اور فخرو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

’’نہ پُتر نہ۔ حوصلہ کرو۔ جانور ہے نا۔ سمجھ جائے گا۔‘‘

کالو خاں بھی وہاں آ گیا۔ ’’تم لوگ کیا کر رہے ہو یہاں؟‘‘

’’میں نے اسے پلنگ پر نہ پایا تو یہاں آ گئی۔‘‘

’’فخرو‘‘

’’چچا، نہیں کھایا کچھ۔‘‘

’’تو ہم کیا کریں، تمہارے ساتھ پاگل ہو جائیں۔‘‘ فخرو بلک بلک کر رو رہا تھا۔

’’فخرو، اب نکل آؤ۔‘‘ کالو خاں کا لہجہ کافی نرم تھا۔ ’’صبح سوچیں گے کہ کیا کرنا چاہیے۔ گھبراؤ نہیں۔‘‘ ماں اور کالو خاں فخرو کو واپس لے آئے۔ فخرو برابر کروٹیں لیتا رہا۔

صبح کی اذان ہوئی تو فخرو اٹھ کر گدھے کے کمرے میں چلا گیا۔ کالو خاں نے اسے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ وہ بھی اس کے پیچھے وہاں پہنچ گیا۔ ’’فخرو۔‘‘ فخرو نے بڑی مایوسی سے نفی میں سر ہلا دیا۔ ماں بھی وہاں آ گئی تھی۔ ’’آپا، جلدی سے ناشتا تیار کر دو۔ ہم اسے لے جائیں گے۔‘‘

’’کہاں؟‘‘

’’جہاں سے فخرو اسے لایا تھا۔ اس کا اصل گھر تو وہ ہے نا۔ شاہ صاحب نے اسے امانت کے طور پر فخرو کے حوالے کیا تھا۔ بہت اُداس ہو گیا ہے۔‘‘

ماں چلی گئی۔ کالو خاں فخرو کا ہاتھ پکڑ کر اسے باہر لے آیا۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد صبح کی سفیدی اندھیرے پر غالب آنے لگی تھی۔ کالو خاں نے فخرو سے کہا، ’’فخرو تانگا لے آؤ جا کر۔‘‘

تھوڑی دیر بعد تینوں نے بڑی مشکل سے گدھے کو تانگے میں لادا اور تانگا چلنے لگا۔

’’راستے کا علم ہے نا؟ بھول تو نہیں گئے؟‘‘ کالو خاں نے پوچھا۔ ’’نہیں بھولا۔‘‘

’’تو ٹھیک ہے۔‘‘

تانگا اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ وہ بزرگ جنہیں شاہ صاحب کہا جاتا تھا جب انہوں نے تانگے کی آواز سنی تو باہر آ گئے۔ اب صورت یہ ہوئی کہ کہاں تو گدھے کے لیے کھڑا ہونا بھی مشکل اور کہاں یہ ہوا کہ وہ شاہ صاحب کو دیکھتے ہی تانگے سے کود پڑا۔

’’دیکھا فخرو۔‘‘ فخرو کے چہرے پر خوشی کی چمک نمایاں ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد شاہ صاحب بولے:

’’یہ تم لوگوں نے بہت اچھا کیا کہ اس کی حالت بگڑ گئی تو اسے یہاں لے آئے۔‘‘

’’جناب، کیا کہوں۔ اس کی حالت دیکھ کر فخرو کی حالت بھی بگڑ گئی تھی۔‘‘ کالو خاں نے فخرو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شاہ صاحب کا ملازم شربت کا گلاس لے آیا۔ جب شربت پی چکے تو شاہ صاحب نے کالو خاں سے کہا:

’’اب مجھے وہ سب کچھ بتاؤ جو اب تک پیش آیا ہے۔‘‘

’’بہتر جناب۔‘‘

کالو خاں نے کہا اور وہ سارے واقعات بتانے لگا۔

٭٭٭

انجام بخیر

فخرو کو اپنے بادشاہ سلامت سے بڑی محبت تھی۔ وہ اسے شاہ صاحب کے ہاں چھوڑ کر کالو خاں کے ساتھ گھر واپس آیا تو بڑا اُداس معلوم ہوتا تھا۔ رات کے کھانے کے بعد جب فخرو اور اس کی ماں اور کالو خاں سونے کی تیاری کر رہے تھے تو کالو خاں نے فخرو کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:

’’فخرو پُتر، مجھے علم ہے تمہیں اس کے چلے جانے پر دُکھ ہوا ہے، مگر یہ بھی تو سوچو کہ اگر وہ دو تین دن اور یہاں رہتا تو بھوک سے مر نہ جاتا کیا۔ یہ اچھا نہیں ہوا کہ وہ شاہ صاحب کے ہاں خوش ہے؟ تم نے اسے دیکھا تھا، وہ تانگے سے کود کر اندر چلا گیا تھا۔ وہ دیکھا تھا نا۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’تم اپنے بادشاہ سلامت کو صحت مند اور خوش دیکھنا چاہتے ہو نا؟‘‘

’’ہاں۔‘‘ فخرو نے آہستہ سے کہا۔

’’تو وہ بہت خوش ہے۔ پیٹ بھر کر کھائے گا۔ ساری کم زوری دور ہو جائے گی۔‘‘

فخرو کی ماں جو کالو خاں اور اپنے بیٹے کی باتیں دل چسپی سے سُن رہی تھی، بولی، ’’فخرو تم جب چاہو وہاں چلے جانا۔ کون روکے گا تمہیں؟‘‘

فخرو کے چہرے پر تر و تازگی سی آ گئی۔ یہ اس کے لیے ایک ایسی خوش خبری تھی جس کا اس نے پہلے خیال نہیں کیا تھا۔ کالو خاں نے اب کے فخرو کے شانے پر ہاتھ رکھ دیا اور بڑی محبت سے کہنے لگا، ’’فخرو، میں تم سے ایک بہت ضروری بات کہنا چاہتا ہوں۔ بے کاری آدمی کے لیے ایک مصیبت ہوتی ہے۔ بے کار گھر میں پڑے رہو گے تو زندگی تم پر ایک بوجھ بن جائے گی۔‘‘

’’کالو خاں، تم نے بہت اچھی بات کہی ہے۔ یہ بات میرے دل میں بھی تھی۔‘‘ فخرو کی ماں بولی۔

’’اب پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ جو چاہو کام کر سکتے ہو۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ ایک بڑا اچھا اور شان دار مکان خرید لیں گے۔ اس مکان کے نیچے دکانیں ہوں گی۔ ایک میں تم بیٹھ جانا۔‘‘ ’’اسے اچھے اچھے کپڑے پہننے کا بڑا شوق ہے۔‘‘ ماں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے تم دکان میں کپڑے رکھ لینا۔ خود بھی پہننا دوسروں کو بھی پہنانا۔ ٹھیک ہے فخرو۔‘‘

’’ٹھیک ہے چچا جان۔‘‘ فخرو کالو خاں کو چچا کہا کرتا تھا۔ آج اس نے چچا جان کہا تھا۔ کالو خاں خوش ہو گیا۔

کچھ دیر تک ایسی ہی باتیں ہوتی رہیں۔ مستقبل کے منصوبے بنائے گئے۔ نئے نئے کام سوچے گئے۔ سیر و تفریح کے پروگراموں پر غور کیا گیا۔ رات کے دس بج گئے۔ ’’اب سو جانا چاہیے۔ کل مکان ڈھونڈنے جانا ہے۔‘‘ کالو خاں نے کرسی سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ ان کے چہرے خوشی سے چمک رہے تھے۔ بہت خوب صورت خواب ان کے ذہنوں میں روشنی پھیلا رہے تھے۔ بستر پر لیٹے تو دیر تک وہ سو نہ سکے۔ جاگتے میں خواب دیکھتے رہے۔ بارہ بجے کے بعد سوئے۔

انہیں گہری نیند سوئے ہوئے دو تین گھنٹے گزرے ہوں گے کہ تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ سب سے پہلے کالو خاں نے آنکھیں کھولیں۔ دو نقاب پوش ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں ٹارچ پکڑے کھڑے تھے۔

’’خبردار، جو آواز نکالی۔ بتاؤ وہ جواہرات کہاں ہیں؟‘‘

ٹارچوں کی تیز روشنی سے ان کی آنکھیں چُندھیا گئی تھیں۔ اس اچانک واقعے سے وہ سخت گھبرا گئے تھے۔ ’’بولو۔‘‘ ایک نقاب پوش آگے بڑھ کر گرجا۔ تینوں میں سے خوف کے مارے کوئی بھی نہ بول سکا۔ ’’بتاؤ ایک منٹ کے اندر اندر ورنہ گولیوں سے بھون دیں گے۔‘‘

’’تینوں کو بھون دیں گے۔‘‘ کسی کے گلے سے آواز نہ نکلی۔

’’بولتے کیوں نہیں، مرنا چاہتے ہو؟‘‘ ایک نقاب پوش نے پستول کا رُخ کالو خاں کی طرف پھیرتے ہوئے کہا اور ایک ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔

’’بولو۔‘‘ دوسرا نقاب پوش گرجا۔ ’’اوئے تو بول اوئے۔‘‘ پہلے نقاب پوش نے فخرو کی طرف دیکھتے ہوئے پستول والا ہاتھ لہرایا۔ ’’بتا دو نہیں تو ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔‘‘ دوسرا بولا۔

تینوں کے چہرے ڈر سے زرد پڑ چکے تھے۔ فخرو کانپ رہا تھا۔

’’نہیں بتاتے؟‘‘ پہلے نے پستول فخرو کی کنپٹی سے لگا دی۔

’’اللہ کے واسطے اسے نہ مارو۔‘‘ ماں چیخی۔ ’’تو فوراً بتا دو۔ ہیرے کہاں ہیں۔‘‘ ماں نے کوٹھری کی طرف اشارہ کر دیا۔ ’’کہاں؟‘‘ ’’زمین میں۔‘‘

اس پر پہلے نقاب پوش نے دوسرے سے کہا:

’’پستول تانے رکھو۔‘‘ اور وہ کوٹھری کے اندر چلا گیا۔ دوسرے نے پستول ان پر تانے رکھا۔ کالو خاں ذرا ہلا تو وہ گرجا:

’’خبردار کالو خاں۔ پہلی گولی تمہارے سینے سے پار ہو گی۔‘‘ نقاب پوش نے ٹارچ کی روشنی کالو خاں کے چہرے پر ڈالی۔ ’’کسی نے ذرا بھی حرکت کی تو اُس کی خیر نہیں۔‘‘ نقاب پوش نے ذرا آگے بڑھ کر کوٹھری کے اندر جھانکا۔ ’’کون سی جگہ ہے۔ بتاؤ۔‘‘ نقاب پوش نے اسے مخاطب ہو کر پوچھا۔

’’دی۔۔ ۔ وار۔۔ ۔‘‘

’’کون سی دیوار؟‘‘

’’س۔۔ ۔ ا۔۔ ۔۔ م۔۔ ۔۔ نے۔‘‘

نقاب پوش نے دوبارہ کوٹھری میں جھانک کر کہا، ’’سامنے والی دیوار۔‘‘ وہ واپس اپنی جگہ پر آ گیا۔

تینوں نقاب پوش کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے تھے۔ ان کی حالت یہ تھی کہ کاٹو تو لہو ہی نہیں بدن میں۔ یکایک ایک گرج سنائی دی:

’’ہینڈز اپ۔‘‘

اور دوسرے ہی لمحے میں نقاب پوش کی طرف دو ہاتھ بڑھے اور پستول چھن گیا۔

’’واہ رے دلیر ڈاکو، کہاں ہے دوسرا؟‘‘

یہ آواز تھانے دار کی تھی جو تین سپاہیوں کے ساتھ اندر آ چکا تھا۔ ان سب کے ہاتھوں میں پستول تھے۔

’’کہاں ہے دوسرا؟‘‘ تھانے دار نے نقاب پوش کے گال پر زور سے تھپڑ مارتے ہوئے پوچھا۔ نقاب پوش جو سخت گھبرا گیا تھا کوٹھری کی طرف اشارہ کرنے لگا۔

’’جاؤ۔‘‘ تھانے دار نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔ فوراً دو سپاہی اندر گئے اور دوسرے نقاب پوش کو دھکے دیتے ہوئے باہر لے آئے۔

’’لگاؤ انہیں ہتھکڑیاں۔‘‘ تھانے دار نے حکم دیا۔

تھانے دار نے دائیں ہاتھ سے پہلے نقاب پوش کا نقاب کھینچ لیا۔ یہ اکبر تھا جو ایک بار گدھے کو سیر کرانے لے گیا تھا۔ تھانے دار نے دوسرے نقاب پوش کا نقاب بھی ہٹا لیا۔ یہ بھی اکبر کا ایک ہم عمر دوست تھا۔

’’ماں جی۔‘‘ تھانے دار نے ماں سے کہا۔ ’’اب آپ لوگوں کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم شام ہی سے ان بہادر ڈاکوؤں کے پیچھے لگے ہوئے تھے۔ پکڑے گئے ہیں۔‘‘

ماں دعائیں دینے لگی:

’’اللہ تمہارا بھلا کرے۔ ہم پر ایسا احسان کیا ہے کہ ساری عمر نہیں بھولیں گے۔‘‘

’’یہ آپ کا بہت ہی بڑا احسان ہے۔‘‘ کالو خاں بولا۔

تھانے دار بولا:

’’یہ کوئی احسان نہیں ہے۔ ہم نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ امن پسند شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہمارا کام ہے۔ پولیس کا اور کیا کام ہوتا ہے؟‘‘

’’اللہ تم لوگوں کو کبھی تتی ہوا نہ لگے۔ ہمیشہ سُکھی رہو۔‘‘ ماں نے بے اختیار دعائیں دیں۔

’’اب سونا چاہو تو سو جاؤ۔ ہم مجرموں کو لے جا رہے ہیں۔ انہیں سزا قانون دے گا۔ اللہ حافظ۔‘‘ تھانے دار اور سپاہی جانے لگے اور ان کے ساتھ ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے دونوں مجرم بھی قدم اٹھانے لگے۔

’’اللہ حافظ‘‘ ماں اور کالو خاں نے ایک ساتھ کہا۔

تھانے دار اور سپاہیوں کے جانے کے بعد ماں اور کالو کی حالت کافی حد تک سنبھل گئی۔ فخرو ابھی تک ٹکٹکی باندھے سامنے دیکھ رہا تھا۔

’’اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔‘‘ ماں نے کہا اور ہاتھ بڑھا کر فخرو کو اپنے قریب کر لیا۔

’’اب کیوں ایسی حالت ہے تیری؟ اللہ نے بڑا فضل کیا ہے۔ پُتر فخرو۔ خود کو سنبھال بیٹا۔‘‘

’’اماں۔۔ ۔ اب فکر کی کوئی بات نہیں۔‘‘

’’اماں، وہ دیکھا اکبر تھا اور دوسرا حامد تھا۔ میرے دوست تھے مدرسے میں۔‘‘

’’دیکھا تھا نا انہیں؟‘‘

’’ہاں دیکھا تھا۔‘‘

’’میرے ساتھ پڑھتے رہے ہیں۔‘‘

’’اللہ جانے کیوں دماغ الٹ گیا بے وقوفوں کا۔‘‘

اس دوران میں کالو خاں آہستہ سے کوٹھری کے اندر چلا گیا تھا وہ باہر آ گیا۔

’’بہت اچھے وقت پر قدرت نے ہماری مدد کی ہے۔‘‘

’’وہ چچا، وہ۔۔۔۔‘‘

کالو خاں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ ’’ہر طرح خیریت ہے۔ زمین نہیں کھودی گئی۔ اللہ بہت ہی مہربان ہے۔‘‘

ابھی تک خوف ان کے ذہنوں پر چھایا ہوا تھا۔ بات کرتے تھے تو اِدھر اُدھر دیکھ لیتے تھے۔ نیند ان کی آنکھوں میں کہاں۔ صبح سارے محلے میں یہ خبر پھیل گئی کہ رات فخرو کے گھر ڈاکا پڑا تھا۔ مگر سپاہیوں نے مجرموں کو گرفتار کر لیا۔ مجرم دو نوجوان تھے۔ جنہوں نے نقاب پہنا ہوا تھا۔

عدالت کا کمرہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ جج صاحب پُروقار انداز میں اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مجرموں کے کٹہرے میں اکبر اور اس کا ساتھی حامد کھڑے تھے۔ ان کے ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف ماں، فخرو اور کالو خاں بنچ پر بیٹھے تھے۔ جج صاحب کے سامنے وکیل اور تھانے دار موجود تھے۔ جج صاحب کچھ لکھ رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ مقدمے کی کاروائی ہو چکی ہے۔ کچھ لکھ کر جج صاحب نے قلم رکھ کر مجرموں کے کٹہرے کی طرف دیکھا اور بولے:

’’اتنی چھوٹی سی عمر میں ایسا بھیانک جُرم۔‘‘

’’جی حضور، انہیں جرم کے راستے پر لایا گیا تھا۔ اصل مجرم اور ہے حضور۔‘‘ تھانیدار نے کہا۔

’’کون ہے وہ؟‘‘ جج نے پوچھا۔ ایک سپاہی رمضان کو مجرموں کے کٹہرے کی طرف لے جانے لگا جس کے ہاتھ ہتھکڑیوں سے بندھے تھے۔

’’یہ ہے اصل مجرم جناب۔ ترکاریوں کی منڈی کا ایک پُرانا بیوپاری ہے۔ اس کا نام رمضان خاں ہے۔ اس نے پہلے تو فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں کو بہت پریشان کیا اور پھر انہیں لوٹنے کے لیے ان نوجوانوں کو ان کے گھر پر ڈاکا ڈالنے کی ترغیب دی اور بڑے بڑے لالچ دیئے۔

تھانے دار رُکا تو جج نے اکبر سے کہا:

’’تمہارا نام اکبر ہے؟‘‘

’’جی ہاں۔‘‘

’’کیا کہا تھا رمضان خاں نے تم سے؟‘‘

’’جی مجھ سے کہا تھا کہ اگر تم فخرو کے گھر سے ہیرے لے آئے تو میں تمہیں بڑی دولت بھی دوں گا اور تمہیں اپنے کاروبار میں شریک کر لوں گا۔‘‘ اکبر نے کہا۔

’’اور تمہارا کیا نام ہے؟‘‘ جج صاحب نے اکبر کے ساتھی سے پوچھا۔

’’حامد جناب۔ میں اکبر کا دوست ہوں۔‘‘ ’’کیا کہا گیا تھا تم سے حامد؟‘‘

’’مجھ سے رمضان خاں نے کہا تھا کہ میں تمہیں ساری دنیا کی سیر کراؤں گا اور مالا مال کر دوں گا۔‘‘

’’مجھے بتایا گیا ہے کہ تم نے اپنے چہروں پر نقاب ڈال رکھے تھے۔‘‘

’’ہمیں سب کچھ رمضان خاں نے ہی بتایا تھا۔‘‘ اکبر بولا۔ اب کے جج صاحب رمضان خاں سے مخاطب ہوئے:

’’رمضان خاں، ان لڑکوں نے جو کچھ کہا ہے درست ہے؟‘‘

پہلے تو رمضان خاں خاموش رہا۔ جج صاحب نے دوبارہ پوچھا تو رمضان خاں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اس پر وکیل کہنے لگا:

’’حضور، میں عرض کروں گا کہ یہ رمضان خاں ایک قومی مجرم ہے۔ جناب اس کی عمل اس لحاظ سے بہت بُرا اور بھیانک جرم ہے کہ اس نے اپنے لالچ کی خاطر قوم کے نوجوانوں کا مستقبل تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ نوجوان قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ جو شخص قوم کے مستقبل کو تباہ کرے وہ زیادہ سے زیادہ سزا کا مستحق ہے۔ میں درخواست کروں گا کہ مجرم رمضان خاں کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔‘‘

جج صاحب نے ہاں میں سر ہلا دیا:

’’آپ نے بالکل درست کہا ہے۔ اسے ایسی سزا ملنی چاہیے کہ دوسروں کا عبرت حاصل ہو۔ رمضان خاں کو پانچ سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے اور ان لڑکوں کو چھ چھ ماہ کی سزا دی جاتی ہے تاکہ انہیں یہ سبق ملے کہ آئندہ کسی لالچی آدمی کا آلہ کار نہ بنیں۔‘‘

عدالت برخواست ہو گئی اور سپاہی مجرموں کو لے جانے لگے۔ فخرو، اس کی ماں اور کالو خاں اطمینان کے ساتھ گھر لوٹے۔

چند روز بعد وہ ایک شان دار مکان میں چلے گئے۔ فخرو کپڑے کا کاروبار کرنے لگا۔ کالو خاں نے محلے کی چھوٹی سے دکان چھوڑ دی اور ایک بڑی دُکان میں بیٹھنے لگا۔ سب بہت خوش تھے۔ فخرو تیسرے چوتھے روز شاہ صاحب کے ہاں جا کر اپنے بادشاہ سلامت سے ملاقات کر کے خوش خوش لوٹ آتا تھا۔

٭٭٭

ٹائپنگ: انیس الرحمٰن

ماخذ: اردو محفل

https://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DA%AF%D8%AF%DA%BE%D8%A7-%DA%A9%DB%81%D8%A7%D9%86%DB%8C-%D9%85%DB%8C%D8%B1%D8%B2%D8%A7-%D8%A7%D8%AF%DB%8C%D8%A8.53109

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید