اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


وہ لڑکا جس نے ’’بچاؤ بھیڑیا آیا‘‘ کا شور مچایا ۔۔۔ نا معلوم، جمع و ترتیب: اعجاز عبید

بچوں کی عالمی کہانیوں میں سے ایک اور کہانی

وہ لڑکا جس نے ’’بچاؤ بھیڑیا آیا‘‘ کا شور مچایا

از قلم

نا معلوم

جمع و ترتیب

اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

وہ لڑکا جس نے ’’بچاؤ بھیڑیا آیا‘‘ کا شور مچایا

 

نا معلوم

 

(مشینی ترجمہ)

 

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک چرواہا لڑکا جس کا نام آصف تھا، پاکستان کے شمالی علاقوں کی خوبصورت وادیوں میں سے ایک میں واقع گاؤں میں رہتا تھا۔ آصف کا گاؤں در اصل پاکستان کے مشہور پہاڑی سلسلہ کے دامن میں واقع تھا جسے ’’ کوہ قرا قرم‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پہاڑ بہت ہی اونچے ہیں اور ان پر زیادہ سبزہ بھی نہیں، لیکن وادیوں میں منظر اس سے مختلف ہے جہاں تیز رو دریا بہتے ہیں جیسا کہ دریائے سوات جو کہ برف سے لدے ہوئے پہاڑوں سے نیچے کی طرف بہتے ہوئے نہایت خوبصورت آبشار یں اور جھیلیں بناتا ہوا گزرتا ہے۔ وہاں پر سرسبز گھاس ہے، اور موسمِ بہار میں تمام زمین خوبصورت رنگوں کے پھولوں سے بھر جاتی ہے، اور سینکڑوں ہزاروں شوخ رنگوں کی تتلیاں ہوا میں اڑتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں جو کہ اس علاقے کو جنت نشاں بنا دیتی ہیں۔

وہاں سے تھوڑی سی بلندی پر ایک اور گاؤں تھا جہاں پر آصف کے ماموں رہتے تھے ان کا ایک بیٹا آصف کا ہم عمر تھا جس کا نام ہمزہ تھا۔ ہمزہ کے گاؤں سے نیچے کی طرف دیکھنے پر درخت اور گھر چھوٹے چھوٹے کھلونوں کی طرح نظر آ تے تھے۔ آصف جب بھی حمزہ سے ملنے جاتا وہ اس نظارے کو دیکھ کر بہت محظوظ ہوتا، اور اکثر وہاں سے اپنے گھر کو دیکھنے کی کوشش کرتا جو کہ کافی نیچے والی وادی کے گاؤں میں تھا۔ نوجوان لڑکا اس بات پر بہت متعجب ہوتا کہ چیزیں نیچے وادی میں کتنی چھوٹی اور کتنی دور نظر آتی تھیں۔

آصف کے والد احمد کے پاس بکریوں کا ایک چھوٹا سا گلہّ تھا جنہیں وہ روزانہ صبح سویرے چرانے کے لئے گاؤں سے باہر لے جاتے تھے۔ آصف کے چھوٹے سے گاؤں میں کوئی سکول نہ تھا اس لئے اکثر وہ اپنے والد کے ساتھ باہر چلا جاتا تھا۔ آصف کی والدہ ہمیشہ ان دونوں کے دوپہر کے کھانے کے لئے گوشت کا سالن، چپاتیاں، اور پراٹھے بنا دیتیں، اور ساتھ میں بہت سی مزیدار لسیّ پینے کے لئے دے دیتیں۔ اور وہ یہ سب سامان ایک بڑے سے چوکور مضبوط کپڑے میں گٹھڑی کی طرح باندھ دیتیں جسے آصف اپنے ساتھ حفاظت سے لے کر چلتا، اور جب تک کہ کھانے کا وقت نہ ہو جاتا اس کی دیکھ بھال کرتا۔

 آصف بہت چست لڑکا تھا، وہ تمام دن بکریوں کے پیچھے بھاگتا پھرتا اور ان کی خوب جانچ پڑتال کرتا رہتا۔ اس کا باپ بہت خوش تھا کہ جب وہ بڑا ہو جائے گا تو یہ تربیت آصف کو ایک بہت اچھا چرواہا بنا دے گی۔

دوپہر کے وقت آصف اور اس کے والد کسی درخت کی چھاؤں تلے ایک دستر خواں بچھا دیتے اور اس پر کھانے کا سامان لگا کر کھانا کھانے بیٹھ جاتے۔ نوجوان لڑکا ہمیشہ اپنا پراٹھا مزے لے کر کھاتا اور شوق سے لسیّ پیتا۔ کھانا کھاتے وقت دونوں باپ بیٹا بکریوں پر بھی نظر رکھتے تا کہ ان میں سے کوئی اپنے گلے ّ سے باہر نکل کر کہیں دور نہ چلی جائے۔

وہ دونوں ہمیشہ بکریوں کے ساتھ سورج غروب ہونے سے پہلے گھر آ جاتے کیوں کہ گاؤں میں بجلی نہیں تھی اور رات ہو جانے سے پہلے انہیں رات کا کھانا بھی کھانا ہوتا تھا۔ آصف کھانے کے بعد جلد ہی سو جاتا تھا کیوں کہ اندھیرے میں وہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اسے صبح سویرے اٹھ کر بکریوں کو باہر لے جانے سے پہلے ان کا دودھ بھی دوہنا پڑتا تھا۔

آصف اس موسم میں بہت خوش ہوتا جب کہ بکریاں اور بھیڑ یں بچے ّ دیتیں۔ نوجوان لڑکا بکریوں اور بھیڑوں کے میمنوں کو بہت چاہتا تھا، اور سارا دن ان کو اپنی بغل میں دبائے بھاگا پھرتا اور ساتھ ہی ان کی آوازوں کی نقل کرتا رہتا ’’ مے، مے، مے، مے، مے‘‘۔

ان دنوں حمزہ بھی اکثر اونچے پہاڑی علاقے سے آصف کو ملنے آ جاتا، پھر کیا تھا! اب دونوں لڑکے بکریوں کے میمنوں کو لئے پھرتے، اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر کھانا رکھ کر انہیں کھلاتے اور جب بھی موسم بہت ٹھنڈا ہو جاتا تو وہ خود کو گرم رکھنے کے لئے بھی ان میمنوں کو اپنے قریب دبائے رکھتے۔

جب آصف کچھ اور بڑا ہوا تو اس کے والد نے اسے بکریوں کے گلے ّ کی دیکھ بھال کی پوری ذمہ داری سونپ دی۔ حمزہ بھی اکثر آصف کے ساتھ مل جاتا، اور دونوں لڑکے صبح سویرے بکریوں کا دودھ دوہنے کے لئے اٹھ جاتے اور پھر اس گلے ّ کو گاؤں سے باہر چرنے کے لئے لے جاتے۔ یہ دونوں کے لئے ایک طرح کا معمول بن گیا تھا، اور آہستہ آہستہ اسی طرح دن رات گزرتے گئے۔

پھر ایک اندھیری رات میں ایک بھیڑیے نے ایک اور کسان جو کہ قریب ہی رہتا تھا اس کی بکریوں اور مرغیوں پر حملہ کر دیا۔ اس وجہ سے گاؤں میں دہشت پھیل گئی۔ سب کی رائے سے فیصلہ کیا گیا کہ روزانہ رات کے وقت گاؤں کے دو آدمی نگہبانی کے لئے مقر رّ کیے جائیں جو کہ بھیڑیے کو مار دیں اگر اس نے پھر حملہ کیا۔ پھر بھیڑیے نے واقعی دوبارہ حملہ کیا، مگر اس دفعہ ان نگہبان آدمیوں نے اس وحشی پر گولی چلا کر اسے مار دیا۔ اور پھر گاؤں میں جلد ہی دوبارہ سکون اور آسودگی کا ماحول واپس آ گیا۔

کچھ عرصہ گذر گیا، پھر ایک دن دونوں لڑکے چراگاہ میں ایک چٹان پر بیٹھے بکریوں کی نگہبانی کر رہے تھے جو کہ تازہ گھاس چبا رہی تھیں۔ حمزہ نے آصف سے کہا، ’’ بکریاں تومزے سے گھاس چر رہی ہیں مگر ہم ہمیشہ بور ہوتے رہتے ہیں، یہ انصاف نہیں ہے ‘‘۔  آصف نے تھوڑی دیر غور کیا پھر جواب دیا، ’’پھر ہمیں کوئی ہوشیاری اور دلچسپی کا کام کرنا چاہیے۔ سوچو ہم کیا کریں‘‘؟

شیطان حمزہ نے ایک کان سے دوسرے کان تک دانت دکھاتے ہوئے اور منہ بناتے ہوئے کہا، ’’ہمیں گاؤں کے لوگوں کو بیوقوف بنانے کے لئے کچھ کرنا چاہیئے ‘‘۔

’’ ہم یہ کیسے کریں گے؟‘‘ آصف نے پوچھا

حمزہ نے آصف کو اس رات کے بارے میں یاد دلایا، کہ کس طرح بھیڑیے نے مرغیوں اور بکریوں پر حملہ کیا تھا اور کس طرح دو نگہبان مردوں کو ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ گاؤں کی بندوقوں سے حفاظت کریں۔ ’’ بھیڑیے نے پھر حملہ کیا تو ان مردوں نے اسے مار دیا! حمزہ نے بڑے جوش سے کہا، اور پھر ہر چیز دوبارہ پر سکون اور بور کرنے والی ہو گئی‘‘۔

آصف کو یاد آیا کہ واقعی وہی ایک بات بہت دلچسپ تھی جو کہ گاؤں میں ایک عرصے کے بعد ہوئی تھی۔

’’ تمہیں معلوم ہے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟‘‘ حمزہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ’’ اگر ہم خوب چیخیں، چلائیں اور کہیں بھیڑیا پھر حملہ کر رہا ہے، بچاؤ! بچاؤ! تب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح گاؤں کے لوگ ہمیں بچانے کے لئے بھاگے ہوئے آئیں گے ‘‘۔

’’ مگر جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے ‘‘۔ آصف نے کہا جو کہ اپنے شریر کزن کے منصوبے کے بارے میں زیادہ یقین نہیں رکھتا تھا۔

’’ یہ تو صرف مذاق ہے۔‘‘ حمزہ نے اصرار کر کے کہا۔ ’’کیا تم ان کے پریشان چہرے نہیں دیکھنا چاہتے جب وہ ہمیں بچانے کے لئے بھاگے ہوئے آئیں گے؟ یہ کتنی اچھی دل لگی ہو گی‘‘۔

’’ اور جب ان کو یہ معلوم ہو گا کہ یہاں کوئی بھیڑیا نہیں ہے، اور پھر ہمیں ان پر ہنستے ہوئے دیکھیں گے تو وہ ہم سے سخت ناراض ہو جائیں گے ‘‘۔ آصف نے کہا۔ لیکن یہ کہتے ہوئے بھی آصف کو اعتراف کرنا پڑا، کہ جیسے ہی گاؤں کے لوگ چراگاہ میں بھاگے ہوئے آئیں گے ان کے چہروں پر پریشانی کے آثار دیکھنا واقعی بہت ہی مذاقیہ بات ہو گی۔ اسے یہ بھی اعتراف کرنا پڑا کہ بکریوں کو تمام دن گھاس چرتے دیکھنا بھی بہت ہی بور کرتا ہے۔

’’ اچھا ‘‘ اس نے آخر کار کہا، ’’ہم یہ سب کچھ کس طرح کریں گے؟‘‘

پھر حمزہ نے اپنا منصوبہ بیان کیا، اور دونوں لڑکے گاؤں کے بے اندیشہ لوگوں کا خیال کر کے خود بخود ہنستے ہوئے اپنے ہاتھ خوشی سے ملنے لگے۔

دوسرے دن بکریوں کا دودھ دوہنے کے بعد دونوں لڑکے بکریوں کے گلے ّ کو چراگاہ میں چرانے لے گئے۔ پھر اپنا مزیدار کھانا کھانے کے بعد جو کہ آصف کی والدہ نے اچھی طرح باندھ کر دیا تھا، انہوں نے اپنا شرارتی منصوبہ پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔

حمزہ ایک پہاڑی کے پیچھے چھپ گیا جب کہ آصف گاؤں کی طرف بہت اونچی آواز میں شور کرتا ہوا بھاگا۔ ’’ بچاؤ! بچاؤ! بھیڑیا حمزہ پر حملہ کر رہا ہے۔۔ ۔ ہم پر مہربانی کیجئے۔۔ ۔ ہماری مدد کیجئے۔۔ ۔ بچائیے!  بچائیے!‘‘

جیسے ہی گاؤں کے لوگوں نے آصف کی چیخ و پکار سنی، انہوں نے ڈنڈے اور کلہاڑیاں اٹھائیں اور چراگاہ کی طرف بھاگے۔ ’’بھیڑیا کہاں ہے؟‘‘ ایک آدمی نے پوچھا۔ ’’اس نے حمزہ پر کیسے حملہ کیا؟‘‘ دوسرے نے پوچھا۔ ’’ کیا بھیڑیا اسے گھسیٹ کر لے گیا ہے، جیسا کہ اس نے میری بکریوں اور مرغیوں کے ساتھ کیا تھا؟ ہمیں بتاؤ حمزہ کہاں ہے؟ ‘‘۔

گاؤں والے ہر طرف تلاش کرنے کے بعد زخمی لڑکے کو نہ پا کر بہت زیادہ پریشان ہو گئے۔

عین اس وقت حمزہ اپنی چھپنے کی جگہ میں سے کود کر باہر آ گیا۔ ’’ خوش آ مدید! یہاں آ نے کا شکریہ‘‘۔ نڈر لڑکے نے دانت نکال کر اپنے چہرے پر ہنسی لاتے ہوئے کہا۔ ’’مگر یہاں پر تو کوئی بھیڑیا نہیں ہے۔ جب میں نے اس کو بتایا کہ گاؤں والے اسے مارنے آ رہے ہیں تو وہ ڈر کر بھاگ گیا ‘‘۔ پھر حمزہ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو کر زمیں پر گر گیا۔

جب آصف نے گاؤں والوں کے چہروں پر پریشانی اور گھبراہٹ کے آ ثار دیکھے تو وہ بھی ہنستے ہنستے گھاس پر گر کر لوٹ پوٹ ہونے لگا۔ گاؤں والے لڑکوں کے ساتھ سخت ناراض ہوئے۔ اور جب وہ چراگاہ سے واپس جا رہے تھے انہوں نے عہد کیا کہ وہ آصف کے باپ کو اس کے بیٹے کی اس خبیث حرکت کے بارے میں بتائیں گے۔

جب احمد کو اس بات کا علم ہوا جو کچھ کہ اس کے بیٹے نے کیا تھا، تو وہ واقعی سخت نا امید ہوا۔ وہ دونوں لڑکوں کو گھسیٹ کر گاؤں والوں کے ہجوم کے سامنے لے آ یا اور دونوں سے ان کی اس پوشیدہ شرارتی حرکت کے لئے گاؤں والوں سے معافی منگوائی، اور عہد لیا کہ آئندہ کبھی بھی وہ اس قسم کی حرکت نہیں کریں گے۔

کچھ مہینے گذر گئے اور زندگی دوبارہ معمول کے مطابق گزرنے لگی۔ لیکن پھر ایک دن جب حمزہ اور آ صف چراگاہ میں بکریاں چرا رہے تھے تو ایک خوفناک بھیڑیا ایک پہاڑی کے پیچھے سے آ نکلا، اور اس نے ایک بکری کو گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کی۔ حمزہ فوراً کھڑا ہو گیا اور بھیڑیے کو ڈرانے کے لئے اس کے پیچھے بھا گا، لیکن خوفناک بھیڑیے نے بکری کو تو چھوڑ دیا اور اس کے بدلے حمزہ کی ٹانگ کو منہ میں پکڑ لیا۔ آصف اپنے دوست کو بھیڑیے کے گھسیٹ کر لے جاتے ہوئے دیکھ کر بہت خوف زدہ ہو گیا، اور فوراً گاؤں کی طرف چیختا ہوا بھاگا۔ ’’ گاؤں کے مہربان لوگو، مہربانی سے جلدی آیئے، بھیڑیا حمزہ کو گھسیٹ کر لے جا رہا ہے۔۔ ۔ اسے بچائیے۔۔ ۔ مہربانی کیجئے۔۔ ہماری مدد کیجئے۔۔ ۔ بچائیے! بچائیے!‘‘

گاؤں والوں میں سے ایک نے کہا۔ ’’ ہم دوبارہ الوّ نہیں بنیں گے۔ جاؤ اپنی بکریوں کے پاس ‘‘۔

’’ مہربانی کیجئے ‘‘۔۔ ۔ آصف رویا۔ ’’ میں سچ کہ رہا ہوں، حمزہ کو بچائیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے!‘‘

ایک مہربان آ دمی نے چراگاہ کے آس پاس جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا، اور اس نے وہاں سے حمزہ کو دیکھا کہ اس کی ٹانگ بھیڑیے کے مضبوط جبڑوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ ’’ آصف سچ کہہ رہا ہے ‘‘۔ وہ چلایا، ’’ جلدی آیئے، اور فوراً مدد کیجئے ‘‘۔

گاؤں والوں نے اپنی لاٹھیاں اور کلہاڑیاں سنبھالیں اور بیچارے حمزہ کی مدد کو دوڑے۔ اور جب بھیڑیئے نے لوگوں کے اس بڑے ہجوم کو اپنی طرف بھاگتے ہوئے دیکھا تو اس نے لڑکے کی ٹانگ کو چھوڑ دیا اور جنگل کی طرف غائب ہو گیا۔

دو لوگوں نے حمزہ کو اس کے کندھوں سے پکڑ کر اٹھایا اور اسے لے کر گاؤں واپس آئے۔ لڑکے کی ٹانگ بری طرح زخمی ہو گئی تھی، اور وہ بہت درد محسوس کر رہا تھا، آصف کی آنکھوں میں آ نسو تھے۔ اس نے گاؤں والوں سے پوچھا ’’ آپ لوگ جلدی مدد کے لئے کیوں نہ آئے؟ ‘‘۔

’’آپ نے میرا یقین کیوں نہیں کیا تھا؟‘‘

ایک عورت آ گے بڑھی ’’ تم نے ہم سے پہلے بھی جھوٹ بولا تھا ‘‘۔ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’ اسی وجہ سے ہم نے تمہارا یقین نہیں کیا۔ کیا اب تم یہ دیکھ نہیں رہے ہو کہ جھوٹ بولنا کتنا غلط ہے؟ تمہیں کبھی بھی اس طرح کی حرکت نہیں کرنی چاہیئے کیوں کہ اس سے بے اعتمادی پیدا ہوتی ہے ‘‘۔

آصف نے اپنے زخمی کزن کی طرف دیکھا اور گاؤں والوں کی طرف بھی، جنہوں نے لڑکے کو بھیڑیے سے بچایا تھا، اور وہ سمجھ گیا کہ اب وہ پھر کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا۔

٭٭٭

ماخذ:

http://worldstories.org.uk

اصلاح، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

OOOOOO

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید