ایک سفر نامہ
سفر نامہ بھارت
از قلم
حسن عبّاسی
جمع و ترتیب
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
سفر نامہ بھارت
حسن عبّاسی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
گرمی اس کے ہاتھوں کی
آج کیمپ میں ہمارا آخری دن تھا۔ صبح پو پھوٹنے سے پہلے اس کہکشاں نے بکھر جانا تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے سب نے دِل ہی دِل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ آج کے دن کو یادگار بنا دیں گے۔
ستیہ جی کے حُکم کے مطابق تمام شرکاء نے سب سے پہلے گُردوارے جانا تھا۔ اس کے لئے اُنھوں نے علی الصبح ٹریکٹر ٹرالیاں منگوا لی تھیں۔
ٹریکٹر ٹرالیاں؟؟؟
ایک تو شرکاء کی اتنی بڑی تعداد کے لئے گاڑیوں کا انتظام کرنا مشکل تھا دوسرا راستہ کچا تھا اس لئے ٹریکٹر ٹرالی سے بہتر آپشن اور کیا ہو سکتا تھا۔
مردانہ اور زنانہ ٹرالیاں علیٰحدہ نہ تھیں۔ اس لئے اس سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے سب ہی بخوشی رضا مند ہو گئے۔ سب ہنسی خوشی سوار ہونے لگے۔ پرساد اپنی اسٹوڈنٹس کے ساتھ ٹرالی میں بیٹھا تھا۔ اُس نے مجھے دیکھا تو فوراً بُلا لیا۔ اُس نے ڈفلی ہاتھ میں تھامی ہوئی تھی۔
راستہ بھر گانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔
قافلہ اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا تو ہر ٹرالی سے گانوں کی آوازیں آنے لگیں۔ گانے بجانے کا انتظام سب نے ہی کیا ہوا تھا۔ لڑکے لڑکیاں مِل کے گا رہے تھے۔ اُنھوں نے ٹولیاں بنا لی تھیں۔
راستہ بہت خراب تھا۔
اتنے دھکّے لگے کہ سب ’’فاصلے ختم ہو گئے‘‘۔
سامنے گُردوارہ دیکھ کر جان میں جان آئی۔ نیچے اُترے تو پتہ چلا صرف پسلیاں ہی نہیں دِل بھی اپنی جگہ سے ہِلے ہوئے ہیں۔
گردوارے سے باہر بہت سے بتوں نے ہمارا استقبال کیا۔
یہ پتھر کے بنے ہوئے مجسمے ہیں جو ہندوستانی حکومت کی ریشہ دوانیوں کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان مجسموں کے ذریعے سکھوں پر مسلمانوں کے مظالم کو Capture کیا گیا ہے۔
کہیں مسلمان بادشاہ کے حُکم پر ننھے سِکھ گرو کی مسلمان سپاہی کھوپڑی اُتار رہے ہیں۔
کہیں سِکھوں کے سر قلم کیے جا رہے ہیں۔
یہ سب مناظر بہت دِل دِہلانے والے تھے اور میں ان کو دیکھ کر اس سوچ میں گُم تھا کہ آخر ان سب کا مقصد کیا ہے۔ اور ہمیں یہاں کیوں لایا گیا ہے؟
کہیں اس کے پیچھے ہندو ذہنیت تو کار فرما نہیں؟
میرے خدشات بڑھتے جا رہے تھے۔
تقسیم کے وقت ہندوؤں نے جس چالاکی اور مکاری سے مسلمانوں اور سکھوں کو آپس میں لڑایا تھا یہ مجسمے بھی اُسی سوچ کی ایک کڑی تھے۔ ان کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا تھا کہ مسلمان اور سکھ کبھی ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں۔
مجھے حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ سکھوں نے گفتگو کے دوران بارہا اس دُکھ کا اظہار کیا تھا کہ تقسیم کے وقت ہندوؤں کی سازش کی وجہ سے ہم نے مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جس پر ہمارے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں اگر وہ ہندو سازش کو سمجھ چُکے تھے تو اُنھوں نے ابھی تک یہ نفرت کی یادگاریں گِرائی کیوں نہی تھیں۔ اگر ہم بھی جواباً ننکانہ صاحب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ظلم و بربریت کی یادگاریں تعمیر کر دیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔
مجھے یہاں آ کر بہت دُکھ ہوا تھا۔ مَیں ہی نہیں سب اس پر معترض تھے۔ ستیہ جی سمیت کسی کے پاس ہمارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
گُردوارے میں داخل ہونے سے پہلے بہتے ہوئے پانی سے گذرنا تھا تاکہ پاؤں خود بخود دھل جائیں۔
مجھے تنہا پانی میں اُترنا اچھا نہیں لگتا چاہے وہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ جب تک کوئی میرا ہاتھ نہ تھام لے میں پانی میں پاؤں نہیں رکھ سکتا۔ میں نے جوتے اُتار کر اِدھر اُدھر دیکھا تو دور سے پنکی سائیکہ آتی دکھائی دیں۔ وہ سفید ساڑھی میں ملبوس کسی پری کی طرح لگ رہی تھیں۔
سانولی پری!
وہ قریب آئی تو اُس نے اپنا ہاتھ خود بخود آگے بڑھا دیا شاید اُسے بھی پانی سے ڈر لگتا تھا۔ اُس نے میرا ہاتھ تھام لیا مگر اتنی آہستگی سے شاید جتنی آہستگی سے پانی بہہ رہا تھا۔
پانی میں پاؤں رکھا تو اتنا ٹھنڈا کہ پنکی کے ہاتھوں کی گرمی کا احساس ہونے لگا مجھے رسا صاحب کے شعر یاد آ رہے تھے۔
گرمی اُس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
پہلی آندھی موسم کی
پہلا سال جوانی کا
ہماری جوانیوں کا پہلا سال نہ تھا اس لئے ہم نے پانی سے باہر پاؤں رکھتے ہی ہاتھ چھُڑا لیے اور گردوارے کے صحن میں چلنے لگے۔ میں نے ٹھنڈے فرش پر چلتے ہوئے گردوارے کی طرف دیکھا تو دیکھتا ہی چلا گیا۔ عمارت بہت منقش اور دیدہ زیب تھی جیسا کہ ہمارے ہاں صوفیاء کے مزار ہوتے ہیں۔ اُس میں بالکل ویسی اپنائیت تھی۔
جگہیں بھی انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔
کچھ جگہیں ایسی ہوتی ہیں جن کے پاس آ کر خوشی ہوتی ہے۔ اُنھیں دیکھ کر آنکھوں کو ٹھنڈک اور دِل کو قرار مِلتا ہے۔
جیسے برسوں پُرانا کوئی بچھڑا دوست مِل گیا ہو۔
کمرے، دیواریں، دروازے اور صحن اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ خموشی کلام کرتی ہے۔ ہوائیں گیت گاتی ہیں۔ پیڑ جھومتے ہیں اور پتے تالیاں بجاتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں خواجہ غلام فرید کے مزار پر پہلی بار گیا تھا تو یوں لگا تھا جیسے میں کسی غمخوار اور ہمدرد دوست کی بانہوں میں آ گیا ہوں۔ وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ کُچھ دِل ہی جانتا ہے کہ میں کس دِل سے واپس آیا تھا۔
گُردوارے کے در و دیوار بھی مہربان دوست کی طرح لگ رہے تھے۔ میں دیوار سے لگ کر کافی دیر بیٹھا رہا۔
گُردوارے کے اندر بڑی بڑی پینٹنگز بنی ہوئی تھیں۔ جس میں سکھ قوم کی بہادری اور دلیری دکھائی گئی تھی۔
کُچھ سکھ گرنتھ پڑھتے ہوئے اپنے اردگرد سے بالکل بے خبر تھے۔ ٹرالی میں جتنے دھکے لگے تھے اُتنی شدّت کے ساتھ بھوک بھی لگ رہی تھی۔ یہاں لنگر کا انتظام ہر وقت ہوتا ہے۔
دھکم پیل اور افراتفری کے بغیر۔
بڑا سا ہال کمرہ اور اُس میں چونے کی لکیریں۔
برتن اُٹھائیں۔
ہاتھ دھوئیں۔
اور لکیر پر لائن میں بیٹھ جائیں۔
خدمتگار آئیں گے اور پرشاد ڈال دیں گے۔
سکون سے پیو، اطمینان سے کھاؤ۔
مگر جاتے جاتے برتن دھو کر رکھ جاؤ۔
آنے والوں کو پریشانی نہ ہو۔
یہاں وقت بتانے کے لئے کچھ خاص نہ تھا پھر بھی دن مزے سے گذر گیا۔
’’گرو جی کی کرامت تھی کیا؟‘‘
شام کے سائے ڈھلنے لگے تھے۔
پرندوں کی طرح ہم بھی واپسی کی اُڑان بھر رہے تھے۔
وہی گانے، وہی تالیاں وہی ہلہ گلہ وہی موج مستی۔
اس بار بھی ٹرالی میں دھکّوں سے فاصلے ختم ہوتے گئے۔
اندھیرا اور گہرا ہوتا گیا۔
اے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں اندھیرے سے جب وہ چھا جائے۔
واپسی کا راستہ اس قدر جلدی طے ہو گیا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔ میں اس راز کو آج تک سمجھ نہیں پایا۔
میں جب بھی کسی اجنبی راستے پر جاتا ہوں چاہے راستہ مختصر اور سفر خوبصورت ہو جاتے ہوئے وقت کا احساس تو ہوتا ہے مگر آتے ہوئے نہیں۔
شاید واپسی کا راستہ جلد طے ہوتا ہے۔
بچپن سے جوانی تک آنے کا احساس ہوتا ہے۔ جوانی سے کب بڑھاپے میں انسان چلا جاتا ہے اس کا احساس نہیں ہوتا۔
ڈھوڈیکے میں آج آخری شام تھی۔
مگر اتنی جوان کہ جواں دِل اور جواں ہو گئے تھے۔
آج کی شام۔
کوئی طے شدہ پروگرام نہ تھا۔
میوزیکل نائٹ تھی۔ لائٹس جل بجھ رہی تھیں۔
صرف اور صرف بھنگڑا پروگرام تھا۔
آج سب کی باری تھی۔ لہٰذا سب لوگ، سب کچھ بھول کے اس لمحے میں جی رہے تھے جس میں صرف مستی تھی۔ دیوانگی تھی اور نشہ تھا۔
مہتہ اور میں اس بار بھی دور سے بیٹھ کر یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔ شاید اُسے بھی میری طرح دیکھنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔ مہتہ کا پہلا اور آخری شوق تصویریں کھینچنا تھا۔ وہ لگاتار تصویریں بنائے جا رہا تھا۔
اُدھر اسٹیج پر اب ایک نیا کھیل شروع ہو چُکا تھا۔
لڑکے لڑکیوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے تھے۔
میوزک بھی فاسٹ ہو گیا تھا۔
لٹو کی طرح گھومتے ہوئے ایک دوسرے کو گرانا تھا۔
ہاتھ میں ہاتھ باہمی رضا مندی سے آئے تھے اور اس کے پیچھے گذشتہ سات دن کی رفاقت کار فرما تھی۔ ناکام عاشق ایک طرف منہ لٹکائے حسرت و یاس کی تصویر بنے دیکھ رہے تھے۔
مہتہ نے کیمرہ میری طرف فوکس کر کے ایک تصویر بنا لی شاید وہ مجھے بھی ناکام عاشق سمجھ رہا تھا اس لئے میرے چہرے کے تاثرات کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کر لئے تھے۔
گھمانے اور گرانے والا کھیل بہت دلچسپ تھا۔ سب کا ہی ہنس ہنس کے بُرا حال ہو رہا تھا۔ لڑکے لڑکیوں کی نسبت زیادہ گر رہے تھے۔ یا تو جان بوجھ کر وہ ایسا کر رہے تھے یا پھر اُن کو چڑھی ہوئی تھی۔ مہتہ نے میری ایک اور تصویر بناتے ہوئے کہا:
’’کلچر وطن اور مذہب سے بھی زیادہ مضبوط بندھن ہے‘‘۔ دبئی میں پاکستانیوں کی عربوں کی نسبت انڈین سے زیادہ دوستیاں ہیں۔ بلکہ دُنیا کے کسی ملک میں رہتے ہوئے ایک کلچر کے لوگ جلدی ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں۔‘‘
میں نے ایک بار پھر سب کو موج مستی میں دیکھا تو مہتہ کی بات میں صداقت نظر آئی۔
پھر اچانک پلّاوی آ گئی اور اُس نے آتے ہی مہتہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
’’آؤ نہ بھیّا بڑا مزہ آئے گا‘‘۔
پتہ نہیں مہتہ کے من میں کیا تھا اُس نے کہا:
’’حسن کو لے جاؤ‘‘۔
پلّاوی نے پہلی بار میری طرف ہاتھ بڑھایا اور اپنے مخصوص انداز میں مُسکراتے ہوئے کہا:
’’Come, Come‘‘
میں پلّاوی کو دور سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اُس سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتا تھا مگر اُس کا ہاتھ پکڑنا اور پھر اسٹیج پر جانا مجھے منظور نہیں تھا۔ یوں لگ رہا تھا کوئی چھوٹی خوشی مجھے بہت بڑا دُکھ دینے والی ہے میں ڈر گیا۔ میرے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔
میں نے بہت انکار کیا مگر
پلّاوی کا اصرار زیادہ خوبصورت تھا۔
مہتہ نے بھی اتنی بار کہا کہ میرا انکار خموشی میں بدل گیا۔
وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ کھینچ لے گئی۔
مانگ لیتا ہے دِل و جان وہ ہنستے ہنستے
اور مرے پاس بہانہ بھی نہیں ہوتا ہے
میرے پاس کوئی عذر کوئی بہانہ نہ تھا۔
ہم بھی اب اوروں کی طرح ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر گھوم رہے تھے۔ میوزک اب پہلے سے بھی زیادہ فاسٹ ہو گیا تھا یا شاید مجھے ایسا لگ رہا تھا۔
ہاتھ چھڑانے کا واحد راستہ یہ تھا کہ میں پلّاوی کو گرا دوں۔ میں جلد از جلد اُس سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتا تھا۔ مجھے بہت اذیت ہو رہی تھی۔ میں نے پلّاوی کو گرانے کی پوری کوشش کی مگر وہ جتنی نازک اندام نظر آتی تھی اُس سے کہیں زیادہ مضبوط نکلی۔
سب ہی لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں۔ شکل سے جتنی معصوم اور بھولی بھالی لگتی ہیں اندر سے اُتنی چالاک اور تیز ہوتی ہیں۔ کیسے کیسے زندہ آدمیوں کو مار کے رکھ دیتی ہیں۔ وہ جتنی نازک اور کمزور نظر آتی ہیں اُس سے کہیں زیادہ مضبوط اور حوصلہ مند ہوتی ہیں۔
اچانک پلّاوی نے اپنا ہاتھ چھُڑا لیا اور میں اسٹیج پر گرتا چلا گیا۔
میری بد حواسی اور چہرے کے تاثرات دیکھ کر اُس کا ہنس ہنس کے بُرا حال ہو رہا تھا۔ مجھے بھی چکر آ رہے تھے زمین آسمان گھومتے دکھائی دے رہے تھے۔
سب آوازیں کہیں گُم ہو گئی تھیں۔ کائنات میں صرف اور صرف پلّاوی کے قہقہے گونج رہے تھے۔
اس میدان میں بن پئے گرنے والا شاید میں پہلا مردِ میدان تھا۔
خوبصورت لمحوں میں ایک خرابی ہے۔
پلک جھپکتے ہی گذر جاتے ہیں۔
پھر ہم عمر بھر اُن کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں وہ ہاتھ نہیں آتے۔
یہ رات بھی ایسے ہی گذر گئی۔
صبح ہوئی تو آنکھوں میں رات کا خمار ابھی باقی تھا۔
دِل میں خوبصورت یادوں کی جھالریں ابھی تک لہرا رہی تھیں۔
بچھڑنے کی گھڑی سر پر آن پہنچی ہے۔
یہ سوچتے ہی دِل بجھ سا گیا۔
آج یہاں کے ایک ایک منظر کو میں آنکھوں میں محفوظ کر لینا چاہتا تھا بالکل مہتہ کے کیمرے کی طرح۔
فوٹوگرافر تصویریں لے کر آ گیا۔ یہ گاؤں کا فوٹو گرافر تھا۔ دن بھر اور رات گئے تک تقریبات کی تصویریں بناتا اور اگلے دن لے آتا۔ دیکھنے والوں کا جمگھٹا لگ جاتا ہر کوئی اپنی تصویر رقم دے کر لے لیتا۔ اکثر تصویروں پر کشمکش بھی ہوتی، بات زیادہ بڑھتی تو وہ ایک اور پرنٹ کا وعدہ کر کے ایک فریق کو مطمئن کر دیتا۔
مگر آج آخری دن تھا اور اُس کے وعدوں سے کوئی مطمئن ہونے والا نہ تھا۔ اوروں کے ساتھ میں بھی تصویریں دیکھنے میں مشغول تھا۔ میں جانتا تھا میری تصویر ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پھر بھی میں ایک ایک تصویر کو دیکھ رہا تھا۔
پھر ایک تصویر نے مجھے چونکا دیا۔ فوٹو گرافر نے اُن لمحوں کو قید کر لیا جب میں گِرا ہوا تھا اور پلّاوی ہنس رہی تھی۔
میرے ہاتھ بڑھانے سے پہلے وہ تصویر کسی لڑکی نے اُچک لی۔ میرے مانگنے پر اُس نے صاف انکار کر دیا۔
میں نے اُسے سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ یہ میرے لیے بہت اہم ہے۔
مگر اُس کی ضد تھی کہ یہ میری دوست پلّاوی کی تصویر ہے اور میں کسی صورت نہیں دوں گی میں نے خود کو بے بس محسوس کیا تو غصے میں اُس سے کہا:
’’تم اور بنوا لو اُس کے ساتھ‘‘۔
اُس نے بے نیازی سے کہا:
’’وہ تو جا چکی ہے‘‘۔
یہ سُن کر میں سب کُچھ بھول گیا یہ بھی کہ وہ تصویر میرے لئے کتنی اہم تھی۔ میں کچھ دیر تک بے سبب اسکول کے صحن، برآمدے میں پھرتا رہا۔ سب شرکاء سامان اُٹھا اُٹھا کر اپنی اپنی گاڑیوں میں رکھ رہے تھے۔ سب کُچھ خواب سا لگ رہا تھا۔
دنیا خالی خالی سی ہو گئی تھی۔
کچھ شرکاء گلے ملتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کے رو رہے تھے۔
میری آنکھیں اشکوں سے خالی تھیں۔
میں تھکے تھکے قدموں سے کمرے کی طرف لوٹ آیا اور سامان پیک کرنے لگا۔ سامان کیا تھا۔ یادیں ہی یادیں تھیں۔
باہر آیا تو وہی دلخراش منظر تھا۔ بچھڑنے والے ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے۔ پرساد آیا اور مجھ سے لپٹ گیا۔ ہم جانتے تھے کہ اب دوبارہ کبھی نہیں مِل سکیں گے۔ اس لئے وہ جدا ہوا تو میں نے اُسے دوبارہ گلے لگا لیا۔
مجھے بچھڑتے وقت دُعا کرنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔
آنسو پیئے جانا اور دُعا کئے جانا۔
سب سے پہلے میں نے پلّاوی کے لئے دُعا کی یہ فطری بات ہے جو زیادہ قریب ہو پہلے دِل اُس کے لئے دُعا کرتا ہے۔ میں نے دُعا کی کہ پلّاوی کو اُس کی محبت مِل جائے۔ اور اُس کی معصوم اداؤں کو کسی کی نظر نہ لگے تاکہ کائنات کی خوبصورتی برقرار رہے۔ میں نے دُعا کی کہ مہتہ کا فوٹو گرافی کا شوق فزوں ہو اور اُس کا یہ فن بامِ عروج کو پہنچے۔ میں نے پرساد کے لئے دُعا کی کہ اُس کے اور اُس کی اسٹوڈنٹس کے ہاتھ پاؤں سلامت رہیں۔ وہ تا دیر رقص سے لوگوں کے دلوں کو منورنجن بخشتے رہیں۔ میں نے ایزون کے لئے دُعا کی کہ وہ سنبھل کر چلنا سیکھ لے وہ مجھ پر اتنی بار گری تھی کہ مجھے اُس کے متعلق ڈر لگنے لگا تھا۔ میں نے ایزون کی ہنسی کی سلامتی کی دُعا بھی کی۔ اُس کی ہنسی کے دم سے ہی فضا مترنم رہی۔ دُعا میں اگر پتہ ہو کہ کس کے لئے کیا دُعا کرنی ہے تو پھر دِل مطمئن رہتا ہے۔ دُعا کرنے کا لطف بھی آتا ہے۔ دُعا دِل سے نکلتی ہے اور اثر بھی رکھتی ہے۔
اب ایک شخص کو محبت کی ضرورت ہے اور آپ اُس کے لئے دولت کی دُعا مانگتے رہیں تو میرے خیال میں یہ بد دُعا سے کم نہیں۔
میں نے سب شرکاء، پاکستان اور ہندوستان کی سلامتی کے لئے دُعا مانگی تو مجھے اُس فقیر کی بات یاد آ گئی جو کہہ رہا تھا کُل عالم کی خیر کل عالم کا بھلا کیونکہ اس کُل عالم میں ہم سب بھی ہیں اور میرے ہونٹوں پر بھی بے ساختہ کُل عالم کی خیر کُل عالم کا بھلا کے الفاظ نکلنے لگے۔
اچانک میری نظر پنکی سائیکہ پر پڑی وہ بھاری بریف کیس جو اُس سے اُٹھائے نہ اُٹھتا تھا اُسے اُٹھانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ میں نے اُس کی مدد کر دی تو اُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے شکریہ ادا کرے۔ میں نے پنکی سائیکہ کے لئے بھی دُعا کی کہ وہ یونہی کانوں میں رس گھولتی رہے یونہی کوئل کی طرح بولتی رہے۔ دور سے پرساد دوڑتا ہوا آ رہا تھا وہ بہت خوش لگ رہا تھا۔ اُس نے مجھے آ کر خوشخبری سُنائی کہ ستیہ جی نے کہا ہے کہ شرکاء میں سے جو امرتسر جانا چاہیں چلیں ہم نے ایک دن وہاں قیام کرنا ہے۔ لہٰذا ہم بھی آپ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ مجھے یوں لگا جیسے میری دُعائیں قبول ہو گئی ہوں۔
جو گاڑیاں امرتسر کے لئے منگوائی گئی تھیں اُن میں کِسی بھی گاڑی میں بیٹھنے کی کوئی قید نہ تھی میں پرساد اور اُس کی اسٹوڈنٹس ایک Van میں تھے۔
Van میں بیٹھتے ہی میری ایک بنگالی لڑکی سے بڑے مزے کی تلخ کلامی بھی ہوئی در اصل میں ونڈو سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اُس کا اصرار تھا کہ وہ مجھ سے پہلے یہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ اپنی فرینڈ کو ملنے گئی تھی اس لئے اب اُسے وہاں بیٹھنا ہے۔ میں نے ایسا ظاہر کیا جیسے مجھے اُس کی کسی بات کی کچھ سمجھ ہی نہیں آ رہی لہٰذا بیچاری بے بس ہو کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ سارا رستہ اُس کا مُنہ بنا رہا مجھے اُس کا غصہ اچھا لگا تھا۔ میں نے اُسے غصّے میں ہی رہنے دیا بعض اوقات انسان کتنا خود غرض ہو جاتا ہے اپنی خوشی کے لئے دوسروں کو دُکھ دیتا ہے یا دوسروں کے دکھوں میں اپنی خوشی ڈھونڈ لیتا ہے۔
گاڑیاں اب ڈھوڈھیکے سے امرتسر کے لئے روانہ ہو رہی تھیں۔ سب گاؤں کے لوگ ہاتھ ہِلا ہِلا کر ہمیں الوداع کہہ رہے تھے۔ میں بھی ہاتھ ہلا ہلا کر دِل میں کہنے لگا۔
الوداع ڈھوڈھیکے، الوداع لالہ جی، الوداع حویلی، الوداع برگد کے پیڑ، الوداع پلآوی۔ مجھے یوں لگا جیسے پلاوی کھیتوں میں بنے کچے رستے پر بھاگتی ہوئی آ رہی ہے۔
امرتسر پہنچے تو امرتسر کے کینال ریسٹ ہاؤس میں ہمارا قیام تھا۔ شرکاء کی تعداد زیادہ تھی اس لئے ایک کمرے میں چھ چھ سات سات لوگ گھُس گئے۔ پرساد، منجو، کے وانی، وغیرہ ہم ایک کمرے میں تھے۔ میں خوش قسمت تھا کہ مجھے اچھی کمپنی میسر آ گئی تھی۔ اُنھوں نے مجھ سے جی بھر کے شاعری سُنی اور میں نے اُن سے فرمائش کر کر کے اپنے من پسند گانے سُنے اور پھر گانوں کے ساتھ رقص بھی دیکھا۔
زندگی کا سارا حُسن امرتسر کے کینال گیسٹ ہاؤس کے ایک کمرے میں بند ہو کر رہ گیا تھا۔ جیسے پرانی شراب کسی خوبصورت بوتل میں۔ اُس روز سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والی ایک شخصیت تارا سنگھ سندھو نے ڈنر کے لئے Invite کیا تھا۔ سو شام کو ہم سب تیار ہو کر وہاں پہنچ گئے۔ گاڑیوں سے نیچے اُترتے ہی آتش بازی سے ہمارا سواگت کیا گیا۔ پھول برسائے گئے۔ ڈھول بجائے اور بھنگڑے ڈالے گئے۔ شادی کا سماں تھا۔
محبتیں اتنی کہ سمیٹنا مشکل تھا۔
میزبانوں کی حویلی بہت بڑی، خوبصورت اور کلچرڈ تھی۔
اُن کے دلوں کی طرح۔
جب سب مہمان کرسیوں پر بیٹھ گئے تو میزبان اور اُن کے بھائی تشریف لائے اور اُنھوں نے ایک ایک مہمان کے قدموں کو چھوا اور یہ جملہ ہر بار کہا۔
’’آپ آئے بہار آئی‘‘۔
میں نے کسی میزبان کو مہمانوں کی اتنی عزت افزائی کرتے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اُس کے بعد ڈنر میں کونسا کھانا تھا جو نہیں تھا کونسا مشروب تھا جو پیش نہیں کیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نوکروں کو اجازت نہ تھی وہ خود اور اُن کے گھر والے خدمتگار تھے۔
سردار جی نے مہمانوں اور خاص کر مسلمانوں کو جی بھر کے گوشت کھانے کی درخواست کی اور ساتھ کھڑے ہوئے انڈین مسلم کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ہم نے خاص طور پر ان سے مُرغیاں اور بکرے ذبح کرائے ہیں تاکہ آپ حلال گوشت کے بارے میں شک و شبہ میں نہ رہیں۔
اُس کا یہ کہنا تھا کہ پاکستانی جو کئی دن سے سبزیاں اور دالیں کھا کھا کر کمزور ہو گئے تھے۔ گوشت کی ڈشوں پر ٹوٹ پڑے ان میں زیادہ تر گوجرانوالہ، لاہور اور فیصل آباد کے تھے اس لئے میزبان صاحب کی توقعات پر پورے اُترے۔
کھانے کے بعد دارو ہی دارو اُوپر نیچے دائیں بائیں ہر طرف دارو ہی دارو، سب کے ہاتھ میں دارو، سب کی آنکھوں میں دارو، سب کی باتوں میں دارو، پینے والے پی رہے تھے، اور دیکھنے والے بس دیکھ رہے تھے ان میں کُچھ سکھ بھی شامل تھے۔ دارو جن کی فطرت سے میل نہ کھاتا تھا۔ یہ بھی فطری معاملہ لگتا ہے۔ مجھے بھی کافی سِکھوں نے منت سماجت کی مگر میں مضبوط رہا پھر ایک لڑکی میرے لئے دارو لے کر آئی اور کافی اصرار کیا تو میں نے اُس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا مجھے تو چڑھ بھی گئی۔
میری اس بات سے وہ سمجھ گئی کہ میں تو ’’مومن بندہ‘‘ ہوں۔
شرمائی اور چلی گئی۔
رات بہت بیت گئی تو ایک حیران کُن منظر دیکھنے کو ملا۔ جب ہمارے میزبان سردار جی نے اعلان کیا۔
’’کہ آج تک ہماری بہو بیٹیوں نے اس طرح مہمانوں کے سامنے کبھی ڈانس نہیں کیا مگر آج ہم سب اتنے خوش ہیں کہ آپ سب کی آمد کی خوشی میں مِل کر بھنگڑے ڈالیں گے۔‘‘
پھر میوزک تھا۔
سکھنیاں تھیں۔
سکھ تھے۔
اور بھنگڑے تھے۔
بعد میں مہمان بھی اُن کے ساتھ شامل ہو گئے۔
کچھ صحافی بھی اس دعوت میں چپکے سے شریک ہو گئے۔
اور اگلے دن اس واقعے کو اخبارات میں خوب اُچھالا گیا۔
پتہ نہیں میزبان صاحب کا کیا بنا؟
٭٭٭
عجیب دُشمن تھے
میں نے امرتسر سے جو ’’جپھی‘‘ ڈالنے کا پروگرام بنایا تھا اور اس شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گُم ہو جانے کی نیّت باندھی تھی۔ اُس کے خلاف ایک بھرپور سازش ہو گئی۔ دعوت ناموں کی بھرمار نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔ ’’لیڈران‘‘ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ کس کے ناشتے، کس کے لنچ اور کس کے ڈنر کو عزت بخشی جائے۔ ہم کسی کا دِل نہیں توڑنا چاہتے تھے۔ اس لئے گروپ بنا لئے گئے۔ کہیں سے دعوت نامہ ملتا تو ایک گروپ کو بھیج دیا جاتا دوسری جگہ دوسرے گروپ کو، در اصل میزبانوں کی محبت سے ہم ہار گئے تھے۔ ہمارے انکار سے اُن کے اصرار میں زیادہ کشش تھی اور یہ کشش ہمیں کھینچ لے جاتی۔
سکھوں کی فراخ دلی، میزبانی اور اتنی ساری محبتوں نے ہماری نظروں میں اُنھیں مشکوک بنا دیا تھا دِل کہتا تھا ضرور دال میں کُچھ کالا ہے۔
کُچھ نہ کُچھ ہو کے رہے گا۔
کیونکہ ہم ’’دشمنوں کے درمیان شام‘‘ ہی نہیں بلکہ صبح و شام گذار رہے تھے اور آنکھیں بند کیے اُن کا دیا ہوا پی رہے تھے، پکا ہوا کھا رہے تھے۔ حیران کُن امر یہ ہے کہ جہاں بھی جاتے صحیح سلامت واپس آ جاتے، رات کو کلمہ پڑھ کر سوتے مگر صبح تک زندہ ہوتے، آئینہ دیکھتے تو وہی شکل و صورت۔
عجیب دشمن تھے ….
اجنبی دیس، اجنبی شہر اور اجنبی گھروں میں عجیب سی اپنائیت تھی۔ ہم جہاں بھی گئے میزبانوں کا شوق اور انتظار دیکھنے والا تھا۔ وہ ہمیں اپنی بہو بیٹیوں میں یوں جا کر بٹھا دیتے جیسے ہم اُن کے فیملی ممبرز ہوں۔ کھانے کی ٹیبل پر زیادہ تر پاکستان اور خاص کر پنجاب کے بارے میں باتیں ہوتیں۔ مسلمانوں اور سکھوں کے لطیفے سُنائے جاتے خوب قہقہے لگتے، بھنگڑے ڈالے جاتے۔
میں جس انڈیا کا نقشہ آنکھوں میں لے کر آیا تھا یہ تو اُس سے بالکل مختلف تھا۔
یہ کیسے سردار تھے جو ہمارے پاؤں چھوتے، ہمیں ’’جپھیاں‘‘ ڈالتے اور ہمارے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے اتنے معصوم، سادہ اور بھولے بھالے سردار ہم نے پہلی بار دیکھے تھے اس لئے یہ ہمیں نقلی سردار لگے۔
ہمارے ہاں بھی سردار ہوتے ہیں جن کے رُعب اور دبدبے سے وجاہت اور شباہت سے غرور اور گھمنڈ سے پتہ چلتا ہے یہ اصلی سردار ہیں۔
بالآخر ایک صبح قطار اندر قطار میزبانوں کی بے شمار دعوتیں، بے پناہ محبتیں اور بے حد خلوص ٹھکرا کر میں اپنے مُرشد، اپنے دِل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امرتسر کی سڑکوں پر نکل پڑا۔
اک شک سا ہوا تھا کہ پُکارا ہے کسی نے
پھر چلتا رہا چلتا رہا چلتا رہا میں
اجنبی سڑکوں، اجنبی گلیوں اور اجنبی بازاروں میں، اجنبی بن کر گھومتا رہا۔ کسی مقام یا کسی جگہ سے آشنا ہونے کی کوشش نہیں کی۔
بے خبری سے کسی بھی چیز کو تجسّس بھری نظروں سے دیکھنا ایک ایسی کیفیت ہے جسے خود تو Enjoy کیا جا سکتا ہے کسی کے ساتھ Share نہیں کیا جا سکتا۔
جس کا اپنا ایک حُسن ہوتا ہے کُچھ اچھا لگے نہ لگے مگر اُس کے بارے میں بغیر جانے اُس کو دیکھنے اور چھونے کا نشہ ہی الگ ہے۔
میں نے بھی یہاں عقل کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور دِل کی اُنگلی پکڑ کر سیر کر رہا تھا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ کتنا کُچھ جان کر یہ بے خبری آتی ہے۔
اسی بے خبری کی چھڑی کو ہاتھ میں پکڑ کر میں چلتا رہا۔ کوئی منظر آنکھوں کو اچھا لگتا تو آنکھیں بند کر کے اُس کو قید کر لیتا۔
ایک پارک کے کونے میں دو سردار گھُڑ سواروں کے بڑے بڑے مجسمے نظر آئے۔ کافی دیر تک اُنھیں دیکھتا رہا۔
یہ سکھوں کے گُرو تھے یا آزادی کے ہیرو اس بات سے بے نیاز ہو کر دیکھتا رہا۔
کافی دیر تک ایک پرانی عمارت کو حیران ہو کر دیکھتا رہا۔ اُس کے سیلن زدہ دیواروں، بوسیدہ کھڑکیوں اور خستہ حال دروازوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔
ع ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش
ایک دیوار پر کُچھ لفظ گُر مکھی میں لکھے تھے میرے خیال میں یہ اُس گھر میں رہنے والے بچوں کے نام ہوں گے کیونکہ بچے اکثر دیواروں پر اپنا نام لکھ دیتے ہیں۔
جانے اُس گھر کے مکیں کس دیس پہنچے کیا ہوئے؟
رہ گئے دیوار پر لکھے ہوئے بچوں کے نام
مجھے اپنا گھر یاد آ رہا تھا۔ جب میں نے اپنے گھر کے در و دیوار کو آخری بار حسرت بھری نظروں سے دیکھا تھا تو پورا گھر مجھے اپنے وجود کا حِصہ لگنے لگا تھا۔ جب آخری بار میں نے اُسے چھونے کی خواہش کی تھی تو میرے ہاتھ چپک گئے تھے میں نے اُسے اُٹھا کر اپنی پُشت پہ رکھ لیا تھا اب میں جہاں جاتا ہوں میرا گھر بھی میرے ساتھ ہوتا ہے۔
جہاں جائیں ان آنکھوں میں ہے بس دیوار و در اپنا
سفر میں بھی لئے پھرتے ہیں ہم تو ساتھ گھر اپنا
بارشوں کے موسم میں مجھے اپنا گھر بہت یاد آتا ہے۔ حالانکہ اب وہ گھر میرا نہیں رہا پھر بھی سوچتا ہوں اُس کی چھت ٹپک رہی ہو گی، آنگن میں پانی ٹھہر گیا ہو گا، کہیں دیواروں کو نقصان نہ پہنچے، بے ساختہ قدم اُس کی طرف اُٹھنے لگتے ہیں۔
یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اُس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے
جس شہر میں کوئی جاننے والا نہ ہو اُس میں بھی آوارہ گردی کرنے کا اپنا مزہ ہے۔ امرتسر کی سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں گھومتے ہوئے میں ہر کسی کو دیکھتا رہا مگر کسی نے مجھے نہیں دیکھا۔ کوئی رستے میں جاننے والا نہیں ملا۔ کسی نے حال نہیں پوچھا اور یہ سب مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔
پتہ نہیں کیوں؟
اچانک مجھے دور سے ڈھول کی آواز سُنائی دی اور بہت سے لوگ اپنی طرف آتے دکھائی دئے۔
قریب آئے تو پتہ چلا دولہا جی بارات لے کے چلے ہیں جو بھی تھا چلو اس بہانے کُچھ دیر نہیں بلکہ زیادہ دیر تک سکھوں اور سکھنیوں کا ڈانس دیکھنے کا ایک بار پھر موقع مِل گیا۔ آنکھیں تھک گئیں مگر وہ ناچ ناچ کر نہیں تھکے۔
عجیب مست قوم ہے۔
امرتسر کے لوگ بھی اہل لاہور کی طرح زندہ دِل ہیں۔ جس طرف اور جہاں جائیں، ہنستے مُسکراتے چہرے نظر آئیں گے۔ زندگی اپنے جوبن پر دکھائی دے گی۔
کُچھ فاصلے پر ریل کی پٹڑی تھی جو شہر سے گذر رہی تھی۔ پٹڑی کے پاس جا کر میرے قدم خود بخود رُک گئے۔ ریل کی پٹری تک جانا اور پھر لوٹ آنا میرے بچپن کی عادت ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مجھے ریل گاڑی سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ اپنے شہر کے اُجاڑ ریلوے اسٹیشن پر آنے والی بھولی بھالی، معصوم اور سادہ سی پسنجر ٹرین سے مجھے کبھی خوف نہیں آیا۔ اُس کے کُکّڑ انجن (Steam Engine) کے ساتھ لگے دو مفلوک الحال یتیم بچوں جیسے ڈبے دیکھ کر مجھے اُس کی حالت پر بہت ترس آتا۔ میرا دِل کرتا اس گاڑی کو اُٹھا کر اپنے گھر لے آؤں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے والد صاحب کے ساتھ جب میں پہلی بار کراچی جا رہا تھا تو سمہ سٹہ اسٹیشن پر لمبی لمبی، مسافروں سے کھچا کھچ بھری ٹرینیں دیکھیں تو پریشان ہو گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان ٹرینوں کے خوفناک حادثات کی خبروں نے دِل دہلا دیا اور ڈر کا سانپ میرے اندر کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔
اپنے شہر کے اُجاڑ ریلوے اسٹیشن پر وہ سنڈی کی طرح رینگتی ہوئی آنے والی ٹرین جس کے آواز سے صحرا موسیقی سے بھر جاتا اور بھی اچھی لگنے لگی۔ کبھی کبھار میں یونہی بے مقصد اُس پر بیٹھ کر چلا جاتا تھا۔
جیسے ہم کسی دوست کے ساتھ سیر کے لئے جاتے ہیں۔
اچانک تیز رفتار ٹرین پٹری پر سے گذر نے لگی اور اُس کا سارا شور مجھے اپنے اندر سے آتا ہوا محسوس ہوا یوں لگا جیسے وہ میرے سر سے گذر رہی ہے۔
قریب ہی کسی شادی پر بجنے والے ڈھول کی آواز، ریل گاڑی گذرنے کا شور اور اس شور میں رضا علی عابدی کا یہ جملہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔
’’جب سے ریل گاڑی ایجاد ہوئی ہے لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے ہیں‘‘۔
میں اس جملے کے اندر چھپی ہوئی دُکھ کی لہر کو پلکوں پہ سجائے واپس لوٹ رہا تھا۔
دھیرے دھیرے اسٹیشن کو گاڑی چھوڑ رہی تھی
جب وہ کہنے آئی بائے ہاتھ میں پھول اُٹھائے
٭٭٭
’’چُک دے پھٹے‘‘
راجہ پورس کا میلہ شروع تھا وہی راجہ پورس جس نے سکندر کی فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
انڈین آرمی نے وہاں ایک گرینڈ میوزیکل شو اور مشاعرے کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو رنگوں کی برسات میں نہا گئے۔ اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن دعوتِ سخن دے رہے تھے۔
سب رنگ تیز تھے کوئی بھی پھیکا نہ تھا۔ وہ رنگ کپڑوں کے تھے یا پگوں کے جھنڈیوں کے تھے یا بتیوں کے، پھولوں کے تھے یا جھولوں کے خلوص کے تھے یا محبت کے تھے۔ استقبال کا رنگ تو سب سے جُدا تھا اور کُچھ ایسا والہانہ کے ہمارے پاؤں زمین پر نخوت سے نہیں پڑتے تھے۔
میڈیا کا لشکر اور انڈین آرمی کے افسر ہمیں سب سے پہلے اُس یادگار پر لے گئے جو اُنھوں نے 47ء میں مرنے والے شہیدوں کے لئے تعمیر کی تھی۔ سنگِ سیاہ سے بنی ایک ہاتھ کی پانچ اُنگلیاں پنجاب کے پانچ دریاؤں کا سِمبل ہیں۔ وہاں ایک شخص بار بار یہ الفاظ دہرا رہا تھا کہ تقسیم کے وقت لاکھوں پنجابی قتل ہوئے۔ سکھ یا مسلمان نہیں لاکھوں پنجابی قتل ہوئے، یہ اُن کی یاد میں ہاتھ تعمیر کیا گیا ہے۔
کُچھ دیر پہلے جو پھول ہم پہ نچھاور کیے گئے تھے وہ اب بے رحم جوتوں تلے کُچلے گئے تھے۔ تقسیم کے وقت ہزاروں معصوم لوگ بھی اسی طرح کچلے گئے ہوں گے۔ اس خیال نے مجھے دکھی کر دیا تھا اور میں سڑک کے کنارے آہستہ آہستہ چلتا ہوا اُس بھیڑ اور ہنگامے سے نکل کر دور ایک بنچ پر جا کر بیٹھ گیا۔
کچھ ہی دیر میں فضا ’’پاکستان، ہندوستان دوستی زندہ باد‘‘ کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ سازوں کی مدّھم لے تیز ہو گئی۔ بھنگڑے ایک بار پھر شروع ہو گئے۔ میرے چہرے پر بھی خوشی پھیل گئی۔ میں نے مغرب میں غروب ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا تو اُس کا چہرہ بھی سُرخ ہو گیا تھا۔ شاید وہ بھی اب اس خطہ میں امن کا خواہاں تھا۔
جیسے جیسے سورج شام کی چادر اپنے جسم پر لپیٹتا گیا ویسے ویسے برقی قمقموں کی جگمگاہٹ میں اضافہ ہوتا گیا۔ اسٹیج اور پنڈال کو بہت منفرد اور خوبصورت انداز میں سنوارا گیا تھا۔ اسٹیج پر پاکستان اور ہندوستان کا نقشہ اس سلیقے اور مہارت سے بنایا گیا تھا کہ ہر اہم شہر کے سامنے ایک چراغ پڑا تھا۔ مختلف شاعروں، گلوکاروں، فن کاروں، مقررّین اور مہمانوں نے آنا تھا اور اسٹیج پر آ کر اپنے شہر کا چراغ جلانا تھا۔
پنڈال میں کثیر تعداد میں انڈین آرمی کے جوان، آفیسر اور اُن کی فیملیز یہ شو دیکھنے آئی ہوئی تھیں۔ میوزیکل شو شروع ہو چُکا تھا۔ کمپیئر ہر سنگر کو بُلانے سے پہلے با آواز بلند یہ جملہ ضرور کہتا:
’’چُک دے پھٹے اج واج پاکستان تک جانی چاہو دی‘‘۔
میں پاکستانی مہمانوں کے لئے مخصوص آرام دہ صوفوں پر جا کر بیٹھ گیا چونکہ شعراء سے سنگرز کی تعداد زیادہ تھی اس لئے دو تین گلوکاروں کے بعد ایک شاعر کی باری آتی لیکن اس Combination سے محفل کا حُسن دو بالا ہو گیا تھا۔ اسٹیج پر جو بھی جاتا پہلے اپنے شہر کے سامنے رکھا چراغ جلاتا اس طرح ہندوستان اور پاکستان کا نقشہ دھیرے دھیرے روشن ہوتا جا رہا تھا اور بہت پیارا منظر بن رہا تھا۔
وائے حسرت مجھے بہاولپور کے سامنے چراغ جلانے کا موقع میسّر نہ آیا بقول عطاء الحق قاسمی ہر بندے کے حِصے کے کُچھ بے وقوف ہوتے ہیں مگر ہمارے تو وفد کے حِصے میں ایک بیوقوف آیا ہوا تھا اور اُس نے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ یہاں بھی وہ اپنا بے وزن کلام سُنانے کے لئے جب اسٹیج پر پہنچا تو سب شہروں کے چراغ جلا ڈالے۔
شاعر، سنگرز کے سامنے آٹے میں نمک کے برابر تھے۔ یہاں صدیق ندیم، بشریٰ حزیں، عنایت اللہ عاجز، عابد گوندل، انجم سلیمی، افضل ساحر، طارق گجر اور راقم نے اپنا کلام سُنایا جبکہ سمیرا شہزاد نے گایا اس کے علاوہ انڈیا کے کُچھ ’’تک بند‘‘ شاعر بھی تھے۔ افضل ساحر نے جھولتے اور جھومتے ہوئے پنجابی کی ایک نظم سُنا ڈالی اُس کو کافی داد ملی، نظم پر یا جھول جھول کے پڑھنے پر…. پتہ نہیں
حدِّ نگاہ تک پھیلی رنگ برنگی پگوں سے تھوڑا اوپر چاند بہت انہماک سے یہ شو دیکھ رہا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اُسے مخاطب کرتے ہوئے اپنی نظم ’’چاند تم سے شکایتیں ہیں بہت‘‘ سُنا دی۔ اُس کے بعد میں نے اپنی غزل جس کے دو شعر کُچھ اس طرح تھے۔
چلو ہم بھی محبت کر ہی لیں گے
اگر اُس کا ارادہ ہو گیا ہے
بچھڑنے کا اُسے بھی دُکھ ہے شاید
کہ اب تو وہ بھی آدھا ہو گیا ہے
سُنا کر جب اپنی نشست پر آ کر بیٹھا تو ایک سردار جی میرے پاس آئے اور آ کر داد و تحسین کے ڈھونگرے برسانے لگے کہہ رہے تھے واہ جی واہ! آپ نے ہم ہندوستانیوں کے دِل کی بات کی ہے۔
میں نے سر کھُجاتے ہوئے پوچھا؟
وہ کیسے؟
یہی کہ اگر پاکستان کا ارادہ دوستی کا ہو گیا ہے تو ہمیں بھی جنگ کرنے کا کوئی شوق نہیں ہم بھی دوستی کر لیں گے۔ نیز علیٰحدہ مُلک بنانے کا اتنا دُکھ ہوا ہے کہ اب آپ بھی آدھے رہ گئے ہیں۔
سردار جی بڑی بے وقوفی سے میرے شعروں کی تشریح کر رہے تھے اور میں حیرت سے اُن کا مُنہ تک رہا تھا۔
یوں تو تمام سنگرز نے سماں باندھے رکھا۔ سب کا تعلق پنجاب سے تھا مگر ایک بچے نے، جس کی عمر بمشکل دس سال ہو گی، میلہ لوٹ لیا۔ اُس کا اعتماد، آواز اور انداز بے مثل تھا۔
نیتو جی نے بھی بہت خوب گایا وہ پنجاب میں بہت مقبول تھیں وہ صحیح معنوں میں پنجاب کی جٹی تھیں۔ سُرخ گلابی چہرے پر موٹی موٹی نشیلی آنکھیں لمبا قد، بھرا بھرا جسم، قمیض لاچا اور پاؤں میں تِلّے دار کھُسّہ اُس شام شمعِ محفل وہ تھیں۔ اُن کو دیکھے سے مُنہ پر رونق آ جاتی۔ نیتو جی نے جب اسٹیج پر آ کر گانا شروع کیا تو بیماروں کا حال خود بخود اچھا ہو گیا اور جو تندرست تھے اُن کی حالت دیکھنے والی تھی۔
ایک کینیڈا مقیم پنجابی بھی اس محفل میں مہمان تھا۔ وہ گورا چٹا، لمبا چوڑا گھبرو تھا۔ جب اظہارِ خیال کے لئے آیا تو اُس نے ایک گھنٹے تک پنجابیوں کے قصیدے پڑھے مثلاً:
پنجابی خوبصورت ہوتا ہے
پنجابی بہادر ہوتا ہے۔
پنجابی دُنیا میں سب سے زیادہ محنتی ہے۔
پنجابی غیرت مند ہوتا ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔
پنڈال میں بیٹھے سبھی لوگوں نے اُس کے خیالات سے سو فیصد اتفاق کیا اور اُس کے قد جیسی لمبی تقریر بڑے ذوق و شوق سے سُنی۔ ظاہر ہے اپنی تعریف کسے اچھی نہیں لگتی۔
تقریر کے اختتامی لمحات میں پاکستانی وفد کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا گیا شعراء کو ایک یادگاری شیلڈ پیش کی گئی اور اُس کے بعد ایک پُر تکلف ڈنر۔
یہاں ایک انڈین مُسلم سے مختصر سی ملاقات بھی ہوئی جس کا اہتمام سکھوں نے پہلے سے کر رکھا تھا۔ وہ قریبی دیہات میں رہنے والا ایک مفلوک الحال کسان تھا۔ جس کی حالت اُس کے حلیے سے ظاہر تھی۔ اُس کے بچوں کی تعلیم پرورش اور شادی تک کے تمام اخراجات اُس کے گاؤں کے سکھوں نے برداشت کیے تھے۔ اُس کی آنکھیں اور باتیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ اُس کی آنکھیں سکھوں کے لئے تشکر کے جذبوں سے بھری ہوئی تھیں اور وہ بات بات پر اُن کو دُعائیں دے رہا تھا۔ اُس کی حالت پاکستانیوں سے مِل کر ایسی ہو رہی تھی جیسے وہ کوئی سُندر سپنا دیکھ رہا ہو۔ اس مُلاقات کا مقصد تو یہی تھا کہ ہمیں یہ تاثّر دیا جائے کہ سکھ مسلمانوں کے لئے محبت، ہمدردی اور ایثار کا جذبہ رکھتے ہیں۔
اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
مجھے اُن کی یہ سرگرمی پسند آئی کیونکہ یہ دلوں کو قریب لانے والی تھی۔ یہ عمل ماضی کی نفرتوں کے شعلے بجھا کر حال کی محبتوں کے چراغ جلانے جیسا عمل تھا۔
بحیثیتِ پبلشر بھی میرا تعارف انڈین رائٹرز کے لئے بہت پُر کشش رہا۔ اس لئے میرے پاس اُن کی دی ہوئی کچھ کتابیں اکٹھی ہو گئیں، اور وہ بھی مختلف بھاشاؤں میں۔
جس رائٹر کو پتہ چلتا پاکستان کے ایک پبلشر بھی اس وفد میں شامل ہیں تو وہ ڈھونڈ کر بڑی گرم جوشی سے آ کر ملتا اور اپنی کتاب یا کتابیں عقیدت و محبت کے جذبات کے علاوہ اس خواہش کے ساتھ پیش کرتا کہ اگر یہ کتابیں ترجمہ ہو کر پاکستان سے شائع ہو جائیں تو ہزاروں میں فروخت ہوں، پبلشر تو لاکھوں کمائے مگر جذبۂ خیر سگالی کے طور پر رائٹر رائلٹی نہیں لے گا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ میں بیٹھے بیٹھے اُن کے منوں احسان تلے دب جاتا۔ مجھے پتہ چلا کہ اسی طرح کی کاروائی پاکستانی رائٹرز بھی انڈین پبلشرز کو ڈالتے ہیں یہ بات سُن کر کُچھ دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا کہ چلو حساب برابر ہو رہا ہے۔
اگلی صبح ہم دلی کے لئے روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
دنیا کا تیسرا بڑا شہر دہلی جدید ہندوستان کا بھی دار الحکومت ہے۔ یہ شہر در حقیقت دو شہروں کا مجموعہ ہے۔ پُرانی دہلی جو سترہویں صدی سے مسلمان حکمرانوں کا پایہ تخت ہے۔ شہر کا یہ حصہ آج بھی اس کی بہت سی یادگاروں کا نگہبان ہے۔ اس شہر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس دوران کچھ عرصہ آگرہ مغلوں کا اور بعد ازاں کلکتہ انگریزوں کا دار الحکومت رہا لیکن اس شہر کی اہمیت بہرحال برقرار رہی۔ شہر کا دوسرا حصہ نئی دہلی کہلاتا ہے جو انگریزوں کا بسایا ہوا ہے۔ شہر کے قابل دید مقامات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چاندنی چوک، لال قلعہ، مزارِ حضرت نظام الدین اولیاء، مزارِ امیر خسرو، مزارِ مرزا غالب، دیوانِ عام، دیوانِ خاص، شاہی حمام، موتی مسجد، رنگ محل، جامع مسجد، فیروز شاہ کوٹلہ اور راج گھاٹ ان میں سے چند ہیں۔ نئی دہلی کے اہم مقامات میں کناٹ پیلس، جنتر منتر، لکشمی نارائن مندر، راج پتھ، گیٹ آف انڈیا، راشٹرپتی بھون اور سنسد بھون وغیرہ شامل ہیں۔ شہر کے بہت سے عجائب گھر بھی قابلِ دید ہیں۔
اردو بولنے والوں کے لئے دلّی کی اہمیت علمی و ادبی بھی ہے۔ دلی کی اہمیت کے لئے تو شاید ایک بات ہی کافی تھی کہ غالب کا شہر ہے۔ اُردو شعر و ادب نے اپنی بہت سی ارتقائی منازل اسی شہر میں طے کیں۔
اس شہر سے گزرنا گویا مسلمانانِ برصغیر کی تاریخ میں سفر کرنا ہے۔
٭٭٭
مومن خسرے کی زیارت
ہم بچپن سے ہی سنتے آ رہے تھے۔
ہنوز دلی دور است
ہنوز دلی دور است
مگر ہماری ’’نیند‘‘ نے اس فارسی محاورے کی حقیقت بھی فاش کر دی امرتسر سے روانہ ہوئے تو ابھی ہماری آنکھ پوری طرح لگنے بھی نہ پائی تھی کہ ہم دلی پہنچ گئے۔
دلی تو دل سے بھی زیادہ نزدیک نکلی۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمیں ہندو بلوائیوں کے خوف سے رات بھر نیند نہ آتی اور ہم سارا راستہ کلمہ پڑھتے دلّی پہنچتے مگر صرف دلی ہی نہیں دلی کی طرف جانے والا راستہ بھی سپنوں بھرا تھا۔
یہ سفر تو بالکل ننندیا پور کے سفر جیسا تھا۔
ہم دلی کے لئے نا محرم تھے اس لئے اس نے ہمیں دیکھتے ہی اپنا آپ دھند میں چھپا لیا۔ ہم نے بھی لاکھ جتن کیے اس باپردہ شرمیلی دو شیزہ کا کوئی حصہ ہمیں کسی طرح نظر آئے تاکہ ہماری صبح خوشگوار ہو سکے اور منزل پہ پہنچنے کا احساس ہو مگر کامیابی نصیب نہ ہوئی۔
بڑی کمال کی دھند تھی۔
پتہ بھی نہ چلا اور لاجپت بھون پہنچ گئے۔
دھند ایسی کہ سامنے والا
جیسے دیوار سے نکل آیا
یہاں رجسٹر میں نام درج ہوئے اور کمروں کے دروازے کھل گئے ہر کوارٹر کے آگے ایک خوبصورت لان تھا۔ اسکول کی بہت بڑی عمارت، ڈسپنسری اور گراؤنڈ کے باوجود لاجپت بھون کا ماحول گھر جیسا تھا۔ ہم بڑے مزے سے رہنے لگے۔
ہمارے لئے دو ہندو خدمتگار مقرر تھے ایک کھانا پکانے اور دوسرا باہر سے سودا لانے کے لئے دونوں ہی بہت ہنس مکھ فرمانبردار اور نیک نیت تھے۔ ایک کا نام تورا موتھا دوسرے کا اب یاد نہیں آ رہا۔ ستیہ جی بھی ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے۔ ہم پہلی بار اُن سے ملنے گئے تو ہماری ذہن میں یہ تھا کہ ان کی رہائش کا کمرہ بہت اعلیٰ، جدید ترین سہولیات سے آراستہ اور مرعوب کرنے والا ہو گا۔
کمرے کا دروازہ اُنھوں نے کھولا تو خندہ پیشانی سے ملے جیسا کہ اُن کی عادت تھی اور اندر آنے کو کہا، ہمیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ضروریات زندگی کے علاوہ کوئی سامان فالتو نہ تھا وہی عام بستر جیسا کہ سب مہمانوں کے کمروں میں میسر تھا وہی سہولیات جو مہمانوں کے لئے تھیں البتہ کتابیں کافی زیادہ تھیں ہمیں جون ایلیا کا شعر یاد آ گیا
میرے کمرے کو سجانے کی تمنا ہے اُسے
میرے کمرے میں کتابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ان ڈھیروں کتابوں میں ہمیں اپنا مجموعہ کلام ’’ہم نے بھی محبت کی ہے‘‘ بھی نظر آیا جو ہم نے ڈھوڈیکے میں ان کو پیش کیا تھا۔ ہمارا خیال تھا وہاں اتنی مصروفیت اور پھر انتظامی ذمہ داریوں کے سبب وہ ہماری کتاب ڈھوڈیکے ہی چھوڑ آئیں گے اور کسی لڑکی کے ہاتھ لگ جائے گی یعنی صحیح ہاتھوں میں پہنچ جائے گی مگر ایسا نہیں ہوا اور ستیہ جی اُسے باقی کتابوں کی طرح ساتھ لے کر آئے شاید اُنھیں کتابیں اُٹھانا ہی یاد رہا جب ہمیں پتہ چلا کہ ستیہ جی تو اُردو بھی پڑھ لیتے ہیں تو ہمیں ویسی ہی مایوسی ہوئی جیسی اُن کو ہمارا مجموعہ کلام پڑھ کر ہوئی ہو گی کیونکہ وہ تو ٹھہرے انقلابی لیڈر اور ہم بقول سید امتیاز احمد:
’’محبت کی نہیں بلکہ محبت میں شاعری کرنے والے شاعر‘‘ پھر ہمیں یہ سوچ کر خوشی ہوئی کہ محبت سے بڑا انقلاب کوئی اور کیا ہو گا۔
دلّی پہنچ کر ہم آگرہ جانے کے لئے بیتاب تھے مگر ابھی کچھ مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی تھے ایک تو آگرہ کا ویزہ ہمارے پاس نہیں تھا دوسرا ہمارے ساتھ جانے کے لئے کوئی تیار بھی نہیں تھا۔
ایل کے ایڈوانی کا ڈنر، امرتا پریتم سے ملاقات اور مشرف عالم ذوقی کے ہاں مشاعرہ باقی لوگوں کو آگرہ جانے سے روک رہا تھا تاج محل کے لئے ان کے دل میں وہ تڑپ نہیں تھی جو ہمارے دل میں تھی ان کی آنکھوں میں اس بے قراری کا شائبہ تک نہیں تھا جو ہماری آنکھوں میں دہک رہی تھی ہم نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا اگر ہمیں بغیر ویزہ کے بھی جانا پڑا تو ضرور جائیں گے چاہے اس کے کچھ بھی نتائج نکلیں۔ ہم سے نثار اے سنی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ دلی سے ہمیں آگرہ جانے کی اجازت لے دے گا کیونکہ وہ پہلے کئی بار آ چکا تھا اور ’’اُستاد‘‘ آدمی تھا۔ جب ہم نے اس کو وعدہ یاد دلایا تو اس نے فوراً ایک اور وعدہ کر لیا اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں مشورہ دیا کہ اس عمل میں دو دن لگیں گے بادشاہ سلامت آپ اس دوران دلی فتح کر لیں بعد میں آگرہ کر لیجئے گا اس کا مشورہ ہمیں پسند آیا اس لئے ہم نے اس کی جان بخشی کا حکم صادر فرمایا۔
ہم میر صاحب کی باتوں میں آ کر دلی تو پہنچ گئے مگر یہاں آ کر پتہ چلا کہ نہ تو دلّی کے گلی کوچے اوراق مصور ہیں اور نہ ہی ہر شکل تصویر جیسی اس لئے ہم جتنے دن دلی میں رہے لَا حَولَ ولاَ قوة پڑھے بغیر بھی شیطان کو بھگانے میں کامیاب رہے بظاہر دلی کی طرح دل کے اُجڑنے کا خطرہ نہ ہونے کے برابر تھا لہٰذا ہاتھ دل پر رکھنے کی نوبت کم کم آئی البتہ علی ارمان کا یہ شعر بار بار یاد آیا۔
دلی میں اور دل میں بڑا فرق ہے میاں
اک بار اُجڑ گیا تو بسایا نہ جائے گا
ہم چونکہ پبلشر تھے اس لئے دلّی میں ہم نے سب سے پہلے اُردو بازار کا رخ کیا تاکہ اپنی آمد کی اطلاع یہاں کے پبلشرز کو دے سکیں اور وہ ہماری آمد کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے بھر پور فائدہ اُٹھا سکیں اور ہمارے مشوروں سے مستفید بھی ہوں۔ ہماری اونٹنی جس مکتبہ پر رکی وہ اسلامی کتابوں کا مرکز دکھائی دیتا تھا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اس لئے رحمت برس رہی تھی کاروباری لوگ گاہک کو رحمت خداوندی سمجھتے ہیں اس مکتبہ کے پبلشر اور سیلزمین حضرات ماشاء اللہ سب کے سب باریش تھے ہم نے جس شخصیت کو اپنے تعارف کے لئے منتخب کیا اُن کا چہرہ پر نور تھا۔
سلام کرنے کے بعد ہم نے اپنا تعارف بطور پبلشر بھرپور طریقے سے کرایا اور ساتھ ساتھ فخریہ انداز میں یہ بھی باور کرا دیا کہ ہم لاہور سے آئے ہیں اور آپ کے مہمان ہیں۔ ابھی ہم نے بات مکمل بھی نہیں کی تھی کہ وہ مولوی صاحب ایک خسرے کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس گستاخی پر ہم سے معذرت بھی نہیں کی لہٰذا ہم بھی شرمندگی مٹانے کے لئے خسرے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ پہلے ہمارا خیال تھا یہ خسرہ بھی پاکستانی خُسروں کی طرح ہو گا۔ پہلے کچھ دیر ناز و انداز دکھائے گا پھر ایک ٹھمکا لگا کر دعا دے گا، دو تین سیکسی باتیں کرے گا اور دس کا نوٹ لے کر چلتا بنے گا مگر یہاں تو گنگا الٹی بہہ رہی تھی اس خُسرے نے اپنے پرس سے بہت سے نوٹ نکالے اور مولوی صاحب کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا کہ ان کے قرآن پاک مسجدوں میں رکھوا دینا اور گاڑی میں بیٹھ کر مکمل شان و شوکت سے روانہ ہو گیا۔ دلی کے خسروں کے متعلق سنا تو بہت تھا مگر دیکھا پہلی بار اور ساتھ ہی ساتھ خدا کا شکر بھی ادا کیا کہ ہمیں ’’مومن خُسرے‘‘ کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔
ہم جب بھی اپنے تعارف کو مکمل کرنے کی کوشش کرتے کوئی نہ کوئی مومن خُسرہ جلوہ افروز ہو جاتا اور ہمارے مخاطب مولوی صاحب ہمیں نظر انداز کر کے خُسرے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہم بھی اس کارِ خیر میں رُکاوٹ بننا نہیں چاہتے تھے اس لئے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا بالآخر ہم اپنا تعارف کرانے میں کامیاب تو ہو گئے مگر یہ ہمارے لئے کوئی نیک شگون ثابت نہ ہوا۔
مولوی صاحب فرمانے لگے۔
’’ہمارے لئے کیا لائے‘‘؟
ان کے اس ذو معنی جملے اور خُسروں کی مسلسل آمد نے ہمیں ڈرا دیا۔ یہ تو شکر ہے اُنھوں نے خود وضاحت کر دی ’’پاکستان سے کتابیں لائے کہ نہیں؟‘‘ ان کا انداز اب غصے والا تھا۔
ہم نے نفی میں سر ہلایا تو وہ ایک اور خُسرے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اب ہماری مردانگی پر حرف آ رہا تھا اس لئے ہم نے وہاں ایک منٹ بھی رکنا گوارا نہیں کیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ جب بھی انڈیا آئیں گے کسی بک سیلر اور پبلشر جیسی مخلوق کو شرف ملاقات نہیں بخشیں گے مگر اگلے ہی لمحے اس خیال کے آتے ہی کہ ہمیں کچھ کتابیں از حد ضروری خرید کرنی ہیں یہ سوچ کر دل کو تسلی دی کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ہر شعبہ میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک اور پبلشر کے پاس موجود تھے وہاں خُسروں کی عدم موجودگی کے باوجود ہم سے بادشاہوں جیسا سلوک ہوا جیسا کہ بادشاہ، بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بھی انتقاماً ان سے کوئی کتاب نہ خریدی جو کتابیں درکار تھیں کسی اور وسیلے سے منگوا لیں۔ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔
اذان ہوئی تو سب لوگوں نے جامع مسجد دلی کا رخ کیا۔ ہم بھی اذان کی آواز پر آبدیدہ ہو گئے۔ جامع مسجد دلی ایک مہربان میزبان کی طرح سامنے آ گئی جو ہمیں بڑی محبت سے بلا رہی تھی۔ ہمارے ساتھ جو بے رخی پبلشرز نے برتی تھی اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز نے اس کا ازالہ کر دیا۔ ہم نے اپنا آپ اس کی کھلی بانہوں میں دے دیا۔ ہمارے دل کو سکون اور آنکھوں کو قرار مل گیا۔ وضو کے دوران ہماری ملاقات ایک نوبیاہتا مسلمان جوڑے سے بھی ہوئی جو ہنی مون منانے دلی آیا ہوا تھا۔
اس بار ہم نے اپنا تعارف ڈرتے ڈرتے پبلشر کی بجائے بطور شاعر کروایا خلاف توقع تیر نشانے پر لگا اور اُنھوں نے نماز کے بعد دوبارہ ہم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ جامع مسجد دلی اور بادشاہی مسجد لاہور میں وہی فرق ہے جو ان دو شہروں اور ان شہروں میں رہنے والوں لوگوں کے دلوں میں ہے پھر بھی دونوں مسجدیں مجھے اُن بہنوں کی طرح لگتی ہیں جو تقسیم کے وقت ایک دوسرے سے بچھڑ گئی ہوں۔ جامع مسجد دہلی کے صحن میں جو تالاب ہے اس کے پاس بیٹھ جائیں تو پھر اٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ مسجد اور محبوب کی بانہوں میں ایک جیسا سکون ہوتا ہے دل کو عجب سا قرار آ جاتا ہے۔
اس شخص کے پہلو میں سکوں کتنا ہے جبکہ
مسجد نہیں، مندر نہیں گرجا بھی نہیں وہ
نوبیاہتا مسلمان جوڑے نے مسجد کے صحن میں اُڑتے کبوتروں کے درمیان ہمارے ساتھ تصویریں بھی بنوائیں۔ دلہن نے اپنے مہندی والے ہاتھوں سے ہم سے آٹو گراف بھی لئے اور دولہا میاں نے ایک غزل سنانے کی فرمائش بھی کی اور دوسری غزل سننے سے معذرت بھی۔ ہم نے بھی اس تھوڑے کو بہت سمجھا اور اُنھیں پاکستان آنے کی دعوت دے کر رخصت کر دیا۔ انہوں نے بھی رندھی ہوئی آواز میں ہمیں الوداع کہا اور اس طرح ممنون نگاہوں سے ہمیں دیکھا جیسے ہم نے اُنھیں سرکاری دورہ پر بلایا ہو۔ جامع مسجد کی سیڑھیاں اُتر کر ہم چاندنی چوک کی طرف چل پڑے ملحقہ بازار میں اگرچہ گھریلو استعمال کی اشیاء سستے داموں فروخت ہوتی ہیں مگر صفائی کا فقدان ہے یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ ہم پہلی بار دلی آئے تھے تو ہمیں اس کا احساس ہو رہا تھا۔ یہاں کے رہنے والے ہوتے تو شاید ان لوگوں کی طرح اس بد بودار فضا کے عادی ہو چکے ہوتے۔
لال قلعہ کے ہم بالکل قریب پہنچ گئے مگر اسے فتح نہ کر سکے حالانکہ ہم اتنے پر امید تھے کہ اپنی جیب میں ایک چھوٹا سا پاکستانی پرچم بھی ساتھ لائے تھے کہ اسے لال قلعہ پر چڑھ کر لہرائیں گے مگر ہمارا یہ خواب اس لئے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا کہ لال قلعہ دیکھنے کے طے شدہ اوقات میں ہم وہاں نہ پہنچ سکے حقیقت تو یہ ہے کہ دشمن کو ہمارے عزائم کا پہلے ہی پتہ چل چکا تھا اور اس نے بہانہ بنا لیا ہم غلط وقت پر آئے ہیں۔ اب ہم اسے کیسے سمجھاتے کہ حملہ آور تو ہمیشہ غلط وقت پر ہی آتے ہیں خیر اتنی آسانی سے ہار ماننے والے تو ہم بھی نہیں تھے۔ ہم اگر لال قلعہ پر چڑھ کر پاکستانی پرچم نہ لہرا سکے تو دیوار کے ساتھ لگ کر لہرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ فتح ہم نے بغیر کسی خون خرابے کے حاصل کی اور خود با سلامت ہنسی خوشی واپس لوٹ آئے۔
قلعہ سے باہر سڑک پر آٹو رکشہ والے آوازیں لگا رہے تھے مگر کوئی کوئی مرد مجاہد ان کی آواز پر لبیک کہہ رہا تھا۔ ہم سے ان میں سے ایک رکشہ ڈرائیور کی یہ کسمپرسی کی حالت دیکھی نہ گئی۔ اس کی درد بھری آواز نے ہمیں 50 روپے خرچ کرنے پر مجبور کر دیا اور ہم دلی کے مشہور اور تاریخی مقامات کی سیر کے لئے اس کے آٹو رکشہ میں براجمان ہو گئے بمبئ کی ایک ہندو فیملی یہاں پہلے سے ہمارے استقبال کے لئے موجود تھی اکثر ایسے مواقع پر بچے ہمیں دیکھ کے رونا شروع کر دیتے ہیں مگر اس بار ایسا نہیں ہوا۔ بچے تو کیا بڑے بھی ہمیں دیکھ کر سہمے سہمے سے بیٹھے تھے اور آخر کیوں نہ بیٹھتے ہم لال قلعہ کے فاتح جو تھے۔
گائیڈ نما ڈرائیور خود بول رہا تھا یا کیسٹ لگا رکھی تھی یہ ایک مُعمّا تھا۔ دونوں صورتوں میں ہمیں بغیر کسی توقف کے معلومات بہم پہنچائی جا رہی تھیں مثلاً یہ روڈ فلاں مسلم بادشاہ کے نام پر ہے یہ فلاں مسجد، یہ فلاں مندر اور گردوارہ ہے۔ اُنھیں کس نے بنوایا کیوں بنوایا یہ تمام سوال جنھیں ہم زبان پر لا نہ سکے اس کے جوابات اس نے ہمیں خود ہی دے دئے۔ اداکاروں کی کوٹھیوں سے لے کر راستہ میں آنے والی پان شاپس تک کے بارے میں اس نے ہمیں اپنا فرض منصبی سمجھ کر بریف کیا۔ ہم بھی اپنی قسمت پر نازاں تھے کہ پچاس روپے میں نہ صرف دلی کے مختلف مقامات کی سیر بھی ہو رہی تھی اور مفت میں رہنمائی بھی مل رہی تھی۔ جہاں وہ ضروری سمجھتا آٹو روک کر ہمیں حکم نامہ جاری کر دیتا کہ یہ فلاں تاریخی جگہ ہے یہاں کیا کیا دیکھنا ہے اور کتنی دیر میں واپس آنا ہے۔ ہمیں چار ونا چار ایسا کرنا پڑتا، اس کا ہونا جو ہمارے لئے غنیمت تھا۔ باتوں باتوں میں ہم نے برلا مندر، انڈیا گیٹ، سیکریٹیریٹ کی بلڈنگ، راشٹر پتی بھون، نہرو میوزیم اور اندرا گاندھی میموریل میوزیم دیکھ لیے اتنے مختصر وقت میں اتنی خوبصورت جگہوں کی سیر اور وہ بھی صرف پچاس روپے میں اتنی سستی سیاحت کا تو ہم نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
ایک انگریز دانشور نے اپنے بیٹے کو ایک طویل خط لکھ کر آخر میں لکھا کہ میں یہ طویل خط تمھیں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ مختصر خط لکھنے کا میرے پاس وقت نہیں تھا چونکہ ہمارے پاس وقت کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں اس لئے ہم ان جگہوں کا مختصر تذکرہ کئے دیتے ہیں۔ برلا مندر دلی کے چند خوبصورت مندروں میں شمار کیا جاتا ہے راجستھانی سرخ پتھر سے بنایا گیا یہ مندر فنِ تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔ یہ کناٹ پلیس کے بالکل مغرب میں واقع ہے۔ اس شوخ رنگ کے خوبصورت مندر کو ہندوستان کے ممتاز صنعت کار بی ڈی برلا نے 1938ء میں تعمیر کرایا۔ یہ لکشمی دیوی کے نام منسوب ہے جو خوشحالی اور اچھے مستقبل کی دیوی ہے۔
عام طور پر اسے برلا مندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دور سے اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی دلہن نے عروسی لباس پہن رکھا ہو۔ ہم جب اس کے اندر داخل ہوئے تو مدھر آواز میں بھجن گائے جا رہے تھے اور یہ آواز جدید میوزک سسٹم کے تحت دیواروں میں نصب اسپیکروں سے آ رہی تھی۔ ہماری نظر قسمت کا حال بتانے والی آٹومیٹک مشین پر پڑی تو فوراً ہم نے اس میں پانچ روپے کا سکہ ڈال دیا۔ مشین نے ایک پرنٹنڈ پیپر باہر نکال دیا جس پر ہماری قسمت کا حال درج تھا۔ قسمت کا حال چاہے وہ ہاتھ دکھا کر معلوم ہو یا زائچہ نکال کر یا اسٹار کے ذریعے اگر ہمارے فائدے کی بات ہو تو ہم اس پر یقین کر لیتے ہیں بصورت دیگر نہیں۔ پیپر پڑھ کر ہم فوراً قسمت کے لکھے پر ایمان لے آئے۔ ہمارا مستقبل ہم پر اتنا مہربان ہے یہ تو ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اب تک ہم بے جا شکوۂ تقدیر کرتے رہے تھے، لہٰذا ہم آنکھیں بند کر کے اچھے مستقبل کے سپنے دیکھنے لگے مگر داسیوں کی مدھر ہنسی نے جلد ہی ہماری آنکھیں کھول دیں۔ فضا میں ان گنت گھنگرو بجنے لگے۔
رنگ برنگی ساڑھیوں میں ملبوس ہندو لڑکیاں طشتریوں میں پھول اور جلتے دیئے اُٹھائے گزر رہی تھیں۔ سیندور لگائے جا رہے تھے دیوی کے درشن ہو رہے تھے ہم جتنی دیر اس مندر میں رہے اللہ کی شان دیکھتے رہے، اس کی مخلوق پر حیران بھی ہوتے رہے اور اپنے مسلمان ہونے پر شکر بھی ادا کرتے رہے جس کی وجہ سے ہم ہزار سجدوں سے بچ گئے تھے۔ ہمارے گائیڈ نما ڈرائیور نے ہمیں جو الٹی میٹم دیا تھا اس وقت پر ہمیں ہر حال میں آٹو تک پہنچنا تھا ورنہ وہ ہمیں بے یار و مدد گار چھوڑ کر چلا جاتا، یہ خیال آتے ہی ہم نے اتنے رومینٹک مندر میں مزید ایک لمحہ بھی رکنا گوارا نہ کیا اور برلا مندر سے باہر آ گئے۔
انڈیا گیٹ بہت اہم اور خوبصورت جگہ پر واقع ہے۔ یہ دہلی کی مصروف ترین شاہراہوں کے درمیان موجود ہے پھر بھی یہاں آلودگی اور شور کا احساس تک نہیں ہوتا اور نہ ہی مٹی اور دھول ہے۔ اس کا منظر ایک پینٹنگ جیسا ہے اور یہاں آنے والے لوگ اس پینٹنگ کا حصہ بن جاتے ہیں اس سے جدا نہیں لگتے کاش ہماری آزادی کی یاد گار مینار پاکستان کے اردگرد بھی ایسی فضا ایسی دلکشی قائم ہو جائے مٹی، دھول اور شور نے شاہی مسجد، شاہی قلعہ اور مینار پاکستان کے حُسن کو گہنا دیا ہے۔ شام کے وقت انڈیا گیٹ دیکھنے کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ آئے ہوتے ہیں جن میں غیر ملکی سیاح بھی کثیر تعداد میں ہوتے ہیں۔
نتھری نتھری فضا، وسیع و عریض پارک میں خوش رنگ پھول اور عین وسط میں سرخ پتھر کا انتہائی خوبصورت گیٹ اور اسے دیکھنے والی آنکھیں، بہت پیارا منظر ہوتا ہے کچھ فاصلے پر بالکل چھوٹا سا ایک اور گیٹ ہے وہ شاید اس لیے تعمیر کیا گیا ہے کہ انڈیا گیٹ کو تنہائی کا احساس نہ ہو۔ یہاں مختلف اسکولوں اور کالجوں کے طلباء و طالبات بھی نظر آئے اور بچے بھی سچ تو یہ ہے گھر ہو یا پارک اس کا حُسن بچوں سے ہی مکمل ہوتا ہے وہ باغ جہاں تتلیاں پکڑنے اور پھول توڑنے والے بچے نہ ہوں اُداسی کی تصویر نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی تتلیاں پکڑتے بچوں نے ہماری سہانی شام کچھ اور سہانی کر دی کچھ خوبصورت چہروں نے اس شام میں اپنے رنگ بھر دئے مگر ہم دلّی کی کوئی شام چرانہ سکے۔ حوصلہ ہی نہیں ہوا ایک انجانا خوف اور ڈر تھا ہم ہر وقت اس ڈر کے حصار میں ہوتے کہ ایک دشمن ملک میں ہیں یہ احساس ایک لمحہ کے لئے بھی ختم نہ ہوا۔
دلّی میں ہمیں ہر مقام پر پلاوی، ایزون اور پرساد کی یاد آتی رہی مگر اب ان کو بھول جانا ہی بہتر تھا لیکن ہم میں ایک خرابی ہے وہ یہ کہ جو لوگ اچھے لگیں ان کو بھول جانا ہمارے بس میں نہیں بلکہ یہ تو خود اپنا آپ وہاں بھول آتا ہے۔
بھول آیا میں اپنا آپ وہاں
چار دن جس جگہ قیام کیا
جب شام کی رنگینی، اُداسی اور فسردگی میں بدلنے لگی تو ہم وہاں سے لوٹ آئے اسی میں ہمارا فائدہ تھا وکرم ہوٹل کے پاس اُترتے ساتھ لاجپت بھون ہے۔ وہاں پہنچ کر دل کو تسلی ہو جاتی سارا ڈر ختم ہو جاتا پتہ نہیں اس کی کیا وجہ تھی۔
دلّی کی عبادت گاہوں میں ہمیں بہائیوں کا لوٹس ٹیمپل (کنول مندر) سب سے زیادہ پسند آیا سنگ مرمر سے بنی یہ عمارت اپنی مثال آپ ہے شاید کہ دلی میں اس سے خوبصورت عمارت کوئی اور ہو اس کا ڈیزائن کنول کے پھول کے مشابہہ ہے۔ ایک بات جس نے لوٹس ٹیمپل کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیئے ہیں وہ ہے اس کے اردگرد تا حد نظر پھیلے ہوئے سبزے کے میدان اور ان میں کھلے ہوئے رنگا رنگ پھول۔
دلّی شہر جہاں کوئے یار میں دو گز جگہ نصیب نہیں ہوتی اتنے وسیع رقبہ پر لوٹس ٹیمپل کی تعمیر نے ششدر کر دیا۔ تاج محل کی طرح یہ خوبصورت ٹیمپل بھی اپنی مقناطیسی کشش سے دور سے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ قدم خود بخود اُس کی طرف اُٹھتے چلے جاتے ہیں۔ کیاریوں کے درمیان کنول مندر تک اینٹوں کی سڑک ہے اس سڑک پر چل کر ٹیمپل تک جانا بہت خوبصورت نظارہ ہے اور کیسے نہ ہو۔ وہاں کنول مندر جیسی خوبصورت لڑکیاں استقبال کے لئے موجودہ ہوتی ہیں اور وہ بھی خموشی اور دھڑکنوں کی زبان میں محو کلام، ہاتھوں میں بہائی مذہب کا لٹریچر تھامے، زندگی پر پیار آنے لگتا ہے۔ سفید کنول مندر کی خوبصورت عمارت، اُس کے چاروں طرف نیلے پانی کے تالاب اور سفید کپڑوں میں ملبوس سندر بہائی لڑکیاں۔ پرستان اور پریوں کا ذکر کہانیوں میں پڑھا تھا۔ آج تو ہم سچ مچ وہاں موجود تھے۔ ایک لمحے کے لئے یوں لگا جیسے ہم رستہ بھولے شہزادے ہیں۔
کنول مندر کے اندر کی خوبصورتی اور دلکشی سوا تھی۔
مکمل خاموشی۔
انسان اور خدا کی ٹوٹے ہوئے رشتے کو جوڑنے کا وسیلہ۔
یہاں زندگی ٹھہر گئی تھی۔ وقت جیسے رک رک کر قدم اٹھا رہا ہو۔
آج پہلی بار احساس ہوا خاموشی سے پیاری بھاشا اور کوئی نہیں۔ یہاں ہمارا قیام نہایت خوشگوار تجربہ تھا۔ بہائی لڑکیوں کی مسکراہٹ نے تو خاموشی کو گیتوں بھرا بنا دیا۔
٭٭٭
وہ شرابی، کبابی
جب ہمیں پتہ چلا کہ حضرت نظام الدینؒ، امیر خسروؒ، اور مرزا غالبؒ کے مزار قریب قریب ہیں اور لاجپت بھون سے زیادہ فاصلہ بھی نہیں تو دل نے وہاں جانے کی رٹ لگا لی۔ خواہشوں کی کچی کلیاں تو نہیں جانتی کب کھلنا اور کب مرجھانا ہے۔ ہم نے یوسف بلوچ کا ہاتھ تھاما اور وہاں پہنچ گئے۔ یہاں کچھ نیا نہیں تھا وہی فضا وہی ماحول جو ہر جگہ صوفیاء کرام کے مزاروں کے باہر نظر آتا ہے۔
سبز چادروں کی دُکانیں، مٹھائیوں کی دُکانیں، کتابوں اور کیسٹوں کی دکانیں اگر بتیوں کی خوشبو، قوالیوں کی آواز، میلے میلے کپڑوں میں ملبوس لمبے لمبے بالوں والے ملنگ، جنھوں نے کلائیوں میں کڑے، گلے میں موتیوں کی مالائیں پہن رکھی ہوتی ہیں اور ان کے جسم سے بدبو کے بھبکے نکل رہے ہوتے ہیں۔ ان کے قریب سے گزریں تو سانس تک لینا دشوار ہو جاتا ہے پھر ڈھیٹ نسل کے فقیر جو اللہ کے نام پر بھی جان نہیں چھوڑتے۔ صوفیاء کے مزاروں کے باہر ایسے ماحول میں ہمیشہ سے ہمارا دم گھٹتا ہے۔ دل کو بہت تکلیف اور ذہن کو بڑی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے مگر کیا کریں محبوب تک جانے کے لئے راستے کی سختیاں اور تکلیفیں تو برداشت کرنا ہی پڑتی ہیں۔ یہاں تو ایک نہیں تین تین برگزیدہ ہستیاں موجود تھیں۔ سو ہم بھی ان فقیروں اور دوکانداروں کی صفوں کو چیرتے ہوئے درگاہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ حضرت نظام الدینؒ کے احاطہ میں جہاں قوال حضرات قوالی پیش کر رہے تھے۔ قوالی سننے والوں میں ایک طرف عورتوں اور ایک طرف مردوں کا ہجوم تھا یہاں بھی سجادہ نشین، گدی نشین اور مجاور حضرات عقیدت اور محبت میں حاضری کے لئے آنے والوں کی جیبیں خالی کرنے میں مصروف تھے۔
ہر طرف ہاتھ ہی ہاتھ اور جھولیاں ہی جھولیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ نظام سرکارؒ سے مانگنے والے ہاتھ، ان سے مانگنے والی جھولیاں، ضرورتوں اور حاجتوں کے مارے ہوئے لوگ، دھکم پیل، بے قابو ہجوم، جلد بازی، افراتفری، ہنگامہ ہی ہنگامہ، کوئی ضبط کوئی ٹھہراؤ کوئی سکون نہیں تھا جیسا کہ ہمارے چھوٹے سے شہر میں حضرت خواجہ خدا بخشؒ کے مزار پر ہوتا ہے۔ گنتی کے لوگ عقیدت اور محبت سے بھرے ہوئے، برآمدے اور صحن میں بے فکر آ کر لیٹ جاتے ہیں جیسا کہ دربار کا حصہ بن گئے ہوں۔ کسی گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔ گرمیوں میں بھی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے بچپن میں ہم امتحانوں کے دوران صبح خواجہ صاحبؒ کے مزار پر حاضری دے کر جاتے۔ جلدی ہوتی تو دروازے کو چھو کر ہاتھ آنکھوں اور دل سے لگاتے تا کہ پیپرز اچھے ہوں۔ کمرۂ امتحان میں یقین ہوتا کہ خواجہ صاحبؒ کی مدد ساتھ ہے۔
پیپر خراب ہو جاتا تو پھر بھی دل کو تسلی ہوتی خواجہ صاحبؒ کی سفارش چل جائے گی۔ غریب شاہؒ کا مزار جو ہمارے شہر سے تقریباً دس بارہ کلو میٹر دور نہر کنارے کے ساتھ ٹیلوں میں تھا اور اس کے ساتھ ٹھنڈے پانی کا کنواں، ساتھ ہی قبرستان اور تاحدِ نظر کھُلا آسمان، کھُلی فضا، تازہ آب و ہوا جب کنویں سے پانی کا بوکا باہر آتا تو بڑی خوشی ہوتی پھر ٹھنڈے پانی سے ہاتھ پاؤں اور منہ دھونے سے ہم سرشار ہو جایا کرتے۔ یہاں آنے والوں کو بھی کوئی جلدی نہ ہوتی زیادہ تر نو راتیں ٹھہرنے کے لئے آتے مگر حضرت نظام سرکارؒ کے مزار پر ہجوم دھکم پیل اور افراتفری تھی احاطہ بھی تنگ تھا مجھے بھی ممتاز مفتی کی طرح ان صوفیاء کرام کے حوصلے پر حیرت ہوتی ہے کہ کیسے کیسے لوگوں کو برداشت کرتے ہیں۔ صبح و شام درخواستیں وصول کرتے ہیں کبھی اُکتاتے نہیں تنگ نہیں آتے۔ امیر خسروؒ کے دربار پر حاضری دینے والوں کا بھی یہی عالم تھا ان میں سے زیادہ تر لوگ ان کے علمی، ادبی اور موسیقی کے حوالوں سے کم کم واقف تھے۔ وہ تو اتنا جانتے تھے کہ یہ حضرت نظام سرکارؒ کے عاشق اور مرید خاص تھے وہ اتنا جانتے تھے کہ یہ بندۂ خدا حضرت نظام سرکارؒ کے رنگ میں رنگا ہوا تھا اس لئے وہاں بھی حاضری دینے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔
ہم نے ایک مولانا صاحب سے بڑے فخریہ انداز میں اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا:
’’السلام علیکم یا حضرت ہم پاکستان سے آئے ہیں ہمیں مرزا اسد اللہ غالب کے مزار کے بارے میں بتا دیجیے کس طرف ہے‘‘۔
ہمارا جملہ مکمل ہوتے ہی مولانا صاحب کا چہرہ لال سرخ ہو گیا۔ آنکھیں غصہ سے باہر نکل آئیں۔ یوں لگا جیسے ہم نے ان کے سر پر ہتھوڑا مار دیا ہو۔ وہ ہم سے چار قدم پیچھے ہٹ کر بولے:
’’وہ شرابی کبابی‘‘۔
بے ساختہ ہماری زبان پر مرزا غالب کا یہ شعر جاری ہو گیا۔
ہوئے ہم جو مر کے رسوا ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کہیں جنازہ اُٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اس شعر میں کتنی بڑی حقیقت پوشیدہ تھی اس کا ادراک ہمیں اس روز ہوا۔ ہم اس شعر کو گنگناتے، سر دھنتے مرزا غالب کے مزار تک کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئے چھوٹے سے احاطہ میں سنگ مرمر سے بنا چھوٹا سا مقبرہ اس کے ساتھ چند قبریں، لکڑی کا مقفل دروازہ، درو دیوار سے حسرت ٹپک نہیں بلکہ برس رہی تھی۔ دل کو بہت تکلیف ہوئی کہ اردو اور فارسی زبان کے اتنے بڑے شاعر کے مزار کی یہ حالت اس قدر اُداسی، تنہائی اور ویرانی۔
اسی دوران کچھ اور لوگ جو غالب کے چاہنے والے تھے اس ’’مفرور محافظ‘‘ کو ڈھونڈ کر لے آئے جس کے پاس مزار کے گیٹ کی چابی تھی اور وہ بڑی دیر سے غائب تھا۔ دروازہ کھلا تو ہم مقبرہ کی دیوار سے لگ کر بیٹھ گئے۔ مرزا کی زندگی کی فلم ہمارے تصور میں چلنے لگی۔ مرزا کی شوخیاں، باتیں، خطوط، شاعری، لطیفے، تنگدستی، مے نوشی سب کچھ ایک ایک کر کے یاد آ رہا تھا کچھ لوگوں نے مرزا کی لحد پر پھول چڑھائے۔ ہم نے مرزا کے چند شعر حاضرین کو سنائے کسی نے لطیفے اور کسی نے مرزا کے خطوط سے اقتباس سنائے تو مزار کی تنہائی تھوڑی دیر کے لئے آباد ہو گئی۔
آخر میں ہم سب نے اس عظیم شاعر کے لئے فاتحہ پڑھی بہرحال عجیب درد بھری خاموشی اور تنہائی کا احساس ہمیں وہاں ہوا اس خموشی اور تنہائی میں اگر کوئی ہنستا اور بات کرتا تو یوں لگتا جیسے برسوں ویران پڑے کنویں میں کسی نے پتھر پھینکا ہو۔ ہم کچھ دیر تو اس خموشی کا حصہ بن کر بیٹھے رہے اس سے ہمکلام نہ ہو سکے اورپھر بوجھل قدموں اور ملول دل کے ساتھ ایک بار پھر لاجپت بھون لوٹ آئے۔
ہمارے کان میں ایک روز عابد گوندل نے چپکے سے کہہ دیا تھا کہ دلی کے سینماؤں میں جو فلم دیکھنے کا مزہ ہے وہ دنیا میں کہیں اور نہیں پورے انڈیا کی سیر ایک طرف اور فلم دیکھنے کا لطف ایک طرف۔ فلم دیکھنے کی لت ہمیں بھی بچپن سے پڑی ہوئی تھی۔
کراچی کے تمام خوبصورت سینماؤں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم وہاں بچپن میں فلم دیکھتے رہے ہیں جن میں نشاط، پرنس، بمبینو، کیپری اور ریگل وغیرہ شامل ہیں۔ عابد گوندل نے فلم کی بات کر کے ہماری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ ہم نے ایک لمحہ تاخیر کئے بغیر تیاری کر لی تھوڑی دیر بعد ہم ایک آٹو والے بھائی کی بنتی کر رہے تھے کہ ہمیں اس سینما پر چھوڑ دیجئے جہاں ’’اشوکا‘‘ لگی ہو۔ ’’اشوکا‘‘ شاہ رخ اور کرینہ کی نئی فلم تھی جو مہان بادشاہ ’’اشوکا‘‘ کی زندگی پر تھی اور ان دنوں پاکستان اور بھارت میں اس کے بڑے چرچے تھے۔
ہمیں کرینہ کی آنکھیں بہت پسند ہیں سو ہم ان بڑی بڑی آنکھوں کو بڑی سکرین پر دیکھنا چاہتے تھے۔ تین سینماؤں پر گئے مگر آٹو والا اپنے روپے بنانے کے چکر میں تھا شاید اسے بھی اندازہ ہو گیا تھا یہ ’’اشوکا‘‘ دیکھے بغیر ٹلنے والے نہیں۔ آخر کار تھوڑی سی اور مُسافت، تھوڑی سی اور تگ و دو کے بعد ہم اس نیک مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ کناٹ پیلس کے ایک سینما میں اشوکا لگی ہوئی تھی پہلے تو ہم گھبرا گئے ہر طرف جوڑے ہی جوڑے۔ نوجوان جوڑے فلم دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ’’گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ‘‘ ہاتھوں میں ہاتھ، آنکھوں میں آنکھیں، ہم نے سوچا سینما سے باہر اتنا رومینٹک (Romantic) ماحول ہے تو اندر کیا ہو گا۔ تمام لڑکے لڑکیوں نے جنیز (Jeans) پہنی ہوئی تھی۔ عابد گوندل اور ہم نے ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھا اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ عابد گوندل نے سچ کہا تھا:
فلم دیکھنے کا جو مزہ اس شب آیا زندگی میں کہیں اور نہیں آیا۔ اگلی صبح ہمارے لئے زندگی کی یادگار صبح تھی۔ نثار اے سنی نے وعدہ پورا کر دیا اور ہم آگرہ کے لیئے روانہ ہو گئے۔
سکندر لودھی نے جب سولہویں صدی کی ابتدا میں دریائے جمنا کے مغربی کنارے پر آباد آگرہ کو اپنا پایہ تخت بنایا تو اس کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو گا کہ آگے چل کر یہ شہر مغلیہ جاہ و جلال کی ایک علامت بن جائے گا۔ بابر اور ہمایوں نے بھی یہاں کچھ تعمیرات کیں لیکن اکبر اعظم کے دور میں اس شہر نے خصوصی اہمیت حاصل کی۔ اس میں کچھ دخل اکبر کے پایۂ تخت فتح پور سیکری اور آگرہ کی قربت کو بھی ہو گا۔ لاہور سے واپسی پر تو اکبر آگرہ ہی میں قیام پذیر ہوا اور اپنی وفات تک یہاں رہا۔
جہانگیر کشمیر کا عاشق تھا سو آگرہ کو زیادہ توجہ نہ دی لیکن شاہ جہاں کا نام تو آگرہ کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گیا۔ آگرہ کے قلعے کی بیش تر تعمیرات اور جامع مسجد اپنی جگہ لیکن ’’تاج محل‘‘ کا کیا کہیے۔ دار الحکومت تو ۸۳۶۱ء میں دہلی منتقل ہو گیا مگر تاج کی بدولت آگرہ کو جو خصوصی اہمیت حاصل ہوئی وہ آج تک برقرار ہے۔
۱۶۷۱ میں جاٹوں اور ۱۷۷۰ میں مراٹھوں کے ہاتھوں اس شہر پر مشکل وقت بھی آئے لیکن اس شہر کی یادگاریں یہ امتحان جھیل ہی گئیں۔ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں بھی آگرہ ایک اہم محاذ تھا۔
٭٭٭
کیا اسیری تھی کیا رہائی تھی!
آگرہ پہنچ کر میری حالت اُس غریب عاشق جیسی تھی جسے کسی شہزادی سے عشق ہو گیا ہو اور آج ان کی پہلی ملاقات ہو۔ میں جتنا خوش تھا اُتنا گھبرایا ہوا بھی تھا۔ محبت کرنے والے میرے دل کی کیفیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ صرف وہ شخص میری آنکھوں کی بے قراری کو سمجھ سکتا ہے جس نے برسوں کسی کی راہ دیکھی ہو۔
صدیوں کسی کا انتظار کیا ہو مجھے بھی یوں لگ رہا تھا جیسے میں صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ ہم آگرہ شہر سے گذر کر تاج محل کے دروازے تک پہنچے تھے۔ مگر میں آگرہ کیا دیکھتا آنکھیں تاج محل کی طرح سفید ہو گئی تھیں۔ کچھ اور دیکھنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ٹریفک سے بھری بھری سڑکیں گزری ہوں گی۔ بازراوں میں چہل پہل بھی ہو گی۔ دوکانوں میں رونق بھی ہو گی۔ پارکوں میں فطرت کا حسن بھی ہو گا۔ سب جگہ لوگ بھی ہوں گے۔ مگر میری آنکھوں میں تو صرف ایک منظر سما گیا تھا۔ وہ منظر تاج محل کا۔
بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئے تو باغ ہی باغ محل کہیں نظر نہ آتا تھا۔ ہر طرف درخت تھے، سبزہ تھا، پھول تھے، سیاحوں کا ہجوم تھا۔ محبت کی اس یاد گار کو دیکھنے دنیا کے کونے کونے سے لوگ یہاں آئے ہوئے تھے۔
سب دلوں میں ایک خواہش تھی سب آنکھوں میں ایک سپنا تھا تاج محل کو ایک بار دیکھنے کی خواہش تاج محل کو ایک بار چھونے کا سپنا اندرونی دروازے تک پہنچنے کا راستہ یا تو واقعی طویل تھا یا شوق نظارہ نے اسے طویل کر دیا تھا۔
نہ تو باغیچے ختم ہوتے تھے اور نہ ہی بے قراری۔ اندرونی دروازہ دور سے نظر آیا تو سب چہروں پر خوشی پھیل گئی۔ ویسی خوشی جو انسان کو خوبصورت بناتی ہے۔ دروازے کے قریب پہنچنے کی دیر تھی کہ فوٹوگرافروں کے ہجوم نے گھیر لیا چونکہ ان کا تعلق کسی اخبار سے نہ تھا اس لئے ہم نے اُنھیں اپنی تصویر بنانے کی اجازت نہ دی بلکہ اپنا کیمرہ گلے میں ڈال لیا تا کہ حجت تمام ہو جائے۔
اپنا کیمرہ لئے بغیر تاج محل دیکھنے آنا ایسے ہی ہے جیسے نظر کی عینک گھر بھول کر کسی لائبریری میں مطالعہ کے لئے جانا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سب لوگ یہاں تاج محل کے ساتھ تصویر بنوانے ہی آتے ہیں تاکہ واپس جا کر اپنے رشتہ داروں، احباب اور دوستوں کو فخریہ انداز میں دکھا سکیں کہ دیکھو ہم تاج محل دیکھ کر آئے ہیں۔
حکمران یہاں آئیں یا عوام…….
سب کے دلوں میں ایک اُمنگ ضرور ہوتی ہے، تاج محل کے پہلو میں ایک یاد گار تصویر۔ دروازے کی ساخت اور بناوٹ ایسی ہے کہ پہلے ڈیوڑھی نما دروازے سے گذر کر چند قدم چلنا پڑتا ہے۔ تاج محل آہستہ آہستہ آنکھوں کے سامنے آشکار ہوتا ہے پہلے دائیں طرف کے مینار پھر عمارت اور گنبد ان کے بعد بائیں طرف کے مینار جیسے چلمن کی اوٹ سے کوئی ماہ جبیں شرماتی ہوئی سامنے آ جائے۔
اس میں شاید یہ مصلحت ہو کہ دیکھنے والا اچانک اس قدر خوبصورت منظر دیکھ کر پاگل نہ ہو جائے یا اہل محبت میں سے کوئی مر نہ جائے بقول: ادریس بابر
میں کسی وقت بھی مر سکتا ہوں
دوست اندر سے محبت ہے مجھے
میں نے پہلی نظر تاج محل پر ڈالی تو یوں لگا جیسے مجھے ابھی ابھی آنکھیں ملی ہیں اور میں زندگی کا حُسن پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ میں نے تو سوچا تھا جیسے ہی تاج محل پر میں پہلی نظر ڈالوں گا میرے دل کی دھڑکن رک جائے گی اور مجھے بھی شاہجہاں اور ممتاز محل کے ساتھ اس میں ابدی آرام کے لئے جگہ مل جائے گی مگر مجھے تو یوں لگا۔ جیسے دل آج پہلی بار دھڑکا ہو۔
ترے نزدیک آ کر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
سچ مچ یوں لگ رہا تھا جیسے میں ابھی زندہ ہوا ہوں۔ تاج محل کو دیکھ کر آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
فضائے صبحِ تبسم بہار تھی لیکن
پہنچ کے منزلِ جاناں پہ آنکھ بھر آئی
تاج محل کی خوبصورتی کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حُسن تو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
جو دیکھے گا وہی اس کی سندرتا کو جان سکتا ہے جس طرح محبت کے بارے میں بتانا مشکل ہے کہ محبت کیا ہے؟
جانتا ہوں سو بتا سکتا نہیں
ہے محبت کیا؟ یہ پوچھا مت کرو
جیسے محبت اپنا اپنا تجربہ ہے۔
محبت کی اس یادگار کو دیکھنے کا بھی ہر شخص کا زاویۂ نگاہ الگ ہے۔
تیراکی پر کوئی اچھی سی کتاب پڑھ لینے یا لیکچر سن لینے سے تیراکی نہیں آتی اس کے لئے تو پانی میں اُترنا پڑتا ہے تب جا کر پتہ چلتا ہے۔ یہی معاملہ محبت اور محبت کی اس یادگار کا ہے۔
تاج محل کو جب تک جاگتی آنکھوں سے نہ دیکھا جائے اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ کیسا ہو گا۔
تصویر میں تو اس کے حُسن کا تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا۔ محبت کی طرح محبت کی یاد گار بھی ہوش اُڑانے والی، اردگرد سے بیگانہ کر دینے والی اور اپنے حُسن کا اسیر بنانے والی ہے۔ نظریں ہٹانا تو دور کی بات پلکیں جھپکنے کو جی نہیں چاہتا۔ تصویریں دیکھ کر میں نے اپنے ذہن میں تاج محل کا جو خاکہ بنایا ہوا تھا یہ تو اس سے بالکل مختلف اور جدا تھا۔
تاج محل کے مینار آسمان سے باتیں کر رہے تھے یا آسمان تاج کا بوسہ لینے کے لئے جھکا ہوا تھا۔
یہ ایک معمّا تھا۔
تاج محل کی سنگ مرمر کی عمارت کے سامنے سب کچھ میلا میلا سا لگ رہا تھا۔
کیا زمین۔
کیا آسمان۔
کیا سورج۔
میرے خیال میں تاج محل دنیا کا آٹھواں نہیں بلکہ پہلا اور آخری عجوبہ ہے۔
تاج محل کے پہلے نظارہ نے ہی مجھے اپنا اسیر بنا لیا۔ محاورةً بھی اور حقیقت میں بھی ’’انڈین انٹیلی جینس نے ہمیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا‘‘ اگر آپ بھی پہلی بار تاج محل دیکھنے جا رہے ہیں اور تھانے میں اپنی آمد کی رپورٹ بھی درج نہیں کرائی۔ فارنرز والی طویل لائن میں بھی نہیں لگنا چاہتے۔ 750 روپے کی بجائے 20 روپے والا ٹکٹ جو کہ انڈین کے لئے ہے، لے کر داخل ہونا چاہتے ہیں تو میں آپ سے بنتی (درخواست) کرتا ہوں کہ اپنے ساتھ پاکستانی سگریٹ خاص کر گولڈ لیف کی ڈبی ضرور لے کر جائیں اور اپنا ثقافتی لباس شلوار قمیض پہن کر جائیں تا کہ آپ بھی تاج محل کی محبت میں آسانی سے گرفتار ہو سکیں۔ ہمارے ساتھیوں نے بھی یہی کیا تھا تلاشی کے دوران ایک کی جیب سے گولڈ لیف کی ڈبی نکلی۔ انٹیلی جینس والوں نے ریکی کی۔ شلوار قمیض میں ملبوس عنایت اللہ عاجز پکڑا گیا۔
تاج محل کو دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی وہ ایک لمحے میں ہوا ہو گئی مگر دوسرے ہی لمحے کچھ حوصلہ ہوا انٹیلی جینس آفیسر نے کہا ’’آپ سب آرام سے جب تک چاہیں تاج محل دیکھیں مگر واپس جانے کا خیال دل سے نکال دیں‘‘۔
ہم سب کے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ میں نے پاس کھڑے ہوئے عابد گوندل سے اس جرم کی سزا پوچھی تو اس نے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’چھ ماہ قید با مشقت‘‘۔
تاج محل کو دیکھنے کی یہ قیمت تو کچھ بھی نہ تھی۔ ہم نے یہاں کچھ تصویریں بنائیں اور پھر تاج محل کی طرف چل پڑے۔
البتہ اس واقعہ کی وجہ سے نہ تو دل کی دھڑکن متوازن تھی اور نہ ہی چال۔ ایک بار دل تاج محل کے جمال سے دھڑکتا تھا اور دوسری بار جیل کے خیال سے بجھ جاتا تھا۔
کیا اسیری تھی کیا رہائی تھی!
سیڑھیاں چڑھ کر میں تاج محل کے احاطہ میں پہنچا تو جیسے ایک جنت سے دوسری میں آ گیا یقین نہیں آ رہا تھا۔
کچھ خواب بھی حقیقت جیسے لگتے ہیں اور کچھ حقیقتیں بھی خواب جیسی ہوتی ہیں۔
یہ حقیقت بھی خواب جیسی تھی۔ ہر قدم پر آنکھ کھل جانے کا دھڑکا لاحق تھا۔ سنگ مرمر سے بنا بے داغ بے جوڑ تاج محل میرے سامنے تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کی تخلیقات میں انسان سب سے اعلیٰ تخلیق ہے تو انسان کی تخلیقات میں تاج محل سے اچھی اور کوئی تخلیق نہیں ہو سکتی۔
مجھے لڑکپن کے دن یاد آ رہے تھے۔ اپنا شہر، نہر، اسٹیشن اور تاج محل کی طرف جانے والا راستہ یاد آ رہا تھا۔ اس راستے کے رنگ برنگے سانپوں جیسے پتھر یاد آ رہے تھے۔ اپنا جنون، ولولہ اور شوق یاد آ رہا تھا۔ اپنے ماموں کی باتیں یاد آ رہی تھیں جو وہ تاج محل کے بارے میں سنایا کرتے تھے اور میرے شوق کو مہمیز ملتی تھی۔ میں اِنھی یادوں میں گم نجانے کتنی دیر سے تاج محل کے سامنے کھڑا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں کسی نے سرگوشی کی۔
’’اسٹیشن ماسٹر کی بیٹی تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت تھی‘‘۔
مجھے اسٹیشن ماسٹر کا کوارٹر اور پلیٹ فارم پر پڑا وہ خستہ حال بنچ یاد آ گیا جس پر میں بیٹھ کر کوارٹر کے دروازے کی طرف گھنٹوں دیکھتا رہتا مگر وہ تاج محل سے بھی خوبصورت لڑکی کبھی نظر نہ آئی۔
اگر حُسن توازن کا نام ہے تو تاج محل روئے زمین پر اس کی سب سے بڑی مثال کے طور پر ایستادہ ہے۔ محل کے دونوں طرف سرخ پتھر سے بنی عمارتیں اس کے حُسن اور دلکشی میں اضافہ کرتی ہیں۔ جمنا ندی مجھے شاہ جہاں کے دور کی کوئی کنیز لگ رہی تھی جس نے تاج کو ایک نظر دیکھا اور اس پر دل وجان سے فدا ہو گئی۔ اس کے رستے میں بچھ بچھ گئی۔ شرم وحیا کے پردے چاک کر کے اس کے پہلو میں بڑے مزے سے لیٹ گئی ساڑھے چار سو سال ہونے کو آئے ابھی تک لیٹی ہوئی ہے۔ اس عرصہ میں نہ تو اس نے پہلو بدلا اور نہ ہی اپنی نظریں تاج پر سے ہٹائیں اب تو وہ اس کے جسم کا حصہ بن چکی ہے۔
چاندنی راتوں میں جب تاج محل کا عکس اس کے پانیوں میں پڑتا ہے تو اس کے من کی سب مرادیں پوری ہو جاتی ہیں۔
میں جمنا ندی کی قسمت پر رشک کر رہا تھا اور میرے سامنے تاج محل پورے غرور کے ساتھ جلوہ فگن تھا۔ غرور بھی دل موہ لینے والا
غرور جچتا نہیں کسی کو
مگر تمھارا غلط نہیں ہے
تاج محل کا غرور درست ہے۔ اس غرور اور تمکنت سے ہی اس کا حُسن مکمل ہوتا ہے۔ ہر لمحہ اس کی رنگت بدل جاتی۔ نئی خوبصورتی اور حُسن آشکار ہو جاتا ہے آج مجھے پہلی بار یقین آیا تھا کہ سفید رنگ میں سات رنگ ہوتے ہیں۔ میں نے اس کی سفیدی میں کئی قوس وقزح دیکھے۔ تاج محل کو جس طرف سے بھی دیکھیں ایک جیسا نظر آئے گا ایسے لگتا ہے جیسے زمین پر ابھی ابھی کھلا ہو۔ تر و تازہ سفید گلاب کی طرح یا پھر آسمان سے فرشتے اسے بھی ابھی زمین پر لے کر آئے ہوں۔
انسانی ہاتھوں کا بنایا ہوا تو بالکل نہیں لگتا۔
اچانک میرے کانوں میں پھر کسی نے آہستگی سے کہا:
’’وہ تاج محل سے بھی زیادہ خوبصورت اور دلکش تھی‘‘۔
تاج محل کے پہلو سے ایک چہرہ نمودار ہوا اور غائب ہو گیا۔
بس ایک نگاہ میں لٹتا ہے قافلہ دل کا
یہ میرا وہم تھا یا حقیقت؟
کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ میں اس کونے کی جانب تیزی سے بڑھنے لگا وہاں پہنچا تو صرف خوشبو تھی بالکل ویسی خوشبو جیسی بارش کے بعد کچی مٹی کے بدن سے فضا میں بکھر جاتی ہے۔ میری نظریں بے ساختہ اسے ادھر اُدھر ڈھونڈ رہی تھیں کہ گھنی سیاہ زلفیں شانوں پر بکھرائے وہ محل کے دوسرے سرے سے نمودار ہوئی وارث شاہ نے جو ہیر کا سراپا اپنے اشعار میں بیان کیا ہے اس کی عملی تصویر۔
وہ جتنی تیزی سے نمودار ہوتی اتنی ہی تیزی سے غائب بھی ہو جاتی۔ اب مجھے یقین ہو گیا سچ مچ وہاں کوئی ہے۔ میں دوڑ کر اس سرے پر پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ سیاحوں کا ہجوم تھا۔ اس کو اس ہجوم میں پہچاننا بہت آسان تھا مگر وہ کہیں دکھائی نہ دی میں کافی دیر تک تاج محل کے چاروں طرف گھومتا رہا میں اب محل کو بھول کر اس ممتاز محل کو ڈھونڈنے میں مگن تھا جو مجھے اس کی اوٹ میں نظر آئی تھی کافی دیر بعد بھی جب وہ کہیں نظر نہ آئی تو میں تھک کر تاج محل کے پہلو میں بیٹھ گیا۔
باہر انڈین انٹیلی جینس کے جوان ہمیں گرفتار کرنے کے منتظر تھے۔ اِدھر تاج محل کی دلکشی نے ہمیں جکڑ رکھا تھا اور اب وہ اجنبی گھنی سیاہ زلفیں بھی ہمیں اپنا اسیر کر چکی تھیں۔ پھر بھی دل کو عجیب سا سکون اور اطمینان تھا شاعر نے شاید ایسی ہی صورتحال میں کہا ہو گا۔
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے۔
تاج محل کے پہلو میں واقعی بہت آرام تھا۔ بہت سکون تھا وہی سکون و آرام جو عبادت گاہوں میں ہوتا ہے۔ میری آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ مدھر ہنسی فضا میں بکھرتی گئی میں نے آنکھیں کھولیں تو وہ تاج محل کے پہلو میں کھڑی ہنس رہی تھی سفید آنچل کی اوٹ سے اس کا چہرہ صاف دکھائی دیتا تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے تاج محل کے پہلو سے ایک اور تاج محل نکل آیا ہو۔ ساڑھے چار سو سال پرانا نہیں بالکل تر و تازہ جیسے ابھی مکمل ہوا ہو۔ سراپا کیا تھا بقول میر:
سراپا پہ جس جا نظر کیجئے
وہیں عمر ساری بسر کیجئے
وہ سچ مچ تاج محل سے کہیں زیادہ سندر تھی۔
اس کے اندر روح تھی
اور تاج محل بے روح
اس کو دیکھ کر میری آنکھوں میں تاج محل کا طلسم ٹوٹ رہا تھا۔
میری خواہش تھی کہ میں تاج محل کے سائے میں بیٹھ کر اُن سب لوگوں کو یاد کروں جو مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ ان سب کو دیر تک سوچوں جن سے میں محبت کرتا ہوں۔
تاج محل جیسی ایک خوبصورت نظم لکھوں مگر اس سے کہیں زیادہ پیاری نظم تو میرے آس پاس تھی ہنستی، مسکراتی، شرماتی، جادو جگاتی۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ جس کے لئے تاج محل بنایا گیا ہے وہ خود کتنی سندر ہو گی۔
میرا دل زور سے دھڑکنے لگا۔
کہیں یہ ارجمند بانو کی روح تو نہیں سیر کر رہی، کہیں یہ ممتاز محل تو نہیں جو شاہ جہاں کے دل پر حکومت کرتی رہی ہے۔
کہیں یہ وہ لڑکی تو نہیں جس نے ساری دنیا کو محبت کی نشانی دی ہے۔
اس نے پہلی بار ایک نظر میری طرف دیکھا اور مسکرا دی مجھے اپنے سوالوں کا جواب مل چکا تھا میرا شک یقین میں بدل گیا تھا۔
وہ ممتاز محل کی مسکراہٹ تھی۔
ایک طرف ہیں دونوں جہان
ایک طرف تیری مسکان
گوری تیرے جوبن پر
لاکھوں تاج محل قربان
ان آنکھوں کی خاموشی
جیسے بارش کا امکان
ان ہونٹوں کی لرزش سے
اُٹھتے ہیں کیا کیا طوفان
ان پلکوں کی جنبش سے
مردہ دلوں میں آئے جان
جب میں یہ ٹوٹے پھوٹے شعر ارجمند بانو کے قدموں میں رکھنے کے لئے لکھ رہا تھا قریب بیٹھی ایک خاتون ٹیچر اپنے طلبا کو تاج محل کی کہانی سنا رہی تھی۔
’’ہندوستان کے ایک عظیم بادشاہ شاہ جہاں اور ارجمند بانو کی شادی 1612ء میں ہوئی۔ ممتاز محل اس وقت خوبصورتی اور حُسن میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتی تھیں۔ شاہ جہاں بھی اپنی ملکہ پر لاکھ دل و جان سے فدا تھا وہ ہر وقت ارجمند بانو کو اپنے ساتھ رکھتا۔
اسے ممتاز محل کے کھو جانے کا ایک دھڑکا سا لگا رہتا جیسے وہ کوئی چھوٹی سی معصوم بچی ہو وہ تو واقعی معصوم تھی جوانی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی وہ شاہ جہاں کی مضبوط بانہوں میں آ گئی تھی اور اٹھارہ سال تک بادشاہ نے اسے اپنی بانہوں سے باہر نہیں آنے دیا یہاں تک کہ وہ فوجی مہمات کے دوران بھی اُسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔
1630ء میں ملکہ جب آخری بچے کو جنم دیتے ہوئے بہت بیمار ہو گئی تو انتقال سے قبل اس نے شاہجہاں کی بانہوں میں اس سے دو وعدے لیے ایک یہ کہ اس کی وفات کے بعد اس کا ایک شاندار مقبرہ تعمیر کیا جائے جو اپنی مثال آپ ہو دوسرا کسی اور سے شادی نہ کرنے کا۔ شاہ جہاں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے اور اپنے آنسوؤں کو گواہ بناتے ہوئے دونوں وعدے کر لیے ممتاز محل کو شاہ جہاں کے وعدوں پر اعتبار تھا اس نے بڑے اطمینان اور سکون کے ساتھ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی شاہ جہاں نے اپنے دونوں وعدے پورے کئے۔
ایک تو اس نے عمر بھر پھر شادی نہیں کی دوسرا ممتاز محل کی وفات کے فوراً بعد ہی اس کی خواہش کے احترام میں مقبرہ کی تعمیر شروع کرا دی اور ممتاز محل سے اپنی محبت کو تاج محل کی صورت میں امر کر دیا۔ فنِ تعمیر کا یہ نادر نمونہ دروازہ، باغیچہ، مسجد، آرام گاہ اور روضہ پر مشتمل ہے اس کی تعمیر میں ایران اور یورپ کے ماہر تعمیرات نے اپنے فن کا جادو جگایا۔ سترہ مختلف مقامات جن میں بغداد اور یمن کے علاقے شامل تھے اس کے لئے سنگِ مرمر منگوایا گیا۔
سترہ سال کی مدت میں تاج محل تعمیر ہوا جس پر 6 کروڑ 52 لاکھ 321 روپے دس آنے لاگت آئی۔ یہ ایک بہت بڑے مستطیل باغ میں بنایا گیا۔ اس کے چاروں طرف سرخ ریت کی دیوار ہے باغ کے دوسرے سرے پر ایک دروازہ ہے جس میں قیمتی پتھر جڑے ہیں اور سنگ مرمر میں قرآنی آیات کی دلکش خطاطی کی گئی ہے۔ اس باغ کو جیومیٹریکل ڈیزائن میں ایران کے باغات کے طرز پر اس طرح بنایا گیا ہے کہ یہ باغ پورا کا پورا مقبرہ کا ایک حصہ نظر آتا ہے۔ سنگ مرمر کی دو نہریں جو اس مربع نما باغ کے درمیان میں آپس میں ملتی ہیں اس باغ کو چار برابر حصوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ گنبد اور مرکزی راستے کے درمیان سنگ مرمر کا بنا مچھلیوں کا تالاب ہے جس میں ہر وقت مقبرہ کا عکس منعکس ہوتا رہتا ہے۔ بنیادی طور پر تاج محل ایک مربع نما عمارت ہے۔ اس کے چار کونوں پر شاندار خوبصورت مینار ہیں۔ اس عمارت میں سب سے دلکش اس کا گنبد ہے جو اس عمارت کے درمیان سے اُبھرا ہوا نظر آتا ہے۔ گنبد کا قطر 70 فٹ اور پوری عمارت 120 فٹ بلند ہے۔ اس کے چار کونوں پر چار چھوٹے گنبد ہیں۔ عمارت کی ہر سمت پر مخروطی محرابیں مقبرہ کے لئے ایک شاندار دروازہ بناتی ہیں۔
مرکزی دروازہ کی محرابوں کے ساتھ چھوٹی محرابیں ہیں جو ایک دوسرے کے اوپر بنی ہوئی ہیں اس کا فرش شطرنج کی بساط کی مانند سفید اور سیاہ ماربل سے بنایا گیا ہے جو بہت متاثر کن ہے۔
قرآن کی آیات اس مقبرہ پر لکھ دی گئی ہیں جو کہ اس کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتی ہیں خطاطی کا یہ اہم ترین کام شیراز (ایران) کے ماہر خطاط امانت خان نے کیا تھا۔ امانت خان شیرازی کا نام ہی وہ واحد نام ہے جو تاج محل کے گنبد کے اندرونی طرف لکھا ہوا ہے۔ جو اس نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔ تاج محل کی تعمیر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں بڑی خوبصورتی سے مغلیہ طرز تعمیر میں ایرانی، وسطی ایشیائی اور اسلامی رنگ شامل کیا گیا ہے۔ محرابوں پر قرآنی آیات کندہ ہیں۔
تاج محل کے مرکزی کمرے میں ممتاز محل اور شاہجہاں کے پتھر کے تابوت رکھے ہیں جن پر بڑے نفیس اور باریک نقش وں گار بنے ہیں۔ ان کے جسم بہت نیچے قبروں میں دفن ہیں۔ شاہ جہاں اور ممتاز محل کے ان نمائشی تابوتوں پر پچی کاری کا دلکش کام کیا گیا ہے۔ جن میں بہت سے قیمتی پتھر جڑے ہیں اور دلکش خطّاطی میں اللہ تعالیٰ، ملکہ اور بادشاہ کی تعریف کی گئی ہے۔ تاج محل کی دوسرے جانب سرخ ریت کے پتھر سے بنی تین گنبدوں والی ایک مسجد بھی ہے۔
طلباء کی آنکھوں میں شوق اور دلچسپی کے ستارے دیکھ کر خاتون ٹیچر نے اپنی کہانی کو مزید دلچسپ بنا لیا کچھ یوں۔
’’ارجمند بانو، ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خان کی صاحبزادی تھی۔ ملکہ نور جہاں نہیں چاہتی تھی کہ ارجمند بانو کی شادی شاہ جہاں سے ہو جو اس وقت مغل بادشاہ جہانگیر کا ولی عہد تھا۔ ملکہ نور جہاں کی خواہش تھی کہ شاہ جہاں کی بجائے اس کے داماد شہر یار کو ولی عہد بنایا جائے اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس نے شاہ جہاں کے خلاف سازش کی اور شہنشاہ جہانگیر کو کہہ کر اسے حیدر آباد دکن فتح کرنے بھیج دیا جہاں سے شاہ جہاں کی واپسی کے امکانات بہت کم تھے لیکن ہوا یوں کہ شاہ جہاں نے دکن فتح کر لیا جب یہ اطلاع دارالحکومت پہنچی تو ملکہ نور جہاں نے اپنے بھائی آصف خان کو بلا کر تنبیہہ کی کہ وہ شاہ جہاں کے ساتھ ارجمند بانو کی شادی نہ کرے۔ آصف خان نے لیت ولعل سے کام لیا تو نور جہاں نے اسے خبردار کیا کہ وہ شاہ جہاں کو واپس آنے ہی نہیں دے گی۔ جس کے بعد نور جہاں نے شہنشاہ جہانگیر کو کہہ کر شاہ جہاں کو نائب السلطنت کا خطاب دلوا دیا کہ یہ اسے حیدر آباد دکن فتح کرنے کی خوشی میں دیا جا رہا ہے اور اب اسے واپس آنے کی ضرورت نہیں وہ راستے سے ہی واپس لوٹ کر حیدر آباد دکن کا انتظام سنبھال لے۔ شاہ جہاں نے شاہی حکم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سفر جاری رکھا شاہی محل میں جب وہ ارجمند بانو سے گفتگو کر رہا تھا ’’کہ میں اپنی ایک شرط پوری ہونے تک حیدر آباد دکن واپس نہیں جاؤں گا‘‘۔
شہنشاہ جہانگیر موجود تھا۔ اس نے شرط پوچھی تو شاہ جہاں نے کہا۔
’’ارجمند بانو سے شادی‘‘۔
چنانچہ جہانگیر نے دونوں کی شادی کرا دی یوں ملکہ نور جہاں کی کوششیں رائیگاں گئیں۔
اُس آنکھ کا نشہ کافی ہے
ممتاز محل کو اپنا کلام سُنانے کا حوصلہ کہاں سے لاتا۔
تاج محل کے سنگِ مرمر جیسا تو ایک مصرعہ بھی نہ ہوا۔
اُس نے نظر نظر میں ہی ایسے بھلے سُخن کہے
میں نے تو اُس کے پاؤں میں سارا کلام رکھ دیا
حالانکہ وہ کلام تو اس قابل بھی نہ تھا۔
کچھ دیر بعد ارجمند بانو اپنے ناز و انداز دکھاتی، اپنے حُسن سے تاج محل کو شرماتی دوبارہ جا کر اپنی ابدی آرام گاہ میں سو گئی۔
شاہ جہاں کی زندگی کے آخری دن مجھے یاد آنے لگے۔
چاروں طرف اُداسی پھیلتی گئی۔
شاہ نے گوشہ تنہائی میں جو شب و روز گزارے وہ بہت اذیت ناک تھے۔
اُس کے دل پر کیا گذری ہو گی۔
شاہ نے ممتاز محل کی یاد میں کتنے آنسو بہائے ہوں گے۔
جب وہ آگرہ قلعہ کے قید خانے سے اپنے تعمیر کردہ اس عظیم شاہکار کو حسرت و یاس سے دیکھتا ہو گا تو اُسے کتنا دکھ ہوتا ہو گا ممتاز محل کے ساتھ محبت بھرے گذرے لمحوں کو یاد کرتا ہو گا تو دل لہو سے بھر جاتا ہو گا۔
بادشاہوں کے جیون بھی عجیب ہوتے ہیں۔
جتنی بڑی خوشیاں اتنے بڑے دکھ۔
انڈین پولیس کا خیال آتے ہی ایسا لگا جیسے میں بھی آگرہ فورٹ کے قید خانے سے تاج محل کا نظارہ کر رہا ہوں۔
تاج محل کو جتنے سیاح دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے دیکھنے لائق تھے۔ ہر چہرے پر حیرانی، تجسس اور چمک منفرد تھی۔ انداز جدا تھا۔
اُن میں ایک دراز قد اور دراز زلف گوری تاج کے ساتھ لگ کر اس طرح کھڑی تھی۔
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
تین باتیں ہو سکتی تھیں۔
یا تو وہ اس ملال میں تھی کہ یہ تاج محل اُس کے لئے کیوں نہیں بنایا گیا یا وہ سوچ رہی تھی کہ اسے بھی کوہِ نور ہیرے کی طرح چرایا کیوں نہیں گیا۔
ہر خوبصورت اور قیمتی چیز پر ہمارا حق ہے
تو یہ ہندوستان کے حصہ میں کیوں؟
یا پھر وہ اپنے بوائے فرینڈ یا لوّر کو یاد کر رہی تھی۔
اُداس اُداس سی تھی۔
خوبصورت آنکھوں میں اُتر کر اُداسی بھی خوبصورت ہو جاتی ہے۔
حسین چہروں پر غم بھی رنگ کی طرح چڑھتا ہے اُن کو پہلے سے بھی زیادہ حسین بنا دیتا ہے۔
اُس نے ٹائٹ بلیک جینز اور پنک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔
محبت کے رنگ میں رنگی ہوئی۔
تاج محل کے پہلو میں مشرق و مغرب کا حُسن آپس میں گھل مل گیا تھا۔
میں اُسے دور سے دیکھتا رہا، قریب نہیں گیا۔
وہ اپنے دھیان میں بیٹھی مجھے اچھی لگی تھی۔
شاخ بدن سے لگتا ہے
مٹی راجستھانی ہے
یہ محبت کی یادگار دلوں کو ملانے والی ہے۔
جدا کرنے والی نہیں۔
ہم سب دوستوں نے ایک دوسرے کو چند لمحوں میں تلاش کر لیا
جیل یاترا سے بچنے کے لئے کچھ کرنا ضروری تھا۔
ستیہ جی کے علاوہ وہاں ہمارا کون تھا۔
فیصلہ یہی ہوا کہ اُن کو فون کیا جائے۔
پر کیسے کیا جائے؟
پولیس والوں کی درخواست، منت، سماجت اور کیا؟
چلنے کیلئے اٹھے تو دل بیٹھ گیا۔
تاج محل سے جانے کا تصور بہت بھیانک تھا۔
مگر جانا تو تھا۔
سو ہم تاج محل کو چھوڑ کر جا رہے تھے۔
مجھے جمنا ندی کی قسمت پر ایک بار پھر رشک آ رہا تھا جو بڑے مزے سے تاج محل کے پہلو میں لیٹی ہوئی تھی۔
اُدھر سورج ڈوب رہا تھا اور اِدھر دِل۔
خلیل جبران نے سچ کہا ہے:
’’میرے محبوب کا گھر پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔ جب میں اُس سے ملنے جاتا ہوں تو پہاڑ پر چڑھتے ہوئے پتہ بھی نہیں چلتا یوں لگتا ہے جیسے اُتر رہا ہوں اور جب مل کر واپس آتا ہوں تو قدم اُٹھانا مشکل ہو جاتا ہے ایسا لگتا ہے جیسے پہاڑ پر چڑھ رہا ہوں، میرے قدم بھی نہیں اٹھتے تھے‘‘۔
جیسے ایڑیوں میں پارہ بھر گیا ہو۔
پھر بھی وہ سب زنجیریں جنھوں نے جکڑ رکھا تھا ایک ایک کر کے ٹوٹ رہی تھیں اور تاج محل مجھ سے دور ہوتا جا رہا تھا۔
اُس وقت کے ہوم منسٹر ایل-کے ایڈوانی کے ایک فون نے ہمیں چھ ماہ کی قید با مشقت سے تو بچا لیا مگر تاج محل کے پہلو سے اُٹھ کر آنے والی سزا سے کوئی نہ بچا سکا۔
جس طرف جاؤں وہی عالم تنہائی ہے
جتنا چاہا تھا تمہیں اتنی سزا پائی ہے
بھری دنیا میں جی نہیں لگ رہا تھا۔
دوست پی رہے تھے۔
بھنگڑے ڈال رہے تھے۔
رہائی کو Celebrate کر رہے تھے۔
میرے سامنے بوتل پڑی تھی۔
میں بھی جدائی کو Celebrate کر رہا تھا۔
مگر اُن آنکھوں کو یاد کر کے۔
تم اپنا جشن منا لینا میں اُس کی یاد مناؤں گا
اُس آنکھ کا نشہ کافی ہے یہ بوتل موتل رہنے دو
پجارو دہلی جانے والی سڑک پر یوں جھوم جھوم کے جا رہی تھی جیسے اُس نے بھی پی رکھی ہو حالانکہ پی تو سردار جی نے رکھی تھی مگر جھوم پجارو رہی تھی خالد احمد کے کالم کی طرح مجھے اس بات کی سمجھ بھی آج تک نہیں آئی۔
میں نے کہیں پڑھا تھا غم کے موقع پر اگر رونا نہ آئے تو کوئی بات نہیں، ہنسنا نہیں چاہئے۔
سب ہی گاڑی میں مستی کر رہے تھے، گا رہے تھے، لطیفے سُنا رہے تھے میں شیشے سے باہر آگرہ کی طرف تیزی سے بھاگتے منظروں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر یہ منظر میری آنکھوں میں تیرنے لگے اور پھر ایک ایک کر کے ڈوب گئے۔
شام گہری سے گہری ہوتی گئی اور اُس نے شب کا پیرہن پہن لیا۔
سردار جی نے پجارو اچانک ایک ہوٹل پر روک دی۔ وہ ہوٹل بھی سرداروں کا تھا۔ لاہور میں جس طرح پٹھان رکشہ ڈرائیور اکثر پٹھانوں کے ہوٹل سے چائے پیتے اور کھانا کھاتے ہیں یہ اُس طرح کی سوچ تھی۔
ساگ، پراٹھے اور مکھن ٹیبل پر دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ پہلی بار سردار جی کی عظمت کا قائل ہونا پڑا۔
ساگ تو پنجاب کا تھا مگر پراٹھا اُڑیسہ کا لگ رہا تھا، چھوٹا دبلا پتلا کمزور۔
ملک میں یا ملک سے باہر ہم پاکستانی جہاں بھی جائیں پکڑے جاتے ہیں تاج محل سے رہائی ملی تو ساگ اور پراٹھوں نے پکڑوا دیا۔ جب ہم آٹھ لوگوں نے چالیس پراٹھے کھانے کے بعد مزید پراٹھوں کے لئے ویٹر کو آواز دی تو ہوٹل کے مالک بذاتِ خود ہماری زیارت کے لئے تشریف لائے صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کس ملک کے باشندے اُن کے ہوٹل کے پراٹھوں کو شرف بخش رہے ہیں۔ اُنھیں دیدار کرتے ہی پتہ چل گیا کہ پاکستانی ’’فوجاں نیں‘‘۔
وہ اُس وقت تو پسپائی اختیار کر گئے مگر بل بناتے ہوئے بھرپور حملہ کیا اور ہماری جیبیں ہلکی کر دیں۔ ساگ پراٹھے 1200 روپے انڈین کرنسی میں تھے۔
میں نے عابد گوندل سے کہا:
یہ بل پاکستان دشمنی کا دستاویزی ثبوت ہے۔
اس نے ہمیشہ کی طرح نفی میں سر ہلایا اور جواب دیا:
’’یہ آپ کے تاج محل کی طرف جانے والے راستے کی برکات ہیں‘‘۔ ’’آپ کے تاج محل‘‘ کے الفاظ سُن کر ہم خود کو مابدولت سمجھنے لگے اور کمال فیاضی سے اپنے حصہ کی رقم عابد گوندل کی ہتھیلی پہ رکھ دی۔
ہم رات گئے آگرہ سے دِلّی لوٹے تو یہ خیال آتے ہی دل بہت خوش ہوا کہ کل ہماری پاکستان روانگی ہے۔ انڈیا میں گزرے تیرہ دن ہمیں تیرہ صدیوں کے برابر لگ رہے تھے وطن کی یاد نے آنکھیں بھگو دیں نجانے کب نیند آ گئی۔
یہ تو مفت کی رسوائی تھی
صبح اُٹھ کر ہم نے لاجپت بھون کے گراؤنڈ میں بچوں کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ اس دن کے بعد ہم نے سوچا آئندہ کبھی بچوں کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلیں گے ہمارے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوا تھا بہت چوکے چھکے پڑے تھے یہ تو مفت کی رسوائی تھی اس سے بہترہے بندہ کسی لڑکی کے چکر میں رسوا ہو۔
کمرے میں آ کر ہم نے اپنے بیگ سے وہ لمبی لمبی فرمائشی فہرستیں نکالیں جو دوستوں، رشتہ داروں، بیگم، بچوں اور ہمسایوں نے آتے وقت ہمارے ہاتھ میں تھما دی تھیں اور آنہ ٹکہ دئے بغیر بار بار تاکید بھی کر دی کہ خالی ہاتھ مت آنا۔ ہم نے ان تمام لِسٹوں میں سے بیگم اور بچوں کے فرمائشی پروگرام پر نشان لگایا کیونکہ پاکستان پہنچ کر ہم نے سیدھا گھر جانا تھا۔ اس لئے ان کی چیزیں بہرحال ہمیں خریدنی تھیں۔
ساڑھیوں اور مصنوعی جیولری کے علاوہ انڈیا میں پاکستان سے کچھ الگ نہیں جو خریدا جا سکے سو ہم نے بھی اسی پر اکتفا کیا۔ نیز اب ہندو بنیئے سیانے ہو گئے ہیں پاکستانی چہرہ تو ویسے بھی دور سے پہچانا جاتا ہے سو قیمت تین گنا زیادہ مانگتے ہیں۔ یہاں کے دوکاندار بھی اب ہمارے ہاں کے پٹھانوں کی طرح ’’اُسترے‘‘ بن گئے ہیں۔
واپس پاکستان ہمیں ریل گاڑی سے جانا تھا اس لئے ہم بہت جذباتی ہو رہے تھے جلدی میں بہت سی یادیں لاجپت بھون کے کمرے میں رکھی رہ گئیں کچھ چہرے دیواروں سے اُتارنا بھول گئے صرف وہی یادیں ساتھ رہیں جو سانسوں میں خوشبو کی طرح بس گئی تھیں صرف وہی چہرے ساتھ آئے جو آنکھوں میں خوابوں کی طرح ٹھہر گئے تھے۔
دلّی اسٹیشن دور سے لاہور اسٹیشن جیسا لگ رہا تھا۔ اندر داخل ہوئے تو ’’بلّے بھئی بلّے‘‘۔ اتنی رونق، اتنی گہما گہمی، اتنے پلیٹ فارم، کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کدھر جائیں؟
مختلف پلیٹ فارموں پر مدھر آوازوں میں بغیر کسی توقف کے اناؤنسمنٹ جاری تھی۔ اگرچہ اس خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی کہ ہم اپنے گھر اپنے دیس پاکستان جا رہے تھے پھر بھی جب اُس بھیگی ہوئی سرد رات میں ٹرین نے دِلّی کا ریلوے اسٹیشن چھوڑا تو دِل کو بہت دُکھ ہوا۔
ہماری بھیگی آنکھوں میں انڈیا میں گزرے شب و روز کی فلم چلنے لگی پیچھے بھاگتے منظروں میں ہم نے ایک ایک چہرے کو الوداع کہا ایزون کی ہنسی کو الوداع کہا۔ پلّاوی کی اداؤں کو الوداع کہا۔ پرساد کی باتوں کو الوداع کہا ستیہ جی کی شخصیت کو الوداع کہا اور خیالوں ہی خیالوں میں نجانے کس وقت ہماری آنکھ لگ گئی۔
صبح ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا کہ ہم اٹاری ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گئے۔ سورج نکلا تو اس کی کرنوں کے ساتھ ڈاکٹر ایس-اے محال اور اُن کی بیگم امرتسر سے ہمارے لئے ناشتہ لے کر آئے ہوئے تھے وہ بھی پنجاب کا روایتی ناشتہ، ساگ، مکھن، پراٹھے، لسی سب سے بڑھ کر یہ کہ اس بات کی خبر رکھنا کہ ہم فلاں ٹرین سے صبح اٹاری پہنچ رہے ہیں میزبانی کی عمدہ مثال تھی۔
اُنھوں نے اپنی باتوں، اخلاق، محبت اور دریا دلی سے سچ مچ ہمارے دِل جیت لیے تھے جب ٹرین اٹاری سے واہگہ میں داخل ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے اُس پار کے سب منظر گم ہو گئے کچھ چیزیں اپنی نہیں ہوتیں لیکن اُن کے کھو جانے کا دُکھ بہت ہوتا ہے۔
٭٭٭
ماخذ:
https://salamurdu.com/category/urdu-writings/urdu-safar-namay/page/2
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
OOOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل