ایک اہم افسانہ نگار کے فن کا جائزہ
احمد رشید (علیگ) اور ان کا فن
مرتبہ
اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…..کتاب کا نمونہ پڑھیں
احمد رشید (علیگ)
اور ان کا فن
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
احمد رشید :کوائف ۔۔۔ نہال افروز
احمد رشید (علیگ) کی پیدائش 10؍ جولائی 1957ء کو علی گڑھ، اتر پردیش کے ایک متوسط گھرانے میں ہوئی۔ ان کا اصلی نام عبد البشیر ہے، لیکن انہوں نے احمد رشید کے قلمی نام سے اپنی پہچان بنائی۔ ان کے والد کا نام عبد الرشید اور والدہ کا نام ہاجرہ بیگم تھا۔ احمد رشید کی عمر تقریباً آٹھ سال کی ہی تھی کہ ان کے سر سے ماں کا سایہ اٹھ گیا، جس کی وجہ سے ان کے والد ہی نے ان کی پرورش کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت بھی کی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے کی سند حاصل کی اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔
احمد رشید کا درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ادب اور صحافت سے بھی گہرا تعلق رہا۔ اسی لیے ان کی ادبی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا۔ اس کے علاوہ وہ ’’مشرقی آواز‘‘ کے نیوز ایڈیٹر بھی رہے، جو بیک وقت دہلی، گورکھپور اور علی گڑھ سے جاری ہوا کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی میگزین ’’ندائے جمہوریہ‘‘ میں بحیثیت مترجم اور میگزین ’’لطیفہ‘‘ علی گڑھ سے بھی وابستہ رہے۔
احمد رشید کی پہلی کتاب مضامین کا مجموعہ ’’پہلا نقش‘‘ کے عنوان سے 1975ء میں منظر عام پر آئی۔ اس مجموعے میں جملہ چھ تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ اس کے بعد ان کا ایک انشائیہ بعنوان ’’گوہر آبدار‘‘ مشہور رسالہ ’’خاتون مشرق‘‘ میں 1977ء میں شائع ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’شیشہ ٹوٹ گیا‘‘ کے عنوان سے دہلی سے نکلنے والے رسالے ’’شاہ جہاں‘‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہیں اپنی تحریروں پر اعتبار حاصل ہوا اور تواتر کے ساتھ لکھنے لگے۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے ’’وہ اور پرندہ‘‘ (2002ء) اور ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ (2014ء) میں منظر عام پر آ کر اپنے حصے کی داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
حال ہی میں ان کی نثری نظموں کا مجموعہ ’ارتماس لمس‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تنقید کے میدان میں ، بطور خاص فکشن تنقید میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے اور ان کی کتاب ’’’فکشن : تنقید و تجزیہ‘‘ بھی حال ہی میں چھپ چکی ہے۔
٭٭٭
فن کے تخلیقی امکانات کا ڈسکورس: احمد رشید کے افسانے ۔۔۔ شافع قدوائی
افسانہ مقبول عام تصور کے برخلاف محض روزمرہ کے کسی مانوس تجربے، خارجی مظاہر، معاشرتی چیرہ دستیوں، قدرت کی ستم ظریفیوں یا کسی گہرے داخلی احساس یا وجودی سروکاروں کی فنکارانہ شعور کے ساتھ ترسیل سے عبارت نہیں ہوتا بلکہ یہ اصلاً زبان کے حوالے سے حقیقت کا ایک ایسا رویا (Vision) خلق کرتا ہے جسے ہم اپنی تہذیبی ترجیحات اور ثقافتی آرزو مندیوں کے حصول کے لیے ’’حقیقت‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ فن پر خارجی حقیقت کا التباس اس قدر قوی ہوتا ہے کہ اسے عام زندگی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے۔ اصناف ادب کی نظری اساس کے خدوخال کی وضاحت، ہیئتی امتیازات کی متعین نشاندہی اور موضوع کی تعبیر و تشریح کو تنقید کا بنیادی وظیفہ متصور کیا جاتا ہے اور فن پارہ کی تعین قدر میں تخلیقی متون سے استنباط کو کم ہی درخور اعتنا سمجھا جاتا ہے اور تنقید ایک نوع کے Platiude کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔
افسانہ صداقت کا پرتو ہونے کے بجائے ایک پُر پیچ اور سیال لسانی حقیقت کو قائم کرتا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ افسانوی متن سے براہ راست اس کی تفہیم کے اصول وضع کیے جانے کی سعی کی جائے اور اگر کسی فن پارہ میں تخلیقی عمل کی پیچیدہ حرکیات اور بیانیہ عرصہ کی تشکیل کے مراحل کو موضوع بحث بنایا گیا تو اس تفہیم کا اساسی حوالہ بنایا جائے۔ افسانہ کس طرح خود کو قائم کرتا ہے، یہ بیانات (Narratalogy) کا بنیادی مسئلہ ہے اور کسی طرح ثقافت کے متخالف اور متجانس عناصر حسیاتی رد عمل کو مہمیز کرتے ہیں اور افسانہ کس طرح ثقافتی عرصہ کے بعض نمایاں پہلوؤں کو جسے باختن نے Chronotype سے تعبیر کیا ہے، مرکز نگاہ بناتا ہے اور پھر کس طرح انہیں Subvert کرتا ہے، افسانہ کی تنقید کا بنیادی سروکار ہے۔ عالمی ادب کے علی الرغم اردو فکشن میں ایسی تحریریں بہت کم لکھی گئی ہیں جن میں فن کے مابہ الامتیاز عناصر کو ایک خیال انگیز مکالمہ کا ہدف بنایا گیا ہو۔ افسانہ کو افسانہ کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش فعل عبث نہیں بلکہ یہ اصلاً تخلیقی امکانات کے لیے افق ہویدا کرتی ہے۔ انتظار حسین نے اب سے کوئی چار دہائیاں قبل اپنے ایک نسبتاً غیر معروف افسانہ ’انجنہاری کی گھریا‘ میں اپنے افسانہ کے فن پر اظہار کیا تھا یہ اردو میں غالباً پہلا افسانہ ہے جس میں ضمناً ہی سہی افسانہ کی بافت اور اس کی غرض و غایت پر روشنی ڈالی ہے۔ یہ اصلاً Meta Story ہے یعنی افسانہ کے فن کے بارے میں اظہار خیال کیا گیا ہے، اسے انگریزی میں Story about Story کہا جا سکتا ہے:
’’اس گارے کا گولا تو میں بعد میں بناؤں گا لگے ہاتھوں یہ بات شروع میں بتاتا چلوں کہ یہ افسانہ میں اپنے افسانہ کو سمجھنے کی غرض سے لکھ رہا ہوں۔ انجنہاری کے واسطے سے اپنے اس افسانہ کی بات اکثر لوگوں کے لیے میری کم علمی اور گنوارپن کی دلیل بن سکتا ہے۔ میں تو کہہ رہا ہوں کہ زندہ تعلق میرا کتابوں سے نہیں مخلوقات سے رہا ہے۔‘‘ (انجنہاری کی گھریا)
انتظار حسین کے مذکورہ افسانہ کے بعض حصوں پر Story Narrataloty کا اطلاق کیا جا سکتا ہے اور احمد ہمیش، اسد محمد خاں، خالد جاوید اور صدیق عالم وغیرہ کے بعض افسانے جزوی طور پر اس نوع کے بیانیہ خلق کرتے ہیں مگر کسی ایک مکمل افسانہ کے توسط سے Story Narratology کے جملہ امکانات کو بروئے کار لانے کی کوشش بہت کم کی گئی ہے۔ مقام مسرت ہے عہدِ حاضر کے ایک معروف افسانہ نگار احمد رشید نے اس سلسلے میں کامیاب پیش رفت اپنے افسانہ ’کہانی بن گئی‘ سے کی ہے۔ افسانہ کے عنوان سے لے کر کرداروں کے اعمال و افعال اور بیان کردہ تجربات اور وقوعات کے ان عوامل کو مرکز نگاہ بنایا گیا ہے، جس کے توسط سے بیانیہ کو تشکیل دینے کے عمل کی حرکیات پوری طرح روشن ہو گئی ہے۔ افسانہ کسی تصور- اپنی تخلیقی بافت کا حصہ صرف اسی صورت میں بنایا جا سکتا ہے جب داخلی ارتکاز کی وساطت سے Story line کو ثروت مند بنایا جائے اور قاری کی دلچسپی کا مسلسل التزام رکھا جائے۔
احمد رشید کے افسانوں کے دو مجموعے اہل نظر سے داد حاصل کر چکے ہیں اور ان کی تخلیقی ہنر مندی کے امتیازات کی نشان دہی اب بھی اردو تنقید کے ناخن پر تاہم قرض ہے۔ احمد رشید جدید افسانہ کی ایک امتیازی صفت یعنی استعاراتی اور تمثیلی طرز اظہار کے قتیل ہونے کے باوجود کثیر حسی بیانیہ کے امکانات کا تخلیقی سطح پر اثبات کرتے ہیں اور اپنے افسانوں میں کرداروں کے تفاعل اور راویوں کے نقطۂ نظر سے افسانوی متن کو ایک مرکزی آواز کے جبر سے آزاد کر کے افسانہ کی خفا Polyphony میں منقلب کر دیتے ہیں۔ افسانہ کی بافت سے متعلق تصورات کی مختلف جہتوں کو افسانہ کی ترسیل کا حوالہ بناتے ہیں۔ احمد رشید کے افسانہ ’کہانی بن گئی‘ کے عنوان سے ایک نوع کے تخلیقی اہتزاز اور سرخوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مگر معاملہ محض جذباتی تسکین کا نہیں ہے کہ بیان کردہ تجربہ کسی طرح سادہ نہیں ہے۔ افسانہ ایک ادھیڑ عمر عورت اور اس کے ہم سِن مرد کی ملاقات، جو بادی النظر میں متوقع اور پلان نظر آتی ہے، کے محور پر گردش کرتا ہے اور مکالموں کی وساطت سے عمل کی صورت پیدا کی گئی ہے۔ فن کی تخلیق کو در اصل عمل اور رد عمل کو محیط ایک پُر پیچ تجربہ سمجھا جاتا ہے۔ مگر افسانہ کے راوی کے نزدیک عمل اور رد عمل کی تقسیم مصنوعی اور معنویت سے عاری ہے۔
’’شاید آپ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان کا کوئی بھی عمل اپنے آپ میں رد عمل ہوتا ہے، ’’جی ہاں رد عمل ہی تخلیق کی بنیاد ہے۔ عمل کی کھوج بین قانون داں، صحافت داں اور دیگر علوم کے ماہرین کرتے ہیں۔‘‘ (کہانی بن گئی)
منظر، پس منظر اور پیش منظر سے فن اپنی غذا حاصل کرتا ہے۔ مگر راوی کے نزدیک یہ مقبول عام تصور جزوی حقیقت کا حامل ہے کہ فن اس سے ماورا ہے گو کہ:
’’منظر اور پس منظر کے درمیان فن ہے، پیش منظر ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور پس منظر ہم محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں۔‘‘
ما بعد جدید عہد کا شناس نامہ بعض اعلانات ہیں، جس میں تاریخ کی موت، آئیڈیالوجی کی موت، اور مصنف کی موت شامل ہے۔ اسی طرح میڈیا کی خلق کردہ چکا چوند سے آباد تمام سوسائٹی Spectele Society میں اب حقیقت اور افسانہ کا فرق معدوم ہو گیا ہے اور ہر تخلیقی تحریر Panfictionality کی نئی صورت سامنے آتی ہے۔ کہانی خارج میں وقوع پذیر نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ اس آن واحد کا حصہ ہے جہاں کہانی اور واقعہ کی تفریق یکسر مٹ گئی ہے۔ کائنات جس کا ہر منظر انکشاف بھی ہے اور حجاب بھی، تخلیقی اظہار کے نئے امکانات وا کرتی ہے۔ زندگی کا ہر مظہر اور اس سے متعلق بیانیہ ایک نوع کی کہانی ہے، جس پر موت کے سائے لرزاں نہیں ہیں اور کہانی مرنے کا تصور ہی بے معنی ہے۔ افسانہ کا راوی کہانی کے مر جانے کی تکذیب کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ایک خیال ہے کہ کہانی مر گئی ہے۔‘‘
’’جب تک کرۂ ارض پر ایک انسان بھی زندہ ہے کہانی مر نہیں سکتی۔ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ ہر زندگی کے اندر پوشیدہ کائنات کے رموز کا انکشاف اور اس کا بیان دیگر اس کے ایک لمحہ کا اظہار از خود کہانی ہوتا ہے نگاہ چاہیے کہانی تلاش کے لیے۔‘‘ (کہانی بن گئی)
احمد رشید کے نزدیک کلائمکس افسانہ کی لازمی صفت نہیں ہے کہ اس کے فقدان کے باوجود ایک افسانہ اچھا ہو سکتا ہے۔ کلائمکس سے عاری افسانہ مابعد جدید افسانہ کی ایک نمایاں صفت ہے۔ ایسے بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں جن میں ابتداء، وسط اور اختتام کے تصور کو (Subvert) کیا گیا ہے اور یہ افسانے وسط (Middle) میں سانس لیتے ہیں۔ افسانہ میں افسانہ کے فن پر گفتگو اسے افسانہ نہیں بناتی اس کے لیے قاری کی دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے Story line ضروری ہے۔ احمد رشید کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے اس افسانہ میں ایک ادھیڑ عمر کی عورت اور مرد کی باہمی ملاقات سے قبل جو (Build Up) کیا ہے وہ بہت readable ہے۔ عورت اولاً اسٹیشن پر ٹرین کا انتظار کرتی ہے پھر ٹرین کے ڈبے میں مسافروں کی آپسی چپقلش اور پھر منزل مقصود تک پہنچنے سے قبل مختلف لوگوں سے اس کے مکالمے میں یہ پورا بیانیہ بہت Engaging ہے۔ احمد رشید کا یہ افسانہ ہمیش کے مشہور افسانے ’کہانی مجھے لکھتی ہے‘ کے تئیں ایک تخلیقی رد عمل کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
کائنات کے مختلف مظاہر علی الخصوص ادب کا تانیثی نقطۂ نظر سے مطالعہ اور محاکمہ ہمارے زمانے کا حاوی ڈسکورس Dominant Discourse ہے اور فن کی دنیا میں عورت کو ’بلبل گرفتار‘ کے طور پر پیش کرنے کا چلن عام ہے اردو میں تو صورت اور بھی خراب ہے۔ اردو میں عورت کی لاچاری اور بے بسی کو جذباتی رقت انگیزی کے ساتھ پیش کرنے کو تانیثی بیانیہ Feminist Narrative سمجھا جاتا ہے۔ زیادہ تر افسانوں میں ایک ایسی عورت سامنے آتی ہے جو مرد اساس معاشرہ میں انفرادی تشخص سے یکسر عاری اور ہر قسم کے ظلم اور استحصال کا ہدف ہے۔ اس کا وجود محکومی کی بدترین مثال ہے وہ ہر جگہ زنجیروں میں قید بے دست و پا ہے۔ مذہبی اور معاشرتی پابندیاں اس کے وجود کا ناگزیر حصہ ہیں۔ عورت محض ممتا اور امور خاندانی میں مہارت رکھنے والی نہیں بلکہ وہ اپنی کائنات کی Arbiterبھی ہے وہ ایک ایسا وجود ہے جو لازماً مدد پر منحصر نہیں ہے۔ جوزف بون اور مائیکل کنڈن نے اپنی مرتبہ کتاب Emerging: The Question of Feminist Criticism میں لکھا ہے کہ اکثر مرد تخلیق کار عورت کے تخیلی وجود کو مرکز نگاہ بناتے ہیں۔ احمد رشید کے افسانوں میں ہمارے زمانہ کے حاوی ڈسکورس تانیثیت سے بھی تخلیقی سطح پر خیال انگیز مکالمہ قائم کیا گیا ہے۔ احمد رشید نے اردو کے عام افسانہ نگاروں بشمول خواتین فن کاروں کی طرح عورت کی زبوں حالی اور بے بسی کے جذباتی بیان کو اپنا بنیادی سروکار نہیں بنایا بلکہ انھوں نے اپنے متعدد افسانوں مثلاً ’’بجوٹ‘‘، ’’فیصلے کے بعد‘‘، ’’کہانی بن گئی‘‘ اور ’’کھوکھلی کگر‘‘ میں عورت کی اسٹرویو ٹائپ امیج کو شکست کر کے عورت کا ایک متبادل امیج بھی پیش کیا جس سے عورت کے Empowerment کی نئی صورت سامنے آتی ہے۔ ان کے متذکرہ افسانوں میں عورت کے صنفی تشخص سے قطع نظر تخلیق، علم، طاقت اور اسناد سازی (Canon Formation) میں عورت کی سرگرم شرکت کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے اور تانیثی تجربے کی (Interiority) کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ فن کی تخلیق پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور اس عمل میں عورت اور مرد دونوں کو مساوی مرتبہ حاصل ہے، کہانی بن گئی‘ کا راوی تخلیق پر مردوں کی خود ساختہ اجارہ داری کے طلسم کو شکست کر دیتا ہے اور برملا کہتا ہے:
’’انسان کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا بیان فن کی معراج ہے۔ میں نے کہا ’’زندگی کی اعلیٰ و ارفع کیفیتوں کا اظہار عورت ہی کر سکتی ہے ورنہ زندگی کی پستی اور ادنیٰ کیفیتیں فن کا موضوع بنانے کے لیے میرے جیسا فنکار چاہیے۔ لیکن میں مسٹر روی کمار کی بلندی کو تسلیم کرتے ہوئے یہ بات پورے دعویٰ کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ… فنکار کوئی عورت ہو سکتی ہے۔‘‘ (کہانی بن گئی)
اسی طرح احمد رشید کا افسانہ ’بجوٹ‘ بانجھ عورت کے وجودی سروکاروں، احساس محرومی اور عدم احساس تحفظ کے حسیاتی تناظر کو واضح کرتا ہے گو کہ انجام متوقع اور کسی نادیدہ منطقہ سے واقف کرانے سے عبارت نہیں نظر آتا ہے۔ انسان کو اکثر اس کے نا کردہ گناہوں کی سزا ملتی ہے اور اگر یہ معاملہ عورت کا ہے، تو صورت حال مزید خراب ہو جاتی ہے۔ تولید کا عمل دو نفوس پر مشتمل ہے تاہم محرومی یا ناکامی کے لیے ایک ہی فرد یعنی عورت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ افسانہ کی مرکزی کردار کی خود کلامی ملاحظہ کریں:
’’بیٹھی تنہا رہ گئی۔ دھوپ چند لمحے پہلے رحمت تھی، سورج سمیت بدن میں داخل ہوئی اور سخت سردی میں دل و دماغ کو نار کی مانند جلانے لگی۔ سوچنے لگی بجوٹ ہونے میں میرا کیا قصور؟ دن رات جلنے کے لیے بجوٹ ہونا از خود نار جہنم ہے۔ زندہ رہنا بھی ہے اور جلنا بھی ہے …… کیا میں اپنی مرضی سے بجوٹ ہوں میرا بس چلے تو صبح لڑکا شام لڑکی پیدا کروں۔‘‘ (بجوٹ)
احمد رشید نے عورت کو Empower کرنے کی مجوزہ حکمت عملی یعنی اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے پر بھی سوالیہ نشان قائم کیا ہے۔ افسانہ ’فیصلے کے بعد‘ کی ہیروئن شق کا مکالمہ دیکھئے:
’’کیا عورت کی ہر بات مان لینا اس کی حفاظت کرنا ہے؟‘‘
اسی طرح ہیرو آفتاب بھی عورت کی آزادی کے تصور کو Subvert کرتا ہے:
’’تم تو آزاد ہو، آزادی کے لیے لڑتی پھرتی ہو، پھر کمی کس بات کی ہے۔ آفتاب نے خاموشی کا یہ سلسلہ توڑا۔
حیرت کی بات ہے کہ حقوق نسواں کی Activist اس کی تائید کرتی ہے
’’اور میں ٹوٹ گئی ہوں … قید ہو گئی ہوں آزادی کی جد و جہد میں‘‘
اس طرح احمد رشید کے افسانے اردو میں تانیثی ڈسکورس کو یک رخا اور سطحی بنانے کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں اور ایک خیال انگیز اور Informed بحث قائم کرتے ہیں۔ ان کے افسانے موضوع کی پیش کش اور طرز اظہار کی سطح پر بھی معاصر اردو افسانہ سے ایک خوشگوار نقطہ انحراف کی خبر دیتے ہیں۔ معاصر معاشرہ سے بے اطمینانی اور اقدار کے زوال کا نوحہ عام بات ہے۔ تاہم تخلیقی فنکار انتہائی حوصلہ شکن حالات میں بھی انسانی برتاؤ کے کسی مثبت پہلو کو خاطر نشاں کرتا ہے۔ احمد رشید کے بیشتر افسانے اس اجمال کی تفصیل پر گواہ ہیں۔ مثال دیکھئے:
’’زمانہ کتنا ہی برا ہو لیکن بوڑھی عورتوں کے لیے آج بھی مرد جگہ چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
(کہانی بن گئی)
اسی طرح احمد رشید نے غیر متوقع رد عمل کے نقوش بھی بڑی ہنر مندی کے ساتھ ابھارے ہیں۔ محبت کرنے والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے کی بات عام طور پر کرتے ہیں اور عاشق محبوبہ کے لیے آسمان سے تارے توڑ لانے کا وعدہ کرتا ہے۔ احمد رشید نے عشق کے ایک مکالمہ کی توسط سے نا ممکن کر دکھانے کی ایک نئی جہت آشکارا کی ہے۔ انسان فرشتہ بننے کی تو آرزو کرتا ہے، شیطان کی نہیں:
’’نہیں نہیں میں سچ کہتا ہوں، مردو زن سب ہی تمہاری خوب صورتی پر فدا ہیں۔‘‘
تو پھر یہ دل کس کو دوں (تھوڑے وقفہ کے بعد) مجبوری یہ ہے کہ ایک انار سو بیمار، وہ بڑی بے شرمی سے ہنسی۔
’’میرے بارے میں کیا خیال ہے؟ خوشامدانہ لب و لہجہ
’’خیال صرف اس لیے کہ تم میرے اوپر فدا ہو، یہ فدائیت تو دوسروں میں بھی موجود ہے‘‘ اس نے طنز کیا:
’’میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ حکم کرو تو انسان سے شیطان بن سکتا ہوں۔‘‘
شیطان شر مجسم ہونے کے باوجود غیر متزلزل وفا داری کا مظہر بھی ہے کہ اس نے خالق مطلق کے علاوہ کسی دوسرے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور حکم خداوندی کے انکار کی وجہ سے راندۂ درگاہ ہوا مگر اس نے اپنی وفا کو قربان نہیں کیا۔ افسانہ نگار نے اس فراموش شدہ حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ شیطان کے اس پہلو سے واقفیت عام نہیں ہے۔
احمد رشید کی لفظیات اور اسلوب بیان بھی بہت مختلف ہے۔ کبھی کبھی وہ عام فہم الفاظ کے بجائے عربی کے نامانوس الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں اور کبھی عربی، فارسی کے الفاظ کے ساتھ ہندی تراکیب بھی استعمال کرتے ہیں۔
’’سڑک کے دونوں جوانب شٹر لگی دکانیں خاموش ہیں۔‘‘ (کھوکھلی گگر)
’’سبک خرام ہوا کی چلت پھرت سے گلابی سردی کا احساس ہو رہا تھا۔‘‘ (فیصلے کے بعد)
’بدعت‘ ایک مذہبی اصطلاح ہے جس کا مفہوم دین میں کسی نئی بات کو شامل کرنا ہے۔ بانجھ ہونا (بجوٹ) کوئی شعوری عمل نہیں ہے مگر افسانہ نگار کے نزدیک بجوٹ ہونا بھی ایک شعوری عمل ہے۔
’’میں نے کب کہا کہ تم بجوٹ ہو، لیکن عورت بھی نہیں‘‘ فیصلہ کن لب و لہجہ
’’یہ سوچ سراسر بدعت ہے۔‘‘
’’حقیقت ہے (وقفہ) بجوٹ ہونا بدعت ہے۔‘‘
احمد رشید کے افسانے ہمارے عہد کا ایک ایسا حسیاتی رویا خلق کرتے ہیں، جس کی اساسِ کائنات انسانی کے تضادات پر قائم ہے اور نا سپاسی ہو گی اگر ان کی تخلیقی ہنر مندی کا اعتراف نہ کیا جائے۔
٭٭٭
مابعد جدید افسانے کی شعریات اور احمد رشید کی افسانوی دنیا ۔۔۔ پروفیسر مولا بخش
فکشن کی نثر ہموار نہیں ہوتی، کثیر الصوت اور کثیر الآہنگ ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے آنکھیں جدیدیت گزیدہ افسانہ نگاروں نے چرائیں۔ واحد متکلم کا صیغہ نیز داخلی خود کلامی کا اسلوب جدیدیوں کے لیے امرت تارہ تھا، جہاں سے دیکھئے نظر آتا تھا۔ نتیجتاً جدیدیت کے زیر اثر لکھے گئے تقریباً جملہ افسانوں کی نثر ہموار نظر آتی ہے، فکشن کی نثر ہموار ہو جائے تو سارے افسانے ایک جیسے لگنے لگتے ہیں۔ افسانوی نثر کے اس اختصاص سے مابعد جدید افسانہ نگاروں نے فنی واقفیت کے ثبوت دئیے جن میں احمد رشید اور ان کے معاصرین مثلاً حسین الحق شفق، خالد جاوید، صدیق عالم، طارق چھتاری، غضنفر، عبد الصمد، اکرام باگ، معین الدین جینابڑے، مشرف عالم ذوقی، ساجد رشید، انوار قمر، سید محمد اشرف، علی امام نقوی، شوکت حیات اور جابر حسین وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ سر دست احمد رشید کی افسانوی دنیا کی سیر مقصود ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ احمد رشید نے مابعد جدید دنیا کی حسیت اور مسائل سے نبرد آزما انسانوں کو کس زاویے سے سمجھنے کی سعی کی ہے اور مابعد جدید عہد کی افسانوی شعریات میں کس نوع کا اضافہ کیا ہے۔ آیا کیا ان کی کوئی منفرد آواز ہے؟ یا انھوں نے خود کو بھیڑ کا حصہ بنانے میں زیادہ دلچسپی لی ہے۔
۱۹۸۲ء میں احمد رشید کا پہلا افسانہ رسالہ شاہجہاں میں شائع ہوا۔ بعد ازاں ان کا مشہور افسانہ ’وہ اور پرندہ‘ ۱۹۸۴ء میں اور ۱۹۸۵ء میں ان کا ایک اور اہم افسانہ ’پیشین گوئی‘ شائع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جب اردو میں ایک نیا ادبی رجحان مابعد جدیدیت سے جدیدیت سے انحراف کی صورت میں سامنے آیا اور بہت سے افسانہ نگاروں نے جدیدیت کے یکرنگ افسانوں اور اس تکنیک سے خود کو الگ کرتے ہوئے کہانی کی بنیادی شعریات سے خود کو وابستہ کیا۔ جدیدیت گزیدہ افسانے انشائیہ کے قریب چلے گئے تھے۔ راوی پر مصنف حاوی ہو گیا تھا۔ مابعد جدید دور میں افسانہ نگاروں نے از سر نو راوی کی ساختوں پر توجہ دی اور مصنف (افسانہ نگار) کو اس کے اصلی مقام یعنی پردے کے پیچھے رکھتے ہوئے بیانیہ کی نت نئی جہتوں اور امکانات کے دروازے وا کیے۔ احمد رشید کے افسانوں کی قرات کے دوران پہلی قرأت میں اکثر محسوس ہوتا ہے کہ یہ افسانہ نگار جدیدیت کے زیر اثر تخلیق کیے گئے افسانوں اور اس کی تکنیک، موضوعات یعنی ایجنڈے سے متاثر ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ جیسے شناخت کا مسئلہ، اجنبیت اور بے گانگی کا مسئلہ، بھیڑ میں خود کو اکیلے سمجھنے کا رویہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے جید نقاد پروفیسر شافع قدوائی نے اپنے مضمون احمد رشید کے افسانے میں لکھا ہے:
’’سراب‘ میں بظاہر شناخت سے محرومی کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، جو جدیدیت کا محبوب موضوع رہا ہے تاہم یہاں تلاش میں ایک مثبت نکتہ بھی مشترک ہے:
’’اور میں خوف زدہ ہو کر پھر اس جم غفیر میں شامل ہو گیا جس میں میرے بزرگ شامل تھے، پاداش کا صراط مستقیم تلاش کرنے کے لیے۔‘‘
پروفیسر شافع قدوائی نے احمد رشید کو جدیدیت گزیدہ افسانوں سے جوڑ کر نہیں دیکھا ہے کیونکہ جدیدیت کے زیر اثر لکھے گئے ہر افسانے کی تان منفی رویوں یعنی مایوسی پر ٹوٹتی ہے جبکہ رشید کے یہاں مثبت نکتہ بھی مستتر ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے مضمون کے آغاز میں ہی یہ واضح کیا ہے کہ:
’’احمد رشید کے افسانے ’وہ اور پرندہ، برف تلے، بن باس کے بعد، صدیوں پر پھیلی کہانی اور سراب‘ میں تخلیق کائنات کے آرکی ٹائپ اور اس سے متعلق اساطیری کرداروں اور روایتی عقائد و توہمات کی معنویت عصری تناظر میں واضح کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی یہ کہانیاں مابعد جدید تصورات، بین المتونیت سے تخلیقی سطح پر استفادے کی خبر دیتی ہیں۔‘‘۲؎
عبد البشیر (جن کا قلمی نام احمد رشید ہے) کے اب تک دو افسانوی مجموعے ’وہ اور پرندہ‘ (۲۰۰۲ء) اور ’بائیں پہلو کی پسلی‘ (۲۰۱۴ء) شائع ہو کر قارئین کی داد و تحسین بٹور چکے ہیں۔ پروفیسر شافع قدوائی نے جس ’سراب‘ افسانے کے حوالے سے انہیں جدیدیت کے افسانہ نگاروں کے قریب ہوتے ہوئے الگ بتایا ہے وہ افسانہ ان کے پہلے مجموعے کی دوسری کہانی ہے، جس میں قرآنی آئیڈیالوجی دینی جمالیات یعنی قرآن نے جس اسلوبی رجسٹر میں قیامت کا نقشہ پیش کیا ہے۔ احمد رشید نے اس کا فنی استعمال کیا ہے۔ اشارہ اس جانب ہے کہ کیسے دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی آ رہی ہے۔ خدا نے انسان کو کیا کہہ کر دنیا میں بھیجا اور انسان کیا سے کیا ہوتا چلا گیا۔
یہاں واحد متکلم راوی ’میں‘ کا میں محض ایک شخص کا میں نہیں یہ میں کی اجتماعی جہت یعنی سارے انسانوں کا میں ہے جسے شکتی جو خدا کا استعارہ ہے نے کہا۔
’’اور اگر تم نے مری رسی کو مضبوطی سے نہ پکڑے رکھا تو میخیں اکھڑ جائیں گی، شکتی نے تنبیہ کی۔‘‘ ۳؎
آگے کے پیراگراف میں افسانہ نگار نے واحد متکلم راوی کے ذریعے ماحولیاتی آلودگی کا منظر اسی قرآنی اسلوبی رجسٹر میں پیش کیا ہے، جس طرح کے رجسٹر میں قیامت کے آثار کا مذہبی بیانیہ پیش کیا جاتا رہا ہے یعنی:
’’اور میں دیکھ رہا ہوں کہ بالکل تنہا ہوں اپنے پیٹ کو لیے سب ہی دوڑ رہے ہیں … سورج سر پر آ گیا ہے۔ موسموں نے نظام بدل دیا ہے اناج کی ہیئت کیڑوں میں بدل گئی ہے … اس دھواں آلود فضا میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی سوائے ٹیں ٹیں، پوں پوں … ہٹو، بچو، بھاگو، گھڑ گھڑ، کر کر، زن زن۔‘‘۴؎
مذکورہ بالا نثر وجودی فلسفے سے زیادہ مذہبی تصورات اور ماحولیاتی خدشات کا رجسٹر بن گیا ہے۔ احمد رشید نے اپنے ہم عصروں میں سب سے زیادہ قرآنی اسلوب یعنی آسمانی لہجے والی نثر کو بطور رجسٹر استعمال کیا ہے۔ وہ جا بجا اسی خدائی آسمانی لہجے کو متن میں بطور ندائے آسمانی استعمال کرتے ہیں اور قاری کو غور و فکر پر آمادہ کر دیتے ہیں۔ یہ رویہ انہیں مابعد جدید حسیت کے قریب کرتا ہے، جہاں عقیدے کی واپسی ہوئی ہے۔ جدیدیت کا ’میں‘ در اصل وجودی ہے اور تقریباً دہر یہ بھی لیکن رشید کے افسانوں یعنی مابعد جدید افسانے کا واحد متکلم خدا پرست ہے۔ افسانے کا اختتام اس امر پر ہونا کہ ’میں‘ کا اسی جم غفیر میں شامل ہونا جس میں میں کے بزرگ تھے، اشارہ اس جانب ہے کہ آج کے مسائل سے نبرد آزما انسان ایک بار پھر آفرینش کائنات اور ماضی بعید کے دھندلکوں میں جانا چاہتا ہے۔ جس کا مقصد حال اور لاکھوں سال پہلے جب انسان نے اس دھرتی پر پہلی بار آنکھیں کھولی تھیں اس کے درمیان کے ختم ہوتے رشتے کی طرف قاری کے ذہن کو راجع کرنا اور اپنی اصل پر غور کرنے کا سیاق فراہم کرنا ہے کہ اسے کن باتوں پر رنجیدہ ہونا ہے یا نہیں ہونا ہے یا اس امر کا عرفان ہو جانا کہ یہ تو انسان کی ازلی فطرت ہے۔
احمد رشید کی کہانی ’بن باس کے بعد‘ کا آغاز بھی اسی قرآنی اسلوب اور آسمانی لہجے کی رہین منت ہے۔ ایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ کہانی میاں بیوی کے نازک رشتوں کی گرہیں کھولے گی۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے:
’’صوتی گونج… جو اپنے وجود کے لیے پریشانی تھی، یکایک ماحول صداؤں سے مرتعش ہو گیا… کہ ضرور بناؤں گا… زمین پر ایک نائب، جمیل پری زاد اپنی برتری کے لیے بے چین ہوئے کہا کہ آپ پیدا کریں گے زمین پر ایسے لوگوں کو جو فساد کریں گے۔‘‘ ۵؎
اور پھر اساطیری دھندلکوں کا سلسلہ ہوا سے مریم تک دراز ہوتا ہے اور حال کی حوا اور مریم یعنی جانکی چبوترے پر بیٹھے پنچ پرمیشوروں کو مجبور و مقہور دیکھ رہی ہے۔ کہانی کی ابتدا اس اسلوب سے کرنے کی وجہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حال اور ماضی کے تضادات ابھارے جائیں قاری کو وسیع تر سیاق فراہم کیا جائے۔ (اس کہانی پر تفصیلی گفتگو آگے کی جائے گی) اسی طرح افسانہ ’صدیوں پر پھیلی کہانی‘ میں آفرینش کائنات کا قرآنی بیانیہ اور آسمانی لہجے والی نثر کا رجسٹر سامنے آتا ہے۔ دوسرے مجموعے کی ٹائٹل اسٹوری ’بائیں پہلو کی پسلی‘ میں ندائے غیبی یعنی قرآنی آیات کا رجسٹر ملاحظہ فرمائیں:
’’اگر نہ پیدا کرتا اے حبیب برگزیدہ ہر آئینہ نہ پیدا کرتا میں آسمان اور زمین اور ساری مخلوق۔‘‘ ۶؎
افسانہ ’بی بی بولی‘ کے متن سے پھر وہی ندا آتی ہے:
’’آسمان پر بیٹھا خدا اس روح فرسا منظر کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور ابلیس مسکرا رہا تھا کہ تو ایسی مخلوق کی تخلیق کر رہا ہے جو زمین کو فساد اور خون سے بھر دے گی۔‘‘۷؎
مذکورہ بالا اقتباسات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار اور اس کا راوی دینی جمال کا نقیب اور خدا پرست ہے۔ یہ رویہ بلا شبہ مابعد جدید رویہ ہے۔ ہماری معاصر زندگی میں آفاقی تہذیب کی جگہ ذیلی ثقافتوں کے تحفظ اور تشخص پر زور، دیسی پن پر زور، دلت اور عورت، بچہ اور درخت ایک ہی صف میں کیونکر آ گئے ہیں اور اپنے تحفظ اور تشخص کے لیے کوشاں ہیں۔ عورت اور مرد کائنات کا محور اور مرکز ہیں مگر ایک نے (مرد) دوسرے (عورت) کو کیسے دبایا اسے دیگر The other کے روپ میں دیکھا۔ عورت زمانۂ قدیم تا حال مرد اساس معاشرے میں کیونکر ظلم کی نت نئی ساختوں کا نشانہ بنتی چلی آئی ہے؟ کمزور ملک یا شخص کہیں بھی ہو دبنگ طاقتور ملک کی خوراک کیوں بن جاتا ہے؟ زمین پر فساد برپا کیوں ہوتا ہے؟ کیا یہ رک نہیں سکتا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو فن کاروں کو ماضی کے ان دھندلکوں میں یا کائنات کی ابتدا کے زمانے کی طرف یعنی اجتماعی لاشعور جسے اساطیر کہئے کی طرف لے جاتے ہیں کیونکہ قدیم معاشرے میں ان سوالات کے معصوم جوابات موجود ہیں جب بھی کوئی جدید زمانے کی جانکی پر اپوتر ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے؟ (افسانہ بن باس کے بعد) یا جب لال تکون کا ظاہر پرست، عیاش مرد چودھری دو عورتوں کی زندگی میں ایک ساتھ زہر گھول دیتا ہے یعنی انگوری دوسری بیوی اور چودھرائن اس کی پہلی بیوی، تو قسمت کے یہ کھیل سمجھ میں نہیں آتے کون صحیح کیا غلط؟ انگوری کا آنا صحیح یا چودھری کی پہلی بیوی کا اپنے نندوئی سے رشتہ پیدا کرنا غلط، یا فول… پھول کا واحد متکلم راوی کی گناہوں کو گلے لگانے والی زندگی اور ویسے ہی اوباش باپ۔ دو مردوں کی اس نفسیاتی بیماری کا شکار عورتیں ہی کیوں؟ وہ طوائف خانہ جہاں ایک ہی عورت کا سودا باپ اور بیٹا دونوں کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو حیران آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ درمیان میں کھڑی عورت بازار میں کیوں ہے؟ اور وہ کیا ہے؟ اس کا جواب آسانی سے نہیں دیا جا سکتا۔
تیسری شخصیت کی بھابھی راوی ماسٹر اور بھابھی کا شوہر جو ایک عیاش مرد ہے۔ بھابھی کا ماسٹر سے ناجائز تعلق پیدا ہونا اور اس کا جواز بھابھی کی زبان سے سامنے آنا اور وہ ماسٹر جو محلے کی اس بھابھی کے بارے میں ایک غلط رائے قائم کر چکا تھا کا بھابھی کا جواب سن کر لاجواب ہونا عورت کے دکھ کا عورت کی گہری معنویت کا Code بن جاتا ہے۔ افسانے میں بد چلنی کا جواز ضرور پیش کر دیا گیا ہے کہ وہ جس مرد یعنی شوہر کے ساتھ زندگی گزار رہی ہے بقول بھابھی ’’اس لیے کہ میں ایک گرم مرد کی بیوی ہوں اور میں جلنا نہیں پگھلنا چاہتی ہوں۔‘‘ (افسانہ تیسری شخصیت، ص: ۸۲) لیکن یہ جواز قاری کو مزید کرید اور غور و فکر پر آمادہ کرتا ہے۔
بائیں پہلو کی پسلی کا مرکزی کردار عورت اپنی ازدواجی زندگی سے تھک ہار کر مایوسی کی ایک ایسی صورتحال سے دوچارنظر آتی ہے جس کے اظہار کے لیے افسانہ نگار نے نظم کے ٹیپ کے مصرعے کی طرح کا نثری جملہ کئی بار دہرایا ہے کیوں؟ یعنی ’’آنکھیں بند ہیں، نیند کوسوں دور ہے … نہ نیند ہے نہ عالم بیداری‘ جب ہم عصر عورت اس صورتحال کا شکار ہو تو ذہن کیوں نہیں اساطیر کیا تھاہ اندھیروں کی طرف پرواز کرے۔ تخلیق انسان (مرد) تخلیق عورت مرد کی بائیں پسلی سے پھر گناہ کے ارتکاب کے بعد دونوں کو زمین پر پھینکا جانا۔ برسوں کروڑوں سال بعد ملنا اور جدائی کے دکھ کو پھر بھول جانا اور رشتے کی نزاکتوں کو نہیں سمجھنا یہ کیا ہے؟، جیسے امور افسانے میں بطور ماقبل متن عورت کا لاشعور ہے جس کے لیے ماضی اور حال تضاد کی ایک ایسی دنیا سامنے لاتے ہیں کہ وہ صفر کے مقام پر پہنچ جاتی ہے۔ اس کا ذمہ دار مختار (مرد) ہے، بھورے سید کا بھوت کی مہترانی پر بد اعتقادی کی چادر سماج نے ڈال دی ہے اور وہ یہ کہ وہ چڑیل بن گئی ہے اور ان مردوں سے بدلہ لیتی ہے جنھوں نے اس پر بری نظر ڈالی تھی۔ ’’ایک خوبصورت عورت‘‘ کی مصیبت کی ماری عورت کا آخر کار ٹرین پر سوار ہو کر چلے جانے اور اس مرد کی پرواہ نہ کرنے جو اسے چاہتا تھا کے معنی کیا ہیں؟ ہم عصر صورتحال میں ایسے نہ جانے کتنے لاینحل سوالات ہیں جن کی جڑوں تک یا اصل وجہ تک پہنچنا ایک امر محال ہے اسی لیے مابعد جدید افسانہ نگاروں نے اساطیر یعنی قدیمی شان والے بیانیوں کو ماقبل متن کی رد تشکیل کے طور پر استعمال کرنا ضروری گردانا اور متن سے متن بنانے کی صدیوں سے جاری فطری روایت کے معنی سمجھائے یعنی اساطیر کو استعاراتی تفاعل کے ساتھ ساتھ کہانی پن اور بیانیہ بہاؤ کے لیے استعمال کرنے کا رجحان مابعد جدید افسانہ نگاروں کی خاص پہچان ہے۔ انتظار حسین اسی حوالے سے اردو افسانے کا مہادیو قرار پائے۔ نیر مسعود کا عطر کافور، سریندر پرکاش کا بجوکا، عبد الصمد کا میرے تیرے ہاتھ، حسین الحق کا سوئی کی نوک پر رکا ہوا لمحہ، طارق چھتاری کا باغ کا دروازہ، غضنفر کا تصویر تخت سلمانی، مشرف عالم ذوقی کا باپ بیٹا، مظہر الزماں خاں کا داستان گو، جوگندر پال کا مہابھارت اور عفریت اور شرون کمار کا شمار اساطیری رنگ میں افسانہ پیش کرنے والوں میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال مجید کا شہر بد نصیب، ترقی پسند عہد میں اساطیری تفاعل کا توجہ خیز متن ہے اور راجندر سنگھ بیدی نے تو اسی حوالہ سے افسانے میں معنیاتی تہہ داری پیدا کی ہے اور منٹو اکا اختصاص یہ ہے کہ وہ اساطیر کو افسانے میں گوندھ کر پیش کرتے ہیں۔
احمد رشید نے بھی راجندر سنگھ بیدی کی طرح اپنی بیشتر کہانیوں کو اساطیری دنیا سے جوڑے رکھا ہے۔ وہ واضح طور پر اساطیر بطور استعاراتی تفاعل کے ساتھ ساتھ کرداروں کے روزمرہ میں بھی اساطیری کرداروں اور واقعوں کا بطور مکالمہ استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اساطیر معاصر ذہن سے ہر وقت جھانکتی رہتی ہے اور یہ ہمارے محاورے نیز روز مرہ کی زندگی کے معمول کا حصہ بھی ہے، جیسے:
(۱) ’’مجھے بصورت پانڈورہ (Pandora) تمام انسانی مصائب کا موجب قرار دیا گیا اور جب ایفروڈایٹ (Aphrodite) یعنی کام دیوی کا روپ اختیار کرنے پر مجبور کیا گیا تو میری پرستش کا آغاز ہو گیا۔ ایک دیوتا کی بیوی ہوتے ہوئے تین مزید دیوتاؤں سے آشنائی کا چرچہ عام ہوا۔ میرے بطن سے کیوپڈ پیدا ہوا کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی دوست کی لگاوٹ کا نتیجہ ہے … میں دیوی تھی… میں دیوی ہوں۔‘‘
(بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۳۹)
(۲) ’’اس نے اپنا بوجھ اٹھایا جیسے تیسے ویٹنگ روم میں داخل ہوا اسے ویٹنگ روم، عارضی وطن محسوس ہوا اور عارضی وطن ویٹنگ روم جیسے وہ عارضی وطن اور ویٹنگ کے فرق کو جاننے کے لیے دماغ کھپانے لگا؟ نتیجہ صفر نکلا۔‘‘ (ویٹنگ روم، ص: ۳۰)
(۳) ’’کمرے میں پھر سکوت طاری ہو گیا… کرنیں سمٹ رہی ہیں … اندھیرا گہرا ہو رہا ہے۔ وہ سوچتا ہے … کاش وہ نمرود کی لگائی ہوئی آگ ہوتی اور معصوم خلیل اللہ کے لیے گلزار ہو جاتی لیکن ایسا کیوں ہوتا؟ آگ ہر ناکیشپ نے لگائی تھی… اور معصوم پرہلاد… لیکن ہرناکیشپ کی اگنی اور نمرود کی آگ میں فرق ہی کیا ہے؟ …آگ… اگنی… جہنم… نرک… آگ تو آگ ہی ہے … لیکن مرنے والے معصوم تھے … بے گناہ تھے پھر کیوں جلے؟ (ایضاً، بی بی بولی، ص: ۱۴۲)
(۴) ’’جانکی بالکل ویسی تھی جیسی چودہ دن پہلے تھی۔ پھر تبدیلی کس بات میں آئی؟ ہاں جانکی کا قصور یہ ہے کہ اس نے جان بچائی۔ لیکن کیا جان بچانے کا مطلب اگنی پریکشا ہے؟ اس نے جھٹکے سے اس شاخ کو توڑ لیا جسے پکڑ کے کھڑا تھا اور پنچ پرمیشور کی جاہ نشست پر پڑے پتھر پر اس زور سے ٹھوکر لگائی کہ وہ دو گز دور جا پڑا۔ پنجہ میں چوٹ لگنے سے وہ کراہ اٹھا اسے لگا جیسے پتھر نے پنچ پرمیشوروں کی کمروں کو توڑ دیا ہو بالکل اسی طرح جیسے دروپدی کے اپمان پر بھیم نے دریودھن کی جانگھ کو توڑ دیا تھا۔‘‘
(وہ اور پرندہ، بن باس کے بعد، ص: ۷۰)
مذکورہ بالا اقتباسات ’’بائیں پہلو کی پسلی‘‘ اور ’’وہ اور پرندہ‘‘ سے ماخوذ ہیں۔ اقتباس نمبر ۱ میں مرد مختار اور شاہین اور مرکزی کردار عورت کے رشتے کی پیچیدگی کے عرفان کے لیے قاری کے سامنے Pandoraاور Aphroditeیعنی یونانی اساطیر سے ماخوذ دو ان عورتوں کو سامنے لایا گیا ہے جو دنیا میں مسائل پیدا کرنے کی وجہ بنی تھیں۔ زیوس خدا نے پنڈورا کو ایک بکس دیا جس میں بھیانک مسائل اور بیماریاں مقید تھیں اور کہا تھا کہ اس بکس کو ہرگز نہ کھولنا لیکن پنڈورا یعنی اپنی فطرت سے مجبور عورت نے یہ دیکھنے کے لیے کہ بکس میں کیا ہے، بکس جیسے ہی کھولا، دنیا میں طرح طرح کی بیماریاں اور بڑے بڑے مسائل پیدا ہو گئے۔ حوّا بھی اس دنیا میں اسی حوالے سے جانی جاتی ہیں یعنی اشارہ یہ ہے کہ دنیا میں طرح طرح کے مسائل کی ماں بھی عورت ہی ہے۔ افسانہ ’بائیں پہلو کی پسلی‘ ٹائٹل اسٹوری ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ احمد رشید نے آج کی اصطلاح میں تانیثی مسائل اور تانیثی ڈسکورس پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے لیکن وہ اس حوالے سے مرد اور عورت کے وجود کی معنویت کی تلاش میں بھٹکنے والے ایک جو گی معلوم ہوتے ہیں اور وہ اس مرد کی تلاش میں ہیں یعنی آدم کہ جس نے حوا کی بات مانی تھی اور ذرا بھی برا نہ مانا تھا کہ چاہے انہیں لاکھوں کروڑوں سال ایک دوسرے سے جدا رہنا پڑا۔ جنت جیسی جگہ سے دونوں نکالے گئے اور دنیا جیسی جگہ مقدر بنی، جہاں مسائل کے انبار ان کے منتظر تھے۔ وہ اس عورت کی تلاش کو اپنے افسانوں کی فکر مندی بناتے ہیں جس کی تخلیقی ضد ایک دنیا خلق کر دیتی ہے اور جو ہزاروں سال اپنے آدم کے لیے تڑپتے رہنے کا حوصلہ اور محبت کا سبق دیتی ہے ان کے افسانے مثلاً بائیں پہلو کی پسلی کی عورت کا کرب اس امر کا اعلامیہ ہے کہ Pandora یا Aphrodite منفی کردار نہیں بلکہ دنیا کو بامعنی بنانے والی روحیں ہیں۔ بھلا کسی ایسی دنیا کا انسانی ذہن تصور کر سکتا ہے جہاں ہر سو صرف سکھ کے بادل ہوں اور دکھوں کا نام و نشان نہ ہو۔ مسائل اور بیماریاں، آفتیں اور مصیبتیں تو دنیا کا زیور ہیں اور یہی وہ مسائل ہیں جو ہمیں محبت کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ شاید عورت نے محبت اور سچے رشتے کی اہمیت کی خاطر مسائل از خود اپنی جانی بوجھی نادانی سے خلق کر دئیے تھے اور مرد جو کہ کمزور اعصاب والا اور عافیت پسند واقع ہوا ہے، عورت کو ازلی گناہ کا مرتکب سمجھ کر اسے لعن طعن کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے۔ اس افسانے میں مختار اور عورت کا پہلے ٹوٹ کر محبت کرنا، عورت جو ایک نوکری یافتہ خاتون ہے، کا آہستہ آہستہ اپنے شوہر کا اس سے لا پرواہ ہونے سے پریشان ہونا دونوں کے رشتے کا سارا رس سوکھ جانا کوئی انوکھا واقعہ نہیں، جو احمد رشید نے بیان کیا ہے، انوکھا ہے، عورت کا مرد اساس معاشرے سے متعلق طرز احساس، مختار کے بہانے تلازماتی بیانیہ کے طور پر لاکھوں کروڑوں سال سے چلی آ رہی اساطیری روایت میں عورت کے وجود کو غلط معنی پہنانے والے رویے کا بار بار اس کے ذہن کے پردے پر جھلملانا اور مختار کے ساتھ گزارے حسین لمحوں کے کچوکے اور پھر مختار یعنی اپنے مرد کے بغیر زندگی کرنے کا اس کا فیصلہ۔ اس کی یہ خواہش کہ ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘ کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں:
’’کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ از سر نو محبت کی شروعات کریں … ملاقات کے سلسلے قائم کریں … محبت کی باتیں کریں … سیر و تفریح کریں … ریسٹورنٹ جائیں …‘‘
’’کیا تم پاگل ہو گئی ہو…‘‘
’’میں گھبرا گئی ہوں ان معمولات سے … زندگی کتنی تنگ ہو گئی ہے۔ آفس اور گھر کے درمیان میں!… ایسا لگتا ہے ازدواجی زندگی درمیان سے غائب ہو گئی ہے …مرد پورے طور سے مکمل اور عورت ادھوری ہو گئی ہے … یا بیچ میں کہیں مر گئی ہے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۴۶)
یہ افسانہ بظاہر کرداری افسانہ ہے کیونکہ اس کا راوی نہیں بلکہ راویہ خود افسانے کی ہیروئن عورت ہے۔ (درمیان میں واحد غائب راوی بھی آتا ہے جو اسی عورت اور ہم عصر صورت حال سے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے واقعے کو آگے بڑھاتا ہے)افسانہ نگار احمد رشید نے مرد اساس ذہن سے عبارت ہونے کے باوجود کہانی عورت مرکزی پیراڈائم میں راویہ کے ذریعے بیان کی ہے۔ یہاں ایک ایسی عورت کے وجود سے ہماری ملاقات کرائی گئی ہے جو نہ کہ صرف اپنے مرد مختار کی محبت کی متلاشی ہے بلکہ اس کے نزدیک جنگ عظیم لبنان کے انقلاب، شام کے انقلاب، عراق کی تباہی اور افغانستان یا دنیا کی تباہی سے زیادہ بڑا سانحہ، آفت یا قہر خداوندی یا بڑی دنیاوی تباہی کی وجہ مرد اور عورت کے جملہ رشتوں کی گمشدگی ہی ہے۔
دوسری عبارت ویٹنگ روم سے ماخوذ ہے جس کا پس منظر کروڑوں سال پہلے آدم کے خلد سے نکلنے کی اساطیر کو ذہن میں لاتا ہے۔ آدم جہاں سے نکلے کیا وہ ان کا اصلی وطن تھا؟ اگر جواب ہاں ہے تو پھر وہاں سے وہ کیوں نکالے گئے؟ اور جہاں آ گئے وہاں سے کیوں چلے گئے؟ یہ ایسا رمز ہے یا بھید بھرا بستہ ہے جس کا جواب شونیہ میں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ احمد رشید کا بیانیہ تمثیلی اور ایمائی آہنگ سے مملو ہوتا ہے۔ وہ اکہرے بیانیہ سے حد درجہ اجتناب کرتے ہیں۔ بیشتر کہانیوں میں واقعات کا بیان سیدھی لکیر پر نہیں ہوا ہے بلکہ واقعہ در واقعہ وہ ایک ہی کہانی میں ازل سے ابد تک کے مسائل کا فنی سیاق سامنے لاتے ہیں اور قاری کو غور و فکر پر مجبور کر دیتے ہیں۔ بی بی بولی سے ماخوذ تیسری عبارت اس کی مثال ہے۔ کہانی فساد کے موضوع پر ہے اور سیاق صدیوں پہلے بلکہ وقت کے شروع ہونے کے زمانے کی اساطیر کیوں بنی ہے؟ شاید بدی اور نیکی کی جدلیات کی گرہ کشائی کے لیے۔ فساد میں مارے جانے والے معصوم تھے پھر کیوں جلے؟ یہ محض سوال نہیں بلکہ انسانی زندگی کا وہ المیہ ہے جس کا جواب شونیہ میں ہے جو قاری کے اندر تلملاہٹ پیدا کرتا ہے۔ چوتھی عبارت میں کچھ اسی طرح کے سوالات کا سیاق سامنے آتا ہے۔ اقتباس افسانے کے ہیرو رگھوویندر کے ذہن میں اٹھنے والے ان محسوسات پر دال ہے کہ ہمارے معاشرے میں تقدس پاکیزگی اورطہارت کی ساری ذمہ داری عورت پر ڈال کر مرد اتنا آزاد کیوں ہے؟ بھیم نے دروپدی کا بدلہ اس طرح لیا تھا کہ دریودھن کی جانگھ کو توڑ دیا تھا۔ تو کیا افسانہ نگار رگھو کو بھی دریودھن بنانا چاہتا ہے؟ کیا رگھوویندر واقعی بھیم بن جاتا ہے؟ اور ہیروئن جانکی واقعی جانکی ہی بن جاتی ہے؟ رام نے تو جانکی کو الگ کر دیا تھا لیکن یہاں تو وہ اپنے رام یعنی رگھو کے ساتھ ہے لیکن کیا ساتھ ہے دونوں کے درمیان نفسیاتی دوری کی آگ لگی ہوئی ہے یہ کہانی ہمیں راجندر سنگھ بیدی کی کہانی لاجونتی کی یاد شدت سے دلاتی ہے۔ وہاں لاجو مغویہ عورت ہے اور ایک مرد کے ساتھ زندگی کے کچھ دن گزار کر سابق شوہر سندر لال کے پاس آ کر بھی اس سے دور ہو جاتی ہے۔ یہاں جانکی فساد میں گھر جانے کی وجہ سے چودہ دن بعد گھر لوٹی ہے۔ کس کے ساتھ رہ کر آئی ہے؟ اور عزت و ناموس محفوظ ہے یا نہیں۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ وہ پوتر ہے۔ احمد رشید نے دوبارہ لاجو والی کہانی اس لیے لکھی ہے کہ حالات وہی آزادی کے دنوں والے اب بھی ہیں۔ وہاں لاجو کو اگنی پریکشا روز رات کی تنہائی میں اپنے شوہر سندر لال کے سامنے دینی پڑتی ہے۔ احمد رشید کے افسانے میں پنچ پرمیشور ایک مخصوص دن مقرر کرتے ہیں لیکن شوہر بھیم کی طرح آڑے آ کر اسے آگ سے الگ کرتے ہوئے گھر لے تو آتا ہے لیکن کیا واقعی اسے وہ چودہ دن پہلے والی بیوی جانکی سمجھ کر اسے کھلے دل سے قبول کر لیتا ہے؟ شاید نہیں یا شاید قبول کر لیتا ہے لیکن وثوق سے کہنا مشکل ہے کیونکہ جس طرح بیدی نے لاجونتی کے آخری صفحات میں زبان کو ایک اندازہ (Trace) بنا کر پیش کیا ہے، اسی طرح احمد رشید نے شوہر اور بیوی کے والہانہ رشتے کے آئینے میں جو بال آ گیا ہے اس کی نشاندہی کے لیے طوطے کو ایک علامت یا بچولیا بنا کر پیش کیا ہے، جس کی ذو معنویت قاری کو شفاف طریقے سے اس نئے رشتے کو دیکھنے سے قاصر رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے میں ایک تناؤ برقرار رہتا ہے۔ آئیے ذرا راجندر سنگھ بیدی کے افسانے لاجونتی کے آخری صفحات کو ذہن میں رکھتے ہوئے احمد رشید کے افسانے کے بین المتونی رشتے کی جدلیات کو سمجھنے کے لیے ان کے افسانے کے آخری صفحات کا مطالعہ کریں:
’’جب بھری چوپال میں کلوا نے اپنی بیوی کو ڈانٹا تھا ’بتا سالی ایک رات تو کہاں غائب رہی؟ یہ نہ سمجھنا کہ سب لوگ راگھویندر کی طرح عورت کے بھگت ہو گئے ہیں۔‘
راگھویندر کے پیروں تلے زمیں نکل گئی، اس کے کانوں کی لوئیں جلنے لگیں، پیشانی پربل پڑ گئے۔ چہرہ سرخ ہو گیا، مگر وہ کر کیا سکتا تھا، بے بسی کے عالم میں جب اس رات وہ گھر لوٹا…جانکی بے خبر سو رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ جانکی کو اس قدر مارے کہ چودہ دن کا بدلہ لے لے جو آسیب کی طرح اس کی زندگی سے چپک گئے ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ چودہ دن زندگی سے خارج کر دیے جائیں؟ … لیکن ایسا ہو نہیں سکتا! اس کا جی چاہا کہ جانکی کو اپنی زندگی سے نفی کر دے تو سب ہی جھگڑا ختم ہو جائے پھر نہ کوئی زندگی کا حساب لے گا اور نہ ہی چودہ دن کی ضرب و تقسیم کرے گا۔ وہ آہستہ آہستہ جانکی کی طرف بڑھا…
’’ٹیں …ٹیں … مٹھو بیٹے‘‘
وہ چونک گیا۔ جانکی کی آنکھیں کھل گئیں اس نے رگھویندر کو اپنے قریب کھڑا دیکھا۔
کیوں، کیا بات ہے؟ جانکی بستر پر لیٹی تھی۔
رگھویندر اپنی چارپائی پر آ کر بیٹھ گیا اور کچھ نہیں کہا۔ اس کا جی چاہا کہ کلوا کا سر توڑ دے …مگر وہ ایسا بھی نہ کر سکا۔
دل چاہتا ہے کہ آگ لگا دوں اس انصاف کو، اخلاق کی دھجیاں اڑا دوں، سماجی قدروں کو توڑ دوں، اس نے تقریباً چیختے ہوئے کہا… اس کی آواز جھونپڑی میں پھیل گئی۔
جانکی فوراً ہی بستر پر اٹھ کر بیٹھ گئی، کیا ہوا…میں نے کیا کیا؟ اس نے چونکتے ہوئے کہا۔
کچھ نہیں …کچھ نہیں
کچھ تو ہے، جانکی نے کہا
بے شک…بے شک…طوطے نے کہا
پچ پچ مٹھو بیٹے تم ابھی تک سوئے نہیں، جانکی نے کہا
بے شک… بے شک… مٹھو بیٹے ٹیں ٹیں …مٹھو بیٹے، طوطے نے کہا رگھویندر کی نظر پنجرے کی سیخچوں پر گئی جو سنہری رنگ میں رنگے تھے، جس میں طوطا ادھر ادھر پھڑپھڑا رہا تھا۔ اچانک بجلی کی سرعت کے ساتھ وہ چارپائی سے اٹھا اور پنجرے کا دروازہ کھولنے لگا۔ جانکی پنجرے کی طرف دوڑی ارے، ارے، ارے طوطا آزاد ہو چکا تھا اور دور آسمان کی وسعت میں ڈوب گیا۔ جانکی کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ یہ کیا کیا آپ نے؟
میں نے طوطے کو آزاد کر دیا۔ اب یہ رٹے ہوئے الفاظ نہیں بولے گا۔ اب یہ اپنے فطری انداز میں زندہ رہے گا، جہاں چاہے گا بیٹھے گا، جہاں چاہے گا اڑے گا، جانکی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
رگھویندر نے جانکی کے آنسو پونچھے، اسے قریب کیا، اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا تم کو مجھ سے چھین لے، میں تم کو تم سے چھین لینا چاہتا ہوں۔
رنگ بدلتے آسمان تلے، اندھیرے کا کالا رنگ پھیکا ہو رہا تھا اور نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔‘‘ (وہ اور پرندہ، بن باس کے بعد، ص: ۷۳، ۷۴، ۷۵)
میاں بیوی جن کے درمیان کلوا کے طعنے، کہاں چودہ دن رہی ہو گی جیسے ناقابل برداشت خبر نے شوہر کے ذہن و دماغ میں نہ چاہتے ہوئے شک نے کیونکر زہر گھول دیا ہے، کا ناقابل بیان منظر ملاحظہ فرمایا۔ اسی لیے تو رگھویندر کے پیشانی پربل آ گئے چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس لیے گھر لوٹ کر اس کے جی نے چاہا کہ بیوی کو خوب مارے، بیوی کی طرف جیسے ہی بڑھا کہ طوطا بول اٹھتا ہے۔ شک اور غصے کے اس عالم میں طوطے کا وجود اس امر کا اشاریہ ہے کہ اس گھڑی رگھویندر جیسے تلملاتے ہوئے شخص کو کچھ نہ کچھ ایسا چاہیے جو اس تلخی کو بھلانے کا بہانہ بنے اور وہ ایک آدرش وادی انسان یا شوہر بن کر بیوی کے سامنے خود کو پیش کر سکے۔ غالب اور آج کے ایک شاعر جمنا پرشاد راہی کا ایک ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
بے وجہ عکس شوخ سے باندھی ہے دشمنی
طوطیِ خود فریب مقابل ہے آئینہ
(جمنا پرشاد راہی)
از مہر تا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو شش جہت سے مقابل ہے آئینہ
(غالب)
غالب نے اشارہ کیا ہے کہ ذرہ سے آفتاب تک دل ہی دل ہے یعنی سوچنے والی ذات ہے اور انسان کا دل آئینہ ہے جو خود اپنے عکس کے مقابل ہے جس طرح طوطی جس طرف دیکھتی ہے خود کو منعکس پاتی ہے۔ راہی کا کہنا ہے کہ انسان بلا وجہ پرچھائیوں سے لڑ جاتا ہے کہ طوطی آئینے میں خود کو دوسرا طوطی خیال کر کے اس سے بولنے بتیانے لگ جاتی ہے یا طوطا بولنے لگ جاتا ہے۔ رگھویندر در اصل اس وقت طوطے والی حرکت خود کر رہا ہے اور طوطے کو خود کا غیر سمجھ رہا ہے جبکہ طوطا اس وقت وہ خود ہے اور جب وہ اپنے اس طوطے کو آزاد کرتا ہے تو گویا خود کو اس شک سے کہ جو اس کے دل کے نہاں خانے میں کنڈلی مارکر بیٹھا ہے خود کو اس سے آزاد کرانا چاہتا ہے۔ در اصل رگھویندر طوطے کو نہیں بلکہ خود کو سماج کے رٹے رٹائے، گھسے پٹے اصولوں سے آزاد کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس وقت تک وہ خود کو انہیں اصولوں کا غلام سمجھ رہا ہے اور اس طرح رشتوں کے درمیان کا اندھیرا دور ہوتا ہے اور ایک نئی روشنی آ جاتی ہے؟ نہیں بلکہ افسانہ نگار نے راوی سے یہ کہلوایا ہے کہ ’’نئی روشنی کے آثار نمایاں ہو رہے تھے۔‘‘ اس جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان اگر رشتہ عشق کا ہے یا میاں بیوی کا ہے تو یہاں ہمارے سماج کا سندر یا رگھویندر جیسا نرم دل، نیک دل اور عورت سے ہمدردی رکھنے والا شوہر بھی مرد اساس ذہنیت سے مکمل طور پر نجات حاصل نہیں کر سکتا۔ یہ ضرور ہے کہ رگھو ست جگ کے رام پر طنز کا کردار معلوم ہوتا ہے لیکن رام سے مکمل طور پر وہ الگ نہیں ہو پاتا۔ اس طرح یہ کہانی لاجونتی افسانے کی نئی پڑھت کا اشاریہ بن جاتی ہے۔ جو بات بیدی نے کہنی چاہی ہے اس نوع کا اثر احمد رشید کے یہاں دوسرے حوالے سے پیدا ہوا ہے اوراس امر کا احساس دلایا گیا ہے کہ اگر لاجونتی کو دوبارہ خلق کرنا ہو تو اس کی فصیح صورت کیسی ہو سکتی ہے۔ احمد رشید نے لاجونتی کے آخری پیراگرافوں کو سامنے رکھ کر میاں بیوی کے درمیان حالات نے جو نفسیاتی اور انجانی قسم کی دیوار کھڑی کی ہے اس کی گرہ کشائی میں رشید نے بھی اپنی طرح کا کمال دکھایا ہے لیکن احمد رشید نے خود نہ جانکی کے ساتھ رکھا ہے نہ رگھویندر کے ساتھ اور کرداروں کو کھلے سیاق میں پیش کیا ہے۔ احمد رشید نے اپنے بیشتر افسانوں میں عورت کے اتھاہ دکھوں اور اس کے روح کے سناٹوں کو پیش کرتے وقت کھلے دل سے مرد اساس معاشرے کی ذہنیت کا پردہ فاش کیا ہے اور مرد کے مقابلے عورت کو زیادہ انسانیت پسند کردار کے روپ میں پیش کیا ہے۔ جیسے جب ہم ان کا افسانہ تیسری شخصیت پڑھتے ہیں تو وہاں مرد بہت اسٹریو ٹائپ ذہن کے ساتھ نمودار ہوتا ہے جو عورت کی روح کی گہرائیوں سے ناواقف ہے۔ محلے کی جس بھابھی کے گھر آتے جاتے وہ اس کے جسم کا صارف بن جاتا ہے۔ اس عورت کے بارے میں وہ ایک کم فہم انسان کی طرح بلا سوچے سمجھے غلط رائے قائم کر لیتا ہے کہ عورت بد چلن ہے۔ اسے معلوم ہے کہ شوہر خود کوٹھے پرجاتا ہے۔ افسانے کا واحد متکلم راوی ایک ٹیوٹر ہے۔ بقول راوی پہلی شخصیت تو بھابھی کی محلے کی بھابھی کی ہے۔ دوسری شخصیت یہ کہ وہ اس کی محبوبہ بن گئی لیکن یہ مغالطہ کہ بھابھی بد چلن ہیں اس وقت دور ہو جاتا ہے جب وہ کھلے لفظوں میں بھابھی کے کردار پر طنز کرتا ہے۔ اور بھابھی ترکی تر بہ ترکی اسے یہ کہہ کر اپنے اوقات پر لاتی ہے کہ وہ اس کام کے لیے اسے پیسے دیتی ہے، آگے سنئے:
’’اچانک بھابھی نے سلسلہ گفتگو قطع کیا اور بڑی تلخی سے بولیں ’ماسٹر میں تمہاری قیمت چکاتی ہوں پھر تمہیں کیا اعتراض ہے؟
میں کچھ خاموش سا ہو گیا۔ مگر مجھے اپنا وزن گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ غصہ کی وجہ سے میرے جسم میں لرزہ سا طاری ہو گیا بڑی مشکل سے میری آواز نکلی مگر میں زر خرید شے تو ہوں نہیں، یہ کہہ کر میں چلنے ہی والا تھا کہ بھابھی نے مسکرا کر میرا ہاتھ پکڑ لیا… میں ان کے قریب بیٹھ گیا ان کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ آنکھوں میں اب بھی آنسو تھے ماسٹر صاحب شاید آپ مجھ سے ناراض ہو گئے۔‘‘
’’میرے ناراض ہونے سے آپ کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟
پڑے گا، کیونکہ مجھے تمہاری ضرورت ہے، بھابھی نے زور دے کر کہا مگر کیوں؟
اس لیے کہ میں ایک گرم مرد کی بیوی ہوں اور میں جلنا نہیں پگھلنا چاہتی ہوں۔
(وہ اور پرندہ، تیسری شخصیت، ص: ۸۲)
احمد رشید نے یہاں دو اہم باتوں کی طرف ذہن کو راجع کیا ہے اور وہ یہ کہ عورت ایک ناقابل بیان اور ناقابل فہم ہستی ہے، مرد اسے نہ سمجھ سکتا ہے نہ اسے حیطۂ تحریر میں لا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے بھابھی کے بارے میں قائم کی گئی رائے کے لیے حد درجہ پشیمان ہونا پڑتا ہے اور اس عورت کی پہلی دوسری کے بعد اس کی تیسری پرت اس کے سامنے روشن ہو جاتی ہے وہ بھی اس لیے کہ وہ خود اپنے ناقابل فہم پہلو کو اس کے سامنے رکھ دیتی ہے۔ دوسری اہم بات جس کی طرف افسانہ نگار نے اشارہ کیا ہے کہ مرد عورت کے بارے میں صدیوں سے کوئی نہ کوئی منفی رائے قائم کرتا چلا آ رہا ہے اسے اپنی کج روی نظر نہیں آتی عورت کی کج روی بہت جلد نظر آتی ہے۔ ایک مرد پیسے لے کر ایک عورت سے رشتہ پیدا کرے اس وقت بھی اسے عورت ہی بد چلن نظر آتی ہے اور اپنی ذات پر وہ ایک لمحہ سوچنا گوارا نہیں کرتا۔ احمد رشید نے اس افسانے میں مرد اور عورت کے صنفی افتراقات پر بلیغ روشنی ڈالی ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ازلی مرد اور ازلی عورت کے فطری اور ثقافتی رشتے کی نزاکتوں کی رد تشکیل کا رجحان وہ اور پرندہ کا ماسٹر صاحب اور نکہت کے درمیاں نوک جھونک میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ بحث آگے بڑھتی ہے اور ہم عصر ثقافتی صورت حال نے عورت کو آج جس مقام پر لا کھڑا کیا ہے اور آج دنیا کے ہر خطے میں تانیثی تحریک کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں مرد اساس معاشرے کی ذہنیت پر آج کی ادیبائیں جس تیزی و تندی اور سخت لہجے میں تیکھے طنز اور واشگاف تنقید کے ذریعے وار کر رہی ہیں اس سے الگ اس تانیثی آواز کو احمد رشید نے ابھارنے کی کوشش کی ہے جسے آج کے تانیثی مفکرین صائب گردان رہے ہیں۔
احمد رشید کے افسانوں میں ایک ایسا راوی نظر آتا ہے۔ جو مرد ہوتے ہوئے تانیثی جمال کا استقبال کرتا ہے اور اس کا Anima اسے عورت کے احساسات کے عین قریب کر دیتا ہے، اس لیے آسانی سے اس راوی اور افسانہ نگار پر مرد اساس شعریات کے حاوی ہونے اور عورتوں کی حالت و حیثیت اور ان کے کرداروں کی پیش کش کے طریقے پر کسی قسم کی جانب داری کا الزام عائد کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
اول تو یہ کہ وہ عورت اور مرد کو ضدین سے عبارت کرنے کے بجائے دونوں کو التوا میں ڈال دیتے ہیں اور ان کے درمیان جس نوع کے بین متنی اور بین الوجودی جدلیاتی رشتے ہیں انہیں ابھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ اور پرندہ کی نکہت اور ماسٹر صاحب وہ باریش انسان کا کردار پولیس آفیسر، مرد باپ اور بطور بیٹی (عورت) در اصل یہاں عورت مرد کی رہبر نظر آتی ہے۔ تیسری شخصیت کی بھابھی جان کی بلیغ تہہ دار اور کسی ایک معنی سے عاری کثیر الجہت معنی والی عورت کے روپ میں سامنے آنا اور ماسٹر نے جتنی رائیں اس کے بارے میں قائم کی ہیں اس رائے کا بے معنی ہوتے چلے جانا۔ عورت اور مرد کی فطرت کی نشاندہی پر دال ہے۔ اور اس سے بھی آگے کا مرحلہ بن باس کے بعد میں طے کیا گیا ہے جہاں مرد رگھویندر اور عورت جانکی کے بنتے بگڑتے رشتے کے درمیان انسانیت نوازی کے جوہر کا بطور معنی سامنے آنا۔ افسانہ نگار نے مرد اساس معاشرے کو طوطے کی رٹ سے عبارت کیا ہے۔ رگھویندر کا طوطے کا آزاد کرنا دو طرح کے معنی کا قرینہ سامنے لاتا ہے۔ عورت کو مرد اساس معاشرے میں ایک پنجرے میں بلکہ سونے کے پنجرے میں قید طوطے کی حیثیت حاصل ہے اس کی آزادی مرد اساس معاشرے کی فلاح کے لیے از حد ضروری ہے۔
دوسرے معنی کا قرینہ یہ ہے کہ مرد اساس معاشرے کے صدیوں سے جاری و ساری قوانین طوطے کی رٹ میں بدل چکے ہیں جن کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق نہیں، اس لیے ان قوانین کو پھر سے ہوا میں اڑا دینا ضروری ہے۔
وہ اور پرندہ خالصتاً عورت اور مرد کے رشتے کی جدلیات پر دال ہے۔ یہاں مرد شوہر ہے، عورت بیوی کے روپ میں۔ رجنیش نے کہا ہے کہ دنیا کا سب سے خراب رشتہ شوہر اور بیوی کا رشتہ ہے، اس لیے وہ یعنی ماسٹر صاحب اپنی دو محبوباؤں کو رہ رہ کر یاد کرتے ہیں۔ انہیں اپنی شادی کی بھی یاد آتی ہے اور ساتھ ہی اپنے باپ کی بارات میں جانا بھی۔ پرندہ ضمیر انسانی کا کوڈ ہے اور یہی ضمیر پرندہ بار بار مرد اساس ذہنیت کا پردہ فاش کرتا ہے اور مرد یعنی ماسٹر تلملاتا رہتا ہے۔
(۱) ’’تمہیں یاد ہو تمہاری ماں کفن اوڑھے دالان میں لیٹی تھی کافور کی بو چاروں طرف پھیل رہی تھی اور دیوار کے سوراخ میں لگی اگر بتیوں کی خوشبو اس میں گڈمڈ ہو رہی تھی۔ پڑوس کی عورتیں چارپائی کے ارد گرد بیٹھی تھیں، رشتہ کی عورتیں رو رہی تھیں، لیکن تمہاری ماں کا مرد دور دور خاموش نظر آ رہا تھا اسے دور رہنے کی سزا اس لیے دی گئی تھی چونکہ اس مرد نے مرحومہ کے ساتھ زندگی کے گیارہ سال گزارے تھے (اور اگر گیارہ گھٹنے بھی گزارے ہوتے) تو بھی یہی سزا ہوتی کیونکہ اس نے نکاح کیا تھا؟ اور وہ عورت جو بے نکاح تھیں اس نے تمہارے باپ کی گود میں دم توڑا تھا۔ اس عورت کی گود میں ایک لڑکا ہے جس کی تخلیق میں تمہارا باپ بھی شامل ہے۔ مرتے وقت اس نے وعدہ لیا تھا اس محبت کے پھول کی پرورش تم اپنے یہاں کرو گے تاکہ اسے باپ بھی مل سکے۔ (مگر تمہارے باپ شریف آدمی تھے۔ در اصل ہر باپ شریف ہوتا ہے۔ (وہ اور پرندہ، ص: ۲۵)
(۲) ’’اس نے دائیں ہاتھ سے پیشانی پکڑ لی، للہ میرا مذاق نہ اڑاؤ‘
نہیں نہیں میں مذاق نہیں بنا رہا۔ پہلی چیز تو یہ کہ اپنی گفتگو میں لفظ عورت کے بجائے بیوی استعمال کرو اور جہاں تک ضرورت فطرت اور تکمیل کا سوال ہے تو یہ الفاظ تمہارے رسمی اور زبانی ایجاب وقبول کے رشتہ کے تحت ادا ہو رہے ہیں۔ ورنہ یہ رسمی اور زبانی ایجاب و قبول سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ اس نے پوچھا
جسے آپ لوگ شادی و بیاہ کہتے ہیں۔ جو الگ الگ قوموں میں الگ الگ طریقے سے رائج ہے وہی عورت جو آپ نکاح کر کے جائز کر لیتے ہیں، لگن منڈپ کے پھیرے لگانے کے بعد ناجائز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگنی کو شاکھشی مان کر عورت کو قبول کرنے والے کی نظر میں نکاح کے بعد عورت کو سویکار کرنا نا ممکن ہے، جبکہ نکاح کرنے والا بھی انسان ہے اور منڈپ پر بیٹھنے والا بھی انسان ہے۔‘‘ (وہ اور پرندہ، ص: ۲۹)
(۳) ’’بیوی نے گفتگو کا کنارہ پکڑا۔ تم چاہتی کیا ہو؟ میں وہی چاہتی ہوں جو ہر عورت اپنے مرد سے چاہتی ہے تم کون سی عورت کی بات کر رہی ہو، کیا اپنی جیسی؟ …اس نے کہا: کیا چیز میرے اندر نہیں جو ہر عورت میں ہوتی ہے؟ بیوی نے کہا
وہ سوچتا ہے بے شک تم جسمانی اعتبار سے مکمل ہو۔ اور کہتا ہے میں نے تمہارے حقوق پورے کیے ہیں۔ کیا کمی رہی ہے میرے حقوق میں۔
کمرے میں روشنی ہے، خاموشی ہے، سردی ہے اور تمام چیزیں معمول کے مطابق ہیں۔ گھڑی کی ٹک ٹک اور جھینگروں کی جھیں جھیں خاموشی کو چاٹ رہی ہے۔ بڑی سوئی چھ پر چھوٹی سوئی بارہ پر زاویہ مستقیم بنا رہی ہے۔
حقوق؟ ہاں (ایک گہرا سانس) روٹی دیتے ہو، تنخواہ دیتے ہو، بچے دیتے ہو، بیوی نے گفتگو جاری کی۔
تمہیں مانگنا چاہتی ہے، پرند نے آہستہ سے کان میں کہا۔ (وہ اور پرندہ، ص: ۳۸)
در اصل وہ اور پرندہ ایک رات کی کہانی ہے، وہ عورت جس کے گربھ میں سورج یعنی روشنی کا مینارہ ہے جو روز اوشا کی تلاش میں رات کا پیٹ چاک کر کے باہر آتا ہے اور اسے اوشا کبھی نہیں ملتی اور رات لہولہان ہو جاتی ہے۔ وہ رات بھر بیوی سے مکالمہ کرتا ہے بیوی اور شوہر مختلف مزاج کے ہیں دونوں ایک دوسرے کو اپنا ہم خیال بنانے میں رات کو ختم کر دیتے ہیں۔ دوسری طرف انسان کا ضمیر یا Antiself ہے جو ناصح کے روپ میں بار بار انسان کو ٹہوکا دینے کا فریضہ انجام دیتا ہے اس دکھ سے نابلد ہے کہ ایک انسان کے روپ میں زندگی کرنا کتنا محال ہے۔ ناصح پرند یا Anti Self کو کیا خبر۔ رات میں ہی وہ کا ماضی اور عشق کے سنہرے لمحات بھی ہیں۔ وہ ماسٹر بھی جس نے اسے پڑھایا ہے۔ سب کو بس اپنی بات کہنی تھی اپنی طرح کی زندگی چاہیے تھی اس سے نابلد کہ ’’وہ‘‘ کا اصل دکھ کیا ہے؟ ’’وہ‘‘ بھی دکھ ہی سے نجات حاصل کرنے کے لیے بیوی سے لڑ رہا ہے اور سکھ کی تلاش میں ہے لیکن سچ یہ ہے کہ انسان جتنا ہی سکھ تلاش کرتا ہے اسے آخر کار دکھ کا اتنا ہی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اخیر میں وہ پرند جو ضمیر کی علامت کی شکل میں ابھرا تھا اس کی جگہ ایک حقیقی پرند کا افسانے میں در آنا اس امر کا اعلامیہ ہے کہ ضمیر اور دنیا کے اصولوں کا پاٹھ پڑھانے والے استاد ناصح ان کی حیثیت پرندوں کے شور کے مثل ہے جنہیں وہ دیکھ رہا ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو کوؤں کی طرح لگاتار کائیں کائیں کر رہے ہیں۔ دکھ کا علاج ان ہنگاموں اور بے کار کی بحثوں سے ہو جاتا تو کیا بات تھی۔ یہ تو مزید دل کی دھڑکنیں بڑھاتے ہیں۔ الجھنوں میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اصل سکھ سچے روحانی رشتے میں ہے۔ اصل شے محبت کے دو پل ہیں۔ رات بھر جھگڑنے کے بعد دو نفوس مرد اور عورت کا ایک دوسرے سے سب کچھ بھول کر ملن میں ہی یعنی سچے محبت کے رشتے میں ہی کہیں دکھوں سے بھری اس دنیا میں سکھ کے کچھ پل نظر آتے ہیں۔ پرندہ (ضمیر /Anti self یا ناصح یا موٹے موٹے اصول اس رشتے کے بغیر راکھ کا ڈھیر ہیں۔ علاوہ ازیں کہانی بن گئی، بھورے سید کا بھوت میں چڑیل کا کردار اور فیصلے کے بعد عنوان جس کا موضوع بظاہر فسادات لگتا ہے لیکن بباطن عورت کے تشخص کے کرب کو ہی پیش کیا گیا ہے۔ ’فیصلے کے بعد‘ کے ذیل اقتباس پر ایک نگاہ ڈالیں:
’’دیکھو آفتاب میں نے اپنے باپ سے وہ پایا جو میں نے چاہا، ایک کنکر سمندر میں پھینکا، پانی میں لہریں اٹھیں اور ساحل پر ڈوب گئیں۔
یہی ان کا مقدر ہے، کنکر پانی میں اچھالتے ہوئے آفتاب نے دائروں کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جن کے بیچ کنکر گرا اور تہہ آب ہو گیا۔
میں سمجھی نہیں۔
اگر انسان کو اس کی فطرت کے مطابق زندہ رہنے کا موقع مل جائے تو یہ زندگی کی معراج ہے۔ اس نے ریت پر ایک دائرہ کھینچا۔ درمیان میں کنکر رکھا یہ تم ہو اور یہ دائرہ میں ہوں۔ تم مرکز اور میں حصار… میرا وجود بے معنی ہے تمہارے بغیر اور چہرے سے بال ہٹانے لگا۔
بس مجھے یہی چڑ ہوتی ہے … تم حصار۔
حصار نہیں … محافظ آفتاب ہنسنے لگا اور اس کے قہقہوں کی گونج میں شفق کا احساس کمزوری قوی تر اور چہرے کا رنگ گہرا ہونے لگا۔
یعنی ہم کمزور ہیں، شفق کی جھنجلاہٹ بڑھنے لگی۔‘‘(بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۶۹، ۷۰)
اگر ہم مذکورہ بالا کہانیوں پر غور کریں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد رشید کے افسانوں میں مرکزی کردار کے بطور اکثر عورتیں ایسی ہیں جو حالات کے جبر یا ستم ظریفی کے بطور اکیلی ہیں جیسے فیصلے کے بعد کی شفق یابائیں پہلو کی پسلی کی راویہ خود عورت۔ تیسری شخصیت کی بھابھی بھی تنہائی کے غار میں ڈھکیل دی گئی ہے۔ وہ اور پرندہ کی عورت بھی مرد یعنی شوہر سے متفق نہیں۔ اس طرح رشید نے عورت کے احساس نارسائی اور محرومیوں اور تنہائیوں کا کنایاتی بیانیہ خلق کیا ہے اور اس درد کو پیش کیا ہے جو عورت کے اندر صدیوں سے موجود ہے لیکن مرد اسے نہیں سمجھ پاتا۔ مرد عورت سے بندھ تو جاتا ہے مگر اس نازک رشتے کے مہین ڈور کو بہت جلد توڑ دیتا ہے اس نازک بندھن کی گرہ کشائی احمد رشید نے افسانہ وہ لمحہ میں کی ہے:
’’تم مرد لوگ عورت کے معاملہ میں انسانی فطرت کو نظرانداز کر دیتے ہو… اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے شیطان کا حوالہ دیتے ہو (تھوڑی دیر وقفہ کے بعد)… شیطان بھی تمہاری ہی جنس کا ہے، پھر عورت کہاں قصوروار ہوئی۔
تم بیوقوفوں کی سی باتیں کر رہی ہو… اس میں بھی تمہارا کوئی قصور نہیں۔ عورت ہوتی ہی کج عقل ہے۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، وہ لمحہ، ص: ۱۱۴)
سبھی جانتے ہیں کہ عورت اور فطرت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مردوں کے مقابلے عورتیں ماحول دوست زیادہ ہوتی ہیں۔ اس نوع کا متن احمد رشید نے اپنے افسانے فیصلے کے بعد میں تیار کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس افسانے کے دو کردار بطور آفتاب اور شفق عورت اور مرد نہ ہوں بلکہ عین فطرت ہوں اور دونوں عورت اور مرد کے مزاج، پسند و ناپسند نیز فطرت کی بولتی تصویر ہوں ساتھ ہی جیسے شفق فطرت پسندی اور آفتاب فطرت سے دوری کے کردار کے طور پر پیش کیا گیا ہو۔
’’شفق اور آفتاب میاں بیوی ہیں۔ شفق آفتاب سے جدا ہو گئی ہے اور گزرے دنوں کی ایک ایک بات یاد کر رہی ہے۔ شفق ایک Feminist ہے۔ آفتاب کی ہر وہ بات شفق یاد کر رہی ہے جن باتوں نے اسے زخمی کر دیا تھا مثلاً طلاق دینے کا حق صرف مردوں کو کیوں عورتوں کو کیوں نہیں؟ عرفان بھی اس افسانے کا ایک کردار ہے جو Feminist ہے۔ آفتاب تانیثی تحریک پر طنز کرتا ہے اور شفق فیمینزم کی مدافعت کرتی ہے۔ شفق آفتاب سے طلاق چاہتی ہے اور آفتاب اسے آزاد بھی کرتا ہے لیکن عرفان جو خود فیمنسٹ ہے کے اس جملے کے ساتھ کہ جب تم ایک مرد کی نہیں ہوئی تو دوسرے کی کیا ہو گی اور یہ ایک جملہ تھا جس نے آزاد شفق کو ایک انجانے پنجرے میں ڈال دیا ہے۔ کوئی دو ٹوک رائے افسانہ نگار نے پیش نہیں کی ہے بلکہ رشتے کے اس اتھاہ گہرے کنوئیں میں قاری بار بار جھانک کر دیکھتا ہے کہ کون صحیح کون غلط ہے لیکن سوائے حیرانی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ در اصل افسانہ نگار نے یہاں ماحولیاتی مظاہر اور ماحولیاتی کھیل کو بھی پیش کیا ہے۔ فطرت اور ثقافت کا کیا رشتہ ہے؟ ایسی ثقافت جو فطرت کو مسمار کر دے وہ ثقافت شفق اور آفتاب کے درمیان ضرور ہے کہ دراڑ پیدا کر دے گی۔ افسانے کا یہ ایمائی بیانیہ ملاحظہ فرمائیں:
’’دھوپ چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ میں نہا کر سن باتھ لے رہی تھی۔ آفتاب آرام چیئر پر بیٹھا اخبار کا سنڈے ایڈیشن پڑھ رہا تھا۔ حکومت جب کسی اہم مسئلہ کا حل تلاش کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو وہ عوام کو کسی دوسرے مسئلہ میں الجھا دیتی ہے۔ اخبار کو آنکھوں کے نیچے سے ہٹاتے ہوئے بولا۔
آفتاب اور شفق ایک ہی آسمان کے نیچے ساتھ ساتھ رہتے ہیں مگر ایک دوسرے کے لیے بالکل اجنبی، اس نے آفتاب کی گفتگو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
ہاں اتنے قریب کہ اگر دور کھڑے ہو کر افق کو دیکھیں تو زمین اور آسمان ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہوئے ہیں۔ آفتاب نے کہا۔
وہ سراب ہے آسمان اور زمین کے درمیان ہمیشہ ہر مقام پر فاصلہ برقرار رہتا ہے۔‘‘
(بائیں پہلو کی پسلی، فیصلے کے بعد، ص: ۷۹)
احمد رشید کے افسانوں کی ایک فکر مندی ماحولیاتی تطہیر کی شدید خواہش اور ماحولیاتی آلودگی پر ماتم کناں ہونا ہے۔ مذکورہ بالا عبارت میں فطرت اور ثقافت کے جدلیاتی رشتے پر غور و خوض کیا گیا ہے۔ جیسے کہا گیا ہو فطرت اور ثقافت ایک ہی آسمان کے نیچے رہتے ہیں اور جس طرح ایک شوہر اپنی بیوی سے آہستہ آہستہ دور ہوتا چلا جاتا ہے ہماری اس دنیا نے بھی آہستہ آہستہ فطرت سے دوری اختیار کر لی ہے اور ثقافتوں کے عروج در عروج کی دیوانی ہو کر فطرت کو مسمار کرتے ہوئے اپنے لیے تباہی کا راستہ چن لیا ہے۔ اکثر مقامات پر احمد رشید نے تمثیلی بیانیہ کے سہارے ماحولیات اور کردار کو ایک ہی سکے کا دو رخ بنا کر پیش کیا ہے جیسے شفق اور آفتاب۔ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری ہر کارکردگی میں فطرت پوشیدہ ہے۔ ہمارا ہر کھیل اور عمل فطرت میں جاری و ساری کھیل کے مانند ہے۔ افسانہ نیلم کے ابتدائی پیراگراف کا تمثیلی بیانیہ ملاحظہ فرمائیں جس سے فطرت اور کردار کے ایک ہونے کی مثال فراہم کی گئی ہے:
’’نیلم سے سب ہی پیار کرتے ہیں، اگر یہ راس آ جائے تو زندگی میں مختلف رنگ پھوٹتے ہیں، اس نے مٹھی کھولی ہتھیلی پر رکھے پتھر سے نیلی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔
نیلے رنگ کی صرف ایک شعاع، زندگی میں گوناں گوں رنگ بھر سکتی ہے، نیلم نے نیلے شفاف آسمان کی جانب دیکھا اور آنکھوں سے نیلم کی طرف اشارہ کیا۔
صرف ایک شعاع کل ہونے والے سانحہ کی پیش قیاسی کرتی ہے۔ اس نے نیلم کی نیلی آنکھوں کے اندر جھانکا۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، نیلم، ص: ۸۲)
ہاف بلڈ بوٹل میں بھی میاں بیوی کی نوک جھونک کے دوران ماحولیاتی آلودگی سے متعلق فکر مندی سامنے آتی ہے۔ احمد رشید نے میاں بیوی کے کردار کو بار بار پیش کیا ہے اور ہر جگہ اس رشتے کی تلخی یہ باور کراتی ہے کہ کیونکر ہمارے اہم رشتے اب اپنی معنویت کھوتے جا رہے ہیں۔
کہانی اور زندگی کے جدلیاتی رشتے کی گرہ کشائی کے لیے افسانوی تنقید (Critifictional Discourse) یا Metamorphosis of story کا استعمال احمد رشید کی افسانہ نگاری کی جان بن گیا ہے۔ رشید عموماً کہانی کی جڑوں یعنی اساطیری بیانیوں کی طرف مراجعت کرتے ہیں اور آفرینش کائنات کے تناظر میں زمانۂ حال کے افسانوں کے پیچیدہ ذہن کی تفہیم کا فنی سیاق سامنے لاتے ہیں۔ اس طرح ان کے افسانوں میں Metamorphosis یعنی فلسفۂ افسانہ کا عنصر جا بجا نظر آتا ہے، یہ ان کی وہ افسانوی اختصاص ہے جو انہیں پیچیدہ بیانی کی طرف بھی لے جاتا ہے اور عام قاری ان کے متن سے آسانی سے رشتہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا یعنی یہ متن صاحب ذوق قاری کی ضرورت کا شدت سے احساس دلاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ احمد رشید نے اپنے افسانوں مثلاً کہانی کہتی ہے، صدیوں پر پھیلی کہانی، کہانی بن گئی کے علاوہ دیگر کہانیوں میں کہانی کے فلسفے پر تشکیل دیا گیا بیانیہ مثلاً وہ اور پرندہ میں کہانی کا فلسفہ یا شعریات یا مبادیات اس کے آغاز، وسط اور انتہا سے متعلق سوالات کیوں اٹھائے ہیں۔
شاید اس لیے کہ زندگی کے آغاز اور زندگی کے وسط یا انتہا کی کوئی تصویر یا تصور واضح نہیں ہے۔ انسان کی تقسیم برے اور اچھے ہونے کے کی تقسیم ایک مضحکہ خیز تقسیم ہے۔ پل میں تولہ پل میں ماسہ انسان کی شخصیت اور مزاج کا حصہ ہے۔ اس کی اچھائیاں اور برائیاں وقت، حالات، ماحول، تقاضے اور خاص سیاق کا زائیدہ ہوتی ہیں۔ ایسے میں کہانی سے زندگی اور زندگی سے کہانی تک کا سفر اتنا سیدھا اور سادہ سفر نہیں۔ کہانی کب زندگی کو جھٹلا دے اور زندگی کب کہانی کو‘ اس کی ضمانت کون دے سکتا ہے۔ رشید اس لیے اپنے کرداروں کو ایک خاص طرح کے تصوراتی دھند میں پیش کرتے ہیں جیسے وہ اور پرندہ کا وہ یعنی ماسٹر صاحب۔ ایسا لگتا ہے کہ ماسٹر صاحب جیسے لوگ ہر جگہ ہیں مگر غور کریں تو ان سب سے یہ الگ معلوم ہو گا یعنی کہانی یا کہانی سے پرے بھی۔
احمد رشید نے اپنے دونوں مجموعوں ’وہ اور پرندہ‘ اور ’بائیں پہلو کی پسلی‘ کی پسلی کے تقریباً بیشتر افسانوں میں اکہرے بیانیہ کے بجائے رمزیہ بیانیہ سے زیادہ کام لیا ہے۔ وہ اپنے بیانیہ کو اکثر تیکھے طنز (جو نثر کی بڑی خوبی ہے) نادر تشبیہات (جو نثر میں وضاحت اور کہانی کی صورت حال، کرداروں کے ذہن اور نفسیات کو اجاگر کرنے میں مددگار ہوتی ہیں) گہرے مشاہدے پر مبنی اقوال زریں نما جملوں (جن سے افسانہ نگار کے گہرے مشاہدے اور انوکھے تجربے کی غمازی کرتے ہیں) کے علاوہ علم الحساب سے متعلق روزمرہ کو استعارے کی شکل دینے کی وجہ سے ان کی افسانوی نثر اور ان کے بیانیہ میں حد درجہ تہہ داری اور گہری معنویت کا گہرا احساس پیدا ہوتا ہے۔ آئیے چند مثالوں پر یکے بعد دیگرے ایک نظر ڈالیں۔ سب سے پہلے ان کے افسانوں میں سماجی ناہمواریوں پر طنز سے متعلق چند ایک مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
’’ہاں ہر خوبصورت عورت کو پردے ہی میں رہنا چاہیے ورنہ مرد کی نگاہ پڑتے ہی اس کے کپڑے اترنا شروع ہو جاتے ہیں، ایک صاحب نے جملہ کسا۔‘‘
(وہ اور پرندہ، ص: ۷۷)
’’وہ سوچتا ہے بچہ جب حاصل ضرب ہوتا ہے تو حرامی کیسے ہو گیا۔‘‘
(وہ اور پرندہ، ص: ۱۰۴)
چودھری صاحب کی بیوی اپنے شوہر کو صاف اور اجلے سفید کھدر کے کپڑے دھو دھو کر پہناتی رہیں اور خود اپنے نندوئی کے ساتھ میلی ہوتی رہیں یہاں تک کہ ان کی سفید شلوار پر جگہ جگہ بسنتی اور ہرے رنگ کے پیوند لگ گئے۔ چودھری صاحب قوم کے لیے جاگتے رہے اور ان کی لڑکیاں قوم کی خاطر سوتی رہیں۔‘‘ (ایضاً، ص: ۱۱۲)
بلاڈی فول تو، میری ماں کو اپنے عورت ہونے کا بھرپور احساس اس لیے تھا کہ وہ اکیلی آئی تھی جیسے ہر عورت اکیلی آتی ہے جو اب مکمل یعنی بھاری بھرکم عورت بن گئی ہے۔ اس کے بعد ہم سب ہی بہن بھائی اپنے اپنے لحافوں میں دبکے … بلاڈی… فول… بلاڈی فول کی آوازیں سنتے رہتے اور پھر رات کے نہ جانے کون سے حصے میں پھول …پھ…و…ل پھول کی سرگوشی سنائی دیتی… یہ بات میرے بہت بعد میں سمجھ میں آئی کہ فول اور پھول میں کیا فرق ہے؟‘‘
(وہ اور پرندہ، فول…پھول، ص: ۱۱۵)
’’بھائی جان، قدر دان آبادی کا طوفان خوفناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ کھانے کو ہے نہیں دانے، اماں چلی بھنانے، ڈگڈگی گھوم گھوم کر بجانے لگا، کچھ لوگ جیسے ہی چلنے کو ہوئے اس نے زور سے آواز لگائی، کہاں جاتے ہو بھائی جان… کوئی نہیں ہے تمہارا نگہبان… میں ہوں تمہارا قدر دان… جو ڈالے گا دان۔ وہی بنے گا بھگوان، بچہ لوگ زور سے تالیاں بجائیں۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی، مداری، ص: ۸۶)
’’تم مرد لوگ عورت کے معاملہ میں انسانی فطرت کو نظرانداز کر دیتے ہو… اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے شیطان کا حوالہ دیتے ہو (تھوڑی دیر وقفہ کے بعد)… شیطان بھی تمہاری ہی جنس کا ہے، پھر عورت کہاں قصور وار ہوئی۔‘‘
(بائیں پہلو کی پسلی، وہ لمحہ، ص: ۱۱۴)
’’پولیس کی اطلاع کے مطابق مرنے والوں کی تعداد تین بتائی جاتی ہے لیکن ان میں ایک لاش ایسی بھی پائی گئی ہے جس کا منہ جھلسا ہوا تھا… اور عضو تناسل بھی غائب تھا اس لیے صحیح پہچان نہیں ہو سکی کہ وہ کون تھا؟‘‘ (ایضاً، سہما ہوا آدمی، ص: ۱۲۳)
احمد رشید نے مذکورہ بالا جملہ افسانوی میں ہم عصر صورت حال، انسانوں کے زوال معاشرتی ناہمواریوں پر جس بلاغت کے ساتھ طنز کا استعمال اپنے بیانیوں میں کیا ہے اس کی داد دئیے بغیر چارہ نہیں۔ طنزیہ لہجے نے قاری کو ان کے افسانوی سے فنی رشتہ پید اکرنے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ طوالت کے خوف سے ان امور پر بحث کی یہاں گنجائش نہیں۔ آئیے ان کے افسانوں میں مستعمل ان تشبیہات پر ایک نظر ڈالیں جن میں اشیاء پر، انسانی صورت حال پر افسانہ نگار کی گہری نگاہ کا پتہ چلتا ہے۔ احمد رشید نے تشبیہوں کا استعمال بڑی تعداد میں کیا ہے۔ یہاں چند ایک بطور مثال پیش کی جاتی ہیں:
’’وہ رات کے مختصر مطالعہ سے ہمیشہ Sleeping Tablet کا کام لیتا ہے۔‘‘
(وہ اور پرندہ، ص: ۲۴)
’’میں نے تجھے روٹی پکانے کے لیے رکھا تھا، مگر تو میرے تاریک دل کی طاق میں ایسے بیٹھ گئی جیسے جن نے ہاتھ لمبا کر کے چراغ روشن کر دیا ہو۔‘‘
(وہ اور پرندہ، وہ باریش انسان، ص: ۹۲)
’’چہار و جوانب نظر دوڑائی اور ربر کی طرح سمٹ کر خود پر آ گئی۔‘‘ (ایضاً، ص: ۹۰)
’’دھوئیں کی آڑی ترچھی لکیریں مبہم تصویریں بنانے لگیں جیسے بدحال عورتوں کی چیخیں سانپ بن کر پھنکار رہی ہوں۔‘‘ ایضاً، ص: ۹۰)
’’پھر بھی وہ تم سے زیادہ خوش نصیب ہے کہ زندگی کا پورا لطف اٹھا کر بھی اس طرح ہے جیسے گندے تالاب میں سفید بطخ تیرنے کے باوجود اس کے پروں پر ایک دھبہ بھی دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ (وہ اور پرندہ، فول…پھول، ص: ۱۲۰)
’’جدید طرز کی عمارتوں کے بیچ، کچی دیواروں پر رکھا اس کا جھونپڑا ہنستے ہوئے گلاب چہرے پر غلیظ دانتوں کی مانند تھا۔‘‘ (وہ اور پرندہ، پرندہ پکڑنے والا، ص: ۱۲۳)
’’وہ سرخ بوسہ ذہن کے ورق پر رات کی رانی کی طرح آج بھی محفوظ ہے۔‘‘
(بائیں پہلو کی پسلی، وہ لمحہ، ص: ۱۱۲)
’’سیاہ پیراہن پر ستارے سرد کوئلوں کی مانند لٹکے ہوئے ہیں۔‘‘
(ایضاً، وہ لمحہ، ص: ۱۱۳)
’’ایسا ماں نے کہا یہ بھول گئی بہو بیٹی بھی ہوتی ہے بہرحال زن کے آنے سے کوئی نیا رشتہ جڑے تو پرانے رشتے خونم خون ہو جاتے ہیں جیسے دروپدی کے لیے خون کے رشتے خونی ہو گئے اور دھرتی پر مہابھارت وقوع پذیر ہوئی۔‘‘
(بائیں پہلو کی پسلی، ہاف بوٹل بلڈ، ص: ۱۲۵)
’’وہ اٹھ کر چارپائی پر بیٹھ گیا جس کی ادوائن ڈھیلی اور بان برگد کی داڑھی کی طرح زمین کو چھو رہے ہیں۔‘‘ (ایضاً، باف ہوٹل بلڈ، ص: ۱۲۴)
’’وہ اس جھنگولا چارپائی پر لیٹا ہے، جس کے بان کچی زمین کو چھو رہے ہیں اور اس کا بدن اس چارپائی پر اس طرح جھول رہا ہے جیسے ڈھانچہ کا نقشہ (Map) سائنس روم کی دیوار پر ہوا کے جھونکے کے ساتھ ہلتا ہے۔‘‘
(بائیں پہلو کی پسلی، رینگتے کپڑے، ص: ۱۴۴)
آپ نے اگر ان کہانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ جن کہانیوں سے ماخوذ یہ تشبیہیں ہیں اگر غور کریں تو اندازہ ہو گا کہ فکشن میں کردار، صورت حال اور بعض مسائل اور سماجی ناہمواریوں پر بطور طنز اور ان کی نفسیاتی تصویریں پیش کرنے میں فکشن نگار اپنی نادر تشبیہوں سے کتنی باریکی سے کام لیتے ہیں۔ احمد رشید نے بھی تشبیہوں سے وہی کام لیا ہے۔ احمد رشید کے افسانوں میں قدم قدم پر گہرے جملے، شاعرانہ احساسات والے جملے اور ایسے جملے ملتے ہیں جنہیں ہم اقوال زریں بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے جملے فکشن میں گہری معنویت اور بیانیہ کو فلسفیانہ موڈ عطا کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں مستعمل یہ گہری معنویت والے جملے افسانوی بیانیے کو روشن کرتے ہیں اور رمزیت عطا کرتے ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے زندگی کا مطالعہ زندگی میں گلے گلے ڈوب کر کیا ہے۔ اس کا واسطہ زندگی سے وہی ہے جو مچھلی کا پانی سے ہوتا ہے۔ احمد رشید نے اپنے افسانوں میں علم الحساب کے روزمرہ کو بھی بیانیے میں جا بجا استعمال کرتے ہوئے گہری معنویت پیدا کی ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
’وہ اور پرندہ‘ سے ماخوذ
’’اس کائنات پر ایک دائرہ تخلیق ہوا۔ پھر اس کے درمیان ایک نقطہ محیط ہوا۔ نقطہ اور دائرہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ (کہانی کہتی ہے)
’’نکہت ایک احساس کا نام ہے۔ موت ایک تسلیم شدہ حقیقت اور یادیں کبھی کبھی ٹن-ن ایک ٹن…نن دو- ٹن-ننن ٹن- ٹن-ن ننن چار۔ کلاک ٹاور نے بجائے۔‘‘ (وہ اور پرندہ)
’’اب وہی جرم ان کے اوپر حلال کر دیا گیا اور اس طرح عورت اور مرد ایک دوسرے میں ضرب ہوئے۔‘‘ (صدیوں پر پھیلی کہانی)
’’مجھے معلوم ہے کہ ایک کے دس کس طرح ہوتے ہیں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ دس کی گنتی صفر میں کس طرح تبدیل ہوتی ہے۔‘‘ (فول…پھول)
’بائیں پہلو کی پسلی سے ماخوذ‘
’’دوستی کا رشتہ رفتہ رفتہ محبت کے رشتے سے ہم کنار ہونے لگا جہاں مرد اور عورت ایک دوسرے سے ضرب ہو کر ایک عدد بن جاتے ہیں۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی)
’’ہر جوڑ کا آخری نتیجہ توڑ ہوتا ہے۔‘‘(بائیں پہلو کی پسلی)
’’جلد ہی دو اکائیاں ایک دوسرے میں ضرب ہو کر ایک عدد بن گئیں۔‘‘
(کرب کا سمندر)
آپ نے اگر تشبیہات، طنز اور علم الحساب کے حوالے سے مندرجہ بالا جملوں پر غور کیا ہے تو اندازہ کیا ہو گا کہ ان جملوں میں عورت کی ذات، اس کے کرب اور اس کے مسائل یا عورت کے تئیں مرد کی ذہنیت کیا ہوتی ہے، اس سے متعلق حقائق کی گرہ کشائی ان جملوں میں حاوی موضوع کے طور پر ابھرا ہے۔ ان میں زندگی کی گہری بصیرت اور دنیا اور انسان شناسی کا گہرا سیاق موجود ہے، جو فن کار کی ذہانت پر دال ہے۔ آئیے ان کے افسانوں سے ماخوذ چند بلیغ جملوں پر غور کریں کہ جن کی وجہ سے ان کے افسانے میں گہرائی اور انسانی نفسیات کی فنی تصویر ابھرتی ہے:
’وہ اور پرندہ‘ کی کہانیوں سے ماخوذ چند جملے
(۱) ’’آدمی کے سر پر ایک پتھر کی سل رکھی ہے بس وہ اس کے نیچے ہاتھ پاؤں مارتا رہتا ہے۔ نکل جانے کی ناکام کوشش ہی کہانی کو جنم دیتی ہے۔‘‘ (بن باس کے بعد)
(۲) ’’ہونٹوں کے مسکراتے پھول آنکھوں کی شبنم سے بھیگ گئے ہیں۔‘‘ (ٹوٹی زمین بکھرے بکس)
(۳) ’’کھیتیاں سبز پوشاک پہنیں رقص کر رہی تھیں۔‘‘(کرما)
(۴) ’’چودھری صاحب کرسی سے چپکے رہے۔ ان کے گھر کا چولہا بھی گرم رہا۔ مرغ ہانڈی میں اصلی گھی پیتے رہے۔ مچھلیاں سرسوں کے تیل میں نہاتی رہیں۔‘‘ (لال تکون)
’بائیں پہلو کی پسلی‘ کی کہانیوں سے ماخوذ چند جملے
(۱) ’’عورت خوبصورت ہو یا بدصورت بڑھاپے میں مرد ہو جاتی ہے اور بوڑھا مرد جوان عورت کی طرح مجبور اور معذور ہو جاتا ہے۔‘‘ (کہانی بن گئی)
(۲) ’’عورت مردانہ لباس فخر کے ساتھ پہنتی ہے حالانکہ کوئی مرد زنانہ لباس پہن کر برسرعام آنے کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ (بائیں پہلو کی پسلی)
(۳) ’’آفتاب اور شفق کے بیچ روشنی کا رشتہ ہے۔‘‘ (فیصلے کے بعد)
(۴) ’’عقل جب جاتی ہے تو ہاتھ میں پتھر دے جاتی ہے اور جب حسن جاتا ہے تو منہ کو گالی دے جاتا ہے۔‘‘ (دھوئیں کی چادر)
(۵) ’’کیا عورت لولی پوپ ہے۔‘‘ (سفید لباس سیاہ راتیں)
ان میں بیشتر جملے عورت کے تئیں مردوں کی ذہنیت کا پردہ فاش کرتے ہیں اور بیشتر جملے اقوال زریں کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں جن کی معنویت کبھی ماند نہیں پڑے گی یہی وہ چیز ہے جو فکشن نگاروں کو زندگی عطا کرتی ہے۔
احمد رشید کے افسانوں کے بیانیہ جمال، ان کے افسانوں میں موجود کہانی کی شعریات اور فلسفے سے متعلق گہرے اور معنی خیز مباحث نیز جدید ترین تانیثی مسائل اور عورت اور مرد کے رشتے کی جدلیات پر مبنی عورت اور مرد بالخصوص میاں بیوی کے بدلتے رشتوں کی نفسیاتی گرہ کشائی کی فنی روش ملتی ہے اس کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے معاصرین میں جدید ترین تانیثی مسائل کی پیش کش کے لیے ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔ علاوہ ازیں وہ افسانوں میں کہانی کہنے کے نئے اسلوب اور گہری معنویت پر مبنی بیانیے کے لیے بھی دور سے پہچان لیے جانے والے افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے رہیں گے۔ بلا مبالغہ احمد رشید ۱۹۸۰ء کے بعد کے افسانوی ادب کا ایک ایسا ستارہ ہیں جن کے پاس اپنی زمین، اپنی روشنی اور اپنا آسمان ہے۔
٭٭
حواشی:
(۱) احمد رشید وہ اور پرندہ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۲ء، ص: ۶
(۲) ایضاً، مضمون احمد رشید کے افسانے، شافع قدوائی، ص: ۵
(۳) وہ اور پرندہ، احمد رشید، افسانہ سراب، ص: ۱۷
(۴) ایضاً، سراب، ص: ۱۷
(۵) وہ اور پرندہ، بن باس کے بعد، ص: ۶۶
(۶) بائیں پہلو کی پسلی، ص: ۳۵
(۷) بائیں پہلو کی پسلی، افسانہ بی بی بولی، ص: ۱۴۲
٭٭٭
OOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں