ایک عقیدت سے بھرپور نعتیہ مجموعہ
تجلّیات
از قلم
حافظ مظہر الدین مظہرؔ
پیشکش: الف نظامی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
تجلیات
حافظ مظہرؔ الدین مظہر
پیشکش: الف نظامی
دیباچہ
الحمد للہ رب العالمین و الصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم الذی ہو رحمۃ اللعالمین و بالمومنین روف الرحیم۔ نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں تعریف کرنا۔ اصطلاحی طور پر یہ لفظ حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کی تعریف کے لیے مخصوص ہو چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام معجز نظام میں اپنے محبوب پاک کی تعریف و توصیف جا بجا اور بوقلموں انداز میں فرمائی ہے۔ ایک جانب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے جن کی تعداد حد و حساب سے باہر ہے خود حضور سرور دو عالم پر درود بھیجتے ہیں تو دوسری جانب اللہ تعالیٰ نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام پر درود و سلام بھیجنے مومنین کے لیے فرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضور سرور کونین پر نعت کے جو پھول شب و روز نچھاور ہوتے ہیں کمیت کے اعتبار سے ان کی نہ حد ہے نہ حساب۔ تاریخی اور زمانی حساب سے حضور کی نعت کا سلسلہ ازلی ہے۔ رب تعالیٰ کا پاک کلام اس کی ذات کی طرح قدیم ہے۔ یہ کلام حضور کی نعت سے مملو ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ نعت گوئی کی تاریخ ازل سے پیوستہ ہے۔
نعت جب ازلی اور کلام الٰہی میں ہوئی تو نوا میں فطرت سے ٹھہری۔ گویا نعت فطرت انسانی میں بھی داخل ہے۔ فطرت اصلیہ بعض کے شعور کے اندر داخل ہوئی اور بعض کے تحت الشعور میں رہی۔ اس لیے بعض ہندوؤں یا دیگر غیر مسلموں کا حضور کی نعت لکھنا حیرت انگیز نہیں۔ تحت الشعور کے بھی چونکہ بے شمار مراتب ہیں اس لیے یہ توفیق انہی کو میسر آئی جن کا تحت الشعور شعوری سطح سے قریب تر آ گیا۔
نعت اپنے عمومی مفہوم کے لحاظ سے نثر میں بھی ہو سکتی ہے لیکن اصطلاح میں نعت اس کلام کو کہتے ہیں جو منظوم ہو۔ بیانی طور غزل اور دیگر اصناف سخن مجاز یا حقیقت یا ہر دو کے حامل ہو سکتے ہیں لیکن صحیح نعت صرف حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ دوسرے اصناف سخن اپنے موضوعات کے لحاظ سے کثرت پسند ہوتے ہیں لیکن نعت توحید پرست واقع ہوئی ہے۔ کیونکہ اس کا محور و مطاف محبت اور صرف محبت ہے۔ غزل بعض اوقات نعت کے حرم پاک میں بار پانے کی بے پناہ تمنا لے کر آگے بڑھتی ہے۔ ایسی صورت میں غزل اور نعت میں کوئی زیادہ مغائرت نہیں ہوتی۔ غزل جب با وضو ہو جاتی ہے تو نعت بن جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات حامد ہے حضور محمد ہیں۔ اللہ کے محمود و محبوب کی تعریف میں قلم اٹھانے کی جرات بڑی جسارت ہے لیکن فطری تقاضوں کی تسکین بھی اپنے درجے میں ایک حقیقت ہے۔ حضور کی تعریف و توصیف ایک فطری تقاضہ ہے۔ اس لیے نعت اضطراراً روا ہوئی۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں حضور کی مدح کے آبدار موتی منظومات کی حسین و جمیل کشتی میں سجانے کی نعمت ارزانی ہوئی۔ حافظ مظہرؔ الدین انہی خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہیں۔
نعت گوئی بہت مشکل اور خطرناک کام ہے۔ مشکل اس لیے کہ محبوب رب العالمین کے حسن و جمال سے آشنائی کا دم بھرنا کوئی آسان بات نہیں اور خطرناک اس لیے کہ مقامِ نعت کی نزاکت و لطافت سے نا آشنائی نعت گو کو سوء ادب اور خسران مبین کی تاریک و عمیق غاروں میں دھکیل سکتی ہے۔ اثباتی پہلو سے نعت گو کے لیے لازمی ہے کہ اس کے وجود کا ذرہ ذرہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کے عشق سے معمور ہو۔ خدائے کریم نے حافظ صاحب کے قلب و نگاہ کی تربیت کا بہترین انتظام فرمایا اور نہیں نہایت مناسب ماحول عطا کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے والد ماجد مولانا نواب الدین صاحب ستکوٹی ثم مدراسی کی خدمت میں گذارا جو سلسلہ چشتیہ کے ایک نامور بزرگ جید عالم دین اور زبان آور خطیب تھے۔ ان کے ارادت مندوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچتی ہے۔ عشق رسول حضرت مرحوم و مغفور کی رگ رگ میں رچا ہوا تھا۔ تبلیغ دین اور حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی محبت میں محفل آرائیاں اور اولیا اللہ اور عاشقان رسول سے ملاقاتیں کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ حافظ صاحب سفر و حضر میں اپنے والدِ بزرگوار کے ساتھ رہ کر مدتوں درس عشق رسول لیتے رہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے افضال و انعام سے وہ ایک صاحب دل عالم دین بھی ہیں۔ رب تعالیٰ کے پاک کلام کا نورانی سمندر ان کے سینہ میں موجزن ہے۔ تحریر و تقریر کی خوبیوں سے آراستہ نظم و نثر کے میدان میں شہسوار ہیں۔ عشق رسول ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ان عظیم نعمائے الٰہی کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ حافظ صاحب کو نعت رسول کا حق پہنچتا ہے۔
حافظ صاحب نے عارفِ کامل حضرت خواجہ سراج الحق صاحب کرنالوی کو بھی دیکھا ہے۔ برسوں ان کے فیوض سے متمتع ہوئے ہیں اور بیعت کا شرف بھی حاصل کیا ہے۔
غزل اور دیگر اصناف سخن بالعموم عالم محسوسات اور عالم وہم و خیال میں محدود و محصور رہتے ہیں۔ نعت کو بھی ان عوالم سے مفر نہیں۔ لیکن اس کی پروازان عوالم سے برتر مقام یعنی عالم امر تک ہوتی ہے۔ یہ مقام مقامِ عشق و محبت ہے۔ عالم امر سے تراوش کردہ مضامین میں مذاق عشق و شان حسن کی آئینہ داری کرتے ہیں۔ حافظ صاحب کے نعتیہ کلام کی تگ و تاز بعض اوقات عالم امر تک ہوتی ہے۔
محبت کی لا انتہا محبوب اداؤں میں سے ایک ادا یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی اچانک ایسی چٹکی لیتی ہے جس سے محب کے دل میں اور شاید محبوب کے دل میں بھی کیف و سرور کی موجیں اٹھنے لگتی ہیں۔ حافظ صاحب کی نعتوں میں اکثر ایسے شعر ملتے ہیں جو پڑھنے یا سننے والوں کو ان چٹکیوں کے پیدا کردہ حسین و لطیف زلزلوں کے جھولے جھلاتے ہیں۔
مثلاً
تیری مٹی وہیں کی ہے مظہر
تجھ سے آتی ہے بو مدینے کی
دنیائے شعر و شاعری میں نعت کو بعض نادان مدِ فاصل تصور کرتے ہیں اور اس لیے ان کے نزدیک نعت کے لیے فنی قواعد و محاسن کا لحاظ ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ یہ طرز عمل نہ صرف فن کی توہین و تخریب کے مترادف ہے بلکہ خود نعت کی عظمت و پاکیزگی کے پیش نظر ایک طرح کی بے ادبی و گستاخی ہے۔
محبوب کے حضور ہر پیش کش حسین و متوازن انداز میں پیش کی جانی چاہیے۔ ظاہر ہے کہ فن کا منصب تحسین و تزئین ہی ہے۔ حافظ صاحب کی نعتیں الحمد للہ فنی اعتبار سے بھی بے داغ حسین اور مزین ہوتی ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے محبوبِ پاک عشق رسول میں حافظ صاحب کی جاں فشانیوں کے ان نقوش کو جو پیراہنِ طباعت سے آراستہ ہو رہے ہیں شرف قبولیت عطا فرمائے اور یہ تازہ مجموعہ حافظ صاحب کے درجات کی مزید بلندی کا موجب ہو۔ آمین ثم آمین
نعت گوئی ہو یہ نعت پر تبصرہ میرے نزدیک ہر دو ادب و احتیاط کے مقام کی چیزیں ہیں۔ اس لیے یہ چند سطور دھڑکتے ہوئے دل اور کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لکھ پایا ہوں۔ خدا کرئے کہ انہیں بارگاہ رسالت میں شرف قبولیت حاصل ہو۔
آمین و آخر دعانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم الذی ہو ذکر للعالمین۔
عبد مذنبِ غفارِ الذنوب
محمد ایوب عفی عنہ (مصنف نوائے فردا)
(ڈپٹی سیکرٹری وزارت مالیات۔ حکومت پاکستان)
اسلام آباد
مورخہ ربیع الاول ہجری بمطابق عیسوی
دیباچہ دوم
حسان العصر حافظ محمد مظہرؔ الدین علیہ الرحمۃ وہ خوش نصیب انسان ہیں جنہیں زندگی بھر بارگاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کی مدح سرائی کی سعادت نصیب ہوئی۔ انہوں نے جمال کی شرح بھی کی اور جمال کا قصیدہ بھی پڑھا۔ نوازے بھی گئے اور انعام بھی پایا۔
ایک انعام خود ان کا وجود باجود ہے جو جمال کا صدقہ و عطا تھا۔ آپکی ذات جمال کی آئینہ دار تھی۔ محبت کی یہ ریت ہے کہ حسن جب خوش ہوتا ہے تو اپنی نشانی عطا کرتا ہے۔ یہ نشانی سرمایہ تسکین بھی ہوتی ہے اور محب و محبوب کے تعلق کو واضح کرتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
حریم جاں میں فروزاں ہے حسن روئے رسول
جلا کہ شمع مری انجمن میں رکھ دینا
اللہ کریم کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے پیاروں کی سنت کو کبھی مٹنے نہیں دیتا۔ حضرت حافظ مظہرؔ الدین کی پیدائش ہی حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سنت کو زندہ کرنے کے لیے ہوئی۔
ازل میں روح کو عشق نبی عطا کرنا
پھر ایسی روح کو میرے بدن میں رکھ دینا
یہی وجہ ہے کہ لوگ جوانی میں ہی آپ کو حسان العصر عاشق رسول اور شاعر دربار رسالت کہہ کر یاد کرتے تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ نعت گو کو شاعر ہی نہ مانتے تھے لیکن آپ نہ صرف جدید اردو نعت کے بانی کہلائے بلکہ نعت کو آپ اس مقام پہ لے آئے کہ اب کسی کے شاعر ہونے کی سند ہی نعت ہے۔ جو نعت نہ کہے وہ شاعر ہی نہیں۔
دوسرا انعام یہ کہ وفات کے ایک سال بعد جب آپ کو چھتر شریف شاہراہ مری پر دفنانے کے لیے نکالا گیا تو معاملہ ایسے تھا جیسے ابھی دفنا کر گئے ہوں۔ عشق کی لطافتوں کا مٹی کی کثافتیں کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں۔
نور بر عارض و رخسار تو تابد مظہر
کز در سید و سلطان حجاز آمدہ
عظمتیں جمال کے ثنا گر کا حصہ ہوتی ہیں۔ جو ثنا کرے گا عظمت پائے گا اعلی و ارفع مقام پر بٹھایا جائے گا۔
کلام سے صاحب کلام کی معرفت ہو جاتی ہے۔ کلام حاضر ہے اسے پڑھ کر اگر آپ اپنے سینے میں عشق رسول کی تپش محسوس کریں تو اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ اس طرح حضرت کی دوسری بہت سی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتابیں جلد سامنے آ سکیں گی۔ میرے مخاطب صرف اور صرف اہل دل اور اہل نظر ہی ہیں کیونکہ میں جبہ و دستار کی اونچی اونچی دکانوں کے پھیکے پکوانوں اور سجادگان کی ہوس جاہ و حشم سے بخوبی واقف ہوں۔
ہوں مدح خوان نبی خوف آخرت کیا ہے
’تجلیات‘ کو میرے کفن میں رکھ دینا
خادم الفقراء میاں اویس احمد مظہرؔ چھتر شریف شاہراہ مری راولپنڈی
قلندروں کی اذاں لا الہ الا اللہ
سرودِ زندہ دلاں لا الہ الا اللہ
سکونِ قلب تپاں لا الہ الا اللہ
دوائے دردِ نہاں لا الہ الا اللہ
فروغِ کون و مکاں لا الہ الا اللہ
تجلیوں کا جہاں لا الہ الا اللہ
قرارِ ماہ و شاں لا الہ الا اللہ
پناہِ گلبدناں لا الہ الا اللہ
ہے بے نیازِ خزاں لا الہ الا اللہ
بہارِ باغِ جناں لا الہ الا اللہ
بتوں سے دے گا اماں لا الہ الا اللہ
بنا وظیفہ جاں لا الہ الا اللہ
وہ خود ہے جلوہ فشاں لا الہ الا اللہ
وجودِ غیر کہاں لا الہ الا اللہ
غریبِ شہر کے سینے میں ہے نہاں کوئی
فقیر کا ہے بیاں لا الہ الا اللہ
یہی ہے میرا پتہ لا الہ الا ہو
یہی ہے میرا نشاں لا الہ الا اللہ
جنوں مشاہدہ ذاتِ ذوالجلال میں ہے
خرد ہے وہم و گماں لا الہ الا اللہ
نظر اٹھا کہ جمودِ حیات بھی ٹوٹے
پکار زمزمہ خواں لا الہ الا اللہ
اسی لیے تو بتوں کی جبیں ہے خاک آلود
ہے میرے وردِ زباں لا الہ الا اللہ
ہے میرا نغمہ توحید لاشریک لہٗ
ہے میری تاب و تواں لا الہ الا اللہ
اسی سے میری محبت کی شام ہے رنگیں
مری سحر کی اذاں لا الہ الا اللہ
وہیں جمالِ رخِ یار کی تجلی ہے
جہاں ہے وجد کناں لا الہ الا اللہ
بہا کے آج لیے جا رہا ہے مظہرؔ کو
برنگ سیل رواں لا الہ الا اللہ
گفتگوئے شہﷺ ابرار بہت کافی ہے
ہو محبت تو یہ گفتار بہت کافی ہے
یادِ محبوبﷺ میں جو گزرے وہ لمحہ ہے بہت
اس قدر عالم انوار بہت کافی ہے
مدح سرکارﷺ میں یہ کیف یہ مستی یہ سرور
میری کیفیتِ سرشار بہت کافی ہے
للہ الحمد کہ ہم سوختہ جانوں کیلیے
شاہﷺ کا سایہ دیوار بہت کافی ہے
کاش اک اشک بھی ہو جائے قبولِ شہﷺ دیں
ایک بھی گوہرِ شہوار بہت کافی ہے
نصرتِ اہل ہمم کی نہیں حاجت مجھ کو
مددِ احمدِ مختارﷺ بہت کافی ہے
بے ادب! دیکھ نہ یوں روضے کی جالی سے لپٹ
کم نظر! بوسہ دیوار بہت کافی ہے
روبرو رہتے ہیں انوارِ مدینہ مظہر
حسرتِ جلوہ دیدار بہت کافی ہے
صل علی محمدٍ
اے کے تیرا جمال ہے رونق محفلِ وجود
اے کہ تری نمود ہے جلوہ طراز ہست و بود
یاد تو داد لذتے ذکرِ تو شوق من فزود
تجھ پر درود اور سلام تجھ پر سلام اور درود
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
آئینہ جمال ہے صورت حق نما تری
پھیلی ہے کائنات میں چاروں طرف ضیا تیری
ہے لبِ جبرئیل پر شام و سحر ثنا تری
غازہ روئے قدسیاں تابشِ خاکِ پا تری
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
شکرِ خدا زباں پہ ہے زمزمہ تیرے نور کا
یہ ہے گھڑی نجات کی یہ ہے سماں سرور کا
یہ بھی تو فیض عام ہے اے شہ دیں حضور کا
میری نوا میں کیف ہے موج مئے طہور کا
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
ارض و سما کی بزم میں دھوم ہے تیرے نام کی
تیرے سوادِ زلف کی تیرے مہِ تمام کی
باعث انبساط ہے بزم میں صبح و شام کی
نغمہ کہیں درود کا گونج کہیں سلام کی
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
کون و مکاں کی رونقیں جلوہ نما حضور سے
مطربِ صبحِ نور کی لے ہے ترے ظہور سے
ہم نے سنا تھا ایک دن سدرہ نشیں طیور سے
حسن ہے تیرے نور سے عشق ہے تیرے نور سے
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
عشق کی منزل و مراد تیرا وجودِ محترم
سوز و سرور و جذب و شوق تیری نگاہ کا کرم
تجھ سے عرب کی عظمتیں تجھ سے عجم ہے محتشم
تیرا جمالِ جاں فروز جلوہ دہِ رخِ حرم
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
ساقی بزم دلبری! عقدہ کشائے غم ہے تو
جود وسخا تری ادا رحم و کرم ہے تیری خو
مدتیں ہو گئیں مجھے تشنہ لب و تہی سبو
تیرے کرم پہ منحصر تیرے گدا کی آبرو
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
تجھ سے کہوں تو کیا کہوں تجھ سے کروں سوال کیا
تیرے حضور اے کریم! کوشش عرض حال کیا
تیری عنایتوں کی خیر فکر و غمِ مآل کیا
تو ہے جو میرا دستگیر ہے مجھے پھر ملال کیا
صلی علی نبینا صل علی محمدٍ
مدینے کی فضا ہے اور میں ہوں
جمالِ حق نما ہے اور میں ہوں
شہِ دیں کی ثنا ہے اور میں ہوں
حقیقت جلوہ زا ہے اور میں ہوں
ہمہ نغمہ ہمہ مستی ہمہ سوز
مری رنگیں نوا ہے اور میں ہوں
برستے ہیں مری دنیا پہ انوار
عطائے مصطفی ہے اور میں ہوں
ہر اک مشکل ہوئی جاتی ہے آساں
مرا مشکل کشا ہے اور میں ہوں
ہے دل مضطر نظر سوئے مدینہ
لبوں پر اک دعا ہے اور میں ہوں
شہنشاہ دو عالم کی گلی میں
فقیرانہ صدا ہے اور میں ہوں
ہوا ہوں باریابِ منزلِ شوق
کرم کی انتہا ہے اور میں ہوں
زباں خاموش ہے آنکھوں میں آنسو
محبت کی ادا ہے اور میں ہوں
مرا عالم ہے جذب و کیف و مستی
یہ نعتوں کا صلہ ہے اور میں ہوں
تری نگاہ سے ذرے بھی مہر و ماہ بنے
گدائے بے سر و ساماں جہاں پناہ بنے
رہِ مدینہ میں قدسی بھی ہیں جبیں فرسا
یہ آرزو ہے میری جاں بھی خاکِ راہ بنے
زمانہ وجد کناں اب بھی ان کے طوف میں ہے
جو کوہ و دشت کبھی تیری جلوہ گاہ بنے
حضور ہی کے کرم نے مجھے تسلی دی
حضور ہی مرے غم میں مری پناہ بنے
ترا غریب بھی شایانِ یک نوازش ہو
ترا فقیر بھی اک روز کجکلاہ بنے
جہاں جہاں سے وہ گذرے جہاں جہاں ٹھہرے
وہی مقام محبت کی جلوہ گاہ بنے
کریم! یہ بھی تری شانِ دلنوازی ہے
کہ ہجر میں میرے جذبات اشک و آہ بنے
وہ حسن دے جو تری طلعتوں کا مظہرؔ ہو
وہ نور دے جو فروغ دل و نگاہ بنے
مصحف روئے محمد کا جو عرفان نہ تھا
دہر میں کوئی بشر صاحبِ ایمان نہ تھا
جب ترا حسن مری فکر کا عنوان نہ تھا
میں ترے عشق کی منزل کا حدی خوان نہ تھا
میں اسی وقت سے منسوب تری ذات سے ہوں
جب کہ جبریل امیں بھی ترا دربان نہ تھا
دشتِ غم میں بھی تری یاد مرے ساتھ رہی
عشق تنہا تھا مگر بے سر و سامان نہ تھا
کون سی خوبی تھی جو نور کے پیکر میں نہ تھی
کون سا پھول تھا جو زیب گلستان نہ تھا
دلِ عشاق نہ کیوں طور تجلی بنتا
عشق فردوسِ محبت تھا بیابان نہ تھا
ان کی یکتائی پہ تھے آدم و حوا بھی فدا
یوسف مصر ہی سو جان سے قربان نہ تھا
مل کے مظہرؔ سے نئے نعت کے مضمون سنے
دور رہ کر ہمیں اندازۂ طوفان نہ تھا
جب لیا نامِ نبی میں نے دعا سے پہلے
مری آواز وہاں پہنچی صبا سے پہلے
کوئی آگاہ نہ تھا شانِ خدا سے پہلے
جلوہ بے رنگ تھا اک جلوہ نما سے پہلے
کر نہ منزل کی طلب راہنما سے پہلے
ذکر محبوب سنا ذکر خدا سے پہلے
بے وضو عشق کے مذہب میں عبادت ہے حرام
خوب رو لیتا ہوں خواجہ کی ثنا سے پہلے
ترے عرفان پہ موقوف ہے عرفانِ خدا
کہ ترا نام سنا ہم نے خدا سے پہلے
دمِ آخر مجھے آقا کی زیارت ہو گی
ایک دن آئیں گے سرکار قضا سے پہلے
حق سے کرتا ہوں دعا پڑھ کہ محمد پہ درود
یہ وسیلہ بھی ضروری ہے دعا سے پہلے
ہم نے بھی اس در اقدس پہ جمائی ہے نظر
جس جگہ منگتوں کو ملتا ہے صدا سے پہلے
نعت میں کیف و اثر کی ہے طلب تو مظہر
مانگ لے سوز درِ شاہ ہدا سے پہلے
دل سے اک ہوک اٹھی سوئے مدینہ دیکھا
ہم نے طوفان میں جب اپنا سفینہ دیکھا
علم و عرفانِ الٰہی کا خزینہ دیکھا
عشقِ سرکار سے معمور جو سینہ دیکھا
ان کے صدقے جنہیں یادِ شہ ابرار ملی
ان کے قربان جن آنکھوں نے مدینہ دیکھا
کون جز سرور دیں عرش بریں تک پہنچا
کس نے قصر شہ لولاک کا زینہ دیکھا
خرد اس معجزۂ شوق پہ حیران ہوئی
ان کے دربار میں جب مجھ سا کمینہ دیکھا
اس نے تنویر رخ ماہ مدینہ دیکھی
جس بشر نے بھی مرے دل کا نگینہ دیکھا
مجھ سا ناکارہ اور اس پر یہ نزولِ الہام
مرے آقا تری بخشش کا قرینہ دیکھا
آج مظہرؔ سے سر راہ ملاقات ہوئی
آج ہم نے بھی سگ کوئے مدینہ دیکھا
دل میرا تجلی کدہ عشقِ نبی ہے
عجمی ہے مگر کشتہ نازِ عربی ہے
ممتاز عراقی ہے یہاں خوش حلبی ہے
یہ سلسلہ عشقِ رسول عربی ہے
خواجہ کی عنایت ہے یہ فیضانِ نبی ہے
سینے میں مرے عشق کی جو آگ دبی ہے
اے ساقی تسنیم! یہ کیا بو العجبی ہے
مدت سے بدستور مری تشنہ لبی ہے
یہ روضۂ سرکار ہے دربارِ نبی ہے
خاموش کہ فریاد یہاں بے ادبی ہے
اس ربط کے اس نسبت باہم کے تصدق
سلطانِ امم! میں عجمی تو عربی ہے
اے پیکر رعنائی و زیبائی و خوبی
تو سید مکی مدنی و عربی ہے
بس اتنا ہمیں مظہرؔ حیراں کا پتہ ہے
وابستہ درگاہِ رسولِ عربی ہے
کیا کہوں ان کے لطف سے یوں ہے دل آشنا کہ یوں
ان کی عطا سے پوچھیے بولے گی خود عطا کہ یوں
یوں حرمِ جمال میں قربِ حبیب تھا کہ یوں
کوئی یہ کیا کہے کہ یوں، کوئی بتائے کیا کہ یوں
سوچ میں تھے الم نصیب کیسے سکوں سے ہوں قریب
میں نے درودِ پاک انہیں پڑھ کے بتا دیا کہ یوں
مجھ کو یہ فکر تھی کہ میں پہنچوں گا طیبہ کس طرح
باغ جہاں کے صحن میں چلنے لگی ہوا کہ یوں
پردہ سوز و ساز میں یا غمِ جاں نواز میں
یوں کہوں ان کے روبرو درد کا ماجرا کہ یوں
جو یہ کہیں کہ فقر کی شان میں دل کشی کہاں
ان کو درِ رسول کا مجھ سا گدا دکھا کہ یوں
مظہرؔ بے عمل کو بھی ان کی لگن ضرور تھی
خیر یہ بحث چھوڑیے، یوں تھا وہ خوش نوا کہ یوں
سرشار میرا دل ہے مدینے کی طلب سے
یارب! ہے مری خاک عجم سے کہ عرب سے
ہر لحظہ دعا ہے دلِ مہجور کی رب سے
آ جائے کوئی نامہ و پیغام عرب سے
اے ماہ عرب! اتنی گذارش ہے ادب سے
آنکھیں میری جلووں کی طلب گار ہیں کب سے
محفوظ رہے حشر میں ہم ان کے سبب سے
ہر پرسش اعمال سے ہر قہر و غضب سے
تفریق نہیں عشق میں عربی عجمی کی
آزاد ہے دیوانہ ترا نام و نسب سے
کونین سر افگندہ ہیں دہلیز پہ تیری
کونین کو توقیر ملی تیرے سبب سے
جب عشق کی دنیا میں چلی رسم غلامی
خواجہ کا قلاوہ مری گردن میں ہے جب سے
گنجینہ اسرار ہے سرکار کا سینہ
جبرئیل بھی سیراب ہوئے امی لقب سے
جس ماہ کی فرقت میں ہیں آنکھیں مری بے نور
اے کاش کہ وہ ماہ بھی گذرے مری شب سے
اللہ کو مرغوب ہیں کیا تیری ادائیں
’قل‘ کہہ کے سنی بات بھی اپنی ترے لب سے
کھل جائیں اگر میرے لیے بابِ مدینہ
چھٹ جاؤں شب و روز کے اس رنج و تعب سے
جس نعت میں ہو سوز و گدازِ دلِ مظہر
وہ نعت ملے گی مرے ایوان ادب سے
میں خستہ دل کہاں درِ خیر البشر کہاں
پہنچی ہے اضطراب میں میری نظر کہاں
قاصد کہاں سفیر کہاں نامہ بر کہاں
لیکن وہ میرے حال سے ہیں بے خبر کہاں
آسودۂ جمال ہے میری نظر کہاں
دیکھی ہے میں نے طیبہ کی شام و سحر کہاں
میر عرب! عجم میں سکونِ نظر کہاں
یہ تو میرے فراق کی منزل ہے گھر کہاں
دل ہے کہاں خیال کہاں ہے نظر کہاں
دیوانۂ رسول کو اتنی خبر کہاں
اہلِ خرد ہیں میرے شریکِ سفر کہاں
یہ راہِ مصطفی ہے یہاں حیلہ گر کہاں
اب اہلِ دل کہاں کوئی اہلِ نظر کہاں
لے جاؤں اب میں اپنی متاعِ ہنر کہاں
آقا نظر کہ عشق کا خانہ خراب ہے
اب سوزِ دل کہاں ہے گدازِ جگر کہاں
معراج ہے نصیب کہاں میرے عشق کو
ہے ان کے آستاں پہ ابھی میرا سر کہاں
طیبہ پہنچ کے ہم بھی سنیں گے صدائے دل
دل نغمہ بار ہو گا سرِ رہگذر کہاں
وارفتگی میں شوقِ زیارت تو ہے مگر
شائستۂ جمال ہے میری نظر کہاں
اے کم سواد! عشق ترا ناتمام ہے
اے دل! ہے دور روضہ خیر البشر کہاں
اے دستگیر دستِ کرم کو دراز کر
یوں ہو گی میری عمر محبت بسر کہاں
یہ وقت مانگنے کا ہے دستِ طلب اٹھا
ناداں ہے بند بابِ قبول و اثر کہاں
کیف آفریں ہے ہجر بھی ان کا وصال بھی
یہ کلفتیں گراں ہیں مرے ذوق پر کہاں
ہیں بے پناہ وسعتیں عشقِ رسول کی
میرا جہان حلقہ شام و سحر کہاں
میرے لیے ہے مدینے کا در کھلا ہوا
ہے نا قبول میری دعائے سحر کہاں
میں عازمِ حرم تجھے آوارگی نصیب
تو میرا ساتھ دئے گی نسیمِ سحر کہاں
ہر لمحہ جاں نواز ہے راہِ رسول کا
عشقِ نبی میں ہو تو سفر ہے سفر کہاں
ہم نے سنا ہے قصہ طور و کلیم بھی
شاہِ امم کی سیر کا عالم مگر کہاں
اک بھید ہے حقیقتِ معراجِ مصطفی
اسرارِ لامکاں کی کسی کو خبر کہاں
چل دوں سوئے مدینہ مگر پا شکستہ ہوں
اڑ جاؤں سوئے طیبہ مگر بال و پر کہاں
شمس و قمر تو کعبۂ قلب و نظر نہیں
ذرے ہیں ان کی راہ کے شمس و قمر کہاں
پیشِ حضور درد کا اظہار کر سکوں
میرا یہ دل کہاں، ہے یہ میرا جگر کہاں
شہرِ نبی میں بکھرے مضامین پڑھ سکوں
اتنا بلند میرا مذاقِ سخن کہاں
ان کا جمال غیرتِ صد جبرئیل ہے
ان کا جمال مثلِ جمالِ بشر کہاں
گھبرا نہ میری نظمِ مرصع ہے گر طویل
افسانہ ان کے حسن کا ہے مختصر کہاں
رنگِ غزل بھی ہے مرے اس رنگِ نعت میں
محدود ہے جمالِ شہ بحر و بر کہاں
مظہرؔ یہ نعتِ خواجہ عالم کا فیض ہے
ورنہ مرے کلام میں تھا یہ اثر کہاں
جس دل میں جلوہ گر ہے محبت حضور کی
اُس دل پہ لاکھ بار ہو رحمت حضور کی
سرکار کا جمال خدا کا جمال ہے
آئینۂ جمال ہے صورت حضور کی
صبحِ ازل کو جس نے پر انوار کر دیا
جلوہ حضور کا تھا وہ طلعت حضور کی
صدیق ہمرکاب تھے بستر پہ تھے علی
ہر طرح کیف بار تھی ہجرت حضور کی
رحمت رسولِ پاک ہیں کونین کے لئے
کونین کو محیط ہے رحمت حضور کی
اس ذاتِ بے مثال کو تشبیہ کس سے دوں
اک حُسنِ بے مثال ہے صورت حضور کی
لاکھوں درود آلِ رسولِ کریم پر
محشر میں بخشوائے گی عترت رسول کی
اے کاش میں بھی خواب میں دیکھوں حضور کو
اے کاش مجھ کو بھی ہو زیارت حضور کی
جب کوئی بھی نہ مونسِ جاں ہو گا حشر میں
ڈھونڈے گی عاصیوں کو شفاعت حضور کی
میرے لئے یہ کم شرف و افتخار ہے؟
بندہ خدا کا اور ہوں اُمت حضور کی
اے کار ساز! اپنے کرم سے مجھے نواز
اے کردگار! بخش محبت حضور کی
شیریں ہے میرے شاہ کا ہر ایک تذکرہ
رنگیں ہے ہر ایک حکایت حضور کی
جس میں خدا کی ذکر تھا جس میں خدا کی یاد
خلوت حضور کی تھی وہ جلوت حضور کی
ہے مظہرؔ جمالِ خدا روضہ آپ کا
آئینہ دارِ حُسن ہے تربت حضور کی
اے نا شناسِ لذت سوز وگدازِ عشق
آ مجھ سے سن لذیذ حکایت حضور کی
امیدوارِ لطف و کرم پر بھی ہو کرم!
مشہور ہے جہاں میں سخاوت حضور کی
میری نوا کا سوز مرے زمزموں کا نور
بخشش حضور کی ہے عنایت حضور کی
اول تھا انبیا سے شہِ انبیا کا ذکر
آخر ہے مرسلیں سے رسالت حضور کی
شاہد ہے ان کے قول و عمل پر کلامِ حق
ثابت کلامِ حق سے ہے عصمت حضور کی
مظہرؔ ہزار جان فدا ایسی موت پر
سنے ہیں مر کے ہو گی زیارت حضور کی
آؤ کہ ذکرِ حسنِ شہﷺ بحر و بر کریں
جلوے بکھیر دیں شبِ غم کی سحر کریں
مل کر بیاں محاسنِ خیرالبشر کریں
عشقِ نبیﷺ کی آگ کو کچھ تیز تر کریں
جو حسن میرے پیشِ نظر ہے اگر اسے
جلوے بھی دیکھ لیں تو طوافِ نظر کریں
وہ چاہیں تو صدف کو درِ بے بہا ملے
وہ چاہیں تو خزف کو حریفِ گہر کریں
فرمائیں تو طلوع ہو مغرب سے آفتاب
چاہیں تو اک اشارے سے شقِ قمر کریں
کونین کو محیط ہے سرکار کا کرم
سرکارﷺ آپ ہم پہ کرم کی نظر کریں
راہِ نبی میں غیر پہ تکیہ حرام ہے
اے عشق آ کہ بے سر و ساماں سفر کریں
دل میں بھی ہو درود، زباں پر بھی ہو درود
یوں منزلِ حبیب کی جانب سفر کریں
کونین وجد میں ہوں، جنوں نغمہ بار ہو
یعنی جہانِ ہوش کو زیر و زبر کریں
چومیں ہر ایک ذرۂ راہِ رسول کو
سجدے قدم قدم پہ سرِ رہگذر کریں
آنسو قبول ہوں درِ خیر الانام پر
نالے طواف روضہ خیر البشرﷺ کریں
شعر و ادب بھی، آہ و فغان بھی ہے ان کا فیض
پیشِ حضور اپنی متاعِ ہنر کریں
ابکے جو قصدِ طیبہ کریں رہبرانِ شوق
مظہر کو بھی ضرور شریکِ سفر کریں
نہیں قیدِ رنج و غم سے کوئی صورتِ رہائی
اے غیاث مستغیثاں ترے نام کی دُہائی
ہے ظہورِ پاک تیرا ہمہ شانِ کبریائی
تو زفہمِ من بلندی تو زفکرِ من ورائی
بہ مقامِ مصطفائی بہ مقامِ مجتبائی
بہ خیالِ من نہ گنجی بہ گمانِ من نہ آئی
وہ سکندری سے بہتر وہ تونگری سے بہتر
ترے در سے جو ملی ہے مجھے لذتِ گدائی
کبھی باریاب ہو گا کبھی با وقار ہو گی
یہ مرا دریدہ دامن یہ مری شکستہ پائی
اُسی بارگاہ میں ہے مرا عشق نغمہ پیرا
جہاں عقلِ خود نما کو نہیں اذنِ لب کُشائی
تری عظمتوں کے قرباں ترے در سے مانگتا ہوں
دلِ سعدی و نظامی دلِ رومی و سنائی
مگر از نگاہِ خواجہ شدی فیض یاب مظہر
ہمہ ذوق و شوق و مستی ہمہ سوزِ آشنائی
عطائے خاص ہے یہ لذتِ گداز تری
بلائیں کیوں نہ لُوں عشقِ شہِ حجاز تری
عجیب شان ہے محبوبِ دل نواز تری
تمام خلقِ خدا ہے شہیدِ ناز تری
ہزار شکر غمِ دوجہاں ہوا معدوم
ہزار شکر ملی بارگاہِ ناز تری
زہے کہ نام بھی ہے تیرا انبساط آور
خوشا کہ یاد بھی ہے زمزمہ طراز تری
مدام محوِ درود و سلام رہ اے دل
یہی رکوع ترا ہے یہی نماز تری
اسی لئے تو گذرتی ہے بے نیازانہ
سنا ہے ہم نے کہ رحمت ہے کارساز تری
مقامِ عشق میں تفریقِ قرب و بعد کہاں
سرِ نیاز ہے اور جلوہ گاہِ ناز تری
حضور کا بھی کرم بے حساب ہے مظہر
حکایتِ غمِ دل ہے اگر دراز تری
وفورِ شوق میں ہر جذبۂ دل میرے کام آیا
کبھی لب پہ درود آیا کبھی لب پر سلام آیا
جہاں بھی منزلِ غم میں کوئی مشکل مقام آیا
وہیں تسکین دینے میرے لب پر اُن کا نام آیا
ہوئی تقسیم جب صبحِ ازل کونین کی نعمت
میرے حصے میں حبِ ساقیِ کوثر کا جام آیا
خرد اب بھی اسیرِ ظلمتِ اوہامِ باطل ہے
نظر ہم اہلِ دل کو جلوۂ حسنِ تمام آیا
زہے طالع کہ یادِ مصطفےٰ میں آنکھ بھر آئے
خوشا قسمت کہ آنسو بن کے رحمت کا پیام آیا
تھم اے بے تابیِ شوقِ فراواں کچھ سنبھلنے دے
ٹھہر اے دل کہ وقتِ مدحتِ خیر الانام آیا
مدینے جا کے میری روحِ مضطر نے اماں پائی
جنوں کی راہ میں یوں تو حرم بھی اِک مقام آیا
مئے حبِ نبی سے مست جب میں حشر میں پہنچا
ہوا اک شور برپا! سرورِ دیں کا غلام آیا
مشہور شد بہ نعتِ محمد کلام ما
’’ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما‘‘
در خادمانِ سرورِ دین است نامِ ما
فرض است بر شہانِ زماں احترامِ ما
ائے نورِ حق تجلی ماہِ تمامِ ما
بنگر ہجومِ تیرگی صبح و شامِ ما
باد صباست قاصدِ رنگیں خرامِ ما
ہر لحظہ می برد بہ مدینہ سلامِ ما
ما زیں مقامِ عشق و محبت بہ حالتیم
شد در سگانِ آلِ محمد مقامِ ما
یک جلوہ زیبت تو بیت الحرام ہست
یک پرتوِ تو ہستی ما و قیامِ ما
جز عشقِ نورِ ذات کسے نیست در جہاں
مقصودِ ما و منزلِ ما و امامِ ما
امروز روح حافظِ شیراز مست شد
امروز لذتے است عجب در کلامِ ما
مظہرؔ سکوں طلبز درِ سید الوجود
ایں است بابِ رحمت و باب السلامِ ما
دو جہاں فدا ترے نام پر ہے سکوں فزا ترا نام بھی
تری ذات پر ہو درود بھی تری ذات پر ہو سلام بھی
مجھے اپنی تابشیں کر عطا تو ہے میرا ماہِ تمام بھی
ہے لٹی لٹی مری صبح بھی ہے بجھی بجھی مری شام بھی
ہیں وہی فروغِ رخِ حرم ہے انہی کی ضو سے عرب و عجم
وہ عرب کے بدرِ منیر بھی ہیں عجم کے ماہِ تمام بھی
جہاں درد حد سے گذر گیا تری یاد وجہِ سکوں ہوئی
یہ کھلا کہ جانِ عزیز سے ہے قریب تیرا مقام بھی
ترا راز کیا کوئی پا سکے ترا جلوہ کیا نظر آ سکے
کہ حریم ناز کی خلوتوں میں ہے تجھ کو اذنِ خرام بھی
ترا نُور صبحِ ازل کی ضَو ترا نُور شامِ ابد کی لَو
ترا نُور جلوۂ صبح بھی ترا نُور جلوہ شام بھی
جہاں عشق بھی ہے سجود میں جہاں حُسن بھی ہے نیاز میں
اُسی بارگاہِ جمال کا میں ہوں ایک ادنی غلام بھی
زندگی کا لطف جینے کا مزا بھی آ گیا
دل جو ڈوبا لب پہ نامِ مصطفیٰﷺ بھی آ گیا
بے نوا بھی آ گیا بے آسرا بھی آ گیا
شہرِ یثرب میں مدینے کا گدا بھی آ گیا
دل پریشاں تھا کہ میں پڑھنے لگا صلو علیہ
میری مشکل میں مرا مشکل کشا بھی آ گیا
اے دلِ مضطر ٹھہر! اے حسرتِ دل سجدہ کر
لو مبارک ہو درِ خیر الوریٰ بھی آ گیا
جلوۂ حق نے کیا آ کر اجالا چار سو
جب بڑھی ظلمت تو پھر نورِ خدا بھی آ گیا
شکرِ ایزد ہو گئی میری محبت بھی قبول
کام میرے تو دلِ درد آشنا بھی آ گیا
رحمتِ کونین! اب تو ہے مرا آنکھوں میں دم
اب تو آ جا اب تو پیغامِ قضا بھی آ گیا
روح پر تسکین بن کر جب محمدﷺ چھا گئے
میری نصرت کے لیے میرا خدا بھی آ گیا
اہلِ دل کی انجمن بے سوز رہ سکتی نہیں
نعت لے کر مظہرؔ شعلہ نوا بھی آ گیا
طلب بھی ان کی ہے انعام چاہ بھی ہے بہت
یہ اشک بھی ہیں غنیمت یہ آہ بھی ہے بہت
مقربین کا حصہ ہے منزلِ محبوبﷺ
مرے لیے تو مدینے کی راہ بھی ہے بہت
حضورﷺ ایک نظر اِک نگاہِ بندہ نواز
حضور ایک نظر اِک نگاہ بھی ہے بہت
یہ آرزوئے دیارِ حبیب صلِ علٰے
یہ آرزو یہ تمنا یہ چاہ بھی ہے بہت
بہت قریب تری ذات ہے رگِ جاں سے
قریب دل کے تری جلوہ گاہ بھی ہے بہت
جو اُن کی یاد میں ہو ہے قبول وہ نالہ
جو سوزِ دل کی امیں ہو وہ آہ بھی ہے بہت
ہے مقبلانِ مدینہ سے مجھ کو نسبتِ خاص
سگانِ در سے مری رسم و راہ بھی ہے بہت
فروغِ جلوۂ رخ سے ہے مہر شرمندہ
خجل ضیائے محمدﷺ سے ماہ بھی ہے بہت
حضورﷺ آپ کا دیوانہ آپ کا مظہرؔ
خراب حال بہت ہے تباہ بھی ہے بہت
بہ ناز آمدہ، با نیاز آمدہ
محمد ہمہ دل نواز آمدہ
پئی بے کساں چارہ ساز آمدہ
شہنشاہِ بندہ نواز آمدہ
بہ باغِ جہاں سروِ ناز آمدہ
بہ موزوں قداں سرفراز آمدہ
عجب ساعتے جاں نوازے رسید
عجب ساعتِ جاں نواز آمدہ
تجلی بر ایوانِ کسریٰ فتاد
تجلیء آہن گداز آمدہ
جنوں نعرہ زد، عشق جامہ درید
نگارے بہ زلفِ دراز آمدہ
بہ شکلِ بشر صورتِ حق نمود
حقیقت بہ رنگِ مجاز آمدہ
کرم بیں! کہ در بزمِ شاہِ حجاز
غزل خوانِ شاہِ حجاز آمدہ
رخِ حیات کی تابندگی حضورﷺ سے ہے
حیات جلوہ در آغوش اُن کے نور سے ہے
یہ مہر و ماہ کی تابانیاں حضور سے ہیں
یہ مہر و ماہ کی تنویر اُن کے نُور سے ہے
ترے ظہور سے پھیلے ہیں سرمدی جلوے
تجلیات کا عالم ترے ظہور سے ہے
انہی کا لطف ، انہی کی نظر کا صدقہ ہے
یہ دل کی موج کہ موجِ مئے طہور سے ہے
ہمیں شہرِ مدینہ سے رنگ و نور ملے
ہمیں بھی نسبتِ یک ذرہ اُن کی طُور سے ہے
جہانِ عشق کی سرمستیاں اُسی کی ہیں
وہ بے نوا جسے وابستگی حضور ﷺ سے ہے
مرے خیال کا موضوع ہے جمالِ رسولﷺ
مری نوا کا اثر عالمِ سُرور سے ہے
نصیب ہوں مجھے انوار سبز گنبد کے
دُعا یہ نکلی مرے قلبِ ناصبور سے ہے
جہانِ آب و گِل و باد سے نہیں مظہر
یہ نغمہ سنج تو فردوس کے طیور سے ہے
ہے گنہگاروں پہ رحمت اُن کی
میرا حصہ ہے شفاعت اُن کی
جن لبوں پر ہے حکایت اُن کی
لذت اُن کی ہے حلاوت اُن کی
جن کے مشتاق ہے نوح و آدم
شکرِ ایزد کہ ہوں اُمت اُن کی
بے خبر! عشق کی دنیا میں بھی آ
سُن کبھی مجھ سے حکایت اُن کی
قریہ قریہ ہے فسانہ اُن کا
عالم عالم ہے حکایت اُن کی
حق کا مفہوم ہے معنیٰ اُن کا
حق کی تصویر ہے صورت اُن کی
وحی کیا چیز ہے قرآن کیا ہے؟
ذکر اُن کا ہے حکایت اُن کی
شہرِ محبوبؐ ہے جن کا مسکن
طاعت اُن کی ہے عبادت اُن کی
عرصۂ حشر ہے کتنا رعنا
فوج در فوج ہے اُمت اُن کی
جن کی نظروں میں ہے روضے کا جمال
حجِ اکبر ہے زیارت اُن کی
جو ترے عشق میں جاں سے گذرے
کون سمجھے گا حقیقت اُن کی؟
تھا فقط ٹاٹ بچھونا اُن کا
اللہ اللہ یہ قناعت اُن کی
کیف ہی کیف ہے اُن کا جلوہ
نور ہی نور ہے طلعت اُن کی
مرحبا سیرت آلِ اطہار
پاک اوصاف ہے عترت اُن کی
لللہ الحمد کہ لحظہ لحظہ
یاد آتی ہے عنایت اُن کی
میں ہوں اور نعت کی رنگین فضا
لے اُڑی مجھ کو محبت اُن کی
جیسے رخشاں ہو ستاروں میں قمر
یوں ہے نبیوں میں نبوت اُن کی
صحنِ گلشن میں ہے اُن کی خوشبو
باغِ عالم میں ہے نکہت اُن کی
ہائے گلزاروں میں اُن کے انوار
ہائے پھولوں میں لطافت اُن کی
عالمِ قدس ہے اُن کا پردہ
بزمِ کونین ہے جلوت اُن کی
جو مرے شاہ کے در کے ہیں غلام
قاف تا قاف ہے شہرت اُن کی
نور برسے گا مری تربت پر
رنگ لائے گی محبت اُن کی
ایک مظہرؔ پہ نہیں چشمِ کرم
دونوں عالم پہ ہے رحمت اُن کی
مدینے کی فضا ہے اور میں ہوں
جمالِ حق نما ہے اور میں ہوں
شہ دیں کی ثنا ہے اور میں ہوں
حقیقت جلوہ زا ہے اور میں ہوں
ہمہ نغمہ ، ہمہ مستی ، ہمہ سوز
مری رنگیں نوا ہے اور میں ہوں
برستے ہیں مری دنیا پہ انوار
عطائے مصطفٰے ہے اور میں ہوں
ہر اک مشکل ہوئی جاتی ہے آساں
مرا مشکل کُشا ہے اور میں ہوں
ہے دل مضطر ، نظر سوئے مدینہ
لبوں پر اک دعا ہے اور میں ہوں
شہنشاہِ دو عالم کی گلی میں
فقیرانہ صدا ہے اور میں ہوں
ہُوا ہوں باریابِ منزلِ شوق
کرم کی انتہا ہے اور میں ہوں
زباں خاموش ہے، آنکھوں میں آنسو
محبت کی ادا ہے اور میں ہوں
مرا عالم ہے جذب و کیف و مستی
یہ نعتوں کا صلا ہے اور میں ہوں
تری نگاہ سے ذرے بھی مہر و ماہ بنے
گدائے بے سر و ساماں جہاں پناہ بنے
رہ مدینہ میں قدسی بھی ہیں جبیں فرسا
یہ آرزو ہے مری جاں بھی خاکِ راہ بنے
زمانہ وجد کُناں اب بھی اُن کے طوف میں ہے
جو کوہ و دشت کبھی تیری جلوہ گاہ بنے
حضور ہی کے کرم نے مجھے تسلی دی
حضور ہی مرے غم میں مری پناہ بنے
ترا غریب بھی شایانِ یک نوازش ہو
ترا فقیر بھی اک روز کجکلاہ بنے
جہاں جہاں سے وہ گذرے جہاں جہاں ٹھہرے
وہی مقام محبت کی جلوہ گاہ بنے
کریم! یہ بھی تری شانِ دلنوازی ہے
کہ ہجر میں مرے جذبات اشک و آہ بنے
وہ حسن دے جو تری طلعتوں کا مظہرؔ ہو
وہ نور دے جو فروغِ دل و نگاہ بنے
مصحفِ روئے تو قرآنِ من است
ایں صحیفہ دین و ایمانِ من است
حجتے بر دین و ایمانِ من است
شکرِ حق در نعت دیوانِ من است
آتشِ عشقِ تو در جانِ من است
شعلہ در دامن نیستانِ من است
ایں عجب در عاشقی شانِ من است
پارہ پارہ جیب و دامانِ من است
قبلۂ دل کعبۂ جانِ من است
شہرِ محبوبی کہ ایمانِ من است
فقر تو سرمایۂ جانِ من است
عظمتِ کونین قربانِ من است
اے سحابِ لطف! اے ابرِ کرم
بیں کہ تشنہ کِشتِ ویرانِ من است
کارواں در راہ و من در منزلے
ہر نشانِ جادہ اش جانِ من است
می نوازد ہر زمان با جلوہ
بندہ پرور شانِ سلطانِ من است
از فیوضِ نعتِ ختم المرسلیں
آسماں گرداں بر ایوانِ من است
مطلع الانوار
مدینے کی طرف جب میرا مستانہ سفر ہو گا
مری دنیا نئی ہو گی مرا عالم دگر ہو گا
فغاں مقبول ہو گی نالہ ممنونِ اثر ہو گا
مسافر موردِ الطافِ شاہ بحر و بر ہو گا
تعالیٰ اللہ صحرائے مدینہ میں سفر ہو گا
جنوں آزادِ قید بندشِ دیوار و در ہو گا
جنوں ہی جادہ منزل جنوں ہی راہبر ہو گا
جنوں ہی نغمہ خواں افسانہ خواں شام و سحر ہو گا
زہے قسمت کہ سارا وقت مستی میں بسر ہو گا
جہانِ ہوش سے دیوانہ اُن کا بے خبر ہو گا
جہاں بھی جس جگہ بھی عشقِ خواجہ جلوہ گر ہو گا
وہاں سارا نظامِ آگہی زیر و زبر ہو گا
توقع ہے کہ دامن خون کے اشکوں سے تر ہو گا
توقع ہے کہ حالِ زار شایانِ نظر ہو گا
نظر کے سامنے جب روضہ خیر البشر ہو گا
بس اک آئینہ ہو گا اور آئینہ نگر ہو گا
رہے گی چپ زباں غم کا بیاں با چشمِ تر ہو گا
ملا اذنِ حضوری تو فسانہ مختصر ہو گا
شہنشاہوں سے رتبہ مجھ گدا کا بیش تر ہو گا
ہر اک اشکِ فروزاں غیرتِ لعل و گہر ہو گا
جمالِ مصطفےٰ تسکین دہِ قلب و نظر ہو گا
تجلی گاہ میرا چاکِ دل چاکِ جگر ہو گا
وہ عالم بھی عجب مسحور کن دیوانہ گر ہو گا
سرِ سودا زدہ ہو گا اور اُن کا سنگِ در ہو گا
جبیں پر نور ہو گی جلوہ معراجِ نظر ہو گا
کہ ہر سجدہ حریمِ ناز کی دہلیز پر ہو گا
دعائیں جتنی مانگی ہیں وہ خواجہﷺ کی نظر میں ہیں
مری جھولی میں اُن رنگیں دعاؤں کا ثمر ہو گا
بہے ہیں اشک جتنے اضطرابِ شوق میں برسوں
اُن اشکوں کا فسانہ شاہ کے پیشِ نظر ہو گا
حضوری میں تو لب تک بھی نہ ہلنے پائیں گے مظہر
کرم خواجہﷺ کا ہو گا اور طلب سے بیش تر ہو گا
معراج کی رات
جلوہ افروز ہے اک ماہِ مبیں آج کی رات
نور ہی نور ہے تا حدِ یقیں آج کی رات
حرمِ ناز میں پہنچے شہِ دیں آج کی رات
حرمِ ناز ہے کچھ اور حسیں آج کی رات
مرحبا صلِ علےٰ حسنِ محمدﷺ کے فیوض
جگمگاتی ہے دو عالم کی جبیں آج کی رات
عالمِ کیف میں ہیں عرشِ معلےٰ کے مکیں
عالمِ وجد میں ہے عرشِ بریں آج کی رات
قاب قوسین کی منزل تھی محمدﷺ کا مقام
رہ گیا سدرہ پہ جبریلِ امیں آج کی رات
عبد و معبود میں حائل کوئی پردہ نہ رہا
یعنی معبود ہے بندے کے قریں آج کی رات
جس حقیقت کی نہیں فلسفہ دانوں کو خبر
اُس سے آگاہ ہیں اربابِ یقیں آج کی رات
ہم گنہ گاروں کی سرکارﷺ نے بخشش چاہی
یاد سرکارﷺ کو آئے ہیں ہمیں آج کی رات
دھُل گئی میرے گناہوں کی سیاہی مظہر
کام آیا ہے مرا حسنِ یقیں آج کی رات
عشق نبی ﷺ ہے راہبر عالمِ وجد و کیف میں
سوئے حجاز ہے سفر عالمِ وجد و کیف میں
ہیں دل و دیدہ و نظر عالم وجد و کیف میں
آج ہیں سارے ہمسفر عالمِ وجد و کیف میں
نورِ خدا ہے جلوہ گر عالمِ وجد و کیف میں
جلوے ہیں حاصلِ نظر عالمِ وجد و کیف میں
جب ملی اُن کی رہگذر عالمِ وجد و کیف میں
ہوگا سماں عجیب تر عالمِ وجد و کیف میں
اُن کے کرم پہ ہے نظر عالم وجد و کیف میں
ہے مری شام اور سحر عالمِ وجد و کیف میں
اب مرے دل کی دھڑکنیں ضامنِ عرضِ شوق ہیں
مجھ سے ہیں وہ قریب تر عالمِ وجد و کیف میں
ہے مری التجا یہی ہے مرا مدعا یہی
لوٹوں عرب کی خاک پر عالمِ وجد و کیف میں
حشر میں ہوگا نغمہ زا مظہرِ زمزمہ سرا
مجھ کو ملی ہے یہ خبر عالمِ وجد و کیف میں
میلاد رسولﷺ
ساعتِ ذکرِ پاکِ رسولﷺ آ گئی سارے عالم پہ اک کیف چھانے لگا
مُطربانِ ازل زمزمہ سنج ہیں رُوحِ کونین کو وجد آنے لگا
اُن کی آمد کے پھر تذکرے چھڑ گئے ذکرِ میلاد پھر دل لُبھانے لگا
گلستاں گلستاں پھر بہار آ گئی پھر چمن کا چمن مسکرانے لگا
سازِ فطرت سے نغمے ابلنے لگے دل کے جذبات شعروں میں ڈھلنے لگے
شاعرِ خوش نوا وجد میں جھوم کر روح پرور ترانے سنانے لگا
چار سُو عبرت انگیز تھا اک سماں ظلمتوں سے تھا معمور سارا جہاں
آفتابِ نبوت ہوا ضَو فشاں نورِ حق ہر طرف جگمگانے لگا
نقشِ بے رنگِ دنیا پہ رنگ آ گیا چار سُو ایک دل کش سماں چھا گیا
ایک امی لقب بن کے محبوبِ رب نعمتوں کے خزانے لٹانے لگا
آج پھر تیری اُمت ہے خوار و زبُوں درد مندوں کی آنکھوں سے جاری ہے خُوں
میرے آقاﷺ سفینہ ہے منجدھار میں میرے خواجہﷺ سفینہ ٹھکانے لگا
یاورِ بے کساں! خلق کے راہبر! ہم غلاموں پہ بھی لطف کی اِک نظر
تیرے قربان مایوسیاں بڑھ گئیں تیرے قرباں یقیں ڈگمگانے لگا
پھر ہمیں عظمتِ بوذری بخش دے شانِ فاروق و فقرِ علی بخش دے
پھر زمانے کے انداز ہیں خشمگیں پھر زمانہ ہمیں آزمانے لگا
عاشقِ روئے جاں فزائے تو ایم
موردِ بخشش و عطائے تو ایم
پادشاہیم ما گدائے تو ایم
زانکہ پروردہ عطائے تو ایم
از ازل نامِ تست وردِ زباں
از ازل زمزمہ سرائے تو ایم
قبلہ شوق و کعبہ جانیم
خاک بوسانِ نقشِ پائے تو ایم
عشقِ تو لذتِ دگر بخشد
سوز در سینہ از ولائے تو ایم
عندلیباں بہ بوستاں شاداند
ما سرِ کوئے دل رُبائے تو ایم
ذوق و مستی عبارتے از ماست
یعنی یک طرفہ ماجرائے تو ایم
عشق را ہر زماں بوجد آریم
نامہ و قاصد و صبائے تو ایم
نے نیازم از غمِ کونین
ما کہ در سایہ لوائے تو ایم
نعمت تو دینِ ما وظیفہ ما
لللہ الحمد در ثنائے تو ایم
’لی مع اللہ‘ بہ شانِ خود گفتی
بے خبر از مقام و جائے تو ایم
چاہتے ہیں مرے بام و در چاندنی
میرے گھر بھی ہو رشکِ قمر چاندنی
لے کے رخسارِ شہﷺ سے اثر چاندنی
ضَو لُٹاتی ہے شام و سحر چاندنی
دیکھ کر حسنِ خیر البشرﷺ چاندنی
ہو گئی اور پاکیزہ تر چاندنی
میری دنیا بھی نور علی نور ہو
اے مرے چاند! پھیلا ادھر چاندنی
چومتی ہے مدینے کے دیوار و در
لُوٹتی ہے مزے رات بھر چاندنی
ہائے طیبہ کے جلووں کا دلکش سماں
ہائے یثرب کی دیوانہ گر چاندنی
میں طلب گار ہوں اُن کے انوار کا
بخش سکتی ہے جن کی نظر چاندنی
میں نے دیکھی ہے ماہِ عرب کی ضیا
ہو گی راتوں مری قبر پر چاندنی
کہکشاں اُن کے قدموں کی اک دھُول ہے
میرے خواجہﷺ کی ہے رہ گذر چاندنی
جلوہ ریز و ضیا گیر و ضو بار ہے
گنبدِ پاک پر تا سحر چاندنی
آج آیا مزا نعت کے نُور کا
آج دیکھی ہے مظہرؔ کے گھر چاندنی
رواں ہے کارواں سوئے مدینہ
کھنچی جاتی ہے جاں سوئے مدینہ
چلو اے ہمرہاں سوئے مدینہ
چلیں نعرہ زناں سوئے مدینہ
تڑپتا رہ گیا اِک عاشقِ زار
گیا سارا جہاں سوئے مدینہ
مدینے کے مسافر! ساتھ لے جا
مری بے تابیاں سوئے مدینہ
یہی دھُن ہے یہی حسرت یہی شوق
کہ پہنچے ارمغاں سوئے مدینہ
زمانہ ہے رہِ بیتُ الحرم میں
ہے روئے عاشقاں سوئے مدینہ
دو عالم وجد کے عالم میں ہوں گے
ہوا جب میں رواں سوئے مدینہ
تجلی گاہِ بطحیٰ سے نکل کر
چلوں گا شادماں سوئے مدینہ
جب آئی یادِ محبوبِﷺ دو عالم
گئی میری فغاں سوئے مدینہ
جھکے ہیں فرطِ تعظیم و ادب سے
مکان و لامکاں سوئے مدینہ
کبھی اے کاش مظہرؔ کا گذر ہو
برنگِ عاشقاں سوئے مدینہ
جب کھُلا اسود و احمر کے لئے بابِ کرم
مجھ تفویض ہوئی نعتِ رسولِﷺ اکرم
بن کے مداحِ نبیﷺ میرا نصیبہ جاگا
سگِ طیبہ کو ملی عظمتِ پاکانِ حرم
اب چھلکتی ہے مرے جام میں کوثر کی شراب
اب ٹپکتی ہے سبو سے مئے نابِ زمزم
اُن کی چوکھٹ کی غلامی پہ ہیں کیا کیا نازاں
ناز نینانِ عرب عشوہ طرازانِ عجم
اُن کی رحمت کا نہیں ایک سوالی میں ہی
عرشِ اعظم کے مکیں بھی ہیں گدایانِ کرم
میں بھی اُن کا مرے نغماتِ حسیں بھی اُن کے
چوں نہ بر بندگی خواجہ بطحیٰ نازم
دل میں شہِ ﷺ کونین کی جلوہ فگنی ہے
اب دل کی فضا رشکِ بہارِ چمنی ہے
جس دل میں کہ عشقِ شہِ مکی مدنی ہے
نایاب نگینہ ہے، عقیقِ یمنی ہے
گیسوئے محمد ﷺ ہیں کہ رحمت کی گھٹائیں
عارض کی صباحت ہے کہ صبحِ چمنی ہے
اعجاز ہی اعجاز ہیں تیرے لبِ گفتار
حکمت کا خزینہ تری شیریں سخنی ہے
منظور مجھے عشقِ نبی ﷺ میں ہے تڑپنا
مطلوب مرا سوزِ اویسِ قرنی ہے
اے گنجِ گہر بار، ہے خالی مرا دامن
اے رحمتِ کونین، تری ذات غنی ہے
ترا ہی کرم سینہ و بازوئے علی ہیں
تیری ہی عطا جذبہ خیبر شکنی ہے
اے سید و سلطانِ امم، تیری دُہائی
آلام نے گھیرا ہے مری جاں پہ بنی ہے
مظہر کی تب و تاب سے کچھ ہم بھی ہیں واقف
جاں دادۂ اندازِ اویسِ قرنی ہے
مدینے کی دلکش فضا دیدنی ہے
چمن ساز موجِ ہوا دیدنی ہے
بہر سمت نورِ خدا دیدنی ہے
رُخِ مصطفٰے کی ضیا دیدنی ہے
وہاں ذرے ذرے کے سینے میں دل ہے
جہاں بھی وہ ٹھہرے وہ جا دیدنی ہے
سخی! تیرے لطف و کرم کے تصدق
غنی! تیری شانِ عطا دیدنی ہے
گنہگار ہیں زیرِ دامانِ رحمت
غرض حشر کا ماجرا دیدنی ہے
نوا دلبرانہ، ادا خُسروانہ
مرے شاہ کا ہر گدا دیدنی ہے
گلیم ابوذر ہو یا فقرِ حیدر
محبت کی ہر اِک ادا دیدنی ہے
غُبارِ مدینہ ہے اکسیرِ اعظم
نظر ہو تو یہ کیمیا دیدنی ہے
مرا درد ہی میرا درماں ہے مظہر
مرا درد ، میری دوا دیدنی ہے
سکون رُوح کو اور دل کو زندگی مل جائے
مجھے اگر شہِﷺ کونین کی گلی مل جائے
جو تیری بارگاہِ ناز کا عطیہ ہو
وہ درد مجھ کو عطا ہو وہ بے کلی مل جائے
تری قسم ترے در کا فقیر ہوں ازلی
طلب یہ ہے کہ ترے در کی چاکری مل جائے
وصال کی تو تمنا ہے پاک بازوں کو
بڑا کرم ہو جو دردِ فراق بھی مل جائے
نواز، شانِ کریمی کا واسطہ یا رب!
درِ رسول ﷺ سے تھوڑی سی بے خودی مل جائے
حضور ﷺ! میں بھی ہوں امیدوارِ لطف و کرم
حضور ﷺ! مجھ کو بھی خیرات حسن کی مل جائے
وہی جگہ ہے مری سجدہ گاہ، میرا حرم
جہاں بھی آپ کے جلووں کی روشنی مل جائے
بس ایک بار توجہ، بس ایک بار کرم
بس ایک بار مجھے داد نعت کی مل جائے
لب پہ ہے گفتگو مدینے کی
اے زہے آرزو مدینے کی
نام لے با وضو مدینے کا
بات کر با وضو مدینے کی
میں کہاں نامراد جاؤں گا
دل نوازی ہے خُو مدینے کی
آ کہ تکمیلِ جذب و شوق کریں
آ کریں گفتگو مدینے کی
ہم نے لوٹے ہیں دو جہاں کے مزے
جب بھی کی گفتگو مدینے کی
روحِ کونین کیوں نہ وجد کرے
کیف آگیں ہے بُو مدینے کی
تیری مٹی وہیں کی ہے مظہر
تجھ سے آتی ہے بُو مدینے کی
زمیں محترم آسماں محترم ہے
مدینے کا سارا جہاں محترم ہے
جہاں ذکرِ میلادِ خیر البشر ہو
خدا کی قسم وہ مکاں محترم ہے
ترا نام بھی جان و دل سے ہے پیارا
تری یاد بھی جانِ جاں محترم ہے
بسی ہو جہاں تیری زُلفوں کی خوشبو
وہ دل محترم ہے، وہ جاں محترم ہے
مدینے کا ہر قافلہ ہے مکرم
مدینے کا ہر کارواں محترم ہے
شہِ دیں کا ہر تذکرہ ہے گرامی
شہِ دیں کی ہر داستاں محترم ہے
یہ فیضان ہے ایک امی لقب کا
کہ مظہرؔ کا رنگِ بیاں محترم ہے
اسی آرزو میں مری عمر گذری، اسی آس میں میں نے دن ہیں گذارے
سکوں ریز ہوں گی مدینے کی گلیاں، مزا دیں گے طیبہ کے رنگیں نظارے
محبت کے فیضان ہی کی بدولت یہ رازِ حقیقت کھلا ہم پہ بارے
شہِ دوسرا کی محبت ہے سچی، غلط ہیں ہوا و ہوس کے سہارے
وہی ہیں مری عشق و مستی کا عنواں، وہی ہیں مری زندگی کے سہارے
جو تیرے کرم نے دئیے ہیں دلاسے جو تیری نظر نے کیے ہیں اشارے
بڑھے گا مری سمت دستِ عطا بھی، وہ فیاض ہیں اور مشکل کشا بھی
دعا لیں گے میری محبت کے آنسو، جزا پائیں گے میرے دل کے شرارے
ہمیں بھی ہے امید تیرے کرم سے، ہمیں بھی ملیں گے گہر تیرے یم سے
جہاں گیر ہیں تیری رحمت کی موجیں، گہر بار ہیں تیری بخشش کے دھارے
دل و جاں فدایت کہ شاہِ حجازی چہ باشد اگر بندہ را نوازی
بہ درگاہِ پاکت فقیرانہ آمد یکے مستمندے، یکے بے قرارے
معراج یہی ہے مری شیریں سخنی کی
توصیف ہے لب پر شہِ مکی مدنی کی
جب بھی نظروں نے کسی پھول کو دیکھا
یاد آئی ہے پیہم تری نازک بدنی کی
بھُولی ہے نہ بھُولے گی فصیحانِ عرب کو
اعجاز نمائی تری شیریں سخنی کی
سرکارﷺ سرا پردۂ اسرار سے گذرے
تکرار سرِ طُور تھی ربِ ارنی کی
اُن کے لبِ جاں بخش سے کچھ مانگ کے لالی
تقدیر چمک اُٹھی ہے لعلِ یمنی کی
دُنیا میں انوکھا ہے کرم میرے سخی کا
دُنیا سے نرالی ہے ادا میرے غنی کی
یارب! دلِ مظہرؔ کو وہی سوز عطا کر
جو سوز تھا قسمت میں اویسِ قرنی کی
بُرہانِ عظیم
کس کی زُلفوں کی مہک لائی ہے طیبہ سے نسیم
دل و جاں وجد کُناں جھُک گئے بہرِ تعظیم
مرے خواجہﷺ کی عنایت کے مظاہر ہیں تمام
لبِ جاں بخشِ مسیحا یدِ بیضائے کلیم
تیری آمد کی مُبشِر ہیں زبُور و انجیل
تری تصدیق میں نازل ہوا قرآنِ حکیم
لبِ داود پہ نغمے تری زیبائی کے
دلِ ایوب و براہیم میں تیری تکریم
خُلد ایک جلوۂ رنگیں تری رعنائی کا
موجِ دریائے کرم تیری ہے موجِ تسنیم
لوحِ محفوظ ضیا ہے تیری پیشانی کی
ترے ایوان کا زینہ ہے سرِ عرشِ عظیم
تری ایک ایک صدا رحمتِ باری کا پیام
تری ایک ایک ادا حجت و برہانِ عظیم
تری اقلیم کے ساحل ہے ازل اور اَبد
از ازل تا بہ ابد پھیلی ہے تیری اقلیم
دامنِ مہر میں ہے بھیک ترے جلووں کی
مہ تاباں تری انگشتِ شہادت سے دو نیم
عرش و کرسی ترے دریا میں ہیں مانندِ حباب
سر فگندہ تری درگاہ میں سدرہ کے مقیم
تری رحمت نے گداؤں کو بنایا سُلطاں
تری تدبیر نے کی نوعِ بشر کی تنظیم
خالقِ سیرت و کردار ہیں تیرے افکار
ضامنِ عدل و مساوات ہے تیری تعلیم
اُن پہ دنیائے محبت کے خزینے قرباں
تو نے جو گنجِ گہر بار کئے ہیں تقسیم
مظہرؔ شانِ خدا تیرے فقیروں کا جلال
غیرتِ اطلس و دیبا ترے بوذر کی گلیم
ترے خدام ہیں پھر تیرے کرم کے محتاج
ترے قرباں ترے خدام کی حالت ہے سقیم
اک نظر اے شہِﷺ ذی شان مدینے والے
کہ ہر اک درد کا درماں ہے تری ذاتِ کریم
لللہِ الحمد غمِ دوریِ منزل نہ رہا
لللہِ الحمد نظر دل میں مدینہ آیا
اُن کا فیضانِ نظر سینہ بہ سینہ پہنچا
اُن کا فیضانِ نظر سینہ بہ سینہ آیا
لبِ جبریل نے سو بار ادب سے چوما
لبِ جبریل پہ جب نامِ مدینہ آیا
عقل کو لذتِ عرفانِ محمدﷺ نہ ملی
عشق کے ہاتھ یہ نایاب خزینہ آیا
نعت پڑھتا ہوا جب حشر میں مظہرؔ پہنچا
غُل ہوا واصفِ دربارِ مدینہ آیا
جامِ طہور
خوشا کہ دیدہ و دل میں ہے جائے آلِ رسول
زہے کہ وردِ زباں ہے ثنائے آلِ رسول
اساسِ دینِ مُبیں ہے وِلائے آلِ رسول
جو سچ کہوں تو ہے ایماں عطائے آلِ رسول
لئے ہے دامنِ دل میں عطائے آلِ رسول
تونگروں سے غنی ہے گدائے آلِ رسول
بہشت و کوثر و جامِ طہور کی ضامِن
صدائے آلِ محمدﷺ نوائے آلِ رسول
میں بوترابی ہوں مجھ کو ملی ہے حبِ علی
مرا وظیفہ ہے مدح و ثنائے آلِ رسول
یہ کیا مقامِ محبت ہے کون سی منزل؟
جبینِ شوق ہے اور نقشِ پائے آلِ رسول
شہانِ دہر کا دریوزہ گر خُدا نہ کرے
بڑے مزے سے ہوں زیرِ لوائے آلِ رسول
سرشکِ دیدۂ خوننابہ بار کیا دل کیا؟
ہزار جانِ گرامی فدائے آلِ رسول
وہیں وہیں دلِ دیوانہ لَوٹ لَوٹ گیا
جہاں جہاں بھی ملا نقشِ پائے آلِ رسول
نفس نفس نئی کیفیتوں کا عالم ہے
نفس نفس میں ہے بوئے ولائے آلِ رسول
خوشا نصیب دو عالم میں ہے لقب میرا
فقیرِ کوئے مدینہ گدائے آلِ رسول
مقصدِ بزمِ کُن فکاں ہیں حضور ﷺ
وجہِ تخلیقِ دوجہاں ہیں حضور ﷺ
مقتدائے پیمبراں ہیں حضور ﷺ
رہبرِ جملہ مُرسَلاں ہیں حضور ﷺ
لامکاں کے بھی راز داں ہیں حضور ﷺ
لامکاں میں بھی ضو فشاں ہیں حضور ﷺ
ہے یہ سب کاروبارِ شوق اُن سے
ہے جہاں جسم اور جاں ہیں حضور ﷺ
اُن کے گیسوئے عنبریں کی قسم
شاہِ خوبانِ دوجہاں ہیں حضور ﷺ
جلوہ فرما وہیں وہیں ہے خدا
جلوہ گستر جہاں جہاں ہیں حضور ﷺ
حشر کا دن ہے یومِ کیف و سُرور
عاصیو! مژدہ درمیاں ہے حضور ﷺ
ہے خدا کا جمال اُن کا جمال
اِک تجلیِ جاوداں ہیں حضور ﷺ
یہ مرادِ دلِ حلیمہ ہیں
سیدہ آمنہ کی جاں ہیں حضور ﷺ
میرے اشکوں میں ہے نمود اُن کی
میرے اشکوں کے درمیاں ہیں حضور ﷺ
ہوسِ جاہ و حشم دل سے نکالی میں نے
دیکھ کر شانِ اویسی و بلالی میں نے
نغمہ و نور کی اک بزم سجا لی میں نے
پا لیا منصبِ رومی و غزالی میں نے
وہ مزے لوٹے ہیں رحمت کے کہ جی جانتا ہے
بن کے درگاہِ محمد ﷺ کا سوالی میں نے
جانے یہ معجزۂ شوق تھا یا سوئے ادب
چُوم لی روضۂ سرکار کی جالی میں نے
مرحلے قرب کے اور بُعد کے سب دُور ہوئے
دل میں رکھ لی تری تصویرِ خیالی میں نے
جب ازل میں ہوئی تقسیم جمال و جلوہ
درِ محبوب ﷺ سے کچھ خاک اٹھا لی میں نے
یہی احساس مری زیست کا سرمایہ ہے
کہ غلامانِ محمد ﷺ سے دُعا لی میں نے
جب بھی دل شکوہ گذارِ غمِ ایام ہوا
دلِ بے تاب کو اک نعت سُنا لی میں نے
تضمین بر نعتِ قدسی
دل میں عشقِ شہ کونین کی ہے آگ دبی
عجمی شیشے میں ہے بادہ نابِ عربی
مجھ سا محرومِ ازل اور یہ فیضانِ نبی
مرحبا سیدِ مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
شہِ خوبانِ عرب نازشِ خوبانِ عجم
ترے جلووں سے ضیا گیر ہیں انوارِ حرم
راحتِ جانِ حزیں ہے ترا اسمِ اعظم
منِ بیدل بجمالِ تو عجب حیرانم
اللہ اللہ چہ جمال است بدیں بو العجبی
کیف پرور ہے ترے باغِ مدینہ کی بہار
عطر سے بڑھ کے معطر ہے پسینہ تیرا
خاکِ در تیری ہے دنیا کے لئے خاکِ شفا
نسبتے نیست بذاتِ تو بنی آدم را
بہتر از عالم و آدم تو چہ عالی نسبی
یہی مکہ تھا ترے فیضِ کرم کو منظور
یہی وادی ترے جلووں سے ہوئی تھی معمور
چُن لیا صبحِ ازل تیری تجلی نے یہ طور
ذاتِ پاکِ تو دریں ملکِ عرب کردہ ظہور
زاں سبب آمدہ قرآں بہ زبانِ عربی
اے شہنشاہِ امم! سید و سالارِ امم
ترے کوچے کی زمیں رُوکشِ گلزارِ ارم
ترا ذرہ بھی ہے صحرا ترا قطرہ بھی ہے یم
نسبتِ خود بہ سگت کردم و بس منفعلم
زانکہ نسبت بہ سگِ کوئے تو شد بے ادبی
خواجہ ہر دوسرا سوئے من انداز نظر
شانِ رحمت بنما سوئے من انداز نظر
سیدی! بہرِ خدا سوئے من انداز نظر
چشمِ رحمت بکشا سوئے من انداز نظر
اے قریشی لقبی ہاشمی و مطلبی
بوذر و خالد و صدیق و عمر تیرے غلام
عرش سے تجھ کو پہنچتا ہے درود اور سلام
شہِ کونین! ترا ہر دلِ زندہ میں مقام
نخلِ شادابِ مدینہ ز تو سر سبز مدام
تا شدہ شہرہ آفاق بہ شیریں رطبی
اے رسولِ عربی! گوہر نایاب حیات
تجھ سے پائی ہے زمانے نے تب و تابِ حیات
حق نے رکھے ہیں ترے ہاتھ میں اسبابِ حیات
ما ہمہ تشنہ لبانیم و توی آبِ حیات
لطف فرما کہ ز حد می گذر و تشنہ لبی
ہم نے چکھی تھی ترے عشق کی مے یومِ الست
ہم اسی بادہ سرشار کی لذت سے ہیں مست
یہی ایمان ہے دنیا کہے اوہام پرست
شبِ معراج عروجِ توز افلاک گذشت
بہ مقامیکہ رسیدی نہ رسد ہیچ نبی
جہاں میں پھیلا ہے نور خدا مدینے سے
جہاں ہوا ہے خدا آشنا مدینے سے
یہ کون لایا ہے غم کی دوا مدینے سے
یہ کس نے بھیجی ہے خاک شفا مدینے سے
گیا مدینے تو پھر لوٹ کر نہ آؤں گا
یہ میں نے باندھا ہے عہد وفا مدینے سے
جمال سید لولاک کی قسم مجھ کو
کہ دل ہوا ہے نہ ہوگا جدا مدینے سے
جنون عشق میں محرومیوں کا ماتم کیا؟
ہمیں پہنچتی ہے اُن کی عطا مدینے سے
ضرور میرے دل زار کو سکوں ہوگا
ضرور آئے گی ٹھنڈی ہوا مدینے سے
ہمیں تو درد محبت نے زندگی بخشی
ہمیں تو درد محبت ملا مدینے سے
اُٹھے ہوئے ہیں حریم جمال کے پردے
ہوئی ہے جب سے نظر آشنا مدینے سے
مرے کلام کی سرمستیاں ہیں لاہوتی
کہ فیض یاب ہے میری نوا مدینے سے
اے شاہ امم سرور دیں جان دو عالم
قربان نگہ ناز کے ایمان دو عالم
گیسو ہیں ترے سورہ والیل کی تفسیر
عارض ہے ترا مطلع دیوان دو عالم
لب ہائے مبارک ہیں شفاعت کے پیامی
چشمان مبارک ہیں نگہبان دو عالم
جبریل تری انجمن ناز کا قاصد
کاشانہ ترا زینت ایوان دو عالم
مشتاق ترے حضرت داود و سلیماں
دربار ترا حلقۂ خوبان دو عالم
اصحاب ترے حنظلہ و بوذر و سلماں
خدام ترے قیصر و خاقان دو عالم
فردوس ترے کوئے دل آویز کا پرتو
نقشہ تری گلیوں کا دبستان دو عالم
محشر ترے اعجاز شفاعت کا کرشمہ
اک موج تبسم تری غفران دو عالم
سمٹی ہے ترے سامنے کونین کی وسعت
پھیلا ہے ترے سامنے دامان دو عالم
اے رحمت کُل مرجع خاصان دو عالم
اے یوسف کونین! سلیمان دو عالم
کیا عرض کروں؟ طاقت گفتار نہیں ہے
سلطان امم! جرات اظہار نہیں ہے
سرت گردم اے قاصد خوش خرامے
بکوئے حبیبم رساں یک پیامے
کہ اے شاہ خوبان و گردوں مقامے
گذر کُن گہے جانب ایں غلامے
یکے سینہ بریاں، یکے چاک داماں
سلامت بگوید بصد احترامے
سر عرش را فخر دادی بپایت
بہ سدرہ فروماند سدرہ خرامے
منم نیز یک بندہ ء کمترینت
چو جبریل داری جہانے غلامے
زہے روئے گلگوں خہے موئے شبگوں!
یکے رشک صبحے یکے ہمچو شامے!
بیا جان من! ساقیِ مے فروشے
کہ از تشنگی جاں دہد تشنہ کامے
مکن التفاتے بہ فردوس مظہر!
بگو مدحت کوئے اُو صبح و شامے!
حسنِ مستور ہوا جلوہ نما آج کی رات
چار سو پھیلے ہیں انوار و ضیا آج کی رات
مستیِ کیف میں ڈوبی ہے صبا آج کی رات
سارے عالم پہ ہے اک رنگ نیا آج کی رات
نور کے جلووں میں لپٹی ہے فضا آج کی رات
سیر کو نکلا ہے اک ماہ لقا آج کی رات
حور و غلماں کی زباں پر ہیں خوشی کے نغمے
لبِ جبریل پہ ہے صلِ علی آج کی رات
انبیا منتظرِ دید کھڑے ہیں خاموش
چشم بر راہِ محمد ہے خدا آج کی رات
حسن نے رخ سے الٹ دی ہے نقابِ رنگیں
فائزِ جلوہ ہے خود جلوہ نما آج کی رات
حسن کیا؟ عشق کو بھی آج ہی معراج ہوئی
حسن سے عشق ہم آغوش ہوا آج کی رات
شبِ معراج! ترے کشفِ حقائق کے نثار
کھل گیا عقدہ ’لولاک لما‘ آج کی رات
تیرہ بختوں کے مقدر کو بدلنے والے!
مجھ سیہ بخت پہ بھی چشمِ عطا آج کی رات
ہے کھڑا در پر تمنائی و شیدا نور کا
خیر تیرے نور کی دے ڈال صدقہ نور کا
یہ بھی فیضان کرم ہے یہ بھی صدقہ نور کا
دامن دل میں لئے بیٹھا ہوں جلوہ نور کا
ہے کلامُ اللہ میں ایک ایک سورہ نور کا
نُور کے پیکر پہ اترا ہے صحیفہ نور کا
اُن کی صورت نور کی ہے اُن کا معنی نور کا
وہ مجسم نور ہیں اُن کا سراپا نور کا
’اُدنُ منی‘ سے کھلا ہم پر یہ عقدہ نور کا
بے محابا تھا شب معراج جلوہ نور کا
تھا حریم ناز میں بے پردہ جلوہ نور کا
نُور سے مل کر ہوا ٹھنڈا کلیجہ نور کا
میرے آقا میرے مولاﷺ کا ہے روضہ نور کا
حشر میں سایہ فگن ہو گا یہ قبہ نور کا
جب رُخ سرکارﷺ سے ٹپکا پسینہ نور کا
بن گیا رخسار شہ کے گرد ہالہ نور کا
اُن کی بزم ناز ہے یا ایک حلقہ نور کا
رشک صد خورشید ہے اک اک ستارہ نور کا
ساقیِ تسنیمﷺ! دے مجھ کو بھی جُرعہ نور کا
میری محفل بھی بنے اک دن نگینہ نور کا
مصحف روئے محمدﷺ ہے صحیفہ نور کا
محو قرآن کی تلاوت میں ہے شیدا نور کا
ہیں مضامیں نعت کے یا ایک دریا نور کا
یم بہ یم طوفاں بہ طوفاں ہے سفینہ نور کا
ہے قبول شاہ دیںﷺ ہر اک قرینہ نور کا
درد مندوں کی صدائیں ہوں کہ نغمہ نور کا
ہے درود سرورﷺ عالم وظیفہ نور کا
میں تو کیا اللہ بھی پڑھتا ہے کلمہ نور کا
میں وہیں سے مانگتا ہوں ایک جلوہ نور کا
ماہ جس در پر کھڑا ہے لے کے کاسہ نور کا
میری شب کو بھی فروزاں کر بوصیری کی طرح
میں بھی لکھ کر لایا ہوں آقا! قصیدہ نور کا
والشمس نگر عارضِ تابانِ محمدﷺ
والیل ببیں کاکلِ پیچان محمدﷺ
بردند مرا سوئے جناں حوروملائک
گفتند کہ این است ثنا خوان محمدﷺ
من جانب شاہانِ زماں روئے نیارم
دریوزہ گرستم ز گدایاں محمدﷺ
در وصفِ گلِ قدس کنم نغمہ سرائی
من بلبلِ خوش لہجہ بستانِ محمدﷺ
ترساں نشود از الم نار جہنم
آنکس کہ زند دست، بدامانِ محمدﷺ
ایں حجتِ دعوائی مسلمانیِ ما بیں
داریم بدِل اُلفتِ یارانِ محمدﷺ
مظہر چہ تواں کرد بیاں وصفِ جمالش
شد خالقِ کونین ثنا خوانِ محمدﷺ
نغمۂ نُور
شوق کو سرمدی لذتیں ہیں عطا مجھ کو حاصل ہے کیفِ دوام آجکل
ہے وظیفہ محمدﷺ محمدﷺ مرا حرزِ جاں ہے محمدﷺ کا نام آجکل
ظُلمتِ شامِ غم کے سائے گھنے تیرگی نے بچھائے ہیں دام آجکل
میری دنیا میں پھر بھی سکوں ریز ہے جلوۂ حسنِ ماہِ تمام آجکل
میرے خواجہ! حوادث کے طوفان میں دے رہا ہے مزا تیرا نام آجکل
دل میں بھی ہے درود و سلام ان دنوں لب پہ بھی ہے درود و سلام آجکل
خستگی اُن سے دادِ وفا پائے گی میرے خواجہ کا ہے فیضِ عام آجکل
حُسن کو بھی ملیں گی نئی طلعتیں عشق کو بھی ملے گا مقام آجکل
منزلوں شوق کے کارواں گائیں گے میرا رنگین و تازہ کلام آجکل
میرے نغموں میں تاثیر ہے درد کی میری لے میں ہے سوزِ تمام آجکل
عشقِ خیر الوریٰ ہے میری زندگی عشقِ خیر الوریٰ ہے امام آجکل
عشق و مستی سے سرشار ہیں جان و دل عشق و مستی ہے میرا پیام آجکل
مٹ گئے مرحلے قرب اور بُعد کے ہے حضوری میں اُن کا غلام آجکل
جسم گو حجلۂ نور سے دور ہے روح کا ہے مدینہ مقام آجکل
ہیں خیالوں میں رنگین جلوے بھرے ہیں فروزاں مرے صحن و بام آجکل
ہے نگہ میں کوئی مہ لقا ان دنوں ہے نظر میں کوئی خوش خرام آجکل
میرے ساقی کے فیضانِ رحمت سے ہے میکدے میں مجھے اذنِ عام آجکل
شیشہ لبریز ہے بادۂ نور سے یثربی مے سے رنگیں ہے جام آجکل
عشق کے معجزے عقل سمجھے گی کیا؟ معجزانہ ہے سارا نظام آجکل
اُن سے بے صوت ہوتی ہے اب گفتگو اُن سے بے واسطہ ہے کلام آجکل
لوہ فروزِ محفلِ امکاں صلی اللہ علیک و سلم
نیرِ اعظم نیرِ تاباں صلی اللہ علیک و سلم
نقشِ جمیلِ صانعِ قدرت جلوہ نمائے نُورِ حقیقت
نورِ مجسم حُسنِ فروزاں صلی اللہ علیک و سلم
مرکزِ وحدت آیۂ رحمت صدر نشینِ بزمِ قیامت
ساقیِ کوثر شافعِ عصیاں صلی اللہ علیک و سلم
اُمتِ عاصی کے رکھوالے! کشتیِ دل کے کھیون ہارے
دل ہیں زخمی آنکھیں گِریاں صلی اللہ علیک و سلم
لاج ہے تیرے ہاتھ ہماری آن پڑی ہے ساعت بھاری
ہم ہیں اور باطل کے طوفاں صلی اللہ علیک و سلم
چشم کرم اے رحمتِ کامل! ایک توجہ رہبرِ کامل
تیری اُمت ہے سرگرداں صلی اللہ علیک و سلم
آ اور کرم فرما اے جلوۂ رعنائی
اب تو مری آنکھوں کی ڈھلنے لگی بینائی
سرکارﷺ جب آئیں گے باشانِ دلآرائی
دیکھی نہیں جائے گی وہ حشر کی زیبائی
دل پر بھی عنایت کر جاں پر بھی عنایت کر
دل بھی ہے تمنائی جاں بھی ہے تمنائی
اب تیرے سوا کوئی مقصود نہیں میرا
اب تیری تجلی ہے اور عالمِ تنہائی
ممکن نہیں دنیا میں ہو کوئی حسیں ایسا
آئینۂ وحدت ہے محبوبﷺ کی یکتائی
اے وحشتِ دل لے چل صحرائے مدینہ میں
صحرائے مدینہ سے کیوں دور ہے سودائی؟
قرباں ترے کوچے کی رخشندہ بہاروں پر
کونین کی رنگینی فردوس کی رعنائی
’کُن برسر تابوتم یک جلوہ بہ رعنائی
اے در لبِ لعلِ تو اعجازِ مسیحائی‘
آرزو ہے کہ جب جاں ہو تن سے جدا سامنے روئے زیبائے سرکار ہو
میرا ہر لمحہ ہو مستیوں کا امیں میرا ظلمت کدہ نُور الانوار ہو
رحمتِ دوجہاں کے سوا کون ہے جو مصیبت میں یار و مددگار ہو
جو مصائب میں تسکینِ دل بخش دے جو غریبی میں ابرِ گہر بار ہو
سیدِ ذی حشمﷺ! اک نگاہِ کرم بحرِ عصیاں میں تا فرق ڈوبے ہیں ہم
میرا مولا بھی ستار و غفار ہے آپ بھی شانِ ستار و غفار ہو
میں تصدق ہے اب تو تمنا یہی ایک حسرت ہے دل میں یہی آخری
میری فریاد ہو اور گلی آپ کی آپ کا شہر ہو اور دلِ زار ہو
عکس روئے محمدﷺ گر آئے نظر دیکھ لُوں گر مدینے کے دیوار و در
دیدہ و دل کو تسکیں کی دولت ملے رُوح گنبد کے جلووں سے سرشار ہو
جو پسندِ دلِ خواجۂ دیںﷺ نہ ہو وہ عبادت بھی ہے سر بہ سر معصیت
جنسِ عصیاں بھی اک جنسِ نایاب ہے رحمتِ شاہِ دیںﷺ گر خریدار ہو
کاش ایسے بھی ایام آئیں کبھی ہو کے حاضر پڑھوں نعت پاک نبی
نغمہ نور مقبولِ مخدومﷺ ہو نالۂ شوق مقبولِ دربار ہو
جن کے فیضِ کرم پر مجھے ناز ہے تا ابد جن کی رحمت کا در باز ہے
کیا عجب اُن کے در سے مجھے بھی عطا سوزِ رومی و سعدی و عطار ہو
آفتابِ نبوت کی گر اک کرن زندگی کے اُفق پر ہو جلوہ فگن
میری ہر صبح صبحِ دلآویز ہو میری ہر شام شامِ ضیا بار ہو
میں نے سمجھا ہے جو مظہرؔ ذات کو حق کے محبوبﷺ کی شانِ لولاک کو
کیسے محدود الفاظ میں ہو بیاں دل کے جذبات کا کیسے اظہار ہو
اے خوشا کہ مجھ کو عشقِ شہِﷺ دوسرا ملا ہے
یہ تپش بھی اِک کرم ہے یہ تڑپ بھی اِک عطا ہے
یہ ہے غایتِ نوازش، یہ کرم کی انتہا ہے
مجھے اپنی یاد بخشی، مجھے اپنا غم دیا ہے
یہاں شان ہے خدا کی، یہاں شان مصطفےﷺ ہے
یہ مدینۃُ النبیﷺ ہے کہ حریم کبریا ہے؟
ترا عشق دل کی خلوت میں جو زمزمہ سرا ہے
میری رُوح وجد میں ہے، مرا ذوق جھومتا ہے
کوئی کیا سمجھ سکے گا کہ یہ آہ و نالہ کیا ہے
شہِﷺ دوجہاں کے کوچے میں فقیر کی صدا ہے
نظرِ کرم کہ آقاﷺ! تو رحیمی و کریمی
نہ کوئی انیسِ غربت ہے نہ کوئی آشنا ہے
مرے رنگِ نعت میں ہے مرے دل کا سوز شامل
بہ زبانِ شعر و نغمہ مرا عشق بولتا ہے
رُوح میں سوز ہو، دل مائلِ فریاد رہے
اِک نظر خواجہﷺ کہ دنیا مری آباد رہے
درد وہ دے کہ مزا جس کا نہ ہرگز بھولوں
وہ تڑپ بخش کہ تا حشر مجھے یاد رہے
جس نے بخشی ہے مرے دل کو یہ سوز آگینی
یا الٰہی وہ جہاں عشق کا آباد رہے
جانے کس وقت مجھے اِذنِ حضوری مل جائے
نالہ مضطر نہ بنے، ہوش میں فریاد رہے
کہیں ایسا نہ ہو مر جاؤں زیارت کے بغیر
کہیں ایسا نہ ہو تشنہ مری روداد رہے
درد بخشا ہے تو تسکیں بھی عنایت ہوگی
اتنا بے تاب نہ میرا دلِ ناشاد رہے
عظمتوںﷺ والے بُلا لے مجھے در پر اک دن
رحمتوں والے نہ مٹی مری برباد رہے
کوئی سرکارﷺ کو دیکھے تو خدا یاد آ جائے
وہ اگر حق کا پتہ دیں تو خدا یاد رہے
رحمتِ دو عالم ہیں رحمتِ خدا یہ ہیں
زخم کا ہیں یہ مرہم درد کی دوا یہ ہیں
سایۂ خدا یہ ہیں، ظلِ کبریا یہ ہیں
حق کو ڈھونڈنے والو! حق کے رہنما یہ ہیں
انبیا میں یاد اِن کی مرسلیں میں ذِکر اِن کا
شاہِ مرسلیں یہ ہیں، جانِ انبیا یہ ہیں
صبحِ اولیں اِن کے نور سے ہوئی روشن
ابتدا ہوئی اِن سے اور انتہا یہ ہیں
جو ہے لاکھ پردوں میں اُس کی ہے خبر اِن کو
جو نظر نہیں آتا اُس سے آشنا یہ ہیں
عشق کو طلب اِن کی حُسن نغمہ خواں اِن کا
حسن و عشق کے محور اور مدعا یہ ہیں
مشکلوں میں گھر کر بھی کوئی غم نہیں مجھ کو
مشکلوں کے طوفاں میں میرے ناخدا یہ ہیں
عقل کو تو عرفان ذاتِ پاک کیا ہوتا؟
عشق باخبر بولا، نورِ کبریا یہ ہیں
بے سبب نہیں عالم میرے ذوق و مستی کا
دل میں ہے جگہ اِن کی دل میں کیف زا یہ ہیں
غارِ ثور میں بھی ہیں اِن کے نور کے جلوے
خلوتِ حرا میں بھی زینتِ حرا یہ ہیں
آئینہ بھی ہوتا ہے حُسنِ ذات کا مظہر
آئینہ خدائے لم یزل کی ذات کا یہ ہیں
اُن کی صورت اُن کی سیرت پر سلام
مصطفےﷺ جانِ محبت پر سلام
جلوہ حق نورِ وحدت پر سلام
شاہکارِ دستِ قدرت پر سلام
آمنہ کے لال پر لاکھوں درود
خاتمِ دورِ رسالت پر سلام
سیدہ کے باپﷺ پر بے حد درود
اُن کی رافت اُن کی رحمت پر سلام
معصیت کاروں کے والی پر درود
شافعِﷺ روزِ قیامت پر سلام
جن کا دردِ ہجر بھی ہے کیف زا
اُن سے ملنے والی لذت پر سلام
جن سے حق کی ذات پہچانی گئی
اُن کی محبوبانہ عظمت پر سلام
فقر ہے جن کا مغیث ہر دو کون
اُن کی غربت اُن کی عُسرت پر سلام
یاد سے جن کی ہے لذت گیر دِل
اُن کی جاں پرور عنایت پر سلام
جلوہ زیبائے اول پر درود
آخری برہان و حجت پر سلام
اُن کے یاروں پر درودِ بے حساب
اُن کی آل اور اُن کی عترت پر سلام
شہرِ طیبہ کے مکینوں کو نوید
ساکنانِ کوئے جنت پر سلام
جلوہ مستانِ نبیﷺ کو تہنیت
اُن کی مستی اُن کی لذت پر سلام
زائرانِ روضہ پر ظلِ خُدا
اُن کے جذباتِ عقیدت پر سلام
ہجر کے مارے ہیں جو میری طرح
اُن کی محرومیِ قسمت پر سلام
جن کا خون ہے سرخیِ روئے حیات
اُن شہیدانِ محبت پر سلام
غازیانِ شاہﷺ پر چشمِ کرم
اُن کی باطل سوز فطرت پر سلام
جو مسافر ہیں ابھی تک راہ میں
اُن کے عزم اور اُن کی ہمت پر سلام
جن کے دل میں ہے مدینے کی لگن
پے بہ پے اُن کی محبت پر سلام
جن کا سینہ عشق سے معمور ہے
اُن محبانِ رسالت پر سلام
جس زبان پر ہے مرے آقاﷺ کا نام
اُس کی شیرینی و لذت پر سلام
واصلانِ بابِ عالی پر درود
مقبلانِ بزم حضرتﷺ پر سلام
عارفانِ راہ پر فضلِ نبیﷺ
صادقانِ پاک طینت پر سلام
جس میں خواجہﷺ نے چرائیں بکریاں
اُس جبل اُس دشتِ رحمت پر سلام
جس فضا نے اُن کو دیکھا بار بار
اُس کے انوارِ مسرت پر سلام
جو ہوا کھیلی ہے اُن کی زلف سے
اُس کی خوشبو اُس کی نکہت پر سلام
جن درختوں نے انہیں سایہ دیا
اُن کے سائے کی لطافت پر سلام
جن بیابانوں سے گذرے بے حجاب
اُن بیابانوں کی وسعت پر سلام
چُومے جن ذرات نے اُن کے قدم
اُن کی قسمت اُن کی عظمت پر سلام
اُن سے جن غاروں کے دل روشن ہوئے
اُن کی جلوہ بار خلوت پر سلام
الغرض جس کو بھی نسبت اُن سے ہے
ہو اُسی اندازِ نسبت پر سلام
نعت پڑھ کیف اور سُرور میں آ
آ مری بزمِ رنگ و نُور میں آ
غم کی بے کیفیوں سے کیا حاصل
حلقۂ صاحبِ سُرور میں آ
عقل کی قیل و قال میں نہ اُلجھ
غیب کو چھوڑ اور حضور میں آ
دیکھ انوارِ بارگاہِ نبی
رشکِ صد جلوہ گاہِ طور میں آ
دامِ بو جہل و بولہب سے نکل
شاہِ کونین کے حضور میں آ
عشقِ صدیق و سوزِ رُوحِ بلال
پردۂ غیب سے ظہور میں آ
اے مدینے کے جلوۂ رنگیں
آ مرے قلبِ ناصبور میں آ
میری شام و سحر کا نُور ہے تو
میری شام و سحر کے نُور میں آ
دیدنی ہے یہ تری شان رسولِ عربی
ہیں ملائک ترے دربان رسولِ عربی
تری عظمت کی ہے پہچان رسولِ عربی
حق نے بھیجا ہے جو قرآن رسولِ عربی
یہ بھی ہے آپ کا فیضان رسولِ عربی
نعت میں ہے مرا دیوان رسولِ عربی
لامکاں اُن کا ہے خلوت گہہِ حق بھی اُن کی
اپنے گھر آپ ہیں مہمان رسولِ عربی
نورِ وحدت ہے ضیا ریز برنگِ کثرت
انبیاء جسم ہیں اور جان رسولِ عربی
حق کا عرفان کسی کو بھی نہیں ہو سکتا
ہو نہ جب تک ترا عرفان رسولِ عربی
دونوں عالم کے ہیں سرکار رسولِ عربی
دونوں عالم کے ہیں سلطان رسولِ عربی
جو ترے عشق و محبت کا نہ ہو آئینہ
نامکمل ہے وہ ایمان رسولِ عربی
ایک میرا دلِ آشفتہ و شیدا کیا ہے؟
دو جہاں آپ پہ قربان رسولِ عربی
خود بخود مشکلیں آسان ہوئی جاتی ہیں
اللہ اللہ ترا فیضان رسولِ عربی
ایک دن روضۂ اقدس پر بلا لو مجھ کو
پورا ہو جائے یہ ارمان رسولِ عربی
ترے دربار سے جو زمزمہ خوانوں کو ملی
ہو عطا مجھ کو بھی وہ شان رسولِ عربی
نعت لکھتا ہوں تو ہوتا ہے نزولِ رحمت
جھُومتا ہے مرا وجدان رسولِ عربی
ربِ کعبہ کی اطاعت ہے اطاعت تیری
حکمِ داور ترا فرمان رسولِ عربی
آپ کا ذکر ہے عنوانِ کتابِ کونین
آپ ہیں مطلعِ دیوان رسولِ عربی
مجھ کو بھی دولتِ عرفانِ محبت سے نواز
ہر طرف ہے ترا فیضان رسولِ عربی
شبِ اسریٰ
شبِ اسریٰ تھا وہ اِک نقطۂ آغازِ سفر
جس جگہ جلتے ہیں انوار سے جبریل کے پر
فرش سے تا بہ سرا پردۂ اسرارِ قدیم
اک تجلی کدۂ نور تھا عالم یکسر
غیرتِ جلوۂ صد ماہِ درخشاں تھی یہ رات
جس کے جلووں پہ فدا سینکڑوں خورشید و قمر
پرتوِ نورِ محمد تھا جمالِ حق تھا
عالمِ قدس کا یہ دلکش و رعنا منظر
رازِ سر بستۂ قدرت تھی ملاقاتِ حبیب
خلوتِ خاص میں ممکن نہیں غیروں کا گزر
دیدۂ شوق میں تھا حسن و جمالِ عربی
آئینہ دیکھ کے حیران تھا خود آئینہ گر
"اُدنُ مِنی” کی صدائیں تھیں حریمِ حق میں
عشق کے دل پہ بھی تھا حُسن کے جلووں کا اثر
’سرِ قوسین‘ کو کیا سمجھے گی عقلِ محدود؟
رازِ معراج کو کیا پائے گا ادراکِ بشر؟
کعبے کی تجلی ہے تنویر مدینے کی
کعبے کے بھی دل میں ہے توقیر مدینے کی
جنت سے نہ کر واعظ! تعبیر مدینے کی
جنت تو ہے دھُندلی سے تصویر مدینے کی
یاد آئی ہے پھر بن کر اِک تیر مدینے کی
صد شکر ہوئی جاں بھی نخچیر مدینے کی
اِک روز دکھا یا رب! تنویر مدینے کی
پھرتی ہے نگاہوں میں تصویر مدینے کی
اب چشمِ تصور میں نقشہ ہے مدینے کا
اب دیدہ و دل میں ہے تصویر مدینے کی
ہے لذت و مستی کا گہوارہ سفر میرا
جب سے کہ مری جاں ہے رہگیر مدینے کی
ہر وقت مدینے میں اِک نور کا عالم ہے
فطرت کے بھی دل میں ہے توقیر مدینے کی
’ہم صندلِ دردِ سر ہم سرمۂ بینائی‘
لاریب ہے مٹی بھی اکسیر مدینے کی
جب بندہ نوازی ہے شیوہ ہے مدینے کا
میرے لئے پھر کیوں ہے تاخیر مدینے کی
شاید دلِ مضطر کو کچھ صبر و قرار آئے
کھینچی ہے تصور نے تصویر مدینے کی
فیضانِ مدینہ سے یہ راز کھُلا مجھ پر
معراجِ محبت ہے توقیر مدینے کی
رخشاں ہیں مدینے میں انوار محمد کے
دنیا میں نہ ہو کیوں کر توقیر مدینے کی
رخصت ہوئے غمگین و افسردہ مدینے سے
حسرت لئے سینے میں شبیر مدینے کی
جب روزِ ادل حق نے پیدا کیا مظہرؔ کو
ڈالی گئی گردن میں زنجیر مدینے کی
قصیدہ
سید و سرور و وقارِ حرم
عظمتِ کعبہ و دیارِ حرم
نقشِ رنگینِ صانعِ قدرت
روغنِ روئے زرنگارِ حرم
مہبطِ وحی و مخزنِ اسرار
غیب آگاہ و راز دارِ حرم
آرزو و مرادِ مشتاقاں
مرکزِ حُسن و عشق یارِ حرم
سر وحدت جمالِ ہوش رُبا
شانِ سبحان در کنارِ حرم
با مقامات غیرتِ جبریل
با عنایات جاں سپارِ حرم
جلوۂ گلستانِ لاہوتی
مظہرؔ ذات افتخارِ حرم
حُسنِ تخلیق و باعثِ تخلیق
نازشِ دو جہاں قرارِ حرم
اولیں نور اولیں انعام
آخری جلوۂ بہارِ حرم
فقر سرمایہ بوریہ بستر
بے زر و سیم تاجدارِ حرم
کیف افروزِ محفلِ ہستی
وجہِ سرمستیِ بہارِ حرم
نُور افشانِ عالمِ موجود
رونقِ قبلہ اعتبارِ حرم
ضامنِ عصمتِ بنائے خلیل
پاسبان و نگاہدارِ حرم
’من رانی فقد را الحق‘ گفت
خاتمِ انبیاء نگارِ حرم
فخرِ کونین! فخرِ موجودات!
تیرا کوچہ ہے افتخارِ حرم
تیری تکبیر اور تری تہلیل
نغمۂ سازِ آبشارِ حرم
تیرا روضہ ہے مطلعِ انوار
تیرا گنبد ہے اعتبارِ حرم
صاحبِ لطف و جُود و خُلق عظیم
مجھ کو بھی بخش دے جوارِ حرم
تیرا دستِ سخا یدِ قدرت
تیرے قبضے میں ہے دیارِ حرم
دے جگہ اپنے آستاں کے قریب
کر عطا کوئی ریگ زارِ حرم
غازۂ رُخ ہو خاکِ راہِ حجاز
سُرمۂ چشم ہو غبارِ حرم
عشق کو سوز و ساز ہے مطلوب
اے جواں عزم! اکِ شرارِ حرم
میں بھی خاک بوسِ راہ ترا
میں بھی ہوں ایک خاکسارِ حرم
میں بھی ہوں گلشنِ محبت میں
گلِ نورستۂ بہارِ حرم
ایک کُہنہ وفا شعار ترا
ایک دیرینہ ریزہ خوارِ حرم
کُشتۂ ناز کُشتۂ انداز
سینہ بریان و دل فگارِ حرم
تیرے تیرِ نگاہ کا زخمی
خوش نصیب آہوئے تتارِ حرم
نغمہ خواں نغمہ ساز نغمہ سرا
بُلبلِ گلشنِ بہارِ حرم
میرے آنسو ہیں عشق کا ہدیہ
میرے جذبات ہیں نثارِ حرم
دست بکشا و دست گیری کن
طے نہ یُوں ہو گی رہگزارِ حرم
پا شکستہ بھی ہوں ملول بھی ہوں
نظرِ لطف شہر یارِ حرم
المدد! المدد! شہِ کونین!
وقتِ نصرت ہے غمگسارِ حرم
الغیاث الغیاث میرِ عرب!
آج خطرے میں ہے وقارِ حرم
متحد ہیں یہود بہرِ قتال
منتشر جُملہ شہسوارِ حرم
ہیں کلیسا و دیر شیر و شکر
زہر آلود خلفشارِ حرم
اب دلوں میں نہیں وہ جوشِ عمل
ہو گیا سرد شعلہ زارِ حرم
ہائے انجامِ کار کیا ہو گا؟
لے نہ ڈوبے یہ انتشارِ حرم
چارہ سازِ شکستگاں! فریاد
دیکھ پامالیِ بہارِ حرم
آپ کی بزم میں قبول ہو میرا نغمہ یا نبیﷺ
میرا وظیفہ یا رسول میرا وظیفہ یا نبیﷺ
قبلے کا قبلہ یا نبیﷺ، کعبے کا کعبہ یا نبیﷺ
آپ کا گنبدِ حسیں، آپ کا روضہ یا نبیﷺ
دل کو اگر نصیب ہو آپ کا جلوہ یا نبیﷺ
غیرتِ شمعِ طُور ہو دل کا نگینہ یا نبیﷺ
آپ کا ذکرِ منیر ہے آپ کا نامِ پاک ہے
میرا ذریعۂ نجات، میرا وسیلہ یا نبیﷺ
ایک تبسمِ حسیں ایک نگاہِ دل نواز
ظلمتِ بحرِ غم میں ہے میرا سفینہ یا نبیﷺ
غازۂ روئے عشق ہو کاش غبارِ کربلا
سرمۂ چشمِ شوق ہو خاکِ مدینہ یا نبیﷺ
یہ بھی عطا حضور کی یہ بھی کرم حضور کا
یہ میرا نغمہ یا نبی یہ میرا نالہ یا نبیﷺ
لاکھوں درود آپ پر لاکھوں سلام آپ پر
مظہرِ حسنِ ذات ہے آپ کا جلوہ یا نبیﷺ
یہی ہے جی میں کہ اب مصطفےﷺ نگر کو چلیں
نبی کے شہر میں پہنچیں نبی کے گھر کو چلیں
ہیں جس پہ منزلیں قربان اُس سفر کو چلیں
دو کون کا ہے جو مقصود اُس نگر کو چلیں
سکون بخشنے اپنے دل و جگر کو چلیں
طوافِ روضۂ سلطانِ بحر و بر کو چلیں
خدا کے گھر کو چلیں مصطفےﷺ کے گھر کو چلیں
جہاں بھی نور ہے اُن کا چلو اُدھر کو چلیں
حضورِ شاہﷺ ملے آنسووں کو حسنِ قبول
سنانے قصۂ غم اپنے داد گر کو چلیں
ہے جن کا جلوۂ زیبا فروغِ قلب و نظر
چلو کہ دیکھنے اُن پاک بام و در کو چلیں
سفر حجازِ مقدس کا اختیار کریں
مسافرت کو کریں ترک، اپنے گھر کو چلیں
جہاں جہاں سے شہِ ذی وقار گزرے ہیں
ادب سے چومنے اُس خاکِ رہگزر کو چلیں
بصد خلوص جو لے جائے دردِ محرومی
چلو کہ ڈھونڈنے اب سے پیامبر کو چلیں
سمیٹ لیں دل و دیدہ میں بھیک جلووں کی
دُعائیں دینے مدینے کے بام و در کو چلیں
ہے جس کے نور سے تابندہ عارضِ جبریل
ملے جو اِذن تو ہم بھی اُسی نگر کو چلیں
جمالِ گنبدِ خضرا ہے جس کی نظروں میں
نوید دینے نظر والے اُس بشر کو چلیں
سخن شناس کریں قصد جب مدینے کا
تو ساتھ لے کر مرے فن، مرے ہُنر کو چلیں
ہے سینہ چاک فراقِ رسولﷺ میں مظہر
جو اہلِ دل ہیں وہ دیوانے کی خبر کو چلیں
ازل سے فطرتِ بو جہل و ذوقِ بو لہبی
ہے نا شناسِ مقامِ محمدِ عربی
ہے رشکِ کوثر و تسنیم تیری ایک نظر
ترے کرم کی ہے محتاج میری تشنہ لبی
بس اک تجلیِ دیوانہ ساز و بندہ نواز
بس ایک جلوۂ رنگین بہ خاکِ تیرہ شبی
ادب ادب نگہِ شوق! یہ مدینہ ہے
یہاں نظر کی بھی آوارگی ہے بے ادبی
جہاں میں عام ہے فیضان میرے ساقی کا
حبش کا جامِ سیہ ہو کہ شیشۂ حلبی
حضور ہی کی نوازش ہے میرا کربِ مُدام
حضور ہی کی عطا ہے مری سکوں طلبی
مری نگاہ میں وہ رشک طور و ایمن ہے
وہ دل کہ جس میں ہے عشقِ نبی کی آگ دبی
یہی جہاں میں ہے پہچان مردِ مومن کی
زبان پر زمزمۂ حمد لب پر نعتِ نبی
زہے نصیب کہ روزِ ازل سے ہوں مظہر
غلامِ سیدِ لولاک بندۂ عربی
مولی کی رحمتوں کا خزینہ نظر میں ہے
تقل علی کہ شہر مدینہ نظر میں ہے
طوفاں نظر میں ہے نہ سفینہ نظر میں ہے
تیرا کرم ہی شاہ مدینہ نظر میں ہے
اب بام و در ہیں شہر نبی کے نگاہ میں
طیبہ کا ایک ایک قرینہ نظر میں ہے
دیکھے کوئی حضور کی بندہ نوازیاں
مجھ سا ذلیل، مجھ سا کمینہ نظر میں ہے
حُسنِ ازل، فروغِ ابد دیکھتا ہوں میں
رنگینی ء جمالِ مدینہ نظر میں ہے
یا رب! نواز دولت سوز و گداز سے
بوذر کا دل، بلال کا سینہ نظر میں ہے
بنتِ رسول! تیری غذا یا د ہے مجھے
نانِ شعیر و نانِ شبینہ نظر میں ہے
جس میں عرب کا مہرِ مبیں جلوہ گر ہوا
صدیوں کے بعد بھی وہ مہینہ نظر میں ہے
اب میری چشمِ شوق پہنچتی ہے عرش تک
معراج جانے والے کا زینہ نظر میں ہے
بندہ نواز! بندہ نوازی سے کام لے
بندہ نوازیوں کا قرینہ نظر میں ہے
دل کیا ہے؟ ایک مخزنِ اسرارِ مصطفیٰ
یہ گنجِ معرفت، یہ خزینہ نظر میں ہے
مظہر تصورات کی دنیا ہے عطر بیز
محبوبِ کبریا کا پسینہ نظر میں ہے
ندیم! آج مدینے کی گفتگو ہو جائے
ہو آنکھ اشک فشاں، دل لہو لہو ہو جائے
ارادہ ہے کہ مدینے پہنچ کے نعت پڑھوں
دل و نگاہ کی تقدیس با وُضو ہو جائے
مرے لئے ہے جہنم کہ خلد داورِ حشر؟
جو آج ہونا ہے وہ اُن کے روبرو ہو جائے
فسانہ ہجر کا پیشِ حضور اشک کہیں
زباں خموش ہو اور شرحِ آرزو ہو جائے
محال ہے کہ مزوِّز! نبی کا دیوانہ
مدینہ سامنے ہو اور قبلہ رو ہو جائے
حرم کے خاک نشینوں کی بھی بلائیں لیں
سگانِ طیبہ سے بھی دل کی گفتگو ہو جائے
یہی ہے اب تو تمنا کریم ابنِ کریم
کہ دل سے محو، یہ دنیائے کاخ و کو ہو جائے
عطا ہو تیرے ثنا خواں کو ایسی سرمستی
کہ مست میری نواؤں سے چار سو ہو جائے
زوال فکر و نظر ہے خرد کی بے کیفی
جنونِ عشق نوا سنج کو بہ کو ہو جائے
مرے سبوچہ و ساغر میں مستیاں بھر دے
امینِ کیف مرا جام اور سبو ہو جائے
گناہگار کو مطلوب ہے اگر رحمت
گناہگار خجل اُن کے روبرو ہو جائے
مقامِ بدر ہے، یہ احد کی منزل ہے
اِدھر بھی آؤ کہ تھوڑی سی ہا و ہو ہو جائے
یہ غارِ ثور کے جلوے ہیں، یہ حرا کا مقام
یہاں بھی دیدۂ نم ناک با وُضو ہو جائے
صفا و مروہ کے میداں میں اِس طرح دوڑیں
کہ عشق غلغلہ انداز چار سو ہو جائے
عجیب شانِ خدا جنت البقیع میں ہے
یہاں بھی آ کے مرا عشق سرخ رو ہو جائے
حریم حق میں تو لبیک کی صدائیں تھیں
یہ ہے مدینہ، یہاں ختم گفتگو ہو جائے
کرم ہو اُن کا تو بھر جائے دامنِ مظہر
نظر کریں تو ہر اِک چاکِ دل رفو ہو جائے
ز ہوائے اُو نسیما! دلِ غنچہ را کشودے
بہ رساں بہ اُو سلامے بہ رساں بہ اُو درودے
اگر آں کرم نمائے نہ بہ من کرم نمودے
دلِ درد آشنائے بہ کنارِ من نہ بودے
زہے عابدے کہ خواند بہ حریمِ اُو نمازے
زہے ساجدے کہ ریزد بہ زمینِ اُو سجودے
ز سوادِ زلفِ شاہے رخِ شام رنگ گیرد
ز فروغِ عارضِ اُو رخِ صبح را نمودے
ز گروہِ شہر یاراں چہ کشودِ کار جویم؟
شہِ مرسلاں! بخواہم ز نگاہِ تو کشودے
دلِ ذرہ ذرہ دارد ز خرامِ اُو نشانے
اے جبینِ شوق آور! بہ دیارِ اُو سجودے
دلِ عرشیاں گدازم، دلِ فرشیاں بہ سوزم
بنواز زاں نوائے، بنواز زاں سرودے
پئی من شدہ است مظہر ز ازل پناہ گاہے
حَرمِ جمالِ پاکے، درِ سیدُ الوجودے
ابو تراب
ازل کی مستیِ رقصاں ابد کا کیف و سرور
ظہورِ سرِّ ولایت نمودِ عشقِ غیور
تلاطمِ یم ہستی تموّج انوار
عرب مطلعِ رنگیں پہ زمزموں کی پھوار
جلالِ چہرہ یزداں جمال روئے رسول
فروغ صبح تجلی سکونِ قلب ملول
قسیمِ کوثر و تسنیم کی ادائے جمیل
حریمِ قدس کا محرم نبی کے گھر کا کفیل
نگاہدارِ نبوت عالی کش ایام
بہ رزم قہر الٰہی بہ بزم لطفِ تمام
بدوش خواجہ ولایت کا منتہائے کمال
زمانہ لا نہ سکے گا کبھی علی کی مثال
علی کے نور سے مردانِ حُر تجلی گیر
علی کا فقر ہے بدر و حنین کی توقیر
علی کا عزم ہے جزات فزائے اہلِ حرم
علی نصیر و علی ناصر و علی محکم
علی کا زور ہے مرحب شکار و کفر شکن
علی کی ضرب سے خیبر کے معرکے کی پھبن
علی ہے معنیِ ام الکتاب و نفسِ رسول
علی لطیف علی حسنِ علت و معلول
علی ہے مظہرؔ تقویمِ جملہ موجودات
علی ہے نورِ الٰہی علی ہے پرتوِ ذات
علی شہید و علی شاہد و علی مشہود
علی وجود و علی واجد و علی موجود
علی علیم و علی عالم و علی معلوم
علی قسیم و علی قاسم و علی مقسوم
علی خبیر و علی مخبر و علی ہے خبر
علی نظیر و علی ناظر و علی ہے نظر
علی حسین و علی احسن و علی ہے حسن
علی خزینہ علی خازِن و علی مخزن
ہر اِک ادا میں ہیں سو جلوے ماہتابی کے
نثار دیدہ و دل شانِ بُو ترابی کے
امام حسین علیہ السلام
اُٹھا نگاہ میں اِک عزمِ بے پناہ لئے
ستارہ صبح کا تنویرِ مہر و ماہ لئے
عذار طلعتِ رخشاں، جبیں گلابی تھی
پیمبرانہ ادا، شانِ بُو ترابی تھی
نبی کی آل کو ہمراہ لے کے نکلا تھا
فروغِ جلوہ گہِ ماہ لے کے نکلا تھا
اُٹھا تو عظمتِ کونین جھوم جھوم گئی
نظر فرینی دارین جھوم جھوم گئی
سلام دشتِ مصیبت میں آنیوالے پر
خدا کی راہ میں سب کچھ لُٹانے والے پر
وہ جس نے رسم و رہِ عشق کی بنا ڈالی
بنائے قصرِ شہنشاہیت ہلا ڈالی
بلند مرتبۂ لا الہ جس نے کیا
یزید و شمر کا لشکر تباہ جس نے کیا
میانِ کرب و بلا خاک و خون میں تڑپا
وہ جس نے عشق کو اِک تازہ ولولہ بخشا
وہ سروِ ناز تھا بھوکا بھی اور پیاسا بھا
رسولِ پاک کا محبوب بھی نواسا بھی
تمام جسم بھی زخمی تھا اور سینہ بھی
لُٹا چکا تھا بھرے گھر میں کا سب خزینہ بھی
مگر اطاعت شمر و یزید کی نہ قبول
مرا سلامِ محبت، ریاض دہر کے پھول
اے عاشقوں کے قافلہ سالار السلام
دینِ محمدی کے نگہدار السلام
عالم فروز و مطلعِ انوار السلام
ضو ریز و ضو فشان و ضیا بار السلام
حسن و جمالِ سیدِ ابرار السلام
آئینہ دارِ عظمتِ کردار السلام
اللہ کی رضا کے طلب گار السلام
اے رہ نورد جادۂ دشوار السلام
بازو و دستِ حیدرِ کرار السلام
اسلام کے معین و مددگار السلام
حق آشنا و محرمِ اسرار السلام
اے جان و دل سے حق کے خریدار السلام
تصویرِ شوق و جلوۂ سرشار السلام
عزم آفرین و صاحبِ کردار السلام
حسنِ تمام حسن کے شہکار السلام
باغِ رسول کے گلِ بے خار السلام
نورِ نگاہِ مرتضوی جانِ سیدہ
تسکینِ روحِ عابدِ بیمار السلام
اے رُوحِ پاکِ سیدِ مظلوم! الصلوۃ
مظلومِ تیغ و خنجرِ خونخوار السلام
تیغِ علی و خنجرِ برانِ مصطفے
اے ربِ ذوالجلال کی تلوار السلام
اے عشق کے امام محبت کے پیشوا
صدر الصدور ملتِ احرار السلام
خود دار و خود شناس و خود آگاہ و خود نگر
حق بین و حق نما و حق آثار السلام
تو اور قید لشکرِ شمر و یزید میں؟
تو اور بندِ غم میں گرفتار السلام
جو زخم بھی لگے ترے جسمِ لطیف پر
وہ زخم میرے دل کا ہیں آزار السلام
تھا فطرتاً بلند مذاقِ نظر ترا
حق کے نقیب حق کے علمدار السلام
پڑھتے ہیں تجھ پہ لوگ ہر اِک شہر میں درود
کہتے ہیں تجھ کو کوچہ و بازار السلام
تڑپا رہی ہے مجھ کو بھی مظلومیت تری
میں بھی ہوں دل فِگار و عزا دار السلام
جِلو میں رہ عشق کے چند راہی زرہ کی جگہ جن کا ملبوس سادہ
ترے عزمِ محکم کے قربان جاؤں یہ سامان اور کربلا کا ارادہ
ابھی تک وہی قبلۂ جان و دل ہے ابھی تک وہیں عشق ہے سر نہادہ
ترے ذوق نے جو بنائی ہے منزل ترے عشق نے جو تراشا ہے جادہ
محبت کے رمز آشنا کرنے آئیں ترے صدق و اخلاص سے استفادہ
تری یاد ہے آج منزل بہ منزل ترا ذکر ہے آج جادہ بہ جادہ
شہادت کے نشے میں سرشار ہو کر کیا تو نے جب کربلا کا ارادہ
ترے سامنے تھی اجل سرفگندہ ترے سامنے تھی قضا سر نہادہ
وہ دشتِ بلا وہ قیامت کا منظر وہ لاشوں کے انبار اللہ اکبر
اُدھر سائے میں شمر کا لاؤ لشکر اِدھر دھوپ میں ہاشمی خانوادہ
یہ تیرا کرم تھا کہ سر دے کے تو نے کیا زندہ روحِ صداقت کو ورنہ
سیاست تھی خود بینی و خود نمائی صداقت پہ تھا مصلحت کا لبادہ
محبت کی تفسیر ہے خون تیرا ہے فطرت کو مطلوب مضمون تیرا
جو تیری زباں پر تھا حرفِ صداقت جہاں کر رہا ہے اُسی کا اعادہ
پیام دیتی ہے اب بھی یہ کربلا کی زمیں
حسین و شمر کا اندازِ فکر ایک نہیں
حسین بے سر و ساماں، حسین بے لشکر
یزیدیوں کی سپہ، شمر کے یسار و یمیں
یہ کون ہے؟ یہ محمد کے دل کا ٹکڑا ہے
جبیں پہ نورِ نبوت، جگر میں سوزِ یقیں
رہِ خدا میں لٹانے کو لے کے آیا ہے
تمام گوہرِ تاباں، تمام لعل و نگیں
مچی ہے لشکرِ شمر و یزید میں ہلچل
کھڑا ہے دھوپ میں ابنِ علی بصد تمکین
جلالِ مرتضوی کی نمود آنکھوں میں
جمالِ یار کا آئینہ، تابناک جبیں
شہادتِ علی اصغر سے بھی نہیں مغموم
شہادتِ علی اکبر سے بھی نہیں غمگیں
بس اک شہادتِ عظمی ہے منتہائے نظر
زہے کمالِ جگر گوشۂ رسولِ امیں
شہیدِ کرب و بلا! کیا مقام تیرا ہے
ہجومِ غم میں بھی دل شاد کام تیرا ہے
ترے نقوشِ قدم مشعلِ ہدایت ہیں
حیات جس پہ ہے نازاں وہ کام تیرا ہے
یہاں خیال و قیاس و گماں کا دخل نہیں
یہ کربلا ہے، یہاں انتظام تیرا ہے
خوشا کہ میرے لبوں پر ہے گفتگو تیری
زہے نصیب کہ دل میں مقام تیرا ہے
انیسِ خاطرِ ناشاد، یاد ہے تیری
تسلیِ دلِ رنجور، نام تیرا ہے
صداقتوں کے امیں جاں نثار ہیں تیرے
زعیمِ وقت ہر اک تشنہ کام تیرا ہے
خدا گواہ کہ ہستی ہے لازوال تری
تری قسم کہ مسلّم دوام تیرا ہے
خرد کو بادۂ الہام کی ضرورت ہے
جہاں کو پھر ترے پیغام کی ضرورت ہے
اللہ اللہ عظمتِ شانِ شہیدِ کربلا
کتنا رخشندہ ہے عنوانِ شہیدِ کربلا
ساری دنیا پر ہے لازم کربلا کا احترام
ساری دنیا پر ہے احسانِ شہیدِ کربلا
کون ہے منزل شناسِ راکبِ دوشِ رسول
کس کو ہو سکتا ہے عرفانِ شہید کربلا
میرا سینہ ٹکڑے ٹکڑے ہے غمِ شبیر سے
میرے جان و دل ہیں قربانِ شہید کربلا
ہر نفس میں بوئے خوں ہے ہر بشر سینہ فگار
عام ہے دنیا میں فیضانِ شہید کربلا
میری نظروں میں ہے رنگِ جلوۂ روئے حسین
میرے ہاتھوں میں ہے دامانِ شہیدِ کربلا
اصغر و اکبر کے لاشے بے کسوں کی بے کسی
کربلا میں یہ تھا سامانِ شہیدِ کربلا
دست و بازو میں تھی قوت حیدرِ کرار کی
تھا قضا کا تیر پیکانِ شہیدِ کربلا
زیرِ خنجر بھی رہی تکمیلِ سجدہ کی طلب
دیدنی ہے ذوق و وجدانِ شہیدِ کربلا
اے دلِ درد آشنا اے دیدۂ خوننابہ بار
لا کوئی نذرانہ شایانِ شہیدِ کربلا
ریزہ ریزہ جسم و جانِ اعتبارِ قدسیاں
ٹکڑے ٹکڑے جیب و دامانِ شہید کربلا
رباعیات
وہ شان و ادائے دلربائی تیری
عالم کو ہے یاد حق نمائی تیری
پھر گھیرا ہے وقت کے یزیدوں نے ہمیں
شاہنشۂ کربلا دہائی تیری
—
کوفی بھی وہی ہیں طمطراقی بھی وہی
شامی بھی وہی ہیں بد مذاقی بھی وہی
جا کر یہ کوئی ابنِ علی سے کہہ دے
اِس دور میں بھی یزید باقی ہیں وہی
—
تکمیلِ رہ و رسمِ وفا کا دن ہے
بندے کا نہیں ہے یہ خدا کا دن ہے
جبریل بھی حیران ہیں فطرت بھی خموش
کیا معرکۂ کرب و بلا کا دن ہے؟
۔۔۔
بیادِ مخدوم علی ہجویری عرف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
اے خوشا عظمتِ دربارِ علی ہجویری
جلوہ افروز ہیں انوارِ علی ہجویری
خلق ہے طالبِ دیدار علی ہجویری
مرحبا گربا زارِ علی ہجویری
میں کہ اک سوختہ سامانِ محبت تھا مجھے
مل گیا سایۂ دیوارِ علی ہجویری
دیدہ افروز ہیں درویش کے اسرار و رموز
دیکھ! رنگینیِ افکارِ علی ہجویری
میری نظروں میں ہے ہجویر کا خورشید جمال
میرے دامن میں ہیں انوارِ علی ہجویری
قدسیو کھول دو سرکار کا بابِ رحمت
آ گیا بندۂ سرکارِ علی ہجویری
جلوہ گر نورِ خدا ہے مرے آئینے میں
میں بھی ہوں آئینہ بردارِ علی ہجویری
جب بھی میں شوق کے عالم میں نوا سنج ہوا
منکشف ہو گئے اسرارِ علی ہجویری
آج سرکار کے جلووں کا نیا عالم ہے
آج ہے وجد میں سرشارِ علی ہجویری
میکدہ ساقیِ ہجویر کا ہر دم ہے کھُلا
جھُوم سرمستی میں مے خوارِ علی ہجویری
اب بھی ہے اہلِ محبت کے دلوں پر مظہر
اثرِ مستیِ کردارِ علی ہجویری
نذرِ فرید
رات کے تین بجے بہشتی دروازے میں لکھے گئے
کھینچ لایا ہے مجھے جذبِ فراوانِ فرید
لللہ الحمد ہوا آج میں مہمانِ فرید
کیوں نہ پلکوں سے چُنوں خارِ بیابانِ فرید
میں ازل ہی سے ہوں سرگشہ و حیرانِ فرید
تختِ جمشید کو کیا خاک نظر میں لائیں؟
خسروِ ملکِ ولایت ہیں غلامانِ فرید
اِن کے جلووں سے ہوئی جاتی ہیں آنکھیں خیرہ
مثلِ خورشید ہیں ذراتِ بیابانِ فرید
میں نے ایک عشق کو دیکھا ہے بہ شکل صابر
میں نے اِک حُسن کو پایا ہے بہ عنوانِ فرید
دل میں کچھ خوف نہ آشوبِ قیامت کا رہے
ہاتھ آ جائے اگر گوشۂ دامانِ فرید
فائزِ جلوۂ خاصانِ خدا ہوں مظہر
دل ہے صابر پہ فدا جان ہے قربانِ فرید
٭٭٭
ٹائپنگ: الف نظامی
ماخذ: اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
OOOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں