چارلس ڈیکنس کے بچوں کے ناول کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ
بلیک کول اور شیطان کی سرائے
ترجمہ
عطا محمد تبسمؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
بلیک کول اور شیطان کی سرائے
(بلیک کول اینڈ دی ڈیولز ان)
چارلس ڈیکنس
ترجمہ: عطا محمد تبسم
’شیطان کی سرائے‘ جانے لوگ اس گھر کو اس نام سے کیوں یاد کرتے تھے۔ یہ گھر آئرلینڈ میں کونیمارا پہاڑوں میں ایک چھوٹی سی وادی میں تھا۔ اسے ایک اجنبی نے بنایا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں سے آیا ہے، اور آس پاس کے لوگوں نے اسے بلیک کول کا نام دے رکھا تھا۔ لوگوں نے اس کے گھر کو شیطان کی سرائے کا نام دے رکھا تھا۔ یہاں کسی نے کسی کو کبھی آتے جاتے نہیں دیکھا۔ بلیک کول اکیلا رہتا تھا۔ سوائے ایک پرانے نوکر کے۔ ان دونوں کی جوڑی بھی دو شیطانوں کی جوڑی تھی۔ جس سے کوئی ملنا نہیں چاہتا تھا۔
پہلے پہلے جب وہ وادی میں رہتے تھے، ان کے بارے میں خوب اندازے لگائے گئے، کہ وہ کون تھے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ بلیک کول اس خاندان کا ایک فرد تھا جس کی یہ ساری زمین تھی۔ جو اس گھر کے آس پاس تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بلیک کول اپنی زمین واپس لینے کی کوشش کرنے آیا ہے۔ دوسروں نے کہا کہ یہ کوئی مجرم ہے، جو شاید وہ کسی دوسرے ملک سے بھاگ کر آیا ہے۔ کچھ سرگوشی میں کہتے کہ اسے پیدائش کے وقت پھٹکار پڑ گئی تھی۔ اس لیے وہ مرنے کے دن تک نہ کسی سے مسکرا کر بات کر سکتا ہے، اور نہ کسی سے دوستی کر سکتا ہے۔ لیکن ان دونوں آدمیوں کے بارے میں کسی کو واقعی کچھ معلوم نہ تھا یہ سب قصے کہانیاں تھے۔ جب دو سال گزر گئے تو لوگ بلیک کول اور اس کے نوکر کو بھولنے لگے کہ جیسے وہ وہاں کبھی موجود ہی نہیں تھا۔
کئی برس بیت گئے یہاں تک کہ ایک دن خبر آئی کہ نیا زمیندار کرنل بلیک اپنی زمینوں کا دورہ کرنے آ رہا ہے۔ اپنے گھر کے قریب پہاڑوں میں سے ایک پر چڑھ کر، بلیک کول نیچے دیکھ سکتا تھا، جہاں ایک پرانا گھر تھا۔ جو کئی سالوں سے خالی پڑا تھا، لیکن اب یہاں مزدور دیواروں اور کھڑکیوں کی مرمت کر رہے تھے۔ دوسرے آدمی باڑ پینٹ کرنے میں مصروف تھے۔ بلیک کول ان پہاڑوں سے کئی مہینوں تک مزدوروں کو اس گھر پر کام کرتے دیکھتا رہا۔ لیکن کبھی وہ اس گھر کے قریب نہیں گیا۔
یہ خزاں کا موسم تھا جب کرنل بلیک، اس کی اکلوتی بیٹی اور ان کے دوستوں کی ایک پارٹی اس گھر میں آ کر آباد ہوئی۔ اب یہ گھر زندگی اور خوشیوں سے بھرا ہوا تھا، لیکن بلیک کول اب اسے اپنے پہاڑ کی چوٹی سے دیکھنے میں میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ وہ گھر سے، اور وہاں رہنے والوں سے دور رہا۔
ستمبر کی ایک شام ہوا کا رخ بدل گیا اور آدھے گھنٹے میں پہاڑ گھنے بادلوں سے ڈھک گئے۔ بلیک کول اپنے گھر سے بہت دور تھا، لیکن وہ پہاڑی راستوں کو اتنا اچھی طرح جانتا تھ، وہ طوفان، بارش یا گھنے بادلوں سے نہیں گھبراتا تھا۔ وہ اپنے گھر کی جانب بڑے بڑے قدم اٹھاتا جا رہا تھا۔ جب اسے کسی کے رونے کی آواز آئی۔ وہ تیزی سے آواز کا پیچھا کرتے ہوئے، اس جگہ پہنچا، ایک آدمی موسم اور اندھیرے سے خوف زردہ ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ وہ شاید اپنا راستہ کھو بیٹھا تھا۔ بلیک کول جانتا تھا اس موسم میں یہاں ہر قدم پر موت کے خطرے ہیں۔
بلیک کول نے اس آدمی سے کہا، ’’میرے ساتھ چلو۔‘‘ ایک گھنٹے میں وہ اسے بحفاظت اس گھر تک لے آیا جسے وہ اتنے مہینوں سے دیکھ رہا تھا۔
’’میں کرنل بلیک ہوں‘‘ اس آدمی نے بلیک کول کو اس وقت اپنا تعارف کرایا۔ جب وہ آخرکار اس گھر کی روشن کھڑکیوں کے نیچے ستاروں کی روشنی میں کھڑے ہوئے تھے۔
’’براہ کرم مجھے جلدی بتائیں کہ میری زندگی بچانے والا محسن کون ہے؟ میں اپنی زندگی کے لیے آپ کا احسان مند ہوں۔‘‘
’’کرنل بلیک‘‘ بلیک کول نے عجیب خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
’’آپ کے والد نے میرے والد کو اپنی تمام جمع پونجی اور زمینوں سے محروم کر دیا۔ تاش کا کھیل، دونوں اس کھیل کے رسیا تھے۔ دونوں مر چکے ہیں، لیکن آپ اور میں زندہ ہیں‘‘ بلیک کول نے عجیب سے لہجے میں بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
’’میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہیں مار ڈالوں گا۔‘‘
’’لیکن آپ نے تو آج رات میری جان بچا کر اپنا وعدہ پورا کرنا شروع کر دیا‘‘ کرنل بلیک نے، کول کے ناخوش چہرے پر ہنستے ہوئے کہا۔
’’آؤ، میں ایک سپاہی ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ دشمن سے کیسے مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن میں ایک دوست سے ملنا زیادہ پسند کروں گا۔ میں اس وقت تک خوش نہیں ہوں گا جب تک آپ ہمارے ساتھ کھانا نہ کھائیں۔ آج اتفاق سے میری بیٹی کی سالگرہ ہے، براہ کرم اندر آئیں اور ہمارے ساتھ خوشیوں میں شامل ہوں۔‘‘
بلیک کول نے نیچے زمین کی طرف دیکھا۔ اور سرد اور گھمبیر لہجے میں کہا، ’’میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ میں کون اور کیا ہوں، اور میں آپ کے گھر آنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔‘‘
اسی وقت ان کے قریب ایک دروازہ کھلا اور ایک لڑکی نمودار ہوئی۔ وہ کافی لمبی تھی۔ سفید ریشم میں ملبوس، اس کا چہرہ اس کے لباس کی طرح اجلا تھا۔ اس کے گلے میں موتیوں کی مالا تھی، اور بالوں میں سرخ گلاب۔ بلیک کول نے اس سے زیادہ خوبصورت اور حسین لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی۔
ایولین بلیک تیزی سے اپنے والد سے چمٹ گئی۔
’’خدا کا شکر ہے کہ آپ محفوظ ہیں‘‘ اس نے کہا۔
’’سب لوگ ایک گھنٹے سے آپ کی سلامتی کے لیے فکر مند تھے۔‘‘ وہ بولتی رہی۔
’’میری پیاری، اس بہادر شریف آدمی کا شکریہ ادا کرو۔ اس نے میری زندگی بچائی ہے۔‘‘ کرنل نے اپنی بیٹی کو پیار کرتے ہوئے کہا۔ ’’اسے اندر آنے اور ہمارا مہمان بنانے کی کوشش کرو۔ یہ پہاڑوں پر واپس جانا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو دوبارہ ان بادلوں میں کھونا چاہتا ہے جہاں میں نے اسے پایا، یا بلکہ اس نے مجھے پایا تھا۔‘‘
’’میں آپ سے اندر آنے کی التجا کرتی ہوں، جناب‘‘ ایولین نے بلیک کول کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’اگر آپ میرے والد کو نہ پاتے تو یہ خوشی کی رات غم میں بدل جاتی۔‘‘
اس نے بلیک کول کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ اس نے لڑکی کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ معصوم لڑکی کی آنکھیں حیرت سے چمک اٹھیں، کیونکہ اس نے اس کا ہاتھ طاقت سے دبایا تھا۔ جس سے اسے تکلیف محسوس ہوئی۔ کیا یہ بلیک کول پاگل ہے، یا بد تمیز؟ اسے عورتوں سے ہاتھ ملانے کا سلیقہ نہیں ہے۔
مہمان نے اندر جانے سے مزید انکار نہیں کیا، اور لڑکی کے پیچھے ایک چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا جہاں شمعیں جل رہی تھیں۔ اب وہ سب ایک دوسرے کو صاف دیکھ سکتے تھے۔ ایولین نے اجنبی کے سیاہ چہرے کی طرف دیکھا، اور اسے شدید خوف اور ناپسندیدگی محسوس ہوئی۔
یوں بلیک کول ایولین بلیک کی سالگرہ کی تقریب میں موجود تھا۔ وہ یہاں اس گھر کی چھت کے نیچے تھا جو اس کا اپنا ہونا چاہیے تھا۔ یہ گھر اس کا اپنا تھا۔ جو اس کے باپ نے جوئے میں ہار دیا تھا۔ برسوں سے اس شخص کو مارنے کے موقع کا انتظار کر رہا تھا جس نے اس کے خاندان کی زندگی میں زہر گھول دیا تھا۔ اس کی ماں ٹوٹے دل کے ساتھ مر گئی تھی، اس کے باپ نے خود کشی کر کے اپنے آپ کو مار ڈالا تھا، اس کے بھائی بہن سب اس دنیا سے چلے گئے تھے۔ اب یہاں وہ خود کھڑا تھا، سیمسن کی طرح اپنی طاقت کے بغیر، یہ سب اس خوبصورت لڑکی کی وجہ سے ہے۔ جو سفید ریشم اور سرخ گلابوں میں بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔
ایولین اپنے مہمانوں کے درمیان چلی گئی، وہ کوشش کر رہی تھی کہ ان عجیب و غریب آنکھوں کو نہ دیکھے جو وہ جہاں بھی جاتی تھی، اس کا پیچھا کر رہی تھیں۔ اس کے والد نے اس سے کہا کہ وہ اس شخص کے ساتھ مہربانی سے پیش آئے، جس نے اس کی جان بچائی تھی۔ وہ اسے تصویروں کی گیلری دکھانے کے لیے لے گئی، اور اسے پینٹنگز کے بارے میں بتانے لگی۔ اس نے اسے کئی فن پارے دکھائے، اور اس کی توجہ خود سے ہٹانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑا، وہ اب بھی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے کھلی کھڑکی کے پاس رک گئے۔ وہاں سے سمندر کا نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ آسمان پر پورا چاند نکلا ہوا تھا۔ لڑکی نے کہا، ’’میرے والد نے اس کھڑکی کو خاص طور پر بنوایا ہے، تاکہ یہاں سے یہ خوب صورت نظارہ کیا جا سکے۔ کیا آپ کو اچھا لگتا ہے۔؟‘‘
بلیک کول نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا، لیکن اچانک اس نے اس کے لباس میں لگے پھولوں کے گچھے سے گلاب کی فرمائش کر دی۔ اس رات کو دوسری بار ایولین بلیک کی آنکھیں غصے اور حیرت سے چمک اٹھیں۔ لیکن اس شخص نے اس کے والد کی جان بچائی تھی۔ اس نے ایک پھول توڑ کر اس کے سامنے کر دیا۔ اس نے اس کے ہاتھ سے گلاب لیا، اور وہ ہاتھ بھی تھام لیا، جس نے اسے گلاب پیش کیا تھا، اور اسے بوسے سے ڈھانپ دیا۔
’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ غصے سے بولی، ’’آپ ایک شریف آدمی ہیں۔ آپ کو پاگل نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
’’مہربان بنو‘‘ بلیک کول نے کہا، ’’میں تم سے پیار کرتا ہوں۔ میں نے پہلے کبھی کسی عورت سے محبت نہیں کی۔ آہ!‘‘
اس کے چہرے پر ناپسندیدگی کے تاثرات دیکھ کر اس نے روتے ہوئے کہا، ’’تم مجھ سے نفرت کرتی ہو، تم سے پہلی ملاقات میں جب تمھاری آنکھیں مجھ سے ملیں۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں، اور تم مجھ سے نفرت کرتی ہو۔‘‘
ایولین نے آہستہ سے کہا۔ ’’پلیز، دوبارہ اس طرح کی بات مت کرنا۔‘‘
’’میں آپ کو مزید پریشان نہیں کروں گا۔‘‘ بلیک کول نے کہا، اور کھڑکی کی طرف چلتے ہوئے، اس نے ایک مضبوط ہاتھ کنارے پر رکھا، اور نیچے چھلانگ لگا دی۔
اس ساری رات بلیک کول پہاڑوں میں چلتا رہا، لیکن اپنے گھر کی طرف نہیں۔ اس نے صبح سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ سورج نکلتے ہی ایک چھوٹا سا گھر دیکھ کر خوشی ہوئی۔ وہ گھر کے اندر آیا اور پینے کے لیے پانی اور ایسی جگہ مانگی جہاں وہ آرام کر سکے۔ اس گھر میں موت واقع ہو چکی تھی، اور باورچی خانہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ ساری رات لاش کی نگرانی اور دعا کرنے آئے تھے۔ بہت سے لوگ سو رہے تھے، لیکن جو جاگ رہے تھے وہ بلیک کول کا نام سن کر چپ ہو گئے۔ کسی نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا۔ لیکن ایک بوڑھے نے اسے اندر بلایا اور بعد میں کچھ کھانے کا وعدہ کرتے ہوئے اسے دودھ کا ایک کپ پلایا۔ وہ اسے کچن سے دور ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گیا۔ کمرے میں دو عورتیں بیٹھی تھیں۔ کمرے میں آگ تھی، اور ایک سرے پر ایک چھوٹا سا بستر۔
’’ایک مسافر ہے۔‘‘ بوڑھے آدمی نے دونوں عورتوں سے کہا، اور انہوں نے سر ہلایا۔ بلیک کول بیڈ پر جا کر لیٹ گیا۔ عورتوں نے کچھ دیر کے لیے بات کرنا چھوڑ دی، لیکن جب انہیں لگا کہ آنے والا سو رہا ہے تو وہ پھر سے شروع ہو گئیں۔ کمرے میں صرف ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی لیکن بلیک کول آگ کی روشنی میں دونوں خواتین کو دیکھ سکتا تھا۔
ایک بہت بوڑھی تھی، دوسری جوان لڑکی تھی۔ لڑکی نے کہا، ’’یہ سب سے مضحکہ خیز شادی ہے جس کے بارے میں میں نے کبھی سنا ہے۔ صرف تین ہفتے پہلے، وہ سب کو بتا رہا تھا کہ وہ اس سے زہر کی طرح نفرت کرتا ہے۔‘‘
’’میں جانتی ہوں‘‘ بوڑھی عورت نے کہا، ’’لیکن وہ کیا کر سکتا ہے، غریب آدمی، جب اس نے اس پر برگ باس ڈال دیا؟‘‘
’’کیا؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
’’دی برگ باس، پیاری لڑکی یہ ایک جادوئی دلکشی ہے۔‘‘
’’لیکن یہ کیا ہے؟‘‘ لڑکی نے بے تابی سے پوچھا، ’’برگ باس کیا ہے؟ اور اسے کہاں سے ملا؟‘‘
’’مجھے تم کو یہ بات نہیں بتانا چاہئے، تم بہت چھوٹی ہو، لیکن سنو۔ یہ مردہ جسم کی جلد کی ایک پٹی ہے۔ اسے سر کے اوپر سے ایڑی تک بغیر کسی شگاف کے نکالا جانا چاہیے، پھر اسے لپیٹ کر اس کے گلے میں تار کا ایک ٹکڑا ڈال دیا جاتا ہے جس سے آپ محبت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بہت تیزی سے کام کرتا ہے۔‘‘
لڑکی وحشت سے بوڑھی عورت کی طرف دیکھ رہی تھی۔
’’کتنا خوفناک ہے یہ سب‘‘ وہ رونے لگی۔ ’’اس زمین پر کوئی بھی یہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ ایسا خوفناک، برا کام‘‘
’’یہ بات ٹھیک ہے، لیکن ایک عورت ہے جو یہ کام کرتی ہے۔ وہ ہے پیکسی۔ کیا تم نے کبھی اس کے بارے میں نہیں سنا؟‘‘
لڑکی نے سر ہلایا۔
’’وہ پہاڑیوں میں رہتی ہے‘‘ اس نے سرگوشی کی۔ ’’وہ کسی بھی دن پیسوں کے لیے ایسا کرے گی۔‘‘
’’چپ‘‘ لڑکی نے سرگوشی کی، مسافر اٹھ رہا ہے۔ ’’اس نے کتنا مختصر آرام کیا ہے۔‘‘
تاہم، یہ بلیک کول کے لیے کافی تھا۔ وہ اٹھ کر اب واپس کچن کی طرف چل پڑا۔ بوڑھا آدمی وہاں موجود تھا، اور اس نے مسافر کے لیے کچھ کھانا تیار کر رکھا تھا۔ کھانے کے بعد بلیک کول دوبارہ پہاڑوں کی طرف روانہ ہوا، سورج نکل رہا تھا۔ وہ تمام دن پہاڑوں میں گھومتا رہا۔ غروب آفتاب تک وہ پیکسی کے گھر کی تلاش میں پہاڑیوں میں چکراتا رہا۔
وہ ایک ڈائن تھی۔ اس نے اسے ایک ویرانے میں پایا۔ ایک بدصورت بوڑھی عورت، سرخ کمبل میں ملبوس۔ اس کے سیاہ بالوں پر ایک نارنجی اسکارف تھا۔ وہ آگ پر ایک برتن میں کچھ پکا رہی تھی۔
بلیک کول کے قریب آتے دیکھ کر وہ بڑبڑائی۔ ’’تم یہاں کیا لینے آئے ہو؟‘‘
اس نے اسے بتایا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔
’’آہ، بر راگ باس۔ لیکن مجھے کچھ پیسے چاہیں۔ بغیر پیسے ’بر راگ باس‘ حاصل کرنا مشکل ہے۔ میں ادائیگی کروں گا‘‘ بلیک کول نے کہا، اور اس نے کچھ رقم جیب سے نکال کر اس کی مٹھی میں دے دی۔
بوڑھی چڑیل نے جلدی سے رقم اپنے کپڑوں میں چھپا لی۔ اور کریہہ انداز میں ہنستے ہوئے اس نے اپنے مہمان پر نظر ڈالی۔ جس سے بلیک کول بھی خوفزدہ ہو گیا۔ آپ ایک اچھے آدمی ہیں، اس نے کہا، ‘اور میں آپ کے لیے ’بر راگ باس‘ حاصل کروں گی۔ لیکن یہ رقم کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے اور رقم چاہیئے۔ اس نے اپنا پنجہ نما ہاتھ بڑھایا، اور بلیک کول نے اس میں کچھ اور رقم ڈال دی۔
’’پیکسی! اب، میری بات سنو‘‘ بلیک کول نے کہا۔
’’میں نے آپ کو اچھی رقم ادا کر دی ہے، لیکن اگر آپ کے شیطان نے میرا کام نہیں کیا تو میں آپ کو مار ڈالوں گا۔‘‘
’’کام‘‘ پیکسی نے سوچتے ہوئے آنکھیں موند لیں۔
’’یقیناً یہ کام کرے گا۔ یہاں تک کہ اگر وہ اب آپ سے نفرت کرتی ہے، تو وہ سورج ڈوبنے یا طلوع ہونے سے پہلے آپ کو اپنی جان کی طرح پیار کرے گی۔ ورنہ ایک گھنٹہ پورا ہونے سے پہلے لڑکی پاگل ہو جائے گی۔‘‘
’’آپ نے وہ آخر میں کیا کہا؟‘‘ بلیک کول نے پکار کر کہا۔
’’میں نے پاگل پن کے بارے میں کچھ نہیں سنا۔‘‘
’’اگر تم زیادہ پیسے چاہتی تو کہہ دو، لیکن مجھ پر اپنی کوئی بری چال نہ چلاؤ۔‘‘ چڑیل نے اپنی بری نظر اس پر جماتے ہوئے کہا۔
’’تم نے سچ اندازہ لگایا، یہ صرف تھوڑے سے پیسے ہیں۔‘‘ اس نے ایک بار پھر پنجے جیسا ہاتھ آگے بڑھایا۔ بلیک کول نے اس کے ہاتھ پر توجہ نہیں دی۔ لیکن رقم اس کے سامنے پھینک دی۔
’’میں اسے کب حاصل کروں گا؟‘‘ اس نے پوچھا ’’تمہیں بارہ دنوں میں یہاں واپس آنا چاہیے، کیونکہ بر رگ باس کا ملنا بہت مشکل ہے۔ قبرستان دور ہے، اور مردہ کو اٹھانا اور بھی مشکل ہوتا ہے‘‘
’’چپ ہو جاؤ‘‘ بلیک کول پکارا، ’’مزید ایک لفظ نہیں۔ مجھے بر رگ باس چاہیئے۔ یہ کیا ہے، اور آپ اسے کہاں سے حاصل کرو گی مجھے نہیں معلوم۔ پھر بارہ دن میں واپس آؤں گا۔‘‘
بارہ دنوں کے بعد بلیک کول نے وعدہ کے مطابق بر رگ باس حاصل کر لیا تھا، اُس نے اُسے سونے کے کپڑے میں سی کر باریک زنجیر میں ڈالا۔ پھر اسے ایک ڈبے میں ڈال دیا۔ جو بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ تاہم، جب وہ یہ کر رہا تھا، پہاڑوں کے لوگ بہت ناراض تھے۔ ان کے قبرستان میں ایک اور ناپاک عمل ہوا تھا، اور وہ اس شخص کو تلاش کرنے کا ارادہ کر رہے تھے جس نے یہ کیا تھا۔
دو ہفتے گزر گئے۔ بلیک کول کو کرنل کی بیٹی کے گلے میں دلکشی ڈالنے کا موقع کیسے مل سکتا تھا؟ اس نے مزید رقم پیکسی کے لالچی ہاتھ میں ڈال دی، وہ پھر وہ اس کی مدد کرنے پر راضی ہو گئی۔
اگلی صبح چڑیل نے ایک خوب صورت لباس پہنا۔ اس نے اپنے سیاہ بالوں کو برف جیسی سفید ٹوپی کے نیچے کیا، اور جادو کے ذریعے خود کو جوان کر لیا۔ پھر وہ کھمبیاں جمع کرنے پہاڑیوں میں نکل گئی۔ کرنل کے گھر کی نوکرانی روزانہ صبح اس سے کھمبیاں خریدتی تھی۔ ہر صبح وہ مس ایولین بلیک کے لیے پھولوں کا ایک گچھا بھی دیتی، وہ نوکرانی سے کہتی۔ میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا، لیکن سنا ہے کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔ آخر کار ایک صبح اس کی ملاقات مس ایولین سے ہوئی۔ وہ اس کے پاس گئی اور اسے خود پھول پیش کیے۔
’’آہ‘‘ ایولین نے کہا، ’’یہ تم ہی ہو جو ہر صبح مجھے پھول بھیجتی ہو۔ یہ پھول بہت بہت پیارے ہیں۔‘‘
’’ہاں‘‘ پیکسی نے کہا۔ ’’میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ جو کچھ میں نے سنا ہے وہ سچ ہے۔ اور اب میں آپ کا خوبصورت چہرہ دیکھ چکی ہوں۔‘‘
’’کیا میری لیڈی کبھی بڑے پہاڑوں پر گئی ہے؟‘‘
پیکسی نے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ ایولین نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ پہاڑ پر نہیں چل سکتی۔
’’اوہ، لیکن آپ کو جانا چاہئے‘‘ پیکسی نے کہا۔
’’اپنے دوستوں کے ساتھ جاؤ، اور خوبصورت چھوٹے گدھوں پر سوار ہو جاؤ۔ آپ کے لیے پہاڑوں میں دیکھنے کے لیے بہت سی خوبصورت چیزیں ہیں۔‘‘
اس نے ایولین کو پہاڑ کے بارے میں ایسی شاندار کہانیاں سنائیں۔ جنہیں سن کر ایولین نے سوچنا شروع کر دیا کہ اسے یہ سفر ضرور کرنا چاہیے۔
اس کے کچھ ہی دیر بعد بلیک کول کو پیکسی کا پیغام موصول ہوا۔ اس نے اسے بتایا کہ اگلے دن بڑے گھر کے لوگوں کا ایک گروپ پہاڑوں میں جائے گا۔ ایولین بلیک ان کے ساتھ ہوں گی۔ بلیک کول کو تھکے ہوئے اور بھوکے لوگوں کے ہجوم کو کھانا کھلانے کے لیے تیار ہونا چاہیے، جو شام کو اس کے دروازے پر آئے گا۔ مشروم بیچنے والے، پہاڑوں میں اس گروپ سے ملیں گے، اور ان کے رہنما کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کریں گے۔ وہ انہیں ان کے راستے سے بہت دور، کھڑی ڈھلوانوں اور خطرناک جگہوں پر لے جائیں گے۔ وزن زیادہ ہونے پر انھیں کھانے کی ٹوکریاں پھینک دینے کا مشورہ دیتے۔ بلیک کول بہت مصروف تھا۔ اس نے کھانے کا انتظام کیا، شاید یہ جادو تھا، اس کے متوقع مہمانوں کے لیے ایک عظیم دعوت کی تیاریاں ہونے لگی۔ خالی کمرے اچانک خوبصورت فرنیچر اور تصویروں سے بھر گئے۔ نوکر نہ جانے کہاں سے نمودار ہوئے، اور شاندار کھانا لگانے کے لیے تیار کھڑے ہو گئے۔ آخر کار، تھکی ہوئی پارٹی، بلیک کول کے گھر پہنچ گئی۔ ‘شیطان کی سرائے‘ ان کی نظر میں آ گئی، اور اب بلیک کول انہیں اندر مدعو کرنے کے لیے باہر کھڑا تھا۔
کرنل بلیک اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنے والد کو بلیک کول کے عجیب و غریب رویہ کے بارے میں بتایا۔ اس لیے ایولین بلیک کے علاوہ ہر کوئی دعوت میں گیا۔ لیکن وہ دروازے کے باہر ہی رہی۔ وہ تھک چکی تھی، لیکن وہاں آرام نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ بھوکی تھی، لیکن بلیک کول کا کھانا کھانے کو تیار نہیں تھی۔ بلیک کول اور کرنل دروازے پر آئے اور اس سے اندر آنے کی منت کرنے لگے۔ نوکر اس کے لیے کھانا لے آئے، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ کہ وہ اندر نہیں جائے گی، اور نہ کھانا کھائے گی۔ اس نے کھانا دیکھتے ہی چلانا شروع کر دیا۔ ’’زہر، زہر‘‘ اور کھانا پھینک دیا۔ لیکن جب پیکسی، ایک مہربان بوڑھی عورت کے روپ میں، مشروم بیچنے والی بوڑھی کے روپ میں نمودار ہوئی تو ایویلن بلیک شانت ہو گئی۔ بوڑھی پیکسی دروازے پر ایولین کے لیے پکے ہوئے مشروم کی ایک ڈش لے کر آئی۔ ’’میری پیاری خاتون، میں نے یہ صرف آپ کے لیے پکایا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
ایولین نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ لی اور تمام کھمبیاں کھا لیں۔ اسے بے حد بھوک لگ رہی تھی۔ وہ بمشکل ہی کھانے سے فارغ ہوئی تھی۔ جب اسے بہت نیند آنے لگی۔ وہ دروازے کی سیڑھی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنا سر دروازے کی طرف کیا، اور جلد ہی سو گئی۔
’’بیوقوف لڑکی‘‘ کرنل نے اسے ڈھونڈتے ہوئے دروازے پر سوتا پایا۔ وہ اسے اٹھا کر ایک کمرے میں لے گیا۔ اس صبح وہ کمرہ خالی تھا، لیکن اب ایک خوبصورت بستر وہاں لگا ہوا تھا۔ کمرے میں خوب صورت پردے لگے ہوئے تھے۔ کرنل نے اپنی بیٹی کو بستر پر لٹا کر اس کے پیارے چہرے پر آخری نظر ڈالی۔ جادوئی دلکشی نے کام کر دیا تھا۔ کرنل واپس اپنے دوستوں کے پاس چلا گیا اور کچھ ہی دیر بعد سارا گروپ خوبصورت غروب آفتاب کا منظر دیکھنے نکل گیا۔ بلیک کول بھی ان کے ساتھ گیا، لیکن جب وہ کچھ دور چلے گئے، تو اس کو یاد آیا کہ اسے واپس جا کر کچھ لانا ہے۔ وہ اپنے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا، لیکن وہ اس کمرے میں جانے سے کافی دور تھا جہاں ایولین ابھی تک سو رہی تھی اور اس کے گلے میں ہلکی سی زنجیر ڈال دی گئی تھی۔ برگ باس اس کے لباس کے تہوں کے درمیان کہیں پھسل گیا تھا۔
اس کے جانے کے بعد، پیکسی دروازے کی طرف لپکی۔ اس نے اسے تھوڑا سا کھولا، اور باہر ایک چٹائی پر بیٹھ گئی۔ ایک گھنٹہ گزر گیا، ایویلن بلیک ابھی تک سوئی ہوئی تھی۔ اس کی سانسیں بہت تیز چل رہی تھی۔ اس کی سانس کی تیزی نے اس خوفناک چیز کو حرکت دی۔ جو اس کی چھاتی پر پڑی تھی۔ اس کے بعد وہ کراہنے لگی، پیکسی کو معلوم ہو گیا کہ وہ جاگ رہی ہے۔ جلد ہی کمرے میں ایک آواز نے اسے بتا دیا کہ کہ لڑکی جاگ رہی ہے اور اٹھ گئی ہے۔ پیکسی نے اپنا چہرہ کھلے دروازے کی طرف رکھا اور اندر دیکھا۔ لڑکی نے خوف سے ایک چیخ ماری، اور گھر سے نکل بھاگی، اور اس گھر میں دوبارہ کبھی نظر نہیں آئی۔
اب تقریباً اندھیرا ہو چکا تھا، اور کرنل کے دوستوں کی پارٹی شیطان کی سرائے کی طرف لوٹ رہی تھی۔ خواتین کا ایک گروپ، جو باقیوں سے بہت آگے تھا، ایولین بلیک سے ملا۔ وہ ان کی طرف آئی اور انہوں نے دیکھا کہ اس کے گلے میں سونے جیسی چمکیلی چیز لٹک رہی ہے۔ وہ اس سے بات کرنے لگے۔ لیکن وہ گم صم کھڑی ان کی طرف دیکھتی رہی۔ اس کا انداز بہت عجیب تھا۔ انہوں نے سوچا کہ لڑکی کا رویہ اور برتاؤ بہت بدتمیزی والا ہے، اور اپنے راستے پر چل پڑے۔ ایولین وہاں سے بھاگ گئی۔ ایک خرگوش اس کے راستہ میں آیا اور آگے نکل گیا۔ وہ زور سے ہنس دی۔ تالیاں بجاتے ہوئے وہ اس کے پیچھے بھاگی۔ پھر وہ رک گئی اور پتھروں سے باتیں کرنے لگی۔ جب انہوں نے اسے کوئی جواب نہ دیا تو اپنے ہاتھ سے بہت سے پتھر اچھال دیئے۔ کچھ ہی دیر میں وہ جنگلی آواز میں پرندوں کے پیچھے پکارنے لگی۔ کچھ لوگ جو اس راستے سے واپس آ رہے تھے، شور سن کر رک گئے۔
’’یہ کیا ہے؟ یہ کیسی آوازیں ہیں۔‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’ایک نوجوان عقاب‘‘ بلیک کول نے کہا، ’’وہ اکثر اس طرح روتے ہیں۔‘‘
’’لیکن یہ تو بالکل ایک عورت کی سی آواز ہے۔‘‘ ایک اور نے کہا۔ جیسے ہی وہ بولا اوپر کی چٹانوں سے ایک اور جنگلی آواز آئی۔ وہ ایک اونچی چٹان کا ایک ٹکڑا تھا جس کے اوپر وہ چپکی ہوئی تھی۔ نیچے وادی کی گہرائی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے ایولین بلیک کو دیکھا۔ ہاں وہ ایولین بلیک ہی تھی۔ وہ اس خطرناک جگہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جس کے نیچے بہت گہری اندھی کھائی تھی۔
’’میری ایولین‘‘ کرنل نے اسے پکارا۔ ’’نیچے آ جاؤ اتنی خطرناک جگہ پر چلنا پاگل پن ہے، پاگل!‘‘ بلیک کول تیزی سے چیخا اور وہ اسے بچانے کے لیے تیزی سے بھاگنے لگا۔ جیسے اس کی طاقتور ٹانگیں اسے اڑا کر لے جائیں گی۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو ایولین تقریباً چٹان کے بالکل کنارے تک پہنچ چکی تھی۔ وہ بہت احتیاط سے اس کی طرف بڑھا، وہ اسے اپنی بانہوں میں پکڑنا چاہتا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ جانتی کہ وہ وہاں موجود ہے۔ لیکن اسی لمحے ایولین نے سر موڑ کر اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں نفرت اور خوف بھری ہوئی تھی۔ اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور ایک قدم پیچھے ہٹ گئی۔ موت اس سے چند قدم دور تھی۔ بلیک کول نے اسے پکڑ لیا، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک نظر ڈالنے ہی سے پتہ چل گیا کہ اس نے ایک پاگل عورت کو پکڑ رکھا ہے۔ اس نے اسے پیچھے گھسیٹ لیا، لیکن اس کے پاس پکڑنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ چٹان پھسلنی تھی اور اس کے جوتے بار بار پھسل رہے تھے۔ وہ دونوں دیوانہ وار اِدھر اُدھر جھوم رہے تھے۔ پھر فضا میں ایک چیخ تھی، اور چٹان آسمان کے نیچے خالی تھی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ بلیک کول اور ایولین بلیک بہت نیچے پڑے تھے۔
تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں