والد مرحوم کے قطعات اور رباعیات کا مجموعہ
نقشِ دوام
از قلم
صادقؔ اندوری
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
(رباعیات، قطعات)
صادقؔ اندوری
نقش دوام
(رباعیات)
جو میرا تاثر ہے مدامی ہو جائے
ہر لفظ تمنا کا پیامی ہو جائے
آمیزش رنگ تو میں کرتا ہوں مگر
اے کاش مرا نقش دوامی ہو جائے
***
آزاد ہوئے کھل گئے اپنے مقسوم
سمجھے ہیں غلط اس کا مگر ہم مفہوم
قانون بھی آخر ہے کوئی چیز اے دوست
قانون کو خود ہاتھ میں لینا معلوم
***
مذہب کے نگہبان کو مارا ہی نہیں
کافر نے مسلمان کو مارا ہی نہیں
حیوانوں نے مارا ہے کچھ انسانوں کو
انسان نے انسان کو مارا ہی نہیں
***
جذبات نمو سینۂ باطل میں نہیں
ہم راز ترا کوئی بھی محفل میں نہیں
تعمیر کی صورت کوئی نکلے کیوں کر
جو بات ہے تیری وہ کسی دل میں نہیں
***
ہر فرد کو ہو جو حس اخلاص نصیب
ہوتا نہیں انسان کا انسان رقیب
جب دل سے خلوص اور محبت اٹھ جائے
سمجھو کہ قیامت کے ہیں ایام قریب
***
سامان تسلی کے ہیں مفقود اے دوست
اسباب سکوں بھی نہیں موجود اے دوست
جب تک نہ ہو خوش حالی و تسکیں نفسی
جمہور کے آئین ہیں بے سود اے دوست
***
ہے فرقہ پرستی کی وبا عام وہی
ملتا ہے وفا داری کا انعام وہی
قانون تو ان گنت بنے ہیں لیکن
رفتار عمل کی ہے مگر خام وہی
***
تعمیر خدا ساز نہیں دب سکتی
اب کوشش پرواز نہیں دب سکتی
جمہور کی آواز دبانے والو
جمہور کی آواز نہیں دب سکتی
***
طے کر کے ہر اک بلند و پست آئے ہیں
میدان میں بھرتے ہوئے جست آئے ہیں
اے قوم کے جاں بازو تمہارے ہمراہ
فنکار بھی شمشیر بدست آئے ہیں
***
اب شاہ نشینوں سے اتر آیا ہے
شائستہ قرینوں سے اتر آیا ہے
میدان عمل میں جوش حب الوطنی
احساس کے زینوں سے اتر آیا ہے
***
انسان کو آزاد کیا ہے کس نے
وارفتۂ بیداد کیا ہے کس نے
میں پوچھتا ہوں تجھ سے ہی اے اہل نظر
آباد کو برباد کیا ہے کس نے
***
ہر کام کا خود کو اہل پایا ہم نے
ہر امر محال سہل پایا ہم نے
طے ہو چکی جب منزل علم و ادراک
اس وقت مقام جہل پایا ہم نے
***
یہ ذوق تلاش علم کھوتا ہے مجھے
ظلمت کے تموج میں ڈبوتا ہے مجھے
جب جہل سخن بدوش آتا ہے نظر
اک صدمۂ بے پناہ ہوتا ہے مجھے
***
ہر ظاہری انداز پہ کیوں مرتا ہے
واعظ کا کہا کرتا ہے، کیا کرتا ہے
اس کفر کو کر تلاش اے اہل نظر
جس کفر کا ایمان بھی دم بھرتا ہے
***
پستی و بلندی پہ حکومت میری
نظروں میں فرشتوں کی ہے عزت میری
ہوں خاک کا پتلا مگر اے اہل جہاں
کیا سمجھے گا انسان حقیقت میری
***
ہر لمحہ کو اپنے فائدہ مند بنا
خور سند ہو زندگی کو خور سند بنا
انسان اگر بننا ہے دنیا میں تجھے
افعال کو اقوال کا پابند بنا
***
آہوں کے جزیروں سے نکلتا ہوا راگ
بجھتے ہوئے انگارے کی سہمی ہوئی آگ
پیلی ہے شفق یوں سر دامان سپہر
بہکا ہوا جیسے کسی بڑھیا کا سہاگ
***
چھٹنے لگے ماحول کے تاریک سحاب
پیدا ہوئے پیری میں پھر انداز شباب
سورج کی کرن پھیلی ہے یوں وقت سحر
نو خیز دلہن جیسے الٹتی ہے نقاب
***
تصویر عجب آج نظر آئی ہے
اک روشنی مشرق پہ ابھر آئی ہے
دامن پہ افق کے جو ہے سرخی کی لکیر
تاروں کا لہو پی کے سحر آئی ہے
***
اے فتنۂ عہد شادمانی آ جا
اے میری گذشتہ زندگانی آ جا
کچھ دن تو لپٹ کے رولوں تجھ سے
میں تجھ پہ نثار اے جوانی آ جا
***
ہر لمحہ تجھے یاد کیا کرتا ہوں
تیرے ہی تصور میں رہا کرتا ہوں
فرقت کی اندھیری راتوں میں بھی اکثر
آہٹ ترے قدموں کی سنا کرتا ہوں
***
بجلی سی مرے دل میں اتر جاتی ہے
سر سے مرے موج غم گزر جاتی ہے
تھرّاتی ہے دنیائے تمنا صادقؔ
جب دوش پہ وہ زلف بکھر جاتی ہے
***
گمراہ کرنے والا مسافر تو ہے
دیوانہ بنانے والا ساحر تو ہے
صحرائے جنوں کا آفریدہ میں ہوں
پروردۂ آغوش مناظر تو ہے
***
فردوس تھا مجنوں کا بیاباں تجھ سے
تھا نجد کا ہر ذرہ گلستاں تجھ سے
دیکھی تھیں جو مجنوں نے رخ لیلیٰ پر
وہ جھلکیاں ہوتی ہیں نمایاں تجھ سے
***
جس سمت نگاہ شوق اٹھ جاتی ہے
ہر چیز میں اک جاذبیت پاتی ہے
جس وقت سے آنکھوں میں سمایا ہے تو
دنیا مجھے رنگین نظر آتی ہے
***
اک آہ مرے دل سے نکل سکتی ہے
ہاں حالت بیمار سنبھل سکتی ہے
جیسے کہ بدل گئیں وہ نظریں مجھ سے
دنیائے محبت بھی بدل سکتی ہے
***
ہاں اپنے تاثر کو نمایاں کر لوں
تکمیل محبت کسی عنواں کر لوں
صرف اک نگہ لطف پہ تیری اے دوست
جنت بھی اگر ملے تو قرباں کر دوں
***
تاروں سے بھی کچھ بڑھ کے درخشاں ہے حسن
مہتاب صفت جلوہ پہ داماں ہے حسن
سورج اسے دیتا ہے خراج تحسین
پروردۂ آغوش بہاراں ہے حسن
***
کہنے کو تو درد جاودانی ہے عشق
لیکن اک وجہ کامرانی ہے عشق
کیوں سینے سے اس کو نہ لگائے رکھوں
حقّا کہ متاع زندگانی ہے عشق
***
کوئی بھی اس منزل میں خوش کام نہیں
تکلیف کے ماسوا کچھ آرام نہیں
اک درد ہے بے نشان درماں یعنی
آغاز ہی آغاز ہے انجام نہیں
***
حاصل کر سرورِ جاودانی انجام
ہر سانس ہو تیری شادمانی انجام
اس عہد کو کر تلاش صادقؔ جس کا
آغاز جوانی ہو جوانی انجام
***
خوشبو کی طرح ہے پھولوں میں پنہاں دیکھا
شبنم کی طرح کبھی نمایاں دیکھا
پہنچی مرے دل کو ٹھیس جی چھوٹ گیا
جب حسن کو کانٹوں پہ خراماں دیکھا
***
ہر قسم کی تشنیع سنا کرتا ہے
پھر بھی تو وہ خاموش رہا کرتا ہے
اخلاص کا مارا ہوا بے چارہ حسن
بچپن سے تکالیف سہا کرتا ہے
***
افسوس کہ بے نوا پھرا کرتا ہے
افلاس میں مبتلا پھرا کرتا ہے
وہ حسن جو تھا تخت کی زینت کے لیے
مدت سے برہنہ پا پھرا کرتا ہے
***
سر چشمۂ صد رنج و بلا رہتا ہے
آماجگہِ الم بنا رہتا ہے
افلاس کا ہو برا کہ حسنِ معصوم
طوفان حوادث میں گھرا رہتا ہے
***
آواز ہے قدرت کی ترنم تیرا
رحمت کا پیام ہے تکلم تیرا
کلیوں کو بھی تزئین ہے تیری ضو سے
آئینۂ فطرت ہے تبسم تیرا
***
عارض سے چھلکتی ہے جوانی تیری
ماتھے پہ چمکتی ہے جوانی تیری
صورت تری در اصل ہے تصویر شباب
آنکھوں سے ٹپکتی ہے جوانی تیری
***
آنکھوں میں شراب ارغوانی توبہ
نظروں میں شرار دل ستانی، توبہ
رک جائے نہ کیوں نبض تمنائے حیات
سانچے میں ڈھلی ہوئی جوانی توبہ
***
جب عشق سے مانوس ہوا کرتا ہے
ہر آدمی مایوس ہوا کرتا ہے
دل سرد نظر اداس آنکھیں ویران
کچھ ایسا ہی محسوس ہوا کرتا ہے
***
ابرو ہیں کھنچتی ہوئی کمانیں توبہ
آنکھوں میں ہیں خونیں داستانیں گویا
ہوتے ہیں اشارے ترے الفاظ بہ دوش
غلطاں ہیں نگاہوں میں زبانیں گویا
***
ہر نقش نئی شان دکھاتا ہے مجھے
سو طور سے ہر ذرہ لبھاتا ہے مجھے
پھولوں کا تو کیا ذکر محبت کی قسم
’’کانٹوں پہ بھی اب تو پیار آتا ہے مجھے‘‘
***
اس وقت الگ ہیں مجھ سے راہیں ان کی
گردن میں حمائل نہیں باہیں ان کی
جب صبحِ نشاط چار آنکھیں ہوں گی
جھک جائیں گی شرما کے نگاہیں ان کی
***
سر تابہ قدم حسن ازل کی تفسیر
صناعیِ قدرت کی مکمل تصویر
تو ہو متبسم تو کھلے دل کا کنول
گویا ہو تو بن جائے بگڑتی تقدیر
***
نظروں سے تری برق کا کوندا شرمائے
رخسار سے خورشید کی گرمی دب جائے
زلفوں کی سیاہی سے اندھیرا چونکے
ماتھے کی ضیا چاند کا سینہ برمائے
***
آنکھوں سے چھلکتے ہوئے کوثر کے جام
چہرے کی ضیا جیسے کہ فردوس کی شام
ہر لمحہ بدلتے ہوئے کافر انداز
دل چھیننے والا کشش انگیز خرام
***
آغوش میں تاروں کے جوانی جھولے
انگڑائی جو لے چاند کا دامن چھولے
قامت کا تری دیکھے جو ہنگام خرام
چال اپنی ہر اک فتنۂ محشر بھولے
***
سن لے جو کسی وقت ترے پاؤں کی چاپ
لو دینے لگے شمع وفا آپ ہی آپ
ڈوبی ہوئی نبضیں حرکت میں آ جائیں
ہوتا ہے عجب حسن و محبت کا ملاپ
***
کوشش یوں تو بار بار فرماتی ہیں
نظارہ سے مایوس پلٹ آتی ہیں
اونچا ہے کچھ اتنا بام ایوان جمال
نظروں کی کمندیں بھی الجھ جاتی ہیں
***
ہاں قوس قزح رنگ محل چومے ہیں
ماتھے پہ ابھرتے ہوئے بل چومے ہیں
اک برق رواں ہے مری ہر ہر رگ میں
جب سے تری آنکھوں کے کنول چومے ہیں
***
اے دوست کہوں کیا مجھے کیا چیز ملی
کچھ آگہیِ ذات کی تمئیز ملی
پایا ہے محبت نے شعور ہستی
جس دن مرے سر کو تری دہلیز ملی
***
پیغام خزان الوداعی تم ہو
آغاز بہار اجتماعی تم ہو
لب غنچے ہیں پھول آنکھیں گلستاں عارض
خیام کی اک طرفہ رباعی تم ہو
***
آسائش دنیا سے گریزاں ہوں میں
بے تاب ہوں مضطر ہوں پریشاں ہوں میں
کیا پوچھتا ہے مجھ سے مرا حال ندیم
تقدیر کا مارا ہوا انساں ہوں میں
***
خاموش ہے انسان کی فطرت خاموش
چپ چاپ ہی کہہ اپنی حکایت خاموش
الفاظ ہیں محدود، کہانی ہے بسیط
خاموش ہو اے زبانِ ہمت خاموش
***
جھک جائیں ستارے ماہ انور جھک جائے
جھک جائے شہپر شاہ خاور جھک جائے
پیدا تو کرے حسن خودی کوئی بشر
بندوں کا تو کیا ہے رب اکبر جھک جائے
***
آسودہ و کامیاب ہونا ہے تجھے
اس دہر میں لا جواب ہونا ہے تجھے
اے ذرہ صفت خاک پہ سونے والے
بیدار کہ آفتاب ہونا ہے تجھے
***
تو کس لیے مجنون ہے، معلوم نہیں
طرفہ ترا مضمون ہے معلوم نہیں
کرتا ہے مسرت میں بسر اپنی حیات
جینے کا بھی قانون ہے، معلوم نہیں!
***
اس راہ کے فاصلے کو ناپا ہے کبھی
منزل کا پتہ تو نے لگایا ہے کبھی
آغاز کے جلوؤں کے فدائی صادقؔ
انجام کے پرتو کو بھی دیکھا ہے کبھی
***
ہو دور کہ نزدیک ہر اک پہلو دیکھ
سادہ ہو کہ باریک ہر اک پہلو دیکھ
انسان ہے تو اپنی زندگی کا غافل
روشن ہو کہ تاریک ہر اک پہلو دیکھ
***
الفاظ کو دو تازہ معانی کا لباس
ہاں تیز کرو تیز زبان احساس
ماحول یہ کہتا ہے بہ آواز بلند
انسان کو انساں سے کرو رمز شناس
***
ہر کہنہ روایت کو مٹا دو بڑھ کر
بوسیدہ عمارات گرا دو بڑھ کر
چنگاری جو ابھری ہے پئے زیست اسے
احساس کے شعلوں سے ہوا دو بڑھ کر
***
تقلید کے محور سے نکلنا ہی پڑا
فنکار کو حالات میں ڈھلنا ہی پڑا
ہنگام رست و خیز برپا جو ہوا
موضوعِ سخن ہم کو بدلنا ہی پڑا
***
چاک اپنا گریبان نظر آتا ہے
بربادی کا سامان نظر آتا ہے
کچھ مجھ پہ ہی موقوف نہیں اے صادقؔ
ہر شخص پریشان نظر آتا ہے
***
(برائے عیدین)
احکام شریعت کو سمجھتا ہی نہیں
روزوں کی فضیلت تو سمجھتا ہی نہیں
پڑھتا ہے پئے حصول زر یوں قراں
جیسے کہ قیامت کو سمجھتا ہی نہیں
***
مسرور ہو عید شادمانی آئی
ہاں ساعت کامراں زندگانی آئی
نادانوں کے بل پر یہ تملقّ تیرا
جیسے کہ بڑھاپے میں جوانی آئی
***
دل تیرِ الم کا ہے نشانہ گویا
آیا ہے تڑپنے کا زمانہ گویا
مفلس کے لیے عید کا چاند اے صادقؔ
فطرت کا ہے اک تازیانہ گویا
***
زر داروں کے گھر ماہ صیام آ نہ سکا
اللہ کی رحمت کا پیام آ نہ سکا
وہ نشۂ دولت میں تو ہیں مست مگر
ان تک مئے تطہیر کا جام آ نہ سکا
***
ہر ایک طرف دورِ طرب چھایا ہے
افسردہ دلوں کی تازگی لایا ہے
لیکن کوئی اس سے اتنا پوچھے صادقؔ
وہ پاس نہیں ہے، تو یہ کیوں آیا ہے
***
دن عید کا آلام مٹائے کیوں کر
لذت کشں آرام بنائے کیوں کر
جب وہ ہی نہیں پاس تو پھر اس دن بھی
بے چین جو دل ہے، چین پائے کیوں کر
***
سرمایہ پرستوں کی عجب سج دھج ہے
ہر رنگ نشاط و عیش کا مخرج ہے
یوں جامہ سے باہر ہیں خوشی کے مارے
جیسے کہ یہ دن رو کشِ یوم حج ہے
***
اس رات کا شاید نہ سویرا ہو گا
ہر سو غم و آزار کا ڈیرا ہوگا
مفلس کے یہاں عید کے جلووں کی جگہ
آلام و مصائب کا اندھیرا ہو گا
***
عید آئی پیامِ کامرانی لے کر
عیش اور سکون و شادمانی لے کر
نادان مسلماں ترے نذرانے کو
آئے ہیں متاعَِ زندگانی لے کر
***
جب بیتے دنوں کی یاد آ جاتی ہے
اک داغ نیا دل پہ بٹھا جاتی ہے
تسکین و سرور و شادمانی کے عوض
عید اور ہمیں آ کے رلا جاتی ہے
***
فرقت کی تکالیف سہوں گا شاید
بے چینی کی روداد کہوں گا شاید
عشاق گلے ملیں گے مطلوبوں سے
میں سر بہ گریباں ہی رہوں گا شاید
***
نظارہ سے محروم رہوں عید کے دن
دیدار سے مجبور رہوں عید کے دن
شیاد یہی منظور ضدا ہے صادقؔ
وہ دور، میں مہجور رہوں عید کے دن
***
کیا علم تھا عید اب کے بھی تنہا ہو گی
پوری نہ مرے دل کی تمنا ہو گی
گھر گھر ہے خوشی عید کی، لیکن صادقؔ
مہجور ہوں میں، مجھ کو خوشی کیا ہو گی
***
ممبر پہ مدام دندنانے والو
دوزخ سے ہمیں عبث ڈرانے والو
ہے وقت کا اقتضا کہ قرباں ہو جاؤ
قربانی کے احکام بتانے والو
***
جنت کی بشارت کا شجر ہے یہ عید
مسلم کی عقیدت کا ثمر ہے یہ عید
ماہ رمضان کے شب گزاروں کے لیے
روزوں کی مشقت کی سحر ہے یہ عید
***
ایک ایک نفس کا محاسبہ کرتے ہیں ہم
بھوک اور پیاس کا مقابلہ کرتے ہیں ہم
حق روزوں کا کرتے ہیں ادا عید کے دن
اللہ سے اب معاملہ کرتے ہیں ہم
***
ہر سمت یہ ہے شور کہ آئی ہے عید
دنیا پہ عجب شان سے چھائی ہے عید
اک بے نوا ایسا بھی ہے لیکن صادقؔ
جس نے کہ نہ برسوں سے منائی ہے عید
***
عیش اور طرب کا تو کہیں نام نہیں
سچ پوچھو تو اک شخص بھی خوش کام نہیں
عید آئی ہے اک اور لگانے چرکا
پہلے سے ہی کچھ جان کو آرام نہیں
***
خوش خوش بہ ہزار عز و شاں جاتے ہیں
دیکھو یہاں جاتے ہیں، وہاں جاتے ہیں
سرمایہ پرستی کے ہزاروں عفریت
پہنے ہوئے ملبوس کہاں جاتے ہیں
***
نشّۂ مئے شوق
نوٹ: والد مرحوم نے کبھی مے کو ہاتھ نہیں لگایا، لیکن روایت کے مطابق اشعار میں مدحِ مے بہت کی۔ اگرچہ بعد میں غزل کے بہت سے ایسے اشعار قطع و برید کی نذر کر دئے۔ یہ رباعیات بچی رہ گئیں جو اگر چہ نقش دوام کے پہلے ایڈیشن میں، جو خود مرتب کر چکے تھے، یہ شامل نہ تھیں۔ لیکن اس دوسرے ایڈیشن میں مَیں شامل کر رہا ہوں۔
اعجاز عبید
اک ذرہ ہے آفتاب میرے آگے
گردوں بھی ہے اک حباب میرے آگے
بیٹھا ہوں شراب شوق پی کر اس وقت
کونین ہیں بے نقاب میرے آگے
***
زاہد یہ ترے دل کا دھڑکنا ہے عجیب
ہر جرعہ پہ رہ رہ کے جھجکنا ہے عجیب
آیا تو ہے بزمِ مے کشاں میں مگر
پینا ہے عجب، تیرا بہکنا ہے عجیب
***
مفقود ہو رنج، شادمانی ہے یہی
مسرور ہے دل تو کامرانی ہے یہی
کچھ بھی ہو مئے شوق پلا دے ساقی
حقا! کہ مدار زندگانی ہے یہی
***
نیلے پانی میں ناؤ کھیتا ہوں میں
ہر چیز کو افتخار دیتا ہوں میں
نشّہ مئے شوق کا ہے مجھ پر طاری
ماحولِ فلک میں سانس لیتا ہوں میں
***
کیا جوشِ سبو کشی بڑھا جاتا ہے
خود پیرِ مغاں آ کے پلا جاتا ہے
وہ مست ہوں صادقؔ کہ پسِ مردن بھی
کوثر مرے قدموں پہ جھکا جاتا ہے
***
صنعت ہے خدا کی آشکار شیشے میں
اک جا ہیں بہم نور و نار شیشے میں
دل کھول کے پی آج تو اے واعظِ کام
قدرت کے ہیں سب کاروبار شیشے میں
***
صدقے ترے، کر دے مجھے ہلکا ساقی
کیوں وعدہ کیا کرتا ہے کل کا ساقی
مٹ جائے شب ہجر کی ساری ظلمت
ان آنکھوں سے دو بوند ہی چھلکا ساقی!
***
میخوار ہوں، دیتا ہوں یہ آواز، پلا
انداز نہ کر، آج بے انداز پلا
اٹھ جائیں حجابات نگاہوں سے مری
ساقی مجھے وہ بادۂ اعجاز پلا
***
دوزخ کی ہوس ہے نہ ہے جنت کا خیال
مجھ کو ہے فقط تیری محبت کا خیال
مے خانے کی ہر چیز ہے پیاری مجھ کو
ساقی مرے!، رکھنا مری الفت کا خیال
***
ہاں ہاں، مرے ساقی!، وہی رنگیں شے لا
جو کچھ ترے میخانے میں موجود ہے، لا
آتش دلِ مضطر کی بجھی جاتی ہے
ساغر جو میسر نہ ہو، خالی مے لا
***
مے نوش ہوں، گھر گھر ہے فسانہ میرا
ہت چار طرف دہر میں شہرہ میرا
ہر روز طواف اس کا کیا کرتا ہوں
مے خانے کا ہر گوشہ ہے کعبہ میرا
***
کس قدر تیری بندہ نوازی ہو گی
کب فرقتِ پیہم سے رہائی ہو گی
بیتاب ہوں اے پیر مغاں! یہ تو بتا
کب دختر رز سے مری شادی ہو گی
***
ہے قابل رشک زندگانی تیری
کیونکر نہ ہو دل چسپ کہانی تیری
آنکھوں سے ہی اک جام پلا دے ساقی!
میخانۂ فطرت ہے جوانی تیری
***
جس وقت کھنچی آنکھوں میں تصویرِ شراب
ہر بزم میں ہونے لگی توقیرِ شراب
زہاد بھی پینے لگے صادقؔ اب سے
معلوم ہے شاید انہیں تاثیرِ شراب
***
ساغر بھر کر رنگیلے ساقی دے دے
پیاسا ہوں اب ذرا مے ساقی دے دے
یوں کب سے ہوں منتظر، کہوں کیا تجھ سے
ساقی دے دے، مرے پیارے ساقی دے دے
***
پیتے پیتے منہ تیرا اترتا کیوں ہے
ہنگام طرب شاق گزرتا کیوں ہے
حاضر ہے شرابِ ناب، ساقی ہے شاد
جی کھول کے اب تو پی لے، ڈرتا کیوں ہے
***
مضطر ہوں سکونِ زندگانی کے لئے
بے تاب شراب ارغوانی کے لئے
صدقے ترے ساقی، مجھے دے دے اک جام
کچھ چاہتا ہوں اپنی جوانی کے لئے
***
اے ساقیِ مے خانہ!، ذرا جنبش دے
پیمانۂ گلگوں کو اٹھا، گردش دے
دل سرد ہوا جاتا ہے مے کے بدلے
بھر بھر کے مجھے بہر خدا آتش دے
***
رنگین فضائیں ہیں، اٹھا لا ساغر
یہ دل کی صدائیں ہیں، اٹھا لا ساغر
ہو گا نہ کوئی وقت اس سے اچھا ساقی!
بارش ہے، ہوائیں ہیں، اٹھا لا ساغر
***
مے پینے پہ جاؤں جو ساغر ساغر
پی جاتا ہوں بے شمار اکثر ساغر
میکش ہوں، عجیب طرفہ مے کشی میری
نزدیک ہے میرے حوضِ کوثر ساغر
***
مغرب سے جو گھنگھور گھٹا آتی ہے
آتے ہی سرِ میکدہ چھا جاتی ہے
کھلتا ہے درِ میکدہ، مچ جاتی ہے دھوم
توبہ ہے کہ آٹے ہوئے گھبراتی ہے
***
ہر وقت فدائے جام و مینا ہوں میں
ہاں، مدح سرائے جام و مینا ہوں میں
جس وقت بھی آ کر کوئی دیکھے مجھ کو
سینے سے لگائے جام و مینا ہوں میں
***
صدقے ترے، اک جام پلا دے ساقی
اس دل میں پھر اک شمع جلا دے ساقی
دنیا میں نہیں میرے لئے کوئی شراب
قدرت ہو تو فردوس سے لا دے ساقی
***
جو رنگ بھی دیکھا، وہ نرالا دیکھا
اک ماہ کا، اک مہر کا پیالہ دیکھا
ساقی ترے مے خانے میں آ کر میں نے
انوارِ الٰہی کا اجالا دیکھا
***
زخموں کو خطِ بادہ سے سیتا ہوں میں
پیہم پیتا ہوں، اور جیتا ہوں میں
مے دشمن دیں ہے تو بقولِ خیامؔ
ہاں، دشمن دیں کا خون پیتا ہوں میں
***
ہر جرعہ پہ واہ واہ کرتا ہوں میں
رہ رہ کے ہر اک گناہ کرتا ہوں میں
مے پیتا ہوں علیٰ رؤس الاشہاد
دنیا! تجھ کو گواہ کرتا ہوں میں
***
نامۂ تمنّا
قطعات
(نوٹ: والد محترم نے اس حصے میں محض کلام منسوخ سے منتخب قطعات ہی رکھے تھے، لیکن جو قطعات غیر منسوخ تھے، ان کو کسی مجموعے میں شامل نہیں کیا تھا۔ ‘نقشِ دوام‘ کے اس دوسرے ایڈیشن میں ایسے اٹھارہ قطعات شامل ہیں۔ ا۔ ع)
روئے تاب اک سفینۂ کمزور
کھیلتا جا رہا ہے طوفاں سے
قرب ساحل اگر ہے نا ممکن
تہ نشینوں میں جا کے مل جائے
***
تجھ کو اپنے وقار کی سوگند
کوئی بھی روگ زندگی کو نہ دے
کہتے ہیں جس کو غم جدائی کا
اے خدا دہر میں کسی کو نہ دے
***
درد اٹھنا ہے دل میں رہ رہ کر
جب کہ تیرا خیال آتا ہے
ضبط غم جس قدر بھی کرتا ہوں
تیرا غم اور بڑھتا جاتا ہے
***
تو جو دیتا ہے دے بقدر ظرف
حد سے زائد مگر کسی کو نہ دے
تجھ سے منہ موڑ لے جسے پا کر
ایسی دولت بھی آدمی کو نہ دے
***
قوم کے ہاتھوں میں آ جاتی ہے جس دم تلوار
انتظامات زمانہ میں خلل پڑتا ہے
رات کے گھور اندھیرے تو چھٹے جاتے ہیں
اک نئی صبح کا میداں میں علم گڑتا ہے
***
ہزار ارمان لاکھوں حسرتیں صدہا تمنائیں
بڑے سامان سے دور شباب فتنہ گر آئے
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے نہ پوچھ اس وقت کا عالم
مسرت کی گھڑی آ کر یکایک جب گزر جائے
***
ڈگمگانے لگی تنظیم جہاں کی تعمیر
اک نئے دور کے امکان ابھر آئے ہیں
ایک طوفان تو کل ہم سے دبایا نہ گیا
آج تو سینکڑوں طوفان ابھر آئے ہیں
***
ہم میں ہو جائے گی گرمیِ عمل جب پیدا
خود بخود پاؤں کی زنجیر پگھل جائے گی
ختم ہونے دو ذرا خواب اسیران قفس
آنکھ کھلتے ہی ہر اک چیز بدل جائے گی
***
جان بے تاب چلی آئی لبوں پر کھنچ کر
اب چھلکنے کو ہے پیمانۂ ضبط اے ساقی
سرخ ڈورے تیری آنکھوں کے یہ کہتے ہیں مگر
ایک رنگین نیا دور قریں ہے ساقی
***
اے ساقیِ مقصود!، صراحی کو الٹ دے
سب رنج ہوں مفقود، صراحی کو الٹ دے
اندازے کی حاجت نہیں، بس مئے ہی دئے جا
پیمانہ ہے بے سود، صراحی کو الٹ دے
***
(کلام منسوخ سے)
نقش جانکاہیِ وفا ہوں میں
سوز الفت کا سلسلا ہوں میں
میری ہستی کو ناز ہے مجھ پ
اپنی ہستی کا آئینہ ہوں میں
***
تھرتھراتی ہے آرزوئے نشاط
دیکھ کر یہ عجیب نظارہ
جب کہ آغوشِ عشق میں صادقؔ
لوٹ کر آیا ہے وہ مہ پارا
***
روئے آب اک سفینۂ کمزور
کھیلتا جا رہا ہے طوفاں سے
قرب ساحل اگر ہے نا ممکن
تہہ نشینوں میں جا کے مل جائے
***
تجھ کو اپنے وقار کی سوگند
کوئی بھی روگ زندگی کو نہ دے
کہتے ہیں جس کو غم جدائی کا
اے خدا! دہر میں کسی کو نہ دے
***
درد اٹھتا ہے دل میں رہ رہ کر
جب کہ تیرا خیال آتا ہے
ضبط غم جس قدر بھی کرتا ہوں
میرا غم اور بڑھتا جاتا ہے
***
تو جو دیتا ہے، دے بقدرِ ظرف
حد سے زائد مگر کسی کو نہ دے
تجھ سے منہ موڑ لے جسے پا کر
اتنی دولت بھی آدمی کو نہ دے
***
عشق کیا چیز ہے، نہ پوچھ ندیم
دورِ برنائی کا گناہِ عظیم
جس کی خوش کامیوں میں ہے جنت
جس کی ناکامیاں ہیں نارِ جہیم
***
قوم کے ہاتھ میں آ جاتی ہے جس دم تلوار
انتظاماتِ زمانہ میں خلل پڑتا ہے
رات کے گھور اندھیرے تو چھٹے جاتے ہیں
اک نئی صبح کا میداں میں علم گڑتا ہے
***
دئے جا مجھ کو ساقی جام پر جام
صدائے شوق ہے آشام آشام
ابھی دوزخ کو پی جاتا ہوں بھر کر
جہنم خطِّ پیمانہ کا ہے نام
***
مژدہ باد اے مآلِ خواہِ جناب
دور تازہ شروع ہوتا ہے
یوِ وہ اٹھی نقاب چہرے سے
چاند جیسے طلوع ہوتا ہے
***
ہزار ارمان، لاکھوں حسرتیں، صد ہا تمنائیں
بڑے سامان سے دورِ شبابِ فتنہ گر آئے
نہ پوچھ اے ہم نشیں! مجھ سے، نہ پوچھ اس وقت کا عالم
مسرت کی گھڑی آ کر یکایک جب گزر جائے
***
تباہی سے بچا لوں گا سفینہ
ہر اک سیلاب کا رخ موڑ دوں گا
اگر پھر جائیں گی ساقی کی نظریں
کھنکتے ساغروں کو توڑ دوں گا
***
کس قدر ظلم ہے یہ امن و اماں کی خاطر
چاہتی ہے جسے دنیا، وہ سکوں چھین لیا
دفعتہً آج نہ رک جائے کہیں نبضِ حیات
تم نے پیمانہ مرے ہاتھ سے کیوں چھین لیا؟
***
ٖڈگمگانے لگی تنظیمِ جہاں کی تعمیرِ
اک نئے دور کے امکان ابھر آئے ہیں
ایک طوفان تو کل ہم سے دبایا نہ گیا
آج تو سیکڑوں طوفان ابھر آئے ہیں
***
سرخیِ جام سے اٹھّے گی جو موجِ رنگیں
ہر نفس ولولہ و جوش سے بھر جائے گی
خون روتی ہوئی آنکھوں کو ملے گی ٹھنڈک
صبحِ روشن کی طرح زیست نکھر جائے گی
***
ہم میں ہو جائے گی گرمیِ عمل جب پیدا
خود بخود پاؤں کی زنجیر پگھل جائے گی
ختم ہونے دو ذرا خواب اسیرانِ قفس
آنکھ کھلتے ہی ہر اک چیز بدل جائے گی
***
جان بے تاب چلی آئی لبوں پر کھنچ کر
اب چھلکنے کو ہے پیمانۂ ضبط اے ساقی!
سرخ ڈورے تری آنکھوں کے یہ کہتے ہیں مگر
ایک رنگین نیا دور قریں ہے ساقی
***
ٹائپنگ: مخدوم محی الدین/ اعجاز عبید
پروف ریڈنگ، ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں