اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


چند مشہور اشعار ۔۔۔ رشید سندیلوی

ایسے اشعار جو شاعر کے نام کو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے

چند مشہور اشعار

تحقیق و ترتیب

رشید سندیلوی

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

چند مشہور اشعار

 

 

 

تحقیق و ترتیب

رشید سندیلوی

 

 

 

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

ثاقب لکھنوی

۔

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

ثاقب لکھنوی

۔

دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

مہتاب رائے تاباں

۔

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ کل ہماری باری ہے

مرزا شوقؔ لکھنوی

۔

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جگر مراد آبادی

۔

روندتی پھرتی ہے پھولوں کو سواری آپ کی

کس قدر ممنون ہے بادِ بہاری آپ کی

نامعلوم

۔

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگر مراد آبادی

۔

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

امیر مینائی

۔

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

شہیر مچھلی شہری

۔

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

میاں داد خان سیاح

۔

زندگی زندہ دلی کا ہے نام

مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں

شیخ امام بخش ناسخ

۔

در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں

خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں

واجد علی شاہ اختر

۔

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مولانا محمد علی جوہر

۔

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

مرزا غالب

۔

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

کلیم عاجز

۔

نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار اُن سے

یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں

کلب حسین نادر

۔

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

میرا جی

۔

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

مرزا غالب

۔

وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے

مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

ظریف لکھنوی

۔

غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے

کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا

چراغ حسن حسرت

۔

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ

بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے

شیفتہ

۔

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

علامہ اقبال

۔

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

علامہ اقبال

۔

ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو

راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

حالی

۔

خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

اکبر الہ آبادی

۔

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا

اکبر الہ آبادی

۔

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

اکبر الہ آبادی

۔

لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار

خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

میر انیس

۔

نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

میر تقی میر

۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

سید محمد خاں رند

۔

وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

مہاراج بہادر برق

۔

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

ابراہیم ذوق

۔

آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے

میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا

آتش

۔

سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے

ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

حیدر علی آتش

۔

یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے

ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے

حیدر علی آتش

۔

تم میرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

حکیم مومن خان مومن

۔

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی

میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے

شیفتہ

۔

چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

فدوی عظیم آبادی

۔

اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

فراق گورکھپوری

۔

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں

کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں

 جاں نثار اختر

۔

دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ

مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں

جاں نثار اختر

۔

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

جاں نثار اختر

۔

داور حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

محمد دین تاثیر

۔

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

ساحر لدھیانوی

۔

فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب

بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے

آتش

۔

مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے

مرے تھے جن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے

نا معلوم

۔

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی

اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی

عزیز الحسن مجذوب

۔

دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات

ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

داغ دہلوی

۔

 درم و دام اپنے پاس کہاں

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

غالب

۔

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے

یگانہ چنگیزی

۔

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

یاس یگانہ چنگیزی

۔

دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا

وہ میرا پہلے پہل داخلِ زنداں ہونا

عزیز لکھنوی

۔

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا

عزیز لکھنوی

۔

دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام

منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ

نظام رام پوری

۔

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے

بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

حسرت موہانی

۔

چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے

حسرت موہانی

۔

تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں

مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

مضطر خیر آبادی

۔

دیکھ آؤ مریضِ فرقت کو

رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے

حسن بریلوی

۔

الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

مومن خان مومن

۔

دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار

جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے

شاد عظیم آبادی

۔

کوچۂ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے

خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے

وزیر علی صبا

۔

سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

داغ دہلوی

۔

سنے کون قصۂ دردِ دل میرا غم گسار چلا گیا

جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا

پیر نصیر الدین نصیر

۔

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

غالب

۔

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

غالب

۔

اسی لئے تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے ہیں

اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کار رواں ہو کر

خواجہ وزیر

۔

زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں

کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا

ذوق

۔

فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے

سودا

۔

یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اقبال

۔

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

چکبست برج نرائن

۔

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو  ساتھہ لے کے چلو

مخدوم محی الدین

۔

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی

گستاخ رام پوری

۔

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا

سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

میرتقی میر

۔

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

اقبال

۔

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

مرزا غالب

۔

یہ کس نے شاخِ گُل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی؟

کہ میں نے شوقِ گلبوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی

سیماب اکبر آبادی

۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مجروح سلطانپوری

۔

سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی

نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم

شاد عظیم آبادی

۔

تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

شاد عظیم آبادی

۔

ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں

الطاف حسین حالی

۔

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

صوفی غلام مصطفے ٰ تبسم

۔

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

ناصر کاظمی

۔

تم زمانے کی راہ سے آئے

ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا

باقی صدیقی

۔

ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا

ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے

فیض احمد فیض

۔

دنیا نے تری یاد سے بیگانہ کر دیا

تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

فیض احمد فیض

۔

یہ وقت اس طرح رونے کا نہیں ہے لیکن

میں کیا کروں کہ مرے سوگوار اب آئے

فرحت عباس شاہ

۔

نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھئے

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

محسن بھوپالی

۔

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں

کب کوئ بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

نوابزادہ نصراللہ خان

۔

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھہ بھول ہوئی ہے

ساغر صدیقی

۔

اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میر تقی میر

۔

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

مادھو رام فرخ جوہر آبادی

۔

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے

میر تقی میر

۔

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

میر تقی میر

۔

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر

مذہبِ عشق اختیار کیا

میر تقی میر

۔

دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن

رات کٹتی نظر نہیں آتی

سید محمد اثر

۔

میرے سنگ مزار پر فرہاد

رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد

میر تقی میر

۔

سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد

سید غلام محمد مست کلکتوی

۔

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

ساغر صدیقی

۔

غموں کی تیز چٹانیں ڈھو ڈھو کر

بدن کے ساتھ پھٹے ہیں انا کے دستانے

رشید سندیلوی

۔

قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں

اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے

اقبال عظیم

۔

دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

اکبر الہ آبادی

۔

اے عدم احتیاط لوگوں سے

لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

عبدالحمید عدم

۔

کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں

جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

عبد الحمید عدم

۔

دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے

سبط علی صبا

۔

وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں

طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا

ڈاکٹر وزیر آغا

۔

میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے

میں جب اِدھر سے نہ گُزروں تو کون دیکھے گا

 مجید امجد

۔

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں

حُدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

شکیب جلالی

۔

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر

شکیب جلالی

۔

میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا

پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا

آنس معین

۔

ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج

اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے

أنس معین

۔

جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے

مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا

احمد ندیم قاسمی

۔

میں ورغلایا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف

میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا

رانا سعید دوشی

۔

رات پڑتی ہے تو گر پڑتا ہوں سونے کے لئے

اب تو فرصت بھی میسر نہیں رونے کے لئے

رشید سندیلوی

۔

اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے

دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

تنویر سپرا

۔ جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا

کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں

منیر نیازی

۔

جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ

غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں

منیر نیازی

۔

دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے

کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو

قمر جلالوی

۔

دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام

ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

قمر جلالوی

۔

اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

شعیب بن عزیز

۔

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن

 عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

احمد مشتاق

۔

چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ

اتنا بُرا سلوک میری سادگی کے ساتھ

محسن نقوی

۔

گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

خاطر غزنوی

۔

کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا

یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا

اقبال ساجد

۔

رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں

جو خود نہ بنا ان کو بنانے میں لگا ہوں

اکبر حمیدی

۔

مجھ کو جھکنے کا سبق دیتا تھا

اپنے ہمزاد کو مارا میں نے

رشید سندیلوی

۔

نہ پوچھ حال مرے زشت رو قبیلے کا

ذرا سا حسن ملا بن گئے خدا چہرے

رفیق سندیلوی

۔

انا کو خود پر سوار مَیں نے نہیں کیا تھا

کسی نہتے پہ وار مَیں نے نہیں کیا تھا

رفیق سندیلوی

۔

سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

سیف الدین سیف

۔

تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

احمد فراز

۔

رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

ابراہیم ذوق

۔

سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں

گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

میر حسن

۔

ایک محبت کافی ہے

باقی عمر اضافی ہے

محبوب خزاں

۔

سُموں تلے روند دے خوشی سے مگر یہ سُن لے

گناہ اے شہسوار مَیں نے نہیں کیا تھا

 محمد اظہار الحق

۔

غروب کا وقت تھا مقرّر سو چل پڑا مَیں

کسی کا پھر انتظار میں نے نہیں کیا تھا

محمد اظہار الحق

۔

کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے

آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے

شاہد ذکی

۔

نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے

اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے

شاہد ذکی

۔

شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی

ازہر درانی

۔

اک نام تیرا کیا لکھا ساحل کی ریت پر

پھر عمر بھر ہوا سے مری دشمنی رہی

شکیل اختر

۔

جہاں برسوں میں سورج ایک یا دو دن چمکتا ہو

وہاں سایہ کسی پیکر سے کم باہر نکلتا ہے

امداد آکاش

۔

ہنسنا جُرم ہے رونے پر پابندی ہے

شہر کے کونے کونے پر پابندی ہے

 راشد متین

۔

شب بیداری دن بھر سونا جائز ہے

پہلے پہلے دُکھ پر رونا جائز ہے

مجتبیٰ شیرازی

۔

تو زندگی ہے تو زندہ نہیں تری آنکھیں

تو روشنی ہے تو میں اختلاف کرتا ہوں

اختر شیخ

۔

کسی نے چاند کی تعریف مجھ سے پوچھی ہے

میرا خیال ہے تیری مثال دی جائے

طارق نعیم

۔

میں کسی پیڑ میں پوشیدہ پیمبر تو نہیں

پھر مرے جسم پہ چلتے ہیں یہ آرے کیسے

رشید سندیلوی

۔

نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی

جو نسل دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں

رفیق سندیلوی

۔

اولیں فرصت میں کھل کر روؤں گا

سینت کر رکھ لی ہے صدمے کی خبر

الفت رسول

۔

میرے رونے سے کچھ نہیں بدلا

اب کوئی اور معتبر روئے

رفیع رضا

۔

میں سازشوں میں گھرا اک یتیم شہزادہ

یہیں کہیں کوئی خنجر میری تلاش میں ہے

نثار ناسک

۔

آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے

بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے

ضمیر قیس

۔

سوکھ جاتے ہیں تعلق کے یہ تالاب ضمیر

جن دنوں آدمی پیاسا بھی بہت ہوتا ہے

ضمیر قیس

۔

میں جزیرے کا آخری دل ہوں

عورتیں خوش نہ دیوتا مجھ سے

ضمیر قیس

۔

ہم کہ تھکتے ہی نہ تھے کار محبت سے کبھی

اس خسارے سے بھی اب ہاتھ اٹھا رکھا ہے

ضمیر قیس

۔

چکور خوش ہے کہ بچوں کو آ گیا اڑنا

اداس بھی ہے کہ رت آ گئی بچھڑنے کی

 سعید احمد اختر

۔

کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں

مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے

نوشی گیلانی

۔

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں

میں اب اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

انور شعور

۔

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے

سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

سلیم کوثر

۔

کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

جون ایلیاء

۔

دل کے بازار پڑے ہیں خالی

رات کا ایک بجا ہو جیسے

رفیق سندیلوی

۔

بوجھ سینے سے اُترتا ہُوا لگتا ہے مجھے

ایسے لگتا ہے کہیں پھُوٹ کے رویا کوئی ہو

رفیع رضا

۔

ستون اپنے شکوہِ رفتہ میں گُم کھڑا ہے

بس اک ذرا انہماک ٹوٹے گا تب گرے گا

خالد اقبال یاسر

۔

ان پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ

میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

مصطفیٰ زیدی

۔

اسیرِ پنجۂ عہدِ شباب کر کے مجھے

کہاں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے

آغا حشر کاشمیری

۔

دل کے زخموں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا میں نے تمہیں یاد کیا

جوش ملیح آبادی

۔

ہوس نے بار ہا پٹی پڑھائی

انہیں میں کون سے موتی جڑے ہیں

نا معلوم

۔

طلب نہیں ہے تو ملنا فضول ہے شاہد

کہ حاضری کو حضوری نہیں سمجھتے ہم

شاہد ماکلی

۔

کوئی نکتہ ہی سجھاتے ہیں، نہ حل دیتے ہیں

وہ سوالات کو ایڑی سے مسل دیتے ہیں …!

اخترؔ عثمان

۔

ایک پردے پہ بنا آیا ہوں چہرہ اس کا

شہر کا شہر نمائش میں امڈ آیا ہے

رشید سندیلوی

۔

راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے

سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے

جلیل عالی

۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

خالد شریف

۔

اتنا کومل ہے کہ چھونے سے بکھر جائے گا

تازہ تازہ ابھی نکلا ہے کنول پانی میں

ندیم ملک

۔

میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی

پَتّا گرا تو درس فنا دے گیا مجھے

حسین سحر

۔

شہر کی بیتاب گلیوں نے اگل ڈالے ہیں لوگ

کس نے میرے شہر میں مردوں کو زندہ کر دیا

سرمد صہبائی

۔

بس یہی سوچ کے ہر روز اٹھاتا ہوں قلم

کیا خبر کل میں رہوں یا نہ رہوں لکھتا ہوں

اسحاق وردگ

۔

کچھ خیالات کی ترسیل بڑی مشکل ہے

کچھ تصور کبھی تصویر نہیں ہو سکتے

اکرم جاذب

۔

تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ

تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد

فرحت عباس شاہ

۔

یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو

 یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے

عباس تابش

۔

کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پروین شاکر

۔

اَن گِنت عشق کیے میں نے، مگر سچ یہ ہے

تجھ کو دیکھا تو مِرے دل نے کہا، بسم اللہ

حسن عباس رضا

۔ میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں

دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی

سلیم بیتاب

۔

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

حفیظ جالندھری

۔

ایک در گر بند ہو تو اور کھلتے ہیں ہزار

خود کو کمتر جان کر آنسو بہانا ہے فضول

غلام غوث غم

۔

حاصل ہو سکوں جس سے کوئی ایسا ثمر دے

دنیا میں کوئی ایسا شجر ہے کہ نہیں ہے

غلام غوث غم

۔

زندگی بیت رہی ہے دانشؔ

ایک بے جرم سزا ہو جیسے ..!

احسان دانش

۔

کیا جانئے کیا جی میں ہے، لب پر نہیں آتا

بس ’حرف تمنا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں

اعجاز عبید

۔

اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دو

جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا

حسن عباسی

۔

میں نے انکار کی تختی بھی لگا رکھی تھی

لے اُڑا پھر بھی مجھے سارے کا سارا کوئی

سعید راجہ

۔

اِس قبیلے میں کوئی عشق سے واقف ہی نہیں

لوگ ہنستے ہیں مِری چاک گریبانی پر

دلاور علی آذر

۔

آخر کوئی جواز بھی مجھ سے گریز کا

اے کم نگاہ! دیکھ ترا آئینہ ہوں میں

یعقوب پرواز

۔

یہ روز و شب کی مشکلیں تو دھوپ بن کے رہ گئیں

بدن پہ بوجھ بڑھ گیا ہے سائے بھی نڈھال ہیں

راشد معراج

۔

اٌس شہر میں رہتے ہیں کرایے کے مکاں میں

جس شہر میں موجود ہے جاگیر ہماری

عنبرین صلاح الدین

۔

بامِ عروج پر بھی کبھی آؤں گا ضرور

ہم دم مرا زوال فقط چار دن کا ہے

شاہ روم ولی

۔

ایسا لگتا ہے کہ طوفاں آئے گا

زلزلہ شاید بپا ہونے کو ہے

منیب شہزاد

۔

مَنسوب چراغوں سے طَرفدار ہَوا کے

تم لوگ مُنافق ہو مُنافق بھی بَلا کے

کومل جوئیہ

۔

زَنجیر نہیں ہوتے تعلق کہ جَکڑ لوں

چاہو تو بِچھڑ جاؤ ابھی ہاتھ چھُڑا کے

کومل جوئیہ

۔

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں

دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں

ادا جعفری

۔

مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے

احمد مشتاق

۔

روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے

عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے

احمد مشتاق

۔

میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات

اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے

احمد مشتاق

۔

کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے

یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو

بشیر بدر

۔

یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو

وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو

بشیر بدر

۔

یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا

چمپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا

جر آت قلندر بخش

۔

بال ہیں بکھرے، بند ہیں ٹوٹے، کان میں ٹیڑھا بالا ہے

جراؑت ہم پہچان گئے، کچھ دال میں کالا کالا ہے

جرأت ،قلندر بخش

۔

اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

جرات، قلندر بخش

۔

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

نا معلوم (یہ شعر اقبال کا نہیں ہے )

۔

ہمیں یہ ملنے نہ دے گا خدا کے بندوں سے

یہ چوب دار مجاور جو خانقاہ میں ہے

اسد اعوان

۔

وہ رکھ رکھاؤ کا قائل ہے اور ہم بھی ہیں

یہ منفرد سا تعلق بڑے کمال کا ہے

یوسف خالد

۔

چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم

کہیں تو قافلۂ نوبہار ٹھہرے گا

غلام ہمدانی مصحفی

۔

دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا

واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں

مرزا غالب

۔

جذبۂ عشق سلامت ہے تو انشا اللہ

کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے

انشاللہ خان انشا

۔

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

احمد ندیم قاسمی

۔

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

غلام محمد قاصر

۔

تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

غلام محمد قاصر

۔

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

مصطفیٰ خان شیفتہ

۔

خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا

کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا

ظفر اقبال

۔

سرد جھونکوں میں ترا ہجرسجا کر لایا

کس قدر درد و الم اب کے دسمبر لایا

رفیق سندیلوی

۔

جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا

اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے

اتل اجنبی

۔

دیکھنا مجھ کو لڑا دے گا مجھی سے ایک دن

خود پرے بیٹھے گا اور ہلکان کر دے گا مجھے

ظفر اقبال

۔

ایک نا موجودگی رہ جائے گی چاروں طرف

رفتہ رفتہ اس قدر سنسان کر دے گا مجھے

ظفر اقبال

۔

آئینہ دیکھ کر خیال آیا

تم مجھے بے مثال کہتے تھے

نامعلوم

۔

تمتماتے ہیں سُلگتے ہُوئے رُخسار تِرے

آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا

احمد ندیم قاسمی

۔

القاب مجھے اس نے بھی خط میں نہیں لکھے

میں نے بھی اسے جان سے پیارا نہیں لکھا

رفیق سندیلوی

۔

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

افتخار عارف

۔

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

افتخار عارف

۔

رات رو رو کے گزاری ہے چراغوں کی طرح

تب کہیں حرف میں تاثیر نظر آئی ہے

طارق نعیم

۔

وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

بسمل صابری

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید