ایسے اشعار جو شاعر کے نام کو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے
چند مشہور اشعار
تحقیق و ترتیب
رشید سندیلوی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
چند مشہور اشعار
تحقیق و ترتیب
رشید سندیلوی
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
ثاقب لکھنوی
۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
ثاقب لکھنوی
۔
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
مہتاب رائے تاباں
۔
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے
مرزا شوقؔ لکھنوی
۔
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
جگر مراد آبادی
۔
روندتی پھرتی ہے پھولوں کو سواری آپ کی
کس قدر ممنون ہے بادِ بہاری آپ کی
نامعلوم
۔
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
جگر مراد آبادی
۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیر مینائی
۔
فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
شہیر مچھلی شہری
۔
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
میاں داد خان سیاح
۔
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
شیخ امام بخش ناسخ
۔
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
واجد علی شاہ اختر
۔
قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
مولانا محمد علی جوہر
۔
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
مرزا غالب
۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
کلیم عاجز
۔
نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار اُن سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
کلب حسین نادر
۔
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
میرا جی
۔
کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
مرزا غالب
۔
وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے
مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے
ظریف لکھنوی
۔
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
چراغ حسن حسرت
۔
فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ
بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے
شیفتہ
۔
تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات
علامہ اقبال
۔
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
علامہ اقبال
۔
ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو
راست گوئی میں ہے رسوائی بہت
حالی
۔
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
اکبر الہ آبادی
۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
اکبر الہ آبادی
۔
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے
اکبر الہ آبادی
۔
لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار
خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
میر انیس
۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر تقی میر
۔
آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
سید محمد خاں رند
۔
وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
مہاراج بہادر برق
۔
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق
۔
آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے
میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
آتش
۔
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
حیدر علی آتش
۔
یہ آرزو تھی تجھے گل کے رو بہ رو کرتے
ہم اور بلبل بیتاب گفتگو کرتے
حیدر علی آتش
۔
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حکیم مومن خان مومن
۔
وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی
میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے
شیفتہ
۔
چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے
عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
فدوی عظیم آبادی
۔
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
فراق گورکھپوری
۔
اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں
جاں نثار اختر
۔
دیکھوں ترے ہاتھوں کو تو لگتا ہے ترے ہاتھ
مندر میں فقط دیپ جلانے کے لیے ہیں
جاں نثار اختر
۔
آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
جاں نثار اختر
۔
داور حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں
محمد دین تاثیر
۔
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
ساحر لدھیانوی
۔
فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب
بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے
آتش
۔
مری نماز جنازہ پڑھی ہے غیروں نے
مرے تھے جن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے
نا معلوم
۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
عزیز الحسن مجذوب
۔
دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات
ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا
داغ دہلوی
۔
درم و دام اپنے پاس کہاں
چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں
غالب
۔
چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا
چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے
یگانہ چنگیزی
۔
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
یاس یگانہ چنگیزی
۔
دیکھ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا
وہ میرا پہلے پہل داخلِ زنداں ہونا
عزیز لکھنوی
۔
اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
عزیز لکھنوی
۔
دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام
منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھ
نظام رام پوری
۔
توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے
بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے
حسرت موہانی
۔
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانا یاد ہے
حسرت موہانی
۔
تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
مضطر خیر آبادی
۔
دیکھ آؤ مریضِ فرقت کو
رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے
حسن بریلوی
۔
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
مومن خان مومن
۔
دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار
جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے
شاد عظیم آبادی
۔
کوچۂ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے
خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے
وزیر علی صبا
۔
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
داغ دہلوی
۔
سنے کون قصۂ دردِ دل میرا غم گسار چلا گیا
جسے آشناؤں کا پاس تھا وہ وفا شعار چلا گیا
پیر نصیر الدین نصیر
۔
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
غالب
۔
بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا
غالب
۔
اسی لئے تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے ہیں
اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کار رواں ہو کر
خواجہ وزیر
۔
زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں
کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا
ذوق
۔
فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے
سودا
۔
یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
اقبال
۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
چکبست برج نرائن
۔
حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھہ لے کے چلو
مخدوم محی الدین
۔
صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
گستاخ رام پوری
۔
اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
میرتقی میر
۔
اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
اقبال
۔
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
مرزا غالب
۔
یہ کس نے شاخِ گُل لا کر قریبِ آشیاں رکھ دی؟
کہ میں نے شوقِ گلبوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی
سیماب اکبر آبادی
۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح سلطانپوری
۔
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
شاد عظیم آبادی
۔
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں
شاد عظیم آبادی
۔
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
الطاف حسین حالی
۔
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی
صوفی غلام مصطفے ٰ تبسم
۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
ناصر کاظمی
۔
تم زمانے کی راہ سے آئے
ورنہ سیدھا تھا راستہ دل کا
باقی صدیقی
۔
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دُکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے
فیض احمد فیض
۔
دنیا نے تری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
فیض احمد فیض
۔
یہ وقت اس طرح رونے کا نہیں ہے لیکن
میں کیا کروں کہ مرے سوگوار اب آئے
فرحت عباس شاہ
۔
نیرنگئ سیاستِ دوراں تو دیکھئے
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
محسن بھوپالی
۔
کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئ بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے
نوابزادہ نصراللہ خان
۔
جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس عہد کے سلطان سے کچھہ بھول ہوئی ہے
ساغر صدیقی
۔
اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لایا
میر تقی میر
۔
بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں
مادھو رام فرخ جوہر آبادی
۔
بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو
جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے
میر تقی میر
۔
ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
میر تقی میر
۔
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہبِ عشق اختیار کیا
میر تقی میر
۔
دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن
رات کٹتی نظر نہیں آتی
سید محمد اثر
۔
میرے سنگ مزار پر فرہاد
رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد
میر تقی میر
۔
سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد
سید غلام محمد مست کلکتوی
۔
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
ساغر صدیقی
۔
غموں کی تیز چٹانیں ڈھو ڈھو کر
بدن کے ساتھ پھٹے ہیں انا کے دستانے
رشید سندیلوی
۔
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
اقبال عظیم
۔
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
اکبر الہ آبادی
۔
اے عدم احتیاط لوگوں سے
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
عبدالحمید عدم
۔
کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جا مے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا
عبد الحمید عدم
۔
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
سبط علی صبا
۔
وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اس کے پاس ہمیں
طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا
ڈاکٹر وزیر آغا
۔
میں روز اِدھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب اِدھر سے نہ گُزروں تو کون دیکھے گا
مجید امجد
۔
فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
حُدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی
شکیب جلالی
۔
ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے
چھلکے سجے ہوں جیسے پھلوں کی دکان پر
شکیب جلالی
۔
میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا
پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا
آنس معین
۔
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
أنس معین
۔
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالمِ نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
احمد ندیم قاسمی
۔
میں ورغلایا ہوا لڑ رہا ہوں اپنے خلاف
میں اپنے شوقِ شہادت میں مارا جاؤں گا
رانا سعید دوشی
۔
رات پڑتی ہے تو گر پڑتا ہوں سونے کے لئے
اب تو فرصت بھی میسر نہیں رونے کے لئے
رشید سندیلوی
۔
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے
تنویر سپرا
۔ جرم آدم نے کیا اور نسل آدم کو سزا
کاٹتا ہوں زندگی بھر میں نے جو بویا نہیں
منیر نیازی
۔
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیرؔ
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
منیر نیازی
۔
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
قمر جلالوی
۔
دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
قمر جلالوی
۔
اب اداس پھرتے ہو سردیوں کی شاموں میں
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں
شعیب بن عزیز
۔
دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے
احمد مشتاق
۔
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا بُرا سلوک میری سادگی کے ساتھ
محسن نقوی
۔
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
خاطر غزنوی
۔
کل شب دلِ آوارہ کو سینے سے نکالا
یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا
اقبال ساجد
۔
رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں
جو خود نہ بنا ان کو بنانے میں لگا ہوں
اکبر حمیدی
۔
مجھ کو جھکنے کا سبق دیتا تھا
اپنے ہمزاد کو مارا میں نے
رشید سندیلوی
۔
نہ پوچھ حال مرے زشت رو قبیلے کا
ذرا سا حسن ملا بن گئے خدا چہرے
رفیق سندیلوی
۔
انا کو خود پر سوار مَیں نے نہیں کیا تھا
کسی نہتے پہ وار مَیں نے نہیں کیا تھا
رفیق سندیلوی
۔
سیف اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
سیف الدین سیف
۔
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
احمد فراز
۔
رند خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ابراہیم ذوق
۔
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
میر حسن
۔
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
محبوب خزاں
۔
سُموں تلے روند دے خوشی سے مگر یہ سُن لے
گناہ اے شہسوار مَیں نے نہیں کیا تھا
محمد اظہار الحق
۔
غروب کا وقت تھا مقرّر سو چل پڑا مَیں
کسی کا پھر انتظار میں نے نہیں کیا تھا
محمد اظہار الحق
۔
کیا خبر کل یہی تابوت مرا بن جائے
آپ جس تخت کا حق دار سمجھتے ہیں مجھے
شاہد ذکی
۔
نیک لوگوں میں مجھے نیک گنا جاتا ہے
اور گنہ گار گنہ گار سمجھتے ہیں مجھے
شاہد ذکی
۔
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ازہر درانی
۔
اک نام تیرا کیا لکھا ساحل کی ریت پر
پھر عمر بھر ہوا سے مری دشمنی رہی
شکیل اختر
۔
جہاں برسوں میں سورج ایک یا دو دن چمکتا ہو
وہاں سایہ کسی پیکر سے کم باہر نکلتا ہے
امداد آکاش
۔
ہنسنا جُرم ہے رونے پر پابندی ہے
شہر کے کونے کونے پر پابندی ہے
راشد متین
۔
شب بیداری دن بھر سونا جائز ہے
پہلے پہلے دُکھ پر رونا جائز ہے
مجتبیٰ شیرازی
۔
تو زندگی ہے تو زندہ نہیں تری آنکھیں
تو روشنی ہے تو میں اختلاف کرتا ہوں
اختر شیخ
۔
کسی نے چاند کی تعریف مجھ سے پوچھی ہے
میرا خیال ہے تیری مثال دی جائے
طارق نعیم
۔
میں کسی پیڑ میں پوشیدہ پیمبر تو نہیں
پھر مرے جسم پہ چلتے ہیں یہ آرے کیسے
رشید سندیلوی
۔
نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی
جو نسل دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں
رفیق سندیلوی
۔
اولیں فرصت میں کھل کر روؤں گا
سینت کر رکھ لی ہے صدمے کی خبر
الفت رسول
۔
میرے رونے سے کچھ نہیں بدلا
اب کوئی اور معتبر روئے
رفیع رضا
۔
میں سازشوں میں گھرا اک یتیم شہزادہ
یہیں کہیں کوئی خنجر میری تلاش میں ہے
نثار ناسک
۔
آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے
بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے
ضمیر قیس
۔
سوکھ جاتے ہیں تعلق کے یہ تالاب ضمیر
جن دنوں آدمی پیاسا بھی بہت ہوتا ہے
ضمیر قیس
۔
میں جزیرے کا آخری دل ہوں
عورتیں خوش نہ دیوتا مجھ سے
ضمیر قیس
۔
ہم کہ تھکتے ہی نہ تھے کار محبت سے کبھی
اس خسارے سے بھی اب ہاتھ اٹھا رکھا ہے
ضمیر قیس
۔
چکور خوش ہے کہ بچوں کو آ گیا اڑنا
اداس بھی ہے کہ رت آ گئی بچھڑنے کی
سعید احمد اختر
۔
کچھ نہیں چاہئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں
مرا بچپن، مرے جگنو، مری گڑیا لا دے
نوشی گیلانی
۔
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
میں اب اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
انور شعور
۔
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
سلیم کوثر
۔
کتنی دلکش ہو تم کتنا دل جُو ہوں میں
کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے
جون ایلیاء
۔
دل کے بازار پڑے ہیں خالی
رات کا ایک بجا ہو جیسے
رفیق سندیلوی
۔
بوجھ سینے سے اُترتا ہُوا لگتا ہے مجھے
ایسے لگتا ہے کہیں پھُوٹ کے رویا کوئی ہو
رفیع رضا
۔
ستون اپنے شکوہِ رفتہ میں گُم کھڑا ہے
بس اک ذرا انہماک ٹوٹے گا تب گرے گا
خالد اقبال یاسر
۔
ان پتھروں پہ چل کے اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
مصطفیٰ زیدی
۔
اسیرِ پنجۂ عہدِ شباب کر کے مجھے
کہاں گیا میرا بچپن خراب کر کے مجھے
آغا حشر کاشمیری
۔
دل کے زخموں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تمہیں یاد کیا
جوش ملیح آبادی
۔
ہوس نے بار ہا پٹی پڑھائی
انہیں میں کون سے موتی جڑے ہیں
نا معلوم
۔
طلب نہیں ہے تو ملنا فضول ہے شاہد
کہ حاضری کو حضوری نہیں سمجھتے ہم
شاہد ماکلی
۔
کوئی نکتہ ہی سجھاتے ہیں، نہ حل دیتے ہیں
وہ سوالات کو ایڑی سے مسل دیتے ہیں …!
اخترؔ عثمان
۔
ایک پردے پہ بنا آیا ہوں چہرہ اس کا
شہر کا شہر نمائش میں امڈ آیا ہے
رشید سندیلوی
۔
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
جلیل عالی
۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
خالد شریف
۔
اتنا کومل ہے کہ چھونے سے بکھر جائے گا
تازہ تازہ ابھی نکلا ہے کنول پانی میں
ندیم ملک
۔
میں لہلہاتی شاخ کو سمجھا تھا زندگی
پَتّا گرا تو درس فنا دے گیا مجھے
حسین سحر
۔
شہر کی بیتاب گلیوں نے اگل ڈالے ہیں لوگ
کس نے میرے شہر میں مردوں کو زندہ کر دیا
سرمد صہبائی
۔
بس یہی سوچ کے ہر روز اٹھاتا ہوں قلم
کیا خبر کل میں رہوں یا نہ رہوں لکھتا ہوں
اسحاق وردگ
۔
کچھ خیالات کی ترسیل بڑی مشکل ہے
کچھ تصور کبھی تصویر نہیں ہو سکتے
اکرم جاذب
۔
تو ہے سورج تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز میرے گھر میں اتر شام کے بعد
فرحت عباس شاہ
۔
یار اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے
عباس تابش
۔
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
پروین شاکر
۔
اَن گِنت عشق کیے میں نے، مگر سچ یہ ہے
تجھ کو دیکھا تو مِرے دل نے کہا، بسم اللہ
حسن عباس رضا
۔ میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی
سلیم بیتاب
۔
دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
حفیظ جالندھری
۔
ایک در گر بند ہو تو اور کھلتے ہیں ہزار
خود کو کمتر جان کر آنسو بہانا ہے فضول
غلام غوث غم
۔
حاصل ہو سکوں جس سے کوئی ایسا ثمر دے
دنیا میں کوئی ایسا شجر ہے کہ نہیں ہے
غلام غوث غم
۔
زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
ایک بے جرم سزا ہو جیسے ..!
احسان دانش
۔
کیا جانئے کیا جی میں ہے، لب پر نہیں آتا
بس ’حرف تمنا ہوں، بڑی دیر سے چپ ہوں
اعجاز عبید
۔
اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دو
جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا
حسن عباسی
۔
میں نے انکار کی تختی بھی لگا رکھی تھی
لے اُڑا پھر بھی مجھے سارے کا سارا کوئی
سعید راجہ
۔
اِس قبیلے میں کوئی عشق سے واقف ہی نہیں
لوگ ہنستے ہیں مِری چاک گریبانی پر
دلاور علی آذر
۔
آخر کوئی جواز بھی مجھ سے گریز کا
اے کم نگاہ! دیکھ ترا آئینہ ہوں میں
یعقوب پرواز
۔
یہ روز و شب کی مشکلیں تو دھوپ بن کے رہ گئیں
بدن پہ بوجھ بڑھ گیا ہے سائے بھی نڈھال ہیں
راشد معراج
۔
اٌس شہر میں رہتے ہیں کرایے کے مکاں میں
جس شہر میں موجود ہے جاگیر ہماری
عنبرین صلاح الدین
۔
بامِ عروج پر بھی کبھی آؤں گا ضرور
ہم دم مرا زوال فقط چار دن کا ہے
شاہ روم ولی
۔
ایسا لگتا ہے کہ طوفاں آئے گا
زلزلہ شاید بپا ہونے کو ہے
منیب شہزاد
۔
مَنسوب چراغوں سے طَرفدار ہَوا کے
تم لوگ مُنافق ہو مُنافق بھی بَلا کے
کومل جوئیہ
۔
زَنجیر نہیں ہوتے تعلق کہ جَکڑ لوں
چاہو تو بِچھڑ جاؤ ابھی ہاتھ چھُڑا کے
کومل جوئیہ
۔
یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
ادا جعفری
۔
مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے
وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے
احمد مشتاق
۔
روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
احمد مشتاق
۔
میں نے کہا کہ دیکھ یہ میں یہ ہوا یہ رات
اس نے کہا کہ میری پڑھائی کا وقت ہے
احمد مشتاق
۔
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو
بشیر بدر
۔
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
بشیر بدر
۔
یاد آتا ہے تو کیا پھرتا ہوں گھبرایا ہوا
چمپئی رنگ اس کا اور جوبن وہ گدرایا ہوا
جر آت قلندر بخش
۔
بال ہیں بکھرے، بند ہیں ٹوٹے، کان میں ٹیڑھا بالا ہے
جراؑت ہم پہچان گئے، کچھ دال میں کالا کالا ہے
جرأت ،قلندر بخش
۔
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرات، قلندر بخش
۔
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
نا معلوم (یہ شعر اقبال کا نہیں ہے )
۔
ہمیں یہ ملنے نہ دے گا خدا کے بندوں سے
یہ چوب دار مجاور جو خانقاہ میں ہے
اسد اعوان
۔
وہ رکھ رکھاؤ کا قائل ہے اور ہم بھی ہیں
یہ منفرد سا تعلق بڑے کمال کا ہے
یوسف خالد
۔
چلی بھی جا جرس غنچہ کی صدا پہ نسیم
کہیں تو قافلۂ نوبہار ٹھہرے گا
غلام ہمدانی مصحفی
۔
دیر و حرم آئینۂ تکرار تمنا
واماندگی شوق تراشے ہے پناہیں
مرزا غالب
۔
جذبۂ عشق سلامت ہے تو انشا اللہ
کچے دھاگے سے چلے آئیں گے سرکار بندھے
انشاللہ خان انشا
۔
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
احمد ندیم قاسمی
۔
کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
غلام محمد قاصر
۔
تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
غلام محمد قاصر
۔
ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام
بد نام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
مصطفیٰ خان شیفتہ
۔
خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا
ظفر اقبال
۔
سرد جھونکوں میں ترا ہجرسجا کر لایا
کس قدر درد و الم اب کے دسمبر لایا
رفیق سندیلوی
۔
جب غزل میرؔ کی پڑھتا ہے پڑوسی میرا
اک نمی سی مری دیوار میں آ جاتی ہے
اتل اجنبی
۔
دیکھنا مجھ کو لڑا دے گا مجھی سے ایک دن
خود پرے بیٹھے گا اور ہلکان کر دے گا مجھے
ظفر اقبال
۔
ایک نا موجودگی رہ جائے گی چاروں طرف
رفتہ رفتہ اس قدر سنسان کر دے گا مجھے
ظفر اقبال
۔
آئینہ دیکھ کر خیال آیا
تم مجھے بے مثال کہتے تھے
نامعلوم
۔
تمتماتے ہیں سُلگتے ہُوئے رُخسار تِرے
آنکھ بھر کر کوئی دیکھے گا تو جل جائے گا
احمد ندیم قاسمی
۔
القاب مجھے اس نے بھی خط میں نہیں لکھے
میں نے بھی اسے جان سے پیارا نہیں لکھا
رفیق سندیلوی
۔
دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو
کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو
افتخار عارف
۔
میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے
مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو
افتخار عارف
۔
رات رو رو کے گزاری ہے چراغوں کی طرح
تب کہیں حرف میں تاثیر نظر آئی ہے
طارق نعیم
۔
وہ عکس بن کے میری چشم تر میں رہتا ہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے
بسمل صابری
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں