پانچ پانچ اشعار کی غزلوں کا مجموعہ
معکوس
از قلم
رشید سندیلوی
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
معکوس
پانچ اشعار کی غزلیں
رشید سندیلوی
اشاعت : نومبر 2024
انتساب
اپنی شریکِ حیات شہناز گل کے نام جس کی رفاقت سے پُر خار راستے بھی گلزار بن گئے
کچھ ’معکوس‘ کے بارے میں
یکم مارچ 2021 میں مجھ پر کرونا کا شدید ترین حملہ ہوا۔ اللہ کے فضل و کرم سے جولائی 2021 میں شفا نصیب ہوئی . جہاں کرونا نے میرے وجود کو درہم برہم کیا وہاں ایک اچھی بات بھی ہوئی اور وہ یہ کہ اس نے میری شاعری کا جوہر جو برسوں سے خوابیدہ تھا ، بیدار کر دیا ۔ مجھ پر شاعری اس طرح امڈی کہ تھوڑے عرصے میں بے شمار غزلیں اکٹھی ہو گئیں ۔ میری غزلوں کا پہلا مجموعہ "حیرت” کے نام سے 2023 میں اور غزلوں کا دوسرا مجموعہ "معمول” 2024 میں شائع ہوا۔ ۔ ۔ ۔ اور خدا کا شکر کہ میری غزلوں کا تیسرا مجموعہ "معکوس” بھی اب منصۂ شہود پر آ گیا ہے۔ ۔ ۔ یہاں پر میں اردو کے بے پناہ اور عہد ساز شاعر جناب ضمیر قیس کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے میری غزلوں کا ناقدانہ جائزہ لیا اور ہر قدم پر اپنی قیمتی رائے سے نوازا ۔ ۔ ۔ ” معکوس” کی غزلیں بنیادی طور پر تین تین اشعار پر مشتمل تھیں جب اس سلسلے میں ان سے تبادلۂ خیال ہوا تو انہوں نے مشورہ دیا کہ کوئی غزل بھی 5 اشعار سے کم یا زیادہ نہیں ہونی چاہیے ۔ میں نے ان کی رائے کو معتبر جانا۔ مجھے خوشی ہے کہ "معکوس” کی 102 غزلیں ہیں اور ساری کی ساری پانچ پانچ اشعار پر مشتمل ہیں ۔ یہ سب کریڈٹ سیدی ضمیر قیس کو جاتا ہے۔ ۔ ۔ آخر میں ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں معاونت فرمائی ۔ علاوہ ازیں شاہ روم خان ولی ، اکرم جاذب ، لبنیٰ غزل ، حسن عباس رضا ، ساجد رحیم ، آصف روہیلہ ، برادرم منیب شہزاد ، طارق اسد ، فضل اللہ مخلص ، کاشف اسرار برادرم رفیق سندیلوی ، پسرم زین رشید اور دیگر تمام کرم فرماؤں کا بھی دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ ان کی حوصلہ افزائی اور توجہ سے مجھے تقویت ملی اور یہ کتاب شائع ہو سکی ۔
رشید سندیلوی
اسلام آباد
جب کبھی گاؤں کی طرف جاتے تھے
دھوپ میں چھاؤں کی طرف جاتے تھے
ہم کہاں کرتے تھے کوئی منت
ہاتھ بس پاؤں کی طرف جاتے تھے
کچھ تو تسکین مل ہی جاتی تھی
جس گھڑی ماؤں کی طرف جاتے تھے
جو سمجھتے نہ تھے ہمارے دکھ
ان شناساؤں کی طرف جاتے تھے
آپ مرہم شعار تھے اور ہم
صرف ایذاؤں کی طرف جاتے تھے
٭٭٭
یہ کیسا خواب دکھایا گیا تواتر سے
مجھے ہوا میں اڑایا گیا تواتر سے
الم نصیب تھا کس سے شکایتیں کرتا
بجھا بجھا کے جلایا گیا تواتر سے
ہمیں نہیں تھی اجازت کہ آہ بھی بھر لیں
فضا میں شور مچایا گیا تواتر سے
کسی مقام پہ میں اس کی لَے نہیں بھولا
اک ایسا نغمہ سنایا گیا تواتر سے
ترے علاؤہ کوئی سمت ہی نہیں سوجھی
بدل کے نقشہ دکھایا گیا تواتر سے
٭٭٭
کھیل ہے دل لگی تماشا ہے
ہر گھڑی زندگی تماشا ہے
چاند آخر کو ڈوب جائے گا
دل کشی سرسری تماشا ہے
پھر کبھی لوٹ کر نہ آؤں گا
یہ مرا آخری تماشا ہے
کہکشاں آفتاب اور تارے
روشنی روشنی تماشا ہے
ہے عجوبہ اگر تری طاقت
میری بھی بے بسی تماشہ ہے
٭٭٭
سمجھے کوئی تو اتنا بھی مشکل نہیں ہوں میں
دریائے غم کی موج ہوں ساحل نہیں ہوں میں
ہر چند یہ وجود تھا اک دشتِ بیکراں
لیکن کسی غبار کا حامل نہیں ہوں میں
مجھ کو تمہارا حسن سنوارے گا اور کیا
اب تو نگاہِ ناز کا بسمل نہیں ہوں میں
یہ اور بات کی ہے عدو سے مبارزت
مقتول تو ضرور ہوں قاتل نہیں ہوں میں
کاٹی ہے ایک عمر تو شعرو سخن کے ساتھ
لیکن غزل کے فن میں بھی کامل نہیں ہوں میں
٭٭٭
میرے اشعار کا مفہوم نہیں کھلتا ہے
جیسے کم بخت کا مقسوم نہیں کھلتا ہے
جس قدر چاہوں میں اخلاص کی باتیں کر لوں
اتنا جلدی کوئی مغموم نہیں کھلتا ہے
اڑ کے زندان سے رہتا ہے مقید پھر بھی
اپنے ماحول میں محکوم نہیں کھلتا ہے
دل میں حسرت ہے کہ میں اپنے خدا کو پاؤں
مجھ پہ لیکن کبھی معدوم نہیں کھلتا ہے
میں اسے الجھی عبارت کی طرح پڑھتا ہوں
محوِ حیرت ہوں کہ مرقوم نہیں کھلتا ہے
٭٭٭
خون آشام سی اداسی تھی
ایک بے نام سی اداسی تھی
اٹھ رہی تھی کہیں سے خُوشبو اور
وقتِ ہنگام سی اداسی تھی
ایک مدت سے دل کے حجرے میں
نازک اندام سی اداسی تھی
وہی اک جھٹپٹے کا عالم تھا
وہی اک شام سی اداسی تھی
پتے سے اڑ رہے تھے آنگن میں
اور گم نام سی اداسی تھی
٭٭٭
دور ویرانے میں مجھ کو بھی صدا دے کوئی
چاند نکلا نہیں شاخوں کو جلا دے کوئی
کوئی پردہ ہے نہ رنگوں کی فراوانی ہے
دشت کی ریت پہ تصویر بنا دے کوئی
اتنی اونچائی پہ بنیادِ ستم گاری ہے
کیسے ممکن ہے کہ دیوار گرا دے کوئی
مجھ پہ فطرت کے حسیں راز ہوئے ہیں روشن
جس طرح چہرہ لبِ بام دکھا دے کوئی
کتنے سالوں سے میں رویا نہیں ماتم کر کے
غالب و میر کے اشعار سنا دے کوئی
٭٭٭
قیصر و کسریٰ بھی باقی نہ رہے
قابضِ دجلہ بھی باقی نہ رہے
لوگ جھک جاتے تھے جن کے آگے
وہ خدا کردہ بھی باقی نہ رہے
کھل کے اعزا ہوئے ہیں سب دشمن
اور درپردہ بھی باقی نہ رہے
جن کے دم سے تھی کہانی اپنی
وہ کرم فرما بھی باقی نہ رہے
تب پکاروں گا دعاؤں میں تجھے
جب کوئی رستہ بھی باقی نہ رہے
٭٭٭
کسی بھی بات پہ مخلوق اب نہ بولے گی
ردائے مرگ ہی ان کے بدن کو ڈھانپے گی
کوئی سنورتا چلا جائے یا بگڑ جائے
بہار جانے سے پہلے کبھی نہ سوچے گی
کبھی کبھی تری بادِ صبا دبے پاؤں
ہمارے صحن میں آ کر ضرور ٹھہرے گی
تمہارے قرب کا تریاق بھی علاج نہیں
غذائے درد ہی اب جسم و جاں کو سینچے گی
رشید کوئی نہ آئے گا آپ سے ملنے
ہوائے سرد مگر در کو کھٹکھٹائے گی
٭٭٭
میرے زخموں کو بھی اچھا کر دے
اس اذیت کا مداوا کر دے
پھر سے روشن ہوں شکستہ چہرے
خشک پیڑوں کو شگفتہ کر دے
وسوسوں کے لگے ہیں جالے سے
دل کے زنگار کو شیشہ کر دے
جس نے ہم کو ہمیں سے چھین لیا
کوئی اس کو بھی نہ تنہا کر دے
جن کی منڈیروں پہ مردہ ہیں چراغ
ان گھروں میں بھی اجالا کر دے
٭٭٭
یہ جدائی بڑی اذیت ہے
کج ادائی بڑی اذیت ہے
خون رستا رہا تواتر سے
نا رسائی بڑی اذیت ہے
زندگانی ہے یا عقوبت گاہ
میرے بھائی بڑی اذیت ہے
کاش تم سے نہیں ملا ہوتا
آشنائی بڑی اذیت ہے
زندگی بھر نبھانی پڑتی ہے
دلربائی بڑی اذیت ہے
٭٭٭
مضطرب ہے وجود میرا بھی
کچھ نہیں ہست و بود میرا بھی
فون پیغام رابطہ ملنا
ہے زیاں ہی میں سود میرا بھی
وقتِ آخر مجھی کو بھولے گا
وہ مسیحِ صعود میرا بھی
ہے وہی تو بھی اور وہی سپنے
اور وہی ہے جمود میرا بھی
میں نے کرنی ہیں دل کی باتیں پر
سن سکے جو سعود میرا بھی
٭٭٭
قید خانے میں ملاقات بھی آ جاتی ہے
حبس بڑھتا ہے تو برسات بھی آ جاتی ہے
لب پہ لاتے نہیں کوئی بھی شکایت لیکن
باتوں باتوں میں تری بات بھی آ جاتی ہے
میں منافق نہیں حالات پہ ماتم نہ کروں
مرے شعروں میں مری ذات بھی آ جاتی ہے
ایک ہی دائرے میں رقصاں نہیں رہ سکتے
فتح ہوتی ہے کبھی مات بھی آ جاتی ہے
کیسے ممکن ہے کہ زخموں کا مداوا بھی نہ ہو
دن گزرتا ہے تو پھر رات بھی آ جاتی ہے
٭٭٭
جب بھی کھلتی ہے وہ یادوں کی گلی شام کے بعد
ختم ہوتی نہیں اشکوں کی جھڑی شام کے بعد
دن تو میرا بھی گزر جاتا ہے احباب کے ساتھ
صرف کٹتی ہی نہیں تیرہ شبی شام کے بعد
گھر کے ویرانے میں ہوتا ہے بہاروں کا نزول
بات جب کرتی ہے تصویر تری شام کے بعد
یاد آتا ہے مجھے جب بھی بچھڑنا تیرا
روک سکتا نہیں آنکھوں میں نمی شام کے بعد
دن نکلتا ہے تو رہتا ہوں کسی جنگل میں
میرے آنگن میں اترتی ہے پری شام کے بعد
٭٭٭
کسی میلے میں کھو گیا ہوں میں
اپنے بچپن کو ڈھونڈتا ہوں میں
رات بھر جاگنے کا حاصل ہیں
دن کو جو خواب دیکھتا ہوں میں
تُو فقیروں کی کج کلاہی ہے
بادشاہوں کا المیہ ہوں میں
جب فراغت کا وقت ہوتا ہے
اپنے بارے میں سوچتا ہوں میں
میں کبھی آئینے سے پوچھوں گا
آدمی ہوں کہ دیوتا ہوں میں
٭٭٭
حسن و رنگ و جمال دیکھ لیا
سب عروج و کمال دیکھ لیا
ناتوانی ہے اور ضعیفی ہے
جسم و جاں کا زوال دیکھ لیا
آگ لگتی ہے اور مرہم سے
زخم کا اندمال دیکھ لیا
ہر طرف مال و زر کی باتیں ہیں
اپنے دل کا مآل دیکھ لیا
امن کے مندروں میں جھک جاؤ
تم نے جنگوں کا حال دیکھ لیا
٭٭٭
مجھ کو یقین ہے یہ اپنے گمان پر
میرا خدا بھی رہتا ہے آسمان پر
جیتوں گا جنگ لیکن اپنے جنون سے
تکیہ بھی گو کروں گا تیر و کمان پر
آنا تھا شیر نے یہ حق الیقین تھا
لیٹا رہا ہوں شب بھر یونہی مچان پر
ہر چند میں نے ڈھونڈا تھا سیم و زر کا راز
پر سانپ خیمہ زن تھا سونے کی کان پر
مجھ کو لگا کہ اترا ہے آسمان سے
جب پہلی بار دیکھا تھا اس کو لان پر
٭٭٭
جو مجھ کو آسماں دکھائی دیتا ہے
وہ دور سے دھواں دکھائی دیتا ہے
ذرا سی آنکھ جب بھی کھلتی ہے مری
تو عہدِ رفتگاں دکھائی دیتا ہے
جہاں کہیں بھی ملتے ہیں نشانِ پا
وہ تیرا آستاں دکھائی دیتا ہے
جو مجھ پہ اپنی جاں تک چھڑکتا تھا
وہ شخص بد گماں دکھائی دیتا ہے
جو کھو چکا ہو چاہتوں کی روشنی
اس اندھے کو کہاں دکھائی دیتا ہے
٭٭٭
کیسے خوب وہ رشتے تھے ماں باپ کے ساتھ
روتے تھے کبھی ہنستے تھے ماں باپ کے ساتھ
وقت تو بچوں کے سنگ بھی کٹ جاتا ہے
لیکن دن جو گزرے تھے ماں باپ کے ساتھ
کچھ بھی نہیں اب پاس سوائے یادوں کے
خواہش تو یہ تھی جیتے ماں باپ کے ساتھ
اپنے گھر بھی وقت بمشکل کٹتا ہے
کاش کہ جیون بھر رہتے ماں باپ کے ساتھ
بچوں جیسی ضد کرتے ہم کاش رشید
بازاروں میں بھی جاتے ماں باپ کے ساتھ
٭٭٭
دل کے گھاؤ بھرنے میں تھوڑی دیر لگتی ہے
گر کے پھر سنبھلنے میں تھوڑی دیر لگتی ہے
عمر بھر نہیں رہتا ہم سفر یہاں کوئی
راستہ بدلنے میں تھوڑی دیر لگتی ہے
دل کا زخم ہے کیسے اتنی جلد بھر جائے
کچھ قرار پانے میں تھوڑی دیر لگتی ہے
کچھ تو وقت لگتا ہے سچ کا ساتھ دینے میں
دار پر لٹکنے میں تھوڑی دیر لگتی ہے
سردیوں کی راتوں میں ہجر مار دیتا ہے
گیلی شاخ جلنے میں تھوڑی دیر لگتی ہے
٭٭٭
غم کا نقشہ بنا کے دیکھتے ہیں
ہم بھی خیمے جلا کے دیکھتے ہی
روشنی میں عیاں نشاں تیرے
مجھ کو آنکھیں دکھا کے دیکھتے ہی
دیکھ سکتی نہیں جنہیں آنکھیں
وہ بھی پردہ اٹھا کے دیکھتے ہیں
جو نہیں دیکھتے ہیں خونِ جگر
رنگ دستِ حنا کے دیکھتے ہیں
تم بھی دیکھو نہ دیکھنا اپنا
ہم بھی جلوے خدا کے دیکھتے ہیں
٭٭٭
پھر تجھے دیکھنے کی خواہش ہے
سنگ کو آئینے کی خواہش ہے
شام کو بارشوں کے موسم میں
دیر تک بھیگنے کی خواہش ہے
اور کچھ بھی نہیں مری خواہش
اک ذرا بولنے کی خواہش ہے
جو ترے گھر کی سمت لے جائے
اس نئے راستے کی خواہش ہے
دور ہو کر بھی مجھ سے دور نہیں
خواب اور رتجگے کی خواہش ہے
٭٭٭
دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
کم ہی دیکھوں جتنا دیکھوں
میری آنکھیں بجھنے کو ہیں
کیسے تیرا رستہ دیکھوں
صحرا صحرا غنچے غنچے
گلشن گلشن جلتا دیکھوں
تیری یاد کے سائے سائے
جاگتے میں اک سپنا دیکھوں
اپنے آپ کو کھو بیٹھا ہوں
اب خود کو میں کس کا دیکھوں
٭٭٭
آنکھوں میں ہیں آنسو اور خوش آئینہ خانہ
آثار بتاتے ہیں تم نے نہیں آنا
سب نقش جو اپنے تھے میں نے مٹا ڈالے
اب ڈھونڈنے نکلا ہے کیوں مجھ کو زمانہ
ہم نے تو نبھانے ہیں اس زیست کے رشتے
اس شخص کے جانے سے مر تو نہیں جانا
دیکھا ہے تجھے ہم نے کچھ ایسی ادا سے
جیسے کہیں پہلے تھا دل اپنا دوانہ
خوابوں میں سجے تیرے لمحے ہیں جو اپنے
ان کو بھلا پاؤں یہ ممکن نہیں جاناں
٭٭٭
اڑا جا رہا ہوں مداروں کی سمت
کشش ہے عجب چاند تاروں کی سمت
سبھی کو بلاتا ہے جب آسماں
کرے کون طے بھی غباروں کی سمت
ہے دل کی خلش بھی کہانی کوئی
دکھاتی ہوئی راہ غاروں کی سمت
ستارے انہیں دیکھ سکتے نہیں
یہ دل ہے رواں جن دیاروں کی سمت
ہے کارِ محبت بھی دونوں طرف
منافعوں کی جانب خساروں کی سمت
٭٭٭
چپکے چپکے تارے رخصت ہو گئے
کیسے کیسے پیارے رخصت ہو گئے
کس نے رہنا ہے ہمیشہ کے لئے
آج سب نظارے رخصت ہو گئے
کھینچ کر سانسوں کے بوجھل رتجگے
رنج و غم کے مارے رخصت ہو گئے
خواب آنکھوں میں سجائے بیٹھے تھے
چپکے چپکے سارے رخصت ہو گئے
دل کی باتیں جن سے کرتا تھا رشید
کیا وہی بنجارے رخصت ہو گئے
٭٭٭
ہم اسے بے مثال کہتے تھے
دلکش و با کمال کہتے تھے
وقت تو ساعتوں میں ڈھلتا تھا
ہم جسے ماہ و سال کہتے تھے
عالمِ وجد میں فنا ہو کر
خامشی کو دھمال کہتے تھے
کتنے سادہ تھے وہ مریض کہ جو
زخم کو نیک فال کہتے تھے
اس کے دم سے سکون ملتا تھا
جس کو وجۂ ملال کہتے تھے
٭٭٭
آئینہ عکس کو معکوس نہیں کر سکتا
سو مری بات وہ محسوس نہیں کر سکتا
چائے خانے پہ ملاقات تری کافی ہے
میں تری ذات کو محبوس نہیں کر سکتا
جب کبھی مجھ کو پکارو گے مجھے پاؤ گے
اہلِ دل کو کبھی مایوس نہیں کر سکتا
اگلے میلے میں بھلا کس نے کہاں ہونا ہے
میں تجھے خود سے بھی مانوس نہیں کر سکتا
لوگ زخموں کی نمائش میں کہاں آتے ہیں
اب میں داغوں کو تو فانوس نہیں کر سکتا
٭٭٭
ہر بار نام لے کے پکارا گیا مجھے
نادیدہ منطقوں سے گزارا گیا مجھے
جس پر مری وہ فتحِ مبیں کا نشان تھا
ایسی کسی بساط پہ ہارا گیا مجھے
میرا وجود اوڑھے ہوئے تھے تمام لوگ
جس اجنبی زمیں پہ اتارا گیا مجھے
پہلے پہل تو اس نے محبت سے بات کی
پھر یوں ہوا کہ زہر سے مارا گیا مجھے
خود رو اکاس بیل کی مانند اگا ہوں میں
سینچا گیا مجھے نہ سنوارا گیا مجھے
٭٭٭
پہلے تو میرے ذرے کو افلاک کر دیا
پھر یوں ہوا کہ قصے کو ہی پاک کر دیا
نظاروں نے تو آنکھ کو بخشا سکون تھا
طوفاں نے راستوں کو الم ناک کر دیا
آسودگی کے میں نے بھی دیکھے تھے چند خواب
اُس نے مگر حیات کو پیچاک کر دیا
وہ خامشی جو سالوں سے میری رفیق تھی
اس نے ہی میرے لہجے کو بے باک کر دیا
جینے کی آرزو میں تھا امید کا سفر
مجھ کو مگر غبار نے تہہ خاک کر دیا
٭٭٭
اپنی مٹی سے پیار کرتے ہیں
جان بھی اپنی نثار کرتے ہیں
خون دیتے ہیں زرد پتوں کو
اور خزاں کو بہار کرتے ہیں
چلتی رہتی ہے بادِ صرصر بھی
پھر بھی دریا تو پار کرتے ہیں
خواب بھی اچھے نیک وقتوں کے
دل کو باغ و بہار کرتے ہیں
پرچموں پر ہلال اور تارے
خاک سے استوار کرتے ہیں
٭٭٭
نا مکمل کہیں تکمیل پڑی ہے میری
میرے بستے میں ہی انجیل پڑی ہے میری
تم ہواؤں میں مری جان عبث ڈھونڈھتے ہو
میرے شعروں میں ہی تمثیل پڑی ہے میری
کچھ بھی پنہاں نہیں خوابوں کے علاوہ اس میں
میرے پہلو میں جو زنبیل پڑی ہے میری
میں کسی شخص کو مانوں گا نہیں اپنا خدا
میرے انکار میں تعمیل پڑی ہے میری
میری بھی ہیر کی جاگیر سے نسبت ہے رشید
عشق کے خطے میں تحصیل پڑی ہے میری
٭٭٭
وقتِ رخصت ترے گاؤں سے بھی کیا لینا ہے
میں نے گلشن کی ہواؤں سے بھی کیا لینا ہے
جب نہ ساۓ تری زلفوں کے میسر آۓ
میں نے گھنگور گھٹاؤں سے بھی کیا لینا ہے
جو تجھے پا نہ سکیں اپنی کسی شدت سے
ایسی باتوں سے اداؤں سے بھی کیا لینا ہے
ایک ہی لمحے میں ہستی کو مٹا دیتے ہیں
ہم نے نفرت کے خداؤں سے بھی کیا لینا ہے
میں نے اک پیڑ لگانا ہے کہ بس یاد رہے
ورنہ اس پیڑ کی چھاؤں سے بھی کیا لینا ہے
٭٭٭
چاند تو صرف استعارہ ہے
وقت نے حسن کو نکھارا ہے
ہم جسے آئینہ سمجھتے تھے
آج پتھر اسی نے مارا ہے
اپنے قدموں پہ جم نہیں سکتا
جنگ جو بار بار ہارا ہے
وہ نہیں آئے گا بھنور کے بیچ
وقتِ آخر جسے پکارا ہے
سارا منظر سرے سے ہے معکوس
باغ میں دشت کا نظارہ ہے
٭٭٭
حال مجھ کو بعید لگتا ہے
یہ گریباں درید لگتا ہے
غیر ممکن ہے جان بر ہونا
درد ابکے شدید لگتا ہے
استعارے تو سب پرانے ہیں
شعر پھر بھی جدید لگتا ہے
اس وجہ سے بھی دوست آتے ہیں
آبگینہ سعید لگتا ہے
گاڑی آخر کو آ ہی جاتی ہے
وقت تھوڑا مزید لگتا ہے
٭٭٭
بہت اداس تھا سورج غروب ہوتا ہوا
قریب میں بھی کھڑا تھا وہیں پہ روتا ہوا
کوئی بھی پہنچا نہیں ہے زماں کے پیندے تک
میں اس مقام پہ پہنچا سکوں سے سوتا ہوا
بکھر تو سکتا نہیں میں کسی کے مرنے سے
میں جی رہا ہوں مگر کرچیاں چبھوتا ہوا
مہیب رات کے آسیب رنگ عالم میں
فنا کی جھیل سے نکلا میں داغ دھوتا ہوا
کسی درخت کے سائے میں یاد کرنا مجھے
میں تیرے شہر سے گزروں گا بیج بوتا ہوا
٭٭٭
وفا کے شہر میں مصلوب ہوا
تب کہیں اس کو میں مطلوب ہوا
میری فطرت میں تغیر ہے نہاں
کبھی باغی کبھی مرعوب ہوا
منزلت میری ملی ہی نہ مجھے
رقص کے وقت ہی مغضوب ہوا
ایک سا وقت سدا رہتا نہیں
کبھی غالب کبھی مغلوب ہوا
میں نے ڈالی ہیں کمندیں خود پر
اپنی ضربوں ہی سے مضروب ہوا
٭٭٭
گھر کا نقشہ ہی نا مکمل ہے
سارا خاکہ ہی نا مکمل ہے
کس زمانے کی بات کرتے ہو
عہدِ رفتہ ہی نا مکمل ہے
جس پہ سائنس ناز کرتی ہے
وہ حوالہ ہی نا مکمل ہے
کس طرح عازمِ سفر ہوتا
جب ارادہ ہی نا مکمل ہے
بات آئے گی سامنے کیسے
استخارہ ہی نا مکمل ہے
٭٭٭
کمرہ کیا زنداں نہ ہی زنجیر بنائی
میں نے تو بس اک شخص کی تصویر بنائی
احباب نے ہر چند محلات بنائے
سو میں نے بھی اشعار کی جاگیر بنائی
لکھنے کو تو لکھتے ہیں مکاتیب ہمیشہ
مشکل سے مگر پیار کی تحریر بنائی
جب وقت نے کر ڈالا نہتا مجھے یارو
میں نے بھی اسی روز یہ شمشیر بنائی
اس نے بھی تو مفہوم مکمل نہیں سمجھا
میں نے بھی ادھوری ذرا تفسیر بنائی
٭٭٭
تازہ داغ ہیں دِل کے
پھول اداس ہیں کھِل کے
ہو جاتی ہے جل تھل
جب روتے ہیں مِل کے
رب کا شکر ہے میرے
زخم اچھے ہیں سِل کے
اور نکھارتے ہیں وہ
ہونٹ نشان بھی تِل کے
پھول پہاڑ شجر کیا
سب رشتے ہیں گِل کے
٭٭٭
یہ تخت بھیک میں لینا مرا اصول نہیں
ہما کا سایہ بھی ہرگز مجھے قبول نہیں
وہی ہے نور جو اترا تھا شہرِ مکہ میں
کوئی چراغ یا سورج مرا رسول نہیں
روش روش پہ چمکتے ہیں تیرے گل بوٹے
مرے نصیب میں کوئی کلی یا پھول نہیں
ہر ایک شے کا یہاں کچھ نہ کچھ تو مقصد ہے
ذرا سا ذرہ بھی اس دہر میں فضول نہیں
تمہارے سامنے اک دل کی بات کرنی ہے
وہ ایک بات کہ جس کا کوئی حصول نہیں
٭٭٭
سوچوں نے نہیں بات نے مارا ہے مجھی کو
اپنی ہی کرامات نے مارا ہے مجھی کو
جس حسنِ جہاں تاب پہ لکھتا ہوں میں غزلیں
صد حیف اسی ذات نے مارا ہے مجھی کو
زندہ تھا میں راتوں کو ستارے کبھی گن کر
بس ایک ملاقات نے مارا ہے مجھی کو
سپنوں کے لئے خون بہایا بھی ہے اپنا
اور گردشِ حالات نے مارا ہے مجھی کو
ہر رات کو دیتا ہوں میں تا صبحِ سہارا
اور یوں ہے کہ ہر رات نے مارا ہے مجھی کو
٭٭٭
ترے جمال کا میں نے فسوں بھی دیکھا ہے
بڑے ہی ضبط سے اپنا جنوں بھی دیکھا ہے
گلاب ہے مری نظروں میں زندگی ورنہ
زمیں پر بہتا ہوا میں نے خوں بھی دیکھا ہے
جبیں پہ جس کے نہ دیکھی تھی کوئی بھی الجھن
اسی کے حال کو اکثر زبوں بھی دیکھا ہے
خدا کا شکر کہ اس گھر میں معجزہ ہوا
فسردہ چہروں پہ میں نے سکوں بھی دیکھا ہے
کسی کے ہجر میں مر مر کے زندگی کرنا
سو ایک راستہ جینے کا یوں بھی دیکھا ہے
٭٭٭
جو بھی ٹسوے بہانے والا تھا
وہی خنجر چلانے والا تھا
آپ آئے تو ہو گیا ہے چراغ
ورنہ یہ گھر جلانے والا تھا
اپنے ماضی کو کھینچ سکتے تھے
وہ بھی اک دور آنے والا تھا
اس کی اپنی لکیریں الجھی تھیں
جو مقدر بتانے والا تھا
خوش پھرے کیوں نہ وہ زمانے میں
جس کا بیٹا کمانے والا تھا
٭٭٭
مرے زخموں کو نہ تولو مجھے گھر جانے دو
میری زنجیر کو کھولو مجھے گھر جانے دو
میرے بچے کبھی سوتے نہیں شب کو تنہا
میرے صحرا پہ بھی رو لو مجھے گھر جانے دو
اس قدر شور کہ آواز کی پہچان نہیں
مجھ سے آہستہ نہ بولو مجھے گھر جانے دو
مجھے بھولا نہیں گھر میں اگے سبزے کا لان
مجھے مٹی میں نہ رولو مجھے گھر جانے دو
در و دیوار کی اشکال بلاتی ہیں مجھے
اتنا سایہ نہ ٹٹولو مجھے گھر جانے دو
٭٭٭
تمہارے شہر میں بہبود و باش کرتا رہا
تمام عمر محبت تلاش کرتا رہا
کسی کے آگے نہیں ہاتھ کبھی دراز کئے
نڈھال جسم سے فکرِ معاش کرتا رہا
کسی نے مجھ کو سمیٹا نہیں سلیقے سے
وہ اس ادا سے مجھے پاش پاش کرتا رہا
میں چارہ سازی بھی کرتا رہا ہوں اس کی مگر
وہ میرے جسم کو بھی قاش قاش کرتا رہا
دعائیں مانگی ہیں جس کی دراز عمری کی
شمار جسم کو میرے وہ لاش کرتا رہا
٭٭٭
تجھ کو پا کر بھی مصیبت میں پڑا رہتا ہوں
کیسا ملنا ہے کہ فرقت میں پڑا رہتا ہوں
ایک پل کے لئے غافل نہیں ہوتا تم سے
ہر گھڑی ایک مشقت میں پڑا رہتا ہوں
کیسے احباب مرے غم کا مداوا کرتے
دھوپ نکلے بھی تو ظلمت میں پڑا رہتا ہوں
درد سینے کا بیاں کیسے کروں ان سے میں
چپ کی عادت ہے سو عادت پڑا رہتا ہوں
زخم دل کے ہیں عیاں پھر بھی وہ انجان رہے
سایۂ عذرِ عنایت میں پڑا رہتا ہوں
٭٭٭
تنگدستی میں بھی اشعار نہیں بیچے ہیں
اپنے اسلاف کے آثار نہیں بیچے ہیں
میں نے بیچے ہیں سبھی خواب جزیرے اپنے
تیرے گلشن ترے اشجار نہیں بیچے ہیں
میں نے افلاس کی آنکھوں میں ہیں آنکھیں ڈالیں
گھر کے برتن سرِ بازار نہیں بیچے ہیں
کون لیتا ہے یہ اسناد کے ٹکڑوں کو یہاں
میں نے تمغے مری سرکار نہیں بیچے ہیں
میں نے تو تھام کے رکھے ہیں وہ ماضی کے مزار
میں نے اسلام کے افکار نہیں بیچے ہیں
٭٭٭
دلِ خوش فہم کو ناکام نہیں ہونے دیا
اس کو بھی شہر میں بد نام نہیں ہونے دیا
اِسی لئے ہے یہ اندھیرا سا گلی کوچوں میں
آپ نے روشنی کو عام نہیں ہونے دیا
جو ملا ہم سے سدا ہم نے تری باتیں کیں
تجھ کو اتنا کبھی گمنام نہیں ہونے دیا
اپنے ملبوس کے تلے دفن تھے جو دفن رہے
ہر کوئی اپنی ذات کے ملبے کے نیچے قید تھا
شہر والوں نے کوئی کام نہیں ہونے دیا
بک گئے ہم سرِ بازارِ آنا پھر بھی رشید
عشق بد ذات کو نیلام نہیں ہونے دیا
٭٭٭
جسم مفلوج سر مقفل ہے
کچھ دنوں سے یہ گھر مقفل ہے
یہ مجھے آج تک نہیں سوجھا
ادھ کھلا ہے کہ در مقفل ہے
جانے خوشبو کہاں سے آتی ہے
وہ دریچہ اگر مقفل ہے
غم کا پنچھی تو اڑ گیا ہوتا
مجھ کو لگتا ہے پر مقفل ہے
خواب میں بادشاہ ہیں ہم لوگ
بابِ خوف و خطر مقفل ہے
٭٭٭
پھینکا تھا حادثوں نے تو مجھ کو پچھاڑ کے
لیکن میں اٹھ کھڑا ہوا دامن کو جھاڑ کے
میرے عدو نے آن کے گھیرے میں لے لیا
سب دوست خیمہ زن رہے پیچھے پہاڑ کے
میں نے جنوں کی حدتیں سینے میں ضبط کیں
نکلا نہیں ہوں گھر سے میں کپڑوں کو پھاڑ کے
آ کر لگی ہے میرے ہی سینے میں ایک دم
گولی جو میں نے داغی تھی دشمن کو تاڑ کے
سوچیں بھی آج کل ہیں یہ میری لہو لہان
جیسے درندہ بھاگ گیا چیر پھاڑ کے
٭٭٭
چلتی ہے ہوا معکوس
وقت ہے سدا معکوس
وقت ہے حضوری کا
مت کرو دعا معکوس
صدیوں کی ریاضت سے
کیا ہے ارتقا معکوس
دیکھنا تو سیدھا سا
اور سوچنا معکوس
جب کبھی پکارا ہے
آئی ہے صدا معکوس
٭٭٭
ذرا سی بات پہ تلوار کھینچ لیتے ہیں
عجیب لوگ ہیں دیوار کھینچ لیتے ہیں
نہ پوچھ سرکشی ان پانیوں کے ریلوں کی
جو میرے ہاتھوں سے پتوار کھینچ لیتے ہیں
مجھے بھی سر پہ بٹھاتے ہیں میرے دوست سبھی
اسے بھی اپنے طلب گار کھینچ لیتے ہیں
جو ذہن بن ہی گیا ہے تو دیجئے صاحب
فقیر لوگ ہیں آزار کھینچ لیتے ہیں
جنہیں غرور ہو ساحل پہ قبضہ کرنے کا
وہ پانیوں کو اُس پار کھینچ لیتے ہیں
٭٭٭
کسی سبب نہ کسی جستجو سے سیکھا ہے
ہنر یہ میں نے اسی تند خو سے سیکھا ہے
ہمیں کب آتے تھے آداب بات کرنے کے
مکالمہ تو تری گفتگو سے سیکھا ہے
وضاحتیں نہیں ہوتیں کوئی طہارت کی
وضو بھی میں نے کسی بے وضو سے سیکھا ہے
تمام خوبیاں ہیں آئینے کے ہی دم سے
دکھائی دینا خطِ روبرو سے سیکھا ہے
شکست دے کے اسی کو گلے لگا لینا
سبق یہ میں نے کسی سرخ رو سے سیکھا ہے
٭٭٭
سارے عاشق بڑے حیران بنے بیٹھے ہیں
آپ کیوں جنگ کا میدان بنے بیٹھے ہیں
کتنے معصوم سرِ شام ہی گھائل ہوں گے
جیسے وہ حشر کا سامان بنے بیٹھے ہیں
سوچتا ہوں کہ مرے گھر میں اجالا کیوں ہے
سب چراغوں سے تو انجان بنے بیٹھے ہیں
راستہ اور کوئی دیکھ رہا ہے کب سے
ہم کسی اور کے مہمان بنے بیٹھے ہیں
ہم تو سمجھے تھے کہ وہ ساتھ نبھائیں گے رشید
اب عداوت کا جو عنوان بنے بیٹھے ہیں
٭٭٭
مسند کو بچایا نہ ہی تلوار سنبھالی
ہم نے تو فقط رونقِ بازار سنبھالی
سچ ہے کہ غریبی میں نہیں ہوتا گزارا
مشکل سے یہ گرتی ہوئی دیوار سنبھالی
تو نے نہ کبھی ہم سے تعلق ہی سنبھالا
ہم نے تری تحریر بھی ہر بار سنبھالی
دنیا کی حقیقت کو جو سمجھے تو یہ جانا
سر ہے ہی نہیں جس پہ یہ دستار سنبھالی
اسر درد کی آندھی میں نہیں پوچھ کہ کیسے
ہم نے یہ قبائے غم و آزار سنبھالی
٭٭٭
دیکھا جو تری گفتن و رفتار کا عالم
اڑتا ہوا بادل کہ دھنک پار کا عالم
ہر شخص یہاں آئینہ بردار ہے پھر بھی
دیکھا نہ کسی نے دلِ بیمار کا عالم
بس اتنی خبر ہے کہ کوئی روتا ہے شب بھر
کیا جانیے کیا ہے پسِ دیوار کا عالم
ساحل پہ کھڑے ہو کے تماشا نہ کیا کر
گزرے گا کبھی تجھ پہ بھی پتوار کا عالم
کانٹوں میں ہیں کچھ پھول تو پھولوں میں ہیں کچھ خار
ایسا ہے تری قربتِ بے زار کا عالم
٭٭٭
زخم خوردہ کوئی دلگیر پڑا ہوتا ہے
جیسے فتراک میں نخچیر پڑا ہوتا ہے
تن پہ بھوبھل کے سوا کچھ نہیں پہنا یوں تو
خلعتِ کابل و کشمیر پڑا ہوتا ہے
گھر کی وحشت سے کہیں جانے نہیں دیتا جو
پاؤں میں قفلِ بے زنجیر پڑا ہوتا ہے
پھول اک شاخ پہ یوں ہی نہیں کھلتا اکثر
شاخ سے پہلے کوئی تیر پڑا ہوتا ہے
آسماں رات کی چادر میں الجھتا ہی نہیں
دشت میں چاند کا رہ گیر پڑا ہوتا ہے
٭٭٭
اے حسنِ لالہ فام غزل لکھ رہا ہوں میں
تجھ کو مرا سلام غزل لکھ رہا ہوں میں
گزرا ہے پورا دن مرا فکرِ معاش میں
ہونے لگی ہے شام غزل لکھ رہا ہوں میں
بھر دے مرا پیالا سخن کی شراب سے
کب سے ہوں تشنہ کام غزل لکھ رہا ہوں میں
عرصے سے گفتگو کا دریچہ ہی بند تھا
اس نے کیا کلام غزل لکھ رہا ہوں میں
جام و سبو نہیں یہ نظر کا سوال ہے
تھوڑا سا اہتمام غزل لکھ رہا ہوں میں
٭٭٭
دھوپ کی شدت میں سارے ہی منظر مدھم ہو جاتے ہیں
حسن بھی کملا جاتا ہے اور گیسو برہم ہو جاتے ہیں
گاؤں میں ماتم ہونے پر شہر سے آنا اوکھا ہے
غم کے پتھر ڈھو ڈھو کر یہ جسم ہی بے دم ہو جاتے ہیں
ملنے کی مت باتیں کیجئے ملنے سے کیا حاصل ہو گا
آپ کے ملنے سے اکثر کچھ درد فراہم ہو جاتے ہیں
غیروں سے بھی شکوہ کیسا غیر تو غیر ہی ہوتا ہے
رفتہ رفتہ اپنے ساتھی بھی نا محرم ہو جاتے ہیں
اک تصویر کو دیکھ کے رونا عادت بھی ہے میری لیکن
اس کو جب بھی چھوتا ہوں تو آنسو بھی کم ہو جاتے ہیں
٭٭٭
غم کا چارہ بھی نہیں ہونے کا
اب گزارہ بھی نہیں ہونے کا
اس کے جیسا بھی نہیں ہے کوئی
وہ ہمارا بھی نہیں ہونے کا
اس کو کھونے کا منافع بھی نہیں
اور خسارہ بھی نہیں ہونے کا
اشک جگنو بھی نہیں ہو سکتے
دل ستارا بھی نہیں ہونے کا
سانپ تتلی بھی نہیں ہونے کی
جل کنارہ بھی نہیں ہونے کا
٭٭٭
ابر والی شرابِ پیتا ہے
آسماں بھی جناب پیتا ہے
وہی پاتا ہے دائمی خوشیاں
جو غمِ اضطراب پیتا ہے
بس ابھرتا ہے ڈوب جانے کو
آئینہ بھی شباب پیتا ہے
اک نظر شام کی شفق دیکھو
کیا کوئی آفتاب پیتا ہے
کوئی پیتا ہے سامنے سب کے
کوئی زیرِ نقاب پیتا ہے
٭٭٭
مٹی کی گہری تہہ میں دبایا گیا مجھے
پھولوں کے ساتھ ساتھ اگایا گیا مجھے
جس وقت لازمی تھا مجھے ہر کوئی پڑھے
ردی کا نام دے کے جلایا گیا مجھے
پنجاب کی زمین سے مجھ کو لگاؤ تھا
راوی کے پانیوں میں بہایا گیا مجھے
پھر یوں ہوا کہ تاج مرے سر پہ رکھ دیا
پہلے تو پھانسی گھاٹ پہ لایا گیا مجھے
بیٹھا نہیں ہوں بے سبب بادل کی پیٹھ پر
پہلے بہت زمیں پہ گرایا گیا مجھے
٭٭٭
کئی پردے مری آنکھوں پہ گرا دیتے ہیں
جب بھی ملتے ہیں کرامات دکھا دیتے ہیں
وہ مرے درد کی کرتے ہیں یوں بھی چارہ گری
حبس بڑھتا ہے تو دامن کی ہوا دیتے ہیں
اس طرح رات گزاری ہے تری فرقت میں
نام لکھتے ہیں کبھی لکھ کے مٹا دیتے ہیں
کس طرح غزلوں کا دیوان مرتب ہوتا
دن کو لکھتے ہیں جو راتوں کو جلا دیتے ہیں
ایسے لوگوں کے ہی مسلک سے جڑا ہوں میں رشید
زخم کھاتے ہوئے جو سب کو دعا دیتے ہیں
٭٭٭
صحرا کی تپتی ریت میں جلتے رہے ہیں ہم
اپنے جگر کے خون سے پلتے رہے ہیں ہم
منزل کے ذوق و شوق کا دل میں جنون تھا
پاؤں میں آبلے لیے چلتے رہے ہیں ہم
لاکھوں ہزاروں سال میں پایا ہے ہم نے روپ
ہر ہر صدی میں رنگ بدلتے رہے ہیں ہم
سورج کی طرح ہم نے بھی غرقاب کو چکھا
سائے کی طرح شام کو ڈھلتے رہے ہیں ہم
کشتی کے ڈوبنے کا بھی منظر عجیب تھا
ساحل پہ اپنے ہاتھ بھی ملتے رہے ہیں ہم
٭٭٭
اک جھلک تجھ کو میں دیکھوں گا چلا جاؤں گا
اپنے قدموں کو نہ روکوں گا چلا جاؤں گا
میں نے شاہوں سے کہ درباروں سے کیا لینا ہے
اپنی تلوار کو پھینکوں گا چلا جاؤں گا
مجھ کو ملنا ہے مری جان تو جلدی مل لے
میں زیادہ نہیں ٹھہروں گا چلا جاؤں گا
دور سے آیا ہوں میں تو ترا شہرہ سن کر
تجھ کو پردے پہ اتاروں گا چلا جاؤں گا
گو کہ دامن میرا پھولوں سے تہی ہے لیکن
ترے رستوں کو لہو دوں گا چلا جاؤں گا
٭٭٭
دل کہاں اتنا سخت ہے میرا
صرف لہجہ کرخت ہے میرا
ہر کسی کو سکون دیتا ہوں
سایا مثلِ درخت ہے میرا
خاک در خاک مسندیں میری
پانیوں پر بھی تخت ہے میرا
اس کے دن سے ہی ساری رونق ہے
یہ جو نابود و ہست ہے میرا
تیرے افلاک سے میں اونچا ہوں
قد کو دیکھو تو پست ہے میرا
٭٭٭
گھنی سیاہ رات ہے اور آخری تماشہ ہے
ترا حسین ساتھ ہے اور آخری تماشہ ہے
بہت ہی دور ہم نے جانا ہے افق کے پار تک
یہ ساعتوں کی بات ہے اور آخری تماشہ ہے
یہ زخم ہی دکھانے ہیں کسی سے لینا دینا کیا
قدم قدم پہ مات ہے اور آخری تماشہ ہے
رواں دواں ہیں جانے والے اپنے راستوں کی سمت
وہی اجل کی گھات ہے اور آخری تماشہ ہے
سبھی نے لوٹ جانا ہے سبھی نے کوچ کرنا ہے
یہ مختصر سا ساتھ ہے اور آخری تماشہ ہے
٭٭٭
یہ کس خمیر میں مدغم کیا گیا ہے مجھے
بڑے کمال سے مبہم کیا گیا ہے مجھے
چراغِ ذات کی لو کو بڑھا دیا پہلے
پھر اس کے بعد ہی مدھم کیا گیا ہے مجھے
خوشی کا دن بھی تو اموات کی منادی ہے
بڑے سکون سے برہم کیا گیا ہے مجھے
کبھی کبھی تو مجھے ہوش تک نہیں رہتا
ترے وجود میں یوں ضم کیا گیا ہے مجھے
غزل کے شہر میں میرا کوئی شمار نہیں
بڑھا بڑھا کے بہت کم کیا گیا ہے مجھے
٭٭٭
کتنی آسانی سے افراد بدل جاتے ہیں
کوئی مجنوں ہو کہ فرہاد بدل جاتے ہیں
ہم کبھی تخت پہ ہوتے ہیں کبھی تختے پر
قسمتوں کے سبھی اعداد بدل جاتے ہیں
میرے اندر کا یہ انسان نہیں بدلا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ ہمزاد بدل جاتے ہیں
زندگی بھر نہیں رہتا ہے ستم کا عالم
وقت کے ساتھ تو شداد بدل جاتے ہیں
ہونے لگتا ہے اندھیرے میں چراغاں کوئی
دن نکلتا ہے تو شب زاد بدل جاتے ہیں
٭٭٭
جب شام کا سورج ابھی غرقاب ہوا ہو
تو میری ملاقات کو بے تاب کھڑا ہو
ہر روپ میں پایا ہے تجھے میں نے انوکھا
تتلی ہو کلی ہو کہ کوئی بادِ صبا ہو
جب نیند میں جھانکوں تری گفتار سنوں میں
جب آنکھ ذرا کھولوں تو ہی جلوہ نما ہو
اس واسطے کچھ خون وریدوں میں بچایا
"شاید ترا ناخن کبھی محتاجِ حنا ہو”
انسانوں کی بستی میں رہا ہوں یوں اکیلا
ویرانے میں جس طرح کوئی پھول کھلا ہو
٭٭٭
وقت کا سحر سا چل جاتا ہے
آدمی دل سے بدل جاتا ہے
حبس بڑھتا ہے تو ہمزاد مرا
مرے کمرے سے نکل جاتا ہے
ڈوب جاتا ہے مکمل سورج
شام کا رنگ بدل جاتا ہے
شمع جلنے کا اچنبھا کیا ہے
شب کو پروانہ بھی جل جاتا ہے
پانی کو روکنا ہے ناممکن
اشک چہرے پہ مچل جاتا ہے
٭٭٭
تیز چلنے کی ضرورت کیا ہے
اس سے ملنے کی بھی عجلت کیا ہے
کوئی شک ہو تو بتا سکتے ہو
تم پہ مرتے ہیں محبت کیا ہے
حسن ڈھل جاتا ہے یہ آخر کار
چند روزہ یہ حکومت کیا ہے
بات آسانی سے لکھ دی میں نے
اور اشعار کی ندرت کیا ہے
میں بھی انسان ہوں اوتار نہیں
خود کو بیچا ہے تو حیرت کیا ہے
٭٭٭
مجھ کو سولی سے اتارا نہ گیا
میرے افکار کو مارا نہ گیا
جس کو وحشت میں صدا دیتے تھے
اس کو دیکھا تو پکارا نہ گیا
میں سدا چلتا رہا چلتا رہا
سیدھے رستے سے گزارا نہ گیا
میرے حالات ہی کچھ ایسے تھے
اس کی زلفوں کو سنوارا نہ گیا
ایک دل تھا وہ بھی باقی نہ رہا
پھر میں کوچے میں دوبارہ نہ گیا
٭٭٭
وہ کھونے والا دوبارہ نہیں ملے گا مجھے
کسی جگہ بھی سہارا نہیں ملے گا مجھے
مجھے بھنور سے نکلنے کی سعی کرنی ہے
غریق ہوکے کنارا نہیں ملے گا مجھے
مجھے پہنچنا ہو گا کہکشاں کے مرکز تک
یہاں زمیں پہ ستارا نہیں ملے گا مجھے
وہ اک گلاب جو دل میں سدا مہکتا تھا
کسی جگہ وہ نظارہ نہیں ملے گا مجھے
عظیم لوگ سبھی مقبروں میں سوئے ہیں
کہیں سکندر و دارا نہیں ملے گا مجھے
٭٭٭
جس کا دامن درید ہوتا ہے
وہ بزرگ و سعید ہوتا ہے
موت سے وہ فنا نہیں ہوتا
جو نظر سے شہید ہوتا ہے
تب ہی بنتا ہے شاہکار کوئی
رنگ جس کا کشید ہوتا ہے
جو نہیں رکھ رکھاؤ ہی رکھتا
وہ بھی بندہ بدید ہوتا ہے
جو سبھی کا خیال رکھتا ہے
وہ ہی زینِ رشید ہوتا ہے
٭٭٭
سرِ بازار ناچ سکتے ہیں
ترے بیمار ناچ سکتے ہیں
ہم اگر ناچنے پہ لگ جائیں
در و دیوار ناچ سکتے ہیں
ایسی حمام کی سہولت ہے
سبھی کردار ناچ سکتے ہیں
ناچنا کوئی بھی نہیں ہے جرم
میری سرکار ناچ سکتے ہیں
آپ کو تو کسی نے روکا ہے
ہم خطا کار ناچ سکتے ہیں
آج میرے غریب خانے پر
مرے غم خوار ناچ سکتے ہیں
٭٭٭
وہی ہوں میں بھی وہی ہے یہ دائرہ پھر سے
وہی فرات کے پانی کا سلسلہ پھر سے
بڑی ہی جہدِ مسلسل سے جس کو پایا تھا
گنوا چکا ہوں وہ جنگل میں راستہ پھر سے
تمام عمر ریاضت سے جس کو صاف کیا
اٹک گیا وہی سینے میں ؤاہمہ پھر سے
شریکِ جرم رہا ہوں نہ اعتراف کیا
زباں پہ پھر نہ بنا کوئی آبلہ پھر سے
مرے نقوش مرے عکس ہو گئے معکوس
کسی نے الٹا دکھایا ہے آئینہ پھر سے
٭٭٭
وہاں آسمان تھا ہی نہیں
کوئی بھی نشان تھا ہی نہیں
میں جہاں مکین تھا برسوں سے
وہ مرا مکان تھا ہی نہیں
میں نے خود کو ہی صدا دی تھی
کسی پر بھی مان تھا ہی نہیں
میں تو اپنے وہم میں ڈوبا تھا
کوئی بد گمان تھا ہی نہیں
میں ہی لڑ رہا تھا تہی ہو کر
کوئی بے کمان تھا ہی نہیں
٭٭٭
اپنے دامن میں بھی گلزار لئے پھرتی ہے
اس کی خوشبو مجھے اس پار لئے پھرتی ہے
یہ تو ممکن نہیں سب راز مرے تجھ پہ کھلیں
میری ہستی کئی اسرار لئے پھرتی ہے
اپنی حاجات کو محدود کیا ہے پھر بھی
تیری خواہش سرِ بازار لئے پھرتی ہے
کیا کہوں دل میں تو اک خون کا قطرہ بھی نہیں
کوئی قوت مجھے سرکار لئے پھرتی ہے
آج بھی کاسہ لئے پھرتے ہیں افلاس زدہ
کجکلاہی وہی تلوار لئے پھرتی ہے
٭٭٭
یوں بھی ہوتا ہے کہ تسکین نہیں ہوتی ہے
زندگی روز تو رنگین نہیں ہوتی ہے
تو بچھڑتا ہے تو میں رو کے سنبھل جاتا ہوں
اتنی بے چینی یہ سنگین نہیں ہوتی ہے
ٹوٹ جاتا ہے کہیں مجھ میں نگینہ کوئی
جب مرے کام کی تحسین نہیں ہوتی ہے
کیسے دفناؤں میں اوہام کی شکلیں دل میں
اس سمندر میں تو تکفین نہیں ہوتی ہے
کچھ تو اوراق یہاں مٹی میں مل جاتے ہیں
کچھ کتابوں کی بھی تدوین نہیں ہوتی ہے
٭٭٭
اس کا ایمان نہیں ہوتا ہے
جس کا یزدان نہیں ہوتا ہے
یوں بھی ہوتا ہے ترے آنے پر
سازو سامان نہیں ہوتا ہے
پھونک دیتا ہے وہ سب ہی خاشاک
عشق آسان نہیں ہوتا ہے
اپنی لاشوں کو بھی پہچان کے اب
دل پریشان نہیں ہوتا ہے
عشق تو زندگی کا ہے حاصل
اس سے نقصان نہیں ہوتا ہے
٭٭٭
خستہ دیوار ہے پسِ دیوار
رنجِ آزار ہے پسِ دیوار
خلد ہے یا کوئی جہنم ہے
کوئی اسرار ہے پسِ دیوار
پسِ دیوار ہوں میں افسردہ
وہ بھی بیزار ہے پسِ دیوار
کوئی بھی لوٹ کر نہیں آتا
ایسا بھی غار ہے پسِ دیوار
وہ نشانِ سیاہ روزن ہے
جو افق پار ہے پسِ دیوار
٭٭٭
چہرہ نہیں چہرگی ہماری
کمزور ہے روشنی ہماری
ابہام سے دور ہی رہا ہوں
سادہ سی ہے شاعری ہماری
اس ہجر کا تب پتا چلے گا
رخصت ہوئی جب گھڑی ہماری
اپنی جگہ پر ہے وہ بھی بے بس
کیا کیجئے بے بسی ہماری
کوئی خوشی بھی نہیں ہمیشہ
باتیں ہیں یہ دکھ بھری ہماری
٭٭٭
جو سامنے آتا ہے سوچا نہیں ہوتا
ایسے تو جزیروں کو دیکھا نہیں ہوتا
جب اس سے میں ملتا ہوں شعلے سے بھڑکتے ہیں
وہ حسنِ جہاں یوں بھی تو ٹھنڈا نہیں ہوتا
کچھ زخم ہیں لمحوں کی رفتار سے سلتے ہیں
کچھ زخم ہیں وہ جن کا کچھ چارہ نہیں ہوتا
الجھی ہیں مری سوچیں دھاگوں کی طرح پیہم
جنگل میں بھٹک جائیں تو رستہ نہیں ہوتا
شاید یہ مری مٹی اڑ کب کی چکی ہوتی
بچوں نے اگر مجھ کو سنبھالا نہیں ہوتا
٭٭٭
وحشت لئے پھرے ہے یہاں سے وہاں مجھے
حیرت سے اب تو دیکھتا ہے آسماں مجھے
میرا وجود شہر میں کاغذ کی ناؤ ہے
لے جائے گا کہیں تو یہ آبِ رواں مجھے
ہر چند اس جہاں میں مکاں کی تلاش ہے
لیکن رکھے گا کوکھ میں یہ خاکداں مجھے
کانوں میں آنے لگتی ہے مانوس سی صدا
پریوں کی جب سنائے کوئی داستاں مجھے
تحسین میرے شعر کو ہرگز نہیں نصیب
حیرت سے دیکھتے بھی ہیں اہلِ زباں مجھے
٭٭٭
اتنا آساں نہیں غزل کہنا
اور پھر دلنشیں غزل کہنا
جب مکمل مشاہدہ ہو جائے
پھر مرے نکتہ چیں غزل کہنا
جس جگہ دیکھو رو سیاہی ہے
اس پہ روشن جبیں غزل کہنا
وسوسوں کے جہان میں رہ کر
بالیقیں بالیقیں غزل کہنا
میں بھی رب کا جمال دیکھوں گا
ایسی پردہ نشیں غزل کہنا
٭٭٭
اس کی گلی میں آیا تھا فرصت نکال کے
دیکھا نہیں کسی نے بھی نخوت نکال کے
اس سے تو جب بھی ملنے کی کرتے ہیں التماس
پہلے وہ دیکھتا ہے مہورت نکال کے
اس نے گریز برتا ہے محفل میں کیا ہوا
آئے کا ایک دن کوئی صورت نکال کے
ملتے ہو روز تم تو جبیں کی شکن کے ساتھ
آ کر ملو کبھی یہ کدورت نکال کے
سینے میں جو چھپی ہے مرے عمر یو گئی
کمرے میں ٹانک دوں گا وہ مورت نکال کے
٭٭٭
جس کو ترے فراق کا پرچم نہیں ملا
اس کو کبھی گداز کا مرہم نہیں ملا
جو بھی ملا وہ اپنے تحیر میں جذب تھا
اس کی گلی میں کوئی بھی برہم نہیں ملا
پھولوں کی خشک بیل کو کھڑکی سے دیکھ کر
ہم کو خزاں کے بعد کا موسم نہیں ملا
ایسے بھی خوش نصیب کہ جو غرقِ غم نہیں
ایسے بھی بد نصیب جنہیں غم نہیں ملا
دل میں ترے جمال کا پودا اگا نہیں
زرخیز تھی زمین مگر نم نہیں ملا
٭٭٭
اپنے دشمن سے تو پانی نہیں مانگا جاتا
خشک دریا کے کنارے نہیں ٹھہرا جاتا
اب ترے ہجر نے یہ حال کیا ہے میرا
بات کرتا ہوں تو مجھ سے نہیں بولا جاتا
کئی ناسور ہیں افلاس کے ناسور کے ساتھ
ایک نکتے پہ مسلسل نہیں سوچا جاتا
میں نے ساحل پہ پہنچنا ہے دمِ بازو سے
ناخداؤں کی طرف اب نہیں دیکھا جاتا
میرے سمجھانے سے یہ اشک کہاں رکتے ہیں
یوں بھی سیلاب کو یارو نہیں روکا جاتا
٭٭٭
سب کچھ ہی جانتا تھا مگر بو لتا نہ تھا
شیشے میں اپنا چہرہ کوئی دیکھتا نہ تھا
شاید کہ خاک چاہیے تھی نامراد کو
جو بھی لباس اوڑھا بدن ڈھانپتا نہ تھا
مخلوق سے خدا بھی ہوا ہے یوں دست کش
عرشِ بریں بھی ظلم پہ اب کانپتا نہ تھا
وہ قحط پڑ گیا تھا جہاں میں جمال کا
جنگل میں کوئی مور بھی اب ناچتا نہ تھا
اس کے چمن میں دھول سی اڑتی تھی دوستو
اپنے لہو سے پھولوں کو جو سینچتا نہ تھا
٭٭٭
معلوم نہیں اس سے زیادہ مجھے تفصیل
آ جاتے ہیں کعبہ کی حفاظت کو ابابیل
سچ ہے کہ پیمبر کبھی جھوٹے نہیں ہوتے
قرآن بھی کہتا ہے یہ کہتی ہے یہ انجیل
اب دل کو کوئی قصہ مناسب نہیں لگتا
آدم کی کہانی ہو کہ حوا کی ہو تمثیل
ہر طرح کے اسرار قرینے سے سجے ہیں
یہ دل ہے مرا یا ہے کوئی جادو کی زنبیل
اک لمحہ بھی مد ہوشی میں کٹتا نہیں اپنا
اس عشق کے مکتب میں نہیں ہوتی ہے تعطیل
٭٭٭
اس کی آنکھوں نے سفارش نہیں کی
سبز موسم نے بھی بارش نہیں کی
اپنی حاجات کو پانے کے لئے
ہم نے شاہوں سے گزارش نہیں کی
کس لیے غیر سے شکوے کرتا
جب کہ تم نے بھی تو پرسش نہیں کی
اس نے بھی ہاتھ بڑھایا نہیں اور
میں نے بھی ملنے کی کوشش نہیں کی
میں نے کاٹی ہے انا میں ہستی
تیرے انعام کی خواہش نہیں کی
٭٭٭
کب ہمیشہ شباب رہتا ہے
دو گھڑی آفتاب رہتا ہے
وہ بھی کیا کیا تہ گل کھلاتے ہیں
جن کے منہ پر نقاب رہتا ہے
ہے فقط اتنی ہی مری ہستی
جیسے زندہ حباب رہتا ہے
آدمی کی یہی تو فطرت ہے
محوِ اجر و ثواب رہتا ہے
ہر گھڑی اب برستی ہیں آنکھیں
دل کا موسم خراب رہتا ہے
٭٭٭
کبھی تو زنداں سے پابجولاں بھی لے کے آئے
کبھی بڑی دھوم سے مجھے تخت پر بٹھائے
میں کون ہوں کیا ہوں میں نہیں جانتا ہوں لیکن
ورق ورق کوئی مجھ کو لکھ کر بھی کیوں مٹائے
کبھی بجھائے مجھے کوئی جب دیے جلیں سب
کبھی دیے جب بجھیں سبھی تو مجھے جلائے
خیال آتا ہے مجھ کو اپنی برہنگی کا
لباس اپنے لئے نیا جب کوئی بنائے
گلے پڑا طوق ہی مجھے لوگ جانتے ہیں
میں چاہتا ہوں کوئی تو ہنس کر گلے لگائے
٭٭٭
دل کا حال سنایا گیا تھا
پیہم اشک بہایا گیا تھا
توسیعِ درِ شاہ کی خاطر
سارا شہر گرایا گیا تھا
شاہی حکم سنا کے اچانک
پھانسی گھاٹ پہ لایا گیا تھا
بستی آنکھ کی روندی گئی تھی
دل کا شہر جلایا گیا تھا
جیسے ہی میں نشانے پہ آیا
چوبی تیر چلایا گیا تھا
٭٭٭
کیا کیا رنگ جمایا گیا تھا
سرمہ خاص لگایا گیا تھا
میں دیوار کے پیچھے کھڑا تھا
پہلی صف میں بٹھایا گیا تھا
مبہم عکس نمود سے لوگو
سب کو ایک دکھایا گیا تھا
مہندی خوب رچائی گئی تھی
عارض رنگ جمایا گیا تھا
وجد و رقص کی خلدِ بریں میں
دل سے دل کو ملایا گیا تھا
٭٭٭
ریشم پھول سجایا گیا تھا
تازہ عطر لگایا گیا تھا
آنسو آنکھ سے بہتے رہے تھے
کیسا روگ لگایا گیا تھا
مجھ کو قلب کے پاس بلا کر
روزنِ خواب دکھایا گیا تھا
ہم پر تیر چلائے گئے تھے
نا حق خون بہایا گیا تھا
سب کا وصل مقدر مجھ کو
مژدہ ہجر سنایا گیا تھا
٭٭٭
پہلے رقص سکھایا گیا تھا
پھر اک نقش دکھایا گیا تھا
رنگت روپ پہ لکھ نہیں سکتا
کچھ میدے میں ملایا گیا تھا
کالج روڈ پہ تھا دیکھا اس کو
موسم وجد میں لایا گیا تھا
اس کا عکس مثیل بنا کر
اپنا عکس دکھایا گیا تھا
میری تخت نشینی سے پہلے
دھوبی گھاٹ پہ لایا گیا تھا
٭٭٭
غم کا ساز بجایا گیا تھا
حاصل رقص دکھایا گیا تھا
بوڑھے لوگ بھی جمع ہوئے تھے
اور دجال بھی لایا گیا تھا
رخصت کرنے کوئی نہیں آیا
جب کشتی میں بٹھایا گیا تھا
جب میں دریا پار گیا تو
عالم خوں میں نہایا گیا تھا
سر پر جنگ دراز سی کر کے
ہٹلر ہیرو بنایا گیا تھا
٭٭٭
دہشت رنگ جمایا گیا تھا
ایٹم بم بھی گرایا گیا تھا
بیشک کوئی دوام نہیں ہے
مجھ کو لکھ کے مٹایا گیا تھا
جادو ریل کی پٹڑی ہے کیا
کیا ثروت کو دکھایا گیا تھا
ہم کو عشق نے مار ہی ڈالا
گویا زنگ لگایا گیا تھا
ہر اک بوند تھی ابرِ بہاری
شربت سرد پلایا گیا تھا
٭٭٭
پیہم ڈھول بجایا گیا تھا
گھوڑا ریس میں لایا گیا تھا
طاقت کھینچ کے اپنے پروں سے
جگنو کوئی اڑایا گیا تھا
اس لڑکی کا سروپ تھا ایسے
جیسے پیڑ نہایا گیا تھا
حیرت ناک فسانہ کے اندر
کیا ہی رنگ جمایا گیا تھا
میں جب شاہ کی بزم میں پہنچا
فرش پہ مجھ کو بٹھایا گیا تھا
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ooooo
ڈاؤن لوڈ کریں