اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


ن م راشد کی تمام نظمیں ۔۔۔ ن م راشد، مرتبّہ: فرخ منظور، اعجاز عبید

عہد ساز شاعر ن م راشد کی کلیات

ن م راشد کی تمام نظمیں

از قلم

ن م راشد

مرتبّہ

فرخ منظور، اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

 

ن. م . راشد کی تمام نظمیں

 

 

 

ن م راشد

 

مرتبہ: فرخ منظور، اعجاز عبید

 

 

ن. م . راشد کی تمام نظمیں

 

 

 

ن م راشد

 

مرتبہ: فرخ منظور، اعجاز عبید

 

 

ماورا

 

 

 

 

 

رخصت

 

ہے بھیگ چلی رات، پر افشاں ہے قمر بھی

ہے بارشِ کیف اور ہوا خواب اثر بھی

اب نیند سے جھکنے لگیں تاروں کی نگاہیں

نزدیک چلا آتا ہے ہنگامِ سحر بھی!

میں اور تم اس خواب سے بیزار ہیں دونوں

اس رات سرِ شام سے بیدار ہیں دونوں

ہاں آج مجھے دور کا در پیش سفر ہے

رخصت کے تصور سے حزیں قلب و جگر ہے

آنکھیں غمِ فرقت میں ہیں افسردہ و حیراں

اک سیلِ بلا خیز میں گم تار نظر ہے

آشفتگیِ روح کی تمہید ہے یہ رات

اک حسرتِ جاوید کا پیغام سحر ہے

میں اور تم اس رات ہیں غمگین و پریشاں

اک سوزشِ پیہم میں گرفتار ہیں دونوں!

 

گہوارۂ آلامِ خلش ریز ہے یہ رات

اندوہِ فراواں سے جنوں خیز ہے یہ رات

نالوں کے تسلسل سے ہیں معمور فضائیں

سرد آہوں سے، گرم اشکوں سے لبریز ہے یہ رات

رونے سے مگر روح تن آساں نہیں ہوتی

تسکینِ دل و دیدۂ گریاں نہیں ہوتی!

 

میری طرح اے جان، جنوں کیش ہے تُو بھی

اک حسرتِ خونیں سے ہم آغوش ہے تُو بھی

سینے میں مرے جوشِ تلاطم سا بپا ہے!

پلکوں میں لیے محشرِ پُر جوش ہے تُو بھی

کل تک تری باتوں سے مری روح تھی شاداب

اور آج کس انداز سے خاموش ہے تو بھی

وارفتہ و آشفتہ و کاہیدۂ غم ہیں

افسردہ مگر شورشِ پنہاں نہیں ہوتی

 

میں نالۂ شب گیر کے مانند اٹھوں گا

فریادِ اثر گیر کے مانند اٹھوں گا

تو وقتِ سفر مجھ کو نہیں روک سکے گی

پہلو سے تیرے تیر کے مانند اٹھوں گا

گھبرا کے نکل جاؤں گا آغوش سے تیری

عشرت گہِ سر مست و ضیا پوش سے تیری!

ہوتا ہوں جدا تجھ سے بصد بیکسی و یاس

اے کاش، ٹھہر سکتا ابھی اور ترے پاس

مجھ سا بھی کوئی ہو گا سیہ بخت جہاں میں

مجھ سا بھی کوئی ہو گا اسیرِ الم و یاس

مجبور ہوں، لاچار ہوں کچھ بس میں نہیں ہے

دامن کو مرے کھینچتا ہے ’’فرض‘‘ کا احساس

بس ہی میں نہیں ہے مرے لاچار ہوں مَیں بھی

تو جانتی ہے ورنہ وفادار ہوں میں بھی!

 

ہو جاؤں گا مَیں تیرے طرب زار سے رخصت

اس عیش کی دنیائے ضیا بار سے رخصت

ہو جاؤں گا اک یادِ غم انگیز کو لے کر

اس خلد سے، اس مسکنِ انوار سے رخصت

تو ہو گی مگر بزمِ طرب باز نہ ہو گی

یہ ارضِ حسیں جلوہ گہِ راز نہ ہو گی

 

مَیں صبح نکل جاؤں گا تاروں کی ضیا میں

تُو دیکھتی رہ جائے گی سنسان فضا میں

کھو جاؤں گا اک کیف گہِ روح فزا میں

آغوش میں لے لے گی مجھے صبح درخشاں

’’او میرے مسافر، مرے شاعر، مرے راشدؔ‘‘

تُو مجھ کو پکارے گی خلش ریز نوا میں!

اُس وقت کہیں دور پہنچ جائے گا راشدؔ

مرہونِ سماعت تری آواز نہ ہو گی!

٭٭٭

 

 

 

 

 

انسان

 

(سانیٹ)

 

الٰہی تیری دنیا جس میں ہم انسان رہتے ہیں

غریبوں، جاہلوں، مُردوں کی، بیماروں کی دنیا ہے

یہ دنیا بے کسوں کی اور لاچاروں کی دنیا ہے

ہم اپنی بے بسی پر رات دن حیران رہتے ہیں!

ہماری زندگی اک داستاں ہے ناتوانی کی

بنا لی اے خدا اپنے لیے تقدیر بھی تُو نے

اور انسانوں سے لے لی جرأتِ تدبیر بھی تُو نے

یہ داد اچھی ملی ہے ہم کو اپنی بے زبانی کی!

اسی غور و تجسس میں کئی راتیں گزری ہیں

میں اکثر چیخ اُٹھتا ہوں بنی آدم کی ذلّت پر

جنوں سا ہو گیا ہے مجھ کو احساسِ بضاعت پر

ہماری بھی نہیں افسوس، جو چیزیں ’ہماری‘ ہیں!

کسی سے دور یہ اندوہِ پنہاں ہو نہیں سکتا!

خدا سے بھی علاجِ دردِ انساں ہو نہیں سکتا!

٭٭٭

 

 

 

 

خواب کی بستی

 

(سانیٹ)

 

مرے محبوب، جانے دے، مجھے اُس پار جانے دے

اکیلا جاؤں گا اور تیر کے مانند جاؤں گا

کبھی اس ساحلِ ویران پر میں پھر نہ آؤں گا

گوارا کر خدارا اس قدر ایثار جانے دے!

نہ کر اب ساتھ جانے کے لیے اصرار جانے دے!

میں تنہا جاؤں گا، تنہا ہی تکلیفیں اٹھاؤں گا

مگر اُس پار جاؤں گا تو شاید چین پاؤں گا

نہیں مجھ میں زیادہ ہمتِ تکرار جانے دے!

مجھے اُس خواب کی بستی سے کیا آواز آتی ہے؟

مجھے اُس پار لینے کے لیے وہ کون آیا ہے؟

خدا جانے وہ اپنے ساتھ کیا پیغام لایا ہے

مجھے جانے دے اب رہنے سے میری جان جاتی ہے!

مرے محبوب! میرے دوست اب جانے بھی دے مجھ کو

بس اب جانے بھی دے اس ارضِ بے آباد سے مجھ کو!

٭٭٭

 

 

 

گناہ اور محبت

 

گناہ

 

گناہ کے تند و تیز شعلوں سے روح میری بھڑک رہی تھی

ہوس کی سنسان وادیوں میں مری جوانی بھٹک رہی تھی

مری جوانی کے دن گزرتے تھے وحشت آلود عشرتوں میں

مری جوانی کے میکدوں میں گناہ کی مَے چھلک رہی تھی

مرے حریمِ گناہ میں عشق دیوتا کا گزر نہیں تھا

مرے فریبِ وفا کے صحرا میں حورِ عصمت بھٹک رہی تھی

مجھے خسِ ناتواں کے مانند ذوقِ عصیاں بہا رہا تھا

گناہ کی موجِ فتنہ ساماں اُٹھا اُٹھا کر پٹک رہی تھی

شباب کے اوّلیں دنوں میں تباہ و افسردہ ہو چکے تھے

مرے گلستاں کے پھول، جن سے فضائے طفلی مہک رہی تھی

غرض جوانی میں اہرمن کے طرب کا سامان بن گیا مَیں

گنہ کی آلائشوں میں لتھڑا ہوا اک انسان بن گیا میں

 

محبت

 

اور اب کہ تیری محبتِ سرمدی کا بادہ گسار ہوں میں

ہوس پرستی کی لذتِ بے ثبات سے شرمسار ہوں میں

مری بہیمانہ خواہشوں نے فرار کی راہ لی ہے دل سے

اور اُن کے بدلے اک آرزوئے سلیم سے ہمکنار ہوں میں

دلیلِ راہِ وفا بنی ہیں ضیائے الفت کی پاک کرنیں

پھر اپنے ’فردوسِ گمشدہ‘ کی تلاش میں رہ سپار ہوں میں

ہوا ہوں بیدار کانپ کر اک مہیب خوابوں کے سلسلے سے

اور اب نمودِ سحر کی خاطر ستم کشِ انتظار ہوں میں

بہارِ تقدیسِ جاوداں کی مجھے پھر اک بار آرزو ہے

پھر ایک پاکیزہ زندگی کے لیے بہت بے قرار ہوں میں

مجھے محبت نے معصیت کے جہنموں سے بچا لیا ہے

مجھے جوانی کی تیرہ و تار پستیوں سے اٹھا لیا ہے

٭٭٭

 

 

 

ایک دن۔۔۔لارنس باغ میں

 

(ایک کیفیت)

 

بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں

افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں

چھایا ہوا ہے چار طرف باغ میں سکوت

تنہائیوں کی گود میں لپٹا ہوا ہوں میں

اشجار بار بار ڈراتے ہیں بن کے بھوت

جب دیکھتا ہوں اُن کی طرف کانپتا ہوں میں

بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!

 

لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار

وہ موسمِ نشاط! وہ ایّامِ نو بہار

بھولے ہوئے مناظرِ رنگیں بہار کے

افکار بن کے روح میں میری اُتر گئے

وہ مست گیت موسمِ عشرت فشار کے

گہرائیوں کو دل کی غم آباد کر گئے

لارنس باغ! کیف و لطافت کے خلد زار!

 

ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اِزدِحام

ہونے لگی ہے وقت سے پہلے ہی آج شام

دنیا کی آنکھ نیند سے جس وقت جھک گئی

جب کائنات کھو گئی اسرارِ خواب میں

سینے میں جوئے اشک ہے میرے رُکی ہوئی

جا کر اُسے بہاؤں گا کُنجِ گلاب میں

ہے آسماں پہ کالی گھٹاؤں کا اِزدِحام

افکار کا ہجوم ہے میرے دماغ میں

بیٹھا ہوا ہوں صبح سے لارنس باغ میں!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ستارے

 

(سانیٹ)

 

نکل کر جوئے نغمہ خلد زارِ ماہ و انجم سے

فضا کی وسعتوں میں ہے رواں آہستہ آہستہ

بہ سوئے نوحہ آبادِ جہاں آہستہ آہستہ

نکل کر آ رہی ہے اک گلستانِ ترنم سے!

ستارے اپنے میٹھے مد بھرے ہلکے تبسم سے

کیے جاتے ہیں فطرت کو جواں آہستہ آہستہ

سناتے ہیں اسے اک داستاں آہستہ آہستہ

دیارِ زندگی مدہوش ہے اُن کے تکلم سے

یہی عادت ہے روزِ اوّلیں سے ان ستاروں کی

چمکتے ہیں کہ دنیا میں مسرّت کی حکومت ہو

چمکتے ہیں کہ انساں فکرِ ہستی کو بھلا ڈالے

لیے ہے یہ تمنا کہ ہر کرن ان نور پاروں کی

کبھی یہ خاک داں گہوارۂ حسن و لطافت ہو

کبھی انسان اپنی گم شدہ جنت کو پھر پا لے!​

٭٭٭

 

 

 

 

مری محبت جواں رہے گی

 

 

مثالِ خورشید و ماہ و انجم مری محبت جواں رہے گی

عروسِ فطرت کے حسنِ شاداب کی طرح جاوداں رہے گی

شعاعِ امید بن کے ہر وقت روح پر ضو فشاں رہے گی

شگفتہ و شادماں کرے گی، شگفتہ و شادماں رہے گی

مری محبت جواں رہے گی

 

کیا ہے جب سے غمِ محبت نے دیدۂ التفات پیدا

نئے سرے سے ہوئی ہے گویا مرے لیے کائنات پیدا

ہوئی ہے میرے فسردہ پیکر میں آرزوئے حیات پیدا

یہ آرزو اب رگوں میں میری شراب بن کر رواں رہے گی

مری محبت جواں رہے گی!

 

مجھے محبت نے ذوقِ تقدیس مثلِ رنگِ سحر دیا ہے

زمانہ بھر کی لطافتوں سے مری جوانی کو بھر دیا ہے

مرے گلستاں کو آشنائے بہارِ جاوید کر دیا ہے

مرے گلستاں میں رنگ و نکہت کی نزہتِ جاوداں رہے گی

مری محبت جواں رہے گی!

٭٭٭

 

 

 

 

بادل

 

(سانیٹ)

 

چھائے ہوئے ہیں چار طرف پارہ ہائے ابر

آغوش میں لیے ہوئے دنیائے آب و رنگ

میرے لیے ہے اُن کی گرج میں سرودِ چنگ

پیغامِ انبساط ہے مجھ کو صدائے ابر

اٹھی ہے ہلکے ہلکے سروں میں نوائے ابر

اور قطر ہائے آب بجاتے ہیں جلترنگ

گہرائیوں میں روح کی جاگی ہے ہر امنگ

دل میں اُتر رہے ہیں مرے نغمہائے ابر

مدت سے لٹ چکے تھے تمنا کے بار و برگ

چھایا ہوا تھا روح پہ گویا سکوتِ مرگ

چھوڑا ہے آج زیست کو خوابِ جمود نے

ان بادلوں سے تازہ ہوئی ہے حیات پھر

میرے لیے جوان ہے یہ کائنات پھر

شاداب کر دیا ہے دل اُن کے سرود نے!

٭٭٭

 

 

 

 

فطرت اور عہدِ نَو کا انسان

 

(دو سانیٹ)

 

فطرت

 

شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں

آ مرے ننھے، مری جاں، آ مرے شہکار آ!

تجھ پہ صدقے خلد کے نغمات اور انوار آ

آ مرے ننھے! کہ پریاں رات کی آنے کو ہیں

ساری دنیا پر فسوں کا جال پھیلانے کو ہیں

تیری خاطر لا رہی ہیں لوریوں کے ہار آ

دل ترا کب تک نہ ہو گا ’کھیل‘ سے بیزار آ

جب ’کھلونے‘ بھی ترے نیندوں میں کھو جانے کو ہیں؟

کھیل میں کانٹوں سے ہے دامانِ صد پارا ترا

کاش تُو جانے کہ سامانِ طرب ارزاں نہیں

کون سی شے ہے جو وجہِ کاہشِ انساں نہیں

کس لیے رہتا ہے دل شیدائے نظّارا ترا؟

آ کہ ہے راحت بھری آغوش وا تیرے لیے؟

آ کہ میری جان ہے غم آشنا تیرے لیے؟

 

انسان

 

جانتا ہوں مادرِ فطرت! کہ میں آوارہ ہوں

طفلِ آوارہ ہوں لیکن سرکش و ناداں نہیں

میری اس آوارگی میں وحشتِ عصیاں نہیں

شوخ ہوں لیکن ابھی معصوم اور بیچارہ ہوں

تجھ کو کیا غم ہے اگر وارفتۂ نظارہ ہوں؟

شکر ہے زندانیِ اہریمن و یزداں نہیں

ان سے بڑھ کر کچھ بھی وجہِ کاہشِ انساں نہیں

میں مگر اُن کے افق سے دور اک سیارہ ہوں!

شام ہونے کو ہے اور تاریکیاں چھانے کو ہیں

تُو بلاتی ہے مجھے راحت بھری آغوش میں

کھیل لوں تھوڑا سا آتا ہوں، ابھی آتا ہوں میں

اب تو ’دن‘ کی آخری کرنیں بھی سو جانے کو ہیں

اور کھو جانے کو ہیں وہ بھی کنارِ دوش میں

بہہ چلی ہے روح نیندوں میں مری آتا ہوں میں!

٭٭٭

 

 

 

 

مکافات

 

رہی ہے حضرتِ یزداں سے دوستی میری

رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا

گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری

دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا

کسی پہ روح نمایاں نہ ہو سکی میری

رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا

 

دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو

وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انھیں

زبانِ شوق بنایا نہیں نگاہوں کو

کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انھیں

خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کو

کبھی کیا نہ جوانی سے بہرہ یاب انھیں

یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو

کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا

اذیتوں سے بھری ہے ہر ا یک بیداری

مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا

الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی

فشارِ ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا

مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا

پیامِ مرگ جوانی تھا اجتناب مرا

 

لو آ گئی ہیں وہ بن کر مہیب تصویریں

وہ آرزوئیں کہ جن کا کیا تھا خوں میں نے

لو آ گئے ہیں وہی پیروانِ اہریمن

کیا تھا جن کو سیاست سے سرنگوں میں نے

کبھی نہ جان پہ دیکھا تھا یہ عذابِ الیم

کبھی نہیں اے مرے بختِ واژگوں میں نے

مگر یہ جتنی اذیت بھی دیں مجھے کم ہے

کیا ہے روح کو اپنی بہت زبوں میں نے

اسے نہ ہونے دیا میں نے ہم نوائے شباب

نہ اس پہ چلنے دیا شوق کا فسوں میں نے

اے کاش چھپ کے کہیں اک گناہ کر لیتا

حلاوتوں سے جوانی کو اپنی بھر لیتا

گناہ ایک بھی اب تک کیا نہ کیوں میں نے؟

٭٭٭

 

 

 

 

شاعر کا ماضی

 

یہ شب ہائے گزشتہ کے جنوں انگیز افسانے

یہ آوارہ پریشاں زمزمے سازِ جوانی کے

یہ میری عشرتِ برباد کی بے باک تصویریں

یہ آئینے مرے شوریدہ آغازِ جوانی کے!

یہ اک رنگیں غزل لیلیٰ کی زلفوں کی ستائش میں

یہ تعریفیں سلیمیٰ کی فسوں پرور نگاہوں کی

یہ جذبے سے بھرا اظہار، شیریں کی محبت کا

یہ اک گزری کہانی آنسوؤں کی اور آہوں کی

کہاں ہو او مری لیلیٰ۔۔۔ کہاں ہو او مری شیریں؟

سلیمیٰ تم بھی تھک کر رہ گئیں راہِ محبت میں؟

مرے عہدِ گزشتہ پر سکوتِ مرگ طاری ہے

مری شمعو، بجھی جاتی ہو کس طوفانِ ظلمت میں؟

مرے شعرو، مرے ’فردوسِ گم گشتہ‘ کے نظّارو!

ابھی تک ہے دیارِ روح میں اک روشنی تم سے

کہ میں حسن و محبت پر لٹانے کے لیے تم کو

اڑا لایا تھا جا کر محفلِ مہتاب و انجم سے!

٭٭٭

 

 

 

 

خوابِ آوارہ

 

مجھے ذوقِ تماشا لے گیا تصویر خانوں میں

دکھائے حُسن کاروں کے نقوشِ آتشیں مجھ کو

اور ان نقشوں کے محرابی خطوں میں اور رنگوں میں

نظر آیا ہمیشہ ایک رؤیائے حسیں مجھ کو

سرود و رقص کی خاطر گیا ہوں رقص گاہوں میں

تو اہلِ رقص کے ہونٹوں پہ آوارہ تبسم میں

شباب و شعر سے لبریز اعضا کے ترنم میں

تھرکتے بازوؤں میں، شوق سے لرزاں نگاہوں میں

ہمیشہ جھانکتا پایا وہی خوابِ حسیں میں نے

گزارے ہیں بہت دن حافظ و خیّام سے مل کر

بہت دن آسکر وائیلڈ کی مدہوش دنیا میں

گزاری ہیں کئی راتیں تیاتر میں، سنیما میں

اسی خوابِ فسوں انگیز کی شیریں تمنا میں

بہت آوارہ رکھتا ہے یہ خوابِ سیم گوں مجھ کو

لیے پھرتا ہے ہر انبوہ میں اس کا جنوں مجھ کو

مگر یہ خواب کیوں رہتا ہے افسانوں کی دنیا میں

حقیقت سے بہت دور، اور رومانوں کی دنیا میں

چھپا رہتا ہے رقص و نغمہ کے سنگیں حجابوں میں

ملا رہتا ہے نقاشوں کے بے تعبیر خوابوں میں؟

مرا جی چاہتا ہے ایک دن اس خوابِ سیمیں کو

حجابِ فن و رقص و نغمہ سے آزاد کر ڈالوں

ابھی تک یہ گریزاں ہے محبت کی نگاہوں سے

اسے اک پیکرِ انسان میں آباد کر ڈالوں!

فروری

زندگی، جوانی، عشق، حسن

 

م___

’’مری ندیم کھلی ہے مری نگاہ کہاں

ہے کس طرف کو مری زیست کا سفینہ رواں

’وطن‘ کے بحر سے دور، اُس کے ساحلوں سے دور؟

ہے میرے چار طرف بحرِ شعلہ گوں کیسا؟

ہے میرے سینے میں ایک ورطۂ جنوں کیسا؟

مری ندیم کہاں ایسے شعلہ زار میں ہم

جہاں دماغ میں چھپتی ہوئی ضیائیں ہیں

مہیب نور میں لپٹی ہوئی فضائیں ہیں!

 

’’کہاں ہے آہ، مرا عہدِ رفتہ، میرا دیار

مرا سفینہ کنارے سے چل پڑا کیسے؟

یہ ہر طرف سے برستے ہیں ہم پہ کیسے شرار

ہماری راہ میں یہ ’آتشیں خلا‘ کیسے؟

 

’’وہ سامنے کی زمیں ہے مگر جزیرۂ عشق

جو دور سے نظر آتی ہے جگمگاتی ہوئی

کہ ’سر زمینِ عجم‘ کے کہیں قریب ہیں ہم

ترے وطن کے نواحی میں اے حبیب ہیں ہم؟

یہ کیا طلسم ہے، کیا راز ہے، کہاں ہیں ہم؟

تہِ زمیں ہیں کہ بالائے آسماں ہیں ہم؟

کہ ایک خواب میں بے مدعا رواں ہیں ہم؟

 

ع____

’’یہ ایک خواب ہے، بے مدعا رواں ہیں ہم

یہ اک فسانہ ہے کردارِ داستاں ہیں ہم

ابھی یہاں سے بہت دورہے جہانِ عجم

تصورات میں جس خلد کے جواں ہیں ہم

وہ سامنے کی زمیں ہے مگر جزیرۂ عشق

جو دور سے نظر آتی ہے جگمگاتی ہوئی

فضا پہ جس کی درخشاں ہے اک ستارۂ نور

شعاعیں رقص میں ہیں زمزمے بہاتی ہوئی‘‘

 

م____

’’اگر یہاں سے بہت دور ہے ’جہانِ عجم‘

مری ندیم چل اس سرزمیں کی جانب چل‘‘

 

ع____

’’اُسی کی سمت رواں ہیں، سفینہ راں ہیں ہم

یہیں پہنچ کے ملے گی مگر نجات کہیں

ہمیں زمان و مکاں کے حدودِ سنگیں سے

نہ خیر و شر ہے نہ یزدان و اہرمن ہیں یہاں

کہ جا چکے ہیں وہ اس سرزمینِ رنگیں سے‘‘

 

م____

’’مری ندیم چل اس سرزمیں کی جانب چل!‘‘

 

ع____

’’اُسی کی سمت رواں ہیں، سفینہ راں ہیں ہم

یہاں عدم ہے نہ فکرِ وجود ہے گویا

یہاں حیات مجسّم سرود ہے گویا‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

رفعت

 

(سانیٹ)

 

کوئی دیتا ہے بہت دُور سے آواز مجھے

چھپ کے بیٹھا ہے وہ شاید کسی سیّارے میں

نغمہ و نور کے اک سرمدی گہوارے میں

دے اجازت جو تری چشمِ فسوں ساز مجھے

اور ہو جائے محبت پرِ پرواز مجھے

اڑ کے پہنچوں میں وہاں روح کے طیّارے میں

سرعتِ نور سے یا آنکھ کے ’پلکارے‘ میں

کہ فلک بھی نظر آتا ہے درباز مجھے!

سالہا سال مجھے ڈھونڈیں گے دنیا کے مکیں

دوربینیں بھی نشاں تک نہ مرا پائیں گی

اور نہ پیکر ہی مرا آئے گا پھر سوئے زمیں

عالمِ قدس سے آوازیں مری آئیں گی

بحرِ خمیازہ کش وقت کی امواجِ حسیں

اک سفینہ مرے نغموں سے بھرا لائیں گی!

٭٭٭

 

 

 

دل سوزی

 

یہ عشقِ پیچاں کے پھول پتے جو فرش پر یوں بکھر رہے ہیں

یہ مجھ کو تکلیف دے رہے ہیں، یہ مجھ کو غمگین کر رہے ہیں

انھیں یہاں سے اٹھا کے اک بار پھر اسی بیل پر لگا دو

وگرنہ مجھ کو بھی ان کے مانند خواب کی گود میں سلا دو!

 

خزاں زدہ اک شجر ہے، اُس پر ضیائے مہتاب کھیلتی ہے

اور اُس کی بے رنگ ٹہنیوں کو وہ اپنے طوفاں میں ریلتی ہے

کوئی بھی ایسی کرن نہیں جو پھر اس میں روحِ بہار بھر دے

تو کیوں نہ مہتاب کو بھی یا رب تو یونہی بے برگ و بار کر دے!

 

ندیم، آہستہ زمزموں کے سرودِ پیہم کو چھوڑ بھی دے

اُٹھا کے ان نازک آبگینوں کو پھینک دے اور توڑ بھی دے

وگرنہ اک آتشیں نوا سے تو پیکر و روح کو جلا دے

عدم کے دریائے بیکراں میں سفینۂ زیست کو بہا دے!

٭٭٭

 

 

جرأتِ پرواز

 

بجھ گئی شمع ضیا پوشِ جوانی میری!

آج تک کی ہے کئی بار ’محبت‘ میں نے

اشکوں اور آہوں سے لبریز ہیں رومان مرے

ہو گئی ختم کہانی میری!

مٹ گئے میری تمناؤں کے پروانے بھی

خوفِ ناکامی و رسوائی سے

حسن کے شیوۂ خود رائی سے

دلِ بے چارہ کی مجبوری و تنہائی سے!

میرے سینے ہی میں پیچاں رہیں آہیں میری

کر سکیں روح کو عریاں نہ نگاہیں میری!

 

ایک بار اور محبت کر لوں

سعیِ ناکام سہی

اور اک زہر بھرا جام سہی

میرا یا میری تمناؤں کا انجام سہی

ایک سودا ہی سہی، آرزوئے خام سہی

ایک بار اور محبت کر لوں؟

ایک ’انسان‘ سے الفت کر لوں؟

میرے ترکش میں ہے اک تیر ابھی

مجھ کو ہے جرأتِ تدبیر ابھی

بر سرِ جنگ ہے تقدیر ابھی

اور تقدیر پہ پھیلانے کو اک دام سہی؟

 

مجھ کو اک بار وہی ’کوہ کنی‘ کرنے دو

اور وہی ’کاہ بر آوردن‘ بھی___؟

یا تو جی اٹھوں گا اس جرأتِ پرواز سے میں

اور کر دے گی وفا زندۂ جاوید مجھے

خود بتا دے گی رہِ جادۂ امید مجھے

رفعتِ منزلِ ناہید مجھے

یا اُتر جاؤں گا میں یاس کے ویرانوں میں

اور تباہی کے نہاں خانوں میں

تاکہ ہو جائے مہیّا آخر

آخری حدِ تنزل ہی کی اک دید مجھے

جس جگہ تیرگیاں خواب میں ہیں

اور جہاں سوتے ہیں اہریمن بھی

تاکہ ہو جاؤں اسی طرح شناسا آخر

نور کی منزلِ آغاز سے میں

اپنی اس جرأتِ پرواز سے میں

٭٭٭

 

 

 

 

وادیِ پنہاں

 

وقت کے دریا میں اٹھی تھی ابھی پہلی ہی لہر

چند انسانوں نے لی اک وادیِ پنہاں کی راہ

مل گئی اُن کو وہاں

آغوشِ راحت میں پناہ

کر لیا تعمیر اک موسیقی و عشرت کا شہر،

مشرق و مغرب کے پار

زندگی اور موت کی فرسودہ شہ راہوں سے دور

جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نور

جس جگہ ہر صبح کو ملتا ہے ایمائے ظہور

اور بُنے جاتے ہیں راتوں کے لیے خوابوں کے جال

سیکھتی ہے جس جگہ پروازِ حور

اور فرشتوں کو جہاں ملتا ہے آہنگِ سُرور

غم نصیب اہریمنوں کو گریہ و آہ و فغاں!

 

کاش بتلا دے کوئی

مجھ کو بھی اس وادیِ پنہاں کی راہ

مجھ کو اب تک جستجو ہے

زندگی کے تازہ جولاں گاہ کی

کیسی بیزاری سی ہے

زندگی کے کہنہ آہنگِ مسلسل سے مجھے

سر زمینِ زیست کی افسردہ محفل سے مجھے

دیکھ لے اک بار کاش

اس جہاں کا منظر رنگیں نگاہ

جس جگہ ہے قہقہوں کا اک درخشندہ وفور

جس جگہ سے آسماں کا قافلہ لیتا ہے نُور

جس کی رفعت دیکھ کر خود ہمتِ یزداں ہے چُور

جس جگہ ہے وقت اک تازہ سُرور

زندگی کا پیرہن ہے تار تار!

جس جگہ اہریمنوں کا بھی نہیں کچھ اختیار

مشرق و مغرب کے پار!

٭٭٭

 

طلسمِ جاوداں

 

رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،

اب رہنے دے،

اپنی آنکھوں کے طلسمِ جاوداں میں بہنے دے

میری آنکھوں میں ہے وہ سحرِ عظیم

جو کئی صدیوں سے پیہم زندہ ہے

انتہائے وقت تک پایندہ ہے!

دیکھتی ہے جب کبھی آنکھیں اٹھا کر تو مجھے

قافلہ بن کر گزرتے ہیں نگہ کے سامنے

مصر و ہند و نجد و ایراں کے اساطیرِ قدیم:

کوئی شاہنشاہ تاج و تخت لٹواتا ہوا

دشت و صحرا میں کوئی شہزادہ آوارہ کہیں

سر کوئی جانباز کہساروں سے ٹکراتا ہوا

اپنی محبوبہ کی خاطر جان سے جاتا ہوا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

قافلہ بن کر گزر جاتے ہیں سب

قصہ ہائے مصر و ہندوستان و ایران و عرب!

 

رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت،

اب رہنے دے،

آج میں ہوں چند لمحوں کے لیے تیرے قریب،

سارے انسانوں سے بڑھ کر خوش نصیب!

چند لمحوں کے لیے آزاد ہوں

تیرے دل سے اخذ نور و نغمہ کرنے کے لیے

زندگی کی لذتوں سے سینہ بھرنے کے لیے؛

تیرے پیکر میں جو روحِ زیست ہے شعلہ فشاں

وہ دھڑکتی ہے مقام و وقت کی راہوں سے دور

بیگانۂ مرگ و خزاں!

ایک دن جب تیرا پیکر خاک میں مل جائے گا

زندہ، تابندہ رہے گی اس کی گرمی، اُس کا نور

اپنے عہدِ رفتہ کے جاں سوز نغمے گائے گی

اور انسانوں کا دیوانہ بناتی جائے گی

 

رہنے دے اب کھو نہیں باتوں میں وقت

اب رہنے دے!

وقت کے اس مختصر لمحے کو دیکھ

تُو اگر چاہے تو یہ بھی جاوداں ہو جائے گا

پھیل کر خود بیکراں ہو جائے گا

مطمئن باتوں سے ہو سکتا ہے کون؟

روح کی سنگین تاریکی کو دھو سکتا ہے کون؟

دیکھ اس جذبات کے نشّے کو دیکھ

تیرے سینے میں بھی اک لرزش سی پیدا ہو گئی!

زندگی کی لذتوں سے سینہ بھر لینے بھی دے

مجھ کو اپنی روح کی تکمیل کر لینے بھی دے!

٭٭٭

 

 

 

 

ہونٹوں کا لمس

 

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس

جس سے میرا جسم طوفانوں کی جولاں گاہ ہے

جس سے میری زندگی، میرا عمل گمراہ ہے

میری ذات اور میرے شعر افسانہ ہیں!

 

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس

اور پھر ’لمسِ طویل‘

جس سے ایسی زندگی کے دن مجھے آتے ہیں یاد

میں نے جو اب تک بسر کی ہی نہیں

اور اک ایسا مقام

آشنا جس کے نظاروں سے نہیں میری نگاہ!

تیرے اک لمسِ جنوں انگیز سے

کیسے کھُل جاتی ہے کرنوں کے لیے اک شاہراہ

کیسے ہو جاتی ہے، ظلمت تیز گام،

کیسے جی اٹھتے ہیں آنے وا لے ایّامِ جمیل!

 

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس

جس کے آگے ہیچ جرعاتِ شراب

یہ سنہری پھل، یہ سیمیں پھول مانندِ سراب

سوزِ شمع و گردشِ پروانہ گویا داستاں

نغمۂ سیارگاں، بے رنگ و آب

قطرۂ بے مایہ طغیانِ شباب!

 

تیرے ان ہونٹوں کے اک لمسِ جنوں انگیز سے

چھا گیا ہے چار سُو

چاندنی راتوں کا نورِ بیکراں

کیف و مستی کا وفورِ جاوداں

چاندنی ہے اور میں اک ’تاک‘ کے سائے تلے

اِستادہ ہوں

جان دینے کے لیے آمادہ ہوں

 

میری ہستی ہے نحیف و بے ثبات

’تاک‘ کی ہر شاخ ہے آفاق گیر!

حملۂ مرگ و خزاں سے بے نیاز

سامنے جس کے مری دنیا ہے، دنیائے مجاز

میرے جسم و روح جس کی وسعتوں کے سامنے

رفتہ رفتہ مائلِ حلّ و گداز!

 

ہاں مگر اتنا تو ہے،

میری دنیا کو مٹا کر ہو چلی ہیں آشکار

اور دنیائیں مقام و وقت کی سرحد کے پار

جن کی تو ملکہ ہے میں ہوں شہریار!

تیرے رنگیں رس بھرے ہونٹوں کا لمس،

جس سے میری سلطنت تابندہ ہے

انتہائے وقت تک پائندہ ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

اتفاقات

 

آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی،

جسم ہے خواب سے لذت کشِ خمیازہ ترا

تیرے مژگاں کے تلے نیند کی شبنم کا نزول

جس سے دھُل جانے کو ہے غازہ ترا

زندگی تیرے لیے رس بھرے خوابوں کا ہجوم

زندگی میرے لیے کاوشِ بیداری ہے

اتفاقات کو دیکھ

اس حسیں رات کو دیکھ

توڑ دے وہم کے جال

چھوڑ دے اپنے شبستانوں کو جانے کا خیال،

خوفِ موہوم تری روح پہ کیا طاری ہے!

اتنا بے صرفہ نہیں تیرا جمال

اس جنوں خیز حسیں رات کو دیکھ!

آج، اس ساعتِ دزدیدہ و نایاب میں بھی

تشنگی روح کی آسودہ نہ ہو

جب ترا جسم جوانی میں ہے نیسانِ بہار

رنگ و نکہت کا فشار!

 

پھول ہیں، گھاس ہے، اشجار ہیں، دیواریں ہیں

اور کچھ سائے کہ ہیں مختصر و تیرہ و تار،

تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں؟

دیکھ پتوں میں لرزتی ہوئی کرنوں کا نفوذ

سرسراتی ہوئی بڑھتی ہے رگوں میں جیسے

اوّلیں بادہ گساری میں نئی تند شراب

تجھ کو کیا اس سے غرض ہے کہ خدا ہے کہ نہیں

کہکشاں اپنی تمناؤں کا ہے راہگزار

کاش اس راہ پہ مل کر کبھی پرواز کریں،

اک نئی زیست کا در باز کریں!

آسماں دور ہے لیکن یہ زمیں ہے نزدیک

آ اِسی خاک کو ہم جلوہ گہِ راز کریں!

روحیں مل سکتی نہیں ہیں تو یہ لب ہی مل جائیں،

آ اِسی لذتِ جاوید کا آغاز کریں!

صبح جب باغ میں رس لینے کو زنبور آئے

اس کے بوسوں سے ہوں مدہوش سمن اور گلاب

شبنمی گھاس پہ دو پیکرِ یخ بستہ ملیں،

اور خدا ہے تو پشیماں ہو جائے!

٭٭٭

 

 

 

 

حزنِ انسان

 

(افلاطونی عشق پر ایک طنز)

 

 

جسم اور روح میں آہنگ نہیں،

لذّت اندوز دل آویزیِ موہوم ہے تو

خستۂ کشمکشِ فکر و عمل!

تجھ کو ہے حسرتِ اظہارِ شباب

اور اظہار سے معذور بھی ہے

جسم نیکی کے خیالات سے مفرور بھی ہے

اس قدر سادہ و معصوم ہے تو

پھر بھی نیکی ہی کیے جاتی ہے

کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو

 

جسم ہے روح کی عظمت کے لیے زینہِ نور

منبعِ کیف و سرور!

نا رسا آج بھی ہے شوقِ پرستارِ جمال

اور انساں ہے کہ ہے جادہ کشِ راہِ طویل

(روحِ یوناں پہ سلام!)

اک زمستاں کی حسیں رات کا ہنگامِ تپاک

اس کی لذّات سے آگاہ ہے کون؟

عشق ہے تیرے لیے نغمۂ خام

کہ دل و جسم کے آہنگ سے محروم ہے تو!

 

جسم اور روح کے آہنگ سے محروم ہے تو!

ورنہ شب ہائے زمستاں ابھی بے کار نہیں

اور نہ بے سود ہیں ایّامِ بہار!

آہ انساں کہ ہے وہموں کا پرستار ابھی

حسن بے چارے کو دھوکا سا دیے جاتا ہے

ذوقِ تقدیس پہ مجبور کیے جاتا ہے!

ٹوٹ جائیں ‌گے کسی روز مزامیر کے تار

مسکرا دے کہ ہے تابندہ ابھی تیرا شباب

ہے یہی حضرتِ یزداں کے تمسخر کا جواب!

٭٭٭

 

 

 

 

ایک رات

 

یاد ہے اک رات زیرِ آسمانِ نیل گوں،

یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!

چاند کی کرنوں کا بے پایاں فسوں۔۔۔ پھیلا ہوا

سرمدی آہنگ برساتا ہوا۔۔۔ہر چار سُو!

اور مرے پہلو میں تُو۔۔۔!

میرے دل میں یہ خیال آنے لگا:

غم کا بحرِ بے کراں ہے یہ جہاں

میری محبوبہ کا جسم اک ناؤ ہے

سطحِ شور انگیز پر اس کی رواں

ایک ساحل، ایک انجانے جزیرے کی طرف

اُس کو آہستہ لیے جاتا ہوں میں

 

دل میں یہ جاں سوز وہم

یہ کہیں غم کی چٹانوں سے نہ لگ کر ٹوٹ جائے!

یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات

تیرے دل میں راز کی اِک کائنات

تیری خاموشی میں طوفانوں کا غوغائے عظیم

سرخوشِ اظہار تیری ہر نگاہ

تیرے مژگاں کے تلے گہرے خیال

بے بسی کی نیند میں الجھے ہوئے!

تیرا چہرہ آب گُوں ہونے کو تھا

دفعتاً، پھر جیسے یاد آ جائے اک گم گشتہ بات

تیرے سینے کے سمن زاروں میں اٹھیں لرزشیں

میرے انگاروں کو بے تابانہ لینے کے لیے

اپنی نکہت، اپنی مستی مجھ کو دینے کے لیے

غم کے بحرِ بے کراں میں ہو گیا پیدا سکوں

یاد ہے وہ رات زیرِ آسمانِ نیلگوں

یاد ہے مجھ کو وہ تابستاں کی رات!

٭٭٭

 

 

 

سپاہی

 

تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟

۔۔۔ موت کا لمحۂ مایوس نہیں،

قوم ابھی نیند میں ہے!

مصلحِ قوم نہیں ہوں کہ میں آہستہ چلوں

اور ڈروں قوم کہیں جاگ نہ جائے۔۔۔

میں تو اک عام سپاہی ہوں، مجھے

حکم ہے دوڑ کے منزل کے قدم لینے کا

اور اسی سعیِ جگر دوز میں جاں دینے کا

تُو مرے ساتھ مری جان، کہاں جائے گی؟

تُو مرے ساتھ کہاں جائے گی؟

راہ میں اونچے پہاڑ آئیں گے

دشتِ بے آب و گیاہ

اور کہیں رودِ عمیق

بے کراں، تیز و کف آلود و عظیم

اجڑے سنسان دیار

اور دشمن کے گرانڈیل جواں

جیسے کہسار پہ دیودار کے پیڑ

عزت و عفت و عصمت کے غنیم

ہر طرف خون کے سیلاب رواں۔۔۔

اک سپاہی کے لیے خون کے نظاروں میں

جسم اور روح کی بالیدگی ہے

تُو مگر تاب کہاں لائے گی

تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟

دم بدم بڑھتے چلے جاتے ہیں

سرِ میدان رفیق،

تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟

عمر گزری ہے غلامی میں مری

اس سے اب تک مری پرواز میں کوتاہی ہے!

زمزمے اپنی محبت کے نہ چھیڑ

اس سے اے جان پر وبال میں آتا ہے جمود

میں نہ جاؤں گا تو دشمن کو شکست

آسمانوں سے بھلا آئے گی؟

دیکھ خونخوار درندوں کے وہ غول

میرے محبوب وطن کو یہ نگل جائیں گے؟

ان سے ٹکرانے بھی دے

جنگِ آزادی میں کام آنے بھی دے

تُو مرے ساتھ مری جان کہاں جائے گی؟

 

نومبر 2 زوال

 

آہ پایندہ نہیں،

درد و لذّت کا یہ ہنگامِ جلیل!

پھر کئی بار ابھی آئیں گے لمحاتِ جنوں

اس سے شدت میں فزوں، اس سے طویل

پھر بھی پائندہ نہیں!

 

آپ ہی آپ کسی روز ٹھہر جائے گا

تیرے جذبات کا دریائے رواں

تجھے معلوم نہیں،

کس طرح وقت کی امواج ہیں سرگرمِ خرام؟

تیرے سینے کا درخشندہ جمال

کر دیا جائے گا بیگانۂ نور

نکہت و رنگ سے محرومِ دوام!

تجھے معلوم نہیں؟

 

اس دریچے میں سے دیکھ

خشک، بے برگ، المناک د رختوں کا سماں

کیسا دل دوز سکوت!

زیرِ لب نالہ کشِ جورِ خزاں

چودھویں رات کا مہتابِ جواں!

ان کے اس پار سے ہے نزد طلوع؛

تجھے معلوم نہیں،

ایک دن تیرا جنوں خیز شباب

تیرے اعضا کا جمال

کر دیا جائے گا اس طرح سے محرومِ فسوں؟

اور پھر چاند کے مانند محبت کے خیال

سارے اس عہد کے گزرے ہوئے خواب

تیرے ماضی کے افق پر سے ہویدا ہوں گے

تجھے معلوم نہیں!

 

نومبر 2 اظہار

 

کیسے میں بھی بھول جاؤں

زندگی سے اپنا ربطِ اوّلیں؟

ایک دور افتادہ قریے کے قریب

اک جنوں افروز شام

نہر پر شیشم کے اشجارِ بلند

چاندنی میں اُن کی شاخوں کے تلے

تیرے پیمانِ محبت کا وہ اظہارِ طویل!

 

روح کا اظہار تھے بوسے مرے

جیسے میری شاعری، میرا عمل!

روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں؟

کیسے کر ڈالوں میں جسم و روح کو

آج بے آہنگ و نور؟

تُو کہ تھی اس وقت گمنامی کے غاروں میں نہاں

میرے ہونٹوں ہی نے دی تجھ کو نجات

اپنی راہوں پر اٹھا لایا تجھے

زندۂ جاوید کر ڈالا تجھے

جیسے کوئی بت تراش

اپنے بت کو زندگی کے نور سے تاباں کرے

اس کو برگ و بار دینے کے لیے

اپنے جسم و روح کو عریاں کرے!

میرے بوسے روح کا اظہار تھے

روح جو اظہار ہی سے زندہ و تابندہ ہے

ہے اسی اظہار سے حاصل مجھے قربِ حیات،

روح کا اظہار کیسے بھول جاؤں؟

 

نومبر 3 آنکھوں کے جال

 

آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!

میز کی سطحِ درخشندہ کو دیکھ

کیسے پیمانوں کا عکسِ سیم گؤں

اس کی بے اندازہ گہرائی میں ہے ڈوبا ہوا

جیسے میری روح، میری زندگی

تیری تابندہ سیہ آنکھوں میں ہے

مَے کے پیمانے تو ہٹ سکتے ہیں یہ ہٹتی نہیں!

 

قہوہ خانے کے شبستانوں کی خلوت گاہ میں

آج کی شب تیرا دُزدانہ ورود!

عشق کا ہیجان، آدھی رات اور تیرا شباب

تیری آنکھ اور میرا دل

عنکبوت اور اس کا بے چارہ شکار!

(تیرے ہاتھوں میں مگر لرزش ہے کیوں؟

کیوں ترا پیمانہ ہونٹوں سے ترے ہٹتا نہیں!

خام و نَو آموز ہے تُو ساحرہ!

کر رہی ہے اپنے فن کو آشکار

اور اپنے آپ پر تجھ کو یقیں حاصل نہیں!)

پھر بھی ہے تیرے فسوں کے سامنے مجھ کو شکست

میرے تخیلات، میری شاعری بیکار ہیں!

 

اپنے سر پر قمقموں کے نور کا سیلاب دیکھ

جس سے تیرے چہرے کا سایہ ترے سینے پہ ہے

اس طرح اندوہ میری زندگی پر سایہ ریز

تیری آنکھوں کی درخشانی سے ہے

سایہ ہٹ سکتا ہے، غم ہٹتا نہیں!

 

آہ تیری مد بھری آنکھوں کے جال!

دیکھ وہ دیوار پر تصویر دیکھ

یہ اگر چاہے کہ اس کا آفرینندہ کبھی

اس کے ہاتھوں میں ہو مغلوب و اسیر

کیسا بے معنی ہو یہ اس کا خیال،

اس کو پھر اپنی ہزیمت کے سوا چارہ نہ ہو!

تو مری تصویر تھی

میرے ہونٹوں نے تجھے پیدا کیا

آج لیکن میری مدہوشی کو دیکھ

میں کہ تھا خود آفرینندہ ترا

پا بجولاں میرے جسم و روح تیرے سامنے

اور دل پر تیری آنکھوں کی گرفتِ نا گزیر،

ساحری تیری، خداوندی تری!

عکس کیسا بھی ہو فانی ہے مگر

یہ نگاہوں کا فسوں پایندہ ہے!

 

دسمبر  گناہ

 

آج پھر آ ہی گیا

آج پھر روح پہ وہ چھا ہی گیا

دی مرے گھر پہ شکست آ کے مجھے!

ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا

خاک آلودہ و افسردہ و غمگین و نزار

پارہ پارہ تھے مری روح کے تار

آج وہ آ ہی گیا

روزنِ در سے لرزتے ہوئے دیکھا میں نے

خرم و شاد سرِ راہ اُسے جاتے ہوئے

سالہا سال سے مسدود تھا یارانہ مرا

اپنے ہی بادہ سے لبریز تھا پیمانہ مرا

اس کے لَوٹ آنے کا امکان نہ تھا

اس کے ملنے کا بھی ارمان نہ تھا

پھر بھی وہ آ ہی گیا

کون جانے کہ وہ شیطان نہ تھا

بے بسی میرے خداوند کی تھی!

 

دسمبر  عہدِ وفا

 

تُو مرے عشق سے مایوس نہ ہو

کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!

شمع کے سائے سے دیوار پہ محراب سی ہے

سالہا سال سے بدلا نہیں سائے کا مقام

شمع جلتی ہے تو سائے کو بھی حاصل ہے دوام

سائے کا عہدِ وفا ہے ابدی!

تُو مری شمع ہے، میں سایہ ترا

زندہ جب تک ہوں کہ سینے میں ترے روشنی ہے

کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!

 

ایک پتنگا سرِ دیوار چلا جاتا ہے

خوف سے سہما ہوا، خطروں سے گھبرایا ہوا

اور سائے کی لکیروں کو سمجھتا ہے کہ ہیں

سرحدِ مرگ و حیات اس کے لیے!

ہاں یہی حال مرے دل کی تمناؤں کا ہے

پھر بھی تُو عشق سے مایوس نہ ہو

کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!

 

ہاں مرا عہدِ وفا ہے ابدی،

زندگی ان کے لیے ریت نہیں، دھوپ نہیں

ریت پر دھوپ میں گر لیٹتے ہیں آ کے نہنگ

قعرِ دریا ہی سے وابستہ ہے پیمان ان کا

ان کو لے آتا ہے ساحل پہ تنوع کا خمار

اور پھر ریت میں اک لذتِ آسودگی ہے!

میں جو سر مست نہنگوں کی طرح

اپنے جذبات کی شوریدہ سری سے مجبور

مضطرب رہتا ہوں مدہوشی و عشرت کے لیے

اور تری سادہ پرستش کی بجائے

مرتا ہوں تیری ہم آغوشی کی لذت کے لیے

میرے جذبات کو تو پھر بھی حقارت سے نہ دیکھ

اور مرے عشق سے مایوس نہ ہو

کہ مرا عہدِ وفا ہے ابدی!

 

دسمبر  شاعرِ درماندہ

 

زندگی تیرے لیے بسترِ سنجاب و سمور

اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری

عافیت کوشیِ آبا کے طفیل،

میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب

خستۂ فکرِ معاش!

پارۂ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم

میں، مرے دوست، مرے سینکڑوں اربابِ وطن

یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول!

تجھے اک شاعرِ درماندہ کی امید نہ تھی

مجھ سے جس روز ستارہ ترا وابستہ ہوا

تُو سمجھتی تھی کہ اک روز مرا ذہنِ رسا

اور مرے علم و ہنر

بحر و بر سے تری زینت کو گہر لائیں گے!

میرے رستے میں جو حائل ہوں مرے تیرہ نصیب

کیوں دعائیں تری بے کار نہ جائیں

تیرے راتوں کے سجود اور نیاز

(اس کا باعث مرا الحاد بھی ہے!)

 

اے مری شمعِ شبستانِ وفا،

بھول جا میرے لیے

زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے!

تجھے معلوم ہے مشرق کا خدا کوئی نہیں

اور اگر ہے، تو سرا پردۂ نسیان میں ہے

تُو ’مسرت‘ ہے مری، تو مری ’بیداری‘ ہے

مجھے آغوش میں لے

دو ’انا‘ مل کے جہاں سوز بنیں

اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تلاش

آپ ہی آپ ہویدا ہو جائے!

 

دسمبر  دریچے کے قریب

 

جاگ اے شمعِ شبستانِ وصال

محفلِ خواب کے اس فرشِ طرب ناک سے جاگ!

لذتِ شب سے ترا جسم ابھی چور سہی

آ مری جان، مرے پاس دریچے کے قریب

دیکھ کس پیار سے انوارِ سحر چومتے ہیں

مسجدِ شہر کے میناروں کو

جن کی رفعت سے مجھے

اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے!

 

سیمگوں ہاتھوں سے اے جان ذرا

کھول مَے رنگ جنوں خیز آنکھیں!

اسی مینار کو دیکھ

صبح کے نور سے شاداب سہی

اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے

اپنے بیکار خدا کی مانند

اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں

ایک افلاس کا مارا ہوا ملّائے حزیں

ایک عفریت____ اُداس

تین سو سال کی ذلت کا نشاں

ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی!

 

دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم

بے پناہ سَیل کے مانند رواں!

جیسے جنات بیابانوں میں

مشعلیں لے کر سرِ شام نکل آتے ہیں،

ان میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں

ایک دلہن سی بنی بیٹھی ہے

ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی خودی کی قندیل

لیکن اتنی بھی توانائی نہیں

بڑھ کے ان میں سے کوئی شعلۂ جوّالہ بنے!

ان میں مفلس بھی ہیں بیمار بھی ہیں

زیرِ افلاک مگر ظلم سہے جاتے ہیں!

 

ایک بوڑھا سا تھکا ماندہ سا رہوار ہوں میں!

بھوک کا شاہ سوار

سخت گیر اور تنومند بھی ہے؛

میں بھی اس شہر کے لوگوں کی طرح

ہر شبِ عیش گزر جانے پر

بہرِ جمع خس و خاشاک نکل جاتا ہوں

چرخِ گرداں ہے جہاں

شام کو پھر اسی کاشانے میں لوٹ آتا ہوں

بے بسی میری ذرا دیکھ کہ میں

مسجدِ شہر کے میناروں کو

اس دریچے میں سے پھر جھانکتا ہوں

جب انہیں عالمِ رخصت میں شفق چومتی ہے!​

مارچ 2

دسمبر 1 رقص

 

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں

ڈر سے لرزاں ہوں کہیں ایسا نہ ہو

رقص گہ کے چور دروازے سے آ کر زندگی

ڈھونڈ لے مجھ کو، نشاں پا لے مرا

اور جرم عیش کرتے دیکھ لے!

 

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

رقص کی یہ گردشیں

ایک مبہم آسیا کے دور ہیں

کیسی سرگرمی سے غم کو روندتا جاتا ہوں میں!

جی میں کہتا ہوں کہ ہاں،

رقص گہ میں زندگی کے جھانکنے سے پیشتر

کلفتوں کا سنگریزہ ایک بھی رہنے نہ پائے!

 

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

زندگی میرے لیے

ایک خونیں بھیڑیے سے کم نہیں

اے حسین و اجنبی عورت اسی کے ڈر سے میں

ہو رہا ہوں لمحہ لمحہ اور بھی تیرے قریب

جانتا ہوں تو مری جاں بھی نہیں

تجھ سے ملنے کا پھر امکاں بھی نہیں

تو مری ان آرزوؤں کی مگر تمثیل ہے

جو رہیں مجھ سے گریزاں آج تک!

 

اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے

عہدِ پارینہ کا میں انساں نہیں

بندگی سے اس در و دیوار کی

ہو چکی ہیں خواہشیں بے سوز و رنگ و ناتواں

جسم سے تیرے لپٹ سکتا تو ہوں

زندگی پر میں جھپٹ سکتا نہیں!

اس لیے اب تھام لے

اے حسین و اجنبی عورت مجھے اب تھام لے!

 

دسمبر 1 بیکراں رات کے سنّاٹے میں

 

تیرے بستر پہ مری جان کبھی

بے کراں رات کے سنّاٹے میں

جذبۂ شوق سے ہو جاتے ہیں اعضا مدہوش

اور لذّت کی گراں باری سے

ذہن بن جاتا ہے دلدل کسی ویرانے کی

اور کہیں اس کے قریب

نیند، آغازِ زمستاں کے پرندے کی طرح

خوف دل میں کسی موہوم شکاری کا لیے

اپنے پر تولتی ہے، چیختی ہے

بے کراں رات کے سنّاٹے میں!

 

تیرے بستر پہ مری جان کبھی

آرزوئیں ترے سینے کے کہستانوں میں

ظلم سہتے ہوئے حبشی کی طرح رینگتی ہیں!

 

ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے

تو مری جان نہیں

بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے

اور ترے ملک کے دشمن کا سپاہی ہوں مَیں

ایک مدّت سے جسے ایسی کوئی شب نہ ملی

کہ ذرا روح کو اپنی وہ سبک بار کرے!

بے پناہ عیش کے ہیجان کا ارماں لے کر

اپنے دستے سے کئی روز سے مفرور ہوں مَیں!

یہ مرے دل میں خیال آتا ہے

تیرے بستر پہ مری جان کبھی

بے کراں رات کے سنّاٹے میں!

 

دسمبر 1 شرابی

 

آج پھر جی بھر کے پی آیا ہوں میں

دیکھتے ہی تیری آنکھیں شعلہ ساماں ہو گئیں!

شکر کر اے جاں کہ میں

ہوں درِ افرنگ کا ادنیٰ غلام

صدرِ اعظم یعنی دریوزہ گرِ اعظم نہیں،

ورنہ اک جامِ شرابِ ارغواں

کیا بجھا سکتا تھا میرے سینۂ سوزاں کی آگ؟

غم سے مرجاتی نہ تُو

آج پی آتا جو میں

جامِ رنگیں کی بجائے

بے کسوں اور ناتوانوں کا لہو؟

شکر کر اے جاں کہ میں

ہوں درِ افرنگ کا ادنیٰ غلام!

اور بہتر عیش کے قابل نہیں!

جنوری 2

دسمبر 1 انتقام

 

اُس کا چہرہ، اُس کے خدّ و خال یاد آتے نہیں

اک شبستاں یاد ہے

اک برہنہ جسم آتش داں کے پاس

فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج

دھات اور پتھر کے بت

گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے!

اور آتش داں میں انگاروں کا شور

اُن بتوں کی بے حسی پر خشمگیں؛

اُجلی اُجلی اونچی دیواروں پہ عکس

اُن فرنگی حاکموں کی یادگار

جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں

سنگِ بنیادِ فرنگ!

 

اُس کا چہرہ اُس کے خدوخال یاد آتے نہیں

اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے

اجنبی عورت کا جسم،

میرے ’’ہونٹوں‘‘ نے لیا تھا رات بھر

جس سے اربابِ وطن کی بے بسی کا انتقام

وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!

 

 

 

اجنبی عورت

 

ایشیا کے دور افتادہ شبستانوں میں بھی

میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں!

کاش اک دیوارِ ظلم

میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو!

یہ عماراتِ قدیم

یہ خیاباں، یہ چمن، یہ لالہ زار،

چاندنی میں نوحہ خواں

اجنبی کے دستِ غارت گر سے ہیں

زندگی کے ان نہاں خانوں میں بھی

میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں!

 

کاش اک ’دیوارِ رنگ‘

میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو!

یہ سیہ پیکر برہنہ راہرو

یہ گھروں میں خوبصورت عورتوں کا زہرخند

یہ گزر گاہوں پہ دیو آسا جواں

جن کی آنکھوں میں گرسنہ آرزوؤں کی لپک

مشتعل، بے باک مزدوروں کا سیلابِ عظیم!

ارضِ مشرق، ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں

آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب

دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے

اُن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں!

 

 

 

خود کشی

 

کر چکا ہوں آج عزمِ آخری۔۔۔

شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں

چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں

صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند؛

رات کو جب گھر کا رخ کرتا تھا میں

تیرگی کو دیکھتا تھا سرنگوں

منہ بسورے، رہگزاروں سے لپٹتے، سوگوار

گھر پہنچتا تھا میں انسانوں سے اُکتایا ہوا

میرا عزمِ آخری یہ ہے کہ میں

کود جاؤں ساتویں منزل سے آج!

آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب!

آتا جاتا تھا بڑی مدت سے میں

ایک عشوہ ساز و ہرزہ کار محبوبہ کے پاس

اُس کے تختِ خواب کے نیچے مگر

آج میں نے دیکھ پایا ہے لہو

تازہ و رخشاں لہو،

بوئے مَے میں بوئے خوں الجھی ہوئی!

وہ ابھی تک خواب گہ میں لوٹ کر آئی نہیں

اور میں کر بھی چکا ہوں اپنا عزمِ آخری!

جی میں آئی ہے لگا دوں ایک بے باکانہ جست

اس دریچے میں سے جو

جھانکتا ہے ساتویں منزل سے کوئے بام کو!

 

شام سے پہلے ہی کر دیتا تھا میں

چاٹ کر دیوار کو نوکِ زباں سے ناتواں

صبح ہونے تک وہ ہو جاتی تھی دوبارہ بلند

آج تو آخر ہم آغوشِ زمیں ہو جائے گی!

٭٭٭

 

 

 

 

 

شبابِ گریزاں

 

مئے تازہ و ناب حاصل نہیں ہے

تو کر لوں گا دُزدِ تہِ جام پی کر گزارا!

 

مجھے ایک نورس کلی نے

یہ طعنہ دیا تھا:

تری عمر کا یہ تقاضا ہے

تو ایسے پھولوں کا بھونرا بنے

جن میں دوچار دن کی مہک رہ گئی ہو

 

یہ سچ ہے وہ تصویر،

جس کے سبھی رنگ دھندلا گئے ہوں

نئے رنگ اُس میں بھرے کون لا کر

نئے رنگ لائے کہاں سے ؟

 

ترے آسماں کا،

میں اک تازہ وارد ستارا سہی،

جانتا ہوں کہ، اس آسماں پر

بہت چاند، سورج، ستارے ابھر کر

جو اک بار ڈوبے تو ابھرے نہیں ہیں

فراموش گاری کے نیلے افق سے،

اُنہی کی طرح میں بھی

نا تجربہ کار انساں کی ہمت سے آگے بڑھا ہوں،

جو آگے بڑھا ہوں،

تو دل میں ہوس یہ نہیں ہے

کہ اب سے ہزاروں برس بعد کی داستانوں میں

زندہ ہو اک بار پھر نام میرا!

یہ شامِ دلآویز تو اک بہانہ ہے،

اک کوششِ ناتواں ہے

شبابِ گریزاں کو جاتے ہوئے روکنے کی

وگرنہ ہے کافی مجھے ایک پل کا سہارا،

ہوں اک تازہ وارد، مصیبت کا مارا

میں کر لوں گا دُزدِ تہ جام پی کر گزارا!

٭٭٭

 

 

 

 

حیلہ ساز

 

کئی تنہا برس گزرے

کہ اس وادی میں، ان سر سبز اونچے کوہساروں میں،

اٹھا لایا تھا میں اُس کو،

نظر آتا ہے گاڑی سے وہ سینے ٹوریم اب بھی

جہاں اُس سے ہوئی تھیں آخری باتیں:

’’تجھے اے جان، میری بے وفائی کا ہے غم اب بھی؟

محبت اُس بھکارن سے؟

وہ بے شک خوبصورت تھی،

مگر اُس سے محبت، آہ نا ممکن!

محبت گوشت کے اُس کہنہ و فرسودہ پیکر سے؟

ہوسناکی؟

’’میں اک بوسے کا مجرم ہوں

فقط اک تجربہ منظور تھا مجھ کو

کہ آیا مفلسی کتنا گرا دیتی ہے انساں کو!‘‘

 

نہ آیا اعتماد اُس کو مری اس حیلہ سازی پر،

بس اپنی ناتواں، دلدوز آنکھوں سے

پہاڑوں اور اُن پر تُند و سر افراختہ چیلوں کو وہ تکتی رہی پیہم:

’’یہ دیکھو ایک اونچے پیڑ کا ٹہنا

پہاڑی میں بنا لی اس نے اپنی راہ یوں جیسے

چٹان اس کے لیے کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی!‘‘

 

زمانے بھر پہ تاریکی سی چھائی ہے

مگر وہ یاد کے روزن سے آتی ہے نظر اب بھی

مجھے بھولی نہیں وہ بے بسی اُس کی نگاہوں کی

اور اُس کی آخری باتیں ہیں یاد اب تک!

 

مگر میں اس لیے تازہ افق کی جستجو میں ہوں

کہ اُس کی یاد تک روپوش ہو جائے؟

٭٭٭

 

 

 

کشاکش

 

شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،

تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،

اڑ گئی اوس کی مانند ہر انگڑائی بھی!

اور ترا دل تو بس اک حجلۂ تاریکی ہے،

جس میں کام آ نہیں سکتی مری بینائی بھی!

 

یہ تجسس مجھے کیوں ہے کہ سحَر کے ہنگام

کون اٹھّا ترے آغوش سے سرمست جوانی لے کر:

کیا وہ اس شہر کا سب سے بڑا سوداگر تھا؟

(تیرے پاؤں میں ہے زنجیر طلائی جس کی)

یا فرنگی کا گرانڈیل سپاہی تھا کوئی؟

(جن سے یہ شہر ابلتا ہوا ناسور بنا جاتا ہے)

یا کوئی دوست، شب و روز کی محنت کا شریک؟

(میرے ہی شوق نے ترغیب دلائی ہو جسے!)

یہ تجسس مجھے کیوں ہے آخر،

جبکہ خود میرے لیے دور نہ تھا، دور نہیں،

کہ میں چاہوں تو ترے جسم کے خم خانوں کا محرم بن جاؤں؟

 

جس کی قسمت میں کوئی موجِ تبسم بھی نہ ہو،

قہقہوں کا اُسے ذخّار سمندر مل جائے،

مبتلا کیوں نہ وہ اوہام کے اس دام میں ہو،

کہ وہی ایک وہی ہے تری ہستی پہ محیط،

اور تُو عہدِ گزشتہ کی طرح

کارواں ہائے تمنا کی گزرگاہ نہیں!

شبِ دو شینہ کے آثار کہیں بھی تو نہیں،

تیری آنکھوں میں، نہ ہونٹوں پہ، نہ رخساروں پر،

اور نمودار بھی ہو جائیں تو کیا،

آگہی ہو بھی، تو حاصل نہیں کچھ اس کے سوا

کہ غمِ عشق چراغِ تہِ داماں ہو جائے،

زندگی اور پریشاں ہو جائے!

٭٭٭

 

 

 

 

خرابے

 

اک تمنا تھی کہ میں

اک نیا گھر، نئی منزل کہیں آباد کروں،

کہ مرا پہلا مکاں

جس کی تعمیر میں گزرے تھے مرے سات برس

اک کھنڈر بنتا چلا جاتا تھا

یہ تمنا تھی کہ شوریدہ سری

خشت اور سنگ کے انبار لگاتی ہی رہے

روز و شب ذہن میں بنتے ہی رہیں

دَر و دیوار کے خوش رنگ نقوش!

مجھ کو تخیل کے صحرا میں لیے پھرتا تھا

ایک آفت زدہ دیوانے کا جوش،

لے گئے میرے قدم آخرِ کار

ایک دن اپنے نئے گھر میں مجھے

خیر مقدم کو تھیں موجود جہاں

میری گل چہرہ کنیزیں، مرے دل شاد غلام،

دیکھ کر اپنی تمناؤں کی شادابی کو

میرے اندیشے کی دہلیز سے معدوم ہوئے

میرے ماضی کے سیہ تاب، الم ناک نشاں!

 

یہ مگر کیا تھا؟ خیالات تھے، اوہام تھے دیوانے کے

نہ وہ گل چہرہ کنیزیں تھیں، نہ دل شاد غلام

در و دیوار کے وہ نقش، نہ دیواریں تھیں

سنگ اور خشت کے ڈھیروں پہ تھا کائی کا نزول

اور وہ ڈھیر بھی موجود نہ تھے!

کھل گئے تھے کسی آئندہ کی بیداری میں

میرے خود ساختہ خواب

میں اُسی پہلے خرابے کے کنارے تھا نگوں

جس سے شیون کی شب و روز صدا آتی ہے!

 

کس لیے ہے مری محرومی کی حاسد اب بھی

کسی منحوس ستارے کی غضب ناک نگاہ

اور اِدھر بندۂ بدبخت کی تنہائی کا یہ رنگ ۔۔ کہ وہ

اور بھی تیرہ و غمناک ہوئی جاتی ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

داشتہ

 

میں ترے خندۂ بے باک سے پہچان گیا

کہ تری روح کو کھاتا سا چلا جاتا ہے،

کھوکھلا کرتا چلا جاتا ہے، کوئی المِ زہرہ گداز

میں تو اس پہلی ملاقات میں یہ جان گیا!

آج یہ دیکھ کے حیرت نہ ہوئی

کہ تری آنکھوں سے چپ چاپ برسنے لگے اشکوں کے سحاب؛

اس پہ حیرت تو نہیں تھی، لیکن

کسی ویرانے میں سمٹے ہوئے خوابیدہ پرندے کی طرح

ایک مبہم سا خیال

دفعتاً ذہن کے گوشے میں ہوا بال فشاں:

کہ تجھے میری تمنا تو نہیں ہو سکتی

آج، لیکن مری باہوں کے سہارے کی تمنا ہے ضرور،

یہ ترے گریۂ غمناک سے میں جان گیا

 

تجھ سے وابستگیِ شوق بھی ہے،

ہو چلی سینے میں بیدار وہ دل سوزی بھی

مجھ سے مہجورِ ازل جس پہ ہیں مجبورِ ازل!

نفسِ خود بیں کی تسلی کے لیے

وہ سہارا بھی تجھے دینے پہ آمادہ ہوں

تجھے اندوہ کی دلدل سے جو آزاد کرے

کوئی اندیشہ اگر ہے تو یہی

تیرے ان اشکوں میں اک لمحے کی نومیدی کا پرتو ہو تو کہیں،

اور جب وقت کی امواج کو ساحل مل جائے

یہ سہارا تری رسوائی کا اک اور بہانہ بن جائے!

جس طرح شہر کا وہ سب سے بڑا مردِ لئیم

جسم کی مزدِ شبانہ دے کر

بن کے رازق تری تذلیل کیے جاتا ہے

میں بھی باہوں کا سہارا دے کر۔۔۔

تیری آئندہ کی توہین کا مجرم بن جاؤں!​

٭٭٭

 

 

 

 

سرگوشیاں

 

 

’’پھر آج شام گاہ سرِ رہگزر اُسے

دیکھا ہے اس کے دوشِ حسیں پر جھکے ہوئے!‘‘

’’یارو وہ ہرزہ گرد،

ہے کسبِ روزگار میں اپنا شریکِ کار،

راتوں کو اُس کی راہگزاروں پہ گردشیں

اور میکدوں میں چھپ کے مے آشامیِ طویل

رسوائیوں کی کوئی زمانے میں حد بھی ہے!‘‘

’’یہ غصہ رائیگاں ہے، ہمیں تو ہے یہ گلہ

وارفتہ کیوں اُسی کے لیے ہے وہ عشوہ ساز

کیوں اتنی دلکشی بھی خدا نے نہ دی ہمیں

تسخیر اُس کا خندۂ بے باک کر سکیں؟‘‘

 

’’اب تو کسی نوید کا امکان ہی نہیں

جب اُس کا، دل کی آرزوؤں کے حصول تک،

ایک اپنے یارِ غار سے ہے ربطِ شرمناک

اک رشتۂ ذلیل‘‘

 

’’یہ اُس کی شاطری ہے، کہ ’زلفِ عجم‘ کا دام؟‘‘

’’کچھ بھی ہو، اس میں شائبۂ شاعری نہیں

برسوں کا ایک ترسا ہوا شخص جان کر

پہچانتی ہے دور سے عورت کی بُو اُسے‘‘

 

’’اور کررہا ہے اس کا نصیبہ بھی یاوری!‘‘

’’اس رشکِ بے بسی سے مرے دوست، فائدہ؟

ہے کچھ تو اپنا زور گریباں کے چاک پر!

حاصل نہیں ہے ہم کو اگر وہ شرابِ ناب

تو بام و در کی شہر میں کوئی کمی نہیں

دو ’پول‘ ایک پیکرِ یخ بستہ، ایک رات!‘‘​

٭٭٭

 

 

 

 

رقص کی رات

 

رقص کی رات کسی غمزۂ عریاں کی کرن

اس لیے بن نہ سکی راہِ تمنا کی دلیل

کہ ابھی دور کسی دیس میں اک ننھا چراغ

جس سے تنویر مرے سینۂ غمناک میں ہے

ٹمٹماتا ہے اس اندیشے میں شاید کہ سحر ہو جائے

اور کوئی لوٹ کے آ ہی نہ سکے!

 

رقص کی رات کوئی دَورِ طرب

بن نہ سکتا تھا ستاروں کی خدائی گردش؟

محورِ حال بھی ہو، جادۂ آئندہ بھی

اور دونوں میں وہ پیوستگیِ شوق بھی ہو

جو کبھی ساحل و دریا میں نہ تھی،

پھر بھی حائل رہے یوں بُعدِ عظیم

لب ہلیں اور سخن آغاز نہ ہو

ہاتھ بڑھ جائیں مگر لامسہ بے جان رہے؟

 

تجھے معلوم نہیں،

اب بھی ہر صبح دریچے میں سے یوں جھانکتا ہوں

جیسے ٹوٹے ہوئے تختے سے کوئی تِیرہ نصیب

سخت طوفان میں حسرت سے افق کو دیکھے:

____کاش ابھر آئے کہیں سے وہ سفینہ جو مجھے

اس غمِ مرگِ تہِ آب سے آزاد کرے____

رقص کی شب کی ملاقات سے اتنا تو ہوا

دامنِ زیست سے میں آج بھی وابستہ ہوں،

لیکن اس تختۂ نازک سے یہ امید کہاں

کہ یہ چشم و لبِ ساحل کو کبھی چوم سکے!​

٭٭٭

 

 

 

 

آواز

 

 

۔۔۔ یہ دلّی ہے

اپنے غریب الوطن بھائیوں کے لیے

ہار غزلوں کے لائی ہے ان کی بہن

اور گیتوں کے گجرے بنا کر:

’’چھما چھم چھما چھم دلہنیا چلی رے‘‘

’’یہ دنیا ہے طوفان میل‘‘

’’اے مدینے کے عربی جواں‘‘

’’تیری زلفیں ہمیں ڈس گئیں ناگ بن کر___‘‘

مگر اس صدا سے بڑا ناگ ممکن ہے

جو لے گیا ایک پل میں

ہزاروں کو غارِ فراموش گاری

میں یوں کھینچ کر ساتھ اپنے

کہ صدیاں گزرنے پر اُن کی

سیہ ہڈیوں بھی نہ شاید ملیں گی؟

 

جہاں سے یہ آواز آئی

اُسی سرزمیں میں،

سمندر کے ساحل پہ، لاکھوں گھروں میں

دیے ٹمٹمانے لگے

اور اک دوسرے سے

بہت دھیمی سرگوشیوں میں

یہ کہنے لگے:

’’لو سنو، اب سحر ہونے والی ہے لیکن

مسافر کی اب تک خبر بھی نہیں ہے!‘‘​

٭٭٭

 

 

 

دوری

 

 

مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،

تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تُو،

وہ پہلی شبِ مہ شبِ ماہِ دو نیم بن جائے گی

جس طرح سازِ کہنہ کے تارِ شکستہ کے دونوں سرے

دو افق کے کناروں کے مانند

بس دور ہی دور سے تھرتھراتے ہیں اور پاس آتے نہیں ہیں

نہ وہ راز کی بات ہونٹوں پہ لاتے ہیں

جس نے مغنّی کو دورِ زماں و مکاں سے نکالا تھا،

بخشی تھی خوابِ ابد سے رہائی!

 

یہ سچ ہے تو پھر کیوں

کوئی ایسی صورت، کوئی ایسا حیلہ نہ تھا

جس سے ہم آنے والے زمانے کی آہٹ کو سن کر

وہیں اُس کی یورش کو سینوں پہ یوں روک لیتے:

کہ ہم تیری منزل نہیں، تیرا ملجا و ماویٰ نہیں ہیں؟

 

یہ سوچا تھا شاید

کہ خود پہلے اس بُعد کے آفرینندہ بن جائیں گے

(اب جو اِک بحرِ خمیازہ کش بن گیا ہے!)

تو پھر از سرِ نَو مسرت سے، نورس نئی فاتحانہ مسرت سے

پائیں گے بھولی ہوئی زندگی کو،

وہی خود فریبی، وہی اشک شوئی کا ادنیٰ بہانہ!

 

مگر اب وہی بُعد سرگوشیاں کر رہا ہے:

کہ تُو اپنی منزل کو واپس نہیں جا سکے گا،

نہیں جا سکے گا۔۔۔

مجھے موت آئے گی، مر جاؤں گا میں،

تجھے موت آئے گی، مر جائے گی تُو

یہ عفریت پہلے ہزیمت اٹھائے گا، مٹ جائے گا!​

٭٭٭

 

 

 

 

 

زنجیر

 

گوشۂ زنجیر میں

اک نئی جنبش ہویدا ہو چلی،

سنگِ خارا ہی سہی، خارِ مغیلاں ہی سہی،

دشمنِ جاں، دشمنِ جاں ہی سہی،

دوست سے دست و گریباں ہی سہی

یہ بھی تو شبنم نہیں___

یہ بھی تو مخمل نہیں، دیبا نہیں، ریشم نہیں___

ہر جگہ پھر سینۂ نخچیر میں

اک نیا ارماں، نئی امید پیدا ہو چلی،

حجلۂ سیمیں سے تو بھی پیلۂ ریشم نکل،

وہ حسیں اور دور افتادہ فرنگی عورتیں

تو نے جن کے حسنِ روز افزوں کی زینت کے لیے

سالہا بے دست و پا ہو کر بُنے ہیں تار ہائے سیم و زر

اُن کے مردوں کے لیے بھی آج اک سنگین جال

ہو سکے تو اپنے پیکر سے نکال!

 

سُکر ہے دنبالۂ زنجیر میں

اک نئی جنبش، نئی لرزش ہویدا ہو چلی

کوہساروں، ریگزاروں سے صدا آنے لگی:

ظلم پروردہ غلامو! بھاگ جاؤ

پردۂ شب گیر میں اپنے سلاسل توڑ کر،

چار سُو چھائے ہوئے ظلمات کو اب چیر جاؤ

اور اس ہنگامِ باد آورد کو

حیلۂ شب خوں بناؤ!​

٭٭٭

 

 

 

 

 

سومنات

 

نئے سرے سے غضب کی سج کر

عجوزۂ سومنات نکلی،

مگر ستم پیشہ غزنوی

اپنے حجلۂ خاک میں ہے خنداں____

وہ سوچتا ہے:

’’بھری جوانی سہاگ لوٹا تھا میں نے اِس کا،

مگر مرا ہاتھ

اس کی روحِ عظیم پر بڑھ نہیں سکا تھا‘‘،

اور اب فرنگی یہ کہہ رہا ہے:

’’کہ آؤ آؤ اس ہڈیوں کے ڈھانچے کو

جس کے مالک تمھیں ہو

ہم مل کے نورِ کمخواب سے سجائیں!‘‘

وہ جانتا ہے،

وہ نورِ کمخواب چین و ما چین میں نہیں ہے

کہ جس کی کرنوں میں

ایسا آہنگ ہو کہ گویا

وہی ہو ستّارِ عیب بھی

اور پردۂ ساز بھی وہی ہو!

 

عجوزۂ سومنات کے اس جلوس میں ہیں

عقیم صدیوں کا علم لادے ہوئے برہمن

جو اک نئے سامراج کے خواب دیکھتے ہیں

اور اپنی توندوں کے بل پہ چلتے ہوئے مہاجن

حصولِ دولت کی آرزو میں بہ جبر عریاں،

جو سامری کے فسوں کی قاتل حشیش پی کر

ہیں رہگزاروں میں آج پا کوب و مست و غلطاں

دف و دہل کی صدائے دلدوز پر خروشاں!

کسی جزیرے کی کور وادی کے

وحشیوں سے بھی بڑھ کے وحشی،

کہ اُن کے ہونٹوں سے خوں کی رالیں ٹپک رہی ہیں

اور اُن کے سینوں پہ کاسۂ سر لٹک رہے ہیں

جو بن کے تاریخ کی زبانیں

سنا رہے ہیں فسانۂ صد ہزار انساں!

اور اُن کے پیچھے لڑھکتے، لنگڑاتے آ رہے ہیں

کچھ اشتراکی،

کچھ اُن کے احساں شناس مُلّا

بجھا چکے ہیں جو اپنے سینے کی شمعِ ایقاں!

مگر سرِ راہ تک رہے ہیں

کبھی تو دہشت زدہ نگاہوں سے

اور کبھی یاسِ جاں گزا سے

غریب و افسردہ دل مسلماں،

جو سوچتے ہیں،

کہ ’’اے خدا

آج اپنے آبا کی سر زمیں میں

ہم اجنبی ہیں،

ہدف ہیں نفرت کے ناوکِ تیز و جانستاں کے!

 

منو کے آئین کا ظلم سہتے ہوئے ہریجن

کہ جن کا سایہ بھی برہمن کے لیے

ہے دزدِ شبِ زمستاں‘‘

وہ سوچتے ہیں:

’’کہیں یہ ممکن ہے:

بیچ ڈالے گا

ہم کو بردہ فروشِ افرنگ

اب اسی برہمن کے ہاتھوں

کہ جس کی صدیوں پرانے سیسے سے

آج بھی کور و کر ہیں سب ہم!

جو اَب بھی چاہے

تو روک لے ہم سے نورِ عرفاں!‘‘

ستم رسیدہ نحیف و دہقاں

بھی اس تماشے کو تک رہا ہے،

اُسے خبر بھی نہیں کہ آقا بدل رہے ہیں

وہ اس تماشے کو

طفلِ کمسن کی حیرتِ تابناک سے محض دیکھتا ہے!

جلوس وحشی کی آز سے

سب کو اپنی جانب بلا رہا ہے

کہ ’’ربّۂ سومنات کی بارگاہ میں آ کے سر جھکاؤ!‘‘

 

مگر وہ حسِ ازل

جو حیواں کو بھی میسر ہے

سب تماشائیوں سے کہتی ہے:

’’اس سے آگے اجل ہے

بس مرگِ لم یزل ہے!‘‘

اسی لیے وہ کنارِ جادہ پر ایستادہ ہیں، دیکھتے ہیں!​

٭٭٭

 

 

 

 

 

ویران کشید گاہیں

 

مَری کی ویراں کشید گاہوں میں

اُس فتیلے کو ڈھونڈتا ہوں

جو شیشہ و جام و دستِ ساقی کی منزلوں سے

گزر کے جب بھی بڑھا ہے آگے

تو اُس کے اکثر غموں سے اُجڑے ہوئے دماغوں

کے تیرہ گوشے

اَنا کی شمعوں کی روشنی سے جھلک اٹھے ہیں!

 

میں اس فتیلے کے اس سرے پر،

کھڑا ہوں، مجذوب کی نظر سے

مَری کی ویراں کشید گاہوں میں جھانکتا ہوں!

میں کامگاری کے انتہائی سرور سے کانپنے لگا ہوں

جہان بھر کے عظیم سیاح دیر تک یہ خبر نہ لائے

کہ نیل،

جو بے شمار صدیوں سے،

مصر کے خشک ریگزاروں کو،

رنگ و نغمہ سے بھر رہا تھا

کہاں سے ہوتی تھی اس کی تقدیر کی روپہلی سحر ہویدا؟

میں آج ایسے ہی نیل کی وسعتوں

کی دہلیز پر کھڑا ہوں!

کھنڈر جو صبحِ ازل کی مانند

ایستادہ ہیں،

اِس یقیں سے،

کہ ابتدا ہی اگر ہیولائے انتہا ہے

تو انتہا بھی کبھی وہی نقطہ بن گئی ہے،

جہاں سے سالک ہو اوّلیں بار جادہ پیما!

کھنڈر جو صبحِ ازل کی مانند دیکھتے ہیں،

یہ دیکھ کر مضمحل نہیں ہیں،

کہ اُن کے آغوش کے فتیلے کی روشنی

سرد پڑ چکی ہے

وہ اس فتیلے کی

سرکشی کو بھی جانتے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

نمرود کی خدائی

 

یہ قدسیوں کی زمیں​

جہاں فلسفی نے دیکھا تھا، اپنے خوابِ سحر گہی میں،​

ہوائے تازہ و کشتِ شاداب و چشمۂ جانفروز کی آرزو کا پرتو!​

یہیں مسافر پہنچ کے اب سوچنے لگا ہے:​

’’وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟​

___وہ خواب کابوس تو نہیں تھا؟‘‘​

اے فلسفہ گو،​

کہاں وہ رویائے آسمانی!​

کہاں یہ نمرود کی خدائی!​

تو جال بنتا رہا ہے، جن کے شکستہ تاروں سے اپنے موہوم فلسفے کے​

ہم اُس یقیں سے، ہم اُس عمل سے، ہم اُس محبت سے،​

آج مایوس ہو چکے ہیں!​

 

کوئی یہ کس سے کہے کہ آخر​

گواہ کس عدلِ بے بہا کے تھے عہدِ تاتار کے خرابے؟​

عجم، وہ مرزِ طلسم و رنگ و خیال و نغمہ​

عرب، وہ اقلیمِ شیر و شہد و شراب و خرما​

فقط نوا سنج تھے در و بام کے زیاں کے،​

جو اُن پہ گزری تھی​

اُس سے بدتر دنوں کے ہم صیدِ ناتواں ہیں!​

 

کوئی یہ کس سے کہے:​

در و بام،​

آہن و چوب و سنگ و سیماں کے​

حُسنِ پیوند کا فسوں تھے​

بکھر گیا وہ فسوں تو کیا غم؟​

اور ایسے پیوند سے امیدِ وفا کسے تھی!​

 

شکستِ مینا و جام برحق،​

شکستِ رنگ عذارِ محبوب بھی گوارا​

مگر__ یہاں تو کھنڈر دلوں کے،​

(____یہ نوعِ انساں کی​

کہکشاں سے بلند و برتر طلب کے اُجڑے ہوئے مدائن____)​

شکستِ آہنگ حرف و معنی کے نوحہ گر ہیں!​

٭٭٭

 

 

 

 

ایک شہر

 

یہ سب سے نیا، اور سب سے بڑا اور نایاب شہر

یہاں آ کے رکتے ہیں سارے جہاں کے جہاز

یہاں ہفت اقلیم کے ایلچی آ کے گزرانتے ہیں نیاز

درآمد برآمد کے لاریب چشموں سے شاداب شہر

یہ گلہائے شبّو کی مہکوں سے، محفل کی شمعوں سے، شب تاب شہر

یہ اک بسترِ خواب شہر

دیبا و سنجاب شہر!

 

یہاں ہیں عوام اپنے فرماں روا کی محبت میں سرشار

بطبیب دلی، قیدِ زنجیر و بند سلاسل کے ارماں کے ہاتھوں گرفتار

دیوانہ وار!

یہاں فکر و اظہار کی حریت کی وہ دولت لٹائی گئی

کہ اب سیم و زر اور لعل و گہر کی بجائے

بس الفاظ و معنی سے

اہل قلم کے، خطیبوں کے، اُجڑے خزانے ہیں معمور

خیالات کا ہے صنم خانۂ نقش گر میں وفور

مغنّی ہے فن کی محبت میں چُور

سلاخوں کے پیچھے فقط چند شوریدہ سر بے شعور!

 

مسافت یہاں صدر سے تابہ نعلین بس ایک دو گام

یہاں میزبان اور مہمان ہیں، ایک ہی شہد کے جام سے شاد کام

اگر ہیں برہنہ سرِ عام تو سب برہنہ

کہ یہ شہر ہے، عدل و انصاف میں

اور مساوات میں

اور اخوّت میں

مانندِ حمام!

یہاں تخت و دیہیم ہوں یا کلاہِ گلیم

ہے سب کا وہی ایک ربِّ کریم!

٭٭٭

 

 

 

 

اِنقلابی

 

’’مورّخ، مزاروں کے بستر کا بارِ گراں،

عروس اُس کی نا رس تمناؤں کے سوز سے

آہ بر لب

جدائی کی دہلیز پر، زلف در خاک، نوحہ کناں!

یہ ہنگام تھا، جب ترے دل نے اس غمزدہ سے

کہا: ’’لاؤ، اب لاؤ، دریوزۂ غمزۂ جانستاں!‘‘

 

مگر خواہشیں اشہبِ باد پیما نہیں،

جو ہوں بھی تو کیا

کہ جولاں گہِ وقت میں کس نے پایا ہے

کس کا نشاں؟

 

یہ تاریخ کے ساتھ چشمک کا ہنگام تھا؟

یہ مانا تجھے یہ گوارا نہ تھا،

کہ تاریخ دانوں کے دامِ محبت میں پھنس کر

اندھیروں کی روحِ رواں کو اُجالا کہیں

مگر پھر بھی تاریخ کے ساتھ

چشمک کا یہ کون ہنگام تھا؟

 

جو آنکھوں میں اُس وقت آنسو نہ ہوتے،

تو یہ مضطرب جاں،

یہ ہر تازہ و نو بہ نو رنگ کی دل ربا،

تری اس پذیرائیِ چشم و لب سے

وفا کے سنہرے جزیروں کی شہزاد ہوتی،

ترے ساتھ منزل بہ منزل رواں و دواں!

اسے اپنے ہی زلف و گیسو کے دامِ ازل سے

رہائی تو ملتی،

 

مگر تو نے دیکھا بھی تھا

دیوِ تاتار کا حجرۂ تار

جس کی طرف تو اسے کر رہا تھا اشارے،

جہاں بام و در میں کوئی روزن نہیں ہے

جہاں چار سو باد و طوفاں کے مارے ہوئے راہ گیروں

کے لیے بے انتہا استخواں ایسے بکھرے پڑے ہیں

ابد تک نہ آنکھوں میں آنسو، نہ لب پر فغاں؟

٭٭٭

 

 

 

 

سوغات

 

زندگی ہیزمِ تنّورِ شکم ہی تو نہیں

پارۂ نانِ شبینہ کا ستم ہی تو نہیں

ہوسِ دام و درم ہی تو نہیں

سیم و زر کی جو وہ سوغات صبا لائی تھی

ہم سہی کاہ، مگر کاہ ربا ہو نہ سکی

دردمندوں کی خدا ہو نہ سکی

آرزو ہدیۂ اربابِ کرم ہی تو نہیں!

 

ہم نے مانا کہ ہیں جاروب کشِ قصرِ حرم

کچھ وہ احباب جو خاکسترِ زنداں نہ بنے

شبِ تاریکِ وفا کے مہِ تاباں نہ بنے

کچھ وہ ا حباب بھی ہیں جن کے لیے

حیلۂ امن ہے خود ساختہ خوابوں کا فسوں

کچھ وہ احباب بھی ہیں، جن کے قدم

راہ پیما تو رہے، راہ شناسا نہ ہوئے

غم کے ماروں کا سہارا نہ ہوئے!

 

کچھ وہ مردانِ جنوں پیشہ بھی ہیں جن کے لیے

زندگی غیر کا بخشا ہوا سم ہی تو نہیں

آتشِ دَیر و حرم ہی تو نہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

ظلم رنگ

 

"یہ میں ہوں!”

"اور یہ میں ہوں!”۔۔۔

یہ دو میں ایک سیمِ نیلگوں کے ساتھ آویزاں

ہیں شرق و غرب کے مانند،

لیکن مِل نہیں سکتے!

صدائیں رنگ سے نا آشنا

اک تار اُن کے درمیاں حائل!

مگر وہ ہاتھ جن کا بخت،

مشرق کے جواں سورج کی تابانی

کبھی ان نرم و نازک، برف پروردہ حسیں باہوں

کو چھو جائیں،

محبت کی کمیں گاہوں کو چھو جائیں___

یہ نا ممکن! یہ ناممکن!

کہ "ظلم رنگ” کی دیوار ان کے درمیاں حائل!

"یہ میں ہوں!”

"اور یہ میں ہوں!”

اَنا کے زخمِ خوں آلودہ، ہر پردے میں،

ہر پوشاک میں عریاں،

یہ زخم ایسے ہیں جو اشکِ ریا سے سل نہیں سکتے

کسی سوچے ہوئے حرفِ وفا سے سِل نہیں سکتے!

٭٭٭

 

 

 

 

طلسمِ ازل

 

مجھے پھر طلسمِ ازل نے

نئی صبح کے نور میں نیم وا،

شرم آگیں دریچے سے جھانکا!

میں اس شہر میں بھی،

جہاں کوئے و برزن میں بکھرے ہوئے

حُسن و رقص و مَے و نور و نغمہ

اُسی نقشِ صد رنگ کے خطّ و محراب ہیں، تار و پو ہیں،

کہ صدیوں سے جس کے لیے

نوعِ انساں کا دل، کان، آنکھیں،

سب آوارۂ جستجو ہیں،

میں اس شہر میں تھا پریشان و تنہا!

 

یہاں زندگی ہے اک آہنگِ تازہ،

مسلسل، مگر پھر بھی تازہ

یہاں زندگی لمحہ لمحہ، نئے، دم بہ دم تیز تر

جوش سے گامزن ہے،

یہاں وہ سکوں، جس کے گہوارۂ نرم و نازک

میں پلتے ہیں ہم ایشیائی

فقط دور ہی دور سے خندہ زن ہے،

مگر میں اسی شہر میں تھا پریشان و غمگین و تنہا!

 

پریشان و غمگین و تنہا

کہ ہم ایشیائی

جو صدیوں سے ہیں خوابِ تمکیں کے رسیا

یہ کہتے رہے ہیں:

ہمارا لہو زخمِ افرنگ کی مومیائی

ہمارے ہی دم سے جلالِ شہی، فرّۂ کبریائی!

پریشان و غمگین و تنہا

کہ ہم تابکے اپنے اوہامِ کہنہ کے دلبند بن کر،

یونہی عافیت کی پُر اسرار لذت کے آغوش سے

زہرِ تقدیر پیتے رہیں گے

ابھی اور کَے سال دریوزہ گر بن کے جیتے رہیں گے!

 

اسی سوچ میں تھا کہ مجھ کو

طلسمِ ازل نے نئی صبح کے نور میں نیم وا،

شرم آگیں دریچے سے جھانکا ____

مگر اس طرح، ایک چشمک میں جیسے

ہمالہ میں الوند کے سینۂ آہنی سے

محبت کا اک بے کراں سَیل بہنے لگا ہو

اور اس سَیل میں سب ازل اور ابد مل گئے ہوں!

٭٭٭

 

 

 

 

سبا ویراں

 

سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں

سبا ویراں، سبا آسیب کا مسکن

سبا آلام کا انبارِ بے پایاں!

گیاہ و سبزہ و گُل سے جہاں خالی

ہوائیں تشنۂ باراں،

طیور اِس دشت کے منقار زیرِ پر

تو سرمہ در گلو انساں

سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں!

سلیماں سر بزانو، تُرش رو، غمگیں، پریشاں مُو

جہانگیری، جہانبانی، فقط طرارۂ آہو،

محبت شعلۂ پرّاں، ہوس بوئے گُلِ بے بُو

ز رازِ دہرِ کمتر گو!

سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں

کسی عیّار کے غارت گروں کے نقشِ پا باقی

سبا باقی، نہ مہروئے سبا باقی!

سلیماں سر بہ زانو،

اب کہاں سے قاصدِ فرخندہ پے آئے؟

کہاں سے، کس سبو سے کاسۂ پیری میں مَے آئے؟

٭٭٭

 

 

 

 

سایہ

 

کسی خواب آلودہ سائے کا پیکر

کہاں تک ترے گوش شِنوا، تری چشمِ بینا، ترے قلبِ دانا

کا ملجا و ماویٰ بنے گا؟

تجھے آج سائے کے ہونٹوں سے حکمت کی باتیں گوارا،

تجھے آج سائے کے آغوش میں شعر و نغمہ کی راتیں گوارا،

گوارا ہیں اُس زندگی سے کہ جس میں کئی کارواں راہ پیما رہے ہیں!

مگر کل ترے لب پہ پہلی سی آہوں کی لپٹیں اٹھیں گی،

ترا دل اُنہی کاروانوں کو ڈھونڈے گا،

اُن کو پکارے گا،

جو جسم کی چشمہ گاہوں پر رکتے ہیں آ کر

جنھیں سیریِ جاں کی پوشیدہ راہوں کی ساری خبر ہے!

 

یہ تسلیم، سائے نے تجھ کو

وہ پہنائیاں دیں

افق سے بلند اور بالا

جو تیری نگاہوں کے مرئی حجابوں میں پنہاں رہی تھیں،

وہ اسرار تجھ پر ہویدا کیے، جن کا ارماں

فلاطوں سے اقبال تک سب کے سینوں کی دولت رہا ہے؛

وہ اشعار تجھ کو سنائے، جو حاصل ہیں ورجل سے لے کر

سبک مایہ راشد کے سوزِ دروں کا

کہ تُو بھول جائے وہ صرصر، وہ گرداب جن میں

تری زندگی واژگوں تھی،

تری زندگی خاک و خوں تھی!

تُو اسرار و اشعار سنتی رہی ہے،

مگر دل ہی دل میں تُو ہنستی رہی ہے

تو سیّال پیکر سے، سائے سے، غم کے کنائے سے کیا پا سکے گی؟

جب اس کے ورا، اس سے زندہ توانا بدن

رنگ و لذت کے مخزن، ہزاروں،

تمنا کے مامن ہزاروں!

 

کبھی خواب آلودہ سائے کی مہجور و غم دیدہ آنکھیں

ترے خشک مژگاں کو رنجور و نم دیدہ کرتی رہی ہیں

تو پھر بھی تُو ہنستی رہی ہے!

​٭٭٭

 

 

 

 

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

 

لب بیاباں، بوسے بے جاں

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

جسم کی یہ کار گاہیں

جن کا ہیزم آپ بن جاتے ہیں ہم!

نیم شب اور شہر خواب آلودہ، ہم سائے

کہ جیسے دزدِ شب گرداں کوئی!

شام سے تھے حسرتوں کے بندۂ بے دام ہم

پی رہے تھے جام پر ہر جام ہم

یہ سمجھ کر، جرعۂ پنہاں کوئی

شاید آخر، ابتدائے راز کا ایما بنے!

 

مطلب آساں، حرف بے معنی

تبسّم کے حسابی زاو یے

متن کے سب حاشیے،

جن سے عیشِ خام کے نقشِ ریا بنتے رہے!

اور آخر بعُد جسموں میں سرِ مُو بھی نہ تھا

جب دلوں کے درمیاں حائل تھے سنگیں فاصلے

قربِ چشم و گوش سے ہم کونسی الجھن کو سلجھاتے رہے!

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

شام کو جب اپنی غم گاہوں سے دزدانہ نکل آتے ہیں ہم؟

زندگی کو تنگنائے تازہ تر کی جستجو

یا زوالِ عمر کا دیِو سبک پا رُو برُو

یا انا کے دست و پا کو وسعتوں کی آرزو

کونسی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم؟

٭٭٭

 

 

 

خود سے ہم دُور نکل آئے ہیں

 

میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی تھی

سالہا دشت نوردوں سے، جہاں گردوں سے

اپنا ہی عکسِ رواں تھی گویا

کوئی روئے گزراں تھی گویا

ایک محرومیِ دیرینہ سے شاداب تھے

آلام کے اشجار وہاں

برگ و بار اُن کا وہ پامال امیدیں جن سے

پرسیِ افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں،

کبھی ارمانوں کے آوارہ، سراسیمہ طیور

کسی نادیدہ شکاری کی صدا سے ڈر کر

ان کی شاخوں میں اماں پاتے تھے، سستاتے تھے،

اور کبھی شوق کے ویرانوں کو اڑ جاتے تھے،

شوق، بے آب و گیاہ

شوق، ویرانۂ بے آب و گیاہ،

ولولے جس میں بگولوں کی طرح ہانپتے تھے

اونگھتے ذرّوں کے تپتے ہوئے لب چومتے تھے

 

ہم کہ اب میں سے بہت دور نکل آئے ہیں

دور اس وادی سے اک منزلِ بے نام بھی ہے

کروٹیں لیتے ہیں جس منزل میں

عشقِ گم گشتہ کے افسانوں کے خواب

ولولوں کے وہ ہیولے ہیں جہاں

جن کی حسرت میں تھے نقّاش ملول

جن میں افکار کے کہساروں کی روحیں

سر و روبستہ ہیں،

اوّلیں نقش ہیں ارمانوں کے آوارہ پرندوں کے جہاں

خواہشوں اور امیدوں کے جنیں!

 

اپنی ہی ذات کے ہم سائے ہیں

آج ہم خود سے بہت دور نکل آئے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی میری سہ نیم

 

میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم

دوست داری، عشق بازی، روزگار

زندگی میری سہ نیم!

دوستوں میں دوست کچھ ایسے بھی ہیں

جن سے وابستہ ہے جاں،

اور کچھ ایسے بھی ہیں، جو رات دن کے ہم پیالہ، ہم نوالہ

پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!

دوستی کچھ دشمنی اور دشمنی کچھ دوستی

دوستی میری سہ نیم!

 

عشق محبوبہ سے بھی ہے اور کتنی اور محبوباؤں سے،

ان میں کچھ ایسی بھی ہیں

جن سے وابستہ ہے جاں

اور کچھ ایسی بھی ہیں جو عطرِ بالیں، نورِ‌بستر

پھر بھی جیسے دشمنِ جانِ عزیز!

اِن میں کچھ نگرانِ دانہ اور کچھ نگرانِ دام

عشق میں‌کچھ سوز ہے، کچھ دل لگی، کچھ "انتقام”

عاشقی میری سہ نیم!

 

روزگار اِک پارۂ نانِ جویں کا حیلہ ہے

گاہ یہ حیلہ ہی بن جاتا ہے دستورِ حیات

اور گاہے رشتہ ہائے جان و دل کو بھول کر

بن کے رہ جاتا ہے منظورِ حیات

پارۂ ناں کی تمنّا بھی سہ نیم

میں سہ نیم اور زندگی میری سہ نیم!‌

٭٭٭

 

 

 

 

حرفِ نا گفتہ

 

حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو

کوئے و برزن کو،

در و بام کو،

شعلوں کی زباں چاٹتی ہو،

وہ دہن بستہ و لب دوختہ ہو۔۔۔

ایسے گنہ گار سے ہشیار رہو!

 

شحنۂ شہر ہو، یا بندۂ سلطاں ہو

اگر تم سے کہے: "لب نہ ہلاؤ”

لب ہلاؤ، نہیں، لب ہی نہ ہلاؤ

دست و بازو بھی ہلاؤ،

دست و بازو کو زبان و لبِ گفتار بناؤ

ایسا کہرام مچاؤ کہ سدا یاد رہے،

اہلِ دربار کے اطوار سے ہشیار رہو!

اِن کے لمحات کے آفاق نہیں –

حرفِ ناگفتہ سے جو لحظہ گزر جائے

شبِ وقت کا پایاں ہے وہی!

ہائے وہ زہر جو صدیوں کے رگ و پے میں سما جائے

کہ جس کا کوئی تریاق نہیں!

آج اِس زہر کے بڑھتے ہوئے

آثار سے ہشیار رہو

حرفِ ناگفتہ کے آزار سے ہشیار رہو!

​٭٭٭

 

 

 

یہ دروازہ کیسے کھُلا؟

 

یہ دروازہ کیسے کھُلا، کس نے کھولا؟

وہ کتبہ جو پتھر کی دیوار پر بے زباں سوچتا تھا

ابھی جاگ اٹھا ہے،

وہ دیوار بھولے ہوئے نقش گر کی کہانی

سنانے لگی ہے؛

نکیلے ستوں پر وہ صندوق، جس پر

سیہ رنگ ریشم میں لپٹا ہوا ایک کتے کا بت،

جس کی آنکھیں سنہری،

ابھی بھونک اُٹھا ہے؛

وہ لکڑی کی گائے کا سر

جس کے پیتل کے سینگوں میں بربط،

جو صدیوں سے بے جان تھا

جھنجھنانے لگا ہے

وہ ننھے سے جوتے جو عجلت میں اک دوسرے سے

الگ ہو گئے تھے؛

یکایک بہم مل کے، اترا کے چلنے لگے ہیں۔

وہ پایوں پہ رکھے ہوئے تین گلدان

جن پر بزرگوں کے پاکیزہ یا کم گنہ گار

جسموں کی وہ راکھ جو (اپنی تقدیرِ مبرم سے بچ کر)

فقط تِیرہ تر ہو گئی تھی،

اُسی میں چھپے کتنے دل

تلملانے لگے ہیں؟

یہ دروازہ کیسے کھلا؟ کس نے کھولا؟

ہمیں نے____

ابھی ہم نے دہلیز پر پاؤں رکھا نہ تھا

کواڑوں کو ہم نے چھوا تک نہ تھا

کیسے یکدم ہزاروں ہی بے تاب چہروں پہ

تارے چمکنے لگے

جیسے اُن کی مقدس کتابوں میں

جس آنے والی گھڑی کا حوالہ تھا

گویا یہی وہ گھڑی ہو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایران مین اجنبی

 

(کانتو)​

 

 

 

 

 

 

 

من و سلویٰ

 

’’خدائے برتر،

یہ داریوشِ بزرگ کی سر زمیں،

یہ نوشیروانِ عادل کی داد گاہیں،

تصوف و حکمت و ادب کے نگار خانے،

یہ کیوں سیہ پوست دشمنوں کے وجود سے

آج پھر اُبلتے ہوئے سے ناسور بن رہے ہیں؟‘‘

 

ہم اِس کے مجرم نہیں ہیں، جانِ عجم نہیں ہیں،

وہ پہلا انگریز

جس نے ہندوستان کے ساحل پہ

لا کے رکھی تھی جنسِ سوداگری

یہ اس کا گناہ ہے

جو ترے وطن کی

زمین گل پوش کو

ہم اپنے سیاہ قدموں سے روندتے ہیں!

 

یہ شہر اپنا وطن نہیں ہے،

مگر فرنگی کی رہزنی نے

اسی سے ناچار ہم کو وابستہ کر دیا ہے،

ہم اِس کی تہذیب کی بلندی کی چھپکلی بن کے رہ گئے ہیں،

 

وہ راہزن جو یہ سوچتا ہے:

’’کہ ایشیا ہے کوئی عقیم و امیر بیوہ

جو اپنی دولت کی بے پناہی سے مبتلا اک فشار میں ہے،

اور اُس کا آغوشِ آرزو مند وا مرے انتظار میں ہے،

اور ایشیائی،

قدیم خواجہ سراؤں کی اک نژادِ کاہل،

اجل کی راہوں پہ تیز گامی سے جارہے ہیں‘‘____

مگر یہ ہندی

گرسنہ و پا برہنہ ہندی

جو سالکِ راہ ہیں

مگر راہ و رسمِ منزل سے بے خبر ہیں،

گھروں کو ویران کر کے،

لاکھوں صعوبتیں سہہ کے

اور اپنا لہو بہا کر

اگر کبھی سوچتے ہیں کچھ تو یہی،

کہ شاید انہی کے بازو

نجات دلوا سکیں گے مشرق کو

غیر کے بے پناہ بپھرے ہوئے ستم سے___

یہ سوچتے ہیں:

یہ حادثہ ہی کہ جس نے پھینکا ہے

لا کے ان کو ترے وطن میں

وہ آنچ بن جائے،

جس سے پھُنک جائے،

وہ جراثیم کا اکھاڑہ،

جہاں سے ہر بار جنگ کی بوئے تند اُٹھتی ہے

اور دنیا میں پھیلتی ہے!___

 

میں جانتا ہوں

مرے بہت سے رفیق

اپنی اداس، بیکار زندگی کے

دراز و تاریک فاصلوں میں

کبھی کبھی بھیڑیوں کے مانند

آ نکلتے ہیں، راہگزاروں پہ

جستجو میں کسی کے دو "ساقِ صندلیں” کی!

کبھی دریچوں کی اوٹ میں

ناتواں پتنگوں کی پھڑپھڑاہٹ پہ

ہوش سے بے نیاز ہو کر وہ ٹوٹتے ہیں؛

وہ دستِ سائل

جو سامنے اُن کے پھیلتا ہے

اس آرزو میں

کہ اُن کی بخشش سے

پارۂ نان، من و سلویٰ کا روپ بھر لے،

وہی کبھی اپنی نازکی سے

وہ رہ سجھاتا ہے

جس کی منزل پہ شوق کی تشنگی نہیں ہے!

تو اِن مناظر کو دیکھتی ہے!

تو سوچتی ہے:

__یہ سنگدل، اپنی بزدلی سے

فرنگیوں کی محبتِ ناروا کی زنجیر میں بندھے ہیں

اِنہی کے دم سے یہ شہر ابلتا ہوا سا ناسور بن رہا ہے____!

محبتِ ناروا نہیں ہے،

بس ایک زنجیر،

ایک ہی آہنی کمندِ عظیم

پھیلی ہوئی ہے،

مشرق کے اک کنارے سے دوسرے کنارے تک،

مرے وطن سے ترے وطن تک،

بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں

ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں!

مغول کی صبحِ خوں فشاں سے

فرنگ کی شامِ جاں ستاں تک!

تڑپ رہے ہیں

بس ایک ہی دردِ لا دوا میں،

اور اپنے آلامِ جاں گزا کے

اس اشتراکِ گراں بہا نے بھی

ہم کو اک دوسرے سے اب تک

قریب ہونے نہیں دیا ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

میزبان

 

ملاقاتِ اوّل میں نوروز بولا

’’میں اک کارگر، رنج بر ہوں،

سوادِ کتابی کی لذّات سے بے خبر ہوں

مرا سِن ہے پچپن سے اوپر

مگر میرے بالوں میں اک تارِ خاکستری تک

ہویدا نہیں ہے۔

وہ خوش بخت ہوں

جس کی دو بیویاں ہیں،

جواں سال و رعنا

اور اُن میں خیابانِ شاپور کی رہنے والی

مری ہژدہ سالہ زلیخا

جمیل و جواں تر ہے

اسفند کی شمعِ رخشندہ گوہر ملک سے؛

مگر، تم یہ باور کرو گے

کہ اِن دو حریفوں کو اک دوسرے کی

خبر تک نہیں ہے؟‘‘

 

وہ کہنے لگا:

’’تم اگر آج کی شب

زلیخا کے گھر میں

پنیر اور روٹی مرے ساتھ کھاؤ،

تو ہم دونوں ممنون و دل شاد ہوں گے!‘‘

 

یہی وہ محبت کی پہلی کرن تھی

کہ جس نے ہمارے دلوں سے بھلا دی تھی یادِ وطن بھی!

تو نوروز بولا:

’’مگر ہاں یہ سُن لو،

کہ تم نے تمھارے کسی آشنا نے

جو، قربان، میری زلیخا کو فاسد نگاہوں سے دیکھا،

تو یہ نیمچہ اُس کے ناپاک سینے میں بے شک اتر کر رہے گا۔‘‘

 

تو جب صبحِ فردا

ابھی ہم خمارِ شبِ رفتہ سے سرگراں تھے

ابھی تک دماغوں پہ چھایا ہوا تھا دھواں سا

ابھی تک نگاہوں میں

حسن و مئے و رقص و نغمہ کے بکھرے ہوئے تار

قالین سے بُن رہے تھے،

اور اک خواب گوں تیرگی میں،

کبھی ایک دو، اور کبھی سینکڑوں آتشیں جام

ہنستے تھے، گاتے تھے، اور دَور میں گھوم کر ناچتے تھے؛

وہ ہر بار جب سامنے سے گزرتے تھے

اُن میں سے تیر و سناں سر نکالے ہوئے جھانکتے تھے،

کہ جیسے ہماری ہی جانب بڑھیں گے،

ہمارے ہی دہشت سے بے انتہا سرد جسموں کو

بس چیر جائیں گے اک عالمِ بے بسی میں!

کبھی اپنی دیرینہ محرومیاں،

اور کبھی قید و بندِ عمل سے وہ تازہ رہائی

سجھاتی تھی سرگوشیوں میں:

’’یہ دیوانہ گر رات ہو

اور پھر بھی نہ ہو دشنۂ جاں ستاں تک گوارا؟‘‘

 

تصور دکھاتا تھا لیکن،

مرے ساتھیوں میں سے اک مردِ میداں

کہ جس نے کسی ساعدِ نور کو چھو لیا ہے

دھڑم سے گرا ہے

اور اُس کا لباسِ کبودی

ہے سب خوں میں لتھڑا ہوا پارہ پارہ!

 

تو نوروز آیا، ہنسا اور کہنے لگا:

’’تم بڑے سنگدل ہو،

تمھارا وہ ساتھی تو کل شب وہیں سو گیا تھا،

بہت اُس کی دل جوئی کرتی رہی میری گل رُو غزالہ،

کہ وہ اپنی مہجور بیوی کی تصویر کو

سامنے رکھ کے آنسو بہاتا رہا ہے!

تمھیں کیا مصیبت پڑی تھی

جو تم نیم شب لوٹ آئے تھے

منزل کی آسودگی چھوڑ کر

ہُو کے عالم میں،

جب کوئے و برزن میں

آوازِ سگ تھی نہ آوائے درباں؟‘‘

 

وہ مہجور بیوی کی تصویر۔۔۔۔

وہ ایک گل رُو غزالہ کی دلجوئیاں۔۔۔۔

وہ مرے نیم شب لوٹ آنے کا ارماں۔۔۔۔

تو، اِس پر رہی سب کے دل میں یہ الجھن

کہ ساتھی کے "شہکار” کا راز جانیں!

٭٭٭

 

 

 

 

نارسائی

 

درختوں کی شاخوں کو اتنی خبر ہے

کہ اُن کی جڑیں کھوکھلی ہو چلی ہیں،

مگر اُن میں ہر شاخ بزدل ہے

یا مبتلا خود فریبی میں شاید

کہ اِن کِرم خوردہ جڑوں سے

وہ اپنے لیے تازہ نم ڈھونڈتی ہے!

میں مہمان خانے کے سالون میں

ایک صوفے میں چپ چاپ دبکا ہوا تھا،

گرانی کے باعث وہاں دخترانِ عجم تو نہ تھیں

ہاں کوئی بیس گز پر

فقط ایک چہرہ تھا جس کے

خد و خال کی چاشنی ارمنی تھی!

 

زمستاں کے دن تھے،

لگاتار ہوتی رہی تھی سرِ شام سے برف باری

دریچے کے باہر سفیدے کے انبار سے لگ گئے تھے

مگر برف کا رقصِ سیمیں تھا جاری،

وہ اپنے لباسِ حریری میں

پاؤں میں گل ہائے نسریں کے زنگولے باندھے،

بدستور اک بے صدا، سہل انگار سی تال پر ناچتی جا رہی تھی!

مگر رات ہوتے ہی چاروں طرف بے کراں خامشی چھا گئی تھی

خیاباں کے دو رویہ سرو و صنوبر کی شاخوں پہ

یخ کے گلولے، پرندے سے بن کر لٹکنے لگے تھے،

زمیں اُن کے بکھرے ہوئے بال و پر سے

کف آلود ساحل سا بنتی چلی جا رہی تھی!

میں اک گرم خانے کے پہلو میں صوفے پہ تنہا پڑا سوچتا تھا،

بخاری میں افسردہ ہوتے ہوئے رقص کو گھورتا تھا،

’’اجازت ہے میں بھی

ذرا سینک لوں ہاتھ اپنے؟‘‘

(زبان فارسی تھی تکلم کی شیرینیاں اصفہانی!)

’’تمھیں شوق شطرنج سے ہے؟‘‘

(اٹھا لایا میں اپنے کمرے سے شطرنج جا کر!)

’’بچو فِیل___

اسپِ سیہ کا تو خانہ نہیں یہ____

بچاؤ وزیر___

اور لو یہ پیادے کی شہ لو____

اور اِک اور شہ!

اور یہ آخری مات!

بس ناز تھا کیا اسی شاطری پر؟‘‘

میں اچھا کھلاڑی نہیں ہوں

مگر آن بھر کی خجالت سے میں ہنس دیا تھا!

’’ابھی اور کھیلو گے؟‘‘

’’لو اور بازی___

یہ اک اور بازی۔۔۔‘‘

یونہی کھیلتے کھیلتے صبح ہونے لگی تھی!

مؤذن کی آواز اس شہر میں زیرِ لب ہو چکی ہے

سحر پھر بھی ہونے لگی تھی!

وہ دروازے جو سال ہا سال سے بند تھے

آج وا ہو گئے تھے!

میں کرتا رہا ہند و ایراں کی باتیں:

’’۔۔۔اور اب عہدِ حاضر کے ضحّاک سے

رستگاری کا رستہ یہی ہے

کہ ہم ایک ہو جائیں، ہم ایشیائی!

وہ زنجیر، جس کے سرے سے بندھے تھے کبھی ہم

وہ اب سست پڑنے لگی ہے،

تو آؤ کہ ہے وقت کا یہ تقاضا

کہ ہم ایک ہو جائیں__ ہم ایشیائی!‘‘

میں روسی حکایات کے ہرزہ گو نوجوانوں کے مانند یہ بے محل وعظ کرتا رہا تھا!

 

اُسے صبحدم اُس کی منزل پہ جب چھوڑ کر آ رہا تھا،

وہ کہنے لگی:

’’اب سفینے پہ کوئی بھروسہ کرے کیا

سفینہ ہی جب ہو پر و بالِ طوفاں؟

یہاں بھی وہاں بھی وہی آسماں ہے،

مگر اس زمیں سے خدایا رہائی

خدایا دُہائی!

ٹھکانہ ہے لوطی گری، رہزنی کا!

یہاں زندگی کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں،

فقط شاخساریں

ابھی اپنی افتاد کے حشر سے ہیں گریزاں!

یہ بچپن میں، مَیں نے پڑھی تھی کہانی

کہا ساحرہ نے:

’’کہ اے شاہزادے

رہِ جستجو میں

اگر اس لق و دق بیاباں میں

دیکھا پلٹ کر،

تو پتھر کا بت بن کے رہ جائے گا تو!

جہاں سب نگاہیں ہوں ماضی کی جانب

وہاں راہرو ہیں فقط عازمِ نارسائی!‘‘

 

تو دن بھر یہی سوچ تھی

کیا ہمارے نصیبے میں افتاد ہے،

کوئی رفعت نہیں؟

کوئی منزل نہیں ہے؟

٭٭٭

 

 

 

 

کیمیا گر

 

رضا شاہ!

تجھ پر سلام اجنبی کا!

سلام ایک ہندی سپاہی کا تجھ پر!

مجھے تو کہاں دیکھ سکتا ہے؟

تیری نگاہیں تو البرز کے پار اُفق پر لگی ہیں!

یہاں __ میں ترے بت کے نیچے

چمکتی ہوئی سیڑھیوں پر کھڑا ہوں!

سنا ہے کہ اُس انتہائی عقیدت کی خاطر

جو بخشی گئی تھی تجھے اپنی ذاتِ گرامی سے،

تو نے یہ بت

اپنی فرماں روائی میں

یورپ کے مشہور ہیکل تراشوں سے بنوا کے

اس چوک میں نصب کروا دیا تھا!

اسی سے ہویدا ہے یہ بھی

کہ ملت کی احساں شناسی پہ کتنا بھروسہ تھا تجھ کو!

 

رضا شاہ!

اے داریوش اور سیروس کے جانشیں

یہ قلم رو،

تجھے جس کی تزئین کی لو لگی تھی

جسے تو خدا کی اماں میں بھی دینا گوارا نہ کرتا،

یہی شہر یور کے الم زا حوادث کے بعد

آج قدموں میں تیرے پڑی ہے،

یہ بے جان لاشہ

جسے تین خونخوار کرگس

نئی اور بڑھتی ہوئی آز سے نوچتے جا رہے ہیں!

وطن اور ولی عہد کی والہانہ محبت،

ترے ہوش و فکر و عمل کے لیے،

کون سی چیز مہمیز کا کام دیتی تھی،

سب جانتے ہیں!

مگر تو وہ معمار تھا جس کو

بنیاد سے کوئی مطلب نہ تھا

وہ تو زخموں کو آنکھوں سے روپوش کرنے میں،

چھت اور دیوار و در کی منبّت پہ گلگونہ ملنے میں

دن رات بے انتہا تندہی سے لگا تھا!

 

یہ مشہور ہے

تو نے اک روز نادر کی تربت پہ جا کر

کہا تھا:

’’کہ نادر میں سب خوبیاں تھیں

مگر پیٹ کا اتنا ہلکا

کہ لوگ اس کے مقصود کو بھانپ لیتے!‘‘

 

یہ سچ ہے کہ نادر اگر نیم شب

صبح کے وحشت افزا ارادے کو ا فشا نہ کرتا

تو یوں قتل ہونے کی نوبت نہ آتی!

مگر وہ تری حد سے گزری ہوئی رازداری

کہ جس نے تجھے

اپنے افکار کے قید خانے میں

محصور سا کر دیا تھا،

____وہ زنداں جہاں گھوم پھر کر نگاہیں

فقط اپنا چہرہ دکھاتی تھیں تجھ کو

جہاں ہر عقیدے کو تو

اپنے الہام کے شیشۂ کور میں دیکھتا تھا،

جہاں ایک چھوٹا سا روزن بھی ایسا نہ تھا،

جس میں ملت کے افکار کی ایک کرن کا گزر ہو!

اسی کا نتیجہ، کہ اک روز

کہنے کو باتیں بہت تھیں

مگر سننے والے کہیں بھی نہ تھے،

اور تجھے بھی تو کر ہو گئے تھے!

تجھے اس زمیں سے گئے دو برس ہو چکے ہیں

تری یاد تک مٹ چکی ہے دلوں سے

کبھی یاد کرتا ہے کوئی تو کہتا ہے،

’’وہ کیمیا گر

جو کرتا رہا سب سے وعدے

کہ لاؤں گا سونا بنا کر

مگر شہریوں کے مس و سیم تک

لے کے چلتا بنا؟‘‘

 

یہ طہران جو تیرے خوابوں میں

پاریس کا نقشِ ثانی تھا،

یوں تو یہاں رہگزاروں میں

بہتا ہے ہر شام سیما فروشوں کا سیلاب جاری،

یہاں رقص گاہوں میں اب بھی

بہت جھلملاتی ہیں محفل کی شمعیں،

یہاں رقص سے چور یا جام و بادہ سے مخمور ہو کر

وطن کے پجاری

بآہنگِ سنتور و تار و دف و نَے

لگاتے ہیں مل کر

"وطن! اے وطن!” کی صدائیں!

مگر کون جانے یہ کس کا وطن ہے؟

 

کہ پاریس بھی آج اُس کا ہیولا ہے بے چارگی میں

کہ اُس پر فقط برقِ خرمن گری تھی

اسے شعلہ ہائے نیستاں نگلتے چلے جا رہے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمہ اوست

 

خیابانِ سعدی میں

رُوسی کتابوں کی دکّان پر ہم کھڑے تھے

مجھے رُوس کے چیدہ صنعت گروں کے

نئے کار ناموں کی اک عمر سے تشنگی تھی!

مجھے رُوسیوں کے "سیاسی ہمہ اوست” سے کوئی رغبت نہیں ہے

مگر ذرّے ذرّے میں

انساں کے جوہر کی تابندگی دیکھنے کی تمنّا ہمیشہ رہی ہے!

اور اُس شام تو مرسدہ کی عروسی تھی،

اُس شوخ، دیوانی لڑکی کی خاطر

مجھے ایک نازک سی سوغات کی جستجو تھی۔

 

وہ میرا نیا دوست خالد

ذرا دُور، تختے کے پیچھے کھڑی

اک تنو مند لیکن فسوں کار،

قفقاز کی رہنے والی حسینہ سے شیر و شکر تھا!

یہ بھوکا مسافر،

جو دستے کے ساتھ

ایک خیمے میں، اک دُور افتادہ صحرا میں

مدّت سے عزلت گزیں تھا،

بڑی التجاؤں سے

اِس حورِ قفقاز سے کہہ رہا تھا:

’’نجانے کہاں سے ملا ہے

تمہاری زباں کو یہ شہد

اور لہجے کو مستی!

میں کیسے بتاؤں

میں کس درجہ دلدادہ ہوں رُوسیوں کا

مجھے اشتراکی تمدّن سے کتنی محبّت ہے،

کیسے بتاؤں!

یہ ممکن ہے تم مجھ کو رُوسی سکھا دو؟

کہ رُوسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کو میں دیکھنا چاہتا ہوں!‘‘

 

وہ پروردہِ عشوہ بازی

کنکھیوں سے یوں دیکھتی تھی

کہ جیسے وہ اُن سرنگوں آرزوؤں کو پہچانتی ہو،

جو کرتی ہیں اکثر یوں ہی رو شناسی

کبھی دوستی کی تمنّا،

کبھی علم کی پیاس بن کر!

وہ کولھے ہلاتی تھی، ہنستی تھی

اک سوچی سمجھی حسابی لگاوٹ سے،

جیسے وہ اُن خفیہ سر چشمہ گاہوں کے ہر راز کو جانتی ہو،

وہ تختے کے پیچھے کھڑی، قہقہے مارتی، لوٹتی تھی!

 

کہا میں نے خالد سے:

"بہروپیے!

اِس ولایت میں ضربِ مثل ہے

’کہ اونٹوں کی سودا گری کی لگن ہو

تو گھر اُن کے قابل بناؤ۔۔‘

اور اِس شہر میں یوں تو استانیاں ان گنت ہیں

مگر اِس کی اُجرت بھلا تم کہاں دے سکو گے!‘‘

وہ پھر مضطرب ہو کے، بے اختیاری سے ہنسنے لگی تھی!

وہ بولی:

’’یہ سچ ہے

کہ اُجرت تو اک شاہی بھر کم نہ ہو گی،

مگر فوجیوں کا بھروسہ ہی کیا ہے،

بھلا تم کہاں باز آؤ گے

آخر زباں سیکھنے کے بہانے

خیانت کرو گے!‘‘

وہ ہنستی ہوئی

اک نئے مشتری کی طرف ملتفت ہو گئی تھی!

 

تو خالد نے دیکھا

کہ رومان تو خاک میں مل چکا ہے۔۔

اُسے کھینچ کر جب میں بازار میں لا رہا تھا،

لگاتار کرنے لگا وہ مقولوں میں باتیں:

’’زباں سیکھنی ہو تو عورت سے سیکھو!

جہاں بھر میں رُوسی ادب کا نہیں کوئی ثانی!

وہ قفقاز کی حور، مزدور عورت!

جو دنیا کے مزدور سب ایک ہو جائیں

آغاز ہو اک نیا دورۂ شادمانی!‘‘

 

مرے دوستوں میں بہت اشتراکی ہیں،

جو ہر محبّت میں مایوس ہو کر،

یوں ہی اک نئے دورہِ شادمانی کی حسرت میں

کرتے ہیں دلجوئی اک دوسرے کی،

اور اب ایسی باتوں پہ میں

زیرِ لب بھی کبھی مسکراتا نہیں ہوں!

 

اور اُس شام جشنِ عروسی میں

حسن و مئے و رقص و نغمہ کے طوفان بہتے رہے تھے،

فرنگی شرابیں تو عنقا تھیں

لیکن مئےِ نابِ قزوین و خُلّارِ شیراز کے دورِ پیہم سے،

رنگیں لباسوں سے،

خوشبو کی بے باک لہروں سے،

بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے،

مزامیر کے زیر و بم سے،

وہ ہنگامہ برپا تھا،

محسوس ہوتا تھا

طہران کی آخری شب یہی ہے!

اچانک کہا مرسدہ نے:

’’تمہارا وہ ساتھی کہاں ہے؟

ابھی ایک صوفے پہ دیکھا تھا میں نے

اُسے سر بزانو!‘‘

 

تو ہم کچھ پریشان سے ہو گئے

اور کمرہ بہ کمرہ اُسے ڈھونڈنے مل کے نکلے!

لو اک گوشہِ نیم روشن میں

وہ اشتراکی زمیں پر پڑا تھا

اُسے ہم ہلایا کیے اور جھنجھوڑا کیے

وہ تو ساکت تھا، جامد تھا!

رُوسی ادیبوں کی سر چشمہ گاہوں کی اُس کو خبر ہو گئی تھی؟

٭٭٭

 

 

 

مارِ سیاہ

 

سرِ شام ہم یاسمن سے ملے تھے

وہ بُت کی طرح بے زباں اور افسردہ،

اِک کہنہ و خستہ گھر میں،

ہمیں لے کے داخل ہوئی تھی!

کسی پیرہ زن نے ہمارا وہاں

شمعِ لرزاں لیے خیر مقدم کیا تھا،

مَے کم بہا اور خیّام سے

میر ی اور دوستوں کی مدارات کی تھی!

مگر یاسمن کی نگاہیں جھکی تھیں

وہ بالیں پہ زلفِ سیہ میں

سپیدے کے داغوں کو مجھ سے چھپاتی رہی تھی؛

وہ پھر ہم سے مہمان خانے میں ملتی رہی تھی،

شکر اور قہوے کے ملفوفِ ارزاں

جو بازار میں انتہائی گراں تھے

وہ ہر بار ہم سے بصد معذرت لے کے جاتی رہی تھی!

خیاباں میں وہ مسکرا کر گزرتی،

تماشا گھروں اور تفریح گاہوں کی خلوت کو جلوت بناتی رہی تھی

ہم اس لطفِ آساں ربودہ پہ نازاں رہے تھے!

مگر کل سحر وہ دریچے کے نیچے

جہاں سیب کے اک شجر کے گلابی شگوفے

ابھی کھل رہے تھے

رکی اور کہنے لگی:

’’آج کے بعد تم یاسمن کو نہیں پا سکو گے

کہ مارِ سیہ بن کے اک اجنبی نے اُسے ڈس لیا ہے!‘‘

میں خود اجنبی ہوں

مگر سن کے یوں دم بخود ہو گیا تھا،

کہ جیسے مجھی کو وہ مارِ سیہ ڈس گیا ہو!

میں اُٹھّا، خیاباں میں نکلا

اور اک کہنہ مسجد کی دیوار سے لگ کے

آنسو بہاتا رہا!

٭٭٭

 

 

 

 

دستِ ستمگر

 

یہاں اس سرائے سرِ پُل میں یوں تو،

رہی ہر ملاقات تنہائیِ سخت تر کا ہیولا،

مگر آج کی یہ جدائی

سپاہی کے دل کی کچھ ایسی جراحت ہے

جو اس کو بستر میں آسودہ رکھے گی، لیکن

کبھی اس کے ہونٹوں پہ

ہلکی سی موجِ تبسم بھی اٹھنے نہ دے گی!

 

خدا حافظ، اے گل عذارِ لہستان،

مبارک کہ تو آج دنیائے نو کو چلی ہے!

جہاں تیرا ہمسر تجھے آج لے جا رہا ہے،

لہستاں تو بےشک وہاں بھی نہ ہو گا،

مگر اس ولایت میں

’’جو حرّیت کیش جمہور کی آنکھ کا ہے درخشندہ ستارا‘‘

تجھے بے حقیقت سہاروں سے،

غیروں کی خاطر شب و روز کی اس مشقّت سے،

کچھ تو ملے گی رہائی!

وہاں تجھ کو آہنگِ رنگ و زباں

کچھ تو تسکین دے گا،

اور اِس غم سے پامال ہجرت گزینوں کے

سہمے ہوئے قافلے سے

الگ ہو کے منزل کا دھوکا تو ہو گا!

یہ مانا کہ تو شاخسارِ شکستہ ہے

اور شاخسارِ شکستہ رہے گی؛

مگر اس نئی سرزمیں میں

تجھے سبز پتوں کی، شاداب پھولوں کی، امید پیدا تو ہو گی!

تجھے کیسے روندا گیا ہے،

تجھے دربدر کیسے راندا گیا ہے،

میں سب جانتا ہوں کہ شاکی ہے تو جس الم کی

وہ تنہا کسی کا نہیں ہے،

وہ بڑھتا ہوا

آج ذرّے سے عفریت بنتا چلا جا رہا ہے!

 

تو نازی نہ تھی،

تجھ کو فاشی تخیّل سے کوئی لگاؤ نہ تھا

بس ترا جرم یہ تھا، تجھے عافیت کی طلب تھی،

وطن کی محبت بھری سرزمیں کی

شبِ ماہ، بزمِ طرب، جام و مینا کی

منزل کی آسودگی کی طلب تھی،

طلب تھی سحر گاہ، محبوب کے گرم، راحت سے لبریز

بالش پہ خوابِ گراں کی!

 

اور اس جرم کی یہ سزا، (اے خدا)

سامنے تیری بے بس نگاہوں کے محبوب کی لاش،

پھر اجنبی قید میں

روس کے برف زاروں میں بیگار

روٹی کے شب ماندہ ٹکڑوں کی خاطر؟

اور اب سال بھر سے

یہ فوجی سراؤں میں خدمت گزاری

یہ دریوزہ کوشی،

یہ دو نیم، بے مدعا زندگی

جس کا ماضی تو ویران تھا،

آئندہ و حال بھی بے نشاں ہو چکے ہیں!

 

حقیقت کی دنیا تو ہے ہی،

مگر اک خیالوں کی، خوابوں کی دنیا بھی ہوتی ہے

جو آخرِ کار بنتی ہے تقدیر کا خطِ جادہ!

مگر یہ ستم کی نہایت،

کہ تیرے خیالوں پہ خوابوں پہ بھی

توبہ تو یاس کائی کے مانند جمنے لگی تھی!

 

کہاں بھول سکتا ہوں، اے عندلیبِ لہستاں

وہ نغمے، لہستاں کے دہقانی نغمے

جو فوجی سرائے کی بے کار شاموں میں

تیری زباں سے سنے ہیں ۔۔

وہ جن میں سیہ چشم ہندی کی خاطر

لہستاں کی عورت کا دل یوں دھڑکتا ہے

جیسے وہ ہندی کی مشکینہ رعنائیوں تک پہن کر رہے گا!

جنھیں سن کے محسوس ہوتا رہا ہے

کہ مغرب کی وہ روحِ شب گرد

جو پے بہ پے وسوستوں میں گھری ہے،

تعاقب کیا جا رہا ہے دبے پاؤں جس کا

اب آخر شبستانِ مشرق کے اجڑے ہوئے آشیانوں کے اوپر

لگاتار منڈلا رہی ہے!

 

اسی روحِ شب گرد کا

اک کنایہ ہے شاید

یہ ہجرت گزینوں کا بکھرا ہوا قافلہ بھی

جو دستِ ستمگر سے مغرب کی، مشرق کی پہنائیوں میں

بھٹکتا ہوا پھر رہا ہے!

خدا حافظ، اے ماہتابِ لہستاں!

یہ اِک سہارا ہے باقی ہمارے لیے بھی

کہ اس اجنبی سرزمیں میں

ہے یہ ساز و ساماں بھی گویا

ہوا کی گزرگاہ میں اک پرِکاہ!

بکھر جائے گا جلد

افسردہ حالوں کا، خانہ بدوشوں کا یہ قافلہ بھی

اور اِک بار پھر عافیت کی سحر

اس کا نقشِ کفِ پا بنے گی!

٭٭٭

 

 

 

 

درویش

 

 

زمستاں کی اس شام

نیچے خیاباں میں،

میرے دریچے کے پائیں،

جہاں تِیرگی منجمد ہو گئی ہے

یہ بھاری یخ آلود قدموں کی آواز

کیا کہہ رہی ہے:

’’خداوند!

کیا آج کی رات بھی

تیری پلکوں کی سنگیں چٹانیں

نہیں ہٹ سکیں گی؟‘‘

خیاباں تو ہے دور تک گہری ظلمت کا پاتال،

اور میں اس میں غوطہ زنی کر رہا ہوں

صداؤں کے معنی کی سینہ کشائی کی خاطر چلا ہوں!

 

یہ درویش،

جس کے اب وجد،

وہ صحرائے دیروز کی ریت پر

تھک کے مر جانے والے،

اسی کی طرح تھے

تہی دست اور خاکِ تِیرہ میں غلطاں،

جو تسلیم کو بے نیازی بنا کر

ہمیشہ کی محرومیوں ہی کو اپنے لیے

بال و پَر جانتے تھے،

جنھیں تھی فروغِ گدائی کی خاطر

جلالِ شہی کی بقا بھی گوارا

جو لاشوں میں چلتے تھے

کہتے تھے لاشوں سے:

’’سوتے رہو!

صبح فردا کہیں بھی نہیں ہے!‘‘

وہ جن کے لئے حُریت کی نہایت یہی تھی

کہ شاہوں کا اظہارِ شاہنشہی

حد سے بڑھنے نہ پائے!

بھلا حد کی کس کو خبر ہے؟

مگر آج کا یہ گدا،

یہ ہمیشہ کا محروم بھی

اُن اب و جد کے مانند

گو وقت کے شاطروں کی سیاست کا مارا ہوا ہے،

ستم یہ کہ اس کے لئے آج،

مُلّائے رومی کے،

مجذوبِ شیراز کے

زنگ آلودہ اوہام بھی

دستگیری کو حاضر نہیں ہیں!

 

’’خداوند!

کیا آج کی رات بھی

تیری پلکوں کی سنگیں چٹانیں

نہیں ہٹ سکیں گی؟‘‘

’’تجھے، اے زمانے کے روندے ہوئے،

آج یہ بات کہنے کی حاجت ہی کیوں ہو؟

تو خوش ہو

کہ تیرے لئے کھل گئی ہیں ہزاروں زبانیں

جو تیری زباں بن کے

شاہوں کے خوابیدہ محلوں کے چاورں طرف

شعلے بن کر لپٹتی چلی جا رہی ہیں!

سیاست نے سوچا ہے

تیری زباں بند کر دے،

سیاست کو یہ کیوں خبر ہو

کہ لب بند ہوں گے

تو کُھل جائیں گے دست و بازو؟

 

وہ بھاری یخ آلود قدموں کی آواز

یک لخت خاموش کیوں ہو گئی ہے؟

نو آموز مشرق کے

نو خیز آئین کے تازیانو،

سکوتِ گدا سے

گدائی تو ساکت نہ ہو گی!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

خلوت میں جلوت

 

حَسن، اپنا ساتھی

جو اُس رات، نوروز کے ہاں

جمالِ عجم کے طِلسمات میں بہہ گیا تھا

پھر اِک بار مستی میں جلوت کو خلوت سمجھ کر

بڑی دیر تک رُوبرُو آئنے کے

کھڑا جُھولتا مُنہ چڑاتا رہا تھا،

وہ بلّور کی بے کراں جھیل کے دیو کو گالیاں دے کے ہنستا رہا تھا،

حَسن اپنی آنکھوں میں رقت کا سیلاب لا کر

زمستاں کی اس شام کی تازہ مہماں سے

اُس شہرِ آشوبِ طہراں سے

کہتا چلا جا رہا تھا :

’’تُو میری بہن ہے،

تُو میری بہن ہے،

اُٹھ اے میری پیاری بہن میری زہرا!

ابھی رات کے دَر پہ دستک پڑے گی،

تجھے اپنے کاشانۂ ناز میں چھوڑ آؤں!‘‘

اور اِس پر برافروختہ تھے،

پریشاں تھے سب ہم!

جونہی اُس کو جعفر نے دیکھا نگاہیں بدل کر

وہ چِلّا کے بولا:

’’درندو

اسے چھوڑ دو،

اِس کے ہاتھوں میں

انگشتری کا نشاں تک نہیں ہے!‘‘

حَسن مردِ میداں تو تھا ہی

مگر نارسائی کا احساس

مستی کے شاداب لمحوں میں اُس سے

کراتا تھا اکثر

یہ عہدِ سلاطیں کے گزرے ہُوئے

شہسواروں کے عالم کی باتیں!

 

مگر جب سحر گاہ اُردو میں قرنا ہوئی

اور البرز کی چوٹیوں پر بکھرنے لگیں پھر شعاعیں

تو آنکھیں کھُلی رہ گئیں ساتھیوں کی،

حَسن کے رُخ و دست و بازو

خراشوں سے یوں نیلگوں ہو رہے تھے

کہ جیسے وہ جِنّوں کے نرغے میں شب بھر رہا ہو

 

ہمیں سب کو جعفر پہ شک تھا

کہ شاید اُسی نے نکالا ہو یہ اپنے بدلے کا پہلُو!

مگر جب حسن اور جعفر نے

دونوں نے

کھائیں کئی بار قسمیں

تو ناچار لب دوختہ ہو گئے ہم

وہاں اب وہ جانِ عجم بھی نہ تھی

جس سے ہم پوچھ سکتے؛

ذرا اور کاوش سے پوچھا حَسن سے

تو بے ساختہ ہنس کے کہنے لگا : ’’بس، مجھے کیا خبر ہو؟

اگر پوچھنا ہو تو زہرا سے پُوچھو

مری رات بھر کی بہن سے!‘‘

٭٭٭

 

 

 

تیل کے سوداگر

 

بخارا سمرقند اِک خالِ ہندو کے بدلے!

بجا ہے، بخارا سمرقند باقی کہاں ہیں؟

بخارا سمرقند، نیندوں میں مدہوش

اِک نیلگوں خامشی کے حجابوں میں مستور

اور رہرووں کے لیے ان کے در بند

سوئی ہوئی مہ جبینوں کی پلکوں کے مانند

روسی ’’ہمہ اوست‘‘ کے تازیانوں سے معذور

دو مہ جبینیں!

بخارا سمرقند کو بھول جاؤ

اب اپنے درخشندہ شہروں کی

طہران و مشہد کے سقف و در و بام کی فکر کر لو،

تم اپنے نئے دورِ ہوش و عمل کے دلآویز چشموں کو

اپنی نئی آرزؤں کے اِن خوبصورت کنایوں کو

محفوظ کر لو!

ان اونچے درخشندہ شہروں کی

کوتہ فصیلوں کو مضبوط کر لو

ہر اک برج و بارد پر اپنے نگہباں چڑھا دو،

گھروں میں ہوا کے سوا،

سب صداؤں کی شمعیں بجھا دو!

کہ باہر فصیلوں کے نیچے

کئی دن سے رہزن ہیں خیمہ فگن،

تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر

وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں

چلے آئیں گے بن کے مہماں

تمہارے گھروں میں،

وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے

ناچیں گے، گائیں گے،

بے ساختہ قہقہوں، ہمہموں سے

وہ گرمائیں گے خونِ محفل!

 

مگر پو پھٹے گی

تو پلکوں سے کھودو گے خود اپنے مُردوں کی قبریں

بساطِ ضیافت کی خاکسترِ سوختہ کے کنارے

بہاؤ گے آنسو!

بہائیں ہیں ہم نے بھی آنسو!

۔۔۔ گو اب خالِ ہندو کی ارزش نہیں ہے

عذارِ جہاں پر وہ رستا ہوا گہرا ناسور

افرنگ کی آزِ خونخوار سے بن چکا ہے۔۔۔

بہائے ہیں ہم نے بھی آنسو،

ہماری نگاہوں نے دیکھے ہیں

سیّال سایوں کے مانند گھلتے ہوئے شہر

گرتے ہوئے بام و در

اور مینار و گنبد

مگر وقت محراب ہے

اور دشمن اب اس کی خمیدہ کمر سے گزرتا ہوا

اُس کے نچلے افق پر لڑھکتا چلا جا رہا ہے۔۔

ہمارے برہنہ و کاہیدو جسموں نے

وہ قید و بند اور وہ تازیانے سہے ہیں

کہ ان سے ہمارا ستمگر

خود اپنے الاؤ میں جلنے لگا ہے

 

مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!

مرے ہاتھ میں ہاتھ دے دو!

کہ دیکھی ہیں میں نے

ہمالہ و الوند کی چوٹیوں پر شعاعیں

انہیں سے وہ خورشید پھوٹے گا آخر

بخارا سمرقند بھی سالہا سال سے

جس کی حسرت کے دریوزہ گر ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

وزیرے چنیں

 

 

۔۔۔ تو جب سات سو آٹھویں رات آئی

تو کہنے لگی شہر زاد:

’’اے جواں بخت

شیراز میں ایک رہتا تھا نائی؛

وہ نائی تو تھا ہی،

مگر اس کو بخشا تھا قدرت نے،

اک اور نادر، گراں تر ہنر بھی،

کہ جب بھی،

کسی مردِ دانا کا ذہنِ رسا،

زنگ آلود ہونے کو آتا

تو نائی کو جا کر دکھاتا،

کہ نائی دماغوں کا مشہور ماہر تھا

وہ کاسۂ سر سے اُن کو الگ کر کے،

ان کی سب آلائشیں پاک کر کے

پھر اپنی جگہ پر لگانے کے فن میں تھا کامل!

 

خدا کا یہ کرنا ہوا

ایک دن اس کی دکاّں سے

ایران کا ایک وزیرِ کہن سال گزرا

اور اس نے بھی چاہا

کہ وہ بھی ذرا

اپنے الجھے ہوئے ذہن کی

از سر نو صفائی کرا لے!

کیا کاسۂ سر کو نائی نے خالی،

ابھی وہ اسے صاف کرنے لگا تھا،

کہ ناگاہ آ کر کہا ایک خوجہ سرا نے:

"میں بھیجا گیا ہوں جنابِ وزارت پنہ کو بلانے‘‘!

اور اس پر

سراسیمہ ہو کر جو اٹھا وزیر ایک دم،

رہ گیا پاس دلّاک کے مغز اس کا

وہ بے مغز سر لے کے دربار سلطاں میں پہنچا!

۔۔۔ مگر دوسرے روز اس نے

جو نائی سے آ کر تقاضا کیا

تو وہ کہنے لگا:

’’حیف،

کل شب پڑوسی کی بلی

کسی روزنِ در سے گھس کر

جناب وزارت پنہ کے

دماغِ فلک تاز کو کھا گئی ہے!

اور اب حکمِ سرکار ہو تو،

کسی اور حیوان کا مغز لے کر لگا دوں؟‘‘

تو دلّاک نے رکھ دیا،

دانیالِ زمانہ کے سر میں،

کسی بیل کا مغز لے کر!

تو لوگوں نے دیکھا

جناب وزارت پنہ اب،

فراست میں

دانش میں

اور کاروبارِ وزارت میں

پہلے سے بھی چاک و چوبند تر ہو گئے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

شاخِ آہُو

 

وزیرِ معارف علی کیانی نے

"شمشیرِ ایراں” کا تازہ مقالہ پڑھا،

اور محسن فرح زاد کی تازہ "تصنیف” دیکھی،

جو طہران کے سب تماشا گھروں میں

کئی روز سے قہقہوں کے سمندر بہانے لگی تھی

تو وہ سر کھجانے لگا،

اور کہنے لگا:

’’لو اسے کہہ رہے ہیں،

علی کیانی کی تازہ جنایت!

بھلا کون سا ظلم ڈھایا ہے میں نے

جو بانو رضا بہبانی سے

اسی ہزار اور نو سو ریال

اپنا حق جان کر

راہداری کے بدلے لیے ہیں؟

خدائے توانا و برتر

وزارت ہے وہ دردِ سر

جس کا کوئی مداوا نہیں ہے!

رضا بہبانی ولایت سے

ڈگری طبابت کی لے کر،

جو لوٹے گی

کچھ تو کمائے گی،

پہلے سے بڑھ کر کمائے گی آخر

اور اِس پر یہ ایراں فروشی کے طعنے

یہ کہرام، اے مسخرے روزنامہ نگارو!

یہاں سات بچوں کے تنّور

ہر لحظہ فریاد کرتے ہوئے،

اور خانم کے

گلگونہ و غازہ و کفش و موزہ کے

یہ روز افزوں تقاضے،

ادھر یہ گرانی،

اِدھر یہ وزارت کی کرسی

فقط شاخِ آہو!‘‘

 

تو اس پر علی کیانی نے سوچا،

اٹھایا قلم اور لِکھا:

’’جنابِ مدیرِ شہیر

آپ کی خدمتِ فائقہ کے عوض

دس ہزار اور چھ سو ریال

آپ کو صد ہزار احترامات کے ساتھ

تقدیم کرتا ہے بندہ!

یہ پر کالۂ آتشیں چھوڑ کر

اور مقالہ و "تصنیف” کی یاد دل سے بھلا کر

لگا جھولنے اپنی کرسی میں آسودہ ہو کر

وزیرِ معارف علی کیانی!

٭٭٭

 

 

 

 

تماشا گہہِ لالہ زار

 

تماشا گہہِ لالہ زار،

’تیاتر‘ پہ میری نگاہیں جمی تھیں

مرے کان ’موزیک‘ کے زیر و بم پر لگے تھے،

مگر میرا دل پھر بھی کرتا رہا تھا

عرب اور عجم کے غموں کا شمار

تماشا گہہِ لالہ زار!

 

تماشا گہہِ لالہ زار،

اب ایراں کہاں ہے؟

یہ عشقی کا شہکار۔۔ ’ایران کی رستخیز!‘

اب ایراں ہے اک نوحہ گر پیرِ زال

ہے مدت سے افسردہ جس کا جمال،

مدائن کی ویرانیوں پر عجم اشک ریز،

وہ نوشیرواں اور زردشت اور دار یوش،

وہ فرہاد شیریں، وہ کیخسرو و کیقباد

ہم اک داستاں ہیں وہ کردار تھے داستاں کے!

ہم اک کارواں ہیں وہ سالار تھے کارواں کے!

تہہِ خاک جن کے مزار

تماشا گہہِ لالہ زار!

 

تماشا گہہِ لالہ زار،

مگر نوحہ خوانی کی یہ سر گرانی کہاں تک؟

کہ منزل ہے دشوار غم سے غمِ جاوداں تک!

وہ سب تھے کشادہ دل و ہوش مند و پرستارِ ربِّ کریم

وہ سب خیر کے راہ داں، رہ شناس

ہمیں آج محسن کُش و نا سپاس!

وہ شاہنشہانِ عظیم

وہ پندارِ رفتہ کا جاہ و جلالِ قدیم

ہماری ہزیمت کے سب بے بہا تار و پو تھے،

فنا ان کی تقدیر، ہم اُن کی تقدیر کے نوحہ گر ہیں،

اسی کی تمنّا میں پھر سوگوار

تماشا گہہِ لالہ زار!

 

تماشا گہہِ لالہ زار،

عروسِ جواں سالِ فردا، حجابوں میں مستور

گرسنہ نگہ، زود کاروں سے رنجور

مگر اب ہمارے نئے خواب کابوسِ ماضی نہیں ہیں،

ہمارے نئے خواب ہیں، آدمِ نو کے خواب

جہانِ تگ و دو کے خواب!

جہانِ تگ و دو، مدائن نہیں،

کاخِ فغفور و کسریٰ نہیں

یہ اُس آدمِ نو کا ماویٰ نہیں

نئی بستیاں اور نئے شہر یار

تماشا گہہِ لالہ زار!

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

لا=انسان​

 

 

 

 

 

حَسن کُوزہ گر

 

جہاں زاد، نیچے گلی میں ترے در کے آگے

یہ میں سوختہ سر حسن کوزہ گر ہوں

تجھے صبح بازار میں بوڑھے عطّار یوسف

کی دکّان پر میں نے دیکھا

تو تیری نگاہوں میں وہ تابناکی

تھی میں جس کی حسرت میں نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں

جہاں زاد، نو سال دیوانہ پھرتا رہا ہوں!

یہ وہ دور تھا جس میں میں نے

کبھی اپنے رنجور کوزوں کی جانب

پلٹ کر نہ دیکھا

وہ کوزے مرے دست چابک کے پتلے

گل و رنگ و روغن کی مخلوق بے جاں

وہ سرگوشیوں میں یہ کہتے

’’حسن کوزہ گر اب کہاں ہے

وہ ہم سے خود اپنے عمل سے

خداوند بن کر خداؤں کے مانند ہے روئے گرداں!‘‘

جہاں زاد نو سال کا دور یوں مجھ پہ گزرا

کہ جیسے کسی شہر مدفون پر وقت گزرے

تغاروں میں مٹی

کبھی جس کی خوشبو سے وارفتہ ہوتا تھا میں

سنگ بستہ پڑی تھی

صراحی و مینا و جام و سبو اور فانوس و گلداں

مری ہیچ مایہ معیشت کے، اظہار فن کے سہارے

شکستہ پڑے تھے

میں خود، میں حسن کوزہ گر پا بہ گل خاک بر سر برہنہ

سرِ چاک ژولیدہ مو، سر بہ زانو

کسی غمزدہ دیوتا کی طرح واہمہ کے

گِل و لاسے خوابوں کے سیّال کوزے بناتا رہا تھا

جہاں زاد، نو سال پہلے

تو ناداں تھی لیکن تجھے یہ خبر تھی

کہ میں نے، حسن کوزہ گر نے

تری قاف کی سی افق تاب آنکھوں

میں دیکھی ہے وہ تابناکی

کہ جس سے مرے جسم و جاں، ابرو مہتاب کا

رہگزر بن گئے تھے

جہاں زاد بغداد کی خواب گوں رات

وہ رود دجلہ کا ساحل

وہ کشتی وہ ملّاح کی بند آنکھیں

کسی خستہ جاں رنج بر کوزہ گر کے لیے

ایک ہی رات وہ کہربا تھی

کہ جس سے ابھی تک ہے پیوست اسکا وجود۔۔

اس کی جاں اس کا پیکر

مگر ایک ہی رات کا ذوق دریا کی وہ لہر نکلا

حسن کوزہ گر جس میں ڈوبا تو ابھرا نہیں ہے!

 

جہاں زاد اس دور میں روز، ہر روز

وہ سوختہ بخت آ کر

مجھے دیکھتی چاک پر پا بہ گِل سر بزانو

تو شانوں سے مجھ کو ہلاتی

(وہی چاک جو سالہا سال جینے کا تنہا سہارا رہا تھا!)

وہ شانوں سے مجھ کو ہلاتی

’’حسن کوزہ گر ہوش میں آ

حسن اپنے ویران گھر پر نظر کر

یہ بچّوں کے تنّور کیونکر بھریں گے

حسن، اے محبّت کے مارے

محبّت امیروں کی بازی،

حسن، اپنے دیوار و در پر نظر کر‘‘

 

مرے کان میں یہ نوائے حزیں یوں تھی جیسے

کسی ڈوبتے شخص کو زیرِ گرداب کوئی پکارے!

وہ اشکوں کے انبار پھولوں کے انبار تھے ہاں

مگر میں حسن کوزہ گر شہرِ اوہام کے اُن

خرابوں کا مجذوب تھا جن

میں کوئی صدا کوئی جنبش

کسی مرغ پرّاں کا سایہ

کسی زندگی کا نشاں تک نہیں تھا!

 

جہاں زاد، میں آج تیری گلی میں

یہاں رات کی سرد گوں تیرگی میں

ترے در کے آگے کھڑا ہوں

سر و مو پریشاں

دریچے سے وہ قاف کی سی طلسمی نگاہیں

مجھے آج پھر جھانکتی ہیں

زمانہ، جہاں زاد وہ چاک ہےجس پہ مینا و جام و سبو

اور فانوس و گلداں

کے مانند بنتے بگڑتے ہیں انساں

میں انساں ہوں لیکن

یہ نو سال جو غم کے قالب میں گزرے!

حسن کوزہ گر آج اک تودہ خاک ہے جس

میں نم کا اثر تک نہیں ہے

جہاں زاد بازار میں صبح عطّار یوسف کی دکّان پر تیری آنکھیں

پھر اک بار کچھ کہہ گئی ہیں

ان آنکھوں کی تابندہ شوخی

سے اٹھی ہے پھر تودۂ خاک میں نم کی ہلکی سی لرزش

یہی شاید اس خاک کو گِل بنا دے!

 

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن

تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر

وہی کوزہ گر جس کے کوزے

تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش

تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن

تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں ان اپنے مہجور کوزوں کی جانب

گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب

معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب

کہ میں اس گل و لا سے ، اس رنگ و روغن

سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے

دلوں کے خرابے ہوں روشن!

٭٭٭

 

 

 

 

مہمان

 

میں اس شہر مہمان اترا

تو سینے میں غم اور آنکھوں میں آنسو کے طوفاں

جدائی سے ہر چیز، حسنِ ازل تک وہ پردہ

کہ جس کے ورا حیرتِ خیرگی تھی!

جدائی سے تو بھی حزیں

اور ترا زخم مجھ سے بھی گہرا تھا خوں دادہ تر تھا!

 

میں مبہم سی امید تو ساتھ لایا تھا لیکن

تو اک شاخسارِ شکستہ کے مانند بے آرزو!

۔۔۔ وہ بے آرزوئی کا گہرا خلا جس کو میں نے

کبھی ذہنِ بے مایہ جانا

کبھی خوف و نفرت کے عفریت کا سایہ جانا!

 

تجھے یاد محبوب کا نرم راحت سے لبریز بالش

تجھے یاد کمرے کے شام و پگا، جن میں تو نے

ستاروں کے خوشوں کی آواز دیکھی

بنفشے کے رنگوں کو تُو نے چکھا

اور بہشتی پرندوں کے نغموں کو چھوتی رہی

 

تجھے اس کی پرواز کی آخری رات بھی یاد تھی۔۔

لذت و غم سے بے خواب لمحے

جو صدیوں سے بھرپور، صدیوں کی

پہنائی بنتے چلے جا رہے تھے!

ادھر میں مہجور، افسردہ، تنہا

وہ شبنم کا قطرہ

جو صحرا میں نازل ہو لیکن

سمندر سے ملنے کا رویا لیے ہو!

 

میں افسردہ، مہجور، تنہا

کہ محبوب سے بُعد کو نور کے سالہا سال سے

ناپتا آ رہا تھا،

مگر نور کے سال اِک خطِّ پیمانہ بھی تو

نہیں بن سکے تھے!

 

نئی سر زمیں کی نئی اجنبی،

تجھے میں نے اک خواب پیما کی آنکھوں سے دیکھا

کہ اس روز تجھ کو عیاں دیکھنا

ایسا الحاد ہوتا

کہ جس کی سزا جسم و جہاں سہہ نہ سکتے!

 

مگر میرے دل نے کہا

اجنبی شہر کی خلوتِ بے نہایت میں تُو بھی

کسی روز بن کر رہے گی

ستم ہائے تازہ کی خواہش کا پرتو!

 

زخود رفتگی سے، اشاروں سے، ترغیب وا سے

تجھے میں بلاتا رہا تھا

تُو آہستہ، خاموش بڑھنے لگی تھی

کہ یادیں ابھی تک ترے دل میں یوں گونجتی تھیں

کہ ہم گوش بر لب سہی،

سُن نہ سکتے تھے اک دوسرے کی صدائیں

 

مگر جب ملے ہم تو ایسے ملے

وہ تری خود نگہداریاں کام آئیں

نہ میرا تذبذب مجھے راس آیا

ہم ایسے ملے جیسے صدیوں کے مہجور

آدم کے جشنِ ولادت کے مہجور

باہم ابد میں ملیں گے!

٭٭٭

 

 

 

 

ریگِ دیروز

 

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں

وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں

ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی!

ہم جو صدیوں سے چلے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا

اپنی تہذیب کی پاکوبی کا حاصل پایا!

 

ہم محبّت کے نہاں خانوں میں بسنے والے

اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے

ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا!

 

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں

کنجِ ماضی میں ہیں باراں زدہ طائر کی طرح آسودہ

اور کبھی فتنۂ ناگاہ سے ڈر کر چونکیں

تو رہیں سدِّ نگاہ نیند کے بھاری پردے

 

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں!

ایسے تاریک خرابے کہ جہاں

دور سے تیز پلٹ جائیں ضیا کے آہو

ایک، بس ایک، صدا گونجتی ہے

شبِ آلام کی "یا ہو! یا ہو!”

 

ہم محبت کے خرابوں کے مکیں

ریگِ دیروز میں خوابوں کے شجر بوتے رہے

سایہ ناپید تھا، سائے کی تمنّا کے تلے سوتے رہے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک اور شہر

 

خود فہمی کا ارماں ہے تاریکی میں روپوش،

تاریکی خود بے چشم و گوش!

اک بے پایاں عجلت راہوں کی الوند!

 

سینوں میں دل یوں جیسے چشمِ آزِ صیّاد

تازہ خوں کے پیاسے افرنگی مردانِ راد

خود دیوِ آہن کے مانند!

 

دریا کے دو ساحل ہیں اور دونوں ہی ناپید

شر ہے دستِ سیہ اور خیر کا حامل روئے سفید!

اک بارِ مژگاں، اک لبِ خند!

 

سب پیمانے بے صرفہ جب سیم و زر میزان

جب ذوقِ عمل کا سرچشمہ بے معنی ہذیان

جب دہشت ہر لمحہ جاں کند!

 

یہ سب افقی انسان ہیں، یہ ان کے سماوی شہر

کیا پھر ان کی کمیں میں وقت کے طوفاں کی اِک لہر؟

کیا سب ویرانی کے دلبند؟

٭٭٭

 

 

 

 

ابُو لہب کی شادی

 

 

شبِ زفافِ ابو لہب تھی، مگر خدایا وہ کیسی شب تھی،

ابو لہب کی دلہن جب آئی تو سر پہ ایندھن، گلے میں

سانپوں کے ہار لائی، نہ اس کو مشّاطگی سے مطلب

نہ مانگ غازہ، نہ رنگ روغن، گلے میں سانپوں

کے ہار اس کے، تو سر پہ ایندھن!

خدایا کیسی شبِ زفافِ ابولہب تھی!

 

یہ دیکھتے ہی ہجوم بپھرا، بھڑک اٹھے یوں غضب

کے شعلے، کہ جیسے ننگے بدن پہ جابر کے تازیانے!

جوان لڑکوں کی تالیاں تھیں، نہ صحن میں شوخ

لڑکیوں کے تھرکتے پاؤں تھرک رہے تھے،

نہ نغمہ باقی نہ شادیانے!

 

ابو لہب نے یہ رنگ دیکھا، لگام تھامی، لگائی

مہمیز، ابولہب کی خبر نہ آئی!

 

ابو لہب کی خبر جو آئی، تو سالہا سال کا زمانہ

غبار بن کر بکھر چکا تھا!

 

ابو لہب اجنبی زمینوں کے لعل و گوہر سمیٹ کر

پھر وطن کو لوٹا، ہزار طرّار و تیز آنکھیں، پرانے

غرفوں سے جھانک اٹھیں، ہجوم، پیر و جواں کا

گہرا ہجوم، اپنے گھروں سے نکلا، ابو لہب کے جلوس

کو دیکھنے کو لپکا!

 

ابو لہب! اک شبِ زفاف ابولہب کا جلا

پھپھولا، خیال کی ریت کا بگولا، وہ عشقِ برباد کا ہیولا، ہجوم میں سے پکار اٹھی:

’’ابو لہب!

تو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن

گلے میں سانپوں کے ہار لائی؟‘‘

 

ابو لہب ایک لمحہ ٹھٹکا، لگام تھامی، لگائی

مہمیز، ابو لہب کی خبر نہ آئی!

٭٭٭

 

 

 

 

دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل

 

نغمہ در جاں رقص برپا، خندہ بر لب

دل، تمنّاؤں کے بے پایاں الاؤ کے قریب!

 

دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،

ریگ کے دل شاد شہری، ریگ تُو

اور ریگ ہی تیری طلب

ریگ کی نکہت ترے پیکر میں، تیری جاں میں ہے!

 

ریگ صبحِ عید کے مانند زرتاب و جلیل،

ریگ صدیوں کا جمال،

جشنِ آدم پر بچھڑ کر ملنے والوں کا وصال،

شوق کے لمحات کے مانند آزاد و عظیم!

 

ریگ نغمہ زن

کہ ذرے ریگ زاروں کو وہ پازیبِ قدیم

جن پہ پڑ سکتا نہیں دستِ لئیم،

ریگِ صحرا زرگری کی ریگ کی لہروں سے دُور

چشمۂ مکر و ریا شہروں سے دُور!

 

ریگ شب بیدار ہے، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ

ریگ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب

دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ

ریگ ہر عیّار، غارت گر کی موت

ریگ استبداد کے طغیاں کے شور و شر کی موت

ریگ جب اٹھتی ہے، اڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند

ریگ کے نیزوں سے زخمی، سب شہنشاہوں کے خواب!

(ریگ، اے صحرا کی ریگ

مجھ کو اپنے جاگتے ذروں کے خوابوں کی

نئی تعبیر دے!)

 

ریگ کے ذرّو ، ابھرتی صبح تم،

آؤ صحرا کی حدوں تک آ گیا روزِ طرب

دل، مرے صحرا نوردِ پیرِ دل،

آ چوم ریگ!

ہے خیالوں کے پری زادوں سے بھی معصوم ریگ!

 

ریگ رقصاں، ماہ و سالِ نور تک رقصاں رہے

اس کا ابریشم ملائم، نرم خُو، خنداں رہے!

 

دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل

یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ

راہ گم کردوں کی مشعل، اس کے لب پر’ آؤ، آؤ!‘

تیرے ماضی کے خزف ریزوں سے جاگی ہے یہ آگ

آگ کی قرمز زباں پر انبساطِ نو کے راگ

دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،

سرگرانی کی شبِ رفتہ سے جاگ!

کچھ شرر آغوشِ صرصر میں ہیں گُم،

اور کچھ زینہ بہ زینہ شعلوں کے مینار پر چڑھتے ہوئے

اور کچھ تہہ میں الاؤ کی ابھی

مضطرب، لیکن مذبذبِ طفل کمسن کی طرح!

آگ زینہ، آگ رنگوں کا خزینہ

آگ اُن لذّات کا سرچشمہ ہے

جس سے لیتا ہے غذا عشاق کے دل کا تپاک!

چوبِ خشک انگور، اس کی مے ہے آگ

سرسراتی ہے رگوں میں عید کے دن کی طرح!

 

آگ کا ہن، یاد سے اُتری ہوئی صدیوں کی یہ افسانہ خواں

آنے والے قرنہا کی داستانیں لب پہ ہیں

دل، مرا صحرا نوردِ پیر دل سن کر جواں!

 

آگ آزادی کا، دلشادی کا نام

آگ پیدائش کا، افزائش کا نام

آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سنبل، شفیق و نسترن

آگ آرائش کا، زیبائش کا نام

آگ وہ تقدیس، دھُل جاتے ہیں جس سے سب گناہ

آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اِک ایسا کرم

عمر کا اِک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!

یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو

اس لق و دق میں نکل آئیں کہیں سے بھیڑیے

اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!

(ریگِ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے الاؤ،

بھیڑیوں کی چاپ تک آتی نہیں!)

 

آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم

آگ سے صحرا کے ٹیڑھے، رینگنے والے

گرہ آلود، ژولیدہ درخت

جاگتے ہیں نغمہ در جاں، رقص برپا، خندہ بر لب

اور منا لیتے ہیں تنہائی میں جشنِ ماہتاب

ان کی شاخیں غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں تال

بیخ و بُن سے آنے لگتی ہے خداوندی جلاجل کی صدا!

 

آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم

رہ روؤں، صحرا نوردوں کے لیے ہے رہنما

کاروانوں کا سہارا بھی ہے آگ

اور صحراؤں کی تنہائی کو کم کرتی ہے آگ!

 

آگ کے چاروں طرف پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے

افسانہ گو

جیسے گرد چشمِ مژگاں کا ہجوم

ان کے حیرتناک، دلکش تجربوں سے

جب دمک اُٹھتی ہے ریت

ذرّہ ذرّہ بجنے لگتا ہے مثالِ سازِجاں

گوش برآواز رہتے ہیں درخت

اور ہنس دیتے ہیں اپنی عارفانہ بے نیازی سے کبھی!

 

یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو

ریگ اپنی خلوتِ بے نور و خود بیں میں رہے

اپنی یکتائی کی تحسیں میں رہے

اس الاؤ کو سدا روشن رکھو!

 

یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو

ایشیا، افریقہ پہنائی کا نام

(بے کار پہنائی کا نام)

یوروپ اور امریکہ دارائی کا نام،

(تکرارِ دارائی کا نام!)

 

میرا دلِ صحرا نورد پیر دل

جاگ اٹھا ہے، مشرق و مغرب کی ایسی یک دلی

کے کاروانوں کا نیا رویا لیے،

یک دلی ایسی کہ ہو گی فہمِ انساں سے ورا

یک دلی ایسی کہ ہم سب کہہ اٹھیں:

’’اس قدر عجلت نہ کر

اژدہامِ گل نہ بن!‘‘

 

کہہ اٹھیں ہم :

’’تُو غمِ کُل تو نہ تھی

اب لذّتِ کل بھی نہ بن

روزِ آسائش کی بے دردی نہ بن

یک دلی بن، ایسا سنّاٹا نہ بن،

جس میں تابستاں کی دوپہروں کی

بے حاصل کسالت کے سوا کچھ بھی نہ ہو!‘‘

 

اس "جفاگر” یک دلی کے کارواں یوں آئیں گے

دستِ جادو گر سے جیسے پھوٹ نکلے ہوں طلسم،

عشقِ حاصل خیز سے، یا زورِ پیدائی سے جیسے ناگہاں

کھُل گئے ہوں مشرق و مغرب کے جسم،

۔۔ جسم، صدیوں کے عقیم!

 

کارواں فرخندہ پَے، اور اُن کا بار

کیسہ کیسہ تختِ جم اور تاجِ کَے

کوزہ کوزہ فرد کی سطوت کی مے

جامہ جامہ روز و شب محنت کا خَے

نغمہ نغمہ حریّت کی گرم لَے!

 

سالکو، فیروز بختو، آنے والے قافلو

شہر سے لوٹو گے تم تو پاؤ گے

ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی

جاگ اٹھی ہے، "شکوہ ہائے نَے” سے وہ

ریت کی تہہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی

جاگ اٹھی ہے حریّت کی لَے سے وہ!

 

اتنی دوشیزہ تھی، اتنی مردِ نادیدہ تھی صبح

پوچھ سکتے تھے نہ اس کی عمر ہم!

درد سے ہنستی نہ تھی،

ذرّوں کی رعنائی پہ بھی ہنستی نہ تھی،

ایک محجوبانہ بے خبری میں ہنس دیتی تھی صبح!

اب مناتی ہے وہ صحرا کا جلال

جیسے عزّ و جل کے پاؤں کی یہی محراب ہو!

زیرِ محراب آ گئی ہو اس کو بیداری کی رات

خود جنابِ عزّ و جل سے جیسے امیدِ زفاف

(سارے ناکردہ گناہ اس کے معاف!)

صبحِ صحرا، شاد باد!

اے عروسِ عزّ و جل، فرخندہ رُو، تابندہ خُو

تُو اک ایسے حجرۂ شب سے نکل کر آئی ہے

دستِ قاتل نے بہایا تھا جہاں ہر سیج پر

سینکڑوں تاروں کا رخشندہ لہو، پھولوں کے پاس!

صبحِ صحرا، سر مرے زانو پہ رکھ کر داستاں

اُن تمنا کے شہیدوں کی نہ کہہ

ان کی نیمہ رس امنگوں، آرزوؤں کی نہ کہہ

جن سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں

شہد تیرا جن کو نوشِ جاں نہیں!

آج بھی کچھ دُور، اس صحرا کے پار

دیو کی دیوار کے نیچے نسیم

روز و شب چلتی ہے مبہم خوف سے سہمی ہوئی

جس طرح شہروں کی راہوں پر یتیم

نغمہ بر لب تاکہ ان کی جاں کا سناٹا ہو دُور!

 

آج بھی اس ریگ کے ذروں میں ہیں

ایسے ذرّے، آپ ہی اپنے غنیم

آج بھی اس آگ کے شعلوں میں ہیں

وہ شرر جو اس کی تہہ میں پر بریدہ رہ گئے

مثلِ حرفِ ناشنیدہ رہ گئے!

صبحِ صحرا، اے عروسِ عزّ و جل

آ کہ ان کی داستاں دہرائیں ہم

ان کی عزّت، ان کی عظمت گائیں ہم

 

صبح، ریت اور آگ، ہم سب کا جلال!

یک دلی کے کارواں اُن کا جمال

آؤ!

اس تہلیل کے حلقے میں ہم مل جائیں

آؤ!

شاد باغ اپنی تمناؤں کا بے پایاں الاؤ!

٭٭٭

 

 

 

 

اسرافیل کی موت

 

مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ

وہ خداؤں کا مقرّب، وہ خداوندِ کلام

صوت انسانی کی روحِ جاوداں

آسمانوں کی ندائے بے کراں

آج ساکت مثلِ حرفِ ناتمام

مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ!

 

آؤ، اسرافیل کے اس خوابِ بے ہنگام پر آنسو بہائیں

آرمیدہ ہے وہ یوں قرنا کے پاس

جیسے طوفاں نے کنارے پر اگل ڈالا اسے

ریگِ ساحل پر، چمکتی دھوپ میں، چپ چاپ

اپنے صُور کے پہلو میں وہ خوابیدہ ہے!

اس کی دستار، اس کے گیسو، اس کی ریش

کیسے خاک آلودہ ہیں!

تھے کبھی جن کی تہیں بود و نبود!

کیسے اس کا صُور، اس کے لب سے دور،

اپنی چیخوں، اپنی فریادوں میں گم

جھلملا اٹھتے تھے جس سے دیر و زود!

 

مرگِ اسرافیل پر آنسو بہاؤ

وہ مجسّم ہمہمہ تھا، وہ مجسّم زمزمہ

وہ ازل سے تا ابد پھیلی ہوئی غیبی صداؤں کا نشاں!

 

مرگِ اسرافیل سے

حلقہ در حلقہ فرشتے نوحہ گر،

ابنِ آدم زلف در خاک و نزار

حضرتِ یزداں کی آنکھیں غم سے تار

آسمانوں کی صفیر آتی نہیں

عالمِ لاہوت سے کوئی نفیر آتی نہیں!

 

مرگِ اسرافیل سے

اس جہاں پر بند آوازوں کا رزق

مطربوں کا رزق، اور سازوں کا رزق

اب مغنّی کس طرح گائے گا اور گائے کا کیا

سننے والوں کے دلوں کے تار چُپ!

اب کوئی رقاص کیا تھرکے گا، لہرائے گا کیا

بزم کے فرش و در و دیوار چُپ!

اب خطیبِ شہر فرمائے گا کیا

مسجدوں کے آستان و گنبد و مینار چُپ!

فِکر کا صیّاد اپنا دام پھیلائے گا کیا

طائرانِ منزل و کہسار چُپ!

 

مرگِ اسرافیل ہے

گوشِ شنوا کی، لبِ گویا کی موت

چشمِ بینا کی، دلِ دانا کی موت

تھی اسی کے دم سے درویشوں کی ساری ہاؤ ہو

اہلِ دل کی اہلِ دل سے گفتگو۔۔۔۔

اہل دل۔۔۔ جو آج گوشہ گیر و سرمہ در گلو!

اب تنانا ہو بھی غائب اور یارب ہا بھی گم

اب گلی کوچوں کی ہر آوا بھی گمُ!

یہ ہمارا آخری ملجا بھی گمُ!

 

مرگِ اسرافیل سے،

اس جہاں کا وقت جیسے سو گیا، پتھرا گیا

جیسے کوئی ساری آوازوں کو یکسر کھا گیا،

ایسی تنہائی کہ حسنِ تام یاد آتا نہیں

ایسا سنّاٹا کہ اپنا نام یاد آتا نہیں!

 

مرگِ اسرافیل سے

دیکھتے رہ جائیں گے دنیا کے آمر بھی

زباں بندی کے خواب!

جس میں مجبوروں کی سرگوشی تو ہو

اُس خداوندی کے خواب!

٭٭٭

 

 

 

میرے بھی ہیں کچھ خواب

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب

میرے بھی ہیں کچھ خواب!

اس دور سے، اس دور کے سوکھے ہوئے دریاؤں سے،

پھیلے ہوئے صحراؤں سے، اور شہروں کے ویرانوں سے

ویرانہ گروں سے میں حزیں اور اداس!

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب

میرے بھی ہیں کچھ خواب!

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب

میرے بھی ہیں کچھ خواب

وہ خواب کہ اسرار نہیں جن کے ہمیں آج بھی معلوم

وہ خواب جو آسودگیِ مرتبہ و جاہ سے،

آلودگیِ گردِ سرِ راہ سے معصوم!

جو زیست کی بے ہودہ کشاکش سے بھی ہوتے نہیں معدوم

خود زیست کا مفہوم!

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،

اے کاہنِ دانشور و عالی گہر و پیر

تو نے ہی بتائی ہمیں ہر خواب کی تعبیر

تو نے ہی سجھائی غمِ دل گیر کی تسخیر

ٹوٹی ترے ہاتھوں ہی سے ہر خوف کی زنجیر

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب

میرے بھی ہیں کچھ خواب!

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،

کچھ خواب کہ مدفون ہیں اجداد کے خود ساختہ اسمار کے نیچے

اجڑے ہوئے مذہب کے بِنا ریختہ اوہام کی دیوار کے نیچے

شیراز کے مجذوبِ تنک جام کے افکار کے نیچے

تہذیبِ نگوں سار کے آلام کے انبار کے نیچے!

 

کچھ خواب ہیں آزاد مگر بڑھتے ہوئے نور سے مرعوب

نے حوصلۂ خوب ہے، نے ہمتِ ناخوب

گر ذات سے بڑھ کر نہیں کچھ بھی انہیں محبوب

ہیں آپ ہی اس ذات کے جاروب

۔۔۔ ذات سے محجوب!

 

کچھ خواب ہیں جو گردشِ آلات سے جویندۂ تمکین

ہے جن کے لیے بندگیِ قاضیِ حاجات سے اس دہر کی تزئین

کچھ جن کے لیے غم کی مساوات سے انسان کی تامین

کچھ خواب کہ جن کا ہوسِ جور ہے آئین

دنیا ہے نہ دین!

 

کچھ خواب ہیں پروردۂ انوار، مگر ان کی سحر گم

جس آگ سے اٹھتا ہے محبّت کا خمیر، اس کے شرر گم

ہے کل کی خبر ان کو مگر جز کی خبر گم

یہ خواب ہیں وہ جن کے لیے مرتبۂ دیدۂ تر ہیچ

دل ہیچ ہے، سر اتنے برابر ہیں کہ سر ہیچ

۔۔۔ عرضِ ہنر ہیچ!

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب

یہ خواب مرے خواب نہیں ہیں کہ مرے خواب ہیں کچھ اور

کچھ اور مرے خواب ہیں، کچھ اور مرا دَور

خوابوں کے نئے دور میں، نےَ مور و ملخ، نےَ اسد و ثور

نے لذّتِ تسلیم کسی میں نہ کسی کو ہوسِ جور

۔۔۔ سب کے نئے طور!

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب،

میرے بھی ہیں کچھ خواب!

ہر خواب کی سوگند!

ہر چند کہ وہ خواب ہیں سر بستہ و روبند

سینے میں‌چھپائے ہوئے گویائی، دوشیزۂ لب خند

ہر خواب میں اجسام سے افکار کا، مفہوم سے گفتار کا پیوند

عشّاق کے لب ہائے ازل تشنہ کی پیوستگیِ شوق کے مانند

(اے لمحۂ خورسند!)

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب، میرے بھی ہیں کچھ خواب

وہ خواب ہیں آزادیِ کامل کے نئے خواب

ہر سعیِ جگر دوز کے حاصل کے نئے خواب

آدم کی ولادت کے نئے جشن پہ لہراتے جلاجل کے نئے خواب

اس خاک کی سطوت کی منازل کے نئے خواب

یا سینۂ گیتی میں نئے دل کے نئے خواب

 

اے عشقِ ازل گیر و ابد تاب

میرے بھی ہیں کچھ خواب

میرے بھی ہیں کچھ خواب!

٭٭٭

 

 

 

 

آئنہ حسّ و خبر سے عاری

 

آئنہ حسّ و خبر سے عاری،

اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟

منحصر ہستِ تگا پوئے شب و روز پہ ہے

دلِ آئینہ کو آئینہ دکھائیں کیسے؟

دلِ آئینہ کی پہنائیِ بے کار پہ ہم روتے ہیں،

ایسی پہنائی کہ سبزہ ہے نمو سے محروم

گلِ نو رستہ ہے بُو سے محروم!

 

آدمی چشم و لب و گوش سے آراستہ ہیں

لطفِ ہنگامہ سے نورِ من و تو سے محروم!

مے چھلک سکتی نہیں، اشک کے مانند یہاں

اور نشّے کی تجلّی بھی جھلک سکتی نہیں

نہ صفائے دلِ آئینہ میں شورش کا جمال

نہ خلائے دلِ آئینہ گزرگاہِ خیال!

 

آئنہ حسّ و خبر سے عاری

اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟

آئنہ ایسا سمندر ہے جسے

کر دیا دستِ فسوں گر نے ازل میں ساکن!

عکس پر عکس در آتا ہے یہ امّید لیے

اس کے دم ہی سے فسونِ دلِ تنہا ٹوٹے

یہ سکوتِ اجل آسا ٹوٹے!

 

آئینہ ایک پر اسرار جہاں میں اپنے

وقت کی اوس کے قطروں کی صدا سنتا ہے،

عکس کو دیکھتا ہے، اور زباں بند ہے وہ

شہرِ مدفون کے مانند ہے وہ!

اس کے نابود کو ہم ہست بنائیں کیسے؟

آئینہ حسّ و خبر سے عاری!

٭٭٭

 

 

 

تعارف

 

اجل، ان سے مل،

کہ یہ سادہ دل

نہ اہلِ صلوٰۃ اور نہ اہلِ شراب،

نہ اہلِ ادب اور نہ اہلِ حساب،

نہ اہلِ کتاب۔۔۔۔

نہ اہلِ کتاب اور نہ اہلِ مشین

نہ اہلِ خلا اور نہ اہلِ زمین

فقط بے یقین

اجل، ان سے مت کر حجاب

اجل، ان سے مل!

 

بڑھو، تُم بھی آگے بڑھو،

اجل سے ملو،

بڑھو، نو تونگر گداؤ

نہ کشکولِ دریوزہ گردی چھپاؤ

تمہیں زندگی سے کوئی ربط باقی نہیں

اجل سے ہنسو اور اجل کو ہنساؤ!

بڑھو، بندگانِ زمانہ بڑھو بندگانِ درم

اجل، یہ سب انسان منفی ہیں،

منفی زیادہ ہیں، انسان کم

ہو اِن پر نگاہِ کرم!​

٭٭٭

 

 

 

اندھا جنگل

 

۔۔۔ جس جنگل میں سورج درّانہ در آیا ہے

پتھر ہے وہ جنگل، پتھر اس کے باسی بھی

دیو نے لے لی ان سے چُھونے تک کی شکتی بھی

آفت دیکھی ایسی بھی؟

جن پیڑوں پر سُورج نے ڈالیں اپنی کرنیں

وہ صدیوں کے اندھے پیڑ ہیں اندھے جنگل میں

آخر آنکھیں کیسے ان کو مِل جائیں پل میں

یارا ہے کِس کاجل میں؟

 

کرنیں پھر بھی کتنی دَھنی ہیں، کتنی دریا دِل

چھاپ رہی ہیں مُردہ پتوں ہی پر تصویریں!

پوچھو، کب تصویروں سے بدلی ہیں تقدیریں؟

ہو تو ان کا دِل چیریں!

 

اس کے سوا کیونکر ٹؤٹے گا گہرا سناٹا؟

قائم جس کے دَم سے پیڑوں کی یہ دُوری ہے

باہم تاروں کے سے فاصلے ہیں، مہجوری ہے

خواب کی سی معذوری ہے!

 

کیونکر ان پر چلنے لگے گی وقت کی پُروا پھر

بیداری ان کی رگوں میں صُبحیں دوڑائے گی؟

ان کے آب و خاک سے ان کا سونا لائے گی

ان کو ہنستا پائے گی؟

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی اک پیرہ زن!

 

۔۔۔زندگی اک پیرہ زن!

جمع کرتی ہے گلی کوچوں میں روز و شب پرانی دھجیاں!

تیز، غم انگیز، دیوانہ ہنسی سے خندہ زن

بال بکھرے، دانت میلے، پیرہن

دھجیوں کا ایک سونا اور نا پیدا کراں، تاریک بن!

 

۔۔۔لو ہوا کے ایک جھونکے سے اڑی ہیں ناگہاں

ہاتھ سے اس کے پرانے کاغذوں کی بالیاں

اور وہ آپے سے باہر ہو گئی

اس کی حالت اور ابتر ہو گئی

سہہ سکے گا کون یہ گہرا زیاں

 

۔۔۔اب ہوا سے ہار تھک کر جھک گئی ہے پیرہ زن

جھک گئی ہے پاؤں پر، جیسے دفینہ ہو وہاں!

زندگی، تو اپنے ماضی کے کنوئیں میں جھانک کر کیا پائے گی؟

اس پرانے اور زہریلی ہواؤں سے بھرے، سونے کنویں میں

جھانک کر اس کی خبر کیا لائے گی؟

۔۔۔اس کی تہہ میں سنگریزوں کے سوا کچھ بھی نہیں

جز صدا کچھ بھی نہیں!

٭٭٭

 

 

 

بوئے آدم زاد

 

۔۔۔ بوئے آدم زاد آئی ہے کہاں سے ناگہاں؟

دیو اس جنگلے کے سنّاٹے میں ہیں

ہو گئے زنجیر پا خود اُن کے قدموں کے نشاں!

 

۔۔یہ وہی جنگل ہے جس کے مرغزاروں میں سدا

چاندنی راتوں میں وہ بے خوف و غم رقصاں رہے

آج اسی جنگل میں اُن کے پاؤں شل ہیں ہاتھ سرد

اُن کی آنکھیں نور سے محروم، پتھرائی ہوئی

ایک ہی جھونکے سے اُن کا رنگ زرد

ایسے دیووں کے لیے بس ایک ہی جھونکا بہت

کون ہے بابِ نبرد؟

 

۔۔۔ ایک سایہ دیکھتا ہے چھپ کے ماہ و سال کی شاخوں سے آج

دیکھتا ہے بے صدا، ژولیدہ شاخوں سے انہیں

ہو گئے ہیں کیسے اُ س کی بُو سے ابتر حال دیو

بن گئے ہیں موم کی تمثال دیو!

 

۔۔۔ ہاں اتر آئے گا آدم زاد ان شاخوں سے رات

حوصلے دیووں کے مات!

٭٭٭

 

 

 

 

گدا گر

 

۔۔۔ جن گزر گاہوں پہ دیکھا ہے نگاہوں نے لُہو

یاسیہ عورت کی آنکھوں میں یہ سہم

کیا یہ اونچے شہر رہ جائیں گے بس شہروں کا وہم

مَیں گداگر اور مرا دریوزہ فہم!

۔۔۔ راہ پیمائی عصا اور عافیت کوشی گدا کا لنگِ پا،

آ رہی ہے ساحروں کی، شعبدہ سازوں کی صبح

تیز پا، گرداب آسا، ناچتی، بڑھتی ہوئی

اک نئے سدرہ کے نیچے، اِک نئے انساں کی ہُو

تا بہ کے روکیں گے ہم کو چار سُو؟

 

۔۔۔ کیا کہیں گے اُس نئے انساں سے ہم

ہم تھے کُچھ انساں سے کم؟

رنگ پر کرتے تھے ہم بارانِ سنگ

تھی ہماری ساز و گُل سے، نغمہ و نکہت سے جنگ

آدمی زادے کے سائے سے بھی تنگ؟

٭٭٭

 

 

 

 

اظہار اور رسائی

 

۔۔۔ مُو قلم، ساز، گلِ تازہ، تھرکتے پاؤں

بات کہنے کے بہانے ہیں بہت

آدمی کس سے مگر بات کرے

 

بات جب حیلۂ تقریبِ ملاقات نہ ہو

اور رسائی کہ ہمیشہ سے ہے کوتاہ کمند

بات کی غایتِ غایات نہ ہو!

 

۔۔۔ایک ذرّہ کفِ خاکستر کا

شررِ جستہ کے مانند کبھی

کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور

اپنے سینے کے دہکتے ہوئے تنّور کی لو سے مجبور

ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ہے خود سے مہجور،

کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے

آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی

اور بنتا ہے معانی کا خداوند کبھی

وہ خداوند جو پا بستۂ آنات نہ ہو!

 

اسی اک ذرّے کی تابانی سے

کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں

کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب

اسی اک ذرّے کی حیرانی سے

شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گرِ پیر کے خواب

اسی اک ذرّۂ لا فانی سے

خشت بے مایہ کو ملتا ہے دوام

بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!

۔۔۔آدمی کس سے مگر بات کرے؟

 

مُو قلم، ساز، گلِ تازہ، تھرکتے پاؤں

آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،

اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں

اور پھر کس کے لیے بات کروں؟

٭٭٭

 

 

 

 

آرزو راہبہ ہے

 

۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں

آرزو راہبہ ہے، عمر گزاری جس نے

انہی محرومِ ازل راہبوں، معبد کے نگہبانوں میں

ان مہ و سالِ یک آہنگ کے ایوانوں میں!

کیسے معبد پہ ہے تاریکی کا سایہ بھاری

روئے معبود سے ہیں خون کے دھارے جاری

 

۔۔۔ راہبہ رات کو معبد سے نکل آتی ہے

جھلملاتی ہوئی اک شمع لیے

لڑکھڑاتی ہوئی، فرش و در و دیوار سے ٹکراتی ہوئی!

دل میں کہتی ہے کہ اس شمع کی لو ہی شاید

دور معبد سے بہت دور چمکتے ہوئے انوار کی تمثیل بنے

آنے والی سحرِ نو یہی قندیل بنے!

 

۔۔۔ آرزو راہبہ ہے بے کس و تنہا و حزیں

ہاں مگر راہبوں کو اس کی خبر ہو کیونکر

خود میں کھوئے ہوئے، سہمے ہوئے، سرگوشی سے ڈرتے ہوئے

راہبوں کو یہ خبر ہو کیونکر

کس لیے راہبہ ہے بےکس و تنہا و حزیں!

راہب استادہ ہیں مرمر کی سلوں کے مانند

بے کراں عجز کی جاں سوختہ ویرانی میں

جس میں اُگتے نہیں دل سوزیِ انساں کے گلاب

 

راہبہ شمع لیے پھرتی ہے

یہ سمجھتی ہے کہ اس سے درِ معبد پہ کبھی

گھاس پر اوس جھلک اٹھے گی

سنگریزوں پہ کوئی چاپ سنائی دے گی!

٭٭٭

 

 

 

تمنّا کے تار

 

۔۔۔ تمنّا کے ژولیدہ تار،

گرہ در گرہ ہیں تمنّا کے نادیدہ تار

 

۔۔۔ ستاروں سے اترے ہیں کچھ لوگ رات

وہ کہتے ہیں: ’’اپنی تمنّا کے ژولیدہ تاروں کو سلجھاؤ،

سلجھاؤ اپنی تمنا کے ژولیدہ تار،

ستاروں کی کرنوں کے مانند سلجھاؤ

مبادا ستاروں سے برسیں وہ تیر

کہ رہ جائے باقی تمنّا نہ تار!‘‘

 

۔۔۔ تمنّا کے ژولیدہ تار۔۔۔

ستاروں سے اترے ہوئے راہگیر،

کہ ہے نور ہی نور جن کا خمیر،

تمنّا سے واقف نہیں ۔۔ نہ اُن پر عیاں

تمنّا کے تاروں کی ژولیدگی ہی کا راز!

تمنّا ہمارے جہاں کی، جہانِ فنا کی متاعِ عزیز

مگر یہ ستاروں سے اترے ہوئے لوگ

سر رشتۂ ناگزیرِ ابد میں اسیر!

 

۔۔۔ ہم اُن سے یہ کہتے ہیں: ’’اے اہلِ مرّیخ۔۔۔

(جانے وہ کن کن ستاروں سے ہیں!)

ادب سے خوشامد سے کہتے ہیں: ’اے محترم اہلِ مرّیخ،

کیا تم نہیں دیکھتے ان تمنّا کے ژولیدہ تاروں کے رنگ؟‘

مگر ان کو شاید کہ رنگوں سے رغبت نہیں

کہ رنگوں کی اُن کو فراست نہیں!

ہے رنگوں کے بارے میں ان کا خیال اور۔۔۔

اُن کا فراق و وصال اور۔۔۔

اُن کے مہ و سال اور۔۔۔۔

 

۔۔۔ بڑی سادگی سے یہ کہتے ہیں ہم:

’’محترم اہلِ مرّیخ، دیکھے نہیں

کبھی تم نے ژولیدہ باہوں کے رنگ؟

محبت میں سر خوش نگاہوں کے رنگ؟

گناہوں کے رنگ؟۔۔۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

زندگی سے ڈرتے ہو؟

 

۔۔۔ زندگی سے ڈرتے ہو؟

زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں!

آدمی سے ڈرتے ہو؟

آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں!

آدمی زباں بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے،

اس سے تم نہیں ڈرتے!

حرف اور معنی کے رشتہ ہائے آہن سے، آدمی ہے وابستہ

آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ

اس سے تم نہیں ڈرتے!

"ان کہی” سے ڈرتے ہو

جو ابھی نہیں آئی، اس گھڑی سے ڈرتے ہو

اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو!

 

۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں،

دور نارسائی کے، "بے ریا” خدائی کے

پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزو مندی

یہ شب زباں بندی، ہے رہِ خداوندی!

تم مگر یہ کیا جانو،

لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں

ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر

نور کی زباں بن کر

ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر

روشنی سے ڈرتے ہو؟

روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں،

روشنی سے ڈرتے ہو!

 

۔۔۔ شہر کی فصیلوں پر

دیو کا جو سایہ تھا پاک ہو گیا آخر

رات کا لبادہ بھی

چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر

اژدہامِ انساں سے فرد کی نوا آئی

ذات کی صدا آئی

راہِ شوق میں جیسے، راہرو کا خوں لپکے

اک نیا جنوں لپکے!

آدمی چھلک اٹّھے

آدمی ہنسے دیکھو، شہر پھر بسے دیکھو

تم ابھی سے ڈرتے ہو؟

٭٭٭

 

 

 

 

ہم کہ عشّاق نہیں ۔ ۔ ۔

 

۔۔۔ ہم کہ عشّاق نہیں ، اور کبھی تھے بھی نہیں

ہم تو عشّاق کے سائے بھی نہیں!

عشق اِک ترجمۂ بوالہوسی ہے گویا

عشق اپنی ہی کمی ہے گویا!

اور اس ترجمے میں ذکرِ زر و سیم تو ہے

اپنے لمحاتِ گریزاں کا غم و بیم تو ہے

لیکن اس لمس کی لہروں کا کوئی ذکر نہیں

جس سے بول اٹھتے ہیں سوئے ہوئے الہام کے لب

جی سے جی اٹھتے ہیں ایّام کے لب!

 

۔۔۔ ہم وہ کمسن ہیں کہ بسم اللہ ہوئی ہو جن کی

محوِ حیرت کہ پکار اٹھے ہیں کس طرح حروف

کیسے کاغذ کی لکیروں میں صدا دوڑ گئی

اور صداؤں نے معانی کے خزینے کھولے!

یہ خبر ہم کو نہیں ہے لیکن

کہ معانی نے کئی اور بھی در باز کیے

خود سے انساں کے تکلّم کے قرینے کھولے!

خود کلامی کے یہ چشمے تو کسی وادیِ فرحاں میں نہ تھے

جو ہماری ازلی تشنہ لبی نے کھولے!

 

۔۔۔ ہم سرِ چشمہ نگوں سار کسی سوچ میں ہیں

سحر و شام ہے ہر لہر کی جمع و تفریق

جیسے اِک فہم ہو اعداد کے کم ہونے کا

جیسے پنہاں ہو کہیں سینے میں غم ہونے کا!

پارۂ ناں کی تمنّا کہ در و بام کے سائے کا کرم

خلوتِ وصل کہ بزمِ مئے و نغمہ کا سرور

صورت و شعر کی توفیق کہ ذوقِ تخلیق

ان سے قائم تھا ہمیشہ کا بھرم ہونے کا!

اب در و بام کے سائے کا کرم بھی تو نہیں

آج ہونے کا بھرم بھی تو نہیں!

 

۔۔۔ آج کا دن بھی گزارا ہم نے ۔۔ اور ہر دن کی طرح

ہر سحر آتی ہے البتۂ روشن لے کر

شام ڈھل جاتی ہے ظلمت گہِ لیکن کی طرح

ہر سحر آتی ہے امید کے مخزن لے کر

اور دن جاتا ہے نادار، کسی شہر کے محسن کی طرح!

 

۔۔۔ چار سو دائرے ہیں، دائرے ہیں، دائرے ہیں

حلقہ در حلقہ ہیں گفتار میں ہم

رقص و رفتار میں ہم

نغمہ و صورت و اشعار میں ہم

کھو گئے جستجوئے گیسوئے خم دار میں ہم!

عشقِ نا رستہ کے ادبار میں ہم

دور سے ہم کبھی منزل کی جھلک دیکھتے ہیں

اور کبھی تیز ترک بڑھتے ہیں

تو بہت دور نہیں، اپنے ہی دنبال تلک بڑھتے ہیں

کھو گئے جیسے خمِ جادۂ پرکار میں ہم!

 

۔۔۔۔ ’آپ تک اپنی رسائی تھی کبھی‘

آپ۔۔۔ بھٹکے ہوئے راہی کا چراغ

آپ۔۔۔ آئندہ پہنا کا سراغ

آپ ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کی وہ گویائی تھی

جس سے شیریں کوئی آواز سرِ تاک نہیں

آج اس آپ کی للکار کہاں سے لائیں؟

اب وہ دانندۂ اسرار کہاں سے لائیں؟

 

۔۔۔ آج وہ آپ، سیہ پوش اداکارہ ہے

ہے فقط سینے پہ لٹکائے سمن اور گلاب

مرگِ ناگاہِ سرِ عام سے اس کی ہیں شناسا ہم بھی

اعتراف اس کا مگر اس لیے ہم کرتے نہیں

کہ کہیں وقت پہ ہم رو نہ سکیں!

۔۔۔ آؤ صحراؤں کے وحشی بن جائیں

کہ ہمیں رقصِ برہنہ سے کوئی باک نہیں!

آگ سلگائیں اسی چوب کے انبار میں ہم

جس میں ہیں بکھرے ہوئے ماضیِ نمناک کے برگ

آگ سلگائیں زمستاں کے شبِ تار میں ہم

کچھ تو کم ہو یہ تمناؤں کی تنہائیِ مرگ!

آگ کے لمحۂ آزاد کی لذّت کا سماں

اس سے بڑھ کر کوئی ہنگامِ طرب ناک نہیں

کیسے اس دشت کے سوکھے ہوئے اشجار جھلک اٹھے ہیں

کیسے رہ گیروں کے مٹتے ہوئے آثار جھلک اٹھے ہیں

کیسے یک بار جھلک اٹھے ہیں!

 

۔۔۔ ۔۔ ہاں مگر رقصِ برہنہ کے لئے نغمہ کہاں سے لائیں؟

دہل و تار کہاں سے لائیں؟

چنگ و تلوار کہاں سے لائیں؟

جب زباں سوکھ کے اِک غار سے آویختہ ہے

ذات اِک ایسا بیاباں ہے جہاں

نغمۂ جاں کی صدا ریت میں آمیختہ ہے!

 

۔۔۔ ۔ دھُل گئے کیسے مگر دستِ حنا بندِ عروس

اجنبی شہر میں دھو آئے انہیں!

لوگ حیرت سے پکار اٹھے: ’’یہ کیا لائے تم؟‘‘

’’وہی جو دولتِ نایاب تھی کھو آئے تم؟‘‘

ہم ہنسے، ہم نے کہا: ’’دیوانو!

زینتیں اب بھی ہیں دیکھو تو سلامت اِس کی

کیا یہ کم ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی؟‘‘

لوگ بپھرے تو بہت، اِس کے سوا کہہ نہ سکے:

’’ہاں یہ سچ ہے سرِ بازار یہ عریاں نہ ہوئی

یہی کیا کم ہے کہ محفوظ ہے عفت اِس کی،

یہی کیا کم ہے کہ اتنا دَم ہے!‘‘

 

۔۔۔ ہاں، تقنّن ہو کہ رقت ہو کہ نفرت ہو کہ رحم

محو کرتے ہی چلے جاتے ہیں اک دوسرے کو ہرزہ سراؤں کی طرح!

درمیاں کیف و کمِ جسم کے ہم جھولتے ہیں

اور جذبات کی جنت میں در آ سکتے نہیں!

ہاں وہ جذبات جو باہم کبھی مہجور نہ ہوں

رہیں پیوست جو عشّاق کی باہوں کی طرح

ایسے جذباتِ طرح دار کہاں سے لائیں؟

 

۔۔۔ ہم کہ احساس سے خائف ہیں، سمجھتے ہیں مگر

اِن کا اظہار شبِ عہد نہ بن جائے کہیں

جس کے ایفا کی تمنا کی سحر ہو نہ سکے

روبرو فاصلہ در فاصلہ در فاصلہ ہے

اِس طرف پستیِ دل برف کے مانند گراں

اُس طرف گرمِ صلا حوصلہ ہے

دل بہ دریا زدن اک سو ہے تو اک سو کیا ہے؟

ایک گرداب کہ ڈوبیں تو کسی کو بھی خبر ہو نہ سکے!

اپنی ہی ذات کی سب مسخرگی ہے گویا؟

اپنے ہونے کی نفی ہے گویا؟

 

۔۔۔ نہیں، فطرت کہ ہمیشہ سے وہ معشوقِ تماشا جُو ہے

جس کے لب پر ہے صدا، تُو جو نہیں، اور سہی،

اور سہی، اور سہی۔۔۔

 

کتنے عشّاق سرِ راہ پڑے ہیں گویا

شبِ یک گانہ و سہ گانہ و نُہ گاہ کے بعد

(اپنی ہر "سعی” کو جو حاصلِ جاوید سمجھتے تھے کبھی!)

اُن کے لب پر نہ تبسّم نہ فغاں ہے باقی!

اُن کی آنکھوں میں فقط سّرِ نہاں ہے باقی!

ہم کہ عشّاق نہیں اور کبھی تھے بھی نہیں

ہمیں کھا جائیں نہ خود اپنے ہی سینوں کے سراب

لیتنی کنت تُراب!

کچھ تو نذرانۂ جاں ہم بھی لائیں

اپنے ہونے کا نشاں ہم بھی لائیں!

٭٭٭

 

 

 

 

اے غزال شب!

 

اے غزال شب،

تری پیاس کیسے بجھاؤں میں

کہ دکھاؤں میں وہ سراب جو مری جاں میں ہے؟

وہ سراب ساحرِ خوف ہے

جو سحر سے شام کے رہ گزر

میں فریبِ رہروِ سادہ ہے

وہ سراب زادہ، سراب گر، کہ ہزار صورتِ نوبنو

میں قدم قدم پہ ستادہ ہے،

وہ جو غالب و ہمہ گیر دشتِ گماں میں ہے

مرے دل میں جیسے یقین بن کے سما گیا

مرے ہست و بود پہ چھا گیا!

 

اے غزالِ شب،

اُسی فتنہ کار سے چھپ گئے

مرے دیر و زود بھی خواب میں

مرے نزد و دُور حجاب میں

وہ حجاب کیسے اٹھاؤں میں جو کشیدہ قالبِ دل میں ہے

کہ میں دیکھ پاؤں درونِ جاں

جہاں خوف و غم کا نشاں نہیں

جہاں یہ سرابِ رواں نہیں،

اے غزالِ شب!

٭٭٭

 

 

 

 

 

آنکھیں کالے غم کی

 

اندھیرے میں یوں چمکیں آنکھیں کالے غم کی

جیسے وہ آیا ہو بھیس بدل کر آمر کا

آنے والے جابر کا!

سب کے کانوں میں بُن ڈالے مکڑی نے جالے

سب کے ہونٹوں پر تالے

سب کے دلوں میں بھالے!

 

اندھیرے میں یوں چمکے میلے دانت بھی غم کے

جیسے پچھلے دروازے سے آمر آ دھمکے

سر پر ابنِ آدم کے!

غم بھی آمر کے مانند اک دُم والا تارا

یا جلتا بجھتا شرارا،

جو رستے میں آیا سو مارا!

 

غم گرجا برسا، جیسے آمر گرجے برسے

خلقت سہمی دبکی تھی اک مبہم سے ڈر سے

خلقت نکلی پھر گھر سے!

بستی والے بول اٹھے! ’’اے مالک! اے باری!

کب تک ہم پہ رہے گا غم کا سایہ یوں بھاری،

کب ہوگا فرماں جاری؟‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

وہ حرفِ تنہا

(جسے تمنائے وصلِ معنا)

 

ہمارے اعضا جو آسماں کی طرف دعا کے لیے اٹھے ہیں

(تم آسماں کی طرف نہ دیکھو!)

مقامِ نازک پہ ضربِ کاری سے جاں بچانے کا ہے وسیلہ

کہ اپنی محرومیوں سے چھپنے کا ایک حیلہ؟

بزرگ و برتر خدا کبھی تو (بہشت برحق)

ہمیں خدا سے نجات دے گا

کہ ہم ہیں اس سر زمیں پہ جیسے وہ حرفِ تنہا،

(مگر وہ ایسا جہاں نہ ہو گا) خموش و گویا

جو آرزوئے وصالِ معنی میں جی رہا ہو

جو حرف و معنی کی یک دلی کو ترس گیا ہو!

 

ہمیں معرّی کے خواب دے دو

(کہ سب کو بخشیں بقدرِ ذوقِ نگہ تبسّم)

ہمیں معرّی کی روح کا اضطراب دے دو

(جہاں گناہوں کے حوصلے سے ملے تقدّس کے دکھ کا مرہم)

کہ اُس کی بے نور و تار آنکھیں

درونِ آدم کی تیرہ راتوں

کو چھیدتی تھیں

اُسی جہاں میں فراقِ جاں کاہِ حرف و معنی

کو دیکھتی تھیں

بہشت اس کے لیے وہ معصوم سادہ لوحوں کی عافیت تھا

جہاں وہ ننگے بدن پہ جابر کے تازیانوں سے بچ کے

راہِ فرار پائیں

وہ کفشِ پا تھا، کہ جس سے غربت کی ریگِ بریاں

سے روزِ فرصت قرار پائیں

کہ صُلبِ آدم کی، رحمِ حوّا کی عزلتوں میں

نہایت انتظار پائیں!

(بہشت صفرِ عظیم، لیکن ہمیں وہ گم گشتہ ہندسے ہیں

بغیر جن کے کوئی مساوات کیا بنے گی؟

وصالِ معنی سے حرف کی بات کیا بنے گی؟)

ہم اس زمیں پر ازل سے پیرانہ سر ہیں، مانا

مگر ابھی تک ہیں دل توانا

اور اپنی ژولیدہ کاریوں کے طفیل و دانا

ہمیں معرّی کے خواب دے دو

(بہشت میں بھی نشاط، یک رنگ ہو تو، غم ہے

ہو ایک سا جامِ شہد سب کے لیے تو سم ہے)

کہ ہم ابھی تک ہیں اس جہاں میں وہ حرفِ تنہا

(بہشت رکھ لو، ہمیں خود اپنا جواب دے دو!)

جسے تمنّائے وصلِ معنا۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

بے پر و بال

 

جب کسی سلطنتِ گم شدہ کے خواب

کبھی اشک، کبھی قہقہہ بن کر دلِ رہرو کو لبھاتے جائیں،

(نیم شب کون ہے آوارہ دعاؤں کی طرح

لو چلے آتے ہیں وہ عقدہ کشاؤں کی طرح)

اور وہ راہروِ سادہ کسی اشک، کسی قہقہے کی تہہ میں

سینہ خاک نشینوں کی نوا سُن نہ سکے۔۔۔

ہم ہیں وہ جن پہ نظر ڈالی ہے سلطانوں نے

ہیں کہاں اور گدا ہم سے گداؤں کی طرح؟

جن سے ہیں آج بھی گلیوں کے شبستاں روشن

کسی جبّار کے کوَڑوں کی صدا سن نہ سکے

(بندگی کام ہے اور بندۂ دولت ہم ہیں۔۔۔)

منہ پہ اوڑھے ہوئے دستور کا کوتہ دامن

(تُو خداوند ہے کرامر خداؤں کی طرح)

اور اجڑے ہوئے سینوں کا خلا سن نہ سکے

سنسناتے ہوئے ارمانوں کے جن میں۔۔۔

(شبِ تنہائی در و بام ڈراتے ہیں مجھے

دل میں اندیشے اترتے ہیں بلاؤں کی طرح

ہم سے کیوں خانہ خرابی کا سبب پوچھتے ہو؟

کس نے اس دور میں ڈالی ہے جفاؤں کی طرح)

گو زمانے کا ہر اک نقش، ہر اک چیز سرِ رہگزرِ باد سہی

یاد اِک وہم سہی، یاد تمناؤں کی فریاد سہی

سر سے ڈھل جائے کہیں راحتِ رفتہ کا خمار

شامِ دارائی کا آسودہ غبار؟

جب کسی سلطنتِ گم شدہ کے خواب

کبھی اشک، کبھی قہقہہ بن کر دلِ رہرو کو لبھاتے جائیں

وہ کبھی سرخیِ دامن میں

کبھی شوقِ سلاسل میں

کبھی عشق کی للکار میں لوٹ آتے ہیں

بے پر و بالیِ انساں کی شبِ تار میں لوٹ آتے ہیں

جی کے آزار میں لوٹ آتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہمہ تن نشاطِ وصال ہم

 

ہمیں یاد ہے وہ درخت جس سے چلے ہیں ہم

کہ اسی کی سمت (ازل کی کوریِ چشم سے)

کئی بار لوٹ گئے ہیں ہم

(میں وہ حافظہ جسے یاد مبدا و منتہا

جسے یاد منزل و آشیاں)

اُسی اِک درخت کے آشیاں میں رہے ہیں ہم

اُسی آشیاں کی تلاش میں

ہیں تمام شوق، تمام ہُو

اُسی ایک وعدۂ شب کی سُو

ہیں تمام کاوشِ آرزو!

 

یہ خلائے وقت کہ جس میں ایک سوال ہم

کوئی چیز ہم، نہ مثال ہم

جسے نوکِ خار سے چھید دیں

وہی ایک نقطۂ خال ہم

(میں وہ حادثہ، جو ہزار حادثوں کی طرح

ہو اسیرِ حلقۂ دامِ جاں

جو اسیر ہو، مگر اور ایسے ہی حادثوں

کی طرح ہمیشہ رواں دواں

اُسی ایک وعدۂ شب کی سُو!

مری ایک جنبشِ چشم تک

کئی حادثات کا سلسلہ

نہیں جن میں لمحے کا فاصلہ

ہوں اسیر جس میں یہ حادثے، میں وہ حافظہ)

ہمہ تن نشاطِ وصال ہم

مگر آشیاں کے بغیر وہم و خیال ہم

ہیں رواں کہ مِل کے زباں بنیں

کوئی داستاں، کوئی نغمہ، کوئی بیاں بنیں

ہے مگر یہ خطرۂ پے بہ پے کہ یہ جستجوئے عظیم بھی

نہ کہیں ہو رازِ تلاشِ منزلِ جستجو،

کہ یہ جانتے ہیں نہیں ہیں اپنا مآل ہم

کبھی مُو قلم، کبھی پردہ ہم،

کبھی خط ہیں اور کبھی خال ہم

نہیں نقش گر، نہیں نقش گر کا کمال ہم!

٭٭٭

 

 

 

 

گرد باد

 

غم کے دندانے بہت!

گردباد اِک موجِ پرّاں، گردباد اِک ہمہمہ،

گرد باد اِک سایہ ہے،

گرد بادِ غم کے دندانے بہت!

اس کی اِک آواز، اِک پھنکار۔۔۔ ویرانے بہت!

اس کی آوازوں میں بام و در بھی گُم

اس کی پھنکاروں میں خیر و شر بھی گُم

ریگِ بے مہری سے پُر سینوں کے پیمانے بہت!

شہرِ تنہا اور برہنہ۔۔۔۔ شہر

جن کا کام جاری تھا ابھی،

جن کی صبحوں میں اذاں کا نام جاری تھا ابھی،

(ایک ہی صبحِ اذاں، صبحِ اجل!)

جن کی جولانی کا دورِ جام جاری تھا ابھی،

ہاں انہی کی شاہراہوں کا ضمیر

بے صدائی میں اسیر

ہانپتا پھرتا ہے خون آلود دہلیزوں کے پاس

اُس کی دلجوئی کو دردِ دل کے کاشانے بہت!

۔۔۔ اور تمناؤں کے واماندہ شجر

حیرت آسا خامشی میں تن دہی سے اشک ریز:

گردبادِ غم کے نقشِ پا کہاں!

اس کا پائے لنگ ہو اس کا سہارا تا بکے؟

اس کو ویرانی کا یارا تا بکے؟

۔۔۔ اس کے افسانے بہت!

٭٭٭

 

 

 

 

افسانۂ شہر

 

شہر کے شہر کا افسانہ، وہ خوش فہم مگر سادہ مسافر

کہ جنہیں عشق کی للکار کے رہزن نے کہا: ’’آؤ!

دکھلائیں تمہیں ایک درِ بستہ کے اسرار کا خواب۔‘‘

شہر کے شہر کا افسانہ وہ دل جن کے بیابیاں میں

کسی قطرۂ گم گشتہ کے ناگاہ لرزنے کی صدا نے یہ کہا:

’’آؤ دکھلائیں تمہیں صبح کے ہونٹوں پہ تبسم کا سراب!‘‘

 

شہر کے شہر کا افسانہ، وہی آرزوئے خستہ کے لنگڑاتے ہوئے پیر

کہ ہیں آج بھی افسانے کی دزدیدہ و ژولیدہ لکیروں پر رواں

اُن اسیروں کی طرح جن کے رگ و ریشہ کی زنجیر کی جھنکار

بھی تھم جائے تو کہہ اٹھیں: کہاں۔۔۔

’’اب کہاں جائیں گے ہم

جائیں اب تازہ و نادیدہ نگاہوں کے زمستاں میں کہاں؟‘‘

اُن اسیروں کی طرح جن کے لیے وقت کی بے صرفہ سلاخیں

نہ کبھی سرد نہ گرم، اور نہ کبھی سخت نہ نرم

نہ رہائی کی پذیرا، نہ اسیری ہی کی شرم!

 

شہر کے شہر کا افسانہ، وہ روحیں جو سرِ پل کے سوا

اور کہیں وصل کی جویا ہی نہیں

پُل سے جنہیں پار اترنے کی تمنّا ہی نہیں

اس کا یارا ہی نہیں!

٭٭٭

 

 

 

 

مِیرؔ ہو، مرزاؔ ہو، میراؔ جی ہو

 

 

مِیرؔ ہو، مرزاؔ ہو، میراؔ جی ہو

نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے

ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں

ایک ہی طولِ المناکی ہے

ایک ہی رُوح جو بے حال ہے زندانوں میں

ایک ہی قید تمنا کی ہے

 

عہدِ رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں

اور کچھ واہمے آئندہ کے

پھر بھی اندیشہ وہ آئینہ ہے جس میں گویا

مِیرؔ ہو، مرزاؔ ہو، میراؔ جی ہو

کچھ نہیں دیکھتے ہیں

محورِ عشق کی خود مست حقیقت کے سوا

اپنے ہی بیم و رجا اپنی ہی صورت کے سوا

اپنے رنگ، اپنے بدن، اپنے ہی قامت کے سوا

اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا!

 

’’دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی

ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت‘‘

’’مدعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے

آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے‘‘

’’چاند کے آنے پہ سائے آئے

سائے ہلتے ہوئے، گھُلتے ہوئے، کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں‘‘۔۔۔۔

(مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو

اپنی ہی ذات کی غربال میں چھَن جاتے ہیں!)

دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے

آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے

چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی

ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی

 

مِیر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو

آج جاں اِک نئے ہنگامے میں در آئی ہے

ماہِ بے سایہ کی دارائی ہے

یاد وہ عشرتِ خوں ناب کِسے؟

فرصتِ خواب کسے؟

٭٭٭

 

 

 

مُسکراہٹیں

 

مُسکراہٹیں ہیں وہ کرم کہ جس کا ریشہ

استوارِ ازل میں ہے

ابد بھی جس کے ایک ایک پل میں ہے

کبھی ہیں سہوِ گفتگو

کبھی اشارۂ خرد، کبھی شرارۂ جنوں

کبھی ہیں رازِ اندروں

وہ مسکراہٹیں بھی ہیں کہ پارہ ہاے ناں بنیں

وہ مسکراہٹیں بھی ہیں کہ برگِ زر فشاں بنیں

کبود رنگ، زرد رنگ، نیل گُوں

کبھی ہیں پیشہ ور کا التہابِ خوں

کبھی ہیں رس، کبھی ہیں مَے

کبھی ہیں کارگر کا رنگِ خَے

کبھی ہیں سنگِ رہ

کبھی ہیں راہ کا نشاں

کبھی ہیں پشتِ پا پہ چور بن کے گامزن

کبھی فریبِ جستجو،

کبھی یہی فراقِ لب، کبھی یہی وصالِ جاں

مگر ہمیشہ سے وہی کرم

کہ جس کا ریشہ استوار ازل میں ہے!

٭٭٭

 

 

زمانہ خدا ہے

 

’’زمانہ خدا ہے، اِسے تم برا مت کہو‘‘

مگر تم نہیں دیکھتے۔۔۔ زمانہ فقط ریسمانِ خیال

سبک مایہ، نازک، طویل

جدائی کی ارزاں سبیل

وہ صبحیں جو لاکھوں برس پیشتر تھیں،

وہ شامیں جو لاکھوں برس بعد ہوں گی،

انھیں تم نہیں دیکھتے، دیکھ سکتے نہیں

کہ موجود ہیں، اب بھی موجود ہیں وہ کہیں،

مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے

اسے دیکھ سکتے ہو، اور دیکھتے ہو

کہ یہ وہ عدم ہے

جسے ہست ہونے میں مدّت لگے گی

ستاروں کے لمحے، ستاروں کے سال!

 

مرے صحن میں ایک کم سن بنفشے کا پودا ہے

طیّارہ کوئی کبھی اس کے سر پر سے گزرے

تو وہ مسکراتا ہے اور لہلہاتا ہے

گویا وہ طیارہ، اُس کی محبت میں

عہدِ وفا کے کسی جبرِ طاقت ربا ہی سے گزرا!

وہ خوش اعتمادی سے کہتا ہے:

’لو، دیکھو، کیسے اسی ایک رسی کے دونوں کناروں

سے ہم تم بندھے ہیں!

یہ رسی نہ ہو تو کہاں ہم میں تم میں

ہو پیدا یہ راہِ وصال؟‘‘

مگر ہجر کے ان وسیلوں کو وہ دیکھ سکتا نہیں

جو سراسر ازل سے ابد تک تنے ہیں!

جہاں یہ زمانہ۔۔۔ ہنوزِ زمانہ

فقط اِک گرہ ہے!

٭٭٭

 

 

 

 

بے مہری کے تابستانوں میں

 

بے مہری، بے گانہ پن کے تابستانوں میں

ہر سو منڈلانے لگتے ہیں زنبورِ اوہام

اور ساتھ اپنے اک ابدیت لاتے ہیں

شہروں پر خلوت کی شب چھا جاتی ہے

غم کی صرصر تھرّاتی ہے ویرانی میں

اونچے طاقتور پیڑوں کے گرنے کی آوازیں آتی ہیں

میدانوں میں!

بے مہری بے گانہ پن کے تابستانوں میں

جس دم منڈلانے لگتے ہیں زنبورِ اوہام

 

جب ہم اپنی روحوں کو

لا ڈالتے ہیں یوں غیریت کے دو راہوں میں

روحیں رہ جاتی ہیں جسموں کے نم دیدہ پیراہن

یا جسموں کے بوسیدہ اترن

ہر بے مہری کے ہنگام!

کیا یہ کہنا جھوٹ تھا، اے جاں:

۔۔۔انساں سب سے بیش بہا ہے،

کیوں اُس کی رسوائی ہو

بے بصری کے بازاروں کی بے مایہ دکّانوں میں؟۔۔۔

کیا یہ کہنا جھوٹ تھا، اے جاں:

ہم سب فرد ہیں، ہم پر اپنی ذات سے بڑھ کر

کس آمر کی دارائی ہو؟۔۔۔

کیا یہ کہنا جھوٹ تھا، اے جاں:

۔۔۔ ہم سب ہست ہیں، ہم کیوں جاں دیں

مذہب اور سیاست کے نابودوں پر؟

موہوموں کی فوقیت دیں

آگاہی کی آنکھوں سے، موجودوں پر؟

 

بے مہری کے زنبور گئے تو

ذہنِ اوہامِ باطن کی

شوریدہ فصیلوں سے نکلے

غم کے آسیب ایذا کے

نادیدہ وسیلوں سے نکلے

پھر ہم لحنِ آب و زمیں کی

قندیلوں سے سرشار ہوئے

ہم نے دیکھا، ہم تم گویا تاک سے پُر ہیں

ہم تم اس خورشید سے پر ہیں

آہنگِ حرف و معنی کے

ذرّے جس کے دامن میں

ہم تم شیوۂ باراں سے پر ہیں

آہنگِ حرف و معنی کے

نغمے جس کے دامن میں

ہم دریا سے پُر ہیں

ہم ساحل سے پُر ہیں

ہم موجوں سے پُر ہیں

ہم ایک بشارت سے پُر ہیں!

٭٭٭

 

 

 

مری مورِ جاں

 

مری مورِ جاں،

مورِ کم مایہ جاں،

رات بھر زیرِ دیوار، دیوار کے پاؤں میں

رینگتی، سانپ لہریں بناتی رہی تھی؛

مگر صبح ہونے سے پہلے

انہوں نے جو دروازہ کھولا

تو مَیں مردہ پایا گیا۔۔۔

(مرے خواب زندہ بچے تھے!)

 

مجھے آنسوؤں کے کرم سے ہمیشہ عداوت رہی ہے

تو میں نے یہ پوچھا: ’’عزیزو!

تمہیں اس کا خدشہ نہیں

کہ میرے زیاں سے، وہ آہنگِ حرف و معانی

نمودار ہو گا، مری مورِ جاں جس کی خاطر

سدا رینگتی، سانپ لہریں بناتی رہی ہے؟

تمہیں اس کا خدشہ نہیں،

کہ یہ خواب بھی،

جو مری موت پر تہ نشیں رہ گئے ہیں،

جنہیں تم ہزاروں برس تک

چھپاتے پھرو گے اساطیر کے روزنوں میں

محبّت کے کافور کو چیر کر

عقیدت کی روئی کے تودوں سے ناگہ نکل کر

عجائب گھروں میں، ہزاروں برس بعد کے

زائروں کے لیے راحتِ جاں بنیں گے،

تمہیں اس کا خدشہ نہیں ہے۔۔۔ ؟‘‘

 

ہنسے، جیسے یہ بات میں نے

اُنہی کے دلوں سے چُرا لی!

وہ کہنے لگے: ’’ہاں یہ خدشہ تو ہے،

آؤ، اس مرنے والے کو پھر سے جلا دیں

(مگر اس کے خوابوں سے نابود کر دیں)

اسے رینگنے دیں

اسے سالہا سال تک رینگنے دیں

کہ اس کی نگاہوں میں پھر خواب پیدا نہ ہوں

اسے رینگنے دیں

اسے سالہا سال تک رینگنے دیں

اور آئندہ نسلوں کی جانیں

غمِ آگہی سے بچا لیں!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے

 

بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،

ہیں ابھی رہگزرِ خواب میں اندیشے

گداؤں کی قطار

سرنِگوں، خیرہ نگار، تیرہ گلیم

گزرے لمحات کا انبار لگائے

شب کی دریوزہ گری کا حاصل!

 

بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے

ریزشِ آب سرِ برگ سنائی دی ہے

اور درختوں پہ ہے رنگوں کی پکار

کتنے زنبور مرے کمرے میں دِر آئے ہیں

نوشِ جاں! بزمِ سحر گاہ کی ہو

ایک ہنگامہ پلٹ آیا ہے!

(خواب کا چہرۂ زیبا کبھی لوٹ آئے گا

لبِ خنداں بھی پلٹ آئیں گے!)

عشق ہو، کام ہو یا وقت ہو یا رنگ ہو

خود اپنے تعاقب میں رواں

اپنے ہی پہنائی تک

کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے

تاک کی شاخ سے تا لرزشِ مے

لرزشِ مے سے تمنّاؤں کی رعنائی تک

اور تمنّاؤں کی گل ریزی سے

صبح انگور کی دارائی تک

کیسے اِک دائرہ بن جاتا ہے

بے صدا صُبح پلٹ آئی ہے،

پاؤں کی چاپ لباسوں کی صریر

اور بڑھتی ہوئی کؤچوں کی نفیر

نوشِ جاں! کام کا ہنگامہ

یہی عشق بھی ہے، چہرۂ زیبا بھی یہی

یہی پھُولوں کا پر و بال بھی ہے

رنگِ لب ہائے مہ و سال بھی ہے!

٭٭٭

 

 

تسلسل کے صحرا میں

 

تسلسل کے صحرا میں ریگ و ہوا، پاؤں کی چاپ

سمت و صدا

تغیر کا تنہا نشاں؛

تسلسل کے صحرائے جاں سوختہ میں

صدائیں بدلتے مہ و سال

ہوائیں گزرتے خدوخال

تنہا نشانِ فراق و وصال

 

تسلسل کے صحرا میں

اک ریت ٹیلے کی آہستہ آہستہ ریزش

کسی گھاس کے نامکمل جزیرے میں اک جاں بلب

طائرِ  شب کی لرزش

کسی راہ بھٹکے عرب کی سحر گاہ حمد و ثنا

تسلسل کے بے اعتنا رات دن میں تغیر کا

تنہا نشاں۔۔۔ محبت کا تنہا نشاں!

 

صبا ہو کہ صرصر کہ بادِ نسیم

درختوں کی ژولیدہ زلفوں میں بازی کناں

اور ذرّوں کے تپتے ہوئے سرخ ہونٹوں

سے بوسہ ربا

صبا جب گزرتی ہے، بیدار ہوتے ہیں اس کی صدا

سے بدلتے ہوئے حادثوں کے نئے سلسلے

نئے حادثے جن کے دم سے تسلسل کا رویا یقیں

نئے حادثے جن کے لطف و کرم کی نہایت نہیں!

تسلسل کے صحرا میں میرا گزر کل ہوا

تو یادیں نگاہوں کے آگے گزرتے ہوئے رہگزر

بن گئیں:

پہاڑوں پہ پانی کے باریک دھارے

فرازوں سے اترے، بہت دور تک دشت و در

میں مچلتے رہے، پھر سمندر کی جانب بڑھے

اور طوفاں بنے،

اُن کی تاریک راتیں سحر بن گئیں!

ازل کے درختوں میں سیبوں کے رسیا

ہمارے جہاں دیدہ آبا

درختوں سے اُترے، بہت دُور تک دشت و در

میں بھٹکتے رہے، پھر وہ شہروں کی جانب بڑھے

اور انساں بنے، ہر طرف نور باراں بنے

وہ سمت و صدا جو سفر

کا نشاں تھیں

وہی منتہائے سفر بن گئیں!

تسلسل کے صحرا میں ریگ و ہوا، پاؤں کی چاپ

سمت و صدا

تسلسل کا رازِ نہاں، تغیر کا تنہا نشاں

محبت کا تنہا نشاں

٭٭٭

 

 

 

 

دیوار

 

کتنی آوارہ و سرگشتہ ہو

لوٹ آتی ہے دیوار سے ٹکرا کے نگاہ

دیکھ پتّوں کی کئی نسلوں کے انبار کہ ہیں

ایک انبوہِ پریشاں خمِ دیوار کے ساتھ

دیکھ انگور کی ان سوکھی ہوئی بیلوں کی گیرائی بھی

کس طرح صحن میں ایک ان میں سے جھک آئی بھی!

 

توڑ کے فرش کو ہمسائے نے دیوار لگائی تھی کبھی

(ایک پردہ بھی ہے، سایہ بھی ہے، دارائی بھی

اس سے ملتی نہیں عشاقِ تنک مایہ کو راہ

کام آتی نہیں مہتاب کی بینائی بھی!)

اور دیوار پہ ٹوٹے ہوئے شیشوں کی قطار

نیلگوں، سرخ، طلا رنگ، سیاہ

کس عرق ریزی سے، ہمت سے سجائی تھی کبھی

کہیں چھونے کی جسارت نہ کریں چور کے ہاتھ

(حیف، شیشوں پہ لپٹ آئی ہے اب کائی بھی!)

بوڑھے ہمسائے سے ہم کیوں نہ کہیں

کوئی مطلب نہیں انوار سے رنگوں سے صداؤں سے تجھے؟

راحتِ جاں سے شرابور ہواؤں سے غرض؟

صبح کے نغمہ سراؤں سے غرض؟

تجھے بھاتی نہیں خوشبوؤں کی رعنائی بھی؟

 

بوڑھا ہمسایہ سنے گا لیکن؟

زیرِ دیوار جو کرتا ہے بکھرتے ہوئے تاروں کا شمار

اپنے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی قطاروں کا شمار

شامِ پیری کے اشاروں کا شمار؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

پَیرو

 

تُو مرے پیچھے، مرے قدموں پہ میلوں تک چلا

مجھ کو تیرے ہانپتے پاؤں کی دزدیدہ صدا آتی رہی

ایک مہجورِ ازل دل کی نوا آتی رہی

تُونے دو راہوں پہ آکر لوٹ جانے کا ارادہ بھی کیا

ترک جادہ بھی کیا

پھر بھی تُو چلتا رہا۔۔۔چلتا رہا

میں تذبذب پر ترے ہنستا رہا۔۔۔ہنستا رہا!

 

تو مرا سایہ ہے لیکن

تجھ کو سایہ بن کے رہنا ناگوار

ثانوی نسبت کا سہنا ناگوار

تُو کبھی قامت، کبھی جثّے کی افزائش

کی سعیِ رائیگاں کرتارہا

راہگیروں سے یہ دردِ دل بیاں کرتا رہا

 

مجھ کو یہ ڈرتو نہیں

ایک دن تُو مجھ کو آلے گا کہیں

سوچتا ہوں

تجھ سے پائے راہ پیمائی کے سارے حوصلے

میں گماں ہوں، میں گماں ہوں

اور تُو میرا یقیں

میں تری صورت ہوں شاید

اور تُو معنا مرا

میں ترا پَیرو ہوں تُو ہے رہبر دانا مرا

سوچتا ہوں

نقل لے لوں، اصل دے ڈالوں تجھے

اپنے جسم و روح میں ’’میَں‘‘ کی طرح پالوں تجھے

ہاں اگر اندیشہ ہے دل میں تو یہ

پھر بھی رہ جائیں نہ باقی وہ نجومی فاصلے

میرے تیرے درمیاں جو سالہا قائم رہے

جن کا تو شاکی رہا

تُو مرے پیچھے، مرے قدموں پہ میلوں تک چلا

چلتا رہا۔۔۔ دائم رہے چلنا ترا!

٭٭٭

 

 

 

 

وہی کشفِ ذات کی آرزو

 

 

مرا دل گرو، مری جاں گرو!

چلا آ کہ ہے مرا در کھلا

تو مرا نصیب ہے راہرو!

یہ ہوا، یہ برق، یہ رعد و ابر، یہ تیرگی

رہِ انتظار کی نارسی

مرے جان و دل پہ ہیں تو بتو

مرے میہماں ، مرے راہرو!

اے گریز پیا، تو سرابِ دشتِ خلا نہ بن

وہ نوا نہ بن جو فریبِ راہگزار ہو

وہ فسونِ ارض و سما نہ بن

جسے دل گرفتوں سے عار ہو!

جو تجھے بلاتی ہے پے بہ پے

وہ صدا جلاجلِ جاں کی ہے

وہ صدا مرورِ زماں کی ہے!

کسے اس صدا سے فرار ہو؟

مرا دل گرو، مری جاں گرو

تری کُن مکُن، تری رَو مرَو

مجھے بارِ جاں،

کہ میں حرف جس کا بیاں ہے تو

میں وہ جسم جس کی رواں ہے تو

تو کلام ہے، میں تری زباں

تو وہ شمع ہے کہ میں جس کی لو!

 

کسی نقش کار کا اِک نفس۔۔۔

کئی صورتیں جو سدا سے تشنۂ رنگ تھیں

ہوئیں وصل معنی سے بارور

کسی بت تراش کی اِک نگہ۔۔۔

کئی سنگ اذیتِ یاس و مرگ

سے بچ گئے

ہوئے سمتِ راہ سے باخبر!

چلا آ کہ میری ندا میں بھی

وہی رویتِ ازلی کہ ہے

جسے یاد غایتِ رنگ و بُو

جسے یاد رازِ مئے و سبو

جسے یاد وعدۂ تار و پو!

چلا آ کہ میری ندا میں بھی

اسی کشفِ ذات کی آرزو!

٭٭٭

 

 

 

 

نئی تمثیل

 

ہم کہ سب تیرے پرستاروں میں ہیں،

اے طلاموسِ کبیر،

تو ہمارا دستگیر!

(جیسے ہر کامل ہے ساکن

اُس طرف کامل کہ جو ساکن بھی ہے،

محدود بھی،

اس طرف اِک خام، خاموں کی طرح

حرکت میں ہے، غلطاں بھی ہے،

ناشکیبا بھی ہے، بے پایاں بھی ہے!)

کون سی جانب بڑھیں،

اے طلاموسِ کبیر؟

سنگِ میلِ ہست پر جم جائیں ہم؟

ماجرا کے سامنے آنکھیں بچھائیں؟

 

کھیل کھلتا ہے، تو کھلتی جارہی ہے

(کیسی کمسن!) داستاں،

ڈھلتے جاتے ہیں اشارے، حرف، آوازیں، ادائیں،

خود اداکاروں کا باطن داستاں!

ان کے متحرک قدم، اور ان کے سائے

دیکھنے والوں کا غوغا: ’’چپ رہو!

چپ رہو، ہم کچھ سمجھ سکتے نہیں،

مبتذل! آوارہ! بس مت کچھ کہو!

شرمناک! اب کچھ نہ گاؤ!‘‘

دیکھنے وا لوں کا ہنگامہ کہ بام و فرش ایک!

یہ نئی تمثیل، جس کا تُو ہی خالق

کیسا حوّا، کیسا مریم کھیل

کیا تو نے اسے دیکھا نہیں

داستاں طے کی نہ تھی،

حرف تک، کوئی اشارہ تک کبھی

سوچا نہ تھا؟

 

پھر بھی سرگرمی سے جاری ہے یہ کھیل!

اے طلاموسِ کبیر،

ایک نافہمی کے پتھر پر یہ کیوں خوابیدہ ہیں،

ایک پیرہ زال سے چسپیدہ ہیں،

دیکھنے والوں میں کیوں اتنے ادا نا آشنا؟

 

’’اس فسون و خواب کی تصویر آرائی کریں،

جو پِیر ہے، پارینہ ہے؟

یا سبک پا روز و شب کے عشق سے

سینوں کو تابندہ کریں؟

 

اے اداکارو، نہیں

جیسے ہی پھر پردہ گرا

گونج بن کر اُن کے ذہنوں میں دمک اٹھے گا کھیل،

(ان کی نظریں دیکھیے!)

ان کو بچوں کی محبت، گھر کی راحت،

اور زمیں کا عشق سب یاد آئے گا،

ان کے صحرا جسم وجاں میں

فہم کی شبنم سے پھراٹھے گا

حِسِّ دریا کا شور!

 

خود اداکاروں سے یہ بھی کم نہیں،

یہ اداکاروں کی آوازوں پہ کچھ جھولے سہی،

لفظوں کو بھی تولا کیے، قدموں کو بھی گنتے رہے،

۔۔۔ان کے چہرے زرد، رخسارے اُداس۔۔۔

درد کی تہذیب کے پَیرو،

ہزاروں سال کی مبہم پرستش،

یہ مگر کیا پا سکے؟

آہ کے پیاسے، کبھی اشکوں کے مستانے رہے

اپنے بے بس عشق کو عشقِ رسا جانے رہے!

ہر نئی تمثیل کے معنی سے بیگانے رہے!

جب اداکاروں کی رخصت کی گھڑی آئی

تو جاگیں گے، تو یاد آئے گا ہم میں

اور اداکاروں میں نافہمی کے تار۔۔۔

اور کوئی فاصلہ حائل نہ تھا!

 

اے طلاموسِ کبیر

تیرا پیغمبر ہوں میں!

تُو نے بخشا ہے مجھے کچھ فیصلوں کا اختیار

ان اداکاروں سے ان کے دیکھنے والوں

کا عقدِ نو۔۔۔ یہ میرا فیصلہ:

’’تم میاں ہو، اور تم بیوی ہو۔۔۔

تم ملکہ ہو، تم ہو شہر یار۔۔۔

تم بندر ہو، تم بندریا۔۔۔‘‘

ہم کہ سب تیرے پرستاروں میں ہیں،

اے طلاموسِ کبیر!

٭٭٭

 

 

 

سالگرہ کی رات

 

آج دروازے کھُلے رہنے دو

یاد کی آگ دہک اٹھی ہے

شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں

آج دروازے کھلے رہنے دو

جانتے ہو کبھی تنہا نہیں چلتے ہیں شہید؟

میں نے دریا کے کنارے جو پرے دیکھے ہیں

جو چراغوں کی لویں دیکھی ہیں

وہ لویں بولتی تھیں زندہ زبانوں کی طرح

میں نے سرحد پہ وہ نغمات سنے ہیں کہ جنہیں

کون گائے گا شہیدوں کے سوا؟

میں نے ہونٹوں پہ تبسّم کی نئی تیز چمک دیکھی ہے

نور جس کا تھا حلاوت سے شرابور

اذانوں کی طرح!

ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی،

مَیں ابھی ہانپ رہا ہوں مجھے دم لینے دو

راز وہ اُن کی نگاہوں میں نظر آیا ہے

جو ہمہ گیر تھا نادیدہ زمانوں کی طرح!

یاد کی آگ دہک اٹھی ہے

سب تمنّاؤں کے شہروں میں دہک اٹھی ہے

آج دروازے کھلے رہنے دو

شاید اس رات ہمارے شہدا آ جائیں!

وقت کے پاؤں الجھ جاتے ہیں آواز کی زنجیروں سے

اُن کی جھنکار سے خود وقت جھنک اٹھتا ہے

نغمہ مرتا ہے کبھی، نالہ بھی مرتا ہے کبھی؟

سنسناہٹ کبھی جاتی ہے محبت کے بجھے تیروں سے؟

میں نے دریا کے کنارے انہیں یوں دیکھا ہے ۔۔

میں نے جس آن میں دیکھا ہے انہیں

شاید اس رات،

اس شام ہی،

دروازوں پہ دستک دیں گے!

شہدا اتنے سبک پا ہیں کہ جب آئیں گے

نہ کسی سوئے پرندے کو خبر تک ہو گی

نہ درختوں سے کسی شاخ کے گرنے کی صدا گونجے گی

پھڑپھڑاہٹ کسی زنبور کی بھی کم ہی سنائی دے گی

آج دروازے کھلے رہنے دو!

ابھی سرحد سے میں لوٹا ہوں ابھی

پار جو گزرے گی اس کا ہمیں غم ہی کیوں ہو؟

پار کیا گزرے گی، معلوم نہیں ۔۔

ایک شب جس میں

پریشانیِ آلام سے روحوں پہ گرانی طاری

روحیں سنسان، یتیم

اُن پہ ہمیشہ کی جفائیں بھاری

بوئے کافور اگر بستے گھروں سے جاری

بے پناہ خوف میں رویائے شکستہ کی فغاں اٹھے گی

بجھتی شمعوں کا دھواں اٹھے گا۔۔۔

پار جو گزرے گی معلوم نہیں ۔۔

اپنے دروازے کھُلے رہنے دو

٭٭٭

 

 

 

 

اس پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ

 

 

اس پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ

اس پیڑ کا پھیلاؤ زمانوں میں بھی ہے، آج میں بھی

اس کی جڑیں ہیں

صدیوں سے یہاں لوگ ہر سمت سے آتے بھی

بچھڑتے بھی رہے ہیں

برگد کے تلے قبر پہ (کیا جانیے کیا دفن ہے!)

نذرانوں کے انبار لگے ہیں،

خوابیدہ ہے اس پیڑ کے نیچے کوئی مجذوبِ برہنہ

اور پیڑ پہ ہے بوم کا سایہ

اے قبر پہ برگد کے تلے سوئے ہوئےشخص

تہمد ترا رانوں سے بہت اونچا اٹھا ہے

اس راہ سے تاریخ ابھی گزری ہے حافظ کی غزل گاتی ہوئی

سوکھے ہوئے اعضا پہ ترے ہنستی ہوئی

اب جن کو تناسل سے کوئی کام نہیں ہے!

 

اے قبر پہ سوئے ہوئے مجذوب تری نیند میں

صحراؤں کی بُو باس،

آتی ہے تری سانس سے اس فقر کی آواز کہ ہے زیرو بمِ مرگ

وہ مرگ کہ ہے شرم کی تمثیل

افسوس کے دروازے پر اک عشقِ سیہ روز

کے مانند پڑا ہے

 

لو شخص نے پھر نیند کی دلدل میں سے جھانکا

تہمد بھی سنبھالا

اک نعرہ لگایا

حافظ کی غزل جس کی صدا گہرے کنویں میں سے اٹھی تھی

اس شخص نے پھر اس کو پکارا

پھر سلسلۂ خواب جہاں ٹوٹا تھا دوبارہ ملایا

اور ناف کے پر پیچ مسائل میں ہوا گُم

 

ہاں ناف میں (یا ناف کے پاتال میں) شاید

تجھ کو نظر آ جائے کبھی شہر کے آلام کا رعشہ

اس شہر میں اب دیکھنے کو آنکھ، نہ جینے کے لیے ہاتھ

نہ رونے کے لیے دل!

کچھ لوگوں نے جو قحط کے ملبے پہ کھڑے دیکھتے تھے

اک گیت، محبت کا نیا گیت سرِ آغاز کیا ہے

برگد کی طرف آؤ، ذرا ہاتھ بڑھاؤ

گاتے ہوئے لوگو

اے شہر کے پاکیزہ ترینو

نغمے کی حلاوت سے وہ افسوں جو کسی خوف نے

برگد پہ لپیٹا ہے اتارو

اور خوف کو چپ چاپ نکل جانے دو ماضی کے کنارے

(اس خوف کی ہر لہر میں حافظؔ کی غزل ہے!)

کیا چیز ہیں برگد کے پرندے

(کیا ان کی ہم آغوشی کا غل تم نے سنا ہے؟

ہر گھر کا کنواں ان کی عنایات سے پر ہے

اور ان کی ہوس ناک نگاہوں نے

جوانی کے کئی ہار چرائے!)

گاتے رہو لوگو!

گاتے رہو یہ گیت کہ ٹوٹے گی حجابات کی وہ مہر

جو سانسوں پہ لگی ہے

اس گیت سے پھر اپنی جواں عورتوں کے

سینوں پہ مہتاب کھلیں گے

اور پھولوں کے الہام سے

دھل جائیں گے پھر صحن ہمارے!

٭٭٭

 

 

 

 

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے

 

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے وصال سے

کئی لذّتوں کا ستم لیے

جو سمندروں کے فسوں میں ہیں

مرا ذہن ہے وہ صنم لیے

وہی ریگ زار ہے سامنے

وہی ریگ زار کہ جس میں عشق کے آئنے

کسی دستِ غیب سے ٹوٹ کر

رہِ تارِ جاں میں بکھر گئے!

ابھی آ رہا ہوں سمندروں کی مہک لیے

وہ تھپک لیے جو سمندروں کی نسیم میں

ہے ہزار رنگ سے خواب ہائے خنک لیے

چلا آرہا ہوں سمندروں کا نمک لیے

 

یہ برہنگیِ عظیم تیری دکھاؤں میں

(جو گدا گری کا بہانہ ہے)

کوئی راہرو ہو تو اس سے راہ کی داستاں

میں سنوں، فسانہ سمندروں کا سناؤں میں

(کہ سمندروں کا فسانہ عشق کی گسترش کا فسانہ ہے)

 

یہ برہنگی جسے دیکھ کر بڑھیں دست و پا، نہ کھلے زباں

نہ خیال ہی میں رہے تواں

تو وہ ریگ زار کہ جیسے رہزنِ پیر ہو

جسے تابِ راہزنی نہ ہو

کہ مثالِ طائرِ نیم جاں

جسے یادِ بال و پری نہ ہو

کسی راہرو سے امّیدِ رحم و کرم لیے

میں بھرا ہوا ہوں سمندروں کے جلال سے

چلا آرہا ہوں میں ساحلوں کا حشم لیے

ہے ابھی انہی کی طرف مرا درِ دل کھلا

کہ نسیمِ خندہ کو رہ ملے

مری تیرگی کو نگہ ملے

وہ سرور و سوزِ صدف ابھی مجھے یاد ہے

ابھی چاٹتی ہے سمندروں کی زباں مجھے

مرے پاؤں چھو کے نکل گئی کوئی موج ساز بکف ابھی

وہ حلاوتیں مرے ہست و بود میں بھر گئی

وہ جزیرے جن کے افق ہجومِ سحر سے دیدِ بہار تھے

وہ پرندے اپنی طلب میں جو سرِ کار تھے

وہ پرندے جن کی صفیر میں تھیں رسالتیں

ابھی اس صفیر کی جلوتیں مرے خوں میں ہیں

ابھی ذہن ہے وہ صنم لیے

جو سمندروں کے فسوں میں ہیں

چلا آ رہا ہوں سمندروں کے جمال سے

صدف و کنار کا غم لیے

٭٭٭

 

 

 

ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے

 

صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے ،

اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے!

جسم کے ساحلِ آشفتہ پر اک عشق کا مارا ہوا

انسان ہے آسودہ، مرے دل میں ، سرِ ریگ تپاں

میں فقط اس کا قصیدہ خواں ہوں!

(ریت پر لیٹے ہوئے شخص کا آوازہ بلند!)

دور کی گندم و مے ، صندل و خس لایا ہے

تاک کی شاخ پر اک قافلہ زنبوروں کا!

تاک کی شاخ بھی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھی!

کیسے زنبور ہمیشہ سے تمنا کے خداؤں کے حضور

سر بسجدہ ہیں ، مگر مشعلِ جاں لے کے ہر اک سمت رواں!

 

جونہی دن نکلے گا اور شہر

جواں میوہ فروشوں کی پکاروں سے چھلک اٹھے گا،

میں بھی ہر سو ترے مژگاں کے سفیروں کی طرح دوڑوں گا!

(دن نکل آیا تو شبنم کی رسالت کی صفیں تہہ ہوں گی

راستے دن کے سیہ جھوٹ سے لد جائیں گے

بھونکنا چھوڑ کے پھر کاٹنے لگ جائیں گے غم کے کتے

اور اس شہر کے دلشاد مسافر، جن پر

ان کے سائے سے بھی لرزہ طاری،

پیکرِ خواب کے مانند سر راہ پلٹ جائیں گے)

رات یوں چاہا مجھے تو نے کہ میں فرد نہیں

بلکہ آزادی کے دیوانوں کا جمگھٹ ہوں میں ؛

رات یوں چاہا تجھے میں نے کہ تو فرد نہ ہو

بلکہ آئندہ ستاروں کا ہجوم۔ ۔ ۔

صبح کے سینے میں نیزے ٹوٹے

اور ہم رات کی خوشبوؤں سے بوجھل اٹھے!

 

اب بھی اک جسم مرے جسم سے پیوستہ ہے

جیسے اس ریت پہ لیٹے ہوئے انسان کا قالب ہو یہی ۔۔

جسم، میں جس کا قصیدہ خواں ہوں۔۔۔

دن نکل آئے گا زنبوروں کی سوغات گل و تاک

کی دہلیز پہ رکھی ہو گی،

وہ اٹھا لیں گے اسے چومیں گے

ایسی سوغات گل و تاک پہ کچھ بار نہیں!

انہی زنبوروں کی محنت کے پسینے سے درختوں کو ملی

تاب، کہ رویا دیکھیں

کسی دوشیزہ کا رویا جسے شیرینیِ لب بار ہو

(زیبائی جہاں بھی ہو سلام۔۔۔

تیرے ہونٹوں کو دوام!)

رات کے باغوں کی خوشبوؤں کو چھو کر آئے،

زیست کی تازہ دمی، ہست کی ندرت لائے،

اُن کے اِک بوسے سے ہر لب میں نمو آئے گی

موت اس شہر سے دزدانہ پلٹ جائے گی

٭٭٭

 

 

 

رات خیالوں میں گُم

 

پھول کی پتّی ٹھہر، رات کے دل پر ہے بار

رات خیالوں میں گُم

طائرِ جاں پر نہ مار،

رات خیالوں میں گُم

کونسی یادوں میں گُم ہے شبِ تاریدہ مُو؟

رنجِ مسافت کا طُول

(جس کی ہے تُو خود رسول!)

وقت کے چہرے کا رنگ؟

جو کبھی قرمز، کبھی زرد، کبھی لاجورد

(تو کہ سیاہی میں فرد

کوریِ میداں کی مرد!)

راہ کی مہماں سرا؟ (سانس سے پستاں ترے کیسے ہمکتے رہے!)

تاجروں کا قافلہ ، ایک نظر باز تھے

حیلوں سے تکتے رہے!

راہ کی مہماں سرا، خوف سے بستر بھی سنگ

وہم سے رویا بھی دنگ

نالۂ درویش سے صبح کے پیکر پہ ضرب

(ختمِ تمنّا کا کرب!)

عشق کا افسانہ گو ہرزہ گری سے نڈھال

ظلم کی شاخوں سے ژولیدہ زمانوں کی فال

حاشیۂ مرگ پر رہروؤں کے نشاں

ریت کے جالوں میں گم

ریت سوالوں میں گُم

رات خیالوں میں گُم!

(سر جو اٹھائے ذرا ہم تری دعوت منائیں

جشنِ ارادت رچائیں!)

 

کونسی یادوں میں گُم ہے شبِ تاریدہ مُو؟

ایک جزیرہ کہیں عیش وفا کا عدن!

سحر زدہ مر د و زن رقص کناں کُو بکُو

ننگے بدن، تشنہ جاں!

کہنے لگے: ’’دہ خدا کا ہمیں فرماں یہی،

سرد رگوں میں ہو خوں، رقص کریں پھر بھی ہم

جشن ہے کیوں۔۔۔؟‘‘

بجھتے گئے سب چراغ، زندہ رہا اِک الاؤ

جس کی دہک سے زمیں اور ہوئی آتشیں

اور ہوئی عنبریں!

 

اور وہ تنہا دیار چاند سے بھی دُور دست

جس میں اذاں زیرِ لب جس میں فغاں غم سے پست

ایک ہی ہُو کا کھنڈر، جبرِ ریا راد بست

فکر کے مجذوب چُب، حرف کے دیوانے مست

(تجھ کو رہی نور بھر سطحِ خدا کی تلاش

جس کو کوئی چھو سکے: اب تو ہٹا آنکھ سے

بارِ جہاں کی سلیں!)

سطحِ خدا آئنہ اور رخ نیستی

محض ہیولائے ہست!

 

رات ذرا سر اٹھا، فرش سے چسپیدہ تو

جیسے کنویں سے نبات!

رات ذرا سر اٹھا، ہم کہ نہیں دشتِ صفر

ہم کہ عدم بھی نہیں!

سیر تری بے بہا اور ترا ہفت خواں

تاب میں کم بھی نہیں!

ہاتھ مگر شل ترے، تیرے قدم بھی نہیں!

اور اگر ہوں تو کیا؟

صبح کے بلّور پر کس کو میسّر ثبات؟

رات ذرا سر اٹھا

اور نہ کوتاہ کر اپنی مسافت کی راہ

کیوں ہے خیالوں میں گُم؟

کیسے خیالوں میں گُم؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

گماں کا ممکن​

 

 

 

 

 

 

شہرِ وجود اور مزار

 

یہ مزار،

سجدہ گزار جس پہ رہے ہیں ہم

یہ مزارِ تار۔۔۔۔ خبر نہیں

کسی صبحِ نو کا جلال ہے

کہ ہے رات کوئی دبی ہوئی؟

کسی آئنے کو سزا ملی، جو ازل سے

عقدۂ نا کشا کا شکار تھا؟

کسی قہقہے کا مآل ہے

جو دوامِ ذات کی آرزو میں نزار تھا؟

 

یہ مزار خیرہ نگہ سہی،

یہ مزار، مہر بلب سہی،

جو نسیمِ خندہ چلے کبھی تو وہ در کھلیں

جو ہزار سال سے بند ہیں

وہ رسالتیں جو اسیر ہیں

یہ نوائے خندہ نما سنیں تو اُبل پڑیں!

 

انہیں کیا کہیں

کہ جو اپنی آنکھ کے سیم و زر

کسی روگ میں، کسی حادثے میں

گنوا چکے؟

 

انہیں کیا کہیں

کہ جو اپنے ساتھ کوئی کرن

سحرِ عدم سے نہ لا سکے؟

 

مگر ایک وہ

کہ ہزار شمعوں کے سیل میں

کبھی ایک بار جو گم ہوئے

خبر اپنی آپ نہ پا سکے!

کبھی گردِ رہ، کبھی مہر و ماہ پہ سوار تھے

وہ کہانیوں کے جوان۔۔ کیسے گزر گئے!

وہ گزر گئے ہمیں خاکِ بے کسی جان کر

نہ کبھی ہماری صدا سنی

وہ صدا کہ جس کی ہر ایک لے

کبھی شعلہ تھی، کبھی رنگ تھی

کبھی دل ہوئی، کبھی جان بنی!

 

وہ نمی، وہ خلوتِ ترش بو

جو اجالا ہوتے ہی

قحبہ گاہوں میں آپ پائیں

وہی خامشیِ دراز مو، وہی سائیں سائیں

کہ جو بنک خانوں کے آس پاس

تمام رات ہے رینگتی

وہی اس مزار کی خامشی

جو ہماری ہست پہ حکمراں

جو ہماری بُود پہ خندہ زن!

 

مگر آرزوئیں،

وہ سائے عہدِ گزشتہ کے،

کبھی واردات کے بال و پر

کبھی آنے والے دنوں کا پرتوِ زندہ تر

وہ ہوائیں ہیں کہ سدا سے

آگ کے رقصِ وحشی و بے زمام میں ہانپتی

کبھی گھر کے سارے شگاف و درز میں چیختی

کبھی چیختی ہیں پلک لگے

کبھی چیختی ہیں سحر گئے!

 

ابھی سامنے ہے وہ ثانیہ

جسے میرے خوابوں نے

شب کے ناخنِ تیز تر سے بچا لیا

اسی ثانیے میں وہ شیشے پیکر و جاں کے

پھر سے سمیٹ لوں

جو انہی ہواؤں کے زور سے

گرے اور ٹوٹ کے ماہ و سال کے رہ گزر

میں بکھر گئے

کہ نہیں ہیں اپنی بہا میں دیدۂ تر سے کم

جو مدار، حدِّ نظر سے کم!

میں ہوں آرزو کا۔۔۔

امید بن کے جو دشت و در میں

بھٹک گئی۔۔۔۔

 

میں ہوں تشنگی کا۔۔۔

جو کنارِ آب کا خواب تھی

کہ چھلک گئی۔۔۔۔

 

میں کشادگی کا۔۔۔

جو تنگنائے نگاہ و دل میں

اتر گئی۔۔۔۔

میں ہوں یک دلی کا ۔۔

جو بستیوں کی چھتوں پہ

دودِ سیاہ بن کے بکھر گئی۔۔۔

میں ہوں لحنِ آب کا،

رسمِ باد کا، وردِ خاک کا نغمہ خواں!

 

یہ بجا کہ ہست ہزار رنگ سے جلوہ گر

مگر اک حقیقتِ آخریں

یہی آستانۂ مرگ ہے!

 

یہ بجا سہی

کبھی مرگ اپنی نفی بھی ہے

(وہی مرگ سال بہ سال آپ نے جی بھی ہے)

وہی ہولِ جاں کی کمی بھی ہے

یہی وہ نفی تھی کہ جس کے سایے میں

آپ (میرے مراقبے کی طرح)

برہنہ گزر گئے۔۔

یہ اسی کمی کی تھی ریل پیل

کہ آپ اپنی گرسنگی کی ندی

کے پار اتر گئے

کبھی آسماں و زمیں پہ (دورِ خزاں میں)

بوئے عبیر و گل کی سخاوتوں کی مثال

آپ بکھر گئے۔۔۔۔

ابھی تک (مرا یہ مشاہدہ ہے)

کہ اس مزار کے آس پاس

عبیر و گل کی لپٹ سے

زائروں، رہروؤں کے نصیب

جیسے دمک اٹھے

تو ہزار نام بس ایک نام کی گونج بن کے

جھلک اٹھے

تو تمام چہروں سے ایک آنکھ

تمام آنکھوں سے اک اشارہ

تمام لمحوں سے ایک لمحہ برس پڑا

تو پھر آنے والے ہزار قرنوں کی شاہراہیں

(جو راہ دیکھتے تھک گئی تھیں)

شرار بن کے چمک اٹھیں!

 

یہ بجا کہ مرگ ہے اک حقیقتِ آخریں

مگر ایک ایسی نگاہ بھی ہے

جو کسی کنوئیں میں دبی ہوئی

کسی پیرہ زن (کہ ہے مامتا میں رچی ہوئی)

کی طرح ہمیں

ہے ابد کی ساعتِ نا گزیر سے جھانکتی

تو اے زائرو،

کبھی نا وجود کی چوٹیوں سے اتر کے تم

اسی اک نگاہ میں کود جاؤ

نئی زندگی کا شباب پاؤ

نئے ابر و ماہ کے خواب پاؤ!

 

نہیں مرگ کو (کہ وہ پاک دامن و نیک ہے)

کسی زمزمے کو فسردہ کرنے سے کیا غرض؟

وہ تو زندہ لوگوں کے ہم قدم

وہ تو ان کے ساتھ

شراب و نان کی جستجو میں شریک ہے

وہ نسیم بن کے

گُلوں کے بیم و رجا میں

ان کی ہر آرزو میں شریک ہے

وہ ہماری لذتِ عشق میں،

وہ ہمارے شوقِ وصال میں،

وہ ہماری ہُو میں شریک ہے

کبھی کھیل کود میں ہوں جو ہم

تو ہمارے ساتھ حریف بن کے ہے کھیلتی

کبھی ہارتی کبھی جیتتی۔۔۔۔۔

کسی چوک میں کھڑے سوچتے ہوں

کدھر کو جائیں؟

تو وہ اپنی آنکھیں بچھا کے راہ دکھائے گی۔۔۔

جو کتاب خانے میں جا کے کوئی کتاب اٹھائیں

تو وہ پردہ ہائے حروف ہم سے ہٹائے گی،

وہ ہماری روز کی گفتگو میں شریک ہے!

 

تو، مرے وجود کے شہر

مجھ کو جگا بھی دو

مری آرزو کے درخت مجھ کو دکھا بھی دو

وہ گلی گلی جو گرا رہے ہیں دو رویہ

کتنے ہزار سال سے برگ و گل۔۔۔۔

مجھے دیکھنے دو وہی سحر،

وہی دن کا چہرۂ لازوال،

وہ دھوپ

جس سے ہماری جلد سیاہ تاب ازل سے ہے

مجھے اس جنوں کی رہِ خرام پہ لے چلو

نہیں جس کے ہاتھ میں مو قلم

نہیں واسطہ جسے رنگ سے

فقط ایک پارۂ سنگ سے

ہے کمالِ نقش گرِ جنوں!

 

اے مرے وجود کے شہر

مجھ کو جگا بھی دو!

مرے ساتھ ایک ہجوم ہے

میں جہاں ہوں

زائروں کے ہجوم بھی ساتھ ہیں

کہ ہم آج

معنی و حرف کی شبِ وصلِ نو

کی برات ہیں!

٭٭٭

 

 

 

آگ کے پاس

 

پیرِ واماندہ کوئی

کوٹ پہ محنت کی سیاہی کے نشاں

نوجواں بیٹے کی گردن کی چمک دیکھتا ہوں

(اِک رقابت کی سیہ لہر بہت تیز

مرے سینۂ سوزاں سے گزر جاتی ہے)

جس طرح طاق پہ رکھے ہوئے گلداں کی

مس و سیم کے کاسوں کی چمک!

اور گلو الجھے ہوئے تاروں سے بھر جاتا ہے

 

کوئلے آگ میں جلتے ہوئے

کن یادوں کی کس رات میں

جل جاتے ہیں؟

کیا انہی کانوں کی یادوں میں جہاں

سال ہا سال یہ آسودہ رہے؟

انہی بے آب درختوں کے وہ جنگل

جنہیں پیرانہ سری بار ہوئی جاتی تھی؟

کوئلے لاکھوں برس دور کے خوابوں میں الجھ جاتے ہیں۔۔

 

آج شب بھی وہ بڑی دیر سے

گھر لوٹا ہے

اس کے الفاظ کو

ان رنگوں سے، آوازوں سے کیا ربط

جو اس غم زدہ گھر کے خس و خاشاک میں ہیں؟

اس کو اس میز پہ بکھری ہوئی

خوشبوؤں کے جنگل سے غرض؟

آج بھی اپنے عقیدے پہ بدستور

بضد قائم ہے!

 

وہ درختوں کے تنو مند تنے

(اپنے آئندہ کے خوابوں میں اسیر)

گرد باد آ ہی گئے

ان کی رہائی کا وسیلہ بن کر

خود سے مہجوریِ ناگاہ کا حیلہ بن کر

آئے اور چل بھی دیے

طولِ المناک کی دہلیز پہ

"رخصت” کہہ کر

اور وہ لاکھوں برس سوچ میں

آیندہ کے موہوم میں خوابیدہ رہے!

 

میرے بیٹے، تجھے کچھ یاد بھی ہے

میں نے بھی شور مچایا تھا کبھی

خاک کے بگڑے ہوئے چہرے کے خلاف؟

لحنِ بے رنگ ہوا سن کے

مری جاں بھی پکار اٹھّی تھی؟

میں کبھی ایک انا اور کبھی دو کا سہارا لیتا

اپنی ساتھی سے میں کہہ اٹھتا کہ ’’جاگو، اے جان!

ہر انا تیرہ بیاباں میں

بھٹکتے ہوئے پتوں کا ہجوم!

میرا ڈر مجھ کو نگل جائے گا‘‘

میرے کانوں میں مرے کرب کی آواز

پلٹ آتی تھی

’’تجھے بے کار خداؤں پہ یقیں

اب بھی نہیں؟

اب بھی نہیں؟‘‘

 

آج بھی اپنے ہی الحاد کی کرسی میں

پڑا اونگھتا ہوں

نوجواں بیٹے کے الفاظ پہ چونک اٹھتا ہوں:

’’تو نے، بیٹے،

یہ عجب خواب سنایا ہے مجھے

اپنا یہ خواب کسی اور سے ہر گز نہ کہو!‘‘

کبھی آہستہ سے دروازہ جو کھلتا ہے تو ہنس دیتا ہوں

۔۔۔ یہ بھی اس رات کی صر صر کی

نئی چال، نیا دھوکا ہے!

’’پھول یا پریاں بنانے کا کوئی نسخہ

مرے پاس نہیں ہے بیٹے

مجھے فرداؤں کے صحرا سے بھی

افسونِ روایت کی لہک آتی ہے۔۔۔

آگ میں کوئلے بجھنے کی تمنا نہ کرو

ان سے آیندہ کے مٹتے ہوئے آثار

ابھر آئیں گے

ان گزرتے ہوئے لمحات کی تنہائی میں۔۔

کیسا یہ خواب سنایا ہے مجھے تو نے ابھی

نہیں، ہر ایک سے،

ہر ایک سے یہ خواب کہو

اس سے جاگ اٹھتا ہے

سویا ہوا مجذوب

مری آگ کے پاس

ایسے مجذوب کو اک خواب بہت

خواب بہت۔۔۔ ۔۔ خواب بہت۔۔۔

ایسے ہر مست کو

اک خواب بہت!

٭٭٭

 

 

 

یہ خلا پُر نہ ہوا

 

ذہن خالی ہے

خلا نور سے، یا نغمے سے

یا نکہتِ گم راہ سے بھی

پُر نہ ہوا

ذہن خالی ہی رہا

یہ خلا حرفِ تسلی سے،

تبسم سے،

کسی آہ سے بھی پر نہ ہوا

اِک نفی لرزشِ پیہم میں سہی

جہدِ بے کار کے ماتم میں سہی

ہم جو نارس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں

اِس خلا کو

(اِسی دہلیر پہ سوئے ہوئے

سرمست گدا کے مانند)

کسی مینار کی تصویر سے،

یا رنگ کی جھنکار سے،

یا خوابوں کی خوشبوؤں سے

پُر کیوں نہ کریں؟

کہ اجل ہم سے بہت دُور

بہت دُور رہے؟

 

نہیں، ہم جانتے ہیں

ہم جو نارس بھی ہیں، غم دیدہ بھی ہیں

جانتے ہیں کہ خلا ہے وہ جسے موت نہیں

کِس لیے نُور سے، یا نغمے سے

یا حرفِ تسلّی سے اسے "جسم” بنائیں

اور پھر موت کی وارفتہ پذیرائی کریں؟

نئے ہنگاموں کی تجلیل کا در باز کریں

صبحِ تکمیل کا آغاز کریں؟

٭٭٭

 

 

طلب کے تلے

 

گُل و یاسمن کل سے نا آشنا،

کل سے بے اعتنا

گُل و یاسمن اپنے جسموں کی ہئیت میں فرد

مگر۔۔ کل سے ناآشنا، کل سے بے اعتنا

کسی مرگِ مبرم کا درد

اُن کے دل میں نہیں!

 

فقط اپنی تاریخ کے بے سر و پا طلب کے تلے

ہم دبے ہیں!

ہم اپنے وجودوں کی پنہاں تہیں

کھولتے تک نہیں

آرزو بولتے تک نہیں!

یہ تاریخ میری نہیں اور تیری نہیں

یہ تاریخ ہے ازدحامِ رواں

اُسی ازدحامِ رواں کی یہ تاریخ ہے،

یہ وہ چیخ ہے

جس کی تکرار اپنے من و تُو میں ہے

وہ تکرار جو اپنی تہذیب کی ہُو میں ہے!

 

تجھے اس پہ حیرت نہیں

ہم اِس ازدحامِ رواں کے نشانِ قدم پر چلے جا رہے ہیں

بڑھے جا رہے ہیں

کہ ہم ظلمتِ شب میں تنہا

پڑے رہ نہ جائیں۔۔

بڑھے جا رہے ہیں،

نہ جینے کی خاطر

نہ اس سے فزوں زندہ رہنے کی خاطر

بڑھے جا رہے ہیں، کسی عیب سے

رہزنِ مرگ سے بچ نکلنے کی خاطر،

جدائی کی خاطر!

کسی فرد کے خوف سے بڑھ رہے ہیں

جو باطن کے ٹوٹے دریچوں کے پیچھے

شرارت سے ہنستا چلا جا رہا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

ہم جسم

 

در پیش ہمیں

چشم و لب و گوش

کے پیرائے رہے ہیں

کل رات

جو ہم چاند میں

اس سبزے پہ

ان سایوں میں

غزلائے رہے ہیں

کس آس میں

کجلائے رہے ہیں؟

اس "مَیں” کو

جو ہم جسموں میں

محبوس ہے

آزاد کریں۔۔۔

کیسے ہم آزاد کریں؟

کون کرے؟ ۔۔ ہم؟

ہم جسم؟

ہم جسم کہ کل رات

اسی چاند میں

اس سبزے پہ

ان سایوں میں

خود اپنے کو

دہرائے رہے ہیں؟

کچھ روشنیاں

کرتی رہیں ہم سے

وہ سرگوشیاں

جو حرف سے

یا صوت سے

آزاد ہیں

کہہ سکتی ہیں

جو کتنی زبانوں میں

وہی بات، ہر اک رات

سدا جسم

جسے سننے کو

گوشائے رہے ہیں۔۔

 

ہم جسم بھی

کل رات کے

اک لمحے کو

دل بن کے

اسی بات سے

پھر سینوں کو

گرمائے رہے ہیں۔۔۔

اس "مَیں” کو

ہم آزاد کریں؟

رنگ کی، خوشبوؤں کی

اس ذات کو

دل بن کے

جسے ہم بھی

ہر اک رات

عزیزائے رہے ہیں؟

یا اپنے توہمات کی

زنجیروں میں

الجھائے رہے ہیں

اس ذات کو

جس ذات کے

ہم سائے رہے ہیں؟

٭٭٭

 

 

 

 

جہاں ابھی رات ہے۔۔

 

جہاں ابھی رات ہے، ہوا کے سوا

کوئی زندہ تو نہیں ہے

ابھی ہَوا ساحلوں کے بے تاب ہمہموں سے

گزر کے اپنی طلب کے سُونے

چہار راہوں میں رک گئی ہے ۔۔

اگر وہ چاہے،

تو دُودِ ماضی کے بام و دیوار پھاند جائے

(وہ دست و پا کے پرانے زخموں

کی ریزشِ خوں سے ڈر رہی ہے)

ہوا کشوں کی نگہ سے بچ کر

اگر وہ چاہے،

غموں کی بے صرفہ کھڑکیوں کے

سیاہ شیشوں کو توڑ ڈالے

دلوں کی افسردہ جلوتوں کا سراغ پا لے

(وہ ناتوانوں کے زورِ بازو کے

رازِ پنہاں سے کانپتی ہے)

اگر وہ چاہے،

شگافِ در سے

(جو رات بھر سے

ہماری بے التفاتیوں سے

کھلے رہے ہیں)

ہمارے صحنوں کو روند ڈالے

ہمارے صحنوں کے چار گوشوں میں پھیل جائے

(مگر وہ ہر صحن کی اداسی کو بھانپتی ہے)

جہاں ابھی رات ہے، وہاں ہم ۔۔

وہا ں ابھی لوگ

بہتے پانی کو بوڑھے دانتوں سے کاٹتے ہیں

اور ایسے روتے ہیں خواب میں

جیسے ایک بے جان جسد سے لگ کے

وہ سو رہے ہوں!

ہوا کو اس کی خبر نہیں ہے

ہوا کا ان ہول کے پلوں پر

گزر نہیں ہے!

 

جہاں ابھی رات ہے، وہاں ہم ۔۔

وہاں ابھی لوگ

آرزؤں کے نرد بانوں پہ چل رہے ہیں

قدم قدم پر پھسل رہے ہیں

کہ جیسے صحرا سمندروں میں پھسل رہا ہو!

جہاں ابھی رات ہے

ہوا کے سوا کوئی پردہ در نہیں ہے ۔۔

مگر ہوا جب طلب کی راہوں کو چھوڑ کر پھر

ہمارے دیوار و در پہ جھپٹی

ہمیں پھر اپنی برہنگی کا یقین ہو گا

اور اپنے جسموں کے چاک ہم

رات کی سیاہی میں دیکھتے ہی

بہت ہنسیں گے!

٭٭٭

 

 

 

 

بے سُرا الاپ

 

وہ صحن جن سے پلٹ گئی تھی

دھنک کی خوشبو

وہاں ابھی تک درخت اپنی برہنگی میں

پکارتے ہیں۔۔

پکارتے ہیں:

۔۔’’دھنک کی خوشبو

وہ خواب لا دے

کہ جن سے بھر جائیں رات بھر میں

سبو ہمارے‘‘۔۔۔

 

وہ چاند، کل شب،

جسے ہم اپنے دلوں کے پیالوں

میں قطرہ قطرہ

انڈیلتے رہ گئے تھے، اُس کو

ہنسی ہنسی میں

ابھی کوئی شخص، لمحہ پہلے،

چڑھا کے پیالہ پٹک گیا ہے ۔۔

یہ دیکھتے ہی

گلی کا ملّا بہت ہی رویا:

’’خلا سے کچھ عرش کی خبر بھی؟‘‘

(نفی میں کیسے نفی کا جویا!)

’’وہ چاند کے آر پار۔۔ گویا ۔۔

کہیں نہیں تھا؟

عجیب! گویا کہیں نہیں تھا!‘‘

 

وہ صحن جن سے پلٹ گئی ہے

دھنک کی خوشبو

وہ اُن میں فردا کی نا رسائی کے اشک

چپ چاپ بو رہا ہے۔۔۔

وہ ہنس رہا ہے:

’’اگر زمیں گھومتی ہے، کیونکر

یہ لوگ صحنوں کو لوٹ آئے سحر سے پہلے

کوئی پرندہ نہ راہ بھولا سفر سے پہلے؟‘‘

 

وہ صحن جن سے پلٹ گئی تھی

دھنک کی خوشبو

خلا سے آتی ہوئی صدائیں

اب اُن کے دیوار و بام کو

تھپتھپا رہی ہیں،

ہمارے بوڑھے نزار چہروں پہ لطمہ زن ہیں

کہ رات کے دل فریب رویا

ہمارے سینوں میں

بے سُرا سا الاپ بن کر

اٹک گئے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

طوفان اور کرن

 

شب تم اس قلعے کے "ناجشن” میں

موجود نہ تھے

(شاد رہو!)

کیسی طوفان کی شوریدہ سری تھی، توبہ!

کس طرح پردے کیے چاک

گرائے فانوس

اور ہر درز میں غرّاتا رہا!

ڈگمگاتے ہوئے مہمان

ضیافت کی صفوں سے گزرے

پاؤں تک رکھتے نہ تھے

دل کے قالینوں کے

رنگ و خط و محراب کو

تکتے بھی نہ تھے!

 

آ کے ٹھہری ہے لبِ کاسۂ جاں

یاد کے جنگلِ افسردہ سے

بچتی ہوئی اک تازہ کرن

پر جھپکتی بھی نہیں

اور۔۔۔اُس آنکھ کو جو کاسۂ جاں میں

وا ہے

ابھی تکتی بھی نہیں۔۔۔۔

(یہی وہ کاسۂ جاں

جس میں جلائی ہیں گُلوں کی شمعیں،

جس میں سو رنگ سے کل رات کے مانند

منائی ہیں خدائی راتیں!)

اے کرن،

شکر کہ ہم

ہجر کے زینوں پہ یا

وصل کے آئینوں پہ

جم جاتے نہیں!

اور۔۔۔بیکار ہیولاؤں کے ساتھ

بہتی مالاؤں پہ تھم جاتے نہیں

جن میں نادیدہ ملاقات کی سرگوشی ہو

ایسے گوشوں میں بھی ہم جاتے نہیں!

 

کل تم اس قلعے کے ناجشن میں موجود نہ تھے

اور نہ تم سن ہی سکے

کیسی دوشیزہ وہ دستک تھی

جسے سن نہ سکے

اس کے مژگاں کی لب و چشم کی پیہم دستک!

ایسی دوشیزہ

کہ افلاس کے ناشہروں کی رہنے والی

وہ اترتی ہی گئی

زینوں سے

دیواروں سے

تا حدِّ غبار

تم کہ تھے سیر نگاہ اپنے توہّم پہ سوار

اس کی آواز کہیں سن نہ سکے!

 

اب بھی وہ قلعۂ عرفاں کے دریچے کے تلے

دیتی رہتی ہے دبی پیاس کی دستک شب و روز

اے کرن،

اس کے لیے قطرۂ اشک!

اپنے نادیدہ اجالوں کی پھواروں سے

کوئی قطرۂ اشک!

جس سے دھندلائے بدن

پھر سے نکھر کر نکلیں

خندۂ نور سے بھر کر نکلیں!

٭٭٭

 

 

 

گزرگاہ

 

وقت کے پابند ہاتھ

راہوں کا غمگیں جواب

سنتے رہے،

سبزے کے تشنہ سراب

رات کا دیوانہ خواب

تکتے رہے،

جیسے وہ جاسوس ہوں

جن کا ہدف

آنکھ سے اوجھل کوئی

آفتاب!

 

وعدے کی سردی کی رات

(وعدے کی بے مہر رات)

کیسی ہوائیں چلیں

دیدہ و دل نے مرے

کیسے طمانچے سہے!

کیسے ہر اک چاپ سے

خون پہ ضربیں پڑیں

کیسے رگیں درد کے

راگ سے بوجھل رہیں!

 

آہ وہ زیبا کلام

کھل اٹھیں

جس کے لیے بارہا

روح کی شب ہائے تار

اور پگھلتے رہے

جس کے لیے

ہجر کی برفوں کے خواب

آہ دہ زیبا کلام

دور کا سایہ رہا

 

اور میں سوچا کیا

جینے کی خاطر مگر

رینگتے سایوں سے وابستہ رہوں؟

بات کے پل پر کھڑا

پیاس سے خستہ رہوں؟

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے سمندر

 

 

اے سمندر،

پیکر شب، جسم، آوازیں

 

رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو

پتھروں پرسے گزرتے

رقص کی خاطر اذاں دیتے گئے

اورمیں، مرتے درختوں میں نہاں

سنتا رہا۔۔۔۔

ان درختوں میں مرا اک ہاتھ

عہدِ رفتہ کے سینے پہ ہے

دوسرا، اک شہرِ آیندہ میں ہے

 

جویائے راہ۔۔۔۔

شہر، جس میں آرزو کی مے انڈیلی جائے گی

زندگی سے رنگ کھیلا جائے گا!

 

اے سمندر،

آنے والے دن کو یہ تشویش ہے

رات کا کابوس جو دن کے نکلتے ہی

ہوا ہو جائے گا

کون دے گا اس کے ژولیدہ سوالوں کا جواب؟

کس کرن کی نوک؟

کن پھولوں کا خواب؟

 

اے سمندر،

میں گنوں گا

دانہ دانہ تیرے آنسو

جن میں اک ذخّارِ بے ہستی کا شور!

اے سمندر،

میں گنوں گا دانہ دانہ تیرے آنسو

جن میں آنے والا جشنِ وصل ناآسودہ ہے

جن میں فردائے عروسی کے لیے

کرنوں کے ہار

 

شہر آیندہ کی روحِ بے زماں

چنتی رہی۔۔۔۔

میں ہی دوں گا جشن میں دعوت تجھے

استراحت تیری لہروں کے سوا

کس شے میں ہے؟

 

رات اس ساحل پہ غرّاتے رہے

غم زدہ لمحات کے ترسے ہوئے کتوں کی نظریں

چاند پر پڑتی رہیں

ان کی عو عو دور تک لپکی رہی!

 

اے سمندر،

آج کیونکر، ابر کے اوراقِ کہنہ

بازوئے دیرینۂ امید پر اڑتے ہوئے

دور سے لائے نرالی داستاں!

چاند کی ٹوٹی ہوئی کشتی کی بانہوں پر رواں!

شہر آیندہ کے دست و پا کے رنگ

۔۔۔ جیسے جاں دینے پہ سب آمادہ ہوں۔۔۔

دست و پا میں جاگ اٹھے

راگ کے مانند،

میں بھی دست و پا میں جاگ اٹھا!

 

اے سمندر،

کل کے جشنِ نو کی موج

شہر آیندہ کی بینائی کی حد تک آ گئی۔۔۔

اب گھروں سے،

جن میں راندہ روز و شب کی

چار دیواری نہیں،

مرد و زن نکلیں گے

ہاتھوں میں اٹھائے برگ و بار

جن کو چھو لینے سے لوٹ آئے گی رُو گرداں بہار!

اے سمندر۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

حسن کوزہ گر (2)

 

اے جہاں زاد،

نشاط اس شبِ بے راہ روی کی

میں کہاں تک بھولوں؟

زورِ مَے تھا، کہ مرے ہاتھ کی لرزش تھی

کہ اُس رات کوئی جام گرا ٹوٹ گیا ۔۔

تجھے حیرت نہ ہوئی!

کہ ترے گھر کے دریچوں کے کئی شیشوں پر

اس سے پہلے کی بھی درزیں تھیں بہت۔۔۔

تجھے حیرت نہ ہوئی!

اے جہاں زاد، میں کوزوں کی طرف، اپنے تغاروں کی طرف

اب جو بغداد سے لوٹا ہوں،

تو مَیں سوچتا ہوں۔۔۔

سوچتا ہوں: تُو مرے سامنے آئینہ رہی

سرِ بازار، دریچے میں، سرِ بسترِ سنجاب کبھی

تو مرے سامنے آئینہ رہی،

جس میں کچھ بھی نظر آیا نہ مجھے

اپنی ہی صورت کے سوا

اپنی تنہائیِ جانکاہ کی دہشت کے سوا!

لکھ رہا ہوں تجھے خط

اور وہ آئینہ مرے ہاتھ میں ہے

اِس میں کچھ بھی نظر آتا نہیں

اب ایک ہی صورت کے سوا!

لکھ رہا ہوں تجھے خط

اور مجھے لکھنا بھی کہاں آتا ہے؟

لوحِ آئینہ پہ اشکوں کی پھواروں ہی سے

خط کیوں نہ لکھوں؟

 

اے جہاں زاد،

نشاط اس شبِ بے راہ روی کی

مجھے پھر لائے گی؟

وقت کیا چیز ہے تو جانتی ہے؟

وقت اِک ایسا پتنگا ہے

جو دیواروں پہ آئینوں پہ،

پیمانوں پہ شیشوں پہ،

مرے جام و سبو، میرے تغاروں پہ

سدا رینگتا ہے

رینگتے وقت کے مانند کبھی

لوٹ کے آئے گا حَسَن کوزہ گرِ سوختہ جاں بھی شاید!

 

اب جو لوٹا ہوں جہاں زاد،

تو میں سوچتا ہوں:

شاید اس جھونپڑے کی چھت پہ یہ مکڑی مری محرومی کی

جسے تنتی چلی جاتی ہے، وہ جالا تو نہیں ہوں مَیں بھی

یہ سیہ جھونپڑا مَیں جس میں پڑا سوچتا ہوں

میرے افلاس کے روندے ہوئے اجداد کی

بس ایک نشانی ہے یہی

ان کے فن، ان کی معیشت کی کہانی ہے یہی

مَیں جو لوٹا ہوں تو وہ سوختہ بخت

آکے مجھے دیکھتی ہے

دیر تک دیکھتی رہ جاتی ہے

میرے اس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں۔۔

کھیل اِک سادہ محبّت کا

شب و روز کے اِس بڑھتے ہوئے کھوکھلے پن میں جو کبھی

کھیلتے ہیں

کبھی رو لیتے ہیں مل کر، کبھی گا لیتے ہیں،

اور مل کر کبھی ہنس لیتے ہیں

دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں ۔۔

حرف سرحد ہیں، جہاں زاد، معانی سرحد

عشق سرحد ہے، جوانی سرحد

اشک سرحد ہیں، تبسّم کی روانی سرحد

دل کے جینے کے بہانے کے سوا اور نہیں۔۔۔

(دردِ محرومی کی،

تنہائی کی سرحد بھی کہیں ہے کہ نہیں؟)

 

میرے اِس جھونپڑے میں

کتنی ہی خوشبوئیں ہیں

جو مرے گرد سدا رینگتی ہیں

اسی اِک رات کی خوشبو کی طرح رینگتی ہیں۔۔

در و دیوار سے لپٹی ہوئی اِس گرد کی خوشبو بھی ہے

میرے افلاس کی، تنہائی کی،

یادوں کی، تمنّاؤں کی خوشبو ئیں بھی،

پھر بھی اِس جھونپڑے میں کچھ بھی نہیں۔۔۔

یہ مرا جھونپڑا تاریک ہے، گندہ ہے، پراگندہ ہے

ہاں، کبھی دور درختوں سے پرندوں کی صدا آتی ہے

کبھی انجیروں کے، زیتونوں کے باغوں کی مہک آتی ہے

تو مَیں جی اٹھتا ہوں

تو مَیں کہتا ہوں کہ لو آج نہا کر نکلا!

ورنہ اِس گھر میں کوئی سیج نہیں، عطر نہیں ہے،

کوئی پنکھا بھی نہیں،

تجھے جس عشق کی خو ہے

مجھے اس عشق کا یارا بھی نہیں!

 

تو ہنسے گی، اے جہاں زاد، عجب بات

کہ جذبات کا حاتم بھی مَیں

اور اشیا کا پرستار بھی مَیں

اور ثروت جو نہیں اس کا طلب گار بھی مَیں!

تو جو ہنستی رہی اس رات تذبذب پہ مرے

میری دو رنگی پہ پھر سے ہنس دے!

عشق سے کس نے مگر پایا ہے کچھ اپنے سوا؟

اے جہاں زاد،

ہے ہر عشق سوال ایسا کہ عاشق کے سوا

اس کا نہیں کوئی جواب

یہی کافی ہے کہ باطن کی صدا گونج اٹھے!

 

اے جہاں زاد

مرے گوشۂ باطن کی صدا ہی تھی

مرے فن کی ٹھٹھرتی ہوئی صدیوں

کے کنارے گونجی

تیری آنکھوں کے سمندر کا کنارا ہی تھا

صدیوں کا کنارا نکلا

یہ سمندر جو مری ذات کا آئینہ ہے

یہ سمندر جو مرے کوزوں کے بگڑے ہوئے،

بنتے ہوئے سیماؤں کا آئینہ ہے

یہ سمندر جو ہر اِک فن کا

ہر اِک فن کے پرستار کا

آئینہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

سمندر کی تہہ میں

 

سمندر کی تہہ میں

سمندر کی سنگین تہہ میں

ہے صندوق۔۔۔

صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا

میں ڈبیا۔۔۔

میں کتنے معانی کی صُبحیں۔۔۔

وہ صُبحیں کہ جن پر رسالت کے دَر بند

اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی

کتنی سہمی ہوئی!

(یہ صندوق کیوں کر گِرا؟

نہ جانے کِسی نے چُرایا؟

ہمارے ہی ہاتھوں سے پِھسلا؟

پِھسل کر گِرا؟

سمندر کی تہہ میں مگر کب؟

ہمیشہ سے پہلے

ہمیشہ سے بھی سالہا سال پہلے؟)

اور اب تک ہے صندوق کے گِرد

لفظوں کی راتوں کا پہرا

جو دیووں کی مانند۔۔۔۔

پانی کے لسدار دیووں کے مانند!

یہ لفظوں کی راتیں

سمندر کی تہہ میں تو بستی نہیں ہیں

مگر اپنے لاریب پہرے کی خاطر

وہیں رینگتی ہیں

شب و روز

صندوق کے چار سؤ رینگتی ہیں

سمندر کی تہہ میں!

بہت سوچتا ہوں

کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں

رہائی کی اُمید میں

اپنے غوّاص جادوگروں کی

صدائیں سُنیں گی؟

٭٭٭

 

 

 

سفر نامہ

 

اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں

شریک ہوں!

ہمیں خوف تھا سحرِ ازل

کہ وہ خود پرست نہ روک لے

ہمیں اپنی راہِ دراز سے

کہیں کامرانیِ نَو کے عیش و سُرور میں

ہمیں روک لے

نہ خلا کے پہلے جہاز سے

جو زمیں کی سمت رحیل تھا!

 

ہمیں یہ خبر تھی بیان و حرف کی خُو اُسے

ہمیں یہ خبر تھی کہ اپنی صوتِ گلو اُسے

ہے ہر ایک شے سے عزیز تر

ہمیں اور کتنے ہی کام تھے (تمہیں یاد ہے؟)

ابھی پاسپورٹ لیے نہ تھے

ابھی ریزگاری کا انتظار تھا

سوٹ کیس بھی ہم نے بند کیے نہ تھے

اُسے ضد کہ نُور کے ناشتے میں شریک ہوں!

وہ تمام ناشتہ

اپنے آپ کی گفتگو میں لگا رہا

’’ہے مجھے زمیں کے لیے خلیفہ کی جستجو

کوئی نیک خُو

جو مرا ہی عکس ہو ہُو بہُو!‘‘

تو امیدواروں کے نام ہم نے لکھا دیے

اور اپنا نام بھی ساتھ اُن کے بڑھا دیا!

’’مری آرزو ہے شجر ہجر

مری راہ میں شب و روز

سجدہ گزار ہوں۔۔۔

مری آرزو ہے کہ خشک و تر

مری آرزو میں نزاز ہوں۔۔۔

مری آرزو ہے کہ خیر و شر

مرے آستاں پہ نثار ہوں

مری آرزو۔۔۔ مری آرزو۔۔۔‘‘

شجر و حجر تھے نہ خشک و تر

نہ ہمیں مستیِ خیر و شر

ہمیں کیا خبر؟

تو تمام ناشتہ چپ رہے

وہ جو گفتگو کا دھنی تھا

آپ ہی گفتگو میں لگا رہا!

بڑی بھاگ دوڑ میں

ہم جہاز پکڑ سکے

اسی انتشار میں کتنی چیزیں

ہماری عرش پہ رہ گئیں

وہ تمام عشق۔۔۔ وہ حوصلے

وہ مسرّتیں۔۔ وہ تمام خواب

جو سوٹ کیسوں میں بند تھے!

٭٭٭

 

 

 

"آپ” کے چہرے

 

"آپ” ہم جس کے قصیدہ خواں ہیں

وصل البتّہ و لیکن کے سوا

اور نہیں

"آپ” ہم مرثیہ خواں ہیں جس کے

ہجر البتّہ و لیکن کے سوا

اور نہیں

"آپ” دو چہروں کی ناگن کے سوا اور نہیں!

 

روز "البتّہ” مرے ساتھ

پرندوں کی سحر جاگتے ارمانوں

کے بستر سے اٹھا

سیر کی، غسل کیا

اور مرے ساتھ ہی صبحانہ کیا،

بے سرے گیت بھی گائے۔۔۔

 

یونہی "لیکن” بھی مرے ساتھ

کسی بوڑھے جہاں گرد کے مانند

لڑھکتا رہا، لنگڑاتا رہا۔۔۔

شام ہوتے ہی وہ ان خوف کے پتلوں کی طرح

جو زمانے سے، کسی شہر میں مدفون چلے آتے ہوں

ناگہاں نیندوں کی الماری میں پھر ڈھیر ہوئے

ان کے خرّانٹوں نے شب بھی مجھے سونے نہ دیا۔۔۔

"آپ” البتّہ و لیکن کے سوا اور نہیں!

 

بارہا ایک ہی وہ چہرہ۔۔۔۔ وہ "البتّہ”

جسے جانتے ہو

دن کی بیہودہ تگ و تاز میں،

یا شور کے ہنگام من و توئی میں

نوحہ گر ہوتا ہے "لیکن” پہ کہ موجود نہیں

 

بارہا ایک ہی وہ چہرہ۔۔۔۔۔ وہ "لیکن”

جسے پہچانتے ہو

اپنے سنّاٹے کے بالینوں پر

اپنی تنہائی کے آئینوں میں

آپ ہی جھولتا ہے

قہقہے چیختا ہے

اپنے البتہ کی حالت پہ کہ موجود نہیں۔۔۔۔

 

آؤ، البتّہ و لیکن کو

کہیں ڈھونڈ نکالیں پھر سے

ان کے بستر پہ نئے پھول بچھائیں

جب وہ وصل پہ آمادہ نظر آئیں

تو (ہم آپ) کسی گوشے میں چپ چاپ سرک جائیں!

٭٭٭

 

 

 

 

مریل گدھے

 

تلاش۔۔۔ کہنہ، گرسنہ پیکر

برہنہ، آوارہ، رہگزاروں میں پھرنے والی

تلاش۔۔۔ ۔ مریل گدھے کے مانند

کس دریچے سے آ لگی ہے؟

غموں کے برفان میں بھٹک کر

تلاش زخمی ہے

رات کے دل پر اُس کی دستک

بہت ہی بے جان پڑ رہی ہے

(گدھے بہت ہیں کہ جن کی آنکھوں

میں برف کے گالے لرز رہے ہیں)

ہوا کے ہاتھوں میں تازیانہ

تمام عشقوں کو راستے سے

(تلاش کو بھی)

بھگا رہی ہے

(تلاش کو عشق کہہ رہی ہے!)

 

یہ رات ایسی ہے

حرف جس میں لبوں سے نکلیں

تو برف بن کر،

وہ برف پارے کہ جن کے اندر

ہزار پتھرائی، ہجر راتیں،

ہزار پتھرائی ہجر راتوں کے بکھرے پنجر

دبے ہوئے ہوں۔۔۔۔۔۔

تلاش کیا کہہ رہی ہے؟

(دیکھو، مری کہانی میں رات کے تین بج چکے ہیں

اگر میں بے وزن ہو چکی ہوں۔۔۔۔

اگر میں مریل گدھا ہوں

مجھ کو معاف کر دو۔۔۔۔)

تلاش ہی وہ ازل سے بوڑھا گدھا نہیں ہے

دھکیل کر جس کو برف گالے

گھروں کے دیوار و در کے نیچے

لِٹا رہے ہیں۔۔۔۔۔

 

گدھے بہت ہیں جہاں میں: (ماضی سے آنے والے

جہاز کا انتظار مثلاً۔۔۔۔)

(اور ایسے مثلاً میں ثائے ساکن!)

یہ اجتماعی حکایتیں، آیتیں، کشاکش،

یہ داڑھیوں کا، یہ گیسوؤں کا ہجوم مثلاً۔۔۔۔

یہ الوؤں کی، گدھوں کی عفت پہ نکتہ چینی۔۔۔۔۔

یہ بے سرے راگ ناقدوں کے۔۔۔۔۔۔

یہ بے یقینی۔۔۔۔۔

یہ ننگی رانیں، یہ عشق بازی کی دھوم مثلاً۔۔۔۔۔

تمام مریل گدھے ہیں۔۔۔۔

(مریل گدھے نہیں کیا؟)

 

دریچہ کھولو

کہ برف کی لے

نئے توانا گدھوں کی آواز

ساتھ لائے

تمہاری روحوں کے چیتھڑوں کو سفید کر دے!

٭٭٭

 

 

 

 

میں کیا کہہ رہا تھا؟

 

میں تنہائی میں کر رہا تھا

پرندوں سے باتیں۔۔۔

میں یہ کہہ رہا تھا:

’’پرندو، نئی حمد گاؤ

کہ وہ بول جو اک زمانے میں

بھونروں کی بانہوں پہ اڑتے ہوئے

باغ کے آخری موسموں تک پہنچتے تھے

اب راستوں میں جھلسنے لگے ہیں

نئی حمد گاؤ!‘‘

پرندے، لگاتار، لیکن۔۔۔

پرندے ہمیشہ سے اپنے ہی عاشق۔۔۔

سراسر وہی آسماں چیختے تھے!

 

میں یہ کہہ رہا تھا

’’گنہ گار دل!

کون جانے کہ کس ہاتھ نے

ہمیں اپنی یادوں کی لمبی قطاروں

کی زنجیر میں

کب سے بے دست و پا کر دیا ہے؟

وہ ماضی، کبھی ہانپتے تھے

جو گھوڑوں کے مانند

اب نافراموش گاڑی کے صحنوں میں

لنگڑا رہے ہیں!‘‘

 

میں یہ کہہ رہا تھا:

’’مرے عشق کے سامنے

جنتری کے ورق

اب زیادہ نہ پلٹو

کہ یہ آئنوں کے طلسموں کی مانند

تاریخ کو بارہا رٹ چکی ہے،

مگر دل کا تنہا پیمبر

کبھی اپنی تکرار کا ہمہمہ گائے

ممکن نہیں۔۔۔۔

کبھی اپنی ہی گونج بن جائے

ممکن نہیں۔۔۔

وہی میرے دل کا پیمبر

کہ جس نے دیا ایسا روشن کیا

کہ راتوں کی نیندیں اچٹنے لگیں

وہ خود کو الٹ کر پلٹ کر پرکھنے لگیں۔۔۔‘‘

 

میں یہ کہہ رہا تھا:

’’سناتی ہیں جب شہر میں بلّیاں

اپنی جفتی کی معصوم باتیں

تو جنگل کے ہاتھی (مقدس درختوں

کے ریشوں میں الجھے ہوئے)

کیوں اگلتے ہیں دن رات

آیات کی فربہی

کہ ان بلیوں کے گنہ گار، معصوم دل

سہم جائیں؟‘‘

 

میں یہ کہہ رہا تھا:

’’درختو، ہواؤں کو تم کھیل جانو۔۔۔

تو جانو۔۔۔

مگر ہم ۔۔ نہیں جانتے بوڑھے سبزے

کی دعوت کو جاتے ہوئے

ذہن کی رہگزاروں میں کیسے

نئے دن کی دزدیدہ آہٹ کبھی سن سکیں گے؟

نہیں صرف پتھر ہی بے غم ہے پتھر کی ناتشنگی پر!

درختو، ہوا کتنی تیزی سے گزری

تمہارے برہنہ بدن سے

کہ اس میں روایات

سرگوشیاں کر رہی تھیں

درختو، بھلا کس لیے نام اپنا

کئی بار دہرا رہے ہو؟

یہ شیشم، یہ شم شی، یہ شی شی ی ی ی۔۔۔

مگر تم کبھی شی ی ی ر۔۔۔ بھی کہہ سکو گے؟‘‘

میں یہ کہہ رہا تھا۔۔۔

٭٭٭

 

 

 

 

نیا ناچ

 

میں کھڑا ہوں کئی صدیوں سے

کسی سوکھے ہوئے خوشۂ گندم کے تلے

(صبح جس کی سرِّ آدم سے ہوئی)

اے خدا، اپنی سیہ آنکھوں کے سیلاب

سے پھر دھو ڈال مجھے

کہ میں پھر آگے بڑھوں ۔۔

 

اِس سے پہلے کہ ترے گیسوؤں کی تاب

پہ جم جائے اساطیر کی گرد

اِس سے پہلے کہ نگل جائے

تجھے اپنا ہی درد

اے خدا، پھر سے انڈیل

میرے اِس خالی پیالے میں

گناہوں کی شراب

تاکہ ایمان کے آنکھوں سے نہاں باغوں میں

انہی لونگوں کے شگوفوں کا وہ غوغا ابھرے

انہی ریحانوں کی خوشبوؤں کا بلوا پھوٹے

ابتدا جس کی کبھی

بسترِ آدم سے ہوئی

 

میں کھڑا ہوں کئی صدیوں سے خُدا،

اور مرے ہاتھوں کی گہرائی سے

پھر مہ و سال کی فریاد سنائی دی ہے

یہی فریاد سنی تھی

کہ انھی ہاتھوں کی دارائی سے

میں نے الفاظ کی ۔۔ احباب کی ۔۔

اِک بزم سجا ڈالی تھی

جو بہت بڑھتی گئی۔۔ بڑھتی گئی۔۔

بڑھتی چلی جائے گی ۔۔

کیسی اِک بزم سجا ڈالی تھی!

اے خدا، تُو بھی ذرا

اپنے گِل و لا سے اٹے جوتے اتار

اور اِس بزم میں آ

تاکہ الفاظ ۔۔ یہ احباب ۔۔

جو چوہوں کی طرح ہاتھ نہیں آتے ہیں

پھر ترے پاؤں کی ہر تاپ کے ساتھ

۔۔ اپنے مہجور معانی سے بغل گیر

نیا ناچ رچائیں ۔۔

نیا ناچ رچائیں!

٭٭٭

 

 

 

 

یارانِ سرِ پُل

 

 

انہونیوں کے خواب سے

انہونیوں کے مرحلۂ ناب سے،

جاگے ہوئے کچھ لوگ

اب ہونیوں کے پل پہ کھڑے کانپتے ہیں،

کندھوں پہ اٹھائے ہوئے نعروں کے بیاباں۔۔۔۔

اک گونج ابھی ان کے تعاقب میں ہے

یہ جس سے ہیں ہر دم لرزاں۔۔۔۔

(کیا یہ ہے سزا ان کی

جو زیبائی کو،

یا نور کو

یا ہست کی دارائی کو

(برباد کریں؟)

 

ہم کیسے سزا یافتہ ہیں!

ان لوگوں میں اک میں بھی ہوں

میں ان کے سوا کچھ بھی نہیں ہوں

ٹوٹے ہوئے اِس پُل سے لگے دوستو

ہم کیسے سزا یافتہ ہیں!

 

ہاں، آؤ کہ پھر

حافظے کے بجھتے الاؤ میں تلاشیں

وہ زخم کہ جو رِس نہ سکے تھے

پھر پل کے کٹہرے سے لگے

اپنے گناہوں کی صدائیں ناپیں

 

دریا کی سیہ جھاگ میں

دیکھی تھیں کبھی تیرتی لاشیں

اب اپنے وجودوں کے حبابوں کو بکھرتا پائیں۔۔۔۔

ہم کیسے سزا یافتہ ہیں!

 

اے پُل سے لگے دوستو

تم ہرزہ سرائی کی بلندی سے چھلانگے تھے

مگر حیف،

کھل پائے نہ صر صر میں تمہارے چھاتے

(بے چارگیِ برگ جو آغوشِ ہوا میں رہ جائے!)

اتنا نہ ہوا اپنی خبر ہی لاتے!

ہم چپ ہیں، مگر

لفظ ہمیں بول رہے ہیں۔۔۔۔

الفاظ یہ کہتے ہیں:

’’سرابوں کی تپش پیتے رہے ہو

شبنم کی ہوس جیتے رہے ہو

صحرا ہی کو اب شبنموں کے خواب دکھاؤ!

 

مانا کہ کسی نے وہ تنا پھینکا ہے پل پر

گم جس سے ہے آیندہ کا پرتو ہم سے

پھیلے ہوئے لمحوں میں الجھ جانے کا ڈر ہے۔۔۔۔۔

(اک وقت ہے لیکن

جو ابھی زندہ ہے

سایوں کی طرح مردہ نہیں ہے)

ہاں لفظ ہمیں بول رہے ہیں

گزری ہوئی تاریخیں کبھی یاد دلاتے ہیں

کبھی راہ میں ٹھہرے ہوئے

سب نقطے لکیریں

 

یہ لفظ ہیں اس وقت کے بارے میں یہی جانتے ہیں

جو ایک ہے اور جس کا کوئی نام نہیں ہے!

 

خورشید کہ نومید تھا

گھر لوٹ گیا تھا

اب اپنے طلوعوں کی ذکاوت کو

(کہ جس سے ہیں سیہ بات

ہمارے چہرے)

پھر ہم سے چھپا لے، نہیں

یہ ہو نہیں سکتا!

 

اے دوستو!

اب آؤ کہ اس پل پہ کھڑے

پاؤں میں بے مہری کی زنجیریں

کہیں سخت نہ ہو جائیں!

بس آؤ

کہ پھر شہر کو لوٹیں

کہتے ہیں کہ ہر شعر وہیں نغمہ وہیں ہے

انہونیاں پھر راستہ کاٹیں، نہیں

یہ ہو نہیں سکتا!

 

اے شہر! ہم آئے

فانوس کے، میلوں کے

جواں میوہ فروشوں کے

جواں شہر

اے ہست کے صحنوں میں

نئے سجدہ گزاروں کے

جہاں شہر

اے میری اذاں شہر!

٭٭٭

 

 

 

مجھے وداع کر

 

مجھے وداع کر

اے میری ذات، پھر مجھے وداع کر

وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،

لوگ جو ہزار سال سے

مرے کلام کو ترس گئے؟

 

مجھے وداع کر،

میں تیرے ساتھ

اپنے آپ کے سیاہ غار میں

بہت پناہ لے چُکا

میں اپنے ہاتھ پاؤں

دل کی آگ میں تپا چکا!

 

مجھے وداع کر

کہ آب و گِل کے آنسوؤں

کی بے صدائی سُن سکوں

حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں!

میں روز و شب کے دست و پا کی نارسائی سُن سکوں!

 

مجھے وداع کر

بہت ہی دیر _____ دیر جیسی دیر ہو گئی ہے

کہ اب گھڑی میں بیسویں صدی کی رات بج چُکی ہے

شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر

ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر

مکالمے میں جمع ہیں

وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح _____

ازل کے بے وفاؤں کی طرح

پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟

مجھے وداع کر، اے میری ذات

 

تو اپنے روزنوں کے پاس آ کے دیکھ لے

کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر

ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے

کہ جیسے شہرِ ہست میں

یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوں ____

لہو کی دلدلوں میں

حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!

تو اپنے روزنوں کے پاس آ کے دیکھ لے

کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب ____

خوابِ قہوہ رنگ میں _____

امید کا گزر نہیں

کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر

کِسی کی آنکھ تر نہیں!

 

مجھے وداع کر

مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر

کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں____

مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے

کہ رہبرانِ نو

تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں

کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی

یہ بار اُن کا ہول ہے!

وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف

خیال ____ کاغذوں کی بالیاں بنے ہوئے

حروف۔۔۔ بھاگتے ہوئے

تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!

جہاں زمانہ تیز تیز گامزن

وہیں یہ سب زمانہ باز

اپنے کھیل میں مگن

جہاں یہ بام و دَر لپک رہے ہیں

بارشوں کے سمت

آرزو کی تشنگی لیے

وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!

 

مجھے وداع کر

کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی

کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں

بوریوں میں ریت کی طرح _____

مجھے اے میرے ذات،

اپنے آپ سے نکل کے جانے دے

کہ اس زباں بریدہ کی پکار ____ اِس کی ہاو ہُو ___

گلی گلی سنائی دے

کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں

(کاسۂ گرسنگی لیے)

کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟

مَیں اُن کے تشنہ باغچوں میں

اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے

نئے درخت اگاؤں گا

میَں اُن کے سیم و زر سے ____ اُن کے جسم و جاں سے ____

کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا

تمام سنگ پارہ ہائے برف

اُن کے آستاں سے مَیں اٹھاؤں گا

انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیں ____

 

مجھے وداع کر،

کہ اپنے آپ میں

مَیں اتنے خواب جی چکا

کہ حوصلہ نہیں

مَیں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چُکا

کہ حوصلہ نہیں _____

٭٭٭

 

 

 

 

آ لگی ہے ریت

 

آ لگی ہے ریت دیواروں کے ساتھ

سارے دروازوں کے ساتھ

سرخ اینٹوں کی چھتوں پر رینگتی ہے

نیلی نیلی کھڑکیوں سے جھانکتی ہے

ریت ۔۔ رُک جا

کھیل تہ کر لیں

سنہرے تاش کے پتّوں سے

درزوں، روزنوں کو بند کر لیں

 

ریت

رُک جا

سست برساتیں کہ جن پر دوڑ پڑنا،

جن کو دانتوں میں چبا لینا

کوئی مشکل نہ تھا

تُو نے وہ ساری نگل ڈالی ہیں رات ۔۔

رات ہم ہنستے رہے، اے ریت

تو دیوانی بلّی تھی جو اپنی دم کے پیچھے

گھومتی جاتی تھی

اس کو چاٹتی جاتی تھی رات!

 

ریت کی اِک عمر ہے اِک وقت ہے

لیکن ہمیں

خود سے جدا کرتی چلی جاتی ہے ریت

ناگہاں ہم سب پہ چھا جانے کی خاطر

یہ ہماری موت بن کر تازہ کر دیتی ہے

یادیں دُور کی (یا دیر کی)

ریت کو مٹھی میں لے کر دیکھتے ہیں

اپنے پوروں سے اِسے چھنتے ہوئے

ہم دیکھتے ہیں

اپنے پاؤں میں پھسلتے دیکھتے ہیں

ریت پر چلتے ہوئے

اپنے گیسو اِس سے اٹ جاتے ہیں

بھر جاتے ہیں پیراہن

ہمارے باطنوں کو چیرتی جاتی ہے ریت

پھیلتی جاتی ہے جسم و جاں کے ہر سُو

ہم پہ گھیرا ڈالتی جاتی ہے

ریت!

 

ریت اِک مثبت نفی تھی

ریت سرحد تھی کبھی

ریت عارف کی اذیّت کا بدل تھی

آنسوؤں کی غم کی پہنائی تھی ریت

اپنی جویائی تھی ریت

ریت میں "ہر کس” تھے ہم

دوسرا کوئی نہ تھا

 

ریت وہ دنیا تھی جس پر

دشمنوں کی مہر لگ سکتی نہ تھی

اِس کو اپنا تک کوئی سکتا نہ تھا۔۔۔

ریت پر ہم سن رہے ہیں آج

پیرانہ سری کی، اپنی تنہائی

کی چاپ

 

دن کے ساحل پر اتر کر

آنے ولی رات کے تودے لگاتی جارہی ہے

ناگہاں کے بے نہایت کو اڑا لائی ہے

ریت

دِل کے سونے پن میں در آئی ہے

ریت!

٭٭٭

 

 

 

 

 

حَسَن کوزہ گر (٣)

 

جہاں زاد،

وہ حلب کی کارواں سرا کا حوض، رات وہ سکوت

جس میں ایک دوسرے سے ہم کنار تیرتے رہے

محیط جس طرح ہو دائرے کے گرد حلقہ زن

تمام رات تیرتے رہے تھے ہم

ہم ایک دوسرے کے جسم و جاں سے لگ کے

تیرتے رہے تھے ایک شاد کام خوف سے

کہ جیسے پانی آنسوؤں میں تیرتا رہے

 

ہم ایک دوسرے سے مطمئن زوالِ عمر کے خلاف

تیَرتے رہے

تو کہہ اٹھی؛ ’’حَسَن یہاں بھی کھینچ لائی

جاں کی تشنگی تجھے!‘‘

(لو اپنی جاں کی تشنگی کو یاد کر رہا تھا مَیں

کہ میرا حلق آنسوؤں کی بے بہا سخاوتوں

سے شاد کام ہو گیا!)

مگر یہ وہم دل میں تَیرنے لگا کہ ہو نہ ہو

مرا بدن کہیں حلب کے حوض ہی میں رہ گیا۔۔۔

نہیں، مجھے دوئی کا واہمہ نہیں

کہ اب بھی ربطِ جسم و جاں کا اعتبار ہے مجھے

یہی وہ اعتبار تھا

کہ جس نے مجھ کو آپ میں سمو دیا ___

مَیں سب سے پہلے "آپ” ہُوں

اگر ہمیں ہوں ___ تُو ہو اور مَیں ہوں ___ پھر بھی مَیں

ہر ایک شے سے پہلے آپ ہوں!

اگر مَیں زندہ ہوں تو کیسے "آپ” سے دغا کروں؟

کہ تیری جیسی عورتیں، جہاں زاد،

ایسی الجھنیں ہیں

جن کو آج تک کوئی نہیں "سلجھ” سکا

جو مَیں کہوں کہ مَیں "سلجھ” سکا تو سر بسر

فریب اپنے آپ سے!

کہ عورتوں کی ساخت ہے وہ طنز اپنے آپ پر

جواب جس کا ہم نہیں ____

 

(لبیب کون ہے؟ تمام رات جس کا ذکر

تیرے لب پہ تھا ____

وہ کون تیرے گیسوؤں کو کھینچتا رہا

لبوں کو نوچتا رہا

جو مَیں کبھی نہ کر سکا

نہیں یہ سچ ہے ____میں ہوں یا لبیب ہو

رقیب ہو تو کس لیے تری خود آگہی کی بے ریا نشاطِ ناب کا

جو صدا نوا و یک نوا خرامِ صبح کی طرح

لبیب ہر نوائے سازگار کی نفی سہی!)

مگر ہمارا رابطہ وصالِ آب و گِل نہیں، نہ تھا کبھی

وجودِ آدمی سے آب و گِل سدا بروں رہے

نہ ہر وصالِ آب و گِل سے کوئی جام یا سبو ہی بن سکا

جو اِن کا ایک واہمہ ہی بن سکے تو بن سکے!

 

جہاں زاد،

ایک تو اور ایک وہ اور ایک مَیں

یہ تین زاویے کسی مثلثِ قدیم کے

ہمیشہ گھومتے رہے

کہ جیسے میرا چاک گھومتا رہا

مگر نہ اپنے آپ کا کوئی سراغ پا سکے ____

مثلثِ قدیم کو مَیں توڑ دوں، جو تو کہے، مگر نہیں

جو سحر مجھ پہ چاک کا وہی ہے اِس مثلثِ قدیم کا

نگاہیں میرے چاک کی جو مجھ کو دیکھتی ہیں

گھومتے ہوئے

سبو و جام پر ترا بدن، ترا ہی رنگ، تیری نازکی

برس پڑی

وہ کیمیا گری ترے جمال کی برس پڑی

مَیں سَیلِ نُورِ اندروں سے دھُل گیا!

مرے دروں کی خلق یوں گلی گلی نکل پڑی

کہ جیسے صبح کی اذاں سنائی دی!

تمام کوزے بنتے بنتے "تُو” ہی بن کے رہ گئے

نشاط اِس وصالِ رہ گزر کی ناگہاں مجھے نگل گئی ___

یہی پیالہ و صراحی و سبو کا مرحلہ ہے وہ

کہ جب خمیرِ آب و گِل سے وہ جدا ہوئے

تو اُن کو سمتِ راہِ نَو کی کامرانیاں ملیں ____

(مَیں اک غریب کوزہ گر

یہ انتہائے معرفت

یہ ہر پیالہ و صراحی و سبو کی انتہائے معرفت

مجھے ہو اس کی کیا خبرِ؟)

 

جہاں زاد،

انتظار آج بھی مجھے ہی کیوں وہی مگر

جو نو برس کے دورِ نا سزا میں تھا؟

 

اب انتظار آنسوؤں کے دجلہ کا

نہ گمرہی کی رات کا

(شبِ گُنہ کی لذّتوں کا اتنا ذکر کر چکا

وہ خود گناہ بن گئیں!)

حلب کی کارواں سرا کے حوض کا، نہ موت کا

نہ اپنی اس شکست خوردہ ذات کا

اِک انتظارِ بے زماں کا تار ہے بندھا ہوا!

کبھی جو چند ثانیے زمانِ بے زماں میں آکے رک گئے

تو وقت کا یہ بار میرے سر سے بھی اُتر گیا

تمام رفتہ و گزشتہ صورتوں، تمام حادثوں

کے سست قافلے

 

مِرے دروں میں جاگ اُٹھے

مرے دروں میں اِک جہانِ باز یافتہ کی ریل پیل جاگ اُٹھی

بہشت جیسے جاگ اٹھے خدا کے لا شعور میں!

مَیں جاگ اٹھا غنودگی کی ریت پر پڑا ہُوا

غنودگی کی ریت پر پڑے ہوئے وہ کوزے جو

___مرے وجود سے بروں____

تمام ریزہ ریزہ ہو کے رہ گئے تھے

میرے اپنے آپ سے فراق میں،

وہ پھر سے ایک کُل بنے (کسی نوائے ساز گار کی طرح)

وہ پھر سے ایک رقصِ بے زماں بنے

وہ رویتِ ازل بنے!

٭٭٭

 

 

 

 

اندھا کباڑی

 

 

شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے

پا شکستہ سر بُریدہ خواب

جن سے شہر والے بے خبر!

 

گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب

کہ ان کو جمع کر لوں

دل کی بھٹی میں تپاؤں

جس سے چُھٹ جائے پرانا میل

ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں

چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن

جیسے نو آراستہ دولھوں کے دل کی حسرتیں

پھر سے ان خوابوں کو سمتِ رہ ملے!

 

’’خواب لے لو خواب۔۔۔۔‘‘

صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا۔۔۔

’’خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟‘‘

یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر

خواب داں کوئی نہ ہو!

 

خواب گر میں بھی نہیں

صورت گرِ ثانی ہوں بس۔۔۔۔

ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!

 

شام ہو جاتی ہے

میں پھر سے لگاتا ہوں صدا۔۔۔

’’مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب۔۔۔۔‘‘

"مفت” سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ

اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ۔۔۔

’’دیکھنا یہ "مفت” کہتا ہے

کوئی دھوکا نہ ہو!

ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو

گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں

یا پگھل جائیں یہ خواب

بھک سے اڑ جائیں کہیں

یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب۔۔۔۔

جی نہیں، کس کام کے؟

ایسے کباڑی کے یہ خواب

ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!‘‘

 

رات ہو جاتی ہے

خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر

منہ بسورے لوٹتا ہوں

رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں

’’یہ لے لو خواب۔۔۔

اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی

خواب لے لو، خواب۔۔۔

میرے خواب۔۔۔

خواب۔۔۔ میرے خواب۔۔۔۔

خو ا ا ا ا ب۔۔۔

ان کے د ا ا ا ا م بھی ی ی ی۔۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

بات کر

 

بات کر مجھ سے

مجھے چہرہ دکھا میرا کہ ہے

تیری آنکھوں کی تمازت ہی سے وہ جھلسا ہوا

بات کر مجھ سے

مرے رخ سے ہٹا پردہ

کہ جس پر ہے ریا کاری کے رنگوں کی دھنک

پھیلی ہوئی

وہ دھنک جو آرزو مندی کا آئینہ نہیں

بامدادِ شوق کا زینہ نہیں!

 

تو نے دیکھا تھا کہ کل میں (اک گداگر)

صبح کی دیوار کے سائے تلے

ٹھٹھرا ہوا پایا گیا ۔۔

تیری آنکھیں، تیرے لب تکتے رہے

ان کی گرمی پر یقیں کیسے مجھے آتا کہ میں

اپنے دل کے حادثوں کی تہہ میں تھا

یادوں سے غزلایا ہوا!

 

بات کر مجھ سے

کہ اب شب کے سحر بننے میں

کوئی فاصلہ باقی نہیں

 

بات کر مجھ سے کہ تیری بات

خطّ نسخ ہو بر روئے مرگ

اب اتر جا چشم و گوش و لب کے پار

اجڑے شہروں کی گزرگاہوں پہ

آوازوں کی قندیلیں اتار

راز کی لہریں

ابھر آئیں قطار اندر قطار!

٭٭٭

 

 

 

 

رات شیطانی گئی

 

رات شیطانی گئی۔۔۔

ہاں مگر تم مجھ کو الجھاؤ نہیں

میں نے کچل ڈالے ہیں کتنے خوف

اِن پاکیزہ رانوں کے تلے

(کر رہا ہوں عشق سے دھوئی ہوئی

رانوں کی بات!)

 

رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟

لاؤ، جو کچھ بھی ہے لاؤ

یہ نہ پوچھو

راستہ کے گھونٹ باقی ہے ابھی

آج اپنے مختصر لمحے میں اپنے اُس خدا کو

رُوبرو لائیں گے ہم

اپنے ان ہاتھوں سے جو ڈھالا گیا۔۔۔

آج آمادہ ہیں پی ڈالیں لہو۔۔۔۔

اپنا لہو۔۔۔۔

تابکے اپنے لہو کی کم روائی تابکے؟

سادگی کو ہم کہیں گے پارسائی تابکے؟

دست و لب کی نارسائی تابکے؟

لاؤ، جو کچھ بھی ہے لاؤ

رات شیطانی گئی تو کیا ہوا؟

صَوت و رنگ و نور کا وہ رجز گاؤ

جو کبھی گاتے تھے تم

رات کے حجرے سے نکلو

اور اذانوں کی صدا سننے کی فرصت دو ہمیں۔۔۔

رات کے اس آخری قطرے سے جو اُبھری ہیں

اُن بکھری اذانوں کی صدا۔۔۔

رات۔۔۔شیطانی گئی تو کیا ہوا؟

٭٭٭

 

 

 

 

نئے گناہوں کے خوشے

 

ندی کنارے درخت

بلّور بن چکے ہیں

درخت، جن کی طنّاب شاخوں

پہ مرگِ ناگاہ کی صدا

رینگتی رہی تھی

درخت بلّور کی صلیبیں

لہو میں لتھڑے ہوئے زمانوں

میں گڑ گئی ہیں!

ہَوا جو فرماں کی پیروی میں

کبھی انھیں گدگدانے آئے

یہ اپنی افسوں زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں

مگر ہوا کے لیے کبھی سر نہیں جھکاتے!

 

کہو، یہ سچ ہے

کہ اب بھی بارش میں اِن کے آنسو

سکوت بن کر پکارتے ہیں؟

نکلتے سورج کو دیکھتے ہی

یہ ستر اپنا، عیوب اپنے سنوارتے ہیں؟

نہیں ۔۔

روایت کی لوریوں نے

کلام کی روشنی کو اِن پر

سلا دیا ہے!

 

کہو یہ سچ ہے

کہ ان کی آنکھوں

کی بجلیاں اب بھی گھومتی ہیں؟

غروب ہوتے افق کے شہروں کے بام و در کو

سراب ہونٹوں سے چومتی ہیں

 

نہیں ۔۔

کہ الہام کی سخاوت کے ہاتھ

اِن تک رسا نہیں ہیں!

 

کہو، یہ سچ ہے

ابھی پرندے رسول بن کر

دلوں پر اِن کے

اِک آنے والے وصال کے خواب اتارتے ہیں؟

خیال جو دور دور سے وہ سمیٹ لائے

تمام اِن پر نثارتے ہیں؟

 

نہیں۔۔

پرندوں کے ۔۔ اِن رسولوں کے۔۔۔

خواب اپنے،

خیال اپنے،

غضب کے ٹھنڈے الاؤ میں جان

دے چکے ہیں!

 

تو شاید ایسا بھی ہو کِسی دن۔۔۔

کہ ہر نئے راہرو سے پہلے

نئی طلب کے فشار اِن کے

سمور جسموں کو چاک کر دیں!

تو شاید ایسا بھی ہو کسی دن ۔۔

نئے گناہوں کے تازہ خوشوں

سے کھیتیوں کے مشام بھر دیں

وہ خوشے جن سے تمام چہرے

طلوع ہوتے ہیں ہر تہجد کی لو سے پہلے

وہ خوشے جن سے تمام بوسے

نسیم کی دل نوازیِ نو بنو سے پہلے!

٭٭٭

 

 

 

 

کلام ہنس نہیں رہا

 

 

کلام ہنس نہیں رہا

کلام کس طرح ہنسے؟

ہمارے ان پٹے ہوئے لطیفوں پر جو ہم اسے

سنا چکے ہیں بارہا

کلام کس طرح ہنسے

کلام اب پگھل رہا ہے رفتہ رفتہ

ان دلوں کی شمع کی طرح

جو جل چکے، جلا چکے۔۔۔۔

کلام جس کا ذکر کر رہے ہیں ہم

عجیب بات ہے کلام بھی نہیں!

مگر اسے کلام کے سوا کہیں تو کیا کہیں؟

کہ اس کا اور کوئی نام بھی نہیں!

ہم اس پہ کچھ فدا نہیں مگر اسے

جو رد کریں تو کیا کریں؟

کہ یہ ہمارے جسم و جاں کو پالتا رہا

ہمارے ذہن و دل کو سالہا سے ڈھالتا رہا۔۔۔۔

یہ اب بھی ڈھالتا ہے اور ڈھالتا رہے گا

اور ہم یہ چاہتے بھی ہیں!

 

کلام ایک قرب ہے

ہمیشہ بُعد کو پکارتا رہا۔۔۔۔

سمندروں کو دیکھتے ہو تم

وہ کس طرح سمندروں کے بُعد کو پکارتے ہیں رات دن؟

اسی لیے صدائے مرگ

سن کے اپنے باطنِ نحیف میں

ہم آپ کر اٹھے ہیں پھر سے ہستِ نو کی آرزو۔۔۔

وہ رات جو کبھی سیاہ جنگلوں کو۔۔۔۔

جنگلوں کی آنکھ سے چھپی ہوئی

مہورتوں کو چاٹتی رہی

وہ اب دلوں کو چاٹتی ہے ان دلوں

کو جن میں پھر سے جاگ اٹھی

حیاتِ نو کی آرزو۔۔۔۔

وہ رات جس کے چاوشوں نے دیکھ پائے

وحشیِ قدیم کے نشان پا

جو شرق و غرب میں نکل پڑا ہے

چور کی دلاوری لیے۔۔۔

ہم اپنے ماضیِ قریب کو مٹا تو دیں

۔۔۔۔مٹانا چاہتے بھی ہیں مگر۔۔۔۔

 

یہ دیکھتے ہو تم

خفیف سی صدا اٹھی، وہ ہانپنے لگا

وہ خوف ہانکنے لگا

وہ اپنے ناخنوں کے جنگلوں سے

ہم کو جھانکنے لگا؟

 

وہ رات جو سیاہ جنگلوں کو چاٹتی رہی

وہ آج ہم پہ ایسے آئی ہے کہ جیسے آئے رات

کمسنوں پہ جو کسی بڑے فِرج میں ناگہاں

اسیر ہو کے رہ گئے!

ہم آدمی کو پھر سے زندہ کر سکیں گے کیا؟

۔۔۔مگر وہ مرحلے

فسانہ و فسوں کے صد ہزار مرحلے

جو راہ میں پھر آئیں گے؟ تباہی! یہ بتا کہ اور مرحلہ بھی ہے

کہ جس کو پارکر سکے گا آدمی؟

وہ دیکھ وحشیِ قدیم جو لہو سے

سوچتا رہا سدا

پھر آج رنگ و نور سے الجھ پڑا۔۔۔۔

اسی کا نغمہ ہے

جو سن رہے ہیں ریڈیو سے ہم

دھرم دھما دھما دھرم دھما دھرم۔۔۔۔

بتا وہ راستہ کہاں ہے جس سے پھر

جنوں کے خواب،

یا خرد کے خواب،

یا سکوں کے خواب

لوٹ آئیں گے

بتا وہ راستہ کہاں؟

٭٭٭

 

 

 

نیا آدمی

 

نوا اور سازِ طرب۔۔۔۔

یہ سازِ طرب میں نوائے تمنا

 

نوائے تمنا پہ کوچے کے لڑکوں کے پتھر

یہ پتھر کی بارش پہ سازِ طرب کا سرور

 

نئی آگ، دل

دلِ ناتواں کی نئی آگ سب کا سرور

نئی آگ سب سے مقدس ہمیں

ہم اس آگ کوکس کی آنکھوں کے معبد

پہ جا کر چڑھائیں؟

نئی آگ کے کس کو معنی سجھائیں؟

نئی آگ ہر چشم و لب کا سرور

نئی آگ سب کا سرور

 

روایت، جنازہ

خدا اپنے سورج کی چھتری کے نیچے کھڑا

نالہ کرتا ہوا

جنازے کے ہمراہ چلتے ہوئے

گھر کے بے کار لوگوں کا شور و شغب

ریا کار لوگوں کو شور و شغب کا سرور

نئے آدمی کا نزول

اور اس پر غضب کا سرور

نئے آدمی کی اس آمد سے پہلے

مہینوں کے بھوکے کئی بھیڑیوں کی فغاں

(زمانے کی بارش میں بھیگے ہوئے بھیڑیے!)

نئے لفظ و معنی کی بڑھتی ہوئی یک دلی

اور اس پر پرانے نئے بھیڑیوں کی فغاں

فغاں کا غضب اور غضب کا سرور

نئے آدمی کا ادب

ادب اور نیا آدمی

نئے آدمی کو طلب کا سرور

نئے آدمی کے گماں بھی یقیں

گماں جن کا پایاں نہیں۔۔۔۔

گمانوں میں دانش

برہنہ درختوں میں بادِ نسیم

برہنہ درختوں کے دل چیرتی۔۔۔۔

نئے آدمی کا ادب

اور نئے آدمی کو ادب کا سرور

٭٭٭

 

 

 

پانی کی آواز

 

صدائے پائے آب سن کے آج میں

ادب سے اٹھ کھڑا ہوا

سلام، اے حضور، آپ آ گئے کرم کیا۔۔۔

کہ آپ حُسن سے لدی ہوئی

شریر عورتوں سے بھی زیادہ

قابلِ وصال ہیں!

ہم آپ ہی کے انتظار میں

سَحر کے گرد

دوپہر کے آس پاس

مردہ رات کے نواح میں

ہمیشہ گھومتے رہے۔۔۔

ہم اپنے اونٹ رنگ باغچوں کی

جھاڑیوں کو چھانتے رہے

کہ آپ اُن میں چھپ گئے نہ ہوں کہیں۔۔۔

ہمیں یہی گمان تھا۔۔۔

مگر کوئی بھی اپنے خواب آپ انتخاب کر نہیں سکا

اسی طرح یہ آپ کا ورودِ ناگہاں بھی ہے ۔۔

سمندروں میں بھی آپ ہیں

بھاپ میں بھی آپ ہیں

کنوؤں میں بھی ہیں، مسجدوں

کی موئے زیرِ ناف سے اٹی ہوئی

شریف نالیوں میں بھی

تو آپ ہی کا راج ہے،

لہو میں بھی، شراب میں بھی آپ ہیں،

ہزار بار آنسوؤں کی دل نوازیوں میں بھی

دکھائی دی ہے

آپ کی جھلک ہمیں!

مگر یہ سچ ہے اس طرح مصاحبہ نہیں ہوا

نہ آپ آئے اس فسوں گری کے جاں ربا شکوہ سے،

نہ اس ادائے لحن سے، نہ اِس حشم سے

آپ نے کبھی کرم کیا!

 

نہ جب تک آپ آئے تھے

درخت، جن کی سرنوشت

سرکشی سوا نہیں

یہ سرنوشت بھول کر

جڑوں سے بھی کنارہ گیر ہو گئے ۔۔

گھروں کے صحن صحن میں

سلگتے ایندھنوں پر اولیا کے استخواں

کا درد رنگ ناچنے لگے

قدم قدم پہ مرگھٹوں کی رات کا ضمیر

کانپنے لگا۔۔۔

 

اب آپ کے نزول سے

بس اتنا ہو

یہ تُرش رُو و تُند خُو، یہ خشک سائے

اپنا آپ طنز بن کے راہ لیں۔۔

مگر نہ ہو،

ہمارے بام و در پلوں کو پھاند جائیں،

گھروں کی میز کرسیاں

چھتوں پہ تیرنے لگیں،

ہمارے کمسنوں کے پیرہن

افق کی چوٹیوں سے جا لگیں،

کریم عورتوں کے دست و رُو

کرم کے سیلِ بے حساب میں غروب ہوں

ہماری سادہ الفتوں کے روز و شب

خدا کے لاشعور میں دبے رہیں

یہ مرگ آزما درخت، جانور، یہ رہگزر

پیمبروں کے واہمے کی کیمیا گری بنیں،

یہ کم نمود آدمی

وجودِ بے ثبات کی نفی بنیں!

٭٭٭

 

 

 

 

شہر میں صبح

 

مجھے فجر آئی ہے شہر میں

مگر آج شہر خموش ہے!

 

کوئی شہر ہے،

کسی ریگ زار سے جیسے اپنا وصال ہو!

نہ صدائے سگ ہے نہ پائے دزد کی چاپ ہے

نہ عصائے ہمّتِ پاسباں

نہ اذانِ فجر سنائی دے۔۔۔۔۔۔

 

اب وجد کی یاد، صلائے شہر،

نوائے دل

مرے ہم رکاب ہزار ایسی بلائیں ہیں!

(اے تمام لوگو!

کہ میں جنھیں کبھی جانتا تھا

کہاں ہو تم؟

تمہیں رات سونگھ گئی ہے کیا

کہ ہو دور قیدِ غنیم میں؟

جو نہیں‌ ہیں قیدِ غنیم میں

وہ پکار دیں!)

 

اسی اک خرابے کے سامنے

میں یہ بارِ دوش اتار دوں

مُجھے سنگ و خشت بتا رہے ہیں کہ کیا ہوا

مجھے گرد و خاک سنا رہے ہیں وہ داستاں

جو زوالِ جاں کا فسانہ ہے

ابھی بُوئے خوں ہے نسیم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمہیں آن بھر میں ‌خدا کی چیخ نے آ لیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خدا کی چیخ

جو ہر صدا سے ہے زندہ تر

 

کہیں گونج کوئی سنائی دے

کوئی بھولی بھٹکی فغاں ملے،

میں پہنچ گیا ہوں تمہارے بسترِ خواب تک

کہ یہیں سے گم شدہ راستوں کا نشاں ملے!

٭٭٭

 

 

 

 

 

زنجبیل کے آدمی

 

 

مجھے اپنے آپ سے آ رہی ہے لہو کی بُو

کبھی ذبح خانے کی تیز بُو

کبھی عورتوں کی ابلتی لاشوں کی تیز بُو

کبھی مرگھٹوں میں کباب ہوتے ہوئے سروں کی

دبیز بُو

 

وہ دبیز ایسی کہ آپ چاہیں تو

تیغِ تیز سے کاٹ دیں

مجھے اپنے آپ سے آ رہی ہے لہو کی بُو،

کہ مجھی کو قتل کیا ہو جیسے کسی نے

شہر کے چوک میں!

یہی چوک تھا۔۔

یہی وہ مقام تھا، ناگہاں

کسی خوف سے میں جسد سے اپنے لپٹ گیا

(کہیں تھا بھی میرا جسد مگر؟)

مرے آنسوؤں کی لڑی زمیں پہ بکھر گئی

مری "ہیک ہیک” نہ تھم سکی ۔۔

کبھی سائے آ کے سکڑ گئے

کبھی اور بڑھتے چلے گئے

کہ وہ اپنے جبر کے محوروں کے سوا نہ تھے

کسی اور راہ سے باخبر!

مری سسکیاں کسی بے صدائی کے ناگہاں میں

اتر گئیں۔۔

 

ابھی چاند دفن تھا بادلوں کے مزار میں

وہیں میں نے نفسِ فریب کار کا سر، بدن

سے اڑا دیا

وہیں میں نے اپنی خودی کی پیرہ زنِ خمیدہ کمر

کی جان دبوچ لی

وہ کوئی برہنہ و مرگ رنگ صدا تھی

جس کا سراغ پا کے میں چل پڑا۔۔۔

وہ صدا جو مسخرہ پن میں مجھ سے کبیر تر

وہ صدا جو مجھ سے شریر تر

کسی فلسفے میں رچی ہوئی وہ چڑیل۔۔۔

احمق و تند و خو ۔۔

نئے ریگ زاروں میں، فاتحوں کے جہانِ پیر میں

گھومتی ہوئی سُو بہ سو

نئے استخوانوں کے آستانوں کی راہ جو۔۔۔

 

(سرینوں کو ڈھانپو کہ اِن پر ابھی زندگی کی لکدکوب کے اُن ہزاروں

برس کے نشاں ہیں، جو گزرے نہیں ہیں، کہ ننگے سُرینوں کی دعوت

سے پڑتے رہے ہیں ہمیشہ سے اُن پر روایات کے بُعد کے تازیانے

اور اُن کے سوا اُن جواں تر نکیلے دماغوں کی کرنوں کے نیزے، جو

معقول و منقول دونوں سے خود کو الگ کر چکے ہیں؛ سُرینوں کو

ڈھانپو کہ اب تک وہ کودن بھی موجود ہیں جن کا ایماں ہے

غوغا و کشتار و امرد پرستی سے وہ بادشاہت ملے گی کہ جس کو وہ برباد

کرنے میں مختار ہوں گے ؛ یہ وہ لوگ ہیں جن کی جنت کے الٹے

چھپرکھٹ میں کابوس کی مکڑیاں اُن کی محرومیاں بُن رہی ہیں، وہ جنت

کہ جس میں کسالت کے دن رات نعروں کی رونق سے زندہ رہیں گے۔۔)

 

کئی بار میں نے۔۔ نکل کے چوک سے۔۔ سعی کی

کہ میں اپنی بھوتوں کی میلی وردی اتار دوں

نئے بولتے ہوئے آدمی کے نئے الم میں شریک ہُوں

میں اسی کے حُسن میں، اُس کے فن میں، اُسی کے دم میں

شریک ہُوں

میں اُسی کے خوابوں، انھی کے معنیِ تہہ بہ تہہ میں

انھی کے بڑھتے ہوئے کرم میں شریک ہُوں۔۔

وہ تمام چوہے ۔۔ وہ شاہ دولا کے ارجمند۔۔

ہر ایک بار اُچھل پڑے۔۔ مرے خوف سے

مرے جسم و جاں پہ اُبل پڑے!

 

تو عجیب بات ہے، مَیں اگر

ہمہ تن نشاطِ غرور ہوں؟

شبِ انتقام کی آگ میں ہوں جلا ہوا؟

کہ فنا پرست کدورتوں میں رچا ہوا؟

سُنو! جنگ جوؤ، سپاہیو

مری آرزو کی شرافتوں کو دغا نہ دو

میں لڑھک کے دامنِ کوہ تک جو پہنچ گیا

تو یہ ڈر ہے۔۔

زندہ چبا نہ لوں تمھیں۔۔ کہ تم

ہو تمام ’’شیرۂ زنجبیل کے آدمی‘‘!

مری بے بسی پہ ہنسو گے تم تو ہنسا کرو ۔۔

میں دعا کروں گا:

خدائے رنگ و صدا و نُور

تُو اِن کے حال پہ رحم کر!

(خدا،

رنگِ نَو، نور و آوازِ نَو کے خدا!

خدا،

وحدتِ آب کے، عظمتِ باد کے

رازِ نَو کے خدا!

قلم کے خدا، سازِ نو کے خدا!

تبسّم کے اعجازِ نَو کے خدا!۔۔)

٭٭٭

 

 

 

 

دوئی کی آبنا

 

(پرانا ورژن)

 

ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے

دوئی کی آبنا کے آر پار اُتر گئی

 

نہیں مجھے نہ کھاؤ تم

نہیں کہ میں غذا نہیں

مجھے نہ کھا سکو گے تم

میں آب و نان سے بندھا ہوا نہیں

میں اپنے آپ سے بھرا ہوا نہیں

ہیں میرے چار سو وہ آرزو کے تار

تارِ خار دار

جن کو کھا نہیں سکو گے تم

نہیں مجھے نہ کھاؤ تم

ابھی نہ کھا سکو گے تم!

 

یہ سانپ دیکھتے ہو کیا؟

تمہارے جسم و جاں میں کھا رہا ہے بل

تمام دن، تمام رات

(وہ سانپ جس سے سب سے پہلی مرتبہ بہشت میں ملے تھے تم)

کبھی یہ اپنے زہر ہی میں جل کے خاک ہو گیا

کبھی یہ اپنے آپ کو نگل کے پاک ہو گیا

کبھی یہ اپنے آپ ہی میں سو گیا

تو پھر کھلیں گے سب کے ہاتھ

اب کے پاؤں اس نئے الاپ کی طرف بڑھیں گے

جس سے ہر وصال کی نمود ہے

نہیں مجھے نہ کھاؤ تم

 

یہ جانتے نہیں ہو تم

نہنگ مچھلیوں کو کھا رہے تھے۔۔۔

کھا رہے تھے

آخر اک بڑا نہنگ رہ گیا

ہزار من کا اک بڑا نہنگ (اکیلی جان) زندہ رہ گیا

اور اپنے اس اکیلے پن سے تنگ آ کے

اپنے آپ ہی کو کھا گیا!!

کہ نان و آب سے بندھے ہوؤں کا۔۔۔

اپنے آپ سے بھرے ہوؤں کا۔۔۔۔۔

بس یہی مآل ہے

یہ آخری وصال ہے!

 

مگر وہ عشق۔۔۔ جس کی عُمر ہم سے بھی طویل تر

وہ محض اشتہا نہیں

وہ محض کھیل بھی نہیں

وہ آب و نان کا رکا ہوا سوال بھی نہیں

وہ اپنے ہی وجود کا حسد نہیں

جو موت نے بچھا رکھا ہو

ایسا نا گزیر جال بھی نہیں

 

یہ ہم

جو حادثے کے لائے گِل سے یا

نصیب کے غبار سے نہیں اٹھے

ازل کے حافظے کے درد سے اٹھے

جو ہوش کے شگاف سے

جو استوائے جسم و روح سے اٹھے

 

ہمیں نہ کھا سکو گے تم

ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے

صدا دوئی کی آبنا کے آر پار اُتر گئی

اور اس صدا سے ایک ایسا مرحلہ برس پڑا

جو بے نیازِ بُعد تھا

جو مشرقِ وجود تھا

وہ مرحلہ برس پڑا

 

تو کس طرح کہوں کہ ہم

تمام آب و نان کا رکا ہوا سوال ہیں؟

تمام اپنی بھوک کا جواب ہیں؟

نہیں مجھے نہ کھاؤ تم

کہ ایک میری جرأت نگاہ سے

تمام لوگ جاگ اٹھے

صدا کی شمع ہاتھ میں لیے ہوئے

دوئی کی آبنا کے آر پار ڈھونڈھنے لگے

اُسی طلوع کی خبر

جو وقت کی نئی کرن کے پھوٹتے ہی، ساحلِ نمود پر

کم التفات انگلیوں کے درمیاں سے ناگہاں پھسل گیا

کہ وہ طلوع جس کو رو چکے تھے ہم

پھر آج ان کے ساحلوں کی ریت سے

جھلک اٹھے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دوئی کی آبنا

 

(کتاب ورژن)

 

ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اِک نگاہ سے

صدا دوئی کی آبنا کے آر پار اتر گئی

 

وہ عشق جس کی عمر

آدمی سے بھی طویل تر

وہ محض اشتہا نہیں

وہ محض کھیل بھی نہیں

وہ آب و نان کا رُکا ہوا سوال بھی نہیں

وہ اپنے ہی وجود کا حسد نہیں

جو موت نے بچھا رکھا ہو ایسا

ناگزیر جال بھی نہیں

 

یہ ہم،

جو حادثے کے لائے گِل سے یا

نصیب کے غبار سے نہیں اٹھے

ازل کے حافظے کے درد سے اٹھے

جو ہوش کے شگاف سے۔۔۔۔

جو استوائے جسم وروح سے اٹھے۔۔۔۔

ہمیں ہیں وہ کہ جن کی اک نگاہ سے

صدا دوئی کی آبنا کے آر پار اتر گئی

۔۔۔۔اور اس صدا سے ایک ایسا مرحلہ برس پڑا

جو بے نیازِ بُعد تھا

جو مشرقِ وجود تھا

وہ مرحلہ برس پڑا!

 

ہماری ایک جرأتِ نگاہ سے

تمام لوگ جاگ اٹھے

صدا کی شمع ہاتھ میں لیے ہوئے

دوئی کی آبنا کے آر پار ڈھونڈنے لگے

اُسی طلوع کی خبر

جو وقت کی نئی کرن کے پھوٹتے ہی

ساحلِ نمود پر

کم التفات انگلیوں کے درمیاں پھسل گیا!

 

صدا پکارتی ہے پھر

وہی طلوع جس کو رو چکے تھے تم

ابھی ابھی

دوئی کی آبنا کے ساحلوں کی مرگ ریت پر

جھلک اُٹھا!

٭٭٭

 

 

 

 

گماں کا ممکن۔۔۔ جو تُو ہے میں ہوں

 

کریم سورج،

جو ٹھنڈے پتھر کو اپنی گولائی

دے رہا ہے

جو اپنی ہمواری دے رہا ہے۔۔۔

(وہ ٹھنڈا پتھر جو میرے مانند

بھورے سبزوں میں

دور ریگ و ہوا کی یادوں میں لوٹتا ہے)

جو بہتے پانی کو اپنی دریا دلی کی

سرشاری دے رہا ہے

۔۔۔ وہی مجھے جانتا نہیں

مگر مجھی کو یہ وہم شاید

کہ آپ اپنا ثبوت اپنا جواب ہوں میں!

مجھے وہ پہچانتا نہیں ہے

کہ میری دھیمی صدا

زمانے کی جھیل کے دوسرے کنارے

سے آ رہی ہے

 

یہ جھیل وہ ہے کہ جس کے اوپر

ہزاروں انساں

افق کے متوازی چل رہے ہیں

افق کے متوازی چلنے والوں کو پار لاتی ہیں

وقت لہریں۔۔۔۔

جنہیں تمنا، مگر، سماوی خرام کی ہو

انھی کو پاتال زمزموں کی صدا سناتی ہیں

وقت لہریں

انہیں ڈبوتی ہیں وقت لہریں!

تمام ملاح اس صدا سے سدا ہراساں، سدا گریزاں

کہ جھیل میں اِک عمود کا چور چھپ کے بیٹھا ہے

اس کے گیسو افق کی چھت سے لٹک رہے ہیں

پکارتا ہے : ’’اب آؤ، آؤ!

ازل سے میں منتظر تمہارا۔۔۔

میں گنبدوں کے تمام رازوں کو جانتا ہوں

درخت، مینار، برج، زینے مرے ہی ساتھی

مرے ہی متوازی چل رہے ہیں

میں ہر ہوائی جہاز کا آخری بسیرا

سمندروں پر جہاز رانوں کا میں کنارا

اب آؤ، آؤ!

تمھارے جیسے کئی فسانوں کو میں نے اُن کے

ابد کے آغوش میں اتارا۔‘‘

تمام ملاح اس کی آواز سے گریزاں

افق کی شاہراہِ مبتذل پر تمام سہمے ہوئے خراماں۔۔۔

مگر سماوی خرام والے

جو پست و بالا کے آستاں پر جمے ہوئے ہیں

عمود کے اس طناب ہی سے اتر رہے ہیں

اسی کو تھامے ہوئے بلندی پہ چڑھ رہے ہیں!

 

اسی طرح میں بھی ساتھ اَن کے اتر گیا ہوں

اور ایسے ساحل پر آ لگا ہوں

جہاں خدا کے نشانِ پا نے پناہ لی ہے

جہاں خدا کی ضعیف آنکھیں

ابھی سلامت بچی ہوئی ہیں

یہی سماوی خرام میرا نصیب نکلا

یہی سماوی خرام جو میری آرزو تھا۔۔۔

 

مگر نجانے

وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے

کہ جس پہ خود سے وصال تک کا گماں نہیں ہے؟

وہ راستہ کیوں چنا تھا میں نے

جو رُک گیا ہے دلوں کے ابہام کے کنارے

وہی کنارا کہ جس کے آگے گماں کا ممکن

جو تُو ہے میں ہوں!

 

مگر یہ سچ ہے،

میں تجھ کو پانے کی (خود کو پانے کی) آرزو میں

نکل پڑا تھا

اُس ایک ممکن کی جستجو میں

جو تُو ہے میں ہوں

میں ایسے چہرے کو ڈھونڈتا تھا

جو تُو ہے میں ہوں

میں ایسی تصویر کے تعاقب میں گھومتا تھا

جو تُو ہے میں ہوں!

 

میں اس تعاقب میں

کتنے آغاز گن چکا ہوں

(میں اس سے ڈرتا ہوں جو یہ کہتا

ہے مجھ کو اب کوئی ڈر نہیں ہے)

میں اس تعاقب میں کتنی گلیوں سے،

کتنے چوکوں سے،

کتنے گونگے مجسموں سے ، گزر گیا ہوں

میں اِس تعاقب میں کتنے باغوں سے،

کتنی اندھی شراب راتوں سے

کتنی بانہوں سے،

کتنی چاہت کے کتنے بپھرے سمندروں سے

گزر گیا ہوں

میں کتنی ہوش و عمل کی شمعوں سے،

کتنے ایماں کے گنبدوں سے

گرز گیا ہوں

میں اِس تعاقب میں کتنے آغاز کتنے انجام گن چکا ہوں۔۔۔

اب اس تعاقب میں کوئی در ہے

نہ کوئی آتا ہوا زمانہ

ہر ایک منزل جو رہ گئی ہے

فقط گزرتا ہوا فسانہ

 

تمام رستے، تمام بوجھے سوال، بے وزن ہو چکے ہیں

جواب، تاریخ روپ دھارے

بس اپنی تکرار کر رہے ہیں۔۔۔

’’جواب ہم ہیں۔۔۔ جواب ہم ہیں۔۔۔۔

ہمیں یقیں ہے جواب ہم ہیں۔۔۔۔‘‘

یقیں کو کیسے یقیں سے دہرا رہے ہیں کیسے!

مگر وہ سب آپ اپنی ضد ہیں

تمام، جیسے گماں کا ممکن

جو تُو ہے میں ہوں!

 

تمام کُندے (تو جانتی ہے)

جو سطحِ دریا پہ ساتھ دریا کی تیرتے ہیں

یہ جانتے ہیں یہ حادثہ ہے،

کہ جس سے اِن کو،

(کسی کو) کوئی مفر نہیں ہے

تمام کُندے جو سطحِ دریا پہ تیرتے ہیں،

نہنگ بننا ۔۔ یہ اُن کی تقدیر میں نہیں ہے

(نہنگ کی ابتدا میں ہے اِک نہنگ شامل

نہنگ کا دل نہنگ کا دل!)

نہ اُن کی تقدیر میں ہے پھر سے درخت بننا

(درخت کی ابتدا میں ہے اک درخت شامل

درخت کا دل درخت کا دل!)

تمام کُندوں کے سامنے بند واپسی کی

تمام راہیں

وہ سطحِ دریا پہ جبرِ دریا سے تیرتے ہیں

اب ان کا انجام گھاٹ ہیں جو

سدا سے آغوش وا کیے ہیں

اب اِن کا انجام وہ سفینے

ابھی نہیں جو سفینہ گر کے قیاس میں بھی

اب ان کا انجام

ایسے اوراق جن پہ حرفِ سیہ چھپے گا

اب اِن کا انجام وہ کتابیں۔۔۔

کہ جن کے قاری نہیں، نہ ہوں گے

اب اِن کا انجام ایسے صورت گروں کے پردے

ابھی نہیں جن کے کوئی چہرے

کہ اُن پہ آنسو کے رنگ اتریں،

اور ان میں آیندہ

اُن کے رویا کے نقش بھر دے!

 

غریب کُندوں کے سامنے بند واپسی کی

تمام راہیں

بقائے موہوم کے جو رستے کھلے ہیں اب تک

ہے اُن کے آگے گماں کا ممکن۔۔۔۔

گماں کا ممکن، جو تُو ہے میں ہوں!

جو تُو ہے میں ہوں!

٭٭٭

 

 

 

حسن کوزہ گر -۴

 

جہاں زاد، کیسے ہزاروں برس بعد

اِک شہرِ مدفون کی ہر گلی میں

مرے جام و مینا و گُلداں کے ریزے ملے ہیں

کہ جیسے وہ اِس شہرِ برباد کا حافظہ ہوں!

(حَسَن نام کا اِک جواں کوزہ گر۔۔۔ اِک نئے شہر میں۔۔۔۔

اپنے کوزے بناتا ہوا، عشق کرتا ہوا

اپنے ماضی کے تاروں میں ہم سے پرویا گیا ہے

ہمیں میں (کہ جیسے ہمیں ہوں) سمویا گیا ہے

کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے،

(ہزاروں برس رینگتی رات بھر)

اِک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے سانپ لہریں

بناتے رہے ہیں،

اور اب اس جگہ وقت کی صبح ہونے سے پہلے

یہ ہم اور یہ نوجواں کوزہ گر

ایک رویا میں پھر سے پروئے گئے ہیں!)

 

جہاں زاد۔۔۔

یہ کیسا کہنہ پرستوں کا انبوہ

کوزوں کی لاشوں میں اُترا ہے

دیکھو!

یہ وہ لوگ ہیں جن کی آنکھیں

کبھی جام و مینا کی لِم تک نہ پہنچیں

یہی آج اس رنگ و روغن کی مخلوقِ بے جاں

کو پھر سے اُلٹنے پلٹنے لگے ہیں

یہ اِن کے تلے غم کی چنگاریاں پا سکیں گے

جو تاریخ کو کھا گئی تھیں؟

وہ طوفان، وہ آندھیاں پا سکیں گے

جو ہر چیخ کو کھا گئی تھیں؟

انہیں کیا خبر کِس دھنک سے مرے رنگ آئے۔۔۔

(مرے اور اِس نوجواں کُوزہ گر کے؟)

انہیں کیا خبر کون سی تتلیوں کے پروں سے؟

انہیں کیا خبر کون سے حُسن سے؟

کون سی ذات سے، کس خد و خال سے

میں نے کُوزوں کے چہرے اُتارے؟

یہ سب لوگ اپنے اسیروں میں ہیں

زمانہ، جہاں زاد، افسوں زدہ برج ہے

اور یہ لوگ اُس کے اسیروں میں ہیں۔۔۔

جواں کوزہ گر ہنس رہا ہے!

یہ معصوم وحشی کہ اپنے ہی قامت سے ژولیدہ دامن

ہیں جویا کسی عظمتِ نارسا کے۔۔۔۔

انہیں کیا خبر کیسا آسیبِ مبرم مرے غار سینے پہ تھا

جس نے مجھ سے (اور اِس کوزہ گر سے) کہا:

’’اے حَسَن کوزہ گر، جاگ

دردِ رسالت کا روزِ بشارت ترے جام و مینا

کی تشنہ لبی تک پہنچنے لگا ہے!‘‘

یہی وہ ندا، جس کے پیچھے حَسَن نام کا

یہ جواں کوزہ گر بھی

پیا پے رواں ہے زماں سے زماں تک،

خزاں سے خزاں تک!

 

جہاں زاد میں نے۔۔۔ حَسَن کوزہ گر نے۔۔۔

بیاباں بیاباں یہ دردِ رسالت سہا ہے

ہزاروں برس بعد یہ لوگ

ریزوں کو چُنتے ہوئے

جان سکتے ہیں کیسے

کہ میرے گِل و خاک کے رنگ و روغن

ترے نازک اعضا کے رنگوں سے مل کر

ابد کی صدا بن گئے تھے؟

میں اپنے مساموں سے، ہر پور سے،

تیری بانہوں کی پہنائیاں

جذب کرتا رہا تھا

کہ ہر آنے والے کی آنکھوں کے معبد پہ جا کر چڑھاؤں۔۔۔۔

یہ ریزوں کی تہذیب پا لیں تو پا لیں

حَسَن کوزہ گر کو کہاں لا سکیں گے؟

یہ اُس کے پسینے کے قطرے کہاں گن سکیں گے؟

یہ فن کی تجلی کا سایہ کہاں پا سکیں گے؟

جو بڑھتا گیا ہے زماں سے زماں تک

خزاں سے خزاں تک

جو ہر نوجواں کُوزہ گر کی نئی ذات میں

اور بڑھتا چلا جا رہا ہے!

وہ فن کی تجلی کا سایہ کہ جس کی بدولت

ہمہ عشق ہیں ہم

ہمہ کوزہ گر ہم

ہمہ تن خبر ہم

خُدا کی طرح اپنے فن کے خُدا سر بسر ہم!

(آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی،

تیرنے لگتے ہیں بے ہوشی کی آنکھوں میں کئی چہرے

جو دیکھے بھی نہ ہوں

کبھی دیکھے ہوں کسی نے تو سراغ اُن کا

کہاں سے پائے؟

کِس سے ایفا ہوئے اندوہ کے آداب کبھی

آرزوئیں کبھی پایاب تو سَریاب کبھی!)

 

یہ کوزوں کے لاشے، جو اِن کے لیے ہیں

کسی داستانِ فنا کے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

ہماری اذاں ہیں، ہماری طلب کا نشاں ہیں

یہ اپنے سکوتِ اجل میں بھی یہ کہہ رہے ہیں:

’’وہ آنکھیں ہمیں ہیں جو اندر کھُلی ہیں

تمہیں دیکھتی ہیں، ہر ایک درد کو بھانپتی ہیں

ہر اِک حُسن کے راز کو جانتی ہیں

کہ ہم ایک سنسان حجرے کی اُس رات کی آرزو ہیں

جہاں ایک چہرہ، درختوں کی شاخوں کے مانند

اِک اور چہرے پہ جھُک کر، ہر انساں کے سینے میں

اِک برگِ گُل رکھ گیا تھا

اُسی شب کا دزدیدہ بوسہ ہمیں ہیں!‘‘

٭٭٭

 

 

 

تصوّف

 

ہم تصوّف کے خرابوں کے مکیں

وقت کے طولِ المناک کے پروردہ ہیں

ایک تاریک ازل، نورِ ابد سے خالی!

 

ہم جو صدیوں سے چلے ہیں

تو سمجھتے ہیں کہ ساحل پایا

اپنی دن رات کی پا کوبی کا حاصل پایا

 

ہم تصوّف کے نہاں خانوں میں بسنے والے

اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے

ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِ منزل پایا

٭٭٭

 

 

 

 

پرانی سے نئی پود تک

 

 

رات جب باغ کے ہونٹوں پہ تبسّم نہ رہا

رات جب باغ کی آنکھوں میں

تماشا کا تکلّم نہ رہا

غنچے کہنے لگے:

’’رکنا ہے ہمیں باغ میں "لا سال” ابھی‘‘

صبح جب آئی تو "لا سال” کے

جاں کاہ معمّا کا فسوں بھی ٹوٹا!

 

صبح کے نام سے اب غنچے بہت ڈرتے ہیں

صبح کے ہاتھ میں

جرّاح کے نشتر سے بہت ڈرتے ہیں

وہ جو غنچوں کے مہ و سال کی کوتاہی میں

ایک لمحہ تھا بہت ہی روشن

وہی اب ان کے پگھلتے ہوئے جسموں میں

گُلِ تازہ کے بہروپ میں

کِن زخموں سے دل گیر ہے، آشفتہ ہے!

رات میں خواب بھی تھے

خوابوں کی تعبیر بھی تھی

صبح سے غنچے بہت ڈرتے ہیں!

غنچے خوش تھے کہ یہ پھول

ہو بہو اُن کے خد و خال لیے

اُن کا رنگ، ان کی طلب،

ان کے پر و بال لیے

اُن کے خاموش تبسّم ہی کی پنہائی میں ۔۔

کیا خبر تھی انہیں وہ کیسے سمندر سے

ہوئے ہیں خالی!

 

جیسے اک ٹوٹے ہوئے دانت سے

یہ ساری چٹانیں اٹھیں

جیسے اک بھولے ہوئے قہقہے سے

سارے ستارے اُبھرے

جیسے اک دانۂ انگور سے

افسانوں کا سیلاب اُٹھا

جیسے اِک بوسے کے منشور سے

دریا جاگے

اور اک درد کی فریاد سے

انساں پھیلے

اُنھیں (اُن غنچوں کو) امید تھی

وہ پھول بھی اُن کے مانند

ان کی خود فہمی کی جویائی سے

پیدا ہوں گے

اُن کے اُس وعدۂ مبرم ہی کا

ایفا ہوں گے

 

پھول جو اپنے ہی وہموں کے تکبّر کے سوا

کچھ بھی نہیں

اُن کی (اُن غنچوں کی)

دلگیر صدا سنتے ہیں،

ہنس دیتے ہیں!

٭٭٭

 

 

 

میں

 

میں وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی ہے

آج تک دشت نوردوں سے جہاں گردوں سے

سالہا سال میں گر ہم نے رسائی پائی

کسی شے تک تو فقط اس کے نواحی دیکھے

اس کے پوشیدہ مناظر کے حواشی دیکھے

یا کوئی سلسلۂ عکسِ رواں تھا اِس کا

ایک روئے گزراں تھا اس کا

 

کوہِ احساس پر آلام کے اشجار بلند

جن میں محرومئ دیرینہ سے شادابی ہے

برگ و باراں کا وہ پامال امیدیں جن سے

پرسی افشاں کی طرح خواہشیں آویزاں تھیں

کبھی ارمانوں کے آوارہ سراسیمہ طیّور

کسی نادیدہ شکاری کی صدا سے ڈر کر

ان کی شاخوں میں اماں پاتے ہیں سستاتے ہیں

اور پھر شوق کے صحراؤں کو اڑ جاتے ہیں

شوق کے گرم بیاباں کہ ہیں بے آب و گیاہ

ولولے جن میں بگولوں کی طرح گھومتے ہیں

اونگھتے ذرّوں کے تپتے ہوئے لب چومتے ہیں

 

دُور اس وادی سے اک منزلِ بے نام بھی ہے

کروٹیں لیتے ہیں جس میں انہی صحراؤں کے خواب

ان کہستانوں کی روحیں ۔۔ سرو رو بستہ ہیں

اولّیں نقش ہیں آوارہ پرندوں کے جہاں

خواہشوں اور امیدوں کے جنین

اور بگولوں کے ہیولے

کسی نقّاش کی حسرت میں ملول

"میں” وہ اقلیم کہ محروم چلی آتی ہے

آج تک دشت نوردوں سے جہاں گردوں سے

کون اس دشتِ گریزاں کی خبر لاتا ہے!

(نیویارک، 13 فروری 1955)

٭٭٭

 

مسز سالامانکا

 

خدا حشر میں ہو مددگار میرا

کہ دیکھی ہیں میں نے مسز سالامانکا کی آنکھیں

مسز سالامانکا کی آنکھیں

کہ جن کے افق ہیں جنوبی سمندر کی نیلی رسائی سے آگے

جنوبی سمندر کی نیلی رسائی

کہ جس کے جزیرے ہجومِ سحر سے درخشاں

درخشاں جزیروں میں زر تاب و عنّاب و قرمز پرندوں کی جولاں گہیں

ایسے پھیلی ہوئی جیسے جنت کے داماں

پرندے ازل او رابد کے مہ و سال میں بال افشاں!

خدا حشر میں ہو مددگار میرا

کہ میں نے لیے ہیں مسز سالامانکا کے ہونٹوں کے بوسے

وہ بوسے کہ جن کی حلاوت کے چشمے

شمالی زمینوں کے زر تاب و عنّاب و قرمز درختوں

کے مدہوش باغوں سے آگے

جہاں زندگی کے رسیدہ شگوفوں کے سینوں

سے خوابوں کے رم دیدہ زنبور لیتے ہیں رس اور پیتے ہیں وہ

کہ جس کے نشے کی جِلا سے

زمانوں کی نادیدہ محراب کے دو کناروں کے نیچے

ہیں یکبارگی گونج اٹھتے خلا و ملا کے جلاجل

جلاجل کے نغمے بہم ایسے پیوست ہوتے ہیں جیسے

مسز سالامانکا کے لب میرے لب سے!

 

خدا حشر میں ہو مددگار میرا

کہ دیکھا ہے میں نے

مسز سالامانکا کو بستر میں شب بھر برہنہ

وہ گردن وہ باہیں وہ رانیں وہ پستاں

کہ جن میں جنوبی سمندر کی لہروں کے طوفاں

شمالی درختوں کے باغوں کے پھولوں کی خوشبو

جہاں دم بدم عطر و طوفاں بہم اور گریزاں

مسز سالامانکا کا جسمِ برہنہ

افق تا افق جیسے انگور کی بیل جس کی

غذا آسمانوں کا نور اور حاصل

وہ لذت کہ جس کا نہیں کوئی پایاں

خدا کے سوا کون ہے پاک داماں!

 

(نیویارک۔۔۔۲۹ اگست ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

 

 

اے وطن اے جان

 

اے وطن، اے جان

تیری انگبیں بھی اور خاکستر بھی میں

میں نے یہ سیکھا ریاضی سے ادب بہتر بھی ہے برتر بھی ہے

خاک چھانی میں نے دانش گاہ کی

اور دانش گاہ میں بے دست و پا درویش حُسن و فہم کے جویا ملے

جن کو تھی میری طرح ہر دستگیری کی طلب

دستگیری کی تمنّا سالہا جاری رہی

لیکن اپنے علم و دانش کا ثمر اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا

سر تہی نقلی خدا تھے خیر و قوّت کا نشاں

اور انساں، اہلِ دل انساں شریر و ناتواں

 

اے وطن ترکے میں پائے تُو نے وہ خانہ بدوش

جن کو تھی کہنہ سرابوں کی تلاش

اور خود ذہنوں میں اُن کے تھے سراب

جس سے پسپائی کی ہمت بھی کبھی ان میں نہ تھی

 

اے وطن کچھ اہلِ دیں نے اور کچھ انساں پرستوں نے تجھے اِنشا کیا

عالمِ سکرات سے پیدا کیا

تاکہ تیرے دم سے لوٹ آئے جہاں میں عفّتِ انساں کا دَور!

دشمن اُس خواہش پہ خندہ زن رہے اور دوست اس پر بد گماں

اے وطن اے جان تُو نے دوست اور دشمن کا دل توڑا نہیں

ہم ریاضی اور ادب کو بھول کر

سیم و زر کی آز کے ریلے میں یوں بہتے رہے

جیسے ان بپھری ہوئی امواج کا ساحل نہ ہو

اُس یقیں کا اس عمل کا اس محبت کا یہی حاصل تھا کیا؟

 

اے وطن، اے جان ہر اک پل پہ تو استادہ ہے

بن گیا تیری گزرگاہ اک نیا دورِ عبور

یوں تو ہے ہر دورِ نَو بھی ایک فرسودہ خیال

حرف اور معنی کا جال!

آج لیکن اے وطن، اے جاں تجھے

اور بھی پہلے سے بڑھ کر حرف و معنی کے نئے آہنگ کی ہے جستجو

پھر ریاضی اور ادب کے ربطِ باہم کی طلب ہے رُوبرو!

٭٭٭

 

 

 

 

 

ایک زمزمے کا ہاتھ

 

ابھرا تھا جو آواز کے نابود سے

اک زمزمے کا ہاتھ

اس ہاتھ کی جھنکار

نئے شہروں کا، تہذیبوں کا

الہام بنے گی

وہ ہاتھ نہ تھا دھات کے اک معبدِ کہنہ

سے چرایا ہوا، تاریخ میں لتھڑا ہوا

اک ہاتھ

وہ ہاتھ خداوند ستمگر کا نہیں تھا

وہ ہاتھ گدا پیشہ پیمبر کا نہیں تھا

اس ہاتھ میں [تم دیکھتے ہو]

شمع کی لرزش ہے جو کہتی ہے کہ:

’’آؤ،

شاہراہ پہ بکھرے ہوئے اوراق اٹھاؤ

اس ہاتھ سے لکّھو!‘‘

کہتی ہے کہ : ’’آؤ

ہم تم کو نئے زینوں کے،

آئینوں کے، باغوں کے

چراغوں کے، محلوں کے، ستونوں کے

نئے خواب دکھائیں

وہ پھول جو صحراؤں میں شبنم سے جدا

[خود سے جدا]

ہانپتے ہیں، ان کے

نئے صحنوں میں انبار لگائیں

الجھے ہوئے لمحات جو افکار

کی دیواروں سے آویختہ ہیں

ان سے نئے ہار بنائیں

سینوں میں اتر جائیں،

پھر افسردہ تمنائیں جلائیں‘‘

کہتی ہے کہ:

’’دو وقت کی روٹی کا سہارا ہے یہی ہاتھ

جینے کا اشارہ ہے یہی ہاتھ

اس ہاتھ سے پھر جام اٹھائیں

پھر کھولیں کسی صبح کی کرنوں کے دریچے،

اس ہاتھ سے آتی ہوئی خوشبوؤں کو

آداب بجا لائیں!‘‘

 

کہتی ہے کہ:

’’افسوس کی دہلیز پر

اک عشقِ کہن سال پڑا ہے

اس عشق کے سوکھے ہوئے چہرے

پہ ڈھلکتے ہوئے آنسو

اس ہاتھ سے پونچھیں

یہ ہاتھ ہے وہ ہاتھ

جو سورج سے گرا ہے

ہم سامنے اس کے

جھک جائیں دعا میں

کہ یہی زندگی و مرگ کی ہر دھوپ میں

ہر چھاؤں میں

الفاظ و معانی کے نئے وصل

کا پیغام بنے گا

ہر بوسے کا الہام بنے گا!‘‘

٭٭٭

 

 

 

آک اور حنا

 

کیسے بکھری پھول نیند

کیسے شانوں پر گرا اک چاند گیت،

جس سے میں ظاہر ہوا

چاند گیت!

ان گہری ندیوں کے فرازوں کی طرف

لے چل، جہاں

آک کے پہلو میں اگتی ہے حنا،

ان درختوں کی طرف لے چل مجھے

جن کی جانب لوٹ آئے

راہ سے بھٹکے ہوئے زنبور

چھتّوں کی طرف

جن سے کرنا ہیں مجھے سرگوشیاں!

مجھ کولے چل کشت زاروں کے

خزاں کجلائے چہروں کی طرف

جن پہ ماتم کی عنبریں کرنیں جھلک اٹھی ہیں

گیت!

 

عشق جیسے روشنائی کا کوئی دھبہ تھا

پیراہن پہ ناگہاں گرا

میں نے اس بپھری جوانی میں

وہ موسیقی کی سرشاری سنی

میں نے خوشبوؤں کی پُر باری سنی

میں نے بازاروں میں گھبرائے ہجوموں کا

وہی نغمہ، وہی شیون سنا

جو ہر اک زخمی سے کہتا ہے کہ : ’’آ

تیرا مزار اب میں ہی ہوں،

میں وہ مطلع ہوں جو اجلا ہی سہی

نا رس بھی ہے

میں وہ تصویِر خداوندی ہوں، دھندلائی ہوئی

میں وہ دنیا ہوں کہ جس کے لب نہیں!‘‘

 

لیکن اپنے زرد آج اور سرخ کل کے درمیاں

تنگ دوراہے پہ اک لمحہ بھی تھا

نارنج رنگ!

ہاں، اسی لمحے میں

کتنے راہ سے بھٹکے پرندے

ذہن کے برجوں پر آ بیٹھے کہ :’’ہم

ہم میں کھو جا! ہم تجھے لے جائیں گے

اب اُس حنا تک

اگ رہی ہے، آک کے مسموم پیمانوں کے پاس

ان سے رس لیتی ہوئی!‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

برزخ

 

 

شاعر

 

اے مری روح تجھے

اب یہ برزخ کے شب و روز کہاں راس آئیں

عشق بپھرا ہوا دریا ہے، ہوس خاک سیاہ

دست و بازو نہ سفینہ کہ یہ دریا ہو عبور

اور اس خاکِ سیاہ پرتو نشانِ کفِ پا تک بھی نہیں

اجڑے بے برگ درختوں سے فقط کاسۂ سر آویزاں

کسی سفّاک تباہی کی المناک کہانی بن کر!

اے مری روح، جدائی سے حزیں روح مری

تجھے برزخ کے شب و روز کہاں راس آئیں؟

 

 

روح

 

میرا ماویٰ نہ جہنم مرا ملجا نہ بہشت

برزخ ان دونوں پر اک خندۂ تضحیک تو ہے

ایک برزخ ہے جہاں جور و ستم، جود و کرم کچھ بھی نہیں

اس میں وہ نفس کی صرصر بھی نہیں

جسم کے طوفاں بھی نہیں

مبتلا جن میں ہم انسان سدا رہتے ہیں

ہم سیہ بخت زمیں پر ہوں، فلک پر ہوں کہیں

ایک برزخ ہے جہاں مخمل و دیبا کی سی آسودگی ہے

خوابِ سرما کی سی آسودگی ہے

 

(نیویارک۔۔۔۱۶جون ۱۹۵۵ء)

٭٭٭

 

 

 

بے چارگی

 

میں دیوارِ جہنم کے تلے

ہر دوپہر، مفرور طالب علم کے مانند

آ کر بیٹھتا ہوں اور دزدیدہ تماشا

اس کی پر اسرار و شوق انگیز جلوت کا

کسی رخنے سے کرتا ہوں!

 

معرّی جامِ خوں در دست، لرزاں

اور متبنی کسی بے آب ریگستاں

میں تشنہ لب سراسیمہ

یزید اِک قلّۂ تنہا پر اپنی آگ میں سوزاں

ابو جہل اژدہا بن کر

خجالت کے شجر کی شاخ پر غلطاں

بہاء اللہ کے جسمِ ناتواں کا ہر

رواں اِک نشترِ خنداں

زلیخا، ایک چرخِ نور و رنگ آرا

سے پا بستہ

وہیں پیہم رواں، گرداں

ژواں، حلّاج، سرمد

چرسی انسان کی طرح ژولیدہ مو، عریاں

مگر رقصاں

 

ستالن، مارکس، لینن روئے آسودہ

مگر نا رس تمنّاؤں کے سوز و کرب سے شمع تہِ داماں

یہ سب منظور ہے یارب

کہ اس میں ہے وہ ہاؤ ہو، وہ ہنگامہ وہ سیمابی

کہ پائی جس سے ایسی سیمیائی صورتوں نے

روحِ خلاّقی کی بے تابی

مگر میرے خدا، میرے محمد کے خدا مجھ سے

غلام احمد کی برفانی نگاہوں کی

یہ دل سوزی سے محرومی

یہ بے نوری یہ سنگینی

بس اب دیکھی نہیں جاتی

غلام احمد کی یہ نا مردمی دیکھی نہیں جاتی

 

(نیویارک ۔ 1 دسمبر ۱۹۵۳ء)

٭٭٭

 

 

 

رات عفریت سہی

 

 

رات عفریت سہی،

چار سو چھائے ہوئے موئے پریشاں جس کے

خون آلودہ نگاہ و لب و دنداں جس کے

ناخنِ تیز ہیں سوہانِ دِل و جاں جس کے

 

رات عفریت سہی،

شکرِ للہ کہ تابندہ ہے مہتاب ابھی

چند میناؤں میں باقی ہے مئے ناب ابھی

اور بے خواب مرے ساتھ ہیں احباب ابھی

 

رات عفریت سہی،

اسی عفریت نے سو بار ہزیمت پائی

اس کی بیداد سے انساں نے راحت پائی

جلوۂ صبحِ طرب ناک کی دولت پائی

 

رات عفریت سہی،

آؤ احباب کہ پھر جشنِ سحر تازہ کریں

پھر تمناؤں کے عارض پہ نیا غازہ کریں

ابنِ آدم کا بلند آج پھر آوازہ کریں

٭٭٭

ماخذ: اردو محفل (مرحوم)

ٹائپنگ: فرخ منظور

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید