ایک اہم دینی موضوع پر ایک اہم کتاب
فضائلِ تجارت
از قلم
انجینئر محمد جاوید یوسف میمن
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں …..
تمہید
ہر انسان کی جو چند بنیادی ضرورتیں ہیں ان میں خوراک، لباس اور گھر شامل ہیں جن کا حصول مال ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ مال ہی کے ذریعے انسان اپنی جان، مال اور آبرو کی حفاظت کر سکتا ہے۔ مال ہی کے ذریعے سے دین و دنیا کے بہت سے کاموں میں سہولت حاصل ہوتی ہے۔ مال نہ صرف فرد بلکہ جماعت کے وجود کے لیے بھی انتہائی ضروری ہے بلکہ فرد کے مقابلے میں جماعت کے حق میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ جس قوم کی اکثریت مالی طور پر مستحکم ہو گی وہ قوم ترقی کرے گی اور اقوام عالم میں اپنا مقام بنائے گی۔ اور جس قوم کی مالی حالت ناکارہ ہو گی وہ مفلوج اور ہاتھ پھیلانے والی ہو گی۔ جس معاشرے کے افراد میں غربت ہو گی تو اس کا مجموعہ بھی غربت کا شکار ہو گا جس کے نتیجے میں معاشرے کے وہ طبقے جیسے بوڑھے، معذور، بیوائیں اور یتیم ان لوگوں کے لیے بھی معاشرہ کچھ فراہم نہیں کر سکے گا۔ آتا ہے کہ قریب ہے کہ فقر انسان کو کفر میں مبتلا کر دے۔ یعنی غریبی میں انسان ان کاموں کو بھی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جو دین کے سراسر خلاف ہوتے ہیں۔ اسباب حیات جن کے حصول کا ذریعہ مال ہے یہ مسئلہ انسان کے لیے اس قدر اہم ہے کہ اس کے لیے وہ اپنے آپ کو معبودان باطل کے سامنے بھی جھکا دیتا ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے:
ان الذین تعبدون من دون اللہ لا یملکون لکم رزقا فابتغوا عند اللہ الرزق (العنکبوت: 17)
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ کے سوا جن کی تم عبادت کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے سو اللہ تعالیٰ کے پاس سے رزق تلاش کرو۔
مال اس دنیا کے اسباب میں سے ہے اور اسباب کو اختیار کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ یہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے جس سے کسی کو روگردانی کی اجازت نہیں ہے۔ سیدنا عمرؓ کا قول ہے:
’’تم میں سے کوئی طلب رزق کو ترک نہ کرے اور صرف دعا کرتا رہے کہ اے اللہ مجھے رزق دے جب کہ تم جانتے ہو کہ آسمان سے سونا چاندی نہیں برستا۔‘‘
یعنی طلب رزق میں اسباب اور محنت کا دخل ہے نری دعا یا وظیفے کافی نہیں ہیں۔ شریعت بھی انسان کو کسب مال کی کوشش پر ابھارتی ہے بلکہ فرمان رسولﷺ نے اس کو فرض قرار دیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن عبد اللہ بن مسعود ان النبی قال طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ (مشکوۃ المصابیح، کتاب البیع)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’حلال مال کا طلب کرنا دوسرے فرائض کی ادائیگی کے بعد فرض ہے۔‘‘*
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعۃ: 10)
ترجمہ: پس جب نماز پوری ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضل (یعنی رزق) کو تلاش کرو
اور یہ کوئی صرف عام مسلمانوں کے لیے ہی ضروری نہیں بلکہ اللہ نے جن نبیوں کو بھیجا انہوں بھی اس فریضے کو نبھایا ہے۔ رسول اللہﷺ کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ ہر نبی علیہم السلام نے بکریاں چرائیں ہے۔ خود رسول اللہﷺ نے اجرت پر بکریاں چرائی ہیں۔ اللہ کے نبی داؤد اپنی روزی زرہ بنا کر کماتے تھے۔ ایک نبیؑ بڑھئی تھے۔ حضرت موسیؑ کے متعلق رسول اللہﷺ نے بتایا ہے:
عن عتبة بن المنذر یقول کنا عند رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم فقرا طسم حتى اذا بلغ قصة موسى قال ان موسى صلى اللہ علیہ و سلم اجر نفسہ ثمانی سنین او عشرا على عفة فرجہ وطعام بطنہ (سنن ابن ماجہ)
ترجمہ: حضرت عتبہ بن منذرؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کی خدمت میں موجود تھے آپﷺ نے سورۃ طسم تلاوت فرمائی، جب آپﷺ حضرت موسیؑ کے قصے پر پہنچے تو آپﷺ نے فرمایا: ’’موسیؑ نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کے لیے اور پیٹ کی پرورش کے لیے اپنے آپ کو سات یا دس سال تک ملازمت میں دیے رکھا۔‘‘
قرآن پاک نے مال کو زندگی کی بقا کا ذریعہ بتایا ہے جو اس بات کی اہمیت بتانے کے لیے کافی ہے کہ فرد یا امت کی اجتماعی ترقی کے لیے مال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 5 میں آیا ہے:
ولا تؤتوا السفہاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیاما
ترجمہ: اور تم وہ مال، جس کو اللہ نے تمہارے لیے قیام و بقا کا ذریعہ بنایا ہے، نادانوں کے حوالے نہ کرو
غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اسلام کے بہت سے احکامات مال سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسلام کے چوتھے رکن زکوٰۃ کی ادائیگی مال ہی کی بنیاد پر ہے۔ اسلام کا پانچواں رکن یعنی حج بھی مال ہی سے جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح بہت سے کفارات بھی مال سے جڑے ہوئے ہیں۔ وراثت کے احکامات بھی مال ہی کی تقسیم کے لیے ہیں۔ جہاد کا فرض بھی مال کے ساتھ ہی وابستہ ہے اس لیے کہ اس کو کرنے کے لیے اسباب کا ہونا لازمی امر ہے جو مال ہی کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں۔ اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری اُس ملک کے رہنے والوں پر ڈالی گئی ہے۔ اگر مال نہیں ہو گا تو اس ملک کا دفاع بھی کمزور ہو گا اور دشمنوں کو دخل در اندازی کا موقع ملے گا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
واعدوا لہم ما استطعتم من قوة ومن رباط الخیل ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم (الانفال: 60)
ترجمہ: اور تیار رکھو ان کے (مقابلے کے) لیے اپنی استطاعت کی حد تک طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے (تاکہ) تم اس سے اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو۔
نماز قائم کرنے کا فریضہ بھی مال ہی کے ذریعے سے ادا ہو گا اس لیے کہ مساجد کی تعمیر اور ان کو آباد رکھنے کے لیے بھی مال کی ضرورت پڑتی ہے۔ تعلیم کے لیے بھی مال کی ضرورت ہے۔ دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینے کے لیے بھی مال ہی درکار ہے۔ مال کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ دو اسلامی حدود (سزا) چوری اور راہزنی کا تعلق بھی مال ہی سے ہے۔ یہ شدید سزائیں اس لیے رکھی گئی ہیں کہ لوگوں کے مال چوروں اور راہزنوں سے محفوظ رہیں۔ جس معاشرے میں مال کی حفاظت کے انتظامات ہوں گے تو وہ معاشرہ مالی طور پر ترقی کر سکے گا۔ اگر ایسا نہ ہو گا تو اس معاشرے میں انتشار پھیل جائے گا جس کے نتیجے میں معاشرہ غربت کا شکار ہو جائے گا۔
ہمارے اس دور میں اقتصادیات کا میدان بہت ہی گرم ہے۔ فرد ہو یا ملک کسب مال ہی بنیادی مقصد بنا ہوا ہے۔ بلکہ آج کے دور میں اقتصادیات ہی اصل جنگ بن گئی ہے۔ جنگ کی بجائے اقتصادی پابندیاں ہی کسی ملک کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات اشد ضروری ہے کہ اسلامی ممالک اقتصادی طور پر خود مختار ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں اقتصادی سرگرمیاں پورے عروج پر ہوں تاکہ وہ بحیثیت مجموعی اپنی آزادی اور خود داری کا سودا کرنے کے بجائے عزت و وقار سے اپنے فیصلے کر سکیں۔
اسلام میں مال کی حیثیت
رسول اللہﷺ کے بہت سے ارشادات سے مسلمان کی زندگی میں مال کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ مثلاً آپﷺ کا ارشاد عالی ہے:
عن حکیم بن حزام عن النبیﷺ قال الید العلیا خیر من الید السفلى وابدا بمن تعول وخیر الصدقة عن ظہر غنى ومن یستعفف یعفہ اللہ ومن یستغن یغنہ اللہ (صحیح البخاری، کتاب الزکوة)
ترجمہ: حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے انہیں دو جو تمہارے بال بچے اور عزیز ہیں اور بہترین صدقہ وہ ہے جسے دے کر آدمی مالدار رہے اور جو کوئی سوال سے بچنا چاہے گا اسے اللہ تعالیٰ بھی محفوظ رکھتا ہے اور جو دوسروں (کے مال) سے بے نیاز رہتا ہے، اسے اللہ تعالیٰ بے نیاز ہی بنا دیتا ہے۔
اور اس حدیث شریف پر غور فرمائیں جس میں رسول اللہﷺ نے انسان کی فضیلت کا ایک معیار اس کا اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والا واضح فرمایا ہے۔
عن ابن مسعود قال سمعت النبیﷺ یقول لا حسد الا فی اثنتین رجل آتاہ اللہ مالا فسلطہ على ہلکتہ فی الحق ورجل آتاہ اللہ حکمة فہو یقضی بہا ویعلمہا (صحیح البخاری، کتاب الزکاة)
ترجمہ: ابن مسعودؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ حسد (رشک) کرنا صرف دو ہی آدمیوں کے ساتھ جائز ہو سکتا ہے۔ ایک تو اس شخص کے ساتھ جسے اللہ نے مال دیا اور اسے حق اور مناسب جگہوں میں خرچ کرنے کی توفیق دی دوسرے اس شخص کے ساتھ جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت دی اور وہ اپنی حکمت کے مطابق حق فیصلے کرتا ہے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت سعدؓ بن ابی وقاصؓ، شدید بیمار تھے اور آپﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت سعدؓ نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا:
انی قد بلغ بی من الوجع وانا ذو مال ولا یرثنی الا ابنة افاتصدق بثلثی مالی قال لا فقلت بالشطر فقال لا ثم قال الثلث والثلث کبیر او کثیر انک ان تذر ورثتک اغنیاء خیر من ان تذرہم عالة یتکففون الناس وانک لن تنفق نفقة تبتغی بہا وجہ اللہ الا اجرت بہا حتى ما تجعل فی فی امراتک (صحیح البخاری، کتاب المرضی)
ترجمہ: میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے میرے پاس مال و اسباب بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہو گی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے کہا آدھا۔ آپﷺ نے فرمایا نہیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مال دار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انہیں اس طرح چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمہیں ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔
قرآن پاک میں مال کو اللہ تعالیٰ نے خیر سے تعبیر فرمایا ہے:
کتب علیکم اذا حضر احدکم الموت ان ترک خیرا الوصیة للوالدین والاقربین بالمعروف حقا على المتقین (البقرة: 180)
ترجمہ: جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ پہنچے اور وہ کچھ مال چھوڑ رہا ہو تو تم پر فرض کر دیا گیا ہے والدین اور رشتہ داروں کے حق میں انصاف کے ساتھ وصیت کرنا اللہ تعالیٰ کا تقویٰ رکھنے والوں پر یہ حق ہے۔
مال اللہ کی عطا ہے اور انسان پر اس کی رحمت کا اظہار ہے۔ رسول اللہﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا گیا:
ووجدک عائلا فاغنى() (الضحى: 8)
ترجمہ: اور تمہیں نادار پایا تو غنی کر دیا۔
اسلام کی نظر میں مال کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ انسان کے پاس جو مال ہے وہ اصلا اللہ تعالیٰ کا ہے انسان کو اللہ نے اس پر نگران مقرر کیا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
آمنوا باللہ ورسولہ وانفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ فالذین آمنوا منکم وانفقوا لہم اجر کبیر (الحدید: 7)
ترجمہ: اللہ پر اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لے آؤ اور اس مال میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں (دوسروں کا) جانشین بنایا ہے پس تم میں سے جو ایمان لائیں اور خیرات کریں انہیں بہت بڑا ثواب ملے گا۔
ایک اور آیت میں آتا ہے:
وآتوہم من مال اللہ الذی آتاکم (النور: 33)
ترجمہ: اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے بندوں کے ہاتھوں میں جو مال ہے اس کو اپنا مال بتایا ہے۔ یعنی انسان کو جو مال دیا جاتا ہے وہ امانت ہے اور اس کو صحیح انداز میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ مال سے تو آخرت کمانے کا حکم ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی ذمہ داریاں پوری کرنا خود دین کا تقاضا ہے لیکن ان دونوں تقاضوں کو بہترین طریقے سے پورا کرنا یہی مومن کی شان ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وابتغ فیما آتاک اللہ الدار الآخرة ولا تنس نصیبک من الدنیا واحسن کما احسن اللہ الیک ولا تبغ الفساد فی الارض ان اللہ لا یحب المفسدین (القصص: 77)
ترجمہ: اور جو (مال) تم کو اللہ نے عطا فرمایا ہے اس سے آخرت کی بھلائی طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو۔
اسلام کا مزاج، اپنی روزی خود کماؤ
فرد ہو یا قوم، مال ہی ہے جو زندگی میں آسانیاں بہم پہنچاتا ہے۔ مال والا دینے والا بنتا ہے نہ کہ سوال کرنے والا۔ وہ خرچ کرنے والا بنتا ہے نہ کہ مانگنے والا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
الید العلیا خیر من ید السفلی (صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ)
ترجمہ: اوپر والا (یعنی دینے والا) ہاتھ نیچے والے (یعنی لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے۔
آپﷺ نے ہمیشہ اس بات کی ترغیب دی کہ انسان کسی سے مانگنے کی بجائے خود انحصاری کی کوشش کرے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن ابی ہریرة ان رسول اللہ قال و الذی نفسی بیدہ لان یاخذ احدکم حبلہ فی حتطب على ظہرہ خیر لہ من ان یاتی رجلا اعطاہ اللہ من فضلہ فیسالہ اعطاہ او منعہ (صحیح البخاری، کتاب الزکوٰۃ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص رسی سے لکڑیوں کا بوجھ باندھ کر اپنی پیٹھ پر جنگل سے اٹھا لائے (پھر انہیں بازار میں بیچ کر اپنا رزق حاصل کرے) تو وہ اس شخص سے بہتر ہے جو کسی کے پاس آ کر سوال کرے پھر جس سے سوال کیا گیا ہے وہ اسے دے یا نہ دے۔
یہ مزاج شریعت کے خلاف ہے کہ ہٹے کٹے انسانوں کو روزانہ مفت کھانا کھلایا جائے۔ سنن ابن ماجہ میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اپنی غریبی کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے اس سے دریافت کیا کہ اس کے گھر میں کچھ سامان ہے، اس پر وہ بولا:
بلى حلس نلبس بعضہ ونبسط بعضہ وقدح نشرب فیہ الماء قال ائتنی بہما قال فاتاہ بہما فاخذہما رسول اللہﷺ بیدہ ثم قال من یشتری ہذین فقال رجل انا آخذہما بدرہم قال من یزید على درہم مرتین او ثلاثا قال رجل انا آخذہما بدرہمین فاعطاہما ایاہ واخذ الدرہمین فاعطاہما الانصاری وقال اشتر باحدہما طعاما فانبذہ الى اہلک واشتر بالآخر قدوما فاتنی بہ ففعل فاخذہ رسول اللہﷺ فشد فیہ عودا بیدہ وقال اذہب فاحتطب ولا اراک خمسة عشر یوما فجعل یحتطب ویبیع فجاء وقد اصاب عشرة دراہم فقال اشتر ببعضہا طعاما وببعضہا ثوبا ثم قال ہذا خیر لک من ان تجیء و المسالة نکتة فی وجہک یوم القیامة ان المسالة لا تصلح الا لذی فقر مدقع او لذی غرم مفظع او دم موجع (سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات)
ترجمہ: ’’کیوں نہیں، ایک کمبل ہے جس میں سے ہم کچھ اوڑھتے ہیں اور کچھ بچھا لیتے ہیں اور ایک پیالا ہے جس سے ہم پانی پیتے ہیں۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ دونوں میرے پاس لے آؤ۔‘‘، چنانچہ وہ انہیں آپﷺ کے پاس لے آیا، رسول اللہﷺ نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: ’’یہ دونوں کون خریدے گا؟‘‘، ایک آدمی بولا: ’’انہیں میں ایک درہم میں خرید لیتا ہوں۔‘‘ آپﷺ نے پوچھا: ’’ایک درہم سے زیادہ کون دے رہا ہے؟‘‘، دو بار یا تین بار، تو ایک شخص بولا: میں انہیں دو درہم میں خریدتا ہوں، آپﷺ نے اسے وہ دونوں چیزیں دے دیں اور اس سے درہم لے کر انصاری کو دے دئیے اور فرمایا: ’’ان میں سے ایک درہم کا غلہ خرید کر اپنے گھر میں ڈال دو اور ایک درہم کی کلہاڑی لے آؤ{{، وہ کلہاڑی لے کر آیا تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے اس میں ایک لکڑی ٹھونک دی اور فرمایا: ’’جاؤ لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور بیچو اور پندرہ دن تک میں تمہیں یہاں نہ دیکھوں{{۔ چنانچہ وہ شخص گیا، لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور بیچتا رہا، پھر وہ آیا اور (اس وقت تک وہ) دس درہم کما چکا تھا، اس نے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمہارے لیے بہتر ہے اس سے کہ قیامت کے دن مانگنے کی وجہ سے تمہارے چہرے میں کوئی داغ ہو، مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے: ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے۔‘‘
دین کا تقاضا، وسائل بھرپور استعمال
مال کمانے کے لیے وسائل کی ضرورت پڑتی ہے۔ وسائل چاہے مال کی صورت میں ہوں، زمین کی صورت میں ہوں یا کسی اور صورت میں شریعت نے ان کو فائدہ مند بنانے اور معاشی سرگرمی میں لگانے کی ترغیب دی ہے اور ان کو بے کار اور منجمد رکھنے کو ناپسند فرمایا ہے۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہﷺ کا گزر ایک مری ہوئی بکری پر ہوا تو آپﷺ نے دریافت فرمایا:
ہلا انتفعتم بجلدہا قالوا انہا میتة قال انما حرم اکلہا (صحیح البخاری)
ترجمہ: تم لوگ اس کی کھال کو کیوں کام میں نہیں لائے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردار ہے، آپﷺ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔
زمین وسائل میں سے ایک قیمتی وسیلہ ہے جس کے متعدد استعمال ہیں۔ اس حوالے سے سنن ابی داؤود میں رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد گرامی موجود ہے:
من احیا ارضا میتة فہی لہ (الحدیث)
ترجمہ: جو شخص بنجر زمین کو آباد کرے تو وہ اسی کی ہے (وہی اس کا مالک ہو گا)۔
ایک اور روایت میں آتا ہے:
من عمر ارضا لیست لاحد فہو احق بہا (صحیح البخاری)
ترجمہ: جس نے کوئی ایسی زمین آباد کی جس پر کسی کا حق نہیں تھا تو اس زمین کا وہی حق دار ہے۔
یہاں اتنی بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ سب حکومت کی زیر نگرانی اور اجازت سے وابستہ ہے۔
امیر المؤمنین سیدنا عمرؓ کا گزر زمین کے ایک بے آباد ٹکڑے پر ہوا جو سیدنا بلالؓ کی ملکیت میں تھا۔ سیدنا عمرؓ نے جب دیکھا کہ وہ زمین یونہی بے کار پڑی ہے تو ان سے تقاضا کیا کہ وہ اس زمین کے جتنے حصے کو آباد کر سکتے ہیں اتنا اپنے پاس رکھیں اور باقی لوٹا دیں۔ سیدنا عمرؓ کے موقف کے پیچھے یہی فکر کام کر رہی تھی کہ زمین بے کار نہ رہے۔
اسی طرح کی صورتحال صحابی رسولﷺ حضرت خزیمۃؓ کو بھی پیش آئی تھی۔ ان کی زمین بھی غیرآباد پڑی تھی۔ سیدنا عمرؓ نے حضرت خزیمۃؓ سے پوچھا کہ اس زمین پر کاشت کیوں نہیں کرتے۔ حضرت خزیمۃؓ نے جواب دیا کہ میری عمر بہت ہو گئی ہے آج یا کل موت ہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ اب اس کو آباد کرنے سے مجھے کیا فائدہ حاصل ہو گا۔ سیدنا عمرؓ نے ان کے اس عذر کو قبول نہیں کیا اور فرمایا کہ میں آپ کی مدد کروں گا ہم دونوں مل کر اس میں کاشت کریں گے۔ یہاں بھی یہی فکر کار فرما تھی کہ کسی شخص کو جو پیداواری وسائل حاصل ہیں وہ بے فائدہ نہیں پڑے رہنے چاہئیں بلکہ کسی نہ کسی مصرف میں آنے چاہئیں۔ مثلاً زمین ہے کہ اس کو جب کسی کام میں لایا جائے گا تو وہ ایک پیداواری یونٹ بن جائے گی جس سے نہ صرف اس کے مالک کو فائدہ حاصل ہو گا بلکہ کچھ اور لوگوں کی روزی کا ذریعہ بھی بن جائے گی۔
اس واقعہ میں ایک اور سبق بھی ہے کہ خیر کے کسی کام سے کسی وقت بھی نہیں رکنا چاہیے۔ اس بارے میں رسولﷺ نے کیا حکم فرمایا مسند احمد کی اس روایت کو پڑھیے:
ان قامت الساعة و فی ید احدکم فسیلة فان استطاع الا تقوم حتى یغرسہا، فلیغرس ہا
ترجمہ: اگر قیامت طاری ہو چکی ہو اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو (جو وہ زمین میں لگانا چاہتا ہو) تو اگر اس کے لیے ممکن ہو تو اس کو لگا دے۔
اسلام میں طلب رزق کی اہمیت
کسب مال ایک مسلسل عمل اور کوشش ہے۔ اس کوشش کے نتیجے میں نہ صرف اس انسان کی اپنی زندگی پر اچھا اثر پڑتا ہے بلکہ اس کے آس پاس کے لوگوں پر بھی اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے ذریعے انسان اپنے معیار زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ وہ اپنے بال بچوں اور خاندان کی بہتر طریقے سے کفالت کر پاتا ہے۔ اور اپنی اس کوشش کے ذریعے کئی اور لوگوں کے رزق کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔ اسی لیے دین اسلام میں طلب رزق ایک مطلوب چیز ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
عن عبد اللہ بن مسعود ان النبیﷺ قال طلب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ (مشکوۃ المصابیح، کتاب البیع)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’حلال مال کا طلب کرنا دوسرے فرائض کی ادائیگی کے بعد فرض ہے۔‘‘
طلب رزق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ابتدائے اسلام میں تہجد مسلمانوں پر فرض تھی لیکن سورۃ المزمل کی آیت 20 سے وہ فرضیت ختم کر دی گئی اور وجہ یہ بتائی گئی کہ بعض لوگ رات کو تہجد کے لیے جاگ کر صبح کو روزی کمانے کی مشقت میں نہ لگ سکیں گے۔ فرمایا:
علم ان سیکون منکم مرضىٰ وآخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ
ترجمہ: اور جان چکا ہے (اللہ) کہ تم میں کچھ لوگ بیمار پڑ جائیں گے، اور دوسرے اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرنے کے لیے زمین میں سفر کر رہے ہوں گے۔
اس لیے کہ طلب رزق میں لگنا ضروری ہے تاکہ انسان اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات کو پورا کر سکے اور معاشرے میں ایک با عزت مقام پا سکے۔ جب انسان کمائے گا نہیں تو اپنی اور اپنے بال بچوں کی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کوتاہی برتے گا۔ جس کا نہ صرف اس کی ذات پر برا اثر پڑے گا بلکہ اس کے اہل و عیال پر بھی اس کا بڑا برا اثر پڑے گا۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
کفى بالمرء اثما ان یضیع من یعول (سنن ابی داؤد، کتاب الزکوة)
ترجمہ: آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جن کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اوپر ہے۔
حدیث شریف میں آئے ہوئے اس واقعے پر غور فرمائیں جس میں آپﷺ نے رزق کی تلاش میں لگنے کو اللہ کی راہ میں لگنا شمار فرمایا ہے۔
عن کعب بن عجرة ان رجلا مر على النبی صلى اللہ علیہ وآلہ و سلم فراى اصحاب رسول اللہﷺ من جلدہ ونشاطہ ما اعجبہم فقالوا یا رسول اللہ لو کان ہذا فی سبیل اللہ فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وآلہ و سلم ان کان یسعى على ولدہ صغارا فہو فی سبیل اللہ وان کان خرج یسعى على ابو ین شیخین کبیرین ففی سبیل اللہ وان کان خرج یسعى على نفسہ لیعفہا ففی سبیل اللہ وان کان خرج یسعى على اہلہ ففی سبیل اللہ وان کان خرج یسعى تفاخرا وتکاثرا ففی سبیل الطاغوت (المعجم الاوسط للطبرانی، باب المیم، صحیح)
ترجمہ: حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریمﷺ کے پاس سے گزرا، نبی کریمﷺ کے صحابہؓ نے دیکھا کہ اس کا جسم اچھا ہے یعنی تندرست ہے، صحابہ کرامؓ کو (وہ شخص) پسند آیا، انہوں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہﷺ اگر یہ آدمی اللہ کی راہ میں لڑے تو بہتر ہے۔‘‘ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو اپنے چھوٹے بچوں کے رزق کے لیے نکلا وہ بھی اللہ کی راہ میں ہے، اگر بوڑھے والدین کی خدمت کے لیے نکلا وہ بھی اللہ کی راہ میں ہے، اگر اپنی ذات کے لیے نکلا کہ لوگوں سے مانگنے سے بچے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں ہے، اگر ریاکاری اور تکبر کے لینے نکلا تو وہ شیطان کی راہ میں ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
ہو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبہا وکلوا من رزقہ والیہ النشور (الملک: 15)
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم کیا تو اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اس کے دیے ہوئے رزق میں سے کھاؤ آخر کار اسی کے پاس جانا ہے۔
علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اس آیت میں اس بات کا حکم ہے کہ طلب رزق کے لیے زمین میں گھومو پھرو، سفر کرو۔
دین میں مال کمانے کی اہمیت کو اس بات سے سمجھنا چاہیے کہ حدیث کی بڑی بڑی کتابوں میں ایسے ابو اب موجود ہیں جن میں مال کمانے کے موضوع پر حدیثیں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً امام بخاریؒ اپنے مجموعہ حدیث میں ایک باب خرید و فروخت کے متعلق لائے ہیں، ان کے اسی مجموعے میں ایک باب کا نام ہے: ’’آدمی کا اپنے ہاتھ سے روزی کمانے کے بارے میں‘‘۔ حدیث کی ایک مشہور کتاب سنن ابن ماجہ میں ایک باب ہے: ’’کمانے کی ترغیب‘‘۔ صحابی رسول حضرت ابو ہریرۃؓ جنہوں نے رسول اللہﷺ کی سب سے زیادہ حدیثیں امت تک پہنچائی ہیں ایسا ہونے کی وجہ وہ خود بتاتے ہیں:
ان اخوتی من المہاجرین کان یشغلہم صفق بالاسواق (صحیح البخاری، کتاب البیوع)
ترجمہ: (وجہ یہ ہے کہ) میرے بھائی مہاجرین بازار میں خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے تھے۔
اسلام بیکاری اور اہلیت ہوتے ہوئے کام چوری کرنے کو قطعی پسند نہیں کرتا۔ ہر شخص سے اس کا تقاضا ہے کہ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے وہ اپنی روزی اپنی کوشش سے کمائے۔ رسول اللہﷺ کے ایک ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ مانگنا صرف تین قسم کے لوگوں کے لیے درست ہے ایک تو وہ جو نہایت محتاج ہو، خاک میں لوٹتا ہو، دوسرے وہ جس کے سر پر گھبرا دینے والے بھاری قرضے کا بوجھ ہو، تیسرے وہ جس پر خون کی دیت لازم ہو اور وہ دیت ادا نہ کر سکتا ہو اور اس کے لیے وہ سوال کرے (دیکھیے ص: 11)۔ ایک اور روایت میں آتا ہے:
لا تزال المسالة باحدکم حتى یلقى اللہ ولیس فی وجہہ مزعة لحم (صحیح مسلم)
ترجمہ: مانگتے رہنے والا شخص اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا۔
سیدنا عمرؓ کا قول ہے میں جب کسی شخص کو دیکھتا ہوں جو مجھے اچھا لگتا ہے تو میں اس سے پوچھتا ہوں کیا تم کوئی ہنر جانتے ہو؟ (یعنی کوئی کام کرتے ہو؟) اگر وہ کہتا ہے کہ نہیں تو پھر میری نگاہ میں اس کی کوئی قیمت نہیں رہتی، (کنز العمال)۔ یہ بھی انہی کا قول ہے کہ حصول رزق کے لیے کچھ کم درجے کا کام بھی کرنا پڑے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ آدمی لوگوں سے مانگتا پھرے، (کنز العمال)۔
حضرت عیسیؑ کے حوالے سے ایک بات آتی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا تو پوچھا: ’’تو کیا کام کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’میں عبادت کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عیسیؑ نے پوچھا: ’’تمہارے اہل و عیال کی کفالت کون کرتا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’میرا بھائی۔‘‘ اس پر حضرت عیسیؑ نے فرمایا: ’’تمہارا بھائی تم سے زیادہ عبادت گزار ہے۔‘‘ ایک بزرگ کا قول ہے کہ یہ عبادت نہیں کہ تم عبادت میں لگے رہو اور تمہاری روزی کا انتظام کوئی اور کرے۔ اپنی روزی روٹی خود جمع کرو اس کے بعد عبادت کرو۔ محمد بن منکدرؒ جو بہت بڑے تابعی تھے ان کا قول ہے: ’’اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے میں امیری بہت ہی اچھی چیز ہے۔‘‘ حضرت سعید بن مسیب کا قول ہے: ’’اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو مال حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا تاکہ اس سے اپنا قرض ادا کرے، اپنی عزت نفس کا بچاؤ کرے اور جب مرے تو اپنے پس ماندگان کے لیے میراث چھوڑ جائے۔‘‘ ایک اور بزرگ کا قول ہے کہ اس ایک پیسے کو بھی کم نہ سمجھ جس کے کمانے میں تو نے اللہ کے کسی حکم کو نہیں توڑا۔ حضرت سفیان ثوریؒ کا ایک قول ہے کہ بہادری اختیار کرو اور بہادری یہ ہے کہ حلال کماؤ اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرو۔ امام احمد بن حنبلؒ سے ایک ایسے شخص کے متعلق دریافت کیا گیا جو اپنے گھر یا مسجد میں بیٹھ رہے اور کہے میں کچھ نہیں کروں گا یہاں تک کہ میرا رزق مجھ تک پہنچایا جائے۔ امام صاحبؒ نے جواب دیا: ’’وہ شخص نرا جاہل ہے، کیا اس نے رسول اللہﷺ کا یہ فرمان نہیں سنا کہ میرا رزق نیزوں کے سائے میں ہے۔‘‘ امام صاحبؒ کی مراد یہ تھی کہ رزق کے لیے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ اسی طرح ایک شخص نے امام احمد بن حنبلؒ سے کہا: ’’میں ایک امیر آدمی ہوں آپ میرے بارے میں کیا فرماتے ہیں (یعنی میں اب کیا کروں)۔ امام احمد بن حنبلؒ نے فرمایا: ’’بازار کو لازم پکڑ۔‘‘ یعنی روزی کمانے کے جس کام میں لگے ہو اس کو ترک مت کرو کیونکہ اس سے انسان اپنی بہت ساری ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔ ایک بزرگ کا قول ہے: ’’تو بازار کو اپنے اوپر لازم کر (یعنی تجارت کر) اس لیے کہ تیری عزت تیرے بھائیوں کے نزدیک اس وقت تک ہے جب تک تو ان پر بار نہیں۔ لوگ تجھ سے اس وقت تک محبت کریں گے جب تک تیرے پاس مال ہے۔ اگر تو لوگوں سے کچھ مانگے اور پھر مانگے چاہے وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں تو ان کو گراں گزرے گا۔‘‘ حضرت سفیان ثوریؓ کا قول ہے کہ اس زمانے میں مال مومن کا ہتھیار ہے۔ صحابی رسولﷺ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ جن کا شمار بہت بڑے تاجروں ہوتا تھا، جن کو زندگی ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی ان کا ایک قول ہے:
یا حبذا المال اصون بہ عرضی واتقرب بہ الى ربی
ترجمہ: یہ مال بہت ہی پیاری چیز ہے کیونکہ اس کے ذریعے میں اپنی عزت نفس کو ذلت سے بچاتا ہوں اور اس کے ذریعے اپنے رب کا قرب حاصل کرتا ہوں۔
یعنی مال کے ذریعے انسان اپنی عزت نفس کی حفاظت کر سکتا ہے، یا اپنے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کر کے اس کی رضا حاصل کر سکتا ہے۔ ان کا ایک اور قول یہ بھی ہے کہ یہ مال کیسی پیاری چیز ہے جس سے میں اپنے رشتہ سے تعلق جوڑتا ہوں (جیسے ان کی مدد کر کے، ان کی ضیافت کر کے، ان کو ہدیے اور تحفے دے کر)۔ پس ان مقاصد کو سامنے رکھیے اور مال حاصل کرنے کی جستجو کیجیے۔
حضرت ابو ہریرۃؓ رسول اللہﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
ما اکل احد طعاما قط خیرا من ان یاکل من عمل یدہ و ان نبی اللہ داود علیہ السلام کان یاکل من عمل یدہ)صحیح البخاری، کتاب البیوع(
ترجمہ: ’’کسی انسان نے اس سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اللہ کے نبی داؤدؑ بھی اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی کھایا کرتے تھے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں کی کمائی بہت عمدہ چیز ہے۔ مثلاً کوئی پیشہ کرنا یا تجارت کرنا وغیرہ خوامخواہ کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہیے۔
سیدنا عمرؓ کے ایک قول کا مفہوم ہے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے موت آنا مجھے بے حد محبوب ہے اور اس کے بعد میں چاہوں گا کہ میری موت اپنے بچوں کے لیے روزی کماتے ہوئے بازار میں ہو۔ ان کا یہ قول اس آیت کا مفہوم ہے:
وآخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ (المزمل: 20)
ترجمہ: اور دوسرے اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرنے کے لیے زمین میں سفر کر رہے ہوں گے۔
قرآن پاک میں آتا ہے:
وجعلنا النھار معاشا (نبا: 11)
ترجمہ: اور بنایا دن کو کمائی کے لیے۔
فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعة: 10)
ترجمہ: پھیل پڑو زمین میں اور ڈھونڈو فضل اللہ تعالیٰ کا
کسب مال کے سلسلے میں شریعت ہر شخص پر اتنا مال کمانے کی ذمہ داری ضرور ڈالتی ہے ہے جس کے ذریعے وہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ذمہ داریاں کو پورا کر سکے تاکہ وہ کسی کے محتاج نہ بنیں۔ لیکن یہ اس دنیا میں اللہ کا نظام ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت دیتا ہے۔ مال کے حوالے سے بھی یہ بات ثابت ہے، بعض کو قُوت لایموت یعنی ضرورت بھر اور بعض کو ان کی ضرورت سے بہت زیادہ ملتا ہے۔ یہ بھی اللہ کی مشیت ہے۔ اپنی ضرورت سے زیادہ پانے والے بندے اللہ کا رزق اس کے دوسرے بندوں تک پہچانے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
دین اسلام مال کمانے کے تمام جائز طریقوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا:
عن ابی ہریرة ان رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم قال ان زکریاؑ کان نجارا (صحیح مسلم، کتاب الفضائل)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’(اللہ کے پیغمبر) زکریاؑ بڑھئی تھے۔‘‘
حضرت داؤدؑ کے قصے میں آتا ہے:
والنا لہ الحدید ان اعمل سابغات و قدر فی السرد واعملوا صالحا (سبا: 10-11)
ترجمہ: اور ان کے لیے ہم نے لوہے کو نرم کر دیا کہ کشادہ زرہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑو اور نیک عمل کرو
حضرت داؤدؑ لوہے کی زرہیں بنایا کرتے تھے جو پرانے زمانے میں جنگ میں حفاظت کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔
اسلام میں تجارت اور تاجر کا مقام
مال کے حصول کے مختلف طریقے ہیں، جن میں تجارت اور ملازمت شامل ہیں۔ قرآن پاک میں لفظ تجارت دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک تو کاروبار کے معنی میں۔ دوسرے معنی میں اس سے مراد اللہ کی رضا والے کام کرنا ہے جس کا بدلہ جنت ہے جو تجارت کا حقیقی فائدہ ہے۔ اس معنی سے تاجروں کی اکثریت غافل ہے۔ پھر خود تجارت کے بہت سے طریقے ہیں۔ تجارت کے ذریعے مال کمانا شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ نہیں ہے بلکہ تجارت کے ذریعے مال کے حصول کو خود قرآن پاک نے ایک اعلی درجے کا طریقہ بتایا ہے۔ قرآن پاک نے تجارت کے ذریعے مال کمانے کو اللہ کے فضل کو تلاش کرنا بتایا ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
و اٰخرون یضربون فی الارض یبتغون من فضل اللہ (المزمل: 20)
ترجمہ: اور کچھ دوسرے ایسے ہوں گے جو اللہ کا فضل (رزق) تلاش کرنے کے لیے زمین میں سفر کر رہے ہوں گے۔
جمعہ کی نماز کے بارے قرآن پاک میں آتا ہے:
فاذا قضیت الصلوة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ (الجمعة: 10)
ترجمہ: پھر جب نماز ہو چکے تو اپنی اپنی راہ لو اور اللہ کا فضل تلاش کرو
اسی طرح قرآن پاک میں آتا ہے:
لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم (البقرۃ: 198)
ترجمہ: تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم (حج کے دوران تجارت یا مزدوری کے ذریعے) اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو
یہ آیت ایام حج میں نازل ہوئی جس سے معلوم ہوا کہ ایام حج میں بھی تجارت جائز ہے۔ رسول اللہﷺ نے مال کمانے کی سرگرمی میں لگنے کی ترغیب دی ہے۔ مشکوۃ المصابیح، کتاب البیوع کی روایت میں آتا ہے رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا:
وعن رافع بن خدیج قال قیل یا رسول اللہ ای الکسب اطیب قال عمل الرجل بیدہ وکل بیع مبرور
ترجمہ: اے اللہ کے رسولﷺ ’’کون سا طریقہ کسب (کمائی) پاک ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا بہترین کسب ہے، اور ہر بیع (یعنی تجارت جو بددیانتی اور مکر و فریب سے پاک ہو) مقبول ہے۔
تاجروں کے متعلق بھی رسول اللہﷺ کے ارشادات ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دو ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہما ان النبیﷺ قال التاجر الصدوق لا یحجب من ابو اب الجنۃ (کنز العمال)
ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سچائی کے ساتھ تجارت کرنے والے کو جنت جانے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی‘‘
عن ابن عمر رضی اللہ عنہما ان النبیﷺ قال التاجر الامین الصدوق المسلم مع الشہداء یوم القمیۃ (ابن ماجہ، کنزالعمال)
ترجمہ: حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے والے مسلمان قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوں گے۔‘‘
صحابہ کرامؓ اور تجارت
رسول اللہﷺ کے اصحابؓ میں سے بہت سے لوگ تاجر تھے۔ حضرت عائشہؓ کا قول ہے کہ انصار کھیتی باڑی اور کھجور کی کاشت کرتے تھے جب کہ مہاجر صحابہؓ تجارت کرتے تھے۔ حضرت ابو بکرؓ بحیثیت تاجر ایک معروف آدمی تھے۔ وہ رسول اللہﷺ کی موجودگی میں شہر بصرہ تجارت کے لیے تشریف لے گئے تھے اور رسول اللہﷺ نے منع بھی نہیں فرمایا۔ آپ جب خلیفہ بنے تو ارشاد فرمایا:
میری قوم جانتی ہے کہ میرا کاروبار میرے گھر والوں کی گذران کے لیے کافی رہا ہے لیکن اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہو گیا ہوں اس لیے آل ابو بکر کا خرچہ اب بیت المال کے ذمہ ہو گا اور ابو بکر مسلمانوں کا مال تجارت بڑھاتا رہے گا۔ (صحیح بخاری)
صحابہؓ میں سے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ مکہ کے معروف تاجر تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ شریف میں بھی بہت کم مدت میں وہ وہاں کے معروف تاجروں میں شامل ہو گئے۔ یہ ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنہیں دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ انہوں نے رسول اللہﷺ کو ایک باغ ہدیہ کیا تھا جو چالیس ہزار میں فروخت ہوا، (مشکوۃ)۔ حضرت عمرؓ بھی تاجر تھے۔ حضرت عمرؓ کا ایک قول کنزالعمال میں ہے کہ اگر میری موت جہاد میں نہ آئے تو میں یہ پسند کروں گا کہ میری موت آئے اور میں اپنے دونوں کجاووں کے درمیان اللہ کا فضل اور رزق کی تلاش میں مشغول ہوں۔ سیدنا عثمانؓ کا تاجر ہونا تو معروف ہے۔ حضرت زبیر بن العوامؓ بھی تاجر تھے۔ ان کے پاس ایک ہزار غلام تھے جو ان کے لیے کام کرتے تھے۔ ان کی میراث ملیونوں میں تھی۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بھی مالدار صحابہ کرامؓ میں سے تھے۔ یہ زراعت سے وابستہ تھے۔ ان کی بیٹی عائشہ نے بتایا کہ ان کے والد نے خلیفہ وقت کو اپنی زکوٰۃ بھیجی جو پانچ ہزار درہم تھی۔ ان کا ترکہ ڈیڑھ لاکھ درہم تھا۔ جب حضرت طلحہؓ کا انتقال ہو گیا تو حضرت امیر معاویہؓ نے ان کے بیٹے موسی بن طلحہؓ سے پوچھا: ’’تمہارے باپ نے ترکے میں کیا چھوڑا ہے؟‘‘ بیٹے (موسی) نے ان کو جواب دیا: ’’انہوں نے ترکے میں دس لاکھ درہم چھوڑے ہیں، ان میں سے ایک لاکھ درہم چاندی کے ہیں اور ایک لاکھ سونے کے۔‘‘ حضرت عراک بن مالکؓ جب نماز جمعہ سے فارغ ہو جاتے تو مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر یہ کہتے تھے: ’’اے اللہ میں نے تیری پکار پر لبیک کہا، اور تیرا فرض ادا کر دیا، پھر میں جیسا کہ تو نے حکم دیا وہاں سے ہٹ گیا، پس مجھے روزی عطا فرما اور تو ہی بہترین روزی دینے والا ہے۔‘‘ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر، الجمعۃ: 10)
٭٭٭