مشہور معیاری تفسیر قرآن ’ترجمان القرآن‘ جو مکمل نہیں ہو سکی کا ابتدائی حصہ
ام الکتاب
سورۂ فاتحہ کی تفسیر
از قلم:
مولانا ابو الکلام آزادؔ
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…..کتاب کا نمونہ پڑھیں
ام الکتاب
(’’ترجمان القرآن‘‘ تفسیر کا ابتدائی حصّہ)
مولانا ابو الکلام آزادؔ
انتساب
غالباً دسمبر ۱۹۱۸ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے، مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا۔
آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔
کہاں سے؟
سرحد پار سے۔
یہاں کب پہنچے؟
آج شام کو پہنچا میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا کہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہو گا۔
مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔
۱۲ ستمبر ۱۹۳۱ء کلکتہ
٭٭٭
سورت کی اہمیت اور خصوصیات
یہ قرآن کی سب سے پہلی سورت ہے۔ اس لیے فاتحۃ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے، قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قرآن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی، اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قرآن کے پہلے صفحے ہی میں قرار پائی۔ چنانچہ خود قرآن نے اس کا ذکر ایسے ہی لفظوں میں کیا ہے جس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔
وَلَقَدْ آتَیْنَاکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِی وَالْقُرْآنَ الْعَظِیمَ (۸۷: ۱۵)
اے پیغمبر! یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تمہیں سات دہرائی جانے والی چیزیں عطا فرمائی اور قرآن عظیم۔
احادیث و آثار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس آیت میں ’سات دہرائی جانے والی چیزوں‘ سے مقصود یہی سورت ہے کیونکہ یہ سات آیتوں کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو سبع المثانی [1]بھی کہتے ہیں۔
احادیث و آثار میں اس سورت کے دوسرے نام بھی آئے ہیں جن سے اس کی خصوصیات کا پتہ چلتا ہے۔ مثلاً ام القرآن، الکافیہ، الکنز، اساس القرآن۔ [2]
عربی میں ’ام‘ کا اطلاق تمام ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جو ایک طرح کی جامعیت رکھتی ہوں یا بہت سی چیزوں میں مقدم اور نمایاں ہوں یا پھر کوئی ایسی اوپر کی چیز ہو جس کے نیچے اس کے بہت سے توابع ہوں۔ چنانچہ سر کے درمیانی حصے کو ام الراس کہتے ہیں کیونکہ وہ دماغ کا مرکز ہے۔ فوج کے جھنڈے کو ام کہتے ہیں کیونکہ تمام فوج اسی کے نیچے جمع ہوتی ہے۔ مکہ کو ام القری کہتے تھے کیونکہ خانہ کعبہ اور حج کی وجہ سے عرب کی تمام آبادیوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی۔ پس اس سورت کو ام القرآن کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک ایسی سورت ہے جس میں مطالب قرآنی کی جامعیت اور مرکزیت ہے یا جو قرآن کی تمام سورتوں میں اپنی نمایاں اور مقدم جگہ رکھتی ہے۔
اساس القرآن کے معنی ہیں قرآن کی بنیاد۔ الکافیہ کے معنی ہیں ایسی چیز جو کفایت کرنے والی ہو، الکنز خزانہ کو کہتے ہیں۔ علاوہ بریں ایک سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے یہ اوصاف عہد نبوت میں عام طور پر مشہور تھے۔
ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے ابی بن کعبؓ کو اس سورت کی تلقین کی اور فرمایا ’اس کے مثل کوئی سورت نہیں۔ ایک دوسری روایت میں اسے ’سب سے بڑی سورت‘ اور ’سب سے بہتر سورت‘ بھی فرمایا ہے۔ [3]
سورۃ فاتحہ میں دین حق کے تمام مقاصد کا خلاصہ موجود ہے:
چنانچہ اس سورت کے مطالب پر نظر ڈالتے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصے میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کیے گئے ہیں سورۃ فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال بیان موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے صرف اس سورت کے مطالب ذہن نشین کر لے جب بھی وہ دین حق اور خدا پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کر لے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے۔
علاوہ ازیں جب اس پہلو پر غور کیا جائے کہ سورت کا پیرایہ دعائیہ ہے اور اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جز وہ قرار دیا گیا ہے تو اس کی یہ خصوصیت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ اس اجمال و تفصیل میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادھا خلاصہ بھی ہو جسے ہر انسان بآسانی ذہن نشین کر لے اور پھر ہمیشہ اپنی دعاؤں اور عبادتوں میں دہراتا رہے۔ یہ اس کی دینی زندگی کا دستور العمل، خدا پرستی کے عقائد کا خلاصہ اور روحانی تصورات کا نصب العین ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس سورت کا ذکر کرتے ہوئے سبعاً من المثانی کہہ کر اس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کر دیا۔ یعنی ہمیشہ دہرائے جانے اور ورد رکھنے ہی میں اس کے نزول کی حکمت پوشیدہ ہے۔
کوئی شخص کتنا ہی نادان اور ان پڑھ ہو لیکن ان چار سطروں کا یاد کر لینا اور ان کا سیدھا سادھا مطلب سمجھ لینا اس کے لیے کچھ دشوار نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے کچھ نہ پڑھ سکا، جب بھی اس نے دین حق کا بنیادی سبق حاصل کر لیا یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے اس سورت کا سیکھنا اور پڑھنا ناگزیر ہوا اور نماز کی دعا اس کے سوا کوئی نہ ہو سکی کہ (لاصلوۃ الا بفاتحۃ الکتاب) (صحیحین) اور اسی لیے صحابہ کرامؓ اسے سورۃ الصلوۃ کے نام سے پکارتے تھے۔ یعنی وہ سورت جس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے جس قدر پڑھے اور سیکھے مزید معرفت و بصیرت کا ذریعہ ہو گا لیکن اس سے کم کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
دین حق کا ماحصل: ۔
دین حق کا تمام تر ماحصل کیا ہے؟ جس قدر غور کیا جائے گا ان چار باتوں سے باہر کوئی بات دکھائی نہ دے گی۔
(۱) خدا کی صفات کا ٹھیک ٹھیک تصور، اس لیے کہ انسان کو خدا پرستی کی راہ میں جس قدر ٹھوکریں لگی ہیں صفات ہی کے تصور میں لگی ہیں۔
(۲) قانون مجازات کا اعتقاد۔ یعنی جس طرح دنیا میں ہر چیز کا ایک خاصہ اور قدرتی تاثیر ہے اسی طرح انسانی اعمال کے بھی معنوی خواص اور نتائج ہیں۔ نیک عمل کا نتیجہ اچھائی ہے اور برے کا برائی۔
(۳) معاد کا یقین۔ یعنی انسان کی زندگی اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی۔ اس کے بعد بھی زندگی ہے اور جزا کا معاملہ پیش آنے والا ہے
(۴) فلاح و سعادت کی راہ اور اس کی پہچان۔
سورۂ فاتحۃ کا اسلوب: ۔
اب غور کرو کہ ان باتوں کا خلاصہ اس سورت میں کس خوبی کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے! ایک طرف زیادہ سے زیادہ مختصر حتی کہ گنے ہوئے الفاظ ہیں، دوسری طرف ایسے جچے تلے الفاظ کہ ان کے معانی سے پوری وضاحت اور دل نشینی پیدا ہو گئی ہے۔ ساتھ ہی نہایت سیدھا سادھا بیان ہے۔ کسی طرح کا پیچ و خم نہیں۔ کسی طرح کا الجھاؤ نہیں۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے۔ اتنی ہی زیادہ سہل اور دلنشین بھی ہوتی ہے اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہو گی ضروری ہے کہ سیدھی سادھی اور دلنشین بھی ہو۔ دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آ جائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو۔ وہ اس طرح قبول کر لے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات تھی۔ اردو کے ایک شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اب غور کرو کہ جہاں تک انسان کی خدا پرستی اور خدا پرستی کے تصورات کا تعلق ہے اس سے زیادہ سیدھی سادھی باتیں اور کیا ہو سکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کیا ہو سکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں۔ ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں اور ہر لفظ صاف اور دل نشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کر کے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے اگرچہ وہ اپنی جہالت و غفلت سے ان میں غور و تفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار، اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ لگ کر چلنے کی طلب گاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ اب کہ ہم بار بار یہ سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کا یہی حال ہے۔ جب تک سامنے نہیں آتی، معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ جب سامنے آ جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ عرفی نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایے میں بیان کی ہے۔
ہر کس نشناسندۂ راز ست، وگرنہ
اینہا ہمہ راز ست کہ معلوم عوام ست!
دنیا میں جب کبھی وحیِ الٰہی کی ہدایت نمودار ہوئی تو اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں کیونکہ خدا پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جا سکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتا دے اور یہی سورۃ فاتحہ کی خصوصیت ہے۔ اس سورت نے نوع انسانی کے وجدانی تصورات ایک ایسی تعبیر سے سنوار دیے کہ ہر عقیدہ، ہر فکر، ہر جذبہ، اپنی حقیقی شکل و نوعیت میں نمودار ہو گیا اور چونکہ یہ تعبیر حقیقت حال کی سچی تعبیر ہے اس لیے جب کبھی ایک انسان راست بازی کے ساتھ اس پر غور کرے گا بے اختیار پکار اٹھے گا کہ اس کا ہر بول اور ہر لفظ اس کے دل و دماغ کی قدرتی آواز ہے!
دین حق کی مہمات: ۔
پھر دیکھو اگرچہ اپنی نوعیت میں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک خدا پرست انسان کی سیدھی سادھی دعا ہے لیکن کس طرح اس کے ہر لفظ اور ہر اسلوب سے دین حق کا کوئی نہ کوئی اہم مقصد واضح ہو گیا ہے اور کس طرح اس کے الفاظ نہایت اہم معانی و دقائق کی نگرانی کر رہے ہیں!
(۱) خدا کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلط فہمی یہ رہی ہے کہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورۂ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کر دیا۔
(الحمد للہ رب العالمین) اس کی ابتدا حمد کے اعتراف سے ہوتی ہے حمد ثنائے جمیل کو کہتے ہیں یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو، ثنائے جمیل اسی کی کی جا سکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس حمد کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہو سکتا۔ جو ذات محمود ہو گی وہ خوفناک نہیں ہو سکتی۔
پھر حمد کے بعد خدا کی عالمگیر ربوبیت، رحمت اور عدالت کا ذکر کیا ہے اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشو و ارتقا کے لیے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کر دیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آ سکتی ہیں۔
(۲) ’رب العالمین‘ میں خدا کی عالمگیر ربوبیت کا اعتراف ہے جو ہر فرد، ہر جماعت، ہر قوم، ہر ملک اور ہر گوشہ وجود کے لیے ہے۔ اس لیے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا خاتمہ کر دیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہو گئی تھیں۔ اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگی تھی کہ خدا کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لیے ہے کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔
(۳) ’ملک یوم الدین‘ میں ’الدین‘ کا لفظ جزا کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو ’دین‘ کے لفظ سے تعبیر کر کے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ جزا انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتا ہو۔ کیونکہ’الدین‘ کے معنی بدلہ اور مکافات کے ہیں۔
(۴) ربوبیت اور رحمت کے بعد ’ملک یوم الدین‘ کے وصف نے یہ حقیقت بھی آشکارا کر دی کہ اگر کائنات میں صفاتِ رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عاد ہے اور اس کی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کر دیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین رحمت ہے۔
(۵) عبادت کے لیے یہ نہیں کہا کہ نعبدک، بلکہ کہا ’ایاک نعبد‘ یعنی یہ نہیں کہا کہ ’تیری عبادت کرتے ہیں‘ ۔ بلکہ حصر کے ساتھ کہا ’صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘ ۔ اور پھر اس کے ساتھ ’ایاک نستعین‘ کہہ کر استعانت کا بھی اسی حصر کے ساتھ ذکر کر دیا۔ اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کر دیے اور شرک کی ساری راہیں بند ہو گئیں!
(۶) سعادت و فلاح کی راہ کو ’صراط المستقیم‘ یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا جس کی اس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہو سکتی کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہشمند نہ ہو۔
(۷) پھر اس کے لیے ایک سیدھی سادھی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بتا دی جس کا اذعان قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے اور جو محض ایک ذہنی تعریف ہونے کی جگہ ایک موجود و مشہود حقیقت نمایاں کر دیتی ہے۔ یعنی وہ راہ جو انعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ کوئی ملک، کوئی قو، کوئی زمانہ کوئی فرد ہو، لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے، ایک ناکام انسانوں کی۔ پس ایک واضح اور آشکارا بات کے لیے سب سے بہتر علامت یہی ہو سکتی تھی کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ایک معلوم بات کو مجہول بنا دینا تھا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کے لیے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو خدا پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے صدائے حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہئے؟ یہ گویا خدا پرستی کے فکر و وجدان کا سر جوش ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بے اختیار ابل پڑتا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
حَمْد: ۔
عربی میں حمد کے معنی ثنائے جمیل کے ہیں، یعنی اچھی صفتیں بیان کرنے کے۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو یہ حمد نہ ہو گی، حمد پر الف لام ہے یہ استغراق کے لیے بھی ہو سکتا ہے، جنس کے لیے بھی۔
پس ’الحمد للہ‘ کے معنی یہ ہوئے کہ حمد و ثنا میں سے جو کچھ اور جیسا کچھ بھی کہا جا سکتا ہے وہ سب اللہ کے لیے ہے کیونکہ خوبیوں اور کمالوں میں سے جو کچھ بھی ہے سب اسی سے ہے اور اسی میں ہے۔ اور اگر حسن موجود ہے تو نگاہ عشق کیوں نہ ہو اور اگر محمودیت جلوہ افروز ہے تو زبان حمد و ستائش کیوں خاموش رہے؟
آئینہ ما روائے ترا عکس پذیر است
گر تو نہ نمائی گنہ از جانب ما نیست
حَمْد سے سورت کی ابتدا کیوں کی گئی؟ اس لیے کہ معرفت الٰہی کی راہ میں انسان کا پہلا تاثر یہی ہے۔ یعنی جب کبھی ایک صادق انسان اس راہ میں قدم اٹھائے گا تو سب سے پہلی حالت جو اس کے فکر و وجدان پر طاری ہو گی وہ قدرتی طور پر وہی ہو گی جسے یہاں تحمید و ستائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔
انسان کے لیے معرفت حق کی راہ کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ کائنات خلقت میں تفکر و تدبر کرے۔ مصنوعات کا مطالعہ اسے صانع تک پہنچا دے گا۔
الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلیٰ جُنُوْبھِِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (۱۸۸: ۳)
اب فرض کرو، ایک طالب صادق اس راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور کائنات خلقت کے مظاہر و آثار کا مطالعہ کرتا ہے تو سب سے پہلا اثر جو اس کے دل و دماغ پر طاری ہو گا وہ کیا ہو گا؟ وہ دیکھے گا کہ خود اس کا وجود اور اس کے وجود سے باہر کی ہر چیز ایک صانع حکیم اور مدبر قدیر کی کار فرمائیوں کی جلوہ گاہ ہے اور اس کی ربوبیت اور رحمت کا ہاتھ ایک ایک ذرہ خلقت میں صاف نظر آ رہا ہے۔ پس قدرتی طور پر اس کی روح جوش ستائش اور محویت جمال سے معمور ہو جائے گی۔
وہ بے اختیار پکار اٹھے گا کہ ’الحمد للہ رب العالمین‘ ساری حمد و ستائش اسی کے لیے ہے جو اپنی کار فرمائی کے ہر گوشے میں سرچشمہ رحمت و فیضان اور معنی حسن و کمال ہے!
اس راہ میں فکر انسانی کی سب سے بڑی گمراہی یہ رہی ہے کہ اس کی نظریں مصنوعات کے جلووں میں محو ہو کر رہ جاتیں اور آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرتیں۔
وہ پردوں کے نقش و نگار دیکھ کر بے خود ہو جاتا مگر اس کی جستجو نہ کرتا جس نے اپنے جمال صنعت پر یہ دل آویز پردے ڈال رکھے ہیں، دنیا میں مظاہر فطرت کی پرستش کی بنیاد اسی کوتاہ نظری سے پڑی۔
پس ’الحمد للہ‘ کا اعتراف اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ کائنات ہستی کا تمام فیضان و جمال خواہ کسی گوشے اور کسی شکل میں صرف ایک صانع حقیقی کی صفتوں ہی کا ظہور ہے۔
اس لیے حسن و جمال کے لیے جتنی بھی شیفتگی ہو گی، خوبی و کمال کے لیے جتنی بھی مدحت طرازی ہو گی اور بخشش و فیضان کا جتنا بھی اعتراف ہو گا، وہ مصنوع و مخلوق کے لیے نہیں ہو گا۔
صانع و خالق ہی کے لیے ہو گا۔
عبا را تنا شتی و حسنک واحد
وکل الی ذاک الجمال یشیر
اللہ
نزول قرآن سے پہلے عربی میں اللہ کا لفظ خدا کے لیے بطور اسم ذات کے مستعمل تھا جیسا کہ شعرائے جاہلیت کے کلام سے ظاہر ہے۔
یعنی خدا کی تمام صفتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی تھیں۔ یہ کسی خاص صفت کے لیے نہیں بولا جاتا تھا۔ قرآن نے بھی یہی لفظ بطور اسم ذات کے اختیار کیا اور تمام صفتوں کو اس کی طرف نسبت دی۔
’وللہ الاسماء الحسنی فادعوہ بہا‘ (۱۷۹: ۷)
(اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں (یعنی صفتیں ہیں) پس چاہیے کہ اسے ان صفتوں کے ساتھ پکارو!)
قرآن نے یہ لفظ محض اس لیے اختیار کیا کہ لغت کی مطابقت کا مقتضا یہی تھا یا اس سے بھی زیادہ کوئی معنوی موزونیت اس میں پوشیدہ ہے؟
جب ہم اس لفظ کی معنوی دلالت پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے اس غرض کے لیے سب سے زیادہ موزوں لفظ یہی تھا۔ نوع انسانی کے دینی تصورات کا ایک قدیم عہد جو تاریخ کی روشنی میں آیا ہے۔
مظاہر فطرت کی پرستش کا عہد ہے۔ اسی پرستش نے بتدریج اصنام پرستی کی صورت اختیار کی اصنام پرستی کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مختلف زبانوں میں بہت سے الفاظ دیوتاؤں کے لیے پیدا ہو گئے اور جوں جوں پرستش کی نوعیت میں وسعت ہوتی گئی الفاظ کا تنوع بھی بڑھتا گیا لیکن چونکہ یہ بات انسان کی فطرت کے خلاف تھی کہ ایسی ایسی ہستی کے تصور سے خالی الذہن رہے جو سب سے اعلی اور سب کی پیدا کرنے والی ہستی ہے اس لیے دیوتاؤں کی پرستش کے ساتھ ایک سب سے بڑی اور سب پر حکمراں ہستی کا تصور بھی کم و بیش ہمیشہ موجود رہا اور اس لیے جہاں بے شمار الفاظ دیوتاؤں اور ان کی معبودانہ صفتوں کے لیے پیدا ہو گئے وہاں کوئی نہ کوئی لفظ ایسا بھی ضرور مستعمل رہا جس کے ذریعہ اس ان دیکھی اور اعلی تریں ہستی کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ چنانچہ سامی زبانوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف و اصوات کی ایک خاص ترکیب ہے جو معبودیت کے معنی میں مستعمل رہی ہے۔
عبرانی، سریانی، آرامی، کلدانی، حمیری، عربی وغیرہ تمام زبانوں میں اس کا یہ لغوی خاصہ پایا جاتا ہے۔ یہ الف، لام اور ہ کا مادہ ہے اور مختلف شکلوں میں مشتق ہوا ہے۔
کلدانی و سریانی کا ’الاہیا‘ عبرانی کا ’الوہ‘ اور عربی کا ’الہ‘ اسی سے ہے اور بلا شبہ یہی ’الہ‘ ہے جو حروف تعریف کے اضافہ کے بعد اللہ ہو گیا ہے اور تعریف نے اسے صرف خالق کائنات کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔
لیکن اگر اللہ ’الہ‘ سے ہے تو ’الہ‘ کے معنی کیا ہیں؟ علمائے لغت و اشتقاق کے مختلف اقوال ہیں مگر سب سے زیادہ قوی قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل ’الہ‘ ہے اور ’الہ‘ کے معنی تحیر اور درماندگی کے ہیں، بعضوں نے اسے ’ولہ‘ سے ماخوذ بتایا ہے اور اس کے معنی بھی یہی ہیں پس خالق کائنات کے لیے یہ لفظ اس لیے اہم قرار پایا کہ اس بارے میں انسان جو کچھ جانتا اور جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور ادراک کی درماندگی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی میں غور و خوض کرے گا اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی ہی جائے گی۔ یہاں تک کہ وہ معلوم کر لے گا کہ اس راہ کی ابتدا بھی عجز و حیرات سے ہوتی ہے اور تنہا بھی عجز و حیرت ہی ہے!
اے بروں از وہم و قال و قیل من
خاک بر فرق من و تمثیل من
اب غور کرو خدا کی ذات کے لیے انسان کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں میں اس سے زیادہ موزوں لفظ اور کون سا ہو سکتا ہے؟ اگر خدا کو اس کی صفتوں سے پکارنا ہے تو بلا شبہ اس کی صفتیں بے شمار ہیں لیکن اگر صفات سے الگ ہو کر اس کی ذات کی طرف اشارہ کرنا ہے تو وہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ ایک متحیر کر دینے والی ذات ہے اور جو کچھ اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے وہ عجز درماندگی کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں ہے؟ فرض کرو نوع انسانی نے اس وقت تک خدا کی ہستی یا تخلیق کائنات کی اصلیت کے بارے میں جو کچھ سوچا اور سمجھا ہے وہ سب کچھ سامنے رکھ کر ہم ایک موزوں سے موزوں لفظ تجویز کرنا چاہیں تو وہ کیا ہو گا؟ اس سے موزوں اور اس سے بہتر کوئی لفظ تجویز کیا جا سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اس راہ میں عرفان و بصیرت کی کوئی بڑی سے بڑی بات کہی گئی وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خود رفتگیوں کا اعتراف کیا گیا اور ادراک کا منتہی مرتبہ ہمیشہ یہی قرار پایا کہ ادراک کی نارسائی کا ادراک حاصل ہو جائے۔
عرفاء کے دل و زبان کی صدا ہمیشہ یہی رہی کہ ’رب زدنی فیک تحیرا‘ [4]اور حکما کی حکمت و دانش کا فیصلہ بھی ہمیشہ یہی ہوا کہ ’معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد‘ ۔
چونکہ یہ اسم خدا کے لیے بطور اسم ذات کے استعمال میں آیا اس لیے قدرتی طور پر ان تمام صفتوں پر حاوی ہو گیا جن کا خدا کی ذات کے لیے تصور کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم خدا کا تصور اس کی کسی صفت کے ساتھ کریں مثلاً الرب یا الرحیم کہیں تو یہ تصور صرف ایک خاص صفت ہی میں محدود ہو گا۔
یعنی ہمارے ذہن میں ایک ایسی ہستی کا تصور پیدا ہو جائے گا جس میں ربوبیت یا رحمت ہے، لیکن جب ہم اللہ کا لفظ بولتے ہیں تو فوراً ہمارا ذہن ایک ایسی ہستی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو ان تمام صفات حسن و کمال سے متصف ہے جو اس کی نسبت بیان کیے گئے ہیں اور جو اس میں ہونے چاہئیں۔
رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
ربوبیت حمد کے بعد بالترتیب چار صفتیں بیان کی گئی ہیں (رب العالمین، الرحمن، الرحیم، مالک یوم الدین) چونکہ الرحمن اور الرحیم کا تعلق ایک ہی صفت کے دو مختلف پہلوؤں سے ہے اس لیے دوسرے لفظوں میں انہیں یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ربوبیت، رحمت، عدالت، تین صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
الہ کی طرح ’رب‘ بھی سامی زبانوں کا ایک کثیر الاستعمال مادہ ہے۔
عبرانی سریانی اور عربی تینوں زبانوں میں اس کے معنی پالنے کے ہیں اور چونکہ پرورش کی ضرورت کا احساس انسانی زندگی کے بنیادی احساسات میں سے ہے اس لیے اسے بھی قدیم ترین سامی تعبیرات میں سے سمجھنا چاہیے۔
پھر چونکہ معلم، استاد اور آقا کسی نہ کسی اعتبار سے پرورش کرنے والے ہی ہوتے ہیں اس لیے اس کا اطلاق ان معنوں میں بھی ہونے لگا۔
چنانچہ عبرانی اور آرامی کا ’ربی‘ اور ’رباہ‘ پرورش کنندہ، معلم اور آقا تینوں معنی رکھتا تھا اور قدیم مصری اور خالدی زبان کا ایک لفظ ’رابو‘ بھی انہی معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور ان ملکوں کی قدیم ترین سامی وحدت کی خبر دیتا ہے۔
بہرحال عربی میں ’ربوبیت‘ کے معنی پالنے کے لیے ہیں لیکن پالنے کو اس کے وسیع اور کامل معنوں میں لینا چاہیے۔
اسی لیے بعض ائمہ لغت نے اس کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے۔
’ہو انشاء الشیء حالا فحالا الی حد التمام‘ [5]
(یعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو و نما دیتے رہنا حتی کہ اپنی حد کمال تک پہنچ جائے۔)
اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا محتاج کو روپیہ دے دے تو یہ اس کا کرم ہو گا، جود ہو گا، احسان ہو گا لیکن وہ بات نہ ہو گی جسے ربوبیت کہتے ہیں ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل و بلوغ کے لیے وقتاً فوقتا جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں ان سب کا سر و سامان ہوتا رہے۔
نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبت و شفقت کے ساتھ ہو کیونکہ جو عمل محبت و شفقت کے عاطفہ سے خالی ہو گا ربوبیت نہیں ہو سکتا۔
ربوبیت کا ایک ناقص نمونہ ہم اس پرورش میں دیکھ سکتے ہیں جس کا جوش ماں کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو محض گوشت پوست کا ایک متحرک لوتھڑا ہوتا ہے اور زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا ہے سب کی سب پرورش و تربیت کی محتاج ہوتی ہیں۔ یہ پرورش محبت و شفقت، حفاظ و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طول طویل سلسلہ ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک بچہ اپنے جسم و ذہن کے حد بلوغ تک نہ پہنچ جائے۔
پھر پرورش کی ضرورتیں ایک دو نہیں بے شمار ہیں۔ ان کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر حالت کے مطابق محبت کا جوش، نگرانی کی نگاہ اور زندگی کا سر و سامان ملتا رہے۔
حکمت الٰہی نے ماں کی محبت میں ربوبیت کے یہ تمام خد و خال پیدا کر دیے ہیں۔ یہ ماں کی ربوبیت ہے جو پیدائش کے دن سے لے کر بلوغ تک، بچے کو پالتی، بچاتی، سنبھالتی، اور ہر حالت کے مطابق اس کی ضروریات پرورش کا سر و سامان مہیا کرتی رہتی ہے۔
جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہ تھا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا تھا۔ جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی۔ جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی تھی۔ جب کھڑے ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑی اور ایک ایک قدم چلانے لگی۔ پس یہ بات کہ ہر حالت اور ہر ضرورت کے مطابق ضروریات مہیا ہوتی رہیں اور نگرانی و حفاظت کا ایک مسلسل اہتمام جاری رہا۔
یہ وہ صورت حال ہے جس سے ربوبیت کے مفہوم کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
مجازی ربوبیت کی یہ ناقص اور محدود مثال سامنے لاؤ اور ربوبیت الٰہی کی غیر محدود حقیقت کا تصور کرو۔ اس کے رب العالمین ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ جس طرح اس کی خالقیت نے کائنات ہستی اور اس کی ہر چیز پیدا کی ہے اسی طرح اس کی ربوبیت نے ہر مخلوق کی پرورش کا سر و سامان بھی کر دیا ہے اور یہ پرورش کا سر و سامان ایک ایسے عجیب و غریب نظام کے ساتھ ہے کہ ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جو کچھ مطلوب تھا وہ سب کچھ مل رہا ہے اور اس طرح مل رہا ہے کہ ہر حالت کی رعایت ہے، ہر ضرورت کا لحاظ ہے، ہر تبدیلی کی نگرانی ہے اور ہر کمی بیشی ضبط میں آ چکی ہے۔
چیونٹی اپنے بل میں رینگ رہی ہے، کیڑے مکوڑے کوڑے کرکٹ میں ملے ہوئے ہیں مچھلیاں دریا میں تیر رہی ہیں، پرندے ہوا میں اڑ رہے ہیں، پھول باغ میں کھل رہے ہیں، ہاتھی جنگل میں دوڑ رہا ہے اور ستارے فضا میں گردش کر رہے ہیں۔
لیکن فطرت کے پاس سب کے لیے یکساں طور پر پرورش کو گود اور نگرانی کی آنکھ ہے اور کوئی نہیں جو فیضان ربوبیت سے محروم ہو۔
اگر مثالوں کی جستجو میں تھوڑی سی کاوش جائز رکھی جائے تو مخلوقات کی بے شمار قسمیں ایسی ملیں گی جو اتنی حقیر اور بے مقدار ہیں کہ غیر مسلح آنکھ [6]سے ہم انہیں دیکھ بھی نہیں سکتے۔
تاہم ربوبیت الٰہی نے جس طرح اور جس نظام کے ساتھ ہاتھی جیسی جسیم اور انسان جیسی عقیل مخلوق کے لیے سامان پرورش مہیا کر دیا ہے، ٹھیک ٹھیک اسی طرح اور ویسے ہی نظام کے ساتھ ان کے لیے بھی زنگی اور بقا کی ہر چیز مہیا کی ہے۔
اور پھر یہ جو کچھ بھی ہے انسان کے وجود سے باہر ہے اگر انسان اپنے وجود کو دیکھے تو خود اس کی زندگی اور زندگی کا ہر لمحہ ربوبیت الٰہی کی کرشمہ سازیوں کی ایک پوری کائنات ہے!
وفی الارض ایت للموقنین وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ۭ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (۲۱-۔ ۲۰: ۵۱)
(ان لوگوں کے لیے جو (سچائی پر) یقین رکھنے والے ہیں زمین میں (خدا کی کارفرمائیوں کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں!)
نظام ربوبیت
لیکن سامان زندگی کی بخشائش میں اور ربوبیت کے عمل میں جو فرق ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دنیا میں ایسے عناصر، عناصر کی ایسی ترکیب اور اشیا کی ایسی بناوٹ موجود ہے جو زندگی اور نشو و نما کے لیے سود مند ہے تو محض اس کی موجودگی ربوبیت سے تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ ایسا ہونا قدرت الٰہی کی رحمت ہے، بخشش ہے، احسان ہے مگر وہ بات نہیں ہے جسے ربوبیت کہتے ہیں۔ ربوبیت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں سود مند اشیا کی موجودگی کے ساتھ ان کی بخشش و تقسیم کا بھی ایک نظام موجود ہے اور فطرت صرف بخشتی ہی نہیں بلکہ جو کچھ بخشتی ہے ایک مقررہ انتظام اور ایک منضبط ترتیب و مناسبت کے ساتھ بخشتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جس جس چیز کی ضرورت ہی اور جس جس وقت اور جیسی جیسی مقدار میں ضرورت تھی ٹھیک ٹھیک اسی طرح، انہی وقتوں میں اور اسی مقدار میں اسے مل رہی ہے اور اس نظم و انضباط سے تمام کارخانہ حیات چل رہا ہے۔
پانی کی بخشش و تقسیم کا نظام:
زندگی کے لیے پانی اور رطوبت کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کے وافر ذخیرے ہر طرف موجود ہیں۔ لیکن اگر صرف اتنا ہی ہوتا، تو یہ زندگی کے لیے کافی نہ تھا۔ کیونکہ زندگی کے لیے صرف یہی ضروری نہیں ہے کہ پانی موجود ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خاص انتظام، ایک خاص ترتیب، اور ایک خاص مقررہ مقدار کے ساتھ موجود ہو۔
پس یہ جو دنیا میں پانی کے بننے اور تقسیم ہونے کا ایک خاص انتظام پایا جاتا ہے اور فطرت صرف پانی بناتی ہی نہیں بلکہ ایک خاص ترتیب و مناسبت کے ساتھ بناتی اور ایک خاص اندازہ کے ساتھ بانٹتی رہتی ہے تو یہی ربوبیت ہے اور اسی سے ربوبیت کے تمام اعمال کا تصور کرنا چاہیے۔
قرآن کہتا ہے یہ اللہ کی رحمت ہے جس نے پانی جیسا جوہر حیات پیدا کر دیا لیکن یہ اس کی ربوبیت ہے جو پانی کو ایک ایک بوند کر کے ٹپکاتی، زمین کے ایک ایک گوشے تک پہنچاتی، ایک خاص مقدار اور حالت میں تقسیم کرتی، ایک خاص موسم اور محل میں برساتی، اور پھر زمین کے ایک ایک تشنہ ذرے کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سیراب کر دیتی ہے!
وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءًۢ بِقَدَرٍ فَاَسْکَنّٰہُ فِی الْاَرْضِ ڰ وَاِنَّا عَلیٰ ذَہَابٍۢ بِہٖ لَقٰدِرُوْنَ فَاَنْشَاْنَا لَکُمْ بِہٖ جَنّٰتٍ مِّنْ نَّخِیْلٍ وَّاَعْنَابٍ ۘلَکُمْ فِیْہَا فَوَاکِہُ کَثِیْرَۃٌ وَّمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ (۱۹-۱۸: ۲۳)
(اور (دیکھو) ہم نے آسمان سے ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی برسایا، پھر اسے زمین میں ٹھہرائے رکھا، اور ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ (جس طرح برسایا تھا اسی طرح) اسے واپس لے جائیں، پھر (دیکھو) اسی پانی سے ہم نے کھجوروں انگوروں کے باغ پیدا کر دیے جن میں بے شمار پھل لگتے ہیں اور انہی سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتے ہو)
تقدیر اشیا:
یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جا بجا اشیا کی قدر اور مقدار کا ذکر کیا ہے۔
یعنی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فطرت کائنات جو کچھ بخشتی ہے ایک خاص اندازے کے ساتھ بخشتی ہے اور یہ اندازہ ایک خاص قانون کے ما تحت ٹھہرایا ہوا ہے۔
وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَایِٕنُہٗ ۡ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (۲۱: ۱۵)
(اور کوئی شے نہیں جس کے ہمارے پاس ذخیرے موجود نہ ہوں لیکن ہمارا طریقہ کار یہ ہے کہ جو کچھ نازل کرتے ہیں ایک مقررہ مقدار میں نازل کرتے ہیں)
وکل شیء عندہ بمقدار (۸: ۱۳)
(اور اللہ کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے)
انا کل شیء خلقنہ بقدر (۴۹: ۵۴)
(ہم نے جتنی چیزیں بھی پیدا کی ہیں ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی ہیں)
یہ کیا بات ہے کہ دنیا میں صرف یہی نہیں ہے کہ پانی موجود ہے بلکہ ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ موجود ہے؟ یہ کیوں ہے کہ پہلے سورج کی شعاعوں نے سمندر سے ڈول بھر بھر کر فضا میں پانی کی چادریں بچھا دیں پھر ہواؤں کے جھونکے انہیں حرکت میں لائیں اور اپنی کی بوندیں بنا کر ایک خاص وقت اور خاص محل میں برسا دیں؟ پھر یہ کیوں ہے کہ جب کبھی پانی برسے تو ایک خاص ترتیب اور مقدار ہی سے برسے اور اس طرح برسے کہ زمین کی بالائی سطح پر اس کی خاص مقدار بہنے لگے اور اندرونی حصوں تک ایک خاص مقدار میں نمی پہنچے؟ کیوں ایسا ہو کہ پہلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے تودے جمتے ہیں پھر موسم کی تبدیلی سے پگھلنے لگتے ہیں پھر ان کے پگھلنے سے پانی کے سر چشمنے ابلنے لگتے ہیں پھر چشموں سے دریا کی جدولیں بہنے لگتی ہیں پھر یہ جدولیں پیچ و خم کھاتی ہوئی دور دور تک دوڑ جاتی ہیں اور سیکڑوں ہزاروں میلوں تک اپنی وادیاں شاداب کر دیتی ہیں؟ کیوں یہ سب کچھ ایسا ہی ہوا؟ کیوں کر ایسا نہ ہوا کہ پانی موجود ہوتا مگر اس انتظام اور ترتیب کے ساتھ نہ ہوتا؟ قرآن کہتا ہے:
اس لیے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت الٰہی کار فرما ہے اور ربوبیت کا مقتضا یہی تھا کہ پانی اسی ترتیب سے بنے اور اسی ترتیب و مقدار سے تقسیم ہو، یہ رحمت و حکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا مگر یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہو گئیں۔
اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَیَبْسُطُہٗ فِی السَّمَاءِ کَیْفَ یَشَاءُ وَیَجْعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَآ اَصَابَ بِہٖ مَنْ یَّشَاءُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اِذَا ہُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ (۴۸: ۳۰)
(یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہیں پھر ہوائیں بادلوں کو چھیڑ کر حرکت میں لاتی ہیں پھر وہ جس طرح چاہتا ہے انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے۔ پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ برکت ملنی تھی مل چکتی ہے تو وہ اچانک خوش وقت ہو جاتے ہیں)
عناصر حیات:
پھر اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ زندگی کے لیے جن چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی انہی کی بخشائش سب سے زیادہ اور عام ہے اور جن کی ضرورت خاص خاص حالتوں اور گوشوں کے لیے تھی انہی میں اختصاص اور مقامیت پائی جاتی ہے۔ ہوا سب سے زیادہ ضروری تھی کیونکہ پانی اور غذا کے بغیر کچھ عرصہ تک زندگی ممکن ہے مگر ہوا کے بغیر ممکن نہیں۔ پس اس کا سامان اتنا وافر اور عام ہے کہ کوئی جگہ کوئی گوشہ اور کوئی وقت نہیں جو اس سے خالی ہو۔
فضا میں ہوا کا بے حد و کنار سمندر پھیلا ہوا ہے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں سانس لو زندگی کا یہ سب سے زیادہ ضروری جوہر تمہارے لیے خود بخود مہیا ہو جائے گا۔
ہوا کے بعد دوسرے درجے پر پانی ہے،
وجعلنا من الماء کل شیء حی،
اس لیے اس کی بخشائش کی فراوانی و عمومیت ہوا سے کم مگر ہر چیز سے زیادہ ہے۔ زمین کے نیچے آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں۔ زمین کے اوپر بھی ہر طرف دریا رواں دواں ہیں پھر ان دونوں ذخیروں کے علاوہ فضائے آسمانی کا بھی کارخانہ ہے جو شب و روز سرگرم کار رہتا ہے۔ وہ سمندر کا شورابہ کھینچتا رہتا ہے اور اسے صاف و شیریں بنا کر جمع کرتا رہتا ہے پھر حسب ضرورت زمین کے حوالے کر دیتا ہے!
پانی کے بعد غذا کی ضرورت تھی لہذا ہوا اور اپنی سے کم مگر اور تمام چیزوں سے زیادہ اس کا دسترخوان کرم بھی خشکی و تری میں بچھا ہوا ہے، اور کوئ مخلوق نہیں جس کے گرد و پیش اس کی غذا کا ذخیرہ نہ ہو۔
نظام پرورش:
پھر سامان پروش کے اس عالمگیر نظام پر غور کرو جو اپنے ہر گوشہ عمل میں پروردگی کی گود اور بخشش حیات کا سرچشمہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کارخانہ صرف اسی لیے بنا ہے کہ زندگی بخشنے اور زندگی کی ہر استعداد کی رکھوالی کرے۔
روشن سورج اس لیے ہے کہ روشنی کے لیے چراغ کا اور گرمی کے لیے تنور کا کام دے اور اپنی کرنوں کے ڈول بھر بھر کر سمندر سے پانی کھینچتا رہے۔
ہوائیں اس لیے ہیں کہ اپنی سردی اور گرمی سے مطلوبہ اثرات پیدا کرتی رہیں۔ اور کبھی پانی ذرات جما کر ابر کی چادریں بنا دیں۔ کبھی ابر کو پانی بنا کر بارش برسا دیں۔
زمین اس لیے کہ نشو و نما کے خزانوں سے ہمیشہ معمور رہے اور ہر دانے کے لیے اپنی گد میں زندگی اور ہر پودے کے لیے اپنے سینہ میں پروردگی رکھے۔
مختصر یہ کہ کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ صرف اسی کام میں لگا ہوا ہے۔ ہر قوت استعداد ڈھونڈ رہی اور ہر تاثیر اثر پذیری کے انتظار میں ہے۔ جونہی کسی وجود میں بڑھنے اور نشو و نما پانے کی استعداد پیدا ہوتی ہے معاً تمام کارخانہ ہستی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔
سورج کی تمام کار فرمائیاں، فضا کے تمام تغیرات، زمین کی تمام قوتیں، عناصر کی تمام سرگرمیاں صرف اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کب چیونٹی کے انڈے سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور کب دہقان کی جھولی سے زمین پر ایک دانہ گرتا ہے۔
وَسَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَایٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ (۱۳: ۴۵)
(اور آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ بلا شبہ ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں اس بات میں (معرفت حقیقت کی) بڑی ہی نشانیاں ہیں)
نظام ربوبیت کی وحدت:
سب سے زیادہ عجیب مگر سب سے زیادہ نمایاں حقیقت نظام ربوبیت کی یکسانیت اور ہم آہنگی ہے۔
یعنی ہر وجود کی پرورش کا سر و سامان جس طرح اور جس اسلوب پر کیا گیا ہے وہ ہر گوشے میں ایک ہی ہے اور ایک ہی اصل و قاعدہ رکھتا ہے۔
پتھر کا ایک ٹکڑا تمہیں گلاب کے شاداب اور عطر بیز پھول سے کتنا ہی مختلف دکھائی دے لیکن دونوں کی پرورش کے اصول و احوال پر نظر ڈالو گے تو صاف نظر آ جائے گا کہ دونوں کو ایک ہی طریقے سے سامان پرورش ملا ہے اور دونوں ایک ہی طرح پالے پوسے جا رہے ہیں۔
انسان کا بچہ اور درخت کا پودا تمہاری نظروں میں کتنی بے جوڑ چیزیں ہیں؟ لیکن اگر ان کی نشو و نما کے طریقوں کا کھوج لگاؤ گے تو دیکھ لو گے کہ قانون پروش کی یکسانیت نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کر دیا ہے۔
پتھر کی چٹان ہو یا پھول کی کلی، انسان کا بچہ ہو یا چیونٹی کا انڈا، سب کے لیے پیدائش ہے اور قبل اس کے کہ پیدائش ظہور میں آئے سامان پرورش مہیا ہو جاتا ہے۔
پھر طفولیت کا دور ہے اور اس دور کی ضروریات ہیں۔
انسان کا بچہ بھی اپنی طفولیت رکھتا ہے درخت کے مولود نباتی کے لیے بھی طفولیت ہے اور تمہاری چشم ظاہر بین کے لیے کتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو لیکن پتھر کی چٹان اور مٹی کا تودہ بھی اپنی اپنی طفولیت رکھتا ہے۔
پھر طفولیت رشد و بلوغ کی طرف بڑھتی ہے اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے اس کی روز افزوں حالت کے مطابق یکے بعد دیگرے سامان پرورش میں بھی تبدیلیاں ہوتی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال تک پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تو از سر نو ضعف و انحطاط کا دور شروع ہو جاتا ہے پھر اس ضعف و انحطاط کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک ہی طرح ہے۔
کسی دائرے میں اسے مر جانا کہتے ہیں کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہو جانا۔ الفاظ متعدد ہو گئے مگر حقیقت میں تعدد نہیں ہوا۔
اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ہعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ہعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّۃٍ ہعْفًا وَّشَیْبَۃً ۭ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ ۚ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْقَدِیْرُ (۵۴: ۳۰)
(یہ اللہ ہی کی کار فرمائی ہے کہ اس نے تمہیں اس طرح پیدا کیا کہ پہلے ناتوانی کی حالت ہوتی ہے پھر ناتوانی کے بعد قوت آتی ہے پھر قوت کے بعد دوبارہ ناتوانی اور بڑھاپا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ وہ علم اور قدرت رکھنے والا ہے)
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَکَہٗ یَنَابِیْعَ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ یُخْرِجُ بِہٖ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ثُمَّ یَہِیْجُ فَتَریٰہُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَجْعَلُہٗ حُطَامًا ۭ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْریٰ لِاُولِی الْاَلْبَابِ (۲۱: ۳۹)
(کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہو گئے پھر اسی پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں پھر ان کی نشو و نما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہو گئیں پھر (ترقی کے بعد زوال طاری ہوا اور) تم دیکھتے ہوں کہ ان پر زردی چھا گئی پھر بالآخر خشک ہو کر چورا چورا ہو گئی۔ بلا شبہ دانشمندوں کے لیے اس صورت حال میں بڑی ہی عبرت ہے)
جہاں تک غذا کا تعلق ہے حیوانات میں ایک قسم ان جانوروں کی ہے جن کے بچے دودھ سے پرورش پاتے ہیں اور ایک ان کی ہے جو عام غذاؤں سے پرورش پاتے ہیں۔
غور کرو نظام ربوبیت نے دونوں کی پرورش کے لیے کیسا عجیب سر و سامان مہیا کر دیا ہے؟ دودھ سے پرورش پانے والے حیوانات میں انسان بھی داخل ہے۔
سب سے پہلے انسان اپنی ہی ہستی کا مطالعہ کرے۔ جونہی وہ پیدا ہوتا ہے اس کی غذا اپنی ساری خاصیتوں، مناسبتوں، اور شرطوں کے ساتھ خود بخود مہیا ہو جاتی ہے اور ایسی جگہ مہیا ہوتی ہے جو حالت طفولیت میں اس کے لیے سب سے قریب تر اور سب سے موزوں جگہ ہے۔
ماں بچے کو جوش محبت میں سینے سے لگا لیتی ہے اور وہیں اس کی غذا کا سرچشمہ بھی موجود ہوتا ہے! پھر دیکھو اس غذا کی نوعیت اور مزاج میں اس کی حالت کا درجہ بدرجہ کس قدر لحاظ رکھا گیا ہے اور کس طرح یکے بعد دیگرے اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے؟ ابتدا میں بچے کا معدہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اسے بہت ہی ہلکے قوام کا دودھ ملنا چاہیے۔ چنانچہ نہ صرف انسان میں بلکہ تمام حیوانات میں ماں کا دودھ بہت ہی پتلے قوام کا ہوتا ہے لیکن جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور معدہ قوی ہوتا جاتا ہے دودھ کا قوام میں بھی بدلتا جاتا ہے اور مائعیت کے مقابلہ میں دہنیت بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بچے کا عہد رضاعت پورا ہو جاتا ہے اور اس کا معدہ عام غذاؤں کے ہضم کرنے کی استعداد پیدا کر لیتا ہے۔ جونہی اس کا وقت آتا ہے ماں کا دودھ خشک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ گویا ربوبیت الٰہی کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کے لیے دودھ کی ضرورت نہیں رہی ہر طرح کی غذائیں استعمال کر سکتا ہے۔
وحملہ و فصالہ ثلثوان شھرا (۱۵: ۶۴)
(اور حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت (کم از کم) تیس مہینوں کی ہے)
پھر ربوبیت الٰہی کی اس کارسازی پر غور کرو کہ کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت ودیعت کر دی گئی ہے اور کس طرح اس جذبے کو طبیعت بشری کے تمام جذبات میں سب سے زیادہ پر جوش اور سب سے زیادہ ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے؟ دنیا کی کون سی قوت ہے جو اس جو چھ کا مقابلہ کر سکتی ہے جس کو ماں کی مامتا کہتے ہیں؟ جس بچے کی پیدائش اس کے لیے زندگی کی سب سے بڑی مصیبت تھی:
حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا (۱۵: ۴۶)
(اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا)
اسی کی محبت اس کے اندر زندگی کا سب سے بڑا جذبہ مشتعل کر دیتی ہے۔ جب تک بچہ سن بلوغ تک نہیں پہنچ جاتا وہ اپنے لیے نہیں بلکہ بچے کے لیے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ زندگی کی کوئی خود فراموشی نہیں جو اس پر طاری نہ ہوتی ہو اور راحت و آسائش کی کوئی قربانی نہیں جس سے اسے گریز ہو۔ حب ذات جو فطرت انسانی کا سب سے زیادہ طاقتور جذبہ ہے اور جس کے انفعالات کے بغیر کوئی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی وہ بھی اس جذبہ خود فراموشی کے مقابلہ میں مضمحل ہو کر رہا جاتا ہے۔
یہ بات کہ ایک ماں نے بچے کے مجنونانہ عشق میں اپنی زندگی قربان کر دی فطرت مادری کا ایسا معمولی واقعہ ہے جو ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور ہم اس میں کسی طرح کی غرابت محسوس نہیں کرتے۔
لیکن پھر دیکھو کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے محبت مادری کا یہ شعلہ خود بخود دھیما پڑتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب حیوانات میں تو بالکل ہی بجھ جاتا ہے اور انسان میں بھی اس کی گرم جوشیاں باقی نہیں رہتیں۔ یہ انقلاب کیوں ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہیں محبت کا ایک عظیم ترین جذبہ جنبش میں آ جائے اور پھر ایک خاص وقت تک قائم رہ کر خود بخود غائب ہو جائے؟ اس لیے کہ یہ نظام ربوبیت کی کار فرمائی ہے۔ اور اس کا مقتضا یہی تھا۔ ربوبیت چاہتی ہے کہ بچے کی پرورش ہو۔ اس نے پرورش کا ذریعہ ماں کے جذبہ محبت میں رکھ دیا تھا۔ جب بچے کی عمر اس حد تک پہنچ گئی کہ ماں کی پرورش کی احتیاج باقی نہ رہی تو اس ذریعے کی بھی ضرورت باقی نہ رہی اب اس کا باقی رہنا ماں کے لیے بوجھ اور بچے کے لیے رکاوٹ ہوتا۔ بچے کی احتیاج کا سب سے نازک وقت اس کی نئی نئی طفولیت تھی اس لیے ماں کی محبت میں بھی سب سے زیادہ جوش اسی وقت تھا پھر جوں جوں بچہ بڑھتا گیا احتیاج کم ہوتی گئی۔ اس لیے محبت کی گرم جوشیاں بھی گھٹتی گئیں۔ فطرت نے محبت مادری کا دامن بچے کی احتیاج پرورش سے باندھ دیا تھا۔ جب احتیاج زیادہ تھی تو محبت کی سرگرمی بھی زیادہ تھی۔ جب احتیاج کم ہو گئی تو محبت بھی تغافل کرنے لگی۔ [7]
جن حیوانات کے بچے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں ان کی جسمانی ساخت اور طبیعت دودھ والے حیوانات سے مختلف ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اول دن ہی سے معمولی غذائیں کھا سکتے ہیں بشرطیکہ کھلانے کے لیے کوئی شفیق نگرانی موجود ہو۔ چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ بچہ انڈے سے نکلتے ہی غذا ڈھونڈنے لگتا ہے اور ماں چن چن کر اس کے سامنے ڈالتی اور منہ میں لے لے کر کھانے کی تلقین کرتی ہے یا ایسا کرتی ہے کہ خود کھا لیتی ہے مگر ہضم نہیں کرتی اپنے اندر نرم اور ہلکا بنا کر محفوظ رکھتی ہے اور جب بچہ غذا کے لیے منہ کھولتا ہے تو اس کے اندر اتار دیتی ہے۔
ربوبیت معنوی
پھر اس سے بھی عجیب تر نظام ربوبیت کا معنوی پہلو ہے۔ خارج میں زندگی اور پرورش کا کتنا ہی سر و سامان کیا جاتا لیکن وہ کچھ مفید نہیں ہو سکتا تھا اگر ہر وجود کے اندر اس سے کام لینے کی ٹھیک ٹھیک استعداد نہ ہوتی اور اس کے ظاہری و باطنی قوی اس کا ساتھ نہ دیتے۔ پس یہ ربوبیت ہی کا فیضان ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی ظاہری و باطنی بناوٹ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اس کی ہر قوت، اس کے سامان پرورش کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے، اور اس کی ہر چیز نے اسے زندہ رہنے اور نشو و نما پانے میں مدد دیتی ہے۔
ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی مخلوق اپنے جسم و قوی کی ایسی نوعیت رکھتی ہو جو اس کے حالات پرورش کے مقتضیات کے خلاف ہو۔
اس سلسلے میں جو حقائق مشاہدہ و تفکر سے نمایاں ہوتے ہیں ان میں دو باتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں اس لیے جا بجا قرآن حکیم نے ان پر توجہ دلائی ہے۔ ایک کو وہ تقدیر سے تعبیر کرتا ہے دوسری کو ہدایت سے۔
تقدیر:
تقدیر کے معنی اندازہ کر دینے کے ہیں۔ یعنی کسی چیز کے لیے ایک خاص طرح کی حالت ٹھہرا دینے کے۔ خواہ یہ ٹھہراؤ کمیت میں ہو یا کیفیت میں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت نے ہر وجود کی جسمانی ساخت اور معنوی قوی کے لیے ایک خاص طرح کا اندازہ ٹھہرا دیا ہے جس سے وہ باہر نہیں جا سکتا اور یہ اندازہ ایسا ہے جو اس کی زندگی اور نشو و نما کے تمام احوال ظروف سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہے:
وخلق کل شیء فقدرہ تقدیرا (۲: ۲۵)
(اور اس نے تمام چیزیں پیدا کیں، پھر ہر چیز کے لیے (اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق) ایک خاص اندازہ ٹھہرا دیا۔)
یہ کیا چیز ہے کہ ہر گرد و پیش میں اور اس کی پیداوار میں ہمیشہ مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ ایک ایسا قانون خلقت ہے جو کبھی متغیر نہیں ہو سکتا؟ یہ کیوں ہے کہ ہر مخلوق اپنی ظاہری و باطنی بناوٹ میں ویسی ہی ہوتی ہے جیسا اس کا گرد و پیش ہے اور ہر گرد و پیش ویسا ہی ہوتا ہے جیسی اس کی مخلوق ہوتی ہے؟ یہ اس حکیم وقدیر کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر ہے اور اس نے ہر چیز کی خلقت و زندگی کے لیے ایسا ہی اندازہ مقرر کر دیا ہے۔ اس کا یہ قانون تقدیر صرف حیوانات و نباتات ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ کائنات ہستی کی ہر چیز کے لیے ہے۔ ستاروں کا یہ پورا نظام گردش بھی اسی تقدیر کی حد بندوں پر قائم ہے۔
والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم (۳۸: ۳۶)
(اور (دیکھو) سورج کے لیے جو قرار گاہ ٹھہرا دی گئی ہے وہ اسی پر چلتا ہے۔ اور یہ عزیز و علیم خدا کی اس کے لیے تقدیر ہے)
مخلوقات اور اس کے گرد و پیش کی مطابقت کا یہی قانون ہے جس نے دونوں میں باہم دگر مناسبت پیدا کر دی ہے اور ہر مخلوق اپنے چاروں طرف وہی پاتی ہے جس میں اس کے لیے پرورش اور نشو و نما کا سامان ہوتا ہے پرند کا جسم اڑنے والا ہے، مچھلی کا تیرنے والا، چار پایوں کا چلنے والا اور حشرات کا رینگنے والا، اس لیے کہ ان میں سے ہر نوع کا گرد و پیش ویسے ہی جسم کے لیے موزوں ہے جیسا اسے ملا ہے اور اس لیے کہ ان میں سے ہر نوع کی جسمانی ساخت ویسا ہی گرد و پیش چاہتی ہے جیسا گرد و پیش اسے حاصل ہے۔
دریا میں پرند پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ گرد و پیش اس کے لیے مفید پرورش نہیں۔ خشکی میں مچھلیاں پیدا نہیں ہو سکتیں کیونکہ خشکی ان کے لیے موزوں نہیں۔
اگر فطرت کی اس تقدیر کے خلاف ایک خاص گرد و پیش کی مخلوق دوسرے قسم کے گرد و پیش میں چلی جاتی ہے تو یا تو وہاں زندہ نہیں رہتی یا رہتی ہے تو پھر بتدریج اس کی جسمانی ساخت اور طبعیت بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے، جیسی اس گرد و پیش میں ہونی چاہئے۔
پھر ان میں سے ہر نوع کے لیے مقامی مؤثرات کے مختلف گرد و پیش کا یہی حال ہے۔ سرد آب و ہوا کی پیداوار سرد آب و ہوا ہی کے لیے ہے۔ گرم کی گرم کے لیے۔ قطب شمالی کے قرب و جوار کا ریچھ خط استوا کے قرب میں نظر نہیں آ سکتا اور منطقہ حارہ کے جانور منطقہ باردہ میں معدوم ہیں۔
ہدایت:
ہدایت کے معنی راہ دکھانے، راہ پر لگا دینے اور رہنمائی کرنے کے ہیں اور اس کے مختلف مراتب اور اقسام ہیں۔ تفصیل آگے آئے گی۔ یہاں صرف اس مرتبہ ہدایت کا ذکر کرنا ہے جو تمام مخلوقات پر ان کی پرورش کی راہیں کھولتا، انہیں زندگی کی راہ پر لگاتا اور ضروریات زندگی کی طلب و حصول میں رہنمائی کرتا ہے۔
فطرت کی یہ ہدایت ربوبیت کی ہدایت ہے اور اگر ہدایت ربوبیت کی دستگیری نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ کوئی مخلوق بھی دنیا کے سامان حیات و پرورش سے فائدہ اٹھا سکتی اور زندگی کی سرگرمیاں ظہور میں آ سکتیں۔ لیکن ربوبیت الٰہی کی یہ ہدایت کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے یہ وجدان کا فطری الہام اور حواس و ادراک کی قدرتی استعداد ہے۔
وہ کہتا ہے یہ فطرت کی وہ رہنمائی ہے جو ہر مخلوق کے اندر پہلے وجدان کا الہام بن کر نمودار ہوتی ہے پھر حواس و ادراک کا چراغ روشن کر دیتی ہے۔
یہ ہدایت کے مختلف مراتب میں سے وجدان اور ادراک کی ہدایت کے مراتب ہیں۔
ہدایت و وجدان:
وجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعت میں کوئی ایسا اندرونی الہام موجود ہے جو اسے زندگی اور پرورش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ باہر کی رہنمائی و تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔
انسان کا بچہ ہو یا حیوان کا، جونہی شکم مادر سے باہر آتا ہے خود بخود معلوم کر لیتا ہے کہ اس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اسے زور زور سے چوسنا چاہیے۔ بلی کے بچوں کو ہم ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں، لیکن ماں جوش محبت میں انہیں چاٹ رہی ہے، وہ اس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے عالم ہستی میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے جسے خارج کے موثرات نے چھوا تک نہیں کس طرح معلوم کر لیتا ہے کہ اسے پستان منہ میں لے لینا چاہیے اور اس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے؟ وہ کون سا فرشتہ ہے جو اس وقت اس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اسطرح اپنی غذا حاصل کر لے؟ یقیناً وہ وجدانی ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وجدانی ہدایت ہے جو قبل اس کے کہ حواس و ادراک کی روشنی نمودار ہو ہر مخلوق کو اس کی پرورش و زندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔ تمہارے گھر میں پلی ہوئی بلی ضرور ہو گی۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ بلی اپنی عمر میں پہلی مرتبہ حاملہ ہوئی ہے اس حالت کا اسے کوئی پچھلا تجربہ حاصل نہیں۔ تاہم اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتا دیتی ہے کہ تیاری و حفاظت کی سرگرمیاں شروع کر دینی چاہییں۔ جونہی وضع حمل کا وقت قریب آتا ہے، خود بخود اس کی توجہ ہر چیز کی طرف سے ہٹ جاتی ہے اور کسی محفوظ گوشے کی جستجو شروع کر دیتی ہے۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ مضطرب الحال بلی مکان کا ایک ایک کونا دیکھتی پھرتی ہے۔ پھر وہ خود بخود ایک سب سے محفوظ اور علیحدہ گوشہ چھانٹ لیتی ہے اور وہاں بچہ دیتی ہے۔ پھر یکایک اس کے اندر بچے کی حفاظت کی طرف سے ایک مجہول خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یکے بعد دیگرے اپنی جگہ کی اسے ضرورت ہو گی؟ یہ کون سا الہام ہے جو اسے خبردار کر دیتا ہے کہ بلا بچوں کا دشمن اور ان کی بو سونگھتا پھرتا ہے اس لیے جگہ بدلتے رہنا چاہیئے؟ بلا شبہ یہ ربوبیت الٰہی کی وجدانی ہدایت ہے۔ جس کا الہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو ان پر زندگی اور پرورش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔
ہدایت حواس:
ہدایت کا دوسرا مرتبہ حواس اور مدرکات ذہنی کی ہدایت ہے اور وہ اس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اس جوہر دماغ سے محروم ہیں جسے فکر و عقل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تاہم فطرت نے انہیں احساس و ادراک کی وہ تمام قوتیں دے دی ہیں جن کی زندگی و معیشت کے لیے ضرورت تھی اور ان کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، توالد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و ادراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لیے ایک ہی طرح کی نہیں ہے بلکہ ہر وجود کو اتنی ہی اور ویسی ہی استعداد دی گئی ہے جتنی اور جیسی استعداد اس کے احوال و ظروف کے لیے ضروری تھی۔
چیونٹی کی قوت شامہ نہایت دور رس ہوتی ہے اس لیے کہ اسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلند میں اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔
یہ سوال بالکل غیر ضروری ہے کہ حیوانات کے حواس و ادراک کی یہ حالت اول دن سے تھی یا احوال و ظروف کی ضروریات اور قانون مطابقت کے مؤثرات سے بتدریج ظہور میں آئی۔ اس لیے کہ خواہ کوئی صورت ہو بہرحال فطرت کی بخشی ہوئی استعداد ہے اور نشو و ارتقا کا قانون بھی فطرت ہی کا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔
چنانچہ یہی مرتبہ ہدایت ہے جس کو قرآن نے ربوبیت الٰہی کی وحی سے تعبیر کیا ہے۔
عربی میں وحی کے معنی مخفی ایما اور اشارے کے ہیں۔ یہ گویا فطرت کی وہ اندرونی سرگوشی ہے جو مخلوق پر اس کی راہ عمل کھول دیتی ہے۔
(واوحی ربک الی النحل ان اتخذی من الجبال بیوتا ومن الشجر ومما یعرشون) (۶۸: ۱۶)
(اور (دیکھو) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹٹیوں میں جو اس غرض سے بلند کی جاتی ہیں اپنے لیے چھتے بنائے)
اور یہی وہ ربوبیت الٰہی کی ہدایت ہے جس کی طرف حضرت موسیٰؑ کی زبانی اشارہ کیا گیا ہے۔ فرعون نے جب پوچھا
’من ربکما یموسی‘
(تمہارا پروردگار کون ہے؟)
تو حضرت موسیٰؑ نے کہا
ربنا الذی اعطی کل شیء خلقہ ثم ھدی (۵۰: ۲۰)
(ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی، پھر اس پر (زندگی و معیشت کی) راہ کھول دی)
اور پھر یہی وہ ہدایت ہے جسے دوسری جگہ ’راہ عمل آسان کر دینے‘ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔
من ای شیء خلقہ، من نطفۃ، خلقہ فقدرہ، ثم السبیل یسرہ (۲۰۔ -۱۸: ۸۰)
(اس نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا؟ نطفہ سے پیدا کیا۔ پھر اس (کی تمام ظاہری و باطنی قوتوں) کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا، پھر اس پر (زندگی و عمل کی) راہ آسان کر دی۔)
یہی (ثم السبیل یسرہ) یعنی راہ عمل آسان کر دینا، وجدان و ادراک کی ہدایت ہے جو تقدیر کے بعد ہے۔
کیونکہ اگر فطرت کی رہنمائی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ہم اپنی ضروریات زندگی حاصل کر سکتے۔
آگے چل کر تمہیں معلوم ہو گا کہ قرآن نے تکوین وجود کے جو چار مرتبے بیان کیے ہیں ان میں سے تیسرا اور چوتھا مرتبہ یہی تقدیر اور ہدایت کا مرتبہ ہے۔ یعنی تخلیق، تسویہ، تقدیر، ہدایت۔
الذی خلق فسوی، والذی قدر فہدی (۳-۲: ۸۷)
(وہ پروردگار عالم جس نے پیدا کیا پھر اسے ٹھیک ٹھیک درست کر دیا اور جس نے ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا پھر اس پر راہ (عمل) کھول دی)
۔۔۔۔۔۔۔
[1] امام بخاری اور اصحاب سنن نے ابو سعید بن المعلی سے روایت کیا ہے کہ الحمد للہ رب العلمین، ہی السبع المثانی والقرآن العظیم الذی اوتیتہ۔ اور امام مالک، ترمذی اور حاکم نے ابو ہریرہؓ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے ابی بن کعب کو سورۃ فاتحہ کی تلقین کی اور یہی الفاظ ارشاد فرمائے۔ اسی طرح طربی نے حضرت عمر حضرت علی، حضرت ابن عباس اور ابن مسعودؓ وغیرہم سے روایت کی ہے کہ السبع المثانی فاتحۃ الکتاب، اگرچہ ابن مسعود کی اسناد منقطع ہے لیکن ابن عباس کی حسن ہے۔ ابو العالیہ سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس کے علاوہ ائمہ تابعین کی ایک بڑی جماعت اسی طرف گئی ہے۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تمام روایات جمع کر دی ہیں (شرح کتاب التفسیر جلد ۸۔ صفحہ ۱۲۰۔ طبع اول
[2] صحیح بخاری، موطا امام مالک، ابو داود، ابن ماجہ اور مسند احمد میں بہ اختلاف الفاظ اس مضمون کی روایات موجود ہیں۔
[3] ابو سعید بن معلیٰ کی روایت جس کی تخریج پچھلے حاشیے میں گذر چکی ہے، اسے اعظم سورۃ فی القرآن فرمایا ہے، اور مسند کی روایت ابن جابر میں اخیر کا لفظ ہے
[4] یعنی خدایا ایسا کر کہ تیری ہستی میں ہمارا تحیر بڑھتا رہے، کیونکہ تحیر جہالت کا نہیں بلکہ معرفت کا ہے۔
[5] مفردات راغب اصفہانی
[6] (Naked Eye) غیر مسلح آنکھ جو اپنی قدرتی نگاہ سے دیکھ رہی ہو، زیادہ قوت کے ساتھ دیکھنے کا کوئی آلہ مثلاً خورد بین اس کے ساتھ نہ ہو
[7] انسان میں ماں کی محبت بلوغ کے بعد بھی بدستور باقی رہتی ہے اور بعض حالتوں میں اس کے انفعالات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ عہد طفولیت کی محبت میں اور بعد کی محبت میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا، لیکن یہ صورت حال غالباً انسان کی مدنی و عقلی زندگی کے نشو و نما کا نتیجہ ہے نہ کہ فطرت حیوانی کا۔ ابتدائی انسان میں بھی یہ علاقہ فطرۃً اسی حد تک ہو گا کہ بچہ سن تمیز تک پہنچ جائے۔ لیکن بعد کو نسل و خاندان کی تشکیل اور اجتماعی احساسات کی ترقی سے مادری رشتہ میں ایک دائمی رشتہ بن گیا۔
٭٭٭
ڈاؤن لوڈ کریں