اردو محفل کی ایک اور پیشکش
عظیم بیگ چغتائی کے منتخب افسانے
(چار حصّے)
مرتبہ
محمد امین، اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ ۱
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
حصہ ۲
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
حصہ ۳
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
حصہ ۴
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
…..کتاب کا نمونہ پڑھیں
عظیم بیگ چغتائی کے منتخب افسانے
عظیم بیگ چغتائی
چار حصوں میں
جمع و ترتیب: محمد امین، اعجاز عبید
پیشکش: اردو محفل
http://urduweb.org/mehfil
فقیر
(۱)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں غسل خانے سے نہا کر برآمدہ میں جو نکلا تو کسی فقیر بے سڑک پر کھڑکی کی چلمن میں شاید پرچھائیں یا جنبش دیکھ کر صدا دی۔ "مائی تیرے بیٹا ہوئے۔۔۔ ” نہ تو یہاں کوئی مائی تھی اور نہ کسی کو یہ گھبراہٹ تھی کہ ایک عدد لڑکا خواہ مخواہ تولد ہوتا پھرے۔ دراصل یہ فقیر ان میں سے تھا جو مانگنا بھی نہیں جانتے۔ ذرا اس احمق سے کوئی پوچھتا کہ بیوقوف یہ کونسی عقلمندی ہے کہ کسی سوراخ میں سے بھی کوئی ہلتی چیز دیکھ پائی اور بیٹا بیٹی تقسیم کرنا شروع کر دے۔ پھر مجھے فقیروں سے بھی بغض ہے کیونکہ جب کبھی کوئی فقیر ملتا ہے اور میں اسے دیکھتا ہوں تو اسے ایسا پاتا ہوں کہ مجھ سے دو کو کافی ہو۔ چنانچہ میں نے کھڑی کی سلاخوں میں سے چق اٹھا کر اس نیت سے دیکھا کہ اس سے کیوں نہ پوچھا جائے کہ نوکری کرے گا۔
لیکن جب میں نے دیکھا تو ایک قابل رحم ہستی کو پایا۔ ایک فاقہ زدہ ضعیف العمر چیتھڑے لگائے بے کسی اور بے بسی کی زندہ تصویر تھا۔ سچ ہے ان لوگوں کو مانگنا بھی نہیں آتا۔ نہ تو یہ عمدہ گیت جانتے ہیں، نہ کوئی لے جانتے ہیں، نہ صدا جانتے ہیں۔ بس آئے اور دانت نکال دیے یہ دکھانے کو کہ دیکھو ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور یوں رہتے ہیں۔
مجھے اس کی حالت زار دیکھ کر بڑا رحم آیا اور میں نے اس سے کہا کہ گھوم کر صدر دروازے پر آ جائے۔
صبح کا وقت تھا۔ میں تو چائے پینے لگا اور گھر والی سے کہا کہ ایک اپنے سے زیادہ قابل رحم فقیر آیا ہے، اسے دو چار پیسے دے دو، صبح کا وقت ہے، دو توس اور ایک پیالی چائے دے دو۔
جتنی مشٹنڈے فقیروں سے مجھے نفرت ہے اس سے دوگنی نفرت میری بیوی کو ہے اور اسی مناسبت سے ان فقیروں یعنی محتاجوں سے الفت ہے جو واقعی رحم و کرم کے مستحق ہیں۔
خانم نے فقیر کا نام سن کر جلدی جلدی دو گرما گرم توسوں کو انگیٹھی پر سینک کر خوب مکھن
لگایا اور ایک پیالی میں خوب سارا دودھ ڈال کر چائے بنا دی اور مزید برآں کچھ مٹھائی بھی رکھ دی اور سینی میں چار پیسے رکھ دیے اور لڑکے سے کہا کہ فقیر کو صدر دروازے سے اندر یعنی برآمدے میں بٹھلا کر کھلا دے۔
(۲)
اب قسمت تو ہماری ملاحظہ ہو کہ وہ غریب محتاج جسے میں نے بلایا صدر دروازے کی پشت پر تھا۔ گھوم کر آ جانا اس کے لیے مشکل ہوا یا آتے میں کسی دوسرے سے مانگنے لگا یا پھر اپنی راہ کھوٹی نہ کرنا چاہتا ہو گا۔ قصہ مختصر وہ تو آیا نہیں اور اس کے بدلے پھاٹک میں ایک اور فقیر صاحب داخل ہوئے اور اپنی صدا لگانے بھی نہ پائے تھے کہ کتے نے ان کا استقبال کیا، ان کے پاس ایک موٹا سا ڈنڈا تھا، اس کے دو چار ہاتھ نہ گھمانے پائے تھے کہ لڑکا ناشتہ لے کر پہنچا۔ کیا دیکھتا ہے کہ ایک فقیر صاحب گلے میں مالا ڈال۔ موٹا سا فقیرانہ ڈنڈا اور لباس۔ گلے میں جھولی، تہمد باندھے موجود ہیں۔ اس نے کتے کو ڈانٹا اور کہا سائیں جی برآمدے میں آ جاؤ۔ سائیں جی نے غنیمت سمجھا اور ناشتہ شروع کر دیا اور ادھر میں نے خانم سے کہا کہ پرانا سوئیٹر اور ایک قمیض فقیر کو اور بھیج دو۔ سردی کا وقت ہے اور غریب مر رہا ہو گا جاڑے میں۔ خانم نے جلدی سے ایک قمیض اور سوئیٹر پرانا لیا اور لڑکے کو دیا۔ میں نے لڑکے سے پوچھا کہ فقیر کیا کہتا ہے؟ لڑکے نے کہا خوب دعائیں دے رہا ہے اور کھا رہا ہے۔ لڑکا قمیض اور سوئیٹر لے کر پہنچا اور وہ بھی صاحب کی نذر کیا۔ اتنے میں میں چائے پی کر باہر پہنچا تاکہ فقیر کو گرم کپڑے پہنتے ہوئے دیکھنے سے جو خوشی حاصل ہو سکتی ہے اس سے لطف اٹھاؤں۔
(۳)
میں باہر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ہٹا کٹا انتہا سے زیادہ مضبوط مضبوط فقیر ڈکاریں لے رہا ہے اور سوئیٹر اور قمیض ہزاروں دعاؤں کے ساتھ لپیٹ کر جھولی میں رکھ رہا ہے۔ دراصل یہ مشٹنڈا صرف ایک سینہ کھلی فقیروں والی صدری پہنے ہوئے تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ صبح کی سرد ہوا سے لطف اٹھا رہا ہے۔ سینہ بالشت بھر اونچا، داڑھی منڈی ہوئی، بلے چڑھے ہوئے۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت لگے مجھے دعائیں دینے۔
اب میں آپ سے کیا عرض کروں۔ سارا کھایا پیا خون ہو گیا۔ جان سلگ کر رہ گئی۔ جی میں تو یہی آیا کہ اس کمبخت کا منہ نوچ لوں۔ لگے حضرت دعائیں سے کر رخصت ہونے۔ دعاؤں میں مبالغہ اور غلو سے میری اور بھی جان جلی۔ اتنے میں خانم نے بھی جھانک کر دیکھا وہاں بھی یہی حال ہوا۔ اب بتائیے کیا کیا جا سکتا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ میں حضرت کو اس طرح ستم توڑ کر چلا جانے دوں۔ میں اسی شش و پنج میں تھا کہ میرے ایک دوست آ گئے۔ میں نے دو لفظوں میں فقیر کی ستم آرائی بیان کی اور پھر فقیر سے کہا:
"تمہیں شرم نہیں آتی۔۔۔”
سادہ لوح تو دیکھے کہ یہ حضرت اس ریمارک کو سن کر اپنے تہمد کی طرف متوجہ ہو کر محض میری جان حزیں پر گرم گستری کے خیال سے ذرا نیچا کر لیتے ہیں۔
"کمبخت” میں نے اور جل کر کہا "اتنے موٹے تگڑے ہو کر بھیک مانگتے ہو۔ بڑے شرم کی بات ہے۔”
اس کے جواب میں، فقیر صاحب نے اپنے پیدائشی حقوق کا اعادہ کرتے ہوئے ان سے دست برداری سے موبیری ظاہر کی اب میں یہ سوچنے لگا کہ اس بدتمیز سے کم از کم سوئیٹر اور قمیض ہی چینگ لی جائے، میرے دوست نے کہا کہ یہ مناسب نہیں مگر وہ حضرت وہ کو کسی نے کہا ہے "درد اس سے پوچھیئے جس کے جگر میں ٹیس ہو۔”
میں نے کہا کہ خواہ ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے میں اس موذی کو یہ چیزیں ہر گز ہر گز نہ لے جانے دوں گا۔ میں نے ادھر فقیر صاحب کو لیا آڑے ہاتھوں۔ میں نے کہا:
"تم نوکری کیوں نہیں کرتے۔”
وہ کچھ جل کر بولا: "آپ ہی رکھ لیجیے۔”
میں نے فوراً رضامندی ظاہر کی اور دس روپے ماہوار اور کھانا تجویز کیا۔ فقیر صاحب اس کے جواب میں بولے :
"اور گھر والوں کو زہر دے دوں۔”
میں نے کہا۔ "کیوں؟”
وہ بولا۔ "آپ دس روپیہ دیتے ہیں۔ ڈھائی آنہ روز کا تو گائے رزقہ کھاتی ہے اور ایک بیوی اور تین بچے۔ پانچ روپے میں گذر کیسے ہو۔”
"گائے بھی ہے۔ تمہارے پاس؟” میں نے متعجب ہو کر کہا۔
وہ بولا۔ "دو روپیہ مہینہ چرانے والا لیتا ہے، گائے نہ ہو تو صاحب کام کیسے چلے۔”
"کام کیسے چلے!” میں نے تعجب سے کہا۔ "ہمارا کام کیسے چلتا ہے۔”
وہ بولا: "صاحب آپ بڑے آدمی ہیں۔ ہم بھلا کہاں سے پیسہ لائیں جو روز تین سیر دودھ خریدیں۔”
"تین سیر!” میں نے متعجب ہو کر کہا۔ "تین سیر! بھئی تین سیر کا خرچ کیسا۔”
معلوم ہوا تو خیر سے خود حضرت دو سیر دودھ یومیہ نوش کرتے ہیں۔ میں پھر تنخواہ کے سوال پر آیا تو عسرت کی شکایت کرتے ہوئے تیس روپیہ ماہوار گھر کا خرچ بتایا اور قائل ہو کر کہا کہ اگر کم و بیش کسی روزگار میں اتنی کمائی ہو جائے کہ تنگ ترشی سے بھی گھر کا خرچ چل جائے تو فقیری چھوڑنے کو ابھی تیار ہوں۔
اب میں اپنے دوست کی طرف دیکھتا ہوں اور وہ میری طرف، پھر معلوم ہوا کہ حضرت دوپہر میں قیلولہ کے سخت عادی ہیں اور کسی صورت میں بھی دوپہر میں تو کام کر ہی نہیں سکتے۔ ویسے ہر طرح کوئی پیشہ، دھندا، نوکری، غرض جو بھی بتاؤ اس کے لیے حاضر ہیں اب آپ ہی بتائیے میں اس موذی کو کیا جواب دیتا۔ میرا وہ حال کہ مرے پہ سو درے، اتنے میں ملازم آیا، باوجود سخت تلاش کے وہ محتاج نہ ملا۔ اگر میرے دوست نہ ہوتے تو غالباً میں اس موذی سے ضرور کپڑے چھین لیتا۔ مگر میں نے اور ترکیب سوچی۔
(۳)
میں نے قطعی طور پر فقیر صاحب سے کہا کہ میں تمہیں اس حرام خوری کی سزا دیے بغیر ہر گز ہرگز نہ جانے دوں گا۔ پچاس دفعہ کان پکڑ کر اٹھو بیٹھو اور خبردار جو پھر کبھی اس طرف کا رخ بھی کیا۔
فقیر نے غصے کے شعلے میری آنکھوں میں دیکھے، ممکن ہے یہی سوچا ہو کہ سوئیٹر اور قمیض دونوں بالکل ثابت ہیں، سودا پھر بھی برا نہیں، نہایت ہی خاموشی اور سادگی سے اپ نے ڈنڈا اور پیالہ اپنا ایک طرف رکھا۔ جھولی اور مالا اتار کر رکھا اور تہمد اونچی کر کے کسنے لگے کہ میں نے ڈانٹا۔ "بد تمیز۔۔۔ ” اس کے جواب میں نہایت اطمیان سے فرماتے ہیں۔ "نیچے جانگیا پہنے ہوں۔” اور عذر کیا کہ اٹھنے بیٹھنے میں تہمد مخل ہو گی۔
لیکن میں چونکہ سزا دینا چاہتا تھا لہذا میں نے اس کی بھی اجازت دے دی۔ اب یہ حضرت ایک ہونکارے کے ساتھ بڑے زور سے ہونہہ کر کے بغیر کان پکڑے ہوئے پہلوانوں کی طرح ایک سپاٹے کے ساتھ پاؤں سرکا کر بیٹھک لگا گئے۔”
"بد تمیز بیہودہ۔۔” میں نے جل کر کہا۔ "یاد رکھو تمہیں پولیس میں دے دوں گا کان پکڑ کر سیدھی طرح اٹھو بیٹھو۔”
دو دفعہ ان کو میں نے کان پکڑوا کر اٹھنا بیٹھنا بتایا اور یہ حضرت سزا بھگتنے میں مشغول ہو گئے۔ یہ حضرت میری پشت کی طرف تھے اور ہم دونوں دوست فقیروں کو برا بھلا کہنے میں مشغول ہوئے۔
(۵)
ایک دم سے مجھے خیال آیا کہ "کان پکڑی” غالباً پچاس دفعہ ہو چکی۔ مڑ کر میں نے دیکھا تو سرعت کے ساتھ جاری تھی۔ میں نے پوچھا تو وہ بولا کہ ایک سو دس دفعہ کر لی۔ میں نے کہا۔ "بس بس۔ اب اجؤ۔ میں نے پچاس دفعہ کو کہا تھا۔ زیادہ کیوں کی”
وہ بولا۔ "صاحب پانچ سو بیٹھکیں روز لگاتا ہوں، میں نے سوچا کہ اب بار بار کون کرتا پھرے لاؤ یہیں پوری کر لوں۔”
"ارے!” میں نے اس کمبخت کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ” کیا تو پہلوانی کرتا ہے؟” واللہ میں نے اب اس کو غور سے دیکھا۔ کان تنے ہوئے۔ سینہ اور شانہ اور پتیں! خوب کسرتی بدن!
جواب دیتے ہیں ” ویسے نہیں کہتا۔ شہر کے جس پٹھے سے جی چاہے لڑا لیجیے۔”
میں نے کہا "کمبخت جی میں تو یہی آتا ہے کہ تیرا اور اپنا سر ملا کر لڑا لوں نکل یہاں سے ابھی۔۔ ابھی۔۔ نکل۔۔ نکالو اسے۔۔”
جلدی اس نے اپنی جھولی وغیرہ اٹھائی اور سینکڑوں دعائیں دیتا ہوا چلا گیا اور کمبخت مجھے انتہا سے زیادہ پست اور شکست خوردہ حالت میں چھوڑ گیا۔
٭٭٭
"قرض مقراض محبت است؟”
(۱)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں چھاؤنی سے اپنے گھر کی طرف چلی آ رہی تھی کہ میں نے دیکھا ایک بڑے میاں کرسی پر ایک بڑی بھاری یعنی کوئی ڈیڑھ گز کی مصنوعی قینچی لیئے دونوں ہاتھوں سے ہنس ہنس کر اور اچھل اچھل کر قینچی کے دونوں پھل چلا چلا کر چلّا رہے ہیں۔ قرض مقراض محبت است۔ ان کے ارد گرد مجمع والے ہنس رہے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی وہ چلائے :
"مس صاحبہ ذرا ادھر تشریف لایئے گا۔”
میں نے ان کے دلچسپ اور تمسخر آمیز چہرہ کو دیکھا۔ کس طرح بڑے میاں شگفتہ ہو رہے تھے، مجھے ان کی صورت دیکھ کر بڑی ہنسی آئی کیونکہ وہ باتیں کرنے میں بھی قینچی کے بڑی بڑی مصنوعی پھلوں کو حرکت دے رہے تھے۔ میں ان کے پاس مسکراتی ہوئی پہنچی اور میں نے کہا "فرمائیے۔ ارشاد”
"کیا میں آپ کا نام معلوم کر سکتا ہوں؟” بری میاں نے بیحد شگفتہ اور مجسم لطیفہ بن کر پوچھا۔
میں نے نام بتایا اور کہا۔ "میرا نام مس ای جانسن ہے۔”
"شکریہ شکریہ” بڑی میاں نے قینچی کے پھلوں کو ہلاتے ہوئے کہا۔ "غالباً مس صاحبہ آپ کسی اسکول میں۔۔۔”
"جی نہیں” میں نے کہا۔ "میں لیڈی ڈاکٹر ہوں، فرمائیے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔”
"اوہو ہو” بڑے میاں اپنے چہرے پہ ایک زلزلہ پیدا کر کے بولے۔ "او ہو۔ بس کچھ نہ پوچھئے بیماروں کا حال۔ ایک سے ایک بے ایمان بھرا پڑا ہے۔ فیس کو کہتے ہیں کہ کل دیے جائیں گے۔ دوا کے دام کہتے ہیں کہ مہینے پر دیں گے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ ہماری لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کے پاس کوئی خزانہ تو ہے نہیں۔ کوئی لاٹری تو نکل نہیں آئی ہے۔ آخر دنیا کے کام چلانا ہیں مگر لوگ ہیں کہ نہیں مانتے۔ مروت اور کام بگاڑ دیتی ہے۔ غریب اپنی غربت کا بہانہ کرتے ہیں اور امیر اپنی فرصت کا نتیجہ یہ کہ دواؤں کے دام آج آتے ہیں نہ کل۔”
اتنا کہہ کر بڑے میاں میری طرف مخاطب ہو کر بولے۔ "کیوں مس صاحبہ میں غلط تو نہیں کہا۔”
مجھے ہنسی آئی کیونکہ اس سے زیادہ صحت اور صفائی کے ساتھ شاید میرے حالات کوئی آئینہ نہ کر سکتا ہو گا، چنانچہ میں نے کہا۔ "بڑے میاں آپ کا فرمانا بالکل درست ہے۔ مگر آخر اس کا علاج۔”
"اوہو” بڑے میاں نے کہا۔ "بس علاج ہی کے تو دام مانگتا ہوں۔ اس کا میرے پاس شرطیہ علاج ہے۔ مگر ساڑھے سات روپے خرچ کرنا پڑیں گے اور وہ بھی ابھی، اور علاج لے لیجیے۔”
یہ کہہ کر ایک خوبصورت بکس کی طرف انہوں نے ہاتھ بڑھایا۔ جو برابر ایک اونچی سی میز پر رکھا تھا اور بولے۔ "پھر لطف یہ کی اگر پسند آئے تو لے لیجئے ورنہ کوئی زبردستی نہیں۔”
یہ کہہ کر بڑے میاں نے صندوق کھولا اور اس میں ایک چوکھٹا نکالا جس میں منہ دیکھنے کے آئینہ میں بڑی صفائی سے یہ عبارت تحریر تھی۔ "قرض مقراض محبت است” میں چوکھٹے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ بڑے میاں بولے کہ "بس اس کو آپ لے جائیے اور کمرے میں لگا دیجئے۔ کم از کم تھوڑی بہت تو ضرور اس سے بچت ہو گی۔”
میں نے اس تجویز کو پسند کیا اور جیب سے دس کا نوٹ نکال کر دیا۔ وہ بولے کہ میرے پاس بقیہ دام نہیں۔ برابر ایک ہندوستانی جنٹلمین کھڑے تھے، ان سے دام پوچھے تو انہوں نے اپنا بٹوا دیکھا اور کہا میرے پاس بھی نوٹ ہے پانچ روپے کا۔
بڑے میاں تو مسخرہ پن کر ہی رہے تھے۔ انہوں نے کہا نوٹ مجھے دیجئے۔ انہوں نے نوٹ بڑے میاں کو دیدیا اور بڑے میاں نے اس کے جواب میں ایک اور ویسا ہی چوکھٹا نکال کر انکو دے دیا اور پانچ کا نوٹ مجھے دیکر بولے۔ "آپ کو بجائے ساڑھے سات کے پانچ روپیہ میں ملے گا۔” پھر جنٹلمین کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ "آپ کو بھی ڈھائی روپے کا فائدہ رہا۔ میرے پاس صرف دس پہنچے۔ اور مفت میں پانچ کا نقصان مجھے رہا۔”
لوگ یہ لطیفہ سن کر ہنس دیئے۔ تو بڑے میاں بولے۔ "اجی حضرات آپ ہنستے کیا ہیں۔ یہ دونوں ایسے تو نہیں جو میرا ڈھائی روپیہ مار لیں۔”
"مگر مجھے تو اس کی ضرورت نہیں۔” ان ہندوستانی جنٹلمین نے کہا۔
"ارے” بڑے میاں نے پلکیں جھپکاتے ہوئے کہا۔ "مسٹر آپ بھی عجیب آدمی ہیں! اجی حضرت آپ ضرورت کو دیکھتے ہیں کہ نفع ہو؟ اور پھر آپ نہ لیں گے تو ادھر آپ کا ڈھائی روپیہ کا نقصان ہو گا اور مس صاحبہ کو الگ ڈھائی روپیہ دینا پڑے گا۔ کیونکہ ایک کے دام ساڑھے سات روپیہ ہیں اور دو کی قیمت صرف دس۔”
لوگ بڑے میاں کے اس لطیفہ پر ہنسنے لگے۔ دو چار آدمیوں نے اور خریداری کی۔ اور میں وہاں سے چلتی بنی۔ اس فریم کو میں نے اپنے کمرہ میں لگا دیا۔ جہاں مریض بیٹھے تھے۔ تاکہ ہر کس و ناکس کی اس پر نظر پڑتی رہے۔ بات یہ ہے کہ میرے بڑے اخراجات تھے۔ نیا نیا کام تھا اور آمدنی اور خرچ کا یہ حال تھا کہ مشکل سے کھینچ تان کر گزر ہوتی تھی۔ بلکہ بسا اوقات نادہند مریضوں کی وجہ سے خود قرض دار ہو جانا پڑتا تھا۔
(۲)
ڈاکٹر بیاس شہر کے مشہور سرجن تھے اور پھر میرے تو سب ہی ڈاکٹروں سے ملاقات تھی۔ ان کے ہاں کوئی خاص تقریب تھی جس کے سلسلے میں انہوں نے دوست احباب کے علاوہ ہم پیشہ جماعت کو بھی خاص طور پر مدعو کیا تھا اور مجھ سے خاص طور پر تاکید کر دی تھی۔
میں جو پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سب ہی ڈاکٹر تو موجود ہیں۔ اس وقت ایک عجیب و غریب درد سر کے مریض کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ یہ شہر کے ایک نہایت ہی متمول نوجوان کا تذکرہ تھا، جن کو یہ درد سر کی عجیب و غریب بیماری تھی۔ پہلے ان کے سر میں کالج میں درد ہوا پھر کام چھوڑ کر بیٹھ رہنے سے بھی درد میں کمی نہ ہوئی۔ اگر کلاس میں جائیں تو درد سر بڑھ جائے اور کھیلنے جائیں تو اور بڑھ جائے۔ مطلب یہ کہ یہ درد سر بھی نرالا تھا۔ کام کرو تو بڑھ جائے۔ آرام کرو تو بڑھ جائے۔ یہاں ان مریض کی دراصل بڑی تعریف ہو رہی تھی کیونکہ وہ قریب قریب سب کا علاج کرا چکے تھے اور ہر ایک کو بھرپور روپیہ کھلا چکے تھے۔ سب کا خیال تھا کہ نہایت ہی خلیق اور نہایت ہی تہذیب یافتہ اور نہایت ہی فراخدلی سے ڈاکٹروں کو اندھا دھند فیس دینے والا مریض ہے۔ جو مانگو وہ دیتا ہے۔ بلکہ زائد دیتا ہے۔
دراصل بات یہ ہے کہ ایسے مریض مشکل ہی سے ملتے ہیں۔ سب کی متفقہ رائے تھی کہ درد سر کی اصلی وجہ وہم اور بیکاری اور ورزش نہ کرنا اور دن بھر پڑا رہنا تھا۔ کوئی ان کا دوست نہ تھا۔ کوئی قریبی عزیز یا رشتہ دار، مرد یا عورت کوئی نہ تھا۔ غرض ان عجیب و غریب مریض کا ذکر سب ہی نے اپنے اپنے تجربے کے موافق کیا اور سب نے تسلیم کیا کہ انکا درد سر لاعلاج ہے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ڈریسنگ روم میں تھی کہ کمرے کے باہر سے نوکر نے گھنٹی بجائی، یعنی اطلاع کی کہ کوئی مریض آیا ہے۔ میں نے گھنٹی کی رسید دی یعنی یہ کہ ڈرائنگ روم میں اترواؤ۔ ڈرائنگ روم میں پردے کا پورا انتظام تھا اور ڈولی یا گاڑی پر جو مریضہ آتی اس کو میں اترواتی تھی۔ دوا خانہ باہر تھا۔ برآمدے میں۔
میں کپڑے وغیرہ پہن کر ڈرائنگ روم میں آئی تو دیکھا کہ ایک شخص اوور کوٹ پہنے گلو بند میں سر اور منہ لپیٹے اس طرف منہ کئے میری بڑی رنگین تصویر کو دیکھ رہا ہے۔ میں سمجھی کہ مریضہ کے کوئی رشتہ دار ہیں، فرش کمرے کا چونکہ ملائم تھا اس وجہ سے میرے آنے کی آہٹ تک ان کو معلوم نہ ہوئی۔ جب میں نے دانستہ طور پر کرسی کھینچی تو یہ میری طرف مڑے۔ انگریزی میں تبادلہ سلام کے بعد میں نے ان سے بیٹھنے کو کہا اور خود بھی بیٹھ گئی۔ اس وقت ان کا منہ اوور کوٹ کے کالر اور گلو بند میں اس طرح چھپا ہوا تھا کہ سوائے ناک کے مشکل سے کوئی خاص حصہ چہرے کا نمایاں تھا۔ یہ بیٹھ گئے، میں منتظر تھی کہ کچھ کہیں، لیکن وہ چپ میز کرید رہے تھے۔ مجھے سخت غصہ آیا اور میں نے کہا :
"فرمایئے کیا کام ہے۔”
وہ : "آپ ڈاکٹر جانسن کی صاحبزادی ہیں؟”
میں : "جی ہاں۔ فرمائیے۔”
وہ : "میں ان سے ملنا چاہتا تھا۔”
اب میں سمجھی کہ یہ دیوانہ ہے۔ میں نے غور سے آنکھوں کو دیکھا۔ مجھے کچھ ہنسی سی آئی اور شرارت سوجھی۔ میں نے بھی نہایت سنجیدگی سے کونے والی میز پر جو چھوٹی سے الماری رکھی تھی اور جس پر بڑے بڑے حروف میں لکھا تھا "زہر” اس کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "میرے والد صاحب سے اگر ملاقات کرنا بے حد ضروری ہو تو اس میں سے آپ کو ایک خوراک لینا پڑے گی۔”
"معاف کیجئے گا۔” انہوں نے کہا۔ "میں ڈاکٹر صاحب سے ملنا چاہتا تھا۔”
"کون ڈاکٹر صاحب۔” میں نے پوچھا۔
انگلی سے انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ اور بولے "جلدی میں میں نے سائن بورڈ غور سے نہیں پڑھا، جن کا یہ مطب ہے انہی سے ملنا چاہتا ہوں۔”
"مگر یہ مطب تو میرا ہے۔ میں لیڈی ڈاکٹر مس جانسن ہوں۔ آپ کسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی مریضہ ہے تو میں خدمت کے لئے حاضر ہوں۔”
"میں خود مریض ہوں۔”
"معاف کیجئے گا” میں نے کہا۔ "میں وسمجھی کہ کوئی عورت ہے۔ میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔” وہ بولے۔ "اوہو۔ معاف کیجئے گا۔ مجھ سے بڑی غلطی ہوئی۔
چہرہ پر سے اب انہوں نے گلو بند ہٹا دیا تھا۔ اچھی خاصی داڑھی تھی۔ ویسے نوعمر معلوم ہوتے تھے۔ چہرے کا رنگ صاف مگر کچھ زردی مائل سا تھا۔
میں نے کہا "کوئی حرج نہیں، جلدی میں شاید آپ نے سائن بورڈ نہیں پڑھا۔”
"جی ہاں” انہوں نے کہا۔ "یہی غلطی ہوئی جلدی میں دیکھا نہیں میں نے۔۔۔ آپ عورتوں کا علاج کرتی ہیں۔۔۔ لیکن کیا آپ اپنے کمپونڈر سے نہ کہہ دیں گی کہ مجھے وہ اس وقت دوا کی ایک خوراک بنا دے۔۔۔”
میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا "معاف کیجئے میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔”
وہ بولے "مگر اس میں شاید کچھ نقصان نہ ہو گا کہ ایک خوراک آپ دوا کی دلوا دیں۔ مجھے بے حد اور سخت ضرورت ہے۔ میری بڑی بری حالت ہے۔”
میں نے کہا "آپ کو کیا دوا چاہیے۔ جو لینا ہو وہ باہر دوا خانے سے لے لیجئے۔ اس میں دریافت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔”
وہ بولے۔ "میں دوا کا نام کیا جانوں۔ آپ کہہ دیجئے کہ کوئی ایسی دوا دے دے جس سے درد سر میں خاص فائدہ ہو۔ میں درد سر کا پرانا مریض ہوں اور آج غیر معمولی طور پر صبح تڑکے مجھے اپنے ایک دوست کو پہنچانے اسٹیشن جانا پڑا۔ تانگے میں درد سر بڑھ جانے کا اندیشہ تھا، لہذا پیدل چلا آ رہا ہوں اور دیکھتا آ رہا تھا کہ کسی ڈاکٹر کا سائن بورڈ نظر پڑ جائے تو دوا لوں۔”
میں نے اشارے سے کہا بیٹھئے۔ کیونکہ میں جان گئی کہ یہ کون حضرت ہیں۔ وہ بیٹھ گئے تو میں نے کہا کہ "جناب کا نام مسٹر محسن تو نہیں ہے۔”
"جی ہاں” انہوں نے تڑپ کر کہا۔ "آپ کو کیسے معلوم ہوا؟”
میں نے اختصار سے ان کو بتایا کہ کس طرح ڈاکٹر بیاس اور دوسرے ڈاکٹر آپ کے درد سر کا ذکر کر رہے تھے۔ اور پھر آپ نے اچھی طرح سمجھایا ہے کہ آپ کا مرض پرانا ہے اور بغیر آپ کا معائنہ کئے ہوئے کوئی دوا دینا اصول کے خلاف ہے۔”
وہ بھولے پن سے بولے۔ "تو آپ میرا معائنہ کر لیں۔”
میں نے کہا "عرض کیا نا کہ میں صرف عورتوں کا علاج کرتی ہوں۔”
"تو پھر مجھے دوا تو آپ کو دینا ہو گی۔”
"میں بغیر دیکھے بھالے دوا نہیں دے سکتی۔”
وہ بولے "تو آپ میرا معائنہ کر سکتی ہیں، میں آپ کو ڈبل فیس دوں گا۔”
"ڈبل فیس۔” میں نے اپنے دل میں کہا بتیس روپے، پھر میں نے کہا کہ اگر یہ شخص مجھے بتیس روپیہ دے تو کیا ہرج ہے، مجھے معلوم ہی ہے کہ بڑا خلیق اور ملنسار آدمی ہے چنانچہ میں نے کہا "بتیس روپیہ ہوں گے۔”
"بہت بہتر۔” انہوں نے کہا۔ "آپ معائنہ کیجئے۔”
میں نے مردوں کا کبھی معائنہ نہ کیا تھا۔ مگر پیٹ بری بلا ہے۔ میں نے آلہ نکال کر سینہ دیکھا۔ پھر پشت پر سے بجا کر دیکھا۔ جگر دیکھا، دل دیکھا۔ غرض اچھی طرح معائنہ کر کے میں نے رائے قائم کی اور نسخہ تجویز کیا۔ دوا کھانے کی دن میں تین مرتبہ، علی الصبح بعد ناشتہ دوپہر کو اور شام کو کھانے کے بعد۔ اور تیل گردن اور سر کی مالش کے لئے تجویز کیا۔ اس کے بعد ان کو مالش کا طریقہ سمجھایا۔ کسی طرح مالش کی جائے۔ دوران خون کا اصول سرسری طور پر بتا کر میں نے مالش کا قاعدہ سمجھایا۔ اس پر وہ گھبرا کر بولے مالش کا طریقہ میری سمجھ میں بالکل نہ آیا۔ میں نے پھر واضح کیا تو پھر ان کی سمجھ میں نہ آیا تو میں نے کہا کہ آج مںر کہئے تو خود مالش کر کے بتا دوں تو عملی طور پر یہ طریقہ آپ کی سمجھ میں خود آ جائے گا۔ مگر اس کی آپ کو علیحدہ فیس دینا پڑے گی۔ وہ راضی ہو گئے اور میں نے کرسی پر ان کو قاعدہ سے بٹھایا اور گرم اسپنج لے کر سینک اور مالش اچھی طرح سے کی۔ کرسی پر ان کو تکلیف ہو رہی تھی اور میں نے یونہی کہا کہ یہ کرسی اس کام کی نہیں ہے۔ میں نے ڈھائی سو روپے کی خاص کرسی اسی مالش اور سر اور منہ کے معالجہ کے لئے منگائی ہے۔ میں مالش کرتی جاتی تھی اور اس وہمی مریض کو کرسی کی بناوٹ بتاتی جاتی تھی۔ میں نے کہا کہ کرسی آئی اسٹیشن پر پڑی ہے اور آج وی پی اس کا میں چھڑا لوں گی۔ یہ میں نے اس خیال سے اور بھی کہا کہ کہیں نقد ادائی میں فیس وغیرہ کی دیر نہ ہو۔
مالش کے بعد ہی میں نے گرم چائے کا ایک پیالہ اور انڈے تجویز کئے تھے۔ چنانچہ اس کا بھی مجھے اپنے مریض کیلئے انتظام کرنا پڑا۔ میں نے مالش کے بعد اچھی طرح گرم پانی سے دھو کر گلو بند لپیٹ دیا اور گرما گرم چائے اور انڈے کھلا کر اپنا بل پیش کر دیا۔ بتیس روپے فیس معائنہ، دس روپیہ فیس مالش، سات روپے کی دوائیں۔ یہ بل بنا کر ان کو دیا، جیب میں ان کی کل بیس روپے نکلے۔ باقی کے انتیس انہوں نے کہا کہ میں گھر جا کر بھیج دوں گا۔ میں نے کچھ خاموش ہو کر اس خوبصورت چوکھٹے کی طرف دیکھا جس پہ لکھا تھا۔ "قرض مقراض محبت ہے۔” انہوں نے بھی دیکھا اس طرف اور مطلب سمجھ گئے۔ بولے "ایک میرے پاس بھی ہے بالکل ایسا۔۔۔ مگر آپ کو میں نے دیکھا ہے شاید۔۔۔”
ایک دم میں نے بھی پہچان لیا ان کو۔ "اوہو” میں نے کہا۔ "میں نے اور آپ نے سائن بورڈ ساتھ ہی لئے تھے۔ آپ نے صورت بدل رکھی ہے بالکل۔ آپ کے اس وقت داڑھی نہ تھی۔ اس کے بعد پھر چوکھٹے کے خریدنے کا واقعہ بیان کر کے ہم دونوں نے تصدیق کی۔ چلتے وقت بڑی اخلاق سے رخصت ہوئے اور گئے ہوئے گھنٹہ بھی نہ ہوا ہو گا کہ آدمی بل کے بقیہ روپے لیکر آ گیا۔
دوسرے روز ان کا ایک خط آیا اور اس میں لکھا تھا کہ آپ نے جو مالش کی تھی اس سے میری آنکھیں کھل گئی تھیں اور یہاں کوئی ملازم اس طرح مالش نہیں کر سکتا۔ لہذا اگر آپ روزانہ مالش کر دیا کریں تو میں آ جایا کروں۔ میں آپ کی فیس دوں گا۔ میں نے جواب میں لکھا کہ میں آپ سے بجائے دس کے ساتھ روپے روزانہ فیس کے لوں گی اور مجھے مالش کرنا مقصد ہے۔ فسب میں نے اس وجہ سے کم کر دی کہ میں نے سوچا کہ مسکین اور بھولے بھالے مریض کو زیادہ لوٹنا ٹھیک نہیں ہے۔ چنانچہ اگلے روز سے انہوں نے آنا شروع کر دیا۔ پچاس روپے پیشگی بابت فیس کے دے دیئے۔
چوتھے روز بولے وہ کرسی جو منگائی تھی وہ نہیں آئی۔ بات دراصل یہ تھی کہ میں نے دواؤں کا پارسل منگا لیا تھا۔ مجبوراً اس کا وی پی نہ چھڑا سکی۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ روپے کی وجہ سے پارسل نہ چھڑا سکی۔ "واہ” انہوں نے کہا۔ "آپ روپیہ ہم سے لے لیتیں۔ آپ تار دے دیجئے میں روپیہ آپ کو دے دوں گا۔ وہ فیس میں مجرا ہوتا رہے گا۔ مجھ اس پر آرام ملے گا۔”
بات چونکہ ٹھیک تھی لہذا میں نے منظور کر لیا اور تار دے دیا۔ تیسرے روز کرسی آ گئی اور دام مسٹر محسن نے دے دیئے۔ اب وہ اس کرسی سے بے حد خوش تھے۔ بات بھی دراصل ٹھیک تھی، آرام سے کرسی میں جیسے وہ لیٹ جاتے، میں بڑی اچھی طرح مالش کرتی۔
ایک روز جو وقت پر آئے تو میں نئی دواؤں کا بل لئے بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر بولے۔ "اوہو! یہ تم قرض منگاتی ہو اور اس پر اتنا سود کارخانہ والا چارج کرتا ہے۔ قریب دو سو کے۔”
میں نے کہا۔ "مجبوری ہے۔ کیونکہ دوا خانہ دراصل چل ہی اسی طرح رہا ہے۔ پھر مریض لوگ دواؤں کی قیمت مہینوں ادا نہیں کرتے۔”
وہ بولے۔ "تم ہم سے لے لو دام پھر فیس میں اپنی کاٹتی رہنا۔”
"بائیس سو روپے فیس کے” میں نے ہنس کر کہا "مسٹر محسن آپ کا شکریہ، میں قرض کسی کا بھی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ جانتے ہیں قرض مقراض محبت است۔”
وہ ہنس کر بولے۔ "میرے پاس بھی تو یہی سائن بورڈ ہے۔ میں جانتا ہوں جب ہی تو ڈاکٹر کی دوائیں اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ سینکڑوں روپیہ آپ سود میں دے دیتی ہیں۔ اگر سود نہ دینا پڑے تو لازمی دواؤں کی قیمت بھی گھٹے اور ہمیں یعنی مریض لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ دوائیں سستی ملیں۔”
"بات تو ٹھیک ہے۔” میں نے کہا۔ "مگر مجبوری ہے۔ کام ایسے چلتا ہے۔”
وہ بولے۔ "آپ بے تکلف مجھ سے لے لیں۔ میں تو عرصے تک علاج کراؤں گا۔”
میں نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔
اسی ہفتہ میں ایک روز ڈاک جو کھولی تو دوا فروشوں کی بائیس سو روپیہ کی میرے نام کی رسید موجود، خط شکریہ کا علاوہ کہ ہم نے دام بھر پائے۔ میں سخت تعجب میں کہ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے، مگر جان گئی کہ ہو نہ ہو مسٹر محسن معلوم ہوتا ہے پتہ یاد کر کے لئے گئے اور روپے بھیج دیئے۔ دوسرے روز مسٹر محسن جو آئے تو میں ان سے شکایت کی کہ یہ آپ نے کیا کیا؟ کرنے کو وہ کر ہی چکے تھے۔ سوائے اس کے کہ میں شکریہ ادا کرتی اور کیا کر سکتی تھی۔ جب وہ مالش کرا کے چلے گئے تو میں نے ایک رسید بائیس سو روپے کی ٹکٹ لگا کر مسٹر محسن کے پاس بھیج دی۔ نوکر جواب میں خط لایا۔ کھول کر جو دیکھا تو اسی رسید کے پرزے پرزے ملے اور کچھ نہیں۔ دوسرے روز جو مسٹر محسن سے کہا کہ یہ کیا معاملہ تو کچھ بگڑ کر بولے کہ "میں مہاجن مارواڑی اور نہ میرے باپ مہاجن تھے جو میں رسیدیں لکھواتا پھروں۔ فیس میں کاٹتی جاؤ۔ باقی بچیں وہ ادا کر دینا۔”
مجبوراً مجھے یہ بھی منظور کرنا پڑا۔
(۴)
میرے علاج سے مسٹر محسن کو بڑا فائدہ تھا کیونکہ میں نے تاکید کر دی تھی کہ روزانہ میرے یہاں پیدل آئیں۔ روزانہ کی مقررہ چہل قدمی نے ان کی صحت پر خاص اثر کیا۔ مسٹر محسن نہایت ہی خلیق اور دلچسپ آدمی تھے اور صبح تو کم دیر بیٹھتے مگر شام کو اکثر ٹہلنے جاتے تو کبھی کبھار میرے یہاں بھی ہو جاتے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ وہ بے تکلف ڈرائنگ روم میں چلے آئے۔ میں نقشہ پھیلائے بیٹھی تھی۔ جیسے ہی میں نے انہیں دیکھا تو نقشہ کو چھپانے کی کوشش کی۔ مگر انہوں نے اصرار کیا تو میں نے دکھایا۔ یہ نقشہ جانسن ہسپتال کا تھا۔ میری بیوقوفی تو دیکھئے کہ کلکتے کی ایک مشہور انجینئروں کی فرم سے ساٹھ روپیہ دے کر یہ نقشہ تیار کرایا تھا۔ تجویز یہ تھی کہ ایک ہسپتال بنے گا۔ بڑا سا اس کا احاطہ ہو گا۔ اندر دو بنگلے ہو گے، ٹینس کورٹ ہو گا۔ یہ میرا ہو گا۔ اس کا نام جانسن زنانہ ہسپتال ہو گا۔ مریضوں کے رہنے کے لئے کوارٹر ہوں گے۔ غرض فرسٹ کلاس ہسپتال ہو گا۔ اس کا تخمینہ میں نے لگایا تو معلوم ہوا چالیس ہزار میں تیار ہو گا۔ زمین میں نے چکر والی سڑک پر عرصے سے منتخب کر رکھی تھی کہ یہ حصہ خریدوں گی۔ محسن صاحب نے جب یہ سب سنا تو بہت ہنسے اور کہنے لگے کہ روپیہ ندارد اور یہ سب کچھ سامان پیشتر سے کر لیا۔ میں نے جواب دیا کہ اسی وجہ سے تو آپ کو دکھانا نہیں چاہتی تھی۔
میرے ہسپتال میں جو بنگلے تھے ان کا ڈیزائن بہت پسند کیا اور مجھ سے کہا کہ دو روز کے لئے نقشہ مجھے دے دو تو میں ڈیزائن کی نقل کروا لوں۔ میں نے نقشہ دے دیا اور دو روز بعد مجھے وہ واپس دے گئے۔
علاج کو کئی مہینے ہو گئے تھے اور اب درد سر کا تذکرہ تک نہ ہوتا تھا۔ مگر مالش روز ہوتی تھی۔ نہ وہ اس میں کچھ حیل و حجت کرتے اور نہ میں۔
مجھے اس دوران میں کچھ خاص آلات اور اوزار ڈاکٹری خریدنا تھے اور میں فہرست لیے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جگہ جگہ نشانات لگا رکھے تھے مگر روپے پیسے کی وجہ سے منگا نہ سکتی تھی۔ ایک روز میں پھر اس فہرست کو دیکھ رہی تھی کہ مسٹر محسن آ گئے وہ بھی فہرست دیکھنے لگے۔۔ میں ان کو مختلف اوزاروں کا اصول اور استعمال بتا رہی تھی۔ تذکرہ جو آیا تو مجھے بتانا پڑا کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے منگا نہیں سکتی۔ کہنے لگے "ہم سے قرض نہ لے لو۔ فیس میں کاٹتی رہنا۔”
میں نے غور سے دیکھا۔ مجھے ایک دم سے ہنسی آئی اور میں نے کہا۔ "مسٹر محسن آپ کی فیس نہ ہوئی ایک مصیبت ہو گئی۔ آپ کی ویسے ہی کیا کم عنایات ہیں۔ شکریہ صد شکریہ۔ مجھے قرضے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ معلوم کیسے کیسے تو میں آپ کا قرضہ ادا کر رہی ہوں۔”
پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے چلے گئے۔
مگر جناب کوئی پندرہ روز بعد محسن صاحب کا آدمی میری غیر موجودگی میں ایک پارسل میرے یہاں لایا اور بڑھئی سے کھلوا کر تمام اوزاروں کے بکس نکلوا کر سجانا شروع کر دیے، میں جو آئی تو دنگ رہ گئی۔ واقعہ جو معلوم ہوا تو میں سناٹے میں آ گئی۔ ایک خط لکھا جس کا لہجہ شاید سخت تھا۔ میں نے اس میں لکھا کہ یہ میں ہر گز گوارا نہیں کر سکتی۔ چنانچہ میں نے سب واپس کروا دیے۔ دوسرے روز آئے تو ایک ڈبہ بغل میں دابے لائے۔ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا کہ اچھا یہ ڈبہ قرض لے کو۔ میں راضی ہو گئی۔ اس طرح آہستہ آہستہ پورے ساڑھے تنی ہزار کے اوزار ایک ایک ڈبہ کر کے مہینہ بھر میں ہی ان حضرت نے مجھے قرض دے دیئے۔
اس واقعہ کے کوئی پانچ مہینے بعد کا ذکر ہے۔ اس دوران مسٹر محسن برابر زیر علاج تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ بیماری کا نہ وہ ذکر کرتے اور نہ میں۔ نہ وہ کہتے کہ میں اب اچھا ہو گیا اور نہ میں کہتی کہ تم اچھے ہو گئے ہو۔ اب علاج مت کرو۔ کھانے کی دوائیں البتہ وہ چھوڑ چکے تھے۔ بس ان کا تو علاج یہ تھا کہ وہ آئے۔ اپنی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ گئے اور میں آئی اور میں نے ان کے سر کی مالش کر دی۔ پھر بجائے صبح کے میں نے وقت بھی بدل دیا تھا۔ یعنی شام کا وقت رکھا تھا۔ اس کے بعد پھر اکثر ٹہلنے جاتے تھے۔ میں کہتی تھی کہ کس کدھر ملنسار اور سیدھا سادا شخص ہے۔ کوئی عیب نہیں اس میں سوائے اس کے بس داڑھی بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ مالش میں مجھ کو یہ داڑھی سخت تکلیف دیتی تھی اور ایک آدھ دفعہ میں نے ایک آدھ ریمارک اس کے متعلق محتاط پیرائے میں کیا بھی تھا۔ مگر انہیں شاید داڑھی ضرورت سے زیادہ پسند تھی۔ اور یہ ان کا مشغلہ تھا کہ بیٹھے اس کو کریدتے رہیں۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا کوئی پانچ چھ مہینہ بعد کا ذکر ہے کہ میں عجیب مخمصے میں پھنس گئی۔ جس مکان میں کرایہ پر رہتی تھی وہ فروخت ہو رہا تھا۔ ساڑھے سات ہزار روپیہ مانگتا تھا۔ میں چالیس روپیہ ماہوار کرایہ دیتی تھی اور ساڑھے سات ہزار میں کوڑیوں کے مول جا رہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ سات ہزار میں قطعی اور فوراً مل جائے گا۔ میں دیر تک سوچتی رہی۔ نہ معلوم کدھر خیال گیا۔ اٹھی اور محسن صاحب کے حساب کا رجسٹر اٹھا لائی۔ میری آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ یا اللہ میں اس سیدھے سادے شخص کا قرضہ کیسے ادا کروں گی۔ میں یہ سوچ رہی تھی۔ قریب دو سو روپیہ ماہوار سے زائد کے میں یہ سلسلہ مالش اس شخص سے ٹھگ رہی تھی۔ مگر وہاں تو ہزاروں کی رقم تھی۔ وجہ یہ کہ میرے اخراجات بڑھ گئے تھے۔ میں اسی فکر میں تھی کہ اسکیم تیار کروں کہ دوا خانہ کی کل آمدنی قرضہ کی ادائی میں چلی جائے۔ چنانچہ میں نے اطمینان سے بیٹھ کر اسکیم تیار کر لی۔ مجھے اسکیم بنانے سے خوشی حاصل ہوئی، اطمینان سا ہو گیا۔
اس کے بعد پھر میں مکان کے مسئلے پر غور کرنے لگی۔ مجھے خیال آیا کہ ایسا اچھا سودا ہو رہا ہے۔ مسٹر محسن سے کہوں کہ وہ لے لیں۔ ان کا ہی فائدہ ہو جائے گا، چنانچہ شام کو محسن صاحب آئے تو میں نے تذکرہ کیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ کہنے لگے کہ "تم کیوں نہیں خریدتیں۔”
میں کہہ چکی تھی اور میں نے پھر کہا۔ "میرے پاس روپیہ ہوتا تو تم سے کیوں کہتی۔”
وہ بولے۔ روپیہ ہم سے لے لو قرض۔
میں نے ہنس کر کہا۔ "شکریہ۔ آپ کے مذاق سلیم کا شکریہ۔”
"مذاق نہیں۔” وہ سنجیدگی سے داڑھی کریدتے ہوئے بولے۔ "فیس میں کٹتا رہے گا۔”
مجھے ہنسی آ گئی۔ اور میں نے کہا۔ "فیس نہ ہوئی ایک مصیبت ہو گئی۔ دنیا کے قرضے ہیں کہ اس میں وضع ہو رہے ہیں۔”
وہ بولے "برسات آ رہی ہے۔ مجھے بخار وخار بھی تو آخر آئے گا ہی۔ اس کی بھی تو فیس ہو گی۔”
مجھے اور ہنسی آئی اور میں نے کہا۔ "مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے درر سر کی اصلی وجہ شاید کچھ اور ہی ہے اور اس کا علاج بھی شاید دوسرا ہے۔”
داڑھی کریدتے ہوئے بولے۔ "تو وہ علاج کب کرو گی۔”
میں نے کہا "آپ فضول باتیں کرتے ہیں۔ موقع نکل جائے گا اور ایسا مکان نہیں ملے گا۔”
وہ بولے۔ "تمہاری صلاح ہے تو لے لوں گا۔ تم بات پختہ کر لو۔ بلکہ پھر خرید ہی لو۔ صبح میں بیعانے کی رجسٹری کرالوں۔ اپنے مختار عام سے کہہ دوں گا۔”
(۵)
مکان کا سودا سات ہزار پر میں نے بڑی دقت سے کرا دیا۔ روپیہ بھی ادا ہو گیا۔ مگر پانچویں روز رجسٹری شدہ دستاویز اور اس کا انگریزی ترجمہ جو میرے پاس پہنچا تو میری اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے۔ کیونکہ آپ یقین کریں کہ یہ تو سب میرے نام تھا۔ گویا میں نے خرید کیا ہے۔ اب میں کچھ سوچ میں پڑ گئی۔ کہیں یہ حضرت میرے اوپر عاشق تو نہیں ہو گئے۔ کہیں مجھ سے یہ شادی وغیرہ کے متمنی تو نہیں۔ معاً مجھے خیال گزرا کہ ہو نہ ہو ایسا ہی ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو بڑی مصیبت کا سامنا ہو گا۔ محسن ایک بہترین دوست ہے لیکن اس سے زائد کے مستحق اور نہ موزوں، کم از کم میرے لیے۔ اس معاملے پر سوچتی رہی۔ مگر تھوڑی ہی دیر میں یہ خیالات دور ہو گئے کیونکہ اگر ان کا ایسا خیال ہوتا تو ناممکن تھا کہ ان کی حرکات و سکنات و عادات سے معلوم نہ ہو جاتا۔ کب کا علم ہو جاتا۔ کتنی بے تکلفی ہے۔ اگر یہ حالات ہوتے تو ان کا چھپانا امر محال تھا۔ وجہ یہ کہ نہ تو ان کا کوئی دوست ہے اور نہ ساتھی۔ لہذا جو دم بھی میری معیت میں گزرتا ہے۔ وہ ان کو غنیمت معلوم ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب اپنا اطمینان کر چکی تو میں نے کس کر ایک خط مسٹر محسن کو لکھا اور صاف صاف لکھا کہ اس دستاویز کی تنسیخ کراؤ۔ انہوں نے زبانی جواب بجھوا دیا کہ شام کو ملوں گا تب بات چیت ہو گی۔
شام کو وہ آئے تو بخدا میں پھٹ پڑی۔ جو منہ میں آیا وہ سنا ڈالا۔ مگر وہ بیٹھے داڑھی کریدا کئے۔ جواب دیا تو نہایت مختصر۔ یعنی یہ کہا ” تمہی نے تو کہا۔”
بگڑ کر میں نے کہا۔ "تو میں نے یہ کہا تھا کہ میرے نام سے خرید لینا۔”
"تو پھر میں نے تو یہی بہتر سمجھا۔”
"آخر کیوں بہتر سمجھا۔” میں نے برا مانتے ہوئے کہا۔ "مسٹر محسن اس کے معنی یہ ہوئے کہ آپ تمام تعلقات منقطع کرنے پر تیار ہیں۔”
"یا الٰہی۔” انہوں نے بھی تیز ہو کر کہا۔ ” مصیبت کیا ہے۔ کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ تم میرا روپیہ مار لو گی۔ کیا تمہارا ارادہ ہے کہ کسی آئندہ وقت میں کہہ دو گی کہ یہ مکان محسن کا نہیں میرا ہے۔ ہرگز نہیں۔ تو پھر کیا مصیبت ہے۔ تمہیں مکان پسند تھا۔ لہذا موجود ہے۔ جب جی چاہے روپیہ ادا کر دینا۔ کاغذات میں تمہارے حوالے کر دوں گا۔ ادھر لاؤ کاغذ۔ ورنہ یہ لو کاغذ اور قلم اور لکھو جو میں لکھواؤں۔”
میں نے کاغذ قلم لیا اور پوچھا۔ "کیا لکھوں۔”
وہ بولے۔ "لکھو، یہ مکان جو میرے نام رجسٹری ہوا ہے اور جو فلاں فلاں شخص سے یہ قیمت سات ہزار خریدا گیا ہے۔ یہ مکان دراصل میں نے نہیں خریدا ہے۔ بلکہ مسٹر محسن نے خریدا ہے اور اپنے روپے سے خریدا ہے اور مکان انہیں کا ہے۔ میرا نام رجسٹری میں محض اس وجہ سے ڈال دیا گیا ہے کہ مکان مجھے پسند ہے اور اگر کبھی میرے پاس روپیہ ہوا تو میں اسی قیمت پر مسٹر محسن سے خرید لوں گی۔”
یہ عبارت لکھ کر انہوں نے کہا دستخط کرو۔ پھر خود ہی تصدیق کر دی اور کاغذ تہہ کر کے جیب میں رکھ لیا اور مجھ سے کہنے لگے کہ "بس اب تو ٹھیک ہے۔”
میں نے کہا۔ "ہاں یہ ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مگر پھر بھی۔۔۔”
بات کاٹ کر وہ بولے۔”اب پھر بھی وغیرہ کو جانے دو۔ معاملہ صاف ہو گیا۔ کاغذ خواہ اپنے پاس رکھو یا مجھے دے دو۔ بلکہ اپنے ہی پاس رہنے دو۔ میرے پاس تمہاری یہ تحریر آ گئی۔”
میں اب راضی ہو گئی اور وہ سمجھانے لگے کہ تم یورپین ہو اور تعلیم یافتہ ہو کر اس قسم کی باتیں کرتی ہو۔ جب تمہارا ارادہ تھا اور مکان موقع سے مل رہا تھا تو میرے نام سے خریداری کرانا فضول تھا۔ مکان میرا ہے اور کرایہ تم مجھے ماہ بہ ماہ دیتی رہنا۔ پھر کہنے لگے کہ مکان چونکہ میرا ہے لہذا میں کیوں نہ اس میں ترمیم کراؤں۔ بلکہ تمہاری سہولت کے موافق کروا دوں۔ میں نے کہا یہ تو بہت بہتر ہے۔ مکان والا مرمت نہیں کراتا تھا۔ بڑا پریشان کرتا تھا۔ فرش جگہ جگہ سے خراب ہے۔
چنانچہ دوسرے ہی روز مکان کی مرمت اور ترمیم کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ اب انہوں نے کیا کیا کہ اپنے مکان کی آرائش کا سامان تمام خریدنا شروع کیا۔ خوبصورت اور قیمتی شیشے لگائے گئے۔ غسل خانہ اور دوسرے مقامات پر چینی کے فرش کا انتظام کیا۔ بڑے بڑے چینی کے حوض غسل خانہ میں مع آبگرے کے فٹ کئے جانے لگے۔ میں کیسے بولتی، پرائے مکان کے معاملے میں۔ پھر بڑی بڑی قیمتی تصویریں لگائی گئیں اور دس روپیہ کرایہ زائد کرنے پر یہ طے ہوا کہ سامان فرش فروش میں اپنا سب نیلام کر دوں۔ مع پرانے فرنیچر کے اور اسٹول سے لے کر مسہری تک دکاندار کی ہو جائے۔ سودا اچھا تھا میں نے منظور کر لا۔ کہ اس طرح سامان نیلام کر دینے سے یک مشت رقم بھی کچھ مسٹر محسن کے قرضے کی طرف پہنچ جائے گی۔ سارے مکان کے لیے بالکل نیا اور بہترین فرنیچر منگا کر لگایا گیا۔ ہر قسم کی میزیں الماریاں آئینے وغیرہ سب آ گئے۔ جب سب درست ہو گیا تو ایک روز مسٹر محسن آئے اور بولے کہ دس روپیہ کرایہ اور بڑھنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ میری حیثیت سے باہر ہو جائے گا۔ آپ سے کس نے کہا تھا کہ یہ سب ترمیمیں کیجئے۔ چنانچہ مسٹر محسن بھی مذاق ہی کر رہے تھے۔ لیکن مکان میرا دیکھنے سا تعلق رکھتا تھا۔
اب یہاں میں یہ بھی ذکر کر دینا چاہتی ہوں کہ عوام نہ معلوم میرے اور محسن کے بارے میں کیا کیا خرافات بکتے تھے۔ مگر میں نے کبھی اس طرف توجہ تک نہ کی۔ نہ ضرورت تھی کیونکہ اس قسم کے خرافات کی طرف توجہ کرنا بالکل فضول تھا۔
(۶)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں ایک مریضہ کو دیکھنے چکر والی سڑک کی طرف گئی۔ انہوں نے بلایا تھا۔ انہیں کا موٹر تھا۔ موٹر تیزی سے جا رہا تھا۔ راستے میں وہ زمین پڑتی تھی جو میں نے جانسن ہسپتال کے لیے سوچ رکھی تھی۔ قدرتی امر ہے کہ اس زمین پر ضرور نظر پڑ جاتی تھی۔ شام کے کوئی چار بجے کا وقت تھا۔ میرا آنا اس طرف ایک مدت سے نہیں ہوا تھا۔ میں سناٹے میں آ گئی، کیا دیکھتا ہوں کہ سینکڑوں مزدور لگے ہیں اور ایک عالی شان عمارت نہیں بلکہ عمارتوں کا سلسلہ موجود ہے۔ مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ جیسے کسی نے سچ مچ میری اپنی زمین چھین لی ہو اور میرے ساتھ جو آدمی تھا اس سے پوچھا کہ یہ مکانات کون بنوا رہا ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ شاید سرکاری ہسپتال بن رہا ہے۔ میں عمارتوں کو اچھی طرح سے دیکھ بھی نہ سکی۔
مکان پر آئی تو مجھے اتنا صدمہ تھا کہ مضمحل ہو گئی۔ ٹھنڈی سانس میں نے بھری کہ افسوس یہ سب روپے کے کھیل ہیں۔ میں نے ایسی جگہ منتخب کی تھی کہ ہسپتال کے لیے بہترین جگہ تھی۔ مگر یہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ہسپتال کیسا بن رہا ہے۔ سننے میں بھی نہ آیا۔
میں اسی فکر میں مستغرق بیٹھی تھی کہ مسٹر محسن آ گئے۔ میں مالش کے لیے اٹھی تو میرے رنجیدہ چہرے کو دیکھ کر انہوں نے وجہ پوچھی۔ میں نے اول چاہا کہ ٹال دوں مگر پھر میں نے بتا دیا۔ وہ کہنے لگے کہ تم بھی عجیب آدمی ہو۔ ترکیب میں بتا سکتا ہوں۔ کرو نہ کرو تمہیں اختیار ہے۔ میں نے کہا وہ کیا۔ تو بولے مجھ سے قرض لے کر سب عمارتیں وغیرہ خرید لو۔ فیس میں منہا کرتی رہنا۔”
مجھے ایک دم ہنسی آئی او رمیں نے کہا۔ "بہت بہتر ہے۔ آپ گورنمنٹ کو لکھ کر مجھے دلا دیجئے۔ میں فیس میں آپ کا قرضہ ادا کر دوں گی۔”
وہ بولے۔ "تو کیا واقعی دلا دوں؟”
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” اور کیا؟ لکھو بس آج ہی جا کر۔”
"پھر تم اگر راضی نہ ہوئیں تب؟”
میں نے کہا۔ "مجھ سے تحریر لے لو۔۔۔”
"تحریر اور قسم دونوں۔۔۔۔ لکھو ایک تحریر اور قسم کھاؤ تو میں کل ہی تمہیں دلا دوں۔” ہنس کر بولے۔” لو قلم دوات۔”
میں نے اس دلچسپ مذاق کو نبھایا اور وہ بولتے گئے اور میں لکھتی گئی۔ میں نے بائبل کی قسم اور اپنی عزت و حرمت کی قسم کھا کر لکھا کہ مسٹر محسن مجھے یہ ہسپتال اگر قرض میں دلا دیں تو میں بخوشی لے لوں گی اور قرضہ فیس میں منہا ہوتا رہے گا۔”
یہ لکھ کر میں نے مسٹر محسن کو دیا اور ان کی داڑھی دار بشاش صورت دیکھ کر جو مجھے ہنسی آئی ہے تو میں بے دم ہو گئی۔” معاف کرنا مسٹر محسن۔” میں نے کہا۔ ” مجھے آج آپ کے اس "قرض اور فیس” اور ” قرض اور فیس سے ادائیگی” کے لطیفے پر اتنی ہنسی آ رہی ہے کہ بیان نہیں کر سکتی۔ بہتر ہے آپ مجھے کوئی پورا کا پورا ملک دلا دیں اور اس کی قیمت فیس میں کٹتی رہے گی۔ اب میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ انکار نہ کروں گی۔”
"انکار کیسے کر سکتی ہو۔” وہ بولے۔” میرے پاس تحریر ہے۔”
میں جلدی سے مالش کی بیگار ٹالنے لگی اور میں نے کہا کہ چلو آج ٹہلنے اسی طرف ہو آئیں۔ دیکھیں کہ کیسا ہسپتال بن رہا ہے۔ محسن صاحب نے پہلے تو ٹالا مگر جب میں نے اصرار کیا تو راضی ہو گئے۔
(۷)
ہم دونوں وہاں پہنچے۔ ایک ہی نظر میں مجھے کچھ شبہ سا ہوا۔ ایں! دونوں بنگلے۔ اب میں جس عمارت اور جس کمرے کو دیکھتی ہوں بالکل میرا نقشہ تھا۔ میں نے کہا مسٹر محسن یہ کیا معاملہ ہے۔ مغرب کا وقت تھا اور کوئی نہ تھا۔ سب راج مزدور جا چکے تھے۔ ہسپتال کے کمرے جو دیکھے تو میں ہکا بکا کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
مسٹر محسن نے کہا۔ "کیوں؟ اس قدر کیوں گھبرا رہی ہو؟” میں نے کہا۔ "یہ کیا معاملہ ہے کہ آپریشن تھیٹر، گیلریاں، ڈسپنسنگ روم وغیرہ وغیرہ سب میرے نقشے کے مطابق ہیں۔”
وہ بولے۔” تو آخر تعجب کونسا ہے۔ کوئی اپنا نقشہ کمپنی سے آپ نے رجسٹر تو کرا نہیں لیا تھا۔ ہسپتالوں کے نقشے ایک سے ہوتے ہیں۔ جس فرم سے آپ نے اپنا نقشہ منگا یا ہو گا۔ اسی فرم سے اس ہسپتال کا نقشہ بھی آیا ہو گا۔ یہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔”
میں نے کہا۔ "مگر میرا تو دل بیٹھا جا رہا ہے۔ میں تو صدمے سے نڈھال ہوئی جا رہی ہوں کہ ہائے میری تمناؤں کا یوں خون ہو رہا ہے۔ میرے۔۔۔”
بات کاٹ کر مسٹر محسن بولے۔”عجیب شخص ہو تم۔ آخر خرید تو رہی ہو نا تم قرض۔ تم کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ ہو بہو نقشہ مل گیا۔ اور اس سے زیادہ کیا چاہتی ہو؟”
میں نے غور سے مسٹر محسن کی طرف دیکھا۔ سنجیدگی کے ساتھ مذاق کرنا شاید اس داڑھی دار شخص کا حصہ تھا۔ میں نے تیز ہو کر کہا۔ "بھلے مانس۔ میرا خواب خیال ہو کر رہ گیا اور تمہیں اپنی سوجھی ہے۔ بڑے دھنا سیٹھ بنتے ہو، لاؤ دلاؤ قرض اس ہسپتال کو۔ میں تو صدمے میں مری جا رہی ہوں۔”
تیز ہو کر وہ بولے۔ "تو لے بھی لو تم۔ بس لے لو۔ اپنا سمجھو۔ قرض رہا۔ کل میں تمہیں دلا دوں گا۔”
"فضول وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔” میں نے کہا۔ "مجھے صدمہ ہو رہا ہے اور میں اب اس جگہ ایک منٹ نہیں ٹھہر سکتی۔”
یہ کہہ کر میں چلی اور مسٹر محسن میرے ساتھ ہنستے ہوئے آئے۔ انہوں نے بہت روکا کہ اچھی طرح دیکھ تو لو۔ مگر میں نے سڑک پر آ کر دم لیا۔
ہم دونوں ساتھ ساتھ آئے۔ مکان پر آ کر میں نے چائے تیار کرائی۔ مسٹر محسن تھوڑی دیر باتیں کر کے چلے گئے۔ لیکن مجھے رات بھر اس کا صدمہ رہا۔
دوسرے دن مسٹر محسن آئے اور مجھ سے کہا کہ گھبراؤ مت ہسپتال جلد تمہیں قرض میں مل جائے گا۔ میں نے کہا کہ اب یہ مذاق ختم کرو۔ چنانچہ یہ مذاق ختم ہوا اور میں نے اس ہسپتال کا ذکر تو بڑی بات ہے، خیال تک چھوڑ دیا۔ کسی سے دریافت تک نہ کیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور کچھ عرصہ بعد اس کا خیال بھی جاتا رہا۔
اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا مگر مسٹر محسن ہنوز زیر علاج تھے۔ ان کا روز ایک ہی معمول تھا۔ ایک روز شام کو ایک موٹر آ کر رکا اور اس میں سے وہ اترے۔ مجھ سے خوش ہو کر بولے۔ "دیکھو موٹر لیا ہے۔” میں موٹر دیکھنے آئی۔ بالکل نیا موٹر تھا۔ کس قدر خوبصورت تھا۔ کہنے لگے۔ ساڑھے تین ہزار میں آج ہی لیا ہے۔ میں نے اس کی بہت تعریف کی تو مسکرا کر بولے کہ "لے لو اسے تم۔۔۔ قرض۔۔۔ فیس میں چکا دینا اسے بھی۔”
میں نے بھی ہنس کر کہا "ضرور” پھر میں نے کہا کہ "جب تک اس پر سیر نہ کی جائے کیا پتہ چلے۔” وہ بولے۔ "اسی وجہ سے تو میں لایا ہوں۔ آؤ چلو نا گھوم آئیں۔” میں نے کہا۔ "بہت ٹھیک۔” جلدی سے گئی اور دم بھر میں آ گئی۔ ہم دونوں موٹر میں آ کر بیٹھ گئے اور ڈرائیور نے بغیر پوچھے کہ کہاں جانا ہے، موٹر کو زور سے چھوڑ دیا۔
موٹر پوری رفتار سے چکر والی سڑک پر جا رہا تھا۔ ہسپتال پر آیا۔ میں نے اپنے خواب کو مکمل صورت میں دیکھا۔ مسٹر محسن نے ڈرائیور کو اشارہ کیا اور وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ مسٹر محسن نے کہا۔ "ایک دفعہ تو اس کو اور دیکھ لو۔” میں اتری اور میں نے اب اس کو غور سے دیکھا۔ کمرے کمرے کا معائنہ کیا۔ صفائی ہو کر قلعی ہو چکی تھی اور ہسپتال بالکل تیار تھا۔ میں نے محسن صاحب سے کہا کہ "یہ کیا معاملہ ہے۔ اب تک اس ہسپتال کا کہیں ذکر تک سننے میں نہیں آیا۔” محسن صاحب نے کچھ اور ہی بات کہی وہ یہ کہ انہوں نے گفت و شنید کر کے سب معاملہ طے کر لیا ہے۔ اتنے میں ایک چوکیدار برابر سے آیا اور اس نے جھک کر مودبانہ سلام کیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ "تم کس کے نوکر ہو؟”
اس کے جواب میں چوکیدار نے کہا۔ "حضور آپ ہی کا ملازم ہوں۔”
اس چوکیدار کی تمیز کو پسند کرتے ہوئے میں نے کہا۔ "مگر تم کس کے نوکر ہو۔ یہ ہسپتال کس کا ہے۔”
چوکیدار نے اسی مودبانہ لہجہ میں کہا۔ "حضور میں آپ کا ہی نمک خوار ہوں اور یہ سب آپ کا ہی ہے۔”
"بدتمیز” میں نے ایک دم سے بگڑ کر کہا۔ "گستاخ تم مذاق کرتے ہو۔ ہم پوچھتے ہیں تم کس کے نوکر ہو؟”
گھبرا کر چوکیدار نے ہاتھ جوڑ کر مسٹر محسن کی طرف اشارہ کر کے کہا۔ "حضور مالک آپ کے ساتھ ہی ہیں۔ ہسپتال بھی انہی کا ہے اور میں بھی انہی کا اور میں تو حضور آپ سب کا نمک خوار ٹھہرا۔”
میں نے مسٹر محسن کی طرف دیکھا اور اس نے سامنے والے درخت کی طرف۔ ایک دم سے جیسے واقعات بجلی بن کر میرے سامنے کوند گئے۔ مںر سناٹے میں آ گئی۔ اس قدر گھبرائی کہ بیان سے باہر۔ کس مشکل سے میں نے اپنے شبے کی تصدیق مسٹر محسن سے کی۔
نظریں نیچی کر کے میں نے مسٹر محسن سے کہا۔ "آپ نے مجھ سے دو دن کے لیے نقشہ لیا تھا۔۔۔ یہ آپ نے بنوایا ہے؟”
"آپ قرض لے لیجئے گا۔” مسٹر محسن نے اپنی داڑھی کریدتے ہوئے کہا۔ "فیس میں ادا ہوتا رہے گا۔”
"مسٹر محسن” میں نے تیز ہو کر کہا۔ "اس سے آپ کا کیا مطلب ہے۔۔۔ کیا آپ نے مجھے ذلیل کرنے کا ارادہ کیا ہے؟۔۔۔ آپ نے آخر یہ کیوں بنوایا؟۔۔۔ کتنا روپیہ اس میں لگا ہے؟”
"بیالیس ہزار۔” مسٹر محسن بولے۔
"بیالیس ہزار!” میں نے چوٹ کھا کر کہا۔ "پھر اب۔۔۔ میں تو ہرگز اس کو نہ لوں گی۔”
"میں خود ڈاکٹری پڑھنے جانے والا ہوں۔” مسٹر محسن نے کہا۔ "اور پھر آپ لے لیجئے نا اس کو قرض۔۔۔ آپ تو وعدہ کر چکی ہیں۔۔۔ وہ قسمیہ تحریر۔”
میں یہ سن کر بے قابو ہو گئی۔ سیدھی دوڑتی ہوئی موٹر پر پینچ۔ مسٹر محسن بھی آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا اور رومال مٹھی میں لے کر یکسوئی سے دوسری طرف دیکھنے لگی۔ موٹر روانہ ہو گئی۔
"قرض لے لیجئے اور آپ سب فیس میں ادا کرتی رہیے گا۔” مسٹر محسن نے کہا۔ مگر میں خاموشی رہی۔ بالکل خاموش۔ مکان کے سامنے موٹر رکا اور میں بغیر اس کا انتظار کیے کہ مسٹر محسن اتر کر موٹر کا دروازہ کھولیں۔ تیزی سے خود اتر کر ڈرائنگ روم میں سیدھی چلی گئی۔ خدا کی پناہ! مجھے کس قدر زبردست صدمہ پہنچا تھا۔ میں صوفے پر کونے میں منہ دے کر بیٹھ گئی۔ میں نے بہت ضبط کیا تھا۔ مگر بیکار تھا۔ رومال سے منہ چھپا کر میں صدمے سے نڈھال ہو گئی۔
میں نے کچھ آہٹ سنی۔ دیکھا تو مسٹر محسن داخل ہوئے۔ سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ مجھے وہ غور سے دیکھتے رہے۔ میں نے ہمت کر کے اور کچھ غصے سے مسٹر محسن کی طرف دیکھ کر کہا۔
"آپ نے میرے ساتھ بہت زیادتی کی۔ آپ نے ہسپتال کیوں بنوایا؟”
وہ بولے۔” میری دانست میں ہر شخص کو اختیار حاصل ہے کہ اپنی زمین پر جی چاہے اس کا ہسپتال بنوائے اور جی چاہے پاگل خانہ بنوائے۔ لیکن میں نے اس خیال سے بنوایا کہ آپ کو قرض دے دوں گا۔ اب تک قرض آپ کو دیتا چلا آیا ہوں کہ مجھ سے آپ سے دشمنی پیدا ہو جائے۔ "قرض مقراض محبت است۔” چنانچہ یہی توقع لگی ہوئی ہے کہ یہ قینچی جلدی چلے۔ اب میں جاتا ہوں، کل کاغذات یعنی دستاویزات بھیج دوں گا اور آپ بیالیس ہزار روپیہ کی رسید لکھ دیجئے گا کہ میں نے مسٹر محسن سے یہ روپیہ قرض لیا ہے اور فیس میں ادا کر دوں گی۔ اب میں جاتا ہوں۔۔۔۔ مگر ہاں کبھی آپ نے یہ بھی غور کیا کہ وہ بڈھا جھوٹا نکل گیا۔ بے ایمان۔”
"کون بڈھا؟” میں نے پوچھا۔
"وہی” انہوں نے اس خوبصورت چوکھٹے کی طرف اشارہ کیا جس پر لکھا تھا کہ "قرض مقراض محبت است” پھر بولے۔ "اس نے ٹھگ ہم دونوں کو۔۔۔ اچھا میں جاتا ہوں۔۔۔ خدا حافظ۔”
یہ کہہ کر مسٹر محسن جیسے غائب ہو گئے۔ میں عجیب پس و پیش میں پڑ گئی۔ یا اللہ ا ب میں کیا کروں۔ میں بڑی دیر تک سوچتی رہی۔ ایک دم سے مجھے خیال آیا۔ کرسی دیوار کے نزدیک کر کے میں نے اس خوبصورت چوکھٹے کو اتارا۔ اس کو میز پر رکھ کر ایک بڑی سی ہتھوڑی لائی اور یہ کہہ کر زور سے اس پر ہتھوڑی ماری کہ "غلط بالکل غلط” بلکہ "قرض بنیاد محبت است۔”
ادھر ہتھوڑی لگنے کے ساتھ زور سے میں نے بلند آواز سے یہ کہا اور ادھر ایک دم سے کمرے میں مسٹر محسن داخل ہوئے اور انہوں نے کہا۔ "بالکل سچ کہتی ہو!”
آئینہ کھیل کھیل پڑا تھا۔ ہتھوڑی میرے ہاتھ میں تھی اور سامنے مسٹر محسن کھڑے تھے۔ میں جیسے عرق عرق ہو گئی، اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچی۔
اس کے بعد پھر کیا ہوا؟ اس سوال کا جتنا پوچھنا فضول ہے اس سے زیادہ بتانا۔ سوائے اس کے کہ "قرض بنیادِ محبت است۔”
٭٭٭
فرزندِ سرحد
افغانستان اور ہندوستان کی سرحد جہاں ملتی ہے وہاں دونوں ملکوں کے بیچ میں آزاد علاقہ ہے کہ جس کو علاقہ غیر کہتے ہیں۔ اس علاقے پر نہ تو انگریزوں کی حکومت ہے اور نہ افغانوں کی بلکہ یہ علاقہ صحیح معنوں میں آزاد ہے۔ اس علاقے کا ہر شخص اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا ہے اور اپنے فعل کا خود ذمہ دار اور مختار ہے۔ اس علاقے میں اسی کی چلتی ہے جس کے بازوؤں میں زور ہے اور "جس کی لاٹھی اس کی بھینس” والی کہاوت یہیں صادق آتی ہے۔ اگر تم کمزور ہو اور تمہیں کسی نے مارا تو کوئی پولیس کا تھانہ نہیں جہاں رپٹ لکھائی جائے۔ اگر بس چلے تو تم اپنے دشمن کو مار ڈالو اس کے دوست اور عزیز اگر اتنے ہیں کہ تم سے بدلے کی ہمت رکھتے ہیں تو تمہاری خیر نہیں ورنہ کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔
اسی آزاد علاقے کا ذکر ہے کہ اس میں گل محمد خان نامی ایک نوجوان رہتا تھا اور اس کے پڑوس میں ایک مرغی کے چوزے پر لڑائی ہو گئی۔ سوال یہ تھا کہ گل محمد کو کیا اختیار حاصل تھا کہ اس نے پڑوسی کے چوزے کی دم اکھاڑ لی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ گل محمد ادھر سے اپنا خنجر لے کر دوڑا اور ادھر سے پڑوسی رائفل لے کر دوڑا، گو کہ گولی گل محمد خان کی ران میں لگی مگر اس نے اپنا خنجر اپنے دشمن کے سینے میں قبضے تک اتار دیا۔ گل محمد بالکل اکیلا تھا یعنی اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یا عزیز نہ تھا یہ محض اپنی قوت بازو پر نازاں تھا حالانکہ کم عمر تھا مگر چھ فٹ کا قد تھا اور دیو کی سی طاقت رکھتا تھا۔ چونکہ پڑوسی کے عزیز و اقارب بہت سے تھے، وہ سب کے سب اس کے گھر پر چڑھ آئے۔ رات کو اندھیرے میں نہ معلوم کس طرح یہ اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر میں سے زخمی ران پر پٹی باندھ کر بھاگا۔ ایک عرصے تک چھپا چھپا رہا، یہاں تک کہ پشاور کے مشن ہسپتال تک پہنچا، وہاں اس کا زخم اچھا ہو گیا۔ اس کے بعد وہ اپنے علاقے میں واپس نہ ہو سکا مبادا اس کے دشمن اس کو مار ڈالیں۔ کچھ دن پشاور میں ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا لیکن آخر کار لاہور کے ایک بڑے انگریزی ہوٹل میں ایک جان پہچان کے ذریعے سے اس کا ٹھکانا ہو گیا کہ مسافر جو آتے ان کا اسباب اٹھا کر ہوٹل سے گاڑی پر لے جاتا یا گاڑی سے ہوٹل کے میں لے جاتا اور اسی پر گزر اوقات کرتا۔
بہرام جی بمبئی کے ایک لکھ پتی سیٹھ تھے اور علاوہ اور کاروبار کے لکڑی کی بھی تجارت کرتے تھے۔ جمرود کے علاقے سے لکڑی خریدتے تھے۔ اسی سلسلے میں پشاور سے لاہور آئے تھے اور اسی ہوٹل میں مقیم تھے۔ گل محمد خان کی وہ مزدوری ادا کر رہے تھے، دو چار آدمی اور بھی کھڑے تھے کہ دیکھتے دیکھتے ایک دم سے ایک خونی بیل نے احاطے میں گھس کر ان لوگوں کی طرف حملہ کیا۔ اور تو سب بھاگ گئے مگر بہرام جی اور اس کی بڑی لڑکی لڑکھڑا کر گر پڑی، شاید ایک ہی ٹکر میں وہ بیل ان کا خاتمہ کر دیتا مگر گل محمد خان نے دوڑ کر سیٹھ اور ان کی لڑکی کو اس طرح بچایا اور ہمت کر کے بیل کے اس زور سے سیدھے ہاتھ سے مکا مارا کہ شاید بیل کی آنکھ پھوڑ ڈالی اور وہ بری طرح بھاگا۔ بہرام جی جب کپڑے جھاڑتے ہوئے اٹھے اور اپنی لڑکی کو صحیح و سالم پایا تو ذرا ہوش بجا ہوئے۔ لڑکی سہمی ہوئی کھڑی تھی، چہرہ زرد تھا۔ اس نے اپنے باپ کے کندھے کو پکڑ کر سہارا لیا۔ گل محمد خان اس طرح کھڑا تھا جیسے کچھ ہو ا ہی نہیں۔ وہ اپنی مزدوری مانگ رہا تھا۔ اس نے کہا:” چار آنے دے دیجئے۔”
بہرام جی کی لڑکی نے باپ سے کہا کہ ” اس نے میری جان بچائی ہے۔ اس کو کچھ انعام دینا چاہیے۔”
سیٹھ نے بھی کہا:” ہاں دینا چاہیے ” اور پانچ روپے کا ایک نوٹ یہ کہہ کر حوالے کیا کہ ” لو یہ تمہارا انعام ہے۔”
گل محمد خان نے منہ بگاڑ کر کہا:” ہم نے تمہیں انعام کے لیے نہیں بچایا تھا، ہم انعام نہیں لیں گے۔ ہماری مزدوری لاؤ۔”
سیٹھ بہرام جی نے شاید یہ خیال کر کے کہ پانچ روپے بہت کم ہیں، نوٹ واپس لے کر دس روپے کا نوٹ دیا۔ گل محمد خان نے نوٹ کو غصہ سے زمین پر پھینک دیا اور تھوک کر نہایت ہی غصہ سے کہا: "ہم انعام نہیں لیتے، ہم نے انعام کے لالچ سے نہیں بچایا، ایک مرتبہ کہہ چکے ہماری مزدوری لاؤ۔”
سیٹھ نے تعجب سے لڑکی کی طرف دیکھا اور لڑکی نے سیٹھ کی طرف۔ نوٹ اٹھا لیا اور گل محمد خان کو پیسے دے کر رخصت کیا۔ باپ اور بیٹی دونوں کمرے پر آئے وہاں سیٹھانی سے سارا قصہ بیان کیا۔ گل محمد خان کی طبیعت پر سب کو تعجب تھا۔ وہ غریب معلوم ہوتا تھا کہ اس کے پاس ٹھیک سے کپڑے بھی نہیں تھے، مگر پھر بھی اس نے انعام نہ لیا۔
بمبئی میں سیٹھ لوگ عموماً پشاوریوں اور سرحدیوں کو دربان کے طور پر ملازم رکھتے تھے۔ علاوہ وفادار ہونے کے ان کی سخت مزاجی اور کرختگی ان کو اس کام کے لیے اور بھی موزوں بنا دیتی تھی۔ بہرام جی کا عرصے سے خیال تھا کہ اپنے دفتر کے لیے کوئی پٹھان تلاش کرے، یہاں گل محمد خان موجود تھا۔ اس سے بہتر دوسرا شخص ملنا نا ممکن تھا۔ گل محمد سے جب اس معاملے پر بلا کر گفتگو کی تو وہ راضی ہو گیا، طے یہ ہوا کہ دفتر ہی پر دن رات رہنا ہو گا، روپہ روز تنخواہ مقرر ہوئی اور ایک آنہ روز چائے حقہ وغیرہ کے لیے۔ خان بھائی راضی ہو گئے۔
بمبئی پہنچ کر گل محمد خان کے ٹھاٹھ بدل گئے۔ کوئی ڈیڑھ انچ موٹے چمڑے کی ایک چپل پہنے اور ایک ثابت مگر میلی شلوار اور ایک سیاہ رنگ کی واسکٹ پہنے اور سر پر ساڑھے تین گز کا چو خانے کا صافہ پشاوری کلاہ کے اوپر باندھے، ایک مونڈھے پر بیٹھے بیڑی پیتے رہتے تھے۔ مونڈھا سیٹھ بہرام جی کے صدر دفتر کے آگے پڑا رہتا تھا۔ گل محمد خان کی طبیعت ہی میں سختی اور تلخ مزاجی موجود تھی، اگر بیڑی بجھ جاتی یا دیا سلائی نہ جلتی تو خان کو جلال آ جاتا۔ ایک روز یہ بیٹھے ہوئے دیا سلائی جلا رہے تھے کہ کسی نے آ کر ان سے پوچھا کہ کیا بجا ہو گا۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اس زور سے اس کے گال پر تھپڑ مارا کہ اس کا منہ پھر گیا۔ اسی طرح ایک آدمی نے ان سے دیا سلائی مانگی، اسے بھی سزا دی۔ ہر وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ خان صاحب کی منہ میں کونین گھلی ہوئی ہے۔ تھوڑے ہی دنوں میں آس پاس کے لوگ جان گئے کہ یہ آدمی نہیں بلکہ جن ہے۔ بہرام جی اپنے دربان کے خونخواری سے مطمئن تھے کیونکہ ان کو واقعی ایسا ہی شخص چاہیے تھا جو ایسی ہی سختی کرتا رہے کہ کسی چور بدمعاش کی دفتر کی طرف رخ کرنے کی ہمت ہی نہ پڑے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ خان صاب بیٹھے ہوئے تھے کہ سیٹھ نے ان کو آواز دی۔ سیٹھ نے ان کو طلب کر کے کہا:” ہم نے تم کو کیا اس لیے رکھا ہے کہ جس کا جی چاہے دفتر میں گھس آئے اور ہمیں تنگ کرے۔”
واقعہ یہ ہے کہ ایک نوجوان متلاشی روزگار سیٹھ جی کے دفتر میں موقع پا کر گھس آیا۔ گل محمد خان پانی پینے میں لگا تھا اس نے دیکھا نہیں۔ سیٹھ جی نے بہت کچھ کہا کہ ہمارے دفتر میں کوئی جگہ نہیں مگر غرض باؤلی ہوتی ہے وہ اس وقت تک نہ گیا جب تک سیٹھ کا اس نے کافی وقت نہ خراب کر لیا۔
گل محمد خان نے اس کو دفتر میں جاتے تو نہیں دیکھا تھا مگر نکلتے دیکھا تھا وہ خونی باز کی طرح دفتر سے نکل کر جھپٹا اور اگلے موڑ پرٖ غریب امیدوار کی گردن دابی۔ مارے غصے کے گل محمد کا چہرہ آگ ہو رہا تھا۔ وہ گھسیٹ کر سیٹھ کے سامنے اس کو لے آیا اور مارنا شروع کاس۔ ہائیں ہائیں کر کے سیٹھ نے اس کو چھڑایا اور بڑی مشکل سے قصہ رفع دفع ہوا۔ اب گل خان کا قاعدہ ہو گیا کہ دفتر کے دروازہ پر ایسا پہرہ رکھتا تھا کہ مجال نہ تھی کوئی گھس تو جائے۔ سیٹھ جی اس بات سے بہت خوش تھے مگر اتفاق کی بات ایک روز خود ان کا بھتیجا دفتر میں بغیر خان کی اجازت کے داخل ہونے لگا، خان نے تیزی سے اٹھ کر اس کو روکا تو اس نے سختی سے ڈپٹا، نتیجہ یہ ہوا کہ چشم رون میں اس کو خان نے دے مارا اور گلا گھونٹنا شروع کیا اور بہت ممکن تھا کہ وہ مر جاتا اگر بہرام جی نے اس کو نہ چھڑا لیا ہوتا۔ ایک تو یہ واقعہ ہوا دوسرے ایک اور انگریز کا واقعہ ہوا جس کو دفتر میں گھسنے کی پاداش میں خواہ مخواہ گل محمد خان نے گھسیٹا۔ مجبوراً سیٹھ کو ضرورت پڑی کہ اپنے دربان کو نرمی کی صلاح دے۔ دراصل بہرام جی بہت ہوشیار آدمی تھا اور وہ گل محمد خاں کو کسی اور ہی کام کے لیے لایا تھا۔
جس وقت ۲۰ء والی گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون شباب پر آئی تو مثل اور مقامات کے بمبئی میں بھی ہنگامے ہوئے۔ شراب کی دکانوں پر پکٹنگ ہوا جو آج کا کے پکٹنگ سے بالکل مختلف تھا۔ اس زمانے میں شرابی بدمعاش اور لفنگے شراب کی دکان پر شراب کے لیے پہنچنے اور بہت جلد ہنگامہ کر کے دکان میں گھسے پڑتے، ریزگاری اور نقد لوٹ لیتے اور شراب کی بوتلیں کھول کر خود پیتے، توڑتے، پولیس کیا کر سکتی تھی۔ بہرام جی کی بھی شہر میں بڑی شراب کی دکان تھی۔ اس کو بند کرنے سے ہزاروں کا نقصان ہوتا تھا، لہٰذا بہرام جی نے گل محمد کان کو صدر دفتر سے شراب کی دکان پر منتقل کر دیا۔ تنخواہ ایک روپیہ روزانہ کے بجائے دو روپے روزانہ کر دی۔ شراب کی دکانوں کے خلاف شور و غل بہت بڑھا اور سب دکانیں بند ہو گئیں یا لوٹ لی گئیں۔ اس وقت بہرام جی کی دکان کھلی ہوئی تھی، لوگوں کو خبر لگی اور شرابی اور لفنگے شراب لوٹنے کی فکر میں لڑائی اور فساد کرنے کی نیت سے دکان پر حملہ آور ہوئے۔ گل محمد خان نے اول تو دکان بند نہ کرنے دی، حالانکہ منیجر کا دم نکلا جا رہا تھا کہ کہیں ہنگامہ میں علاوہ دکان لٹ جانے کے میری جان بھی نہ جاتی رہے اور پھر حملہ آوروں کا ایسی سختی سے تن تنہا مقابلہ کیا کہ دو کو مہلک طور پر خنجر سے زخمی کیا اور تین چار کو ویسے مارا۔ پولیس کی امداد آ گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس کے بعد پھر کسی کی ہمت نہ پڑی جو بہرام جی کی دکان سے تعرض کرتا۔ دو ایک مرتبہ اور مجمع ہوا مگر گل محمد خاں کے تیور دیکھ کر ایک ایک کر کے سب چل دیے کیونکہ دکان مذکور سے سیٹھ کو بے حساب آمدنی تھی اس نے گل محمد خاں کے دو روپے یومیہ کے بجائے تین روپے یومیہ کر دئیے کیونکہ گل محمد خاں شراب کی دکان پر پہرہ دینا برا خیال کرتا تھا اور بڑی مشکل سے سیٹھ نے یہ کہہ کر اس کو راضی کیا تھا کہ تم دکان پر پہرہ تھوڑے ہی دیتے ہو بلکہ ہمارے روپے پر پہرہ دیتے ہو جو وہاں موجود ہے۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ گل محمد خان شام کے وقت جب کہ صدر دفتر سیٹھ کا بند ہو چکا تھا شراب کی دکان سے کسی کام کے لیے روانہ ہوا اور راستہ کاٹ کر صدر دفتر پر اس نیت سے پہنچا کہ سیٹھ سے کچھ بات چیت کرے۔ وہاں دفتر بند تھا لیکن دفتر کے دروازے کی چوکھٹ کے پاس اس کو ایک بڑا سا بنڈل پڑا ملا۔ اس بنڈل کو اس نے دیکھا تو سو سو روپے کے نہ معلوم کتنے نوٹ تھے۔ اس نے خیال کیا کہ سیٹھ کے ہوں گے اور سوچ کر ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ کیا کروں، دفتر کی ایک کھڑکی کے اوپر چھٹی سی بیضاوی شکل کی ایک اور کھڑکی بطور روشن دان کے تھی۔ اس میں اس نے کھڑکی کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر وہ نوٹوں کا پلندہ رکھ دیا اور پھر بجائے سیٹھ کے یا اور کسی کو اطلاع کرنے کے وہ اپنے فرائض منصبی سے فارغ ہو کر سونے چلا گیا۔
واقعہ دراصل یوں تھا کہ دفتر بند کر کے سیٹھ جلدی میں نوٹوں کی گڈی یہاں بھول گیا تھا۔ نوٹ اسی ہزار کے تھے اور وہ گھر لے جا رہا تھا، جب گھر پہنچا تو نوٹ یاد آئے، فوراً موٹر دوڑا کر دفتر واپس آیا اور نہ پایا کیونکہ تھوڑی ہی دیر پہلے گل محمد خاں نوٹوں کو روشندان میں رکھ گیا تھا۔ پولیس میں رپٹ درج کرائی اور بہت کچھ دوڑ دھوپ کی مگر گل محمد خاں کی طرف خیال بھی نہ گیا اور نہ جانا چاہیئے تھا کیونکہ اس کا ہاں پہنچنا ہی بعید از قیاس تھا۔ گل محمد خاں بھول گیا لیکن دوسرے روز جب شراب کی دکان کے منیجر نے تذکرے کے طور پر گل محمد خاں سے کہا تو گل محمد خاں کو یا آیا۔ گل محمد خاں نے نہایت ہی سادگی سے کہا کہ ٹیلی فون سے سیٹھ سے کہہ دو کہ نوٹ فلاں فلاں جگہ رکھے ہیں۔ منیجر ہکا بکا رہ گیا ور گل محمد خاں کو حیرت سے دیکھنے لگا مگر گل محمد خاں نے نہایت ہی لا پرواہی سے پھر کہا کہ نوٹ میں سے فلاں فلاں جگہ پر رکھ دئیے ہیں۔ منیجر بوکھلایا ہوا ٹیلی فون پر گیا اور سیٹھ کو راز سے آگاہ کیا اور واقعہ بتایا۔ سیٹھ نے نوٹ گنے اور پورے پائے۔ ظاہر ہے کہ سیٹھ کا مارے تعجب کے کیا حال ہوا ہو گا۔ فوراً موٹر میں بیٹھ کر شراب کی دکان پر پہنچا، گل محمد خاں مزے میں بیٹھے بیڑی پی رہے تھے، جیسے کوئی غیر معمولی بات ہی نہیں ہوئی ہے۔ سیٹھ نے پہنچ کر مفصل کیفیت دریافت کی اور سب سے زیادہ گل محمد خاں کی اس لا پرواہی پر تعجب کیا کہ روشندان میں رکھتے وقت یہ نہ سوچا کہ سڑک پر سے کوئی دیکھ لے گا کہ کوئی چیز رکھی جا رہی ہے۔ سیٹح نے خوش ہو کر ایک سو روپے کا نوٹ گل محمد خاں کو دیا۔ گل محمد خاں کا مارے غصے کے برا حال ہو گیا اور اس کے منہ سے تھوک اڑنے لگا۔ اس نے برہم ہو کر نوٹ پھینک دیا اور ڈپٹ کر اپنے آقا سے کہا: "سیٹھ کیا ہم چور ہیں، ہم چور نہیں ہیں۔” سیٹھ کو اپنے ایماندار ملازم کو لاہور والی بات یاد آ گئی۔
گل محمد خاں کی اب حالت اور تھی، کلابتوں کے کام کا جاتا اور واسکٹ سے کم نہ پہنتا تھا۔ کپڑے بھی صاف تھے، منہ پر عمدہ قسم کا تیل ملا رہتا تھا اور نوخیز ڈاڑھی اور سر کے پٹھے بھی مرغن رکھتا تھا۔ روزانہ تین روپے نقد صبح دکان سے اس کو مل جاتے تھے اور شام تک وہ خرچ کر کے برابر کر دیتا تھا۔ اسے دنا و مافیہا کی کوئی فکر نہ تھی۔
رفتہ رفتہ وہ زمانہ آیا کہ مہاتما گاندھی کی تحریک نان کو آپریشن کو شکست ہوئی اور ساتھ ہی گل محمد خاں کی شراب کی دکان کی تعیناتی سیٹھ کو تین روپے یومیہ پر فضول معلوم دی۔ مگر جب گل محمد خاں نے یہ سنا کہ سیٹھ اس کے ساتھ یہ ظلم کرنا چاہتا ہے کہ پھر اس کو ایک روپیہ یومیہ دے تو وہ سیٹھ پر برس پڑا۔ اس نے اپنی تمام خدمات یاد دلائیں۔ لیکن تجارت پیشہ تو تجارت پیشہ ہوتا ہے وہ ایسی باتیں تو فروعی خیال کرتا ہے، وہ راضی ہونا تھا نہ ہوا۔ گل محمد خاں بھی جان پر کھیل گیا اور اس نے صاف صاف سیٹھ سے کہہ دیا کہ اگر تم مجھے تین روپے یومیہ نہ دو گے تو میں تم کو قتل کر دوں گا۔ اس خوشگوار وعدے کو سنتے ہی سیٹھ کا کلیجہ منہ کو آ گیا، وہ قطعی جانتے تھے کہ گل محمد خاں جو کہتا ہے وہ کر گزرے گا خواہ بعد میں اس کو پھانسی ہی کیوں نہ ہو جائے، مجبوراً سیٹھ خاموش ہو گیا لیکن چونکہ آدمی ہوشیار تھا گل محمد خاں سے اب اس نے دوسرا ہی کام لینا شروع کیا۔ تاکید کر کے اس کو کپڑے صاف پہنائے، بیس روپے کی ترقی کی اور ایک دو سو روپے ماہوار کا کلرک علیحدہ کر دیا۔ گل محمد خاں کے سپرد اب یہ کام تھا کہ ہزاروں روپے کا سیٹھ کی طرف سے لینا دینا تھا، لکڑی کی تجارت کے سلسلے میں لاکھوں لٹھے خریدے اور بیچے جاتے تھے، ان کی خرید و فروخت کے موقع پر دوسرے کلرکوں کی نگرانی رکھے کہ کہیں گنتی سے زیادہ خریدار کی گاڑیوں پر نہ لدوا دیں۔ اس سلسلے میں گل محمد خاں نے نہ معلوم کتنے کلرکوں اور قلیوں اور بے ایمان خریداروں کو پکڑا ہی نہیں بلکہ بہت مارا بھی اور بہت جلد سیٹھ کو معلوم ہو گیا کہ گل محمد خاں اب تین سو ماہوار کے ملازم سے بھی زیادہ کام کر رہا ہے۔ لاکھوں روپے بغیر رسید کے یوں ہی گل محمد خاں کے بھروسے پر سیٹھ پٹک دیتا مگر کمی نہ ہوتی، جہاں ایمانداری کا کم ہوتا وہاں یا تو سٹھغ خود جاتا یا گل محمد خاں کو بھیجتا۔ گل محمد خاں کو بھی یہ نیا کام پسند آیا اور رفتہ رفتہ وہ معاملے کی گفت و شنید کے سلسلے میں سیٹھ کی طرف سے فریق ثانی سے گفتگو کی نگرانی کرتا اور بعض اوقات بطور ایجنٹ کے مقرر ہوتا اور باوجود جاہل ہونے کے معاملے کو خوب سمجھتا یہ ناممکن تھا کہ وہ موجود ہو اور سیٹھ کا کوئی نمک حرام ملازم گفت و شنید کے سلسلے میں فریق ثانی سے کسی طرح بھی کوئی ساز باز کر سکے۔ وہ دراصل معاملے کو خوب سمجھ کر جاتا تھا اور محنت سے کام کرتا تھا۔ دو سال کے عرصے میں سیٹح نے اس کی تنخواہ ڈیڑھ سو کر دی اور قریب قریب تمام ذمہ داری کے کام اس کے سپرد کر دئیے۔
اپنے فرائض منصبی کے سلسلے میں گل محمد خاں کو ایک بڑے انگریزی کارخانے میں جانا پڑا۔ گل محمد خاں کو بھلا اس کی کب پروا تھی کہ دفتر میں آہستہ بولنا چاہیے یا کہ منیجر ابھی نہیں مل سکتا۔ اس نے جاتے ہی زور سے کہا: "منیجر کہاں ہے؟”
ایک چپراسی فوراً دانتوں سے زبان دبا کر بولا: "آہستہ بولئے منیجر صاحب اس وقت غصے میں ہیں۔”
"ہم بھی غصے میں ہیں۔” ہنس کر گل محمد خاں نے کہا۔ "وہ کہاں ہیں؟”
چپراسی نے گھبرا کر خاموش کیا اور کہا "ابھی اطلاع کرتا ہوں۔” گل محمد خاں نے سنا کہ منیجر اپنے دفتر میں کسی پر خفا ہو رہا ہے۔ چپراسی تھوڑی دیر میں واپس آیا اور اس نے کہا: "منیجر صاحب کہتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں ہے گھنٹہ بھر بعد آنا۔”
گل محمد خاں کی عادت تھی کہ اس قسم کا بہانا کبھی نہ سنتا تھا۔ ایک دم سے وہ سیدھا منیجر کے دفتر میں چق اٹھا کر گھس گیا اور ذرا ترش رو ہو کر اس سے کہا کہ "ہمیں تو ضروری کام ہے اور تم کہتے ہو ہمیں فرصت نہیں، آخر کیا کام کر رہے ہو؟”
منیجر چھ فٹ کے دیو ہیکل خان کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ خان نے کرسی بلا تکلف گھسیٹ کر منیجر سے کہا: "تم اس پر کیوں خفا ہو رہے ہو۔” سامنے کونے میں ایک یورپین لڑکی گھڑی تھی۔
شاید منیجر صاحب کو افغانوں سے بات چیت کرنے کا یہ پہلا ہی موقع تھا وہ بے حد خفا ہو اردو میں ڈانٹ کر بولے : "تم کون ہو۔۔۔۔۔؟”
گل محمد خاں تڑپ کر کسی سے اٹھا اور اپنا کارڈ جس پر انگریزی میں اس کا نام و پتہ وغیرہ سب لکھا ہوا تھا اور جو صاحب کے سامنے ہی چپراسی رکھ گیا تھا اور جس وہ دیکھ چکے تھے، اپنے ہاتھ میں لے کر کہا: "کیا تم اندھے ہو اور اسے اب تک نہیں دیکھا۔”
جیسے کوئی بڑا شخص بچے کی طرف دیکھ کر باؤ کر دیتا ہے اور وہ سناٹے میں آ جاتا ہے اور سہم جاتا ہے وہی حال منیجر صاحب کا ہوا کیونکہ گل محمد خاں کی آنکھوں سے چنگاریاں اڑ رہی تھیں۔
منیجر نے لڑکی کو اشارہ کیا اور وہ دفتر کے باہر چلی گئیں۔ مجبوراً گل محمد خاں سے معاملے کی بات چیت منیجر کو کرنی پڑ گئی اور وہ جان گیا کہ گل محمد خاں کیسا آدمی ہے۔ اس معاملے کے سلسلے میں کچھ بہرام جی کے پرانے خطوط نکلوا کر دیکھنا بھالنا تھے، پھر جواب دینا تھا، لہٰذا گل محمد خاں سے کہہ دیا کہ محافظ ریکارڈ سے کاغذات نکلوائے جائیں گے۔ محافظ ریکارڈ وہی لڑکی تھی۔ گل محمد خان باہر آ کر بیٹھ گئے اور حسب عادت بلند آواز میں کلرک سے گفتگو کر کے ہنسنے لگے۔ سب خوش تھے کہ آج موذی منیجر کو ایک ڈانٹنے والا ملا ہے۔
تھوڑی دیر بعد خان کو معلوم ہوا کہ کاغذ کا کام اس یورپین لڑکی کے سپرد ہے جس کو منیجر ڈانٹ رہا تھا تو وہ حضرت سیدھے ریکارڈ روم میں گھس گئے، حالانکہ اس کے دروازے پر لکھا ہوا تھا کہ اندر جانے کہ سخت ممانعت ہے۔ جو پڑھا لکھا ہی نہ ہو اس کو ان فضول تختیوں کی عبارت سے کیا بحث۔ وہاں اس سے تقاضہ کیا وہ جلدی سے کاغذ وغیرہ نکال لائی۔ خان کا کام بن گیا اور چلے گئے مگر سلسلہ چونکہ جاری تھا اس لیے دوسرے چوتھے روز خان کو آنا پڑتا تھا۔ کلرکوں سے ملاقات ہو گئی تھی اور لوگ ان کو اپنی دانست میں بے وقوف بنا بنا کر خوب مذاق کرتے۔ علاوہ دوسرے مذاقوں کے ایک مذاق لوگوں نے حسب عادت وہاں یہ پیدا کر دیا کہ "تمہارے اوپر مس جانسن یعنی وہ یورپین لڑکی عاشق ہو گئی ہے۔” گل محمد خاں اس کوچے سے نابلد تھے، وہ کچھ نہ جانتے تھے مگر وہ یقین نہ کرتے تھے، تو لوگوں نے کہا اگر یقین نہ آئے تو خود اس سے دریافت کر لو۔ گل محمد خان کو جب لوگوں نے دیکھا کہ یہ واقعی دریافت حال کے لیے مس جانسن کے پاس جانا چاہتے ہیں تو بہت روکا مگر وہ نہ مانے اور انہوں نے جا کر اس سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ ایسا کہتے ہیں۔ اس کو کچھ برا معلوم دیا اور وہ خان کو منیجر کے پاس لے گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کلرک بلا کر ڈانٹے گئے مگر مس جانسن کو اب پتہ چلا کہ خان بائی بھی عجیب دلچسپ آدمی ہیں۔
اس واقعہ کے بعد پھر خان کو کلرکوں نے الو بنایا اور کہا کہ وہ تم پر بے طرح عاشق ہے کیونکہ جب تم آتے ہو اور اس کو دیکھتے ہو تو وہ فوراً ہنستی ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ یہ جب اس کو دور ہی سے سلام کرتے تھے تو وہ ان کو دیکھ کر ضرور ہنستی تھی۔ رفتہ رفتہ خان کو سکھا پڑھا کر ان لوگوں نے راضی کر لیا کہ تم اسے شادی کا پیغام دو، خان نے پوچھا کہ پیغام کس کو دوں تو کسی نے طنزاً کہہ دیا منیجر کو دو۔ چنانچہ گل محمد خان نے ایک روز منیجر صاحب سے زبانی اس طرح پیغام دے دیا گویا وہ اپنے آپ کو ان کی لڑکی کے لیے پیش کر رہے ہیں، وہ گل خاں کی اس حرکت پر ششدر رہ گئے۔ خفا ہوتے تو غالباً شامت آ جاتی مجبوراً انہوں نے روکھے منہ سے کہا کہ اس معاملے میں بہتر ہے تم براہ راست مس جانسن سے ملو۔ اب تو اجازت مل گئی۔ کلرکوں سے خوش ہو کر کہا کہ منیجر نے ایسا کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھر کیا ہے بس مس جانسن سے مل لو، یہاں یا اعراض تھا فوراً پہنچے اور مس جانسن سے سلام علیک کے بعد کہا: "ہم تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔”
مس جانسن نے حیران ہو کر خان کی شکل کی طرف دیکھا۔ بائیں طرف نظر ڈالی تو کیا دیکھتی ہے کہ سب کلرک اس تماشا کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں، اس کو بھی ہنسی سی آئی اور کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی خان نے کہا کہ میں نے منیجر سے بھی اجازت لے لی۔ یہ سن کر اس سے نہ رہا گیا اور وہ ہنس پڑی، اوروں کا بھی ہنسی کے مارے برا حال تھا۔ مس جانسن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس حماقت کا کیا جواب دے، پھر بھی اس نے مسکرا کر کہا: "خان تم ہم سے شادی کرے گا۔”
خان نے کہا: "ہاں۔”
مس جانسن نے مسکراتے ہوئے کہا: "ہم عیسائی ہیں اور تم مسلمان ہو۔”
خان صاحب بولے : "کوئی مضائقہ نہیں ہم تمہیں مسلمان کر لیں گے۔”
وہ ہنس کر بولی: "میں مسلمان نہیں ہوں گی۔”
"اونہہ” خان صاحب بولے۔ "ہم تمہیں کر لیں گے کوئی بات نہیں۔”
"مگر تم انگریزی نہیں جانتے۔” اس نے کہا۔
"ہم سیکھ لیں گے۔”
"تمہاری داڑھی اور مونچھیں بڑی ڈراؤنی ہیں۔” اس نے ہنس کر کہا۔ "مجھے ان سے ڈر لگتا ہے اور پھر مجھے یہ تمہارے پٹے نا پسند ہیں۔”
خان بولے : "ہم یہ سب کٹوا ڈالیں گے۔”
ہنس کر بولی: "تم پھر پہلے کٹوا آؤ تب بات کرنا۔”
"بہت اچھا۔” کہہ کر خاں صاحب چلے گئے، وہ سمجھے کہ بال کٹوانے کے بعد مجھ سے شادی کر لے گی اور وہ سمجھتی تھی کہ یہ محض ایک دلچسپ مذاق ہے۔ اسے کیا معلوم تھا کہ میں آگ سے کھیل رہی ہوں۔
دوسرے ہی دن خاں صاحب ڈاڑھی صاف اور مونچھیں کتروا کر اور پٹوں کے انگریزی بال کروا کر آ موجود ہوئے اور مس جانسن سے کہا "اب بولو کیا کہتی ہو۔” اس نے اب محسوس کیا کہ مذاق نے دوسرا پہلو اختیار کیا ہے چنانچہ اس نے سنجیدگی سے کہا کہ میرے لیے کوٹھی مع فرنیچر اور موٹر و اسباب لازمی ہے۔ خان نے کل جواب دینے کا وعدہ کیا۔ سیٹھ سے جا کر سب قصہ سنایا اور کہا مجھے کوٹھی اور فرنیچر چاہیے، سیٹھ خوب ہنسا اور ان کو اس مذاق سے آگاہ کیا مگر جب یہ نہ مانے تو کہہ دیا کہ فلاں کوٹھی خالی اور فلاں موٹر موجود ہے تم شادی کر لو۔ گل محمد خاں پھر مس جانسن کے پاس پہنچے، جب سے داڑھی منڈائی تھی تب سے یہ اور بھی تختہ مشق بنائے جا رہے تھے۔ اس نے وعدہ کیا کہ اب میں تم سے ضروری شادی کر لوں گی، تم تیاری کرو اور روپیہ جمع کرو۔ جب تاریخ مقرر کرنے لگے تو اس نے تین مہینے کی شرط لگا دی۔ خاں صاحب راضی ہو گئے۔
خاں صاحب دراصل بہت با ضابطہ تختہ مشق بنائے جا رہے تھے۔ کبھی کبھی وہ اپنے عجیب و غریب جذبات کا جو حال ہی میں رونما ہونے لگے تھے لوگوں سے تذکرہ کرتے تھے۔ وہ کبھی کبھی مس جانسن کے دفتر میں محض جانسن کو دیکھنے یا اس سے گفتگو کرنے آیا جایا کرتے تھے۔ مس جانسن کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا کر رہی تھی۔ اس کے لیے یہ ایک دلچسپ مشغلہ تھا، وہ دراصل کسی اور کے دام الفت میں گرفتار تھی، یہ تو محض ایک تفریح تھی۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ خاں صاحب دفتر میں آئے ہوئے تھے۔ اب یہ وہ گل خان نہ تھے جو کسی وقت لاہور میں قلی گیری کرتا تھا بلکہ اب وہ گل خان تھے جن کی کلائی پر ایک گھڑی لگی رہتی تھی اور صاف ستھرے کپڑے پہنے رہتے تھے۔ ہنسی مذاق دفتر میں پہنچنے ہی ہونے لگتا۔ مس جانسن نے گھڑی بند ہو جانے کی وجہ سے چپراسی سے وقت دریافت کیا۔ گل محمد خان نے کہا کہ تم کیسی واہیات گھڑیاں رکھتی ہو۔ اس نے ہنسی میں کہہ دیا: "اب تم مجھ سے شادی کرنے والے ہو رہے ہو تم کوئی عمدہ سی لا دو گے تو میسر ہو گی ورنہ مجھ غریب کو کہاں میسر۔”
گل محمد خاں چوتھے روز مس جانسن کے گھر میں پہلی مرتبہ پہنچے وہ موجود تھی اور یہ اندر گھر میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مس جانسن نہایت ہی بے تکلفی سے ایک نوجوان انگریز سے بیٹھی باتیں کر رہی ہے۔ وہ ان کو دیکھ کر ہنس کر اٹھ کھڑی ہوئی اور آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔ خان اس نوجوان انگریز کی طرف خونی آنکھوں سے گھور رہے تھے۔ اس نے خان صاحب کا تعارف اس نوجوان سے کرایا اور وہ بھی اردو میں یہ کہتے ہوئے "یہ مسٹر رابرٹ میرے دوست ہیں” اور خان کی طرف اشارہ کر کے مسکراتے ہوئے رابرٹ سے کہا: "مسٹر کان ہیں۔۔۔۔ وہی جن سے میری شادی ہو رہی ہے۔” یہ کہہ کر اس نے رابرٹ کی طرف دیکھا وہ جانتا تھا کہ محض مذاق ہے لیکن اس کا چہرہ اور آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اپنی معشوقہ کا یہ مذاق کچھ اس نے اتنا پسند نہ کیا جتنی کہ اسے امید تھی۔ وہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ ادھر خان صاحب کے نتھنوں سے بہت پیشتر گرم ہوا نکل رہی تھی اور چہرے پر غصہ تحریر تھا، دونوں کان گئے کہ ہم آپس میں دشمن ہیں۔ ایک حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے خان بیٹھ گیا۔ مس جانسن نے محسوس کیا کہ میرا مذاق رابرٹ کو ناپسند آیا، کچھ خفیف سی ہوئی، تینوں بیٹھ گئے اور لمحہ بھر کی خاموشی رہی، شاید ہر کوئی سوچ رہا تھا کہ دوسرا بات کرے تو بہتر ہے۔ مس جانسن نے ایک محبت آمیز جھڑکی انگریزی میں رابرٹ کو دی اور کہا: "یہ بھی کوئی بات ہے۔”
گل محمد خان نے مس جانسن سے پوچھا: "تم اس شخص سے انگریزی میں کیا کہہ رہی ہو؟”
اس کے جواب میں وہ ہنسنے لگی اور اس نے کہا: "آپ کی تعریف کر رہی ہوں” یہ کہہ کر وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں خان کی تعریف کرنے لگی۔
گل خاں نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا "یہ کون شخص ہے۔”
"یہ مسٹر رابرٹ میرے دوست ہیں۔ ابھی تو بتایا۔”
"یہ تم سے ملنے کیوں آتے ہیں۔” ذرا سخت لہجے میں خان نے کہا۔
اس نے ہنس کر کہا: "اس لیے کہ اگر تم مجھ سے شادی نہ کرو تو میں ان سے کر لوں۔”
"مگر میں ان کو قتل کر دوں گا۔” گل محمد خان نے خون فشاں آنکھیں پھاڑ کو کہا۔
مس جانسن نے ہنس کر رابرٹ کی طرف دیکھا، اس کا حال ہی اور تھا۔ مس جانسن کو خواہ مخواہ کا غصہ رابرٹ کا برا معلوم ہوا، وہ خان کا پورا مذاق اڑا کر اپنے عاشق کو خان کا تماشا دکھانا چاہتی تھی۔ اس نے پھر انگریزی میں جھڑکا، خان نے برا مان کر کہا، اس شخص سے تم کیوں ملتی ہو، انگریزی میں بات مت کرو۔”
رابرٹ کی شامت آ گئی اس نے اپنے رقیب کو کھڑے ہو کر انگریزی میں ڈپٹا، شاید اس کو اپنی قوت یا افغانی قوت کا غلط اندازہ ہوا تھا۔ چشم زدن میں خان کی مٹھی شاید پچھتر ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے مسٹر رابرٹ کی ناک پر نازل ہوئی، یہ انہیں دراز کر دینے کے لیے کافی تھی۔ مس جانسن کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ خان نے مس جانسن کو رابرٹ کی طرف بڑھنے سے روک کر کہا یہ گھڑی تمہاری لیے لایا ہوں، اس شیطان کو چھوڑا اور اسے دیکھو۔
"مسٹر خان” اس نے روتے ہوئے کہا: "نہیں اچھا ٹھہریں میں ڈاکٹر تو بلا دوں۔” مشکل سے گل خاں راضی ہوا۔
مس جانسن ظاہری طور پر گھڑی لے کر خوش خوش باتیں ہی کر رہی تھی کہ ایک دم سے دس کانسٹیبلوں نے گل خاں کو چھاپ لیا، ایک جھٹکے میں آدھے اس نے ایک طرف گرائے کہ اتنے ہی اور اس پر نازل ہو گئے اور چشم زدن میں گل خاں گرفتار ہو گیا۔
مس جانسن نے ڈاکٹر کو نہیں بلکہ پولیس کو بلایا تھا۔
مقدمے میں گل خاں کو سزا نہیں ہوئی۔ اول تو اس کے چال چلن کی شہادت یعنی اسی ہزار کے نوٹ نہ چرانا وغیرہ ہی کیا کم واقعات تھے پھر ایک نہیں بلکہ دس کلرک اور دوسرے آدمی اس بات کے گواہ تھے کہ مس جانسن نے شادی کا وعدہ کیا تھا۔ مس جانسن نے اقبال کیا کہ وہ محض مذاق تھا، غرض رابرٹ کو مارنا اس سے زیادہ وقت نہ رکھتا تھا کہ رقیبوں میں حجت ہو گئی اور معاملہ رفع دفع ہو گیا اور گل خاں چھوٹ گیا۔
مگر اب اس کی حالت دوسری تھی۔ اس کو سرحدی خان اس کی رگوں میں مارے غصے کے گھولتے سیسے کی طرح دوڑ رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اس کے منہ سے کف آنے لگتا تھا اور سارا چہرہ سرخ ہو جایا کرتا تھا، دراصل اس کو چین ہی نہ پڑ سکتا تھا تاوقتیکہ وہ رابرٹ کو قتل نہ کر لے۔ مگر مس جانسن سے بھی وہ ملنا چاہتا تھا مگر ان دونوں کی تو پولیس نگرانی کرتی تھی۔ دفتر میں پولیس نگران تھی کہ مس جانسن سے وہ بات نہ کر سکے۔ وہ ظاہراً چپ تھا کہ گویا وہ بھول گیا ہے۔ اصل میں وہ دشمن سے بے خبری میں بدلہ لینا چاہتا تھا۔
دو مہینے کا طویل عرصہ گزر چکا تھا مگر گل محمد خاں کے سینے میں وہی جوش انتقام موجزن تھا۔ رات کے دس گیارہ بجے ہوں گے اور وہ سیٹھ کے ساتھ موٹر میں جا رہا تھا کہ آگ آگ کا شور بلند ہوا۔ پندرہ بیس منٹ کی دوڑنے موٹر کو ایک سر بفلک عمارت کے سامنے لا کھڑا کیا۔ حالانکہ آگ اوپر کے حصے میں نہیں لگی مگر بہت دیر سے لگی ہوئی تھی اور بچنے والے بچ کر نکل چکے تھے۔ صرف ایک لڑکی اوپر کی منزل سے ایک کھڑکی میں کھڑی سفید رومال ہلا رہی تھی یہ مس جانسن تھی۔ گل محمد خاں نے فوراً پہچان لیا اور معلوم ہو گیا کہ تمام کوششیں اس کو بچانے کی رائگاں جا چکی ہیں اور خود وہ بہت کوشش کر چکی ہے لیکن اب وہ ہر چار طرف سے شعلوں سے محصور ہے۔ مجمع کی حالت بیان سے باہر تھی کیونکہ وہ سب جانتے تھے کہ وہ اوپر کھڑی اپنے عاشق کو رومال دکھا رہی تھی۔ رابرٹ کو گل محمد خاں نے دیکھا کہ آدمی اسے پکڑے ہیں اور وہ چھڑا رہا ہے اور کہتا ہے کہ میں آگ میں گھس جاؤں گا۔ گل محمد خاں نے آ کر رابرٹ کو چھڑا دیا اور کہا جاؤ، وہ دیوانہ وار دوڑا لیکن دروازے پر پہنچتے ہی عشق رخصت ہو گیا اور وہ دیوانہ بن کر دوسری طرف دوڑنے لگا۔ گل خاں نے دوڑ کر پھر صحیح راستہ پر کر دیا اور رابرٹ سے کہا کہ جائیے کوشش کیجئے مگر توبہ کیجئے وہ کہاں جاتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ رابرٹ نہیں جاتا تو اس نے اوپر دیکھا، مس جانسن یہ کاروائی دیکھ رہی تھی۔ اس نے خان کو دیکھ کر رومال ہلایا، کیا یہ واقعہ نہیں تھا کہ ایک بے کس لڑکی ایک پٹھان سے امداد کی طالب تھی۔ مجمع نے حیرت اور استعجاب سے دیکھا کہ گل محمد خاں عمارت کے دروازے میں داخل ہو گیا، تھوڑی دیر دکھائی دیا پھر دھوئیں میں غائب ہو گیا۔ دس منٹ بعد وہ صحیح و سالم پہلی منزل پر تھا۔ سانس لینے چھجے پر آیا۔ پبلک نے خوشی کا نعرہ مارا، وہ سانس لے کر پھر غائب ہو گیا اور اب کی مرتبہ لوگوں پر مایوسی طاری تھی لیکن وہ پھر نکلا، آگ بجھانے والا انجن اب اس کو بچانے کے لیے اسی منزل پر پانی پھینک رہا تھا، دوسری طرف سے مشتعل حصہ عمارت گر رہا تھا وہ پھر غائب ہو گیا اور تھوڑی دیر بعد لوگوں نے دیکھا کہ اس کا صافہ جل رہا ہے اور وہ کوٹ پھینک چکا ہے۔ آگ بجھانے کا انجن موقعے پر کام کر رہا تھا وہ غائب ہو گیا اور پھر مجمع نے دیکھا کہ نہ معلوم کہاں سے وہ کپڑے لایا ہے اور انجن کے فوارے کے پانی میں بھگو رہا ہے۔ چشم زدن میں اس نے اپنے کو ان میں لپیٹ لیا اور پھر غائب ہو گیا۔ اس کو گئے ہوئے دیر ہو گئی تھی اور ایک تڑاقا ہوا، ایک طرف سے اوپر کی منزل کا ایک حصہ آن پڑا۔ مس جانسن نے منہ سے ایک چیخ نکلی وہ آنکھیں بند کئے دعا مانگ رہی تھی۔ شعلے اس کے چاروں طرف آتے معلوم ہوتے تھے۔ لوگوں نے آخری منظر کو نا قابل دید سمجھ کر منہ پھیر لیے، صرف چند نے دیکھا کہ ایک بجلی سی چمکی اور مس جانسن غائب تھی۔ گل محمد کاں چیل کی طرف جھپٹ کر مس جانسن کو لے گیا اور غلغلہ بلند ہوا اور جو لوگ منہ موڑے ہوئے تھے اور ایک لڑکی کی موت کا سین نہ دیکھنا چاہتے تھے افسوس کرنے لگے۔ آدھ گھنٹے کے قریب گزرنے آیا اور وہ غائب تھا۔ یکایک لوگوں نے اسے دیکھا کہ سب سے پہلی منزل کے ایک کمرے کی کھڑکی سے اس نے جھانکا، ایک نعرہ خوشی بلند ہوا مگر لوگ رنجیدہ ہو گئے کیونکہ وہ تنہا تھا اور شعلے اس کے پیچھے زبانیں بار بار دکھا رہے تھے۔ وہ انتہائی کوشش کر چکا اپنی جان پر کھیل گیا۔ اب مجبوری پر وہ کیا کرے۔ وہ تیزی سے اپنے اترنے کے لیے رسی باندھ رہا تھا، نیچے کی منزل کے شعلے باہر سے انجن سر کر ہی چکا تھا اور دراصل ساری آگ کا زور پست پر ہی تھا۔ لوگ نیچے آ گئے لیکن وہ رسی نیچے لٹکانے کے بعد واپس بھاگا، زندہ ہے زندہ ہے، کا شور بلند ہوا مگر وہ تو شعلوں میں گھسا تھا، اب واپسی نا ممکن ہے، انجن تیزی سے اس کمرے کے چھجے پر پانی پھینک رہا تھا۔ شعلوں کو چیر کر ایک بنڈل سا نکلا، یہ گل محمد خاں تھا۔ چشم زدن میں گل محمد خان نے بنڈل کو رسی سے باندھ کر نیچے اتار دیا۔ لوگوں نے سنبھالا بھی نہ تھا کہ وہ خود بھی اتر آیا۔ گل خاں کو بچانے کے لیے پولیس دوڑ پڑی اور حلقے میں لے لیا، جگہ جگہ سے وہ جل رہا تھا۔ گل محمد خاں مجمع میں ایسا غائب ہوا کہ پتہ نہ چلا۔
دوسرے روز پریس کے نمائندوں نے جب سیٹھ سے درخواست کی کہ ہم خان سے ملنا چاہتے ہیں تو انہوں نے اجازت دے دی۔ تین چار سے تو نہ معلوم کس طرح خان بھگتا مگر آخر کار انہیں پتہ چلا کہ انعام لینے کو خان سے کہنا اور گالی دینا برابر ہے۔ واللہ اعلم انہوں نے کیا رائے قائم کی ہو گی۔
مس جانسن پندرہ بیس روز بعد درست ہو کر اس قابل ہوئی کہ گل محمد خاں کی مزاج پرسی کرنے ان کے گھر پر جائے۔ ناظرین خود اندازہ لگائیں کہ مس جانسن کا کیا حال ہوا ہو گا جب گل خان نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔ اس کا چہرہ فق ہو گیا، بہت اصرار کے بعد وجہ خان نے خود بتائی وہ یہ تھی کہ تم جاؤ میں تم سے نہیں ملتا جب تک میرے پاس پانچ سو روپے ماہوار مستقل آمدنی اور ایک بنگلہ نہ ہو جائے گا میں تم سے نہیں مل سکتا۔ خان کو مس جانسن سے نہ ملنا تھا نہ ملے اور وہ لوٹ گئی۔
کئی خط مس جانسن کے خان کے پاس آئے۔ خان پڑھنا لکھنا تو جانتا نہیں تھا مگر یہ معلوم کر کے کہ کس کے ہیں، اس نے بغیر کھولے پھاڑ ڈالے۔
کچھ عرصے بعد خان کے نام ایک تار آیا، خان کو شبہ بھی نہ تھا کہ کس کا ہے، عمر میں پہلا تار ان کے نام آیا وہ اس قدر مختصر تھا گویا کہ پڑھنے والے نے برجستہ کہہ دیا ہو "میں تم سے بغیر کسی شرط کے اب شادی کی خواہاں ہوں۔” یہ تار مس جانسن کا تھا۔
اس کے بعد بھی خطوط کا سلسلہ جاری ہی رہا مگر خان نے توجہ نہ کی یہ وہ پیشتر ہی معلوم کر چکا کہ مسٹر رابرٹ بمبئی میں نہیں ہیں، کیونکہ وہ ان کے قتل کی فکر میں اب بھی تھا۔
خان کا حال ادھر عجیب تھا، وہ دن رات پانچ سو روپے ماہوار یا اس سے زائد مستقل آمدنی پیدا کرنے کی فکر میں حیران تھا۔ اسی دوران میں ایک عجیب معاملہ پیش آیا وہ یہ کہ پشاوری سیٹھ جس کے ساجھے میں بہرام جی کا کاروبار تھا مر گیا، لہٰذا لٹھے کی تجارت مجبوراً بہرام جی کو ختم کرنا پڑی۔ دونوں کا تجارت میں آدھا روپیہ لگا تھا لیکن گل خاں کو حیرت ہوئی جب
اسے معلوم ہوا کہ دراصل معاملہ کچھ اور بھی تھا…..جمرود کے علاقے میں سینکڑوں میل کے جنگل کھڑے ہیں۔ وہاں کے لوگ جنگل کے پاس لاتعداد عمارتی اور ہر قسم کی لکڑی کٹوا کٹوا کر انبار لگاتے ہیں اور باہری سوداگر خرید لے جاتے ہیں اور فروخت ہونے پر نفع رکھ لیتے اور قیمت ادا کر دیتے ہیں۔
گل خاں نے دوڑ کر سارا معاملہ بہرام جی کو کہہ سنایا اور کہا میں بھی ایسا ہی کرسکتا ہوں تم
لکڑی کی تجارت بند نہ کرو۔
گل خاں جمرود گیا اور مل جل کر کامیاب ہو گیا۔ پہلے انہوں نے تھوڑی لکڑی دی لیکن جب ان کو یقین ہو گیا کہ گل خاں کا اعتبار وہی پارسی سیٹھ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ کرتا ہے تو انہوں نے گل خاں سے بالکل ان ہی شرائط پر تجارت شروع کر دی۔ چونکہ سیٹھ بہرام جی کو گل محمد خاں سے ایمانداری میں ذرہ بھر شک نہ تھا اس لیے یہ تجارت اس سے بھی بہتر ثابت ہوئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گل کا اپنا روپیہ اس کے ہاتھوں میں تیزی سے دوڑنے لگا اور وہ ہزاروں روپے کمانے لگا۔
تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور خان کی تجارت اور دفتر اب سب بہرام جی سے علیحدہ ہے۔ صرف سائن بورڈ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ خان کا دفتر ہے ورنہ خان کی صورت کبھی دیکھنے میں نہیں آتی اس کو نہیں معلوم کہ دفتر میں کیا ہورہا ہے۔ تمام کام وہی مس جانس کیا کرتی ہے جو کارخانہ کی مالک ہے اور خان کو ذرہ بھی خبر نہیں کہ تجارت کس حال میں ہے پہلی منزل میں دفتر ہے اور دوسری منزل میں خان دن بھر یا تو بجلی کے پنکھے کے نیچے آنکھیں نیچے کیے ہوئے شلوار پھیلایا کرتے ہیں یا اپنے بچے سے کھیلتے رہتے ہیں یا باپ بیٹے ایک دوسرے کو اپنی اپنی مادری زبان سکھایا کرتے ہیں۔ کھانے کے وقت کھا لیا، سونے کے وقت سو رہے، تیسرے پہر کو بچے کو موٹر پر ہوا کھلا لائے، وہ غصہ واللہ اعلم کہاں گیا۔
نوکروں سے تنگ ہوتے ہیں تو بیوی سے شکایت کرتے ہیں۔ شروع شروع میں ایک آدھ نوکر کی البتہ پسلی توڑ دی، تب سے یہ اختیار بھی ان سے چھن گیا۔ اطمینان قلب اور عشرت نے بدن کو بھاری کر دیا ہے، گو اب بھی بعض اوقات کسی بات پر سرحدی خون جوش مارتا ہے اور آنکھیں شعلہ سی ہو جاتی ہیں مگر بیوی کی ایک سخت آواز یا ایک نظر سب جلال رخصت کر دیتی ہے۔ ایک کوہ آتش فشاں ہے جس کی کنجی ایک عورت کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سرد نہیں ہوا بلکہ خاموش ہے ورنہ وہ قوت، وہی جوش، وہی ہمت، وہی طاقت، وہی کریکٹر کی مضبوطی اور وہی قوت ارادی اب بھی سرحد میں موجود ہے۔ جس نے محض زور بازو سے دنیا اور روپے کو اپنا غلام بنا لیا۔ افغانی سرشت کیا نہیں کر سکتی کاش کہ وہ اپنی قوت کا احساس کرین اور اسے مناسب اور جائز طریقے سے استعمال کریں اور انشاء اللہ کریں گے۔
٭٭٭
مصری کورٹ شپ
"میں نے جو پیرس سے لکھا تھا وہی اب کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز اس بات کے لئے تیار نہیں کہ بغیر دیکھے بھالے شادی کر لوں، سو اگر آپ میری شادی کرنا چاہتی ہیں تو مجھ کو اپنی منسوبہ بیوی کو نہ صرف دیکھ لینے دیجئے بلکہ اس سے دو چار منٹ باتیں کر لینے دیجئے۔” یہ الفاظ تھے جو نوری نے اپنی بہن سے پر زور لہجے میں کہے۔
"مگر یہ تو بتاؤ کہ آخر اس سے کیا فائدہ، تمہارا یہ خیال ہے کہ اگر لڑکی کی صورت شکل اچھی نہ ہوئی تو تم انکار کر دو گے؟ ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا، جب سب معاملات طے ہو چکے ہیں اور شادی کرنا ہی ہے تو پھر تم کو دیکھنے سے کیا فائدہ؟” بہن نے یہ تقریر ختم ہی کی تھی کہ ماں صاحبہ بھی آ گئیں اور اب نوری کو بجائے ایک کے دو سے بحث کرنی پڑی۔
"معلوم ہوتا ہے کہ تین سال فرانس میں رہ کر تم نے اپنی قومیت اور مذہب کو بھی خیر باد کہہ دیا۔” یہ الفاظ ماں نے اسی سلسلہ گفتگو میں کہے۔
"جی نہیں یہ ناممکن ہے، میں پکا مسلمان ہوں اور مصری ہوں۔ نہ میں نے مذہب کو چھوڑا ہے اور نہ قومیت کو، میں تو اپنے حق پہ لڑتا ہوں کہ جس سے میری شادی ہونے والی ہے اس کو میں دیکھ لو۔”
"اور اگر ناپسند ہو تو شادی نہ کروں۔” ماں نے گویا جملہ پورا کیا۔
"تم کو بھی معلوم ہے کہ تمہاری منسوبہ بیوی کس کی لڑکی ہے؟ وہ جامعہ ازہر کے نائب الشیخ کی لڑکی ہے اور شرافت اور امارت اور تمول میں وہ لوگ ہم سے کہیں زیادہ ہیں۔ ذرا ان لوگوں کو دیکھو اور اپنے کو دیکھو، گورنمنٹ کے روپے پر یورپ جا کر تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں اور انجنیئر بن گیے ہیں تو ہم کو کسی شمار ہی میں نہیں لاتے۔”
"یہ سب کچھ آپ صحیح کہتی ہیں جو مجھ کو لفظ بلفظ تسلیم ہے مگر اس کے تو یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ ان وجوہ کی بناء پر اپنا پیدائشی حق کھو بیٹھوں۔”
"مگر میں شادی پختہ کر چکی ہوں اور شادی کے تمام ابتدائی مراحل بھی طے ہو چکے ہیں اور اب میں یہ نسبت نہیں توڑ سکتی۔” ماں نے نوری سے یہ الفاظ ایک مجبوری کا لہجہ لیے ہوئے کہے۔
"میں کب کہتا ہوں کہ آپ یہ نسبت توڑ دیں، مجھ کو تو یہ رشتہ خود بسر و چشم منظور ہے۔” یہ الفاظ سنتے ہی بہن چمک کر بولی، "پھر آخر کیوں الٹی سیدھی باتیں کرتے ہو؟ یہی تم نے پیرس سے لکھا تھا ورنہ ہم لوگ کیوں یہ غلطی کرتے؟”
غرض اسی قسم کی بحث بہت دیر تک ہوتی رہی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ ماں نے بہت کوشش کی کہ نوری اپنی ضد سے باز آئے مگر بے سود اور ادھر نوری نے بے حد کوشش کی کہ ماں اس کی منسوبہ بیوی کے گھر کہلا بھیجے کہ لڑکا لڑکی سے ملنا چاہتا ہے مگر بیکار، ماں کو اپنی بات کا پاس تھا، وہ اپنے ہم چشموں میں ذلیل ہونا گوارا نہ کر سکتی تھی، وہ پرانی رسموں کی قیود کو توڑنا نہیں چاہتی تھی اور یہ ناممکن تھا کہ ایسا ناشائستہ پیغام لڑکی والوں کے یہاں کہلوا بھیجے کہ جس کو وہ ان لوگوں کی کھلی ہوئی توہین خیال کرتی ہو۔
نتیجہ ماں بیٹے کی ضد کا یہ ہوا کہ ماں خفا ہو گئی، گھنٹوں بیٹھ کر روئی، نوری نے بہت خوشامد کی مگر بیکار، نوری کو ماں کو رنجیدہ کرنے کا بہت افسوس تھا مگر مجبور تھا۔ کھانے کا وقت آیا اور ماں نے کھانا نہ کھایا مگر مصالحت کی کوئی صورت نہ بن پڑی۔ بحث کا سلسلہ چھڑ گیا، نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ ماں خوب روئی پیٹی مگر سنگدل بیٹے نے اپنے اصول سے جنبش نہ کی۔ اب گھر گویا غم کدہ بنا ہوا تھا، ماں نے کھانا نہ کھایا اور بیٹی اور بیٹے نے بھی کھانا نہ کھایا، یہی صورت دوسری شام تک رہی اور ۲۴ گھنٹے سے زیادہ گزر گیے۔
نوری اپنے کمرے میں بیٹھا تھا، ماں کی تکلیف کا خیال تھا، ماں کی ستیہ گرہ آخرکار کامیاب ہو گئی اور نوری نے ماں کی شرائط منظور کر لیں تاکہ ماں کھانا کھا لے۔
(۲)
یہ بھی دراصل نوری کی چال تھی تاکہ ماں کھانا کھا لے۔ چنانچہ ماں کو اس نے راضی کر لیا لیکن وہ اب سوچ میں تھا کہ کرنا کیا چاہیے۔ صبح کا وقت تھا اور اس واقعے کو دو روز گزر چکے تھے۔ نوری اپنے کمرے میں بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا کہ اس نے اخبار رکھ دیا اور اٹھ کر الماری سے احادیث کی دو کتابیں اٹھا لایا۔ ان کتابوں کا مطالعہ وہ پیشتر بھی کر چکا تھا اور اکثر کرتا رہتا تھا۔ وہ اسی سوچ میں تھا کہ اب کیا کرنا چاہیے کہ معاً اس نے دل میں نئی بات ٹھان لی، نوکر کو حکم دیا کہ گاڑی لاؤ کپڑے پہن کر تیار ہوا اور کہا کہ نائب الشیخ کے ہاں چلو۔ گاڑی ایک عالیشان مکان پر رکی۔ مکان کا ظاہری ٹھاٹھ کہہ رہا تھا کہ کسی امیر کبیر کا مکان ہے۔ ایک نوکر دوڑ کر گاڑی کے قریب آیا، نوری نے اپنا کارڈ دیا اور اطلاع کی گئی۔ نائب الشیخ اپنے منسوبہ داماد کی آمد کی خبر سن کر باہر استقبال کے لئے آئے۔ نوری نے بڑھ کر مصافحہ کیا اور قابل احترام شیخ کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، شیخ نے نوری کی پیشانی پر بوسہ دیا اور ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لا بٹھایا۔
کمرہ مغربی سامان آرائش سے سجا ہوا تھا۔ جگہ جگہ خوبصورت کام ہو رہا تھا اور تمام فرنیچر اور دیگر سامان اعلیٰ قسم کا تھا۔ اس ہال کے ایک حصہ میں بہترین رومی غالیچوں کا فرش بھی تھا اور مشرقی فیشن کا بہترین سامان سجا ہوا تھا۔ نیچے نیچے زمین سے ملے ہوئے خوبصورت صوفے پڑے ہوئے تھے جن پر لوگ اطمینان سے پالتی مارے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ نائب الشیخ نے نوری کا اپنے ملنے والوں سے تعارف کرایا اور ملنے والوں نے شیخ کو داماد کے انتخاب پر مبارک باد دی۔ تھوڑی دیر بعد قہوہ کا دور چلنے لگا اور شیخ نوری سے بسلسلہ گفتگو فرانس کی باتیں پوچھتے رہے۔ قہوہ کا دور ختم ہوا اور تھوڑی دیر بعد شیخ صاحب کے دوست اٹھ کر چلے اور نوری اور شیخ رہ گیے۔ بڑی مشکل سے اور بڑی دیر کے سوچ کے بعد نوری نے شیخ سے نہایت مودبانہ طریقہ سے کہا، "میں جناب کی خدمت میں ایک خاص مقصد سے آیا تھا۔”
"وہ کیا؟”
"اگر جناب اجازت دیں تو کچھ عرض کرنے کی جرأت کروں؟”
"بسر و چشم، بسم اللہ کہو کیا کہتے ہو۔”
نوری نے کچھ تامل کیا اور شاید وہ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا کہ اپنا مدعا کن مناسب الفاظ میں ادا کرے کہ شیخ نے پھر کہا، "تم ضرور اپنے دل کی بات کہو کوئی وجہ نہیں کہ تامل کرو۔” نوری نے ہمت کر کے نیچی نظریں کر کے دبی زبان سے کہا، "جناب سے اپنا حق مانگتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ میں اپنی منسوبہ سے پانچ منٹ کے لئے مل لوں؟”
نوری نے نظر اٹھا کر جو دیکھا تو نائب الشیخ کو ہکا بکا پایا، وہ بالکل تیار نہ تھے اور ان کی خود داری کو کچھ اس سے ٹھیس سی لگی تھی۔ شیخ نے اپنے کو عجیب شش و پنچ میں پایا۔ وہ نوری کو بے حد پسند کرتے تھے مگر اس بات سے وہ اس وقت حواس باختہ تھے۔ اپنے کو سنبھال کر شیخ نے کہا، "میں اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہوں۔”
"کیا جناب کو اس بارے میں کسی خاص قسم کا اعتراض ہے؟”
"بے شک مجھ کو اعتراض ہے۔”
"مذہبی نقطہ نظر سے یا دنیاوی نقطہ نظر سے؟”
شیخ چونکہ پھر شیخ تھے وہ بولے، "مذہبی نقطہ نظر سے اور نیز دنیاوی نقطہ نظر سے کیونکہ ہمارا دین اور دنیا الگ الگ نہیں۔” نوری نے بھی خوش ہو کر کہا، "مگر دین کو دنیا پر سبقت ہے، سب سے پہلے ہمارا مذہب ہے اور پھر دنیا۔” شیخ نے بھی خوش ہو کر کہا، "بے شک، بے شک تم صحیح کہتے ہو۔”
"پھر جب خداوند تعالیٰ نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے قرآن پاک میں کہہ دیا کہ ان عورتوں سے نکاح کرو جو کہ تم کو بھلی معلوم ہوتی ہوں تو پھر کون سا اعتراض رہ گیا۔” یہ کہتے ہوئے نوری نے آیت نکاح پڑھ کر سنائی۔
شیخ صاحب اس رنگ میں بحث کرنے کو خصوصاً نوری کی سی نئی تہذیب کے دلدادہ نوجوان سے قطعی تیار نہ تھے اور نہ اس کی امید تھی، ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہیں مگر جواب دینے کے لئے کہا، "ہاں یہ مذہباً جائز تو ہو سکتا ہے مگر میں اس کو پسند نہیں کرتا اور خصوصاً آج کل کے زمانے میں۔”
نوری نے فوراً شیخ کی کمزوری کو محسوس کیا اور کہا، "آپ کا کیا خیال ہے اگر آج کل ہم لوگ سنت رسول اللہ کی پیروی کریں؟ کیا یہ مستحسن نہیں ہے؟”
شیخ نے فوراً کہا، "خدا ہم کو رسول اللہؐ کی پیروی کی توفیق دے۔” نوری نے فوراً جیب میں سے ایک پرچہ نکال کر شیخ کے ہاتھ میں دے دیا، شیخ کی آنکھوں کے سامنے حسب ذیل عبارت تھی،
(۱) جابر سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے نکاح کا پیغام کسی عورت کی طرف بھیجنا چاہے تو ہو سکے کہ اس کو دیکھ لے، جس سے نکاح کا ارادہ ہو تو پھر نکاح کرے۔ (ابی داؤد)
(۲) مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے، پیغام دیا میں نے نکاح کا ایک عورت کے ساتھ زمانے میں رسول اللہﷺ کے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے دیکھ بھی لیا ہے اس کو؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا کہ دیکھ لے اس کو، اس سے الفت زیادہ ہوگی تم دونوں میں (نسائی)
(۳) ابو ہریرہ سے روایت ہے پیغام بھیجا ایک آدمی نے لڑکی والوں کے یہاں، فرمایا اس کو رسول اللہؐ نے تونے اس کو دیکھ بھی لیا ہے یا نہیں۔ اس نے کہا نہیں،، آپؐ نے فرمایا اس عورت کو دیکھ لے یعنی بغیر دیکھے نکاح کرنا اچھا نہیں۔ (نسائی)
شیخ نے ان احادیث کو پڑھا۔ وہ ان احادیث کو پہلے بھی پڑھ چکے ہوں گے مگر ان کے لئے گویا اس وقت یہ بالکل نئی تھیں۔ وہ خاموش تھے اور کچھ بولنے میں ان کو تامل تھا کہ نوری نے ان سے کہا کہ "کیا آپ مجھے ان احادیث پر عمل نہ کرنے دیں گے؟ کیا واقعی ہم اس زمانے میں رسول اللہ ص کی نصیحتوں سے بے نیاز ہیں اور وہ ہمارے لئے بے کار ہیں؟”
شیخ نے کہا، "ہرگز نہیں ہرگز نہیں گفتہ رسول اللہ سر آنکھوں پر مگر میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آخر تمہارا اس درخواست سے مطلب کیا ہے؟ اگر فرض کرو تمہاری منسوبہ تم کو ناپسند ہوئی تو کیا تم اس نسبت کو توڑ دو گے اور نکاح نہ کرو گے؟” نوری نے جواب دیا، "اس سے شاید آپ بھی اتفاق کریں گے اس صورت میں مجبوری ہوگی کیونکہ قرآن کریم کے حکم کے خلاف ہوگا۔”
"تو اس شرط پر تو تمہاری شادی صرف یورپ ہی میں ہو سکتی ہے۔” شیخ نے کچھ ترش رو ہو کر کہا، "مجھ کو ہر گز گوارا نہیں ہے کہ میری لڑکی سے نسبت کرنے کے لئے لوگ گاہک بن کر آئیں اور ناپسند کر کے چلے جائیں۔ کیا تم نے میری عزت و آبرو کا اندازہ غلط لگایا ہے؟ کیا تم نہیں خیال کرتے کہ نائب الشیخ کی توہین ہوگی، معاف کیجئے گا میں اس قسم کی گفتگو پسند نہیں کرتا جس میں میری عزت و آبرو کا سوال ہو۔”
نوری بھی پختہ ارادہ کر کے آیا تھا اور اس نے بھی تیز ہو کر کہا، "بے شک آپ مصر میں وہ عزت و مقام رکھتے ہیں جو دوسروں کو نہیں مگر مجھ کو اجازت دیجئے کہ عرض کروں کہ پھر بھی آپ کو وہ عزت حاصل نہیں ہے جو امیر المومنین عمر بن خطاب رض کو مدینے میں حاصل تھی اور آج ساری دنیا میں حاصل ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ حضرت عمر نے اپنی بیٹی ام المومنین حفصہ کو حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا اور نکاح کی خواہش ظاہر کی اور جب حسب خواہش جواب نہیں ملا تو پھر ان کو حضرت ابو بکر صدیق کے سامنے پیش کیا اور وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ کیا ان سے ان کی عزت و آبرو میں خدانخواستہ بٹا لگ گیا؟” شیخ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور وہ لاجواب ہو کر بولے کہ دونوں حضرات تو ان کے دوست تھے۔
"مگر میں بھی آپ کے عزیز ترین دوست مرحوم کی نشانی ہوں۔” شیخ نے نظریں نیچی کر لیں اور کچھ تامل کے بعد کہا، "مجھ کو کوئی انکار نہیں ہے۔” یہ کہتے ہوئے شیخ گھر میں چلے گیے۔
(۳)
نوری کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا، اس نے کانپتے ہاتھوں سے ریشمی سیاہ پردہ اٹھایا اور اندر داخل ہوا حالانکہ دن تھا مگر کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے بجلی کا لیمپ روشن تھا، سامنے کرسی پر سیاہ گاؤن پہنے ایک سولہ یا سترہ سال کی نہایت حسین و جمیل لڑکی بیٹھی تھی!
نوری کو دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی نوری نے سلام کیا کچھ جواب نہ ملا۔ اس نے دوبارہ سلام کیا تو لڑکی نے آہستہ سے جواب دیا، لڑکی کی نظریں نیچی تھیں صرف داخل ہوتے وقت اس نے ایک لمحہ کے لئے نظر اٹھا کر نوری کو ضرور دیکھا تھا۔ وہ ساکت کھڑا تھا اور لڑکی نے نوری سے بیٹھنے تک کو نہ کہا۔ نوری اجازت طلب کرتے ہوئے بیٹھ گیا مگر لڑکی نے کچھ جواب نہ دیا اور کھڑی رہی۔ نوری پھر کھڑا ہو گیا تو کہا کہ بیٹھ جائے۔ نوری نے اپنی کرسی قریب کر لی اور کہا کہ "مجھے فخر ہے کہ میں اس وقت اپنی منسوبہ نازلی خانم کے سامنے بیٹھا ہوں اور ان سے کچھ گفتگو کرنے کا مجھ کو موقع ملا ہے کیا مجھ کو اجازت ہے؟”
نازلی نے دبی زبان سے کہا، "فرمائیے۔”
"آپ میرے نام سے تو واقف ہیں کیا میں دریافت کر سکتا ہوں کہ آپ کو مجوزہ یہ رشتہ پسند ہے؟” اس کا نازلی نے کوئی جواب نہ دیا اس کے چہرے پر ایک خفیف سا رنگ آیا اور چلا گیا وہ زمین کی طرف دیکھ رہی تھی اور اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی سے داہنا ہاتھ کرید رہی تھی۔ انداز سے نوری نے معلوم کر کے کہا میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اسی سلسلے میں نوری نے پوچھا، "کیا آپ میری اس ملاقات کو ناپسند کرتی ہیں؟”
"جی نہیں۔”
"تو پھر آپ نے اپنے والد صاحب سے اس بارے میں غیر آمادگی کا اظہار کیوں کیا تھا؟”
نازلی کے لبوں پر ایک مسکراہٹ آئی لیکن شرم کی وجہ سے شاید کچھ نہ کہہ سکی، نوری نے فوراً کہا، "آپ کو اس بات کا جواب ضرور دینا پڑے گا اور میں بے پوچھے نہ مانوں گا۔” نازلی نے کچھ تامل سے کہا، "میں نے یونہی کہہ دیا تھا۔” نوری نے برجستہ کہا، "تو اس سے یہ مطلب میں نکال سکتا ہوں کہ آپ مجھ سے ملنا چاہتی ہیں۔” نوری نے یہ کہتے ہوئے نازلی کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر کہا، "سچ سچ بتائیے کہ کیا آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں، میں آپ کے دل کی بات معلوم کرنا چاہتا ہوں۔”
نازلی کی نظریں نیچی تھیں، اس کے سرخ اونی شال پر بجلی کی روشنی چمک رہی تھی جس کا عکس اس کے چہرے پر پڑ کر سیاہ گاؤن کے ساتھ ایک عجیب کیفیت پیدا کر رہا تھا۔ اس نے ذرا تامل سے کہا، "میں آپ کو دیکھنا چاہتی تھی، ملنے کا تو مجھ کو خیال بھی نہ آ سکتا تھا۔”
"کیا آپ مجھ کو بتا سکتی ہیں کہ آپ مجھ کو کیوں دیکھنا چاہتی تھیں؟” یہ سوال کرنے سے نوری کو خود ہنسی آ گئی۔ نازلی نے بھی اب ہمت کر کے کہا، "پہلے آپ ہی بتائیے کہ آپ آخر کیوں مجھ سے ملنا چاہتے تھے، جس لیے آپ مجھ سے ملنا چاہتے تھے اس لئے میں بھی چاہتی تھی کہ آپ کو دیکھ لوں۔” نوری نے کہا، "میں تو آپ کو اس لیے دیکھنا چاہتا تھا کہ جو کچھ بھی میں نے اپنی بہن اور ماں سے آپ کے بارے میں سنا ہے اس کی تصدیق کر لوں مگر یہ تو بتائیے کہ آپ کیوں مجھ کو دیکھنا چاہتی تھیں؟”
نازلی نے اب نظریں اوپر کر لی تجیں اور اب روبرو ہو کر باتیں سن رہی تھی، اس کو ان سوالات پر کچھ ہنسی بھی آ رہی تھی اور اس نے جواب دیا کہ "میں تو یونہی آپ کو دیکھنا چاہتی تھی۔”
"مگر میں آپ سے بغیر اس کی وجہ پوچھے نہ مانوں گا۔” نازلی نے کہا، "مجھ کو معلوم ہی نہیں تو پھر بھلا آپ کو کیا بتاؤں۔” نوری کو اس جواب سے اطمینان ہو گیا لیکن اس نے اب دوسرا سوال پیش کر دیا، "میں جب پیرس میں بیمار پڑ گیا تھا تو آپ کو یاد ہوگا آپ نے دو مرتبہ اپنے خطوط میں میری بہن کو لکھا تھا کہ تمہارے بھائی اب کیسے ہیں؟ یہ آخر کیوں لکھا تھا؟” نازلی کو اس بات پر ہنسی آ گئی اور وہ کہنے لگی، "معاف کیجئے گا آپ کیسے سوالات کر رہے ہیں کیا کسی کی خیریت دریافت کرنا گناہ ہے؟”
نوری نے کہا، "اچھا آپ صرف یہ بتائیے کہ کیا آپ میری بیماری کا سن کر کچھ متفکر ہوئی تھیں اور کیا آپ کو میرا خیال آیا تھا۔” نازلی نے سمجھ لیا تھا کہ ایسے سوالوں سے نوری کا مطلب کیا ہے اور اس کو بھی ان سوالات میں دلچسپی آ رہی تھی۔ اس نے بجائے جواب دینے کے ہنستے ہوئے کہا، "اچھا پہلے آپ بتائیے کہ اگر اسی زمانہ میں میں بیمار پڑتی اور آپ کو اس کا علم ہوتا تو آپ میری خیریت دریافت کراتے یا کچھ متفکر ہوتے یا آپ کو میرا کچھ خیال آتا؟”
نوری کچھ لاجواب ہو کر، "میرا خیال ہے کہ ضرور مجھ کو بہت خیال آتا اور فکر بھی ہوتی اور میں خیریت بھی دریافت کراتا۔” نازلی کامیابی کی خوشی کے لہجے میں تیزی سے بولی، "آخر کیوں، آخر کیوں، نہ میں نے کبھی آپ کو دیکھا اور نہ آپ نے ہی مجھ کو دیکھا تھا۔”
نوری اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا۔ نازلی کا ہاتھ بدستور اس کے ہاتھوں میں تھا اس نے اس کے ہاتھ کو نرمی سے دباتے ہوئے عجیب پیرایہ میں کہا، "میری جو باتیں خود سمجھ میں نہیں آتی تھی انہیں دریافت کرنا چاہتا تھا لیکن دراصل میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آپ کی طرف سے جو خیالات میرے دل میں تھے، کیا ویسے ہی میری طرف سے آپ کے دل میں بھی ہیں۔”
"پھر آپ نے کیا پایا؟”
"آپ کی اور اپنی حالت کو یکساں پایا۔ یہ ایک بات ہے کہ یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم دونوں میں محبت کی بنیاد دراصل اس وقت سے استوار ہو گئی جب ہم دونوں کو اس کا علم ہوا کہ یہ رشتہ قائم ہوگا۔”
اس کا جواب نازلی نے کچھ نہ دیا صرف اس کے نرم ہاتھ کو جنبش سی ہوئی جو نوری کے ہاتھ میں تھا اور یہی جواب تھا جو اس کے جذبات کی صحیح ترجمانی کر رہا تھا۔ نوری نے متاثر ہو کر کہا، "ایک سوال اور کروں گا اور اس کا جواب خدا کے واسطے ضرور دینا وہ یہ کہ آپ نے جو اپنے ہاتھ سے ایک جنگل کے سین کی رنگ برنگی تصویر بنا کر میری بہن کو بھیجی تھی، وہ کیوں بھیجی تھی؟”
"وہ میں نے اس لیے بھیجی تھی کہ انہوں نے مجھ کو تصویروں کا ایک البم بھیجا تھا، تبادلہ تحفہ جات تو ایک پرانی رسم ہے۔”
نوری نے بے تاب ہو کر کہا، "خدا کے واسطے ذرا اپنے دل کو ٹٹولئے اور اچھی طرح ٹٹولئے ہر معاملہ میں میرا اور آپ کا حال ایک سا نکلتا ہے بخدا مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ تصویر آپ نے میری بہن کے لیے نہیں بلکہ میرے لئے بھیجی تھی تاکہ میں دیکھوں اور خوش ہوں، اس وقت جس وقت تصویر آئی تو میرے دل میں یہی خیال تھا اور اب بھی یہی خیال ہے، سچ مچ کہئے گا کہ آپ جس وقت تصویر بھیج رہی تھیں کیا آپ کے دل میں کچھ میرا خیال آیا تھا۔” نازلی کچھ حیران سی رہ گئی کیونکہ اس وقت نوری نے اس کے دل کی گہرائی کا اس طرح پتہ لگا لیا کہ اس کو وہم و گمان بھی ہونا ناممکن تھا۔ وہ کچھ جواب نہ دے سکی اور حیرت میں تھی، ساتھ میں حقیقی شرم بھی اس کو بولنے نہ دیتی تھی۔
نوری نے اصل حقیقت کو سمجھ لیا اور اصرار کے ساتھ کہا، "اس بات کا میں آپ سے ضرور جواب لوں گا یہ میرا آخری سوال ہے اور میں اس وقت آپ کے صحیح جواب کا بے تابانہ انتظار کر رہا ہوں بتائیے تو سہی کہ وہ تصویر آپ نے کس کے لیے بھیجی تھی۔”
"آپ کے لئے” یہ کہہ کر نازلی نے آنکھیں نیچی کر لیں۔
نوری کی آنکھیں چمکنے لگیں اس کا دل جواب سن کر دھڑکنے لگا۔ اس نے زور سے نازلی کا ہاتھ گویا لاعلمی میں دبایا اور خوش ہو کر اس کے منہ سے نکلا، "بخدا؟”
"بخدا” نازلی کی زبان سے بھی نکلا۔
دونوں تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ نازلی نیچی نظریں کئے ہوئے بیٹھی تھی، نوری نے گھڑی دیکھی اور چاروں طرف دیکھ کر نازلی کا ہاتھ آہستہ سے چھوڑ دیا، اپنی جیب سے اس نے ہیرے کی ایک انگوٹھی نکالی جس کی دمک سے بجلی کی روشنی میں آنکھیں خیرہ ہوتی تھیں، نازلی نے آنکھ کے گوشہ سے انگوٹھی کو دیکھا تو اس نے مسکرا کر کہا، "یہ آپ کے لیے ہے” ہاتھ پکڑ کر کہا، "کیا آپ اجازت دیتی ہیں” اور یہ کہتے ہوئے نازلی کی انگلی میں انگوٹھی پہنا کر اس کے ہاتھوں کو لبوں سے لگا کر آہستہ آہستہ سے چھوڑ دیا۔
"خدا حافظ۔ خدا حافظ۔” کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا، ایک طویل مصافحہ کیا اور پھر خدا حافظ کہہ کر اجازت چاہی۔ "خدا حافظ” نازلی نے آہستہ سے کہا۔ چلتے چلتے دروازے سے مڑ کر اس نے نازلی کی طرف دیکھا جو خود اس کو جاتا ہوا دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس حیات، محمد شمشاد خان، ذیشان حیدر، ذو القرنین، وجیہہ، محمد امین، فہیم اسلم اور دوسرے اراکینِ اردو محفل
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
حصہ ۱
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
حصہ ۲
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
حصہ ۳
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
حصہ ۴