اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


حکمتِ نبوی ۔۔۔ ڈاکٹر اسرار احمد

چالیس بلکہ زائد احادیث کا تفسیری مجموعہ

حکمتِ نبوی

از قلم

ڈاکٹر اسرار احمد

ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کتاب کا نمونہ پڑھیں……

 

(1) نماز کی عظمت و اہمیت

 

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہما) سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے نماز کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: ((مَن حَافَظَ عَلَیہَا کَانَت لَہٗ نُورًا وَبُرہَانًا وَنَجَاۃً یَومَ القِیَامَۃِ وَمَن لَم یُحَافِظ عَلَیہَا لَم تَکُن لَہٗ نُورًا وَلَا بُرہَانًا وَلَا نَجَاۃً، وَکَانَ یَومَ القِیَامَۃِ مَعَ قَارُونَ وَفِرعَونَ وَہَامَانَ وَاُبَیِّ بنِ خَلفٍ)) (رواہ احمد والدارمی والبیہقی فی شعب الایمان) جو بندہ نماز اہتمام سے ادا کرے گا تو وہ قیامت کے دن اس کے واسطے نور ہو گی (جس سے قیامت کے اندھیروں میں اس کو روشنی ملے گی اور اس کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے اس کی وفا داری اور اطاعت شعاری کی نشانی) اور دلیل ہو گی اور اس کے لیے نجات کا ذریعہ بنے گی اور جس شخص نے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا (اور اس سے غفلت اور بے پروائی برتی) تو وہ اس کے واسطے نہ نور بنے گی نہ برہان اور نہ ذریعہ نجات اور وہ بدبخت قیامت میں قارون فرعون ہامان اور (مشرکین مکہ کے سرغنہ) اُبی بن خلف کے ساتھ ہو گا۔ نماز دین اسلام کا رکن اعظم ہے۔ اس کی اہمیت اس بات سے واضح ہے کہ قرآن مجید میں بار بار اس کی ادائیگی کا حکم ہے۔ یہ مسلمان کی علامت ہے کیونکہ ایک حدیث میں کفر اور اسلام کا فرق نماز کو بتایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُمت کے صلحاء و اتقیاء نے عمر بھر نماز کی پابندی کی ہے۔ بزرگانِ دین میں سے ایسا کوئی نہیں جس نے نماز کی ادائیگی میں غفلت کی ہو بلکہ مقربین بارگاہِ الٰہی کی اوّلین نشانی نماز ہی ہے اور ہمیں قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں میں کوئی فرد بے نماز نظر نہیں آتا۔ نماز کسی کو معاف نہیں۔ خود رسول اللہﷺ نے حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات تک نماز ادا کی اور یہی طریقہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اختیار کیا۔ اقامت صلوٰۃ تقرب الی اللہ کا وسیلہ ہے جبکہ ترک صلوٰۃ انتہائی بد بختی اور خدا کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ حجۃ اللہ البالغہ میں نماز کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اعلم ان الصلوۃ اعظم العبادات شأنا واوضحہا برہاناً واشہرہا فی الناس وانفعہا فی النفس ولذلک اعتنی الشارع ببیان فضلہا وتعیین اوقاتہا و شروطہا وارکانہا وادابہا ورخصہا ونوافلہا اعتناء عظیما لم یفعل سائر انواع الطاعات وجعلہا من اعظم شعائر الدین۔ جان لو کہ نماز اپنی عظمت شان اور مقتضائے عقل و فطرت ہونے کے لحاظ سے تمام عبادات میں خاص امتیاز رکھتی ہے اور خدا شناس و خدا پرست انسانوں میں سب سے زیادہ معروف و مشہور اور نفس کے تزکیہ اور تربیت کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند ہے اور اسی لیے شریعت نے اس کی فضیلت اس کے اوقات کی تعیین و تحدید اس کے شرائط و ارکان اور آداب و نوافل اور اس کی رخصتوں کے بیان کا وہ اہتمام کیا ہے جو عبادات و طاعات کی کسی دوسری قسم کے لیے نہیں کیا اور انہی خصوصیات و امتیازات کی وجہ سے نماز کو دین کا عظیم ترین شعار اور امتیازی نشان قرار دیا گیا ہے۔ نماز رسول اللہﷺ کی پسندیدہ عبادت تھی جسے آپؐ نے آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا ہے۔ ایک نماز پڑھ چکنے کے بعد آپ کو اگلی نماز کا انتظار رہتا تھا۔ نماز در اصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی ہے۔ آپﷺ نے نماز کو دین کا ستون قرار دیا ہے۔ نماز روحانی ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہ برائیوں سے روکتی اور فحش کاموں سے دور رکھتی ہے اخلاق حسنہ پیدا کرتی ہے۔ نماز روح کو تقویت بخشنے کے ساتھ ساتھ کئی اعتبارات سے جسمانی صحت کے لیے بھی مفید ہے۔ نماز کے لیے وضو لازم ہے اور وضو انسان کے جسم کو پاک و صاف رکھتا اور گندگی سے بچاتا ہے۔ نماز اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا پر مشتمل ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے عاجزی کے ساتھ دعا کی جاتی ہے اور دعا سراسر عبادت ہے۔ پھر انسان کو عبادت ہی کے لیے تو پیدا کیا گیا ہے۔ اس سے خودبخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز سے غافل شخص اپنے مقصد تخلیق سے ہی آگاہ نہیں اور یہ انتہائی بدنصیبی کی بات ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رضی اللہ عنہما) سے روایت کردہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایک دن رسول اللہﷺ نے نماز کے بارے میں گفتگو فرماتے ہوئے نماز کو قیامت کے دن کا نور قرار دیا۔ قیامت کا دن کتنا ہولناک ہو گا اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قیامت کی ان تاریکیوں میں نماز روشنی کا کام دے گی۔ ایک مرتبہ آپﷺ نے فرمایا کہ میں قیامت کے روز اپنی اُمت کے افراد کو اس طرح پہچان لوں گا کہ ان کے وضو کے اعضاء اس دن روشن ہوں گے۔ اور یہ وہی لوگ ہوں گے جو نماز پابندی سے ادا کرتے ہوں گے۔ اندھیرے میں روشنی ملنے کی قدر و قیمت وہی جان سکتا ہے جسے دنیا میں کسی وقت اندھیرے سے پالا پڑا ہو اور اس وقت وہ آگے قدم بڑھانے کے قابل بھی نہ رہا ہو۔ آپﷺ نے فرمایا نماز دلیل ہو گی۔ یعنی آدمی کے ایمان اور اللہ تعالیٰ سے اس کی وفا داری اور اطاعت شعاری کی علامت ہو گی اور اس بات پر شہادت دے رہی ہو گی کہ اس بندے نے اپنے خالق و مالک کی یاد میں زندگی گزاری ہے اور یہ ذکر الٰہی سے غافل نہیں رہا۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ نماز قیامت کے دن نجات کا سبب بنے گی۔ ظاہر ہے جس شخص کو قیامت کے دن کامیاب قرار دیا گیا اس سے زیادہ خوش بخت اور نصیبے والا اور کون ہو سکتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے بے نمازی کے حرمان اور بدنصیبی کا بھی ذکر فرمایا کہ جس شخص نے نماز کی ادائیگی کا اہتمام نہیں کیا بلکہ غفلت اور بے پروائی کا رویہ اختیار کئے رکھا وہ قیامت کے اندھیرے میں روشنی سے محروم رہے گا۔ جس کے پاس نماز کا توشہ نہ ہو گا وہ وفا داری کی دلیل کہاں سے لائے گا۔ لہٰذا اس کے پاس اطاعت شعاری اور عبادت گزاری کا کوئی ثبوت نہ ہو گا اور نتیجتاً وہ نجات بھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ کیونکہ روزِ قیامت سب سے پہلے نماز ہی کے بارے میں پوچھا جائے گا اور جو اُس موقع پر تہی دست پایا گیا اس کی ناکامی کا اعلان کر دیا جائے گا اور رسول اللہﷺ کے فرمان کے بموجب ایسے شخص کو قارون فرعون ہامان اور اُبی بن خلف جیسے بدترین لوگوں کا ساتھی قرار دیا جائے گا یعنی جس سزا کے وہ مستحق ہوں گے اسی سزا کا مستحق بے نمازی ہو گا۔ اس حدیث میں رسول اللہﷺ نے نماز پڑھنے والے کا انجام عاقبت کی کامیابی اور بے نماز کا انجامِ بد واضح کر دیا ہے۔ اب ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ نماز کی اہمیت سے آگاہ ہو کر نہ صرف خود نماز کی پابندی کرے بلکہ اپنے رشتے داروں دوستوں اور خاص طور پر اپنے بیوی بچوں کو نماز کی تلقین کرے تا کہ ان کے ساتھ سچی خیر خواہی کا حق ادا ہو سکے۔ کیونکہ حقیقی خیرخواہی یہی ہے کہ کسی فرد کو ابدی عذاب سے رہائی کی راہ پر ڈال دیا جائے۔ پھر حضورﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ نیکی کی طرف راہ نمائی کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا خود نیکی کرنے والے کو۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں علم و عمل کی دولت سے مالا مال کر دے اور اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے۔

٭٭٭

 

(2) قرض کے معاملہ کی سنگینی

 

عَن سَلَمَۃَ بنِ الاَکوَعِؓ قَالَ: کُنَّا جُلُوسًا عِندَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ اِذ اُتِیَ بِجَنَازَۃٍ فَقَالُوا صَلِّ عَلَیھَا، فَقَالَ: (( ھَل عَلَیہِ دَینٌ؟)) قَالُوا لَافَصَلّیٰ عَلَیھَا ثُمَّ اُتِیَ بِجَنَازَۃٍ اُخریٰ فَقَالَ: (( ھَل عَلَیہِ دَینٌ؟)) قِیلَ نَعَمقَالَ: ((فھَل تَرَکَ شَیئًا؟)) قَالُوا ثَلَاثَۃُ دَنَانِیرَ فَصَلّیٰ عَلَیھَا ثُمَّ اُتِیَ بِالثَّالِثَۃِ فَقَالَ: ((ھَل عَلَیہِ دَینٌ؟)) قَالُوا ثَلَاثَۃُ دَنَانِیرَ قَالَ: ((ھَل تَرَکَ شَیئًا؟)) قَالُوا لَا قَالَ: ((صَلُّوا عَلیٰ صَاحِبِکُم)) قَالَ اَبُو قَتَادَۃَؓ : صَلِّ عَلَیہِ یَا رَسُولَ اللّٰہِ وَعَلَیَّ دَینُہٗ فَصَلّیٰ عَلَیہِ (صحیح البخاری، کتاب الحوالات، باب اناحال دین المیت علی رجل جاز) حضرت سلمۃ بن الاکوعؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ایک جنازہ لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ حضور! اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دیجئے! آپﷺ نے دریافت فرمایا: کیا اس آدمی پر کچھ قرض ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ کچھ قرض نہیں ہے۔ تو آپﷺ نے اس کی جنازہ کی نماز پڑھا دی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا اس کے بارے میں آپﷺ نے پوچھا: اس میت پر کسی کا قرضہ ہے؟ عرض کیا گیا کہ ہاں اس پر قرض ہے تو آپﷺ نے دریافت فرمایا: کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے (جس سے قرض ادا ہو جائے؟) لوگوں نے عرض کیا کہ اس نے تین دینار چھوڑے ہیں تو آپﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھا دی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا تو آپﷺ نے اس کے بارے میں بھی دریافت فرمایا: کیا اس مرنے والے پر کچھ قرضہ ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں اس پر تین دینار کا قرضہ ہے۔ آپؐ نے دریافت فرمایا: اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے (جس سے قرض ادا ہو سکے؟) لوگوں نے عرض کیا کچھ نہیں چھوڑا تو آپؐ نے حاضرینِ صحابہؓ سے فرمایا: اپنے اس ساتھی کی نمازِ جنازہ تم لوگ پڑھ لو۔ تو حضرت ابو قتادہ انصاریؓ نے عرض کیا: حضور! اس کی نماز پڑھا دیں اور اس پر جو قرضہ ہے وہ میں نے اپنے ذمہ لے لیا (میں ادا کروں گا) تو اس کے بعد آپؐ نے اس کی جنازہ کی نماز بھی پڑھا دی۔ بعض اوقات انسان کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ اس کے لیے ناگزیر ضرورت کے تحت قرض لینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ ایسے ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے قرضہ دینا بہت بڑے اجر و ثواب کا کام ہے، اور اگر وہ حالات سے مجبور ہو تو اسے فراخی تک مہلت دینے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور اگر اس کے فقر و فاقہ غربت اور ناداری کے پیش نظر قرض کی رقم معاف ہی کر دی جائے تو ایسے شخص کو رسول اللہﷺ نے خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا۔ اسی طرح قرض کے معاملے کے آداب بھی بتائے گئے ہیں کہ فریقین قرض کی دستاویز تحریر کریں جس میں قرضے کی رقمواپسی کی میعاد اور جملہ شرائط کا ذکر ہو اور اس تحریر پر دو مرد یا ایک مرد او دو عورتوں کو گواہ بھی ٹھہرایا جائے۔ مگر جہاں ضرورت مند کو قرض دینے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں قرض لینے کی سخت حوصلہ شکنی کی گئی ہے کیونکہ قرض ایک بوجھ ہے جسے ادا کئے بغیر انسان کا چھٹکارا نہیں۔ یہ قرض خواہ کا حق ہے جو بہرحال اسے دلوایا جائے گا۔ پس حتی الوسع قرض لینے سے گریز کرنا چاہئے اور اگر کوئی سخت مجبوری پیش آ جائے اور قرض لینا ضروری ہو جائے تو اپنے وسائل کاجائزہ لے کر اتنی ہی رقم قرض لینی چاہئے جس کی واپس ادائیگی ممکن نظر آ رہی ہو۔ قیامت کے دن جب حساب کتاب ہو گا تو ہر حق دار کو اس کا حق دلوایا جائے گا۔ جس شخص کے ذمہ کسی کی رقم ہو گی وہ اسے کیسے ادا کرے گا کیونکہ وہاں کسی کے پاس درہم و دینار تو نہیں ہوں گے۔ ایک حدیث کے مطابق قرض خواہ کو مقروض کے نیک اعمال کا ثواب دے کر راضی کیا جائے گا اور یہ وہ وقت ہو گا جب ہر کسی کو اپنے نیک اعمال کے ثواب کی ضرورت ہو گی۔ اور اگر مقروض کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو قرض خواہ کے گناہ بقدرِ قرضہ قرض دار کے کھاتہ میں ڈال دیئے جائیں گے۔ یہی مطلب ہے اس مشہور حدیث کا جس میں اُمت کا مفلس اُس شخص کو کہا گیا ہے جس نے نیکی کے بہت سے کام کئے مگر لوگوں کے حقوق بھی تلف کئے۔ حساب کے دن جب لوگ اس سے مطالبے کریں گے اور وہ ادائیگی نہ کر سکے گا تو اس کی نیکیاں لوگوں کو دلوائی جائیں گی، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی مگر حق دار ابھی موجود ہوں گے۔ اُس وقت حق داروں کے گناہ اس شخص کے ذمہ ڈال کر انہیں راضی کیا جائے گا۔ ایسا شخص ڈھیروں نیکیوں کے باوجود جنت میں نہ جا سکے گاکیونکہ اس نے حقوق العباد کے سلسلہ میں احتیاط سے کام نہ لیا ہو گا۔ پس معلوم ہوا کہ حقوق العباد کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ اور قرض کا لین دین حقوق العباد کی ایک واضح صورت ہے جس میں قرضے کی عدم واپسی مقروض کی نجات کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جائے گی۔ قرض کے معاملہ کی سنگینی کے پیش نظر نبیِ رحمتﷺ جنازہ پڑھانے سے پہلے دریافت کرتے تھے کہ اس شخص کے ذمہ کسی کا قرضہ تو نہیں۔ چنانچہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایک شخص کا جنازہ لایا گیا آپﷺ نے حسب معمول دریافت فرمایا کہ اس کے ذمہ قرض ہے؟ جب بتایا گیا کہ نہیں تو آپﷺ نے اس کا جنازہ پڑھا دیا۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپﷺ کے استفسار پر بتایا گیا کہ اس پر قرضہ تو ہے مگر وہ اس کی ادائیگی کے بقدر رقم بھی چھوڑ گیا ہے تو بھی آپﷺ نے اس کا جنازہ پڑھا دیا۔ پھر جب تیسرا جنازہ لایا گیا تو وہ ایسے شخص کا تھا جس کے ذمہ قرض تھا اور وہ اس قرض کی ادائیگی کے بقدر مال بھی نہیں چھوڑ گیا تھا تو آپؐ نے اس کا جنازہ پڑھانے سے گریز کیا اور صحابہ کرامث کو فرمایا کہ تم خود ہی اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو۔ اس پر حاضرین میں سے ایک صاحب نے مرنے والے کے ذمہ قرض کی رقم کی ادائیگی کی ذمہ داری لے لی تو آپؐ نے اس کی نماز جنازہ بھی پڑھا دی۔ اس واقعے سے قرض کی ذمہ داری کے بوجھ کی سنگینی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس موضوع کی تائید میں رسول اللہﷺ کے بیشتر فرمودات ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ شہید ہونے والے مردِ مؤمن کے سارے گناہ بخش دیے جاتے ہیں سوائے قرض کے۔ صاف ظاہر ہے کہ قرض تو بندے کا حق ہے وہ تو بندہ ہی معاف کرے گا اور قیامت کے دن جب ماں باپبھائیبیٹا اور بیوی بھی کام نہ آئیں گے ہر ایک کو اپنی اپنی فکر دامن گیر ہو گیاس موقع پر کون اپنا حق چھوڑے گا؟ اسی طرح جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مؤمن بندہ کی روح اس کے قرضہ کی وجہ سے معلق اور رکی رہتی ہے جب تک وہ قرضہ ادا نہ کر دیا جائے جو اُس کے ذمہ ہے۔ سنن ابی داؤد میں حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان کبیرہ گناہوں کے بعد جن سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے (جیسے شرک زنا وغیرہ) سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اس حال میں مرے کہ اس پر قرض ہو اوروہ اس کی ادائیگی کا سامان چھوڑ نہ گیا ہو۔ حضرت محمد بن عبد اللہ بن جحشؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: قسم ہے اُس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد(ﷺ) کی جان ہے اگر کوئی آدمی راہِ خدا میں شہید ہو اور وہ شہادت کے بعد پھر زندہ ہو جائے پھر جہاد میں شریک ہو اور اس کے بعد پھر زندہ ہو جائے اور پھر راہِ خدا میں شہید ہو اور پھر زندہ ہو جائے اور اس کے ذمہ قرض ہو تو وہ جنت میں اُس وقت تک نہ جا سکے گا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہو جائے۔ زیر درس حدیث میں رسول اللہﷺ نے اس شخص کا جنازہ پڑھانے سے گریز کیا جس کے ذمہ قرض تھا۔ بعد ازاں جب افلاس و ناداری کا دور ختم ہو گیا تو آپﷺ نے اعلان فرما دیا کہ اگر کوئی مسلمان اس حالت میں انتقال کر جائے کہ اس پر قرض ہو (اور اس نے ادائیگی کے لیے کوئی سامان بھی نہ چھوڑا ہو) تو وہ قرض میرے ذمہ ہے میں اس کو ادا کروں گا۔ ظاہر ہے یہ آپﷺ نے اس لیے فرمایا کہ آپؐ کو یہ بات ہرگز گوارا نہ تھی کہ کوئی مسلمان قرض کا بار لیے ہوئے دارِ فانی سے رخصت ہو اور یہ قرض اُس کی بخشش کے راستے میں رکاوٹ بن جائے۔ اس ضمن میں رسول اللہﷺ کا یہ فرمان بھی پیش نظر رہے کہ جو آدمی لوگوں سے ادھار لے اور اس کی نیت ادا کرنے کی ہو تو اللہ تعالیٰ اسے ادا کرا دے گا۔ پس عافیت اسی میں ہے کہ قرض لینے سے حتی الوسع گریز کیا جائے اور اگر کہیں شدید ضرورت کے تحت قرض لینا پڑے تو جلد واپسی کی نیت کرے اور جونہی وسعت ملے فوراً ادا کر دے۔ دوسری طرف مقروض کو مہلت دینے کی فضیلت پر بھی نگاہ رکھے اور مقروض کے ساتھ نرمی کا سلوک کر کے مالک یوم الدین سے رحمت اور نجات کی امید رکھے۔ لواحقین اور وارثوں کے لیے بھی یہ اشد ضروری ہے کہ اگر مرنے والے کے ذمہ قرض کی رقم ہو تو وہ اس کی فوری ادائیگی کا انتظام کر کے اس کی حقیقی خیر خواہی کا ثبوت دیں۔

٭٭٭

 

 

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید