حمایت علی شاعر … اک جسم تھا کہ روح سے مصروفِ جنگ تھا
مشہور شاعر حمایت علی شاعر کے بارے میں
ڈاکٹر غلام شبیر رانا
کی کتاب
ڈاؤن لوڈ کریں
کنڈل فائل
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
منظوم آپ بیتی
عالمی ادب کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ ادب میں سوانح نگاری قدیم زمانے سے مروّج و مقبول رہی ہے۔ عالمی ادب کی سب سے پہلی سوانح عمری یونان سے تعلق رکھنے والے سوانح نگار پلو ٹارک (Plutarch: B: c. Ad 46,D. c.AD 120) نے لکھی۔ پلوٹارک نے دوسری صدی عیسوی میں لکھی گئی اپنی اس پہلی سوانح عمری (Parallel Lives) میں اہم رومن اور یونانی شخصیات کے بارے میں متعدد حقائق کو پیش کیا ہے۔ کسی بھی شخصیت کی کتابِ زیست کے اوراقِ ناخواندہ کی تفہیم کے سلسلے میں مطالعۂ احوال کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ محقق کے لیے شخصیت شناسی ایک کٹھن مر حلہ ہے جس کے لیے اہم ترین بنیادی مآخذ تک رسائی، شخصیت سے متعلق تمام دستاویزات کا حصول، شخصیت کی علمی، ادبی، سماجی اور معاشرتی فعالیتوں سے آگاہی، شخصیت کے احباب، رشتہ داروں اور معاصر ادیبوں سے روابط کے بارے میں ثقہ روایات، مستند حوالے اور اس کے مشاغل کی تفصیلات کی احتیاج ہے۔ کسی ممتاز ادیب کی زندگی اور علمی و ادبی کمالات کا تحقیقی جائزہ لیتے وقت سائنسی اندازِ فکر، قوتِ فیصلہ اور تحلیل نفسی کی اساس پر استوار تحقیقی و تنقیدی بصیرت کو زادِ راہ بنانا لازم ہے۔ قدیم زمانے میں شخصیت شناسی کے سلسلے میں اردو ادب میں تذکرہ نویسی کو سکۂ رائج الوقت کی حیثیت حاصل تھی۔ قدیم تذکرہ نگاروں نے اپنے عہد کی ممتاز ادبی شخصیات اوران کی تخلیقی فعالیتوں کو تاریخِ ادب کے صفحات میں محفوظ کیا۔ اُردو زبان کی کلاسیکی شاعری سے دلچسپی رکھنے والے آئینۂ حیرت، گل رعنا، خم خانۂ جاوید، مجموعۂ نغز، طبقات الشعرا اور گلشنِ بے خار جیسے اہم تذکروں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ تذکرہ نویسی کے بعد خود نوشت کو اولین ماخذ کی بناپر بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
فن سوانح نگاری کے بارے میں حمایت علی شاعر کی سوچ نہایت واضح ہے۔ سوانح نگاری میں کسی شخصیت کی حیات، خدمات، تعلقات، کمالات اور تحفظات کے بارے میں سائنسی اندازِ فکر کی اساس پر کی جانے والی تحقیق سے حاصل کی جانے والی تمام معلومات کو غیر جانب داری سے کام لیتے ہوئے یک جا کر دیا جاتا ہے۔ شخصیت کے بارے میں کچھ ثابت کرنا، کسی بات کا یقین دلانا یا شخصیت پر نکتہ چینی کرنا سوانح نگار کے دائرۂ کارسے باہر ہے۔ حمایت علی شاعر کے اسلوب میں سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے ممتاز ادیب جیمز بوس ویل (James Boswell: 1740-1795) کی اس سوانح عمری کے کچھ پہلو ملتے ہیں لیتے جس میں اس محنتی سوانح نگار نے برطانیہ کے نابغۂ روزگار شاعر، مقبول ڈرامہ نگار، ادبی نقاد، سوانح نگار، مدیر، لغت نویس، ماہر لسانیات اور اخلاقیات کے علم بردار سیموئل جانسن (Samuel Johnson: 1709-1784) کے حالات زندگی پر قلم اُٹھایا تھا۔ جیمز بوس ویل نے جب اپنی محبوب شخصیت (سیموئل جانسن) کے بارے میں اپنے خیالات لکھنے کا آغاز کیا تو اُس کے پاس اپنے ممدوح کی زندگی کے متعلق بہت کم مواد تھا۔ اس نے موضوع سے متعلق اہم بنیادی مآخذ تک رسائی میں جس محنت شاقہ سے کام لیا اس کا ایک عالم معترف ہے۔ قارئین کو سیموئل جانسن کے بارے میں حقائق پر مبنی معلومات فراہم کرنے میں اس نے سائنسی اندازِ فکر پر مبنی تحقیقی و تنقیدی اسلوب اپنا یا اور مضامینِ نو کے انبار لگ دئیے۔ اس نے ثابت کر دیا کہ سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جاتے ہیں مگر لفظ کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آتی۔ حمایت علی شاعر کی اس منظوم سوانح نگاری کا مطالعہ کرتے وقت سوانح نگاری کے فن اور اسلوب کے سلسلے میں اے۔ جے۔ اے۔ سائمنز (A.J.A. Symons: 1900-1941) کی اہم تصنیف ’’The Quest For Corvo: An Experiment in Biography) جو اپنے موضوع کے اعتبارسے کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہے کے معائر ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ مجموعی اعتبار سے ہمارا معاشرہ بہت زود رنج ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عرصۂ ظلمت حیات کے گمبھیر اثرات اور زنجیر حادثات کی اذیت و عقوبت کے غیر مختتم سلسلے دیکھ کر ثمر آرزو کی تمنا مات کھا کر رہ جاتی ہے۔ حمایت علی شاعر نے اس منظوم آپ بیتی میں عالمی ادب کے نئے رجحانات کو پیش نظر رکھا ہے۔ اردو زبان و ادب کے با ذوق قارئین نے اس منظوم آپ بیتی کے سخن سخن کی داد دی ہے۔
اردو زبان کی پہلی منظوم آپ بیتی ’’آئینہ در آئینہ‘‘ حمایت علی شاعر کی تخلیق ہے۔ یہ منظوم آپ بیتی کراچی سے صہبا لکھنوی کی ادارت میں شائع ہونے والے رجحان ساز ادبی مجلہ ماہ نامہ ’’افکار‘‘ میں قسط وار شائع ہوتی رہی۔ یہ منظوم آپ بیتی تین ہزار پانچ سو (3500) اشعار پر مشتمل ہے جب یہ کتابی صورت میں شائع ہوئی تواس کو چار سو (400) صفحات پرچھاپا گیا۔ اس منظوم آپ بیتی میں حمایت علی شاعر نے تحلیل نفسی اور احتسابِ ذات کو پیش نظر رکھا ہے۔ یہ آپ بیتی ایک تہذیبی و ثقافتی روداد کی صورت میں اپنی حقیقت کا اثبات کرتی ہے اور قاری کے فکر و خیال کو مہمیز کرتی ہے۔ منفرد اسلوب کی حامل اس آپ بیتی میں شاعر کے تخیل کی جولانیاں،ا لفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اس آپ بیتی کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں اُردو زبان کی کلاسیکی شاعری اور سوانح نگاری کی اقدار و روایات کی اساس پر ایک عالی شان قصر شاعری تعمیر کیا گیا ہے۔ آئینہ در آئینہ (منظوم آپ بیتی) میں حمایت علی شاعر نے تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کو پروان چڑھانے کی جو کوشش کی ہے وہ لائق صد رشک و تحسین ہے۔
آئینہ در آئینہ
اس بار وہ ملا تو عجب اس کا رنگ تھا
الفاظ میں ترنگ نہ لہجہ دبنگ تھا
اک سوچ تھی کہ بکھری ہوئی خال و خد میں تھی
اک درد تھا کہ جس کا شہید انگ انگ تھا
اک آگ تھی کہ راکھ میں پوشیدہ تھی کہیں
اک جسم تھا کہ روح سے مصروفِ جنگ تھا
میں نے کہا کہ یار تجھے کیا ہوا ہے یہ
اس نے کہا کہ عمر رواں کی عطا ہے یہ
میں نے کہا کہ عمر رواں تو سبھی کی ہے
اس نے کہا کہ فکر و نظر کی سزا ہے یہ
میں نے کہا کہ سوچتا رہتا تو میں بھی ہوں
اس نے کہا کہ آئینہ رکھا ہوا ہے یہ
دیکھا تو میرا اپنا ہی عکس جلی تھا وہ
وہ شخص میں تھا اور حمایت علی تھا وہ
ڈاکٹر نثار احمد قریشی اور ڈاکٹر بشیر سیفی نے بتایا کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد کیپٹن سید جعفر طاہر (1917-1977) جب ریڈیو پاکستان راول پنڈی میں خدمات پر مامور تھے، اس زمانے میں حمایت علی شاعر کے ساتھ ان کے نہایت قریبی تعلقات تھے۔ اپنے عہد کے دونوں فعال اور مستعد ادیب ریڈیو پاکستان میں براڈ کاسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ ریڈیو نشریات میں سید ذوالفقار علی بخاری (1904-1975) کی خدمات کے دونوں معترف تھے۔ راول پنڈی، اسلام آباد، پوٹھوہار اور نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے سب ادیب سید ذوالفقار علی بخاری کی حسِ مزاح اور حاضر دماغی کے مداح تھے۔ آزادی کے بعد وطنِ عزیز میں ریڈیو کی نشریات کو مقبول بنانے میں ان ادیبوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ گزشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں تھر سے تعلق رکھنے والے ایک غبی متشاعر گنوار الجھک نے بزمِ ادب کو تختۂ مشق بنا رکھا تھا۔ میزانِ ادب یتیم خانۂ ادراک کے اس مسخرے کے صریح جھوٹ اور علم کی لُوٹ کا بوجھ اُٹھانے سے قاصر تھی۔ شہر کی علمی و ادبی نشستوں میں شامل ہونے والے اکثر سامعین خیالِ اہلِ خرابات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس شخص کو منھ نہ لگاتے اور جبر وقت سہہ کر بھی حرف شکایت لب پر نہ لاتے۔ اس متشاعر کے چربے، سرقے اور جہل کو دیکھ کر کاغذ تھر تھر کانپنے لگتا اور صفحہ قرطاس پر درج الفاظ کی روشنائی کو پر لگ جاتے۔ طلسمِ سراب کے رسیا متشاعر گنوار الجھک کو مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا یہ شعر بہت پسند تھا:
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
ہوش و خرد سے تہی اپنی گنجی کھوپڑی پر جہالت کا خار زار تاج سجائے، ذوقِ سلیم سے محروم خست و خجالت کا پیکر وہ متشاعر بار بار اصلاح کے باوجود غالب کا یہ شعر اپنے خاص انداز میں پڑھتا تھا اور کسی طرح بھی اپنی غلطی کی اصلاح کرنے اور اپنی خُو بدلنے پر آمادہ نہ تھا۔ سید جعفر طاہر اس ابلہ متشاعر کی غلطیوں پر اکثر آگ بگولا ہو جاتے مگر وہ چکنا گھڑا ٹس سے مس نہ ہوتا۔ شرم اور آبروئے ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سادیت پسندی کا وہ مریض بات بات پر وہ آپے سے باہر ہو کر تلخ نوائی پر اُتر آتا اور اہلِ کمال کے در پئے پندار رہتا۔ غبی متشاعر گنوار الجھک نہایت ڈھٹائی سے اضافت کو عطف میں بدل دیتا۔ غالبؔ کے شعر کی تمسیخ کے بعد وہ داد طلب نگاہوں سے حاضرین کی طرف دیکھتا تھا:
قید و حیات و بند و غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
محفل کے شرکا نے جب اس بز اخفش متشاعر کی ڈھٹائی کی جانب سید ذوالفقار علی بخاری کی توجہ مبذول کرائی تو انھوں نے مسکراتے ہوئے کہا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، شعر کے پہلے مصرعے میں دونوں کے بجائے چاروں کہنے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ سید ذوالفقار علی بخاری کی گل افشانیِ گفتار سے حمایت علی شاعر اور سید جعفر طاہر سمیت سب سامعین عش عش کر اُٹھے۔
کیپٹن سید جعفر طاہر کی نظم ’’ایک سو سپاہی‘‘ حمایت علی شاعر کو بہت پسند تھی۔ کیپٹن سید جعفر طاہر نے حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے ملی نغموں کو قومی بیداری کا اہم وسیلہ قرار دیا۔ کیپٹن سید جعفر طاہر اپنے احباب سے گفتگو کرتے وقت حمایت علی شاعر کے لکھے ہوئے ملی نغمے ’’جاگ اُٹھا ہے سارا وطن‘‘ کو منشور علم و آگہی سے مزین عروس فکر مکرم سے تعبیر کرتے جس کے معجز نما اثر سے برق طور کے جلوے اور شعور کے شعلے سفاک ظلمتوں کو کافور کر دیتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس ملی نغمے میں جن تلمیحات کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اسلامی تاریخ کی عظمتوں کی امین اور چشم کشا صداقتوں کی مظہر ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے فعال کارکن، جھنگ کے بزرگ شاعر، مورخ اور ماہر تعلیم غلام علی خان چینؔ نے بتایا کہ ایک ادبی نشست میں سید جعفر طاہر کی نظم ’’ایک سو سپاہی‘‘ کا یہ بند حمایت علی شاعر نے کئی بار سنا:
لاہور کی حفاطت مولا علیؑ کرے گا
دشمن کرے بُرائی داتا بھلی کرے گا
یہ صر صرِ اجل ہے یہ گردِ خانقاہی
یہ ایک سو سپاہی
یہ شیر دل الٰہی