مجلسِ ادبیات عالیہ کی پیشکش
جوہرِ اخلاق
فورٹ ولیم کالج کے دور کی ایک درسی کتاب
جیمز فرانسس کارکرن
کے قلم سے
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں….
گیارھویں نقل
کسی گاؤں کے چوہے نے اپنے ایک شہری بھائی کی دعوت کی۔ گاؤں میں جو کچھ میسر ہوا جیسا کہ باسی روٹی کے سوکھے ٹکڑے اور پنیر کی کترن، اس نے حاضر کی۔ دونوں دسترخوان پر بیٹھے اور کھانے لگے۔ شہری چوہے کو اور ہی مزا پڑا ہوا تھا، اس طرح کی غذا اس نے کبھی نہیں کھائی تھی۔ ہر چند اس سے جی اس کا گھبرایا، مگر مارے لحاظ کے کچھ نہ کہا۔ غرض طعنے مانے میں اس نے کہا کہ ایسی سنسان جگہ میں رہنا اور اس طرح کی خوراک کھانا آپ کی شان سے باہر ہے۔
جب رخصت ہوا تو بدلا اُتارنے کو شہری چوہے نے ایک روز دہقانی بھائی کی دعوت کی اور اپنے ساتھ اُسے شہر کے ایک عالی شان مکان میں لے گیا۔ وہاں پہنچ کر شہری چوہے نے نعمت خانے میں اسے لے جا کر ایک سے ایک نعمت دکھلائی۔ بعد اس کے دالان میں جا کے میز پر کیا دیکھتے ہیں کہ اُسی رات کا بچا بچایا کھانا رکھا ہے۔ خوش ہو کر شہری چوہا اپنے بھائی کو ایک مخمل کے پلنگ پر بٹھلا کے نفیس نفیس چیزیں کھلانے لگا اور آپ بھی شریک ہوا۔ یہ سب سامان دیکھ کے بے چارے دیہاتی چوہے کی عقل اڑ گئی، کیونکہ اس کے لیے بہشت بریں کی نعمتیں وہاں جمع تھیں۔ اتنے میں دروازہ کھل گیا اور بہت سے نوکر چاکر شور و غل مچاتے ہوئے خاوند کے الوش پر بے اختیار گر پڑے اور چکھی کرنے لگے۔ اس دھوم دھام میں دونوں چوہوں کو بھاگتے ہی بن آیا۔ خصوص دہقانی کی بری نوبت ہوئی کیونکہ اس بلا میں اس کے دشمن بھی کبھی نہیں پھنسے تھے۔ وہ ایک کونے میں خوف کے مارے تھر تھرا رہا تھا کہ شہری چوہا اس کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’بھائی گھبراؤ مت، وہ جھوٹے خور سب نکل گئے۔ چلو پھر چکھیاں کریں‘‘۔ دہقانی نے کہا ’’اس کھانے سے بندہ باز آیا۔ اگر آپ کے کھانوں میں بہشت کی نعمتوں کا مزا بھی ہو تو اُس سے مجھے معاف کیجیے۔ میرے پنیر کا کترن اور سوکھی روٹی کا ٹکڑا پارچا ساتھ آرام اور چین کے میرے لیے بڑی نعمت ہے۔ یہ لطیف غذا اتنے اندیشوں کے ساتھ آپ ہی کو مبارک رہے‘‘۔
حاصل
کلاوہ سلاطیں جو ہے زرنگار
وہ ظاہر میں ہے پھول، باطن میں خار
جو بے کھٹکے اک گوشے میں ہو مقام
کریں تخت نادر کو ہم سو سلام
بارھویں نقل
ایک کالے کوے کو کہیں جو ایک گھونگھا ملا تو چونچ سے گھنٹوں اس نے ادھر ادھر ٹھونکا مگر توڑ نہ سکا۔ ایک کوے نے دیکھ کر کہا ’’یار! یوں نہیں، تم چونچ میں اسے لے کے اوپر اڑو، جب بلندی پر پہنچو، اس بڑے پتھر پر اسے پٹک دو۔ اتنی دور سے آپ سے آپ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا‘‘۔ وہ کوا بے چارا بھولا بھالا یہ سن کر خوش ہوا اور اوپر بہت اونچا اڑا اور کہنے کے مطابق اس نے کیا، مگر اس کے اترتے اترتے کالا کوا اسے لے بھاگا۔
حاصل
اگر خود غرض سے تو لے گا صلاح
کہے گا وہ جس میں ہے اس کی فلاح
تجھے رنج دیوے گا وہ رو سیاہ
ترے کام سب وہ کرے گا تباہ