فکشن کے ارتقاء کے ضمن میں ایک اہم مطالعہ
بیسویں صدی کا اردو افسانہ اور تنقید
از قلم
رحمن عباس
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
اقتباس
پریم چند (۱۸۸۰ تا ۱۹۳۶)، سعادت حسن منٹو ( ۱۹۱۲ تا ۱۹۵۵)، عصمت چغتائی (۱۹۱۵ تا ۱۹۹۱)، کرشن چندر(۱۹۱۴ تا ۱۹۷۷)، راجندر سنگھ بیدی ( ۱۵ ۱۹ تا ۸۴ ۱۹)، قرۃ العین حیدر (۱۹۲۸ تا ۲۰۰۷) اور انتظار حسین (۱۹۲۳ پیدائش) بیسویں صدی کے نامور افسانہ نگار ہیں۔ پریم چند، سعادت حسن منٹو اور بیدی کے لیے عظیم افسانہ نگار کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی ہے۔ علی عباس حسینی (۱۸۹۷ تا ۱۹۶۹)، حیات اللہ انصاری (۱۹۱۱تا ۱۹۹۹)، اوپندر ناتھ اشک (۱۹۱۰ تا ۹۶ ۱۹)، احمد ندیم قاسمی (۱۹۱۶ تا ۲۰۰۶)، غلام عباس (۱۹۰۷ تا ۱۹۸۲)، بلونت سنگھ (۱۹۲۱ تا ۱۹۸۶)، ممتاز مفتی (۱۹۰۵ تا ۱۹۹۵) وغیرہ ان نامور افسانہ نگاروں کے معاصر ین تھے اور سب نے مل کر اردو افسانے کو بیسویں صدی میں وقار عطا کیا۔ ہندستان میں اردو افسانے کی ادبی تاریخ میں تقسیم کے فوراً بعد ابھرنے والے افسانہ نگاروں میں خواجہ احمد عباس (۱۹۱۴ تا ۸۷ ۱۹)، قاضی عبد الستار (۱۹۳۳ پیدائش)، اقبال مجید (۱۹۳۱ پیدائش) رتن سنگھ (۱۹۲۹ پیدائش)، سریندر پرکاش (۱۹۳۰ تا ۲۰۰۸) اور نیر مسعود (۱۹۳۶ پیدائش) کے نام بھی اب شامل کئے جا سکتے ہیں جن کی مجموعی افسانہ نگاری ندرت اور تخلیقی تجربہ عطا کرتی ہے۔ مذکورہ بالا تمام افسانہ نگار در اصل بیسویں صدی میں اردو افسانے کی تاریخ اور ڈسکورس کا اہم حصہ ہیں۔ یہ سب پریم چند کے بعد ادب کے منظر نامے پر ابھرے اور زیادہ تر ۱۹۸۰ تک ادب میں سرگرم رہے ہیں، سوائے سعادت حسن منٹو۔ کچھ افسانہ نگار آج بھی لکھ رہے ہیں۔ قاضی عبد الستار، اقبال مجید، رتن سنگھ اور انتظار حسین اکیسویں صدی میں بھی ادبی محفلوں اور مباحث میں بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا نام ترقی پسند تحریک، مارکسی نظریات یا ترقی پسند نظریات کی حامل ادبی شخصیات کے ساتھ وابستہ ملتا ہے جبکہ سریندر پرکاش ایک ایسا فن کار ہے جس کی ادبی روایت کو ایک علاحدہ افسانوی تجربے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن بھلا ہو شمس الرحمن فاروقی کا جنھوں نے سریندر پرکاش کی اسلوبیاتی جہت کا ربط خود ہی راجندر سنگھ بیدی کے اسلوب میں تلاش کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’پچھلی نسل کے بڑے افسانہ نگاروں میں بیدی کو سریندر پرکاش کا پیش رو کہا جا سکتا ہے، اس معنی میں کہ دونوں نہایت ٹھنڈے دماغ کے افسانہ نگار ہیں اور دونوں اپنی برہمی کو طنز اور اسطور میں بدل دینے کی قوت رکھتے ہیں۔‘ (باز گوئی: پیش لفظ)۔ شمس الرحمن فاروقی افسانے کی فنی جہات، فکشن کی شعریات، افسانوی اسلوب کی بازیافت اور فکشن کی جمالیات کی تشکیل کی کوششوں میں کیوں نہ کامیاب ہوئے اس پر مضمون میں آگے تفصیل سے غور خوض ہو گا لیکن یہاں ان کا مذکورہ بیان اس بات کا اشارہ کرتا ہے کہ فاروقی کی نگاہ میں بھی بیدی ایک بڑے افسانہ نگار ہیں جو سریندر پرکاش کے پیش رو ہیں۔
ہمارے یہاں عموماً ۱۹۳۰ سے ۱۹۶۰ تک کے عہد کو ترقی پسند ادب کا دور کہا جاتا ہے اور ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ کے عرصے کو جدیدیت کا دور کہا جاتا ہے۔ یہ تقسیم تنقید لکھنے والوں کا کارنامہ ہے۔ تنقید کے جو دبستان ہمارے یہاں ملک کی تقیسم کے بعد سامنے آئے انھوں نے ادب کو ان خانوں میں تقسیم کیا۔ رفتہ رفتہ یہ بات مقبول بھی ہو گئی اور کسی نے ادب کو ان دو خانوں میں تقسیم کرنے کی معنویت پر سوالات نہیں کئے؟ ترقی پسند افسانے اور جدیدیت سے منسوب افسانے کی مابین طریقۂ کار کا جو فرق ہے اس پر گوپی چند نارنگ کے تفصیلی مضامین ہیں جن سے میں نے اس مضمون میں جی کھول کر استفادہ بھی کیا ہے لیکن سوال یہ ہے ۱۹۵۵ میں منٹو کی موت واقع ہوئی، منٹو ترقی پسند افسانہ نگار نہیں تھا لیکن ترقی پسند تحریک کے تمام بڑے افسانہ نگار اور وہ افسانہ نگار جن کا تعلق جدیدیت سے منسوب افسانہ نگاروں میں نہیں ہوتا ہے ۱۹۸۰ تک اچھا ادب تخلیق کر رہے تو ایسے میں ترقی پسند تحریک کے خاتمے کا اعلان کیسے ہو سکتا ہے؟
اکیسویں صدی میں اگر بیسویں صدی کے افسانے کا معروضی انداز میں مطالعہ کیا جائے تو پہلا سوال ترقی پسندی اور جدیدیت سے منسوب عہد کی تقسیم پر ہو گا۔ ہمارے ادبی رسائل اور کچھ کتابوں (مثلاً احتشام حسین، عزیز احمد، قمر رئیس، محمد حسن، سردار جعفری اور فاروقی کی تنقیدی کتابیں) کی اشاعت نے اس گمراہ کن تقسیم کو ادبی سند کا درجہ عطا کیا۔ دوسری طرف اردو فکشن کا مطالعہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ جدید اردو افسانے کی ابتدا پریم چند کا افسانہ ’کفن‘ ہے۔ پریم چند کی افسانہ نگاری اور حقیقت نگاری پر شمیم حنفی کو ایک اعتراض یہ ہے کہ ’وہ ایک طرح کی اجتماعیت ( (collectivismکے گرویدہ تھے چنانچہ بعض لوگوں کے خیال میں نئی کہانی کے تخلیقی رویے سے پریم چند کے اسی اجتماعیت پسندانہ رویے کی مخالفت کی۔ (پریم چند کا تیسرا موڑ : ۱۹۸۰) کاش! شمیم حنفی یہ بھی بتاتے کہ جن لوگوں کے لیے انھوں نے ’بعض لوگ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے وہ کون تھے؟ کیونکہ: ایک آدمی نے کہا تھا۔ کہیں میں نے سنا تھا۔ یاـ بعض لوگوں نے کہا ‘ ایسے حوالے تنقید کی ایمانداری کو کم نہیں تو مشتبہ ضرور کرتے ہیں۔ پریم چند کے بارے میں ان کے اس ’بصیرت افروز‘ مضمون کے متن میں مذکورہ بیان کی حیثیت محض ایک خیال کی ہے۔ ٹھوس حقیقت یا کسی مدلل منطقی استدلال پر یہ قائم نہیں ہے۔ یہ بیان صداقت پر مبنی نہیں ہے کیونکہ اس کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ شمیم حنفی کا ایک اور بیان مجھے یاد آتا ہے جو بہت convincing لگتا ہے : ’اپنی روایت کے بنیادی تہذیبی حوالوں پر اصرار کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم تہذیب کے عالمی تصور سے دست بردار ہو گئے ہیں۔ نہ تو مقامیت آفاقیت کی ضد ہوتی ہے، نہ انفرادیت بین الاقوامیت کو مسترد کرتی ہے‘ (تہذیب اور تنقید کا رشتہ:شمیم حنفی)۔ اس بیان کی روشنی میں مجھے لگتا ہے پریم چند کی حقیقت نگاری ان کے آدرش واد کے باوجود مقامیت اور بنیادی تہذیبی حوالوں سے عبارت ہے۔ بہر کیف! جدید اردو افسانے کی ابتدا کے زیادہ واضح نشانات اور مضمرات سعادت حسن منٹو کے افسانوں بالخصوص ’پھندنے‘ اور ’بو‘ میں نظر آتے ہیں لیکن تنقید نے ’کفن‘ کو ترقی پسند افسانے کا بنیاد گذار کہنے پر اصرار کیا اور ’پھندنے‘ کو جدید اردو افسانے کی ابتدا قرار دیا۔ یہ تقسیم آرٹ کی سطح پر ہر گز قائم نہیں ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ اردو فکشن کے نقادوں کو اپنی تخیلی نارسائی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ اس ضمن میں گوپی چند نارنگ کا یہ خیال بامعنی ہے کہ ’پریم چند نے ’کفن‘ میں سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو جس عمدگی سے فن کے تقاضوں سے آمیز کیا تھا، بعد میں اس سے آگے بڑھنا تو کجا، اس معیار کو بر قرار بھی نہ رکھا جا سکا، اور خارجی تقاضوں اور فارمولوں کے تحت اختیار کی ہوئی رومانیت و جذباتیت نے کہانی کو نقصان پہنچایا۔‘ (نیا افسانہ: روایت سے انحراف اور مقلدین کے لیے لمحۂ فکریہ)۔ اس بیان میں کیا بات کہی گئی ہے اس پر کسی نے غور کیا ہے؟
افسانے کی ایک صدی مکمل ہونے کے بعد یہ سوال زیادہ بامعنی ہو جاتا ہے کہ اردو افسانے کی روایت کیا ہے؟ جدیدیت سے منسوب افسانہ کس طرح کا افسانہ ہے؟ ایک صدی پر مشتمل اردو افسانے کی ادبی تاریخ میں ترقی پسند تحریک اور جدیدیت سے منسوب افسانے کی اہمیت کیا ہے؟ جدید یت سے منسوب افسانہ اردو افسانے کی روایت سے متصادم ہے یا روایت کی توسیع کرتا ہے؟ یہ اور اس نوع کے سوالات بیسویں صدی کے فکشن کے نقادوں کے لیے شاید اہم نہیں تھے۔ بیسویں صدی کی فکشن کی تنقید در اصل نظریات کی تبلیغ، نظریے سے وابستہ قلم کاروں کی ستائش اور فکشن کی غیر فنی تنقید پر فنی تنقید کی آویزش سے عبارت تھی۔ آزادی کے بعد ممتاز شیر یں، محمد حسن عسکری، قمر رئیس، محمد حسن، گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی، شمس الرحمن فاروقی اور وارث علوی فکشن کی تنقید کے اہم نام ہیں۔ اکیسویں صدی میں فکشن کی تنقید لکھنے والے بار بار ان نقادوں کی نگارشات کی طرف مرجع ہوں گے۔ ان ہی کے ساتھ سے اختلاف کریں گے اور ان ہی سے عقیدت کا اظہار بھی کریں گے۔ ہندوستان کی سطح پر گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی فکشن کی تنقید کے ناقابل فراموش نام ہیں۔ وارث علوی نے کیا عمدہ بات کہی ہے : ’یہ عہد فاروقی اور نارنگ کے نام لکھا گیا ہے۔ دوسرے نقاد تو ان کے باراتیوں میں بھی نہیں بلکہ ان پھٹے حال چاکروں جیسے لگتے ہیں جو سر پر گیس کی بتیاں لے کر چلتے ہیں جن کی روشنی میں ان دولہوں کے سہروں کے پھول جگمگاتے ہیں۔‘ (لکھتے رقعہ لکھے گئے دفتر: وارث علوی)۔ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بیسویں صدی کے بہت سارے دیگر تنقید لکھنے والے بہت کم حوصلہ رہے ہیں جن کا کوئی ادبی موقف اور نظریہ نہیں رہا ہے۔ ان حضرات نے اپنی ساری صلاحیتیں فاروقی اور نارنگ کی ادبی سرگرمیوں میں ڈیکوریشن والے کا رول ادا کرنے میں صرف کی ہیں۔ غالباً اسی بات کو وارث علوی نے اپنے کھٹے مٹھے انداز میں بیان کیا ہے۔ دوسری طرف وارث علوی اکیسو یں صدی میں بیسویں صدی کی فکشن کی تنقید کی عظمت اور اسفل ترین سطحوں کا مطالعے کرنے والوں کے لیے روشنی کا ایک مینار بن کر ابھریں گے۔ ان کی تحریروں نے فکشن کی تنقید کے احتساب، آرٹ کے مباحث کے فنی امکانات، فن سے والہانہ عشق، معروضیت اور ادبی دیانت داری کی صحت مند روایت قایم کی ہے۔ وارث علوی نے فکشن کی تنقید کو ادبی اصطلاحات کا قبرستان بننے سے بچائے رکھا اور ظرافت کی رنگینی سے تنقید کو دلوں میں خون کی طرح بہانا سیکھایا۔ بلاشبہ کچھ ادبی متون کے تعینِ قدر میں ان سے استحلال ہوا اور بعض اوقات ان کی تنقید روایتی تنقیدی حدوں کو پھلانگ کر تخلیقی نثر کی آزاد گلیوں میں آوارگی سے بھٹکتی رہی اس کے باوجود افسانے، ناول اور فکشن کی مجموعی روایت، تاریخ اور مباحث پر ان کا قلم ایک سر کش گھوڑے کی طرح دوڑتا رہا۔
٭
گذشتہ سو برسوں کی فکشن کی تاریخ میں جدیدیت سے منسوب افسانہ جسے ۱۹۶۰ سے ۱۹۷۰ بلکہ ۱۹۷۵ تک کچھ لوگوں کے یہاں تلاش کیا جاتا ہے اس کا عرصہ اتنا مختصر کیوں ہے؟ کیا واقعی اتنا مختصر ہے؟ کیوں بیسویں صدی کے بڑے فن کاروں میں کوئی نام جدیدیت سے منسوب افسانہ نگاروں کی فہرست سے یا جدیدیت کی افسانے کی تعبیر کی بنیاد پر اپنے لیے جگہ نہیں بنا سکا؟ کیا جدیدیت سے منسوب افسانہ محض ایک تنقیدی مفروضہ تھا جو ایک دہائی میں تنقید کے زور پر پروپیگیٹ propagate تو کیا گیا لیکن اردو افسانے کی روایت میں اپنے لیے کوئی جگہ نہیں بنا سکا؟ یہ دوسری قسم کے سوالات ہیں جن سے اکیسویں صدی کے افسانہ نگار اور تنقید نگار نبرد آزما ہیں۔ یقیناً یہ سوالات بیسویں صدی کی فکشن کی تنقید اور نقادوں کے لیے اہم نہیں ہوں گے۔ البتہ گوپی چند نارنگ کا مذکورہ بیان کہ ’کفن‘ سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو فن کے تقاضوں سے آمیز کرتا ہے، کیا کم معنی خیز ہے لیکن ’کفن‘ جیسے افسانے کو کس مفروضے کے تحت ہم نے آدرش وادی افسانہ اور ترقی پسند افسانہ قرار دیا اس کا کوئی مدلل جواز کیوں نہیں ملتا؟ سوائے اس کہ پریم چند نے ترقی پسند تحریک کے ماتحت منعقد اجلاس میں شرکت کی تھی۔ ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ پریم چند تو زندگی کے حسن کے معیار کو بدلنے کا خواب بھی دیکھ رہے تھے۔ ’کفن‘ زندگی کے حسن کو بدلنے کے خواب کی تعبیر بھی تو ہو سکتا ہے جس کا مکمل احساس ہمیں منٹو کی دو درجن کہانیوں میں ہوتا ہے۔ جہاں نہ آدرش ہے، نہ غیر ضروری جذباتیت ہے، نہ تقریر ہے نہ مشورہ بازی کا کوئی چلن ہے۔ بلکہ زندگی اپنی زیادہ برہنہ صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گوپی چند نارنگ یہ بھی فرماتے ہیں کہ ’نئی نسل نے پریم چند کی آدرش وای ذہنیت کو کتنا ہی کیوں نہ رد کیا ہو، ’کفن‘ کو کبھی نہیں ٹھکرایا۔ البتہ باغیانہ لے اور روایتی سانچوں سے انحراف کے معاملے میں نئی نسل کا رشتہ ’کفن‘ کے پریم چند کی بہ نسبت ’بو‘ یا ’پھندنے‘ کے منٹو سے زیادہ فطری تھا۔‘ یہاں ’نئی نسل‘ مراد کون لوگ ہیں؟ چونکہ اب بہت وقت گذر گیا ہے اس لیے اکیسویں صدی کا اردو قاری یہ پوچھ سکتا ہے کہ جس نسل کو باغی بنا کر پروجیکٹ کیا گیا تھا خود اس نسل نے ’کفن‘ جیسی سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو فن کے تقاضوں سے آمیز کرنے والے کتنے افسانے لکھے ہیں؟ مجھے تو وارث علوی کا وہ جملہ یاد آتا ہے کہ ’جدید افسانہ اس کھلنڈرے پن اور طراری سے محروم ہے جو نوجوانوں کی بغاوت کو رنگ و آہنگ بخشتی ہے ہم سے نہ ’بو‘ لکھا گیا نہ ’لحاف‘۔ ہمارا افسانہ انشائیہ بن گیا جس میں زندگی نہیں بلکہ شخصیت پیش پیش ہوتی ہے۔‘ (اجتہادات روایت کی روشنی میں : وارث علوی)۔ کیا یہ بات کہنا زیادتی ہو گی کہ باغی نسل نے روایتی سانچوں سے انحراف کرنے کے بعد اور ’کفن‘ کی ترقی پسند لے سے انکار کے بعد افسانے کو آگے بڑھنا تو کجا، اس معیار کو بھی بر قرار نہیں رکھا جس معیار پر پریم چند اسے ’کفن‘ میں لیے آئے تھے؟ نظر تو یہ آتا ہے کہ کاغذ پر باغی قرار دی گئی نسل نقادوں کے فرمودات کی اسیر، غیر فنی اور اور غیر ادبی مکاشفوں کی شکار ہو کر ایک دہائی بھی نہیں چل سکی۔ کیا یہ غلط ہے کہ باغی نسل لسانیاتی تقاضوں اور تنقیدی فارمولوں کی محبوس ہوئی اور خود ایک ناکامیاب ادبی تجربے میں بدل گی؟ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں جدیدیت سے منسوب افسانہ جدید اردو افسانے کی روایت اور تاریخ میں حاشیے پر لکھی گئی غیر ضروری اندراجات میں بدل گیا؟ حالانکہ اہم سوال یہ ہے کہ جب جدیدیت سے منسوب افسانہ شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی کی علمیت اور بصیرت کی روشنی میں روایت سے منحرف ہو رہا تھا اس وقت جدید افسانہ کیا کر رہا تھا۔ کیا ’کفن‘، ’لحاف‘، ’بو‘، ’پھندنے‘ سے مزین، پر کش اورانسانی روح میں سرایت کر جانے والا افسانہ ختم ہو گیا تھا۔ کیا واقعی ترقی پسندی ختم ہو گئی تھی اور ترقی پسند نظریات ادب سے معدوم ہو گئے تھے؟ کیا سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کو فن کے تقاضوں سے آمیز کرنے والا افسانہ نہیں لکھا جا رہا تھا؟ ۱۹۶۰ تو ایک طرف ۱۹۵۰ سے ۱۹۸۰ تک فکشن کی تاریخ کا مطالعہ ایک دوسری ہی صورت حال پیش کرتا ہے۔ ’لحاف‘ اور ’کفن‘ کی جدید اردو افسانے کی روایت کو منٹو نے بامِ عروج پر پہنچایا اور ۱۹۵۵ میں خود زندگی کی ستم ظریفی کا شکار ہو کار فکشن کے آفاق پر ایک لافانی کتبے میں بدل گیا لیکن سماجی حقیقت نگاری اور انسانی نفسیات کی آمیزش اور فن کے تقاضوں سے آمیز افسانہ بہت طاقت ور ہو گیا تھا۔ اس افسانے کی باگ ڈور ابھی علی عباس حسینی، حیات اللہ انصاری، اوپندر ناتھ اشک، غلام عباس، بلونت سنگھ، ممتاز مفتی، خواجہ احمد عباس، عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین کے ہاتھوں میں تھی۔ بہت جلد اس کارواں میں قاضی عبد الستار، اقبال مجید اور رتن سنگھ بھی شامل ہو گئے۔ ان افسانہ نگاروں نے سماج، آدمی اور سماجی صورت حال سے انکار نہیں کیا۔ ان کے افسانوں میں جدید اردو افسانے کی حقیقی روایت بدستور جاری رہی اور ہے۔ ان میں سے بعض نے پلاٹ کے ترتیب اور کہانی کی پیش کش میں کئی تجربات بھی کئے۔ ان افسانہ نگاروں نے کئی معیاری افسانے تحریر کئے جن کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سماجی حقیقت نگاری کی روایت جو اردو افسانے اور فن افسانہ نگاری کی کلید ہے ۱۹۶۰ میں ختم نہیں ہوئی جیسا کہ جدیدیت کے مبلغ نقادوں نے اعلان، بلکہ پروپیگنڈا کیا تھا۔ یہ پروپیگنڈا در اصل مستحکم ادبی اور افسانوی روایت کو کمزور کرنے کی کوشش تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ جدید اردو افسانے کی روایت جس کی بنیاد ’کفن‘ میں دکھائی دیتی ہے، آج یعنی اکیسویں صدی مزید توسیع پسندی کی جانب گا مزن نظر آتی ہے۔
٭