دَخمہ مجموعے میں شامل تین کہانیاں
بیگ احساس کے تین افسانے
از قلم
بیگ احساس
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں……
خس آتش سوار
سورج نکلنے میں دیر تھی۔ گرودیو نے آنکھیں موندے موندے سوچا وہ سب اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہوں گے۔ دو گھنٹے بعد وہ میڈٹیشن ہال میں جمع ہو جائیں گے۔ آج انھیں لکچر دینا تھا۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس تھا کہ ان کے پاس ایسے الفاظ ہیں جو سننے والوں پر جادو کر دیتے ہیں۔ ان لفظوں میں باندھ کر وہ اپنے عقیدت مندوں کو جہاں جی چاہا پہنچا سکتے ہیں۔ ان کے الفاظ سن کر سب پر ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور ان لفظوں کے سہارے وہ نئے نئے جہانوں کی سیر کرنے لگتے ہیں اس لیے وہ دیوانہ وار اس ہال میں جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ جادو بڑے گرودیو کے پاس بھی نہیں تھا وہ سب ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کی تپسیا کے قصے، ان کی عبادت کی کہانیاں سارے جگ میں مشہور تھیں وہ بہت بڑے گیانی تھے۔ رات دن دنیا سے بے خبر اپنی کٹیا میں بیٹھے بوسیدہ بوسیدہ پتروں میں علم کا سمندر کھنگالتے تھے۔ گرودیو جانتے تھے کہ بڑے گرودیو کی عزت ساری دنیا کرتی ہے۔ مگر ان کے پاس وہ لفظ نہیں ہیں جو مختلف روپ دھار کے ایک نئی دنیا بناتے ہیں۔
اُپدیش دینے کے بعد وہ اپنی کٹیا میں چلے آتے ان کے پیچھے کچھ چیلے چیلیاں آ جاتیں وہ سب ان کے گرد جمع ہو جاتے۔ ویسے ان کی کٹیا میں آنے کی ہر ایک کو اجازت تھی۔ لیکن ایک مخصوص گروہ جو ان سے بے پناہ عقیدت رکھتا تھا۔ انھوں نے اسے ہر قسم کی آزادی دے رکھی تھی۔ جسے بھوک لگتی وہ برتن ٹٹول کے جو کچھ بھی ملتا کھا لیتا۔ گرودیو کے برتن کبھی خالی نہیں رہتے۔ اکثر عقیدت مند مٹھائی اور پھل لے کر آ جایا کرتے۔ کبھی کبھار چیلے چیلیاں کھیلنے لگتے۔ پانی سے ہولی کھیلی جاتی۔ گیروے رنگ کے لباس بھیگ کر چیلیوں کے بدن کے سارے راز عیاں کر دیتے۔ لڑکیاں کھلی کتاب بن جاتیں لڑکوں کی آنکھیں چمکنے لگتیں۔ وہ ان کتابوں کا لفظ لفظ پڑھ لینا چاہتے اور اس کوشش میں وہ ایسے ایسے حصوں پر پانی بھری بالٹیاں الٹنے لگتے جہاں پانی تیزی سے بہہ کر آبشار بنانے لگتا۔
گرودیو مسکرا دیتے ’’دیکھو وہ سب کیسے معصوم لگ رہے ہیں بچوں کی طرح۔ ہر چھل کپٹ سے آزاد‘‘۔
’’ان میں کوئی بچہ نہیں ہے‘‘ ماں جوگیشوری برا سا منہ بنا کر کہتیں جو چالیس بیالیس سال کی ہو کر بھی غیر شادی شدہ تھیں۔ رات دن خدمت کر کے انھوں نے گرودیو کے دل میں جگہ کر لی تھی سارے چیلے چیلیاں ان کا لحاظ کرتے تھے۔ ’’یہ اس وقت تک بچے ہی ہیں جب تک اپنے خول توڑ کر باہر نہیں آتے‘‘ گرودیو مسکراتے۔ ’’اس کی طرف دیکھئے‘‘ ماں جوگیشوری اس دراز قد چیلے کی جانب انگلی اٹھا کر کہتیں۔ جو ہر وقت بڑے گرودیو کے کھڑاویں سینے سے لگائے رکھتا۔ اس وقت اس دراز قد چیلے کی آنکھیں رال ٹپکاتی ہوتیں۔ چھوٹے سے قد کی اس لڑکی کو دیکھ کر وہ زیادہ ہی مضطرب ہو جاتا۔ جس کا جسم بھر پور تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے جسم پر صرف دائرے ہی ہیں۔ دراز چیلے کی آنکھیں اس وقت اپنے حلقوں سے نکل کر ان دائروں میں گردش کر رہی تھیں۔ ایسی حالت میں اسے دیکھ کر وہ چیلی قہقہہ لگاتی اور اپنے ساتھیوں سے کہتی ’’طوطا‘‘ اور پھر قہقہہ اجتماعی آواز کا شور بن جاتا۔
’’بچے ہی ہیں نا؟ ان کی ہنسی میں چھپی معصومیت کو سنو‘‘ گرودیو کہتے ’’اس کی آنکھوں میں ہوس صاف جھلک رہی تھی۔ آپ انھیں سزا کیوں نہیں دیتے؟‘‘ ماں جوگیشوری برا سا منہ بنا کر کہتیں۔
’’دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں کی کیچڑ صاف ہو گی۔ دیکھو ہم سب منش ہیں تم بھی اور میں بھی۔ غلطی منش ہی کرتا ہے۔ اسے معاف کرنا سیکھو ’’سزا دینا ہمارا نہیں ایشور کا کام ہے‘‘ گرودیو کہتے۔
گرودیو کو آشرم کی پوری خبر رہتی تھی۔ وہ ان کے نجی مسائل میں بھی دلچسپی لیتے تھے۔ ان کے مسائل حل کرنے کی بھی کوشش کرتے ان کے عقیدت مند ان کے ہاتھوں مہورتیں نکلواتے۔ جنم کنڈلی دکھاتے۔ گرو دیو انھیں مشورہ دیتے۔ اس لیے ان کی کٹیا عقیدت مندوں سے بھری رہتی۔ کچھ ضرورت مند بھی وہاں موجود ہوتے کیوں کہ وہ لوگوں کی ضرورتیں ان کے چہروں سے پڑھ لیا کرتے اور اس طرح مدد کرتے تھے کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔
صبح وہ مڈیٹیشن ہال پہنچ گئے۔ حسبِ معمول وہاں بہت سارے چیلے اور چیلیاں موجود تھیں۔
’’آتم وچار کرو۔ اپنے نفس کو پہچاننے کی کوشش کرو۔ اسی میں مکتی ہے۔ سیّم شانتی نفس کو پہچاننے سے ملتی ہے۔ اس کے سوا سب دھوکا ہے مایا جال ہے۔ منش کی ظاہری شکل بھی دھوکا ہے۔ اس لیے آثار و مظاہر میں نہیں کھونا چاہیے۔ اصل آتما ہے شریر ایک خول ہے۔ آتما کو پہچانو۔ منش کی اصلیت کو جانو۔ اور واستو کتا کا گیان حاصل کرو۔ آتما سے پر ماتما تک پہنچنے کا راستہ تلاش کرو۔
’’پھر ہمارے شریر کیا ہیں؟‘‘ گورے چٹے چیلے نے ان سے سوال کیا؟
’’ایک سندر سا خول اور کچھ نہیں‘‘
’’ہماری حقیقت کیا ہے؟‘‘
’’کسی کی کوئی حقیقت نہیں۔ حقیقت یا واستو کتا صرف بھگوان ہے۔ سرشٹی کا۔
استھتوا واستوک یا ستیہ نہیں ہے۔ جو کچھ نظر آتا ہے وہ دھوکہ ہے‘‘
’’آتما کیا ہے؟‘‘
’’آتما کا بھگوان سے الگ کوئی وجود نہیں سرشٹی کے کَن کَن میں وہ اپستھت ہے۔‘‘
’’بھگت کو یہ کلپنا کرنی چاہیے کہ بھگوان اس سے جدا نہیں ہے بلکہ اس کے گھٹ میں سمایا ہوا ہے تب ہی آتما اور پرماتما ایک ہو سکتے ہیں۔ اس لیے آتما کو مضبوط بناؤ۔ خول مٹی میں مل جائے گا اسے کیڑے مکوڑے کھا جائیں گے اس لیے خول کے جال میں نہ پھنسو۔ ساری آتمائیں ایک جیسی ہوتی ہیں جگ میں ستری اور پرش بھیتر سے ایک جیسے ہیں‘‘
’’ہمارا اصل روپ کیا ہے؟‘‘
’’بہت ہی گھناؤنا۔ تم لوگ سہن نہ کر پاؤ گے۔ اس پر جھوٹ کا ملمع چڑھا رہنے دو‘‘
’’ہم اپنے آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں‘‘
’’اس کی تم میں طاقت نہیں ہے‘‘
’’آپ بتائیے ہمیں اپنا اصل روپ ’’سب نے اصرار کیا۔
پھر وہ مجبوراً راضی ہو گئے۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد انھوں نے کہا۔
’’جسے اپنے آپ کو دیکھنا ہو وہ میرے ساتھ کٹیا چلے‘‘