اعجاز عبید کا جمع و ترتیب کردہ برقی مجموعہ
دو لفظوں کی دوری
از قلم
جاناں ملک
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
نظم کا کچھ بھی نام نہیں
شہزادے !
اے ملک سخن کے شہزادے !
دیکھو میں نے
نظم لکھی ہے
نظم کہ جیسے دل کا شہر۔۔۔۔۔
شہر کہ جس میں تم رہتے ہو
آدھے ہنس ہنس باتیں کرتے
اور آدھے گم سم رہتے ہو
تمہیں ادھوری باتیں اور ادھوری نظمیں اچھی لگتی ہیں نا۔۔۔۔۔
تم کہتے ہو بات ادھوری میں بھی اک پورا پن ہوتا ہے
خاموشی کے کتنے معنی ہوتے ہیں
کچھ باتیں ان کہی مکمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزادے !
نظم ادھوری لکھ لائی ہوں
تم اس نظم کو عنواں دے دو
تم یہ نظم مکمل کر دو
لیکن تم اس گہری چپ میں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس نظم کو تم انجام نہیں دو گے
اس کو نام نہیں دو گے
٭٭٭
میں دریوزہ گر۔۔۔
تم نے کبھی سوچا ہے
تمہاری یہ گہرے سناٹوں میں ڈوبی خامشی اس دریوزہ گر پر کتنی بھاری پڑتی ہے
وہ باتیں جو
تمہارے مزاج معلی کی نفاستوں پہ گراں گزرتی ہیں میرے لیے کیا معنی رکھتی ہیں ؟۔
کیا
کبھی تم نے پر سکوت سمندر کے اندر بپھری ان لہروں کی آواز سنی ہے ؟ جو کسی طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہیں
میں نے سنی ہے
مجھ سے پوچھو
تمہاری خامشی میں لپٹے کسی طوفان کا سائرن کیا جانتے ہو تم
میں نے سنا ہے
تمہارے ہونٹوں سے گوہر نایاب کی طرح نکلا ایک ایک لفظ تمہاری یہ ٹھنڈے میٹھے چشمے جیسی باتیں اور شیریں انداز سخن صحرا میں چلتے مسافر کی طرح میرے وجود کو سیراب کرتا ہے میں جو تمہارے در کے آگے اپنا دامن پھیلائے ان نایاب موتیوں کو چننے کی چاہت میں بیٹھی رہتی ہے
جسے کبھی تو تم نامراد لوٹا دیتے ہو کبھی بہت مہرباں ہو کر کچھ خیرات
اس کے دامن میں ڈال جاتے ہو
جس کو میں تیری گلیوں کی دریوزہ گر کسی قیمتی اثاثے کی طرح
چن کے اپنی پوٹلی میں رکھ لیتی ہوں
٭٭٭
بادل سے مکالمہ
کیسا ابر ہے جس کے برسنے کی
ہر پل امید لیئے
آنکھیں تشنہ لب رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کو دیکھ کے
یہ کشت بارانی بھرتی ہے
یہ جنموں کی پیاس ہو جیسے اس مٹی کی۔۔۔
ایک اک بوند اترتی مجھ سے باتیں کرتی ہے
پہلے میں بارش کو دیکھ کے خوش ہوتی تھی
اب میں اس میں بھیگ کے اس کی باتیں سنتی ہوں
٭٭٭
سرد مہری کا دکھ
آج تمہارے لہجے میں کڑواہٹ کیسی
کیسا یہ بیگانہ پن ہے
جو میری روح کو گھائل کرتا ہے
کیسا یہ طوفان ہے جو خاموشی سے
میری سمت بڑھا آتا ہے
ان دیکھے خدشات سے اپنی دھڑکنیں
سینے میں کیوں یہ اٹکتی جاتی ہیں
دوست تمہارا یہ لہجہ تو کبھی نہ تھا
اور تمہاری آنکھیں …..
آنکھیں جن پر رات پتنگے اپنا جیون دان کریں
ان آنکھوں کے وہی دیے کیوں بجھے بجھے سے ہیں ؟
آج تمہارے لہجے میں کڑواہٹ کیوں
کیسا یہ بیگانہ پن
تم نے میری کال سنی
اور ہیلو کہہ کر بند کر دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کال کٹی یا رشتۂ جاں تھا کٹتے کٹتے کتنے تار وہ کاٹ گئی۔۔
آج تمہارے لہجے میں ایسا کیوں ہے ؟۔۔۔۔
تنہائی کی مشکل گھڑیاں
شام سسکتی اور بلکتی کالی راتیں
سر پر آ پہنچی ہیں
جن کی باتیں اکثر تم کرتے تھے
میں نے تمہاری اِن ساحر آنکھوں میں اک خاموشی کا طوفان امڈتے دیکھا ہے
کیا تم نے مجھ سے دوری کا رستہ ڈھونڈا ہے
کیسی خاموشی ہے
مجھ کو کھائے جاتی ہے
اس جاں سوز خموشی کو میں کیا سمجھوں
دور تلک اک صحرا ہے ویرانی جلتی ریت ہے ننگے پاؤں
اے ملک سخن کے شہزادے
کچھ تو بولو نا
٭٭٭