ایک عمدہ خود نوشت
دیکھ لی دنیا ہم نے
از قلم
غضنفر
ڈاؤن لوڈ کریں
کتاب کا نمونہ پڑھیں…..
اقتباس
میں جس حلیے میں گھر کے اندر تھا اسی حلیے میں باہر نکل پڑا تھا۔ بغیر کسی سے ملے، بنا کسی کو کچھ بتائے ماموں کی بیٹھک سے نکل کر میں سیدھے سیوان ریلوے اسٹیشن پہنچ گیا۔ نیم بد حواسی کے عالم میں کیے گئے اس سفر پر اب جب غور کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ میرا یہ ناگہانی سفر ضرور کسی اضطراری کیفیت کے دباؤ کا نتیجہ تھا اور یہ سمجھ میں آتا ہے کہ قربتوں میں جب دوریاں در آتی ہیں تو در و دیوار ڈرانے لگتے ہیں اور توقع کی لو جب بجھتی ہے تو رشتوں سے دھواں اٹھنے لگتا ہے اور یہ دھواں ایسا دبیز اور دم سوز ہوتا ہے کہ اس کے گھنے گھیرے میں کھڑا ہونا دوبھر ہو جاتا ہے۔
پلیٹ فارم کی بھیڑ میں کھڑا بے سمتی کی شکار آنکھوں سے ہونقوں کی طرح میں اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اچانک کانوں میں ایک زور دار سیٹی کی آواز سنائی پڑی اور دیکھتے ہی دیکھتے شور کرتی ہوئی کسی سمت سے ایک ٹرین آ کر سامنے کھڑی ہو گئی۔ لوگوں کے ساتھ جھٹ سے میں بھی ایک ڈبّے میں سوار ہو گیا۔ گاڑی کہاں سے آئی تھی؟ کہاں جا رہی تھی؟ میں اس پر کیوں سوار ہوا؟ مجھے کہاں جانا تھا؟ کیوں جانا تھا؟ جانا تھا کہ نہیں جانا تھا؟ مجھے کچھ یاد نہیں۔ میرے سر پر تو کوئی جنون سوار تھا جس نے مجھے کسی اجنبی گاڑی کے ایک بھیڑ بھرے ڈبّے میں ڈھکیل دیا تھا۔ شاید اس کیفیت کے پیچھے کسی اعتماد کے ٹوٹنے کی ٹھیس تھی۔ جس نے میرے ہوش وحواس کو ہلا کر رکھ دیا تھا یا بے اعتنائی کا کوئی احساس تھا جس نے اپنوں کے بیچ بھی مجھے اجنبی بنا دیا تھا۔
کافی دیر بعد گاڑی کسی اسٹیشن پر رکی تو لوگوں کے ساتھ میں بھی ڈبّے سے نیچے اتر پڑا۔ بھیڑ میں اترتے وقت پاجامے کا ایک پائنچہ میرے پاؤں کے نیچے ایسا دبا کہ میں لڑکھڑا کر زمین پر جا گرا۔ مسافروں کی بھیڑ مجھے کچلتی اور روندتی ہوئی گاڑی سے نیچے اترتی اور چڑھتی رہی۔ کوئی یہ نہ دیکھ سکا اور نہ ہی محسوس کر سکا کہ جو شے پیروں کے نیچے روندی جا رہی ہے، وہ زندگی ہے اور اس زندگی سے جان نکلی جا رہی ہے۔ کچھ لمحے بعد میری قوتِ مدافعت نے مجھے اٹھا کر بٹھا دیا اور چند ثانیے بعد مجھے میرے پیروں پر کھڑا بھی کر دیا۔ یہ قوتِ مدافعت بھی کیا چیز ہے کہ حالتِ ضعف میں بھی پہلوانی دکھا دیتی ہے۔ ایسا کام کر جاتی ہے کہ آنکھوں کو یقین نہیں آتا۔ اس وقت میرے سامنے اس نے ایسا ہی کارنامہ کر دکھایا تھا۔ ورنہ کچلے ہوئے جسم میں یہ تاب کہاں کہ وہ اُٹھ کر بیٹھ بھی جائے چہ جائے کہ کھڑا ہو جائے۔
میرے حلق میں کانٹے چبھنے لگے تھے۔ میری نگاہیں پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکنے لگیں۔ کچھ دوری پر ایک گوشے میں ایک نل نظر آیا۔ اس نل سے پانی گر رہا تھا، مگر میرے پہنچتے ہی پانی کا گرنا بند ہو گیا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ نل سے پانی نکلنے لگے، مگر میری ساری محنت بے سود ثابت ہوئی۔ یہ محض اتفاق تھا یا قسمت کی ستم ظریفی کہ پیاسے پر پانی بند ہو گیا۔ پانی یوں تو بہتا رہا، مگر کسی کی پیاس بجھانے کا وقت آیا تو رُک گیا۔ یہ میرے ہاتھوں کا قصور تھا کہ ان کی رسائی اس بٹن تک نہیں ہو پا رہی تھی جس کی جنبش سے پانی نکلتا ہے یا کوئی ایسی میکنزم جو یہ جانتی ہو کہ کس پر کھلنا ہے اور کس پر نہیں کھلنا ہے۔ آج جب میں پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں لوٹ آیا ہوں تو لگتا ہے کہ زمانے نے ایسا سسٹم بھی ایجاد کر لیا ہے جو کڑی سے کڑی محنت پر بھی آسانی سے پانی پھیر دیتا ہے۔
میں بنا سوچے سمجھے وہاں سے اٹھ کر اسٹیشن سے باہر آیا اور ایک انجانی سڑک پر ایک سمت میں چلتا چلا گیا۔ پکّی سڑک کے بعد ایک پھاٹک آیا۔ پھاٹک کے اس پارسے کئی راستے اِدھر اُدھر جا رہے تھے۔ میں ایک کچّے راستے پر ہولیا۔ کچھ دور چلنے کے بعد ایک میدان آیا۔ اچانک میرے کانوں میں کوئی آواز گونجنے لگی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ اذان کی آواز ہے۔ اس آواز پر میں مچل اُٹھا۔ میرا سر خدائے بزرگ و بر تر کے سامنے جھکنے کے لیے بے تاب ہو گیا۔ ادھر ادھر دیکھا تو ایک نالا بھی نظر آ گیا۔ نالے پر پہنچ کر مٹ میلے پانی سے وضو کیا۔ وضو کے دوران ہی پیاس سے بھڑکے ہوئے ہونٹ پانی سے لگ گئے۔ آنکھیں پانی کا رنگ دکھا کر لبوں کو روکتی رہ گئیں، مگر وہ نہیں رکے۔ گدلے، گرم اور بد ذائقہ پانی کو وہ ٹھنڈے شربت کی طرح پی گئے۔ اب جب کبھی یہ منظر آنکھوں میں آتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے کچھ علاقوں کے لوگ پانی سے کیوں مرتے ہیں اور یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارے علم و دانش کتنے تہی دامن ہیں کہ پیاسے انسانوں کو دو گھونٹ صاف پانی بھی پیش نہیں کر سکتے۔ وضو کر کے نماز ادا کی۔ نماز سے قدرے سکون ملا۔ ایک لمبی دعا مانگی اور آگے بڑھ گیا۔ دعا کیا مانگی تھی، یہ یاد نہیں۔ ممکن ہے حالات کے گھیرے سے نکلنے کی دعا مانگی ہو، ہو سکتا ہے خدا سے واپسی کے لیے التجا کی ہو یا کبھی واپس نہ جانے کی دعا کی ہو۔ ممکن ہے مرنے کی دعا مانگی ہو۔ کافی دور پیدل چلنے کے بعد ایک قبرستان نظر آیا۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے بارش شروع ہو گئی۔ بارش سے بچنے کے لیے قبرستان کے ایک گھنے پیڑ کے نیچے جس کے ارد گرد کچھ تازہ قبریں بھی بنی تھیں، میں کھڑا ہو گیا۔
مجھے محسوس ہوا کہ میں دنیا کا سب سے بڑا گناہ گار ہوں اور میرے آگے میرے گناہوں کا دفتر کھل گیا ہے۔ وہ گناہ بھی میرے سامنے ابھر آئے جو مجھ سے سر زد نہیں ہوئے تھے بلکہ جن کے بارے میں میں نے صرف سوچا تھا۔ مجھے یہ بھی محسوس ہوا جیسے میرے گناہوں کی مجھے سزا ملنے لگی ہو۔ مجھے لگا جیسے میرے پیروں کے نیچے سانپ بچھّو جمع ہیں اور مجھے کاٹ رہے ہیں، ڈس رہے ہیں، ڈنک مار رہے ہیں۔ میں ان کی ڈنک اور ضرب سے تڑپ تڑپ جا رہا ہوں۔ میری آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا ہے اور سنّاٹا بڑھتا جا رہا ہے۔ مجھے محسوس ہونے لگاجیسے عنقریب میں کسی قبر کے اندر کھینچ لیا جاؤں گا۔ اس احساس سے میں کیوں دو چار ہوا، اس سوال پر اب جب کبھی غور کرتا ہوں تو جواب ملتا ہے کہ مجھ میں خدا تھا۔ خدا شاید مجھ میں آج بھی ہے۔ اس لیے کہ آج بھی کئی راستوں پر میرے پاؤں ٹھٹھک جاتے ہیں۔ رسیاں سانپ بن کر راستہ روک لیتی ہیں۔ آگ کی لپٹیں مجھ سے لپٹ جاتی ہیں۔ میرا منطقی ذہن بھی تھرّا اُٹھتا ہے۔ مجھ پر وحشت سی طاری ہونے لگی۔ بہت سارے گناہ جو اس وقت تک مجھ سے سر زد بھی نہیں ہوئے تھے پھر وہ کیوں میرے کھاتے میں درج تھے؟ اس سوال پر جب جب میں نے غور کیا تو میرا میں ’’ہم‘‘ میں بدل گیا۔ ’’ہم جو بہت سارے ’’میں‘‘ سے مل کر بنتا ہے اور بہت سارے عکوس کو آئینے میں لاتا ہے۔ مارے دہشت کے میں وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور بھاگتا ہوا ایک گاؤں میں جا پہنچا۔ بارش تھم چکی تھی۔ اندھیرا دبیز ہو گیا تھا۔ گاؤں کے لیمپ پوسٹ پر ٹنگی لال ٹینوں کی چمنیوں سے روشنی نکل کر اندھیرے کے سینے پر ایک سفید لکیر بنا رہی تھی۔ میں اس سفید لکیر کے سہارے آگے بڑھتا جا رہا تھا کہ کچھ لوگوں نے میرے حلیے کو دیکھ کر مجھے روک لیا اور مجھ پر سوالوں کے تیر چھوڑنے شروع کر دیے:
’’تم کون ہو؟ کہاں سے آئے ہو؟ کیا کرتے ہو؟ کہاں جانا ہے؟ کس سے ملنا ہے؟‘‘
میں ان کے کسی بھی سوال کا جواب شاید اس طرح نہ دے سکا جسے سن کر انھیں اطمینان ہو۔
میرے جواب سن کر ان کے شبہات اور بڑھ گئے اور انھوں نے مجھے رسّی سے باندھ کر ایک کوٹھری میں بند کر دیا۔
ایک ادھیڑ عمر کی عورت اپنے گھر سے باہر نکلی۔ ایک ہاتھ میں تھالی لیے اس کوٹھری تک آئی جس میں میں بند تھا۔ اس نے کوٹھری کا تالا کھولا، میرے ہاتھ پاؤں کی رسّیاں بھی ڈھیلی کر دیں اور میرے آگے کھانے کی تھالی سرکاتی ہوئے بولی۔
’’تم کون ہو مجھے اس سے سروکار نہیں۔ مجھے بس اس بات کی فکر ہے کہ تم بھوکے ہو اور میں اپنی چوکھٹ پر کسی کو بھوکا نہیں دیکھ سکتی۔ اس لیے کھانا لائی ہوں۔ یہ صاف ستھرا کھانا ہے بنا کسی سنکوچ اور شبہے کے اسے کھا لینا۔ چلتی ہوں۔‘‘
اور وہ میرے آگے کھانا رکھ کر چلی گئی۔
اجنبی لوگوں کی طرف سے اپنے ایک دشمن کو پیش کیے گئے کھانے نے اس وقت مجھ پر کیا اثر ڈالا ہو گا یہ تو مجھے یاد نہیں، مگر آج جب میں اس پر سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ انسانی وجود میں کچھ ایسی جبلّتیں بھی ڈال دی گئی ہیں جو دشمن کو بھی مارنا نہیں چاہتیں۔ یہی وہ جبلتیں ہیں جو انسانی دل میں ایسے جذبے کو جنم دیتی ہیں جو انسانیت کو زندہ رکھتا ہے۔ اسے کبھی مرنے نہیں دیتا۔ یہ جبلّت کسی کے لیے کسی سے دریا میں چھلانگ لگوا دیتی ہے، کسی کو آگ میں کُدوا دیتی ہے اور کسی کو شیر اور سانپ سے بھڑا دیتی ہے۔
کھانا کھا لینے کے بعد کچھ لوگ میرے پاس آئے اور مجھ سے پھر پوچھ تاچھ کرنے لگے۔ میرے جواب انھیں مطمئن نہ کر سکے تو انھوں نے مجھ پر سختی شروع کر دی۔ مجھے طرح طرح سے زد و کوب کیا گیا کہ میں سچ بول دوں، مگر میرے پاس جو سچ تھا اسے تو میں پہلے ہی بول چکا تھا۔ اب کون سا سچ بچا تھا جو بولتا۔ البتہ میرا حافظہ ساتھ دیتا تو ممکن ہے کہ میں انھیں کسی من گڑھت بات یا کسی جھوٹ سے مطمئن کر پاتا اور اپنے ارد گرد کوئی عیّارانہ دفاعی ہالہ کھینچ کر خود کو مصیبت سے بچا لیتا۔ اسی دوران کسی کو خیال آیا کہ میری تلاشی لینی چاہیے اور انھوں نے میری تلاشی شروع کر دی۔ میرے کرتے کی ایک حبیب سے انھیں کچھ ریز گاری ملی اور دوسری جیب سے دواؤں کا مڑا تڑا ایک نسخہ۔
نسخہ پڑھتے ہی لوگوں کے مشتعل ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے۔ ان کی آنکھوں کی چنگاریاں بجھ گئیں۔ تنے ہوئے اعصاب سیدھے ہو گئے۔ شاید انھیں یقین آ گیا تھا کہ میں وہ نہیں ہوں جو وہ مجھے سمجھ رہے تھے۔ وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ میں ایک بیمار آدمی ہوں اور شاید اپنی یاد داشت کھو بیٹھا ہوں۔ اندیشے ان دنوں اتنے تنو مند نہیں ہوئے تھے کہ بے گناہی کے ثبوت دیکھ کر بھی اپنی اینٹھ دکھاتے رہتے اور مضبوط ثبوتوں کی بھی دھجّیاں اڑا دیتے۔
یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنی مکمل یاد داشت کھو چکا تھا یا پوری طرح اپنے ہوش و حواس میں تھا، مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میرے ذہن سے وقت کا تصور تقریباً مٹ چکا تھا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب لوگ مجھ سے یہ پوچھتے کہ میرے گھر میں کون کون ہیں؟ تو میرا جواب ہوتا ’’ایک ماں تھی جو بہت پہلے مر چکی تھی۔ دوسرے ابّا تھے، مگر اب تو وہ بھی اللہ کو پیارے ہو چکے ہوں گے۔ بہن بھائی بھی تھے، کیا پتا وہ بھی اب مر کھپ گئے ہوں۔
’’گھر سے کب نکلے تھے؟‘‘
اس سوال کا جواب ہوتا:
’’برسوں پہلے‘‘
’’کون سا سن تھا؟‘‘
میرا جواب ہوتا:
’’شاید انیس سو ستر‘‘
’’کیا کرتے تھے؟‘‘
میں جواب دیتا:
’’شاید پڑھتا تھا‘‘
ان کے سوالوں کے میرے جواب بتاتے ہیں کہ وقت کا تصور میرے ذہن سے واقعی ختم ہو چکا تھا، جس کا یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ میں اپنی یاد داشت کھو چکا تھا، مگر آج جو کچھ بھی میں یہ لکھ رہا ہوں ایمان داری سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ نرا فکشن نہیں ہے، بلکہ اس واقعے کا حصہ ہے جو میری زندگی کی نوجوانی کے دنوں میں رونما ہوا تو کوئی یہ بھی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ میری یادداشت کھوئی نہیں تھی بلکہ میرے پاس موجود تھی، اسی لیے یہ واقعات قلم بند ہو رہے ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور ہو سکتی ہے کہ جن حالات سے میں گزرا تھا ان میں میرا شعور کبھی سو جاتا ہو اور کبھی جاگ پڑتا ہو اور میرا لا شعور پوری طرح بیداری کے عالم میں ہو اور ایک ایک بات رکارڈ کرتا رہا ہو۔
چوں کہ میں بھول چکا تھا کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، میرا اتا پتا کیا ہے؟ اسی لیے کسی نے مجھے میرے گھر پہچانے یا میرے گھر والوں کو اطلاع دینا ضروری نہیں سمجھا اور میرے نسخے سے چوں کہ اس حقیقت کا پتا چل گیا تھا کہ میں ایک بیمار اور بے ضرر انسان ہوں لہٰذا میرے اس گاؤں میں رہنے سے کسی کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچنے والا ہے اور اسی لیے میرے وہاں رہنے پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہ تھا اور اس طرح میں اس گاؤں میں رہنے لگا۔ بڑے بوڑھے چوں کہ میری حالت اور میری اصلیت کو سمجھ گئے تھے، اس لیے میری طرف توجہ کم کرتے تھے بلکہ ایک طرح سے بے توجہی برتتے تھے، مگر میں اکثر نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بن جایا کرتا تھا۔ کچھ تو مجھے کھلونا سمجھ کر مجھ سے کھیلتے تھے اور کھیل کھیل میں مجھے طرح طرح کی ایذائیں بھی پہنچاتے تھے اور کچھ مجھے دیوانہ سمجھ کر مجھے بری طرح چھیڑتے تھے اور جب کبھی ان کی چھیڑ چھاڑ کا کوئی ردّ عمل میری طرف سے دکھائی دیتا تو وہ مجھے زد و کوب بھی کیا کرتے تھے۔ بعض تو میری طرف پتھر بھی اچھال دیتے تھے۔ مجھے چھیڑنے والوں اور میری طرف پتھر پھینکنے والوں میں لڑکے لڑکیاں دونوں ہوتے تھے۔ پتھر پھینکنے والوں میں مجھے کچھ ایسے بھی چہرے نظر آتے جن کے ہاتھوں اچھلے ہوئے پتھّروں سے مجھے کچھ زیادہ ہی چوٹ لگتی۔ کچھ زیادہ ہی درد کا احساس ہوتا۔ مجھے محسوس ہوتا کہ یہ تو وہ چہرے ہیں جو مجھے جانتے ہیں۔ مجھے پہچانتے ہیں، میرے اپنے ہیں، پھر یہ کیوں پتھر پھینک رہے ہیں؟
اس گاؤں کے قیام کے دوران میں طرح طرح کے محسوسات سے دوچار ہوا۔ اکثر مجھے محسوس ہوتا جیسے کوئی مجھے اوٹ سے چھپ کر دیکھ رہا ہو، اس کے ہاؤ بھاؤ سے مجھے یہ اندازہ ہوتا جیسے وہ مجھے پہچانتا ہو یا پہچاننے کی کوشش کرتا ہو۔ جیسے وہ میرا کوئی قریبی ہو، مجھے یہ بھی محسوس ہوتا جیسے وہ مجھے اپنے گھر بلانا چاہتا ہو، مگر بلانے سے ڈرتا ہو، میں اسے پہچاننے کی کوشش کرتا، مگر پہچان نہیں پاتا۔ میں ذہن میں اس کی تصویر بنانا چاہتا، مگر تصویر بن نہیں پاتی تھی۔ میں یہیں پر وہ بات بھی کہہ دوں جسے مجھے پہلے کہہ دینا چاہیے تھا کہ جب میں اپنے ریلوے اسٹیشن سے چل کر کسی دوسرے اسٹیشن پر اترا تھا اور جتنی دیر تک وہاں رکا تھا تو عجیب و غریب طرح کے احساسات سے دو چار ہوا تھا:
دور سے بہت سے منظر جانے پہچانے لگتے، مگر جب انھیں قریب سے دیکھتا تو وہ اجنبی ہو جاتے۔ بہت سی چیزیں ایک نظر میں جانی پہچانی محسوس ہوتیں، مگر غور سے دیکھنے پر وہ بے گانی لگنے لگتیں۔ کبھی کسی کو دیکھ کر لگتا کہ میرا بھائی میری طرف چلا آ رہا ہے، مگر جب وہ میرے قریب پہنچتا تو کوئی اور ہو جاتا۔ اس کی صورت بدل جاتی۔ کبھی کسی چہرے کو دیکھ کر محسوس ہوتا کہ یہ تو میرے فلاں دوست کا چہرہ ہے، مگر وہ چہرہ جب نزدیک آتا یا قریب سے دکھائی دیتا تو وہ اجنبی بن جاتا۔ اس کی خوبصورتی بد صورتی میں بدل جاتی۔ پہلی نظر میں جو چیز اچھی لگتی بعد میں وہ بری بن جاتی۔
ایک دن تو رات کی تاریکی اور مہیب سنّاٹے میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں مہادیو بن گیا ہوں اور ہاتھ میں ڈمرو لیے رقص کر رہا ہوں۔ میرے ٹانڈو سے زمین ہل رہی ہے، آسمان بھی کپکپا رہا ہے۔ فضائیں تھرّا رہی ہیں۔
ایک روز مجھے یہ لگا کہ میں ہی ابلیس ہوں۔ سارے سنسار کی پریشانیوں کی جڑ میں ہی ہوں۔ میں ہی ساری دنیا کو بہکاتا ہوں۔ میں ہی ایک ایک کو ورغلاتا ہوں۔ میں ہی کانوں میں زہر گھولتا ہوں۔ آنکھوں میں شعلے بھرتا ہوں۔ میں ہی بارود بچھاتا ہوں۔ میں ہی آگ لگاتا ہوں۔ میں ہی گولی چلواتا ہوں۔ خونی رشتوں سے خون کرواتا ہوں۔
حواس بحال ہو جانے کے کافی دنوں بعد جب میں نے اپنے ان احساسات کا ذکر اپنے رمز شناس اور ماہر نفسیات دوستوں سے کیا تو بجائے ان کی توضیحات بتانے اور میری گتھیوں کو سلجھانے کے مجھے ناصحانہ سبق پڑھانے لگے کہ میں ان باتوں پر نہ سوچوں۔ ماضی کو نہ کریدوں۔ سوئے ہوئے منظروں کو نہ چھیڑوں کہ ایسا کرنے سے ممکن ہے دیوانگی کا وہ بھوت جسے بڑی مشکل سے بھگایا گیا تھا، پھر سے کہیں واپس نہ آ جائے۔ ممکن ہے میرے دانشور دوست میرے ان ناقابل یقین احساسات و واقعات اور میری اس عجیب و غریب قسم کی نفسیات کی توضیحات بیان کرنے سے قاصر ہوں، مگر ان کی اس رائے میں دم تو تھا ہی کہ پچھلی باتوں کو چھیڑنے سے میرے دل و دماغ میں پھر سے کہیں کسی قسم کی کوئی مہا بھارت نہ چھڑ جائے، اس کے باوجود میرا متجسّس ذہن خاموش نہ بیٹھ سکا۔ وہ مسلسل سوچتا رہا۔ غور و فکر کے دوران میری سمجھ میں یہ آیا کہ میں جو دنیا دیکھنا چاہتا ہوں وہ اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ یہ دنیا وہ جگہ ہے جہاں دوست سمجھا جانے والا آدمی دشمن نکلتا ہے، اپنا لگنے والا بے گانہ ثابت ہے۔ تمنّا تو خوش منظری کی ہوتی ہے، ، مگر سامنے کریہہ المنظری آتی ہے۔ اچھائی چاہنے والے کے حصّے میں برائی آتی ہے۔
میں نے مہادیو بننے والے اپنے احساس پر غور کرنا شروع کیا تو میرے ذہن میں یہ سوال گونجنے لگا۔
’’میں مہادیو ہی کیوں بنا؟ برہما، وشنو، کرشن اور رام کیوں نہیں بنا؟‘‘
اس سوال کی گونج کے ساتھ ساتھ ذہن میں ایک تصویر بھی ابھرنے لگی: شیام رنگ کی لحیم شحیم ایک ننگ دھڑنگ شبیہ:
سر پر سیاہ جٹائیں، سیاہ جٹاؤں سے نکلی ہوئی چمچماتی ہوئی صاف شفّاف ندّی، گلے میں لپٹا ہوا ناگ، بازوؤں پر بیٹھے بچھّو، چہرے سے لے کر پاؤں تک بدن پر بھبوت۔ آنکھوں میں کرودھ، پیشانی پر تیج، ایک ہاتھ میں ترشول، دوسرے میں ڈمرو، گلے کی رگوں سے جھانکتا ہوا نیلا رنگ:
شبیہ میں جنبش ہوئی اور تصویر رقص کرنے لگی، مگر یہ رقص وہ رقص نہیں تھا جس سے دل جھومنے لگتا ہے بلکہ یہ وہ رقص تھا کہ جسے دیکھ کر دل دہل اٹھتا ہے۔ دھرتی ڈولنے لگتی ہے۔ فضائیں تھرا اٹھتی ہیں۔ جس کی دھمک آسمان کو بھی ہلانے لگتی ہے۔ جس سے ماحول میں دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ جیسے رقص کرنے والا کرودھ میں ہو، کسی غصّے کی آگ میں جل رہا ہو، کسی بات پر مشتعل ہو، جیسے وہ اپنے اس رقص سے کسی کو ڈرانا اور دھمکانا چاہتا ہو۔ ماحول کو دہلانا چاہتا ہو، لوگوں کو کچھ دکھانا چاہتا ہو، کچھ بتانا چاہتا ہو، کچھ محسوس کرانا چاہتا ہو۔
اس تصویر کے رنگ ڈھنگ، خط و خال، جزئیات، تیور، رقص اور رقص کے انداز پر توجہ مرکوز کی تو محسوس ہوا جیسے یہ تصویر چاہتی ہو کہ میں بھی ویسا ہی بن جاؤں، میں بھی سانپ بچھوؤں کو سنسار کے بلوں سے نکال کر اپنے پاس رکھ لوں۔ میں بھی اپنے اندر سے کوئی دریا بہا دوں۔ ماحول میں پھیلے ہوئے زہر کو میں بھی اپنے اندر جذب کر لوں۔
ابلیس والے احساس پر جب میں نے غور کیا تو دنیا میں آئے دن ہونے والے بے شمار جھگڑے فساد، قتل و غارت گری، فسق و فجور، چوری چماری اور ہر طرح کی بد عنوانی کے مناظر آنکھوں میں ابھر آئے اور ہر ایک منظر میں ایک جانا پہچانا عکس جھلملا اٹھا۔ حالتِ شعور اور عالم بے خودی دونوں صورتوں میں حیات و کائنات کی بہت ساری دھندلی شکلیں مجھ پر روشن ہو گئی تھیں۔ بہت سارے اسرار مجھ پر وا ہو گئے تھے۔ یہ سب کچھ بعد میں مجھ پر منکشف ہوا۔
اس گاؤں میں رہتے ہوئے مجھے کچھ ہی دن ہوئے ہوں گے مگر لگتا تھا جیسے کہ میں وہاں برسوں سے رہ رہا ہوں۔ ایک دن گاؤں کا چکر کاٹتے کاٹتے میں اچانک گاؤں کے پاس والے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ گیا اور کسی گاڑی میں سوار ہو کر پھر وہیں پہنچ گیا جہاں سے پہلی بار کسی گاڑی میں سوار ہوا تھا۔ اسٹیشن سے باہر نکلا تو کاغذ کے ایک ورق پر نظر پڑی، اسے اٹھا کر دیکھا تو لکھا تھا:
’’جذبہ خموشی سے اپنا کام کرتا ہے۔ ہشیار کو دیوانہ اور دیوانے کو ہشیار بنا دیتا ہے۔ کبھی گھر سے باہر نکال دیتا ہے اور کبھی باہر سے بلا کر گھر میں بٹھا لیتا ہے۔ جذبہ جب جوش کھاتا ہے تو بھاری سے بھاری اور مضبوط سے مضبوط تر ڈھکّن کو بھی اُلٹ دیتا ہے اور سرد پڑتا ہے تو شعلوں کی حرارت کو بھی بے اثر کر دیتا ہے۔‘‘
ورق پلٹا تو یہ عبارت درج تھی:
’’اسے اس دن تک نہیں معلوم تھا کہ کوئی جذبہ اس کے اندر جوش کھانے لگا ہے۔ یہ تو تب پتا چلا جب اس کے پاس سے کوئی چلا گیا۔ کوئی کیا گیا کہ وہ سارا سارا دن اور ساری ساری رات اداس رہنے لگا۔ بھرے پرے گھر میں بھی خود کو تنہا محسوس کرنے لگا اور ایک عجیب طرح کی بے کیفی اور بے چینی سے گزرنے لگا۔ اچانک ایک دن اسے احساس ہوا کہ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ اس کے وجود کا کوئی حصہ اس سے الگ ہو گیا ہے۔ ایسا حصّہ جو دل و دماغ میں پھول کھلا دیتا ہے۔ رگ و ریشے میں خوشبو بھر دیتا ہے۔ چہرے پر گلال مل دیتا ہے۔ پلکوں پر جگنو بٹھا دیتا ہے۔ رگوں میں شہد کی بوند یں ٹپکا دیتا ہے۔ ٹھہرے ہوئے وجود کو کل کل کرتی ہوئی ندی بنا دیتا ہے۔ یہ اسی حصّے کا اثر ہے کہ وہ بہتی ہوئی ندی سے اب ایک ٹھہرا ہوا نالا بن گیا ہے۔‘‘
مجھے محسوس ہوا جیسے یہ کہانی میں نے پہلے بھی کہیں پڑھی تھی یا کسی پردے پر دیکھی تھی۔ اس تحریر کے پڑھنے اور اس کی سمجھ نے مجھے احساس دلا دیا کہ میری یاد داشت اب پوری طرح لوٹ آئی ہے:
در اصل میں بیمار تھا۔ بیماری کے علاج کے لیے میرے ماموں میرے گاؤں سے، جہاں میں امّاں کے انتقال کے بعد ابّا کے ایک دوست کے گھر رہتا تھا، اپنے گھر لے آئے تھے، علاج میرا ابّا کے دوست کے یہاں بھی ہو رہا تھا، مگر شاید ماموں وہاں سے اپنے گھر اس لیے لے آئے تھے کہ میرا علاج زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکے گا۔ ابّا کے دوست نے بھی یہی سوچ کر مجھے ماموں کے ہمراہ بھیج دیا تھا کہ ماموں خود بھی ڈاکٹر تھے۔ اس لیے وہاں میری زیادہ اچھّی طرح دیکھ بھال ہو سکے گی۔ ان سب کے باوجود میں ماموں کے گھر سے نکل بھاگا تھا اور راستے میں ایک بار بھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے یا واپس لوٹ جانا چاہیے۔ شاید اس کی وجہ بے گھری کا احساس ہو یا کوئی ایسا احساس جو گھر کے فرش پر بھی کانٹے اُگا دیتا ہے۔ چھت کی شہتیروں سے سپنولے لٹکا دیتا ہے۔ اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی کسی نے مجھے پہچان لیا اور آناً فاناً میں مجھے رکشے پر بٹھا کر ماموں کے گھر پہنچ گیا۔
______