اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


اب گواہی دو ۔۔۔ سمیرا گُل ع‍ثمان

‘کتاب’ اینڈرائیڈ ایپ سے حاصل کردہ ناولٹ

اب گواہی دو

از قلم

سمیرا گُل ع‍ثمان

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

پی ڈی ایف فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں…..

اب گواہی دو

روشن رو پہلی معطر سی صبح کا آغاز ہو چکا تھا وہ بھی دروازے کی ٹھک ٹھک اور دھم دھم کرتے میوزک کے بغیر ہی، کہ یہ کھلی کھلی سی سحر رعنائیوں بھری شب کا آغاز تھا اس نے اپنا آنچل اٹھا کر اوڑھا تو کلائیوں میں کھنکتی چوڑیاں بج اٹھیں، شہریار کو بیڈ ٹی کی عادت تھی اور اس کے آنے سے قبل وہ یہ کام خود سرانجام دیتا تھا ان کے گھر کی مانند یہاں بھی کل وقتی ملازمہ کی کمی تھی جو دو تین تھیں وہ بھی اپنے ٹائم پر آتیں اور کام نمٹا کر چلی جاتی تھیں اور جو آج کل میرج ہال میں شادی کا رواج تھا تو قریبی احباب بھی وہیں سے اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتے تھے اور جس طرح شہریار نے اس کے حضور درخواست پیش کی تھی۔
’’اگر زحمت نہ ہو تو ایک کپ چائے مل سکتی ہے۔‘‘ وہ شرمگیں مسکراہٹ لبوں پر سجاتے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی تھی کچن تک رہنمائی شہریار نے کر دی تھی اور خود واش روم میں جا گھسا تھا۔
اور وہ کچن کے بیچ و بیچ کھڑی خوب دماغ لڑتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ چائے کیسے بنتی ہے اس نے تو آج تک کبھی باورچی خانے میں جھانک کر نہیں دیکھا تھا عمر اکثر جب اپنے لئے چائے بناتا تو ایک کپ اسے بھی عنایت کر دیا کرتا تھا کچھ خیال آنے پر اس نے عمر کا نمبر ڈائل کر دیا، بیل جا رہی تھی۔
’’اٹھا لو عمر۔‘‘ وہ بے چینی سے بولی اتنے میں نیند سے بوجھل آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔
’’تم کیسے اٹھ گئی اتنی سویرے۔‘‘ اس کی ہیلو کے جواب میں وہ بولا۔
’’عمر چائے کیسے بناتے ہیں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ اچھل کر اٹھ بیٹھا۔
’’کیا بد تمیزی ہے یہ۔‘‘ وہ دور سے بھی اس کی حرکت نوٹ کر چکی تھی۔
’’تم اپنی ویڈنگ نائٹ کی پہلی صبح اتنی سویرے اٹھ کر چائے بنا رہی ہو۔‘‘ اس کی حیرت قابل دید تھی۔
’’بنا نہیں رہی پوچھ ہی ہوں۔‘‘ وہ اصل مسئلے کی جانب آئی، مگر وہ بھی خوب تنگ کرنے کے موڈ میں آ چکا تھا۔
’’وہ در اصل بات یہ ہے کہ چائے بنانے کے تین طریقے ہوتے ہیں اب تمہیں کون سا بتاؤں۔‘‘
’’جو سب سے آسان ہے۔‘‘ اس نے تحمل سے کہا اور مختلف کیبنٹ کھنگال کر مطلوبہ اشیاء برآمد کرنے لگی اور پھر اس کے کہنے کے مطابق دودھ میں چینی پتی ڈال کر چولہا جلا دیا تھا اور جب تک چیزیں سمیٹ کر واپس کیبنٹ میں رکھیں چائے کو ابال آنے لگے تھے۔
’’عمر یہ تو ابل رہی ہے چھلک جائے گی، کیا کروں؟‘‘ وہ حواس باختہ ہونے لگی تھی۔
’’آنچ ہلکی کرو پاگل۔‘‘ وہ چلایا۔
’’یہ آنچ کیا ہوتی ہے۔‘‘ چائے کناروں تک آ چکی تھی کچھ سمجھ نہ آنے پر ساس پین کو پکڑنا چاہا تو انگلیاں جل گئیں وہ اچھل کر پیچھے ہٹی اور کسی نے فوراً آگے بڑھ کر برنر بند کر دیا پھر الٹے قدموں واپس بھاگا۔
تب تک شہریار بھی کچن میں جھانک چکا تھا، وہ اپنی جلی ہوئی انگلیوں کو دیکھتے ہوئے آنسو ضبط کرنے کی کوشش کر رہی تھی جلن سے برا حال تھا۔
’’بھائی یہ پیسٹ لگا دیں۔‘‘ سالار نے عجلت میں ٹیوب پکڑائی اور چلا گیا۔
’’یہ کیسے ہوا؟‘‘ وہ اس کی انگلیوں پر پیسٹ لگاتے ہوئے تاسف سے پوچھ رہا تھا۔
’’مجھے چائے بنانی نہیں آتی۔‘‘ وہ لب کاٹتے ہوئے دھیرے سے بولی۔
’’او گاڈ۔‘‘ شہریار نے اپنا سر تھام لیا۔
’’تو جان پہلے بتا دیتی۔‘‘
’’آپ کو انکار کرنا اچھا نہیں لگا۔‘‘ ایک اور جواز اب سر کی بجائے دل تھامنے کی باری تھی۔
’’بس انہی اداؤں سے مات کھا گئے۔‘‘
٭٭٭

’’لو بھلا یہ کوئی بات ہوئی پہلی صبح ہی بہو کو کچن میں گھسا دیا۔‘‘ عائشہ آنٹی عنبرین کی انگلیوں پر برنال لگاتے ہوئے شہریار کو ڈپٹ رہی تھیں جبکہ وہ مسلسل مسکراتے جا رہا تھا۔
’’اب ناشتہ کیسے کرے گی وہ۔‘‘ انہوں نے تمام لوازمات میز پر منتقل کرتے ہوئے اسے گھورا تو اس نے بھی چھٹ اپنی خدمات پیش کر دیں۔
’’میں کروا دیتا ہوں۔‘‘ گرم گرم پوریاں، حلوہ، چنے اور چائے کے علاوہ بریڈ، مارجرین بوائل انڈے بھی تھے، شہریار نے نوالہ اس کی سمت بڑھایا تو عنبرین کی نظریں بے ساختہ سالار کی جانب اٹھ گئیں جو اس کے سامنے والی کرسی سنبھالے یوں بیزار سا بیٹھا تھا جیسے کسی نے زبردستی وہاں بٹھایا ہو، رات بھی اسے مختلف آوازیں آتی رہی تھیں، ہر کوئی سالار کو ڈھونڈ رہا تھا کہ رسم کے لئے وہ بھابھی کے پاس آ کر بیٹھے، لیکن اس نے دو ٹوک انکار کر دیا تھا۔
’’مجھے ایسی فضول رسمیں نہیں پسند۔‘‘ سب خواتین پکارتی ہی رہ گئی تھیں مگر وہ اسے پھولوں کا گلدستہ اور منہ دکھائی میں گولڈ برسلیٹ تھما کر جا چکا تھا۔
عائشہ آنٹی ملازمہ سے کچن کی صفائی کروا رہی تھیں انکل ابھی تیار نہیں ہوئے تھے۔
سالار نے اسے یوں اپنی جانب دیکھتا پایا تو اورنج جوس کا گلاس ایک ہی گھونٹ میں چڑھا کر اٹھ کھڑا ہوا پیچھے اب وہ دونوں رہ گئے تھے۔
’’سالار کافی ریزروڈ ہے۔‘‘ اس نے خیال آرائی کی شہریار نے جاتے ہوئے سالار کو دیکھا اور آزردگی سے بولا۔
’’میرا بھائی تو بہت شوخ اور شرارتی ہوا کرتا تھا بس دل کے معاملے میں قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔‘‘
’’کون تھی وہ لڑکی؟‘‘ عنبرین نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’بس تھی کوئی تم چھوڑو اس بات کو ناشتہ جلدی کرو پھر میں نے تمہیں پارلر چھوڑ کر خود بھی کہیں جانا ہے۔‘‘ وہ عجلت میں بات بدل گیا ولیمے کافنکشن ڈے تھا کچھ اسے کاموں کی بھی جلدی تھی ابھی اسے بوتیک سے اپنے ولیمے کا سوٹ بھی لانا تھا وہ بھی سب بھول کر اپنی باتیں کرنے لگی تھی۔
٭٭٭

ولیمے کے بعد دوست احباب کے ہاں دعوتوں کا سلسلہ چل نکلا تھا وہ ختم ہوا تو دونوں ہنی مون کے لئے پیرس چلے گئے وہاں سے دو ہفتوں کے بعد واپسی ہوئی تھی کل صبح سے شہریار کو باقاعدہ اپنا آفس جوائن کرنا تھا، اس کے دفتر جانے کے بعد اکیلے لاؤنج میں بیٹھی وہ کافی بوریت محسوس کر رہی تھی جب عائشہ آنٹی تصویروں کا البم اٹھائے چلی آئیں۔
’’یہ کب آئیں۔‘‘ وہ خوشدلی سے اٹھ بیٹھی۔
’’دو چار روز قبل ہی آئی تھیں۔‘‘ انہوں نے جواب دینے کے ساتھ البم اسے تھمایا اور خود فون ریسیو کرنے چلی گئیں وہ تصویریں دیکھنے میں مگن تھی جب سالار چائے کا کپ اٹھائے اس کے پیچھے آن کھڑا ہوا۔
’’ٹھہریں پلیز۔‘‘ وہ پیج ٹرن کرنے والی تھی جب اچانک اس نے ٹوک دیا وہ رک کر سر اٹھائے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی تھی لیکن وہ اس کی بجائے تصویر میں اس کے ساتھ کھڑی سندس کو دیکھ رہا تھا۔
’’یہ کون ہے؟‘‘ نیچے جھکتے ہوئے اس نے سندس کی تصویر پہ ہاتھ رکھ دیا۔
’’میری دوست ہے۔‘‘
’’میں نے تو اسے شادی میں نہیں دیکھا۔‘‘
’’ہاں اس کی امی بیمار تھیں تو یہ بس تھوڑی دیر کے لئے آئی تھی۔‘‘
’’کس کے ساتھ آئی تھی؟‘‘
’’اپنے بھائی کے ساتھ۔‘‘ اس کے پے درپے سوالات پہ عنبرین کو کوفت ہونے لگی تھی آخر وہ اتنی انوسٹی گیشن کیوں کر رہا تھا جبکہ ’’بھائی‘‘ کے نام پر وہ ٹھٹک سا گیا تھا۔
’’کیوں اس کا ہزبینڈ نہیں آیا۔‘‘
’’ہزبینڈ؟‘‘ اب کی بار عنبرین چونکی۔
’’اس کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی۔‘‘
’’آپ کو اچھی طرح پتہ ہے کہ اس کی شادی نہیں ہوئی۔‘‘
’’ہاں دوست ہے میری فرسٹ ائیر سے بی ایس سی تک ہم ساتھ ہی تھے۔‘‘
’’ہو سکتا ہے کہیں بات چل رہی ہو۔‘‘
’’نہیں بھئی ابھی تو اس کی ایک بڑی بہن موجود ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘ عنبرین نے اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا جیسے کچھ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہو کچھ دیر وہ اس کے بولنے کی منتظر رہی پھر وہ دوبارہ سے تصویروں کی سمت متوجہ ہو گئی، سالار کو اس کی آخری فون کال یاد آئی تھی۔
’’ڈیڈی میرا رشتہ طے کر چکے ہیں ایک ہفتے بعد میری شادی ہے۔‘‘
’’بھابھی!‘‘
’’ہوں۔‘‘ وہ پھر سے سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی جو اب کی بار اس کے سامنے آن بیٹھا تھا۔
’’میں اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ اس کی فرمائش پر عنبرین نے قدرے سٹپٹا کر اسے دیکھا۔
’’یوں اچانک شادی کا خیال کیسے آ گیا۔‘‘
’’ممی اور ڈیڈی سے میں بات کر لوں گا آپ بس جانے کی تیاری کریں۔‘‘ وہ فیصلہ کن انداز میں کہہ کر چلا گیا تو وہ سارا دن الجھتی رہی اور جب رات کو شہریار سے بات ہوئی تو وہ سن کر بہت خوش ہوا۔
’’ارے تو خوشی کی بات ہے ہم کل ہی چلیں گے پرپوزل لے کر۔‘‘ وہ سالار سے بھی زیادہ جلد باز تھا، پھر باقی کے مراحل کافی خوش اسلوبی سے طے ہوئے تھے اور بارات کا دن آن پہنچا تھا۔
٭٭٭

’’عنبرین جلدی چلو بھئی دیر ہو رہی ہے۔‘‘ شہریار اسے پکارتا ہوا اندر آیا تھا اور پھر دروازے پر ہی مبہوت سا کھڑا رہ گیا، نیوی بلیو ساڑھی میں وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔
’’اتنی سجاوٹ۔‘‘ اس کا اشارہ پھولوں کے کنگن اور چمکتی ہوئی بندیا کی جانب تھا۔
’’اتار دوں۔‘‘ وہ معصومیت سے بولی۔
’’ارے نہیں یار بس ایک کاجل کا ٹیکا لگا لو بہت سی نظروں کی بچت ہو جائے گی۔‘‘
’’آپ اپنی نظر کی فکر کریں بہت خراب ہے یہ۔‘‘ وہ ہنستے ہوئے پرفیوم اسپرے کرنے لگی تھی شہریار نے اس کے گلے میں بازو ڈال دیا۔
’’ کتنی خوبصورت لگ رہی ہو، کاش کہ تمہارے جیسی تین اور ہوتیں۔‘‘
’’میرے جیسی کی اگر شرط ہے تو پھر ایک پر ہی اکتفا کریں۔‘‘ اب وہ ناخنوں پر کیوٹیکس لگا رہی تھی اور شہریار فل شرارت کے موڈ میں تھا۔
’’کوشش میں کیا حرج ہے۔‘‘
’’میں ہیلپ کروا دوں۔‘‘ وہ اطمینان سے بولی۔
’’تم جیلس کیوں نہیں ہوتی۔‘‘ شہریار نے اس کی لٹ کھینچی۔
’’آپ فرمائش بھی تو میرے جیسی کی کرتے ہیں تو اس پر مغرور تو ہوا جا سکتا ہے جیلس نہیں۔‘‘ وہ اس کی گرفت سے نکل کر دروازے کی سمت بڑھی۔
’’بات تو سنو۔‘‘ اس نے پھر پکارا۔
’’اب بھلا دیر نہیں ہو رہی۔‘‘ وہ باور کرواتے ہوئے باہر نکل گئی، شہریار بھی اس کا ہینڈ بیگ اٹھائے پیچھے لپکا لاؤنج میں کھڑی بے ساختہ ہنستی ہوئی لڑکیوں کو ایک اور بہانہ مل گیا تھا۔
’’شہریار بھائی شادی کے بعد یہی کام ہوتا ہے۔‘‘ ایک لڑکی نے ہنستے ہوئے جملہ کسا تو خجل سا ہو کر سر کھجانے لگا۔
’’خبردار جو میرے میاں کو تنگ کیا ہو تو۔‘‘ سالار کو ہار پہناتے ہوئے اس نے دور سے آنکھیں دکھائیں۔
’’اوئے ہوئے۔‘‘ ایک اور زبردست معنی خیز سا قہقہہ پڑا تھا۔
بارات میں چند قریبی دوست احباب ہی شامل تھے زیادہ گیدرنگ اس لئے نہیں تھی کہ سندس کا تعلق متوسط طبقے سے تھا۔
انہوں نے شادی کا ارینج بھی گھر میں ہی کیا تھا بارات گئی نکاح ہوا اور کھانا کھا کر وہ لوگ دولہن گھر لے آئے۔
ولیمے کا فنکشن ایک ہفتے بعد تھا سو مہمان شام کے بعد رخصت ہو چکے تھے، وہ بھی مختلف رسموں کے بعد سندس کو بیڈ روم میں چھوڑ کر اپنے کمرے میں چلی آئی خوب تھکن کے باعث اب تو برا حال ہو رہا تھا، وہ لباس تبدیل کرنے کے بعد اپنی سائیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
’’یار تھوڑا سر ہی دبا دو۔‘‘ یہ بھی قریب بلانے کا ایک انداز تھا۔
’’کیوں میں آپ کی نوکرانی ہوں۔‘‘ وہ زیر لب ہنسی۔
’’اچھا تو پھر کیا ہو۔‘‘ وہ مصنوعی رعب سے بولا۔
’’رانی!‘‘ اس نے کروٹ بدلے بدلے ہی جواب دیا۔
’’کہاں کی۔‘‘ وہ اس کے اوپر جھک آیا تھا۔
’’شہر دل کی۔‘‘ وہ شوخی سے بولی۔
’’شہر میں دل تو کئی ہیں۔‘‘ وہ مشکوک ہوا۔
’’ہاں لیکن دل کا شہر تو ایک ہی ہوتا ہے نا۔‘‘
’’اچھا جی۔‘‘ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا رخ اپنی سمت موڑ لیا۔
’’میں ہمیشہ سے یہی چاہتا تھا کہ میری بیوی کا کردار شفاف آئینے کی مانند ہو۔‘‘ وہ اس کے بالوں کی لٹ کو اپنی انگلی پہ لپیٹتے ہوئے بتا رہا تھا اور عنبرین کی رنگت متغیر ہو گئی تھی اس کی بات پر۔
٭٭٭

’’سندس کیا ہوا؟‘‘ اگلے روز وہی سب سے پہلے اٹھ کر سالار کے بیڈ روم میں آئی تھی اور بیڈ پر بیٹھی سندس کو دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔
شادی کی پہلی صبح اس نے کسی دلہن کو اتنی اجڑی ہوئی حالت میں نہیں دیکھا تھا بکھرے ہوئے بال، شکن آلود لباس اور متورم آنکھیں، ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے کانچ اس کی کلائیوں میں کھبے ہوئے تھے۔
وہ بھی ایک بیاہتا لڑکی تھی شہریار نے تو کبھی اس کے ساتھ یوں وحشیوں جیسا سلوک نہیں کیا تھا اس کی حالت دیکھ کر یک لخت ہی اس کا دل غم و غصے سے بھر گیا۔
’’جاؤ پلیز شاور لے لو اور اپنی حالت درست کرو۔‘‘ وہ اس کی ٹوٹی بکھری حالت سے نظریں چراتے ہوئے بولی اور بہت پیار سے اسے اٹھا کر واش روم بھیجا اور خود اس کا ناشتہ بنوا کر کمرے میں ہی لے آئی لیکن سندس سے کچھ کھایا نہیں جا رہا تھا، نوالے اس کے حلق میں اٹک رہے تھے۔
’’ایم سوری سندس۔‘‘ وہ اس کے سامنے شرمندہ ہو رہی تھی کہ رشتہ تو اس کے توسط سے ہوا تھا۔
’’میں نہیں جانتی تھی کہ سالار…‘‘ لب کاٹتے ہوئے اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’تم فکر مت کرو میں آنٹی سے بات کروں گی وہ اچھی طرح پوچھ لیں گی کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔‘‘
’’وہ مجھے چھوڑ دے گا عنبرین اس نے مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا ہے۔‘‘ وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
’’ارے کیسے کیسے چھوڑ دے گا اپنی پسند سے اس نے شادی کی ہے میں انکل، آنٹی اور شہریار سب تمہارے ساتھ ہیں تم اکیلی نہیں ہو۔‘‘ وہ اسے تسلی سے نوازنے کے بعد اپنے کمرے میں آ کر شہریار سے الجھ پڑی تھی۔
’’میری دوست کیا لا وارث تھی جو آپ کے بھائی نے اس کے ساتھ شادی کی ایک رات گزاری اور اب گھر سے نکل جانے کا حکم سنا دیا ہے۔‘‘
’’کیا بکواس ہے یہ۔‘‘ اس کی پیشانی پر ایک ساتھ کئی بل نمودار ہوئے۔
’’یہ اس سے جا کر پوچھیں۔‘‘ وہ غصے سے کہتی بیڈ پر بیٹھ گئی۔
’’عجیب تماشا ہے۔‘‘ وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گیا لیکن سالار کا سارے گھر میں کہیں کچھ پتہ نہیں تھا فی الحال اس نے ممی اور ڈیڈی سے اس بات کا ذکر نہیں کیا تھا وہ پہلے سالار سے خود بات کرنا چاہتا تھا اور جب تک اس کی واپسی ہوئی اسے نیند آ چکی تھی۔
٭٭٭

’’تم گئی نہیں ابھی تک۔‘‘ اسے اپنے کمرے میں موجود دیکھ کر سالار کا طیش عود کر آیا تھا سندس کا دل سینے میں سکڑ کر پھیلا۔
’’اتنی بڑی سزا اگر سنا ہی رہے ہو تو جرم بھی بتا دو۔‘‘
’’کیا کہا تھا تم نے کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے تم ایک مجبور لڑکی ہو جس نے ماں باپ کی عزت کی خاطر اپنی محبت کو قربان کر دیا ہے بیوقوف بنا رہی تھی مجھے۔‘‘ وہ اس کا بازو کھینچتے ہوئے غرایا۔
’’تم کیا کہہ رہے ہو میری سمجھ میں نہیں آ رہا۔‘‘ اس کا دماغ ماؤف ہونے لگا تھا شاید کوئی بہت بڑی مس انڈراسٹینڈنگ ہو چکی تھی۔
’’یہ تصویر سمجھ میں آ رہی ہے تمہیں۔‘‘ اس نے اپنا سیل فون نکال کر اس کے سامنے رکھا جس کی ایل سی ڈی پر اس کی تصویر چمک رہی تھی اور کچھ مزید انکشافات کے بعد سارے منظر اس کی آنکھوں کے سامنے دوڑنے لگے تھے، وہ اپنی جگہ سن سی بیٹھی رہ گئی۔
’’کل تک تم مجھے اس گھر میں نظر نہ آؤ، ڈائیورس پیپر تمہیں وہیں مل جائیں گے۔‘‘ وہ اپنا فیصلہ سنا کر جا چکا تھا اور وہ عنبرین سے کہہ رہی تھی۔
’’عنبرین تم جانتی ہو نا کہ وہ میں نہیں تھی۔‘‘ اور عنبرین کی آنکھوں کے گرد اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا۔
٭٭٭

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید