اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


کچھ اور شکار کی کہانیاں ۔۔۔ ترتیب و پیشکش: انیس الرحمٰن

شکاریات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے دعوت مترقبہ

کچھ اور شکار کی کہانیاں

ترتیب و پیشکش: انیس الرحمٰن

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

کتاب کا نمونہ پڑھیں……..

یگی پلہام کا آدم خور

کینتھ اینڈرسن/ ترجمہ انیس الرحمٰن

یہ ایک آدم خور شیر کی تباہ کاریوں اور اس کے زوال کی مکمل کہانی نہیں ہے کیونکہ وہ شیر یہ کہانی لکھنے کے وقت تک زندہ ہے۔ سرکاری اطلاع کے مطابق اس نے چودہ آدمی ہلاک کیئے ہیں اگرچہ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق اس کی ہلاکت خیزیوں کی لپیٹ میں کوئی سینتیس کے قریب مرد، عورتیں اور بچے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک درجن کے قریب اس نے سارے کے سارے یا کسی حد تک کھا لیئے تھے اور باقیوں کو محض لہولہان کیا تھا۔ سرکاری ریکارڈ فقط ہلاک کیئے گئے افراد پر مشتمل ہے۔ اسی لیئے ان دونوں بیانوں میں ایک بھی اختلاف نہیں۔

اس کہانی کا دل چسپ پہلو یہ ہے کہ میرے یقین کے مطابق یہ وہی شیر ہے جس کا ذکر میں پہلے ایک کتاب میں کر چکا ہوں۔ اس کہانی میں میں نے بتایا تھا کہ شمالی کمبا توڑ میں پہاڑیوں کے دامن میں چھوٹی چھوٹی جھاڑیوں کے جنگل میں ایک شیر کہیں سے آ گیا تھا جو بعد میں آدم خور بن گیا تھا۔

اس جنگل کے سب سے قریبی گاؤں کا نام راج نگر تھا۔ چونکہ شیر نے اپنی ہلاکت خیزیوں کی ابتداء ان گڈریوں سے کی تھی جو اس قریبی گاؤں سے جنگل میں گائے بھینس چرانے آیا کرتے تھے۔ اس لیئے وہ شیر راج نگر کے شیر کے نام سے مشہور ہو گیا۔ علاوہ بریں وہ اپنے حملہ کرنے کے خاص اسلوب سے شہرت حاصل کر چکا تھا۔ اس کے حملہ آور ہونے کے انداز میں یہ خاصیت تھی کہ وہ ایک دم جھاڑیوں کی اوٹ سے نکلتا اور گڈرئیے کو اپنے پنجوں سے بری طرح نوچ ڈالتا اور پھر اس کے مویشیوں سے اپنا پسندیدہ مال اٹھا کر چل بنتا۔ اس وقت تک ایسی کوئی معتبر شہادت نہ ملی تھی کہ اس نے جس آدمی پر حملہ کیا ہو اسے دانتوں سے کاٹا بھی ہو۔ ایک دو آدمی گم ہو گئے تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شیر نے ان کو کھا لیا ہے۔ لیکن یہ فقط ایک مفروضہ تھا اور اس سلسلے میں کوئی ثبوت مہیا نہ ہو سکا تھا۔ شیر کے بارے میں فقط یہ معلوم تھا کہ وہ اپنے شکار کو دانتوں سے نہیں بلکہ پنجوں سے زخمی کرتا ہے۔

اس کی اس خاص عادت کی وجہ سے گرد و نواح میں یہ مشہور ہو گیا کہ اس کے جبڑے یا چہرے پر ایسا کوئی زخم ہے جس کے باعث وہ دانتوں سے کاٹنے سے معذور ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی مسلّمہ تھی کہ شیر گڈرئیے کو زخمی کرنے کے بعد ہلاک کیئے ہوئے مویشی کو پیٹ بھر کے کھاتا تھا۔ جس سے یہ امر واضح تھا کہ شیر بخوبی کاٹ اور کھا سکتا تھا۔ یہ ایک بڑا غیر معمولی معاملہ تھا۔ جس کی کئی وضاحتیں دی گئیں مگر ان میں سے کوئی بھی اطمینان بخش نہ تھی۔

میں اپنی پہلی کہانی میں بیان کر چکا ہوں کہ کس طرح میں نے اس شیر کو شکار کرنے کی کوشش کی اور ناکام رہا۔ وہ بے حد چالاک درندہ تھا۔ انجام کار میں اس سے شکست کھا کر بنگلور واپس چلا گیا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ بہت جلد مجھے اس کا سامنا کرنے کا موقع ملے گا اور میری کامیابی کے امکان زیادہ ہوں گے۔

اس وقت سے اب تک میرے بعض دوستوں اور بہی خواہوں نے مجھ سے پوچھا ہے کہ راج نگر کے آدم خور کی کہانی میں کچھ اضافہ ہوا ہے کہ نہیں۔ میرے ایک پرانے شناسا جا کرتی نے لاس اینجلس کیلی فورنیا سے مجھے بذریعہ تار کہا ہے کہ وہ اس خاص قسم کے شیر کے متعلق مزید کچھ سننے کے لیئے بے تاب ہیں۔

مجھے افسوس ہے کہ میں ان لوگوں کے تجسس کو مطمئن نہ کر سکا۔ کیونکہ میرے وہاں سے چلے آنے کے کچھ عرصے بعد راج نگر کے قاتل نے لوگوں کو زخمی کرنا بند کر دیا اور بعد میں اس کے متعلق کوئی خبر نہ سنی گئی۔ سب کو یقین تھا کہ اس کی کایا پلٹ گئی ہے اور نئے سال کے ساتھ ہی اس نے اپنی زندگی کا نیا ورق پلٹ لیا ہو گا یا پھر ممکن ہے کہ وہ کسی دور کے جنگل چلا گیا ہو اور وہاں فطری موت مر گیا ہو۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ راج نگر کے گڈریوں نے اسی شیر کی آمد سے بے پروا ہو کر پہلے کی طرح پھر سے جنگل میں اپنے مویشی چرانے شروع کر دیئے۔ اب کوئی شیر انہیں کچھ نہ کہتا تھا۔

اور پھر کوئی نو ماہ بعد، ایک شام کو سورج راج نگر سے کوئی پچاس میل دور پہاڑیوں کے سلسلے کے عقب میں روپوش ہو رہا تھا، پرندے اپنے گھونسلوں کو واپس جا رہے تھے۔ سورج کی ترچھی کرنیں پیگی پلہام کے چھوٹے سے گاؤں کی مشرقی جھونپڑیوں پر سونا بکھیر رہی تھیں۔ یہ گاؤں جنگل کے وسط میں ایک صاف جگہ پر آباد تھا اور اس کے مغرب میں پہاڑیوں کا سلسلہ تھا اور مشرق میں ڈمبم سے کولے گھاٹ جانے والی سڑک تھی۔ جو اس گاؤں سے زیادہ سے زیادہ دو میل ہو گی۔ ہاں تو شام کا وقت تھا، گڈرئیے اپنے مویشی دن بھر جنگل میں چرانے کے بعد گھر واپس لا رہے تھے۔ پیگی پلہام سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ایک کچے راستے پر جو گاؤں کی سمت آتا تھا۔ دو گڈرئیے جن میں سے ایک ادھیڑ اور دوسرا لڑکا تھا، اپنے مویشیوں کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔

راستے میں چھوٹے چھوٹے برساتی نالے تھے۔ ان گڈریوں کے مویشی ایک نالے کو عبور کر رہے تھے۔ ادھیڑ گڈریا بھی نصف نالا عبور کر چکا تھا لیکن لڑکا ابھی پچھلے کنارے پر تھا۔ نالے کے کنارے پر بانس کے درخت کثرت سے اگے ہوئے تھے۔ لڑکا اپنے خیالات میں کھویا ہوا ان درختوں میں سے گزر رہا تھا۔

اتنے میں ادھیڑ گڈرئیے نے اپنے عقب میں ایک کھوکھلی آواز سنی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ لیکن اسے کچھ نظر نہ آیا۔ اس کے عقب والا راستہ بانس کے گھنے جھنڈ میں سے گزرتا تھا۔ اسے اس میں کوئی چیز دکھائی نہ دی۔ وہ پھر مویشیوں کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ اس نے سوچا کہ لڑکا کھیل میں مصروف ہے کہیں پیچھے رہ گیا ہو گا۔

آخر وہ پیگی پلہام کے قریب پہنچ گیا۔ ادھیڑ گڈرئیے نے ایک دفعہ پھر مڑ کر دیکھا۔ لڑکا اب بھی نہ دکھائی دیا۔ اس نے لڑکے کا نام لے کر آواز دی۔ لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص نے پھر آواز دی مگر اس کی آواز خاموشی میں ڈوب گئی۔ اس نے سوچا ممکن ہے لڑکا دوسرے راستے سے گاؤں چلا گیا ہو۔ لیکن گاؤں پہنچ کر بھی اسے لڑکا دکھائی نہ دیا۔

ادھیڑ گڈرئیے نے اس بات پر کوئی زیادہ توجہ نہ دی کیونکہ لڑکے کی تاخیر کی سینکڑوں وجوہ ہو سکتی تھیں۔ لیکن جب ایک گھنٹے بعد بھی لڑکا گاؤں واپس نہ آیا تو ادھیڑ گڈرئیے نے سوچا کہ آخر لڑکا کس جگہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔ تب اسے یاد آ گیا کہ نالے میں سے گزرنے کے بعد لڑکا اسے دکھائی نہ دیا تھا۔ اسے یہ بھی یاد آ گیا کہ اس نے وہاں ہلکی سی غراہٹ بھی سنی تھی۔ اس کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یقیناً لڑکے کو کچھ ہو گیا ہے۔ سانپ، کسی سانپ نے اسے کاٹ لیا تھا۔ لیکن اس کے ذہن میں کسی آدم خور شیر یا چیتے کا خیال بالکل نہ آیا کیونکہ پیگی پلہام کی پر امن بستی میں اس قسم کی مصیبت کبھی نازل نہ ہوئی تھی۔

لہذا وہ جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا اور بانسوں کے جھنڈ کی سمت چل پڑا۔ نالے کے دوسرے کنارے پر بانسوں کے جھنڈ کے قریب اسے شیر کے پنجوں کے نشانات دکھائی دیئے۔ وہیں لڑکے اور شیر کے درمیان ہلکی سی کشمکش کے آثار بھی موجود تھے۔ پھر لڑکے کو گھسیٹنے کی لکیر بھی موجود تھی۔

اس طرح پیگی پلہام کے آدم خور کا لوگوں کو پہلی مرتبہ پتا چلا۔

وقت گزرتا گیا اور اسی علاقے کے گرد و نواح میں انسانی شکار کی خبریں آنے لگیں۔ شیر ہر طرف پندرہ بیس میل دور مار کر رہا تھا۔ اس کا آخری شکار ایک پندرہ سالہ لڑکا تھا جسے وہ دن دہاڑے کھیتوں میں سے اٹھا لے گیا تھا۔

اس آدم خور کے متعلق ایک اہم حقیقت وہ اطلاع تھی جو مجھ تک اس شیر کے ایک دوسرے انسانی شکار کے موقع پر پہنچی۔ یہ شکار اس نے اپنے اولین انسانی شکار یعنی ادھیڑ عمر گڈرئیے کے لڑکے کے شکار کی جگہ سے کوئی تین میل کے فاصلے پر کیا تھا۔ تین آدمی جنگل کے اندر ایک کچے راستے پر چل رہے تھے۔ اس راستے کے ذریعے پہلے جنگل سے بانسوں کے چھکڑے بھر کر لائے جاتے تھے۔ آدم خور کی سرگرمیوں کے باعث لوگوں نے ایک دم جنگل میں جانا ترک کر دیا تھا اور اب وہ فقط انتہائی ضرورت کے تحت ہی جنگل میں جاتے تھے۔ وہ لوگ بھی ایک اہم ضرورت کے تحت جنگل میں گئے تھے۔ کوئی دو بجے کا وقت ہو گا۔ انہوں نے اپنا دوپہر کا کھانا پیگی پلہام میں کھایا تھا اور تقریباً اپنی منزل مقصود تک پہنچ چکے تھے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین بجے پیگی پلہام پہنچنے کے متوقع تھے۔

اچانک کسی قسم کی آہٹ کے بغیر ایک شیر کچے راستے پر آن کھڑا ہوا۔ تینوں آدمی یکدم رک گئے۔ خوف کے مارے ان پر سکتہ طاری ہو گیا۔ تب شیر نے سب سے اگلے آدمی پر حملہ کیا۔ اس کے باقی دونوں ساتھی ایک قریبی درخت پر گرتے پڑتے چڑھ گئے۔ اس دوران میں جس شخص پر شیر نے حملہ کیا اس نے انتہائی جرات کا ثبوت دیتے ہوئے اندھا دھند وہ برچھا شیر کے سر پر چلا دیا جو اس علاقے کے لوگ راستہ صاف کرنے کی غرض سے ہمیشہ اپنے پاس رکھتے تھے۔ برچھا شیر کے سر پر ایک طرف لگا اور اتنا حصہ کاٹ کر لے گیا۔ اس غیر متوقع حملے سے شیر درد سے گرجا۔ آدم خور شیر فطری طور پر بزدل ہوتا ہے۔ لہذا اس نے اپنا شکار چھوڑا اور جھاڑیوں میں روپوش ہو گیا۔

اسی اثناء میں اس کے دونوں ساتھی اندھا دھند ہاتھ پیر مارتے درخت کی چوٹی پر پہنچ چکے تھے اور اپنے نیچے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے۔ ان کے ساتھی کے چہرے اور سینے پر گہرے زخم آئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ کیونکہ شیر کے پنجوں نے اسے بری طرح زخمی کیا تھا۔ وہ صدمے سے سکتے کی حالت میں نیم بے ہوشی کے عالم میں زمین پر بیٹھا تھا۔ درخت پر چڑھے ہوئے آدمیوں نے اسے آواز دی، ‘بھائی جلدی سے درخت پر چڑھ آؤ۔‘ اس طرح زمین پر بیٹھنا خطرے سے خالی نہ تھا کیونکہ ہو سکتا تھا کہ شاید شیر پھر واپس لوٹ آئے۔

زخمی آدمی نے ان کی آواز سنی، اپنی لرزتی ٹانگوں پر کھڑا ہوا اور پھر اپنے سر سے پگڑی اتار کر اسے اپنے زخموں کے گرد لپیٹنے لگا۔ اس کے ساتھیوں نے اسے پھر پکارا اور وہ درخت پر چڑھنے کی نیت سے اس طرف چل پڑا۔ لیکن تقدیر نے اس کی زندگی کے دن پوری کر دیئے تھے۔ آدم خور جو وقتی طور پر بزدل ہو گیا تھا ایک دم اشتعال میں آ گیا۔ شاید اس کی وجہ اس کے سر کا زخم تھا۔ وہ برق رفتاری سے اس شخص پر جھپٹا اور اس کی گردن توڑ کر رکھ دی۔ ابھی وہ بے چارہ زمین پر گرنے بھی نہ پایا تھا کہ شیر نے اسے اپنے جبڑے میں دبوچا اور دونوں آدمیوں کے دیکھتے ہی دیکھتے جنگل میں روپوش ہو گیا۔

اس حادثے کے فوراً بعد میں پیگی پلہام پہنچا اور ان دو آدمیوں سے اس حادثے کی تفصیلات جانیں۔ ان دونوں کے بیان بالکل ملتے تھے اور تفصیلات بھی صاف تھیں۔ وہ دونوں اس پر متفق تھے کہ شیر نے اپنے دونوں حملوں میں اپنے دانتوں کے بجائے اپنے پنجے استعمال کیئے تھے۔

کتنی ہی یادداشتیں ایک دم میرے ذہن میں عود کر آئیں۔ کہیں یہ راج نگر کا قاتل تو نہ تھا، جس نے پہلے مقابلے میں مجھے شکست دی تھی۔ اب وقت گزرنے کے ساتھ کہیں وہ زیادہ دلیر ہو کر آدم خور تو نہیں بن گیا تھا اور یوں اب پیگی پلہام کی مصیبت بن گیا تھا۔ ان دونوں آدمی کے بیانات سے تو یہی پتا چلتا تھا کہ یہ وہی درندہ ہے۔

میں نے فقط پیگی پلہام میں ہی نہیں بلکہ گرد و پیش کے دو تین دیہات میں بھی اس شیر کے متعلق لوگوں سے کئی ایک باتیں پوچھیں۔ شیر کے کئی انسانی شکار اس حالت میں پائے گئے تھے کہ شیر نے انہیں نصف سے زیادہ نہ کھایا تھا۔ ان سب کے جسم پر پنجوں کے گہرے نشان تھے لیکن اس کے ساتھ ہی دانتوں کے نشان بھی نظر آتے تھے۔ اس بات کا کوئی فیصلہ کن ثبوت نہ ملتا تھا کہ شیر فقط اپنے پنجے سے اپنے شکار کو ہلاک کرتا ہے۔

پہلی دفعہ میں پیگی پلہام میں فقط ایک ہفتے تک قیام پزیر رہا۔ اس دوران میں آدم خور نے ان تین بیلوں میں سے کسی ایک کو بھی کچھ نہ کہا جو میں نے اسے ترغیب دینے کی خاطر مختلف جگہوں پر باندھے تھے۔ اس عرصے اس کے متعلق نہ ہی کوئی خبر سننے میں آئی۔ ادھر میری چھٹی ختم ہو گئی۔ اس میں توسیع کرانے کا میرے پاس کوئی جواز نہ تھا۔ لہذا میں بنگلور واپس چلا گیا۔

اس کے بعد جیسے میں بتا چکا ہوں کہ آدم خور نے دن دہاڑے ایک پندرہ سالہ لڑکے کو ہلاک کر دیا تھا۔ جائے حادثہ سے کولے گھاٹ کا بڑا قصبہ فقط چھ میل دور تھا۔ اس دفعہ میرے بجائے میرا بیٹا ڈونلڈ اس کے پیچھے جا رہا ہے۔ دیکھئے قسمت کس حد تک اس کا ساتھ دیتی ہے۔

ہم سب یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ کیا موجودہ آدم خور‘راج نگر کا قاتل’ ہے یا کوئی دوسرا شیر۔ کیونکہ موجودہ آدم خور بھی راج نگر کے قاتل کی طرح پنجے سے اپنا شکار ہلاک کرتا ہے۔ یہ نکتہ اس وقت تک ثابت نہیں ہو سکتا جب تک ڈونلڈ اسے شکار کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ اگر وہ کامیاب ہو گیا تو بلا شبہ جنگل کا ایک عظیم بھید پالے گا۔

٭٭٭

نردولی کا آدم خور

بہزاد لکھنوی

ٹائپنگ: انیس الرحمن

میرا نام متو خاں شکاری ہے۔ یہ میرے بچپن کے شکار کا واقعہ ہے۔ عجیب و غریب داستان ہے۔ مجھے یہ بیان کرنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ میری ابتداء بے حد غربت کے دور سے ہوئی۔ میں بٹول کا رہنے والا ہوں، جہاں کے سنترے ہندوستان میں مشہور ہیں۔ بٹول سے چھے میل کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا گاؤں تھا، جہاں سنترے کے باغات ختم ہو کر جنگلی علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اس گاؤں کا نام لکھن پور تھا۔ ہندو مسلمان کی ملی جلی آبادی تھی۔ کوئی سو ڈیڑھ سو گھر کاشت کاروں کے تھے۔ میرے والد کا نام رمجو خاں تھا۔ ان کا صرف ایک کھیت تھا جس کو انہوں نے بٹائی پردے رکھا تھا اور خود وہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ کپرے کا کاروبار بھی کیا تھا۔ وہ ناگ پور اور اکولہ جا کر دیہاتیوں کے مطلب کا کپڑا خرید لاتے تھے اور گٹھری میں لاد کر گائں گاؤں پھیری کر کے کپڑے بیچتے تھے۔ گھر میں میری ماں تھیں اور میں۔ وہ ایک ایک ہفتے تک واپس نہیں آتے تھے۔ مجھے اپنی ماں صرف اس حد تک یاد ہیں کہ وہ ایک گوری چٹی، مضبوط جسم کی بلند قامت عورت تھیں۔ میری تعلیم کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ میں پانچ سال کی عمر سے گھر کے باہر نکل کر گاؤں کی چرتی چگتی مرغیوں پر ڈھیلوں سے نشانہ بازی کیا کرتا تھا۔ شروع شروع تو میرا نشانہ خطا ہوتا رہا اور مرغیاں آزاد ہو کر بھاگنے لگیں، لیکن میں اپنی دھن کا پکا تھا۔ جب میرا نشانہ مرغی پر بیٹھا اور وہ چوٹ کھا کر تڑپنے لگی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی، میں خوب قہقہہ مار کر ہنسا۔

میری تقدیر میں چوں کہ شکاری بننا تھا، مجھے حیرت ہے کہ بچپن میں مجھے یہ کیوں کر خیال پیدا ہوا کہ میں قریب کے بجائے دور سے نشانہ لگا کر شکار کروں، چناں چہ رفتہ رفتہ میں ڈھیلے بازی میں اتنا مشتاق ہو گیا کہ مرغیوں کا کافی دور سے ڈھیلا پھینک کر زخمی کر دیتا اور کمال کی بات یہ بھی کہ جس مرغی کا انتخاب کر لیتا تھا، اسی کو میرا ڈھیلا لگتا تھا، میرا اور کسی کھیل میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔

گاؤں والے پریشان تھے، لیکن میں ایک ٹیلے کے پیچھے چھپ کر ڈھیلے بازی کرتا تھا، لہٰذا کسی کو پتا نہ چل سکا، میرا نشانہ جم گیا، اب میں نے بکریوں کے ریوڑوں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کیا، یقین مانیے میرا پہلا ہی نشانہ ٹھیک بیٹھا اور کالی موٹی سی بکری کی ٹانگ زخمی ہو گی، اب بجائے مرغیوں کے بکریاں اور بھیڑیں میرا نشانہ بننے لگیں۔ گاؤں والے پریشان ہو گئے، لیکن ان کو پتا نہ چل سکا کہ یہ شرارت کرنے والا کون ہے، میری آٹھ سال کی عمر تھی کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا۔ میرے والد پھیری پر گئے ہوئے تھے۔ گاؤں کے ایک لوہار رحیمو نے جن کو میں چچا کہتا تھا، اور گاؤں والوں نے مل کر تجہیز و تکفین کی اور گاؤں کے مکھیا نے نے مجھے رحیمو چچا کے سپرد کر دیا۔ رحیمی چچا کی بھی بیوی مر چکی تھی، کوئی اولاد نہیں تھی۔ رحیمو چچا اپنی دکان پر دن رات بھٹی کے سامنے بیٹے ہوئے کڑھائیاں، توے، چمٹے اور سنسیاں بنایا کرتے تھے جن کو پندرہ دن کے بعد وہ ایک دوسرے گاؤں میں پندرہ روزہ بازار لگنے پر فروخت کرنے جایا کرتے تھے۔

رحیمو چچا بھٹی ہی پر موٹی موٹی روٹیاں پکا لیتے تھے۔ سبزی بنا لیتے تھے اور میں اور وہ دونوں کھا لیا کرتے تھے۔ خلاف معمول والدہ کے انتقال کے ایک مہینہ بعد والد صاحب گاؤں آئے اور والدہ کی قبر پر جا کر بہت روئے۔ مجھے ہدایت کی کہ میں رحیمو چچا کے ہاں ہی قیام رکھوں، وہ پھر چلے گئے اور ایک ہفتے کے بعد جب واپس آئے تو ان کے ساتھ ایک عورت اور ایک لنگڑا جوان آدمی تھا جس کو انہوں نے میرے گھر میں بسا دیا۔ مجھے رحیمو چچا سے معلوم ہوا کہ وہ میری سوتیلی ماں ہے۔

میں دن بھر جنگل کی طرف نکل جانے لگا۔ میری نشانہ بازی کا ذوق مجھے مجبور کرتا۔ جنگل کا انتخاب میں نے یوں کیا کہ کسی نہ کسی دن گاؤں والوں کو اس کا علم ضرور ہو جانا تھا کہ بکریوں اور بھیڑوں کو زخمی کرنے والا شریر میں ہی ہوں۔ میں نے جنگل کے ابتدائی حصے میں ایک ٹیلے کو اپنی نشانہ بازی کا مرکز بنا کر ڈھیلے مارنا شروع کیے اورمیں خوشی سے اچھل اچھل پڑتا تھا۔ جب میرا نشانہ ٹھیک ٹھیک بیٹھ جاتا تھا۔ اتفاقاً پہلے ہی دن مجھے کوئی اپنے سے پچاس گز دور ایک مرغابی بیٹھی ہوئی ملی۔ غالباً اس حصے میں کوئی بڑا جوہڑ تھا۔ میں نے ایک بڑا سا ڈھیلا اٹھا کر آہستہ آہستہ اس کے قریب جانا شروع کیا۔ تقریباً بارا چودہ گز رہ گیا تو میں نے وہ ڈھیلا مرغابی کے اوپر پھینکا۔ ڈھیلا اس کے بازو پر پڑا اور درد کی شدت سے اس نے لوٹنا شروع کیا۔ میں تیزی سے لپکا اور اس کی ٹانگوں کی ہاتھ میں دبا کر اس کو اٹھائے ہوئے سیدھا چچا رحیمو کی دکان پر پہنچا، چچا رحیمو مرغابی کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ جلدی سے انہوں نے اس کو ذبح کیا۔ پر نوچے، اس کا صاف کیا اور گھر سے نمک مرچ تیل لا کر بھٹی پر بھوننا شروع کیا، ہم دونوں نے اس کا گوشت مزے لے لے کر کھایا۔ چچا نے مجھ سے کیا، ‘تم نے یہ مرغابی کیوں کر پکڑی۔‘

میں نے صفائی کے ساتھ اپنی نشانہ بازی کا حال بتایا، وہ قہقہہ مار کر ہنسے اور بولے، ‘تو یہ کہ کہو مرغیوں، بکریوں اور بھیڑوں پر حملہ کرنے والے تم ہو جس کا آج تک گاؤں والوں کو پتا نہیں ہے۔ اگر کچھ دنوں تم مشق کرتے رہے تو بہت اچھے شکار بن سکتے ہو۔ میں تم کو لوہے کی ایک غلیل بنائے دیتا ہوں۔ لوہے کے بے کار ٹکڑے تپا کر میں ان کو ایک طرف سے نوکیلا کیے دیتا ہوں۔ تم روز جنگل میں جا کر آج ہی کی طرح چڑیاں مار لایا کرو تو میں روٹی پکانے کی مصیبت سے بچ جاؤں گا۔ چچا بھتیجے دونوں گوشت ہی گوشت کھایا کریں گے۔‘

دوسرے دن مجھے ایک غلیل مل گئی اور لوہے کے پچاس ساٹھ ٹکڑے جن کو چچا نے ایک تھیلے میں بھر کر مجھے دے دیا اور غلیل چلانے کی ترکیب بھی سمجھا دی۔ میں نشانہ باز پہلے تھا۔ محض ان کے بتانے پر میں نے غلیل سے ایک درخت پر بیٹھی ہوئی چڑیا کو فوراً ہی مار گرایا۔ چچا خوش ہو گئے۔ ہر روز میں کوئی نہ کوئی مرغابی یا تیتر یا دس پانچ بٹیر ضرور لانے لگا اور یوں ہم چچا بھتیجے گوشت خور بن گئے۔ غلیل کی وجہ سے میں کافی دور سے چڑیوں کو گرا لیتا تھا۔ اب میں بے خوف جنگل میں دور تک نکل جانے لگا۔ ایک دن میں جا رہا تھا کہ ایک طرف سے ایک سیاہ سانپ نکل کر میرے سامنے پھن نکال کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے بغیر کسی خوف کے اپنی غلیل سے اس کے پھن پر نشانہ لگایا۔ اس کا پھن ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ روزانہ گوشت خوری کے باعث میں تندرست و توانا ہو گیا۔ میرا جسم تیزی کے ساتھ نشو و نما پانے لگا۔ ایک دن میں جنگل میں کافی دور نکل گیا کہ مجھے ہرنوں کا ایک ریوڑ نظر آیا، میں نے ایک ہرن پر غلیل چلائی۔ میرا لوہے کا غلہ اس کے ماتھے پر بیٹھا اور اس نے گر کر تڑپنا شروع کیا۔ میں نے اس ہرن کو جس کا وزن ایک من سے کسی طرح کم نہیں تھا اور وہ زندہ بھی تھا، اپنے اوپر لاد لیا اور جب میں اس کو رحیمو چچا کی دکان پر لے کر پہنچا تو رحیمو چچا مارے خوشی کے ناچنے لگے، میری پیٹھ ٹھونکی۔

مجھے چچا کے ساتھ رہتے ہوئے پانچ برس ہو گئے تھے، میرے والد کبھی کبھی آ کر مجھے دیکھ جایا کرتے تھے اور بس میں نے بھی گھر کا رخ نہیں کیا۔ جنگل کی تمام ہیبت اور تمام خوف میرے دل سے نکل گیا۔ میرا نشانہ پختہ تر اور کامل سے کامل تر ہوتا گیا۔ میرا اب تک شیر اور چیتے سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔ بھیڑیے میں کوئی بار مار چکا تھا جن کی کھالیں چچا نے اتار کر بیٹھنے کے کام میں لے لی تھی۔ گوشت گاؤں کے کتوں کو ڈال دیا تھا۔ تیرہ سال کی عمر میں اٹھارہ سال کو نوجوان نظر آتا تھا۔ گوشت خوری، جنگل کی آب و ہوا، پر سکون اور آزاد زندگی نے مجھے قبل از وقت جوان کر دیا تھا۔ میں اپنے جسم میں بے پناہ طاقت بھی محسوس کرتا تھا۔

ایک دن گاؤں میں شور اٹھا کہ لچھمن چرواہے کو شیر اٹھا کر لے گیا ہے۔ وہ ریوڑ کے ساتھ گھر واپس آ رہا تھا کہ ریوڑ واپس آ گیا، لیکن وہ غائب تھا۔ اس کے نہ آنے پر گاؤں والے لاٹھیاں لے کر اس راستے پر بڑھے۔ ابھی سورج ڈوبنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا کہ ان لوگوں نے جس مقام پر شیر نے چرواہے کو پکڑا تھا۔ اس مقام پر خون کا تھالا دیکھا اور شیر اپنے شکار کو منھ میں دبا کر جس طرف لے گیا تھا، خون کے دھبے برابر نظر آ رہے تھے۔ کوئی ایک میل تک انہیں خون کے دھبے نظر آتے رہے یہاں تک کہ انہیں لچھمن کی آدھ کھائی ہوئی لاش ملی۔ گاؤں بھر میں کہرام مچ گیا۔

میں اس وقت مرغابیاں شکار کر رہا تھا۔ میں نے تین مرغابیاں مار لیں تھیں، ان کو لیے ہوئے چچا رحیمو کے ہاں آ رہا تھا، دوسرے دن گاؤں کی ایک بڑھیا فجر کے وقت حوائجِ ضروریہ کے لیے بیٹھی ہی تھی کہ شیر اس کو دبا کر لے گیا۔ اس کی چیخیں سن کر گاؤں والے دوڑے، لیکن کوئی پتا نہیں چلا۔ مسلسل پانچ دن تک گاؤں کے رہنے والے شیر کے ہتھے چڑھنے لگے تو گاؤں والوں نے گھبرا کر مکھیا سے کہا جو سیدھا ناگ پور ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا۔ وہاں سے فوراً ہی تین چار شکاری گاؤں بھیج دیے گئے۔ میں ان کا ساز و سامان دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ان کے ساتھ ٹارچیں تھیں، بندوقیں تھیں، تھرماس تھے۔ وہ لوگ آ کر مکھیا کے مہمان ہوئے۔ گاؤں والوں نے ان کی خوب خاطر مدارات کی انہوں نے جا کر ان مقامات کا معائنہ کیا جہاں جہاں حادثات ہوئے تھے۔

انہیں کوئی نشان نہ مل سکا۔ وہ رات میں تھک کر سو رہے تھے کہ چار بجے، چیخ پکار کی آواز بلند ہوئیں۔ گاؤں والے لالٹینیں لے کر نکل پڑے۔ مرلی دھرنیے کو شیر اس کے گھر سے اٹھا لے گیا تھا۔ ایک طرف کی دیوار ٹوٹی ہوئی تھی جسے پھاند کر وہ اندر آیا اور اس کے منھ میں دبا کر شیر دیوار کو پھاند کر لے گیا۔ جب شکاریوں کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو صبح ہو رہی تھی۔ پہلے تو شکاریوں نے ناشتہ کیا، چائے پی اور دن نکلنے پر مرلی دھرنیے کے مکان پر پہنچے۔

گاؤں والوں کے ساتھ میں بھی ہو لیا۔ جہاں مرلی دھرنیے کو شیر نے دبایا تھا، وہاں خون کا تھالا جما ہوا تھا۔ دیوار پر خون کی بوندیں تھیں اور دیوار کے باہر جس طرف شیر لاش کو لے کر چلا تھا۔ خون کے نشانات موجود تھے۔ اوروں کا تو میں نہیں کہہ سکتا، لیکن چوں کہ اس رات میں شبنم گری تھی۔ زمین میں تری کے باعث شیر کے پنجوں کے نشانات صاف نمایاں تھے۔ مجھے ان نشانات میں ایک پیر کا نشان ہلکا نظر آیا۔ شاید شیر کا ایک پیر چوٹیلا تھا۔

تقریباً دو میل خون کے نشانات کے سہارے سب لوگ ایک مقام پر نکلے، جہاں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں، انہی جھاڑیوں کے درمیان میں مرلی دھرنیے کی لاش پڑی ہوئی تھی، اس کا ایک پیر اور ایک ہاتھ غالباً شیر نے کھا لیا تھا۔ منظر بڑا خوفناک تھا۔ تینوں شکاری اسی مقام پر رک گئے اور لاش کے قریب تین درختوں پر مچانیں بندھوانے کا حکم دے کر وہ لوگ واپس ہوئے۔ میں بھی چلا آیا۔ میں نے چچا سے ذکر کیا کہ شیر کا شکار دیکھنا چاہتا ہوں۔

وہ بولے، ‘ٹھیک ہے، لیکن تم رات میں کیوں کر جا سکو گے۔ ان شکاریوں کے پاس تھرماس میں چائے ہوتی ہے، ٹارچ ہوتی ہے، بندوقیں ہوتی ہیں۔ چائے پی پی کر یہ رات جاگ کر بسر کر لیتے ہیں۔‘

میں نے کہا، ‘چچا کوئی ایسی دوا تم کو نہیں معلوم جس کو کھا کر نیند نہ آئے۔‘

وہ بولے۔ ‘معلوم تو ہے۔ سامنے کی جھاڑیوں میں جو کالی کالی ہریالیاں لگی ہوئی ہیں، ان کو کھالو رات بھر نیند نہیں آئے گی۔ لیکن یہ انتہائی کڑوی اور بدمزہ ہوتی ہیں۔ ان کو جانور تک نہیں چھوتے۔‘

میں نے ہریالیاں لیں۔ واقعی یم سے زیادہ کڑوی تھیں۔ لیکن میں شکار کے شوق میں کھا کر چلا گیا۔ یہاں تک کہ شام کے چار بج گئے۔ کل جو ہرن مارا تھا، اس کا گوشت موجود تھے۔ اس سے پیٹ بھرنے کے بعد میں شکاریوں سے پہلے ان مچانوں کے پاس پہنچ گیا۔ لاش کی سڑاند ہوا میں بسی ہوئی تھی، مکھیاں لاش پر بھنبھنا رہی تھیں۔ میں درخت پر چڑھ گیا کہ جہاں سے لاش صاف نظر آ رہی تھی۔ میں نے خود کو پتوں میں چھپایا ہی تھا کہ تینوں شکاری آتے ہوئے نظر آئے۔ ان میں ایک ہندو، ایک سکھ اور ایک انگریز تھا۔ ان کے ساتھ گاؤں والے بھی تھے۔ ان کے بیٹھتے ہی سورج غروب ہونا شروع ہوا اور جنگل میں تاریکی نے تسلط جما لیا۔

جنگل میں شب گزاری میرے لیے یہ پہلا موقع تھا، لیکن مجھے ذرہ برابر بھی خوف نہیں تھا۔ قریب آدھی رات تک وہ آپس میں باتیں کرتے رہے۔ سگریٹوں پر سگریٹیں جلتی رہیں۔ جنگلی جانوروں کی آوازیں برابر جنگل میں سنائی دیتی رہیں۔ مگر مجھ پر ذرہ برابر بھی خوف طاری نہیں ہوا۔ میں با آرام درختوں کی شاخوں پر بیٹھا رہا، یہاں تک کہ رات کافی گزر گئی، شکاریوں کی باتیں بھی بند ہو گئیں، غالباً وہ اونگھ گئے ہوں گے۔ لیکن میری آنکھوں میں نیند کا کہیں دور تک پتا نہیں تھا۔ میں آرام سے بیٹھا ہوا جاگ رہا تھا۔ یکایک بندروں کی آوازیں مسلسل آنا شروع ہوئیں۔ میں سمجھ گیا کہ شیر کو دیکھ کر بندر خوف کھا رہے ہیں، میں چوکنا ہو گیا۔ پتوں پر بھاری قدموں کی آواز قریب سے قریب تر آنا شروع ہوئی۔ میری آنکھیں اندھیرے یں دیکھنے کی عادی تھیں، میں نے ایک جانب سے شیر کو آتے دیکھا، وہ آیا اور لاش کے پاس بیٹھ کر آرام سے لاش کو کھانے لگا۔ ہڈیوں کی کڑکڑاہٹ صاف سنائی دے رہی تھی۔ غالباً کسی شکاری کی آنکھ کھل گئی۔ ٹارچ کی روشنی کا ہالہ بیٹھے ہوئے شیر پر پڑا۔ وہ روشنی میں نہا گیا۔ ایک فائر کی آواز ہوئی، لیکن غالباً گولی شیر کو نہیں لگی۔ وہ زور سے دھاڑا اور جس طرف کی مچان سے فائر ہوا تھا۔ اس پر اس نے زمین سے پیٹ لگا کر جست لگائی۔ دوسرے درختوں پر بیٹھے ہوئے دونوں شکاریوں کی ٹارچیں بھی شیر پر اس وقت پڑ رہی تھیں۔ شیر نے پہلے فائر والے کی مچان پر اپنا پنجہ اس طاقت سے مارا کہ مچان ٹوٹ گیا اور میں نے شکاری کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا، اس موقع پر دوسرے شکاریوں نے بھی شیر پر فائر کیے، لیکن سب غالباً خالی گئے۔ شیر زمین پر گرئے ہوئے شکاری کی طرف پنجہ اٹھا کر بڑھا ہی تھا کہ میں نے اسی غلیل میں لوہے کا نوک دار غلہ لگا کر شیر کی آنکھ پر مارا۔ گلہ شیر کے اس وقت لگا جب وہ اپنا پنجہ شکاری پر مارنا چاہتا تھا۔ شیر کی آنکھ غلہ لگتے ہی پھوٹ گئی۔ اس نے ایک زور سے دھاڑ ماری اور پچھلے پاؤں چیختا ہوا جنگل میں بھاگ گیا۔ اس کی چیخوں کی آوازیں مسلسل دور ہوتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ جب یہ چیخیں بالکل بند ہو گئیں اور صبح کے آثار رو نما ہونے لگے تو دونوں شکاری مچانوں سے نیچے اترے اور زمین پر گرے ہوئے شکاری کے پاس پہنچے، غالباً اس کا ایک کولہا اتر گیا تھا، اٹھنے سے معذور تھا، لیکن ہوش میں تھا۔

میں درختوں میں چھپا بیٹھا رہا۔ یکایک ایک شکاری نے متواتر کئی ہوائی فائر کیے جن کی آوازوں پر گاؤں والے فوراً ہی آ موجود ہوئے۔ زخمی شکاری کے لیے گاؤں سے پلنگ لایا گیا اور اس کو لاد کر گاؤں لے جایا گیا۔ اس کے ساتھ دوسرے شکری جب جنگل سے چلے گئے تو میں درخت سے نیچے اتر، جب میں اس جگہ پہنچا، جہاں شکاری گرا تھا، تو مجھے وہاں ایک ٹارچ، ایک تھرماس اور ایک تھیلا نظر آیا۔ میں نے وہ تینوں چیزیں اٹھا لیں اور ایک دوسرے راستے سے رحیمو چچا کی دکان پہنچا۔ میں نے ان تینوں چیزوں کو واپس کرنا مناسب خیال نہیں کیا، ورنہ گاؤں والے مجھے الزام دیتے کہ میں وہاں کیوں موجود تھا۔ ٹارچ کی مجھے بھی ضرورت تھی اور تھرماس کی بھی۔ تھیلا کرمچ کا بنا ہوا تھا اس کے کھولنے پر مجھے اس میں ڈبل روٹی کے ٹکڑے ملے اور اس میں ایک کتاب انگریزی زبان میں چھپی ہوئی ملی جس میں تصویریں تھیں۔ میں نے اس کتاب کو دیکھنا شروع کیا۔ کتاب تو میں پڑھ نہیں سکتا تھا۔ کتاب میں غالباً شکاریوں کے حالات تھے۔ ایک تصویر میں، میں نے سیاہ قد آور آدمیوں کو بلم سے شیر کا شکار کرتے ہوئے دیکھا۔ میرے دماغ میں پہلی بار بلم کا خیال پیدا ہوا۔ میں نے رحیمو چچا سے کہا، ‘مجھے ایک بلم بنا دو چچا، میں اب بلم سے شکار کی مشق کرنا چاہتا ہوں۔‘

وہ بولے، ‘اچھی بات ہے۔‘

انہوں نے اسی دن مجھے ایک ہلکا سا بلم بنا دیا جس کو لے کر میں چلا گیا۔ میں نے بلم کو نشانے پر پھینکنے کی مشق شروع کی۔ غلیل کی نشانہ بازی کی مشق اس میں بھی کام آ گئی۔ ایک ہفتے کے اندر ہی میں نے کئی تیتر، مرغابیاں بلم سے چھید ڈالیں۔ ایک ہرن بھی بلم سے زخم کر کے گرا لیا۔ اب میں غلیل اور بلم دونوں ساتھ رکھنے لگا۔

ادھر میرے گاؤں والوں کو سکون ہو گیا۔ اس شیر نے اب ایک دوسرے گاؤں کے لوگوں کا شکار شروع کر دیا جو یہاں سے دس میل دور تھا۔ سرکاری کام سے جب شکاری وہاں پہنچے تو شیر نے ایک تیسرا گاؤں تاک لیا اور اب وہاں سے لوگوں کے اٹھائے جانے کی خبریں آنے لگیں۔ سرکاری کارندے اور شکاری بھی حیران تھے جب وہ کسی گاؤں میں وقوعہ کرتا تھا اور شکاری پہنچے تھے تو کیا جانے اسے کیوں کر خبر ہو جاتی تھی اور وہ اس گاؤں کو چھوڑ کر دوسری بستیوں پر حملے شروع کر دیتا تھا۔ یہاں تک کہ دو سال کی مدت گزر گئی۔ اس آدم خور نے تقریباً ساٹھ ستر آدمی ہلاک کر ڈالے۔ ہر گاؤں کے لوگ ہراساں اور پریشان نظر آنے لگے۔ کھیتی باڑی کے اوقات میں بھی دو ایک فالتو آدمی کھیتوں کی نگرانی پر ڈٹے رہتے تھے۔ وہ دن میں بھی تنہا آدمی کو نہیں چھوڑتا تھا۔ حکومت نے گھبرا کر ایک ہزار روپے نقد کا اعلان کر دیا۔

بڑے بڑے جغادری شکاری آئے، لیکن آ کر ناکام ہی گئے۔ ایک دن میں رحیمو چچا کی دکان پر بیٹھا ہوا بھٹی سلگا رہا تھا کہ میرے والد آئے اور آتے ہی مجھ سے لپٹ کر رونے لگے۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کیا، ‘بیٹا، میرا سارا روپیہ ڈوب گیا، میں پیسے پیسے کو محتاج ہو گیا ہوں۔ جن جن لوگوں کو میں نے قرض کپڑا دیا تھا، وہ سب لے لے کر بھاگ گئے۔ اب صرف کھیت ہی کھیت رہ گیا ہے۔‘

میں نے کہا، ‘آپ گھبرائیے نہیں۔ اللہ مالک ہے۔‘

ان کے جانے کے بعد مجھے پہلی بار ایک ہزار روپیہ انعام حاصل کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ آدم خور نردولی کے آدم خور کے نام سے مشہور تھا۔ یہ گاؤں میرے گاؤں سے پچیس میل دور تھا۔ وہاں اس نے مسلسل گاؤں والے شکار کیے تھے اور اب تک وہ اس کے قریب جنگلات میں موجود تھا۔ کئی شکاری نردولی میں مستقل مقیم تھے اور وہ ظالم آدم خور ان کی موجودگی میں ہر روز کسی نہ کسی آدمی کو شکار کر لیا تھا۔ پاڑے بھی باندھے گئے، مچان بھی بندھے۔ رات رات بھر شکاری اور گاؤں والے شیر کی فکر میں رہے، لیکن وہ ہاتھ آنا تھا نہ آیا۔

رحیمو چچا سے بغیر کہے ہوئے میں نردولی روانہ ہوا۔ میرے ساتھ اب ٹارچ بھی تھی جس کے سیل میں نے شہر سے منگوا کر بھروا لیے تھے۔ تھرماس بھی تھا جس میں میں نے چائے بنا کر بھر لی تھی۔ وہ تھیلا بھی تھا جس میں نیند اڑانے والی پیریاں اور نکیلے غلے میں نے بھر لیے تھے۔ کچھ روغنی روٹیاں بھی رکھ لی تھیں۔ غلیل اور بلم ہاتھ میں لے کر میں جنگل ہی جنگل روانہ ہوا۔ نردولی جنگل کی پگ ڈنڈیوں سے دس میل پڑتا تھا اور سڑک کے راستے سے پچیس میل۔ میں با آرام ڈھائی گھنٹوں میں نردولی پہنچ گیا۔ نردولی میں شکاریوں کے کئی خیمے گاؤں کے باہر لگے ہوئے تھے۔ ان کی خاطر تواضع میں گاؤں والے اپنی حیثیت سے زیادہ لگے ہوئے تھے۔ میں اس گاؤں کے لیے نیا آدمی تھا۔ ٹھہرنے کا بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن میرے واسطے یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ میں جنگل میں ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ کھانا میرے ساتھ تھا۔ میں نے دوپہر کاٹ لی۔ شکاریوں کے لیے مچان مختلف مقامات پر باندھے جانے لگے۔ مچان کے نیچے ایک بکرا باندھا گیا۔ کوئی پانچ چھے شکاری تھے اور سب کے سب مشہور۔

ان مچانوں سے تقریباً دو فرلانگ کے فاصلے پر میں نے ایک درخت کو اپنے بسیرے کے لیے منتخب کر لیا۔ میرے سامنے نہ کوئی پروگرام تھا اور نہ کوئی امید کامیابی، میں پچھتا رہا تھا کہ میں کیوں آیا، اسی میں شام ہو گئی۔ میں درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ چاند آج کل رات کو بارا بجے کے بعد نکلنے لگا تھا۔ رات جوں جوں بڑھتی گئی۔ جنگل کا سناٹا بھیانک سے بھیانک تر ہوتا گیا۔ چوں کہ میں مچانوں سے کافی دور تھا، لہٰذا شکاری کا کوئی احوال مجھے معلوم نہ ہو سکا۔ یکایک چاند نکلا اور جنگل چاندنی میں نہا گیا۔ مجھے نیند کے جھونکے آن لگے۔ میں نے چائے پر چائے پی۔ لیکن مجھے تو کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ان بیری نما کڑوے پھلوں کو کھاتے ہی نیند آرام سے اڑ گئی۔ اچانک میرے کانوں میں شیر کی آواز آئی۔ عجیب قسم کی دھاڑ تھی۔ خوف اور غصے سے علیحدہ ایک قسم کی دھاڑ تھی۔ جس کے جواب میں ایک دوسری دھاڑ اسی قسم کی مجھے قریب سے سنائی دی۔ ان دھاڑوں کا تبادلہ مسلسل شروع ہوا۔ مجھے بھاری قدموں کی چاپ اپنے درخت کے قریب سے سنائی دی۔ پتوں کے پیروں سے دبنے کے بعد جو کھڑکھڑاہٹ پیدا ہو رہی تھی، صاف نمایاں تھی۔ یہاں تک کہ میں نے ایک شیر کو دیکھا جو ایک پیر سے لنگ کرتا تھا۔ وہ میرے درخت سے دو گز کے فاصلے پر آ کر ٹھہرا۔ چاندنی میں مجھے صاف نظر آیا، اس کی ایک ہی آنکھ تھی۔ میں سمجھ گیا۔ یہ وہی آدم خور ہے جس کے جواب میں اس شیر نے دھاڑ مارنے کے لیے منھ کھولا۔ بلا ارادہ میرا ہاتھ بلند ہوا اور میں نے بلم شیر کے کھلے ہوئے منھ میں مارا جو محض اتفاقاً اس کے حلق میں جا کر پھنس گیا۔ شیر نے گھبرا کر جست لگائی اور جب وہ گرا تو اس کے گرنے سے بلم اور بھی اس کے سینے میں اتر گیا۔ اس نے دھاڑیں مار کر تڑپنا شروع کر دیا۔ میں سمجھ گیا، بلم اس کے سینے میں پھیپھڑوں یا دل کے پار اتر گیا ہے۔ وہ تڑپتا رہا۔ اس کی چیخیں اب کراہوں میں تبدیل ہو گئیں۔ یہاں تک کہ آواز آنا بالکل بند ہو گئی۔ میں صبح کا انتظار کرنے لگا تقریباً دو گھنٹے کے بعد صبح ہو گئی۔ میں نے اور انتظار کیا۔ جب روز روشن ہو گیا تو میں درخت سے اترا شیر کے قریب گیا۔ وہ اب مر چکا تھا۔ اب میں اس جانب بڑھا۔ وہاں جس طرف شکاریوں کے مچان تھیں۔ شکاری مچان سے اترے ہوئے کھڑے تھے اور سب کے سب حیران نظر آ رہے تھے۔ ان کو گھیرے ہوئے گاؤں کے بیس پچیس آدمی کھڑے تھے۔

میں نے گاؤں والوں سے کہا، ‘میں نے آدم خور کو بلم سے مار ڈالا ہے۔ آپ لوگ چل کر اس کو اٹھا لیں۔‘

ایک شکاری نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا، ‘ارے لڑکے، کیوں الو بنا رہا ہے، کہیں بلم سے شیر مارا جاتا ہے۔‘

میں نے کہا، ‘سانچ کو آنچ نہیں ہے۔ دو فرلانگ تک آپ کو چلنا ہو گا۔ خود آپ لوگ دیکھ لیں گے۔‘

وہ لوگ بادل ناخواستہ ساتھ ہولیے۔ شیر کو مرا ہوا دیکھ کر وہ لوگ حیران رہ گئے۔

ان میں اسی شکاری نے کہا، ‘لیکن اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے اس کو بلم سے مارا ہے۔‘

میں نے کہا، ‘گاؤں لے جا کر اس کی کھال ادھڑوائیے، اس کے حلق کے اندر سے میرا بلم برآمد ہو جائے گا۔‘

دیہاتیوں نے شیر کی لاش کو دو ڈنڈوں میں لگا کر گاؤں کا رخ کیا۔ جب شیر کی کھال اتاری گئی تو اس کے اندر سے میرا بلم برآمد ہوا۔ جو شیر کے پھیپھڑوں میں گھسا ہوا تھا۔ سارے شکاری حیران ہو گئے۔ مکھیا نے اس کی اطلاع فوراً ناگ پور کی کمشنری کو بھیجی جہاں سے دوسرے دن میری طلبی ہوئی۔ میرے پہنچنے پر افسران کو مجھے دیکھ کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں نے بلم سے شکار کیا ہو۔ میں نے بلم ہاتھ میں لے کر دور جاتی ہوئی ایک بکری پر بلم پھینک کر وار کیا۔ بکری بلم سے چھد کر گر گئی۔ مجھے سرکار سے ایک ہزار روپیہ انعام کا اور ایک بندوق کا لائسنس ملا اور مجھے ایک شکاری کے سپرد کیا گیا کہ میں اس سے بندوق چلانا سیکھ لوں۔ وہ ایک ہزار روپیہ لا کر میں نے اپنے والد کے قدموں میں ڈال دیے۔

وہ دن ہے اور آج کا دن میرے نشانے اور شکار کا جواب نہیں۔ انسان کا عزم، محنت اور مشق انسان کو کامیابی کی منزل سے ضرور روشناس کرا دیتی ہے۔

٭٭٭

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید