ایک معلوماتی اور علمی مضمون
نہرِ زبیدہ
از قلم
رفیعہ نوشین
ڈاؤن لوڈ کریں
ورڈ فائل
پی ڈی ایف فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں….
نہرِ زبیدہ
رفیعہ نوشین
سرزمین حجاز کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے یہاں کئی تاریخی مقامات کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ بچپن میں کہانی سن رکھی تھی کہ عباسی خلیفہ ہارون رشید کی اہلیہ ملکہ زبیدہ نے دریائے دجلہ سے نہر نکال کر مکہ مکرمہ تک لے آئیں۔
نام تو ان کا امۃ العزیز تھا۔ مگر دادا ’زبیدہ‘ کہہ کر بلاتے، سو اسی نام سے انھیں جانا گیا۔ عربی زبان کے اس لفظ کا مفہوم ’منتخب‘ بھی ہے اور ’مکھن کا پیڑا‘ بھی۔
یوں گھر والے تو پیار سے کچھ بھی نام دے دیتے ہیں مگر عباسی شہزادی نے اپنے فلاحی کاموں سے اسلام کے سنہری دور کی فوک کہانیوں کے مجموعے ’اَلف لیلہ و لیلہ‘ (ایک ہزار ایک راتیں ) میں تو جگہ پائی ہی، رہتی دنیا تک اس نام کے زندہ رہنے کا بھی اہتمام کر دیا۔
زبیدہ خوش شکل، ذہین، نرم گو، رحم دل مخیر اور انتہائی خوش پوش خاتون تھیں۔ چچا زاد ہارون الرشید سے شادی ہوئی جو چار سال بعد پانچویں عباسی خلیفہ بنے اور سنہ 786 سے 809 تک حکمران رہے۔
جب زبیدہ نے ہارون الرشید سے شادی کی تو ان کی دولت میں اور بھی اضافہ ہوا۔ ہارون نے خود بھی شاندار محلات، مساجد اور عوامی عمارتیں تعمیر کیں تھیں۔ زبیدہ نے ان میں سے بہت سے منصوبوں کے لیے اپنی دولت استعمال کی۔
ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ’ہارون الرشید کی سب سے مشہور ملکہ، زبیدہ ایک پڑھی لکھی اور قابل خاتون تھیں جو تقریباً تیس سال تک دربار میں اپنا مقام اور اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں۔
السیوطی نے ’تاریخِ خلفا‘ میں لکھا ہے کہ زبیدہ کو والد کی طرف سے قیمتی جائیدادیں، پیسہ، زمین اور ملازمائیں ملیں۔ ’تاریخ بغداد‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ زبیدہ کی دولت میں ایک ہزار ملازمائیں شامل تھیں، جن میں سے ہر ایک بہترین لباس پہنتی تھیں۔
زبیدہ نے اپنی جائیدادوں اور متعدد کاروباری منصوبوں کے انتظام کے لیے معاونین رکھے۔ ان کے اپنے محل کا انتظام بھی عالی شان طریقے سے کیا جاتا۔ کھانا سونے اور چاندی کی پلیٹوں میں پیش کیا جاتا تھا۔ انھوں نے جواہرات سے سلے جوتے کا فیشن بھی متعارف کرایا۔ وہ چاندی، آبنوس اور ریشم سے بنی پالکی پر بھی سواری کرتی تھیں۔
ان کے محل میں دیواروں پر قرآن کی آیات سنہری حروف میں کندہ تھیں۔ محل جانوروں اور پرندوں سے بھرے ایک باغ میں گھرا ہوا تھا۔
رابرٹ ہولینڈ اپنی کتاب ’خدا کی راہ میں: عرب فتوحات اور اسلامی سلطنت کی تخلیق‘ میں لکھتے ہیں کہ ’زبیدہ کی آزادانہ آمدنی تھی، جس سے وہ خاطر خواہ خیراتی عطیات دینے اور خلیفہ پر طاقت اور اثر و رسوخ استعمال کرنے میں کامیاب ہوئیں۔‘
زبیدہ اپنی انسان دوستی، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لیے بھی مشہور تھیں۔ وہ اکثر اپنی دولت کم نصیبوں میں تقسیم کرتیں اور انھیں خوراک، لباس اور رہائش فراہم کرتیں۔ ایک بار قیدیوں کے لیے روٹی اور پانی کو خود چکھا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اچھے معیار کے ہیں اور انسانی استعمال کے لیے موزوں ہیں۔
زبیدہ کو ایک بار معلوم ہوا کہ مکہ میں غریبوں میں تقسیم کی جانے والی روٹی ناقص معیار کی ہے۔ انھوں نے فوری طور پر بہتر روٹی فراہم کرنے کے لیے ایک نئی جگہ کی تعمیر کا حکم دیا اور یہ منصوبہ ایک ہی دن میں مکمل ہو گیا۔
زبیدہ علم، فن اور ادب کی سرپرستی کے لیے بھی مشہور تھیں۔ انھوں نے بغداد میں کتابوں اور مخطوطات کے وسیع ذخیرے کے لیے مشہور ’زبیدیہ لائبریری‘ کی تعمیر کے لیے مالی مدد فراہم کی۔
امین معلوف نے ’سلجوق ترکوں کی تاریخ‘ میں لکھا ہے کہ زبیدہ کی دولت اتنی وسیع تھی کہ انھوں نے اپنی ذاتی دولت کو ہاتھ لگائے بغیر اس لائبریری کی تعمیر کے لیے سرمایہ فراہم کیا۔
مورخ شبلی نعمانی کے مطابق زبیدہ علم کی بڑی سرپرست تھیں اور ان کا محل ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔
ہیو کینیڈی لکھتے ہیں کہ ’زبیدہ ادب اور فنون کی ایک سخی سرپرست تھیں، اور ان کا دربار اپنی ثقافتی سرگرمیوں کے لیے مشہور تھا۔
رابرٹ ہولینڈ کہتے ہیں کہ ’زبیدہ شاعری کی سرپرست تھیں۔ انہوں نے اس وقت کے بہت سے شاعروں کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مدد کی۔ ‘
مؤرخ الطبری کے مطابق، زبیدہ نے شاعری کے ایک مشہور مجموعہ ’دیوان الحمسہ‘ کی تالیف کی سرپرستی کی، جس میں کئی نامور عرب شاعروں کی تخلیقات شامل تھیں۔ ‘
زبیدہ کو سائنسی تحقیق اور ریسرچ کی سرپرستی کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔ ان کی علم، فن اور ادب کی سرپرستی نے عباسی خلافت میں ایک پھلتے پھولتے ثقافتی منظر کو فروغ دینے میں مدد کی۔
زبیدہ کے فلاحی کاموں کا اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ
زبیدہ نے عراق سے مکہ تک حاجیوں کے قافلوں کے لیے گزر گاہ بنائی، جسے ’درب زبیدہ‘ کہا جاتا ہے۔ حاجیوں اور مسافروں کے لیے سرائیں تعمیر کروائیں، کنویں کھدوائے اور مسجدیں بنوائیں۔
ابن بطوطہ نے زبیدہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ مکہ سے بغداد جانے والی اس سڑک پر ہر حوض، تالاب یا کنواں ان کی عنایت ہے۔ اگر اس گزرگاہ کی طرف سے ان کی توجہ نہ ہوتی تو یہ قابل استعمال ہی نہ ہوتے۔
تبریز نامی شہر جو زلزلے میں تباہ ہو گیا تھا، اسے دوبارہ آباد کیا۔ مصر کے تاریخی شہر سکندریہ، جو تقریباً اُجڑ چکا تھا، کی از سر نو تعمیر کرائی۔
ہیو کینیڈی کے مطابق ’زبیدہ کو خاص طور پر عوامی کاموں جیسے پلوں، نہروں اور کنوؤں کی تعمیر میں ان کے تعاون کے لیے جانا جاتا ہے۔
مؤرخ الطبری کا کہنا ہے کہ زبیدہ نے جزیرہ نما عرب میں بڑی تعداد میں کنوؤں اور واٹر چینلز کی تعمیر کروائی تاکہ مسافروں اور زائرین کو صاف پانی فراہم کیا جا سکے۔
زبیدہ کو یتیم خانوں، ہسپتالوں اور دیگر خیراتی اداروں کی مدد کے لیے بھی جانا جاتا تھا۔ وہ ان اداروں کی مدد کے لیے بڑی رقم عطیہ کرتیں اور ذاتی طور پر رقم کے استعمال کی نگرانی کرتیں۔
زبیدہ کی عوامی فلاح و بہبود میں شراکت نے عباسی سلطنت میں لاتعداد لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں مدد کی۔
خلیفہ ہارون الرشید کی بیوی زبیدہ نے ایک خواب دیکھا جو بظاہر اچھا نہ تھا‘ جبکہ زبیدہ بڑی عابدہ‘ زاہدہ‘ نیک اور اللہ والی خاتون تھیں۔ اس نے دیکھا کہ وہ ایک چورا ہے پر ہیں اور جو شخص آ رہا ہے ان سے گناہ کا ارتکاب کر کے جا رہا ہے۔ ایک عابدہ زاہدہ خاتون کے لئے ایسا خواب نظر آنا بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ چنانچہ جوں ہی انہوں نے یہ خواب دیکھا تو سخت پریشان ہو گئیں اور اپنی خادمہ کو کہا کہ "تم میرا نام لئے بغیر اس خواب کو اپنی طرف منسوب کر کے وقت کے مایہ ناز معبر علامہ ابن سیرینؒ سے اس کی تعبیر پوچھو”۔ زبیدہ نے اپنا نام بتانے سے اس لئے منع کیا کہ نامعلوم اس قسم کے خواب کی کیا تعبیر ہو جو رسوائی کا سبب بن جائے۔
خادمہ حکم کے مطابق علامہ ابن سیرینؒ کے پاس پہنچی اور عرض کیا کہ "حضرت! میں نے اس قسم کا خواب دیکھا ہے۔ اس کی کیا تعبیر ہے "؟
علامہ ابن سیرینؒ نے جب خواب سنا تو فوراً فرمایا ’’یہ تمہارا خواب نہیں ہو سکتا۔ ایسا خواب ہر کس و ناکس نہیں دیکھ سکتا۔ یہ تو کسی خوش نصیب شخص کا خواب ہے۔ پہلے سچ سچ بتاؤ کہ کس کا خواب ہے ؟ پھر تعبیر بتاؤں گا‘‘۔
خادمہ نے کہا کہ ’’حضرت! جس کا یہ خواب ہے اس نے نام بتانے سے منع کیا ہے ‘‘۔
علامہ ابن سیرینؒ نے فرمایا کہ ’’پہلے اس سے اجازت لو ورنہ میں خواب کی تعبیر نہیں بتاؤں گا‘‘۔
خادمہ زبیدہ کے پاس واپس آئی اور پوری بات نقل کی کہ ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ ’’پہلے جس کا خواب ہے اس کا نام بتاؤ پھر تعبیر بتاؤں گا۔ ‘‘
زبیدہ نے خادمہ سے کہا ’’اچھا جا کر میرا نام بتا دو کہ زبیدہ نے یہ خواب دیکھا ہے ‘‘۔
خادمہ دوبارہ علامہ ابن سیرینؒ کے پاس پہنچی اور عرض کیا کہ ’’یہ خواب زبیدہ نے دیکھا ہے ‘‘۔
انہوں نے فرمایا کہ ’’میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ کوئی عام خواب نہیں۔ یہ کسی خوش قسمت کا خواب ہی ہو سکتا ہے ‘‘۔ اور پھر یہ تعبیر دی کہ ’’اللہ تعالیٰ ملکہ کے ہاتھ سے ایسا صدقہ جاریہ قائم فرما دیں گے جس سے رہتی دنیا تک لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔‘‘
خادمہ نے زبیدہ کو جا کر جب خواب کی تعبیر بتائی تو زبیدہ نے فوراً اللہ کا شکر ادا کیا کہ بظاہر خواب تو بڑا عجیب تھا لیکن تعبیر بہت اچھی بتائی گئی ہے۔
پھر چند سالوں کے بعد ہارون الرشید نے جب حج پر جانے کا ارادہ کیا تو ملکہ زبیدہ بھی ساتھ تھیں۔
آج سے تقریباً بارہ سو سال پہلے ہارون رشید کے زمانے میں مکہ مکرمہ میں پانی کی بے حد تنگی تھی اور حاجیوں کو پانی کی دستیابی میں خاصی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جب ہارون الرشید اور ملکہ مکہ مکرمہ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے ملکہ زبیدہ کے نرم دل ہونے کی وجہ سے ہارون رشید کے بجائے ملکہ زبیدہ سے درخواست کی کہ ’’مکہ مکرمہ میں پانی کی بہت تکلیف ہے۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو یہاں با آسانی پانی ملنے کا کوئی انتظام کر دیں ۔‘‘
ملکہ زبیدہ یہ بات سمجھ گئیں کہ یہ بہت اہم جگہ ہے جہاں دوسرے ملکوں سے بھی لوگ آتے رہتے ہیں۔ ان کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ لہٰذا ان کی یہ تکلیف کسی بھی طرح دور ہونی چاہئے۔
زبیدہ نے ہارون الرشید سے پہلے اجازت چاہی جو اس کو جلد ہی مل گئی۔
اس وقت اسلام اپنے شباب پر تھا۔ کافر طاقتیں مسلمانوں کے زیر نگیں تھیں۔ مسلمان دنیا کے اندر غالب تھے اور ان کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اس وقت ہر فن کے بڑے بڑے ماہرین مسلمانوں کے اندر موجود تھے۔ ملکہ زبیدہ نے پوری سلطنت کے اندر یہ اعلان کروا دیا کہ جہاں جہاں کوئی ماہر انجینئر ہیں، وہ سب مکہ مکرمہ آ جائیں۔ اعلان ہوتے ہی تمام بڑے بڑے شہروں کے ماہرین جمع ہو گئے اور ماہرین کی ایک بڑی جماعت وہاں حاضر ہو گئی۔ ملکہ زبیدہ نے ان سب کو بلا کر یہ کہا کہ ’’مجھے مکہ مکرمہ کے کونے کونے اور گلی گلی میں پانی چاہئے۔ کیسے آئے گا؟ اور کہاں سے آئے گا؟ یہ تمہارا کام ہے ۔‘‘
سارے کے سارے انجینئر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔ بہت کوشش کے بعد ماہرین نے بتایا کہ انھیں کئی کلومیٹر دور دو جگہوں سے بہتے چشموں کا سراغ ملا ہے مگر ان چشموں کے پانی کے مکہ پہنچنے میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے رکاوٹ بن گئے ہیں۔
مؤرخین کے مطابق ملکہ نے حکم دیا ’’ان چشموں کا پانی مکہ تک پہچانے کے لیے ہر قیمت پر نہر کھودو چاہے کدال کی ایک ضرب پر ایک دینار ہی کیوں نہ دینا پڑے ۔‘‘
یہ جملہ کوئی معمولی جملہ نہیں ہے۔ یہ جملہ زبیدہ کی شخصیت کی بھر پور عکاسی کرتا ہے۔
ماہر انجینیئرز کے مشورے پر مسجدِ حرام سے 36 کلو میٹر کے فاصلے پر شمال مشرق میں وادئ حنین سے نہر نکالنے کا کام شروع کیا گیا۔ تین سال دن رات ہزاروں مزدور پہاڑیاں کاٹنے میں مشغول رہے۔
حنین سے وادئ نعمان، پھر وادی نعمان سے پانی پہلے عرفات لے جایا گیا۔ اس کے لیے ڈھلوان کی شکل میں پختہ انڈر گراؤنڈ واٹر چینل بنایا گیا تاکہ پانی خود بخود بہتا ہوا جائے۔ پانی کا لیول یکساں رکھنے کے لیے کہیں یہ چینل (نہر ) زمین سے اوپر ہے اور کہیں زمین سے نیچے ہے
چینل کو پتھر اور چونے کی مدد سے پختہ کیا گیا تاکہ زمین سے حاصل ہونے والا پانی دوبارہ جذب نہ ہو جائے یعنی پوری نہر زبیدہ کو خواہ وہ زمین کے اوپر ہو یا اندر، پتھروں کو چونے سے جوڑ کر پلاسٹر کیا گیا۔
مزدلفہ میں ’نہر زبیدہ ‘ مسجد مشعر الحرام کے قریب کنویں کی شکل میں تھی اور وہاں سے لوگ پانی نکالتے تھے۔ منیٰ کو بھی پانی یہاں سے فراہم کیا جاتا تھا بعد میں نہر پر پمپ لگا کر پانی منیٰ تک پہچانے کا بندوبست کیا گیا۔ منیٰ میں بھی حوض بنائے گئے۔ ایک اندازے کے مطابق نہر زبیدہ سے 600 سے 800 کیوبک میٹر پانی روزانہ مکہ مکرمہ آتا تھا۔
مورخ ابن خلیکان کے مطابق اس منصوبے پر، جس میں آبِ زم زم کے کنویں کو گہرا کرنا بھی شامل تھا، بیس لاکھ دینار خرچ ہوئے۔
جب نہر زبیدہ تیار ہو گئی تو وہ انجینئر جو اس پورے منصوبے کا ذمہ دار تھا، اس نے حساب و کتاب کی فائل تیار کر کے بغداد حاضری دی اور ملکہ زبیدہ کے محل میں پہنچا۔ ملکہ زبیدہ اس وقت دریائے دجلہ کے کنارے تفریح کر رہی تھیں۔ ا نہیں اطلاع دی گئی کہ مکہ مکرمہ سے نہر زبیدہ کا حساب لے کر انجینئر حاضر ہوا ہے ۔
زبیدہ نے اسی وقت انجینئر کو طلب کر لیا۔ اس نے فائل پیش کی اور عرض کیا کہ ’’ملکہ صاحبہ! یہ نہر زبیدہ کے منصوبے کی تکمیل کے حساب و کتاب کی فائل ہے ۔ آپ نے جو حکم دیا تھا، وہ میں نے پورا کر دیا۔ مکہ مکرمہ کی گلی گلی اور کوچے کوچے میں پانی کا وافر انتظام کر دیا گیا ہے۔ اب مکہ مکرمہ کے رہنے والوں اور حج و عمرہ کے لئے آنے والوں کو انشاءاللہ کسی قسم کی پانی کی تکلیف نہیں ہو گی۔ یہ حساب آپ کے سامنے ہے۔ آپ حساب لے لیجئے اور مجھے اجازت دیجئے۔‘‘
زبیدہ نے وہ فائل لی، اس پر دستخط کئے اور اس کو درمیان میں چاک کر کے دریائے دجلہ میں ڈال دیا اور وہ مشہور جملہ کہا جو تاریخ میں آج بھی محفوظ ہے ، بولیں:
’’ہم نے آخرت کے حساب کے لئے اس کا حساب چھوڑ دیا‘‘۔ اور کہا کہ ’’اگر ہماری طرف کوئی حساب نکلتا ہے تو لے لو، اور اگر ہمارا تمہاری طرف کچھ نکلتا ہے تو ہم نے معاف کیا۔‘‘
زبیدہ کا یہ عمل ’نیکی کر دریا میں ڈال‘ والی ضرب المثل پر صد فیصد صادق آتا ہے۔
نہر زبیدہ کا منصوبہ اس وقت کے ماہرین نے 10 سال کے عرصے میں مکمل کیا۔ اس کی کُل لمبائی 38 کلو میٹر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے پر 170 ملین دینار لاگت آئی تھی۔ آج اس کا حساب لگایا جائے تو ایک دینار 10 گرام سونے کے برابر ہو گا جو بہت بڑی رقم بنتی ہے۔
آج عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ اس وقت کس طرح یہ کام انجام دیا گیا۔ سروے کے بغیر اتنا درست حساب کیسے لگایا گیا۔ نہر اونچے نیچے راستوں سے گھومتی ہے لیکن اس کا لیول برقرار رہتا ہے
نہر زبیدہ 1200 برس، تک مشاعر مقدسہ اور مکہ مکرمہ میں حاجیوں کی پانی کی فراہمی کا بڑا ذریعہ رہی۔
انجینیئرنگ کی شاہکار اس نہر کا نام ’عین المشاش‘ تھا لیکن شہرت ’عین زبیدہ‘ یا ’نہر زبیدہ‘ کے نام سے ہوئی۔ اس منصوبے کے تحت بنائے گئے کنویں صدیوں تک حجاج کو پانی پلاتے رہے ۔
آج کے دور میں ماہر آرکیٹکٹ اور انجینیئر حیران ہیں کہ صدیوں پہلے فراہمی آب کے اس عظیم الشان منصوبے کو کیسے تکمیل تک پہنچایا گیا۔ 1950 تک نہر چلتی رہی۔ آبادی بڑھی تو لوگوں کی پانی کی ضروریات بھی بڑھیں۔ انہوں نے پمپ لگا کر زمین سے پانی نکالنا شروع کیا۔ کئی مقامات پر چینل پر پمپ لگا کر پانی کھینچا گیا۔ اس کے نتیجے میں زمین میں پانی کا لیول گر گیا اور یوں نہر خشک ہو گئی۔ اب وادی نعمان میں بھی پانی کا اتنا زیادہ لیول نہیں رہا۔
شاہ عبداللہ نے نہر زبیدہ کی بحالی کے لیے کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ کے پروفیسر محمد سراج ابو رزیزہ کو پراجیکٹ کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ معروف پاکستانی آرکیٹیکٹ سلیم بخاری نے نہر کی بحالی کے لیے سروے کیا اور ایک دستاویزی فلم تیار کی۔
رپورٹ میں تاریخی حوالوں سے بتایا گیا کہ ملکہ زبیدہ نے نہر کی تعمیر کا کام شروع کیا تھا لیکن اسے مکہ مکرمہ تک نہیں لایا جا سکا تھا۔ نہر مکہ مکرمہ کے علاقے عزیزیہ تک جاتی تھی جہاں ایک بڑا حوض بنایا گیا جو ‘حوض زبیدہ‘ کے نام سے معروف تھا اس سے پانی بھر کر مکہ مکرمہ لے جایا جاتا تھا۔
حالیہ سروے میں جو بات سامنے آئی وہ یہ کہ چونکہ اب زیر زمین پانی کا لیول اتنا نہیں رہا کہ نہر زبیدہ کو بحال کیا جائے، نہر کے روٹ پر تعمیرات ہو چکی ہیں کچھ حصہ سڑک کے ساتھ ہے۔
نہر جگہ جگہ سے کٹ چکی ہے تاہم مزدلفہ کے قریب ایک بڑا حصہ جو زمین کے اوپر اور بڑی حد تک محفوظ بھی ہے۔
تجویز یہ تھی کہ نہر زبیدہ کو مکمل بحال کرنے کے بجائے اس کے کچھ حصے کو بحال کیا جائے۔ ایک وزٹر سینٹر بنایا جائے وہاں لوگوں کو بتایا جائے کہ نہر زبیدہ کام کس طرح کرتی تھی تاکہ لوگوں کو اندازہ ہو کہ کتنا پانی تھا اورکیسے آتا تھا۔ مزدلفہ کے قریب نہر زمین سے اوپر ہے۔ بڑی خوبصورت اور دیوار چین کی طرح لگتی ہے۔ نہر زبیدہ یہاں وادیوں سے گزر کر جاتی ہے۔ اس مقام پر سیاحتی مرکز بنانے کی تجویز ہے۔ یہ 5 کلو میٹر کی وادی ہے یہاں پارک، آڈیٹوریم اور میوزیم ہو گا۔ آڈیٹوریم میں لوگوں کو دستاویزی فلم دکھانے کا اہتمام ہو گا۔ تجویز یہ ہے کہ ایک خاص مقام سے پانی پمپ کر کے نہر کے اس حصے میں ڈالا جائے جو کارآمد ہے تاکہ سیاحتی سینٹر میں آنے والے لوگ تاریخی نہر میں پانی بہتا ہوا دیکھ سکیں۔
خدا کرے کہ ان تجاویز پر جلد عمل آوری ہو۔ تاکہ زبیدہ کا نام اور کام رہتی دنیا تک قائم رہے۔ لوگ دیکھیں، سنیں اور اس سے سبق حاصل کریں۔
٭٭
حوالہ جات:
1) الکتاب: تاریخ الخلفاء المؤلف: عبد الرحمن بن أبی بکر، جلال الدین السیوطی
2) الف لیلہ و لیلہ (اردو ترجمہ)
3 ) الکتاب: تاریخ بغداد او مدینة السلام المؤلف: أبو بکر أحمد بن علی بن ثابت بن أحمد بن مہدی الخطیب البغدادی
4). "Ancient Warfare and Civilization In God’s Path: The Arab Conquests and the Creation of an Islamic Empire”, Robert G. Hoyland .
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں