بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔۔۔ ۱۵
بچوں کے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی
جمع و ترتیب: عندلیب اور اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
بڑوں نے لکھا بچوں کے لئے ۔۔۔ ۱۵
بچوں کے پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی
جمع و ترتیب: عندلیب اور اعجاز عبید
ایمان داری کا پھل
ایک بادشاہ تھا اسے طرح طرح کے پرندے اور جانور پالنے کا شوق تھا۔ وہ سال میں ایک بار جانور اور پرندے پکڑنے خود بھی جنگل جاتا تھا۔ اس کے پاس ہزاروں طرح کے جانور اور پرندے تھے۔
ایک بار بادشاہ جنگل گیا۔ اس نے کئی طرح کے توتے اور دوسرے پرندے پکڑے۔ بادشاہ کی نگاہ ایک ہرن پر پڑی۔ اس نے پھندا ڈالنے کی رسی ہاتھ میں لی، اور گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن بھاگتا بھاگتا جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ بادشاہ کے ہاتھ نہیں لگا۔ وہ ناامید ہو کر لوٹنے لگا لیکن راستہ بھول گیا۔ ہرن کے پیچھے پیچھے وہ اپنے ساتھیوں سے نہ جانے کتنی دور آ گیا تھا۔ اس کے چاروں طرف پیڑ ہی پیڑ تھے۔ اس نے سوچا یہاں جنگل میں رکنا ٹھیک نہیں ہے۔ کسی ایک سمت آگے بڑھوں۔ شاید راستہ مل جائے اور شاہی محل پہنچ جاؤں یا اپنے ساتھیوں سے جا ملوں۔
یہ سوچ کر بادشاہ ایک سمت چل پڑا۔
بادشاہ کو چلتے چلتے بہت دیر ہو گئی، مگر کوئی راستہ اب تک نہیں ملا تھا۔ سورج بھی غروب ہو چلا تھا۔
لیکن سورج ڈوبنے سے پہلے بادشاہ کو ایک پگڈنڈی مل گئی۔ وہ گھوڑا موڑ کر پگڈنڈی پر تیزی سے چلنے لگا۔
کچھ دوری پر اسے اُجالا نظر آیا۔ بادشاہ اسی طرح بڑھتا گیا، قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ ایک جھونپڑی کے آگے ایک کسان اور اس کی بیوی بیٹھے ہوئے تھے۔
کسان بادشاہ کو دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا، ہکلاتا ہوا بولا ’’جہاں۔ ۔ ۔ پناہ۔ ۔ ۔ آ۔ ۔ ۔ آپ۔ ۔ ۔ یہاں‘‘۔
میں پرندے پکڑنے آیا تھا۔ ایک ہرن کے پیچھے بھاگتے ہوئے راستہ بھول گیا ہوں۔ اب رات میں یہیں گذارنا چاہتا ہوں، سویرے چلا جاؤں گا۔‘‘ بادشاہ بولا۔
کسان بے چین ہو کر بولا۔ ’’جہاں پناہ یہ سب آپ ہی کا دیا ہوا ہے۔ مگر آپ یہاں کیسے ٹھریں گے؟ میرے پاس تو ایک اچھا بستر بھی نہیں ہے‘‘۔
’’تو کیا ہوا‘‘ بادشاہ نے کہا۔ ’’اگر میں کسان ہوتا تو کیا شاہی محل ہی کے ملائم بستروں پر سوتا‘‘؟
کسان نے بادشاہ کا گھوڑا ایک درخت سے باندھ دیا، اور اس کے کھانے کو کچھ گھاس بھی ڈال دی۔
بادشاہ نے آگ تاپتے ہوئے کسان سے پوچھا۔ ’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’میرا نام کلوا ہے جہاں پناہ۔‘‘
’’اچھا کچھ کھانے کا سامان ہو تو لے آؤ بھوک لگ رہی ہے۔‘‘
’’حضور! میرے پاس آپ کے کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے چند سوکھی روٹیاں ہیں، وہ آپ کھا نہیں سکتے‘‘۔
’’میں کھا لوں گا تم لے آؤ۔‘‘
کسان حیرت زدہ سا، صبح کی بنی ہوئی روٹیاں لے آیا۔
بادشاہ نے روٹی کھا کر پانی پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ تھکاوٹ کی وجہ سے اُسے جلد ہی نیند آ گئی۔
صبح جانے کی تیاری کرتا ہوا بادشاہ سے بولا۔ ’’کلوا! تم کبھی محل کی طرف آؤ تو مجھ سے ضرور ملنا۔ اب راستہ بتا دو، میں چلوں‘‘۔
کلوا جب بادشاہ کو راہ دکھا کر لوٹا تو اس نے بیوی کے ہاتھ میں سونے کی زنجیر دیکھی۔ بیوی بولی۔ ’’جس جگہ بادشاہ سلامت سوئے تھے، وہاں یہ پڑی تھی‘‘۔
کسان نے بیوی کے ہاتھ سے زنجیر لے لی اور بولا۔ ’’جلدی سے دو چار روٹیاں بنا دو میں ابھی شاہی محل جانا چاہتا ہوں‘‘۔
’’کیوں‘‘؟
’’آئی ہوئی دولت کو کیوں ٹھکراتے ہو‘‘؟ اس کی بیوی بولی۔ ’’ہم نے کوئی چوری تھوڑے ہی کی ہے۔ اسے بیچ کر آرام کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘
کلوا نے زنجیر کو اُلٹ پلٹ کر دیکھا اس میں ایک چمکدار ہیرا بھی لگا ہوا تھا۔ بیوی کی بات سن کر وہ غصے سے بولا۔ ’’اپنی زبان کو لگام دو۔ یہ زنجیر تیری محنت کی کمائی کی ہے یا میری محنت کی کمائی ہے؟ میں اسے ضرور واپس کرنے جاؤں گا۔ اب مزید کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ چُپ چاپ روٹیاں بنا دو‘‘۔
اسی دن شام تک کلوا شاہی محل پہنچ گیا۔ پہرے دار نے اسے صدر دروازے پر ہی روک دیا۔ وہ اسے اندر جانے نہیں دیتا تھا۔ اس نے پہرے دار کی بہت خوشامد کی۔ آخر میں اس نے کہا۔ ’’اچھا مجھے اندر مت جانے دو۔ بادشاہ سلامت سے اتنا کہہ دو کہ کل شام والا کلوا آیا ہے‘‘۔
پہرے دار مان گیا اور اس نے خبر اندر بھجوا دی۔ فوراً ہی کلوا کو اندر بلوایا گیا۔
کلوا نے فرشی سلام کرنے کے بعد زنجیر بادشاہ کے سامنے رکھ دی۔ بادشاہ خوش ہو کر کلوا سے بولا۔ ’’میں تمہاری ایمانداری سے بہت خوش ہوں۔ یہ زنجیر میں نے جان بوجھ کر چھوڑی تھی‘‘۔
’’جی حضور جان بوجھ کر‘‘؟
’’ہاں! میں تمہاری ایمانداری کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ تم کامیاب ہو گئے ہو۔ اس لئے انعام کے مستحق ہو۔ دیکھو، ایسا ہے کہ شاہی محل میں ایک خزانچی کی ضرورت ہے۔ میں تمہیں اس عہدے پر رکھنا چاہتا ہوں، کیا تمہیں منظور ہے؟‘‘
’’حضور کا غلام ہوں، جو حکم دیں، ویسے جہاں پناہ اس عہدے کے لائق میں نہیں ہوں۔ پھر بھی آپ جو کہیں گے میں تعمیل کروں گا‘‘۔
اور دوسرے دن کلوا نے خزانچی کا عہدہ سنبھال لیا۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ایمانداری کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔
٭٭٭
اسمبلی
ایک بہت ہی خوبصورت باغ تھا۔ اس میں طرح طرح کے خوش نما پھول کھلے ہوئے تھے۔ گلاب چمپا، چمبیلی، گیندا، سورج مکھی، جوہی موگرا، موتیا وغیرہ سبھی اپنی اپنی خوبصورتی اور خوشبو سے باغ کو دل ربا بنائے ہوئے تھے۔ شام کے وقت ٹھنڈی ہوا کے بہاؤ میں اس باغ کی رونق کا کچھ کہنا ہی نہ تھا۔ شام کے وقت وہاں لوگوں کی خوب بھیڑ رہتی تھی۔ بچے اچھل کود مچاتے تھے۔
پھلوں کی کیاریوں کے بیچ میں کہیں کہیں پر آم، لیچی، پپیتا، اور جامن کے بڑے بڑے درخت تھے۔ ان درختوں کے چاروں طرف مالی نے بہت سے کانٹے بچھا رکھے تھے اور کانٹوں کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے بہت سے رنگ برنگے پھول لگا رکھے تھے تاکہ کوئی بھی انسان پھل توڑ نہ سکے۔
مالی دن بھر اپنا وقت پھلوں اور پھولوں کی دیکھ بھال میں گذارا کرتا اور باغ کی رونق کو دیکھ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا تھا۔ جب کبھی کوئی شخص کسی پھول یا پھل کی تعریف کر دیتا تو اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا۔ وہ ہمیشہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا رہتا کہ کون سا ایسا نیا پھول لگائے جس سے لوگ اس کی تعریف کریں۔
باغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں ترکاری لگا رکھی تھی۔ لوگ ان ترکاریوں پر کوئی دھیان نہیں دیتے تھے۔ نہ ہی للچائی ہوئی نظروں سے ان کو دیکھا کرتے تھے۔
اسی طرح دن گزر رہے تھے کہ ایک دن جناب کٹہل کو بہت غصہ آیا اور وہ درخت سے کود کر ترکاریوں کے بیچ آ کھڑے ہوئے اور بولے۔ ’’میرے پیارے بھائیو اور بہنو! ہم لوگوں میں آخر ایسی کونسی خوبی نہیں ہے جس کی وجہ سے لوگ ہمیں پسند نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں کسی قابل سمجھتے ہیں۔
حالانکہ ہم سے طرح طرح کی چیزیں بنتی ہوں، یہاں تک کہ ہمارے بغیر انسان پیٹ بھر کے روٹی بھی نہیں کھا سکتا ہے، پھلوں کا کیا جھٹ چھری سے کاٹا اور کھا گئے۔ لیکن ہم تو راجا ہیں راجا بغیر گھی مسالہ کے ہمیں کوئی کھاتا نہیں، دیکھو مجھ میں تو اتنی بڑی خوبی ہے کہ میں پت کو مارتا ہوں۔ اب تم سب اگر مجھے اپنا راجا بنا لو تو میں بہت سی اچھی اچھی باتیں بتاؤں گا‘‘۔
ترکاریوں نے کٹھل کی بات بڑی توجہ سے سنی اور ان کے دل میں ایک جوش سا پیدا ہونے لگا۔ اب تو سب کو اپنی اپنی خوبی یاد آنے لگی۔ جب سبھی اپنی اپنی خوبیوں کا ذکر کرنے لگے تو جناب کٹہل پھر بولے۔ ’’دیکھو بھئی صبر کے ساتھ، آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے بولو۔ ورنہ کسی کی بات میری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ ہاں کریلا پہلے تم‘‘۔
کریلا:۔ میں کھانے میں تلخ ضرور لگتا ہوں جس کی وجہ سے بہت سے لوگ مجھے نہیں کھاتے ہیں۔ لیکن میں بہت فائدہ مند ہوں۔ کف، بخار، پت اور خون کی خرابی کو دور کرتا ہوں اور پیٹ کو صاف کرتا ہوں۔
بیگن: بھوک بڑھاتا ہوں۔ لوگ میرے پکوڑے اور ترکاری بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
بھنڈی:۔ سبزی تو میری بہت اچھی بنتی ہے اور میں بہت طاقت پہنچاتی ہوں۔
لوکی:۔ میں اپنی تعریف کیا سناؤں، میرا تو نام سن کر ہی لوگ مجھے چھوڑ دیتے ہیں لیکن میں دماغ کی گرمی کو دور کر تی ہوں اور پیٹ صاف رکھتی ہوں۔ اسی وجہ سے ڈاکٹر، حکیم مجھے مریضوں کو دینے کے لئے کہتے ہیں۔
پَلوَل:۔ میں بھی مریضوں کو خاص فائدہ پہنچاتا ہوں اور انہیں طاقت دیتا ہوں۔
ترئی:۔ میں بخار اور کھانسی میں فائدہ پہنچاتی ہوں اور کف کو دور کرتی ہوں۔ میری سہیلی سیم بھی کف کو دور کرتی ہے۔
شلغم:۔ مجھے شلجم بھی کہا جاتا ہے۔ میں کھانسی کو فائدہ کرتا ہوں اور طاقت بڑھاتا ہوں۔
گوبھی:۔ بخار کو دور کرتی ہوں، اور دل کو مضبوط کرتی ہوں۔
آلو:۔ میں بے حد طاقتور اور روغن دار ہوں۔
گاجر:۔ میں پیٹ کے کیڑے مارتا ہوں۔
مولی:۔ میں کھانے کو بہت جلد پچاتی ہوں، اور پیٹ کو صاف کرتی ہوں۔
جب سب کی باتیں ختم ہوئیں تو ساگوں نے کہا کہ واہ بھئی خوبی تو ہم میں بھی ہے پھر ہم چپ کیوں رہیں۔ آپ لوگ ہم غریب پتوں کی بھی خوبیاں سن لیں۔
پالک:۔ میں خون بڑھاتا ہوں کف کا خاتمہ کرتا ہوں اور کمر کے درد کے لئے مفید ہوں۔ خون کی گرمی کو دور کرتا ہوں، دست آور ہوں اور کھانسی کو فائدہ پہنچاتا ہوں۔
میتھی:۔ بھوک بڑھاتا ہوں، کف کا خاتمہ کرتا ہوں۔
بتھوا:۔ تھکاوٹ دور کرتا ہوں مجھے کف کی بیماری میں زیادہ کھانا چاہئے۔ تلّی، بواسیر اور پیٹ کے کیڑوں کو مارتا ہوں۔
مالی چپ چاپ باغ کے ایک کونے میں کھڑا سب کی باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔ ترکاریوں کی خوبیوں کو جان کر اسے بہت تعجب ہوا، اور وہ سوچنے لگا کہ اگر میں پھولوں کی جگہ ترکاریوں کے پودے پیڑ لگاؤں تو زیادہ بہتر اور سود مند ہو گا۔
جب سے مالی کے ارادے کا مجھے علم ہوا ہے اس باغ کی طرف جانے کا مجھے اتفاق نہیں ہوا ہے۔ نہ معلوم اس باغ میں اب بھی لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے بچے اچھل کود مچاتے ہیں اور خوشنما پھول اپنی بہار دکھاتے ہیں یا ترکاریوں کے لتوں سے مالی کا فائدہ ہوتا ہے؟
٭٭٭
مغرور گیدڑ
ایک گیدڑ تھا۔ بڑا مغرور اور بڑا شیطان، بہتوں کو اس نے ستایا تھا اور ان کی بد دعا لی تھی۔
ایک دن اس نے کھٹا انگور کھایا۔ جب اس کے دانت کھٹے ہو گئے تو وہ آگے بڑھ گیا۔ راستے میں املی کے پیڑ کے نیچے اس نے بہت ساری املیاں پڑی دیکھیں۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ املی کھانے لگا۔ اس کے دانت اور کھٹے ہو گئے۔
کچھ اور آگے بڑھنے پر ایک جگہ شہد کا چھتّہ لٹکا ہوا نظر آیا۔ اس کا جی للچایا اور اس نے جیسے ہی کھانے کے لئے چھتہ پر منہ مارا شہد کی مکھیاں اس سے لپٹ گئیں۔
وہ درد سے کراہتا ہوا بھاگا۔ دو چار مکھیاں اب بھی اس کی ناک سے چپکی ہوئی اسے ڈس رہی تھیں۔ سامنے مٹی کا ڈھیر نظر آیا۔ وہ اسی میں ناک رگڑنے لگا۔
مٹی کے اس ڈھیر میں بچھو رہتا تھا۔ جیسے ہی گیدڑ نے ناک رگڑی بچھو نے ڈنک مار دیا۔ درد سے گیدڑ کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ وہ بے تحاشہ وہاں سے بھاگا۔ آگے بڑا سا پتھر پڑا تھا۔ وہ اس پتھر سے ٹکرایا تو اس کا سر پھٹ گیا، اور خون بہنے لگا۔
دوسری سمت سے ایک دوسرا گیدڑ چلا آ رہا تھا، اسے اس حال میں دیکھ کر اس نے پوچھا۔ ’’کیا ہوا کیا بات ہے‘‘؟
وہ بڑے دکھ سے بولا۔ ’’کسی کی بد دعا مت لینا۔ دعا لیکر بھی کسی کو ستانا مت، بھوک میں انگور چوس لینا۔ مگر شہد مت کھانا، شہد جو کھا لیا تو ناک مت رگڑنا ورنہ بچھو کاٹ کھائے بچھو کاٹ کھائے تو آنکھیں بند ہو جائیں گی، اور آنکھیں بند ہو گئیں تو بھاگنا مت، نہیں تو سر پھٹ جائے گا۔ آہ!‘‘
اور گیدڑ بلک بلک کر رونے لگا۔
٭٭٭
انصاف
چلتے چلتے جب بھوک چمک اٹھی تو دونوں مسافر ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں کھانے کے لئے بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک کے پاس پانچ اور دوسرے کے پاس تین روٹیاں تھیں۔
ابھی وہ کھانا شروع بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک سودا گر گھوڑے پر سوار اُدھر آ نکلا۔ چونکہ درخت سایہ دار تھا اس لئے وہ گھوڑے پر سے اتر کر ان دونوں سے کچھ فاصلے پر آرام کی غرض سے بیٹھ گیا۔
ان دونوں نے کھانا شروع کرنے سے پہلے اخلاقاً اس تاجر سے کہا۔ ’’جناب آئیے، آپ بھی کھانے میں شرکت کیجئے۔‘‘
سودا گر بھوکا تھا۔ اس لئے دونوں کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
دونوں مسافروں نے اپنی اپنی روٹیوں کے تین تین ٹکڑے کئے اور تینوں نے برابر بانٹ کر کھا لیا۔
دوبارہ سفر شروع کرنے کی غرض سے گھوڑے پر سوار ہونے سے پہلے سودا گر نے ان کے سامنے آٹھ آنے پیسے بڑھاتے ہوئے بڑی عاجزی سے کہا۔ ’’براہ کرم آپ لوگ اسے قبول کر لیں‘‘۔
سودا گر کے جانے بعد ان دونوں نے اس رقم کو آپس میں بانٹ لینے کی سوچی!
پہلے مسافر نے اپنی روٹیوں کی تعداد کے حساب سے خود پانچ آنے رکھ کر اپنے ساتھ کی طرف تین آنے بڑھا دئیے۔
لیکن دوسرے مسافر نے اُسے لینے سے انکار کر دیا۔ وہ پیسے پھینکتے ہوئے بولا۔ ’’واہ! یہ بھی کوئی بٹوارہ ہے۔ دینا ہے تو مجھے آدھے پیسے دو‘‘۔
’’ہاں نہ‘‘ اور ’’نہ ہاں‘‘ کی تکرار بڑھتے بڑھتے جھگڑے کی نوبت آ گئی۔ مگر جھگڑا ہونے سے پہلے ہی عقل کام دے گئی اور وہ دونوں ایک منصف کے پاس پہنچے۔
منصف نے پہلے شروع سے آخر تک ان سے تفصیل سنی، چند لمحے تک غور وخوص کرنے کے بعد ان دونوں کو اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان سے کہا۔ ’’اچھا سنئے! آپ میں سے پہلے کو سات آنے ملیں گے اور دوسرے کو صرف ایک آنہ ملے گا‘‘۔
منصف کا فیصلہ سن کر دوسرا مسافر دل ہی دل میں اسے برا بھلا کہنے لگا۔ پھر طنزیہ لہجے میں بولا :
’’جناب عالی! آپ نے خوب انصاف کیا ہے۔ مجھے تو پہلے ہی تین آنے مل رہے تھے۔ اب آپ صرف ایک ہی دلوا رہے ہیں۔ کمال ہے آپ کے انصاف کا‘‘۔
منصف ایک لمحے تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مسکراتے ہوئے اس نے پہلے مسافر سے پوچھا: ’’آپ کی روٹیاں کتنی تھیں‘‘؟
’’صرف پانچ‘‘۔
’’آپ نے روٹیوں کے کل کتنے ٹکڑے کئے تھے‘‘؟
’’پندرہ ٹکڑے‘‘
’’آپ نے کتنے ٹکڑے خود کھائے اور کتنے ٹکڑے تاجر کو دئیے‘‘؟
’’میں نے خود آٹھ ٹکڑے کھائے اور باقی سات ٹکڑے اس سودا گر کو دئیے‘‘۔
اب منصف نے دوسرے مسافر سے پوچھا۔ ’’آپ کی روٹیوں کے نو ہی ٹکڑے تھے نا‘‘؟
’’جی ہاں اتنے ہی تھے۔‘‘
’’اب آپ ایمانداری سے بتائیں کہ ان میں سے کتنے ٹکڑے آپ نے خود کھائے اور کتنے مسافر کو دئیے تھے‘‘۔
’’میں نے آٹھ ٹکڑے خود کھائے تھے اور ایک ٹکڑا سودا گر کو دیا تھا‘‘۔
’’بس تو پھر آپ ہی بتلائیے کہ آپ کو حساب سے ایک آنہ ہی ملنا چاہیے یا اس سے زیادہ‘‘؟
منصف نے کہا۔
دوسرے مسافر سے اب کچھ نہیں بنا۔ وہ منصف کے اس عجیب و غریب انصاف سے متاثر ہو کر دل ہی دل میں اس کی تعریف کرتا ہوا چلا گیا۔
٭٭٭
گیت کا اثر
ایک شاعر تھا۔ وہ صرف گیت لکھا کرتا تھا! اور کوئی دوسرا کام نہیں کرتا تھا۔ بس ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بہت غریب تھے۔
ایک دن اس کی بیوی نے اس سے کہا۔ تم بادشاہ کے پاس جا کر کوئی گیت ہی سنا دو۔ شاید بادشاہ سے انعام مل جائے۔
شاعر کو یہ تجویز پسند آ گئی اور بادشاہ کے پاس پہنچ گیا۔ بادشاہ نے اس کو گیت سنانے کو کہا۔ شاعر نے گیت سنایا۔
گھسے گھِساوے
گھِس گھِس لگاوے
پانی!
جس کی وجہ سے تو گھِسے
وہ بات میں نے جانی!
بادشاہ کو گیت اچھا لگا۔ اس نے اُسے اپنے استعمال کے تمام برتنوں پر لکھوا دیا۔
چند دنوں بعد بادشاہ اور وزیر میں کسی بات پر رنجش ہو گئی۔ وزیر مزاج کا اچھا آدمی نہیں تھا۔ وہ بادشاہ کو مار ڈالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ اس طرح حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ آ جاتی یعنی وہ خود بادشاہ بن جاتا۔
وزیر نے بادشاہ کو مروانے کے سلسلہ میں کئی تجویزیں سوچیں اور آخر میں ایک تجویز پر عمل کرانے کے لئے تیار ہو گیا۔
ایک حجام روزانہ بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لئے آتا تھا۔ وزیر نے حجام کو ڈھیر ساری دولت دینے کا لالچ دے کر اسے اس پر عمل کرنے کے لئے راضی کر لیا کہ جب وہ بادشاہ کی داڑھی بنانے جائے تو اُسترا خوب تیز کر لے اور داڑھی بناتے وقت بادشاہ کی گردن کاٹ دے۔
دوسرے دن حجام بادشاہ کی داڑھی بنانے کے لئے گیا۔ کٹورے میں پانی آیا۔ حجام پتھر پر پانی ڈال کر استرا تیز کرنے لگا۔ بیٹھے بیٹھے بادشاہ کی نظر کٹورے پر گئ۔ کٹورے پر شاعر کا وہ گیت کُھدا ہوا تھا۔ بادشاہ گیت گنگنانے لگا۔
کھِسے گھساوے
پھر گھسے
گھِس گھِس لگاوے
پانی!
جس کی وجہ سے تو گھسے
وہ بات میں نے جانی!
بادشاہ کی گنگناہٹ سن کر حجام کانپنے لگا۔ وہ سمجھا کی بادشاہ کو وزیر کی سازش کا پتہ چل گیا ہے۔ اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھا اور سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔
بادشاہ کو، حجام کے اس طرح بھاگ جانے پر بڑی حیرت ہوئی، ساتھ ہی غصہ بھی آیا۔ اس نے حکم دیا کہ حجام کو پکڑ کر لایا جائے۔
حجام گرفتار ہو کر جب بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو بادشاہ نے پوچھا۔ ’’کیا بات ہے؟ تم نے ایسی حرکت کی جرات کیسے کی‘‘؟
حجام جان کی امان چاہتے ہوئے گڑگڑانے لگا۔ اور اس نے سچ سچ سب کچھ بتا دیا۔ بادشاہ نے وزیر کو گرفتار کرانے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اس نے شاعر کو بُلا کر کہا۔ ’’جس قدر بھی دولت اٹھ سکے، اپنے گھر لے جاؤ۔‘‘ اور اس کے بعد وزیر کو سزائیں دیں۔
٭٭٭
گھیراؤ
پچھلے پچاس منٹ سے تینوں بچے سر جوڑے غور و فکر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لیکن ابھی تک کوئی حل سمجھ میں نہیں آیا تھا۔ تینوں کی خواہش تھی کہ کل اتوار کو انٹرنیشنل سرکس دیکھا جائے۔ اس سرکس کی بے حد تعریف ہو رہی تھی اور آج یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ اسی ہفتے میں اس شہر سے سرکس والوں کا ڈیرا اٹھنے والا ہے۔
تینوں میں سب سے بڑا شہیر تھا۔ وہی ممی کے پاس اجازت لینے کے لیے پہنچا، لیکن ابھی اس کے منہ سے سرکس کی بات نکلی ہی تھی کہ ممی کا سنسناتا ہوا طمانچہ اس کے گال پر پڑا۔ شہیر کی آنکھوں کے سامنے رنگ برنگے تارے ناچ گئے۔ ہما اور ڈولی دروازے کے قریب ہی کھڑے اندر جھانک رہے تھے۔ چٹاخ کی آواز سنتے ہی ان کے پیروں تلے کی زمین کھسک گئی اور دونوں وہاں سے بھاگ کر کمرے میں آ گئیں۔
ممی چلا رہی تھیں: ’’جمعرات سے امتحان شروع ہو رہا ہے اور تمھیں سرکس کی سوجھ رہی ہے۔‘‘
ممی کے اس سخت برتاؤ پر غور کرنے کے لیے ہی وہ تینوں بیٹھے ہوئے تھے۔ ’’ہمارے سرکس دیکھنے جانے پر ممی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ ہما نے کہا۔
’’امتحان تو صرف بہانہ ہے۔ امتحان جمعرات سے شروع ہو گا اور ہم کل سرکس دیکھنے جانا چاہتے ہیں۔‘‘ ڈولی بولی۔
شہیر اپنا گال سہلاتے ہوئے بولا: ’’سرکس دیکھنے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
ڈولی بولی: ’’بھیا! آپ ایک غلطی کر رہے ہیں۔‘‘
شہیر نے اسے گھورتے ہوئے کہا: ’’کیا؟‘‘
’’ممی کا طمانچہ آپ کے بائیں گال پر پڑا ہے، مگر غلطی سے دایاں گال سہلا رہے ہیں۔‘‘
’’ڈولی! اس مسئلے کو یوں مذاق میں نہ ٹالو۔‘‘ ہما نے چھوٹی بہن کو ڈانٹا۔
’’آئی ایم سوری۔‘‘ ڈولی غلطی مان گئی۔
ہما اصل موضوع پر آتے ہوئے بولی: ’’ممی کے سلسلے میں ہمیں کچھ سوچنا ہی پڑے گا۔ آج بھیا کے طمانچہ لگا ہے، کل ہمارے بھی لگ سکتا ہے۔‘‘
شہیر نے مشورہ دیا: ’’کیوں نہ ہم ممی کا گھیراؤ کریں۔‘‘
’’گھیراؤ!‘‘ ڈولی نے پوچھا: ’’یہ کیا چیز ہوتی ہے؟‘‘
’’ٹھیک طرح تو مجھے بھی نہیں معلوم ہے، ویسے ریڈیو پر اکثر سنتا ہوں کہ فلاں جگہ مزدوروں نے مینجر کا گھیراؤ کیا اور اپنی باتیں منوا لیں۔‘‘
ہما نے کہا: ’’ہاں ٹھیک ہے۔ جس کا گھیراؤ کرنا ہو اس چاروں طرف سے گھیر لو۔‘‘
ڈولی بیچ میں بول پڑی: ’’پھر اسے نہ کام کرنے دو اور نہ کھانا پکانے دو، مزہ آ جاتا ہو گا۔‘‘
’’بالکل۔‘‘ شہیر نے کہا۔
ڈولی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہم تو صرف تین ہیں۔ ممی کو تین طرف سے ہی گھیر سکتے ہیں۔ چوتھی طرف سے وہ نکل جائیں گی۔‘‘
’’اس بات کی تو اتنی فکر نہیں ہے، لیکن مجھے ڈولی پر بھروسا نہیں ہے۔ ابھی پرسوں یہ ایک چھوٹی سی چوہیا سے ڈر کر ممی سے لپٹ گئی تھی۔‘‘ ہما نے ڈولی کا مذاق اڑایا۔
ڈولی تلملا کر بولی: ’’چوہیا، چوہیا ہوتی ہے۔ میں گھیراؤ کرنے سے بالکل نہیں ڈرتی۔‘‘
ہما نے اسے چڑایا: ’’رہنے بھی دو، میں نہیں مان سکتی۔ گھیراؤ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔‘‘
’’اچھی طرح سوچ لو، ممی کا گھیراؤ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے ہم طمانچوں اور جھڑکیوں کی بارش ہو جائے۔ اس وقت ہمیں گھبرا کر میدان نہیں چھوڑنا ہو گا۔‘‘
اتنے میں باورچی خانے سے ممی کی آواز سنائی دی: ’’شہیر! جلدی سے یہاں آؤ۔‘‘
’’مت جاؤ بھیا۔‘‘ ڈولی نے کہا۔
’’نہیں مجھے ضرور جانا چاہیے۔‘‘ شہیر کانپتے ہوئے بولا۔
ڈولی ہنس کر بولی: ’’لو، مجھے کہتے ہیں اور اب خود ہی ڈرنے لگے۔‘‘
’’تم سمجھتی کیوں نہیں ڈولی! ہو سکتا ہے طمانچہ مار کر ممی پچھتا رہی ہوں اور آئس کریم کھانے کے لیے پیسے دینا چاہتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر شہیر چلا گیا۔
ایک منٹ بعد شہیر پچاس روپے کا نوٹ ہاتھ میں لیے لوٹا۔
’’ممی نے یہ نوٹ نکڑ والی دکان سے مسور کی دال لانے کے لیے دیا ہے۔‘‘ اس نے بتایا۔
ہما نے پاؤں پٹک کر کہا: ’’آپ کو دال کبھی نہیں لانی چاہیے۔‘‘
ڈولی بولی: ’’یہ دال لانے کا نہیں، آپ کی ناک کا سوال ہے۔‘‘
شہیر کا ہاتھ اپنی ناک پر چلا گیا اور اسے اچھی طرح ٹٹول کر بولا: ’’کیوں؟ کیا ہوا میری ناک کو؟‘‘
’’بھیا! میرا مطلب آپ کی عزت اور بے عزتی سے ہے۔ دال آ گئی تو گھراؤ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔‘‘ ڈولی بولی۔
شہیر چند لمحے کچھ سوچتا رہا پھر بولا: ’’ٹھیک ہے، میں دال نہیں لاؤں گا، اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘‘
اچانک کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ شہیر گھبرا کر بولا: ’’ممی ادھر ہی آ رہی ہیں، میں دال نہیں لایا تو۔ ۔ ۔ ۔‘‘ گھبرا کر اس نے چاروں طرف دیکھا۔
ممی کے قدموں کی آہٹ ہر لمحہ نزدیک ہوتی جا رہی تھی۔ سوچنے کا قطعی وقت نہیں تھا۔ سامنے ہی چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ شہیر اسی کے نیچے گھس گیا۔
ممی ریل گاڑی کے انجن کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئیں۔ آتے ہی بولیں: ’’ذرا نکڑ تک دیکھ کر آؤ، شہیر دال لینے گیا ہے۔ ابھی تک نہیں لوٹا۔ چولہا بےکار جل رہا ہے۔‘‘
ہما نے کہا: ’’آ جائیں گے۔‘‘
ممی نے دھم سے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا: ’’کیا بات ہے، تم دونوں اداس نظر آ رہی ہو؟‘‘
ممی کے بیٹھتے ہی شہیر کا برا حال ہو گیا۔ چارپائی اونچائی میں بہت کم تھی۔ یوں بھی اس کی بنائی ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ ممی کا وزن جب شہیر کی پیٹھ پر پڑا تو اس کی چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔
اسی وقت باہر سے ڈیڈی کی موٹر سائیکل کی آواز آئی۔ وہ بھی کمرے میں آ گئے اور اسی چارپائی پر بیٹھ گئے۔ شہیر کے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے پیٹھ پر کسی نے پانچ من کا وزن لاد دیا ہو۔ دباؤ کی وجہ سے پھیپھڑے بھی آدھی سانس لے پا رہے تھے۔ وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے گھیراؤ کرنے کی اسکیم بنائی اور خود چارپائی کے نیچے آ پھنسا۔
ڈولی ہما کے کان میں بولی: ’’گھیراؤ کرنے کا یہ سنہری موقع ہے۔ دیکھو پیچھے دیوار ہے، ایک طرف سے ہم ممی اور ڈیڈی دونوں کو ہی گھیر سکتے ہیں۔‘‘
’’لیکن بھیا کا تو اپنا ہی گھیراؤ ہو گیا ہے۔‘‘ ہما بولی۔ ’’کسی طرح بھیا تک اسکیم پہنچائی جائے۔‘‘ ڈولی منمنائی ڈیڈی بوٹوں کے تسمے کھولتے ہوئے بولے: ’’بھئی آج تو کمال ہو گیا۔ ہماری کنجوس کمپنی نے اس بار تین مہینے کا بونس دے ڈالا۔ تیس ہزار ہاتھ آ گئے۔‘‘
’’تیس ہزار!‘‘ ممی کھل اٹھیں۔
’’ہاں، اسی خوشی میں کل ہم سرکس دیکھنے چلیں گے۔ اس کی بڑی تعریف سن رہا ہوں۔‘‘
ہما اور ڈولی اچھل پڑے۔ دونوں چلائے: ’’ہپ ہپ۔‘‘
چارپائی کے نیچے سے دبی دبی آواز آئی: ’’ہرا!‘‘
ممی اور ڈیڈی چونک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ دیکھا تو نیچے سے شہیر اپنی کمر پکڑے نکل رہا تھا۔
’’ارے تم دال لینے نہیں گئے؟‘‘ ممی نے پوچھا۔
’’ذرا جھپکی آ گئی تھی۔ بس اب میں یوں گیا اور یوں آیا۔‘‘ شہیر نے کہا اور دال لانے کے لیے دوڑ گیا۔
٭٭٭
دوستی
شبانہ اس گوریا کو پہچان گئی تھی۔ چھوٹی سی، ننھی منی پھر پھر اڑنے والی گوریا۔
شبانہ اسے روز دیکھتی۔ جب صبح اٹھ کر پڑھنے بیٹھتی تو وہ ’’چوں چوں ‘‘ کر کے ایک خوبصورت سا گیت گاتی ہوئی کھڑکی پر آ کر بیٹھ جاتی۔ شبانہ اسے دیکھ کر کہتی:
’’اوہو، تو آپ آ گئیں۔ میں نے کہا آداب عرض‘‘
گوریا: ’’چو چو کر کے آداب عرض کا جواب دیتی۔ پھر ممی کے ڈریسنگ ٹیبل پر جا کر بیٹھ جاتی۔ پھدک پھدک کر آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتی اور چونچ مار کر خود کو چومتی۔‘‘
شبانہ کو ہنسی آ جاتی۔ سوچتی، کتنی پاگل ہے گوریا۔ اپنے آپ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتی ہے بچاری! اس کے گھر میں ڈریسنگ ٹیبل ہی کہاں ہوگا جو اپنا چہرہ دیکھتی۔
کبھی کبھی پھدکتی ہوئی وہ شبانہ کے بالکل قریب آ جاتی۔ اس کی کتاب پر بیٹھ جاتی۔ تب بھی وہ ’’چوں چوں‘‘ کا گیت ہی گاتی رہتی۔ ایک دن شبانہ نے اسے ہاتھوں میں اٹھا لیا تو وہ سہم گئی۔ شبانہ کے ہاتھوں میں گدگدی ہو رہی تھی۔ وہ سمجھ گئی کہ گوریا ڈر رہی ہے۔ اس نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا:
’’ارے گوریا رانی ڈرو مت، تجھے چھوڑ دوں گی۔ مجھے گانا سنائے گی نا؟‘‘
اس نے اسے چوم کر چھوڑ دیا تھا اور گوریا پھدکتی ہوئی آئینہ میں جا کر اپنا چہرہ دیکھنے لگی۔
ایک دن بڑا برا ہوا۔ شبانہ چپ چاپ بیٹھی پڑھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ابھی تک گوریا آئی کیوں نہیں؟ دھوپ کے پیسے روشندان سے گر کر ایک کونے میں بکھر گئے تھے۔ اسکول جانے کا وقت قریب آتا جا رہا تھا۔ یکایک ’’چوں چوں‘‘ کی آواز سن کر شبانہ چونک پڑی۔ گوریا آ گئی تھی اور آداب عرض کر رہی تھی۔
’’آج بڑی دیر کر دی۔ اب تک کیا کر رہی تھیں؟‘‘
شبانہ نے اس سے پوچھا۔ اسی وقت اسے اس کا ٹوٹا ہوا پیر نظر آ گیا۔ ’’ارے یہ چوٹ کیسے لگی؟ آؤ میں دوا لگا دوں۔ ‘‘ اور اس نے اسے کھڑکی پر سے اٹھا لیا۔ اس دن گوریا بالکل نہیں ڈری۔ ہتھیلیوں پر آ کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ شبانہ اسے پیار کرتی ہے۔ وہ اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
شبانہ اسے ممی کے پاس لے گئی۔ ممی کسی کام میں لگی ہوئی تھیں۔ شبانہ نے کہا ’’دیکھو ممی، اس بچاری کو کتنی چوٹ لگی ہے۔ جانے کیسے؟‘‘
ممی نے اسے دیکھا پھر ڈرائنگ روم میں آ کر ٹنکچر کا پھاہا بنا کر لگا دیا۔ گوریا چپ چاپ دوا لگواتی رہی۔ دوا لگا کر ممی پھر کچن میں واپس لوٹ گئیں۔
شبانہ نے اس سے کہا ’’دیکھو میری ممی کتنی اچھی ہیں! خیر، اب جب تک تمہاری چوٹ ٹھیک نہیں ہو جائے تمہیں دوا لگوانے روز آنا ہوگا۔ اس میں ٹال مٹول نہ ہو۔ ورنہ پریشانی اٹھاؤ گی۔ ‘‘
گوریا نے اسے ’’تھینک یو‘‘ کہا اور ہتھیلی سے اڑ کر ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں ذرا اپنا چہرہ دیکھ کر وہ اڑ گئی۔
کچھ دنوں تک گوریا روز آتی رہی۔ شبانہ اسے ٹنکچر کا پھاہا بنا کر لگا دیتی۔ وہ تھینک یو کہتی اور چلی جاتی۔ ایک دن جب وہ آئی تو مزے سے پھدک پھدک کر چل رہی تھی۔ اس کی چوٹ اچھی ہو گئی تھی۔ اس نے کھڑکی پر کھڑی ہو کر کہا تھا:
’’تھینک یو ویری مچ، میری ننھی نرس۔ ‘‘
شبانہ یہ سن کر پھولی نہیں سمائی۔ لیکن اسی دن شام کو شبانہ یکایک بیمار پڑ گئی۔ اسکول سے لوٹی تو بڑی تھکی تھکی سی معلوم ہو رہی تھی۔ پھاٹک کھولنے پر روز کی طرح اس نے اپنی ممی کے استقبال کا جواب مسکرا کر نہیں دیا اور نہ یہ بتایا کہ اسے سارے سوال صحیح حل کرنے پر پانچ میں پانچ نمبر ملے تھے۔ جی ہی نہیں کر رہا تھا کچھ بتاتی کیسے؟ ٹامی اچھل کر جب اس سے لپٹ کر پیار جتانے لگا تو اس نے دھتکار دیا ورنہ روز وہ اس کے گلے سے لپٹ جاتی تھی اور ڈانٹ پلاتی تھی۔ ’’آج میرے اسکول کیوں نہیں آیا مجھے لینے، دیکھ میں اکیلی آئی ہوں۔ ‘‘
لیکن اس دن اس نے کچھ نہیں کہا۔ کسی طرح بھاری بستے کو اٹھائے ہوئے وہ برآمدے تک آئی۔ ممی نے چہرہ اترا ہوا دیکھا تو پوچھ بیٹھیں ’’کیا ہوا شبانہ‘‘ وہ بولی کچھ نہیں۔ صرف ممی سے لپٹ گئی۔ انہوں نے اسے چوما تھا اور چونک پڑی تھیں‘‘ ارے تیرا بدن تو تپ رہا ہے۔ بخار ہے تجھے‘‘؟ ممی نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، گیلی تھیں۔ وہ متفکر ہو گئیں۔ فوراً شبانہ کو کمرے میں لے جا کر لٹا دیا۔ پھر کمبل اوڑھا کر اس کے پاپا کو آفس فون کیا اور جب تک وہ آتے، اس درمیان انہوں نے دودھ دیا اور اس کی گڑیا کو اس کے پاس لا کر لٹا دیا۔ شبانہ چپ چاپ ایک کروٹ پڑی رہی۔
پاپا آئے ان کے ساتھ ڈاکٹر انکل بھی تھے۔ انہوں نے شبانہ کو دیکھتے ہی کہا، ’’کیا ہوا ہماری شبانہ کو؟ ارے کچھ نہیں ہوا۔ دیکھیے نا کتنی خوش ہے رانی بیٹا۔ بس ذرا تھک گئی ہے۔ ‘‘ اور انہوں نے اس کے گلابی گالوں کو چوم لیا۔ پھر تھرمامیٹر نکال کر بخار ناپا، کافی تھا۔ وہ تھوڑے فکر مند ہو گئے۔ بیگ سے دوا نکال کر دی۔ شبانہ نے ایک خوراک پیتے ہی منہ بنایا، دوا کڑوی تھی۔
پھر ڈاکٹر انکل دروازے پر جا کر پاپا کو بتانے لگے ’’فکر نہ کریں۔ معمولی بخار ہے، دوا دے دی ہے، ٹھیک ہو جائے گی۔ لیکن دیکھئے اس پر زیادہ ’’اسٹرین‘‘ نہ پڑے، جہاں تک ہو اس سے بات چیت کم کیجئے۔ کوئی اس کے پاس زیادہ نہ بیٹھے اور وہاں، دوا وقت پر دینے کا خیال رکھیئے گا۔ ‘‘ اور پھر گھوم کر ایک نظر شبانہ کو دیکھتے ہوئے وہ چلے گئے۔
اس دن کے بعد سے شبانہ بالکل اکیلی رہ گئی۔ تپتا ہوا بدن لیے چپ چاپ پڑی رہتی۔ اسکول کی کتابیں پڑھنے کو ڈاکٹر انکل نے منع کر دیا تھا۔ کھلونے سے بھی کب تک کھیلتی۔ تھک جاتی تو انہیں ایک طرف پٹک کر لیٹ رہتی۔ دائیں طرف اسٹول پر رکھی دوا کو دیکھ کر اسے گھبراہٹ ہوتی۔ اف کتنی کڑوی دوا ہے، وہ سوچتی، ممی جب بھی آتیں، اسے دوا پلاتیں، موسمی کا رس دیتیں اور جاتے وقت اس کے منہ چوم لیتیں، پھر کہتیں ’’لیٹی رہنا شبانہ‘‘ اچھی ہو جاؤ گی تو تمہارے لیے ایک بڑھیا فراک بنوا دوں گی۔ ‘‘
شبانہ بدبداتی ’’تھینکس ممی‘‘! اور انہیں جاتے ہوئے دروازے کے دوسری طرف دیکھتی رہتی۔ پاپا شام کو آتے اور اپنے ساتھ غبارے لاتے۔ لیکن افسوس کوئی بھی اس کے پاس دیر تک نہیں بیٹھتا اور تو اور وہ باتیں کرنے والا رامو چاچا بھی جب کمرہ جھاڑنے آتا تو صرف اتنا ہی پوچھتا ’’کیسا جی ہے شبو بیٹا؟‘‘ وہ کہتی اور رامو چاچا ہنس دیتا۔ پھر وہ جانے لگتا تو شبانہ کہتی بیٹھو نا رامو چاچا، مجھ سے باتیں کرو۔ ‘‘
کروں گا، ضرور کروں گا‘‘ اپنی بیٹا سے باتیں۔ اچھی ہو جاؤ۔ تم پھر ہم چڑیا گھر بھی چلیں گے۔ ‘‘ اور وہ انگوچھا کاندھے پر ڈالتا ہوا باہر چلا جاتا۔
شبانہ کو گوریا کی یاد آ جاتی، کتنے دن ہو گئے، نہیں آئی۔ کوئی گانا بھی نہیں سنا اس کا۔ ایک دن اس کی طبیعت کچھ اچھی تھی۔ گڑیوں سے الگ ہو کر وہ روشندان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تبھی اس پر گوریا آ بیٹھی۔ شبانہ اسے فوراً پہچان گئی۔ گورا بھی اسے دیکھتے ہی گانے لگی۔ شبانہ روٹھ گئی۔
’’چپ، میں تم سے نہیں بولتی۔ میں بیمار ہوں اور تو مجھے دیکھنے تک نہیں آئی۔ کہاں تھی اب تک؟‘‘
گوریا اڑ کر اس کے پلنگ کے پائینتی اور اس کی طرف اس طرح دیکھنے لگی، جیسے کہہ رہی ہو ’’مجھے معاف کر دو، شبانہ سچ مجھے پتا نہیں تھا۔ میں تو جانے کب سے تمہیں کھوج رہی ہوں۔ تمہارا اس کمرے میں ’’ٹرانسفر‘‘ ہو گیا، لیکن مجھے معلوم ہی نہ تھا۔ وہ تو کہو میں یکایک روشندان پر آ بیٹھی جو تم نظر آ گئیں۔ ‘‘
شبانہ اسے دیکھتی رہی، پھر بولی، خیر۔ لیکن اب آ جایا کرو۔ تم ہی تو میری دوست ہو میرے پاس کوئی نہیں آتا۔ ممی اور پاپا بھی اب بہت کم آتے ہیں۔ میں دن بھر اکتا جاتی ہوں تم آ کر میرا دل بہلایا کرو۔
اس دن گوریا تھوڑی دیر تک گیت گا کر چلی گئی۔ لیکن اس کے بعد وہ روز آنے لگی۔ ممی کے دوا پلا کر جانے کے بعد وہ روشندان سے اڑ کر پلنگ پر آ بیٹھتی اور گانے لگتی۔ تھوڑی دیر بعد پھر سے اڑ جاتی۔ پھر دن میں کئی بار آتی اور جاتی۔ شبانہ کا جی بہلا رہتا۔
ایک دن اس نے دیکھا، گوریا کے ساتھ ایک اور گوریا آئی، وہ دونوں تھوری دیر تک ادھر ادھر دیکھتی رہیں۔ پھر چلی گئیں۔ پھر وہ تھوڑی تھوڑی دیر پر آتی رہیں۔ شبانہ نے دیکھا کہ ان کی چونچ میں روئی، لکڑی اور ٹکڑے اور تنکے دبے رہتے تھے اور وہ اسے لے جا کر وارڈ روب پر رکھ رہی تھیں۔ شبانہ سمجھ گئی کہ وہ اپنا گھونسلہ بنا رہی ہیں اور ان میں ایک نر گوریا ہے، وہ بہت خوش ہوئی اس نے سوچا چلو، اب ان کو کہیں جانا نہیں ہوگا۔ یہ یہیں رہیں گے۔ پھر کتنا اچھا ہوگا جب ان کے پاس کوئی بے بی گوریا آئے گی۔ یہ اسے مل کر پھدکنا، اڑنا اور چگنا سکھائیں گے اور وہ اسے دیکھا کرے گی۔
جب گھونسلا بن چکا تو گوریا اور مسٹر گوریا دونوں اس کے پاس آ کر گیت گانے لگے۔ جب شبانہ سو جاتی تو دونوں لنچ کے لئے باہر چلے جاتے اور جب وہ جاگتی تو اسے گیت سناتے۔ رات میں وہ اسے ’’گڈ نائٹ‘‘ کہہ کر اپنے گھونسلے میں جا چھپتے۔ اسی طرح کتنے ہی دن گزر گئے۔ اب شبانہ کی طبیعت ٹھیک ہو رہی تھی۔ لیکن بخار نے ابھی پوری طرح پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔
ایک دن دوپہر کے وقت اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا رامو چاچا وارڈ روب کی صفائی کر رہا ہے اور دھیرے دھیرے وہ ان کے گھونسلے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ روشندان پر گوریا اور مسٹر گوریا سہمے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ شبانہ سمجھ گئی کہ وہ ڈر رہے ہیں کہ اب ان کے گھونسلے کو باہر پھینک دیا جائے گا اور ان کی ننھی بے بی اڑ کر بھاگ نہ سکے گی۔
رامو چاچا گھونسلے کے پاس ہی تھا کہ شبانہ چلائی:
’’ارے مت چھوؤ، رامو چاچا، وہ میرے دوست کا گھر ہے۔ میں نے انہیں یہاں بنانے کی اجازت دی ہے۔ ‘‘
’’اچھا بیٹی اچھا۔ ‘‘ وہ سیڑھی سے نیچے اتر آیا، پھر بولا ’’پہلے کیوں نہیں بتایا شبانہ بیٹا کہ یہ تمہارے دوست ہیں۔ ‘‘
جب رامو چاچا چلا گیا تو دونوں گوریا اڑ کر پلنگ پر آ بیٹھے۔ شبانہ نے محسوس کیا جیسے وہ کہہ رہے ہوں ’’تھینک یو۔ ‘‘
شبانہ نے اور غور سے سنا۔ وارڈ روب سے ہلکی ہلکی ’’چیں چیں‘‘ کی آواز آ رہی تھی۔ ضرور بے بی گوریا بھی ’’تھینک یو‘‘ کہہ رہی ہوگی۔
٭٭٭
ٹائپنگ: مقدس حیات
ماخذ:
http://www.siratulhuda.com/forums/archive/index.php/t-1240.html
ریختہ آرگ
وغیرہ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
OOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں