افسانوی مجموعہ
خوابوں کا ڈورا
از قلم
شائستہ مفتی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
مکمل کتاب پڑھیں …..
خوابوں کا ڈورا
شازیہ مفتی
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
مصلحت
کل صبا ملی، بہت اصرار کر کے اپنے گھر لے گئی۔ میری سہیلی بچپن کی ہمجولی جو کبھی بہت خوش قسمت لگتی تھی اور پھر وہی قسمت اسے دھوکا دے گئی تھی۔ لیکن قسمت کا کیا ہے پھر دوست ہو جائے گی موسموں کی طرح یا شاید سمندر کی موجوں کی طرح۔
چائے بناتے بناتے کہنے لگی۔
بہت دن ہوئے ایک دفتر میں گئی وہاں شہریار ڈپٹی کمشنر کی کرسی پر براجمان تھا۔ شاید اپنے کمرے کے کسی چور کیمرے سے اس نے باہر بیٹھے بدحال سائلین میں مجھے دیکھا اور پہچان گیا۔ ایک سرکاری اہلکار نے مجھے ایک چٹ دی جس پر لکھا تھا۔
’’دفتر میں تشریف لے آئیے‘‘
سرکاری اہلکار کے پیچھے پیچھے فائل سینے سے لگائے اپنے پیروں پر نظر جمائے دفتر میں داخل ہوئی۔ لمبی چوڑی میز کے دوسرے سرے پر سائے کی طرح وہ کھڑا تھا اور میں شاندار کمرے کی خنکی میں سر سے پاوں تک پسینے سے بھیگی چادر میں پاؤں پر نظریں جمائے تھی۔
’’پلیز بیٹھ جاؤ‘‘
اس کی آواز اب بھی پندرہ سال پہلے جیسی تھی گونجدار کسی صداکار فنکار جیسی۔ اور اس سے زیادہ حیران کرنے والی بروٹ پرفیوم کی خوشبو تھی۔ جو سالوں پہلے اس کو سالگرہ پر دیا تھا یاد ہے نا ہم چار سہیلیوں نے چندہ ملا کر۔
’’میں سمجھا تمہاری امّاں ہیں۔ تم بالکل ان جیسی ہو گئی ہو‘‘
اس کا سادہ سا لہجہ مجھے گہرا طنز لگا۔
’’بہت بدل گئیں‘‘
اب اس کے لہجہ میں تاسف تھا بلکہ ایسا افسوس جیسے کسی بہت عزیز کے مر جانے پر پرسا دیا ہو۔
چرمی صوفے میں دھنس کر بیٹھی سوچتی رہی کیا کہوں؟ پنکھے کی ہوا نے سر سے لپٹی چادر ذرا سی سرکا دی تھی۔ اور وہ دیکھتے ہوئے بولا
’’تم تو بالکل بوڑھی ہو گئیں بال تک سفید ہو گئے‘‘
پھر میں نے خود سے عمر میں چودہ سال بڑے مرحوم شوہر کی پنشن اور سیکورٹی پراویڈنٹ فنڈز وغیرہ کی فائل میز پر اس کے سامنے کھسکا دی جو لئے لئے سال بھر سے اس دفتر سے اُس دفتر کی خاک چھانتی لال فیتے کے ضابطوں یا شاید بے ضابطگیوں کو جھیلتی پھر رہی تھی۔
’’اوہ! بہت افسوس ہوا۔ خیر اللہ کی مرضی‘‘
’’تمہاری شادی والے دن میں کتنے گھنٹے وہیں پی سی کے سامنے کھڑا رہا تھا‘‘
’’تمہیں کم از کم مجھ سے جھوٹ نہیں بولنا چاہیئے تھا‘‘
’’تمہارے جھوٹے وعدے کی وجہ سے میں نے رات دن ایک کر دیئے تھے پڑھ پڑھ کر اور تم نے میرے رزلٹ سے پہلے شادی کر لی‘‘
مجھے کوئی جواب نہیں دینا تھا مجھے صرف فائل پر اس کے دستخط چاہیئے تھے مجھے اسے نہیں بتانا تھا کہ جب لائبریری میں مقابلہ کے امتحان کی تیاری کرتے کرتے اس نے اچانک کتابوں کاغذوں کے پلندے پر سے سر اٹھا کر مجھ سے کہا تھا
’’میں یہ سب تمہارے لئے کر رہا ہوں‘‘
میں اسے دیکھ کر مسکرا دی تھی اور اس کے چہرے پر پھیلی صبح نو کی روشنی سے جیسے لائبریری کا وہ پورا کونا روشن ہو گیا تھا۔
’’میں نے جھوٹ نہیں بولا کبھی‘‘
دستخط شدہ فائل اٹھا کر کھڑے ہوتے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دستخط سے میرے گھر کا سرد پڑتا چولہا جل جائے گا اور میرے بنیادی ضروریات کو ترستے بچّے اپنی تعلیم دوبارہ شروع کر سکیں گے یہ اس قدر بڑا اطمینان تھا جو میری روح تک کو پرسکون کر گیا۔
اور پھر اپنے پیروں سے جمی نظریں اٹھا کر اس کے کامیابی اور طمانیت بھرے وجود کو دیکھا اور اسے کہہ دیا۔
’’اگر میں تمہیں اس وقت بتا دیتی کہ میرا نکاح ہو چکا ہے تو تم آج اس کرسی پر نہ بیٹھے ہوتے۔ یہ میرا احسان ہے ساری زندگی یاد رکھنا‘‘
اور نظریں پیروں پر جمائے فائل سینے سے لگائے چادر سر سے لپیٹے دفتر سے باہر نکل آئی۔ اس نے مجھے بہت آوازیں دیں دروازے تک میرے پیچھے پیچھے آیا لیکن اس کی آواز کا جواب اب بھی نہیں دینا تھا۔ جب اس لئے نہیں دیا تھا کہ اس کا مستقبل تباہ ہو جاتا اور آج میرے اس کی آواز پر پلٹ جانے سے اس کا گھر تباہ ہو جاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیتلی سے پیالی میں انڈیلی جانے والی چائے کی بھاپ عینک کو دھندلا کر گئی تھی یا شاید میری آنکھوں میں آئے آنسوں نے منظر دھندلا دیا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
اعتبار
’’سب سے قیمتی اور کمیاب کیا چیز ہے دنیا میں‘‘
نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی دلربا سی لڑکی نے سامنے بیٹھے وجیہہ و شکیل لڑکے سے پوچھا۔
’’محبت‘‘
’’دولت‘‘
’’شہرت‘‘
’’عزت‘‘
’’صحت‘‘
وہ بولتا گیا اور دلربا انکار میں سر ہلاتی گئی
’’اچھا میں ہار گیا بتاؤ‘‘
لڑکے نے دلربا کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
’’اعتبار!!!!‘‘
دلربا لڑکے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔
’’وعدہ کرو میرا اعتبار کبھی نہیں توڑو گے۔‘‘
’’میں تمہارے لیے جان بھی دے سکتا ہوں۔ تم اعتبار کی بات کرتی ہو۔ ‘‘
کتنی دیر دونوں وہیں باغ کے گوشے میں اک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھے رہے۔ اور پھر وہ چلی گئی۔ لڑکا وہیں گھاس پر نیم دراز سگریٹ پھونکتا رہا۔ شام ڈھل گئی۔ دو اور لڑکے آئے۔ پھر دو اور۔
دوستوں کی محفل جم گئی۔
’’ہاں بتا، آئی تھی وہ تیری نیلی آنکھوں والی‘‘
ایک لڑکے نے آنکھ مار کر پوچھا
’’کہاں تک پہنچا معاملہ پٹ گئی کہ نہیں‘‘
پہلا لڑکا اکڑ کے بولا
’’ارے ہم چاہیں اور کوئی نہ پٹے۔۔۔۔ کیا ہوا کبھی ایسا؟۔ دوچار دن میں مری لے جاؤں گا چلنا تم سب بھی‘‘
باغ میں مکروہ قہقہے گونج رہے تھے اور ’’اعتبار‘‘ کی دھجیاں اڑنے کو تیار تھیں۔
٭٭٭
فرزانے ڈھونگی
زمرد کی جھلک مارتی اس باولی میں مچھلیوں کو روٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ڈالتے ہوئے رشنا نے کہا تھا
’’کیسی عجیب بات ہے!‘‘
’’کیا عجیب بات؟‘‘
میں نے پوچھا-
اس کا سپاٹ چہرہ دھوپ کی حدت سے کمہلائے گلاب ایسا تھا۔ اس کی آنکھیں —جیسے ریت اڑ رہی ہو۔ وہ میری طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھی یوں لگا جیسے میرے آر پار دیکھ رہی تھی۔
پانی کے بیچوں بیچ سب سے غصیلے ہنس راج نے معمول سے زیادہ طویل ڈبکی لگائی اور پھر دوسرے کنارے کی طرف لمبی بے مقصد پیراکی میں مشغول ہو گیا تھا۔
’’وہ دیکھو، لگتا ہے وہاں کوئی دیوار ہے پرانی۔۔۔۔۔ کسی صدیوں پرانی تہذیب کی نشانی، وہاں چلیں گے کسی دن‘‘
رشنا کی سپاٹ حسین آنکھوں میں اودے اودے بادل سے لہرا گئے۔ لیکن چند لمحوں کے لیے، پھر سے وہی نیلگوں ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور پل بھر میں بدلتا وسیع ریگزار صحرا تھا۔ دور پرلے کنارے پر کچھ سبز دھند سی تھی۔ وہاں درخت تھے اور پھر اتنا سبزہ تھا کہ پتہ نہیں چلتا تھا دیوار ہے یا پتھروں کے ڈھیر ہیں۔ بس پھر خلا اور اس کے بعد کہیں بہت گہرائی میں پتھروں سے سر پٹکتا سر کش دریا۔
’’میں وہاں گئی تھی شرجیل کے ساتھ۔ بہت ہنستا تھا وہ اسے لگتا تھا سب ڈھونگ کر رہے ہیں۔‘‘
’’کون وہ جو بھاگ گیا تھا‘‘ مجھے یاد ہے شرجیل اپنا سامان بھی چھوڑ گیا تھا سب کہتے تھے کسی سے ڈر کر بھاگ گیا۔
رشنا میری بات پر بہت زور سے ہنسی اور بہت دیر ہنستی رہی تھی۔ پھر یوں جیسے لمحوں میں اس کا چہرہ پتھر سا ہو گیا اور دھیمے سے بولی
’’وہ گندہ آدمی تھا سبز دیوار سے پرے پھینک دیا گیا، پرمل راجہ ہمارا محافظ ہے ناں‘‘
باولی کے پچھمی کنارے پانی میں ڈوبی سیڑھیاں کائی سے سیاہ پڑی جاتی تھیں۔ گہری سبز پھسلواں اگر پاوں پڑ جائے تو؟ ——– لگتا ہے رات کو یہاں پانی آ جاتا ہے اور کنارے سے تین نمبر تک کی سیڑھی پر ٹھہر جاتا ہے پھر صبح سورج نکلنے کے ساتھ پانی اترتا جاتا ہے آخر شام تک اکیس نمبر کی سبز سیڑھی نظر آنے لگتی ہے۔ عجب پراسراریت ہے۔ شاید رشنا کی سنائی کہانی سچ ہو۔ میں شروع شروع میں سیر کرنے آئی تب اسی طرح سنہری کرنوں میں گھری رشنا نے آواز دی۔ پتہ نہیں میرا نام کس نے بتایا تھا اسے۔ اس دن کناروں سے پانی چھلک رہا تھا۔ روز ہی تو بارش ہوتی ہے شام ڈھلتے ہی بادل آسمان کو لپیٹ لیتے ہیں پھر تیز جھکڑ چلنے لگتے ہیں اور بارش برستی ہے لگاتار۔ کھڑکیاں پانی کے تھپیڑوں سے لرزتی ہیں ہوائیں سیٹیاں بجاتی پھرتی ہیں اور آسمانی بجلیاں کوندے کی طرح لپکتی ہیں۔ میں کھانے کی گھنٹی بجتے ہی بڑے کمرے میں چلی جاتی ہوں اور پھر بادلوں کے کھڑکیوں کو سیاہ کر دینے سے پہلے ہی آخری گھنٹی بجنے تک واپس اپنے بستر کی پناہ گاہ میں چھپ جاتی ہوں۔ پھر بادل اور بجلیوں کا کھیل سا شروع ہو جاتا ہے۔
رشنا کہتی ہے ہم کوہ قاف میں رہتے ہیں۔ لیکن یہاں آئینے نہیں ہیں۔ شیشے بھی نہیں ہیں مجھے اپنی شکل بھول گئی ہے -میں رشنا سے پوچھتی ہوں کہ میری صورت کیسی ہے –
کیا اب بھی میرا رنگ گورا ہے – لیکن وہ جواب نہیں دیتی ہے – ایک وقت تھا کوئی میری صورت پر مر مٹا تھا – جانے وہ دن کہاں گئے – کبھی کبھار رشنا کہتی ہے میں بہت خوبصورت ہوں لیکن میرے جسم پر عجیب سے نشان کیوں ہیں؟
آور ایک دن رشنا نے کہا تھا کوہ قاف کے پری زاد شام ڈھلے یہاں آتے ہیں شروع شروع میں سب خوش ہوتے ہیں ہنستے ہیں اور پھر جونہی شام کی زردی سرمئی ہونے لگتی ہے وہ دکھی ہو جاتے ہیں دکھ ان کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہہ نکلتا ہے۔ وہ چیختے ہیں ماتم کرتے ہیں اور اتنا شور برپا کرتے ہیں جیسے طوفان ہو۔ ان کے آنسوں سے یہاں پانی بھر جاتا ہے ان کے راجہ کا نام پرمل ہے۔ وہ دھوکہ بازوں کو کڑی سزا دیتا ہے۔ مگر کچھ دھوکہ باز اپنی چالاکی سے اس کی گرفت سے نکل جاتے ہیں – وہ بھی تو ایسے ہی پھسل گیا تھا اور مجھے پتہ بھی نہ چلا تھا-
آج رشنا نہیں آئی تھی ہنس راج بھی پانی میں نہیں اترے۔ وہ دور سبز دھند میں لپٹی دیوار پر بیٹھے تھے۔ آسمان بد رنگ تھا۔ مچھلیاں پانی کی اوپری سطح تک آتیں گہرا سانس لے کر مایوس واپس چلی جاتیں میں ان کے لیے روٹی کے ٹکڑے لائی ہوں کتنی تیزی سے جھپٹ رہی ہیں کتنی بیچاری ہیں یہ، بے بس، قیدی، لیکن اس قید میں ہی زندگی ہے ان کی۔ یہاں سے باہر کچھ نہیں ان کے لیے۔
دور پانی میں زرد رنگ کا چیتھڑا سا ہلکورے لے رہا تھا۔
کل رشنا نے کہا تھا وہ یہاں آئے گی۔ جب پورا چاند ہو گا وہ۔۔۔۔۔۔ کیا نام ہے اس کا یاد آ گیا لطیف ہاں لطیف کے ساتھ۔ وہی یہ کہانیاں سناتا ہے۔ کہتا ہے پورے چاند کی رات وہ سب سچ ہو جاتی ہیں۔ کل چودھویں تھی نا رشنا نے زرد شلوار قمیض پہنی تھی کتنا پیارا دوپٹہ تھا اس کا۔ میرے پاس بھی ایسا زرد اور سنہرا جوڑا تھا اور میں نے پہنا تھا تب میرے ہاتھ ایسے نہیں تھے میرا جسم بھی اور پاؤں بھی۔ میں بہت خوش تھی کہیں جا رہی تھی پھر دھماکہ ہوا تھا پھر پتہ نہیں کیا ہوا مجھے کچھ یاد نہیں آتا۔ کوئی بھی ایسا نہیں جسے کچھ پتہ ہو۔ رشنا کو بھی نہیں معلوم۔
میں جاؤں بہت دیر ہو گئی گھنٹی بج رہی ہو گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیچھے والی جھاڑی میں زرد رنگ کا کپڑا کہاں سے آ گیا تھا۔
اور وہ کیا تھا؟ عجیب سی چیز۔۔۔ وہ کسی کا ہاتھ تھا۔ لیکن صرف ہاتھ کیوں؟ نہیں ہاتھ میں گھڑی بھی تھی۔ یہ تو اسی کی تھی لطیف کی۔ وہ انجکشن لگاتا تھا اسی گھڑی والے ہاتھ سے۔ لیکن اس کے ہاتھ اور گھڑی اور یہ زرد کپڑا وہاں تھے تو وہ کیوں نہیں نظر آ رہا تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچا جا کے بتاؤں کسی کو بارش ہونے سے پہلے پہلے ورنہ پانی اوپر تک آ جائے گا پھر تین نمبر سیڑھی پر پڑا لطیف کا دوسرا ہاتھ بھی پانی میں چلا جائے گا۔ یہ دوسرا ہاتھ مجھے اب کیوں نظر آیا تھا؟ میں کسی کو ڈھونڈتی رہی۔ ورنہ اندھیرا ہو جاتا۔
کھانے کی گھنٹی بج رہی تھی۔ رشنا باہر ہی مل گئی اس نے وہی بد رنگ سے کپڑے پہن لیے تھے سب جیسے اور میں نے اسے بتا دیا۔ لطیف کے ہاتھ گھڑی اور زرد کپڑا اٹھا لائے ورنہ وہ ڈوب جائیں گے وہ میرے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس نے کہا چپ رہوں کوئی اور اٹھا لے گا یہ کوہ قاف ہے یہاں پرمل راجہ سب کچھ کرتا ہے۔ آخری گھنٹی کے ساتھ ہم واپس اپنی پناہ گاہوں میں چھپنے جا رہے تھے رشنا کی آنکھیں کہہ رہی تھیں چپ رہو اور سوجاؤ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔ میں بہت اداس ہوں مجھے رشنا کو بتانا تھا رات کا خواب۔ بارش کی آواز کے ساتھ دھماکے سنائی دیتے رہے اور آگ کے شعلے تھے ہر طرف۔ میرے ہاتھ اور بال خواب میں بھی جل رہے تھے۔ میں بہت چیخ رہی تھی پھر ڈاکٹر ریما آ گئیں۔ بہت سارے انجکشن لگائے۔ آنکھیں بند تھیں لیکن جاگ رہی تھی مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا لیکن خواب نہیں ٹوٹتا تھا بار بار وہی بھیانک خواب۔ پھر میں نیم غنودگی میں تھی۔ ’ڈاکٹر ‘ریما نرس سے کہہ رہی تھیں ’’اب میں ٹھیک ہو جاؤں گی اور کہہ رہی تھیں مجھے سب یاد آ جائے گا جلد ہی۔ پھر مجھے واپس بھیج دیں گے ‘‘
یہ نرس کہاں سے آ گئی میں تو رشنا کو تلاش کر رہی تھی –
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی دن گزر گئے ہیں سب کہ رہے ہیں لطیف ڈر کر بھاگ گیا۔ مجھے چپ رہنا ہے مجھے اس رات ہی سب یاد آ گیا تھا۔ میں گاڑی میں تھی سڑک بہت سیاہ اور شفاف تھی وہاں بلند پہاڑ تھے اور جھرنے تھے اور پھر ایک موڑ پر شمیل گاڑی روک کر اتر گیا۔ وہاں سڑک پر ایک اور کار تھی سارہ میری سہیلی وہیں کھڑی تھی۔ میری گاڑی کا دروازہ کھل نہیں رہا تھا جام ہو گیا تھا اور لاک پھنس گیا تھا پھر مجھے ایک دم ہی جیسے سب سمجھ آ گیا۔ آنکھوں سے بہت سے پردے ایکدم ہٹ گئے۔ بہت سے واقعات جنہیں میں اپنی غلط فہمی گردانتی رہی اس وقت پوری سفاکی سے منکشف ہو گئے۔ لیکن بہت دیر ہو گئی تھی میں دوستی اور محبت میں بدقسمت ثابت ہوئی۔ شمیل اس کار میں بیٹھ گیا اور وہ دونوں چلے گئے۔ میں اکیلی سنسان راستے پر کھڑی رہ گئی۔ پھر بہت زور دار دھماکہ ہوا ہر طرف بھڑکتے شعلے تھے۔ میرے زرد کپڑے جل رہے تھے شاید گاڑی کا دروازہ کھل گیا تھا اور میں گرتی جا رہی تھی۔ پھر بس تاریکی چھا گئی۔ پھر وہ لوگ مجھے یہاں چھوڑ گئے – پتہ نہیں وہ اپنے تھے یا پرائے – یہاں رشنا میری دوست بنی مجھے پراسرار باتیں بتاتی رہی۔ باولی جو رات کو پانی سے بھر جاتی ہے۔ راجہ پرمل سب پر کڑی نظر رکھتا ہے۔ گندے لوگوں کو ان کے جرم کی سزا دیتا ہے۔ یہاں بہت معصوم خود کو بھولی ہوئی اور زمانے کی ٹھکرائی لڑکیاں رہتی ہیں ان کی حفاظت پری زاد کرتے ہیں۔ رشنا پاگل لگتی ہے بالکل۔ لیکن مجھے چپ رہنا ہے۔ مجھے لگتا ہے کئی لڑکیاں ڈھونگ کر رہی ہیں جن لوگوں کی وجہ سے یہاں تک پہنچی ہیں دوبارہ ان میں نہیں جانا چاہتی ہیں۔ آزمائے ہوؤں کو کیوں بار بار آزمایا جائے۔۔ کئی دفعہ سچ مچ لگتا ہے یہاں پریاں اور پری زاد ہیں پرمل راجہ ہے۔
موسم بدل جاتے ہیں سبز پھول پتے زرد ہو جاتے ہیں پھر ہر طرف برف کی سفیدی چھا جاتی ہے کتنے ہی موسم آئے گئے ہیں یہاں پرسکون پانیوں کی منتظر مچھلیاں، راج ہنس اور بارشیں ہیں سبز موسم ہیں خزاں کے زرد چرمرائے پتے ہیں۔ مجھے بھی باقی عمر یہیں گزارنی ہے۔۔۔۔ انتظار فضول ہے , کسی کا بھی انتظار فضول ہے۔ اب کوئی نہیں آئے گا اور منزلیں بے نشاں ہو چکی ہیں۔ بس! انتظار۔۔ اس معلوم سے کسی نامعلوم سفر کی طرف کوچ کے نقارے کا انتظار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
وہ میرا سوشیالوجی میں ایم فل کا پہلا سمیسٹر تھا۔ ’’سجیلہ خان‘‘ نے فاؤنٹین ہاؤس کی بے رنگی دنیا میں ایک افسانوی اور خیالی بہت خوبصورت دنیا بسا رکھی تھی۔ عید پر میں اس کے لئے زرد سنہری چوڑیوں کا تحفہ لے کر گئی اور جبھی میری اس سے دوستی ہو گئی۔ جس چوبی بنچ پر بیٹھ کر وہ مجھ سے باتیں کرتی کہتی کہ یہ صدیوں پرانی باولی کی سیڑھیاں ہیں۔ سادہ سے در و دیوار کو دلکش وادی کہتی۔ چڑیاں اسے مچھلیاں لگتیں۔ اس کا آگ سے جھلسا ہوا چہرہ جتنا بھیانک تھا اسی قدر اس کی آنکھیں حسین تھیں۔ میں اس سے چھپا کر ٹیپ ریکارڈر پر اس کی بے ربط گفتگو ریکارڈ کرتی گئی۔ لیکن میرا تھیسس مکمل نہ ہو سکا۔ میں سجیلہ خان پر کچھ نہ لکھ سکی۔ پتہ نہیں کیوں۔ پھر بہت سال بعد روحی بانو سے ملنے فاؤنٹین ہاؤس گئی تو سجیلہ خان کا پوچھا۔ پتہ چلا چند ماہ قبل ہی اس کی وفات ہوئی ہے۔ پرانی چیزوں میں سے ٹیپ ریکارڈر ڈھونڈ کر بار بار اس کی آواز سنتی رہی اور بس جیسے وہ کبھی سرگوشی کرتی کبھی بڑبڑاتی اور کبھی فلسفہ بولنے لگتی حرف حرف اسی طرح لکھ دیا۔ وہ فرزانہ تھی دیوانہ یا ڈھونگی میں فیصلہ نہیں کر پائی۔
٭٭٭
ہمدرد
نومبر کی رات میں پہلے پہر کی خنکی بہت خوشگوار لگ رہی تھی۔ آکاس بیل سے ڈھکی چاردیواری کے ساتھ ساتھ بہت پرانے درخت پورے باغ کا احاطہ کیے تھے گھر کی دیوار میں کہیں کہیں کوئی کھڑکی روشن تھی۔ زلیخا کے شوہر حسن کا چچازاد بھائی یوسف سالوں بعد جرمنی سے آیا تھا۔ نیلو آپا نے اس کی فرمائش پر چند دوست عشائیہ پر بلائے تھے۔ لوگ تین چار ٹولیوں میں بٹ گئے تھے اور سب اپنی باتوں میں گم۔ کئی بلانوش خالص پی رہے تھے اور پیگ پر پیگ چڑھانے کے باوجود تر و تازہ تھے کئی بیچارے نیبو پانی پی کر ہی ترنگ میں آئے جاتے تھے۔ متوسط طبقے کی زلیخا پہلی دفعہ یہ سب دیکھ رہی تھی نمکین مونگ پھلیاں پھانکتی کو یہ سب خواب سا لگ رہا تھا۔ اجنبیت اور بے مائے گی کا احساس شدید تر ہوتا جاتا تھا۔ یہاں آتے ہوئے راستہ بھر حسن ایسی محفلوں کے آداب اور شرفا و امراء کے طور طریقوں پر بلا تکان بولتا رہا تھا۔
اور اب وہ چپ کھانا لگنے کی منتظر تھی۔ فضا تکے کباب اور کوئلے جلنے کی خوشبو سے بھری تھی۔ غزلیں، نیم کلا سیکی گیت، فلمی گانے، بانسری کی دھنیں سماں باندھے تھیں پینے والے کھانے کی ضرورت سے بے نیاز تھے شاید۔ اور
سازندے اگلی فرمائش کے منتظر۔ یوسف ان سے کچھ کہہ رہا تھا کچھ گنگنا کر بتارہا تھا شاید کسی گیت کے بول۔ اور پھر ان کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ بانسری سے اک دھن اٹھی طبلے پر تھاپ پڑی اور ہارمونیم سے سُر بلند ہوئے۔ دل کو چھو لینے والا گیت۔
’’لگ جا گلے کہ پھر یہ حسیں رات ہو نہ ہو
شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو‘‘
زلیخا ایک ستون کی اوٹ میں برستی آنکھوں کو چھپاتی سن رہی تھی۔
’’تم کیوں نیر بہا رہی ہو؟‘‘
مخمور لہجے میں حسن نے پوچھا اور جواب سنے بغیر پھر کسی اور طرف متوجہ ہو گیا۔
ساز بج رہے تھے، گانے والے خوش گلو فنکار کے ساتھ یوسف بھی گارہا تھا۔ بار بار دہرا رہا تھا۔
’’شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو‘‘
بہت صبح نیلو آپا نے دستک دی۔ وہ کروٹیں بدلتی جاگ ہی رہی تھی۔
’’جلدی چلو کوئی دیکھ نہ لے اسے وہاں۔ ابھی فون آیا ہے‘‘
وہ بہت پریشان تھیں۔
’’میں بھی آ جاؤں‘‘
حسن کے منع کرنے سے پہلے ہی نیلو آپا اس کا ہاتھ تھام کر تیز تیز باہر چل دیں۔
اشرف علی گاڑی سٹارٹ کیے دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا لیکن آسمان پر لالی پھیل گئی تھی۔ چند گلیاں، ایک بڑا پل اور پھر چند گلیاں، بس اتنا سا راستہ۔۔۔۔۔۔۔۔ منٹوں میں سفید دیواروں والا گھر سامنے تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یوسف پتھر پر بیٹھا سامنے دیکھ رہا تھا۔
’’چلیں‘‘ نیلو آپا کے پکارنے پر چونک کر اٹھا اور وہ چپ چاپ ساتھ چل پڑا۔
۔۔ اس سفید گھر میں رہنے والی زلیخا کی ہم نام تھی۔ یوسف کی منگیتر اور محبت بھی۔ پھر کسی حاسد نے تیلی سلگائی۔ چاروں طرف سے مزید حاسدین جلتے شعلوں پر تیل ڈالتے رہے۔ آگ بھڑکی اور محبتوں سے بنا آشیانہ بھسم ہو گیا اور اب باقی رہ گئی پچھتاووں کی راکھ۔
سفید گھر کی فرنچ ونڈو کے پیچھے کھڑی زلیخا اور یوسف کے ساتھ بھابھی کا رشتہ نبھاتی زلیخا میں ایک اور بھی رشتہ تھا۔
’’درد کا رشتہ‘‘۔ وہ بھی یوسف کی’’ہم۔۔۔ درد‘‘ تھی۔
اور ان تینوں میں بس فرق اتنا سا تھا کی وہ کھلم کھلا رو سکتا تھا، گا سکتا تھا اور یہ دونوں اپنا اپنا دکھ اپنے اندر ہی سموئے تھیں۔
٭٭٭
چنی چچا کا سگریٹ
خود خوشیوں سے محروم لیکن دوسروں میں خوشیاں بانٹتے چنی چچا بہت پیارے انسان تھے۔ پر خلوص، ہمدرد اور بھلے مانس۔ وہ جگت چچا تھے۔ فی زمانہ امارت کی درجہ بندی میں کسی نچلے پائے پر کھڑے تھے۔ غریب تھے اور شریف بھی تھے۔ لا ولد تھے، لاکھ بہنوں بھاوجوں کے اکسانے کے بانجھ بیوی کا ساتھ نبھایا۔ وہ اللہ کی بندی بھی ایسا وفا کا امتحان لے کر گئیں بیچارے چنی چچا کو کوڑی کوڑی کا محتاج کر دیا۔ پتہ نہیں کون کون سے مرض ان بیچاری کی جان کو لگے تھے جن کے علاج کراتے کراتے سب کچھ تھوڑا تھوڑا کر کے بک گیا۔تعلیم خاص نہ تھی لیکن چنی چچا کی محنت اور خاندانی نجابت کو دیکھتے ہوئے ایک کارخانہ دار نے نو کری دے رکھی تھی یہ بھی ان کے اعتماد پر پورا اترتے۔
سنا ہے ایک دفعہ سانس گھٹنے کی شکایت ہونے لگی بیوی کو، کسی نے بتایا کشمیر میں ایک حکیم جی ہیں وہاں لے جاؤ۔ آبائی گھر بیچ کر بیوی کو لے گئے کشمیر۔ حکیم جی کی دوا میں نجانے کیا تھا تیسری خوراک نے ہی مشکل آسان کر دی۔ چار گنے کرایے پر بیگم کی میت واپس لائے۔ دنوں یاد کر کر کے روئے آخر نیک دل مالک سمجھا بجھا کر واپس نوکری پر لے گئے اور وہیں کار خانہ میں رہنے کو جگہ دے دی۔
سب کو تو چنی چچا اکیلے ہی یاد تھے۔ کیونکہ اس سانحہ کو بیتے بھی بہت برس ہو گئے تھے چھٹی کے دن سمیع اللہ صاحب کی کئی فون کالوں کے بعد آتے۔ اور آتے ہی فرماتے
’’بھائی صاحب شرم آتی ہے، قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا‘‘
شطرنج کو ترسے ہوئے انہیں لپک کر گیٹ سے وصول کرتے اور پھر ’’گئی بھینس پانی میں ‘‘
کھانے بھی وہیں چائے بھی اور چائے بھی بے تحاشا۔ بیگم صاحبہ مارے غصے کے تلملاتی پھرتیں۔ کئی عیادتیں، تعزیتیں، مبارک بادیں دینے کو چھٹی کے دن کا انتظار کرتیں اور یہاں بازی ہی ختم ہونے کا نام نہ لیتی۔
کیونکہ چنی چچا سے بہت پیار تھا صالحہ بیگم کو ان کے ممیرے بھائی تھے اور بالکل ان کے نانا صاحب کے ہمشکل اس لیے برداشت کرتیں ورنہ کوئی ایرا غیرا ہوتا تو دیوان خانے میں داخلہ بند کر دیتیں نہایت جلالی سیدانی تھیں۔
چنی چچا بچوں کے ساتھ بچے بن جاتے، کہیں گھوڑا بن کر سیر کرا رہے ہیں اور کبھی کندھوں پر اٹھائے پھرتے۔ ان کی جیبیں ہمیشہ مکھن ٹافی، چڑیا کے انڈوں اور قسمت پڑی کے پیکٹوں سے بھری ہوتیں۔ جو بچوں کو پہاڑے، آیت الکرسی، my pen وغیرہ سنانے کے بعد انعام میں ملتے۔
چنی چچا کی واحد عیاشی ان کی تفریح اور شوق سگریٹ نوشی تھی۔ ان کی بیوی مرحومہ اپنے خفقان میں سگریٹ کی بو کو بھی اپنا وہم ہی سمجھتی رہیں۔
ٹرفل فائیو سے سگریٹ نوشی شروع کرنے والے چنی چچا کو قسمت نے ایمبیسی فلٹر پر پہنچا دیا۔ ایک دفعہ تو مکھن ٹافی نکالتے ان کی جیب سے مڑی تڑی بیڑی گر گئی جسے کسی شکایتی ٹٹو نوکر نے سمیع اللہ صاحب کو پہنچا دیا۔ یا وہ اپنی اماں کی رحلت پر روئے تھے یا اب، ہتھیلی پر بیٹری دھری تھی اور اسے دیکھ دیکھ آنسو بہا رہے تھے۔ اگلی شطرنج کی بازی پر چائے کے ساتھ گولڈ لیف بھی چل رہی تھی۔ سمیع اللہ صاحب تو ایک سگریٹ سلگا کر ایش ٹرے کے کنارے ٹکا دیتے اور کھیل میں مصروف ہو جاتے اور چنی چچا پورا کھیل دخانی انجن بنے رہتے۔ جاتے جاتے بچی کھچی ڈبیا کے ساتھ ایک سر بمہر پیکٹ بھی چنی چچا کو دے دیے جاتے کہہ کر ’’تمہاری آپا روٹھ جائیں گی سگریٹ دیکھ کر اور ہاں یہ ہفتہ بھر کا کوٹہ ہے وعدہ کرو اس سے زیادہ نہ پیو گے‘‘۔
ایفائے عہد میں تو چنی چچا مثال تھے۔ صالحہ بیگم بہت خفا ہوتیں کیوں چنی چچا کو سگریٹ دیتے ہیں یہ صریحاً دشمنی ہے مگر سمیع اللہ صاحب کی نرالی ہی منطق تھی۔
’’چنی چچا کی نامراد زندگی میں اور ہے کیا اب سگریٹ سے بھی دل نہ لگائیں کیا‘‘ چنی چچا کے لیے یہ سگریٹ ہفت اقلیم سے بڑھ کر ہوتے اگلی شطرنج کی بازی تک وہ راشننگ کر کے چلتے ان کی۔
پھر قریبی عزیزوں میں ایک شادی کی تقریبات شروع ہو گئیں یہاں بھی مہمانوں کے ٹھہرنے کے لیے انتظام کیا گیا۔ ایک بزرگوار مہمان آئے لندن سے بہت سے الجھے ہوئے رشتوں میں سے آخر کار ان کو بچوں کے تایا کا عہدہ سونپا گیا کیونکہ صالحہ بیگم ان کو کسی دور کے رشتہ سے بھی اپنا بھائی یا بہنوئی ماننے کو تیار نہ تھیں۔ جرم یہ تھا ان کا کہ صالحہ بیگم سے مصافحہ کرنے کو لجلجا سا میلے ناخنوں والا ہاتھ بڑھا دیا تھا نگوڑے کاٹھے انگریز نے۔
چھٹی کے دن کا تصور شطرنج اور چنی چچا کے بغیر ممکن ہی نہ تھا۔ دھوئیں کے مرغولے کبھی فیل پر شہہ اور کبھی وزیر بچاو کے نعرے اور چائے کے خالی ہوتے بھرتے پیالے۔ اچانک ’’شہہ مات‘‘ کی جگہ check mate کے لفظ نے لے لی اور گولڈ لیف کی جگہ ویانا سگار کا دھواں چھا گیا، لیکن وہ ایک ہی سگار تھا۔ نا دہندہ خود ساختہ انگریز تایا صاحب کا جس کے بعد چنی چچا نے ان کو سگریٹ پیش کر دی۔ دگنی چوگنی رفتار سے دخانی انجن اور نامانوس الفاظ مردانہ کمرے سے بادلوں کی طرح اڑ اڑ کر بکھرتے رہے۔ اگلے دن کھانے پر شپا شپ قورمہ اڑاتے اور تافتان کے مزے لیتے تایا صاحب نے فرمایا۔
’’دیکھا آج کس طرح میں نے چنی چچا کا دل رکھا۔ قسم اللہ پاک کی ساری عمر ہوانا سگار کے کسی اور سگار تک کو منہ لگانے کے قابل نہ سمجھا مگر بیچارے چنی چچا کا دل ٹوٹ جاتا اگر سگریٹ کو منع کرتا‘‘
لیجئے یعنی کہ ایک تو چنی چچا کا ہفتہ بھر کا مال بے رحمی سے دھوئیں میں اڑا دیا اور احسان بھی تایا صاحب کا حد ہو گئی۔
واقعی دنیا میں قدر نا شناس لوگوں کی کمی نہیں۔ آس پاس دیکھیے کہیں آپ بھی کسی بے فیض کے ہاتھوں چنی چچا کی طرح اپنی قیمتی پونجی اور وقت تو نہیں لٹا رہے۔
( سگریٹ نوشی مضرِ صحت ہے )
٭٭٭
خوابوں کا ڈورا
توبہ آج تو سڑکوں پہ اتنا رش تھا یوں لگ رہا تھا سارے مرد و زن مع آل اولاد باہر نکل آئے ہیں۔ بہت پچھتائی آج خریداری کے لیے نکل کر۔ بمشکل راستہ بناتے، ہانپتے، ہاتھوں سے گرتے وزنی تھیلے سنبھالے گاڑی تک پہنچی۔ اچانک پھٹی پٹھی آواز میں ایک صدا سنائی دی۔
’’دے جا بیٹی صدقہ داتا جھولی بھر دے‘‘
ڈگی میں سامان رکھ کر مڑی تھی کہ جانی پہچانی صدا نے دھپ سے کندھے پر ہاتھ مار کر دھمکی دی۔۔۔۔۔
’’مائی کو لال نوٹ دے دے، تری گاڑی نہیں چلے گی‘‘
بھئی کیوں نہیں چلے گی گاڑی کیا لال نوٹ چابی ہے گاڑی کی، یا پٹرول ہے یا موبل آئل اور یا یہ محترمہ گاڑی سے ’’جپھا مار کر ‘‘چلنے سے روک لیں گی۔ سوچتے سوچتے بیٹھنے لگی دروازہ بند کیا۔ ابھی بٹوے سے لال نوٹ نکال ہی رہی تھی کہ ڈرائیور صاحب نے گاڑی چلا دی۔ ہٹی کٹی عورت گالیاں بکتی تھوکتی کوستی کچھ دور تک پیچھے پیچھے آئی۔
’’ارے اللہ دتہ بد دعا دے دے گی روکو گاڑی۔ ‘‘
میرے کہتے کہتے ہم بڑی سڑک تک آ چکے تھے۔
ظاہر ہے پھر ٹریفک میں بہتے چلے گئے۔ اس عورت کی آواز اور انداز جیسے ذہن سے چپک ہی تو گئے۔ ذہن بوجھل ہو گیا وہ کیا مصرعہ ہے یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں۔
یہ لہجہ سالوں پہلے سنا تھا اور یہ عورت، پھر ایک بھولی بسری یاد جیسے تازہ ہو گئی۔
’’میسا چیوسسٹس‘‘ کتنا مشکل نام تھا امریکی ریاست کا، اور وہاں سے آنے والے مہمان کیسے ہوں گے، یہ سوچ کر ہی میں بوکھلائی بوکھلائی پھر رہی تھی۔ رات گئے وہ لوگ پہنچے جب میں سو چکی تھی اور صبح میسا چیوسسٹسی حلوہ پوری کے مزے لے رہی تھیں۔
’’ارے یہ کوہ قاف کی پری یہاں کہاں آ گئی بھٹک کر‘‘
دروازے کے پیچھے سے جھانک کر دیکھتی میں سوچ رہی تھی۔ احمد بھائی کچھ براون سے تھے، شاید امریکیوں کی نقل میں دھوپ لیتے لیتے ضرورت سے زیادہ ٹین ہو گئے تھے۔ اپنے ہی کنبے قبیلے کے تھے، نازک اندام میسا چیوسسٹسی بھی پاکستانی نژاد تھیں لیکن سالہا سال سات سمندر پار رہنے سے رنگ بدل گئے تھے اور ڈھنگ بھی۔ خوش اخلاق، نرم خو اور بہت پیارے لوگ۔ شاید دس بارہ برس پہلے بھی آئے تھے لیکن اس وقت کا کچھ یاد نہیں تھا تب میں فراک کی آستین سے ناک پونچھنے والی بچی تھی، شرمیلی سی مہمانوں کو دیکھ کر چھپ جانے والی اور پھر چھپ چھپ کر دیکھنے والی۔
زارا کا دھیمے دھیمے امریکن لہجے میں بولنے کا انداز اور مورنی ایسی چال، ایک دلکش مسکراہٹ مستقل چہرے کا حصہ تھی۔ میں گھنٹوں آئینے کے سامنے ان کی نقل کرنے کی کوشش کرتی کبھی ان کی سی چال چلتی اور کالج میں لہجہ بھی زارا والا اختیار کر لیا اور ویسی ہی مسکراہٹ سجا لی چہرے پر۔ ہاں گھر میں اگر یہ سب کرتی تو خوب مذاق اڑاتے سب۔
یہ لوگ حضرت علی ہجویری داتا صاحب کے مزار پر کوئی نذر پوری کرنے جا رہے تھے۔
مزار شریف پر وہی رونق جو وہاں کا خاصہ تھی، بے تحاشا مردو زن۔ ہم عورتوں والے حصے میں دھکم پیل سے بچتے بچاتے مزار کی چوکھٹ کے ساتھ والی دیوار کی کھڑکی تک پہنچ ہی گئے۔ جمعرات تھی اس لئے بھی شاید زیادہ رش تھا کھڑکی کی سفید جالی سے ’’مرکز تجلیات‘‘ نظر آ رہا تھا۔ سفید سنگ مر مر کی جالی پر رنگ برنگے دھاگوں سے جانے کن کن عورتوں نے کیا کیا منتیں باندھ رکھی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی عورتیں مزید دھاگے باندھتی اور کئی کھولتی چلی گئیں۔
دکھوں، مصیبتوں کے مارے آنسو بہا رہے تھے، در و دیوار سے لپٹ رہے تھے جیسے یہاں کوئی معجزہ ہو جائے گا اور ان کی بگڑی بن جائے گی۔ میں تو بچپن سے یہ سب دیکھتی چلی آ رہی تھی لاہور دیکھنے بلکہ ’’لاہور آ کر جمنے والے‘‘ یہاں ضرور حاضری دیتے اور لاہورئیے میزبان راستے دکھانے، نو سر بازوں کے ہاتھوں لٹنے سے بچانے کو ساتھ ہوتے۔ ۔
زارا نے امی جان کی کالی شیشے ٹکی بڑی سی چادر سر سے پاوں تک لپیٹ رکھی تھی جس میں ان کا ملیح چہرہ یوں چمک رہا تھا جیسے سیاہ بادلوں میں چاند۔
خدا خدا کر کے ہم دونوں مزار شریف کی جالی تک پہنچیں ایک ادھیڑ عمر مشٹنڈی عورت زارا کو موٹی آسامی دیکھ عورتوں کے ریلے کو دھکیلتی آئی اور زارا کے گلے میں لال گلابوں کا ہار ڈال، لگی کھر کھراتی آواز میں نعرے مارنے
’’بیٹی دے جا صدقہ داتا تیری مراداں پوری کرے‘‘
اچانک زارا نے پلٹ کر اسے دیکھا۔
عجیب جن گزیدہ لگ رہی تھیں وہ اس وقت سفید چہرہ وحشت زدہ لال بھبوکا ہو رہا تھا، آنکھوں سے بھل بھل آنسو بہہ رہے تھے اور ہاتھ ایک بہت سی گانٹھیں دے کر بندھا ڈورا نوچ رہے تھے۔ وہ ہاتھ سے نہ کھلا تو دانتوں سے کاٹ ڈالا۔ عجیب جنون سا تھا ان کے رویے میں۔
ایک معقول عورت خاصی امیر دکھنے والی صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی، جنون زدہ زارا کی توجہ اس کی طرف ہو گئی۔
مشٹنڈی عورت کی آئی شامت اور نعرہ بلند کر بیٹھی۔
’’بی بینوں حال آ گیا جے‘‘
ہسٹیرک زارا نے جھاڑو چھین دوچار جھاڑو اس کے جڑ دیے تھے اور وہ کمال استقامت سے پٹ رہی تھی۔ عجب صورت حال تھی۔
زارا امی جان کی چادر سے باہر ہو چکی تھیں اور چادر بیچاری کٹی پتنگ کی طرح جانے کہاں تھی۔ ہلکے با دامی رنگی ریشمی زلفیں کندھوں پر جھول رہی تھیں۔ نارنجی جوڑا اور گلے میں گلابوں کا ہار پہنے زارا بی عجیب پھٹی پھٹی آواز میں کسی دوسرے سیارے کی زبان بول رہی تھیں۔
اور میں اتنی دیر سے ستون سے چپکی کھڑی تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس وقت مجھے سو فیصد یقین ہو گیا تھا کہ زارا پر کوئی آسیبی چیز آ گئی ہے۔ اچانک سیل فون کی آواز سن کر جیسے میں ہوش میں آئی دوسری طرف احمد بھائی تھے جو کہہ رہے تھے زنان خانے کے دروازے پر منتظر ہیں۔
ہمت کر کے بڑھی ایک بی بی کے ہاتھ سے کلمے لکھی چادر جھپٹی، میسی چیوسسٹسی چڑیل پر ڈالی اور ہاتھ گھسیٹ بمشکل عقیدت مندوں کے ہجوم سے زارا کو نکالا۔ جھاڑو کے تنکوں پر عورتیں ٹوٹ پڑی تھیں تنکا تنکا چھین جھپٹ رہی تھیں۔
احمد بھائی کلمے لکھی چادر میں چھپی زارا کو تقریباً گھسیٹتے مزار کے احاطے سے باہر نکلنے کی کوشش میں تھے اور ایک ہجوم تھا جو پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا۔
گھر پہنچ کر زارا خاموشی سے مہمان خانے میں چلی گئیں اور کھانے پر بھی نہ آئیں، احمد بھائی شرمندہ کھڑے تھے مجھ سے روئیداد سن کر۔
دوسرے دن ان لوگوں کی واپسی تھی۔ ہلکی سی دستک دے کر زارا کمرے میں آئیں۔ اس مشٹنڈی عورت کے لہجے نے آج زارا اور ان کا مرجھایا ہوا چہرہ اور ایک ایک لفظ یاد کرا دیا جسے وقت نے دھندلا دیا تھا۔
’’میں شرمندہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کل جو کچھ ہوا۔ پتہ ہے کیا، میں وہاں منت باندھ کر گئی تھی بہت سال پہلے اولاد کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب میری شادی کو چھ سال گزر گئے تھے۔ منت تو پوری ہوئی۔۔۔۔۔۔۔ اولاد بھی ہو گئی۔۔۔۔۔ لیکن احمد کی دوسری بیوی سے۔۔۔۔۔۔۔ احمد وہ منت بڑھانے آئے تھے اب۔۔۔۔۔۔ اور وہ جو موٹی عورت تھی اسی نے ڈورا باندھنے کو کہا تھا، میں نے اسے بہت سارے پیسے بھی دیئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بھول جانا میری بہن پلیز‘‘
زارا میرے ہاتھ تھامے اسی نرم لہجے میں کہہ رہی تھیں اور میں گنگ تھی۔ خواب ڈورے باندھنے منتیں ماننے سے کب پورے ہوتے ہیں یہ تو مرضی کے مالک ہیں جس جھولی میں جا اتریں۔
٭٭٭
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں