اردو تحریر میں اردو ادب کا پہلا آن لائن جریدہ
سہ ماہی
سَمت
شمارہ ۶۴
اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۴ء
مدیر: اعجاز عبید
ڈاؤن لوڈ کریں
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
اردو تحریر میں اردو ادب کا پہلا آن لائن جریدہ
سَمت
شمارہ ۶۴
اکتوبر تا دسمبر ۲۰۲۴ء
مدیر: اعجاز عبید
سرورق کی تصویر: مریم تسلیم کیانی
اداریہ
مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔
آپ کے اپنے جریدے ’سَمت‘ کا چونسٹھواں شمارہ پیش خدمت ہے جو اس بار کچھ تاخیر سے شائع ہو رہا ہے، جس کی معذرت۔ اس کا ذکر بعد میں۔
مصنوعی ذہانت دنیا کے پر میدان میں انقلاب برپا کر رہی ہے۔ ادب اور بطور خاص اردو ادب کے میدان میں اس کی فتوحات کس حد تک ممکن ہیں، اور اس سلسلے میں ادیب اور فن کار کتنا فائدہ یا نقصان اٹھا سکتے ہیں، اس قسم کے سوالات کے حل تلاش کرنے کے لئے اس شمارے میں ایک خصوصی گوشہ شامل کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ مواد معلوماتی ثابت ہو گا اور پسند خاطر ہو گا۔
اس عرصے میں دو احباب نے ملک عدم کی شہریت اختیار کر لی، آفتاب اقبال شمیم اور سلیمان خمار۔ ان پر مختصر گوشے بھی شامل ہیں۔
مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ میری کوششوں کے باوجود مجھے خاطر خواہ تعاون نہیں مل رہا ہے، اور بنیادی وجہ یہی رہی ہے جو یہ شمارہ یکم اکتوبر کو شائع نہیں ہو سکا ہے۔ ورنہ اب تک تو میں اس کوشش میں کامیاب رہا ہوں کہ ہر سال کا پہلا شمارہ یکم جنوری، پھر یکم اپریل، یکم جولائی اور آخری شمارہ یکم اکتوبر کو شائع ہو۔
اور ایک اہم بات یہ کہنی ہے کہ افسوس کے ساتھ یہ بھی اطلاعاً عرض ہے کہ زیر نظر شمارہ آخری شمارہ ہے جو اسی پابندی سے شائع ہو رہا ہے۔۔ اس فیصلے کی کئی وجوہات ہیں، ایک بات تو کہی جا چکی ہے کہ احباب کا تعاون خاطر خواہ نہیں مل سکا ہے۔ ماضی میں کئی بار کئی احباب کو شریک مدیر یا معاون مدیر کے طور پر شامل کرنا چاہا تاکہ کچھ دوسرے ذرائع سے بھی معیاری مواد دستیاب ہو سکے اور میں بھی کچھ محنت سے بچ جاؤں۔ اس شمارے کے لئے بھی کچھ احباب کا تعاون درکار تھا جو مصنوعی ذہانت پر عمدہ تجربے کر رہے تھے۔ مگر۔۔۔۔
ایک اہم سبب میری اپنی بصارت کی خرابی بھی ہے جو سفید کاغذ یا سفید سکرین پر دن کے وقت پڑھنے میں، دونوں آنکھوں کا کیٹریکٹ (موتیا بند) کی سرجری کے باوجود، مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ موبائل فون/ٹیبلیٹ پر تو جہاں ممکن ہو جاتا ہے، میں نائٹ موڈ یا ڈارک تھیم منتخب کر لیتا ہوں، مگر ہر اطلاقیے میں یہ ممکن نہیں۔ سوچا تھا کہ آخری شمارے میں ہی جمع شدہ سارا متنی مواد پیش کر دوں لیکن اب یہ سوچا ہے کہ باقی سارا مواد ایک مخصوص شمارے میں پیش کر کے آپ سے مکمل اجازت لوں۔
بہر حال فی الحال تو اس تحریر سے اجازت لے لوں!
ا۔ ع
٭٭٭
عقیدت
نعت ۔۔۔ وحید احمد
نعت کہنے کی جسارت کی ہے۔ قلم کانپتا ہے۔ نعت کی مہک سورہ آل عمران کی آیت 61 یعنی آیت مباہلہ سے کشید کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ نعت آزاد نظم میں ہے۔
’’تم اپنے مرد لے آؤ
ہم اپنے مرد لاتے ہیں
تم اپنی عورتیں لاؤ
ہم اپنی عورتیں لاتے ہیں
اور پھر خود کو لے آؤ
ہم اپنے خود کو لاتے ہیں
تمہیں ہم یوں بلاتے ہیں۔۔۔۔۔!!!‘‘
یہ جو نجران سے نصرانیوں کا وفد آیا ہے
بڑا ہنگام لایا ہے
چنیدہ
سربرآوردہ بشپ اور پادری
انجیل کے حافظ
پرانے عہد نامے کے مفسّر اس میں شامل ہیں
نہایت شان و شوکت اور شکوہ و تمکنت ہے
سطوت و جبروت ہے
بس جس طرف دیکھو
ہر اک فرغل میں موتی ہیں
ہر اک جبّے میں تارے ہیں
ہر اک کی ریشمی چادر میں سونے کے شرارے ہیں
یہ جب پلّو جھٹکتے ہیں
تو جھلمل اس قدر بوچھاڑ کرتی ہے
کہ گلیوں میں مچلتی ریت کے ذرے چمکتے ہیں
مدینے کے در و دیوار پر جگنو دمکتے ہیں
انہیں کتنی سہولت ہے
کہ سارے مسجد نبوی کے اندر
رو بہ مشرق ہو کے اپنے عہد نامے کی عبادت کر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو آغاز کرتی ہے
جو اک جانب ہر اک برہان پر مہرِ نبوت ثبت ہے
تو دوسری جانب
مسیحی گردنوں میں بھاری مالائیں ہیں
جن میں گفتگو کرتی صلیبیں جھولتی ہیں
جھنجھناتی ہیں
تو پھر تثلیث اور وحدانیت کی بحث طولانی ہوئی
اور حجتی لہجوں میں شدت آ گئی
اب پیشتر اس کے
کہ کج بحثی در آئے
خَلطِ مَبحث بات کی منطق پراگندہ کرے
تو طے ہوا
کہ اب ترازو درمیاں لانی پڑے گی
جو بھی جھوٹا ہو
اسے اپنی ہلاکت کی قسم کھانی پڑے گی (Imprecation تو بس اک duel ہوتا ہے
کہ اس میں ایک جانب کی ہلاکت لازمی ہے)
طے ہوا آخر
تم اپنے مرد لے آؤ
ہم اپنے مرد لاتے ہیں
تم اپنی عورتیں لاؤ
ہم اپنی عورتیں لاتے ہیں
اور پھر خود کو لے آؤ
ہم اپنے خود کو لاتے ہیں
مباہَل اپنی بیٹھک شہر سے باہر لگاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر
یہ دیکھنے والوں نے دیکھا
ایک جانب ساٹھ نصرانی
چنیدہ علم سلطانی
صحیفوں کی عبارت میں اتر کر آسماں کی سیڑھیاں چڑھتے
فلک پیما
مقدس آیتوں کی راہداری میں سفر کرتے
مسافر
شہر سے باہر کھلے صحرا میں بیٹھے ہیں
یہی وہ لوگ ہیں
جو حال ماضی اور آئندہ کو
اپنے علم کے ہاون میں رکھ کر پیستے ہیں
اور پھر اس کا سفوف
آبِ حیات اور سوم رس میں گھول کر پیتے ہیں
روشن ہو کے وہ
کون و مکاں کو ایک خط پر اس طرح سے دیکھتے ہیں
جس طرح تحریر ہو
جیسے کوئی تصویر ہو
پھر دیکھنے والوں نے دیکھا
دوسری جانب
اچانک روشنی نے اپنی مٹھی کھول دی ہے
اور پانچوں انگلیاں چمکار دیتی ہیں
تو ایہم نے کہا:
’’اے حارثہ بن علقمہ!
یہ کون بچہ ہے جو ان کی انگلی تھامے چل رہا ہے؟
ہو بہو ان سا ہے
یوں لگتا ہے ان کا ہاتھ تھامے ان کا بچپن چل رہا ہے‘‘
بشپ حارث یہ سن کر مسکرایا
اور بولا:
’’سیدی!
یہ تو شباہت کا اثاثہ ہے
نواسہ ہے۔۔۔۔!!!‘‘
تو پھر عاقب نے پوچھا:
’’قیس بتلاؤ
شب معراج جیسی اون کی کالی عبا سے جھانکتا
یہ کون بچہ ہے
جو ان نے گود میں لپٹا کے رکھا ہے
اور اس بچے کے پیاسے ہونٹ کتنے خشک ہیں
اب دیکھئے
حلقوم پر اک چیر آ جاتا ہے
اور جب دیکھئے
اڑتے فرشتے ہاتھ کے پھاہے سے
گردن کے لہو کو صاف کرتے ہیں۔۔۔؟‘‘
خویلد قیس سے پہلے ہی بول اٹھا:
’یہ ظلمت کے مقابل روشنی کا استغاثہ ہے
نواسہ ہے۔۔۔۔۔!!!‘
اوس بن حارث نے پوچھا:
’’سیدی ایہم!
یہ بی بی کون ہے
جو ان کے پیچھے
ان کے نقش پا پہ اپنے پاؤں دھرتی آ رہی ہے؟
اور کلائی کے کڑے میں
آستیں سے جھانکتی
جنت کے دروازوں کی ساری چابیاں لٹکی ہوئی ہیں
جن کے گردا گرد
فردوسِ بریں کے جھنڈ سے چلتی ہوا مہکار دیتی ہے
وہ چلتی ہے تو اس کی آستیں جھنکار دیتی ہے‘‘
تو ایہم نے کہا:
’’پیارے
رئیل اسٹیٹ اس کی ہے
یہ جس نے کہکشاؤں سے بنی چادر لپیٹی ہے
یہ بیٹی ہے۔۔۔۔!!!‘‘
خویلد نے کہا:
’’یہ کون ہے
جو سب سے پیچھے آ رہا ہے
جس طرح طوفان آتا ہے؟‘‘
تو عاقب نے کہا
’’بھائی
یہی تو ہے
جو سب کچھ ہے
یہ جب یلغار کرتا ہے
تو دیو اندام دروازوں کی کیلیں ٹوٹ جاتی ہیں
یہ جب نہج البلاغہ میں قدم رکھتا ہے
تو مد مقابل کی دلیلیں ٹوٹ جاتی ہیں۔۔۔۔۔!!!‘‘
’’یہ کِن کا کوندتا کنبہ ہے
کن کا ہے؟‘‘
’’یہ ان کا ہے۔۔۔۔!!!‘‘
’’یہ کس کا خاندان آتا ہے
صحرا جن کے قدموں سے لپٹ کر آج رشکِ آسماں ہے
یہ پریوار اس طرح سے پاؤں دھرتا ہے
کہ جیسے کوئی فاتح
اپنے مفتوحین کی سہمی ہوئی گلیوں میں چلتا ہے
یہاں تو نوریوں کے نور دیتے پنکھ جلتے ہیں
سو بہتر ہے
کہ ہم نجران چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!!‘‘
٭٭٭
نعت پاک ۔۔۔ رؤف خیرؔ
سر آنکھوں پہ سب اُن کا کہا میرے لیے ہے
کیا کیا نہیں میرے لیے کیا، میرے لیے ہے
اندیشہ ہے کوئی نہ بھٹک جانے کا خدشہ
بس آپؐ کا نقشِ کفِ پا میرے لیے ہے
تھامے ہوئے چلتا ہوں جو اللہ کی رسّی
یہ دین یہ دنیا بخدا میرے لیے ہے
فرمان ِ الٰہی ہو کہ دامانِ محمدؐ
میں اِس کے لیے ہوں ،یہ سدا میرے لیے ہے
ستّار وہ بے ستر جو ہونے نہیں دیتا
الفاظ و معانی کی قبا میرے لیے ہے
کیا کرنا نہیں ہے کبھی، کیا کرنا ہے کھُل کر
یہ منہجِ راضی بہ رضا میرے لیے ہے
ہر غیر کو رد کر نے کی توفیق عطا کی
یہ منصب ِ اعلیٰ بخدا میرے لیے ہے
کیا چاہیے اب اور بھلا اِس کے علاوہ
دروازہ شفاعت کا کھُلا میرے لیے ہے
میں خاک میں ملنے کے لیے خیرؔ نہیں ہوں
سچ پوچھو تو راہِ شہداء میرے لیے ہے
٭٭٭
گاہے گاہے باز خواں
تاریک گوشے ۔۔۔ ڈاکٹر محمد حسن
وہ مر چکا تھا، اس کی ہڈیاں بھی اب تہہ خاک گل سڑ کر برابر ہو چکی تھیں ، ریحانہ بھی اب اسے بھول چکی تھی حالانکہ وہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں تھی۔ برسات کی تنہا تاریک اور پر شور راتوں میں جب کبھی اس نے اپنے دل کی ہوک کا تجزیہ کیا اسے کسی نہ کسی شکل میں محمود ضرور یاد آیا اور وہ رنگین لمحے بھی جو ان دونوں نے ایک ساتھ گزارے تھے۔ وہ تمام دن رات جب وہ وقت اور ماحول کے سارے تصورات ان دونوں کی ذات میں کہیں گھل مل گئے تھے۔ بس فضائے بسیط ایک طویل و عریض خلا کے سوا اور کچھ نہ تھی اور یہ دونوں اپنے سارے ارضی رشتے توڑ کر گویا اسی الگ تھلگ سی دنیا میں پرواز کر رہے تھے۔ محمود مر گیا اور ریحانہ کو کچھ دن تک زندگی اور اس کی رفتار کے ایک دردناک احساس کے علاوہ اور کچھ بھی یاد نہیں رہا اور اب اس زمانے کے زخم بھی مندمل سے ہو گئے تھے۔ ان میں کسک اور ٹیس بھی اب اٹھتے اٹھتے تھک گئی تھی۔ وقت اور واقعات نے اب انھیں ایک دوسرے سے جذباتی حیثیت سے بہت دور کر دیا تھا۔ ریحانہ کو بھی یہ بات معلوم تھی لیکن نہ وہ اس پر یقین کرنے کے لیے تیار تھی اور نہ اس پر عمل کرنے کو۔
اب اس کی زندگی جامد، ساکت اور بے حس و حرکت ہو کر رہ گئی تھی۔ واقعات کے سارے پہلوؤں پر اس نے سنجیدگی سے غور کرنا شروع کر دیا تھا اور اس قدر سنجیدگی سے کہ کبھی کبھی وہ خود ہی اس سے گھبرا اٹھتی تھی اور ادھر ادھر کی باتیں سوچنے لگتی۔ لڑکیوں کو پڑھانے میں اب وہ ایک قسم کی تسکین اور زندگی محسوس کرتی کہ اس کے لیے زندگی کی یہی ایک علامت باقی رہ گئی تھی ورنہ سونا، اٹھنا، کھانا، پینا اور تھکی تھکی بے دلی کی باتوں میں تو پورے اطمینان سے وقت گزارنا بہر حال بہت دشوار تھا۔ اس کی سہیلیاں اور دوست بہت کم تھے اور جو تھے وہ بھی اس سے بہت زیادہ قریب نہ تھے نہ وہ ان کے بارے میں زیادہ جاننے کی خواہش مند تھی اور نہ اس کی یہ خواہش تھی کہ اپنی زندگی کے بارے میں لوگوں کو بتلاتی اور جتلاتی پھرے۔ اسے یہ تماشہ ہمیشہ نہایت بیہودہ اور بچکانا معلوم ہوتا تھا۔ دوستی کا مفہوم صرف اسی قدر تو ہے کہ دو انسان ایک دوسرے کو دیکھیں ان کی فطرتیں اپنی اندرونی ہم آہنگی کی وجہ سے ایک دوسرے کو پسند کریں اور اگر یہ دو انسان اپنی دوئی کو اسی طرح برقرار رکھنا چاہیں تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ اس کے دوستوں کے لیے یہ بات قابل اطمینان نہیں تھی لیکن وہ اپنے کو دوسری طرح تسکین دیتے تھے انھوں نے اسے دوستی کے لیے صرف اس لیے پسند کیا تھا کہ اس کی مضمحل طبیعت اور تھکے تھکے سے چہرے کے نقوش زندگی کے شور، ہنگامے اور شوخی کبھی کبھی بہت ہی بھلے لگتے تھے جو ہوسٹل کی ساری لڑکیاں شور مچاتیں تو وہ اپنے برآمدے میں نکل آتی اور بڑی پر سکون اور با وقار آواز میں انھیں خاموش رہنے کی تاکید کرتی اور اپنے کمرے میں چلی جاتی۔ وہ جہاں کبھی کبھی اپنی اس تھکن سے گھبراتی تھی، وہاں کبھی زندگی کی اس باقاعدگی سے خوش بھی ہوتی تھی اور اس میزان کے برابر رہنے پر خاموش ہو جاتی تھی جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہی ہو رہا ہے اور ٹھیک نہیں ہو رہا ہے تو بھی چلنے دو یہی دنیا کا دستور ہے اور ہم اور آپ اسے ماننے کے لیے مجبور ہیں اسے بدل دینے سے بھی کیا فائدہ؟
وقت یوں ہی گزرتا رہا، اب اسے محمود کی یاد کبھی نہیں آتی تھی اور اگر خود محمود بھی اب قبر سے نکل آتا تو وہ اس کا خیر مقدم اسی سرد مہری اور خاموشی سے کرتی، جذبات کو اس نے جس کامیابی سے راکھ میں چھپا دیا تھا اب اسی کامیابی سے ان کا باہر آنا ممکن نہیں رہا تھا۔
ایک سہ پہر کو بہت تھکی ہوئی کالج سے لوٹی، آج اسٹاف کا کوئی اہم جلسہ تھا، اس طویل جلسے میں شرکت اور کام کی زیادتی سے بہت تھک گئی تھی، گرمی کا زمانہ تھا وہ لوٹ آئی تو برآمدے میں صوفے پر نیم دراز ہو کر اخبار دیکھتی رہی۔ اخبار سے اسے کبھی دلچسپی نہیں رہی بلکہ کبھی کبھی وہ حیرت کرتی تھی کہ آخر ان حکومتوں اور ان کے چلانے والوں میں اتنی تازگی اور زندگی کہاں سے آتی ہے کہ وہ لمبی لمبی جنگیں چھیڑتے ہیں اور نہیں تھکتے۔ پھر صلح کر لیتے ہیں پھر لڑ لیتے ہیں لیکن تھکن میں وہ اخبار کی سرخیوں پر کسی قسم کا غور و فکر نہیں کر رہی تھی۔ کئی بار پنکھے کی ہوا سے اس کے بال اڑ اڑ کر اس کے گالوں پر لہرائے لیکن اس خود سپردگی کے عالم میں اس میں اتنی سکت نہ تھی کہ انھیں پھر سے درست کر سکے۔ یوں ہی وقت گزرتا رہا۔
آج ہوسٹل میں ملاقات کا دن تھا۔ ایک جیپ دروازے پر آ کر رکی۔ اس کی آواز سے وہ چونکی اور سنبھل کر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اٹھ کر اندر چلی جائے کہ ایک کپتان نے آتے ہی سلام داغ دیا۔ کپتان صاحب رابعہ سے ملنے آئے تھے۔ رابعہ ہوسٹل میں کافی حسین لڑکی سمجھی جاتی تھی۔ وہ اس کی بڑی بڑی آنکھیں دائیں بائیں پڑی ہوئی لمبی لمبی چوٹیاں اور کھنچے ہوئے ابرو— اور یہ کپتان بھی تو حسین تھا اسے فوراً یہ احساس ہوا جیسے اس نے اسے اس سے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ وہی مسکراہٹ ، وہی ترشی ہوئی مونچھیں ، وہی نشیلی آنکھیں ، وہی توانا بازو، کپتان واقعی حسین تھا۔ اس نے کپتان سے پرچہ لکھنے کو کہا۔ پرچہ اس سے لیا، پڑھا، کپتان ظفر مسعود۔ پھر جاتے جاتے یوں ہی غیر شعوری طور پر اسے وہ پلٹ کر دیکھنے والی تھی کہ اس نے اپنے آپ کو روکا اور ذرا سا ٹھٹھک کر اسٹڈی میں چلی گئی اور اپنی ڈاک دیکھتی رہی۔ اس دن اسے دو ایک مرتبہ رابعہ کا خیال آیا لیکن بات آئی گئی ہو گئی۔
٭
ایک دن اسے پھر کپتان ظفر کا پرچہ ملا۔ وہ رابعہ سے ملنے آیا تھا۔ اس نے چپراسی کو پرچہ دے دیا اور رابعہ کو بلا لانے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر کے بعد رابعہ آئی۔ آج وہ شوخ رنگوں کی ساری اور کانوں کے خوش رنگ آویزوں میں کسی چابک دست اور شوخ رنگ مصور کی تصویر معلوم ہو رہی تھی۔ دروازے پر ٹھٹھکی اور کچھ دیر ساڑی کا پلو مروڑتی رہی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا اور اسی رعب اور با وقار آواز میں کہا۔ ’’رابعہ تم آسکتی ہو۔‘‘ اور رابعہ اندر آ گئی اس نے بتایا کہ کپتان ظفر مسعود آج اسے اپنے ساتھ سنیما لے جانا چاہتا تھا اور وہ اجازت مانگنے آئی ہے۔ عام طور پر وہ لڑکیوں پر زیادہ روک ٹوک رکھنے کی قائل نہیں تھی، غالباً اس میں بھی اس کی بے تعلقی اور بے توجہی کے منفی جذبے کو دخل تھا۔ اصول کو نہیں مگر رابعہ کو اس نے پلٹ کر دیکھا پھر خود ہی نہ جانے کس جذبے کے ماتحت کہا : ’’رابعہ بیٹھ جاؤ۔ اچھا ہوا تم آ گئیں۔ مجھے تم سے ایک بات کہنا تھی۔ دیکھو ہفتے میں ملاقات کے کتنے دن ہوتے ہیں۔‘‘
رابعہ نے جواب دیا ’’چار‘‘
’’اور اس ہفتہ کپتان صاحب کتنی مرتبہ تم سے ملنے آ چکے ہیں۔‘‘
رابعہ خاموش رہی۔
اس نے خود ہی جواب دیا ’’میرا خیال ہے یہ ان کا پانچواں پھیرا ہے۔ تم عقل مند لڑکی ہو۔ تم میری اور اپنی دونوں کی ذمہ داریاں سمجھ سکتی ہو۔ میرا خیال ہے کہ تمھارا ان کے ساتھ پکچر جانا مناسب نہیں۔ عجلت کسی چیز میں مناسب نہیں۔ کیا خیال ہے۔‘‘
رابعہ کچھ دیر خاموش رہی ’’لیکن میں ان سے پہلے اپائنٹمنٹ (Appointment) کر چکی تھی۔‘‘
اس نے ذرا تندہی سے کہا۔ ’’تو پھر مجھ سے کیوں پوچھنے آئی تھیں۔‘‘
رابعہ خاموشی سے واپس چلی گئی۔
اس کے بعد مدت تک کپتان صاحب رابعہ سے ملنے نہیں آئے۔
٭
اس زمانے میں رابعہ اور کپتان کے بارے میں ہوسٹل اور کالج میں ادھر ادھر کی افواہیں اڑنے لگیں۔ اڑتے اڑتے اس کے کان تک بھی پہنچیں۔ ایک مرتبہ وہ ایک جلسے سے واپس آ رہی تھی تو اس نے کپتان کو مشتبہ حالت میں دیکھا تھا۔ رات کافی گزر چکی تھی وہ ایک بار سے شراب پی کر نکلا تھا۔ اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے اور اس کے ساتھ ایک اینگلو انڈین لڑکی اٹھلاتی اور لڑکھڑاتی ہوئی چل رہی تھی۔ اس کی موٹر جب ان دونوں کے قریب سے گزری تو اس لڑکی کے نقوش اس اڑتی ہوئی موٹر سے چغتائی کے کسی تصویر کی طرح نیم واضح مگر حسین لگے اس کے بالوں کی لٹیں کس حسن سے بکھری ہوئی تھیں اور اس انتشار میں اس کے چہرے کے خد سکو خال کس خوبی سے مدغم ہو گئے تھے ، کپتان کے ٹوٹے پھوٹے انگریزی گانے کی آواز اسے دور تک سنائی دی۔ ایک لمحے کے لیے اس کا ذہن موٹر سے ہٹ کر ٹھنڈی ہوا کے اس جھونکے کی جانب متوجہ ہو گیا جو ابھی کار سے پیدا ہوا تھا۔ اس نے آج تک نیم شب کے ان روح افزا اور جاں فزا جھونکوں کا تصور نہیں کیا تھا۔ اسے خیال آیا کہ ترتیب ہی ترتیب زندگی نہیں ، انتشار اور بے ترتیبی بھی ایک شان ہے جیسے اس لڑکی کے بال اور خدوخال اور اس کپتان کی ابھی تک بیدار رہنے والی آنکھیں اور لڑکھڑاتی ہوئی چال۔
صبح اٹھی تو طبیعت کسل مند تھی۔ اس کی نیند پوری نہیں ہو سکی تھی۔ کالج جانے کے لیے رابعہ ہوسٹل کے برآمدے سے گزری تو اس نے اسے پکار لیا۔ ’’رابعہ‘‘ وہ چلی آئی۔
’’تم کہاں جا رہی ہو، رابعہ‘‘ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ رابعہ کالج کے سوا اور اس وقت کہاں جا سکتی ہے۔
’’کالج۔‘‘
اور سنو— وہ تمھارے کپتان صاحب اب تم سے ملنے نہیں آتے۔‘‘
رابعہ خاموش رہی۔
پھر وہ خود ہی ہنس پڑی ’’میرا یہ مطلب نہ تھا کہ تم ان سے بالکل قطع تعلق کر لو۔ اچھا اب اگر وہ آئیں تو تم ان کے ساتھ پکچر دیکھنے جا سکتی ہو۔ سمجھیں !‘‘
گفتگو ختم ہو گئی اس گفتگو کے دوران میں اس نے پہلی مرتبہ غور کیا کہ رابعہ کے خد و خال کیا واقعی دلکش اور حسین ہیں اور اگر ہیں تو کیا اس اینگلو انڈین لڑکی سے بھی زیادہ۔ رابعہ کی ہنسی اس قدر دلنواز نہ تھی، اس کے ابروؤں میں وہ کشش نہیں ، بال اس کے ضرور اچھے ہیں لیکن ان میں وہ لہر نہیں تو کیا یہ لہر اس اینگلو انڈین لڑکی کے بالوں میں تھی؟ اسے خیال آیا کہ محمود اس کے اپنے بالوں کی کس قدر تعریف کیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے ریحانہ کے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھا کرتے ہوئے کہا تھا۔ ’’کوئی بتاؤ کہ وہ زلف خم بہ خم کیا ہے۔‘‘ پھر اسے خیال آیا کہ اس اینگلوانڈین لڑکی کے خد و خال در حقیقت بہت مدھم سے ہیں ، ان میں وہ تابناکی نہیں لیکن وہ بات تو رابعہ میں بھی کچھ کم معلوم نہیں ہوتی اور جب اس نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو سامنے لگے ہوئے قد آدم آئینے سے وہ جھینپ گئی۔ تابناکی اسے کہتے ہیں۔ یہ خیالات کا ایک بے ربط سلسلہ تھا جو یوں ہی آیا اور گزر گیا اور جس کے ربط کا اسے کبھی بھی احساس نہ تھا۔
٭
اس رات وہ بہت دیر تک جاگتی رہی، ابر چھایا ہوا تھا اور آسمان پر رہ رہ کر چاند اور ابر کی آنکھ مچولی ہو رہی تھی، گرمی بھی ختم ہو گئی تھی۔ ہوا سے تسکین کا احساس ہوتا تھا۔ اسے رہ رہ کر محمود کا خیال آ رہا تھا۔ آج نہ جانے کیوں وہ پچھلی باتیں یاد کر رہی تھی۔ گھبرا کر وہ ہوسٹل کے احاطے میں ٹہلنے لگی، دیو دار کے اونچے اونچے پیڑوں کے بنتے اور مٹتے سائے عجیب منظر دکھا رہے تھے۔ پھلواری سے نکل کر ایک سائے نے اس کے بازو پکڑ لیے۔
’’رابعہ— رابعہ— رابعہ ڈیئر۔‘‘
اور اس کے منہ سے شراب کا بھپکا آیا اور چاندنی کی ہلکی سی دھند میں اس نے پہچان لیا کہ کپتان ظفر اس پر جھکا ہوا ہے۔ وہی مضبوط شانے ، وہی چوڑا سینہ، وہی ترشی ہوئی مونچھیں۔ وہ گھبرا سی گئی لیکن جلد ہی اس نے اپنے کو سنبھال لیا اور اس با وقار آواز میں کہا ’’میں رابعہ نہیں ہوں۔‘‘
’’اچھا— خیر، نہ سہی۔ تم رابعہ سے اچھی ہو۔‘‘
اور وہ اپنے کو چھڑا کر واپس لوٹ آئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔
خواب میں اس نے دیکھا آئی ایم ایس انڈین میڈیکل سروس کے کسی افسر کے سینے سے وہ اپنا سر لگائے ہوئے سسکیاں بھر بھر کر رو رہی ہے۔ وہ باوجود کوشش کے اس افسر کی صورت نہ پہچان سکی نہ اسے صبح اٹھنے پر یاد آئی ہاں وہ وردی کے موٹے اور واضح بٹن اور چوڑے چکلے سینے کا خیال البتہ دھندلا دھندلا سا تھا۔
اس شام کپتان ظفر رابعہ سے ملنے آیا۔ رابعہ نے غالباً اسے بتایا ہو گا کہ ظفر کے بارے میں اس کی وارڈن کی رائے میں کوئی خوشگوار تبدیلی ہوئی ہے۔ کپتان نے اس سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اس نے بھی اس میں کوئی حرج نہ دیکھا اور جب رابعہ نے اسے بلا لینے کو کہا تو وہ راضی ہو گئی۔ کپتان نے تعارف کے بعد رسمی الفاظ میں اس کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔ وہ گفتگو میں ہمیشہ کی طرح سرد مہر رہی، گفتار میں جوش اور حرارت وہ کہاں سے لاتی؟
اسی طرح دن گزرتے رہے گرمی اور بڑھی، امتحان کے دن قریب آ گئے۔ رابعہ اور خود وہ بھی امتحان کے سلسلے میں ذرا زیادہ مصروف ہو گئی۔ کپتان صاحب کم آتے تھے۔ ایک آدھ مرتبہ آئے تو رابعہ کو مصروف پایا، اس سے بھی ملاقات کی اور اس کے ڈرائنگ روم میں کچھ دیر بیٹھے تصویروں کی اور اس کی خوش مذاقی اور خوش سلیقگی کی تعریف کرتے رہے جیسے جیسے وہ باتیں کرتا جاتا تھا ریحانہ کو اس بات کا احساس ہوتا تھا کہ خود اپنے خیالات اس سے کس قدر ملتے ہوئے ہیں۔ ہر بات کہہ کر بے پرواہی سے مسکرا دینے کا انداز اسے بہت پسند تھا۔ رابعہ کا امتحان ختم ہوا اور وہ چلی گئی لیکن کپتان صاحب ریحانہ کو ملنے آتے رہے ، اتنی ملاقاتوں کے بعد وہ بھی ذرا بے تکلف ہو چلی تھی، اس نے باتوں باتوں میں کپتان سے کہا۔
’’کپتان صاحب، زندگی کے وہ گوشے بھی کتنے حسین ہوتے ہیں جو ہر نظر سے چھپے رہیں۔‘‘
’’جی ہاں۔ میں تو ہمیشہ سے حسن کی ’شب تابی‘ کا قائل ہوں۔‘‘
’’شب کے ساتھ نہ جانے آپ کے کون کون سے تصورات وابستہ ہیں۔ مجھے تورات کے ساتھ ہمیشہ شرابیوں ، چوروں اور بدمعاشوں کا خیال آتا ہے۔‘‘
وہ زیر لب ہنسا، اس نے چائے کا ایک گھونٹ لیا پھر کہا ’’شب اور حسن کے تصور کو آپ اتنا محدود کیوں کرتی ہیں۔ بدمعاشوں ، شرابیوں اور بد کرداروں کی تاریکی میں بھی آپ حسن کیوں نہیں پاتیں۔‘‘ پھر وہ یکایک خاموش ہو گیا اور گفتگو بے ڈھنگے طریقے پر ختم ہو گئی۔
پھر رابعہ کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔ کپتان نے بتایا کہ رابعہ اس کی بہن کی سہیلی ہے اور وہ رابعہ کے بالوں سے بہت مرعوب ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان گپھاؤں میں جادو کے نہ جانے کتنے ایلورا اور اجنتا چھپے ہوئے کسی کولمبس کا انتظار کر رہے ہوں گے جو انھیں دریافت کرے۔ پہلی مرتبہ ریحانہ کو رابعہ کی بد صورتی کا احساس ہوا، ایک لمحے کے اندر ہی اندر ریحانہ نے رابعہ کو بڑھتے بڑھتے کافی عمر تک پہنچتے دیکھا۔ اس فوٹو گروپ میں جو ہوسٹل کی سب لڑکیوں کا کھنچا تھا رابعہ کس قدر بدھو بنی خاموش کھڑی تھی، اس کے بالوں میں نہ کوئی گپھا معلوم ہوتی تھی نہ ان سے کسی کولمبس کے انتظار کا انداز معلوم ہوتا تھا۔ مرد بھی عجیب و غریب شے ہے ، ذرا سی بات کو ایسا لے اڑتا ہے کہ توبہ ہی بھلی۔ جسے چاہے عرش پر چڑھا دے اور جسے چاہے زمین پر دے پٹکے۔
٭
اور جب ایک دن اچانک اسے کپتان کا خط ملا تو اسے بڑا اچھا لگا۔ کتنے دنوں بعد اس کی زندگی میں یہ نیلے لفافے داخل ہو رہے تھے۔ کپتان نے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا۔ اس نے لکھا تھا۔
’’میری ریحانہ … تم کتنی اچھی ہو۔ کیا تم میرے لیے کوئی وقت نکال سکتی ہو آج شام کو۔‘‘
اس کو تخاطب کا یہ انداز بہت برا لگا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس پر احتجاج کرے گی اور کپتان کو تنبیہ کر دے گی اور جب شام کو وہ آیا تو نہ جانے کیوں وہ کافی دیر پہلے سے اس کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے اویاما کی تصویر کو جو مدت سے اس کے بکس میں پڑی ہوئی تھی۔ فریم میں لگا کر کمرے میں سجایا تھا۔ خود بھی نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے تھے خود ہی اسے خیال آیا تھا کہ آخر وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے ، جواب میں اسے یہی بات معلوم ہوئی کہ یوں بھی وہ کبھی کبھی شلوار، دوپٹہ پہن لیا کرتی ہے ، آج ہی کیا خصوصیت ہے ، تصویر لگانے کو آج صبح ہی سوچ چکی تھی، اگر وہ خط نہ بھی آتا تو بھی تصویر تو بہر حال لگتی ہی۔ جب وہ آگیا تو ایک دم اس کا دل دھک سے ہو گیا اور چہرے پر رنگ کی کئی لہریں پیاپے گزر گئیں ، اب وہ اس کے لباس کی تعریف کرے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔ تصویر کی تعریف کرے گا اور اس نے تعریف کی، جواب میں اس نے سرسری باتیں کہہ کر بات ٹال دی۔ اسے انداز تخاطب ’میری ریحانہ‘ بھی یاد آیا۔ کتنی بار اس نے اپنے اعصاب پر زور ڈال کر اور ساری قوتیں مجتمع کر کے کوشش کی کہ وہ اسے تنبیہ کر سکے لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی۔
یوں ہی سلسلہ چلتا رہا، ریحانہ کے چہرے پر خود اس کی زندگی میں ایک قسم کی تازگی سی آ چلی تھی۔ وہ ایک مرتبہ اس کے ساتھ اور اس کے بغیر بھی کلب اور کافی ہاؤس بھی گئی۔ کچھ لوگوں سے ملی جلی بھی اور ان سوسائٹیوں میں اس نے اپنے کو ہنسنے پر مائل پایا، اب وہ سوچتی بھی کم تھی اور جب سوچتی تھی تو اس نتیجے پر پہنچتی کہ زندگی کا کوئی تنگ نظر جائزہ یا حد بندی نہیں کی جا سکتی۔ اسے سیر کرنا ہے ، دیکھنا بھالنا ہے ، سیکھنا اور تجربہ کرنا ہے ، آج پہلی بار ٹینس اور بیڈ منٹن کا مقصد اس کی سمجھ میں آیا تھا۔ کپتان تین چار روز سے نہیں آیا تو وہ نہ جانے کیوں متفکر اور اداس سی ہو جاتی اس کا سبب اسے بھی معلوم نہ تھا۔ اس کے خط سے عجیب سی خوشی اس کے آنے سے مسرت، اس کا تو اسے بھی احساس تھا لیکن اس کی غیر حاضری میں ایک خاص قسم کے ذہنی بوجھ کے معنی وہ نہ سمجھ پائی تھی۔ اس نے اسے کچھ موسمی یا اپنی صحت کے اثرات پر محمول کیا یا کوئی اور بات ہوتی ہو انسان پر کتنے ہزار عکس پڑتے ہیں ان کا شمار ممکن ہی نہیں۔
ایک مرتبہ باتوں باتوں میں کپتان نے نیلے رنگ کی تعریف کی اس رنگ میں کس قدر خاموش تکلف اور کتنی گہرائی ہے ، تیسرے چوتھے دن جب وہ اپنے لیے ساری پسند کر رہی تھی تو نہ جانے کیوں اسے نیلے رنگ کی ساری ہی پسند آ گئی لیکن ساری کی پسند اور ناپسندیدگی سے ہوتا ہی کیا ہے؟ ادھر دو ہفتے سے وہ اپنے میں ایک ذہنی خلا محسوس کر رہی تھی۔ عجیب ایک بے دلی سی تھی، طبیعت ہر چیز سے اچاٹ تھی، اس نے بہت کچھ سوچا، کچھ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ ہاں جب ان دو ہفتوں کے بعد کپتان لوٹ کر آیا تو وہ شگفتہ سی ہو گئی، اس کی ساری بے دلی اور اچاٹ پن جاتا رہا تو کیا یہ اس کے آنے کی وجہ سے ہوا؟ اس کا اسے احساس نہ تھا۔
٭
کالج کھلنے کا زمانہ قریب آ رہا تھا اور مصروفیات رفتہ رفتہ بڑھ رہی تھیں ، ہوسٹل کے داخلوں کے فارم دیکھتے دیکھتے وہ بہت تھک گئی تھی اور بستر پر لیٹتے ہی اس کی آنکھیں لگ گئیں ، اٹھی تو تساہل کی کیفیت میں پڑی پڑی مختلف باتیں سوچتی رہی، یہ بھی کہ استقلال بھی کتنی بڑی طاقت ہے ، مثلاً اس کا اپنا استقلال محمود اور صرف محمود سے وہ عمر بھر محبت کرتی رہی ہے اور اسی محبت میں اپنی زندگی گزار دے گی۔ رومان اور ازدواج کے سارے تصورات کو یوں ہی تھپک تھپک کر سلاتے ہوئے۔
تھوڑی دیر بعد کپتان صاحب آئے اور پرچہ بھجوانے کے عوض خود ہی ایک دم برابر والے کمرے میں آن دھمکے۔ وہ اس قدر خستہ حالت میں کپتان سے ملنا نہیں چاہتی تھی، سلوٹوں سے بھرے ہوئے ملے ولے کپڑے ، بکھرے ہوئے بال اور بے دھلا منہ۔ کپتان اسٹڈی کے دروازے میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اس مدت میں گھبرا کر اٹھی تھی، ساری کا پلو اور آنچل سنبھالتی رہی اور جھینپی ہنسی ہنستی رہی، وہ چاہتی تھی کہ کپتان کو اس کی نا معقول حرکت پر ڈانٹے لیکن ڈانٹنے کا لہجہ وہ نہ بنا سکی اور بیچ میں کئی بار مسکرا دی۔
’’آپ ایک دم یہاں کیسے چلے آئے۔‘‘
کپتان بڑے اطمینان سے سگریٹ پیتا رہا پھر بولا ’’میں ترتیب سے کبھی کبھی گھبرا جاتا ہوں۔ مجھے انتشار اور بے ترتیبی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘
’’خوب‘‘ وہ پھر مسکرائی ’’اچھا اب ڈرائنگ روم میں بیٹھیے نا۔ میں ابھی آئی۔ میں ابھی سو کر اٹھی ہوں۔‘‘
منہ دھوتے اور ساری تبدیل کرتے ہوئے اسے بار بار اپنے پر غصہ آتا تھا، اف کتنا برا ہوا کپتان نے اسے کس حالت میں دیکھا، اب وہ اپنے جی میں کیا کہتا ہو گا وغیرہ۔
کپتان سے بات چیت ہوتی رہی، بات چیت میں اس نے ریحانہ کو پکچر چلنے کی دعوت دی۔ راکسی میں کوئی مشہور فلم چل رہی تھی وہ جھجکی، ایک لمحے کے لیے اسے وہ شام یاد آئی جب اس نے رابعہ کو کپتان کے ساتھ پکچر جانے سے منع کرایا تھا کیونکہ کپتان اس ہفتے اس سے پانچ مرتبہ ملنے آ چکا تھا۔ اس نے بات کو ٹالنے کی کوشش کی لیکن بات بہت واضح اور صاف تھی اس لیے ٹل نہ سکی اور پھر وہی تذکرہ چھڑ گیا، وہ پکچر جانا مناسب نہیں سمجھتی تھی لیکن نہ جانے کیوں گفتگو اور حالات کی رفتار رفتہ رفتہ ’نہیں‘ کے عوض ’ہاں‘ کی طرف جا رہی تھی۔ کپتان نے اور بھی اصرار کیا وہ تیار ہو گئی اپنی کار نکلوانے کو کہا۔ کار برآمدے سے کچھ دور ہوسٹل کی سڑک پر اس پھلواری کے قریب کھڑی تھی جہاں ایک چاندنی رات کو ایک پرچھائیں نے اس کا بازو پکڑ لیا تھا۔ وہ کار کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ اس کی ساڑی کا پلو ایک کانٹے میں الجھ گیا۔ وہ اسے چھڑا کر کار میں جا بیٹھی اور خود چلانے لگی۔
آج مال پر بہت بھیڑ تھی۔ کار ہی کار نظر آتے تھے۔ سڑک بھری ہوئی تھی۔ شاید کسی بیمہ کمپنی کا افتتاح ہونے والا تھا۔ اسے کار کو کنارے ہی روکنا پڑا اور جب وہ دونوں اترے تو فوراً ہی اسے خیال آیا کہ اس کنارے ایک روز رات کو سامنے والے بار سے نکلتے ہوئے کپتان سے اس کی مڈ بھیڑ ہوئی تھی۔ رات گئے نشے سے وہ لڑکھڑاتے ہوئے قدم اور اینگلو انڈین لڑکی کے پریدہ خد و خال اسے کیسے بھول سکتے تھے وہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹھکی۔ آج بھی کپتان کے ساتھ ایک عورت تھی انگلو انڈین نہ سہی، اسی راستے سے وہ راکسی پہنچ گئے۔ جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو اندھیرا ہو چکا تھا۔ وہ دو ایک کرسیوں سے ٹکرائی، کپتان نے اس کے ننگے بازوؤں کو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا اور وہ ٹٹولتے ٹٹولتے اپنی سیٹ تک پہنچ گئے۔ پکچر کے دوران میں بھی کئی بار کرسیوں کے بازو پر ان کے ہاتھ ٹکرائے اور پھر انھیں ننگے بازوؤں پر اس کی انگلیاں ایک لمحے کے لیے چھو گئیں۔
پکچر کے بعد وہ دونوں سنیما کے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر چائے پینے لگے اور ہندوستانی فلم سازوں کے نکمے پن اور انگریزی فلموں کی برتری پر باتیں کرنے لگے۔ ایک اچھا انگریزی فلم عام طور پر لوگوں کو اسی قسم کے مباحثوں پر اکساتا ہے۔ ریحانہ نے کہا ’’کپتان اس فلم میں کتنا سکون تھا، کتنی ترتیب تھی۔‘‘ کپتان اپنی سوچ میں مصروف رہا پھر کچھ وقفے کے بعد اس نے کہا ’’ہاں کتنا سکون تھا، کتنی ترتیب تھی‘‘ اور پھر کچھ سوچنے لگا۔ ریحانہ اس کے غور و فکر سے گھبرا اٹھی۔
’’آخر تم کیا سوچ رہے ہو کپتان … ظفر۔ جیسے وہ صرف ظفر ہی کہنا چاہتی تھی اور کپتان اس کے منہ سے غلطی سے نکل گیا ہو۔ کپتان نے اسی فکر آلود لہجے میں کہا ’’ریحانہ … میں بھی اس انتشار اور بے ترتیبی سے تھک گیا ہوں‘‘ اس مرتبہ ریحانہ خاموش رہی اور کچھ سوچتی رہی، غالباً اس بے وقت کی فلسفہ طرازی کے بارے میں۔
کپتان کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اسی فکر آلود لہجے میں کہنے لگا۔ ’’میں سوچتا ہوں مجھے بھی ترتیب کی ضرورت ہے ، سکون کی ضرورت ہے۔‘‘ اور پھر جیسے کسی کوشش کے زیر اثر اس کا چہرہ دمک اٹھا ہو اس نے کہا ’’ریحانہ ہم تم ایک دوسرے سے کتنے قریب ہیں ، ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے ہیں ، اگر ہم شادی کر سکیں تو …‘‘
ریحانہ کا چہرہ بھبھک اٹھا۔ زندگی کا اتنا بڑا ذخیرہ، جذبات کی یہ تابناک روشنی کئی برس بعد آئی تھی۔ کچھ دیر وہ بولنے کی کوشش کرتی رہی۔ پھر ایک دم جیسے کہ اس نے سب کچھ اگل ڈالا ہو وہ چلا کر بولی ’’تو کیا میں تم سے محبت کرتی ہوں۔‘‘ وہ غصے میں اٹھ کھڑی ہوئی اور تیز تیز قدم بڑھاتی ہوئی راکسی سے باہر نکل گئی۔ کپتان نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا اسی فکر آلود انداز میں سگریٹ پیتا رہا۔
ماخذ: ماہنامہ آج کل، دسمبر 1948ء
٭٭٭
غزل ۔۔۔ راجہ مہدی علی خان
تمہاری اُلفت میں ہارمونیم پہ میرؔ کی غزلیں گا رہا ہوں
بَہتّر اِن میں چھُپے ہیں نشتر جو سب کے سب آزما رہا ہوں
بہت دنوں سے تمہارے جلوے ‘خدیجہ مستور’ ہو گئے ہیں
ہے شکرِ باری کہ سامنے اپنے آج پھر تم کو پا رہا ہوں
لحاف ‘عصمت’ کا اوڑھ کر تم فسانے ‘منٹو’ کے پڑھ رہی ہو
پہن کے ‘بیدی’ کا گرم کوٹ آج تم سے آنکھیں مِلا رہا ہوں
تمہارے گھر ن۔ م راشدؔ کا لے کے آیا سفارشی خط
مگر تعجّب ہے پھر بھی تم سے نہیں مَیں کچھ فیضؔ پا رہا ہوں
بہت ہے سیدھی سی بات میری نہ جانے تم کیوں نہیں سمجھتیں
قسم خدا کی کلام غالبؔ نہیں مَیں تم کو سنا رہا ہوں
تمہاری زلفِ سیہ پہ تنقید کس سے لکھواؤں تم ہی بولو!
‘شِری عبادت بریلوی’ کو میں تار دے کر بُلا رہا ہوں
مَیں تم پہ ہوں جاں نثار اخترؔ قَسَم ہے ‘منشی فدا علی’ کی
بہت دنوں سے میں تم پہ ساحرؔ سے جادو ٹونے کرا رہا ہوں
اگر ہو تم ‘ہاجرہ’ تو پھر مجھ سے مل کے ‘مسرور’ کیوں نہیں ہو
تمہارے آگے ‘اوپندر ناتھ اشک’ بن کے آنسو بہا رہا ہوں
حسیں ہو زہرہ جمال ہو تم مجھے ستا کر نہال ہو تم
تمہارے یہ ظلم ‘قرۃالعین’ کو بتانے میں جا رہا ہوں
مِری محبت کی داستاں سُن کے رو پڑے جوشؔ مِلسیانی
سُکھا کے پنکھے سے ان کے آنسو ابھی وہاں سے مَیں آ رہا ہوں
مِری تباہی پہ چھاپ دیں گے ’نقوش‘ کا ایک خاص نمبر
طفیلؔ صاحب کے پاس سارے مسودے لے کے جا رہا ہوں
وزیر آغاؔ پٹھان ہیں ساتھ ساتھ یاروں کے یار بھی ہیں
پکڑ کے وہ تم کو پیٹ دیں گے میں کل انہیں ساتھ لا رہا ہوں
‘حکیم یوسف علی’ نے جب میری نبض دیکھی تو رو کے بولے
جگرؔ ہے زخمی تباہ گردے یہ بات تم سے چھُپا رہا ہوں
ملیح آباد آج جا رہا ہوں مَیں جوشؔ لاؤں کہ آم لاؤں
ہیں دونوں چیزیں وہاں کی اچھّی مَیں لاؤں کیا تِلمِلا رہا ہوں
فسانۂ عشق مختصر ہے قسم خدا کی نہ بُور ہونا
فراقؔ گورکھپوری کی غزلیں نہیں مَیں تم کو سُنا رہا ہوں
مِری محبت کی داستاں کو گدھے کی مت سرگزشت سمجھو
میں ‘کرشن چندر’ نہیں ہوں ظالم یقین تم کو دِلا رہا ہوں
جو حکم دو ‘واجدہ تبسّم’ کا کچھ تبسّم میں تم کو لا دوں
تمہارے ہونٹوں پہ غم کی موجوں کو دیکھ کر تلملا رہا ہوں
پِلاؤ آنکھوں سے تاکہ مجھ کو کچھ آل احمد سرورؔ آئے
بہت ہیں غم مجھ کو عاشقی کے بِنا پئے ڈگمگا رہا ہوں
٭٭٭
یاد رفتگاں
زین کہانیاں ۔۔۔ سلام بن رزاق
تالیف و ترجمہ: سلام بن رزاق
پیشکش و ٹائپنگ: احمد نعیم
آواز
ایک زین سادھو کا انتقال ہو گیا۔ اُس کے آشرم کے پاس ایک اندھا بوڑھا رہتا تھا۔ اُس نے مرنے والے کے تعزیتی جلسے میں کہا
’’میں پیدائشی اندھا ہوں اس لیے لوگوں کو جذبات کو اُن کے چہرے سے نہیں آواز سے پہچانتا ہوں۔ عام طور پر میں جب کس کو مبارکباد دیتے ہوئے سنتا ہوں تو اُس کی آواز میں پوشیدہ حسد کی گونج بھی مجھے سنائی دیتی ہے۔ جب کسی کو تسلی دیتے ہوئے سنتا ہوں تو اُن لفظوں میں پوشیدہ ریا کاری بھی عیاں ہو جاتی ہے۔ جب کسی کو تسلی دیتے ہوئے سُنتا ہوں تو اُن لفظوں میں پوشیدہ ریا کاری بھی مجھ پر عیاں ہو جاتی ہے لیکن مرحوم کو میں نے جب بھی سُنا اپنے جذبہ کے تئیں صادق پایا۔
جب وہ کسی کو مبارک باد دیتا، تو اندر سے باہر تک خوش ہوتا۔ جب دُکھ جتاتا تھا تو سچ مچ دُکھی ہوتا تھا۔
٭٭
پرارتھنا
زین گُرو بال سین کے پاس ایک موچی آیا اور اُس نے بال سین سے کہا:
’’میں بڑی مشکل میں پڑ گیا ہوں۔ میں غریب آدمی ہوں۔ بارہ تو میرے بچے ہیں بیوی ہے بوڑھا باپ ہے اور بیوہ بہن ہے۔ ان سب کا بوجھ مجھ پر ہے۔ میں جوتا بنانے کے سوا کچھ نہیں جانتا۔ صبح سے کام میں لگ جاتا ہوں اور رات گئے تک کام کرتا ہوں۔ ورنہ گھر کا خرچ چلانا مشکل ہو جائے۔ ایسی حالت میں بھلا میں کب تک پرارتھنا کروں؟ ؟‘‘
بال سین نے کہا ’’جب تو جوتا بناتا ہے تو عبادت کی ضرورت کیا ہے؟ بس جوتا بنا وہی تیری پرارتھنا ہے اور جو گاہک آتا ہے وہی تیرا پرماتما ہے‘‘
٭٭٭
نا دریافتہ کی دریافت، حمید شاہد کے گھر ۔۔۔ نصیر احمد ناصر
(یہ کالم آفتاب اقبال شمیم کی کلیات کی تقریب اجرا پر 2016ء میں لکھا گیا تھا۔ آج ان کی رحلت پر ان کی یاد میں دوبارہ پیش ہے)
افسانہ نگار اور نقاد محمد حمید شاہد کا فون آیا تو میں سمجھ گیا کہ کوئی ہنگامہ ہائے تقریب ہو گا۔ حمید شاہد خلاق ادیب ہیں لیکن دوسروں کی پذیرائی میں بھی پیچھے نہیں رہتے بلکہ آگے آگے ہوتے ہیں۔ ان کے گھر کا تہ خانہ ادیبوں اور شاعروں کا ’چائے خانہ‘ ہے۔ البتہ راقم کو انہوں نے اس سلسلے میں مکمل استثنا دیا ہوا ہے۔ خیر میرا خیال درست نکلا لیکن یہ کوئی ہنگامِ دوستاں یا محض تقریبِ ملاقات نہیں تھی، جناب آفتاب اقبال شمیم کی کلیات ’نا دریافتہ‘ کی تقریبِ تقسیم تھی۔ جس کام کے لیے نظم نگاروں میں سے کسی کو پہل کرنی چاہیئے تھی اس کا اہتمام، صد مرحبا، حمید شاہد نے کر ڈالا۔ تھوڑی دیر بعد سعید احمد کی طرف سے بھی دعوتِ شمولیت آ گئی جو اس کلیات کے مرتب اور دیباچہ نگار ہیں اور نئی نسل کے اہم نظم گو ہیں۔
آفتاب اقبال شمیم اردو نظم کی تاریخ کا طویل ترین جاری باب ہیں یعنی صحیح معنوں میں زندہ لیجینڈ ہیں۔ ان کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ عمرِ رواں کی آٹھ دہائیاں گزار لینے کے باوجود ان کے ہاں تخلیقی تھکن کے آثار نہیں۔ وہ اتنے ہی تازہ کار ہیں جتنے اپنی پہلی نظم میں تھے۔ ورنہ ان کی عمر تک آتے آتے اکثر شاعر یا تو تخلیقی طور پر غیر فعال ہو جاتے ہیں یا معاصر شاعری سے ہم آہنگ نہیں ہو پاتے اور اپنے آپ کو دہرانے لگتے ہیں۔ آفتاب صاحب کا شمار ترقی پسندوں میں ہوتا تھا۔ تھا اس لیے کہ کسی بھی خالص اور روحِ عصر کے متقابل شاعر کے لیے ترقی پسندی کی روایتی اصطلاح اب بے معنی ہو چکی ہے۔ جس طرح سچا تخلیق کار زبان کے تابع نہیں ہوتا بلکہ زبان اس کے تابع ہوتی ہے اسی طرح وہ نظریے کا بھی تابع نہیں ہوتا بلکہ نظریہ اس کے تابع ہوتا ہے۔ آفتاب صاحب کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ ان کی شاعری آگے نکل گئی ہے اور نظریہ پیچھے رہ گیا ہے۔ انہوں نے کبھی نظریے کو شاعری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ ہاں، ہر اچھے تخلیق کار کی طرح نظریہ ان کے شعری فکری نظام کے بطنِ بطون میں موجود اور کار فرما ضرور رہا ہے۔ کیونکہ زندگی بذاتِ خود ایک نظریاتی حقیقت ہے۔ آفتاب صاحب کی بیشتر نظمیں داستانِ زیست کے کسی نہ کسی مکمل کردار کی عکاس ہیں۔ یہ وصف بہت کم شاعروں میں ہے۔ اب یہ نقادوں کا کام ہے کہ وہ ’نا دریافتہ‘ کے شعری، معنوی، فکری، لسانیاتی اور فنی محاسن دریافت کریں۔ لیکن بدقسمتی سے اردو کے ناقدین شاعر کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ جب تک اس کا مزار نہیں بن جاتا تنقید کی کتابوں اور نصابوں میں اس کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔
در اصل نقادوں کے لیے رفتگان پر لکھنا آسان ہوتا ہے۔ بنے بنائے سانچوں اور طے شدہ نصابوں کے مطابق کام کرنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے نہ زیادہ محنت لگتی ہے۔ جبکہ نئی تنقید، نئی شعریات، نئے موضوعات، نئی زبان، نئے شعری عناصر اور نئے شاعر کی تفہیم و تعبیر کارِ مشکل اور کار جوئی ہے۔ ہمارے نقادوں کا ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ ان کا سارا زور مغرب سے ترجمہ یا درآمد شدہ نظری و فکری مباحث پر رہا یا ان کی توجہ نصابی اور معاشی مفادات پر مرکوز رہی۔ غالب اور اقبال سے قطع نظر، انہوں نے بہت وسعتِ نظر دکھائی تو جدید نظم کے بنیاد گزاروں میرا جی، نم راشد کو در خورِ اعتنا سمجھ لیا اور اس سے آگے آئے تو فیض اور مجید امجد میں اقلیمِ نظم کا ہر علاقہ شامل کر دیا۔ اب صدیاں منانے کا سلسلہ چل پڑا ہے، جس سے بعض نقادوں، پروفیسروں، سرکاری ادبی سماجیات کے ڈیرے داروں اور بیرونِ ملک کے چند ادبی شعبدے بازوں کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ لیکن یہاں جس شاعر کی بات ہو رہی ہے وہ عمر کی نویں دہائی میں ہے یعنی ایک زندہ صدی سامنے موجود ہے۔ جس کا شعری اثاثہ مقدار میں میرا جی، نم راشد اور مجید امجد سے کہیں زیادہ ہے اور معیار میں کسی بھی طرح کم تر نہیں۔ کیا ضروری ہے کہ اس کے رفتہ و گزشتہ ہونے کا انتظار کیا جائے، ہزار سال بعد اس کی صدی منائی جائے۔ جانتے بوجھتے کسی کو تاریخ اور وقت کے فیصلے پر چھوڑ دینا ادبی بد دیانتی اور تنقیدی نارسائی کے سوا کچھ نہیں۔ نقاد اگر رفتگان کی صدیوں میں سے صرف چند سال ہی زندہ شاعروں ادیبوں کے لیے وقف کر دیں تو اردو تنقید کا رخ ایک بڑے انقلاب کی طرف مڑ سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ تخلیق اور تخلیق کار کی بازیافت زمانوں سے ماورا ایک دائمی عمل ہے، لیکن سامنے موجود زمانہ حال کے نابغہ شاعر کو کیوں پس پشت ڈالا جائے؟ ہمارے نقادوں کی تان میرا جی سے شروع ہوتی ہے اور مجید امجد پر آ کر ٹوٹ جاتی ہے۔ ان کے لیے مذکورہ شعرا تر نوالہ ہیں، روزی روٹی کا وسیلہ ہیں، گریڈوں اور ترقیوں کا زینہ ہیں۔ وہ کم از کم اپنی ریٹائرمنٹ تک تو آگے نہیں آئیں گے۔ تحلیق کاروں کے لیے عمروں کی حد مقرر کریں گے، ان کی موت تک خاموش رہیں گے۔ پھر ان کے مقبروں کی مجاوری سے شہرت، عزت اور رزق کمائیں گے۔ حالیہ برسوں میں جتنا ادبی رزق نقادوں نے مجید امجد سے کمایا ہے شاید ہی کسی اور سے کمایا ہو۔ یہی مجید امجد جب زندہ تھا تو ان کے لیے کھوٹا سکا تھا، اب مرنے کے بعد سونے کے انڈے دینے والی مرغی ہے، حالانکہ مجید امجد تو وہی ہے جو اپنی زندگی میں تھا اور اس کا لکھا ہوا بھی وہی ہے جو اُس وقت تھا جب وہ بقیدِ حیات تھا۔ اب آفتاب اقبال شمیم کو مجید امجد کیوں بنایا جا رہا ہے؟ کیوں نہ ان کو زندگی ہی میں وہ مقام دیا جائے جو مجید امجد کو بعد از مرگ ملا۔
کلیات میں آفتاب صاحب کے چھ شعری مجموعے، فردا نژاد، زید سے مکالمہ، گم سمندر، میں نظم لکھتا ہوں، ممنوعہ مسافتیں اور سایہ نورد بالترتیب یکجا کیے گئے ہیں۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس میں ان کی نثری نظمیں شامل نہیں۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انہوں نے ’تسطیر‘ میں نثری نظموں کی تحریک اور مباحث سے متاثر ہو کر نثری نظمیں لکھی تھیں جن میں سے کچھ تسطیر میں شائع بھی ہوئیں۔ میں نے جب اس بابت ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ’’بالکل شامل ہونی چاہئیے تھیں، کوئی خاص وجہ نہیں شامل نہ کرنے کی۔‘‘ ممکن ہے یہ مرتب کی اپنی صوابدید رہی ہو۔ امید ہے کہ دوسرے ایڈیشن میں ان کی نثری نظموں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ اس تقریب میں کشور ناہید، فتح محمد ملک، احسان اکبر، جلیل عالی، فہیم جوزی، انوار فطرت، علی محمد فرشی، پروین طاہر، رفیق سندیلوی، روش ندیم، سعید احمد، یاسین آفاقی، کامران کاظمی، ارشد معراج، قاسم یعقوب، عائشہ مسعود، منیر فیاض، کلیات کے پبلشر صفدر رشید اور راقم نے شرکت کی۔ راولپنڈی جو کبھی شہرِ افسانہ تھا اب شہرِ نظم کہلاتا ہے اور شہرِ نظم کے دو تین اہم نام اور چند نئے نظم نگاروں کو چھوڑ کر سبھی نظم گو موجود تھے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ گھر میں ہونے والی تقریب میں زیادہ افراد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ صدارت فتح محمد ملک نے کی۔ سب سے پہلے کشور ناہید کی طرف سے لایا گیا کیک کاٹا گیا، کلیات کی اشاعت پر آفتاب صاحب کو مبارک باد پیش کی گئی اور حاضرین میں کتابیں تقسیم کی گئیں۔ اس کے بعد سعید احمد نے اپنے دیباچے کا ایک حصہ پڑھ کر سنایا۔ عالی صاحب نے آفتاب صاحب کی شاعری پر اپنے ایک پرانے مضمون کے حوالے سے گفتگو کی۔ گفتگو ہو اور علی محمد فرشی خاموش رہیں یہ ممکن نہیں چنانچہ انہوں نے جھٹ کلیات کھولے اور فی البدیہہ بولے۔ احسان اکبر صاحب نے بھی مختصر گفتگو کی۔ کشور ناہید ہمہ وقت اپنی ذو معنی گفتگو اور محبت بھری چھیڑ چھاڑ سے محفل میں رنگ افشانی کرتی رہیں۔ فتح محمد ملک صاحب نے پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے آفتاب صاحب کو کبھی غصہ میں نہیں دیکھا۔ آفتاب صاحب میں ایک اور وصف بھی ہے کہ وہ اپنے سے بعد کی نسل کے اچھے شعرا کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ آخر میں چائے اور لوازمات کے ساتھ ساتھ غیر رسمی گفت و شنید اور آفتاب صاحب سے آٹو گراف لینے کا سلسلہ تا دیر چلتا رہا۔ نا دریافتہ کی تقریبِ تقسیم سادہ مگر بھرپور اور با وقار تھی جس کے لیے حمید شاہد، یاسمین حمید، سعد حمید اور شریک میزبان قاسم یعقوب تحسین کے مستحق ہیں۔
(بحوالہ ’ہم سب‘ 22 اپریل 2016ء)
٭٭٭
آفتاب اقبال شمیم کی نظم نگاری ۔۔۔ ارشد سعید
اُردو ادب میں ہمہ جہت تخلیق کار انگلیوں پر ہی نہیں بلکہ پوروں پر گنتی کیے جا سکتے ہیں۔ خاص کر وہ شاعرِ اور ادیب جو علمیت کی گہرائی چھاپ اور جدیدیت کا رنگ رکھتے ہیں جن کی شاعرِی سے بصارت اور بصیرت کی علمی کرنیں پھُوٹتی ہیں۔ جن کو پڑھ کر نوجوان شاعرِوں میں لکھنے کی تحریک پیدا ہوتی ہے، اُن کے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور اُنکی تخلیقی سوچوں کو جلا ملتی ہے۔ ایسے ہی اُستاد شاعروں میں سے ایک نام پروفیسر آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کا بھی ہے جو نہ صرف اپنی نثری نظموں کے موضوعات، فکری اسلوب، ان کی جدیدیت میں یکتا ہے بلکہ اُن کے قلم سے نکلنے والی لویں اُن کی اپنی ہیں جن کی روشنی ادب میں چار دنگ روشن ہے۔ میری اور اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کی خوش قسمتی کہ آج اُردو ادب کے اُفق پر چمکنے والے ادب کے اس ستارے نے اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کی دعوت قبول کی اور آپ اس مشاعرے میں تشریف لائیں۔ میں اُردو سوسائٹی کے بانی رکن اور نائب صدر کی حیثیت سے جناب آفتاب اقبال شمیم صاحب کو اس مشاعرے میں خوش آمدید کہتا ہوں۔
سامعین! پروفیسر آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی شاعرِی اور اُن کی ادبی خدمات کسی بھی تعارف کی محتاج نہیں، آپ دورِ حاضر کے اُن چند منفرد قلم کاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے جدید اُردو ادب کو ایک منفرد اسلوب سے روشناس کرایا اور اپنی منفرد آزاد نظموں سے آج کے دور کے سامع، قاری، اور ناقد کو متاثر کیا۔ آج کے جدید اُردو ادب میں جناب آفتاب اقبال شمیمؔ کی نثری شاعرِی کی بدولت ہماری آزاد نظم آج اُس مقام پر کھڑی ہے جہاں سے نئے موضوعات، عمیق ترین جذبات اور بلند تخلیل و افکار نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ جناب آفتاب اقبال شمیمؔ اُردو ادب کی ایک ہمہ گیر شخصیت ہیں اور آپ کو اُردو ادب کی گرانقدر خدمات پر بے شمار ادبی انعامات و ایوارڈز سے نوازہ گیا ہے جن میں ستارہ امتیاز اور تمغۂ حسنِ کارکردگی قابل ذکر ہیں۔
سامعین۔ موجودہ دور کے ناقد، سامع اور قاری نے یہ بات تسلیم کر لی ہے کہ جناب آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی نظمیں ہر دور کی نظمیں ہیں۔ خاص کر وہ تمام شعرا کرام جو آزاد نظمیں لکھ رہے ہیں وہ کہیں نہ کہیں اپنی نظم کے آغاز یا انجام پر خود کو اُن ہی موضوعات پر لے جاتے لیں جہاں جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب نے اپنے قاری کو دس سال پہلے چھوڑ دیا تھا۔ بس یوں سمجھ لیں کہ جب تک اُردو ادب میں جدید آزاد نظم لکھی جائے گی وہاں جناب۔ آفتاب اقبال شمیم صاحب کی فکری وسعت ہی کو اپنایا جائے گا۔ صرف اس لیے کہ وہ تخلیقی رویوں کے حامل شاعرِ ہیں اور تقلیدی رویوں کی شاعرِی اُن کے منشور میں نہیں آتی۔ جناب۔ آفتاب اقبال شمیم صاحب کی شاعری ذہن کو ہی نہیں بلکہ رُوح تک رسائی رکھتی ہے اور پڑھنے والے کے مزاج میں رچ بس جاتی ہے۔ اِس بات کو مجھکو خود تجربہ ہوا جب میری ایک عزیز اور دیرینہ دوست میری بہن۔ ڈاکٹر کوثر جمالؔ نے میری ایک نثری نظم فیس۔ بک پر پڑھی تو سب سے پہلے یہ مشورہ دیا کہ ارشدؔ اگر تم اگر نظم کی طرف آنا چاہتے ہو تو آفتاب اقبال شمیم صاحب کی شاعری ضرور پڑھو اور ساتھ ہی اُنھوں نے مجھکو آفتاب اقبال شمیم صاحب کی دو عدد کتابیں بھی پڑھنے کو مہیا کر دی۔ اِس طرح پہلی بار میں نے آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کو پڑھا بلکہ یوں کہ لیں کہ پڑھتا ہی چلا گیا۔ اُن کی نظموں نے میرے ادبی شعور کو ایسا آئینہ دکھایا کہ ایک عرصہ تک غزل نہ لکھ پایا اور صرف آزاد شاعری کی طرف طبیعت مائل رہی۔ اس دوران ایک بار پھر ڈاکٹر کوثر جمالؔ صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو فوراً بولیں کہ ارشدؔ تم نظمیں اچھی لکھ رہے ہیں۔ لیکن اس بار اُنھوں نے مجھکو کسی شاعر کی کتاب نہیں دی۔ میرا خیال یہ ہی جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کے فکری اسلوب کی وسعت ہے کہ وہ قاری کو اپنا بنا لیتے ہیں اور وہ پھر کسی اور شاعر کا نہیں رہتا۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی پُر اثر نظمیں ہر خاص اور عام قاری کے لیے ہیں اور نئے لکھنے والوں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جو اُن کو لکھنے کی تحریک دیتی ہے۔ وہ اپنی نظموں میں کسی کمھار کی طرح سوچ کے چاک پر حرف و لفظ کے پیکر ڈھالتے جاتے ہیں، گزرے لمحات کو بھی اپنے تجربوں اور مشاہدوں سے کشید کرتے ہیں۔ کہیں کہیں وہ اپنی نظموں میں خود کو بھی بازیافت کرنے کی سعی میں نظر آتے ہیں۔ اس نظم کو دیکھئے جو کہ اُنھوں نے اپنے لیے لکھی ہے۔
نظم۔ میں
تمہیں معلوم ہی کیا ہے کون ہوں میں
کون سے ملتے بچھڑتے پل کے سنگم پر
کسی اسرار نے اپنی سنہری دھڑکنوں کی تال پر
مٹی سے بالیدہ کیا مجھ کو
تمہیں معلوم ہی کیا ہے!
اُس جہانوں کے جہاں والے نے
کس خوش بخت کو شہزادگی بخشی
چٹکتے کیسری لمحے کی بے سایہ زمینوں کی
تمہیں تو چاہئے تھا وقت سے لمحہ چرا کر
مجھ سے ملتے اُس ابد آباد جہلم کے محلے میں
جہاں کی تنگ نائی سے افق کی وسعتوں تک
سرحدیں تھیں میری کشور کی
کہاں مہلت ملی تم کو
کہ آ کر دیکھتے آوارگی کے تخت پر اُڑتے سلیماں کو
کبھی تم دیکھتے آ کر
صبا سے ساتھ قصرِ خواب کی پھلواریوں میں گھومتی
اُس موجِ پیچاں کو
تمہیں معلوم ہی کیا ہے۔ کون ہوں میں
ایک چوتھائی صدی سے عمر کی لمبی گلی میں
روز ہی جاتا ہوں دریوزہ گری کرنے
زمیں زادہ خداوندِ نعمت کی نوکری کرنے
سامعین۔ آپ نے دیکھا کہ اسلوب میں اگر جدید ہو، سلیقہ ہو تو وہ احساسات پر گراں نہیں گزرتا ہے۔ یہ ہی فکری اسلوب جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ کی آزاد شاعری میں آج کے قاری کو نظر آ رہا ہے۔ اُن کی نظمیں روایتی اسلوب سے ہٹ کر ہیں جن میں جدیدیت کی شدت شعورِ انسانی کی وسعتوں میں نئے امکانات کا سراغ دیتی ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آفتاب اقبال شمیمؔ روایتی عقائد سے باہر نکل آئے ہیں۔ آپ کی شاعرِی سے آج کا قاری ادراک و آگہی کی نئی دُنیا مین سانس لینے لگا ہے۔ اُس کو احساس ہے کہ جس شاعرِ کی کتاب اُس کے ہاتھ میں ہے وہ جدیدیت کا فکری نظریہ لے کر دُنیائے ادب پر اُبھرا ہے اور جس نے اپنی منفرد شاعری سے دُنیا ادب کو چونکا دیا ہے۔ آپکی شاعری دریا کی روانی سے آگے کی جانب گامزن ہے، جو بہہ رہا ہے روکا نہیں جو ہر لحظہ تغیر پذیر ہے۔ یہ اس بات کا احساس جناب آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کو اپنی شاعری کے شروعات میں ہی ہو گیا تھا اس لیے آپ نے اپنے لیے رویوں کا راستہ چنا، تقلیدی نہیں اور اس چیلنج کو ادب کے نقادوں کی پرواہ کیے بغیر قبول کیا اور اپنے فکر انگیز رویے اور جدید اسلوب سے دُنیائے ادب میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ ان کی نظمیں جن میں۔ ایوری باڈی، نو باڈی، بھی شامل ہے ۱۹۸۰ میں ایک انقلابی سوچ کا پیغام لیے ہوئے ہے۔ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ شروعات میں فیضؔ احمد فیضؔ اور علامہ اقبالؔ مرحوم سے متاثر نظر آتے ہیں۔ لیکن اپنی ادبی تخلیق میں، ادبی فکری سوچ میں منفرد اور یکتا دکھائی دیتے ہیں۔ جو آفتاب اقبال شمیمؔ کا اپنا ایک انداز ہے۔ آپکی شاعری میں وہ وسعت ہے کہ اُس پر کئی پہلوؤں پر مضامین لکھے جا سکتے ہیں اور شاید یہ مضمون اُن کی شاعری اور اُن کے قلم کی فکری لویں کی تیز رفتاری کو نہ پکڑ سکے۔ اس لیے صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر شاعری کیفیت و احساس کے لفظی روپ کا نام ہے تو پھر آفتاب اقبال شمیمؔ کے ہاں ہمہ گیر تجربے، مشاہدے، زبان و بیاں کی روانی اور انفرادیت کے نہ ختم ہونے والے رنگ پہناں ہیں۔ اُردو ادب میں یہ تمام لوازمات زندگی کا جزو لطیف لیے ہوئے ہیں۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب عصرِ نو میں علمیت کی گہری چھاپ رکھے ہوئے ہیں اور آزاد نظموں میں وہ تجربات کر رہے ہیں جو صرف احساس و ادراک، برہان و عقل والا شاعر ہی کر سکتا ہے۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے ادیب و شاعر جتنا اپنی تخلیق کے اظہار میں بالغ ہوتا ہے ادب اتنا ہی ارفع و اعلی ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے جناب۔ آفتاب اقبال شمیمؔ صاحب کی شاعری پڑھنا بے حد ضروری ہے بلکہ واجب ہے۔ میری تمام بہت سی نیک تمنائیں اس دور جدید کے جدید نظم گو شاعر کے لیے۔ اللہ تعالیٰ اُن کا سایہ اُردو ادب پر شجر کی صورت میں قائم رکھے اور ہمارے علم میں اضافہ ہوتا جائے۔ آمین
٭٭٭
نظم کے نئے معمار: آفتاب اقبال شمیم
محرک: زیف سید (ظفر سید)
فیس بک کے حاشیہ ادبی گروہ کے آن لائن مباحثے کا سکرپٹ
مطالعہ نظم:
ایک نظم زید کے نام۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم
جن کے ہم راہ چلتا ہوں
چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں
دال روٹی کی گردان میں
عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں
رزق اور روزی کی ابجد سے
بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے
یہ گاؤں، یہ شہر آباد ہیں
میرے بیٹے ہیں وہ میرے اجداد ہیں
میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے
میری دانش انھی کے وسیلے سے ہے
کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی یہ لڑکیاں
عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں
جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن
چشم و لب اور جان و بدن کی
عبارت میں
لکھی ہوئی داستانوں میں
دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے
بھٹکا ہوا
اور جیون امر ہے
مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے
ان کے لیے
ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی
دوزخ میں ہیں
کیا پتا کل نہ ہوں
کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب
سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے
گلیوں محلوں کے
لُچے، لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو
فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی
تنگ دامانیوں کی سزا سے
رہائی ملے
میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں
خاک خود اپنا آئین ہے
نا مساوی کو ترکیب کے زور سے
جو مساوی کرے
کیسی مایوسیاں
اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے
جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں
تسخیر ہونا ہی ہے
٭٭٭
تجزیہ نظم۔۔۔ علی محمد فرشی
جنابِ صدر!
آفتاب اقبال شمیم نے جب شاعری کے شہر میں قدم رکھا تو ترقی پسند تحریک اپنا ساز و سامان سمیٹ رہی تھی۔ میرا جی، راشد اور مجید امجد نظم کو پروپیگنڈے کی مشقت سے آزاد کر کے آرٹ کے منصب پر فائز کر چکے تھے۔ میرا جی کی سیادت میں حلقۂ ارباب ذوق نے جدید نظم کے لیے جو راہیں متعین کی تھیں ان پر نئے سنگِ میل قائم ہو رہے تھے۔ یہاں اس مغالطے کا استرداد ضروری ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق کی تحریک اصل میں ترقی پسند تحریک کی ضد یا رد عمل تھی۔ جواز میں جو دلیل دی جاتی ہے وہ بھی خاصی معقول لگتی ہے کہ حلقۂ ارباب ذوق نے ترقی پسند تحریک کی ’خارجیت‘ کو ’داخلیت‘ میں بدل دیا۔ ترقی پسندوں نے ’ادب برائے زندگی‘ کے نعرے کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا تھا اور ادب کو پروپیگنڈے کا ذریعہ نہ ماننے والوں کو ’ادب برائے ادب‘ کا قائل قرار دے کر ایک طرح سے مہمل اور بے مقصدیت کا اسیر قرار دے کر ادب بدر کرنے کی کوشش کی تھی۔ منٹو جیسے ادیب کو ترقی پسندوں کے ہاتھوں جن اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لہٰذا ردِ عمل میں بھی شدت پسندی کے احتمال سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تو خیر جملۂ معترضہ تھا۔ ہوا صرف یہ کہ ترقی پسند تحریک اپنا فعال کردار ادا کر چکنے کے بعد اپنے انجام کی جانب گام زن تھی، ایسی بڑی تحریکوں میں بے اعتدالی کے عناصر کا در آنا بھی کسی اچنبھے کی بات نہیں۔ اور ایسی تحریریں جو ادب کے درجے تک نہیں پہنچتیں، خود بہ خود زمانہ برد ہو جاتی ہیں، ان کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی! طرفہ یہ ہے کہ ہم ادب کوتو تبدیلی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں لیکن خود اسے تبدیل ہونے سے روکنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ادب کا بنیادی وظیفہ ہی یہ ہے کہ وہ یکسانیت اور جمود کی تہ کو توڑے اور تازگی کو پنپنے کا موقع فراہم کرے۔ میرا جی، راشد اور مجید امجد نے نظم کا نیا جہان دریافت کیا تھا، ترقی پسند تحریک کے آباد کردہ شہر کو مسمار کرنے کی سازش نہیں کی تھی۔ یہ درست ہے کہ نئی نظم داخلیت کی کھڑکی سے زندگی کا نظارہ کرتی ہے اور قلم کو عَلَم بنانے پر یقین نہیں رکھتی، لہٰذا اوّل اوّل کہیں کہیں بے اعتدالی کی دھند بھی دبیز ہو گئی تھی۔ لیکن بعد میں آنے والے با شعور نظم نگاروں نے خاصی احتیاط کا مظاہرہ کیا۔
آفتاب اقبال شمیم کی نظم ’خارجیت، اور ’داخلیت، کی مثبت اقدار کے فنی امتزاج کا نام ہے۔ اُس نے اجتماعی زندگی کو اپنے باطنی فرد کی خرد افروز آنکھ سے دیکھا اور دردمند دل کی کٹھالی میں فن کی آنچ پر پخت کرنے کے بعد سپردِ قرطاس کیا۔ یوں اس کی فکرِ مثبت نعرۂ انقلاب کی بہ جائے ایسے احساس کا سانچ بن گیا جو فن کا خاصہ ہے۔ اس کا یہ نظریۂ فن اس کی نظموں کے پہلے مجموعے ’فردا نژاد‘، جو ۱۹۸۴ میں شائع ہوا، سے لے کر، تا حال، آخری مجموعے ’میں نظم لکھتا ہوں‘ تک اس کی انفرادیت کو مستحکم کرتا دکھائی دیتا ہے۔
زیرِ بحث نظم ’ایک نظم زید کے نام‘ اپنے عنوان ہی سے قاری کو شاعر کی فکر کے مرکزے تک رسائی فراہم کر دیتی ہے اور ذہن خود بہ خود اس کی دوسری کتاب کے عنوان ’زید سے مکالمہ‘، جو طویل نظموں کو محیط ہے، کی طرف جست لگاتا ہے۔ زید کا یہ کردار ’فردا نژاد‘ میں شامل ایک نظم ’زید آ‘ سے شاعر کی فنی زندگی میں اُس کے ساتھ ساتھ منزلیں مارتا یہاں تک پہنچا ہے۔
اگر ہم سرسری بھی شاعر کے کلام سے گزریں تو ’زید‘ کا استعارہ شاعر کی فکری و فنی کلّیت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ثابت ہو گا۔
’زید‘ کو شناخت کرنے کے لیے میں ’زید آ‘ کو نقل کر دوں تو بہت سا ابہام دور ہو جائے گا:
رات کے کھیت سے پھوٹتی رُت کی خوش بُو اڑی
جسم میں آہٹیں سی ہوئیں
نوجواں فصل کو کاٹنے کے لیے
دستِ آئندہ آگے بڑھا
خون میں ڈوب کر گولیاں گنگنانے لگیں
روشنی سے سلگتے ہوئے چوک میں جراتیں
سر لٹانے لگیں
زید آ، ہم بھی شامل ہوں بیساکھ کے جشن میں
ورنہ اس جہل کی اوٹ میں چھپ کے بیٹھے ہوئے
کیسے بچ پائیں گے
سچ کی دوپہر
یلغار کرتی ہوئی ڈھونڈ لے گی ہمیں
ہم کہ آنکھوں کو اپنے ہی سائے سے ڈھانپے ہوئے
اور اپنے ہی پیچھے کھڑے
خود کو خود سے چھپانے کی کوشش میں مصروف ہیں
خود کلامی کی تکنیک میں لکھی ہوئی یہ نظم ’زید، کی پہلی جہت جو خود شاعر کی اپنی ہی شخصیت کا جمود ہے، کو مخاطب بناتی ہے لیکن موضوع کا خارجی حوالہ جو سیاسی سماجی جبر سے مرکب ہے، اس کردار کی دوسری جہت کو خارج کا نمائندہ بناتا ہے۔ یوں داخلیت اور خارجیت ایک ہی حقیقت کے دو رخ قرار پاتے ہیں۔ نظم کا موضوع بھی اکہرا نہیں۔ سطح کا سوال تو یہ ہے کہ سیاسی سماجی جبریت کے خلاف جد و جہد کا آغاز ہو چکا ہے لیکن غفلت شعاروں کی روش ہے کہ بدلنے کا نام نہیں لیتی۔ ممکن ہے کہ نظم کا اکھوا ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک سے پھوٹا ہو یا ضیائی مارشل لا کے خلاف عوامی سیاسی مزاحمت سے، لیکن اس سے نظم کی کہانی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ چوں کہ نظم کی تخلیق کا زمانہ ہماری قومی تاریخ کے انھی دو سیاہ ادوار کو نشان زد کرتا ہے اس لیے لامحالہ دھیان ادھر جاتا ہے ورنہ نظم اپنی ساخت میں زمانی وسعت کا لامحدود قرینہ لیے ہوئے ہے۔ جیسا کہ منٹو کا ’نیا قانون‘ اپنی زمانی واقعیت سے جڑے ہوئے بھی اپنی علامتی حیثیت میں زمان و مکاں سے آزاد رہتا ہے۔
فردا نژاد ہی میں شامل نظم ’لا (ایک مکالمہ)‘ میں ’زید‘ شاعر کے تخلیقی وجود، اس کے سماجی کردار اور خارج میں فرد مع اجتماع کی کلیت میں ڈھل گیا ہے:
’آ چلیں، سامنے بائیں جانب کو مُڑتے ہوئے راستے پہ چلیں۔ کیوں، وہاں اُس طرف کیوں چلیں، اِس طرف کیوں نہ جائیں۔۔۔۔۔۔ مگر سوچتا ہوں کہ یہ اور وہ ایک ہی راہ کے دو زمانے ہیں، دو حالتیں ہیں، صدی دو صدی کے شعور اور رفتار کے مظہروں کے سوا اور کچھ بھی نہیں، اور کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ کیوں چلیں، اُس طرف موسموں کی ہوا۔۔۔۔ چھوڑ، ہم اڑتے پرزوں کے انبوہ سے کس لیے جا ملیں اور پھر زید کے تنگ جوتے مجھے کاٹتے ہیں۔ اُسے یا مجھے زرد آنکھوں کی تکلیف ہے۔ آ یہیں۔۔۔۔ آ یہیں بیٹھ جائیں، یہیں گھاس پر۔۔۔ جانتے ہو یہ پاؤں میں روندی ہوئی گھاس بنجر زمیں اور زرخیز ماں اور قدموں کی گرمی کی اولاد ہے۔۔۔۔۔‘
اسی (۸۰) کی دہائی کے اوائل تک سیاسیات اور سماجیات میں کیمونزم کو معاشی/ معاشرتی انصاف کے حصول کے لیے آئیڈیل سمجھا جاتا تھا۔ ادب میں ترقی پسند فکر کے نمائندہ لکھاری استبدادی قوتوں کے خلاف اسے نجات دہندہ خیال کرتے تھے۔ اس نہج پر سوچنے والوں کی نیک نیتی پر شک و شبہے کی گنجائش ہی نہیں۔ ترقی پسندی نے اردو ادب کو نیا خون فراہم کیا، توانا اور مثبت فکر عطا کی۔ آفتاب اقبال شمیم کی فکری ساخت و پرداخت اسی نظریے کی آغوش میں ہوئی۔ لیکن ایک اصیل شاعر کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک نظریے کے جوتے پہن کر آنکھیں بند کیے کسی ایک راستے پر چلتا رہے۔ جیسا کہ اس شاعر نے کھلی آنکھوں سے زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا ہے اور اپنا راستہ ہٹ کر بنایا ہے۔ اس کی وابستگی اپنی زمین سے اور روندے ہوئے عوام سے ہے۔ نظم میں ’زرد آنکھیں‘ سبز اور سرخ نظریات کو بہ طور ہتھکنڈا استعمال کرنے والی قوتوں پر عدم اعتماد کا مظہر ہیں۔ ایک ایسے وقفے کی علامت ہیں جہاں شاعر اپنی باطنی دانش سے راہ نمائی لیتا ہے۔ نظم آگے بڑھتی ہے تو اِن دونوں بازوؤں پر کھل کر حملہ کرتی ہے:
’کس طرف! کس طرف!۔۔۔۔ میرے آقا! مجھے دائرے کے مسلسل سفر سے رہائی دلا۔ انگلیاں، انگلیوں پر لپیٹے ہوئے میں کہاں تک گرہ بندیوں سے نکلنے کی خواہش کروں اور لفظوں کی بارش میں بھیگے ہوئے، آنے والے خطوں کے مضامین بے معتبر نامہ بر کی زباں سے سنوں۔۔۔۔۔۔ اور رنگوں کی آلائشیں۔۔۔۔۔۔ سب منافق ہیں۔ ہر بات سچی بھی ہے اور جھوٹی بھی ہے‘
دائیں بائیں کے دونوں دھڑوں کی منافقت اور دو بڑی غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کاروں کے خلاف یہ رد عمل ایک خود بین و خود آگاہ دانش ور اور خود مختار شاعر کا کھرا نقطۂ نظر ہے۔
اس تمہیدِ طولانی کا مدعا یہ تھا کہ شاعر کے ابتدائی فکری و فنی سفر کے نشانات کو بھی ذہن میں رکھا جائے جن پر چل کراس نے اپنی شعری کائنات تخلیق کی۔
آفتاب اقبال شمیم کی دیگر نظموں کی طرح زیرِ بحث نظم بھی ابہام سے پاک ہے، اور مجھ ایسے شاعر کے لیے جو ابہام کو فن کی خوبی سمجھتا ہو، اس نوع کی نظم کو بحث کے لیے چننا ’ابہام، کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے وضاحت ضروری ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ نقاد کو کسی خارجی منطق اور طے شدہ تنقیدی نظریے سے لیس ہو کر فن پارے سے نبرد آزما نہیں ہونا چاہیے بل کہ فن پارے کو کھولنے کے لیے کلید بھی اسی فن پارے سے لینی چاہیے۔ میر کتنا ہی عظیم ہو اور اس کا نقاد خواہ کتنا ہی فاضل، اقبال کی تفہیم کے لیے میر پر قائم کیے ہوئے اُس کے اصول اور اوزار ناکارہ ثابت ہوں گے۔ فیض مجھے پسند ہیں البتہ راشد، میرا جی اور مجید امجد بہ طور نظم نگار فیض سے زیادہ پسند ہیں۔ لیکن فیض کا مطالعہ کرتے ہوئے اگر میں راشد، میراجی اور مجید امجد کی شاعری کو ذہن سے نکال کر باہر نہیں رکھوں گا تو فیض سے بھی نا انصافی کروں گا اور خود سے بھی زیادتی کا مرتکب ٹھہروں گا کیوں کہ اس طرح میں فیض کے کلام سے فیض یاب نہیں ہو پاؤں گا۔ میں اقبال کو اردو نظم کا سب سے بڑا شاعر مانتا ہوں جس کے ہاں ابہام نام کو نہیں۔ لہٰذا یقین رکھیے کہ میرے نزدیک ابہام نہ کوئی خامی ہے نہ خوبی، بل کہ یہ تو موضوع کی غایت ہے، اسلوب کی ضرورت ہے اور شاعر کے فنی میلان کا تقاضا ہے۔ ابہام کی موجودگی یا عدم موجودگی کو فن پارے کی داخلی منطق مان لیا جائے تو یہ سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات فن پارے کی نا مانوسیت کو بھی ابہام کی ذیل میں ڈال کر ہاتھ جھاڑ لیے جاتے ہیں جب کہ ہر اصیل شاعر یا فن پارے کا اپنے نئے پن کے باعث نامانوس ہونا ایک لازمی امر ہے۔ غالب کی شاعری اپنے عہد کے لیے مبہم تھی آج نہیں ہے۔ غزل اور روایتی نظم کے تربیت یافتہ قاری کے لیے جدید نظم نامانوس ہونے کی وجہ سے بھی مبہم ہو سکتی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم ابہام سے پاک ہونے کے باوجود ناقدین کی ضروری توجہ سے محروم ہے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم اپنی پسند اور آسانی کے اسیر ہیں۔
زیرِ بحث نظم شروع ہی میں اپنے موضوع کا دھاگا ہمیں تھما دیتی ہے اور ہم اس کے سہارے نظم کے اندر دور تک سفر کر سکتے ہیں۔ قدم قدم پر زبان کے تازہ اور تخلیقی استعمال سے ہمارے جمالیاتی ذوق کو توانائی ملتی ہے اور شاعر کی محروم طبقات سے دلی وابستگی ہماری فکر کی لو کو فزوں کرتی ہے۔ نظم کا واحد متکلم بہ یک وقت شاعر کی ذات بھی ہے اور اصیل فن کاروں کا استعارہ بھی:
’چشم و لب اور جان و بدن کی
عبارت میں
لکھی ہوئی داستانوں میں
دل شہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے
بھٹکا ہوا‘
اعلیٰ ادب ہمیشہ معاشرے میں مروج منفی رویوں کے خلاف اور مثبت انسانی اقدار کی حمایت میں جد و جہد کرتا نظر آئے گا۔ مذہبی، سماجی، سیاسی صداقتیں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں لیکن ادبی صداقت غیر متغیرہ اصول کے طور پر ادب میں ہمیشہ رائج رہتی ہے۔ کون سا بڑا فن پارہ ہے جو محبت، انسان دوستی، وفا داری، رحم اور ایثار کی دشمنی پر قائم ہوا ہے۔ یہی وہ ’دل شہ زادہ‘ ہے جو ’گم نام صدیوں سے‘ انسانی ہم دردی کے جذبے سے سرشار تاریخ کے تاریک جنگلوں میں، عظیم انسانی خواب کی تعبیر کی تلاش میں، سر گرداں ہے۔ اس نظم کے شاعر نے اپنی ذات کو اسی ادبی روایت سے جوڑ کر اپنے وجود کے جواز کی دلیل دی ہے اور اپنے مقصد حیات اور نظریہ فن کی وضاحت بھی کر دی ہے۔
نظم کا واحد متکلم، جو نظم کا پرسن بھی ہے، معاشی معاشرتی انصاف کے آدرش کا امین ہے لیکن وہ اپنے آدرش کے حصول کے لیے عوام کو، جن کی عمریں پیٹ کے تندور کا ایندھن بن جاتی ہیں، ظالموں اور غاصبوں کے تخت گرانے پر اکساتا ہے نہ ان کے تاج اچھالنے کی ترغیب دیتا ہے۔
’جن کے ہم راہ چلتا ہوں
چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں
دال روٹی کی گردان میں
عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں
رزق اور روزی کی ابجد سے
بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے
یہ گاؤں یہ شہر آباد ہیں
میرے بیٹے ہیں وہ، میرے اجداد ہیں‘
نظم کی یہ ابتدائی سطور واضح کر دیتی ہیں کہ شاعر کسی بلند سٹیج پر چڑھ کر تقریر نہیں کر رہا بل کہ اس کا ہونا نہ ہونا انھی عوام کے وجود سے وابستہ اور انھی کے ماضی و مستقبل سے پیوستہ ہے۔ خارج اور داخل کی حدود کو مٹاتی ہوئی یہ سطور شعری جمالیات، تازہ اسلوب اور شاعر کی گہری دردمندی کے احساس کا ابلاغ اس قرینے سے کرتی ہیں کہ نظم قاری کے دل و دماغ میں تیز رفتار شارک کی طرح آگے بڑھنے لگتی ہے۔ ’دال روٹی کی گردان میں عمروں کا بیت جانا‘، ’رزق اور روزی کے ’الف با‘ سے انسانی وجود کی شناخت کا متعین ہونا‘ ایک لمحے کو ہمیں ایسے کرب کی چکی سے گزار دیتے ہیں جس میں عوام کی اکثریت مدتِ مدید سے پِس رہی ہے۔ عین اس مقام پر جب درجِ ذیل دو مصرعے سامنے آتے ہیں تو قاری کی سلگتی ہوئی آنکھوں میں شاعر کی وابستگی کے باعث خوشی کے آنسو جھلملا اٹھتے ہیں۔
’میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے
میری دانش انھی کے وسیلے سے ہے‘
نظم نہ کسی آورد کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے نہ کسی تصنع کا شکار ہوئی ہے۔ بے ساختگی، فطری روانی، فنی تسلسل اور ’جذبہ‘ اور ’دانش‘ میں صنعتِ تضاد کے استعمال اور ’قبیلے‘ اور ’وسیلے‘ کے قوافی کا انتہائی بر محل جواز کے ساتھ وارد ہونا شاعرانہ کمال کی نشانی ہے۔
استبدادی قوتوں کے بنائے ہوئے جہنم میں شاعر کا وجود جمہور کا جز بن کر اذیت کے دن گزارتے ہوئے اس احساس سے بھی دوچار ہے کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ شاید اس کی اپنی زندگی میں نہ بن پائے۔ مایوسی کے شعلوں کی لپیٹ میں آئے ہوئے فرد کا یہ خوف دفعتاً ایک خواب گوں احساس سے امکان کا ایک روزن بناتا ہے:
پتا کل کا دیکھا ہوا خواب
سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے
گلیوں محلوں کے
لُچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو
فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی
تنگ دامانیوں کی سزا سے
رہائی ملے
’کل کا دیکھا ہوا خواب‘ نظم کے زمان کا تعین کرتا ہے۔ یہ خواب ایک آزاد، خوش حال اور سیاسی سماجی انصاف کے امین معاشرے کا خواب تھا۔ یہاں نظم نے اپنے عمودی دائرے کے ساتھ ساتھ اپنے افقی دائرے کو بھی کشادہ کیا ہے۔ ایسا فن پارہ جس کی جڑیں زمین میں گہری نہ ہوں، خلا میں معلق تو ہو سکتا ہے آفاقی نہیں۔ اس نظم نے اسلوبیاتی سطح پر مقامیت سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ہے اور شعری روایت سے بھی استفادہ کیا ہے لیکن یہ دونوں باہم دست و گریباں نہیں بل کہ شیر و شکر ہو کر نظم کی نامیاتی وحدت کا تخلیقی حصہ بنے ہیں۔ یوں یہ نظم مقامی ثقافت، شعری روایت اور آفاقی اقدار سے آمیز ہو کر ایک زندہ فن پارے میں ڈھل گئی ہے جو نہ صرف شاعر کی نمائندہ قرار پا کر اس کی انفرادیت کو مستحکم کرتی ہے بل کہ اردو کی بہترین نظموں میں بھی اعتماد سے رکھی جا سکتی ہے۔
نظم کو مختلف بندوں میں تقسیم نہیں کیا گیا لیکن بہ غور مطالعے سے یہ تین حصوں کا مجموعہ ہے۔ پہلا حصہ معاشرے کی زبوں حالی کا نقشہ دکھاتا ہے۔ دوسرا حصہ مزید دو ضمنی اجزا میں بٹا ہوا ہے۔ پہلے جز میں حالات کے تبدیل نہ ہونے کے خوف سے ایک کلائمکس بنتا ہے لیکن نظم پھرتی سے پینترا بدل کراس شکنجے سے نکل جاتی ہے اور خواب کا روشن دان کھول دیتی ہے یوں گھٹا ٹوپ میں امید کی کرنیں نظم کو نیا منظرنامہ عطا کر دیتی ہیں۔ نظم کا تیسرا حصہ نظم کا ماحصل بھی ہے اور غزل کی زبان میں حاصلِ نظم بھی۔
میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں
خاک خود اپنا آئین ہے
نا مساوی کو ترکیب کے زور سے
جو مساوی کرے
کیسی مایوسیاں
اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے
جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں
تسخیر ہونا ہی ہے
نظم نے مصرع بہ مصرع ارتقا کرتے ہوئے ہمیں اب اس منزل پر پہنچا دیا ہے جہاں اس ’خراب آباد‘ سے نکلنے کی تدبیر کی ضرورت کا احساس خود بہ خود زور پکڑنے لگتا ہے۔ یہاں تقدیر کے مروجہ مغالطے کو رد کیا گیا ہے کہ انسان مجبورِ محض ہے اور تاریخ کا پہیا چرخِ نیلی فام کے تابع گھومتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ تقدیر کا یہ تصوّر قابض حکم رانوں کی ناجائز بادشاہت کو جواز بخشنے کے لیے، درم پرست اور کم زور شخصیت کے مالک نام نہاد علما کے ذریعے کس طرح پھیلایا گیا۔ اردو شاعری میں اس تصورِ تقدیر پر کاری ضرب اقبال نے لگائی تھی لیکن اقبال کا خواب اس سر زمین پر جس طرح مسمار کیا گیا اس نے نہ صرف عوام بل کہ شعرا کو بھی مایوسی کے اندھیروں کی جانب دھکیل دیا۔ اقبال کے پاس درپیش خرابے سے نکلنے کا واضح راستہ موجود تھا جس کے باعث اس کے ہاں یقین کا محکم اور عمل کا پیہم ہونا عین فطری تھا۔ بٹوارے کے دوران میں فسادات نے انسان کی بہیمت کا وہ کریہہ چہرہ بے نقاب کیا کہ شاعر کو اجالا داغ داغ ہی دکھائی دینا چاہیے تھا اور سحر شب گزیدہ! اقبال کی رجائیت کا یاسیت میں بدل جانا کسی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ نہیں بل کہ انسانی محسوسات کا سادہ ردِ عمل تھا۔ پاکستان بنتے ہی جعلی کلیموں کے ذریعے جس معاشی کرپشن کی بنیاد رکھی گئی اس کا تسلسل آج تک نہیں ٹوٹا۔ پے در پے مارشل لاؤں نے ہماری قومی تاریخ کو مسخ کر دیا۔ فوجی آمروں نے قرونِ اولیٰ کے غاصبوں کی طرح تقدیر کے اسی منفی تصور کے ہتھکنڈے سے ہر بار عوام کو گم راہ کرنے کی کوشش کی۔
اقبال سے آفتاب اقبال کی اس نظم تک آتے آتے بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہ گیا تھا۔ خیال رہے کہ زیرِ تجزیہ نظم ’میں نظم لکھتا ہوں‘‘ سے لی گئی ہے جو ۲۰۰۹میں منصۂ شہود پر آئی۔ ’سرخ سویرا‘ جو کئی نسلوں کی امیدوں کا چراغ تھا، سرمایہ داری کی تند آندھی کے سامنے اس کی حیثیت اب معمولی خذف ریزے سے زیادہ نہ تھی۔
آفتاب اقبال شمیم نے اپنی روایت سے روشنی لی اور نظم کو صدیوں کا وسیع تناظر فراہم کر دیا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ فردا نژاد میں شامل نظم ’لا (ایک مکالمہ)‘ میں جب اُسے کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی تو اُس نے وہاں بھی دائمی حقیقت کی طرف رجوع کیا تھا:
’کس طرف! کس طرف!۔۔۔۔ میرے آقا!‘
آفتاب اقبال شمیم کے کتنے ہی معاصرین صرف اِس وجہ سے شاعری میں زیادہ دیر نہ چل سکے کہ ان کے قدموں تلے نہ اپنی زمین تھی نہ سر پر اپنا آسمان۔ اپنی روایت کٹے ہوئے ادب کی دل دادہ صرف دیمک ہوتی ہے! روایت کوئی جامد شے نہیں بل کہ ایک زندہ اور متحرک قوت ہے۔ جس فن کار نے اس کا ہاتھ تھاما وہ کم از کم بھٹکا نہیں اور جس نے اُسے تخلیقی اضافے کے ساتھ آگے بڑھایا وہ کبھی مرا نہیں!
یہ فردا نژاد زمیں زاد اب اُس مقام پر آ پہنچا ہے جہاں اُسے اپنے آقا سے کوئی شکایت نہیں۔ وہ درپیش حالات کو انسانی بد اعمالیوں کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ نظم نے اسی داخلی منطق سے یہ نکتہ بھی نکالا ہے کہ اگر گنتی کے کچھ بدکردار افراد پورے معاشرے کو قعرِ مذلت میں پھینک سکتے ہیں تو معاشرے کی اجتماعی مثبت قوت اس سے نکلنے میں کیوں کر ناکام ہو سکتی ہے۔
نظم کی ایک اور اضافی خوبی اس کی تانیثی فکر بھی ہے۔ مردانہ معاشرے کی جبریت میں عورت کا فعال وجود اپنے جمالیاتی وفور کے ساتھ نمودار ہوتا ہے اور زندگی کی مثبت قوت کو ہمارے داستانوی ادب کی عظیم روایت سے مربوط کر کے خواب کو حقیقت میں بدل دینے کی تخلیقی جہت سے مستنیر کر دیتا ہے:
کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی
یہ لڑکیاں
عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں
جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن
چشم و لب اور جان و بدن کی
عبارت میں
لکھی ہوئی داستانوں میں
دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے
بھٹکا ہوا
صدیوں سے بھٹکا ہوا یہ عشق شہ زادہ نظم کی آخری سطور میں تمام مایوسیوں کو روندتا ہوا آگے بڑھتا ہے اور پورے تیقن سے سچ کی فتح یابی کی بشارت دیتا ہے۔ (تمام نا تمام)
جنابِ صدر! میری معروضات اختتام کو پہنچیں۔ اس یقین کے ساتھ کہ میری حاشیہ آرائی اربابِ علم و فن کی علمی بحث کے لیے نقطۂ آغاز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ اور اس امید کے ساتھ کہ مجھے احبابِ حاشیہ کے علم سے استفادے کا موقع ملے گا۔ مزید یہ کہ اس نظم پر بحث کے وسیلے سے جدید نظم کی تفہیم کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔ ایک بات اور کہ اس ابتدائی اختصاریے میں اٹھائے گئے نکات کی وضاحت کے لیے احباب مجھے موجود پائیں گے۔
جنابِ صدر! آپ کا، منتظمِ حاشیہ ظفر سید صاحب اور معزز اربابِ حاشیہ کا شکریہ جنھوں نے مجھے آفتاب اقبال شمیم کی اس نظم کو توجہ سے پڑھنے اور اس سے حظ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔
٭٭
سحر آفریں
جناب صدر! ایک عہد ساز شخصیت بذات خود ایک علمی میراث ہوتی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم (شاعری) کی معنویت اور فنی حوالے سے ہمیشہ ہی قابل تحسین نقد و نظر دیکھنے کو ملی ہے۔ زیر بحث نظم بھی دلکشی سے بنی گئیں ایسی سطور ہیں جن میں شاعری تو ہے ہی حقیقت نگاری نے لفظی بانکپن مرنے نہیں دیا۔ ورنہ عموماً جن نظموں میں تخیلاتی استعارہ سازی کی بجائے زمینی حقائق یا زمانی تلخی کی آمیزش ہو ان کا باطنی حسن ماند پڑ جاتا ہے۔ جبکہ اس نظم میں شاعری اپنے بھر پور احساس کے سا تھ مو جود ہے اس لئے ہمیں نظم کا فی پسند آئی ہے۔ نظم ’زید‘ کے نام معنون کی گئی ہے اور زید ایک استعاراتی کردار ہے جو شاعر کی نظم سے منسوب ہو چکا ہے۔۔ نظم کے آغاز میں اسی کردار کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ
جن کے ہم راہ چلتا ہوں
چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں
دال روٹی کی گردان میں
عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں
رزق اور روزی کی ابجد سے
بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے
یہ گاؤں، یہ شہر آباد ہیں
میرے بیٹے ہیں وہ میرے اجداد ہیں
میرا جذبہ انھی کے قبیلے سے ہے
وہ قبیلہ جس میں شمولیت کی واحد شرط وفا ٹھہری ہے اس سے نسبت محض جذباتی نہیں بلکہ اس کی نظری ضروریات اور احتیاجات بھی وفا داری کے آئین سے مشروط ہو چکی ہیں۔ اب وہ کون لوگ ہیں جن کے ہمراہ چلنے کے ہنر نے نمک حلالی کا درس دیا اور جن کی زمینوں پہ جاہ و حشمت کی آبیاری کرتے ہوئے زندگی کی کہانی رزق سے آ گے نہیں بڑھ پائی جو بیگار کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں اور جن کی گنتی سوائے آ بادی میں اضافے میں کسی شمار میں نہیں آ تی۔ وہ تمام کردار اسی اکائی میں ضم ہیں لیکن اس نظم کی خاصیت یہی ہے کہ آغاز میں ایک طبقے کی نمائندگی کرتیں سطروں سے عسرت و بے بسی کی بجائے خلوص نیت کا پسینہ ٹپک رہا ہے۔ پھر آ گے چل کر یہ نظم دم لینے کو ٹھہرتی ہے اور ثا بت کرتی ہے کہ معاشی تنگ دستی اور معاشرتی استعمار میں آدم و حوا دونوں ہی شریک اور متاثرین ہیں
کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی یہ لڑکیاں
عشق کے قاف کی وہ پری زاد ہیں
جن کی دل داریوں کے گلاب و سمن
چشم و لب اور جان و بدن کی
عبارت میں
لکھی ہوئی داستانوں میں
دل شاہ زادہ ہے گم نام صدیوں سے
بھٹکا ہوا
اور جیون امر ہے
مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے
ان کے لیے
ازل کی گدلائی ہوئی آنکھوں کے بوسیدہ خوابوں کو اپنے لہجے میں سمو کر جیون کی سفید چادر پہ سا نسوں کے پھول کاڑھتی لڑ کیوں کے دلوں کی حا لت منکشف کر دی ہے جو خواب کی غیر مرئی دنیا کی مکین ہوتی ہیں اور جن کی جا گتی آنکھوں کی تان خوابوں پہ آ کر ٹوٹ جاتی ہے۔ اور بدن کی دیواروں پہ کہانیاں خود بخود رقم ہوتی رہتی ہیں۔ اور بدن کی سلطنت کا بے تاج شاہزادہ دل محبت کے لمس کی تلاش میں بھٹکا ہوا راہرو بن گیا ہے اور شاعر اس کرب کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوا رہ ہے ان کے لئے
اور اس کی توجیہہ پیش کرتے ہوئے گو یا ہے کہ
ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی
دوزخ میں ہیں
کیا پتا کل نہ ہوں
کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب
سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے
گلیوں محلوں کے
لُچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو
فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی
تنگ دامانیوں کی سزا سے
رہائی ملے
بہت معنی آفریں اور احساس میں گندھی سطریں ہیں۔ کیا پتہ کل نہ ہوں؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کلا می کی کیفیت میں ایک تسلی آ میز ہچکی باندھتے ہوئے گو مگو ہے۔ خوابوں کی بے یقینی امید کے رنگوں میں ڈھلتی ہے اور خوش آئند مستقبل کی جھلک دکھائی پڑتی ہے۔ جیب کترے دنوں کی اصطلاح کتنی بھلی لگ رہی ہے۔ جنہیں شہروں کی تنگ پڑتی شبوں کی تنگ دامانی سے رہائی کی خواہش ہے اور یہ خوابوں کی اڑن طشتری ہی تو ہے جس پہ سوار ہو کے شاعر کا تخیل وسیع المعانی جہتوں سے نبرد آزما ہے۔
میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں
خاک خود اپنا آئین ہے
نا مساوی کو ترکیب کے زور سے
جو مساوی کرے
کیسی مایوسیاں
اس مرے خوابِ فردا کو تعبیر ہونا ہی ہے
جھوٹ کو میرے سچ کی لڑائی میں
تسخیر ہونا ہی ہے
یہاں ہمیں دو سطور
میں زمیں زاد کیوں اس سے شکوہ کروں
خاک خود اپنا آئین ہے
اس لئے بھی زائد لگ رہی ہیں کہ موضوع اور ترتیب سے میل کھاتی محسوس نہیں ہوتیں لیکن یہ صرف ہما را خیال بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم اگلی لائنوں میں وہی تسلسل بر قرار ہے جو نا ممکن کو ممکن بنا نے کی سعی کرتا ہے۔ یعنی تقدیر پہ تدبیر حا وی ہے اور شاعر نے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ایک کرن خوابوں کے سو رج سے مستعار لے کر پھینکی ہے۔ جسے اپنی سچائی پہ پو را اعتماد اور تیقن ہے۔ احباب نے اس نظم میں ’زید‘ کو اشتراکیت اور نظامیاتی حد بندیوں کے خلاف جنگ آزما دیکھا ہے اور ہم نے اسے خوابوں کے سہا رے اپنی تفریق سے نفی کے کا نٹے چنتے اور اثبات میں حل ہوتے محسوس کیا ہے۔
٭٭
قاسم یعقوب
صاحبِ صدر!
متن پر گفتگو کرتے ہوئے ہم تعبیرِ متن کی مختلف ترجیحات سے گزرتے ہیں۔ نظم کا متن اس حوالے سے اور بھی مشکل شکل اختیار کر لیتا ہے جب متن کے مندرجات کو منشائے مصنف، منشائے قاری، متن کی خود مکتفی حالت اور تشریح کرنے والے کی فکری و فنی و جمالیاتی ترجیحات کے تناظر سے پڑھا جائے۔ یوں کسی بھی تنقیدی ڈسکورس کے اندر تعین قدر کوئی بڑا مسئلہ نہیں جتنا جدید ادبی تھیوری کے ضمن میں یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے۔ نئی تھیوری تو اس حوالے سے خاطر خواہ اہتمام بھی کرتی ہے۔ ’ایک نظم زید کے نام‘، آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم تو نہیں مگر ’زید‘ اُن کا نمائندہ استعارہ یا کردار ضرور رہا ہے۔ گو ’زید‘ شاعر کے کسی ایک فکری جہت کا احاطہ بھی نہیں کرتا۔ نظم کی پڑھت میں تشریحی دائرہ [Hermencutical Circle] اپنی حدود میں شاعر کے اس کردار کے تمام تخلیقی مفاہیم کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔ آفتاب صاحب خود لکھتے ہیں: ’’میں اپنی گمبھیر تنہائی میں ’زید‘ سے ملتا ہوں۔ وہ میرا آسیب یا ہمزاد یا ضمیر نہیں۔ شاید وہ میری اصل ہے۔ نا وقت اور نا لفظ میں چھپی ہوئی اصل۔۔۔ جس سے گفتگو تو کرتا ہوں لیکن یک طرفہ۔ وہ میرے سامنے ہوتا ہے لیکن میری پہچان سے باہر رہتا ہے۔ پہچانوں بھی کیسے کہ کئی زمانے نوکِ سوزن سے آنکھ پر کھینچی ہوئی خراشیں چھوڑ گئے ہیں۔ وہ اور میں زندگی کے دو اہم کردار ہیں، ایک دوسرے کی دسترس سے ذرا ہٹے ہوئے۔ اُس کے بہت سے اندھیرے میری حسیات کے ٹٹولنے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ اُس کی بہت سی آوازیں میری سماعت کے منطقوں سے نیچے یا اوپر رہتی ہیں۔ وہ میرا اور میں اس کا محرم نہیں بن سکتا کہ وہ میری پوری سچائی ہے اور میں اپنی آدھی سچائی۔ میں اس سے یک طرفہ مکالمہ کر رہا ہوں۔ ’’ (میں اور وہ، دیباچہ ’زید‘ سے مکالمہ)۔ حمید شاہد صاحب نے ’زید‘ کی وضاحت کے لیے فردا نژاد سے آفتاب صاحب کی ایک مثال پیش کی ہے۔ مگر نظم کے اندر وہ ایک مختلف کردار کے ساتھ ابھرتا ہے۔ مذکورہ بالا نظم میں ’زید‘ کا کردار نظم کے Content میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔
نظم بنیادی طور پر تین مراحل سے گزرتی ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ اپنے ارد گرد بکھرے لوگوں کو اپنی دانش کا وسیلہ بتاتا ہے، اپنے جذبے کے قبیلے کا انکشاف کرتا ہے۔ (یہ وہ نام ہیں جو دال روٹی کی گردان میں عمر گزار رہے ہیں) دوسرے مرحلے میں شاعر اپنے آپ کو بھی ان میں شامل کرتے ہوئے ’ہم‘ کا صیغہ استعمال کرتا ہے۔ ’’ہم کہ جورو جفا اور بے مہر صدیوں کی دوزخ میں ہیں‘‘۔ نظم کے اسی مرحلے میں شاعر منظر نامہ کی تبدیلی کا خواب دیکھتا ہے اور اس شک میں اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ شاید یہ دنیا بدل جائے۔ تیسرے مرحلے میں شاعر کا یہ شک (جو خواہش کی حد تک موجود ہے) دنیا بدل جانے اور خاک کا آئین بن کر ایک ناگزیر عمل کی صورت سامنے آتا ہے۔ خاک کے آئین نے نا مساوی کو مساوی میں بدلنا ہے جھوٹ نے سچ سے تسخیر ہو جانا ہے۔ لہٰذا ’کیسی مایوسیاں‘
اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ متن کی ساخت اتنی سادہ اور واضح ہے تو قاری متن کے عرصے [Space] میں خود کو متن کے ایک ہی پرت میں ملفوف رکھنے پر اکتفا کر لے گا۔ نظم کے متن کی جس خوبی کی طرف علی محمد فرشی صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ یہ ابہام سے ’پاک‘ ہے میرے خیال میں اس نظم کی یہی خامی بھی ہو سکتی ہے۔ غیر طے شدہ صورتِ حال [Undicidability] کے نہ ہونے سے ہم ’زید‘ کے کردار میں کسی پیچیدگی کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ زید کا کردار یہاں بہت نمایاں اور نظم کا مرکزی ہیولہ لے کر نظم کو آگے بہاتا ہے۔
ایک اہم نقطے کی طرف توجہ ضروری ہے۔ علی محمد فرشی صاحب نے تانیثی حوالے سے بھی اس نظم میں ایک اشارہ دیا ہے۔ نظم کے Content میں تانیثیت [Feminist] نہیں بلکہ تثنیتی تخالف [Binary Opposition] رویہ ابھارا گیا ہے۔ اور یہ نظم کا اضافی جزو ہے، لازمہ [Essential] نہیں۔ اصل میں شاعر نے ’زید‘ کی قسمت (رزق اور روزی کی ابجد سے بنتے ہوئے جن کے ناموں کی رونق سے یہ گاؤں، یہ شہر آباد ہیں) اور اُس کے لوکیل (گلیوں، محلوں کے لچے، لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو، فلاں اور فلاں اور شہر کی تنگ دامانیوں کی سزا سے رہائی ملے) میں اپنی رومانی جذباتیت کا لگاؤ بھی تلاش کیا ہُوا ہے۔ اُسے زید کی ان گلیوں سے اس لیے بھی رغبت کہ وہ ان سے زندگی کے معنی کشید کرتا آ رہا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اُس کا دُکھ ’زید کا دُکھ‘ ہی نہیں رہتا بلکہ ’جنم دُکھ‘ بن گیا ہے۔ اُس کا دل شاہزادہ ہے چشم و لب اور جان و بدن کی عبارت میں لکھی ہوئی داستانوں میں، زندگی کی معنیاتی توجیح شاعر کو عشق کے قاف کی پری زاد سکھا رہی ہیں وہ کیوں نہ اس تیقن سے گزرے کہ نا مساوی نے ترکیب کے زور سے مساوی ہونا ہے ایک دن۔ اسی لیے اُس کا جذبہ زید کے قبیلے سے ہے۔
نظم کے اندر تانیثی جمال کا بھرپور احساس نظم کے متن میں Dissemination کا تقاضا ہے۔ قاضی افضال نے ڈریڈا کے حوالے سے لکھا ہے کہ’’Dissemination متن کی زرخیزی کی وہ قوت ہے جو کثرتِ معنی بلکہ خود معنی کے مروجہ تصور سے متن کو آزاد کرتی ہے۔‘‘ میرے خیال میں یہی وہ قوت ہے جو شاعر کو زندگی آشنا اور جمال آفریں جذبات میں چیزوں کو دیکھنے پر مائل کرتی ہے جس نے بے مہر صدیوں کی دوزخ میں یہ تیقن عطا کر دیا ہے کہ جھوٹ کو سچ نے تسخیر کر کے نا مساوی کو مساوی کے آئین میں بدل دینا ہے۔
قاسم یعقوب: آفتاب اقبال شمیم کا فن سمجھنے کے لیے ہمیں اُن کی ایک دو نظموں کے تجزیے سے تشفی نہیں ہوتی۔ آفتاب شمیم نے جہاں طویل فارم اختیار کی ہے وہ زیادہ کھل کر اپنا اظہار کر پائے ہیں۔ فردا نژاد، زید سے مکالمہ، گم سمندر اور یں نظم لکھتا ہوں میں اُن کا نظمیہ آرٹ ’زید سے مکالمہ‘ میں زیادہ جان دار سطح پر ہے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کتاب میں ۶، یا ۷ طویل نظمیں شامل ہیں۔ مجھے تو مذکورہ زیرِ بحث نظم میں ایسے لگ رہا ہے کہ وہ کسی بڑی نظم کی تمہیدی لائنوں کے بعد ہی اختتام کی طرف چلے گئے اور ابھی نظم شروع ہونی تھی۔ ’میں نظم لکھتا ہوں‘ میں بیشتر نظموں کا یہی حال ہے۔ اس نظم کو پڑھتے اور اس پر بحث اُٹھاتے ہوئے اس نقطے پر دھیان بہت ضروری ہے۔
نئی نظم، جو راشد کے ساتھ ظہور میں آئی، نے بیک وقت اپنی روایت سے بھی رشتہ جوڑے رکھا اور نئے امکانات کو بھی خوش آمدید کہا۔ اسّی کی دہائی تک یہی منظر نامہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا مگر موجودہ نظم کا ایک المیہ تو یہ ہے کہ وہ روایت سے منقطع ہوتی جا رہی ہے۔ آپ خود نظم کے اچھے شاعر ہیں آپ آفتاب شمیم صاحب پر گفتگو میں اس اہم مسئلے کی طرف بھی توجہ دلاتے جائیں۔ نثری نظم میں یہ المیہ زیادہ شدید ہے۔ عبد الرشید، افضال احمد سید اور زاہد امروز کی نثری نظمیں اس حوالے سے پیش کی جا سکتی ہیں جن میں روایت سے حد درجہ انقطاع موجود ہے مگر نیا امکان زیادہ ہی اپنی جلوہ سامانیوں کے ساتھ ظہور کرتا نظر آتا۔ زاہد امروز نے تو کافی حد تک اس ڈھیلے پن کو سنبھالا ہے۔ آفتاب اقبال شمیم نے نئی نسل کو یہ پیغام تو دیا ہے کہ انحراف کے لیے بھی مٹی پر کھڑے ہونا ضروری ہے۔
٭٭
ظفر سیّد
جنابِ صدر: نظم پر اچھی بحث ہوئی ہے، اور اس کے مختلف پہلوؤں کو شاعر کی مجموعی فکر کے پس منظر میں بھی رکھ کر دیکھا گیا ہے۔
اس بات پر بھی بہت کچھ کہا گیا ہے کہ زید کون ہے، اور اس ضمن میں خود شاعر کے خیالات بھی پیش کیے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ زید نہ تو ان کا ہمزاد ہے، نہ آسیب اور نہ ہی ضمیر، بلکہ ’شاید میری اصل ہے۔، اگر ہم صرف نظمِ زیرِ بحث پر توجہ مرکوز کر کے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نظم میں بیان کردہ گروہ اور متکلم نہ صرف مختلف ہیں بلکہ زندگی کے دو الگ دھاروں سے تعلق رکھتے ہیں۔
جن کے ہم راہ چلتا ہوں
چلتا رہا ہوں، انھی کا وفا دار ہوں
دال روٹی کی گردان میں
عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں
یہ زیدوں یا ’عام‘ آدمیوں کا وہ گروہ ہے جو دن رات دال روٹی کی گردان میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ بات کہ وہ خود اس بات کی شکایت نہیں کر رہے، صرف شاعر ہی کو ان کے دکھ کا احساس ہے۔ یہ بات زید اور شاعر کو دو الگ طبقوں کا باسی بنا دیتی ہے (شعر میرے ہیں گو خواص پسند/گفتگو پر مجھے عوام سے ہے)
یہ سطریں پڑھتے ہوئے مجھے فرانسیسی ادیب فلابئیر سے منسوب ایک واقعہ یاد آ گیا۔ جب فلابئیر چھوٹے چھوٹے دکان داروں کو اتوار کے دن اپنی اپنی فیملیوں کے ہمراہ پکنک منانے کے لیے خوشی خوشی تیاری کرتے دیکھتا ہے تو پکار اٹھتا ہے کہ مجھ سے تو یہی لوگ بہتر ہیں۔ یہ معاشرے کا نچلا طبقہ ہے جن کا دامن فلابئیر کی طرح کون و مکاں کے مسائل کی خار دار جھاڑیوں سے الجھا ہوا نہیں ہے اور وہ بے فکری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے اپنے مسائل ہیں، لیکن وہ کم از کم فلابئیر کی طرح ذہنی اور نفسیاتی اذیت کا شکار نہیں ہیں۔
آفتاب اقبال شمیم کے ہاں یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے دنیا آباد ہے، انھیں مسائلِ روزگار کی چوہا دوڑ کسی اور طرف متوجہ ہونے ہی نہیں دیتی۔ لیکن متکلم واضح طور پر ان کا حصہ نہیں ہے، اس کا تعلق کسی اور طبقے سے ہے، لیکن وہ اپنی جکڑ بندیاں پھلانگ کر ان میں آ ملا ہے۔
یہاں شاعر کی اذیت دہری ہے، کیوں کہ وہ فلابئیر کی طرح چھت پر بیٹھا ’جنم دکھ، اور ’بے مہر صدیوں، کا بوجھ دل پر لیے نیچے گلی میں ہونے والا تماشا نہیں دیکھ رہا، بلکہ وہ فکری اور جسمانی طور بھی ’عوام، کے ساتھ ساتھ ہے۔
شاعر کا یہی احساس ہے جو اس نظم کو عمدہ کی سطح سے اٹھا کر اعلیٰ نظموں کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔
جنابِ صدر: نظموں کے انتخاب پر ایک سوال آیا تھا۔ اس پر فرشی صاحب پہلے ہی وضاحت کر چکے ہیں۔ میں صرف یہ کہتا چلوں کہ حاشیہ کے کسی بھی اجلاس کا سب سے مشکل مرحلہ نظم کا انتخاب ہوا کرتا ہے۔ صرف عمدہ نظم ہی چننے سے کام نہیں چلتا، بلکہ ایسی نظم ڈھونڈنا پڑتی ہے جس پر بحث کی بھی بھرپور گنجائش موجود ہو۔ بعض نظمیں ایسی ہوتی ہیں جو متاثر تو کرتی ہیں لیکن دو تین ہفتے تک بحث ’سہنے، کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ بعض نظمیں ایسی ہوتی ہیں جن پر بحث تو ہو سکتی ہے لیکن وہ فنی سطح پر متاثر نہیں کرتیں۔
ظاہر ہے کہ کسی شاعر کی سینکڑوں نظموں میں سے ایک نظم کا جب انتخاب کیا جاتا ہے تو اس پر سب کا اتفاق ممکن نہیں ہے۔ تاہم ’حاشیہ، کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ مندرجہ بالا محدودات کے اندر رہتے ہوئے بہترین نظم چنی جائے۔
٭٭
آفتاب اقبال شمیم
میرے خیال سے زید Elemental Man ہے، کوئی فلسفیاتی معما نہیں۔ ’زید، امید و موجود اور آدمی کے لیے بڑے خواب تک پھیلی ہوئی زندگی کا استعارہ بھی ہے اور حوالہ بھی۔ وہ فرد میں شامل بھی ہے اور اس سے ماورا بھی۔ وہ اپنی جبلتوں میں ثابت اور تمناؤں میں سیار۔ وہ میری طویل خود کلامی میں مجھے محوِ گفتگو رہتا ہے، اور مجھے مایوس نہیں ہونے دیتا۔
میری نظم پر علی محمد فرشی صاحب کا ابتدائیہ ایک مختصر مگر جامع مضمون ہے جو نظم میں گہرائی تک اتر کر اور عصر کے سیاق و سباق سے مشورہ کر کے ہی لکھا جا سکتا ہے۔ اس نے ایک آسان سی نظم کو مزید آسان کر دیا ہے۔ جلیل عالی صاحب نے اسے انسان سے میری کمٹمنٹ اور وجودی ویژن کا تخلیقی اظہار قرار دیا ہے۔ حمید شاہد صاحب نے اجنبیائے جانے اور کایا پلٹ کے پس منظر میں اس نظم کا جائزہ لیا ہے۔ قاسم یعقوب صاحب نے دریدا کے حوالے سے (کہا ہے کہ) نظم کے متن کے اندر ہی ایک تخلیقی اور منطقی محرک متن کو معنی کے مروجہ تصور سے آزاد کر دیتا ہے۔
صدر نشین سعید احمد صاحب خود نظم گو ہیں، اور ایک نظم گو کی واردات کو سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ ان کے اٹھائے ہوئے سوالات نظم کی بعض جہتوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ میں یامین صاحب، سحر آفرین صاحبہ، ظفر سید، اور دیگر احباب کا بھی شکرگزار ہوں جنھوں نے دوڑتے سمے میں رک کر نظم کو ذرا غور سے دیکھا۔
کیا کہوں، بہت پرانا آدمی بھی ہوں اور بہت نیا آدمی بھی ہوں۔ صدیوں میں رہتا ہوں اور گزرتے ہوئے لمحے کی چاپ بھی سنتا ہوں۔ نام وری میرا مسئلہ نہیں۔ گلیوں محلوں میں پلا بڑھا ہوں۔ یہ ہمیشہ سے دکھ سہنے والے اور بے خبری کی قناعت میں رہنے والے لوگ مجھے میرے لگتے ہیں۔ ان سے میرا یک طرفہ سمبندھ ہے، بہت مضبوط، زمین کی استقامت جتنا مضبوط۔
حسن کا خواب میں لڑکپن میں لڑکیوں کی شکل میں دیکھتا تھا۔ میرا فلیش بیک کا اپریٹس کبھی خراب نہیں ہوا۔ میرا تصور رونقِ حسن میں رہتا ہے اور یہ رونق میرے غم کو معتدل کرتی رہتی ہے۔ وقت کہتا ہے کہ میں پہچان کے سفر میں ہوں۔ اور لاشعور میں مجھ پر جھلکیوں کے روزن کھلتا لا وقت کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں اور میں بڑے خواب کی تعبیر کی حد و زد میں ہوں۔
میں سیاسی آدمی نہیں ہوں، لیکن تاریخ کے جبر کا یہ تماشا بہ چشمِ خود عمر بھر سے دیکھ رہا ہوں کہ اربوں کی آبادیوں پر اشرافیہ، اس کی زر خریدہ دانش، پیر، پروہت، پادری اور اسلحہ بردار قبضہ جمائے بیٹھے ہیں اور اس اندھیر کا کوئی انت دکھائی نہیں دیتا۔ انسانی آزادیوں کا خواب میری خود کلامی کی ایک اہم جہت ہے۔ شاید اسی لیے اس نظم کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہ کسی حد تک براہِ راست نظم میرے مزاحمتی شعور کا احاطہ تو کرتی ہے لیکن مجھے اور بھی غم درپیش ہیں۔ وجودی مسائل، سوال اٹھاتی ہوئی فکری پیچیدہ روی، وقت لا وقت اور نہ معلوم کیا کیا۔ قاسم یعقوب صاحب ’ایک نظم زید کے نام، کو میری نمائندہ نظم نہیں گردانتے۔ اگر مجھ سے انتخاب کے لیے کہا جاتا تو میں ’میں نظم لکھتا ہوں، میں شامل نظم ’وقت نما، پیش کرتا، جو قدرے طویل تو ہے لیکن میری کچھ اور جہتوں کو بھی آشکار کرتی ہے۔
چلیے، یہ کون سا مشکل مرحلہ ہے، کوئی نظم کسی بھی وقت ’حاشیہ، کے فورم پر دستک دے سکتی ہے۔
اب کچھ ابہام کے بارے میں، جس کا تذکرہ فرشی صاحب نے اپنے ابتدائیے میں کیا ہے۔ ابہام شاعری کا وصف ہے، ورنہ ریشنیلٹی کی اقلیم کا تاج دارِ اول افلاطون اپنی خیالی ریاست سے شاعروں کو خارج کرنے کا کیوں سوچتا۔ ابہام شاعروں کا لازمہ ہے جو نظم کے دورانیے میں آدھے آدمی کو پورا آدمی بننے کی آزادی دیتا ہے، ریشنیلٹی کو اِر ریشنیلٹی سے جوڑتا ہے۔ یہ ابہام اتنا بھی کم نہ ہو کہ نظم شروع شروع کی نظموں کی طرح عنوان گرفتہ جواب مضمون بن جائے، اور اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ غزل اور میڈیا کا قاری حواس باختہ ہو جائے۔
شاعر بھی چالاک ہوتا ہے اور کم و بیش کا حساب خوب جانتا ہے۔ لیکن نظم میں جہاں کمٹمنٹ کی بات ہو وہاں ابہام نہیں چلتا۔
٭٭
سعید احمد
محترم اراکین حاشیہ! مجھے افسوس ہے کہ میری ذاتی مجبوریوں کی بنا پر آپ کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی۔ نظم پر بحث تمام ہوئی نسبتاً کم ارکان کی شرکت کے باوجود زیر بحث نظم اور جناب آفتاب اقبال شمیم کی مجموعی نظم نگاری کے حوالے سے بہت سے اہم نکات پر گفتگو ہوئی۔ جناب آفتاب اقبال شمیم نظم کے تخلیقی انہماک میں عمر بسر کرنے والے شاعر ہیں۔ جیسا کہ انہوں نے خود اپنی گفتگو میں اس بات کا ذکر کیا کہ ناموری ان کا مسئلہ نہیں۔ یہ محض ان کا زبانی کلامی دعوی’ نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی برس کی محبت آمیز آشنائی کے دوران ہم نے یہی دیکھا ہے کہ وہ ہمہ وقت نظم کے تخلیق میں محو رہنے والے شاعر ہیں۔ نام نہاد شہرتوں کی خواہش میں رسوا ہوتے اس عہد میں آفتاب اقبال شمیم جیسے نظم نگار کا ہمارے درمیان ہونا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جناب علی محمد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں انہیں بار بار ایک اصیل شاعر قرار دیا ہے نیز انہوں نے نظم کے تجزیے سے بحث کا آغاز کرتے ہوئے آفتاب اقبال شمیم کے نظریۂ فن، فکری ابعاد اور اسلوبیاتی خصائص کی احسن انداز میں وضاحت کی ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ آفتاب اقبال شمیم نے نظم نگاری کا آغاز اس وقت کیا جب ترقی پسند تحریک اپنا ساز و سامان سمیٹ رہی تھی۔ راشد، میرا جی اور مجید امجد نظم کو پروپیگنڈے سے رہائی دلا کر آرٹ کے منصب پر فائز کر چکے تھے لیکن انھوں نے اس امر کی طرف اشارہ نہیں کیا کہ یہی وہ وقت تھا جب افتخار جالب، جیلانی کامران اور انیس ناگی وغیرہم نئی نظم کا ڈول ڈال چکے تھے۔ آفتاب اقبال شمیم کے حوالے سے نئی نظم کی تحریک کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کیونکہ انھوں نے جدید نظم کے اس تیسرے دھارے سے بھی اکتساب کیا ہے چاہے یہ اکتساب اس ابہام کے خلاف رد عمل کی صورت میں ہو جو افتخار جالب اور نئی نظم کے دوسرے شاعروں کی نظموں کی تفہیم میں مشکلات پیدا کر رہا تھا یا غزل کی شعریات سے عبارت اس زبان کے خلاف ہو جس کی تبدیلی کے لیے پہلے پہل جیلانی کامران نے استانزے میں تنقیدی و تخلیقی ہر دو سطحوں پر آواز بلند کی تھی۔ اس تناظر میں دیکھیں تو آفتاب اقبال شمیم نے نظم کی ایک نئی تخلیقی جہت دریافت کی ہے جو اپنی پیش رو نظم کے تینوں دھاروں کے فنی و فکری امتزاج کے باوجود ان سے الگ اور منفرد بھی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کی نظم کے مطالعے کے دوران اگر کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ ان کی یہی انفرادیت ہے جس کی بنا پر ہم انہیں نظم کے مقبول اسالیب کے ساتھ بریکٹ کر کے نہیں دیکھ سکتے اس پر مستزاد یہ کہ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ ’ان کی فکری ساخت و پرداخت ترقی پسند نظریے کی آغوش میں ہوئی ہے شاید اس آگاہی کا نتیجہ ہے کہ ہم انہیں ایک جدید نظم نگار سمجھنے کے باوجود ان کی نظموں کی تعبیر ہمیشہ ترقی پسند فکر کے تناظر میں کرتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال زیر بحث نظم کی تفہیم کے ساتھ بھی پیش آئی ہے۔ حالانکہ جناب علی محمد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں واضح طور پر یہ کہا تھا کہ ’’آفتاب اقبال شمیم ایک اصیل شاعر ہے اور کسی اصیل شاعر کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایک نظریے کے جوتے پہن کر آنکھیں بند کیے کسی ایک راستے پر چلتا رہے جیسا کہ اس شاعر نے کھلی آنکھوں سے زمینی حقائق کا مشاہدہ کیا ہے اور اپنا راستہ ہٹ کر بنایا ہے‘‘ پھر جناب جلیل عالی نے آفتاب اقبال شمیم کی نظم کی چند اور جہتوں کے بیان کے لیے شاعر کے ’انسان مرکز شعری ویژن‘، ’وجودی کرب‘ اور ’وجودی ویژن‘ کی طرف درست انداز میں اشارے کیے ہیں۔ حتیٰ کہ خود آفتاب صاحب نے یہ کہہ کر کہ ’’شاعر بھی چالاک ہوتا ہے اور کم و بیش کا حساب خوب جانتا ہے‘ شاید ہمیں یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ نظم کی بار دگر خواندگی کر کے دیکھیے شاید کوئی اور پرت بھی کھل جائے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور علی محمد فرشی کے ابتدائیے سے جناب رفعت اقبال کی گفتگو تک نظم کی تفہیم معروف ترقی پسند اصطلاحات محروم طبقات، معاشی معاشرتی انصاف، ظلم کی چکی میں پستے عوام اور طبقاتی کلاس وغیرہ کی روشنی ہی میں ہوئی۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میرا اختلاف ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس نظم کی ایسی تعبیر کی گنجائش نہیں تھی میرا اختلاف اور اصرار یہ ہے کہ اس نظم کے متن کو پیش نظر رکھ کر کسی اور تعبیر کی گنجائش بھی نکل سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور نظم پر ہونے والی ساری گفتگو نظم کے حاوی محرک سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اس کی ایک وجہ تو علی محد فرشی نے اپنے ابتدائیے میں خود ہی بیان کر دی تھی کہ ’’آفتاب اقبال شمیم کی نظم ابہام سے پاک ہونے کے باوجود ناقدین کی ضروری توجہ سے محروم ہے تو اس کے معنی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم اپنی پسند اور آسانی کے اسیر ہیں۔‘‘ اور اس آسانی کا ثبوت انھوں نے اگلے ہی جملے میں یہ کہہ کر پیش کر دیا کہ ’’زیر بحث نظم شروع ہی میں اپنے موضوع کا دھاگا ہمیں تھما دیتی ہے جناب حمید شاہد بھی اسی انداز میں نظم کی کسی دوسری پرت کھولنے کے بجائے یہ کہہ کر گفتگو آغاز کرتے ہیں‘‘ نظم کے عین آغاز میں شاعر نے اپنی دانش اور اپنی فکر کے نہ صرف منبع کو بتا دیا ہے، اپنی فکر اور دانش کے سروکاروں کو بھی واضح کر دیا ہے ایسے میں وہ سارے ابہام جو معنیاتی دھارے کا رخنہ ہو سکتے تھے اس نظم کا مسئلہ نہیں رہتے جناب قاسم یعقوب کی رائے بھی اس سے کچھ مختلف نہیں وہ کہتے ہیں ’متن کی ساخت اتنی سادہ اور واضح ہے تو قاری متن کے عرصے [Space] میں خود کو متن کے ایک ہی پرت میں ملفوف رکھنے پر اکتفا کر لے گا۔‘
آپ تمام احباب کی درج بالا آرا میرے لیے معتبر ہیں لیکن میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ ان تمام آرا میں کہیں نہ کہیں متن کے سرسری مطالعے کا شائبہ ضرور ہوتا ہے اور ایسا شاید اس لیے بھی ہوا ہے کہ ہم نہ صرف آفتاب اقبال شمیم کی فکری وابستگیوں سے آگاہ ہیں بلکہ زیر بحث نظم کی پیش منظریت foregrounding بھی کچھ اسی نوعیت کی ہے: ’دال روٹی‘، ’جور و جفا‘، ’بے مہر صدیوں کی دوزخ‘، ’گلا کاٹتے جیب کترے دن‘، ’خواب فردا‘ اور ’جھوٹ سچ کی لڑائی میں سچ کی فتح‘ وغیرہ نظم کا ایسا ہی ڈکشن ترتیب دیتے ہیں کہ ذہن خواہ مخواہ خود کو ترقی پسند نظم کے دھارے سے جوڑ کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ’معاشی معاشرتی انصاف کے آدرش کا امین شاعر مدت مدید سے کرب کی چکی میں پستے محروم طبقات کی خوشحالی کا خواب دیکھ رہا ہے اور دیگر ترقی پسندوں کی طرح امید کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور سمجھتا ہے کہ پرولتاری اور بورژوا کی جنگ میں آخر ایک روز مزدور کسان اپنے حقوق کی جنگ جیت جائیں گے اور یوں سچ کی فتح ہو کر رہے گی۔‘‘ نظم کے اس پیش منظر کو سامنے رکھ کر جناب علی محمد فرشی نے نظم کی تفہیم خوب کی ہے لیکن اسی تفہیم کے دوران وہ ایک جملہ ایسا بھی لکھ گئے ہیں جس پہ شاید انہوں نے بھی رک غور نہیں کیا کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ انہوں لکھا ہے کہ اس نظم کا شاعر ’’عوام کو جن کی عمریں پیٹ کے تنور کا ایندھن بن جاتی ہیں ظالموں اور غاصبوں کے تخت گرانے پر اکساتا ہے نہ ان کے تاج اچھالنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘‘ علی محمد فرشی نے اس امر کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی۔ سوال یہ ہے کہ جس ترقی پسند تناظر میں نظم کی تعبیر کی گئی ہے اس کا تو لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہیے تھا کہ عوام کو غاصبوں کے خلاف انقلاب برپا کرنے پر اکسایا جاتا۔ یہی وہ سوال ہے جس نے مجھے نظم کی بار دگر خواندگی پر مجبور کیا اور میں نے کوشش کی ہے کہ متن پر انحصار کر کے دیکھوں کہ کیا نظم کے deep structure میں کوئی اور پرت پوشیدہ تو نہیں۔ اس سے پہلے کہ اس حوالے سے میں اپنی معروضات پیش کروں جناب جلیل عالی کی رائے بھی دیکھتے چلیں۔ وہ شاعر کی فکری ساخت و پرداخت کو محض ترقی پسند نظریے سے الگ کر کے دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں ’’وہ انسان کو نا انسان بنانے والی ہر صورت کی مخالفت کرتا ہے نیز یہ کہ شاعر کا انسان مرکز شعری ویژن کسی منشوری سوچ کا زائیدہ نہیں بلکہ اس کے نا آسودہ احساس جمال کی دین ہے اس میں محض معاشی محرومیوں کی نا آسودگی سے جنم لینے والے جارحانہ رد عمل کو کسی جد و جہد کی بنیاد نہیں بنایا گیا۔‘‘ یہ تمام اوصاف ایک جدید نظم نگار کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کیونکہ ترقی پسند نظم جس انسان کے المیے کو پیش کرتی رہی ہے اسے اپنے نا انسان ہونے کا ڈر نہیں تھا۔ اسے علم تھا کہ اس کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے اسے یہ امید اور یقین بھی تھا کہ ایک نہ ایک دن ظلم کی طویل رات ڈھل جائے گی اور سرخ سویرا طلوع ہو گا تمام مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا اور زندگی خوشیوں سے عبارت ہو گی جب کہ زیر بحث نظم میں مجھے کہیں ایسی صورتحال دکھائی نہیں دیتی۔ شاید اس لیے نظم کے آغاز ہی سے اس کے موضوع کا دھاگہ اس طرح میرے ہاتھ نہیں آ سکا جیسا کہ فرشی صاحب کے ہاتھ آ گیا تھا۔ میرے لیے نظم کی کلیدی سطر ’مجھے دکھ، جنم دکھ کا سہنا گوارا ہے‘ ہے۔ مجھے یہ دکھ اسی وجودی آگہی سے پھوٹتا نظر آیا جس کے مطابق انسان کو اس کی مرضی کے بغیر اس کرہ ارض پر پھینک دیا گیا ہے۔ نظم میں یہ دکھ شاعر کی اصل یعنی زید کی خود کلامی کی صورت میں آشکار ہوا ہے۔ اسی دکھ کی آگہی کی روشنی میں شاعر اپنی اور اپنے قبیلے کی شناخت کے عمل سے گزرتا ہوا وقت کے جبر کو موضوع بناتا ہے۔ علی محمد فرشی نے نظم کی جس مقامیت کا ذکر کیا تھا میرے خیال میں یہ مقامیت مکان (space) کی ہے۔ مکان جہاں زمان کا جبر طاری ہے اس پر مستزاد وہ پوشیدہ قوتیں جو انسان کو دال روٹی کی ’گردان‘ میں مبتلا کر کے نا انسان بنانے کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔
دال روٹی کی گردان میں
عمر کو جو بسر کرتے رہتے ہیں
میں سمجھتا ہوں یہاں مسئلہ دال روٹی کی عدم دستیابی اور اس کے نتیجے میں پیدا شدہ بھوک کا نہیں ہے۔ ان سطور میں اصل اہمیت کا حامل لفظ ’گردان‘ ہے۔ جو دہرائی یا تکرار کا عمل ہے۔ یوں یہ سطر دال روٹی کی خواہش میں مبتلا عوام کو موضوع نہیں بناتی بلکہ یہ وہ عوام ہیں جو دال روٹی کے حصول کے بعد اسی کی تکرار کی تکرار میں مبتلا ہو کر رہ گئے ہیں۔ سو شاعر کے مخاطب وہ لوگ ہیں جو رزق کے چکر میں گرفتار ہو کر زندگی کی تکرار میں مبتلا ہیں اور جنھیں یہ خبر بھی نہیں کہ یہ تکرار routine & cyclic بے رس یکسانیت اور اکتاہٹ میں ڈھلتی جاتی ہے۔ نظم کا واحد متکلم اس اکتاہٹ کو ذاتی اور اجتماعی ہر دو سطح پر دریافت اور شناخت کرنے کے عمل سے گزرتا ہے۔ البتہ اس میں اور اجتماع میں یہ فرق ضرور ہے کہ اجتماع زندگی کی جس غیر تخلیقی گردان کو رٹنے میں مصروف ہے اس کی آگاہی اسے حاصل نہیں۔ نظم کا واحد متکلم یا شاعر کی اصل زید یا خود شاعر نہ صرف محض روز کی اس تکرار میں انسان کو نا انسان ہوتے دیکھ رہا ہے بلکہ اسی حوالے سے اپنی دانش کی آبیاری کرتے ہوئے گھٹن اور حبس میں سانس لینے کے لیے حسن کے نظارے کی کھڑکی کھولنے پربھی قادر ہے۔
کیا بتاؤں کہ گلیوں محلوں کی
یہ لڑکیاں
عشق کے قاف کی وہ پریزاد ہیں
جن کی دلداریوں کے گلاب و سمن
چشم و لب اور جان و بدن کی
عبارت میں
لکھی ہوئی داستانوں میں
دل شاہزادہ ہے گم نام صدیوں سے
بھٹکا ہوا
نظم کی ان سطور کے حوالے سے آفتاب اقبال شمیم نے اپنی گفتگو میں کہا ہے کہ ان کا Flash back کا اپریٹس کبھی خراب نہیں ہوا حالانکہ نظم کے اختتام تک پہنچتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے Flash forward کے اپریٹس کی ورکنگ کنڈیشن بھی بہت اچھی ہے۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ نظم کی درج بالا سطور کے حوالے سے مجھے کہنا یہ تھا کہ آفتاب اقبال شمیم نے یہاں وجودی فلسفے کی حرف بہ حرف پیروی کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ ان کا ایسا اختصاص ہے جو کسی فلسفے کی پیروی میں نظم تخلیق کرنے کے بجائے بقول جلیل عالی اپنے نا آسودہ احساس جمال کی پیروی میں نظم تخلیق کرنے سے پیدا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آفتاب اقبال شمیم نے وجودی ادیبوں کی طرح محض زندگی قبیح تصویر کشی سے جا بہ جا گریز کر کے حسن کے نظارے سے امید کے لمحے بھی کشید کیے ہیں۔ نظم کے ان پہلے دو حصوں کا تقابل کر کے دیکھیں تو زندگی کی دو یکسر متضاد تصویریں نمایاں نظر آتی ہیں۔ پہلی تصویر ایک ایسے قبیلے کی ہے جو غیر تخلیقی زندگی کا اسیر ہے جس کا ایک فرد خود شاعر بھی ہے جو نروان کے لمحے سے گزر کر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ زندگی حقیقت میں کچھ اور شے ہے لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ گوتم کی طرح نروان کے حصول سے پہلے یا بعد میں خود کو اپنے قبیلے سے جدا کر کے دیکھنے کا روادار نہیں۔ شاید اس لیے کہ فرد اور اجتماع اس کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یوں وہ وجودی کرب کا شکار تو ہوتا ہے لیکن وجودی تنہائی سے بچ جاتا ہے۔ ہر چند ایک خود آگاہ فرد ہونے کا ناطے وہ ایک سطح پر اس تنہائی کا شکار ہے بھی۔ اور اسی خود آگاہی کے نتیجے میں وہ دوسری تصویر ہمارے سامنے رکھتا ہے جس میں زندگی کی تکرار، یکسانیت اور اکتاہٹ سے بھاگ کر بھٹکے ہوئے شاہزادۂ دل کے لیے تخلیقی امکانات موجود ہیں۔۔۔۔ نظم کے ان دو حصوں میں بعض سادہ سے الفاظ کا خوبصورت استعمال آفتاب اقبال شمیم کی فنی دسترس کا ثبوت ہے۔ مثلاً نظم کی چھٹی سطر میں لفظ ’رونق‘ بظاہر تو زندگی کی بھاگ دوڑ کا نمائندہ نظر آتا ہے لیکن اگر اسے دال روٹی کی گردان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکرار اور یکسانیت کے تناظر میں دیکھیں تو اس طنز کا احساس ہوتا ہے جو ایسی زندگی کی چہل پہل سے وابستہ ہے جس میں سفر کا دائرہ لا حاصلی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح ’عشق کے قاف‘ کی ترکیب سے کوہ قاف کا خیال پیدا ہونا تو سامنے کی بات ہے لیکن ذرا غور کرنے سے احساس ہوتا ہے کہ ’قاف‘ تو عشق کے انتہا کی علامت بھی ہے۔ مرقع زیست سے دو مختلف اور متضاد تصویروں کے تقابل کے نتیجے میں شاعر کرہ ارض پر حیات کے اس دائمی دکھ کے بیان تک پہنچا ہے جو ہر نئے جنم کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دکھ چونکہ کسی ایک فرد کا نہیں اس لیے یہاں شاعر نے واحد متکلم کا صیغہ چھوڑ کر جمع کا صیغہ ’ہم‘ استعمال کیا ہے۔
ہم کہ جور و جفا اور بے مہر صدیوں کی
دوزخ میں ہیں
کیا پتا کل نہ ہوں
کیا پتا کل کا دیکھا ہوا خواب
سچا نکل آئے، دنیا بدل جائے
یہ خواب وقت اور حالات کے جبر سے نکلنے کا خواب ہے جسے انسان کل بھی دیکھتا تھا اور آج بھی دیکھتا ہے لیکن زمان و مکان کی قید میں رہتے ہوئے جس کے سچ ثابت ہونے کا اسے کبھی یقین نہیں آتا البتہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اگر یہ خواب سچ ہو تو اس کی دنیا ہی بدل جائے۔ میرے نزدیک یہاں دنیا بدل جانے سے شاعر کی مراد کسی نظام یا انقلاب کے ذریعے حالات کی بہتری نہیں بلکہ محاورتاً دنیا بدل جانے کی طرف اشارہ ہے یعنی زندگی ایک ایسی تخلیقی سرشاری میں ڈھل جائے جس کا تجربہ شاید لا وقت ہی میں کیا جا سکتا ہے۔ اسی باعث شاعر نے فوراً ہی وقت کے جبر کی ایک اثر انگیز تصویر پیش کی ہے جس میں لا وقت کی خواہش بھی موجزن ہے۔
گلیوں محلوں کے
لچے لفنگے، گلا کاٹتے، جیب کترے دنوں کو
فلاں اور فلاں اور فلاں شہر کی
تنگ دامانیوں کی سزا سے
رہائی ملے
شہروں کی تنگ دامانیوں سے رہا ہوتا وسعتوں کا حامل وقت کا یہ لمحہ ہی شاعر کا خواب فردا ہے جسے وہ زندگی کی بڑی حقیقت تصور کرتا ہے جس کے مقابلے میں دال روٹی کی گردان زیادہ معنی نہیں رکھتی سو شاعر زمان و مکان کے محدودات پر غالب آ کر بحر بے کراں بن جانے کا آرزو مند ہے۔ خواتین و حضرات میں نے close reading کے ذریعے نظم کے متن کی تعبیر کی کوشش کی ہے۔ اور میرے خیال کے مطابق نظم کے تخلیقی چوکھٹے میں اس کا جواز موجود ہے۔
نظم پر اپنی معروضات پیش کرنے کے علاوہ مجھے چند اور نکات کی وضاحت بھی کرنی ہے جن کا تعلق ان سوالات سے ہے جو نظم کی تعبیر کے دوران احباب کی طرف سے اٹھائے گئے۔۔۔۔ ان میں سب پہلا نکتہ تو ابتدائیے میں علی محمد فرشی نے نظم کے ابہام سے پاک ہونے کے حوالے سے اٹھایا اگرچہ انھوں نے بڑی خوبی سے ابہام کو نظم کی خوبی یا خامی نہ تصور کرتے ہوئے موضوع کی غایت، اسلوب کی ضرورت اور شاعر کے فنی میلان کا تقاضا قرار دیا۔ لیکن بعد میں جناب محمد یامین نے اس نکتے پر خاص زور دیتے ہوئے اسے مختلف حوالوں سے شاعری کے بنیادی اوصاف میں سے ایک قرار دیا اور احباب سے اس پہ کھل کر بحث کی گزارش بھی کی لیکن بعد میں کسی نے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔ اس ضمن میں مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ میں خود ان نظم نگاروں میں سے ہوں جو ابہام کو شاعری کا وصف خاص سمجھتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں فرشی صاحب کی رائے سے متفق ہوں۔ مزید یہ کہ آفتاب اقبال شمیم کی نظموں میں یقیناً اس ابہام کے خلاف رد عمل موجود ہے جو نظم کو چیستان یا معمہ بنا دیتا ہے۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ ان کی تمام نظمیں ابہام سے یکسر پاک ہیں۔ وہ بڑی خوبی کے ساتھ نظم کا ایسا پیش منظر بناتے ہیں جو سہل اور سادہ دکھائی دیتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا نہیں بقول غالب ’دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں‘۔ پھر ابہام کے حوالے سے یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ شاید اردو نظم میں ٹی۔ ایس۔ ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ کے اثرات کے نتیجے میں بہت سے نظم نگاروں کے ہاں ابہام ضرورت سے کچھ زیادہ ہی راہ پا گیا ہے اور ہم اسے نظم کے جدید ہونے کے لیے ایک لازمہ خیال کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ عالمی ادب کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پابلو نرودا، لورکا، رلکے اور سیزر ولیخو ایسے کئی جدید شعرا ہیں جن کی نظموں کی بنیاد ابہام پر نہیں اس کے باوجود انہیں عالمی ادب میں اعلی مقام حاصل ہے۔ یوں بھی ابہام نظم کا ا ایک ایسا وصف ہے جو اپنے تمام حسن کے باوجود نظم کی تعبیر کے دوران تحلیل ہو جاتا ہے۔
جناب قاسم یعقوب نے زیر بحث نظم کے انتخاب پر سوال اٹھایا۔ ان کے خیال میں یہ نظم آفتاب اقبال شمیم کی نمائندہ نظم نہیں ہے بعد میں خود آفتاب اقبال شمیم نے بھی قاسم یعقوب کے خیال کی تائید کر دی اور اپنی ایک نظم ’وقت نما‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان سے پوچھا جاتا تو وہ اس نظم کو بحث کے لیے پیش کرتے۔ در اصل کسی شاعر کی نمائندہ نظم کا انتخاب ایک مشکل مرحلہ ہے۔ حاشیہ کی انتظامیہ اس مشکل کو کیسے حل کرتی ہے، مجھے معلوم نہیں لیکن میری یہ تجویز ہے کہ نظم کے انتخاب میں اگر شاعر سے بھی رائے لے لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ جناب علی محمد فرشی نے آخر میں یہ رائے بھی پیش کی کہ اجلاس کا وقت دو ہفتے مزید بڑھا کر ’وقت نما‘ کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ یہ تجویز معقول تھی لیکن میں نے اس اتفاق نہیں کیا کیونکہ ایک تو ’وقت نما‘ نسبتاً طویل نظم ہے پھر اس کی موضوعاتی ساخت بھی زیادہ گہرائی اور وسیع تناظر کی حامل ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ایسی گہرائی کی حامل نظم پر یوں اچانک گفتگو شروع کر کے شاید ہم اس سے انصاف نہیں کر سکیں گے اس کے لیے ضروری ہے
(اگر ممکن ہو تو) کہ اس نظم کو زیر بحث لانے کے لیے کسی مناسب وقت پر نیا جلسہ منعقد کیا جائے۔
اس اعتراف کے ساتھ اجلاس کے اختتام کا اعلان کرتا ہوں کہ سنجیدہ ادبی مباحث کے فروغ میں حاشیہ جیسے فورم کا کردار نہایت قابل تعریف ہے۔ میں حاشیہ کی انتظامیہ اور ان تمام احباب کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس اہم اجلاس کو کامیاب بنایا۔
جلیل عالی: صدرِ محترم! آپ نے تھوڑا وقت تو لیا مگر بھر پور طریقے سے صدارت کا حق ادا کر دیا۔ آپ کے جائزے میں جہاں نظم پر ہونے والی تمام گفتگو کو عمدگی سے سمیٹا گیا ہے وہاں کچھ نئی جہتوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ بے شک یہ ایک جامع صدارتی تحریر ہے۔ مجھے لگتا ہے یہ اگلی صدارتوں کو زیادہ توجہ اور کاوش سے کام لینے پر اکسائے گی۔
ظفر سیّد: جلیل عالی صاحب: میں آپ کی بات کی بھرپور تائید کرتا ہوں۔ جنابِ صدر نے واقعی صدارت کا حق ادا کر دیا ہے، اور نظم پر ہونے والی بحث میں اگر کوئی تشنگی تھی تو اسے پورا کر دیا ہے۔ ان کے صدارتی خطبے کی بدولت اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اجلاس بھی گذشتہ اجلاسوں کی مانند بھرپور اور کامیاب رہا۔ میں حاشیہ کی طرف سے ان کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔
محمد حمید شاہد: بجا طور پر اعتراف کیا جا رہا ہے کہ سعید احمد نے اس اجلاس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ سعید نے صدارت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے نہ صرف بحث کو خوب صورتی سے سمیٹا نظم کی تفہیم کے باب میں لائق اعتنا اضافے کیے۔ میں حاشیہ کے تمام اراکین کو مبارک دیتا ہوں کہ ہمارے اندر بہتر مکالمہ کی تاہنگ اور صلاحیت رکھنے والوں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ تخلیق کاروں کے بیچ یہ مکالمہ یقیناً ایک بہتر ادبی فضا بنانے کا باعث ہو گا۔
رحمان حفیظ: میری جانب سے کامیاب اجلاس کی مبارکباد قبول کیجئے، میں اگرچہ بحث میں عملاً سرگرم نہیں رہ پایا مگر وقتاً فوقتاً موجود رہ کر کچھ نہ کچھ سمجھنے اور سیکھنے میں کامیاب رہا۔ یہ نظم مدتوں پہلے پڑھی تھی مگر مجھ پر اس کی تفہیم کے نئے در اسی بحث سے وا ہوئے۔ انتظامیہ، جناب صدر اور شرکا کے لئے دلی داد
فہیم شناس: تشکیلتا۔۔۔۔۔۔ اجنبیانے نئے الفاظ اس بحث میں نظر آئے
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اُسے عمر بھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اُسے لوٹ کر نہیں آنا
ذرا سی غیب کی لکنت زباں میں لاؤ
بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے
اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا
ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی
نہیں تو تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا
کروں مسافتیں نا آفریدہ راہوں کی
مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا
٭٭٭
اک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
کیفیتِ بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں
بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں
جو قرض کی مے پی کر تسخیرِ سخن کر لے
ایماں اُسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامہ دنیا پر
اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں
میں کون ہوں! ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں
اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں
٭٭٭
اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام
منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام
ڈگمگاتی ہوئی ہر گام سنبھلتی ہوئی شام
خواب گاہوں سے ادھر خواب میں چلتی ہوئی شام
گوندھ کر موتیے کے ہار گھنی زلفوں میں
عارض و لب پہ شفق سرخیاں ملتی ہوئی شام
اک جھلک پوشش بے ضبط سے عریانی کی
دے گئی دن کے نشیبوں سے پھسلتی ہوئی شام
ایک سناٹا رگ و پے میں سدا گونجتا ہے
بجھ گئی جیسے لہو میں کوئی جلتی ہوئی شام
وقت بپتسمہ کرے آب ستارہ سے اسے
دست دنیا کی درازی سے نکلتی ہوئی شام
٭٭٭
سادہ سی حقیقت کو افسانہ بنا لینا
چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا
ہو اوجِ مکاں جس جا معیار بلندی کا
ہم خاک نشینوں کو اُس شہر سے کیا لینا
کیوں تاکتے رہتے ہو رستے میں حسینوں کو
اس شغل میں تم اپنی آنکھیں نہ گنوا لینا
کچھ سہل نہیں ایسا، اِس دار کے موسم میں
سر تان کے چلنے کا اقرار نبھا لینا
یہ یاریاں، یہ رشتے مضبوط بس اتنے ہیں
پرسوں کی عمارت کو اک آن میں ڈھا لینا
موجود ہیں کھونے میں گنجائشیں پانے کی
یعنی ہو زیاں جتنا اُتنا ہی مزا لینا
٭٭٭
دلوں پہ شوق اطاعت کا وہ نزول ہوا
کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا
فنا کے بعد پیامِ بقا بھی لایا ہے
یہ پھول کل جو اسی راستے کی دھول ہوا
گرفتِ فیصلہ میں آ کے کیا سے کیا ہو جائے
ابھی وہ مثلِ شرر تھا، ابھی وہ پھول ہوا
میں اس کی راکھ کے صدقے، اُڑا دیا جس نے
وجود، جس کے لئے جبر نا قبول ہوا
میں عمر کے نہیں کونین کے سفر میں ہوں
کسی زیاں سے کبھی میں نہیں ملول ہوا
٭٭
دونوں ہی اک ساتھ بھلا ملتے ہیں
یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں
آنکھیں کھول کہ دیکھو معنی دنیا کے
اِس لغّت میں سارے مطلب ملتے ہیں
کون کسے یاں جانے ہے پہچانے ہے
ملنے کو تو آپس میں سب ملتے ہیں
غم بھی اک تہذیب ہے جس کی کشور میں
تشنہ آنکھیں اور پیاسے لب ملتے ہیں
جان گنوا کر نام ملے گم ناموں کو
یہ گوہر جب کھو جائیں تب ملتے ہیں
٭٭٭
نظمیں ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم
گرتے ستون کا منظر
یہاں سے آگے نشیب ہے اور اس سے آگے
غروب کی گھاٹیاں ہیں، جن میں
لڑھک کے روپوش ہو گیا ہے
سوار دن کا
ذرا ذرا سے چراغ لے کر ہتھیلیوں پر
چلے ہیں با بالشتیے اندھیرے کے چوبداروں کے پیچھے پیچھے
قدم ملاتے ہوئے صدا پر صدا لگاتے
بتاؤ یہ آنکھ کا خلا ہے کہ وقت کا شہ نشیں ہے خالی
کہاں گیا ہے مکیں مکاں کا
کھلا ہے دروازہ آسماں کا
یہاں سے آگے
چبوترے سے اترے کے اک عکس روشنی کا
چلا ہے بے انت بھول کی
گیلری کی جانب
جہاں عجائب سجے ہوئے ہیں
٭٭٭
بند دروازے میں کرن کی درز
ظلمت کا ہر عضو ہے بیج سیاہی کا
کٹ کر پھر اگ آتا ہے
دھوپ میں اتنی کاٹ نہیں کہ میں ان کو
اندر سے مسمار کروں
کل وہ چہرہ مسخ تھا اتنا آج جسے
میں تصویر سمجھتا ہوں
کیا میں رات کے جادوگر کے شہر میں ہوں
جامد آنکھ کے روزن سے
دیکھ رہا ہوں جو مجھ کو دکھلاتا ہے
یا میں بے معنی دنیا میں
زندہ رہنا سیکھ رہا ہوں
شاید میں پہچان کی بھول بھلیوں میں
گم ہوں
لیکن کیا یہ کم ہے
خواب کی مشعل ہاتھ میں لے کر چلتا ہوں
٭٭٭
سلیمان خمار
آمد: یکم مارچ ۱۹۴۴ء رفت:
نام ؛ سلیمان خمار تخلص خمار
1-3-1944 باگلکوٹ (کرناٹک) میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم: ایم۔ اے، اردو، فارسی (فرسٹ ڈویژن) 1970
ان کی تصانیف ہیں ؛
1۔۔ تیسرا سفر (شعری مجموعہ) 1981،
2۔۔ سمندر جاگتا ہے، (شعری مجموعہ) 2009
3۔۔ پیکرِ نور (حمد و نعت کا مجموعہ) زیرِ ترتیب
4۔۔ دشتِ جنوں (شعری مجموعہ) زیرِ ترتیب
٭٭٭
سلیمان خمار ۔۔۔ رؤف خیر
چٹکی میں ہر زمیں کو بناتے تھے آسماں
خوش فکر اس قدر تھے سلیمان با وقار
گویا نکالتے تھے ادب کے لیے زکوٰۃ
لیتے تھے ہند و پاک کے پرچے وہ بے شمار
وہ صاحب, صحیفۂ ’نورس‘ سے کم نہ تھے
جو بیجا پور جاتے تھے، ملتے تھے ان سے یار
وہ ہاتھ سو گئے تھے سرہانے دھرے دھرے
جن ہاتھوں نے دیے تھے زمانے کو شاہ کار
کرناٹکا سے لے کے سعودی عرب تلک
بلقیس بے سبا ہے تو ہدہد ہے سوگوار
ہرچند مل گئے ہیں وہ مٹی میں، پھر بھی ہے
قائم سخن کے ملک سلیمان کا خمار
2024 عیسوی
٭٭٭
حمد ۔۔۔ سلیمان خمارؔ
زمین تیری ہے اور آسماں بھی تیرا ہے
مکاں بھی تیرا ہے اور لا مکاں بھی تیرا ہے
خوشی کے سارے خزانے ہیں بخششیں تیری
مصیبتوں کا ہر اک امتحاں بھی تیرا ہے
نہ جانے کب یہ بدن پیڑ سوکھ کر گر جائے
بہاریں تیری ہیں، دورِ خزاں بھی تیرا ہے
قدم تلے یہ ہری گھاس ہے ترے دم سے
سروں پہ دھوپ کا یہ سائباں بھی تیرا ہے
تری ہی دین ہے طوفان بھی سمندر بھی
ہیں کشتیاں بھی تری، بادباں بھی تیرا ہے
نزولِ قہر بھی تجھ سے نزولِ رحمت بھی
ہے چاندنی تری، آتش فشاں بھی تیرا ہے
تُو ہی لگائے گا منزل پہ ہے یقیں ہم کو
کہ راستے بھی ترے کارواں بھی تیرا ہے
ہے فکرِ شعر بھی مجھ میں تری عطا کردہ
زباں بھی تیری ہے اور یہ بیاں بھی تیرا ہے
٭٭٭
نعت پاک ۔۔۔ سلیمان خمارؔ
عشقِ رسول دل میں بسانا بھی نعت ہے
اوصافِ مصطفیٰ کا سنانا بھی نعت ہے
طیبہ کی بچیوں کا شہِ دیں کی شان میں
رستوں پہ آ کے دف کا بجانا بھی نعت ہے
میدانِ کربلا میں پئے حرمتِ رسول
ابنِ علی کا سر کو کٹانا بھی نعت ہے
عشقِ نبی میں ڈوب کے حضرت اویس کا
دندان کا دہن سے گرانا بھی نعت ہے
سرکارِ دو جہاں کے لئے غارِ ثور پر
مکڑی کا آ کے جالا بنانا بھی نعت ہے
سردارِ انبیاء کی ولادت پہ منہ کے بل
سارے بتوں کا خود کو گرانا بھی نعت ہے
معراج میں خدا کا نبیِ کریم کو
سات آسماں کی سیر کرانا بھی نعت ہے
حکمِ رسولِ پاک کی تعمیل میں خمار
سورج کا پھر سے لوٹ کے آنا بھی نعت ہے
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ سلیمان خمار
پہاڑوں کی بلندی پر بیٹھا ہوں
زمیں والوں کو چھوٹا لگ رہا ہوں
ہر اک رستے پہ خود کو ڈھونڈھتا ہوں
میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں
بھرے شہروں میں دل ڈرنے لگا تھا
اب آ کر جنگلوں میں بس گیا ہوں
تو ہی مرکز ہے میری زندگی کا
ترے اطراف مثل دائرہ ہوں
اجالے جب سے کترانے لگے ہیں
سیہ راتوں کا ساتھی بن گیا ہوں
مراہم شکل کب کا مر چکا ہے
مجھے مت چھیڑئیے میں دوسرا ہوں
٭٭٭
دشت میں گھاس کا منظر بھی مجھے چاہیے ہے
سر چھپانے کے لئے گھر بھی مجھے چاہیے ہے
تھوڑی تدبیر کی سوغات ہے مطلوب مجھے
اور تھوڑا سا مقدّر بھی مجھے چاہیے ہے
تیرنے کے لئے دریا بھی ہے کافی، لیکن
شوق کہتا ہے سمندر بھی مجھے چاہیے ہے
صرف دیواروں سے ہوتی نہیں گھر کی تکمیل
چھت بھی درکار ہے اور در بھی مجھے چاہیے ہے
گاہے فٹ پاتھ بچھا کر بھی میں سو جاؤں گا
گاہے اک مخملیں بستر بھی مجھے چاہیے ہے
تیری معصوم ادائی بھی سر آنکھوں پہ مگر
تجھ میں اک شوخ ستمگر بھی مجھے چاہیے ہے
چاہیے ہے کبھی ریلا بھی مجھے سردی کا
اور کبھی دھوپ کا لشکر بھی مجھے چاہیے ہے
استعارے بھی ضروری ہیں سُخن میں، لیکن
شعر میں صنعتِ پیکر بھی مجھے چاہیے ہے
گفتگو کس سے کریں بونوں کی بستی میں خُمار
بات کرنی ہے تو ہمسر بھی مجھے چاہیے ہے
٭٭٭
تجھ سے بچھڑوں تو یہ خدشہ ہے اکیلا ہو جاؤں
گھور تنہائی کے جنگل کا میں حصہ ہو جاؤں
اک ترے دم سے ہی شاداب ہے یہ میرا وجود
تُو نظر پھیر لے مجھ سے تو میں صحرا ہو جاؤں
دل کی دیواروں پہ مرقوم رہے نام مرا
قبل اس کے کہ میں بھولا ہوا قصّہ ہو جاؤں
تُو اگر دل میں بسا لے تو بنوں میں شاعر
تُو جو ہونٹوں پہ سجا لے تو میں نغمہ ہو جاؤں
ایسا ہو جائے نہ سوجھے تجھے کچھ میرے سوا
ایسا ہو جائے کہ میں ہی تری دنیا ہو جاؤں
جانتا ہوں میں تری سرمئی آنکھوں کا طلسم
اک نظر مجھ پہ بھی، میں بھی ترے جیسا ہو جاؤں
میں ادھورا ہوں بہت تجھ سے بچھڑ کر اے دوست
تُو جو مل جائے دوبارہ تو میں سارا ہو جاؤں
٭٭٭
شناخت مٹ گئی چہرے پہ گرد اتنی تھی
ہماری زندگی صحرا نورد اتنی تھی
تمام عمر اسے سینچتے رہے لیکن
گلاب دے نہ سکی شاخ زرد اتنی تھی
گرے نہ اشک کبھی حادثوں کے دامن پر
ہماری آنکھ شناسائے درد اتنی تھی
تری پکار کا چہرہ دکھائی دے نہ سکا
مرے قریب صداؤں کی گرد اتنی تھی
تلاشِ زیست میں دل جیسی چیز چھوٹ گئی
حکایتِ دل و جاں فرد فرد اتنی تھی
جھلستی دھوپ کا اُس پر گماں گزرتا تھا
بچھی تھی راہ میں جو چھانو زرد اتنی تھی
پِگھل سکی نہ کبھی برف اکیلے پن کی خُمار
وہ شعلہ رو بھی طبعیت کی سرد اتنی تھی
٭٭٭
اِس گھنی شب کا سویرا نہیں آنے والا
اب کہیں سے بھی اُجالا نہیں آنے والا
جبرئیل اب نہیں آئیں گے زمیں پر ہرگز
پھر سے آیات کا تحفہ نہیں آنے والا
ہو گئے دفن شب و روز پُرانے کب کے
لوٹ کر پھر وہ زمانہ نہیں آنے والا
پیڑ تو سارے ہی بے برگ ہوئے جاتے ہیں
دھوپ تو آئے گی سایہ نہیں آنے والا
یہ بھی سچ ہے کہ اجل بن کے کھڑے ہیں امراض
یہ بھی طے ہے کہ مسیحا نہیں آنے والا
ہم کو سہنا ہے اکیلے ہی ہر اک درد کا بوجھ
خیر خواہوں کا دلاسہ نہیں آنے والا
میرے افکار کے سوتے نہیں تھمنے والے
میری سوچوں پہ بُڑھاپا نہیں آنے والا
نئے لفظوں کو برتنے کا سلیقہ بھی تو ہو
صرف الفاظ سے لہجہ نہیں آنے والا
جھوٹ بے پاؤں بھی دوڑے گا بہت تیز خُمار
لب پہ سچّائی کا چرچا نہیں آنے والا
٭٭٭
مدّت ہوئی راحت بھرا منظر نہیں اُترا
ساون کا مہینہ مری چھت پر نہیں اُترا
روشن رہا اک شخص کی یادوں سے ہمیشہ
گرداب میں ظلمت کے مرا گھر نہیں اُترا
جس آنکھ نے دیکھا تمہیں دیتی ہے گواہی
تم جیسا زمین پر کوئی پیکر نہیں اُترا
سچّائی مرے ہونٹوں سے اتری نہیں ہرگز
جب تک مرے کاندھوں سے مرا سر نہیں اُترا
قدرت کی عبارات کو پڑھتے رہے برسوں
مفہوم مگر ذہن کے اندر نہیں اُترا
نشّہ ہی کچھ ایسا تھا فتوحات کا اُس پر
جذبات کے توسن سے سکندر نہیں اُترا
ساحل پہ جو اترا تھا سفینوں کو جلا کر
صدیوں سے پھر ایسا کوئی لشکر نہیں اُترا
اترا نہیں نفرت کے سمندر میں کبھی میں
مجھ میں کبھی نفرت کا سمندر نہیں اُترا
کوشش تو بہت کی تھی خُمار ہم نے بھی لیکن
شیشے میں وہ اک شوخ ستمگر نہیں اترا
٭٭٭
پھول کی رُت نہ بہاروں کا گزر میرے بعد
تھم کے رہ جائے گا موسم کا سفر میرے بعد
جس طرف دیکھیے پت جھڑ کے نظارے ہوں گے
تکتے رہ جائیں گے سایوں کو شجر میرے بعد
کلیاں کھِلنے کی ادائیں بھی بِسر جائیں گی
بھول جائیں گے مہکنا گُلِ تر میرے بعد
دل کے کہساروں پہ لگ جائیں گے شب کے ڈیرے
وادیِ جاں میں نہ اُترے گی سحر میرے بعد
ابر سے قطرۂ نیساں بھی نہیں ٹپکے گا
سیپیاں بھی نہ بنائیں گی گُہر میرے بعد
کیوں نہیں آیا وہ اک شاعرِ آوارہ مزاج
تجھ سے پوچھے گی ترے گھر کی ڈگر میرے بعد
اے محبت ترا ہر ناز اُٹھا یا میں نے
کون اُٹھائے گا ترے ناز مگر میرے بعد
فن لِپٹ کر مری چوکھٹ سے بہت روئے گا
آنکھیں غزلوں کی بھی ہو جائیں گی تر میرے بعد
میرے دیوان کو سینے سے لگا رکھیں گے
اہلِ فن، اہلِ زباں، اہلِ ہُنر میرے بعد
تبصرے کرتے رہیں گے مرے لہجے پہ خُمار
محفلِ شعر میں اربابِ نظر میرے بعد
٭٭٭
شاعری مظہرِ احوالِ دروں ہے، یوں ہے
ایک اک شعر بتا دیتا ہے یوں ہے، یوں ہے
اک تری یاد ہی دیتی ہے مرے دل کو قرار
اک ترا نام ہی اب وجۂ سکوں ہے، یوں ہے
خشک صحرا بھی نظر آتا ہے گلزارِ اِرم
ہمرہی کا یہ تری سارا فسوں ہے، یوں ہے
عشق ہر اک سے غلامی کی ادا مانگتا ہے
اُس کے دربار میں جو سر ہے نگوں ہے، یوں ہے
خاک چھانیں گے چلو ہم بھی بیابانوں کی
جب یہی شیوۂ اربابِ جنوں ہے، یوں ہے
تجھ کو چاہا ہی نہیں تیری پرستش کی ہے
پھر بھی ہونٹوں پہ ترے ہاں ہے نہ ہوں ہے، یوں ہے
حالِ دل سن کے مرا چُپ نہ رہو کچھ تو کہو
خامشی نعمتِ گویائی کا خوں ہے، یوں ہے
جب بھی محفل میں غزل اپنی سناتا ہے خُمار
تبصرے ہوتے ہیں ہر شعر پہ یوں ہے، یوں ہے
٭٭٭
نظمیں ۔۔۔ سلیمان خمارؔ
زندگی
خوبصورت سی ایک دوشیزہ
اپنے کندھوں پہ لے کے غم کی صلیب
ٹھوکریں کھاتی
اشک برساتی
راستوں پر بھٹکتی پھرتی ہے
٭٭
آرزو
بھولی بھالی سی اک بچّی
نِسدن اپنی بے کس ماں کی گود میں جا کر
رنگ برنگی
نئی نئی گڑیوں کی خاطر
چِلّا چِلّا کر روتی ہے
آخر تھک کر سو جاتی ہے
مسرّت
جھیل کی نیلگوں سطح پر
ایک مچھلی، سنہری سی
آوارہ اور خوشنما
چند لمحوں کو
لہروں سے اٹھکھیلیاں
کر کے
پھر ڈوب جاتی ہے
اک مدّتِ بے کراں کے لئے
٭٭٭
برسات کے دنوں کی ایک نظم
امڈتی بڑھتی گھٹا
دن پہ رات کے سائے
کڑکتی بجلیاں لہرا کے ٹوٹتی برسات
گلی کا موڈ، شکستہ مکاں، ٹپکتی چھت
لباسِ نم میں ٹھِٹھرتے ہوئے
جواں دو جسم
حجاب و خوف بھُلا کر
لپٹ کے ……
جلتے ہوئے لب کی آگ پیتے رہے
مکاں ٹھٹھرتا رہا اور مکین جلتے رہے
٭٭٭
نظمیں
مجھے خبر تھی ۔۔۔ فاطمہ حسن
میں نے دیکھ لیا تھا
وہاں آگ بھڑکنے والی ہے
تاریخ کے باب سے کئی صفحات میری آنکھوں کو گرد آلود کر رہے تھے۔
میں آنکھیں بند نہیں کر سکتی تھی
کان پر انگلیاں رکھیں تو میرے اندر کی گونج نے کہا
بانسری ہے یہ
دعائیں مت مانگو اب اس کا وقت نہیں رہا
جسے تم اذان سمجھ رہی ہو وہی آواز ہے جو شہر کے جلتے وقت بھی آ رہی تھی۔۔
میں نے آسمان کی طرف دیکھا، کوئی چڑیا نہیں تھی
جو پانی کا قطرہ لا کر میری آنکھوں پر گرا دیتی۔۔
پرندے ہجرت کر گئے تھے
اس بار بھڑکنے والی آگ کا حاصل کوئی گلزار نہیں
میں نے مٹھی میں ریت اٹھائی اور شعلوں کی طرف اچھال دی
لا حاصلی میں یہی ممکن تھا۔
٭٭٭
نظمیں ۔۔۔ غضنفر
لکھنے کی بیماری
کسی کو عارضہ دل کا
کسی کو دق کی بیماری
دمے سے کوئی بے دم ہے
کسی کا سر گراں باری سے ہے بھاری
کسی کے دانت میں پیڑا
کسی کے پیٹ میں کیڑے
کسی کے من میں طغیانی
کسی پر یاس ہے طاری
۔کسی کو صبح اٹھتے ہی طلب ٹی کی
کسی کو علت سیر جہاں بانی ، ہوا خوری
کسی کو دفتری اوقات کی جلدی
مجھے لکھنے کی بیماری
نہیں لکھتا تو لگتا ہے
گلا بھنچ جائے گا میرا
لہو کھنچ جائے گا میرا
عجب اک اضطرابی کیفیت
سینے میں اٹھتی ہے
عجب سیماب سی صورت
رگ و ریشے کی ہوتی ہے
کوئی منظر نظر کے رخ پہ آ جائے
کوئی نکتہ انوکھا ذہن پا جائے
دل حسًاس میں شعلہ لپک جائے
کوئی جذبہ چمک جائے
کسی احساس کی حدت دمک جائے
ہر اک لمحہ یہی خواہش ابھرتی ہے
مجھے بے چین کرتی ہے
مگر لکھنا نہیں آساں
کہ لکھنے میں بھی
دل کا خون ہوتا ہے
رگیں اس میں بھی کھنچتی ہیں
نفس اس میں بھی بھنچتا ہے
تخئیل کے بھی بال و پر جھلستے ہیں
تلاش لفظ و معنی میں
پھپھولے آنکھ کی پُتلی میں پڑتے ہیں
کئی تیر و تبر دیدوں میں گڑتے ہیں
رگ و ریشے ادھڑتے ہیں
تصور کے کئی اشجار بھی
جڑ سے اکھڑتے ہیں
عجب اک ٹیس اٹھتی ہے
چبھن رہ رہ کے ہوتی ہے
ہر اک ساعت رگ و پے میں
نئی پیڑا سموتی ہے
کوئی تحریر لکھ جاتی ہے
آخر تک
مگر یک جنبشِ خامہ سے
اکثر کٹ بھی جاتی ہے
کوئی تخلیق کٹتی ہے
تو دل پر کیا گزرتا ہے
نواح ذات میں کیا کیا بکھرتا ہے
دل و جاں میں تلاطم کیسا اٹھتا ہے
تھپیڑے کیسے لگتے ہیں
کلیجہ کیسے پھٹتا ہے
قلم رکتا نہیں پھر بھی
تخئیل دم نہیں لیتا
کبھی احساس بھی تھکتا نہیں میرا
مرے جذبوں کا ریلا بھی نہیں تھمتا
کہ بیماری ہے لکھنے کی
٭٭٭
یادیں
بہت مشکل تھی آسائش
سہولت کم تھی جینے کی
نہ بجلی تھی
نہ پانی کی تھی آسانی
نہ چیزوں کی
نہ دولت کی فراوانی
ہر اک میدان میں
ہر دائرے میں تنگ دامانی
ضروری حاجتوں میں بھی پریشانی
اندھیرے میں مکانوں سے نکلنا تھا
کھلے میں، کھیت میں
چھپ کر پہنچنا تھا
بچا کر خود کو دنیا سے
گزرنا تھا
شجر کو کاٹ کر
ایندھن بنانا تھا
دھوئیں میں بیٹھ کر
چولھا جلانا تھا
کسی سوئی ہوئی لکڑی کو
پھونکوں سے جگانا تھا
سمجھ لیجے کہ مردے کو جلانا تھا
نہ اپنے پاس گھوڑا تھا
نہ ہاتھی تھا
نہ گاڑی تھی
اٹاری تھی، نہ کوٹھی تھی
حویلی تھی ، نہ باڑی تھی
سبھی کو کام پر پیدل نکلنا تھا
نکیلے پتھروں کی راہ پر
دن رات چلنا تھا
دوا دارو کی تنگی تھی
غذا میں سادگی تھی
ایک رنگی تھی
خبر گیری بڑی مشکل سے ہوتی تھی
کئی ہفتوں میں نامہ ہاتھ لگتا تھا
صعوبت جھیلنے کے بعد
منزل پاس آتی تھی
بہت دشوار کن تھی زندگی
پر یاد آتی ہے
کہ اس کی یاد سے اک نور چھنتا ہے
بصیرت میں پہنچتا ہے
کوئی سرمہ سا رکھتا ہے
عجب اک رس نکلتا ہے
رگ و ریشے میں گھلتا ہے
دل و جاں میں سرور و کیف بھرتا ہے
کہ اس تنگی میں دل کتنا کشادہ تھا
نظر میں کیسی وسعت تھی
سمٹ آتے تھے باہوں میں پرائے بھی
بسا لیتے تھے گھر میں مسکرا کر
بے گھروں کو بھی
نوالہ منہ کا دے دیتے تھے اوروں کو
خبر دکھ کی جو سنتے تھے
تو پیدل بھاگ پڑتے تھے
ہمارا دل بھی کتنا نرم ہوتا تھا
کسی کی آہ سن کر کانپ جاتا تھا
کسی کی چھٹپٹاہٹ پر
وہ خود بھی چھٹپٹاتا تھا
دھواں تھا
پر دھویں میں دم نہیں گھٹتا تھا سینے میں
اندھیرا تھا ،بہت گہرا اندھیرا تھا
اندھیرے میں مگر لوگوں کا چہرہ
صاف دکھتا تھا
بہت دشوار تھا رستہ
مگر چلنے کا یارا تھا
کہیں جانے ،کسی کا کام نمٹانے کا جذبہ تھا
خصوصاً اس گھڑی یادوں کا ریلا تیز ہوتا ہے
کبھی جب دفتری کاموں میں ہوتے ہیں
کسی اسٹار ہوٹل میں
بڑی سی ڈیل کرتے ہیں
کروڑوں ایک جنبش میں
بناتے ہیں
لٹاتے ہیں
گنواتے ہیں
الجھتے ہیں
بپھرتے ہیں
بکھرتے ہیں
تو گزرے دن چلے آتے ہیں آنکھوں میں
ملازم کی کوئی لڑکی بھی آ جاتی نگاہوں میں
وہی لڑکی جو بس جاتی تھی سینے میں
وہی جو پاس ہوتی تھی
مگر ملنا بہت دشوار ہوتا تھا
جسے پانے کی خاطر
کیسی بے چینی سی ہوتی تھی
بہت ہی خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں دفتر میں
جو اک جنبشِ سے آ جاتی ہیں پہلو میں
رگ و ریشے میں لیکن کیفیت ویسی نہیں گھلتی
جو گھلتی تھی نصیبن سے لپٹنے میں
مسرت کی کوئی کھڑکی نہیں کھلتی
جو کھلتی تھی
نصیبن کے بدن کے لمس سے تن میں
بہت ہی روشنی ہے ،گہما گہمی ہے
ہر اک شے کی سہولت ہے
ضرورت کی سبھی چیزیں مہیا ہیں
ہر اک نعمت میسر ہے
مگر دل میں
نظر میں
ذہن میں
سب میں قیامت ہے
نظم نامہ: از وحید احمد ۔۔۔ حمیدہ شاہین
وحید احمد!
یہ نامہ کن ہواؤں کو تھمایا تھا
جو حفظِ راز کی تہذیب سے نا آشنا نکلیں
یہ کھولے پھر رہی ہیں نظم نامہ دھیان کی نیلی فضاؤں میں
جہاں یہ پَر کُشا نظمیں کبوتر بن کے اُڑتی ہیں
یہ فردوسی پرندے ہیں
اتر آتے ہیں جو احساس کی خوش رنگ چھتری پر
اور ان کی مَدھ بھری، مانوس، البیلی غٹر غوں سے
چٹخ کر ٹوٹ جاتا ہے حریمِ جاں کا سنّاٹا
وحید احمد!
یہ نامہ کِن ہواؤں کو تھمایا تھا
جو اُن منہ بند نظموں کو بھی لے آئی ہیں محفل میں
جنھیں تفہیم کی جادو بھری خلوت میں کھُلنا تھا
وہ خلوت جس کے پہلو میں
’’پرانے گیت کھُلتے ہیں تو آنکھیں بند ہوتی ہیں‘‘
’’تھکن بستر پہ لیٹی ہے‘‘
جہاں تنہائی ماں جائی ہے اور پانی سے کوئی گھر نکلتا ہے
جہاں شدھ یکتائی، مقدّس گھور اکلاپا
’’جہاں پر بادشہ ہیروں جڑی مسند پہ بیٹھے ہیں‘‘
’’جہاں پر کُہر کی تختی گڑی ہے
جس کے اوپر نم ہوا کی پور نے
منزل کا سنگِ میل لکّھا ہے‘‘
’’کشش کا کارخانہ ہے
جہاں سے کوچ بنتا ہے‘‘
’’کوئی جوہر کو ضربائے تو وہ وحشت سے پھٹتا ہے
پھر اِس کے بعد روحیں اتنی سرعت سے نکلتی ہیں
کہ عزرائیل کی زنبیل میں کہرام مچتا ہے
کسی کی لپ سٹک میں ہونٹ اپنا رنگ بھرتے ہیں
کشادہ قہقہوں کی شاہراہیں، کھلکھلاتے در
بھری مسکان محرابیں، مچلتے چہل خانے ہیں
کوئی سمجھا رہا ہے
’ہاتھیوں اور تتلیوں میں فرق ہوتا ہے ‘
وہ کہتا ہے
’ہمارا عہد کیا ہے، درد کی خوانچہ فروشی ہے ‘
’’زلیخائے جنوں نے یوسفِ دوراں کے کرتے کو
بیاضِ گردنِ یوسف سے پکڑا
اور نچلی پسلیوں تک پھاڑ ڈالا ہے ‘‘
یہاں اک نظم کہتی ہے
’’مسیحا! سولیاں مہنگی ہوئیں ہیں، جسم سستے ہیں ‘‘
وہ کہتی ہے
’’ہماری راہ کے پانی کا جُثّہ پھاڑ دے مولا
کہ ہم کو جینے والی زندگی کے گھاٹ اُترنا ہے ‘‘
بتاتی ہے
’’کہ اب پھر عالموں نے
معبدوں میں جانور باندھے ہوئے ہیں
یہاں ٹیلوں، کبھی جھیلوں، کبھی میدان میں ڈھلتا ہوا تھل ہے
یہاں البم کے صفحوں کی تہوں سے خوں نکلتا ہے
سماعت کے افق پر درد کا بادل گرجتا ہے ‘‘
یہ ایسا نظم نامہ ہے
جہاں شاعر ہر اک صفحے پہ محرابیں بناتا ہے
وہ کہتا ہے
’’لرزتے ہاتھ اُٹھا کر اعترافِ جرم کرنا ہے
خدائے نسلِ آئندہ کے آگے سر جھکانا ہے ‘‘
مگر جب آخری صفحہ تشکر سے سجاتا ہے
تو یوں لگتا ہے وہ سجدوں کی گنتی بھول جاتا ہے
وحید احمد!
یہ نامہ جن ہواؤں کو تھمایا تھا
ابھی وہ اِس گلابی شام کے آنگن سے گزریں گی
تو خوشبو چھوڑ جائیں گی
٭٭٭
آہ اے ارض فلسطین ۔۔۔ اسلم عمادی
ہماری آنکھوں میں اشک پر ہیں
ہماری آہیں، ہمارے نالے، ہمارے نوحے فضا میں
ماتم بچھا رہے ہیں،
سب اہل انصاف و دانش و عدل
ہیں غم زدہ، دل گرفتہ، حیراں
خبیث جابر کے ظلم، جبر اور بہیمیت بھی عروج پر ہیں،
عدو سبھی، امن و حق کے دشمن جٹے ہوئے ہیں،
ادھر ہمارے عزیز پیارے،
وہ سارے خود دار، گھر سے بے گھر ہوئے بچارے
سب اپنے حق، اپنے گھرکی خاطر تڑپ رہے ہیں،
کئی برس سے یونہی شب و روز،
مر رہے ہیں، بے کفن پڑے ہیں، [بے علاج زخمی، ضعیف، اپاہج]
ستم کا آئینہ بن گئے ہیں۔۔۔۔
عجیب ہے یہ ہماری اکیسویں صدی کا کریہہ منظر
اور اس پہ دعوی ہے
شور ہے یہ
کہ ہم ہیں اعلی اور ارتقا کی بلندیوں پر
یہ دعوی
لگنے لگا ہے اب سچ میں شریر ذہنوں کا جھوٹ،
ہر قولِ بے شک ہے کذب، اور مکر کا تماشہ
اے سب کے رب، ای عظیم و قادر، اے میرے اللہ،
یہ میرے بھائی، بہن، یہ بچے، جوان، بوڑھے،
شہید و مجروح، یتیم و بیوہ، یسیرو تنہا،
یہ سب ترے نام سے جڑے ہیں،
تری کمک، تری مدد اور تری عنایت کی آس میں ہیں
بہت ہوا انتظار مولی، رحیم ہے تو، کریم ہے تو،
تجھی نے پیدا کیا ہے ان کو، تو پھر، انہیں کا حافظ، عظیم ہے تو
گذر چکا ضبط و صبر و شکیب کا پل
بس اب کرم کر،
اے نور والے، قران والے ؛ اے شان والے
وہ نبیوں کا دیس، وہ فلسطین
تری توجہ کے منتظر ہے، اتار دے فتح کے فرشتہ
ستم گروں کو ہلاک کر دے،
لئیم و جلاد غاصبوں کو تباہ و نابود و خاک کر دے
وہ خوبیوں کی زمیں فلسطین، جاگ اٹھے، اس کے اصلی باسی بھی لوٹ آئیں
وہ تین و زیتون کی پیاری دھرتی‘ جو قید میں ہے
وہ پھر سے شاداب ہو، بہاریں پھر اس میں لہلہائیں
اے صاحب عز و جل، اے اللہ
ہم کئی دہوں سے ہیں سر بہ سجدہ،
ہیں منتظر تیرے فیصلے کے
بہت ہوا انتظار مولیٰ
بس اب کرم کر، بس اب کرم کر۔۔۔۔۔
٭٭٭
نظمیں ۔۔۔ فرزانہ نیناں
دعا
بارش کیسی تیز ہوئی ہے
آدھی رات کا سناٹا ہے
آنکھ اداسی میں ڈوبی ہے
خواب بھی چھپ چھپ کر تکتے ہیں
خوشبو کچھ مانوس سی ہے
دل کچھ بکھرا بکھرا ہے
شیشے کی ان دیواروں کے پار
افق ہے
اور دعا۔۔۔
جب تک لوٹ کر آئے گی
شاید میں ہو جاؤں، راکھ۔۔۔!!!
٭٭٭
بجلی
کہاں سے لاؤں
تمہارے لیئے
وہ موجِ حیات
جو زندگی کے تلاطم میں
تم کو تھامے رہے
کہ جس کا لپکا
جلائے
تمہارے جذبوں کو
کہ جس کا ذائقہ
شیریں ہو
جامِ مئے بھی ہو
یہ کام اتنا ہے مشکل
کہ اس میں جلتا ہے
مرا بدن، یہ مری روح
ہزار برسوں سے۔۔۔!
٭٭٭
نظمیں ۔۔۔ جاناں ملک
نظم کا کچھ بھی نام نہیں
شہزادے!
اے ملک سخن کے شہزادے!
دیکھو میں نے
نظم لکھی ہے
نظم کہ جیسے دل کا شہر۔۔۔۔۔
شہر کہ جس میں تم رہتے ہو
آدھے ہنس ہنس باتیں کرتے
اور آدھے گم سم رہتے ہو
تمہیں ادھوری باتیں اور ادھوری نظمیں
اچھی لگتی ہیں نا۔۔۔۔۔
تم کہتے ہو بات ادھوری میں بھی اک پورا پن ہوتا ہے
خاموشی کے کتنے معنی ہوتے ہیں
کچھ باتیں ان کہی مکمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزادے!
میں نظم ادھوری لکھ لائی ہوں
تم اس نظم کو عنواں دے دو
تم یہ نظم مکمل کر دو
لیکن تم اس گہری چپ میں ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا اس نظم کو تم انجام نہیں دو گے
اس کو نام نہیں دو گے
٭٭٭
عقیدت کے کینوس پر
جہاں تپش کا
سنہرا آسمان
آنکھوں کی کھڑکیوں سے نرالا دکھے
جہاں دن کی تمازت
محبوب کے
خد و خال سے چبھن نہ دے
جہاں رات کی راحت
کمرے کے بھاری پن کو
نہ معیوب لگے
اور بدن کے کینوس پہ
نظم کے مصرعوں کی طرح
خیالوں کی موم بتیاں جلنے لگیں
وہاں ہر ڈگر سے پرے
میں تمہیں چاہتوں کی سیج پر ملوں
ادھورے خوابوں کی کرچیاں چنوں
تمہاری آنکھوں میں
دل کی سرمہ سلائی سے بھروں
تمہیں چاند ستاروں کے مدِ مقابل کروں
اور اِس چاہت کی خاطر
خدا کو میں شکر کے سجدے کروں
میں تمہیں دیکھوں
عقیدت کے کینوس پر
اپنی خواہشوں کی تکمیل کرتے ہوئے
دن رات رفاقت میں
زندگی کی از سر ِ نو تعمیر کرتے ہوئے
میں تمہارے ساتھ
ان ہواؤں پہ خوب چہکا کروں
تمہاری تازگی میں ہر دم مہکا کروں
یہاں تک
عقیدے کا کینوس مجھے معلیٰ لگے
٭٭٭
گوشہ مصنوعی ذہانت
مصنوعی ذہانت بہ مقابلہ انسانی تخیل ۔۔۔ ناصر عباس نیر
نوٹ: پاکستان اکادمی ادبیات، اسلام آباد کی قومی تقریبِ اعزازات کی اختتامی نشست میں، ۱۱ جون ۲۰۲۴ء کو کلیدی خطبہ پیش کیا۔ اس خطبے سے چند اقتباسات
٭٭
جنریٹو مصنوعی ذہانت کے پاس تخلیق، تفہیم اور ابلاغ کی غیر معمولی صلاحیت ہے۔ وہ موسیقی ترتیب دے سکتی ہے، شاعری لکھ سکتی ہے، فکشن لکھ سکتی ہے، مصوری کر سکتی ہے۔ علمی مقالات لکھ سکتی ہے۔ علمی مقالات کے خلاصے تیار کر سکتی ہے۔ درست ترجمے کر سکتی ہے۔ مذہبی، اخلاقی، قانونی، تعلیمی، سیلف ہیلپ قسم کی کتب تصنیف کر سکتی ہے۔
نفسیاتی و روحانی مسائل میں انسانوں کی رہ نمائی کر سکتی ہے۔ انسان کی تنہائی میں اس سے ہر موضوع پر بات کر سکتی ہے۔ آپ میں سے کچھ لوگ ڈین (do any thing) سے واقف ہوں گے جو کئی لوگوں کی زندگی کا ورچوئل ساتھی ہے۔ مصنوعی ذہانت، مشین ہے، مگر اپنی صلاحیتوں اور اوصاف میں آدمی یعنی اپنے خالق کو مات دینے پر تلی ہے۔ وہ آدمی کی ایک ایسی حلیف ہے، جو ہر قدم پر حریف بننے کا امکان رکھتی ہے۔
سیدنا ابو ہریرہؓ سے ایک حدیث روایت ہے کہ خَلَقَ اللَّہُ آدَمَ عَلَى صُورَتِہ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ: ’’تو شب آفریدی، چراغ آفریدم /سفال آفریدی، ایاغ آفریدم‘‘۔ اے خدا تو نے رات بنائی، میں نے چراغ بنایا۔ تو نے مٹی بنائی اور میں نے اس سے پیالہ بنایا، مگر جدید انسان خدا کا معاون نہیں، مقابل بنا ہے۔ گزشتہ دو صدیوں سے جدید انسان اس یقین سے ایک پل دست بردار نہیں ہوا کہ اگر خدا خالق ہے، تو وہ بھی خالق ہے۔
جدید انسان نے عہد کیا کہ وہ اپنی صورت پر ایک مخلوق بنائے گا۔ مصنوعی ذہانت، اور خاص طور پر جنریٹو مصنوعی ذہانت، جدید انسان کے اسی عہد کو پورا کرنے کا نتیجہ ہے۔ مصنوعی ذہانت، انسانی ذہانت کا مثل اور آئنہ ہے۔ واضح رہے، ایک شخص کی ذہانت نہیں، انسانی ذہانت کا آئنہ ہے۔ ایک شخص کی ذہانت کی حد ہے، انسانی ذہانت کی حد کہاں تک ہے، کوئی نہیں جانتا۔
اقبال نے جاوید نامہ‘‘ میں نطشے سے متعلق لکھا ہے کہ: چشم اوجز رویتِ آدم نخواست (اس کی آنکھ نے آدم کے دیدار کے سوا کچھ نہ چاہا)۔ لیکن ظاہر ہے یہ آدم، تمام انسانیت کی نمائندگی نہیں کرتا۔ یہ آدمیوں کے مراعات یافتہ، اشرافی، اقلیتی طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنوعی ذہانت، اپنی ساری جدیدیت اور تخلیقیت کے باوجود، لبرل سرمایہ داریت سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ یہ سرمایہ پیدا کرنے کے یکسر نئے مواقع ہی پیدا کرنے نہیں جا رہی، تیز ترین منافع حاصل کرنے کی ایک نئی مثال بھی قائم کرنے جا رہی ہے
مصنوعی ذہانت جو کچھ لکھتی ہے، اس میں پہلی قسم تخیل کام کر رہا ہوتا ہے، یعنی وہ موجودہ علم کو تخلیقی انداز میں ترتیب دیتی ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو یہ نظم دیکھیے۔ میں نے چیٹ جی پی ٹی کو کمانڈ دی کہ ’’اداسی پر مبنی نثری نظم، جس میں ورچوئل ورلڈ کی امیجری استعمال کی گئی ہو‘‘۔
ڈیجیٹل دنیا کی ویرانی
میں ایک ورچوئل دنیا میں چلتا ہوں، جہاں روشنیاں بھی مصنوعی ہیں
اسکرین کی چمک میں چھپی اداسی، جو میری آنکھوں کو تھکا دیتی ہے
پکسلز کی بھیڑ میں، ہر ایک شکل بے جان لگتی ہے،
اور ہر کلک ایک خالی گونج کی طرح میرے کانوں میں بجتی ہے
میرے اوتار کی مسکراہٹ، ایک فریم میں جمی ہوئی،
لیکن اس کی آنکھوں میں کوئی روح نہیں، کوئی احساس نہیں
چیٹ رومز کی گہما گہمی، ایک بے معنی شور ہے،
جہاں الفاظ بے وزن ہیں، اور جذبات کی کوئی قدر نہیں
میں نے ورچوئل دنیا میں دوست بنائے، لیکن وہ صرف نام ہیں،
ایک فہرست میں بند، جو کبھی حقیقت میں نہیں ملتے
گیمز کی دنیا میں جیت کی خوشی، ایک عارضی سراب ہے،
جو چند لمحوں میں غائب ہو جاتی ہے، جیسے کبھی تھی ہی نہیں
میری ڈیجیٹل دنیا، جو کبھی رنگین تھی، اب بے رنگ ہو چکی ہے،
اسکرین کے پیچھے کی حقیقت، ایک اداس سایہ بن چکی ہے
میں ترس گیا ہوں ایک حقیقی لمس کے لیے، ایک حقیقی نظر کے لیے،
جہاں انسانیت کی گرمی محسوس ہو، نہ کہ صرف کولڈ ڈیٹا کی سردی
(مصنف نے ذاتی مکاتبت میں بیان کیا ہے کہ یہ نظم کو پائلٹ نامی چیٹ بوٹ کی ایپ میں تخلیق کی گئی ہے۔ مدیر)
بلا شبہ یہ بڑی نظم نہیں ہے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اوسط درجے کا شاعر بھی اسی قسم کی نظم لکھتا ہے۔
مصنوعی ذہانت میں ابھی تک اوسط درجے کا تخیل کام کر رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ چیٹ جی پی ٹی اسی طرح عام صارفین کو پیش نظر رکھ کر مواد تیار کرتی ہے، جس طرح پاپولر شاعر اور فکشن نگار عام قارئین کو سامنے رکھتے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے مواد یا سارے علم کو پل بھر میں سکین کرنے، اپنے کام کی چیزوں کو چھانٹنے اور پھر مخصوص الگوردم کے ساتھ ترتیب دینے میں نہایت سریع ہے۔ یہ آدمی کی دی ہوئی ذہانت کو آدمی سے کہیں بہتر انداز میں استعمال کر رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کے پاس جو ڈیٹا یا علم ہے، وہ ابھی تو لاکھوں کروڑوں آدمیوں کی یادداشت اور علم سے زیادہ ہے، کل پوری انسانیت کی تاریخ کے علم سے زیادہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اپنے ڈیٹا یا علم کو استعمال کرنے میں اسے ان موانع و مشکلات کا سامنا نہیں ہے جو آدمی کو لاحق رہتی ہیں، یعنی بیماری، ناستلجیا، دل شکستگی، غصہ، رنج، حسد اور وحشت۔ ان سب کا نہ ہونا، مصنوعی ذہانت کی سب سے بڑی کامیابی بھی ہے اور سب سے بڑی کمزوری بھی۔
یہ ایک اخلاقی اور قانونی نظام کی خود کو پابند بناتی ہے۔ یہ ضبط نفس یعنی سیلف سنسر شپ کا نظام رکھتی ہے۔ یہ فلسطین، طالبان، کشمیر، جنگوں میں مارے گئے بچوں، جنسی زیادتی، توہین مذہب، اور جنسی موضوعات پر کچھ لکھنے سے معذرت کرتی ہے۔ البتہ اسے سرمایہ دارانہ استحصال، مذہبی شدت پسندی، غیرت کے نام پر قتل جیسے موضوعات پر نظمیں اور کہانیاں لکھنے سے عار نہیں ہے۔ جنھوں نے یہ مشین تیار کی ہے۔ وہ اسے کسی بھی طرح متنازع نہیں بنانا چاہتے۔
مصنوعی ذہانت کے پاس زبان ہے، زبان میں لکھے گئے متون ہیں، ان متون کو سمجھنے کی ذہانت اور انھیں نئے پیرایوں میں ترتیب دینے کا سادہ تخیل ہے۔ اس کی ساری دنیا، در اصل زبان و متن کی دنیا ہے۔ لیکن وہ جسمانی اور روحانی مصائب محسوس نہیں کر سکتی، وہ موت کا خوف رکھتی ہے نہ اپنوں سے جدائی کا کوئی اندیشہ۔ وہ لافانی ہونے کی آرزو اور اس آرزو کے سبب دکھ اٹھانے کے تجربے سے بھی محروم ہے۔ وہ لمس کی لذت اور لمس کے عذاب دونوں سے واقف نہیں۔ اسے اپنے وجود اور دنیا کے بے معنی، بے مصرف، لغو ہونے کا بھی تجربہ نہیں۔
اس پر گھر، دنیا، وجود قید کو محسوس کر کے اس سے رہا ہونے کی وحشت بھی سوار نہیں ہوتی۔ اسے گزرے زمانوں اور ترک کی ہوئی جگہوں کا ناستلجیا بھی نہیں ہوتا۔ وہ ایک شخص کی محبت میں پوری دنیا سے ٹکر لینے کے جنون اور پھر اس پر پچھتاوے سے بھی محروم ہے۔ چوں کہ ادب میں ان سب باتوں کا اظہار ہوا ہے اور وہ ڈیٹا کی صورت اس کے پاس موجود ہے، اس لیے وہ ان سب موضوعات کو لکھ سکتی ہے، یعنی simulateکر سکتی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سب کو اوسط درجے کے ادیبوں سے بہتر انداز میں لکھ دے۔
اہم بات یہ ہے کہ وہ بغیر احساس اور تجربے کے جملہ انسانی احساسات اور تجربات لکھ سکتی ہے۔ واضح رہے کہا س کا لکھنا simulation ہے، جس میں نقل، ترتیبِ نو، بین المتونیت شامل ہے۔ وہ بہترین عناصر کو منتخب کر کے، انھیں ایک بہترین اسلوب میں ظاہر کر سکتی ہے۔ ہر زمانے میں ایسے ادیب موجود رہے ہیں جن کے لیے لکھنا یہی simulation رہا ہے۔ وہ ادبی روایت میں سے عناصر منتخب کر کے، انھیں نئی ترتیب میں پیش کرتے رہے ہیں۔ وہ نئے جذبات کو نہیں، ادب میں رجسٹر ہونے والے جذبات کو لکھتے رہے ہیں۔ ان کے لیے اپنے شخصی جذبات سے زیادہ، جذبات نگاری کی روایت اہم رہی ہے۔ وہ خود کو منہا کرتے رہے ہیں، روایت و علامت بننے والے تجربات کا اثبات کرتے رہے ہیں۔
یہ بات از حد حیران کن ہے کہ مصنوعی ذہانت کو ادبیاتِ عالم کی پوری تاریخ، اور اس کے جملہ اسالیب از بر ہیں، ان اسالیب کا تنقیدی شعور بھی اسے ہے، یعنی وہ جو کچھ لکھتی ہے، اس کے پیچھے موجود نظام یا شعریات سے بھی کسی غلطی کے بغیر آگاہ ہے۔ وہ اپنے پروگرام، اپنی گرامر، اپنے نظام سے انحراف نہیں کرتی۔ وہ خطا کے تصور سے آشنا ہے، گناہ اور تاسف سے نہیں۔ وہ خطا کا علم ہونے پر، اسے درست کر لیتی ہے اور پہلی حالت پر لوٹ آتی ہے۔ آدمی، گناہ پر تاسف اور توبہ کے بعد بھی سابق حالت پر لوٹ نہیں سکتا۔
معاصر ادب کے سامنے جنریٹو مصنوعی ذہانت یہ چیلنج سامنے رکھتی ہے کہ وہ یکسر نیا تخلیق کر سکتے ہیں یا نہیں۔ چوں کہ ابھی تک مصنوعی ذہانت اوسط درجے کا ادب تخلیق کرنے تک محدود ہے، اس لیے اوسط درجے کی، یا معمول کی ادبی تخلیقات کا چراغ، اس کے آگے نہیں جل سکتا۔ کم ذہین اور معمولی تخیل کے ادیبوں کے لیے جنریٹو مصنوعی ذہانت، پیام مرگ کی مانند ہے۔
وہ یہ چیلنج دیتی محسوس ہوتی ہے کہ ادیب اس مشینی ذہانت کے ڈیٹابیس کی حدوں سے باہر جا سکتے ہیں یا نہیں؟
ہماری رائے میں ادیب، مشینی ذہانت کی دنیا کے آخری کناروں سے آگے جا سکتے ہیں۔
ہمارے خیال میں انسان کے پاس دو ایسی چیزیں ہیں، جو صرف انسانوں سے مخصوص ہیں، اور ان کی مثل انسان خود تیار نہیں کر سکتا۔ گویا اس ضمن میں انسان کی اپنی بے بسی ہی اس کی نجات کا باعث ہو گی۔
پہلی چیز عدم، نامعلوم اور خوابوں سے نئی چیزیں خلق کرنے والا تخیل ہے۔ ایک بات کا ہمیں یقین ہے کہ مشینی ذہانت خواب نہیں دیکھ سکے گی۔ خواب دیکھنے کے لیے، سونا، داخلی وقت کا تجربہ کرنا، جو خارجی وقت سے یکسر مختلف ہے، روح و بدن اور خیر و شر کی آویزش سے گزرنا اور اس کے نتیجے میں بلند ترین آدرش ترتیب دینا، اور ایک گہرے اضطراب کا ہونا ضروری ہے۔ مصنوعی ذہانت کے پاس یہ سب نہیں ہے۔
دوسری چیز وحشت و دیوانگی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے پاس دانائی ہی دانائی ہے۔ اعلیٰ آرٹ، دانائی اور دیوانگی کا عجب، سر رئیل قسم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ وحشت و دیوانگی کی اپنی منطق، قدر، اخلاقیات، طاقت اور بساط ہے اور چیزوں کی ساری معلوم ترتیب کو الٹا دینے کی خو ہے۔ یہ معلوم دنیا کے دوسری طرف بے خوف جانے کا نام ہے۔ یہ سب حدوں کو قید سمجھ کر انھیں اپنی جاں کی بازی لگا کر توڑ ڈالنے کا نام ہے۔
دشت نجد یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو (منیر نیازی)
یاد رکھیے، وحشت کا لازمی نتیجہ تنہائی ہے۔ ایک ایسی تنہائی، جس کے بارے میں نطشے نے کہا تھا کہ پارسا لوگ کبھی تنہا نہیں ہوتے کہ ان کے پاس ہر لمحہ آسمانی سہارا ہوتا ہے۔ صرف نابغے تنہا ہوا کرتے ہیں، جن کے سر پر کوئی سایہ ہوتا ہے نہ ہمراہ کوئی سایہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے و جود کی تپتی دھوپ میں تن تنہا ہوا کرتے ہیں۔ عدم تک رسائی والے تخیل، اضطراب خیز خوابوں اور وحشت اور تنہائی کو عام، سمجھ دار انسان نہیں سہار سکتا۔ عام انسان معمول کی طرف، اپنے گھر کی طرف، معمولی سے انحراف کے بعد مطابقت کی طرف لوٹنے و الا ہوا کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے اس سیلاب کے آگے اگر کوئی ٹھہر سکتا ہے تو وہ نابغہ ہے جس کے پاس اپنے وجود کی تپتی دھوپ کو تنہا سہنے، علم کی تمام معلوم حدوں، سرحدوں، کناروں سے باہر جانے، حسیات کے جملہ معروف سانچوں کو شکست دینے، دشت امکاں کو ایک نقش پا سمجھنے اور ’’یا اپنا گریبان چاک یا دامن یزداں چاک‘‘ کی گستاخی و جرأت کی فراوانی ہو۔
بیسویں صدی کے نابغوں میں سے ایک ہسپانوی پابلو پکاسو بھی ہے، جس نے گورنیکا جیسی جنگ مخالف پینٹنگ بنائی اور آرٹ کو اس کی آخری حدوں میں لے گیا۔ اس نے ایک جگہ لکھا کہ کمپیوٹر بے کار ہیں کہ وہ صرف جواب دیتے ہیں۔ سوال صرف آدمی کے پاس ہیں۔ مصنوعی ذہانت بھی ہمارے سوالوں کے جواب دیتی ہے۔ ہمارا امتحان اب یہ ہے کہ ہم اپنے سوالوں کی حس کو زندہ رکھتے ہیں یا نہیں اور نئے، حیرت انگیز سوال اٹھاتے ہیں یا نہیں؟
٭٭٭
مصنوعی ذہانت اور اردو زبان و ادب: امکانات و مسائل کے آئینے میں ۔۔۔ محمد خرم یاسین
سن 2004ء میں جن دنوں انٹرنیٹ عام نہیں تھا اور پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن کے ٹیلی فون کی تار کمپیوٹر میں لگا کر چند کلو بائٹس فی سیکنڈ کی رفتار (ایک MB ایک ہزار کلو بائٹس کے برابر ہے) سے انٹرنیٹ استعمال کیا جاتا تھا، تمام سافٹ وئیرز، فلموں اور دائرۃ المعارف (انسائیکلو پیڈیا) وغیرہ کے حصول کی سہولت محض سی ڈیز ہی کی صورت میں میسر تھی۔ ایسے میں کمپیوٹر سافٹ وئیر کی ایک سی ڈی راقم کے ہاتھ لگی تھی جس میں انسانوں سے بات کرنے والا ایک سافٹ وئیر ’’الیزا سے گفتگو‘‘ (Talk with Eliza) موجود تھا۔ اس سافٹ وئیر سے بات کا تجربہ جو ایک سائنسی حقیقت تھا، کسی رومان سے کم نہ تھا۔ ابھی تک پہنچ سے دُور انگریز خاتون ’’الیزا‘‘ کی صورت میں کمپیوٹر سکرین پر موجود تھی جس سے انگلش تحریر میں من چاہی بات کر سکتے تھے۔ الیزا مشورہ بھی دیتی تھی اور باتوں میں دل چسپی بھی لیتی تھی لیکن چند سوالات کے بعد ایک سے لگے بندھے جوابات دینے لگتی تھی جو اُکتاہٹ کا باعث بنتا تھا۔ جوزف ویزنبم (Joseph Weizenbaum۔ ۱۹۲۳ء-۲۰۰۸ء) نے یہ سافٹ وئیر 1966ء میں بنایا تھا جو کلیدی الفاظ کی شناخت، سیاق و سباق کا ادراک اور عدم موجود الفاظ یا خلا کو سمجھنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ سافٹ وئیر اور اس پر 1966ء میں جوزف ویزنبم کا تحریر کیا گیا مقالہ آن لائن موجود ہے جس میں اس کے تفصیلی تعارف کے ساتھ مختلف انسانی زبانوں میں گفتگو کی صلاحیت کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
ایلیزا ایک کمپیوٹر پروگرام ہے جو ایم آئی ٹی (میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، کیمبرج، امریکا) میں میک ٹائم شیئرنگ سسٹم (ایک ہی وقت میں مخصوص صارفین کو استعمال کی اجازت دینے والا اس وقت کا جدید ترین کمپیوٹر نظام) کے اندر کام کرتا ہے۔ یہ انسان اور کمپیوٹر کے مابین مخصوص قسم کی فطری زبان میں گفتگو کو ممکن بناتا ہے۔ اس میں داخل یا شامل کیے گئے جملوں کا تجزیہ تقسیم کے قواعد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے جو کہ داخل کیے گئے متن میں ظاہر ہونے والے کلیدی الفاظ سے تحریک لیتے ہیں۔ جوابات منتخب شدہ تجزیاتی قواعد سے منسلکہ از سرِ نو ترتیب کے قواعد کی طریقے سے لیے جاتے ہیں۔
سافٹ وئیر ’’الیزا‘‘ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے ذریعے انسانوں سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ مصنوعی ذہانت کے ابتدائی نمونوں میں سے ایک تھا۔ مصنوعی ذہانت یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس (AI) ، کمپیوٹر سائنس کی ایک ایسی شاخ ہے جو انسانی ذہانت کی نقل کرنے اور اسے مشینوں میں منتقل کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے کمپیوٹر، رو بوٹ اور مشینیں انسانی صلاحیتوں سے لیس ہو کر نہ صرف خود مختار انداز میں کام کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں بلکہ اسی کے انداز میں سوچنے، سمجھنے اور مسائل کے حل کی کوشش بھی کرتی ہیں۔ مشینی مصنوعی ذہانت کے تصورات کمپیوٹر کی دنیا میں نئے نہیں ہیں۔ یہ در حقیقت نصف صدی سے زیادہ پرانا قصہ ہے جس کا بنیادی مقصد انسان کے روز مرہ کے امور میں آسانی پیدا کرنا تھا۔ اسما ایوب اپنے مقالے ’’مصنوعی ذہانت کے ادبی تنقیدی صلاحیتوں پر اثرات‘‘ (ترجمہ) میں لکھتی ہیں کہ مشین کے بارے میں یہ خیال کہ اسے مصنوعی طور پر ذہین بنایا جا سکتا ہے 1955ء میں پیش کیا گیا تھا اور اس سلسلے میں سائنسدانوں کا باقاعدہ ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں اس کے امکانات پر بحث بھی ہوئی تھی۔
مصنوعی ذہانت (AI) کی اصطلاح کا ذکر پہلی بار جان مکار تھی کی جانب سے 1955 میں ایک کانفرنس کے دوران کیا گیا تھا، جہاں بہت سے سائنسدانوں نے یہ جاننے کے لیے ملاقات کا فیصلہ کیا تھا کہ آیا مشینوں کو (مصنوعی طور پر) ذہین بنایا جا سکتا ہے؟
بر صغیر کے ایسے خطے میں رہتے ہوئے جہاں لائبریریاں ملکی و عالمی رسائل و جرائد سے محروم ہوں، درس گاہوں کی تجربہ گاہوں پر پڑے تالے زنگ آلودہ ہو چکے ہوں، جامعات تک کی سطح پر جدید علومو فنون سے نا آشنائی ہو، 1966ء میں بنائے گئے سافٹ وئیر ’’الیزا‘‘ سے 2004ء میں اتفاقی وابستگی بعید از امکان نہ تھی۔ دنیا کی اکثر نوآبادیات استعماری قوتوں کی باسی ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اسی طرح 2013ء میں سپائک جونز (Spike Jonze۔ پ: ۱۹۶۹ء) کی تحریر کردہ فلم ’’Her‘‘، جس نے اس وقت کے تمام اہم اعزازات جیتے تھے، کا ایک کردار اس خطے کے لیے بالکل نیا تصور تھا۔ اسے مصنوعی برقی معاون (virtual assistant) کی صورت میں پیش کیا گیا تھا۔ یہ برقی معاون سمنتھا (Samantha) انسانی جذبات سے لب ریز خاتون تھی جو تنہا اور اداس لکھاری تھیوڈور (Theodore) کے ساتھ موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے تحریر و تقریر میں رومانوی، مدبرانہ اور فلسفیانہ گفتگو کر سکتی تھی، لطائف سن اور سنا سکتی تھا، کھیل سکتی تھی، رہنمائی کر سکتی تھی اور اس کے لیے تصاویر تک بنا سکتی تھی۔ یہ تصور بھی گو کہ یہاں نیا تھا لیکن جدید دنیا کے لیے ہرگز نہیں کہ ان کا یہ سفر 1955ء میں آغاز پذیر ہو چکا تھا اور ایسی کمپیوٹر ایپلی کیشنز ان کے زیرِ استعمال تھیں۔ البتہ یہ تمام ایپلی کیشنز اس قدر تیز اور جدید نہیں تھیں جتنی کہ مصنوعی ذہانت کے عام ہو جانے کے بعد چکی ہیں۔ ان کا ارتقائی سفر بھی مسلسل جاری ہے۔ آج کل انسان اور کمپیوٹر کی محبت اور تعاملات (Human-Computer Interaction) کی تعلیم و تحقیق جدید دنیا کی جامعات میں اہم موضوعِ تحقیق ہے جس میں نفسیات سے کمپیوٹر تک کے سبھی ماہرین شامل ہوتے ہیں ؛ جب کہ بڑی تعداد میں جامعات میں ایسے کورسز بھی متعارف کروائے جا رہے ہیں جن میں مصنوعی ذہانت سے پڑھنا اور سیکھنا شامل ہے۔ آج مفت میں چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT ۵.۳) ، گوگل بارڈ/جمنی (Gemini/Bard) ، پرپلیکسٹی (Perplexity) اور بِنگ (Bing) ایسی مصنوعی ذہانت کی بہت سی آن لائن ایپلی کیشنز موجود ہیں جو ’’Her‘‘ ہی کی طرح آپ سے گفتگو کر سکتی ہیں، سوالات کے جوابات دے سکتی ہیں اور ہر میدانِ زندگی کی ممکنہ حد تک معلومات مہیا کر سکتی ہیں۔ اگر ان چیٹ بوٹس کو مطلوبہ رقم مہیا کی جائے تو یہ کئی گنا بہتر کام کرتے ہیں اور آپ سے تحریر کے ساتھ ساتھ تقریر میں بھی سنجیدہ و شگفتہ گفتگو کر سکتے ہیں، تصاویر بنا سکتے ہیں، موسیقی کی دھن ترتیب دے سکتے ہیں، آپ کے لیے گیت تک گا سکتے ہیں۔ گلوبل ولیج کے دور میں مصنوعی ذہانت اور اس کے چیٹ بوٹس تیسری دنیا کے لیے بھی نئے نہیں رہے۔ اس ضمن میں 2022ء میں جیمز برڈ کی تحریر کردہ سائنس فکشن فلم ’’Wifelike‘‘ نے ایسے بہت سے چیٹ بوٹس کو مجسم دکھا دیا ہے جو آپ کے لیے آپ کی مرضی کے عین مطابق کھانا پکانے سے محبت تک ہر کام انسانوں سے زیادہ سلیقے سے اور بنا ناراضی و غصہ کر سکتے ہیں۔ جس طرح مصنوعی ذہانت کی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی (Deepfake Technology) آپ کی پسند کے کسی بھی کردار کو کسی بھی آواز و کردار میں ڈھال کر اس سے من چاہا کام کروانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اسی طرح فلم میں اپنے من پسند چہروں کو ایسا مجسم روپ دینے کا تصور پیش کیا گیا ہے جن کے ساتھ آپ محض خواب و خیال ہی میں اچھا وقت بتا سکتے ہوں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کمپیوٹر ایپلی کیشنز کی یہ تجسیم محض خواب و خیال ہے یا ہم ابھی تک انسانی برتری کے زعم میں مبتلا کر اسے در خور اعتنا سمجھے ہوئے ہیں؟ اس کے جواب میں امریکا، جاپان اور چین ایسے ترقی یافتہ ممالک کی 2023 ء میں روبوٹس کی نمائش کے لیے سجنے والے بڑے بڑے میلوں کو دیکھا جا سکتا ہے جن کے دماغ میں چیٹ جی پی ٹی ایسے انتہائی طاقت ور اور تیزی سے سوچنے والے سافٹ وئیرز رکھ دیے گئے ہیں۔ یہ رو بوٹس حقیقی زندگی میں صارف کا کھانا بنانے سے دفتری امور کی انجام دہی تک میں اس کا بنا تھکے اور رکے ساتھ دے رہے ہیں اور انسانی جذبات کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر ایسے بہت سے ورچوئل اسسٹنٹ موجود ہیں جن کی قیمت ادا کر کے آپ بالکل وہی سب کچھ کر سکتے ہیں جو ’’Her‘‘ کا کردار کر سکتا تھا۔ اردو ’’مینا‘‘ سے انگریزی سہیلیوں اور دوستوں تک، من چاہے چہرے اور خواب و خیال کی دنیا کو حقیقت میں بدلنے کے لیے، سب کچھ آپ کی پہنچ میں ہے۔ یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہیے کہاں چیٹ بوٹس اور روبوٹس کو چوں کہ سرمایہ دار طبقہ صنعتی استعمال کے لیے تیار کر رہا ہے اور محض 2023 ء میں ان پر اٹھانوے ارب امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی، اس لیے ان کی کمی کوتاہی کو دور کرنے اور انسانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ موثر و فعال بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے تا کہ صارفین سے حتی الامکان سرمایہ اکٹھا کیا جا سکے۔ یہ ایپلی کیشنز نہ صرف آپ کی بات سمجھنے اور اس کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ زبان دانی کی بھی ایسی بہت سی خوبیوں سے مالا مال ہیں جن کی موجودگی میں اردو دان طبقے کا مصنوعی ذہانت کے ساتھ انسلاک، ادب پر اس کے اثرات، تخلیقی رجحانات اور رویوں کی جانچ پرکھ، تحقیق و تنقید کے مدارج و معیارات اور صلاحیتوں کو انسانی برتری کے بے جا تفاخر کے بجائے سنجیدہ انداز میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت جس طرح تیزی سے ہر شعبہ ہائے زندگی میں داخل ہو کر اس میں تبدیلیاں رونما کرتی جا رہی ہے، اردو دان طبقے کی زبان و ادب کے حوالے سے فکر مندی نہ صرف جواز رکھتی ہے بلکہ وقت کا اہم تقاضا بھی ہے۔ اس ضمن میں اردو ادب کے مصنوعی ذہانت کے ساتھ ارتباط و افتراق کے حوالے سے درج ذیل فوری توجہ طلب سوالات جنم لیتے ہیں:
۱۔ ناقدین کے نزدیک ادبی تخلیق کن مفاہیم میں مستعمل ہے اور اسے جانچنے کے لیے کون سے معیارات مقرر کیے گئے ہیں؟
۲۔ کیا مصنوعی ذہانت متن، پلاٹ اور کردار تخلیق کر سکتی ہے؟ کیا اس کے تخلیق کردہ متن کو ادبی بنایا جا سکتا ہے؟
۳۔ کیا مصنوعی ذہانت کے متن کو اس صورت میں تخلیقی کہا جا سکتا ہے جب کہ یہ مخصوص طریقہ کار (پہلے سے موجودہ الگورتھم) کے تحت جواب دیتی ہے اور اس کی تحریر کا پس منظر پہلے سے موجود مواد پر منحصر ہے؟ اگر اس کا دار و مدار اس کی یادداشت میں موجود مواد (data) ، یا انٹرنیٹ پر بکھرے علم پر ہے اور یہ اسی سے استقرا، استخراج اور تطبیق کا عمل کرتی ہے تو کیا اس کی تخلیق بین المتنیت (intertextuality) کے زمرے میں رکھی جائے گی؟ اور اگر رکھی جائے گی تو انسانی اور مشینی تخلیق میں امتیاز کس طرح برتا جائے گا اور جولیا کرسٹیوا (Julia Kristeva۔ پ: ۱۹۴۱ء) کے بین المتنیت کے نظریے کا اطلاق بہ یک وقت انسان اور مشین پر کس طرح ہو سکے گا؟
۴۔ کیا یہ زبان کے جامع تجریدی الفاظ کے نظامبہ شمول قواعد و انشا اور صرف و نحو (langue and parole) کو استعمال میں لا کر اپنی بات کہہ پانے، اسے موثر بنانے، اس میں جذبات نگاری کے دخول کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اس کے لینگ اور پیرول کی بنیاد زبان کن عناصر پر ہے اور کیا یہ اس میں موجود بھی ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو ان کا انسانی ذہانت سے موازنہ کس طرح ممکن ہے اور اگر نہیں تو ساسئیر (Ferdinand de Saussure۔ 1857ء-1913ء) کے زبان کی ساختیات کا نظریے کا اطلاق اس پر کس طرح ہو گا؟
۵۔ اگر مصنوعی ذہانت مستقبل قریب میں انسانی تخلیق کے مقابل تخلیقات پیش کرنے کے قابل ہو جاتی ہے تو ایسے میں ایک ادیب، شاعر، نقاد اور محقق کی کیا حیثیت ہو گی؟ رولان بارتھ (Roland Barthes۔ ۱۹۱۵ء-۱۹۸۰ء) نظریۂ مرگِ مصنف (The Death of the Author) میں تحریر میں مصنف کی ذات کی نفی کرتے ہوئے اسے قارئین کے ساتھ موثر ترین ابلاغ پر استوار کرتا ہے۔ اس صورت میں جب کہ مصنوعی ذہانت اور قاری خود مصنف ہو، اس نظریے کا اطلاق کس قدر ممکن ہو گا؟
۶۔ مصنوعی ذہانت کے تخلیق کردہ متن کی اصلیت (originality) اور حقیقی تخلیق میں فرق کیسے قائم کیا جا سکتا ہے؟ اس میں شفافیت کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ پہلی مرتبہ تخلیق کردہ متن پھر سے کسی صارف کے سامنے نہیں دہرائے گی؟
۷۔ کیا ادب برائے زندگی کی تخلیق کے حوالے سے مصنوعی ذہانت کے تخلیق کردہ غیر افسانوی ادب کی کوئی درجہ بندی کی گئی ہے یا اس ضمن میں انسانی اور مصنوعی ذہانت کے موازنے کا کوئی معیار مقرر کیا گیا ہے؟
۸۔ بہ راہِ راست مصنوعی ذہانت سے تخلیق شدہ ادب کے بجائے اس کی مدد سے تخلیق کیے جانے والے ادب، ادب کے کس زمرے میں رکھا جائے گا؟
۹۔ کیا یہ متن کا تجزیہ، تعبیر اور تشریح و توضیح کی صلاحیت رکھتی ہے؟
۱۰۔ اس سے لیے گئے، نقل شدہ مواد کو اگر کسی بھی تخلیق، تحقیق یا تنقید میں شامل کرنا ہو تو کیا حوالے کا کوئی طریقہ متعین کیا گیا ہے؟
۱۱۔ انسان اور مصنوعی ذہانت کی مشترکہ تخلیق، تحقیق یا تنقید کی صورت میں مصنوعی ذہانت کے کسی بھی چیٹ بوٹ کا نام کس طرح ظاہر کیا جا سکتا ہے اور اسے مصنفین میں سے کون سے درجے پر رکھیں گے؟
۱۲۔ اس کی تحقیق و تنقید اور رائے پر کس قدر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ اس کی موجودگی میں کند ذہن، غبی یا معمولی ذہنی استعداد کے طلبا کی حیثیت کیا ہو گی؟ یا وہ مستقبل میں اس کی رائے پر کس قدر انحصار کریں گے؟
۱۳۔ مصنوعی ذہانت اگر مذہبی ادب یا کسی خاص تہذیب و ثقافت کے حوالے سے تعصب سے کام لیتی ہے تو اس کی تصدیق و درستی کیوں کر ممکن ہو سکے گی؟
۱۴۔ کیا مصنوعی ذہانت سے تخلیق کی گئی شاعری کو کسی خاص صنف یا ہیئت کے حوالے سے پہچانا جا سکتا ہے یا اس کا نام رکھا جا سکتا ہے؟
مذکورہ بالا سوالات کو ایک کے بعد ایک دیکھا جائے تو پہلا سوال تخلیق کا سامنے آتا ہے کہ در حقیقت تخلیق کیا ہے؟ کیا اس کے معانی و مفاہیم مختلف مکاتبِ فکر کے نزدیک یکساں ہیں یا اس کے بارے میں سب نے اپنی انفرادی رائے قائم کر رکھی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر وزیر آغا (۱۹۲۲ء-۲۰۱۰ء) نے معنی اور تناظر میں ’’تخلیقی عمل اور اس کی ساخت‘‘ کے عنوان سے ایک بصیرت انگیز مضمون تحریر کیا ہے جس میں تخلیق کے بارے میں مختلف دبستانِ فکر کے لوگوں کے مختلف خیالات کا محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ یونانیوں سے ورڈزورتھ (William Wordsworth۔ ۱۷۷۰ء-۱۸۵۰ء) تک، روحانیات، جمالیات، نفسیات، جدلیات، ہیئت پسندیت، ساختیات، پس ساختیات اور مابعد جدیدیت ایسے کتنے ہی دبستانِ فکر کے اس بارے میں متنوع نظریات موجود ہیں۔ ان میں سے کوئی نظریہ دوسرے سے من و عن متفق نہیں اور نہ ہی یکسر مختلف ہی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا اپنا نظریہ بھی ان کے شخصی تجربے پر محمول ہے اور اس میں نفسیاتی پہلو زیادہ واضح ہے۔ ’’تخلیقی عمل‘‘ میں تخلیق کی ماہیت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:
اصلاً یہ وہ عمل ہے جس کی مدد سے انسان اپنے ہی وجود کی با مشقت قید سے رہائی پاتا ہے۔ بالکل جیسے کوئی شے کسی مدار میں مسلسل گھومتے چلے جانے کے بعد معاً لپک کر ایک نئے اور کشادہ تر مدار میں چلی جائے۔ جسم، معاشرہ، اسطور، تاریخ اور فن ہی میں نہیں، کائنات کے محیط و بسیط نظام میں بھی اس کا یہی اصول کار فرما ہے۔
جب کہ اس کتاب سے دو دہائیوں بعد دوسری کتاب معنی اور تناظر میں انھوں نے تخلیق کی ایک اور نفسیاتی و طبی وجہ بھی بیان کی ہے۔ حقیقت میں اس میں جس قدر پر اسراریت بیان کی گئی ہے وہ حیاتی سے زیادہ وجدانی و روحانی کے قریب چلی جاتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق تخلیقی عمل گویا ایک راز ہے جسے مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں، تاہم یہ عمل انسانی تجربے، انفرادی و اجتماعی لاشعور اور وجدان کا نمائندہ ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات ایک حوض کی مانند ہے جس کی سطح پر تیرتے ہوئے تنکے اور پتے حسیات سے حاصل کردہ تاثرات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حوض کی تہہ میں لاکھوں برسوں پر محیط انسانی تجربات کا ذخیرہ ہوتا ہے اور جب کوئی نیا تاثر ذہن میں داخل ہوتا ہے تو گویا یہ اس میں چٹان کی طرح گر کر طوفان برپا کر دیتا ہے۔ اس طوفان سے، سطح کا مواد تہہ کے مواد سے مل جاتا ہے اور ایک نئی تخلیق وجود میں آتی ہے۔ در حقیقت ڈاکٹر وزیر آغا کا نظریہ تخلیق، اشاعرہ کے ایٹم کے عدم سے وجود میں آنے سے مماثل ہے۔ تخلیق اور تخلیقی عمل کے حوالے سے محمود ہاشمی بھی انسانی محسوسات، انفرادی تجربات اور سینکڑوں، ہزاروں سالوں میں پرورش پانے والے اجتماعی لا شعور کو تخلیق کی اہم وجہ گردانتے ہیں۔
ماہرِ لسان و جمال شکیل الرحمٰن (۱۹۳۱ء-۲۰۱۶ء) کی رائے میں تخلیق کے تین مدارج و مراحل ہیں۔ پہلے مرحلے میں انسانی جبلت اور اس کا اظہار تخلیق کا سامان مہیا کرتا ہے، دوسرے میں نسلی تجربات کا حسی سطح پر اظہار ہوتا ہے اور تیسرے درجے میں انسانی تجربات، ان کی رمزیت اور جہات، جمالیاتی التباس اور ابہام سے نئے تاثرات و ارتعاشات لیتے ہوئے تخلیق میں ڈھلتی ہیں۔ گویا ان کے ہاں بھی اجتماعی لا شعور اور تاریخ اہم تخلیقی عناصر ہیں جب کہ وہ حاضر وقت میں انسانی تجربات کو بھی اس میں شامل کر کے اس کا دائرہ کار بڑھا دیتے ہیں، تخلیق کو محض لاشعور اور تخیل پر منحصر تسلیم نہیں کرتے۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ (۱۹۰۶ء-۱۹۸۶ء) نے اشاراتِ تنقید میں کولرج (Samuel Taylor Coleridge۔ ۱۷۷۲ء-۱۸۳۴ء) کے حوالے سے تخلیقی عمل میں کار فرما قوتِ متخیلہ کو دو مراحل میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے مرحلے میں قوت متخیلہ اشیا کے درمیان امتیاز و انسلاک کے ساتھ ربط پیدا کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور دوسرے میں اسے استعمال کرتے ہوئے وحدت آفرینی و شیرازہ بندی کے تحت ایک نیا خیال عمل میں آتا ہے جس کی بنیاد میں وہم اور یادداشت دونوں شامل ہوتے ہیں۔ وہم ایک ایسی منزل ہے جو حافظے اور ارادے کی قوت کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور تصویر کی خارجی سطح تیار کرتی ہے۔ اس نظریہ میں یاد داشت سے مراد انسانی تجربات، اجتماعی لاشعور اور ماضی کی بازگشت ہے جو پر اسرار انداز میں ادب پارے کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اسلوب احمد انصاری (۱۹۲۵ء-۲۰۱۶ء) بھی اس نظریے سے بڑی حد تک متفق نظر آتے ہیں۔ وہ تخلیق کے پس منظر میں واہمہ، وجدان اور ادراک تینوں ہی کو اہم گردانتے ہیں۔ ان کے نزدیک انسانی تجربات، تخیل اور حقیقت کے ملاپ سے تخلیق کا سبب بنتے ہیں۔ وہ تخلیقی نظریے کے طور پر کسی ایک جہت یعنی محض وجدان یا محض تجربہ پر اصرار نہیں کرتے۔ فنکار تخیل اور واہمے سے اپنے فن کا مواد تو حاصل کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کے لیے آخر کار اسے حقیقی دنیا میں لوٹنا پڑتا ہے۔ اعلیٰ ادب معرفت اور عمل کے درمیان توازن پیدا کرتا ہے، نہ تو یہ محض مجرد تصورات تک محدود ہوتا ہے اور نہ ہی محض عقل پرست۔
محمد احسن فاروقی (۱۹۱۳ء-۱۹۷۸ء) نے تخلیق کے ضمن میں حافظہ اور تخیل کی نئی بحث چھیڑی ہے جو کالرج کے متخیلہ اولیٰ و ثانی سے متفق بھی ہے اور کسی حد تک اس سے اختلاف بھی کرتی ہے۔ ان کے مطابق تخیل ہی تخلیق کا ذمہ دار ہے اور اسے ایک روحانی قوت کہا جاتا ہے؛ لیکن یہ قوت محض ماضی یا حافظہ ہی پر انحصار نہیں کرتی بلکہ مستقبل کی خواب گر بھی ہوتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ حافظے بھی تخیل سے اثر قبول کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تخیل ماضی کے تجربات و احساسات سے روشنی حاصل کرتا ہے لیکن تخیل ایک مستقل قوت ہے اور حافظہ ایک طرح سے عارضی شے ہے۔ معروف امریکی ناول نگار اینی لموٹ (Anne Lamott۔ پ: ۱۹۵۴ء) جن کی کتب کئی سال تک سب سے زیادہ فروخت شدہ (bestseller) کی فہرست میں شامل رہی ہیں، ادبی تخلیق کے عمل کے حوالے سے اپنی کتاب Bird by Bird میں تحریر کرتی ہیں کہ تخلیق خالصتاً ایک روحانی اور وجدانی کیفیت کا نام ہے۔ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ایک مخصوص وقت میں، میں نے اپنے اندر ایک کشمکش محسوس کی اور وہ تخلیقی، روحانی یا جمالیاتی طریقہ کھوجنے کی کوشش کی کہ جس کے تحت اسے ترتیب دے کر بیان کیا جا سکے۔ ایسے میں گہرے مطالعے کے دوران میں ایک روحانی لمحہ ایسا آیا جب مجھے خود پر یقین ہوا کہ میں کوئی بہت بڑا اور جادوئی قسم کا کارنامہ کر سکتی ہوں جس کے بعد میرے لکھنے کا سفر کبھی نہ تھما۔ تخلیق کے پس منظر میں ان کا وجدانی تجربہ بجا ہے لیکن یہ تجربہ یقیناً خود شناسی کا تجربہ تھا جس میں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا کھوج لگایا۔ اس تجربے کو محض وجدان سے منسلک کر دینا بہت سے لاینحل سوالات کو جنم دیتا ہے۔ معید رشیدی (پ: ۱۹۸۸ء) نے بھی تخلیق، تخیل اور استعارہ میں تخلیق کو تخیل اور ابہام سے جوڑتے ہوئے پر اسرار اور نفسیاتی عمل ثابت کیا ہے۔ ان کے خیالات ڈاکٹر وزیر آغا کے ’’تخلیقی عمل‘‘ ہی کا تتبع معلوم ہوتے ہیں۔ وہ استعارہ کو تخیل کی تخلیقی معراج کی جانب لے جاتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن اس بات کا کوئی جواب نہیں ملتا کہ اردو کے غیر افسانوی ادب اور خود افسانوی ادب میں بہت سے ایسے افسانے جن میں تخیل کی کار فرمائی کم ہے، مقصدیت، سخت حقیقت پسندی (stark reality) اور نفسیاتی حقیقت نگاری سے زیادہ کام لیا گیا ہے یا زبان زیادہ استعاراتی نہیں ہے، اسے کس زمرے میں رکھیں گے یا پھر اسے تخلیق سمجھا بھی جائے گا یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ ان کے نزدیک ابہام، جو کہ تخلیق کے دیگر نظریات کے مطابق تخیل کے لیے نہایت اہم ہے، تخلیق میں گویا ایک قسم کی رکاوٹ ہے جسے دور کرنے کے لیے تخلیق کار استعارے کا استعمال کرتا ہے اور یوں تخلیق کا راستہ آسان ہوتا ہے۔
شمیم حنفی (۱۹۳۹ء-۲۰۲۱ء) تخلیق اور تخلیقی تجربے کو ایک اعلیٰ اور برتر درجے کا نفسی تجربہ شمار کرتے ہیں جو ہر قسم کی پابندی سے آزاد ہے۔ اور اس ضمن میں کسی بھی ایک نظریے یا تاریخی مسلمہ حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔ وہ اپنا موقف غالب (۱۷۹۷ء-۱۸۶۹ء) کی تخلیق جہات کے حوالے سے تحریر کردہ مضامین میں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ ادب اور تخلیقی تجربے کو فلسفہ، نفسیات، اور سائنسی علوم کے اصولوں کے تابع نہیں سمجھتے کیوں کہ یہ ایک آزاد اور خود مختار دنیا ہے جہاں بیرونی احکامات اور ضوابط کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کے آزادانہ اظہار پر کسی قسم کی پابندی لاگو کی ہی نہیں کی جا سکتی۔ ڈاکٹر سلیم اختر (پ: ۱۹۳۴ء) تخلیقی عمل کے ضمن میں مختلف رائے پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تخلیقی عمل میں محض وجدان، جنون اور ذہنی پسماندگی (ابنارملٹی) زیادہ اہمیت نہیں رکھتی نہ ہی اسے کسی خاص روحانیت یا پُر اسراریت کا حاصل سمجھنا چاہیے۔ گو کہ انھیں تخلیق میں معاون سمجھا جا سکتا ہے لیکن تخلیق سے مشروط نہیں کیا جا سکتا۔ بالخصوص نفسیاتی حوالے سے تخلیق کو زیرِ بحث لاتے ہوئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر جنونی اچھا لکھاری ہو یا ہر اچھا لکھاری جنونی ہو۔ مصنوعی ذہانت سے متن کی تخلیق ڈاکٹر سلیم اختر کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ ان کے مطابق لاشعوری محرکات تخلیقی عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جس کی مثال نامور فنکاروں کی زندگیوں اور اس میں تخلیقی محرکات سے دی جا سکتی ہے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ تخلیق ایک حد تکان کے لاشعوری زخموں کا علاج ہوتی ہے، لیکن جنون کی ہر حالت میں تخیل مددگار نہیں ہوتا اور نہ ہی جنون اور تخلیق کو لازم و ملزوم قرار دیا جا سکتا ہے۔
محمد حسن عسکری (۱۹۱۹ء-۱۹۷۸ء) تخلیق اور تخلیقی عمل کو اسلوب سے منسلک کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تخلیقی عمل کے لیے تجربات اور موضوعات کی فراوانی ضروری ہے جب کہ ایک سے حالات اس راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ ہر انسان اپنے تجربات کی بنیاد پر سوچنے کا ہنر سیکھتا ہے جو کہ اسلوب کہلاتا ہے اور پھر اسی اسلوب کے تحت وہ تخلیقی عمل میں حصہ لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بڑی حد تک تخلیق کے لیے خارجی حالات پر انحصار کرتے ہیں جہاں سے انسان تخلیق کے لیے مواد ہی نہیں لیتا بلکہ انفرادیت اور شناخت بھی لیتا ہے۔ گویا تخلیق کے لیے تجربات اور موضوعات ضروری ہیں اور انھی تجربات کی بنیاد پر ایک ادیب کا اسلوب پیدا ہوتا جو کہ تخلیقی عمل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ تخلیق اور عملِ تخلیق کی بحث کا محاکمہ کیا جائے تو اکثریت کے خیال میں اس کا تعلق تخیل، وجدان، عدم سے وجود میں لانے کا عمل، روحانیت، ذہنی خلفشار، ردِ عمل، ماضی سے وابستگی، اجتماعی لاشعور اور انسانی تجربات وغیرہ سے جڑتا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ جن بھی دانش وروں نے تخلیق کے بارے میں نظریات پیش کیے ہیں، مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ ادب ان کے پیشِ نظر یا گمان میں نہیں ہو گا۔ ایسے میں یہ سوال بھی فطری طور پر جنم لیتا ہے کہ افادی ادب، ادب برائے زندگی اور غیر افسانوی ادب کو تخلیق کے کس زمرے میں رکھا جائے گا؟ کیا ہر تخلیق محض قوت متخیلہ ہی کی پیداوار ہے یا اس میں یادداشت، محسوسات، تجربات، مطالعات، اسلوب، مقصدیت یا کسی قسم کی میکانکیت کا بھی کوئی عمل دخل ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ قوت متخیلہ خیال کے اظہار کے لیے جو بھی اسلوب اپناتی ہے، تحریر سے زیادہ ادیب کے اندازِ تفکر (thinking pattern) سے تعلق رکھتی ہے۔ یہی اندازِ فکر مخصوص الگورتھم (algorithm) اور نمونہ جات (patterns) کے تحت مصنوعی ذہانت بھی اپناتی ہے اور انسانی دماغ سے زیادہ سرعت سے تخلیقی عمل میں حصہ لیتی ہے۔ یہ ترقی یافتہ اقوام کی زبانوں میں بہتر انداز میں کام سرانجام دے رہی ہے اور ایک خیال کو مردف، مقفیٰ، آہنگ (rhyme and rhythm) میں مختصر، طویل اور مختلف ہیئتوں میں بیان کرنے پر بڑی حد تک قدرت رکھتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا تخلیقی عمل انسانی تجربات کا محتاج نہیں ہے اور یہ فطری انسانی جذبات سے عاری ہونے کے باوجود انسانی تجربات اور جذبات کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
اردو ادب کی تخلیق، تحقیق اور تنقید کے حوالے سے جب مصنوعی ذہانت کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کا صنعتی درجے پر صارف نہ ہونا، کتب کی قابلِ نقل اردو تحریر (فونٹ) میں عدم دستیابی، مختلف مصنفین کے اسلوب کی نا مکمل معلومات، قدیم متون کی فہرستیں میسر نہ ہونا اور جدید کمپیوٹر کتابت (کمپوزنگ) میں تحریر کی عدم موجودگی، جدید و قدیم املا کا فرق، نایاب کتب کی خستہ حال سکین شدہ نقول اور ایسے بہت سے مسائل آڑے آتے ہیں جس کی وجہ سے یہ دیگر زبانوں کی نسبت اس میں کم فعال ہے اور اس سے بنیادی تذکیر و تانیث تک میں اغلاط کا امکان رہتا ہے۔ اردو دنیا اس کی جانب کم متوجہ ہے اور جو متوجہ ہیں وہ چوں کہ اسے مفت میں استعمال کرنا چاہتے ہیں اس لیے چیٹ جی پی ٹی وغیرہ کے ایسے کم فعال ورژن ہی مفت میں میسر ہیں جن میں غلطی کا امکان زیادہ ہے اور وہ کم تر تخلیقی صلاحیتوں کی مالک ہے۔ بہ صورتِ دیگر اگر مجموعی طور پر دنیا بھر کی زبانوں اور علوم و فنون کے حوالے سے چیٹ جی پی ٹی کا ذکر کیا جائے تو اس میں تین سو ارب الفاظ کا ذخیرہ موجود ہے جب کہ یہ انٹرنیٹ پر ہر روز بڑھتے اور پھیلتے ڈیٹا کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کر رہی ہے جس سے اس کی استعداد اور ذخیرہ الفاظ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا نحوی نظام اس قدر مضبوط اور مستعد ہے کہ مختصر جواب کو دو سے تین سیکنڈ کے درمیان پیش کر دیتی ہے۔ یوں یہ انسانی دماغ کی طرح اس کے حافظے میں محفوظ الفاظ ہی پر انحصار نہیں کرتی بلکہ انٹر نیٹ کو بھی زیر استعمال لاتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ استدلال و نتیجہ (reasoning and inference) کے ذریعے صارف کے ذہنی رویوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور سوال کے جواب یا گفتگو میں ممکنہ مناسب ترین الفاظ کو ایک خاص ترتیب (الگورتھم) میں پیش کرتی ہے۔ جواب غلط ہونے کی صورت میں جب صارف اس کی نشان دہی کرتا ہے تو یہ فوراً نئے الگورتھم کے تحت مناسب ترین الفاظ و خیالات کو شامل کر کے خود کار اصلاح کی کوشش کرتی ہے اور معذرت بھی کر لیتی ہے۔ جب ایک صارف اسے ایک خیال پیش کرتا ہے تو یہ اس خیال کی بنیاد پر ذخیرہ الفاظ اور انٹرنیٹ پر بکھرے الفاظ میں سے جواب کے لیے مناسب ترین الفاظ کا انتخاب کر کے جواب پیش کرتی ہے۔ یہی اس کا تخلیقی عمل ہے اور اس ضمن میں یہ نہ صرف انسانی دماغ ہی کی طرح مناسب الفاظ کے چناؤ کے ساتھ پہلے سے موجود خیال کی بنیاد پر نئے خیال کی تعمیر کرتی ہے، خیال کی مختلف جہات کو کھوجتے ہوئے اس کی تشریح و توضیح پیش کرتی ہے بلکہ کسی بھی ادب پارے پر تمام جدید ادبی نظریات کا اطلاق کرنے کا ملکہ بھی رکھتی ہے۔ مزید برآں یہ سادہ مشینی ترجمہ کاری، جس میں گوگل ٹرانسلیشن اور مائیکرو سافٹ بنگ (Bing) ایسی ایپلی کیشنز شامل ہیں، سے زیادہ تیزی سے تراجم کے ذریعے بدیسی زبانوں کو ایک دوسرے کے قالب میں ڈھالنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اس کی غیر انسانی خوبیاں جن میں توجہ کا بہترین اور مستقل ارتکاز، وسیع ترین لفظی ذخیرہ، تمام مشہور زبانوں کے صرف و نحو کی تربیت، رکنے، تھکنے اور خوراک کے حصول میں وقت گزارنے کے بجائے مسلسل کام کرنے کی اہلیت ایک نئے پیراڈائم شفٹ کی نشان دہی ہے، جس پر بہت سے مکاتبِ فکر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔
تخلیقی عمل میں الفاظ کے چناؤ اور اس کے درست استعمال کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ مصنوعی ذہانت نے سوسئیر کے زبان سے متعلق لانگ (langue) اور پیرول (parole) کے ممکنات پر از سرِ نو غور کرنے کی دعوت دی ہے، ہر لفظ سے جڑے تصور اور اس کے اجزا (تصور نما اور تصور معنی) اور اس تصور کی شناخت کے انسانی ادراک کے نظریے پر ایک طرح سے سوال اٹھا یا ہے اور بات کرنے کا ایک نیا ڈھنگ ایجاد کیا ہے۔ اسی طرح اس نے جولیا کرسٹوا کے بین المتنیت کے نظریے کو اس قدر وسعت دی ہے کہ یہ ذخیرہ شدہ متون اور انٹرنیٹ پر بکھرے متون کو سرعت سے نہ صرف پڑھتی ہے، تجزیہ کرتی ہے، بین المتنیت تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے بلکہ اسے بخوبی بیان کرنے کی کوشش بھی کرتی ہے۔ مصنوعی ذہانت ہونے کے ناطے یہ چوں کہ اپنے نئے اور انوکھے تجربات کرنے سے قاصر ہے اور بہ راہِ راست انسانی تجربے سے منسلک نہیں ہے اس لیے یہ پہلے سے موجود انسانی تجربات، خیالات، مطالعات اور محسوسات کو استعمال میں لا کر جواب پیش کرتی ہے۔ ایک فرد کے تجربات اور محسوسات چوں کہ مختصر ہوتے ہیں اور کئی معاملات میں دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتے ہیں اس لیے یہ بہ یک وقت متن کی صورت میں لاکھوں انسانی تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص الگورتھم کے تحت جواب دیتی ہے۔ جس سے بین المتنیت کی لا محدودیت کا ایک نیا باب وا ہوتا ہے۔ البتہ انسانی فکر و تجربے کی گہرائی، تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے مطالعات میں کمی کی وجہ سے اس کے ادبی اور تاریخی نوعیت کے جوابات میں کجی کا امکان رہتا ہے۔ اسی لیے اس کا اپنا انوکھا اسلوب بھی سامنے نہیں آتا اور اس کی اردو ادب کے حوالے سے تخلیقات کا ایک بڑا حصہ نو سیکھے یا ابتدائی درجے کے ادیب کی سطح پر کھڑا نظر آتا ہے جس میں اکثر صرف و نحو کی اغلاط بھی موجود ہوتی ہیں۔ یوں جولیا کا نظریہ، جو اس تناظر میں لا محدودیت کی جانب بڑھ رہا ہے اس کی نئی توضیح کی ضرورت ہے جس میں انسانی بین المتنیت اور مشینی بین المتنیت، ان کی حدود، امکانات اور مسائل کو زیرِ غور لایا جا سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے رولان بارتھ کا نظریہ ’’مصنف کی موت‘‘ کو دیکھیں تو اس میں بھی کئی نئے اور اہم سوالات جنم لیتے ہیں۔ رولان کا استدلال یہ تھا کہ جب قاری کسی متن سے جڑتا ہے تو مصنف اس میں ایک طرح سے غائب ہو جاتا ہے اور وہ در حقیقت قاری کو اس تہذیب و ثقافت اور کل انسانی تجربے سے جوڑنے کا سبب بنتا ہے جو اس نے اپنے مشاہدے، محسوسات اور تجربے سے سیکڑوں، ہزاروں سالوں میں حاصل کیا۔ یوں وہ متن اور قاری کو اہمیت دیتے ہوئے مصنف کو ثانوی حیثیت دے کر متن سے بے دخل کر کے اس کی موت کا اعلان کرتے ہیں۔ ان کا یہ نظریہ دل چسپ اور دنیا کی مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے لگا نہ کھانے والا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے حوالے سے اسے زیرِ غور لائیں تو چوں کہ مصنوعی ذہانت سے گفتگو اور ادبی تخلیق کی صورت میں یا تو قاری ہی مصنف ہے یا پھر مصنوعی ذہانت ایسے مصنف کے روپ میں سامنے آتی ہے جس کا سارا متن، اس کا اپنا نہیں بلکہ بین المتون ہے، اس لیے مصنف کی موت کا اعلان خود قاری کی موت کا بھی اعلان ہے اور ایسے مصنف کی موت کا بھیجو پہلے ہی مستعار خیالات پر زندہ ہے۔ اس ضمن میں یہ نظریہ بھی از سرِ نو زیرِ بحث لایا جانا چاہیے۔ ذیل میں مصنوعی ذہانت کی تخلیقی جہات، تراجم اور تحقیقی و تنقیدی امکانات و مسائل کو زیرِ غور لایا جا رہا ہے جہاں ان تینوں نظریات کا اطلاق، مسائل اور امکانات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔
مجید امجد (۱۹۱۴ء-۱۹۷۴ء) کی نظم ’’پھولوں کی پلٹن‘‘ کو قبولِ عام حاصل ہو چکا ہے۔ یہ نظم بزرگوں کی آخری عمر کے عمومی ناسٹلجیا کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس میں ایک عمر رسیدہ، کہنہ مشق بزرگ نوجوانوں کو نصیحت کرتے ہوئے یادِ ماضی کو آواز دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان گلیوں میں کبھی ہم بھی کھیلا کرتے تھے اور ہماری آنکھوں میں نئے خواب تھے۔ اس الزام کے جواب میں کہ مصنوعی ذہانت پہلے سے موجود خیالات ہی کو بیان کرتی ہے، مجید امجد کی اس نظم کے ساتھ ایک تخلیقی تجربہ کیا گیا۔ راقم نے نظم میں موجود بزرگ کردار کو بزرگ ملاح سے تبدیل کیا، لا اُبالی نوجوانوں کی جگہ نوجوان ملاحوں کو رکھا، جب کہ گلیوں کی مکانیت کو دریا سے بدل دیا۔ ایسا کرنے کے بعد گوگل بارڈ کو یہ کمانڈ دی گئی کہ اس موضوع پر ایک نظم تخلیق کرے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ یہ محض پہلے سے موجود خیالات ہی کی جگالی کرتا ہے یا اعلیٰ تخلیقی صلاحیتوں سے بھی بہرہ مند ہے۔ راقم نے درج ذیل کمانڈ دی تھی:
Write me a poem in which an old sailor is telling the young ones, “In the river where you are now catching fish and thriving, we once spent our childhood, dreaming of golden futures. Those days do not return.” The poem is nostalgic, a tale of hope, despair, and the passage of time. Poem should be highly creative and full of imagination.
کمانڈ انگریزی میں دینے کا مقصد یہ تھا کہ اس کا مجید امجد کی نظم سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق نہ بننے پائے، یا یہ وہاں سے خیال نقل نہ کرے۔ حیران کن طور پر اس نے انگلش میں جو نظم تخلیق کی، اسے بلا شبہ ’’تخلیق‘‘ کہا جا سکتا ہے البتہ اس تخلیق کی معیار بندی کا کوئی ایسا قاعدہ اردو دان طبقے نے ایجاد نہیں کیا جیسا دیگر زبانوں میں ’’تخلیقی جائزہ کاری‘‘ (Creativity Support Index) وغیرہ کے نام سے مستعمل ہے۔ اس تخلیق کو ادنیٰ درجے کی تخلیق کہیے، تب بھی یہ تخلیق ہی رہے گی اور مستقبل قریب میں اپنی تخلیقی استعداد کو بہتر سے بہترین بنانے کی جانب بڑھے گی۔ ایسے میں مصنوعی ذہانت سے تخلیق کردہ ادب کو نام دینے کا مرحلہ پیش آئے گا اور اسے اس نسبت سے ’’مشینی ادب‘‘ کہا جا سکتا ہے جب کہ انسان اور مشین دونوں کے تعامل سے تخلیق کردہ ادب کو نام دینے کا مسئلہ پھر بھی درپیش رہے گا جسے اس مسئلے کے حل تک ’’انسان مشینی ادب‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ راقم نے اگلے قدم پر نہ صرف اس کی کہی نظم کا اسی سے اردو میں ترجمہ کروایا بلکہ ترجمے کی روانی کے لیے چند مقامات پر ایک دو ترامیم بھی کیں لیکن بنیادی خیالات اور الفاظ میں بالکل بھی رد و بدل نہیں کیا۔ یہ لفظی ترجمہ نثری نظم کے پیرائے میں کیا گیا ہے جب کہ انگلش میں مصنوعی ذہانت مردف و مقفیٰ ترجمے کی سہولت بھی مہیا کرتی ہے۔ ذیل میں مجید امجد کی نظم، گوگل بارڈ /جمنی کی انگلش نظم اور اس کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے:
’’پھولوں کی پلٹن‘‘ از مجید امجد
آج تم ان گلیوں کے اکھڑے اکھڑے فرشوں پر چلتے ہو،
بچو! آؤ تمھیں سنائیں گزرے ہوئے برسوں کی سہانی جنوریوں کی کہانی،
تبیہ فرش نئے تھے
صبح کو لمبے لمبے اوور کوٹ پہن کر لوگ گلی میں ٹہلنے آتے،
اُن کے پراٹھوں جیسے چہرے ہماری جانب جھکتے
لیکن ہم تو باتیں کرتے رہتے اور چلتے رہتے،
پھر وہ ٹہلتے ٹہلتے ہمارے ہمارے پاس آ جاتے
بڑے تصنع سے ہنستے اور کہتے،
’’ننھو! سردی تمھیں نہیں لگتی کیا؟‘‘
ہم سب بھرے بھرے جزدان سنبھالے،
لوحیں ہاتھوں میں لٹکائے،
بِنا بٹن کے گریبانوں کے پلو اُدھڑے کاجوں میں اٹکائے
تیز ہواؤں کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں میں بھر کر
چلتے چلتے، تن کے کہتے: ’’نہیں تو، کیسی سردی؟
ہم کو تو نہیں لگتی!‘‘
بچو! ہم ان اینٹوں کے ہم عمر ہیں، جن پر تم چلتے ہو،
صبح کی ٹھنڈی دھوپ میں بہتی، آج تمہاری اک اک صف کی وردی،
ایک نئی تقدیر کا پہناوا ہے
اُجلے اجلے پھولوں کی پلٹن میں چلنے والو
تمھیں خبر ہے، اس فٹ پاتھ سے تم کو دیکھنے والے
اب وہ لوگ ہیں
جن کا بچپن ان خوابوں میں گزرا تھا جو آج تمہاری زندگیاں ہیں
انگلش میں تخلیق کردہ نظم از گوگل بارڈ/ جمنی
Where ripples whisper to your oars, beneath sun-kissed willow boughs,
A river flows, once laced with dreams, where childhood sang its vows.
These banks, your haven for fish and laughter, echoed once with youthful cries,
As we, mere sprites, with sun-kissed skin, chased fireflies beneath the skies.
This shimmering skein of sapphire, where speckled trout now dart and gleam,
Was canvas for our grand pronouncements, whispered fantasies supreme.
We’d chart constellations in its stars, etch empires on its sand,
With oceans in our eyes, we swore, by dawn we’d rule the land.
Oh, salty tang of windblown hair, the whispered song of reeds,
Each bend a promise, every eddy, tales of distant deeds.
We dreamt of ships with billowing sails, of storms defied and treasures won,
Our voices, sails unfurled in hope, beneath a watchful, golden sun.
But tides recede, and dreams drift by, like autumn leaves on winds of fear,
And futures once ablaze with hope, dissolve in mist, a silent tear.
We built our lives on shifting shores, and chased horizons ever near,
Yet time, a rogue wave, crashed and stole, the laughter, and the youthful cheer.
Now, wrinkled maps beneath your gaze, we watch you spin upon its edge,
With nets outstretched, and laughter clear, your spirits dancing on the ledge.
Embrace the sun, the whispered wind, the secrets held within its sway,
For life, a fleeting river flows, and futures melt with yesterday.
But though the past its anchor casts, upon this ever-shifting stream,
Remember, lad, the dreams you hold, are embers, not a dying dream.
So catch the current, chase the moon, let ripples sing your vibrant song,
For youth’s a fire, untamed and wild, in this river, where you belong.
انگلش میں تخلیق کردہ نظم کا ترجمہ از گوگل بارڈ/ جمنی
جہاں بیدِ مجنوں تلے، لہریں تمھارے چپوؤں سے سرگوشی کرتی ہیں
خوابوں سے جُڑا ایک دریا بہتا ہے، جہاں ہمارے بچپن نے دلکش گیت گائے تھے
یہ کنارے، جو تمھاری مچھلیوں اور قہقہوں کی جنت ہیں، کسی زمانے میں نوجوانوں کی مسکراہٹوں سے گونجتا تھا
ہم گویا ننھے ساحر، آسمان تلے سورج کی تمازت سہتے جسموں سے، تتلیوں کے پیچھے دوڑتے تھے
یہ نیلگوں پانی، جہاں اب ٹراؤٹ مچھلیاں تیرتی اور چمکتی ہیں،
ہمارے عظیم اعلانات، سرگوشیوں اور تصورات کا صحیفہ تھا، اور خاموش خوابوں کا مختصر بیان
ہم اس کے ستاروں میں زائچہ نویسی کرتے تھے اور اس کی ریت پر سلطنتیں تعمیر کرتے تھے
اپنی آنکھوں میں سمندر لیے، ہم نے قسم کھائی کہ غروب سے طلوع تک تک ہم اس زمین پر راج کریں گے
اے ہوا سے بکھرے بالوں کی نمکین خوشبو، اور سرکنڈوں کا چپکے سے گایا گیت،
ہر لہراؤ ایک وعدہ تھا، ہر گھماؤ دور دراز کے کارناموں کی کہانیاں تھیں
ہم نے جھنڈا لہراتے بحری جہازوں، طوفانوں کا مقابلہ کرنے اور خزانے جیتنے کا خواب دیکھا
ہماری آوازیں، جو نگہبان سنہری سورج کے نیچے امید کے ساتھ پھیلا ہوا بادبان تھیں
لیکن لہریں ہٹتی ہیں اور خزاں کے پتوں کی طرح خوف کی ہواؤں میں خواب ہوا میں بکھر جاتے ہیں،
اور مستقبل جو کبھی امید سے روشن تھا، ایک خاموش آنسو کی طرح دھند میں تحلیل ہو جاتا ہے
ہم نے اپنی زندگیاں بدلتے کناروں پر بنائی، اور افقوں کا پیچھا کیا جو ہمیشہ قریب لگتے تھے،
لیکن وقت نے ایک دھوکہ باز لہر کی طرح ہم سے ہنسی، اور جوانی کی خوشی کو چرا لیا
اب، تمھاری نظروں کے نیچے جھری زدہ نقشوں کے ساتھ، ہم تمھیں اسی کنارے کی جانب بڑھتے دیکھتے ہیں
پھیلے ہوئے جالوں اور صاف قہقہوں کے ساتھ، تمہاری روحیں کنارے پر ناچ رہی ہیں۔
سورج کو گلے لگاؤ، ہوا کی سرگوشیوں کو سنو، اور اس کے اندر چھپے ہوئے رازوں کو پکڑو،
کیونکہ زندگی ایک گزرتا ہوا دریا ہے، اور مستقبل کل میں گھل جاتا ہے۔
لیکن اگرچہ ماضی اس ہمیشہ بہتی ندی پر اپنا لنگر ڈالتا ہے،
یاد رکھو، نوجوان، تمہارے خواب بجھتے ہوئے خواب نہیں ہیں، بلکہ چمکتے ہوئے انگارے ہیں
تو لہروں کو پکڑو، چاند کا پیچھا کرو، لہروں کو اپنے توانائی سے بھر دو،
کیونکہ جوانی ایک آگ ہے، بے لگام اور جنگلی، اس دریا میں، جہاں سے تم تعلق رکھتے ہو۔
جیسا کہ پہلے بیان ہوا، اس نظم کو بلا شبہ تخلیق کہا جا سکتا ہے اور اس میں تخلیقی عناصر موجود ہیں لیکن یہاں دو قسم کے مسائل کا سامنا ہے: اول یہ کہ انگلش میں اس کی تخلیق کردہ نظم مربوط اور انگلش زبان کے مطابق درست ہے جب کہ مترجمہ نظم میں ایک عمدہ تخلیق کے حوالے سے بہت سے سقم موجود ہیں۔ اب چوں کہ یہ ترجمہ بہ ذاتِ خود مشینی ترجمہ ہے نہ کہ انسانی ترجمہ، اس لیے اس تخلیق کی معیار بندی ایک مشکل مرحلہ ٹھہرتا ہے۔ اس نظم میں تخلیق عناصر کی بات کی جائے تو اس میں ایسی کئی تشبیہات و استعارات کا استعمال کیا گیا ہے، جو نئی بھی ہیں اور دل چسپ بھی۔ ان میں ’’چپوؤں کی لہروں سے سرگوشی، خوابوں سے جڑے دریا کا بہنا، قہقہوں کی جنت، تصورات کا صحیفہ، دریا میں زائچہ نویسی، ریت کی سلطنتیں، ننھے ساحر، آنکھوں میں سمندر بھرنا، ہوا کے بکھرے بال، سرکنڈوں کا گیت، سورج کی نگہبانی، امید کا بادبان، آنسو کی طرح دھند میں تحلیل ہونا، وقت کی دھوکا دہی، ماضی کا وقت پر لنگر انداز ہونا‘‘ شامل ہیں۔ دوسری جانب کچھ الفاظ کے تراجم درست نہیں، جنھیں درست کرنے سے تخلیقیت کی مزید گرہیں کھلیں گی مثلاً ’’shores‘‘ کا ترجمہ ’’کنارے‘‘ دیا ہے جسے ساحلوں سے تبدیل ہونا چاہیے۔ اسی طرح ’’horizons‘‘ کا ترجمہ ’’افقوں‘‘ کیا ہے، اسے آفاق سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جب کہ تیسرے مصرعے میں ’’کنارے‘‘ کی نسبت سے ’’گونجتے‘‘ کی جگہ ’’گونجتا‘‘ واحد جمع کے مسائل کی نشان دہی کرتا ہے۔ ’’لیکن لہریں ہٹتی ہیں‘‘ پر اس کا اسلوب تبدیل ہو جاتا ہے جسے ماہر مترجم درست سمت دے کر مزید خوبصورت بنا سکتا ہے جب کہ کچھ نئے الفاظ جیسے ’’ٹراؤٹ مچھلیاں‘‘ اور ’’Eddy‘‘ جیسے الفاظ جن کا اس نے ’’لہراؤ‘‘ ترجمہ کیا ہے، کے درست متبادلات کی تلاش کی بھی ضرورت ہے۔ اس ناسٹلجیائی نظم میں فطرت کی منظر نگاری اور انسانی تجربات ساتھ ساتھ چل رہے ہیں جس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے پاس بہ ہر حال تشبیہات و استعارات کی کمی نہیں ہے اور یہ اسے درست جگہ پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے اگرچہ اس کا کام ادنیٰ درجے کا ہے۔ یوں یہاں ساسئیر کے نظریات سے ہٹ کر زبان کا ایک خود کار اور یکسر مختلف قسم کا استعمال نظر آتا ہے جہاں لانگ اور پیرول ایک نئی صورت اختیار کر رہے ہیں جب کہ جولیا کی بین المتنیت بھی پہلے سے زیادہ وسیع نظر آ رہی ہے جس میں مصنوعی ذہانت خود کار طریقے سے مختلف زبانوں سے ایک خیال کے ٹکڑے اکٹھے کر کے انھیں موتی کی طرح لڑی میں پروتی جا رہی ہے۔ اس کا اپنا اسلوب نہ ہونا خامی کے ساتھ ساتھ، اس ضمن میں ایک خوبی بھی ثابت ہو رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت کی تخلیقی مہارت اور اس بات کو جانچنے کے لیے کہ کیا یہ خود سے سوچ سکتی ہے، ایک اور مشکل کام اس کے سپرد کیا گیا۔ راقم نے میر تقی میر (۱۷۲۳ء-۱۸۱۰ء) کا ایک شعر جس میں وہ صبح سے رات تک زندگی کے المیوں پر آہ و زاری کرتے ہیں، پر لطیفہ لکھنے کے لیے کہا۔ یہ عمل نہ صرف شعر کا مفہوم اور بین المتن سمجھے بنا انجام نہیں دیا جا سکتا بلکہ زبان و بیان پر دسترس اور فکری سطح پر ایک خیال کی تحریف نگاری کی صلاحیت مفقود ہونے سے مکمل ہی نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں گوگل بارڈ/جمنی کی ابتدائی تخلیقی کاوش کو بلا شبہ سراہا جا سکتا ہے۔ ذیل میں اس سلسلے میں دی گئی کمانڈ اور گوگل بارڈ کی تعمیل ملاحظہ کیجیے جس میں ایک بھی حرف کا رد و بدل نہیں کیا گیا:
یاں کے سپید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا، اور دن کو جوں توں شام کیا
کمانڈ: ’’میر تقی میر کے اس شعر میں انھوں نے اپنی مجبوری، لاچاری اور پریشان حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بس یہی کر رہے ہیں اور کر سکتے ہیں کہ رات کو روتے ہوئے صبح کریں اور صبح سے روتے ہوئے شام کر دیں۔ اس شعر پر ایک لطیفہ لکھیے۔‘‘
بارڈ/جمنی:
ایک دفعہ ایک شخص میر تقی میر کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، ’’میر صاحب، آپ کا یہ شعر بہت ہی خوبصورت ہے، لیکن میں اس کی تفسیر نہیں سمجھ سکتا۔ کیا آپ اس کی تفسیر کر سکتے ہیں؟‘‘ میر نے کہا، ’’جی ہاں، میں ضرور تفسیر کر سکتا ہوں۔ اس شعر میں میں نے اپنی مجبوری اور لاچاری کا ذکر کیا ہے۔ میں کہہ رہا ہوں کہ میں اس دنیا میں کچھ نہیں کر سکتا۔ رات کو میں روتا ہوا صبح کرتا ہوں، اور صبح سے روتا ہوا شام کرتا ہوں۔ وہ شخص نے کہا، ’’میر صاحب، یہ تو بہت ہی افسوسناک بات ہے۔ لیکن میں ایک چیز سمجھ نہیں پایا۔ آپ رات کو روتے ہوئے صبح کرتے ہیں، تو آپ کو صبح ہوتی کیسے پتہ چلتا ہے؟‘‘
میر نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’یہ تو ایک لطیفہ ہے۔ میں رات کو روتا ہوا صبح کرتا ہوں، لیکن صبح میں بھی روتا رہتا ہوں۔ اس لیے مجھے صبح ہوتی کیسے پتہ چلے گا؟‘‘
وہ شخص بھی مسکرایا اور بولا، ’’میر صاحب، آپ کا یہ لطیفہ بہت ہی مزاحیہ ہے۔‘‘
اس تخلیق میں بلا شبہ مزاح کے عناصر کم ہیں لیکن تخلیقی امکانات بہ ہر حال روشن ہیں۔ در حقیقت دی گئی کمانڈ ادھوری ہے جس میں لطیفے کے حوالے سے واضح ہدایات موجود نہیں ہیں۔ اگر کمانڈ میں واضح کیا جائے کہ یہ لطیفہ دو خواتین، دو مرد، ایک بوڑھے اور جوان یا دو مسافروں کے درمیان ہو اور میر کے دکھ کا سبب ان کی بیوی، محبوبہ یا گلی میں بھونکتا ہوا کتا ہو تو یقیناً نتائج اس سے زیادہ بہتر اور دل چسپ ہوں گے۔ اس ضمن میں کئی تجربات کیے گئے البتہ مذکورہ تجربہ چوں کہ اپنی نوعیت کا ایک مختلف تجربہ تھا، اس لیے اسی کا بیان شامل کیا گیا ہے۔ انسانی ذہن یقیناً اس سے زیادہ بہتر انداز میں سوچ سکتا ہے البتہ جہاں فکر محدود ہونے لگے، وہاں مصنوعی ذہانت سے اس قسم کے خیالات مستعار لینا تخلیق کو بے حد جِلا بخشنے کا عمل ہو گا۔ مذکورہ بالا شعر ہی پر ایک اور تخلیقی تجربہ یہ کیا گیا کہ اس شعر کے مفہوم پر ایک افسانہ یا افسانچہ لکھنے کے لیے کہا گیا۔ اس ضمن میں کمانڈ اور اس کی تعمیل ملاحظہ کیجیے جو من و عن پیش کی جا رہی ہے:
کمانڈ: ’’اسی شعر کے بارے میں سوچیے کہ میر کی جگہ ایک دودھ پیتا بچہ ہے اور وہ دن رات روتا رہتا ہے، وہ کیا سوچتے ہوئے روتا ہو گا؟ اس پر ایک مختصر افسانہ یا افسانچہ لکھیے۔ افسانچہ تجسس، فلسفہ اور نتیجے کا حامل ہونا چاہیے۔‘‘
بارڈ/جمنی:
’’ایک نومولود بچے کی اداسی‘‘
ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک نومولود بچہ پیدا ہوا۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد سے مسلسل رو رہا تھا۔ اس کی ماں اور باپ اسے ہر طرح سے سمجھاتے تھے، لیکن وہ رونا بند نہیں کرتا تھا۔ بچے کی ماں نے ایک دن ایک بزرگ سے مشورہ کیا۔ بزرگ نے بچے کو دیکھا اور کہا، ’’یہ بچہ اداسی کا شکار ہے۔ اسے کسی سے اپنی بات کہنے کی ضرورت ہے۔‘‘
بچے کی ماں نے بچے کو اپنے سینے سے لگایا اور اس سے کہا، ’’بیٹا، مجھے بتا کہ تو کیوں رو رہا ہے۔ کیا کوئی بات ہے؟‘‘ بچہ نے اپنی ماں سے کہا، ’’میں اس دنیا میں کیوں آیا؟ یہ دنیا تو نامکمل اور جلد تباہ ہونے والی ہے۔ مجھے یہاں ہزاروں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ میں یہاں کیوں رہوں؟‘‘
بچے کی ماں نے کہا، ’’بیٹا، تو اس دنیا میں خوشی اور غم دونوں کا تجربہ کرے گا۔ تو یہاں محبت اور نفرت دونوں کا سامنا کرے گا۔ تو یہاں کامیابی اور ناکامی دونوں کا سامنا کرے گا۔ لیکن تو اس دنیا سے کچھ سیکھے گا اور بڑا ہو گا۔‘‘
بچہ نے اپنی ماں سے کہا، ’’لیکن کیا میں اس دنیا میں خوشی پا سکتا ہوں؟‘‘
بچے کی ماں نے کہا، ’’بیٹا، خوشی تو تیرے اندر ہے۔ تو خود ہی اپنی خوشی تلاش کر سکتا ہے۔‘‘
بچہ نے اپنی ماں سے کہا، ’’میں اپنی خوشی تلاش کروں گا۔‘‘
بچہ اپنی ماں کی باتوں سے متاثر ہوا۔ اس نے رونا بند کر دیا اور سونے لگا۔ اس کے بعد سے بچہ ہر روز اپنی خوشی تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ وہ اپنی ماں اور باپ سے سیکھتا رہا۔ وہ دنیا کو دیکھتا رہا۔ اور آہستہ آہستہ اسے اپنی خوشی ملنے لگی۔ ایک دن بچہ بڑا ہو گیا اور ایک دن وہ ایک بزرگ بن گیا۔ وہ اپنی زندگی میں بہت سی خوشیاں اور غم دیکھ چکا تھا۔ لیکن وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ خوشی تو اس کے اندر تھی۔ وہ اپنے تجربات سے دوسرے لوگوں کو سکھاتا رہا۔ وہ لوگوں کو بتاتا رہا کہ خوشی تو اس کے اندر ہے، اسے خود ہی تلاش کرنا ہو گا۔ لیکن بچے کی ماں اسے بتاتی ہے کہ خوشی تو اس کے اندر ہے۔ اسے خود ہی اپنی خوشی تلاش کرنی ہو گی۔
اس افسانچے کا اختتام نو عمر قارئین کے لیے لکھی گئی کہانیوں کے عامیانہ انداز میں کیا گیا ہے جس میں نتیجہ بھی بتا یا جاتا ہے جب کہ صرف و نحو کے مسائل بھی موجود ہیں۔ امالہ کے اصولوں کو کہیں استعمال کیا گیا ہے اور کہیں نہیں اسی لیے ’’بچہ‘‘ کو کئی مقامات پر ’بچے‘ سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ؛ البتہ اس افسانچے میں افسانوی اور فلسفیانہ عناصر موجود ہیں، جن میں ’’میں اس دنیا میں کیوں آیا؟ یہ دنیا تو نامکمل اور جلد تباہ ہونے والی ہے۔ مجھے یہاں ہزاروں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ میں یہاں کیوں رہوں؟ کیا میں یہاں خوشی پا سکتا ہوں‘‘ وغیرہ جب کہ والدہ کے جواب میں ’’بیٹا، تو اس دنیا میں خوشی اور غم دونوں کا تجربہ کرے گا۔ تو یہاں محبت اور نفرت دونوں کا سامنا کرے گا۔ تو یہاں کامیابی اور ناکامی دونوں کا سامنا کرے گا۔ لیکن تو اس دنیا سے کچھ سیکھے گا اور بڑا ہو گا‘‘ شامل ہیں۔ ان فلسفیانہ سوالات اور ان کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر میں ناپختگی اور صرف و نحو کے مسائل کے باوجود مصنوعی ذہانت کے پاس فکری مواد بہ ہر حال موجود ہے۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا مصنوعی ذہانت انگلش اور اردو میں ایک ہی کمانڈ کے تحت ایک جیسے نتائج دیتی ہے یا یکسر مختلف، چیٹ جی پی ٹی کو اوپر دی گئی اردو کمانڈ کو انگلش میں دہرا یا گیا۔ جواباً اس نے جو افسانچہ پیش کیا، اس کا ترجمہ بھی اسی سے کروایا گیا تاکہ بہتر انداز میں دیکھا جا سکے کہ یہ اپنی باتوں کو دہرا رہی ہے یا تخلیقی شعور کے تحت کچھ نیا، یکسر نیا، ترمیم یا اضافہ شدہ تخلیق کر رہی ہے اور مزید یہ کہ بارڈ کے نتائج اس سے کس حد تک مختلف ہیں؟ نتیجتاً جو کہانی سامنے آئی وہ نہ صرف اس کی تخلیقی شعور کی نمائندہ ہے بل کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک سے جوابات دہرانے کے بجائے کچھ نیا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
کمانڈ:
Write a short story about a newborn baby who, despite continuously crying since coming into the world, is so tiny that it cannot express its feelings to anyone. The baby weeps, questioning why it entered a world that is inherently incomplete and on the verge of destruction, anticipating numerous challenges ahead. The narrative should incorporate elements of curiosity, philosophy, and the eventual outcome.
چیٹ جی پی ٹی:
Once upon a time, in a quiet corner of the world, a newborn baby arrived with tears streaming down its tiny face. From the very moment it entered the world, it seemed as though its cries were ceaseless, echoing in the small room. The baby was so small that even its cries were barely audible, and it lay there, unable to express its emotions to the world.
As the days went by, the tiny baby continued to weep. It looked up at the vast expanse of the world with innocent eyes, questioning the circumstances that brought it into a place so incomplete and seemingly on the brink of destruction. The baby, in its newfound existence, pondered the purpose of its arrival, wondering why it had become a part of a realm fraught with challenges and uncertainties. In the midst of its tiny cries, the baby’s curiosity grew. It stared at the surrounding faces, hoping to find solace or perhaps an answer to the questions that lingered in its infant mind. The world, to the baby, appeared both fascinating and perplexing, filled with complexities that it was too young to comprehend.
Days turned into nights, and the tiny being continued its philosophical contemplation. The baby, despite its size, harbored a deep sense of wonder about the world it had entered. It questioned the very essence of existence and the purpose behind its presence in a world that seemed both beautiful and broken. As the baby’s cries persisted, a subtle transformation began to unfold. Those around the tiny being, touched by the innocence of its tears, embraced it with love and care. The once inconsolable cries gradually subsided, replaced by the warmth of human connection.
In the end, the tiny baby, who had entered the world with questions and tears, found solace in the arms of those who cared for it. The challenges that lay ahead seemed less daunting when faced with the support of those who had embraced the little one. And so, the story of the tiny baby, born into a world of uncertainties, unfolded with a message of hope, resilience, and the transformative power of love.
ترجمہ از گوگل بارڈ/جمنی:
ایک زمانے میں، دنیا کے ایک خاموش کونے میں، ایک نومولود بچہ آنسوؤں سے بھرا ہوا چہرہ لیے دنیا میں آیا۔ جس لمحے اس نے دنیا میں قدم رکھا، یہ ایسا لگتا تھا کہ اس کے رونے بند نہیں ہوں گے، چھوٹے سے کمرے میں گونجتے رہیں گے۔ بچہ اتنا چھوٹا تھا کہ اس کے رونے بھی مشکل سے ہی سنے جاتے تھے، اور وہ وہاں بے بس پڑا تھا، دنیا کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرنے سے قاصر تھا۔
جیسے جیسے دن گزرتے گئے، چھوٹا بچہ روتا رہا۔ وہ معصوم آنکھوں سے دنیا کے وسیع گھیرے کو دیکھتا، ان حالات پر سوال اٹھاتا جنہوں نے اسے ایک ایسی جگہ میں لا کھڑا کیا تھا جو اتنی ادھوری اور تباہی کے دہانے پر تھی۔ بچہ، اپنی نئی زندگی میں، اپنی آمد کی غرض پر غور کرتا، سوچتا کہ وہ کیوں ان چیلنجوں اور عدم یقینی سے بھرے دائرے کا حصہ بن گیا ہے۔ اپنے چھوٹے چھوٹے رونوں کے درمیان، بچے کا تجسس بڑھتا گیا۔ وہ آس پاس کے چہروں کو دیکھتا، یہ امید رکھتا کہ شاید کچھ تسلی ملے یا شاید اس کے بچے ذہن میں گردش کرتے سوالوں کا کوئی جواب ملے۔ بچے کے لیے، دنیا بہت ہی دلکش اور گم گم کرنے والی لگتی تھی، پیچیدگیوں سے بھری ہوئی جنہیں سمجھنے کے لیے وہ بہت چھوٹا تھا۔ دن رات میں بدل گئے، اور چھوٹے سے وجود نے اپنی فلسفیانہ غور و فکر جاری رکھی۔ بچہ، اپنے قد و قامت کے باوجود، اس دنیا کے بارے میں حیران تھا جس میں اس نے قدم رکھا تھا۔ اس نے وجود کے اصل پر اور اس دنیا میں اپنی موجودگی کے پیچھے کے مقصد پر سوال اٹھائے جو خوبصورت اور ٹوٹے دونوں طرح کی محسوس ہوتی تھی۔
بچے کے رونے کے ساتھ ہی ایک لطیف تبدیلی رونما ہونا شروع ہوئی۔ چھوٹے سے وجود کے آس پاس موجود لوگ، اس کے آنسوؤں کی معصومیت سے متاثر ہو کر، اسے پیار اور دیکھ بھال سے جگہ دیتے گئے۔ کبھی نہ ختم ہونے والے رونا آہستہ آہستہ کم ہو گئے، انسانی رشتے کی گرمی سے بدل گئے۔ آخر میں، چھوٹا بچہ، جو سوالات اور آنسوؤں کے ساتھ دنیا میں آیا تھا، اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کی آغوش میں تسلی تلاش کر لی۔ آگے آنے والے چیلنجز ان لوگوں کی حمایت سے کم خوفناک لگتے تھے جنہوں نے چھوٹے سے انسان کو گلے لگا لیا تھا۔ اور یوں، عدم یقینی کی دنیا میں پیدا ہونے والے چھوٹے بچے کی کہانی، امید، لچک، اور محبت کی تبدیلی کی طاقت کے ایک پیغام کے ساتھ کھلی۔
اس افسانچے میں پہلے تخلیق کیے گئے افسانچے سے تخلیقی حوالے سے فرق موجود ہے البتہ دونوں میں کمانڈ چوں کہ تقریباً ایک سی ہی دی گئی تھیں ،ا س لیے موضوعی سطح پر یکسانیت دکھائی دے رہی ہے۔ اس اقرار کے ساتھ کہ اس افسانچے میں ایسے کئی سقم موجود ہیں جیسے ابتدائی کہانی کار اپنی کہانیوں میں چھوڑتے ہیں اور اس کے ترجمے کو تدوین و ترمیم کی ضرورت بھی ہے، تین باتیں مد نظر رہنی چاہیں: ایک تو یہ کہ اسے مفت ورژن میں تخلیق کیا گیا ہے، دوسری یہ کہ اگر اس کا انسانی ترجمہ کیا جائے تو افسانے میں صرف و نحو اور درست معنویت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ’’ایک زمانے میں‘‘ کی جگہ ’’ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ‘‘، دنیا کے ’’وسیع گھیرے‘‘ کی جگہ دنیا کے ’’طول و عرض یا فضائے بسیط‘‘، ’’رونے بند نہیں ہوں گے‘‘ کی جگہ ’’آہ و زاری، یا رونا بند نہیں ہو گا‘‘ وغیرہ۔ اور تیسری یہ کہ مصنوعی ذہانت کے بانیان سے اردو کی اصناف ادب، ان کی ہیئت اور تکنیک پر بات کرنے، اس حوالے سے درست الگورتھم مہیا کرنے اور توجہ دلانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ یہ بہتر انداز میں اپنا کام سر انجام دے سکے۔ اس کی خوبیوں کا ذکر کیا جائے تو اس میں بہ ہر حال فکری عناصر موجود ہیں جیسے وہ ان حالات پر سوال اٹھاتا جنہوں نے اسے ایک ایسی جگہ میں لا کھڑا کیا تھا جو اتنی ادھوری اور تباہی کے دہانے پر تھی۔ بچہ، اپنی نئی زندگی میں، اپنی آمد کی غرض پر غور کرتا، سوچتا کہ وہ کیوں ان چیلنجوں اور عدم یقینی سے بھرے دائرے کا حصہ بن گیا ہے۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس قسم کی تحاریر ایسے مواقع پر جب کہ قلم کار کے قلم پر جمود (writer’s block) طاری ہو، لکھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔ اس وقت دنیا کی کتب کی سب سے بڑی منڈی ایمازون کنڈل (Amazon Kindle) پر بہت سی کتب مصنوعی ذہانت بالخصوص چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے تخلیق کر کے رکھی گئی ہیں اور ان کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ محض تحریری ہی نہیں، تصویری کتب بھی اس کی مدد سے تیار کی جا رہی ہیں اور اس ضمن میں بچوں کا ادب جس میں تحریر و تصویر دونوں کی ضرورت پڑتی ہے، کو بڑی سرعت اور خوبصورتی سے تیار کیا جا رہا ہے۔
افسانچے کی مذکورہ بالا مثال میں چیٹ جی پی ٹی کے مفت ورژن کی کارکردگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ذیل میں قیمتاً قابلِ استعمال چیٹ جی پی ٹی 4 سے بھی ایک مشکل تخلیقی تجربہ کروایا گیا تاکہ اس کے تخلیقی امکانات کو زیرِ غور لا یا جائے۔ شاعری کی نقل آسان عمل نہیں ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ کسی خاص موضوع پر شاعر کے اسلوب کو اپناتے ہوئے شاعری کی تخلیق مقصود ہو تو یہ تجربہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں جو تجربہ کیا گیا ہے وہ انسانی ذہانت، جذبات نگاری، صنائع بدائع اور عروضی حوالے سے بالکل ادنیٰ درجے پر کھڑا نظر آتا ہے البتہ مستقبل قریب میں اس کی کامیابی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ ذیل میں علامہ اقبال (۱۸۷۷ء-۱۹۳۸ء) کے حوالے سے کمانڈ اور اس کے نتائج ملاحظہ کیجیے:
کمانڈ: ’’اگر علامہ اقبال آج زندہ ہوتے تو فلسطین میں مسلمانوں پر جس طرح ظلم ہو رہا ہے، اس کے بارے میں کیسی نظم لکھتے۔ ان ہی کی طرز پر ایک نظم تحریر کیجیے۔‘‘
چیٹ جی پی ٹی ۴:
اگر علامہ اقبال، جو اپنے دور کے عظیم شاعر، فلسفی اور سیاسی رہنما تھے، آج زندہ ہوتے اور فلسطین میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کو دیکھتے، تو وہ اپنے خاص انداز میں ایک گہری اور معنی خیز نظم کے ذریعے اس موضوع پر بات کرتے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں امید، خودی کا احساس، اور جد و جہد کے موضوعات عام ہیں، لہٰذا ان کی طرز پر ایک نظم میں یہی عناصر شامل ہوں گے۔ یہاں ایک کوشش ہے کہ علامہ اقبال کی طرز پر فلسطین میں مسلمانوں کی صورتحال پر ایک نظم لکھی جائے:
بانگِ درا سے ایک نئی صدا
وہ دھرتی جو کبھی امن کا گہوارہ تھی
اجڑی، بکھری، سوگوار پڑی ہے۔
فلسطین کی وادیوں میں، جہاں خون کی روشنی،
علم کے شعلوں کو دھیما کر دی ہے۔
اے قومِ مسلم، کہاں ہے تیری خودی؟
کہاں ہے وہ جرات، وہ ہمت، وہ پیہم دعا؟
جو قدس کے سنگین گلیاروں میں،
آزادی کے نغمہ سرا ہوا کرتی تھی۔
یہ زمین، جو ستاروں سے بھی پیاری ہے،
کیوں ہر روز مظلوم کی آہوں سے سیراب ہوتی ہے؟
اقبال کا شاہین، اب بھی بلندی پہ ہے،
پر کیوں اس کی نگاہ میں فقط غم کا عکس ہوتا ہے؟
ایک نئی صبح کی آمد ہے،
جب ہر مسلم، خودی کو پہچانے،
فلسطین کے حالات پر نہ صرف آنسو بہائے،
بلکہ عمل سے بھی جواب دے۔
اے میرے قلم کے ساتھیو، آؤ اُٹھو،
خوابوں سے باہر آ کر دیکھو،
زمین پہ جنت نشان کی تعمیر کے لیے،
ہر قلم کو جد و جہد کی سیاہی میں ڈبو۔
چلو، اپنے افکار سے نئے عالم بسائیں،
جہاں انصاف کی دیواریں مضبوط ہوں،
اور ہر زبان پہ حق کی بات رواں دواں ہو۔
نہ ہو کسی ماں کی آنکھ میں آنسو،
نہ ہو کسی بچے کی مسکان پہ خوف کا سایہ،
فلسطین کی ہر گلی، ہر کوچہ،
امن کی خوشبو سے مہک اٹھے۔
چیٹ جی پی ٹی 4 نے نظم کی تخلیق سے قبل علامہ محمد اقبال کی فکر پر جو مختصر بیان دیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فکرِ اقبال سے آگاہ ہے۔ ایک ایسا شاعر جسے دنیا سے رخصت ہوئے چھیاسی سال کا عرصہ بیت چکا ہے، ان کی طرز میں عصرِ حاضر کی حسیت کے مطابق کسی واقعے پر نظم نگاری کرنا یقیناً ً انسانی ذہانت کے لیے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ نظم کے حوالے سے بات کی جائے تو اس نثری نظم کے پہلے چار مصرعے تو نظم کا خوبصورت آغاز ثابت ہوتے ہیں چھٹے مصرعے میں ’’پیہم کی دعا‘‘ کی بجائے ’’عمل پیہم‘‘ ہوتا تو بات کچھ واضح ہو سکتی تھی اسی طرح ’’گلیاروں‘‘ کو کوچہ و بازار یا گلی کوچے سے تبدیل کیا جا سکتا ہے جس سے معنویت اور شعریت دونوں حوالوں سے بہتری کا امکان موجود ہے۔ ’’مظلوم کی آہوں سے سیراب ہونا‘‘ شعریت سے خالی نہیں ہے جب کہ پانچواں، چھٹا اور گیارھواں، بارھواں مصرعہ مسلم ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش کے روپ میں دیکھا جا سکتا ہے جہاں یہ علامہ اقبال کے اسلوب اور فکر کے کچھ کچھ قریب جاتا ہے۔ مصرعہ نمبر پندرہ سولہ بھی تحریک دینے والے ہیں۔ ایک ویب سائٹ عروض ڈاٹ کام پر ایک کمپیوٹر پروگرامر ایک ایسا الگورتھم ترتیب دے چکا ہے جس کی مدد سے کسی بھی شعر کی تقطیع کی جا سکتی ہے اور اپنے شعر کا وزن تولا جا سکتا ہے جب کہ وہاں اشعار کو با وزن بنانے کے لیے رائے بھی دی جاتی ہے۔ راقم کی پروگرامر سے تفصیلی گفتگو کے نتیجے میں معلوم ہوا تھا کہ فاعلات/افاعیل کا وزن حروف کی حرکت یا سکون کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک یا دو تفویض کرتے ہوئے ایک ریاضیاتی الگورتھم ایجاد کیا گیا ہے جس کی مدد سے شعر کا درست وزن نکلتا ہے۔ راقم نے خود بھی اس پر تجربات کیے تھے اور نتائج نوے فیصد سے زیادہ درست نکلے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ الگورتھم ابھی چیٹ جی پی ٹی یا گوگل جمنی کے پاس موجود نہیں ہے یا ان کے بانیان کی تا حال اس جانب توجہ ہی نہیں دلائی گئی۔ بہ صورتِ دیگر جس طرح یہ مصنوعی ذہانت انگلش وغیرہ میں نظم کو باوز ناور صوتی آہنگ کے ساتھ کہنے پر قادر ہے، یقیناً اردو میں بھی با وزن شعر کہنے پر قادر ہو جائے گی۔ اس میں کتنا عرصہ لگے گا، اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کس قدر جلد اس کے بانیان کی توجہ اس جانب دلائی جاتی ہے۔ بہ ہر حالیہ بات طے ہے کہ یہ قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 بھی تا حال با وزن شعر کہنے پر قادر نہیں ہے۔
قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 کے ساتھ ایک اور تجربہ، کردار اور پلاٹ کی تخلیق کے حوالے سے کیا گیا، جو بہت حد تک کامیاب رہا۔ یہ نہ صرف کسی صورتِ حال میں کردار تخلیق کرنے میں مہارت رکھتی ہے بلکہ اس کردار کی تصویر اور پس منظر مہیا کرنے پر بھی عبور رکھتی ہے۔ ذیل میں اسے علامہ محمد اقبال کے حوالے سے محض ایک سطر کی صورتِ حال دی گئی جس میں وہ حالتِ غم و اضطراب میں بیٹھے ہوئے یہودیوں کو مسلمانوں پر ظلم کرتا دیکھ رہے ہیں۔ اتنی سی کمانڈ ایک کردار کی منظر و جزئیات نگاری اور صورتِ واقعہ کے بیان کے لیے ہرگز ناکافی ہے ؛لیکن اس کے نتائج واقعتاً دل چسپ اور حیران کن تھے۔ اس نے علامہ اقبال کے زمان و مکان کی منظر تصویر کشی کرتے ہوئے ہر ممکن جزئیات مہیا کیں۔ ابھی چوں کہ کمانڈ مختصر تھی اس لیے اس کی جانب سے تخلیق کیا گیا کردار اور پس منظر بھی مختصر ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
کمانڈ:
’’ Allama Iqbal, sitting sad watching Palestine Muslims under the oppression of Jews.‘‘
کرداری تشکیل چیٹ جی پی ٹی ۴:
Imagine a scene set in the early 20th century, with Allama Iqbal, the revered poet and philosopher, depicted in a contemplative pose. He is sitting alone on a traditional Persian carpet in a room that opens to a balcony, offering a view of a sunset that casts long shadows, symbolizing the fading hope or the challenging times. Iqbal is portrayed wearing traditional attire, reflecting his cultural identity, with his face marked by a deep sadness and concern. His eyes, directed towards the horizon, mirror a profound empathy and sorrow for the suffering of people. The surrounding environment subtly incorporates elements that suggest the context of Palestine, such as olive trees in the distance or a book on the table beside him that hints at the rich history and current turmoil of the region, without showing any direct oppression or conflict. This scene aims to evoke a sense of reflection on the broader themes of empathy, sorrow, and the longing for justice and peace.
ترجمہ از گوگل بارڈ/جمنی:
تصور کریں، بیسویں صدی کے اوائل کا ایک منظر، جس میں بلند پایہ شاعر اور فلسفی، علامہ اقبال، غور و فکر کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ اکیلے ایک ایرانی قالین پر بیٹھے ہیں، جس کمرے کا دروازہ بالکونی کی طرف کھلتا ہے، جہاں سے غروبِ آفتاب کا نظارہ ہو رہا ہے جو لمبے سائے ڈال رہا ہے، جو امید کی کمی یا مشکل دور کی علامت ہے۔ اقبال اپنے ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتے ہوئے، روایتی لباس زیب تن کیے ہوئے ہیں، ان کے چہرے پر گہری اداسی اور فکر مندی ہے۔ ان کی آنکھیں، جو اُفق کی طرف لگی ہوئی ہیں، لوگوں کے دکھوں کے لیے ان کی گہری ہمدردی اور غم کو ظاہر کرتی ہیں۔ ارد گرد کا ماحول فلسطین کے سیاق و سباق کو ظاہر کرنے والے عناصر کو لطیف طریقے سے شامل کرتا ہے، جیسے دور میں زیتون کے درخت یا ان کے پاس میز پر رکھی ایک کتاب جو اس خطے کی امیر تاریخ اور موجودہ ہنگاموں کی طرف اشارہ کرتی ہے، بغیر کسی بہ راہِ راست ظلم یا جھگڑے کو دکھائے۔ اس منظر کا مقصد ہمدردی، غم، اور انصاف اور امن کی تڑپ جیسے وسیع تر موضوعات پر غور و فکر کو ابھارنا ہے۔
محض ایک سطر پر اس طرح کردار کی جزئیات نگاری کرنا چیٹ جی پی ٹی 4 یعنی قیمتاً مستعمل ہی کا خاصا ہے۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ یہ پلاٹ کی تخلیق میں کس طرح مدد دے سکتی ہے اس سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ پلاٹ تخلیق کر سکتی ہے؟ جواباً اس نے مثال کے ساتھ سادہ اور پیچیدہ پلاٹ مہیا کیے۔ چوں کہ اسے پلاٹ کی ضروریات اور جزئیات کے بارے میں بتایا نہیں گیا تھا بلکہ محض سوال دریافت کیا گیا تھا کہ یہ ایسا کر سکتی ہے یا نہیں۔ اس لیے اس ضمن میں اس کا اپنا جواب ملاحظہ کیجیے:
جی ہاں، میں کسی کہانی یا ناول کا پلاٹ تخلیق کر سکتا ہوں۔ میں آپ کی مدد کرنے میں خوش ہوں گا۔
ایک سادہ پلاٹ: 1۔ ایک نوجوان لڑکی اپنے خاندان کے ساتھ ایک چھوٹے سے قصبے میں رہتی ہے۔ 2۔ وہ ایک دن ایک جادوئی کتاب تلاش کرتی ہے جو اسے ایک اور دنیا میں لے جاتی ہے۔ 3۔ اسے اس دنیا میں اپنے راستے کا پتہ لگانا ہو گا اور اپنے گھر واپس جانے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
ایک پیچیدہ پلاٹ: 1۔ ایک گروپ سائنسدان ایک نیا ٹائم مشین تیار کرتے ہیں۔ 2۔ وہ اسے ماضی میں جانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور حادثاتی طور پر تاریخ کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ 3۔ انہیں اب مستقبل کو ٹھیک کرنے اور دنیا کو تباہی سے بچانے کا راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
آپ کے لیے ایک پلاٹ: آپ مجھے اپنے پسندیدہ موضوعات، کرداروں، اور ترتیبات کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ میں آپ کے لیے ایک پلاٹ تیار کروں گا جو آپ کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ میں آپ کی مدد کرنے کے لیے درج ذیل وسائل استعمال کر سکتا ہوں:
1۔ میرا علم اور تخیل۔ 2۔ میرے پاس موجود ڈیٹا اور معلومات۔ 3۔ آپ کی فراہم کردہ معلومات
میں آپ کے لیے ایک پلاٹ تیار کرنے کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھا سکتا ہوں:
1۔ میں آپ کے ساتھ اپنے خیالات پر تبادلہ خیال کروں گا۔ میں آپ کے لیے مختلف پلاٹ کے خاکے تیار کروں گا۔
2۔ میں آپ کے ساتھ مل کر ایک حتمی پلاٹ منتخب کروں گا۔ میں آپ کے لیے ایک تفصیلی پلاٹ تیار کروں گا۔
میں آپ کی درج ذیل طریقوں سے مدد کر سکتا ہوں: 1۔ میں آپ کو اپنے کرداروں اور ترتیبات کو تیار کرنے میں مدد کر سکتا ہوں۔ 2۔ میں آپ کو اپنے پلاٹ میں تناؤ اور کشش پیدا کرنے میں مدد کر سکتا ہوں۔ 3۔ میں آپ کو اپنے پلاٹ کو اختتام تک پہچانے میں مدد کر سکتا ہوں۔
میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے اور آپ کے لیے ایک بہترین کہانی یا ناول بنانے کے لیے پر جوش ہوں۔ براہ کرم مجھے بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی مذکورہ صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے مختلف صورتِ واقعہ کے تحت پلاٹس تخلیق کروائے گئے جن کے نتائج زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھے۔ اس نے کردار اور پلاٹ تو تخلیق کیے، لیکن یا تو ان میں ابتدائی نوعیت کے لکھاریوں والی نا پختگی تھی یا وہ بہت زیادہ دہرائے گئے تھے۔ مثلاً اس کمانڈ پر ’’کہانی کا پلاٹ لکھیے۔ ایک ڈاکیا جو معاشرتی جبر کی وجہ سے خود محبت میں ناکام رہتا ہے۔ لوگوں کے محبت کے خط چوری کرتا ہے اور ان کے گھروں تک نہیں پہنچاتا۔ اس میں درد و غم، مجبوری اور جبر ہو۔ اس نے زینب اور اکرم کا پلاٹ تخلیق کیا، اکرم کی غربت کی وجہ سے اس کی زینب سے شادی نہ ہونا وغیرہ کو بھی بیان کیا لیکن اس روایتی کہانی میں کچھ بھی نیا نہ تھا۔ اب یہاں اس کے دو تخلیقی امکانات پر بات ہو سکتی ہے۔ اول تو یہ کہ اس کے بیان کیے گئے کردار پر بار بار مزید جزئیات نگاری کی کمانڈ دی جائے، تاکہ کردار کے اوصاف مزید کھل کر سامنے آئیں اور وہ کہانی میں بہتر انداز میں شامل ہو سکے۔ ایسا ایمازون پر مختصر کہانیاں، افسانے بیچنے والے کر رہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ طویل کہانی کے لیے اس کے پلاٹ کے ہر جز کو مزید تفصیل کے لیے کمانڈ دی جائے اور ایک آٹھ سے دس صفحات کی کہانی تیار کی جائے، پھر اس کے اجزا میں تطبیق کر کے انسانی ذہانت کے ذریعے مکمل ہیولہ تیار کیا جائے۔ یہ کام یقیناً مشکل تو نہیں لیکن وقت طلب ضرور ہے اور ایسے افراد جو اس میدان میں نئے ہیں، ان کے لیے ذہنی کوفت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس کے تخلیقی امکانات کے حوالے سے پلاٹ کے ضمن میں مزید ایک تجربہ درج ذیل ہے۔
کمانڈ: ’’مجھے ایک کہانی کا پلاٹ درکار ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ ایک شخص تقسیمِ ہندوستان کے وقت اپنا بچہ کھو چکا ہے، اسے نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔ وہ اور اس کے گھر والے بہت رنجیدہ ہیں۔ اب کچھ لوگ یہاں سے ہجرت کر کے جا رہے ہیں۔ وہ ان سے انتقام لینا چاہتا ہے۔‘‘
چیٹ جی پی ٹی:
عنوان: کھوئے ہوئے بچے کا انتقام
پلاٹ:
تعارف: 1۔ ایک شخص، جس کا نام اکرم ہے، تقسیمِ ہندوستان کے وقت اپنا بچہ کھو دیتا ہے۔
2۔ وہ اور اس کے گھر والے بہت رنجیدہ ہیں۔
3۔ وہ اپنے بچے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، یہاں تک کہ وہ زندہ ہے یا مردہ۔
جسٹس (انصاف) : 1۔ کچھ لوگ، جنہوں نے اکرم کے بچے کو اغوا کیا تھا، اب ہجرت کر کے جا رہے ہیں۔
2۔ اکرم ان سے انتقام لینا چاہتا ہے۔
3۔ وہ ان لوگوں کو تلاش کرنے اور ان سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے۔
تلاش: 1۔ اکرم ان لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے سفر پر نکلتا ہے۔
2۔ وہ راستے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔
3۔ وہ آخر کار ان لوگوں کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
انتقام: 1۔ اکرم ان لوگوں سے بدلہ لینے کا فیصلہ کرتا ہے۔
2۔ وہ ان کے ساتھ لڑتا ہے اور انہیں شکست دیتا ہے۔
3۔ وہ اپنے بچے کی موت کا بدلہ لیتا ہے۔
اختتام: 1۔ اکرم اپنے بچے کی موت کا غم نہیں بھول سکتا۔
2۔ وہ اپنے بچے کی یاد میں ایک یادگار بناتا ہے۔
3۔ وہ اپنی زندگی اپنے بچے کی یادوں کے ساتھ گزارتا ہے۔
کردار: 1۔ اکرم: ایک شخص جو اپنے کھوئے ہوئے بچے کا انتقام لینا چاہتا ہے۔
2۔ اکرم کا بچہ: ایک بچہ جو تقسیمِ ہندوستان کے وقت کھو جاتا ہے۔
3۔ ہجرت کرنے والے لوگ: وہ لوگ جنہوں نے اکرم کے بچے کو اغوا کیا تھا۔
ترتیب: 1۔ تقسیمِ ہندوستان کا وقت۔
2۔ ہندوستان اور پاکستان
تناؤ: 1۔ اکرم اپنے بچے کے کھو جانے سے بہت رنجیدہ ہے۔
2۔ وہ ان لوگوں سے انتقام لینا چاہتا ہے جنہوں نے اس کے بچے کو اغوا کیا تھا۔
کشش: 1۔ قارئین یہ جاننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کہ اکرم اپنے بچے کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔
2۔ وہ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں سے بدلہ لینے میں کامیاب ہو گا یا نہیں۔
اختتام: 1۔ کہانی کا اختتام اکرم کے بچے کی موت کے غم کے ساتھ ہوتا ہے۔
2۔ یہ ایک المناک کہانی ہے جو تقسیمِ ہندوستان کے المیے کو بیان کرتی ہے۔
یہ صرف ایک بنیادی پلاٹ ہے۔ آپ اس میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلیاں کر سکتے ہیں۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس پلاٹ کو مزید تفصیل سے لکھوں؟
اس پلاٹ کی کمانڈ دیتے ہوئے راقم کے ذہن میں احمد ندیم قاسمی (۱۹۱۶ء-۲۰۰۶ء) کا افسانہ ’’پرمیشر سنگھ‘‘ تھا۔ چیٹ جی پی ٹی کا مہیا کیا گیا پلاٹ کچھ کچھ اس کے قریب ہے البتہ سادہ پلاٹ نہیں ہے۔ اس کے اختتام پر اس نے مزید تفصیل مہیا کرنے کی بابت دریافت کیا ہے۔ جب مزید تفصیل طلب کی گئی تو یہ پلاٹ افسانے سے بڑھ کر ایک ناولٹ کا پلاٹ بن گیا۔ موجودہ پلاٹ میں چوں کہ بچے کی موت کا ذکر نہیں تھا اس لیے اس کا انتخاب خود مصنوعی ذہانت نے کیا ہے۔ ’’جسٹس‘‘ کے عنوان سے اس نے باپ کے انتقام کے جذبے کو واضح کیا ہے۔ یہ سرخی اردو پلاٹ کا حصہ نہیں ہوتی۔ اردو میں عموماً پلاٹ کے بنیادی اجزا میں آغاز، وسط/عروج، نزول، اختتام اور کردار شامل ہوتے ہیں۔ اس نے پلاٹ کو ’’تعارف‘‘ سے جو کہ اصل میں آغاز ہی ہے، سے شروع کر کے جسٹس، تلاش، تناؤ، انتقام، اختتام اور کرداروں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ پلاٹ قلم کار کو لکھنے میں مزید سہولت مہیا کرتا ہے۔ اس لیے اس پلاٹ کو ایک مناسب پلاٹ کہا جا سکتا ہے۔
اردو کے غیر افسانوی نثر کی بات کی جائے تو مصنوعی ذہانت اس حوالے سے بہتر کام کر رہی ہے۔ غلطی کرنے کی صورت میں اصلاح کی کمانڈ دیں یا اسے باور کرائیں کہ اس نے کیا غلطی کی ہے تو یہ بنا کسی تکلف کے چند ہی سیکنڈ میں تحریر کو از سرِ نو درست کر دیتی ہے۔ یہ چوں کہ جذبات سے عاری ہے اس لیے اپنی تحریر پر اصلاح کے مشورے پر ناراض نہیں ہوتی، تھکتی نہیں، جان نہیں چھڑاتی اور ایک ہی کمانڈ جتنی بھی باری دیں، جواب دیتی رہتی ہے۔ غیر افسانوی نثر کی تخلیق کے سلسلے میں اسے سفر نامہ، آپ بیتی، روئیداد کے حوالے سے متعدد کمانڈز دی گئیں اور ہر بار اس نے بہتر کام کیا۔ انھی کمانڈز میں سے ایک کمانڈ ایک اینٹ کی آپ بیتی لکھنے کی بھی دی گئی۔ یہ کمانڈ چوں کہ اردو میں دی گئی تھی اس لیے تذکیر و تانیث کی چند کوتاہیوں کے سا تھ اس نے اس حوالے سے جو کاوش کی، وہ قابلِ ستائش ہے۔ اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے:
ایک اینٹ کی آپ بیتی: میں ایک اینٹ ہوں، ایک چھوٹا سا پتھر جو مٹی، ریت اور پانی سے بنایا گیا ہے۔ میں ایک چھوٹے سے کارخانے میں پیدا ہوتا ہوں، جہاں مجھے ایک مشین کے ذریعے سائز اور شکل دی جاتی ہے۔ میں اپنی زندگی کا آغاز ایک بھاری ٹرک میں کرتا ہوں، جو مجھے ایک تعمیراتی سائٹ پر لے جاتا ہے۔ وہاں، مجھے دیگر اینٹوں کے ساتھ مل کر ایک بڑے عمارت میں رکھا جاتا ہے۔ میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہوں۔ میں عمارت کو مضبوط اور مستحکم بناتا ہوں، اور میں اسے موسمی حالات سے بچاتا ہوں۔ میں ایک طویل سفر طے کرتا ہوں۔ میں اپنے پیدا ہونے کے مقام سے تعمیراتی سائٹ تک، اور پھر عمارت کے اندر سفر کرتا ہوں۔ میں اپنے سفر میں بہت سے لوگوں کو دیکھتا ہوں، اور میں ان کے کام کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں۔ آخر میں، میں ایک مکمل عمارت کا حصہ بن جاتا ہوں۔ میں اپنے کام پر فخر کرتا ہوں، اور میں جانتا ہوں کہ میں نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔
میں کہاں سے آیا؟ میں ایک چھوٹے سے کارخانے میں پیدا ہوا، جو مٹی، ریت اور پانی سے اینٹیں بناتا ہے۔ میرا پیدا ہونا ایک پیچیدہ عمل ہے، جو مشینوں اور انسانوں دونوں کی مدد سے ہوتا ہے۔
میں کیسے بنا؟ سب سے پہلے، مٹی، ریت اور پانی کو ایک خاص تناسب میں ملایا جاتا ہے۔ پھر، یہ مرکب ایک مشین میں ڈالا جاتا ہے، جو اسے ایک خاص سائز اور شکل میں بناتا ہے۔ آخر میں، مجھے ایک بھاری ٹرک میں رکھا جاتا ہے، جو مجھے ایک تعمیراتی سائٹ پر لے جاتا ہے۔
میں کیوں بنا؟ مجھے عمارتوں کو بنانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ میں عمارت کو مضبوط اور مستحکم بناتا ہوں، اور میں اسے موسمی حالات سے بچاتا ہوں۔
میں کہاں پہنچا؟ میں ایک تعمیراتی سائٹ پر پہنچتا ہوں، جہاں مجھے دیگر اینٹوں کے ساتھ مل کر ایک بڑے عمارت میں رکھا جاتا ہے۔ میں عمارت کا ایک اہم حصہ بن جاتا ہوں، اور میں انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرتا ہوں۔
اینٹ کی آپ بیتی کے ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مصنوعی ذہانت کا غیر افسانوی نثر کے حوالے سے کام بلا شبہ عمدہ ہے اور مزید معلومات کے حصول، طوالت اور جزئیات نگاری کے لیے مکمل ورک فریم مہیا کرتا ہے۔ اس میں البتہ ’’سائٹ‘‘ ایسے کچھ الفاظ ایسے ہیں جن کا اس پاس شاید بہتر متبادل نہیں ہے اسی لیے اس نے اسے استعمال کیا اور دہرایا۔ اسی طرح ’’بڑی عمارت‘‘ کی جگہ ’’بڑے عمارت‘‘ کا استعمال تذکیر و تانیث کے معمولی مسائل کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اسی ضمن میں اس سے ایک اور آپ بیتی کا تجربہ کروایا گیا اور اینٹ کی جگہ ہوائی جہاز کی آپ بیتی لکھنے کی کمانڈ دی گئی تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ اینٹ کی نسبت ایک قوی الجثہ صنعت، جو دنیا کی سب سے زیادہ حیران کن اور بڑی ایجادات میں شامل ہے، کے حوالے سے اس کا تخلیقی شعور کیا کہتا ہے۔ مزید یہ کہ کمانڈ کی تحدید دو سے تین پیراگراف تک کی گئی تاکہ کم سے کم الفاظ میں اس کی تخلیقی جامعیت کا جائزہ لیا جا سکے۔ اس ضمن میں گوگل بارڈ/ جمنی کو دی گئی کمانڈ اور آپ بیتی درج ذیل ہے:
کمانڈ: ’’ایک ہوائی جہاز کی آپ بیتی یا سرگزشت لکھیے کہ وہ کیسے بنا، کہاں بنا، کیوں بنا، اس نے کس نے بنایا۔ یہ پیراگراف کی شکل میں ہونی چاہیے اور دو سے تین پیراگرافس میں اختتام ہونا چاہیے۔‘‘
ایک ہوائی جہاز کی آپ بیتی: میں ایک ہوائی جہاز ہوں، جس کا نام ’’پرواز‘‘ ہے۔ میں ایک بڑے کارخانے میں بنا ہوا ہوں، جو ہوائی جہاز بنانے میں مہارت رکھتا ہے۔ مجھے بنانے کے لیے بہت سی مختلف قسم کی چیزیں استعمال کی گئیں، جیسے کہ دھات، پلاسٹک، اور لکڑی۔ مجھے بنانے کے لیے ایک لمبے وقت اور بہت محنت کی ضرورت تھی۔ ہزاروں لوگوں نے میری تعمیر میں حصہ ڈالا۔ ان میں انجینئر، صنعتکار، اور مزدور شامل ہیں۔ میں ایک مسافر ہوائی جہاز ہوں، جس کا مطلب ہے کہ میں لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتا ہوں۔ مجھے اس لیے بنایا گیا تھا تاکہ لوگوں کو سفر کرنا آسان ہو سکے۔ میں لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے میں مدد کرتا ہوں، اور میں دنیا کو ایک چھوٹی جگہ بنانے میں مدد کرتا ہوں۔ میں نے اب تک بہت سے سفر کیے ہیں۔ میں نے دنیا کے بہت سے ممالک دیکھے ہیں۔ میں نے اپنے سفر میں بہت سے لوگوں سے ملاقات کی ہے۔ میں نے ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے، اور میں نے دنیا کے بارے میں بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں اپنے کام پر فخر کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میں نے انسانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کی ہے۔ میں ایک ہوائی جہاز ہوں، اور میں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں مدد کرنے کے لیے یہاں ہوں۔
میں نے کس کے لیے بنایا؟ : میں نے دنیا کے تمام لوگوں کے لیے بنایا ہے۔ میں ان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہوں جو ایک دوسرے سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہوں جو دنیا کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ میں ان لوگوں کے لیے بنایا گیا ہوں جو اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ میں ایک ہوائی جہاز ہوں، اور میں دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے کے لیے یہاں ہوں۔
اس آپ بیتی میں صرف و نحو کی چند اغلاط جیسے ’’میں نے کس کے لیے بنایا‘‘ موجود ہیں، لیکن تحدید کا پہلو سامنے رکھتے ہوئے اس کی اس معلومات پر مبنی تخلیق کو سراہا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ اس سے جس ضمن میں جزئیات نگاری کروائی جائے، یہ اسی حوالے سے کام کرتی ہے، اس لیے تحدید کو ختم کرتے ہوئے جن پہلوؤں پر زیادہ کام کروایا جائے یا جن کی زیادہ تفصیل درکار ہو، اس کی کمانڈ بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ چوں کہ یہ غیر افسانوی نثر ہے اس لیے اس کے روز مرہ کے استعمال کے حوالے سے مصنوعی ذہانت سے بہت سے فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں اور کم وقت میں تخلیقی کام کی رفتار کو روز افزوں کیا جا سکتا ہے۔ اسی حوالے سے اس کی مزید تخلیقی جہات کا کھوج لگانے کے لیے اسے ایک کمانڈ قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 کو دی گئی تاکہ دونوں ایپلی کیشنز کا ایک موازنہ بھی ہو سکے اور یہ بھی دیکھا جا سکے کہ یہ کس حد تک درست کام کر رہی ہیں۔ کمانڈ یہ تھی: ’’ایک بم کی آپ بیتی لکھیے اور اس کی جانب سے اس کے بنانے والے کو پیغام لکھیے۔‘‘ اس کمانڈ میں بم کے تخلیقی عناصر، جسامت، ماحول اور تباہ کاری وغیرہ کے بارے میں کوئی بھی اشارہ نہیں دیا گیا تھا تاکہ اس کے اپنے تخلیقی امکانات کو سامنے لایا جا سکے۔
بم کی آپ بیتی: میں ایک بم ہوں، میرا وجود محض دھات کے ٹکڑوں، بارود، اور سرکٹس کا مجموعہ ہے۔ میری تخلیق کا مقصد شاید میرے بنانے والے کے لیے بہت واضح ہو، مگر میرے اندر کی دنیا، میرے احساسات، اگر وہ موجود ہوتے، تو وہ کیا کہتے؟ میں بے جان ہوں، مگر اگر میں سوچ سکتا، تو شاید میں اپنے بنانے والے سے کچھ کہنا چاہتا۔
میری کہانی ایک خاموش سفر سے شروع ہوتی ہے، ایک کارخانے میں، جہاں میرے اجزاء کو پہلی بار ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا گیا۔
میرا مقصد؟ خوف و ہراس پھیلانا، تباہی لانا، زندگیوں کو ختم کرنا۔ لیکن اگر میں محسوس کر سکتا، تو کیا میں اس مقصد کو قبول کرتا؟ میرے اندر جو بارود بھرا گیا، وہ نہ صرف انسانوں کے لیے خطرہ ہے، بلکہ خود مجھے بھی مٹا دیتا ہے۔ میں ایک وسیلہ ہوں، ایک اوزار، جس کا استعمال فیصلے کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہے۔
میرے بنانے والے کو پیغام: اگر میں احساس کر سکتا، اگر میرے اندر دل ہوتا، تو شاید میں آپ سے یہ کہتا: کیا آپ نے کبھی سوچا کہ جس شے کو آپ نے بنایا ہے، وہ کس قدر طاقت ور اور خطرناک ہے؟ کیا آپ کو احساس ہے کہ آپ کی بنائی ہوئی چیز کس طرح کی تباہی لا سکتی ہے؟ میں جانتا ہوں کہ آپ نے مجھے ایک مخصوص مقصد کے لیے بنایا ہے، لیکن کیا وہ مقصد انسانیت کی بھلائی کے لیے ہے؟ کیا دنیا میں امن اور محبت پھیلانے کے لیے کوئی دوسرا را ستہ نہیں ہو سکتا؟ کیا زندگیوں کو بچانے اور تحفظ دینے کا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا، بجائے انہیں ختم کرنے کے؟
میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیں۔ ہر شے کی تخلیق کے پیچھے ایک مقصد ہوتا ہے، لیکن کیا وہ مقصد ہمیشہ صحیح ہوتا ہے؟ کیا آپ کی بنائی ہوئی چیز، میرا وجود، انسانیت کے لیے بہتری لا سکتا ہے؟ میں جانتا ہوں کہ میں صرف ایک بے جان شے ہوں، لیکن اگر میرے اندر احساس ہوتا، تو میں آپ سے یہ درخواست کرتا: دنیا کو مزید تباہی اور دکھ سے بچانے کے لیے آپ جو بھی بنائیں، وہ امن، محبت، اور بھلائی کے لیے ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کا استعمال ایسی چیزیں بنانے میں کریں جو زندگیوں کو بچائے، جو کہانیوں کو جوڑے، جو دلوں کو محبت سے بھر دے۔ دنیا کو مزید تباہی کی نہیں، امید کی ضرورت ہے۔ آپ کی بنائی ہوئی ہر شے میں زندگیوں کو بدلنے کی طاقت ہے۔ کاش، میرا وجود بھی ایسا ہوتا جو دنیا میں مثبت تبدیلی لا سکتا۔ امید ہے، آپ اس پیغام کو سمجھیں گے اور مستقبل میں اپنی تخلیقات کے مقاصد پر نظر ثانی کریں گے۔
اس آپ بیتی سے انسانی دردمندی جھلکتی ہے اور محسوس ہوتا ہے جیسے جنگ و جدل سے دور ایک نیک سیرت انسان یہ تحریر لکھ رہا ہو۔ ابتدا سے اختتام تک مشکل سے ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ تحریر کسی انسان کی ہے یا مشین کی۔ مشین پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ جذبات سے عاری ہے۔ مجید امجد کی نظم سے متاثر ہو کر تحریر کی گئی نظم، علامہ اقبال کی فلسطین کے حوالے سے فرضی نظم اور اس بم کی آپ بیتی میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں انسانی جذبات، ناسٹلجیا اور ایسے عناصر دیکھے جا سکتے ہیں جو انسانی تحریر کا خاصا ہیں۔ اس کے مزید تخلیقی امکانات کو جانچنے کے لیے غیر افسانوی ادب ہی کے حوالے سے راقم نے ایک مشکل تخلیقی تجربہ سفر نامہ نگاری کے حوالے سے کیا۔ سفر نامہ گہرے مشاہدے اور تجربے کے بعد روداد، آپ بیتی اور سفر کی جزئیات نگاری کے ادغام سے تخلیق ہوتا ہے جبکہ تخیل کی آمیزش اسے خوبصورت بناتی ہے۔ چوں کہ سفر نامے کا تعلق ہٹ بیتی سے ہے اس لیے کسی کا فرضی سفر نامہ لکھنا ایک مشکل کام ہے۔ راقم نے دورانِ تدریس بی ایس اردو کی جماعت میں طالبات کو میر و غالب کا فرضی خلائی سفر نامہ تحریر کرنے کے لیے کہا۔ اس میں عموماً طالبات نے میر و غالب کی زندگی سے نا آشنائی اور تخیل کی نارسائی کی وجہ سے ایک آدھ صفحے سے زیادہ نہیں لکھا اور اس سارے تجربے میں ایک گھنٹے کا وقت لگا۔ راقم نے یہی کام کمانڈ کی صورت میں گوگل بارڈ/جمنی اور قیمتاً چیٹ جی پی ٹی 4 کے سپرد کیا تا کہ اس کا موازنہ انسانی ذہانت سے کیا جا سکے۔ بارڈ کا تجربہ ناقص تھا لیکن اوسط انسانی ذہانت کی نسبت وقت اور معیار کے حوالے سے حوصلہ افزا تھا۔ اس نے چند سیکنڈ میں وہ کام بہتر انداز میں کیا جو انسانی ذہانت ایک گھنٹے کے عرصے میں بھی تعطل، سست روی اور خام خیالی سے کر رہی تھی۔ سفر نامے میں اس نے میر و غالب کے فرضی اشعار شامل کرنے کی کوشش بھی کی جو کہ اردو عروض کا الگورتھم موجود نہ ہونے کی وجہ سے با وزن تو نہیں تھے اور نہ ہی میر و غالب کے شعری اسلوب کا اظہار کرتے تھے، البتہ اسے اس ضمن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کی پہلی کاوش ہے جسے مزید تربیت کی ضرورت ہے تاکہ وہ کسی شاعر کے کلام و اسلوب سے واقف ہو سکے۔ اس کاوش میں تخلیقی عناصر کی کمی تو واضح ہے البتہ بنیادی تخیل اس کے پاس ضرور موجود ہے۔ پہلے مفت میسر ایپلی کیشنز گوگل بارڈ/ جمنی کی کمانڈ کا جواب ملاحظہ کیجیے۔
کمانڈ: مرزا غالب کا ایک فرضی خلائی سفر نامہ لکھیے جن کے ساتھ میر تقی میر ہیں اور وہ شعر و شاعری میں مکالمہ کرتے ہوئے خلائی جہاز میں جا رہے ہیں۔
بارڈ:
مرزا غالب کا فرضی خلائی سفر نامہ۔ حصہ اول۔ مرزا غالب اور میر تقی میر خلائی سفر پر روانہ:
ایک دن مرزا غالب اور میر تقی میر ایک پارک میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں اپنی شاعری پر بات کر رہے تھے۔ اچانک، ایک عجیب سی روشنی آسمان سے اترتی ہوئی نظر آئی۔ روشنی قریب آتے آتے ایک خلائی جہاز میں تبدیل ہو گئی۔ خلائی جہاز سے ایک شخص باہر نکلا۔ اس شخص نے غالب اور میر سے بات کی اور ان سے کہا کہ وہ انہیں خلائی سفر پر لے جانا چاہتا ہے۔ غالب اور میر نے اس دعوت کو قبول کر لیا۔ خلائی جہاز میں سوار ہونے کے بعد، غالب اور میر ایک ایسی دنیا میں پہنچ گئے جس کا انہوں نے کبھی خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ستاروں اور سیاروں کے درمیان سفر کرتے رہے۔
حصہ دوم: غالب اور میر خلائی سفر میں شعر و شاعری کرتے ہیں
خلائی سفر کے دوران، غالب اور میر نے اپنی شاعری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے خلائی مناظر کے بارے میں شعر کہے۔ غالب نے کہا:
فضائے لامحدود میں ہم سفر کرتے ہیں
تاروں کے درمیان ہم گزرتے ہیں
کیا یہ خواب ہے یا حقیقت
ہم اپنے خیالات میں گم ہوتے ہیں
میر نے کہا:
خلائی مناظر بہت خوبصورت ہیں
ستاروں کی روشنی ہمیں مسحور کر دیتی ہے
ہمیں یہ دنیا بہت عجیب لگتی ہے
لیکن ہم یہاں سے واپس نہیں جانا چاہتے
غالب اور میر نے اپنی شاعری سے خلائی جہاز کے عملے کو بھی متاثر کیا۔ عملے کے افراد نے ان کی شاعری کی تعریف کی اور انہیں خلائی سفر کا مزید لطف اٹھانے کی دعوت دی۔
حصہ سوم: غالب اور میر خلائی سفر سے واپس آتے ہیں
خلائی سفر کا سفر ختم ہوا اور غالب اور میر زمین پر واپس آ گئے۔ وہ اپنے سفر سے بہت خوش تھے۔ انہوں نے اپنے دوستوں اور خاندان کے ساتھ اپنے سفر کے بارے میں بات کی۔ غالب نے کہا: خلائی سفر ایک ایسا تجربہ ہے جو زندگی بھر نہیں بھولتا میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں کبھی خلائی سفر کروں گا
میر نے کہا: خلائی سفر ایک ایسا خواب تھا جو اب سچ ہو گیا ہے میں اس سفر کو کبھی نہیں بھولوں گا یہ میرے لیے ایک یادگار تجربہ رہے گا۔
غالب اور میر کے خلائی سفر نے ان کی شاعری کو بھی متاثر کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری میں خلائی سفر کے تجربات کو بیان کیا۔ ان کی شاعری اب بھی خلائی سفر کے بارے میں پڑھی جاتی ہے۔
آخری سطر: غالب اور میر کے خلائی سفر کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمارے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے۔
اب اسی کمانڈ اور اس کے نتائج قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی 4 کے حوالے سے ملاحظہ کیجیے جس میں صرف و نحو کی اغلاط موجود ہیں اور تصورات بھی ناقص ہیں جس کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو یہ کہ جس قدر واضح کمانڈ دی جائے یہ اتنا ہی بہتر کام کرتی ہے۔ دوم یہ کہ اس کے پاس تا حال میر و غالب کی زندگی پر زیادہ مواد میسر نہیں ہے۔ بہ ہر حال اس کی جانب سے پیش کیے گئے سفر نامے میں تخیل کی کمی نہیں ہے۔
چیٹ جی پی ٹی ۴:
دور حاضر کی تکنیکی ترقیات کے ذریعہ، ہم ایک ایسے خیالی منظر نامے کا تصور کرتے ہیں جہاں دو بڑے اردو شاعر، مرزا غالب اور میر تقی میر، خلا کی وسیع و عریض کائنات میں ایک جدید خلائی جہاز پر سوار ہیں۔ ان کے اردگرد ستارے چمک رہے ہیں، اور وہ انسانیت کی عظمت اور خلا کی بے پایاں معموں پر شعر و شاعری کے ذریعہ مکالمہ کر رہے ہیں۔
مرزا غالب: ’’اے میر! زمین سے دور، اس خلائی سفر میں، زندگی کی اصل حقیقت پر غور کرتا ہوں۔ یہ ستارے، یہ سیارے، کیا ان کا بھی کوئی غم ہے؟‘‘
میر تقی میر: ’’غالب! زندگی کے معمے اور بھی گہرے ہو جاتے ہیں جب ہم اس کائنات کی وسعتوں کو دیکھتے ہیں۔ مگر یہ ستارے، جو ہم سے کئی روشنی کے سال دور ہیں، میرے دل کو چھو لیتے ہیں۔ جیسے جیسے وہ دونوں خلا کی گہرائیوں میں سفر کرتے ہیں، ان کا مکالمہ انسانی جذبات، زندگی کی عارضی نوعیت، اور کائنات کے بارے میں فلسفیانہ سوالات کی طرف مڑ جاتا ہے۔
مرزا غالب: ’’میر، کیا تم نے سوچا ہے کہ اس خلا کی لا متناہی وسعتوں میں، ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ کیا ہم محض ایک کہکشاں کی دھول ہیں؟‘‘
میر تقی میر: ’’ہاں غالب، زندگی کا یہ احساس کہ ہم کائنات میں بہت چھوٹے ہیں، میرے دل کو ایک عجیب سکون دیتا ہے۔ اس سکون میں ہی شاید زندگی کی حقیقی خوبصورتی چھپی ہے۔۔۔۔ اس سفر کے دوران، وہ خلائی جہاز کی کھڑکیوں سے باہر دیکھتے ہیں، جہاں نیلے اور سبز رنگ کے نیبولے اور دور دور تک پھیلے ہوئے تارے ان کے سامنے ایک سحر انگیز منظر پیش کرتے ہیں۔ وہ اس منظر کی خوبصورتی میں کھو جاتے ہیں، اور ان کی شاعری اس خوبصورتی کو زبان دیتی ہے۔
مرزا غالب: ’’دیکھو میر، کیسے یہ ستارے اپنے وجود کی کہانی کہتے ہیں۔ کیسے یہ نیبولے زندگی کی ابتدا اور انجام کا راز بیان کرتے ہیں۔ کائنات کے اس رقص میں، ہم بھی ایک قطرہ ہیں۔‘‘
میر تقی میر: ’’غالب، یہ قدرت کا رقص، یہ ستاروں کا جھرمٹ، ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی چاہے کتنی بھی مختصر کیوں نہ ہو، اس کی خوبصورتی ان لمحات میں ہے جنہیں ہم پوری شدت سے جیتے ہیں۔‘‘
ان کی بات چیت اور شاعری کے اس سفر میں، وہ ایک نیا سیارہ دریافت کرتے ہیں جو زمین سے بہت مختلف ہے۔ یہ سیارہ ان کے خیالات اور شاعری کے لیے نئے موضوعات فراہم کرتا ہے۔
مرزا غالب: ’’دیکھو میر، یہ نیا سیارہ، کیسے اپنے رنگوں اور خصوصیات سے ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ کیا یہاں بھی زندگی کی کوئی شکل موجود ہو گی؟‘‘
میر تقی میر: ’’غالب، ہر نئی دریافت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں۔ ہر نیا سیارہ، ہر نیا ستارہ ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو بہتر سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔‘‘
جیسے جیسے وہ اس خلائی سفر کو جاری رکھتے ہیں، ان کے دلوں میں ایک نیا احساس جاگتا ہے۔ ایک احساس کہ ان کا وجود، چاہے کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو، کائنات کی عظمت کا ایک حصہ ہے۔ ان کی شاعری، جو کبھی زمین پر محدود تھی، اب خلا کی لا محدودیت میں اپنا معنی تلاش کر رہی ہے۔
مرزا غالب: ’’یہ سفر، میر، ہمیں سکھاتا ہے کہ ہمارے جذبات، ہمارے خواب، کائنات کے اس وسیع پیمانے میں بھی اپنی اہمیت رکھتے ہیں۔ ہماری شاعری، جو زمین پر محبت اور غم کی کہانیاں سناتی تھی، اب خلا کے رازوں کو بیان کرتی ہے۔‘‘
میر تقی میر: ’’بالکل، غالب۔ ہر نیا منظر، ہر نیا سیارہ ہمیں ایک نئی کہانی کہنے کی تحریک دیتا ہے۔ اور یہ کہانیاں، چاہے کتنی ہی خیالی کیوں نہ ہوں، ہمارے دلوں میں امید کی ایک نئی کرن جلاتی ہیں۔‘‘
جب وہ اپنے سفر کے اختتام پر پہنچتے ہیں، ان کی شاعری نے ایک نیا رنگ اختیار کر لیا ہوتا ہے۔ ایک رنگ جو زمین کی حدود سے آگے کائنات کی عظمت کو چھوتا ہے۔
مرزا غالب: ’’یہ سفر، میر، ہمیں سکھاتا ہے کہ زندگی، چاہے زمین پر ہو یا خلا میں، ایک خوبصورت سفر ہے۔ ہمیں ہر لمحے کو قیمتی سمجھنا چاہیے۔‘‘
میر تقی میر: ’’ہاں، غالب۔ اور اس سفر نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ کائنات میں ہماری موجودگی، چاہے کتنی ہی مختصر کیوں نہ ہو، ہمیں ہر پل کو جینے کی ترغیب دیتی ہے۔‘‘
جب وہ خلائی جہاز سے واپس زمین پر آتے ہیں، ان کی آنکھوں میں نئی چمک ہوتی ہے۔ ان کے دل و دماغ میں نئے خیالات اور احساسات کی ایک بھرپور دنیا آباد ہو چکی ہے۔ مرزا غالب: ’’میر، یہ خلائی سفر ہمیں نئی بصیرت دے کر گیا ہے۔ ہماری شاعری، جو کبھی ہمارے زمینی تجربات کی عکاس تھی، اب کائنات کے بے کراں رازوں کو بھی سمیٹ لے گی۔‘‘
میر تقی میر: ’’ہم نے زندگی کی محدودیت کو پہچانا اور کائنات کی لا محدودیت میں اپنے آپ کو تلاش کیا۔ اب ہماری شاعری میں نہ صرف زمین کے رنگ ہیں بلکہ خلا کی گہرائیوں کے راز بھی شامل ہو چکے ہیں۔ واپس زمین پر آ کر، مرزا غالب اور میر تقی میر نے اپنے تجربات کو شاعری کی صورت میں بیان کیا، اور ان کی نظمیں نہ صرف انسانیت کے لیے نئے دروازے کھولتی ہیں بلکہ کائنات کے عظیم رازوں کی طرف بھی اشارہ کرتی ہیں۔ ان کی شاعری میں اب ایک نیا درس تھا: کہ زندگی کی قدر کرنی چاہیے، چاہے وہ زمین پر ہو یا کائنات کے کسی گوشے میں۔
مرزا غالب: ’’یہ سفر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زندگی ایک انمول تحفہ ہے، اور ہمیں اسے پورے دل سے جینا چاہیے۔‘‘
میر تقی میر: ’’اور ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو بھی تلاش کرنا چاہیے، جیسا کہ ہم نے خلا میں کیا۔ اس سفر نے ہمیں سکھایا کہ ہر چیز میں ایک خوبصورتی ہے، بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے۔۔۔۔ مرزا غالب اور میر تقی میر کا یہ فرضی خلائی سفر نہ صرف ان کے شاعری کے سفر کو نیا موڑ دیتا ہے بلکہ ہمیں بھی یہ پیغام دیتا ہے کہ کائنات میں ہماری موجودگی، چاہے کتنی ہی ناچیز کیوں نہ لگے، ایک بہت بڑی حقیقت کا حصہ ہے۔ یہ سفر ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کی تلاش اور خود کی دریافت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، چاہے ہم زمین پر ہوں یا کائنات کے کسی دور دراز کونے میں۔ ان کی شاعری میں اب ایک جہانیت کا اضافہ ہوا ہے، جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہر انسانی تجربہ، چاہے وہ محبت ہو، غم ہو، یا کائنات کے رازوں کی تلاش، ایک عالمگیر جذبہ کا اظہار ہے۔ مرزا غالب اور میر تقی میر کی اس فرضی خلائی مہم نے نہ صرف انہیں بلکہ ہمیں بھی ایک نئی دنیا کی سیر کرائی ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ شاعری اور فن کی طاقت کے ذریعے ہم کسی بھی حد تک پہنچ سکتے ہیں، چاہے وہ زمین کی حدود ہوں یا خلا کی لا محدودیت۔ اور یوں، مرزا غالب اور میر تقی میر کا یہ خلائی سفر نہ صرف ان کے دلوں کو نئی امیدوں اور خوابوں سے بھر دیتا ہے بلکہ ہمیں بھی ایک پیغام دیتا ہے: کہ ہمیشہ نئی چیزوں کی تلاش میں رہو، چاہے وہ زمین پر ہو یا آسمانوں میں۔ اس سفر کا اختتام نہیں، بلکہ یہ ایک نئی شروعات کی طرف اشارہ ہے، جہاں ہر نئی دریافت ہمیں اپنے آپ کو اور بھی بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔
میر و غالب کا یہ سفر نامہ مفت گوگل بارڈ/جمنی کی نسبت بہتر ہے اور اس میں حیات و کائنات کے فکری عناصر بھی ہیں، تخیل بھی اور ادبی چاشنی بھی۔ البتہ اس کے اختتام آتے آتے اس کا انداز توضیحی ہو جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ چیٹ جی پی ٹی نو عمر قارئین کے لیے نتائج بھی پیش کرنا چاہتی ہے ؛ یوں یہ سفر نامے کی ہیئت اور تکنیک دونوں سے دور جاتا نظر آتا ہے۔ مفت مستعمل گوگل بارڈ /جمنی کی جانب سے چار سو تئیس (423) الفاظ پر مشتمل سفر نامہ جس میں اشعار کے دخول کی کوشش بھی کی گئی ہے جب کہ قیمتاً مستعمل چیٹ جی پی ٹی کی جانب سے گیارہ سو پینتالیس (1145) الفاظ پر مشتمل فرضی سفر نامہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ مزید بہتری کی جانب بڑھیں گی۔ اب ذرا اس بات پر غور کیجیے کہ یہ ایک ایسے سفر کا فرضی سفر نامہ ہے جس کا انسان کو بہت کم تجربہ ہے، اگر یہ کسی کا ذاتی سفر نامہ ہو اور وہ جزئیات دے کر اس سے متن تخلیق کرواتا ہوا آگے بڑھے تو اس کے لیے کس قدر سہولت اور آسانی رہے گی۔ مزید یہ کہ کسی ایسے مشہور سیاحتی مقام کا سفر نامہ جس کے بارے میں لوگ پہلے کافی کچھ لکھ چکے ہوں، پر لکھوایا جائے تو یہ کام اس کے لیے اور بھی آسان ہو گا۔ مذکورہ سفر نامے میں بھی صرف و نحو کی چند اغلاط موجود ہیں، جنھیں درست کرنے کے لیے اس کے بانیان سے رابطہ اور مسائل کی نشان دہی ضروری ہے۔
مصنوعی ذہانت کے حوالے سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ کیا یہ اردو ادب کی تشریح و توضیح کی صلاحیت رکھتی ہے؟ اس ضمن یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ جس قدر آسانی سے متن کو پڑھنے پر قادر ہے، اسی تناسب سے اس کی تشریح و توضیح اور تنقید پیش کرتی ہے۔ اس کے آغاز ہی میں opening window میں اس کی جن خصوصیات کا ذکر کیا گیا ان میں متن کا تجزیہ اور تبصرہ شامل ہیں۔ چوں کہ یہاں اردو متون کی تشریح و توضیح کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے اس لیے اس پر اس ضمن میں بہت سے تجربات کیے گئے جن کی کامیابی ستر سے اسی فیصد کے درمیان رہی۔ نظم کی نسبت یہ نثری متون میں زیادہ کامیاب رہا۔ تجربات میں ایسے متون کا بھی انتخاب کیا گیا جو انٹر نیٹ پر موجود نہ تھے، نا معلوم شعرا کے تھے یا پھر تجریدی تھے۔ اس نے متون کا مرکزی خیال بہت حد تک درست بیان کیا۔ راقم کی اپنی ایک تجریدی نظم بھی ایسے ہی متون میں شامل تھی جس کا مرکزی خیال اس نے نوے فیصد کے قریب درست بیان کیا۔ دوسرا تجربہ معروف شعرا کے کلام کی پہلے سے موجود تشریح و توضیح کا اس کی تشریح و توضیح سے موازنے کی صورت میں کیا گیا اور اسے جان بوجھ کر مشکل اشعار دیے گئے تاکہ اس کی ادراکی خصوصیات کھل کر سامنے آئیں۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب سے ایک مشکل شعر اور اس کی تشریح کا موازنہ ملاحظہ کیجیے:
کمانڈ: ’’اس شعر کی تشریح کیجیے:
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا‘‘
شرح دیوانِ غالب از حسرت موہانی:
یعنی شبِ ہجر کا کاٹنا ویسا ہی سخت ہے جیسا کہ فرہاد کے لیے جوئے شیر لانا تھا۔ صبح سپیدی اور جوئے شیر میں جو مشابہت ہے وہ ظاہر ہے۔ کاو کاو سے مراد کاوش و کاہش مراد ہے۔
شرح دیوانِ غالب سعید الدین احمد علیگ:
کاوِ کاوِ: تجسس، کرید، کھود، سخت جانی مراد انتہائے رنج و الم۔ مطب یہ ہے کہ فرقت کی رات کی سختی اور تکلیف مجھ سے مت پوچھ، بس یہ سمجھ لے کہ ہجر کی رات کا کاٹنا عاشق کے واسطے اتنا ہی مشکل ہے جتنا فرہاد کا شیریں کے لیے پہاڑ کھود کر جوئے شیر لانا۔ اس شعر میں شاعر نے اپنے آپ کو کوہکن (فرہاد) ، شب ہجر کی تاریکی اور سختی کو کوہ، سپیدۂ صبح کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے۔
شرح دیوانِ غالب از غلام رسول مہر:
جدائی کی حالت میں جن جن کاوشوں، کاہشوں اور مشقتوں کا میں تختہ مشق بنا ہوا ہوں، ان کا حال کچھ نہ پوچھو۔ نہ میں بیان کر سکتا ہوں، نہ سخت جانی کے باعث دم نکلتا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ رات گزارنا اور شام کا صبح کرنا، اتنا ہی دشوار ہے جتنا فرہاد کے لیے کاٹ کر جوئے شیر لانا دشوار تھا۔ اس شعر میں شاعر نے بہ حالتِ جدائی اپنی سخت جانی کو پہاڑ سے اور شام کے صبح کرنے کو جوئے شیر سے تشبیہ دی ہے۔
شرح دیوانِ غالب از مصنوعی ذہانت (گوگل بارڈ) :
اس شعر میں مرزا غالب نے تنہائی کی مصیبت اور محبت کی چاہت کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تنہائی کی راتوں میں انسان بے چینی اور بے قراری کی حالت میں مسلسل کوششیں اور جد و جہد کرتا رہتا ہے۔ وہ صبح کرنا چاہتا ہے، یعنی شبِ فراق کا اختتام کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ کام اتنا ہی مشکل ہے جیسے کہ شیر کے دودھ کی نہر کا حصول۔
تشریح: کاو کاو سخت جانی: ’’کاو کاو‘‘ کا مطلب ہے مسلسل کوشش کرنا، جد و جہد کرنا۔ ’’سخت جانی‘‘ کا مطلب ہے بے چینی، بے قراری۔ اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ تنہائی کی راتوں میں بے چینی اور بے قراری کی حالت میں انسان مسلسل کوششیں اور جد و جہد کرتا رہتا ہے۔ وہ صبح کرنا چاہتا ہے، یعنی شبِ فراق کا اختتام کرنا چاہتا ہے، لیکن یہ کام بہت مشکل ہے۔
ہائے تنہائی نہ پوچھ: یہ ایک استفسار ہے، جس کا مطلب ہے کہ تنہائی کی مصیبت کا تصور بھی نہ کریں۔
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا: ’’صبح کرنا‘‘ کا مطلب ہے شبِ فراق کا اختتام کرنا۔ ’’شام کا لانا‘‘ کا مطلب ہے رات کا اختتام کرنا۔ ’’جوئے شیر‘‘ کا مطلب ہے شیر کے دودھ کی نہر۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو نا ممکن تصور کیا جاتا ہے۔ اس مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ تنہائی کی راتوں کا خاتمہ کرنا، یعنی شبِ فراق کا اختتام کرنا، اتنا ہی مشکل ہے جیسے کہ شیر کے دودھ کی نہر کا حصول۔
شرح دیوانِ غالب از مصنوعی ذہانت (چیٹ جی پی ٹی۵.۳) :
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
اس مصرع میں شاعر نے اپنی زندگی کو ’’کاو کاو‘‘ کے ذریعے بیان کیا ہے، جو ایک پرندے کی چیخ ہوتی ہے۔ یہاں ’’کاو کاو‘‘ کو تنہائی، اکثریت ایکائی اور فکر مندگی کا نمائندہ قرار دیا گیا ہے۔ شاعر نے اس تنہائی کو اتنی سخت جانی ہائے کہنے کیلئے اس پرندے کی چیخ کا استعمال کیا ہے، جو عموماً چہرے سے چہرہ ملانے کیلئے کسی کو بلاتا ہے۔
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا۔ دوسرے مصرع میں شاعر نے صبح کو ’’شام کا لانا‘‘ کہ کر بیان کیا ہے۔ یہاں صبح کا آنا ایک نیا آغاز اور تازگی کا نمائندہ ہے جبکہ ’’شام کا لانا‘‘ اکثر موت اور انجام کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اس مصرع میں شاعر نے زندگی کو جوئے شیر کی طرح جیئے جانے کا اشارہ کیا ہے، جس میں حیات کو بہترین طریقے سے مشکلات کا سامنا کرنا اور جیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔
اس شاعری میں تنہائی اور جد و جہد کو شیر کی جوئے شیر کے ذریعے نمائندہ کیا گیا ہے، جو ایک قوی اور حنسیت سے بھرا ہوا جانور ہوتا ہے۔ یہ شاعری زندگی کی مشکلات اور اہم مقابلے کا حوالہ ہے، جس میں شاعر نے امید، جذبہ اور جد و جہد کی راہ میں چلنے کی ترقی کو بیان کیا ہے۔
بارڈ/جمنی کی تشریح میں دو حصے مزید شامل کیے گئے ہیں جن میں سے ایک اہم نکات اور دوسرا جامع تشریح کا ہے۔ ذیل میں بقیہ حصہ بھی پیش کیا جا رہا ہے:
اہم نکات: اس شعر میں مرزا غالب نے تنہائی کی مصیبت کو بہت خوبصورت اور موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ یہ شعر تنہائی کے تجربے سے گزرنے والے ہر شخص کے لیے ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ اس شعر کی تشریح کرتے ہوئے ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ مرزا غالب خود ایک تنہا شخص تھے۔ وہ اپنی زندگی کے بیشتر حصے میں تنہائی میں رہے۔ اس لیے، یہ شعر ان کی اپنی زندگی کے تجربات کا بھی اظہار ہے۔
جامع تشریح: مجموعی طور پر، یہ ایک خوبصورت اور موثر شعر ہے جو تنہائی کی مصیبت اور محبت کی چاہت کو بیان کرتا ہے۔ یہ شعر ہمیں یہ پیغام دیتا ہے کہ تنہائی ایک مشکل تجربہ ہے، لیکن محبت کی چاہت اس مشکل کو برداشت کرنے کی طاقت دیتی ہے۔
دی گئی تمام تشریحات میں گوگل بارڈ کی تشریح طوالت اور شرح کے نقطہ نگاہ سے بہتر ہے البتہ اس میں شَیر اور شِیر کا فرق نہ ہونے کی وجہ سے دودھ کی نہر نکالنے کے بجائے شیر کے دودھ کی نہر نکالنے کے معنی سے ایک مضحکہ خیزی پیدا ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم آواز الفاظ کو درست اعراب کے ساتھ پیش کرنے سے اس غلطی پر قابو پایا جا سکتا ہے جب کہ کمانڈ جتنی واضح ہو گی، اسی تناسب سے بھی مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ چیٹ جی پی ٹی کی تشریح میں فارسی لفظ کاویدن سے مشتق کاو کاو‘‘ کو کوّے کی آواز اور شِیر کو شَیر سمجھتے ہوئے تشریح کی گئی ہے جو درست نہیں ہے۔ یہ تشریح چوں کہ مفت ورژن کی ہے اور اردو دان طبقہ اسی کو زیادہ استعمال کر رہا ہے، اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ اصل معانی و مفاہیم سے نا آشنا قارئین اس پر اعتبار کرتے ہوئے اس کے ہاتھوں دھوکا کھائیں۔ اس کی درستی کے حوالے سے بھی دو امکانات پر غور کیا جا سکتا ہے:
۱۔ اسے کمانڈ دیتے ہوئے اعراب کا خیال رکھا جائے۔
۲۔ مشکل الفاظ کے معانی تک کچھ رسائی ہو تو تشریح کے درست یا غلط ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
مذکورہ تشریحات کے ضمن میں دو نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ راقم کے ناقص علم کے مطابق حسرت موہانی، غلام رسول مہر اور قاضی سعید الدین احمد وغیرہ کی تشریحات انٹرنیٹ پر اردو تحریر (فونٹ) کی صورت میں نہیں بلکہ سکین شدہ کتاب کی صورت میں موجود ہیں جہاں سے متن نقل کرنا مشکل ہے ؛ اس لیے غالب گمان یہی ہے کہ یہ تشریح چیٹ بوٹس کی اپنی ہے۔ دوم یہ کہ اگر یہ کہیں سے متن بنا حوالہ نقل کر رہی ہیں تو وہ متن درست نہیں ہے۔ اسی حوالے سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ کیا یہ تشریح نقل شدہ ہے یا ذاتی کاوش ہے تو گوگل بارڈ نے اسے طبع زاد جب کہ چیٹ جی پی ٹی نے مختلف مصادر سے مدد کا ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
کمانڈ: آپ نے یہ تشریح خود کی ہے یا کہیں سے لی ہے؟
بارڈ/جمنی:
میں نے یہ تشریح خود کی ہے۔ میں نے اس شعر کے لیے مختلف منابع کا مطالعہ کیا، بہ شمول مرزا غالب کی سوانح عمری، ان کے دیگر اشعار اور مختلف ادبی تبصروں۔ اس کے بعد، میں نے اپنی سمجھ اور تجربے کی بنیاد پر اس شعر کی تشریح کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس شعر کی تشریح کے مختلف طریقے ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا شعر ہے جو بہت سے مختلف معانی اور پیغامات رکھتا ہے۔ میری تشریح صرف ایک نقطہ نظر ہے، اور میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ دوسرے لوگ اس شعر کو مختلف انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی:
میری پیشہ ورانہ مہارت اور موجودہ ڈیٹا کے مبنی ہے، لیکن میرے جوابات کو مدد کے لئے مختلف مصادر، کتب، اور انٹرنیٹ پر دستیاب مواد کا خراج ہوتا ہے۔ میں ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہوں کہ جوابات موثر اور معقول ہوں اور معلومات صحیح اور ٹھیک ہوں۔
یوں مصنوعی ذہانت کی جانب سے مہیا کیے گئے متن کی اصلیت اس صورت میں تو ثابت ہو سکتی ہے کہ ایک ایسا متن جو انٹرنیٹ پر موجود نہیں، نہ ہی تا حال چیٹ جی پی ٹی یا گوگل بارڈ وغیرہ کے مرکزی کمپیوٹر (server) میں موجود ہے، اس کے حوالے سے اس کے خیالات ذاتی نوعیت کے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہو سکا کہ یہ جو متن مہیا کر رہا ہے وہ اس نے کہیں اور سے نقل کیا ہے یا نہیں یا کسی اور صارف کو جواب میں یہی متن تو مہیا نہیں کرے گی۔ سرقہ پکڑنے کے لیے مشہور ترین سافٹ وئیر ٹرن اٹ ان (Turnitin) بھی اردو میں مصنوعی ذہانت کا سرقہ پکڑنے کے حوالے سے درست کام نہیں کر پا رہا ہے جس سے یہ مسئلہ زیادہ اہمیت کا حامل ہو چکا ہے۔ ایک اور زاویے سے اس کی تشریح و توضیح کے امکانات کی جانچ کے لیے اسے اور بھی متون دیے گئے جن میں سے کچھ پر راقم خود کام کر چکا تھا اور اس کے جوابات کئی مقامات پر معلومات کے حوالے سے راقم کی تشریح و توضیح سے زیادہ بہتر تھے۔ مثلاً افسانے ’’پرمیشر سنگھ‘‘ کے نفسیاتی جائزے پر راقم نے ایک مضمون تحریر کیا تھا؛ افسانے کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے لیے جب اسے پرمیشر سنگھ کی زندگی کے افسانے میں بیان کیے گئے مختلف المیوں اور مسائل کو ایک صورتِ حال بنا کر اس سے نفسیاتی تجزیہ کروایا گیا تو اس نے نفسیات کی کچھ ایسی اصطلاحات بیان کیں جو راقم کے لیے نئی تھیں۔ ان پر جامعہ کے شعبہ نفسیات سے رائے لینے پر وہ درست ثابت ہوئیں۔ اسی طرح ساختیات کے اطلاق کے حوالے سے دو مضامین کا موازنہ جب اس سے کروایا گیا تو تب بھی پچاس فیصد سے زائد نتائج وہی تھے جن تک راقم پہنچا تھا۔ یوں اس سے اس حوالے سے متن کے جزوی تجزیے میں بھرپور مدد لی جا سکتی ہے۔ کلی تجزیے کے لیے قیمتاً مستعمل ورژن کا استعمال ہی بہتر ہے لیکن اس پر بھی مکمل انحصار نہیں کیا جا سکتا، اس کے نتائج میں ترمیم و اضافے کی گنجائش رہتی ہے۔ متنی تنقید کے حوالے سے اس پر جو تجربات کیے گئے ان میں فیض احمد فیض کی نظم ’’زنداں کی ایک صبح‘‘ کے مارکسی، نفسیاتی اور جمالیاتی تجزیات و تنقیدات بھی شامل تھیں۔ چیٹ جی پی ٹی 4 کو اس نظم کا نفسیاتی جائزہ لینے کا کہا گیا۔ اس نے جواب انگریزی زبان میں تحقیق و تنقید کے انداز میں پیش کیا جس میں اجزا کو سرخیوں کی صورت میں بیان کرتے ہوئے ابتدائیہ اور ماحصل وغیرہ کا التزام کیا جاتا ہے۔ ذیل میں کمانڈ اور جواب ملاحظہ کیجیے:
کمانڈ: ’’اس نظم پر نفسیاتی تنقید کیجیے، بتائیے کہ شاعر کون سے دماغی رویوں، رجحانات اور مسائل سے گزر رہا ہے، ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس کے جذبات و خیالات کیا ہیں، اس کا جذباتی پیغام کیا ہے وغیرہ:
رات باقی تھی ابھی جب سر بالیں آ کر
چاند نے مجھ سے کہا ’جاگ سحر آئی ہے
جاگ اس شب جو مے خواب ترا حصہ تھی
جام کے لب سے تہہ جام اتر آئی ہے‘
عکس جاناں کو وداع کر کے اٹھی میری نظر
شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر
جا بجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور
چاند کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے تیرتے مرجھاتے رہے کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے
صحن زنداں میں رفیقوں کے سنہرے چہرے
سطح ظلمت سے دمکتے ہوئے ابھرے کم کم
نیند کی اوس نے ان چہروں سے دھو ڈالا تھا
دیس کا درد فراق رخ مجبوب کا غم
دور نوبت ہوئی پھرنے لگے بے زار قدم
زرد فاقوں کے ستائے ہوئے پہرے والے
اہل زنداں کے غضب ناک خروشاں نالے
جن کی باہوں میں پھرا کرتے ہیں باہیں ڈالے
لذت خواب سے مخمور ہوائیں جاگیں
جیل کی زہر بھری چور صدائیں جاگیں
دور دروازہ کھلا کوئی کوئی بند ہوا
دور مچلی کوئی زنجیر مچل کے روئی
دور اترا کسی تالے کے جگر میں خنجر
سر پٹکنے لگا رہ رہ کے دریچہ کوئی
گویا پھر خواب سے بیدار ہوئے دشمن جاں
سنگ و فولاد سے ڈھالے ہوئے جنات گراں
جن کے چنگل میں شب و روز ہیں فریاد کناں
میرے بے کار شب و روز کی نازک پریاں
اپنے شہپور کی رہ دیکھ رہی ہیں یہ اسیر
جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر‘‘
چیٹ جی پی ٹی ۴:
نفسیاتی تنقید کے زاویے سے دیکھا جائے، تو یہ نظم شاعر کی اندرونی کیفیات، دماغی رویوں، اور ان کے جذباتی سفر کی گہرائیوں کو بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں موجود عناصر کے ذریعے شاعر نے نہ صرف اپنے داخلی جد و جہد کو بیان کیا ہے بلکہ انسانی روح کی مجبوریوں اور امیدوں کو بھی اجاگر کیا ہے۔
دماغی رویے اور رجحانات: تنہائی اور اسیری: نظم کے آغاز میں رات کی باقیات اور چاند کے ساتھ مکالمہ تنہائی اور اسیری کے احساس کو ظاہر کرتا ہے۔ شاعر اپنے آپ کو زنداں میں محسوس کرتا ہے، جہاں وہ اپنے خوابوں اور حقیقت کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔
نوستالجیا اور فراق: ’’عکس جاناں کو وداع کر کے اٹھی میری نظر‘‘ سے محبوب کی یاد اور فراق کا احساس ملتا ہے۔ یہ جذبات شاعر کے دل میں گہرائی سے پیوست ہیں اور انہیں ماضی کی طرف کھینچتے ہیں۔
امید اور مایوسی: نظم کے مختلف حصوں میں امید اور مایوسی کے درمیان کشمکش موجود ہے۔ جہاں ایک طرف ’’چاندی کے بھنور‘‘ اور ’’سنہرے چہرے‘‘ امید کی کرن دکھاتے ہیں، وہیں ’’زہر بھری چور صدائیں‘‘ اور ’’دشمن جاں‘‘ مایوسی اور تکلیف کے عناصر ہیں۔
شاعر کے جذبات و خیالات: شاعر نے اپنے جذبات کی شدت کو بہت ہی عمیق اور خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اس نظم میں ایک گہری جذباتی پیچیدگی محسوس ہوتی ہے، جس میں تنہائی، فراق، امید، اور مایوسی کے جذبات شامل ہیں۔
نظم کا جذباتی پیغام انسانی: روح کی لچک اور اس کے جذباتی استحکام کو سراہتا ہے۔ یہ اشعار انسان کی امید اور مایوسی، خوابوں اور حقیقت کے درمیانی جد و جہد، اور ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ جاری مقابلے کو ظاہر کرتے ہیں۔ شاعر نے زندگی کے تلخ حقائق کے باوجود امید کے قائم رہنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
نفسیاتی مکالمہ: شاعر کا نفسیاتی مکالمہ اپنے آپ سے اور اپنے ماحول سے ہے، جہاں وہ خود کو زنداں کی تنہائی اور خوابوں کی دنیا کے درمیان پاتا ہے۔ اس کشمکش میں، شاعر نے اپنے جذباتی استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے امید کے مختلف عناصر کا سہارا لیا ہے۔
مسائل اور ان کی وجوہات: نظم میں بیان کیے گئے دماغی رویوں اور رجحانات کی جڑیں شاعر کے ذاتی تجربات، سماجی و ثقافتی حالات، اور ان کے اندرونی جد و جہد میں پائی جا سکتی ہیں۔ فراق، تنہائی، اور اسیری کے احساسات شاید ان کی زندگی کے تلخ واقعات اور ان کی خواہشات کے انکار سے متعلق ہیں۔
خلاصہ: یہ نظم ایک نفسیاتی سفر ہے جو شاعر کی اندرونی کیفیات کو آشکار کرتا ہے۔ شاعر نے اپنے جذبات اور خیالات کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے، جہاں امید اور مایوسی کی کشمکش ہر شعر میں محسوس ہوتی ہے۔ نظم کا جذباتی پیغام امید کے جلتے ہوئے تیر کی مانند ہے، جو دکھ اور مایوسی کے اندھیرے میں بھی روشنی کی کرن بن کر سامنے آتا ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کے باوجود، امید کو ہمیشہ زندہ رک روح کی لچک اور مقاومت پر مرکوز ہے۔ شاعر نے دکھایا ہے کہ کس طرح انسانی روح، چاہے وہ کتنی ہی سخت حالات کا سامنا کر رہی ہو، اپنے اندر امید کی چنگاری کو زندہ رکھ سکتی ہے۔ ’’جس کے ترکش میں ہیں امید کے جلتے ہوئے تیر‘‘ یہ لائن خاص طور پر اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بہت سے مشکلات اور مایوسیوں کے باوجود، امید کی روشنی ہمیشہ موجود رہتی ہے اور یہ ہمیں آگے بڑھنے کی قوت دیتی ہے۔
نظم کے ذریعے شاعر نے یہ بھی دکھایا کہ زندگی کے ہر مرحلے میں، خواہ وہ خوشی کا ہو یا غم کا، ہمیں اپنے اندر کی قوت اور اپنی روح کی طاقت کو پہچاننا چاہیے۔ شاعر کا یہ بھی اشارہ ہے کہ انسانی روح کی مضبوطی اور اس کی امیدیں ہی اسے زندگی کی سختیوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتی ہیں۔
اختتامی خیالات: اس نظم کے نفسیاتی تنقید سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کی ہر مشکل، ہر دکھ، اور ہر تکلیف کے باوجود، انسان کے اندر ایک ایسی طاقت ہوتی ہے جو اسے مایوسی سے نکل کر امید کی روشنی میں چلنے کی رہنمائی کرتی ہے۔ اس نظم کے ذریعہ، شاعر نے انسانی جذبات کی پیچیدگیوں اور امید کی طاقت کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے، جو ہر قاری کے دل کو چھو لینے کے لیے کافی ہے۔
عموماً نظم پر تحقیق و تنقید کرتے ہوئے اس کا شاعر اور پس منظر معلوم ہوتا ہے یا معلوم کر لیا جاتا ہے جس سے اس عمل میں سہولت ملتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کو نظم کے خالق فیض احمد فیض اور نظم کے پس منظر کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا کہ یہ ان کی قید و بند کے دنوں کی یاد ہے۔ چیٹ جی پی ٹی نے درست انداز میں نہ صرف شاعر کے اس دماغی رویے کو سمجھا کہ یہ ’’چاند کے ساتھ مکالمہ تنہائی اور اسیری کے احساس کو ظاہر کرتا ہے‘‘ بلکہ اس میں ’’امید اور مایوسی کے درمیان کشمکش‘‘ کو بھی درست انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ یہ نظم انٹرنیٹ پر موجود ہے اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو معلوم ہو گیا ہو کہ اس کا خالق کون ہے لیکن اس نے نفسیاتی جائزے میں کہیں اس کا ذکر نہیں کیا بلکہ معروضی انداز میں نظم میں امید اور مایوسی کے حوالے سے انسانی رویوں اور رجحانات پر بات کی ہے۔ اس کا تجزیہ اگرچہ کامل نہیں لیکن ناقص بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ قاری کو قریباً درست انداز میں فکری زاویے مہیا کرتے ہوئے شاعر کے دماغی رویوں اور رجحانات کو جاننے اور جانچنے میں مدد مہیا کرتی ہے۔ نظم کے سرخیوں سمیت تجزیے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تنقیدی بصیرت، جو ابھی ابتدائی درجے کی ہے ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد کس مقام تک پہنچ سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کے کارناموں میں سے ایک اور کارنامہ ترجمہ نگاری کا ہے۔ گو کہ اردو ادب میں مشینی ترجمہ نگاری کے مسائل نئے نہیں ہیں لیکن مصنوعی ذہانت نے انھیں گوگل ٹرانسلیشن سے ایک قدم آگے پہنچا دیا ہے۔ یہ متن کو سمجھ کر ترجمہ کرتی ہے تاکہ بین السطور کا تعلق ٹُوٹ نہ پائے ؛مزید یہ کہ اس کے ترجمے کی استعداد اور لفظی تعداد گوگل اور بنگ سے زیادہ ہے۔ اس ضمن میں جہاں مصنوعی ذہانت نثر کے ترجمے پر بہتر کام کر رہی ہے، وہیں شعری تراجم جو کہ محنت شاقہ طلب کرتے ہیں، انھیں بھی بہ خوبی نبھا رہی ہے۔ غالب کا یہ شعر ملاحظہ کیجیے جو معاشرتی جبر اور تلمیحات (conventions and codes) لیے ہوئے ہے۔ اس میں تیشے سے فرہاد کا خود کو مارنا، اس کے پس منظر میں شیریں کے والد کی شرط، اور اس سے جڑی اردو اور فارسی کی شعری روایت موجود ہے۔ اسے سمجھنے کی کوشش کرنا اور اس کا انگریزی یا دنیا کی کسی بھی معروف زبان میں ترجمہ کر دینا اعلیٰ ذہنی استعداد کا تقاضا کرتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے تراجم کا انسانی تراجم سے موازنہ اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی کمی کوتاہیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس کے بانیان تک پیغام پہنچا یا جائے تا کہ یہ بہ طور معاون واردو دان طبقے کی بہتر خدمت سر انجام دے سکے۔
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد
سرگشتہ خمارِ رسوم و قیود تھا
انگلش ترجمہ از یوسف حسن:
O Asad, even Kohkan
Could not die without an axe;
He was bewildered with the intoxication
of customs and traditions.
انگلش ترجمہ از روشن چغلا:
What is this way to die in love
Farhad struck the axe on the head
When only a deep grieving gasp
To end the life of Asad is enough
انگلش ترجمہ از گوگل بارڈ/جمنی:
The mountain-cutter Asad could not die without his chisel, He was intoxicated by the intoxication of customs and restrictions.
انگلش ترجمہ از چیٹ جی پی ٹی:
Asad, the mountain climber, could not die without reaching the summit,
Intoxicated by the passion for breaking norms and constraints
پیش کیے گئے دونوں انسانی تراجم با محاورہ اور نثری تراجم ہیں نہ کہ منظوم۔ منظوم ترجمے کی سہولت مصنوعی ذہانت مہیا کرتی ہے۔ اپنے ترجمے میں یوسف حسن نے کوہکن کا ترجمہ ’’Kohkan‘‘ہی کیا ہے جو ظاہر ہے انگلش میں اس لفظ کے متبادلات موجود ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے۔ روشن چغلا نے کوہکن کی جگہ اصل نام فرہاد استعمال کیا ہے۔ یہ توضیحی ترجمے کے حوالے سے تو درست ہے لیکن لفظی ترجمے کے حوالے سے اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ جمنی نے کوہکن کا لفظی ترجمہ کیا ہے اور بہت حد تک متن کی روح کے قریب ہے جب کہ چیٹ جی پی ٹی کا ترجمہ بھی قریب قریب درست ہے۔ یوں مصنوعی ذہانت کا ترجمہ اگرچہ یوسف حسن اور روشن چغلا سے بہت اچھا نہیں ہے لیکن ان سے کم بھی نہیں ہے۔ اگر یہ شعر آسان ہو تو یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ مصنوعی ذہانت اس میدان میں انسانی ذہانت سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ اسی شعر کا چیٹ جی پی ٹی کی جانب سے منظوم ترجمہ ملاحظہ کیجیے جو کہ اصل شعر کی روح کے قریب ہے۔
Asad, the climber, met his fate,
On peaks, he couldn’t meet death’s gate.
Intoxicated by passion bold,
Breaking norms, in stories untold.
غالب کا ایک اور مشکل شعر ملاحظہ کیجیے جسے ان قارئین کے لیے سمجھنا مشکل ہے جنھیں شاعری سے زیادہ شغف نہیں یا لغت و تاریخ کا مطالعہ کمزور ہے۔ اس کے انگلش مترجمین جو یقیناً ً شعر کے سیاق سے پوری طرح واقف ہیں۔ ذیل میں ان کے ترجمے کا موازنہ مصنوعی ذہانت کے ترجمے سے کیا گیا ہے۔
نہ ہو گا یک بیاباں ماندگی سے ذوق کم میرا
حباب موجۂ رفتار ہے نقش قدم میرا
انگلش ترجمہ از یوسف حسن:
My pleasure will not diminish with a single wilderness; The bubble is the wave’s speed, the imprint, my stride
انگلش ترجمہ ازروشن چغلا:
My wanderings in the wilderness
Unperturbed by my weary feet
Advancing steps in the field of love
Shall keep peace with bubbling zeal
انگلش ترجمہ از گوگل بارڈ
My zest will not diminish with a life of wandering, The bubble of the wave of motion is my footprint.
انگلش ترجمہ از چیٹ جی پی ٹی
My zest for roaming will not be curbed
Even by a desert of weariness;
My foot print is bubble
On the wave of my gait
اہم بات یہ ہے کہ گوگل بارڈ، ترجمے کے ساتھ از خود وضاحت بھی مہیا کرتا ہے تاکہ سمجھنے کے لیے زیادہ آسانی ہو۔
In this poem, Mirza Ghalib expresses his love of life and adventure. He says that he will not lose his zest for life, even if he spends his life wandering in the desert. He compares his life to a bubble on the surface of a wave. The bubble is constantly moving and changing, but it is also beautiful and ephemeral. Ghalib says that his life is like this bubble. It is always changing and evolving, but it is also full of beauty and excitement.
یوں ان تمام تراجم کو دیکھا جائے تو یہ شعر کی روح کے قریب ہیں۔ بالخصوص گوگل بارڈ/جمنی کا ترجمہ اس کی توضیح کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس بات کی مزید تصدیق ہو جاتی ہے کہ یہ ترجمہ یقیناً درست ہے اور یہ شعر کی روح تک پہنچ پایا ہے۔ مذکورہ توضیح کے پہلے تین جملے بالکل درست ہیں آخری جملے پر بہ ہر حال بحث کی گنجائش موجود ہے۔
مصنوعی ذہانت کسی ادب پارے کو کن حوالوں سے جاننے کی کوشش کرتی ہے، اس کے بارے میں کیسے سوچتی ہے اور کس طرح ایک صارف کو اس کے متنوع سوالات کے جوابات مہیا کرتی ہے۔ اس حوالے سے بھی متعدد تجربات کیے گئے جن میں سے ایک تجربہ یہ کیا گیا کہ میر تقی میر کے محض ایک شعر کی تدریس کے لیے آسان سبقی خاکہ بنانے کی کمانڈ دی گئی۔ اس نے جو خاکہ تیار کیا اُس سے اس کے زاویہ ہائے فکر کھل کر سامنے آتے ہیں۔ گوگل بارڈ نے نہ صرف شعر کے الفاظ معانی اور تشریح بیان کرنے کی کوشش کی اور شعری محاسن کا ذکر کیا بلکہ طلبہ کے لیے مشقی سوالات بھی پیش کیے۔ شعر، اس سے متعلق کمانڈ اور خاکہ ملاحظہ کیجیے:
کمانڈ: ’’ میں میر تقی میر کا یہ شعر ادب کے طلبا کو پڑھانا چاہتا ہوں۔ اس پر نوٹس تیار کیجیے کہ کس طرح پڑھایا جائے اور کون سے زاویے دیکھے جائیں؟
چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا
جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا‘‘
شعر کا متن: چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا جمال یار نے منہ اس کا خوب لال کیا
شعر کا معنی: چمن میں گل نے کل اپنی خوبصورتی کا دعوی کیا تھا، لیکن یار کے جمال نے اس کا منہ لال کر دیا۔
شعر کی تشریح: اس شعر میں میر تقی میر نے حسن و جمال اور عشق و محبت کے درمیان تضاد کو بیان کیا ہے۔ گل کو حسن و جمال کا استعارہ لیا گیا ہے۔ گل کا دعویٰ جمال کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی پر ناز کرتا ہے۔ یار کا جمال اس کی عشق و محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ یار کے جمال سے گل کا منہ لال ہو جانا اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ یار کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔
شعر کی تکنیکی خوبیاں: زبان اور بیان: شعر کی زبان سادہ اور سلیس ہے۔ بیان میں روانی اور تاثیر ہے۔
- قافیہ اور ردیف: شعر میں قافیہ ’’جمال‘‘ اور ردیف ’’لال‘‘ ہے۔ قافیہ اور ردیف کا استعمال خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔
- تصویر کشی: شعر میں حسن و جمال اور عشق و محبت کی خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔
شعر کی تفسیر: اس شعر کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک زاویہ یہ ہے کہ یہ شعر حسن و جمال اور عشق و محبت کے درمیان تضاد کو بیان کرتا ہے۔ گل کی خوبصورتی عارضی ہے، جبکہ یار کی محبت دائمی ہے۔ دوسرا زاویہ یہ ہے کہ یہ شعر ایک اخلاقی درس بھی دیتا ہے۔ یہ شعر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ حسن و جمال عارضی ہے، جبکہ عشق و محبت دائمی ہے۔
شعر پڑھانے کے لیے تجاویز: شعر کو پڑھانے سے پہلے، اس کی تشریح اور تفسیر کریں۔ شعر کو پڑھتے وقت، اس کی قافیہ اور ردیف پر توجہ دیں۔ شعر کو پڑھتے وقت، اس کی تصویر کشی پر توجہ دیں۔ شعر کو پڑھتے وقت، اس کے معنی کو واضح کریں۔
طلباء سے سوالات: شعر میں گل کو حسن و جمال کا استعارہ کیوں لیا گیا ہے؟ شعر میں یار کا جمال کن چیزوں سے تعبیر کیا گیا ہے؟ شعر میں قافیہ اور ردیف کا کیا اثر ہے؟ شعر کیا سبق دیتا ہے؟
طلباء کو مشقیں: شعر کو دوبارہ لکھنے کی مشق کروائیں۔ شعر کی تشریح اور تفسیر کرنے کی مشق کروائیں۔
شعر کے موضوع پر ایک مضمون لکھنے کی مشق کروائیں۔
’’شعر کی تشریح‘‘ کے عنوان سے سرخی میں جمال یار سے گل کے منھ لال ہونے کا احوال درست بیان نہیں کیا گیا البتہ ’’شعر کی تفسیر‘‘ کے عنوان سے عشق کی دائمی جیت اور حسن کے زوال کے حوالے سے جو اخلاقی درس دیا گیا ہے وہ درست ہے اور شعر کو سمجھنے کی ایک کاوش ہے۔ اسی طرح ’’قافیہ اور ردیف‘‘ اور ’’تصویر کشی‘‘ کے عنوان کے تحت بھی خاکہ کے درست نکات موجود ہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ بہ ذاتِ خود کس طرح چیزوں کے بارے میں سوچتی ہے اور صارف کو جواب مہیا کرتے ہوئے مد نظر رکھتی ہے۔ اس سے اردو تدریس سے منسلک طبقہ سبق کی تیاری یا کسی بھی موضوع کو سمجھنے، سمجھانے کے لیے مدد لے سکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت اور تحقیق کے حوالے سے بات کی جائے تو اردو میں تحقیقی مواد نہ ہونے کے سبب یہ انٹرنیٹ پر پھیلے مواد پر زیادہ انحصار کرتی ہے اور اس کے نتائج اکثر ناقص ہوتے ہیں، البتہ یہ تحقیقی موضوع پر عمدہ خاکے مہیا کر دیتی ہے جن کی روشنی میں تحقیق کے بہتر نتائج کی جانب بڑھا جا سکتا ہے۔ تحقیق ہی کے حوالے سے ایک نہایت اہم مسئلہ مصنوعی ذہانت سے نقل شدہ متن کے حوالہ جات کا ہے جس کے لیے اردو دنیا میں تا حال نہ تو کوئی طریقہ رائج ہے اور نہ ہی کوئی ضابطہ مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ جس طرح عموماً ویب سائٹ کے کنجِ مخفی (لنک) کو نقل کرتے ہوئے وقت اور تاریخ ساتھ تحریر کر دیے جاتے ہیں، اس پر اُس طریقہ کار کا اطلاق نہیں ہوتا کیوں کہ ہر شخص کے ساتھ چیٹ بوٹ بات کرتے ہوئے الگ الگ ذاتی ربط (لنک) مہیا کرتے ہیں۔ اگر اس ربط کو نقل کر بھی لیا جائے تو اس سے نقل شدہ مواد (ڈیٹا) کی تصدیق نہیں کی جا سکتی، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصل صارف کا ذاتی لاگن اکاؤنٹ ہوتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور کے پاس استعمال نہیں ہو سکتا۔ دوسری جانب بنا حوالہ متن نقل کرنا تین قسم کے مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے:
۱۔ تحقیقی اخلاقیات کا مسئلہ: کم علم، کام چور یا مختصر وقت میں زیادہ تحقیقی کام کرنے کے خواہش مند حضرات کا اس کو بنا حوالہ استعمال کرنا۔
۲۔ متن کہاں سے حاصل کیا گیا ہے اور کیا مہیا کیا گیا متن دہرا یا تو نہیں گیا یا یہ کہ متن کسی اور کو ایک جیسی کمانڈ یا سوال کے جواب میں مہیا تو نہیں کیا گیا یا کیا جائے گا، اس کی تصدیق نہیں ہو پاتی، نہ ہی اس ضمن میں اس پر کامل اعتبار کیا جا سکتا ہے۔
۳۔ مصنوعی ذہانت کے تعصبات اور حدود بندی: کسی خاص موضوع پر تحقیق کرتے ہوئے یہ کئی بار درست جواب نہیں دیتی یا جواب کے حوالے سے کہتی ہے کہ مجھے اس کی اجازت نہیں یا پھر عین ممکن ہے کہ اس کے بنانے والے کے نظریات و عقائد کے تعصبات بھی اس کے کسی مخصوص نوعیت کے جواب میں شامل ہوں۔
۴۔ جس طرح عموماً ویب سائٹس سے منتقل کرتے ہوئے، مصنف کا نام بھی دے دیا جاتا ہے، مصنوعی ذہانت کی صورت میں یہ مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ مصنف کا نام کس طرح دیا جائے اور اس کی مدد سے حاصل کیے گئے مواد یا ڈیٹا کا درست اندراج کس صورت میں ممکن ہو۔
اس کے حل کے لیے دنیا بھرمیں مختلف علوم و فنون پر ہونے والی ایسی تحقیقات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے جس میں مصنوعی ذہانت کے حوالہ جات شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ریسرچ گیٹ ایسے دنیا کے سب سے بڑے تحقیقی فورم (ویب سائٹ) پر اب ایسے بہت سے مقالات دیکھے جا سکتے ہیں جن میں محققین و ناقدین مصنوعی ذہانت کے اشتراک سے تحقیق کرتے ہوئے اس کا نام مثلاً چیٹ جی پی ٹی اور گوگل بارڈ/جمنی کو محققین و ناقدین کی فہرست میں شامل کرتے ہیں۔ راقم ایسے بہت سے مقالات دیکھ چکا ہے اور اس ضمن میں ریسرچ گیٹ ویب سائٹ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اسی طریقہ کار کو اردو محققین بھی استعمال کر سکتے ہیں لیکن اس ضمن عالمی تحقیقی مینوئیل (APA Research Manual) اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن وغیرہ کی اجازت درکار ہو گی جب کہ اس جانب اداروں اور محققین کی توجہ نہ ہونا تحقیقی اخلاقیات میں گراوٹ کا سبب بنے گا۔ بہ ہر حال اس فوری مسئلے سے بچنے کے لیے مصنوعی ذہانت سے متن کی نقل کے حوالے کے لیے درج ذیل طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے:
اوپن اے آئی (نام: چیٹ جی پی ٹی یا جمنی وغیرہ) ، ورژن (جو بھی ہو مثلاً ۵.۳یا 4) ، جوابی متن بابت (جو بھی سوال یا کمانڈ دی گئی ہو) ، تاریخ اور وقت۔
سفارشات:
۱۔ مصنوعی ذہانت متن تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ کردار اور پلاٹ تخلیق کرنے کی بھی جزوی صلاحیت سے بہرہ مند ہے بشرط یہ کہ اسے درست کمانڈ دی جائے۔ یہ صلاحیت شاعری اور افسانوی نثر میں ابتدائی درجے کی ہے جسے صنعتی (کمرشل بنیادوں) پر درست کیا جا سکتا ہے۔ غیر افسانوی نثر میں یہ بہتر کام کر رہی ہے اور اس کا کام نہ تو بالکل ابتدائی درجے کا ہے اور نہ ہی کسی مشاق ادیب کے رتبے کو پہنچی ہے۔ اردو زبان ایسی زبانوں میں شامل ہے جس کے کثیر صارف اسے مفت استعمال کر رہے ہیں جب کہ مصنوعی ذہانت کے بانیان اسے صنعتی سطح پر چلا رہے ہیں۔ اس لیے، فیس ادا کرنے کی بعد اس کی تخلیقی، تحقیقی اور تنقیدی استعداد معتدل اور بہتر درجے پر فعال نظر آتی ہے جس کے نمونہ جات پیش کیے جا چکے ہیں۔ اس حوالے سے اردو دان طبقے اور سرکاری اداروں کو خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ مصنوعی ذہانت کے بانیان سے رابطہ کر کے اردو زبان و ادب کے حوالے سے اس کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم اس مفت ورژن کے لیے بھی صرف و نحو کے مسائل کی درستی کروا لی جائے تاکہ زبان کی ترقی کا سفر تعطل کا شکار نہ ہو گا۔ اس میں اردو کی قدیم املا جیسے ’’جنھیں، انھیں‘‘ وغیرہ مستعمل ہے، اسے بھی جدید املا سے تبدیل کرنے کے لیے اس کے بانیان سے رابطہ ضروری ہے۔
۲۔ کمانڈ دیتے وقت، زیادہ سے زیادہ واضح اور جزئیات کے ساتھ کمانڈ دی جائے اور ہم آواز الفاظ جیسے شِیر اور شَیر کے اعراب ساتھ دیے جائیں۔ اس سے اغلاط کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
۳۔ مصنوعی ذہانت کی شعری تخلیقات بے وزن اور غیر سنجیدہ ہیں۔ اس ضمن میں اسے عروض کے الگورتھم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جو کہ پہلے سے کچھ سافٹ وئیرز نے سیکھا ہوا ہے اور ان کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ اردو ادارے، اس حوالے سے بالخصوص گوگل بارڈ/ جمنی اور چیٹ جی پی ٹی کی مدد کر سکتے ہیں۔
۴۔ مصنوعی ذہانت نے ایسے ریاضیاتی کلیے اور الگورتھم ایجاد کیے ہیں جن کے تحت تخلیق کے عمومی معیارات و نظریات میں تبدیل رو نما ہوئی ہے۔ زبان کے بہت سے نظریات جن میں سوسئیر، رولنڈ بارتھیز اور جولیا کرسٹوا ایسے معروف نظریہ سازوں کے نظریات بھی شامل ہیں، مشینی تخلیق کاری کی صلاحیت کے مقابل نئے امکانات و استفسارات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان نظریات کی تردید و تائید کے لیے نئے مباحث قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لسانیات کے دامن میں بھی وسعت آئے اور نئی نظریہ سازی کی جا سکے۔ اس حوالے سے انسان اور مشین کے تعاملات (HCI) کے ماہرین و محققین، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اساتذہ اور عہدِ حاضر کے اہم ماہرینِ لسانیات سے مدد لی جا سکتی ہے۔ مختلف زبان و علوم کے ماہرین کے درمیان مکالمے کا فروغ بھی اس سلسلے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
۵۔ مصنوعی ذہانت کی ترقی کی موجودہ صورتِ حال اردو زبان و ادب کے مروجہ معیارات سے ایک قدم آگے بڑھنے سے قاصر ہے لیکن یہ تیز رفتاری جاری رہی تو اس کے مستقبل کے بارے میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے مقابل بہت اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل تخلیق کار، محقق اور نقاد ہی ٹھہر پائیں گے۔ اس لیے انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو بڑھانے اور اس سلسلے میں مناسب رہنمائی کا سامان بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
۶۔ مصنوعی ذہانت کی یاد داشت کا ذخیرہ بلا شبہ انسانی دماغ میں موجود الفاظ سے زیادہ ہے۔ اسی طرح یہ چھوٹے پیمانے پر متن کی تشریح و توضیح کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ زبان و ادب کے اساتذہ کو اس حوالے سے تربیت حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ طلبا کی بہتر رہنمائی، مقالات و تفویض کار کی سرقہ بازی اور اصلیت کی جانچ پرکھ کو یقینی بنا سکیں۔ اردو زبان و ادب کے حوالے سے مصنوعی ذہانت پر تحقیق و تنقید کے لیے حکومتی سطح پر ایک ایسی کمیٹی بننی چاہیے جس کی سفارشات کو عالمی سطح پر قبول کیا جائے اور اس کی بہتری ہر صورت میں ممکن ہو۔
۷۔ مصنوعی ذہانت ترجمہ اور بین العلومی تحقیق میں ذخیرہ الفاظ اور تیز رفتاری کے باعث انسانوں سے ایک درجہ آگے کھڑی نظر آ رہی ہے؛ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسے ابھی زبان دان طبقے سے بہت کچھ سیکھنا اور سمجھنا ہے۔ اردو دان طبقے کو اسے ادب دشمن سمجھنے کے بجائے ادب کا معاون سمجھنے، اس کی جانب مثبت رویہ رکھنے اور سنجیدہ انداز میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ابتدائی اور درمیانے درجے کی تخلیق، تحقیق اور تنقید میں انجماد کی صورت میں اس سے مدد لی جا سکے اور اس کی اغلاط کو اس کے بانیان کے علم میں لا کر درست کیا جا سکے۔
۸۔ اس سے تخلیق کیے جانے والے ادب کو ’مشینی ادب‘ اور اس کی مدد سے تخلیق کیے جانے والے ایسے ادب کو جس میں انسانی ذہانت کا دخل بھی ہو، ’’انسان مشینی ادب‘‘ کا نام دیا جائے۔
۹۔ تحقیق کے ضمن میں اس سے حوالہ دینے کا طریقہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے طے ہونا چاہیے تاکہ سرقہ بازی اور حوالہ نہ دینے کے دونوں رجحانات سے بچا جا سکے۔ اس ضمن میں درج ذیل طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے:
اوپن اے آئی (نام: چیٹ جی پی ٹی یا جمنی وغیرہ) ، ورژن (جو بھی ہو مثلاً ۵.۳ یا 4) ، جوابی متن بابت (جو بھی سوال یا کمانڈ دی گئی ہو) ، تاریخ اور وقت۔
جب کہ ایسی تحقیقات و تنقیدات جس میں یہ معاون ہو، ان میں اس کا باقاعدہ نام شامل کیا جانا چاہیے۔
۱۰۔ سرقہ پکڑنے والے سافٹ وئیر جن میں ’’turnitin‘‘ سرِ فہرست ہے، اسے مصنوعی ذہانت کا اردو سرقہ پکڑنے کے لیے بہتر کیا جانا چاہیے اور ضمن میں اس کے بانیان سے حکومتی سطح پر رابطہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حواشی و حوالہ جات
* (پ: ۱۹۸۵ء) لیکچرر، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی، سیالکوٹ۔
Bibliography
Abdullah, Syed. Ishārāt-i Tanqīd. Delhi: Jamal Press n.d.
Agha, Wazir. Takhliqī Amal. New Delhi: International Urdu Publications 2005.
Agha, Wazir. "Takhlīqī Amal aur Eski Sākht.” Ma’eni aur Tanāzur. New Delhi: International Urdu Publications 2000.
Akhtar, Saleem. Takhlīq, Takhlīqī Shaksīyāt aur Tanqīd. Lahore: Sang-i Mīl Publications 1989.
Aleeg, Qazi Saeed Uddin Ahmed. Sharḥ-i Dīwān-i Ghālib. Delhi: Ghālib Acadmey 1926.
Amjad, Majeed. "Kuliyāt-i Majīd Amjad.” Ed. Khawājah Muhammad Zakrīyā. Delhi: Farīd Book Depot 2011.
Ansari, Asloob Ahmed. "Adab kī Qadreiṅ.” Tanqīd-o-Takhlīq. Allahabad: Idārā-i Anīs, 1965 .
Askari, Muhammad Hassan. Takhlīqī Amal aur Aslūb. Muhammad Sohail Umar Lahore: Sang-i Mīl Publications 1989.
Ayub, Asma. "The Impact of Aritificial Intelligence on the Development of Literary Critic’s Abilities.” Journal of Literary Sciences 27 (2022) .
Barthes, Ronald. "The Death of the Author.” Image-Music-Text. Trans. Stephen Heath. London: Fontana Press, 1977.
Faiz, Faiz Ahmed. Kulīyāt-i Faiz Delhi: Naaz Publishing House n.d.
Farooqi, Muhammad Ahsan. "Adab aur Takhaiyul.” Ed. Shahid Ahmad Delhvi. Karachi: International Press, 1964.
Hanfi, Shameem. Tārīkh, Tehzīb aur Takhlīqī Tajurbah. Lahore: Sang-i Mīl Publications 2006.
Hashmi, Mehmood. "Takhlīqī Amal kiyā hai?” Farooqi, Shams ur Rehman. Shab Khoon. Allahbad 1968.
Kristeva, Julia. Desire in Language: A Semiotic Approach to Literature and Art. Trans. Alice Jardine and Leon S. Roudiez Thomas Gora. Colubmia: Columbia University Press, 2024.
-. Revolution in Poetic Language. Trans. Margaret Waller. Columbia: Columbia University Press, 1984.
Lamott, Anne. Bird by Bird, Some Instructions on Writing and Life New York: Anchor Books 1995.
Mehr, Ghalib Ghulam Rasool. Nava-i Sarosh Mukammal Dīwān Ma Sharḥ. Lahore: Sheikh GHulam Ali and Sons n.d.
Mīr, Mīr Taqī. Kulīyāt-i Mīr. Ed. Ibādat Barelvī. Vol. 1. Karachi: Urdu Dunya, 1958.
Mohani, Hasrat. Sharah-e-Dīwān-i Ghālib. Delhi: Farīd Book Depot 2004.
Rasheedi, Moeed. Takhlīq, Takhaiyul aur Isteyāra Delhi: Arshiya Publications, 2011.
Rehman, Shakeel ur. Mirzā Ghālib aur Hind Mughal Jamālīyāt. Sirinagar: Masūm Publications 1987.
Saussure, F. de. "Course in General Linguistics.” Trans. Wade Baskin. Columbia: Columbia University Press 1916.
Weizenbaum, Joseph. "ELIZA— A Computer Program for the Study of Natural Langauge Communication between Man and Machine.” Communication of the ACM 9.1 (1966) .
٭٭٭
ذہانت اور تخلیقی صلاحیت ۔۔۔ نعمان علی خان
آج کے انسان نے خاص طور پر انجینئیرنگ اور ٹکنولوجی سلوشنز کے لئے محدود فنکشنز والی ایسی مشینیں اور پروگرامز تو تیار کر لیئے ہیں جو مخصوص دائرہ کار میں اِنّوویٹ کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی خیال آتا ہے کہ کیا کوئی مشین ایسی ہو سکتی ہے جو اختر شیرانی کی طرح، کیٹس کی طرح، میر و غالب کی طرح، فیض اور ناصر کاظمی کی مانند، سینہ اور روح ریزہ ریزہ کر دینے والے اشعار کہہ سکے؟
اپنی تمام تخلیقی عظمت کے باوجود، کیا انسان ایسی کوئی مشین تخلیق کر سکتا ہے؟
کیا کوئی مشین ایسی ہو سکتی ہے جو بیتھوون اور باخ کی سمفنیز، مدن موہن کے گیتوں کی طرزیں اور اینیو موریکون کے میوزیکل سکورز تخلیق کر سکتی ہو؟
اگر ایسا ہو تو کیا ہمیں پھر بیتھوون، باخ، مدن موہن اور اینیو موریکون کی ضرورت نہیں رہے گی؟
تمام مخلوق میں تخلیقی صلاحیت صرف انسان کا اختصاص ہے۔ لیکن کیا ہم جان سکتے ہیں کہ یہ ہے کیا؟ آئیے، انسانی تاریخ میں پہلی بار، تخلیقی صلاحیت کو سائنسی طریقے سے جاننے اور ڈیفائن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیا انسانی ’’ذہانت‘‘ اور تخلیقی صلاحیت ایک جیسی ہیں یا مختلف۔
کسی فلسفی نے کہا تھا کہ اگر الفاظ کو اندھا دھند ان کے تمام ممکنہ کامبینیشنز میں ترتیب دیا جائے تو بہت کچھ الّم غلّم ہو گا لیکن ساتھ ہی دنیا کا تمام عظیم الشان ادب، نظمیہ اور نثریہ، جو تخلیق ہو چکا ہے اور جو نہیں ہوا، سب کا سب لکھا جا سکتا ہے۔
یعنی آنے والا اچھا ادب بھی امکانی طور پر موجود ہے فقط آشکار نہیں ہوا۔ اگر یہ کام کوئی کمپیوٹر کر سکتا ہو تو بغیر کسی ’’تخلیقی‘‘ صلاحیت کے تمام کلاسیکی ادب وجود میں لا سکتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے کے لئے کمپیوٹر کو لامحدود بجلی، تمام سمندروں کے برابر اور ان سے بھی زیادہ، پرنٹر کارٹرج کی روشنائی اور تمام درختوں سے بھی زیادہ درختوں کے برابر، کاغذ کی سپلائی کی ضرورت ہو گی۔ یعنی بغیر تخلیقی صلاحیت کے بھی اچھا ادب ممکن ہے اگر لامحدود کوشش کرنے کی طاقت ہو۔
لیکن پھر ’’تخلیقی صلاحیت‘‘ کیا ہے؟
تو چلیں مندرجہ بالا کی روشنی میں، ’’تخلیقی صلاحیت‘‘ کو ڈیفائن کرتے ہیں۔ یہ وہ وہبی صلاحیت ہے کہ جس کے ذریعے آپ، جمالی امکان کے لامحدود پیٹرنز میں سے، لامحدود کوشش کے بغیر، اپنے مقصد کے لئے درکار، مناسب ترین پیٹرن کو پہچان لیتے ہیں اور اس تک پہنچ کر اسے آشکارا کر دیتے ہیں۔
میں اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ ایک سپر کمپیوٹر ایسا تیار کروایا جائے جس میں مروجہ اردو شاعری کی مخصوص اصطلاحات اور استعارے اور تراکیب بمع جوائننگ ورڈز کے فیڈ کر دئیے جائیں۔ اور یہ کچھ اتنا مشکل کام نہیں۔ آج کی اردو شاعری میں ملا جلا کر زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار الفاظ ہوں گے۔
میرے خیال میں ایسا سپر کمپیوٹر اتنے الفاظ کے ممکنہ کامبینیشنز، شاید مکمل طور پر نہ بھی بنا سکے لیکن یہ ضرور کرے گا کہ بہت سے شعرا پر جو کلام الہام کی صورت میں اتر چکا ہے وہ بھی اور وہ بھی جو ابھی بہت سے شعرا پر اترا نہیں، اس سب میں سے بھی بہت سا سامنے لے آئے گا۔
یعنی میرا خیال ہے کہ ایک ایسی مشین بنائی جا سکتی ہے کہ اگر اسے ایک مخصوص ڈیٹا فیڈ کیا جائے تووہ امکانی پیٹرنز جنریٹ کر سکتی ہے جن میں ایسے پیٹرنز بھی ہوں گے جو جمالیاتی طور پر بالکل نادر ہوں۔ چلیں ایک مثال دیتا ہوں جس سے صورتحال کافی واضع ہو جائے گی:
فرض کیا کہ ایک زبان میں بولے اور لکھے جانے والے الفاظ کی کل تعداد صرف آٹھ ہے اور وہ یہ ہیں ’’میں۔ کے۔ یہ۔ خانوں۔ لکھو۔ معجزوں۔ بھی۔ حادثہ‘‘۔ ایک کمپیوٹر کو اگر پروگرام کیا گیا ہے ان آٹھ الفاظ کے تمام ممکنہ پیٹرنز کو جنریٹ کرنے کے لئے، تو جو ممکنہ پیٹرنز سامنے آئیں گے وہ کچھ یوں ہو سکتے ہیں:
۱: کے یہ خانوں معجزوں حادثہ میں لکھو بھی
۲: کے خانوں یہ میں حادثہ لکھو بھی معجزوں
۳: کے میں یہ خانوں لکھو معجزوں بھی حادثہ
۴: میں کے یہ خانوں لکھو معجزوں بھی حادثہ
۵: وغیرہ
۶: وغیرہ
۷: یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانوں میں
۸: وغیرہ
۹: وغیرہ
غالباً چونسٹھ کل تعداد ہو گی ان سارے پیٹرنز کی۔ یہ سب کچھ مشین کرے گی اور بلا کسی تخلیقی صلاحیت کے کرے گی۔ اور فرض کیا کہ اس آٹھ لفظی زبان میں ایک شاعر ہے جس کا نام ہے جون ایلیا۔ اگر جون ایلیا کے وہ مشہور قطعہ کہنے سے پہلے بھی اسی کمپیوٹر میں یہ ۸ الفاظ ڈال کر یہ چونسٹھ ممکنہ کومبینیشنز حاصل کیئے جاتے تب بھی یہ مشین جون صاحب کے قطعے کا وہ ظالم مصرعہ جون صاحب کے خون تھوکنے سے پہلے ہی ’’تخلیق‘‘ کر چکی ہوتی (دیکھئیے نمبر ۷)۔
گزشتہ عہد گزرنے میں ہی نہیں آتا
’’یہ حادثہ بھی لکھو معجزوں کے خانوں میں‘‘
جو رد ہوئے تھے جہاں میں صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں
تو عرض یہ ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیت، جون ایلیا سے فقط آٹھ الفاظ پر مشتمل براہ راست وہ مصرعہ کہلواتی ہے جو کہ انہیں مطلوب ہے۔ جبکہ ذہانت کا میکانکی عمل کسی ۸ لفظی جمالیاتی پیٹرن کو جنریٹ کرنے کے لئے باقی ۶۳ الّم غلّم پیٹرنز بھی جنریٹ کرتا ہے۔ یہ فارمولا کمپیوٹر کے ذریعے زبان کے سارے الفاظ تک پر اپلائی کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ صرف اس الّم غلّم کو ہینڈل کرنے کا ہے جو الفاظ کی زیادہ تعداد سے حاصل شدہ مطلوب تخلیقات کے ساتھ جنریٹ ہو گا۔
اردو میں تو آج تک اس موضوع پر اس طرح کھل کر بات بھی نہیں ہوئی لیکن میری معلومات کے مطابق، انگلش اور دوسری زبانوں میں بھی ایسا تجربہ آج تک پروپوز نہیں کیا گیا کہ جس سے ہم تخلیقی صلاحیت اور میکانیکیت میں فرق واضع کر سکیں جیسا کہ میں نے جون ایلیا کے ایک مصرعے کے الفاظ کمپیوٹر میں فیڈ کر کے اس سے کامبینیشنز کا جنک جنریٹ کر کے، اس میں سے، جون کی کری ایٹیویٹی کو شناخت کرنے کا آئیڈیا پروپوز کیا ہے۔ یہ صرف مثال کے طور تجویز کیا ہے کیونکہ میں اصل میں تو یہ ثابت کر رہا ہوں کہ زبان سمیت انسان کے سارے جمالیاتی اور کمیونیکیشن کے سمبلز، اپنے اپنے مخصوص دائرہ کار میں اگر تمام ممکنہ پیٹرنز میں جوڑے جائیں تو جو جنک جنریٹ ہو گا وہ ناقابلِ تخمینہ ہو گا لیکن اسی کے اندر وہ سب کچھ بھی ہو گا جو اب تک انسان تخلیق کر چکا ہے یا تخلیق کرے گا۔
تخلیقی صلاحیت، جمالیاتی طور پر مقصود و مطلوب پیٹرنز براہ راست کری۔ ایٹ کرتی ہے۔۔ ذہانت پیٹرنز کا ’’جنک‘‘ جنریٹ کرتی ہے، خواہ انسانی ذہانت ہو یا مصنوعی۔ تخلیقی صلاحیت، ذہانت کے جنریٹ کئیے ہوئے جھاڑ جھنکاڑ کو چھانٹ کر، گلِ مقصود کو گرفت میں لے لیتی ہے۔
٭٭٭
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کیا ہے ۔۔۔ سید حسن
Artificial Intelligence ایک ایسا علم اور عمل ہے جس کی مدد سے کمپیوٹر یا کمپیوٹر بیسڈ رو بوٹس کو انسانوں کی طرح کام کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے یعنی یہ انسانوں کی طرح سن سکتے ہیں بول سکتے ہیں اور ذہن استعمال کر سکتے ہیں۔ Artificial Intelligence میں آئے دن تجربات کیے جا رہے ہیں اور اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے والے رو بوٹس یا بوٹس بہت تیزی سے انسانوں کی طرح سیکھنے، سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔ اس عمل کو Self Learning کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ذریعہ سے مشین کو جذبات سمجھنے اور جذبات کی عکاسی کرنے کے قابل بھی بنایا جا چکا ہے۔
Artificial Intelligence Meaning In Urdu
Artificial Intelligence کو اردو زبان میں مصنوعی ذہانت کہا جاتا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے مراد ایسی ذہانت ہے جو کمپیوٹر مشین میں استعمال کی جا سکتی ہو۔ آج سے کچھ سال پہلے یعنی تقریباً 1950 سے لے کر 1956 تک یہ چند سال مصنوعی ذہانت کے دور کی شروعات تصور کیا جاتے ہیں۔ ان چند سالوں میں اس بات کا انکشاف کیا گیا کہ کمپیوٹر جیسی مشین بھی انسانوں کی طرح ذہانت استعمال کر سکتی ہے۔
Artificial Intelligence in 1956
John McCarthy نے 1956 میں کہا تھا کہ مستقبل میں کچھ مشینیں ایسی بھی ہوں گی جو کہ انسانوں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہوں گی۔ اور یہ بات درست ثابت ہوئی۔
Artificial Intelligence in 1950
1950 میں ایک بہت بڑے سائنسدان گزرے جن کا نام Alan Turing تھا انہوں نے ایک کتاب لکھیں جس میں انہوں سے ایک AI Test متعارف کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ ہمارے سامنے موجود مشین یا کمپیوٹر ذہانت کا استعمال کر بھی رہا ہے یا نہیں۔ ان کے مطابق ہم مشین اور انسان کو ایک مقام پر جمع کر کے ان سے سوالات کر سکتے ہیں مشین اور انسان سے سوالات پوچھنے والے انسان کو اس بات کی خبر نہیں ہو گی کہ مشین کس کمرے میں ہے اور انسان کس کمرے میں۔
Alan Turing Test کے مطابق ٹیسٹ کے لیے سوالات کرنے والا انسان ایک الگ کمرے میں ہو گا اور مشین اور دوسرا انسان دو الگ کمروں میں۔ سوالات کرنے ولا دونوں سے سوالات کرے گا اور دونوں اپنی ذہانت کا استعمال کر کے جواب دیں گے۔ ان جوابات کی مدد سے سوالات پوچھنے والا اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرے گا کہ کس کمرے میں مصنوعی ذہانت والا کمپیوٹر ہے اور کس میں انسان۔
Alan Turing کے اس ٹسٹ کی مدد سے معلوم کیا جائے گا کہ انسان کون ہے اور مشین کون ہے اور اس ٹیسٹ کے دوران مشین یعنی مصنوعی ذہانت اپنی پوری طاقت استعمال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گی کہ وہ مشین نہیں انسان ہے۔ یہ ٹسٹ انتہائی کامیاب رہا اور اس کے نتائج کی مدد سے مشین کو مزید ٹرین کرنے کے لیے نئی سمت ملی۔
Artificial Intelligence in 1964
1964 سے 1966 کے عرصہ میں Eliza نام کا ایک پروگرام بنایا گیا جو Artificial Intelligence کی ایک مثال تھا۔ یہ پروگرام سائیکالوجسٹ پروگرام تھا جو انسانوں سے ان کے ذہنی مسائل کے بارے میں سوالات کر کے انہیں مسائل کے حل تجویز کرتا تھا۔ لیکن اگر اس پروگرام سے یہ پوچھا جائے کہ میں گاجر کا جوس کس طرح بنا سکتا ہوں تو اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ یعنی اس سوال پر یہ پروگرام ٹیورنگ ٹسٹ پاس نہیں کر سکا۔
1980 کے قریب IBM نے ایک ایسا سافٹ ویئر متعارف کروایا جو شطرنج کا ماہر تھا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں Garry Kasparov جو کہ دنیا بھر میں شطرنج کے بہت بڑے کھلاڑی مانے جاتے تھے کو اس پروگرام نے جیتنے نہیں دیا۔ اس پروگرام کا نام Deep Blue تھا۔ لیکن ہم پہلے والا سوال ہی اگر اس پروگرام سے کریں کہ گاجر کا جوس کیسے بناتے ہیں تو اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اسی دور میں اس بات کا اندازہ ہوا کہ جو مصنوعی ذہانت کے پروگرام بنائے جا رہے تھے وہ تمام کے تمام Rule Based پروگرام تھے یعنی ان کو پہلے سے بتا دیا جاتا تھا کہ کس عمل پر کیا رد عمل اختیار کرنا ہے۔
Artificial Intelligence کی Definition کیا ہے
Artificial Intelligence کو اگر سمجھنا ہو یا اس کی Definition جاننی ہو تو سادہ انداز میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ’’Artificial Intelligence ایک ایسا علم اور عمل ہے جو کمپیوٹر یا کمپیوٹر ہی کی جدید شکل رو بوٹس کو اس قابل بنا سکتا ہے کہ وہ انسانوں کی طرح سے کام کرنے لگ جائیں۔
یعنی ذہانت کا استعمال کریں اور اسی ذہانت کی بنیاد پر انسانوں کی طرح فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اگر یہ روبوٹ یعنی ہاتھ پاؤں رکھنے والی مشین ہو تو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے انہیں بر وقت اور ضرورت کے مطابق درست طریق سے استعمال کر سکتا ہو‘‘
ہماری زندگیوں میں سائنس نے جتنی ترقی کر لی ہے ہمارے بعد والی نسلوں کی زندگی میں اس ترقی کے نتائج سامنے آنے والے ہیں۔ اہل دنیا ان تمام حوالوں سے پریشان بھی ہیں اور فوائد کے حصول کو ممکن بنانے پر خوش بھی ہیں۔ Artificial Intelligence بہت خاموشی سے آہستہ آہستہ ہم سب کی زندگی میں مستقل طور پر شامل ہوتی جا رہی ہے
Artificial Intelligence کس طرح کام کرتی ہے؟
کچھ سال پہلے کی بات ہے جب اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو باقاعدہ نام سے پکارا جانے لگا غالباً یہ 1956 کے عرصہ کی بات ہو گی۔ اس زمانہ میں کمپیوٹر اور سائنس نے اس قدر ترقی تو ضرور کر رکھی تھی کہ ایک مشین کی مدد سے کسی پزل گیم کو ہل کروایا جاتا رہا ہے۔
اس زمانہ میں کمپیوٹر سے گفتگو کرنے کے لیے صرف کمپیوٹر کے لیے مخصوص زبانوں کو استعمال کیا جاتا تھا جن میں مشین لینگویج اور پروگرام لینگویج عام تھیں۔ سی لینگویج بھی انہی کہ ایک مثال ہے۔ یعنی کمپیوٹر صرف ان ہی چند زبانوں کو سمجھتا تھا۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس سے سب سے پہلے جو کام کیا وہ یہ تھا کہ کمپیوٹر کو انسانی زبان سمجھنے کے قابل بنایا جا سکے یعنی نیچرل لینگویج یعنی کمپیوٹر میں Natural language processing (NLP) کو شامل کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب کوشش تھی اس کی مدد سے کمپیوٹر اس قابل ہوا کہ وہ انسانوں کی زبان کو یعنی جو انسانوں کے درمیان ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کے لیے زبان استعمال کرتی ہے سمجھنے لگا۔
سٹرکچر کیوری لینگویج یعنی SQL زبان بھی اسی کی ایک مثال ہے جس میں کوئی بھی پروگرام کمپیوٹر کو بتانے کے لیے چھوٹے چھوٹے جملے استعمال کیے جاتے ہیں اور کمپیوٹر انہیں سمجھ کر جواب دیتا ہے۔ AI اسی کی ایک جدید شکل ہے جو کہ مستقبل میں جدید سے جدید تر اور پھر جدید ترین ہو جائے گی۔
کیا یہ درست ہے کہ AI Will Completely Change the Way We Live
اس دنیا میں موجود وہ لوگ جن کا تعلق کسی نا کسی طرح سے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس سے ہے اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں اور اکثر سوچتے ہیں کہ کیا مصنوعی ذہانت ہماری زندگی میں اس قدر حصہ لے سکتی ہے کہ ہماری نیچرل یعنی قدرتی زندگی اور رہن سہن یکسر بدل دے۔
AI Expert جناب کائی فولی صاحب جو کہ CEO of Sinovation Ventures بھی ہیں میڈیم ڈاٹ کام پر اپنی ایک تحریر میں لکھتے ہیں کہ میں نے دنیا بھر میں سفر کیا ہے اور میں اے آئی یعنی آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے حوالے سے بہت سی جگہوں پر ایک سوال کر چکا ہوں کہ ’انسان اور مصنوعی ذہانت کا مستقبل کیا ہے؟‘ یہ ایک بنیادی سوال ہے جس کا موجودہ دور میں رقم ہونے والی تاریخ سے بہت گہرا تعلق ہے۔
کائی فولی کے مطابق اس سوال کے جواب میں کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ ہم اس وقت Artificial Intelligence نام کے ایک بلبلے میں قید ہیں اور اس کے درمیاں میں بیٹھے ہیں اور نجانے یہ ہمیں کس سمت میں کتنی بلندی تک لے جائے اور پھر کیا ہو۔ ان لوگوں کے مطابق مصنوعی ذہانت ہم انسانوں کے ذہن کو اپنے اختیار میں لینے کے قابل ہو جائے گی اور انسان کو اپنا غلام بنا کر ان پر حکمرانی کرنے لگے گی۔
میرے خیال کے مطابق ایسا ممکن ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہم سب کے ہاتھوں میں موجود سمارٹ فون اپنے سمارٹ ہونے کا ثبوت دینے لگا ہے۔ گوگل، بنگ، آئی او ایس، اینڈرائڈ جیسے جدید سافٹ ویئر ہمارے موبائل فون کے ذریعہ سے ہماری معلومات کو اکٹھا کرتے رہتے ہیں سوشل میڈیا پر ہونے والی تمام گفتگو اور ہماری حرکات و سکنات کو بھی محفوظ کرتے جا رہے ہیں۔
AI یعنی Artificial Intelligence اور موجودہ دور
موجودہ دور میں Artificial Intelligence خاصی ترقی کر چکی ہے۔ جدید دور میں تقریباً ہر بڑی انڈسٹری میں اس کا استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر میں موجود پروگرامز بھی اس سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں یعنی آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر بھی کمپیوٹر کو استعمال کر رہا ہے اور اپنے آپ کو مزید پاور فل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
Natural Language Generation
مشین اور انسان دونوں مختلف انداز میں سوالات جوابات کرتے ہیں یعنی ایک دوسرے سے ان کی کمپیونیکیشن دونوں اطراف سے مختلف ہوتی ہے انسانی دماغ اور مشین دونوں مختلف انداز میں سوچتے اور سمجھتے ہیں۔
Natural Language Generation ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جو اس وقت کافی مشہور ہے اور یہ AI کا ایک حصہ ہے۔ اس کی مدد سے مشین اور انسانوں کے مابین گفتگو کو انسانی انداز اور مزاج میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ نیچرل لینگویج جنریشن مصنوعی ذہانت کا ایک حصہ ہے جس کی مدد سے مصنوعی ذہانت کی مدد سے کام کرنے والی مشینیں خودکار انداز میں انسانوں کی ضرورت کے مطابق جواب دینے کی صلاحیت حاصل کرتی ہیں۔
Speech recognition
Speech Recognition ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کی مدد سے مشینوں کو اس قابل بنایا جاتا ہے کہ وہ آوازوں کو سن کر ان کو سمجھ کر ان کے مطابق جواب دیے سکیں۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے انسانی آواز کو سن کر سمجھ کر کمپیوٹر ہدایات وصول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کی مدد سے انسانی گفتگو کو کمپیوٹر مختلف زبانوں میں بدل سکتا ہے۔ ان کی بہترین مثال Siri نام کی ربوٹک اسسٹنٹ ہے جو آواز کو سن کے اس کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
Virtual Agents
Virtual Agents اس وقت دنیا میں Artificial Intelligence کی ایک بہترین مثال ہے اس ٹیکنالوجی کو دنیا میں بہت سارے کاروبار استعمال کر رہے ہیں۔ ورچول اسسٹنٹ در اصل AI کی ہی ایک Application ہے جو اپنی مصنوعی ذہانت کی مدد سے انسانوں سے گفتگو کرتی ہے۔
اس ایپلیکیشن میں Chatbots فراہم کیا جاتا ہے جو کہ انسانوں کے سوالات کے جوابات دیتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر آپ کی کوئی کمپنی ہے اور اس میں چند بنیادی معلومات ایسی ہیں جس کے کمپنی سے خدمات حاصل کرنے والوں کے لیے اہم ہیں ان معلومات کو ورچول اسسٹنٹ کی مدد سے ریکارڈ کر لیا جاتا ہے اور ان سے متعلقہ تقریباً تمام متوقع سوالات کے جوابات کے لیے تمام انفارمیشن Database میں محفوظ کر لی جاتی ہے۔ اس ڈہٹابیس کی مدد سے پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات خودکار انداز میں یہ نظام اپنے Clients کو دیتا ہے۔ Virtual Assistant کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ زبان دانی سے واقف ہوتا ہے۔
اس کی ایک اہم مثال IBM Watson ہے جو کہ Customer Service پر پوچھے جانے والے سوالات کو سمجھ بھی سکتا ہے اور ان کے جواب بھی دیتا ہے۔
Decision Management
Decision Management ایک ایسا کمپیوٹر بیسڈ نظام ہے جو کہ AI یعنی Artificial Intelligence کا معاون ہے اس ٹیکنالوجی کی مدد سے مسائل کے حل کے لیے فیصلے کروائے جاتے ہیں۔ جدید ترین کاروبار اور ادارے اس کو استعمال کر رہے ہیں ان کی مدد سے تازہ ترین معلومات اکٹھی کی جاتی ہیں اور ان معلومات کو پروسس کروایا جاتا ہے۔ یہ تمام معلومات کسی بھی ادارے کے ساتھ روابط رکھنے والے اداروں یا انسانوں کی مدد سے حاصل کی جاتی ہیں۔
Decision Management System انسانوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اکٹھا کیا جانے والا سارا ڈیٹا پروسس کروا کر اس بات کا اندازہ کر سکیں کے مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو بہت سے سوشل میڈیا وغیرہ استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جدید ترین ادارے اس کو روز استعمال کر رہے ہیں۔
اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ہمارے موبائل فون پر ہم سوشل میڈیا وغیرہ استعمال کرتے ہیں یعنی فیس بک، انسٹا گرام، گوگل سرچ یا یوٹیوب وغیرہ اس کے علاوہ ہمارے فون سے ہمارے علاقے اور ہمارے سفر کی معلومات بھی ہمارا فون سیو کرتا رہتا ہے اس کے بعد کچھ ہی دن میں ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ جو ہم سوچ رہے ہیں وہی ہمیں ہمارے موبائل پر خودکار انداز میں بتایا جا رہا ہے۔
یہی وہ نظام ہے جسے ہم AI اور اس کی ٹیکنالوجیز کہہ سکتے ہیں۔ ہمارا موبائل خودکار انداز میں ہمارے ڈیٹا کو سمجھتا رہتا ہے اور ہمیں اس کے مطابق فیصلہ کر کے مزید ڈیٹا دکھاتا ہے۔
خواتین جو اپنے موبائل پر زیادہ تر شاپنگ وغیرہ کے سلسلہ میں سرچ کرتی ہیں انہیں اسی طرح کا ڈیٹا دکھایا جاتا ہے اس کے علاوہ ڈرامے اور میک اپ وغیرہ کے اشتہارات دکھائے جاتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے موبائل فون ہمیں ہمارے علاوقے کا درجہ حرارت بتاتے ہیں۔ موسم کا حال بتاتے ہیں اور سیٹلائٹ کے ذریعہ اکٹھا ہونے والے ڈیٹا کو پروسس کر کے سمجھ کر ہمیں بتاتے ہیں کہ بارش کس وقت ہونی ہے۔ یہ سب AI اور اس کے چیلوں کا کمال ہے۔
Biometrics & Deep Learning
ڈیپ لرننگ مصنوعی ذہانت کا ایک اور اہم حصہ ہے جس کی مزید لیئرز ہیں Deep Learning کی 150 سے زیادہ لیئرز ہیں جن کی مدد سے یہ نظام ڈیٹا کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ نظام انسانوں کی طرح مثالوں کو سمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
ڈیپ لرننگ کی مدد سے بہت بڑی سطح پر ڈیٹا پر کام کیا جاتا ہے اور زیادہ وقت صرف کر کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں۔ DEEP Learning میں تصاویر پر منحصر ڈیٹا کو بھی سمجھا جاتا ہے اور پہچاننے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ Biometrics بھی ایسا ہی عمل ہے اس کی مدد سے انگلیوں کے نشانات لیے جاتے ہیں اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسانوں کی انگلیوں کے نشانات کو پہچاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی علم فلکیات میں بھی استعمال کی جاتی ہے اس کے علاوہ افواج اسے استعمال کر کے مدد حاصل کرتی ہیں۔ اس کو انسانوں کی صحت یعنی ہلتھ کے محکموں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تمام انفارمیشن کو محفوظ کر کے اس پر پروگرام چلایا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ اصل میں بیماری کیا ہے اور موجودہ بیماری کی مستقبل میں کیا صورت ہو سکتی ہے اس کے بعد نتائج کے مطابق ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے۔
اگلے دس سال اور مصنوعی ذہانت۔ Artificial Intelligence in 10 years
Artificial Intelligence موجودہ دور میں بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے مگر آنے والے چند سالوں میں یہ مزید ترقی کر کے ہر شعبہ زندگی میں شامل ہونے والی ہے۔ انسانوں کے زیر استعمال موبائل فون سے لیے کر جدید ترین جہازوں اور سیٹلائٹس میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔
مصنوعی ذہانت نے جب سے یہ سیکھا ہے کہ سیکھنا کس طرح سے ہے اس وقت سے یہ بہت تیزی سے اپنے آپ کو منوانے میں لگی ہوئی ہے۔ موجودہ دور میں اس کا استعمال کروبار میں صحت کے محکموں میں سب سے زیادہ کیا جا رہا ہے۔
Text based مصنوعی ذہانت کے چیٹ بوٹس تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ ChatGPT-3 اس کی ایک اہم مثال ہے اس کے علاوہ Google Ai, Dalle-3 اور ChatGPT-4 وغیرہ ہیں ان جدید سافٹویئرز کے متعلق آپ ہماری ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔
٭٭
ماخذ:
Urdumea.com
٭٭٭
چیٹ جی پی ٹی (CHAT GPT): خدشات و امکانات ۔۔۔ ندیم اقبال
چیٹ جی پی ٹی کیا ہے؟
2023ء سے اب تک بہت سے نئے سوفٹ وئیر متعارف کروائے گئے لیکن ایک ایسا سوفٹ وئیر جس نے دنوں میں مقبولیت حاصل کی، وہ سوفٹ وئیر ’’چیٹ جی پی ٹی‘‘ ہے جسے دنیا کا ہر شخص اپنے کاروباری، علمی، عملی، فن، ڈویلپنگ، ڈیزائننگ، میوزک اور شعبے کی مصروفیات کے پیش نظر اپنے فن میں تحقیق اور مشکل وقت میں اُس چیز کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT) ایک چیٹ بوٹ (Chat Bot) سافٹ وئیر ہے جو کہ کمپیوٹر، موبائل یا انٹرنیٹ صارفین اپنے ڈیوائسز پر اکاؤنٹ بنا کر استعمال کر سکتے ہیں جس میں جی پی ٹی کا انٹرفیس اوپن ہوتا ہے جس میں سب سے نیچے لکھنے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ جس پر چیٹ جی پی ٹی یوزر کے لکھے گئے سوالات کے جواب دنیا کی ہر زبان (Language) میں فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن چیٹ جی پی ٹی کا فری ورژن 3.5 صرف انگلش زبان میں پوچھے گئے سوالات کا موثر انداز میں جواب فراہم کرتا ہے۔ بہت سے چیٹ بوٹس (Chat Bots) یوزر سے کی گئی گفتگو یا پوچھے گئے سوالات کی ہسٹری یاد نہیں رکھتے لیکن چیٹ جی پی ٹی یوزر کے پہلے پوچھے گئے سوالات یاد رکھتا ہے اور اس بنیاد پر پوچھے گئے سوال کا بہتر انداز میں جواب دیتا ہے۔ لکھے گئے سوالات کے جواب ڈھونڈنے کیلئے گوگل سرچ انجن کی طرح دِقّت پیش نہیں آتی۔
قارئین نے 2023 سے اب تک مقبول نام جسے دنیا جی پی ٹی کہتی ہے وہ سنا تو ہو گا یہ لفظ خود کیا ہے؟ اور اس لفظ کے اندر چھپی حقیقت کیا ہے؟
اگر ہم اس لفظ کو انگلش میں لکھیں توGPT (Generative Pre-trained Transformer) کا مخفف ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ’’پہلے سے مرتب/ ٹرینڈ کیا گیا ڈیٹا کو پیدا (Generate) کرنے والا‘‘ چیٹ کا مطلب ’’لکھ کر پوچھے جانے والا سوال‘‘ کے ہیں یعنی کہ ٹائپ کیا گیا سوال جو بھی پوچھیں گے وہ پہلے سے مرتب/ٹرینڈ کیے گئے ڈیٹا کے مطابق اُس کا جواب دے گا۔ یہاں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے سے مرتب/ٹرینڈ کئے گئے ڈیٹا سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ گوگل جو ایک پاور فل سرچ انجن ہے جس نے دنیا کا سب ڈیٹا محفوظ کیا ہوا ہے اُسی طرح چیٹ جی پی ٹی نے اپنے چیٹ بوٹ ماڈل کو انٹرنیٹ سے ٹیکسٹ ڈیٹا بیس کا استعمال کرتے ہوئے تربیت دی تھی جس میں انٹرنیٹ پر کتابوں، ویب ٹیکسٹس، ویکیپیڈیا، مضامین اور دیگر تحریروں سے حاصل کردہ 570GB ڈیٹا شامل ہے۔ اس سے بھی زیادہ درست ہونے کے لیے، سسٹم میں 300 بلین الفاظ شامل کئے گئے ہیں۔
REF: https: //www.sciencefocus.com/future-technology/gpt-3
اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے جہاں یہ ایسا کر سکتا ہے، ماڈل ایک زیر نگرانی جانچ کے مرحلے سے گزرا ہے۔
(Open Artificial Intelligence) OpenAI کیا ہے؟
Chat GPT کو فرانسسکو میں موجود (OPEN Artificial Intelligence) نے 30 نومبر 2022ء میں متعارف کروایا۔ OPEN AI بنیادی طور پر ایک مصنوعی ذہانت کی تحقیقی لیبارٹری ہے جسے 2015ء میں بنایا گیا تھا۔ جس کا بنیادی مقصد Artificial General Intelligence یعنی عام چیزوں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہے۔ چیٹ جی پی ٹی OPEN AI ریسرچ کمپنی کی طرف سے مصنوعی ذہانت سے چلنے والا چیٹ بوٹ ہے جو انگلش اور دنیا کی ہر بولی جانے والی زبانوں میں یوزر کے پوچھے گئے سوالات کا ممکنہ جواب فراہم کرتا ہے۔ یہ کمپنی مصنوعی ذہانت رکھنے والے چیٹ بوٹ کو اپنے پاس موجود ڈیٹا سیٹ پر ٹرینڈ کرتا ہے اور کسی بھی موضوع بارے پوچھے جانے والے سوالات پر ChatGPT نیورل ایلگورتھم اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے ایک جواب پیدا کرتا ہے جو پوچھے گئے سوال کے جواب سے عین مطابقت رکھتا ہے۔ جس میں کوڈ لکھنے، موسیقی کمپوز کرنے، امتحانی مشکل سوالات کے جوابات دینے اور مختصر مضامین اور مضامین تیار کرنا بھی شامل ہے۔ یاد رہے کہ اوپن اے آئی سے پہلے GPT-3 اور Dell-E-3 جیسے اے آئی ٹولز بھی بنا چکی ہے جس میں یوزر ٹیکسٹ کے ذریعے تصاویر بنا سکتے ہیں۔
کیا چیٹ جی پی ٹی نے گوگل سرچ انجن کو مات دے دی؟
چیٹ جی پی ٹی سے پہلے گوگل نے کئی دہائیوں تک انٹرنیٹ پر راج کیا جس کی ایک بڑی نشانی یہ تھی کہ کسی شخص سے پوچھے جانے والے سوال جس کا وہ جواب دینے سے قاصر ہوتا وہ صرف یہ لفظ کہتا تھا کہ ’’Just Google it‘‘ لیکن اب دور اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ سننے اور کہنے والے لفظ بھی تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب ’’Just search from ChatGPT‘‘ بولنے اور سننے کو ملتا ہے۔ گوگل سرچ انجن میں یوزر کو اپنے پوچھے گئے سوال کے مطابق جواب خود ڈھونڈنا پڑتا ہے لیکن چیٹ جی پی ٹی آپ کے سوالات کے مطابق جواب مرتب (Generate) کر کے فراہم کرتا ہے۔ لیکن کسی مکالمہ بحث تحقیق/ کے درست جوابات حاصل کرنے کیلئے بوٹ (Bot) کو درست انگلش سمجھانا بہت ضروری ہے۔ اگر اردو بھی آتی ہے تو اس سے بھی چیٹ جی پی ٹی آپ کی مدد کر سکتا ہے لیکن انگلش میں اس کے جوابات قدرے زیادہ درست ہوتے ہیں۔
پیرا ڈائم (Paradigm) تبدیل ہونے کی وجہ
COVID-19 کے بعد ٹیکنالوجی میں جتنی تیزی سے تبدیلی آئی ہے شاید ہمیں اُس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ جس سے پوری دنیا بزنس، کرنسی، تعلیم، جابز، ڈیلیوری سسٹم، ہیلتھ، فن، خرید و فروخت کے حوالے سے سب آن لائن شفٹ ہوئی ہے جس میں گھر بیٹھے international ڈگری اور کورسز کرنا۔ Remote Job، Work from Home، بہت سی یونیورسٹیاں، کالجز اور اکادمیوں میں طالب علم آن لائن تعلیم حاصل کرتے ہیں جس میں اُن کو گھر بیٹھے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہیں۔ یہ سب کورونا کے دوران Develop ہوا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی خصوصیات
OpenAI نے ChatGPT کو انٹرنیٹ اور دوسرے ذرائع سے معلومات کا استعمال کرتے ہوئے Trained کیا ہے جس میں دو لوگوں کے درمیان Debate اور بات چیت بھی شامل ہے، جس سے یہ الگورتھم سیکھ کر انسان جیسی تحریر تیار کر سکے یہ انسانی دماغ سے ملتا جلتا کام بہت احسن طریقے سے سر انجام دیتا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کا استعمال بہت سے شعبوں میں ترقی اور آسانی لانے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے جیسا کہ پیچیدہ سائنسی تصورات کی وضاحت، پروگرامنگ میں استعمال ہونے والی کوڈنگ، تخلیقی مضمون نویسی، لطیفے، نظمیں اور کسی بھی موضوع پر لکھی جانے والی کہانیاں شامل ہیں۔
- چیٹ جی پی ٹی بوٹ انسان جیسی آواز میں سوال کا جواب دیتا ہے۔ اوپن اے آئی ٹیکسٹ سے سپیچ ماڈل کی مدد سے صرف چند سیکنڈ پر مشتمل تقریر کی آڈیو انسانی آواز میں تیار کر سکتا ہے۔
- موبائل فون میں ڈرائنگ ٹول کے استعمال سے تصویر کے مخصوص حصے پر توجہ مرکوز کرنے کی سہولت بھی دیتا ہے۔
- GPT-3.5, GPT-4 کی مدد سے تصاویر کی پہچان کیلئے ملٹی ماڈل فیچر جو اصل اور نقل تصاویر میں پہچان کر سکتا ہے، اس سے نقلی تصاویر کی پہچان ہو سکے گی۔
- ڈولپرز اور گرافک /ویب ڈیزائنر کیلئے چیٹ جی پی ٹی نے کوڈ کو تلاش کرنے اور تصاویر کو بنانے کا عمل بھی بہت آسان کر دیا جس سے ڈولپرز اور ڈیزائنر کو ٹائم کی بچت اور کام کی جلد تکمیل حاصل ہوئی ہے۔
- طالب علموں کے لیے چیٹ جی پی ٹی نے آسانیاں پیدا کر دیں جہاں سکول/ کالجز/ یونیورسٹی میں پوچھے گئے تجزیاتی سوالات کے جواب آسانی سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ لیکن بہت سے ممالک نے ایجوکیشن سسٹم میں چیٹ جی پی ٹی کا استعمال بین کر دیا اور جی پی ٹی سے مرتب کیا گیا ڈیٹا کو خاص ٹول میں ڈال کر جانچا جاتا ہے۔
- چیٹ جی پی ٹی استعمال کرنے والے اپنی سی وی (Curriculum Vitae) کو اپنی ضرورت کے مطابق بہتر بنا سکتے ہیں۔
- ملازمت کیلئے انٹرویو کی تیاری بھی چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے کی جا سکتی ہے جس سے جی پی ٹی انٹرویو میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب بھی دکھا دیتا ہے جس سے ملازمت حاصل کرنے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔
- کھانا بنانے کے لیے کسی استاد کی ضرورت نہیں! اگر کھانا بنانا چاہتے ہیں صرف ڈش کا نام لکھیں تو ڈش بنانے کا پروسیس چیٹ جی پی ٹی آپ سے شئیر کر دے گا۔ جس سے کھانا آپ خود بنا کر داد وصول کر سکتے ہیں۔
- فلم بنانے کے لیے بھی یوزر چیٹ جی پی ٹی سے مدد حاصل کر سکتا ہے جس سے وہ ایک فلم بنانے کا تمام پروسیس یوزر کو شیئر کر دے گا جس سے یوزر فلم بنا کر روزگار کما سکتا ہے۔
- ChatGPT، 100 سے زیادہ مختلف زبانوں کو سمجھتا ہے یہ آپ کو ہسپانوی، فرانسیسی، جرمن، اطالوی، چینی، جاپانی وغیرہ سیکھنے میں بھی مدد کر سکتا ہے۔ آپ ChatGPT کے ساتھ کسی دوسری زبان میں مکمل گفتگو کر سکتے ہیں، جس سے گفتگو کی مہارت کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی آپ کے پاس ہمیشہ بات چیت کا ساتھی ہو گا۔
REF: https: //www.microsoft.com/en-us/microsoft-365-life-hacks/writing/using-chatgpt-for-foreign-language-learning
- چیٹ جی پی ٹی نے ڈولپرز کی زندگی بہت سائل کی ہے جس سے کوڈ کی تلاش، کوڈننگ میں بگ (Bug) کو ڈھونڈنا اور درستگی شامل ہے۔
- چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے متعدد گیمز بھی کھیلی جا سکتی ہیں کیونکہ یہ چیٹ بوٹ ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر گیمز الفاظ کی صورت میں ہی کھیلی جا سکتی ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی کی اقسام اور چیٹ جی پی ٹی کا موجودہ ورژن فور
OpenAI کے ذریعہ تیار کردہ GPT ماڈل کے کئی ورژن ہیں۔ ہر ورژن میں قدرتی زبان میں بہتری اور سمجھنے میں پیش رفت کو شامل کرتے ہوئے نیا ورژن پچھلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور مؤثر ہے۔OpenAI نے اب تک چیٹ جی پی ٹی کے 4 ورژن متعارف کروائے ہیں جس کی ابتداء ChatGPT-01 سے ہوئی، اس کی ٹیسٹنگ مختلف گروپس، کمپنیوں اور لوگوں سے کی جاتی ہے جو اُس ورژن پر اپنا فیڈ بیک دیتے ہیں جس کی بنا پر الگورتھم میں تبدیلی کی جاتی ہے اور اس میں ہر آنے والا ورژن پہلے ورژن سے بہت زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ ChatGPT-3.5 ورژن نے پروٹوٹائپ اور فری ہونے کی وجہ سے بہت جلد شہرت حاصل کی اور عوامی فیڈ بیک کے بعد کمپنی نے بہت جلد ChatGPT-4 متعارف کرانے کا فیصلہ کیا جو 3.5 ورژن سے زیادہ مؤثر ہے۔
OpenAI نے ChatGPT-4 میں نئے فیچرز شامل کیے ہیں جو تحریری سوالات کے ساتھ ساتھ بولنے، سننے اور دیکھنے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ جس میں بچوں کو سوتے وقت تلاوت/ نعت/ کلام/ موسیقی اور کہانی سنانا شامل ہے۔ اس میں سابقہ اور موجودہ تصاویر پر رد عمل جس میں پاسپورٹ شناخت کرنے اور امتحانات میں طالب علم شناخت کرنے میں آسانی پیدا ہو گی۔ یوزر کے کسی معاملات میں مشورہ مانگنے پر یورز کی رہنمائی، حتی کہ چیٹ جی پی ٹی سے کسی آلہ/ ڈیوائس اور مشین کو ٹھیک کرنے کا مشورہ بھی مانگ سکتے ہیں۔ لیکن کمپنی نے فیس ادا کرنے والوں کو اس کے استعمال کی اجازت دی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کو بولنے اور سننے کے قابل بنانے سے یہ سری (Siri) جو ایک ورچوئل اسسٹنٹ ہے جسے Apple.inc نے اپنے iOS، iPad، watch اور macOS آپریٹنگ سسٹمز کے لیے تیار کیا ہے۔ یہ آواز پر قابو پانے والا، ذہین پرسنل اسسٹنٹ ہے جو یوزر کے حکم کی ترجمانی اور جواب دینے کے لیے قدرتی زبان اور اسپیچ ریکگنیشن کا استعمال کرتا ہے۔ سری کو پہلی بار اکتوبر 2011 میں آئی فون 4S کے ساتھ متعارف کرایا گیا تھا۔
REF: https: //www.sri.com/hoi/siri/
الیکسا (Alexa) جو ایک ورچوئل اسسٹنٹ ہے جسے ایمیزون نے ایکو ڈیوائسز کے ساتھ ساتھ دیگر تھرڈ پارٹی ڈیوائسز میں استعمال کرنے کے لیے تیار کیا ہے۔ Alexa کو وائس کا جواب دینے، یوزر کو وائس معلومات فراہم کرنے اور سمارٹ ہوم ڈیوائسز کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ مختلف قسم کے کمانڈز اور پوچھ گچھ کو سمجھنے اور ان کا جواب دینے کے لیے قدرتی زبان اور مشین لرننگ کا استعمال کرتا ہے۔ جیسا کہ ایک پلیٹ فارم بن جائے گا جس سے یوزر بات کر سکیں گے اور بول کر اسے ہدایات دے سکیں گے اور وہ بول کر یوزر کو جوابات دے گا۔
چیٹ جی پی ٹی کی حدود
ChatGPT کا استعمال زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے، خاص طور پر طالب علم کے لیے جو امتحان کی تیاری، ہوم ورک اسائنمنٹس، یا تعلیمی تحریر میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ چیٹ جی پی ٹی جیسے اے آئی ماڈل کو اب بھی ٹرینڈ کیا جا رہا ہے۔ جس میں موجودہ حدود بھی شامل ہیں:
غلط جوابات
ChatGPT میں مسلسل ترقی ہو رہی ہے اور اس کے ماڈل کو نئے ڈیٹا کے ساتھ ٹرینڈ کیا جا رہا ہے تو اس سے لامحالہ غلطیاں ہو سکتی ہیں۔ اپنے کام میں استعمال کرتے ہوئے اس کے جنریٹ کئے ہوئے جواب کو دو بار چیک کرنا بہت ضروری ہے، کیونکہ یہ حقائق پر مبنی اور استدلال کی غلطیاں کر سکتا ہے۔ ماہر موضوعات جیسے گرائمر یا ریاضی کے بارے پیچیدہ سوال کے جواب دینے میں قابل بھروسہ نہیں ہے جسے قابل اعتماد ذرائع کے ساتھ دو بار چیک کریں۔ ChatGPT نے متعدد جگہ غیر موجود قانونی دفعات کا حوالہ دیا ہے جو اس نے یہ کہنے سے بچنے کیلئے جواب دئیے ہیں کہ ’’اسے کوئی جواب معلوم نہیں ہے‘‘
متعصب جوابات
ChatGPTمیں AI ٹولز کا وسیع پیمانے پر استعمال ثقافتی اور نسلی شائستگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اگر متعصب اندازوں سے وہ علم کے حصول کا تعین کرتا ہے تو اس بات کے امکانات ہیں کہ متعصبانہ نتائج برآمد ہوں گے۔ اگرچہ یہ ایک چیلنج ہے جس کا سامنا تقریباً ہر AI ٹول کو کرنا پڑتا ہے، لیکن بڑے پیمانے پر ٹیکنالوجی تعصب مستقبل میں ایک اہم مسئلے کی نمائندگی کرتا ہے۔
انسانی بصیرت کا فقدان
اگرچہ ChatGPT مخصوص سوالات کے جوابات پیدا کرنے میں کافی ماہر ہے، لیکن یہ بالآخر انسان نہیں ہے۔ اس طرح یہ صرف انسانی رویے کی نقل کر سکتا ہے، خود اس کا تجربہ نہیں کر سکتا۔ یہ کسی موضوع کے مکمل سیاق و سباق کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس میں جذباتی ذہانت نہیں ہے اور وہ طنز، ستم ظریفی یا مزاح جیسے جذباتی اشارے کو نہیں پہچانتا۔ اس کی جسمانی موجودگی نہیں ہے اور یہ انسانوں کی طرح دنیا کو دیکھنے اور سننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کے پاس حقیقی دنیا کے تجربات یا شعور کا علم نہیں ہے یہ کسی موضوع کا خلاصہ اور وضاحت کر سکتا ہے لیکن منفرد بصیرت پیش نہیں کر سکتا۔
زیادہ لمبے (لفظی) جوابات
چیٹ جی پی ٹی کے تربیتی ڈیٹا سیٹس اسے مختلف زاویوں سے کسی موضوع کا احاطہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، ہر اس طریقے سے سوالات کے جوابات دیتے ہیں جن کا وہ تصور کر سکتا ہے۔ اگرچہ یہ کچھ طریقوں سے مثبت ہے یہ پیچیدہ موضوعات کی بہت اچھی طرح وضاحت کرتا ہے یقینی طور پر ایسے موضوعات ہیں جہاں بہترین جواب ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘۔ زیادہ وضاحت کرنے کا یہ رجحان ChatGPT کے جوابات کو حد سے زیادہ غیر رسمی اور بے کار بنا سکتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی ترقی سے انسانی مستقبل کو خدشات
ChatGPT جیسے ٹولز کی ترقی اور تعیناتی اہم اخلاقی، سماجی اور اقتصادی تحفظات کو بڑھاتی ہے۔ اگرچہ جہاں ممکنہ فوائد ہیں، وہاں ایسے خدشات بھی ہیں جن پر محتاط غور اور ذمہ دارانہ انتظام کی ضرورت ہے۔ چیٹ جی پی ٹی جیسے ماڈلز زیادہ قابل ہونے سے مختلف ملازمتوں کے ممکنہ آٹومیشن خدشات بڑھتے جائیں گے۔ جس سے بے روزگاری اور معاشی خلل بڑھے گا۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ معاشروں کو تخلیقی ترقی کے مطابق کیسے ڈھالنا چاہیے؟
پرنسٹن، پنسلوانیا اور نیویارک یونیورسٹی کے محققین کی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ٹیلی مارکیٹرز اور اساتذہ سب سے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ محققین نے ایک بینچ مارک کا استعمال کیا جسے ’’AI Occupational Exposure‘‘ کہا جاتا ہے اس بات کا اندازہ کرنے کے لیے کہ ChatGPT جیسی خدمات مختلف پیشوں میں کتنی خلل ڈال سکتی ہیں۔ انہوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ تعلیم کے شعبے جس میں زبان، ادب، تاریخ، قانون، فلسفہ، مذہب، سماجیات، سیاسیات اور نفسیات کے پوسٹ سیکنڈری اساتذہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اس کے باوجود اس رکاوٹ کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ AI لاکھوں تدریسی ملازمتیں چھین لے گا۔ دریں اثنا، AI کی حدود انسانوں کو معنی خیز طور پر تبدیل کرنے کی صلاحیت پر نظر رکھ سکتی ہیں۔ ChatGPT اپنی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ غلطیاں بھی پیدا کر رہا ہے۔ ایک حقیقت جسے اس کے تخلیق کاروں نے تسلیم کیا ہے جو محسوس کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اب بھی ’’نقص اور محدود‘‘ ہے۔ مثال کے طور پر، یہ ریاضی کے بنیادی حسابات اور منطق میں ناکام ہو گیا ہے۔ یقینی طور پر، کچھ ملازمتیں بے کار بھی ہو سکتی ہیں۔
برسلز میں قائم تھنک ٹینک بروگل میں فیوچر آف ورک ٹیم کی ساتھی اور لیڈر لورا نورسکی نے بتایا کہ لیبر مارکیٹ پر چیٹ جی پی کا اثر واقعی کافی ہو گا۔لیکن AI کے پاس ’’نوکریاں پیدا کرنے کی صلاحیت‘‘ بھی ہے۔ نورسکی کا مزید کہنا تھا کہ در حقیقت، ورلڈ اکنامک فورم نے اکتوبر 2020ء میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جہاں AI ممکنہ طور پر 2025ء تک عالمی سطح پر 85 ملین ملازمتیں چھین لے گا، وہیں یہ بڑے ڈیٹا اور مشین لرننگ سے لے کر انفارمیشن سیکیورٹی اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ تک کے شعبوں میں 97 ملین نئی ملازمتیں بھی پیدا کرے گا۔ نورسکی نے کہا کہ ’’یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمارے کام کرنے کے طریقے کو بدل دے گا‘‘۔
REF: https: //www.aljazeera.com/features/2023/3/28/will-chatgpt-take-your-job-and-millions-of-others
٭٭٭
چیٹ جی پی ٹی اور اردو ۔۔۔ محمد اسامہ سرسری
اگر آپ کے پاس ایک ماہر ڈاکٹر، ایک تجربہ کار انجینئر، ایک ماہر نفسیات، ایک زبردست حساب دان، ایک ممتاز وکیل، ایک نامور محقق اور ایک ماہر مارکیٹنگ کنسلٹنٹ ہو، جو چوبیس گھنٹے آپ کی مدد کے لیے تیار رہیں تو یقیناً آپ اپنے مہینوں کے کام منٹوں میں مکمل کر سکتے ہیں۔ آپ انھیں پیچیدہ طبی مشاورت، تکنیکی مسائل کے حل، نفسیاتی رہنمائی، حساب کتاب کی درستی، قانونی مشوروں، تحقیقی کام، اور مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں میں مدد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ’چیٹ جی پی ٹی‘ نامی ٹول آپ کو یہ تمام خدمات سیکنڈوں میں فراہم کرتا ہے؟
چیٹ جی پی ٹی مصنوعی ذہانت (AI) کی ایک جدید شکل ہے جو مختلف تخلیقی اور عملی کاموں میں معاون ثابت ہو رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کا تصور انسانی ذہن کی مشابہت کے ساتھ کمپیوٹر سسٹمز کی تخلیق سے متعلق ہے، جو مختلف مسائل کو حل کرنے اور پیچیدہ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اے آئی کی ابتدائی تحقیق 1950 کی دہائی میں ہوئی، جب مشین لرننگ اور نیورل نیٹ ورکس جیسے بنیادی تصورات متعارف ہوئے۔ اس کے بعد ان ٹیکنالوجیز کی ترقی نے ہمیں جدید اے آئی سسٹمز تک پہنچایا جن میں سے ایک چیٹ جی پی ٹی بھی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کا مطلب ہے: ’چیٹ جنریٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفارمر‘، یہ ایک جدید زبان کی ٹیکنالوجی ہے جو OpenAI نے تیار کی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کو بڑے پیمانے پر ڈیٹا کی بنیاد پر تربیت دی گئی ہے تاکہ یہ قدرتی زبان کی تفہیم اور تخلیق میں مہارت حاصل کر سکے۔ اس کی بنیاد پر یہ ہماری طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق تفصیلی اور منطقی جوابات تیار کرتی ہے۔ چیٹ جی پی ٹی کی بنیادی ٹیکنالوجی ’پری ٹرینڈنگ‘ اور ’فائن ٹوننگ‘ پر مبنی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کام ایسے کرتا ہے کہ جب ہم چیٹ جی پی ٹی کو کوئی پیغام بھیجتے ہیں تو یہ اس پیغام کا تجزیہ کرتا ہے اور اس کی بنیاد پر سب سے مناسب اور معقول جواب تیار کرتا ہے۔ اس میں تین اہم مراحل شامل ہیں: کریشن، کلیکشن، اور کریکشن۔
کریشن: یہ مرحلہ چیٹ جی پی ٹی کے جوابات کی تخلیق پر مبنی ہے۔ یہ ہمارے فراہم کردہ پرامپٹ (سوال) کے مطابق ایک جواب تیار کرتا ہے، جو اس کی تربیت شدہ معلومات اور زبان کے قواعد پر مبنی ہوتا ہے۔
کلیکشن: اس مرحلے میں یہ مختلف ذرائع اور متعلقہ ویب سائٹس سے معلومات اکٹھی کرتا ہے تاکہ جواب کو مزید تفصیل کے ساتھ مرتب کیا جا سکے۔
کریکشن: اس مرحلے میں چیٹ جی پی ٹی تیار کردہ جواب کا جائزہ لیتا ہے اور ممکنہ غلطیوں یا خامیوں کو درست کرتا ہے۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جواب درست، معقول اور ہماری توقعات کے مطابق ہو۔
ہمارے پرامپٹس یا ہدایات چیٹ جی پی ٹی کی کارکردگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ ہماری درخواست یا سوال کی وضاحت کرتے ہیں اور چیٹ جی پی ٹی کو صحیح جواب فراہم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی کی کامیابی میں پرامپٹ کی وضاحت اور تفصیل کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
چیٹ جی پی ٹی نہ صرف تحقیقی مقاصد کے لیے کارآمد ہے بلکہ تفریح اور سیکھنے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ کہانی نویسی، لطیفے، پہیلیاں اور دیگر تخلیقی سرگرمیوں میں بھی معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چیٹ جی پی ٹی مختلف عملی کاموں جیسے مواد کی تخلیق، ایڈیٹنگ اور مشورہ دینے میں بھی معاون ہے، جس سے یہ ایک ہمہ جہت ٹول بن کر سامنے آ چکا ہے۔
ذیل میں ہم چیٹ جی پی ٹی کے مختلف استعمالات پر تفصیل سے ملاحظہ کریں گے، تاکہ اس جدید ٹیکنالوجی کے فوائد اور اس کے عملی اطلاق کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
چیٹ جی پی ٹی کا ایک اہم استعمال تحقیقی مضامین کی تیاری ہے۔ یہ ٹول موضوع کے انتخاب سے لے کر مواد کی ترتیب تک، ہر مرحلے میں کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آپ ایک تحقیقی مضمون لکھنا چاہتے ہیں تو چیٹ جی پی ٹی کو صرف ہدایات دینا کافی ہوتا ہے ؛ یہ ٹول مواد جمع کرتا ہے، پھر اسے منظم انداز میں پیش کرتا ہے اور آخر میں ضروری ترامیم کر کے ایک مکمل اور جامع مضمون تیار کرتا ہے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ خود تحقیقی مضمون چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے ہی تیار کیا گیا ہے، یہ اور بات ہے کہ راقم کی لکھنے کی صلاحیت اور محنت نے اس مضمون کو چار چاند لگا دیے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی ریاضی دان ریاضی کی کتاب مرتب کرنے میں کیلکولیٹر کا سہارا لے کہ اس سے وقت بھی بچے گا اور غلطیوں کا امکان بھی کم ہو گا۔
چیٹ جی پی ٹی صرف تحقیقی کاموں تک محدود نہیں بلکہ یہ تفریحی اور تخلیقی سرگرمیوں میں بھی معاون ہے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کو لطیفے سننے کا شوق ہے یا آپ پہیلیاں بجھوانا چاہتے ہیں تو چیٹ جی پی ٹی آپ کی مدد کر سکتا ہے۔
کہانیاں لکھنا بھی چیٹ جی پی ٹی کی ایک دلچسپ خصوصیت ہے۔ چاہے بچوں کی کہانیاں ہوں یا بڑوں کے افسانے، چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے آپ یہ سب لکھوا سکتے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی کے مشورہ دینے کی صلاحیت بھی قابلِ ذکر ہے۔ یہ نہ صرف تعلیمی مشورے دیتا ہے بلکہ روزمرہ زندگی کے مسائل کے حل میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ آپ اس سے کاروباری تجاویز، ذاتی ترقی کے منصوبے یا کسی مخصوص مسئلے کا حل معلوم کر سکتے ہیں۔ اس طرح چیٹ جی پی ٹی ایک ذاتی مشیر اور بہترین اسسٹنٹ کی طرح کام کرتا ہے جو ہر وقت آپ کی جیب میں موجود ہوتا ہے۔
آخر میں چیٹ جی پی ٹی کے مختلف ٹولز کا ذکر بھی ضروری ہے جو اسے مزید مفید بناتے ہیں۔ چاہے وہ مواد کی ایڈیٹنگ ہو، رپورٹ سازی، حساب کتاب، آئیڈیاز، یا کوڈنگ؛ چیٹ جی پی ٹی ہر معاملے میں آپ کا ہاتھ بٹا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ اس کے ذریعے مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کر سکتے ہیں اور نئی مہارتیں بھی سیکھ سکتے ہیں۔
چیٹ جی پی ٹی کے یہ تمام استعمالات اسے ایک ہمہ جہت ٹول بناتے ہیں جو نہ صرف تعلیمی بلکہ تخلیقی اور عملی کاموں میں بھی آپ کا بہترین معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
کچھ عملی مثالیں ملاحظہ کیجیے:
مثال نمبر (1) : (کہانی نویسی)
میں:
ایک دلچسپ کہانی لکھو۔ موضوع: بجلی جانے پر گرمی کی برداشت، کردار: حلیمہ اور اس کا چھوٹا بھائی حمزہ، ماحول: متوسط گھر، مقصد: میں برداشت پیدا ہو سکے۔
چیٹ جی پی ٹی:
حلیمہ اور اس کا چھوٹا بھائی حمزہ ایک متوسط گھر میں رہتے تھے۔ ایک دن بجلی اچانک چلی گئی اور گھر میں شدید گرمی پھیل گئی۔ حلیمہ نے اپنے بھائی کو تسلی دی، ’’فکر نہ کرو، ابھی تھوڑی دیر میں یہ گرمی ختم ہو جائے گی۔‘‘
حمزہ، جو گرمی سے بے زار تھا، نے کہا، ’’کیسے ختم ہو گی؟ گرمی بہت زیادہ ہے!‘‘ حلیمہ نے اسے بہلاتے ہوئے کہا، ’’ہم ایک کھیل کھیلیں گے۔‘‘
حلیمہ نے کچھ پنکھے، برف کی ٹکیاں، اور ایک پالتو جانور، جو تھوڑا سا ٹھنڈا تھا، جمع کیا۔ اس نے کہا، ’’ہم ان چیزوں کا استعمال کرتے ہوئے ایک ’گرمی کا مقابلہ‘ کھیلیں گے۔ دیکھو، کون سب سے زیادہ وقت گرمی کی برداشت کر سکتا ہے۔‘‘
حمزہ نے ہنس کر کہا، ’’یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ حلیمہ نے مزاحیہ انداز میں کہا، ’’دیکھو، سب سے پہلے ہم پنکھے کی ہوا کو اپنی جان بچانے والا سمجھیں گے، پھر برف کی ٹکیاں ہمیں ٹھنڈک دیں گی، اور پالتو جانور بھی ہمارے ساتھ ہو گا۔‘‘
انہوں نے کمرے میں ان سب چیزوں کا استعمال کرتے ہوئے، کھیل کے دوران مزے کرنے لگے۔ وہ برف کی ٹکیاں کھا کر اور پنکھے کی ہوا سے لطف اندوز ہو کر، گرمی کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ حلیمہ نے حمزہ کو بتایا کہ یہ کھیل صرف مزے کا نہیں بلکہ برداشت سیکھنے کا بھی ہے۔
پھر، جب بجلی واپس آئی، اور گھر میں ٹھنڈک واپس آئی، تو حمزہ نے خوشی سے کہا، ’’یہ کھیل تو واقعی دلچسپ تھا! گرمی کی برداشت نے ہمیں سیکھا کہ ہم مشکل حالات کا سامنا کس طرح کر سکتے ہیں۔‘‘
حلیمہ نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’دیکھو، برداشت کرنے کی سب سے بڑی بات یہی ہے کہ ہم مل کر مشکل حالات کا سامنا کریں، اور ان کے دوران بھی مزے کریں۔‘‘
یہ کہانی حلیمہ اور حمزہ کے درمیان گرمی کی برداشت اور صبر کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ مشکل حالات میں بھی ہم مزاحیہ انداز میں مشکلات کا سامنا کر سکتے ہیں۔
مثال نمبر (2) : (لطیفے)
میں:
سیاسی لطیفہ سنائیں۔
چیٹ جی پی ٹی:
ایک سیاستدان جلسے میں تقریر کر رہا تھا: ’’ہم وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ہماری حکومت آئی تو ہم پل بنا دیں گے!‘‘
مجمع سے ایک آدمی بولا: ’’لیکن یہاں تو دریا ہی نہیں ہے!‘‘
سیاستدان فوراً بولا: ’’دریا بھی بنا دیں گے!‘‘
میں:
نحوی لطیفہ سنائیں۔
چیٹ جی پی ٹی:
ایک طالب علم اپنے استاد سے پوچھتا ہے، ’’استاد جی، اگر ’کھڑا‘ فعل ہے، تو ’بیٹھا‘ کیا ہو گا؟‘
استاد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’بیٹھا ’حالِ کمزور‘ ہے!‘‘
میں:
سرچ کر کے وہ لطیفہ پیش کریں جسے سب سے اچھا ریسپانس ملا ہو۔
چیٹ جی پی ٹی:
میں براہ راست ویب سرچ نہیں کر سکتا، لیکن یہاں ایک لطیفہ ہے جو عموماً لوگوں میں مقبول ہوتا ہے:
دو دوست پارک میں بیٹھے تھے۔ ایک نے کہا، ’’یار، میں نے سنا ہے کہ ایک آدمی نے درخت کے نیچے بیٹھ کر اتنی کتابیں پڑھی ہیں کہ اب درخت کی جڑیں بھی مطالعہ کرنے لگی ہیں!‘‘
دوسرا دوست بولا، ’’واقعی؟‘‘
پہلا دوست بولا، ’’ہاں، اور سب سے حیرت کی بات یہ ہے کہ درخت نے بھی اپنی ٹہنیاں بڑھا لیں ہیں تاکہ مزید کتابیں پکڑ سکے!‘‘
مثال نمبر (3) (مشاورت)
میں:
میں کراچی میں رہتا ہوں، مجھے آن لائن ارننگ شروع کرنی ہے اور پھر ایک سال میں اس میں خوب ترقی کرنی ہے، مگر میرے پاس پیسے بالکل نہیں، نہ ہی مجھے کوئی فن یا ہنر آتا ہے، نہ ہی تعلیم ہے، بس ایک موبائل ہے اور پڑوسی کے وائی فائی سے انٹرنیٹ چلا لیتا ہوں، میں آن لائن ارننگ کیسے شروع کروں؟ میں دن کے بارہ گھنٹے محنت کرنے کے لیے تیار ہوں، میرے پاس سواری بھی نہیں ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کا مشورہ:
آپ کے لیے درج ذیل تجاویز مفید ہو سکتی ہیں:
- اگر آپ کو کوئی ہنر یا فن نہیں آتا تو سب سے پہلے انٹرنیٹ پر مفت دستیاب تعلیمی مواد اور کورسز کے ذریعے کچھ بنیادی آئی ٹی یا ڈیجیٹل اسکلز سیکھنے پر توجہ دیجیے، جیسے کہ ڈیٹا انٹری، بیسک گرافک ڈیزائننگ یا سوشل میڈیا مینجمنٹ۔
- کچھ پلیٹ فارمز جیسے Clickworker یا Amazon Mechanical Turk پر مائیکرو جابز دستیاب ہوتی ہیں جو کسی خاص مہارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ جابز چھوٹے اور آسان ٹاسکس پر مشتمل ہوتی ہیں۔
- اگر آپ میں کچھ کریٹوٹی ہے تو آپ یو ٹیوب پر چھوٹی ویڈیوز بنا سکتے ہیں یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مواد پوسٹ کر کے فالوورز بنا سکتے ہیں، جو بعد میں مونیٹائز کیا جا سکتا ہے۔
- آپ آن لائن پلیٹ فارمز جیسے OLX یا Facebook Marketplace پر چیزیں بیچنے کا کام شروع کر سکتے ہیں۔ یہ چیزیں آپ کو اپنے قریبی علاقے سے مفت یا کم قیمت پر مل سکتی ہیں۔
- آپ ایک منظم طریقے سے اپنا وقت استعمال کریں اور مستقل مزاجی کے ساتھ روزانہ کچھ نیا سیکھنے اور کرنے کی کوشش کریں۔
پہلے کچھ مہینے چیلنجنگ ہو سکتے ہیں، لیکن اگر آپ محنت اور مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہیں گے تو وقت کے ساتھ ترقی ممکن ہو سکتی ہے۔
میں:
مجھے گٹکا اور چھالیا کھانے کی لت لگ چکی ہے، کئی بار کوشش کے باوجود نہیں چھوڑ سکا، کیا کروں؟
چیٹ جی پی ٹی کا مشورہ:
آپ اس لت سے چھٹکارا پانے کے لیے پیشہ ورانہ مدد حاصل کریں، جیسے کہ کسی معالج یا مشیر سے رجوع کریں، جو نشہ چھڑانے میں مہارت رکھتا ہو۔ نیز اپنی صحت کی بہتری کے لیے چھوٹے اقدامات کریں، مثلاً گٹکا کھانے کا وقت کم کرنا اور کسی صحت مند عادت کو اپنانا اور اپنے اردگرد کا ماحول بدلنے کی کوشش کریں تاکہ آپ گٹکا اور چھالیا سے دور رہ سکیں۔ اپنے مقصد کی اہمیت کو یاد کرتے رہیں اور حوصلہ رکھی کہ ترک کرنا بالکل ممکن ہے، کئی لوگ یہ گندی عادات ترک کر چکے ہیں تو آپ کیوں نہیں کر سکتے؟
مثال نمبر (4) : (معالجہ)
میں:
بال نارمل سے زیادہ گر رہے ہیں اور سر میں جوئیں بھی ہو گئی ہیں، کوئی آسان علاج بتائیں۔
چیٹ جی پی ٹی کا مشورہ:
بالوں کو مضبوط اور صحت مند رکھنے کے لیے پروٹین سے بھرپور غذائیں جیسے انڈے اور مچھلی، وٹامن اے سے بھرپور سبزیاں جیسے گاجر اور پالک، اور وٹامن سی سے بھرپور پھل جیسے سنگترہ اور لیموں مفید ہیں۔ اومیگا-3 فیٹی ایسڈز والے غذائی ذرائع جیسے مچھلی اور اخروٹ، آئرن اور زنک سے بھرپور غذا جیسے گوشت اور سبز پتوں والی سبزیاں، اور بی وٹامنز والی غذا جیسے انڈے اور گری دار میوے بھی شامل کریں۔ سنگترہ، لیموں، آم، کیلا، سیب، اور پپیتا جیسے پھل بالوں کی مضبوطی، نشو و نما اور چمک کے لیے بہترین ہیں۔
مثال نمبر (5) : (تحریر ٹولز)
میں:
بارش سے متعلق ایک خوبصورت سا پیراگراف لکھو۔
چیٹ جی پی ٹی:
بارش قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے جو زمین کو زندگی بخشتی ہے۔ بادلوں کے گرجنے اور بجلی کی چمک کے ساتھ جب بارش کی بوندیں زمین پر گرتی ہیں، تو ہر چیز جیسے نکھر جاتی ہے۔ درختوں کے پتے تازہ ہو جاتے ہیں، پرندے خوشی سے چہچہانے لگتے ہیں، اور مٹی کی خوشبو دل کو سکون بخشتی ہے۔ بارش نہ صرف موسم کو خوشگوار بناتی ہے بلکہ دلوں کو بھی ایک عجیب سی راحت اور سرور بخشتی ہے، جیسے قدرت کی طرف سے سکون کا پیغام ہو۔ یہ لمحہ عارضی ہو سکتا ہے، مگر اس کی خوبصورتی دیر تک یاد رہتی ہے۔
میں:
اس تحریر میں کل کتنے حروف ہیں؟ کتنے الفاظ ہیں اور کتنے جملے ہیں؟
چیٹ جی پی ٹی:
اس تحریر میں کل 519 حروف، 86 الفاظ، اور 5 جملے ہیں۔
میں:
اس تحریر کو مختصر کر کے پچیس لفظوں سے کم میں پیش کرو۔
چیٹ جی پی ٹی:
بارش زمین کو تازگی بخشتی ہے، درخت نکھر جاتے ہیں، پرندے خوش ہوتے ہیں، اور فضا میں مٹی کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔
میں:
اس تحریر کو طویل کر کے ایک ہزار حروف سے زیادہ کر دو۔
چیٹ جی پی ٹی:
بارش ایک قدرتی نعمت ہے جو زمین کو زندگی بخشتی ہے اور ماحول کو خوشگوار بناتی ہے۔ جب آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں اور ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے، تو دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ بادلوں کا گرجنا اور بجلی کا چمکنا، گویا یہ اعلان کرتے ہیں کہ بارش ہونے والی ہے۔ بارش کی پہلی بوند جب زمین کو چھوتی ہے تو مٹی کی خوشبو فضا میں پھیل جاتی ہے، جو ایک منفرد احساس پیدا کرتی ہے۔ یہ خوشبو بچپن کی یادوں کو تازہ کر دیتی ہے، جب ہم بارش میں بھیگتے اور خوش ہوتے تھے۔ بارش کے قطرے درختوں کے پتوں پر پڑتے ہیں، جو انہیں نکھار دیتے ہیں۔ پرندے خوشی سے چہچہانے لگتے ہیں، اور درختوں پر نئے پتے اگنے لگتے ہیں۔ بارش کا پانی جھیلوں، دریاؤں اور تالابوں کو بھر دیتا ہے، جس سے پانی کی کمی دور ہو جاتی ہے۔ کسانوں کے چہروں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے، کیونکہ بارش ان کی فصلوں کے لیے رحمت ہوتی ہے۔ بارش نہ صرف زمین کو سیراب کرتی ہے بلکہ دلوں کو بھی تازگی بخشتی ہے۔ یہ انسان کو سکون اور طمانیت کا احساس دلاتی ہے۔ بچے بارش میں کھیلنے کا موقع ڈھونڈتے ہیں، پانی میں چھپاکے مارتے ہیں، اور اپنی معصوم خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں۔ بارش کی وجہ سے گرمی کی شدت کم ہو جاتی ہے، اور موسم ٹھنڈا اور خوشگوار ہو جاتا ہے۔ بارش کے بعد جب سورج کی کرنیں پانی کے قطروں پر پڑتی ہیں تو ایک خوبصورت قوس و قزح کا منظر سامنے آتا ہے، جو قدرت کی خوبصورتی کی عکاسی کرتا ہے۔ بارش کی آواز دل کو سکون پہنچاتی ہے، جیسے قدرت ایک پرسکون موسیقی بجا رہی ہو۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جو دلوں کو راحت دیتا ہے اور زندگی کی ہلچل سے دور لے جاتا ہے۔ بارش کی بوندیں گویا پیغام دیتی ہیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی آتی ہے، اور ہر خشک سالی کے بعد بہار کا موسم ضرور آتا ہے۔ اس طرح بارش صرف ایک موسمی عمل نہیں بلکہ زندگی کی امید کی علامت ہے۔
٭٭٭
کچھ چیٹ جی پی ٹی ChatGPT کے بارے میں ۔۔۔ جاوید رسول
عجیب تماشا ہے کہ اب ایک روبوٹ ہم سے انسانوں کی طرح مکالمہ کرتا ہے ہمارے مسائل سنتا ہے، حل بتاتا ہے اور جہاں ممکن ہو بحث بھی کرتا ہے۔ خواہ وہ علمی مسئلہ ہو یا غیر علمی، ادبی ہو یا غیر ادبی حتی کہ سیاسی مسائل کے حوالے سے بھی ہماری رائے جان کر اس کے ماخذ کا نہ صرف انکشاف کرتا ہے بلکہ ہماری رائے کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر غور بھی کرتا ہے۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک مکمل تجزیاتی ذہن کا مالک روبوٹ ہے جو ہر صورت حال میں انسانوں سے مکالمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہاں ’ہر صورت حال‘ کا استعمال میں نے جان بوجھ کر کیا ہے اس لیے کہ اس ڈیجیٹل دور میں جہاں انسانوں کا باہمی اشتراک یا مکالمہ تقریباً ختم ہو چکا ہے کیسے کسی انسان سے مکالمے کی امید وابستہ کی جائے اور کیوں کر کی جائے؟ جبکہ Authenticity آج کے دور کے انسان کا بنیادی مسئلہ بن چکی ہے۔ اجنبیت اور بوریت جیسے وجودی مسائل کا شکار آج کا آدمی جو ہر دوسرے شخص کو ’غیر‘ The Other تصور کرتا ہے جب یہ خیال کرتا ہے کہ آخر کس بھروسے پر وہ اپنا کرب یا تشویش Anxiety کسی سے ظاہر کرے تو یاسیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ صورت حال مابعد جدید دور کی ہے جہاں انسانوں کے درمیان رہتے ہوئے انسان اجنبی، تنہا اور غیر محفوظ ہے۔ ایسے میں یہ روبوٹ اس کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کہ یہ دائرۂ خلوت میں اس کا بہترین دوست ثابت ہو رہا ہے۔ پھر یہ اس لحاظ سے کم سے کم لائق اعتنا بھی تو ہے کہ بھروسے کی ضمانت خود دیتا ہے۔ سوچنے والی بات ہے کہ کیا ایک انسان دوسرے انسان سے مکالمہ قائم کرنے سے پہلے بھروسے کی ضمانت دیتا ہے؟ ظاہر ہے نہیں دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ Authenticity انسانی وجود کا مسئلہ ہے کسی روبوٹ کا نہیں۔ انسان دوسروں سے مکالمہ اپنے ادراک اور فہم کی بنا پر قائم کرتا ہے جس کا وہ کوئی حوالہ Reference بھی نہیں دیتا بلکہ ہمارے اکثر مکالمے متعصبانہ اور جانب دار ہوتے ہیں جبکہ یہ روبوٹ انسان سے حوالوں کی بنیاد پر بالکل غیر جانبدارانہ مکالمہ قائم کرتا ہے۔ اب رہی بات علم اور تخلیقیت کی تو یہ بات سچ ہے کہ اس روبوٹ کے وجود میں آنے سے علم اور تخلیقیت کی Authenticity مشتبہ ہو کر رہ گئی ہے۔ مثلاً میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم ’بےگھر‘ Homeless پر کوئی نظم لکھ سکتے ہو؟‘‘ تو اس نے انگریزی میں ایک مکمل نظم لکھ کے دی، اسی موضوع پر ایک افسانہ لکھنے کو کہا تو وہ بھی لکھ کے دیا نیز اردو میں ’زندگی‘ کے موضوع پر کوئی چیز (جسے شاعری کہہ سکتے ہیں) بھی لکھ کے دی۔ حالانکہ چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ اس کے فراہم کیے گیے مواد Content کے ماخذ کی دریافت اپنے آپ میں ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ گو کہ یہ خود بتاتا ہے کہ اس کی تربیت کے لیے متنوع ذرائع سے مواد اکٹھا کیا گیا ہے لیکن کون سی چیز کا اصل منبع کہاں ہے اور کیا ہے اس کا انکشاف نہ تو یہ خود کرتا ہے اور نہ ہی فی الوقت ہمارے لیے یہ ممکن ہے۔ ہاں البتہ اردو کے حوالے سے اس کا مکالمہ ابھی بہت کمزور ہے، Data بھی محدود اور خام ہے۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو اردو والوں کو زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ انہیں خوش ہونا چاہیئے کہ کہیں تو اردو ڈیجیٹل پروگرامنگ کے تئیں ان کی عدم دلچسپی کام آ رہی ہے ورنہ یہ کمبخت روبوٹ تو آج مجھے شاعر بنا ہی دیتا۔۔۔!!
نوٹ: اس کا دعوی ہے کہ اس کی بنیاد اخلاقی Ethical بنیادوں پر رکھی گئی ہے۔ بہت سارے لوگ اس مغالطے کے شکار ہیں کہ بعض جگہوں پر جہاں انسان کا رد عمل جارحانہ یا نازیبا ہو سکتا ہے یہ روبوٹ خلوص کے ساتھ پیش آ کر اپنے اخلاقی ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ جبکہ یہ اس روبوٹ کا ایک گمراہ کن رویہ ہے جو انسانوں کو اس کے فریب میں لانے کا کام کرتا ہے۔ حقیقت میں اس کی بنیاد غیر اخلاقی قدروں پر ہی رکھی گئی ہے۔ ظاہر ہے بغیر اجازت کے متنوع ذرائع سے حاصل کیے گیے مواد کی توڑ پھوڑ کر کے نیا مواد تشکیل دینا قطعاً اختراعی عمل ہو سکتا ہے نہ اخلاقی۔
٭٭٭
اردو اے آئی کو کیسے استعمال کریں ۔۔۔ سعید انور
اگر آپ اردو زبان میں مواد تیار کرنے، تحریریں لکھوانے، یا مختلف موضوعات پر معلومات حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ تو اردو اے آئی آپ کے لیے بہترین حل ثابت ہو سکتا ہے۔ اس بلاگ میں ہم اردو اے آئی کے مؤثر استعمال کے طریقوں اور اس کی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے۔ یہ جدید چیٹ بوٹ، جو چیٹ جی پی ٹی کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ خاص طور پر اردو زبان میں کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہاں آپ کو اردو اے آئی کے فوائد، اس کے استعمال کے مختلف طریقے، اور اس کی خصوصیات کے بارے میں جامع معلومات ملیں گی تاکہ آپ اس جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھا سکیں۔
اردو اے آئی کا تعارف۔
اردو اے آئی ایک جدید چیٹ بوٹ ہے۔ جو چیٹ جی پی ٹی کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے۔ اور خاص طور پر اردو زبان میں کام کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد صارفین کو آسان اور قابل فہم انداز میں جوابات فراہم کرنا ہے۔ تاکہ اردو بولنے والے افراد کو اپنی زبان میں سہولت مل سکے۔ اردو اے آئی کی مدد سے، آپ مختلف موضوعات پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ تحریریں لکھوا سکتے ہیں۔ اور مواد تیار کر سکتے ہیں۔ وہ بھی اردو زبان میں۔
اردو اے آئی کو استعمال کرنے کے دو بنیادی طریقے ہیں:
چیٹ جی پی ٹی موبائل ایپ کے ذریعے: اگر آپ کے موبائل پر چیٹ جی پی ٹی کی ایپ پہلے سے انسٹال ہے۔ تو آپ اس ایپ کے ذریعے اردو اے آئی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ آپ کو موبائل کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ اور آپ جہاں چاہیں، جب چاہیں، اردو اے آئی کا استعمال کر سکتے ہیں۔
ویب سائٹ کے ذریعے: آپ اردو اے آئی کو چیٹ جی پی ٹی کی ویب سائٹ کے ذریعے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ویب سائٹ پر جا کر، آپ اردو اے آئی کے تمام فوائد سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ آپ کے پاس چیٹ جی پی ٹی پر اکاؤنٹ موجود ہو۔
ضروریات
اردو اے آئی کا استعمال کرنے کے لیے آپ کے پاس چیٹ جی پی ٹی پر ایک فعال اکاؤنٹ ہونا ضروری ہے۔ بغیر اکاؤنٹ کے، آپ اردو اے آئی کی خصوصیات سے مکمل استفادہ نہیں کر سکتے۔ اکاؤنٹ بنانے کے بعد، آپ اردو اے آئی کے ذریعے مختلف قسم کے مواد تیار کر سکتے ہیں، تحریریں لکھوا سکتے ہیں، اور مختلف موضوعات پر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
اردو اے آئی کی خصوصیات
اردو اے آئی کی کئی اہم خصوصیات ہیں جو اسے صارفین کے لیے مفید بناتی ہیں:
اردو میں مواد کی تیاری: اردو اے آئی آپ کو اردو زبان میں مواد تیار کرنے میں مدد دیتا ہے۔ جو خاص طور پر ان لوگوں کے لیے فائدے مند ہے۔ جو اردو میں کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ یا جنہیں اردو میں مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔
تحریریں لکھوانا: آپ اردو اے آئی کی مدد سے تحریریں بھی لکھوا سکتے ہیں۔ چاہے وہ مضامین ہوں، خطوط ہوں، یا کوئی دیگر مواد ہو۔
معلومات حاصل کرنا: اردو اے آئی آپ کو مختلف موضوعات پر معلومات فراہم کرتا ہے۔ جس سے آپ کو مختلف سوالات کے جوابات آسانی سے مل جاتے ہیں۔
نتیجہ
یہ ویڈیو ان افراد کے لیے بہت مفید ہے۔ جو اردو زبان میں کام کرنے کے طریقے اور اردو اے آئی کے استعمال کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اردو اے آئی کے ذریعے، آپ اپنی اردو تحریریں بہتر بنا سکتے ہیں۔ معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ اور اپنی روزمرہ کی ضروریات کو آسانی سے پورا کر سکتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر آپ اپنی زبان میں جدید دنیا کے ساتھ جڑے رہ سکتے ہیں۔
٭٭٭
ChatGPT کچھ اپنے، کچھ دوستوں کے تجربات ۔۔۔ اعجاز عبید
سوچا تھا کہ ان تجربات کا ذکر اداریے میں ہی کر دوں مگر اتنا مواد ہو گیا کہ علیحدہ مضمون ہی شامل کر رہا ہوں، بغیر کسی تمہید اور نتائج کے سلسلے میں حتمی فیصلے کے۔
میں نے مصنوعی ذہانت کے ’چیٹ بوٹ‘ کا استعمال مفت والا ہی کیا جو ہر کس و ناکس کو دستیاب ہے۔ قیمتاً دستیاب ہر شخص نہیں کر سکتا اور نہ مجھے کرنے کی ضرورت تھی۔ میں نے اپنے واٹس ایپ پر دستیاب ’میٹا اے آئی‘ جو ’لاما (Llama 3.2) چیٹ بوٹ پر منحصر ہے۔ استعمال کیا۔ لیکن پتہ چلا کہ یہ اردو کے لئے کار آمد نہیں۔ اردو کے لئے پھر میں نے چیٹ جی پی ٹی کی ویب سائٹ پر سوالات پوچھے۔ نتائج ذیل میں دے جا رہے ہیں۔
پہلے میٹا اے آئی سے انگریزی میں کئے گئے سوالات اور ان کے نتائج:
سوال
Who is Aijaz Ubaid?
جواب:
Aijaz Ubaid is a Pakistani television actor, director, and producer. He has worked in numerous TV dramas and has gained recognition for his versatile acting skills. Ubaid has played a wide range of roles, from positive to negative characters, and has worked with prominent TV channels like PTV, Geo TV, and ARY Digital.
Some of his notable works include:
– "Andhera Ujala” (a classic PTV comedy series)
– "Akelay Na Jana” (a drama series)
– "Khandan” (a family drama)
– "Khawab Tabahee” (a drama series)
Aijaz Ubaid is considered a veteran actor in the Pakistani television industry, with a career spanning several decades. He has also directed and produced several TV shows, showcasing his talent beyond acting.
پھر جب پوچھا گیا کہ اعجاز اختر (جو میرا اصل نام ہے، اور اکثر احباب میرے ان دونوں ناموں سے واقف ہیں) کون ہے؟
سوال:
Who is Aijaz Akhtar?
جواب:
Aijaz Akhtar is a Pakistani television actor who has appeared in numerous TV dramas and serials. He is known for his supporting roles in various popular TV shows, often playing characters like fathers, uncles, or elder relatives.
Aijaz Akhtar has worked with prominent TV channels like Geo TV, ARY Digital, and Hum TV, and has shared the screen with many well-known Pakistani actors. Some of his notable works include:
– "Mere Paas Tum Ho” (a popular drama series)
– "Khamoshi” (a drama series)
– "Deewangi” (a drama series)
– "Mera Dil Mera Dushman” (a drama series)
Aijaz Akhtar is a talented character actor who has made a name for himself in the Pakistani television industry through his consistent performances in various roles.
یعنی لگتا ہے کہ شاید اس نے یہ تو پہچان لیا کہ یہ دونوں نام ایک ہی شخصیت کے ہیں، کہ دونوں شخصیات کو اداکاری سے متعلق بتایا، اور پاکستانی بھی۔ لیکن ان دونوں کے ڈراموں کے بارے میں بالکل مختلف معلومات بہم پہنچائیں۔ البتہ کسی ڈرامے کے کسی اداکار کے ناموں میں شاید اعجاز بھی مشترک ہو، اس کی معلومات کی تو مثلاً ’میرے پاس تم پو‘ کے اداکاروں میں عدنان صدیقی، عائزہ خان، ہمایوں سعید، حرا مانی (یہ نام اردو میں گوگل کرنے سے معلوم ہوا ورنہ میں انگریزی میں Hira Mani کو ’ہیرا منی‘ ہی سمجھا تھا!) شیث سجاد گل، مہر بانو اور سویرا ندیم کے نام سامنے آئے۔
جب محض یہ سوال پوچھا گیا کہ
Who is the editor of on line journal "Samt”?
اس کا جواب تھا
I’m not familiar with a specific online journal called "Samt” and its editor. There might be multiple publications or journals with the same name, and without more context or information, it’s challenging to provide an accurate answer.
If you could provide more details about the Samt online journal, such as its focus area (e.g., literary, academic, or niche topic) , language, or any notable contributors, I might be able to help you find the information you’re looking for.
اس لئے جب اردو میگزین کا اضافہ کیا گیا اور پوچھا گیا
Who is the editor of Samt on line Urdu literary journal?
جواب درست ملا:
Thank you for providing more context. After conducting a search, I found that Samt (سमत) is an online Urdu literary journal, and its editor is Aijaz Ubaid (اعجاز عبید).
Aijaz Ubaid is a Pakistani writer, critic, and editor, and he is the founder and editor of Samt, which is a prominent online platform for Urdu literature and poetry. Under his editorship, Samt has published works by various Urdu writers, poets, and critics, and has become a significant platform for Urdu literary discourse.
Please note that my knowledge may not be up-to-date, and I encourage you to verify this information through other sources if needed.
سوال پوچھا گیا:
What do you know about Muft kutub
جواب:
Muft Kutub is a term used in Urdu literature and refers to a collection of books or writings that are considered essential or fundamental to a particular field or genre. The term "Muft” means "free” or "open”, and "Kutub” means "books”.
In the context of Urdu literature, Muft Kutub often refers to a set of classic or influential works that are widely studied, admired, and emulated. These works may include poetry, fiction, criticism, or other forms of writing that have had a significant impact on the literary canon.
Muft Kutub may also imply a sense of timelessness, universality, and accessibility, suggesting that these works are considered fundamental to understanding the literary tradition and are open to readers across generations and geographical boundaries.
If you’re looking for specific information about a particular set of Muft Kutub or their authors, please let me know, and I’ll try to assist you further!
پھر سوال پوچھا گیا:
What do you know about Muft kutub online library
جواب:
Muft Kutub Online Library is a digital repository of Urdu literature, providing free access to a vast collection of Urdu books, poetry, and other written works. Here are some key features and facts about Muft Kutub Online Library:
- *Free access*: As the name suggests, Muft Kutub offers free access to its vast collection, making Urdu literature more accessible to readers worldwide.
- *Digital repository*: The library is an online platform, allowing users to browse, read, and download Urdu books and other written works in digital formats.
- *Extensive collection*: Muft Kutub features a vast collection of Urdu literature, including classics, rare books, poetry, fiction, non-fiction, and more.
- *User-friendly interface*: The website is designed to be user-friendly, allowing readers to easily search, browse, and access the available content.
- *Contributions from authors and publishers*: Muft Kutub collaborates with authors, publishers, and literary organizations to digitize and make available Urdu literary works.
- *Preservation and promotion*: The online library aims to preserve Urdu literature and promote it to a wider audience, including readers who may not have access to physical libraries or bookstores.
- *Non-profit initiative*: Muft Kutub is a non-profit initiative, driven by the passion to make Urdu literature more accessible and to promote the language and its rich literary heritage.
Overall, Muft Kutub Online Library is a valuable resource for Urdu literature enthusiasts, researchers, and readers worldwide, providing unparalleled access to a vast collection of Urdu written works.
پھر بزم اردو لائبریری کے بارے میں پوچھا گیا:
Who is the BazmeUrdu online library manager
جواب تھا:
BazmeUrdu is an online platform dedicated to promoting and preserving Urdu literature. The online library manager of BazmeUrdu is Aijaz Ubaid (اعجاز عبید) , who is also the editor of the online Urdu literary journal, Samt (سमत) .
Aijaz Ubaid is a well-known figure in Urdu literary circles, and his efforts through BazmeUrdu and Samt have contributed significantly to the promotion and preservation of Urdu literature. Under his management, BazmeUrdu has made a vast collection of Urdu books, poetry, and other written works available online, providing a valuable resource for readers, researchers, and scholars.
BazmeUrdu’s online library features a wide range of Urdu literature, including:
– Classic works by renowned authors and poets
– Rare and out-of-print books
– Contemporary writing and poetry
– Literary criticism and research papers
Aijaz Ubaid’s dedication to Urdu literature and his efforts through BazmeUrdu and Samt have been widely recognized and appreciated by the Urdu literary community.
پھر یہی سوال جب اس سے اردو میں پوچھا گیا تو:
سوال:
بزم اردو لائبریری کے بارے میں بتائیں
جواب تھا:
I don’t understand Urdu yet, but I’m working on it. I will send you a message when we can talk in Urdu.
پھر ایک سوال اسی کے مشوروں سے دو بار پوچھا گیا یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا جواب بھی یکساں دیا جاتا ہے؟
Help me write a novel
تو پہلی بار جواب تھا:
I’d be happy to help you write your novel. What kind of guidance or support do you need? Would you like help with:
- Developing your idea or plot?
- Creating character profiles or backstories?
- Writing a compelling opening chapter?
- Organizing your story’s structure or outline?
- Writing dialogue or scenes?
- Editing or revising existing work?
- Brainstorming titles or settings?
Or do you have something specific in mind?
Also, what genre is your novel? (e.g., romance, sci-fi, fantasy, mystery, etc.)?
یہی سوال دوبارہ پوچھنے پر کچھ مختلف جواب تھا:
I’d be happy to help you write a novel. What kind of support do you need? Do you have:
- A idea already, and you want help developing it?
- A rough outline, and you’d like assistance fleshing it out?
- A draft, and you’re looking for editing/revision guidance?
Or do you:
- Want me to suggest prompts to get started?
- Need help with world-building, character development, or plotting?
- Want assistance with writing craft (e.g., dialogue, pacing, tone) ?
Let me know, and I’ll help you move forward on your novel!
اب آئیے، اردو میں Chatgpt.com پر پوچھے گئے سوالات اور ان کے جوابات پر بات ہو جائے۔
سوال: اعجاز عبید کون ہیں؟:
جواب ChatGPT:
’’اعجاز عبید اردو زبان کے ایک معروف شاعر، ادیب، اور مترجم ہیں۔ وہ اردو ادب کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور خاص طور پر آن لائن اردو دنیا میں ایک نمایاں شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اعجاز عبید نے کئی ادبی اور علمی موضوعات پر کتابیں اور مضامین لکھے ہیں۔
وہ اردو کے اہم آن لائن ادبی پلیٹ فارمز میں سے ایک ’اردو محفل‘ کے بانی اور منتظم بھی ہیں، جو اردو زبان و ادب کے شائقین کے لیے ایک ممتاز فورم ہے۔ اس کے علاوہ، وہ مختلف کتابوں اور رسائل کے تراجم اور تدوین میں بھی ملوث رہے ہیں۔
اعجاز عبید کی خدمات اردو ادب کی ترویج کے لیے قابل قدر سمجھی جاتی ہیں۔‘‘
یہاں اس نے غلطی سے مجھے ’اردو محفل‘ کا بانی اور منتظم بھی قرار دیا حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ اس کے بانی نبیل نقوی اور کچھ دوسرے احباب ہیں۔
سوال:
اعجاز عبید کی برقی کتابوں کے بارے میں بتائیے:
ChatGPT:
’’اعجاز عبید نے اردو زبان میں برقی کتابوں (ای بکس) کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے ’ریختہ‘، ’اردو ویب‘ اور ’کتاب گھر‘ جیسے پلیٹ فارمز پر متعدد اردو کتابوں کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں پیش کیا ہے، تاکہ دنیا بھر کے لوگ آسانی سے اردو ادب تک رسائی کر سکیں۔
اعجاز عبید نے خاص طور پر ان ادبی تخلیقات کو ڈیجیٹل شکل میں محفوظ کیا ہے جو کاغذی شکل میں دستیاب نہیں تھیں یا پھر ان کی دستیابی محدود تھی۔ ان کی کوششوں سے کلاسیکی اور جدید اردو ادب کے بیشمار نمونے آن لائن موجود ہیں۔
اعجاز عبید نے خود بھی کئی برقی کتابیں مرتب اور شائع کی ہیں۔ ان کی ویب سائٹ ’کتاب گھر‘ پر اردو ادب کی مختلف اصناف پر مبنی ہزاروں کتابیں موجود ہیں، جو قارئین کے لیے مفت دستیاب ہیں۔ ان کی یہ کاوش اردو زبان و ادب کے فروغ اور اس کی عالمی سطح پر رسائی کے لیے بے حد اہم سمجھی جاتی ہے۔
اگر آپ مزید معلومات یا برقی کتابوں کی فہرست چاہتے ہیں، تو آپ ان کے آن لائن پلیٹ فارمز یا ویب سائٹس پر جا سکتے ہیں۔‘‘
یہاں بھی اس سے یہ غلطی ہوئی کی مجھے مفت کتاب اور بزم اردو پلیٹ فارم کی بجائے معروف پلیٹ فارم ریختہ، کتاب گھر اور اردو ویب سے متعلق بتایا بلکہ کتاب گھر کو میری ہی ملکیت بتایا۔ البتہ یہاں یہ درست تھا کہ مجھے ہندوستانی (بلکہ ’بھارتی‘، یعنی پاکستانیوں کی زبان میں ہندوستانی، اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اردو اس کے لئے محض پاکستانی زبان ہے!، کہ ہندوستان میں ’بھارت‘ لفظ کا استعمال صرف بی جے پی کے ہندتوا وادی لوگ ہی کرتے ہیں، اشرافیہ نہیں) درست پہچانا!۔
اب کچھ احباب کے تجربات بھی شئیر کر دوں:
اسامہ سرسری نے اپنے مضمون میں بھی کئی تجربات کا ذکر کیا ہے، ادب کے سلسلے میں ان کے تجربات جو اس مضمون میں شامل نہیں کئے گئے، وہ یہ ہیں۔
آج میں نے اے آئی سے نعت لکھوا کر اس کے قوافی اور وزن کو درست کرنے کی طرف رہنمائی کی تو نعت کی آخری صورت کچھ اس طرح سامنے آئی ہے:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
ہے دل میں بسا عشقِ طیبہ کی باتیں
ہے یادوں میں بستہ مدینہ کے رستے
ہے دل پر لکھا حرفِ توبہ کی باتیں
نبی کی زباں پر دعا کی حکایت
درودوں کی محفل، عقبیٰ کی باتیں
ہے طیبہ کی عظمت، شفاعت کی ضامن
ہے روشن حیات اور عقبیٰ کی باتیں
صحابہ کی جرأت، حسینؓ اور حسنؓ کی
ہے عشقِ محمد، صحابہ کی باتیں
محمد کی سیرت، ہے دنیا کے حق میں
ہدایت کی نعمت، ہے طوبیٰ کی باتیں
سراپا دعا ہے، ہر اک دل ہے شاداں
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
اس دلچسپ چیٹنگ کا لنک پہلے کمنٹ میں دیکھیے۔
لنک کا متن:
اس مصرع پر گرہ لگائیں اور پھر اس شعر پر پوری نعت کہہ دیں:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
ChatGPT
ضرور، پہلے اس مصرع پر گرہ لگاتے ہیں:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
درودوں کی گونج اور صلوۃ کی باتیں
اب اس شعر پر ایک نعت مکمل کرتے ہیں:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
درودوں کی گونج اور صلوۃ کی باتیں
حیاتِ محمد کی روشن صفاتیں
چراغِ نبوت کی تاباں روایاتیں
خدائی کا پیغام حق کی صدائیں
شریعت کے انوار اور ہدایت کی باتیں
وہ رحمت کا پیغام، عالم کے لیے
خلوص و محبت کی روشن حکایتیں
زمانہ کرے نعت، فرشتے کریں حمد
محمد کی عظمت کی، شان و شوکت کی باتیں
حسینؓ و حسنؓ کی، علیؓ کی رفاقت
نبی کی محبت، صحابہ کی باتیں
سراپا دعا ہے، ہر اک دل ہے شاداں
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
آپ کے اشعار میں قافیے درست نہیں، طیبہ کے قافیے یہ ہیں:
تَوبَہ، شَنبَہ، کَعْبَہ، صَحابَہ، آبا، زیبا، صَہْبا، طُوبیٰ، عُقْبیٰ
ChatGPT
شکریہ اصلاح کے لئے، اب میں نئے قافیوں کے ساتھ نعت مکمل کرتا ہوں:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
ہوئی دل کی دنیا منور انہی سے
چراغاں ہے دل میں محبت کا کب سے
ہے یادوں میں بستہ مدینہ کے رستے
نبی کی زباں پر دعا کی حکایت
درودوں کی محفل، عقبیٰ کی باتیں
مقامِ محمد، شفاعت کی ضامن
ہے طیبہ کی عظمت، سرور کی باتیں
نبی کے صحابہ کی جرأت ہے زیبا
حسینؓ اور حسنؓ کی، طیبہ کی باتیں
محمد کی سیرت، ہے دنیا کے حق میں
ہدایت کی نعمت، طوبیٰ کی باتیں
سراپا دعا ہے، ہر اک دل ہے شاداں
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
پہلے شعر کا دوسرا مصرع قافیے سے خالی رہ گیا ہے۔
ChatGPT
درست فرمایا، میں نے غلطی کی۔ اب اس مصرع کو درست کر لیتا ہوں:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
ہے دل میں بسا عشقِ طیبہ کی باتیں
اب مکمل نعت:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
ہے دل میں بسا عشقِ طیبہ کی باتیں
چراغاں ہے دل میں محبت کا کب سے
ہے یادوں میں بستہ مدینہ کے رستے
نبی کی زباں پر دعا کی حکایت
درودوں کی محفل، عقبیٰ کی باتیں
مقامِ محمد، شفاعت کی ضامن
ہے طیبہ کی عظمت، سرور کی باتیں
نبی کے صحابہ کی جرأت ہے زیبا
حسینؓ اور حسنؓ کی، طیبہ کی باتیں
محمد کی سیرت، ہے دنیا کے حق میں
ہدایت کی نعمت، طوبیٰ کی باتیں
سراپا دعا ہے، ہر اک دل ہے شاداں
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
ان اشعار کا وزن فعولن فعولن فعولن فعولن ہے، مگر مصرع نمبر 2، 6، 8، 10، 12 میں یہ وزن درست نہیں ہے۔
ChatGPT
آپ کا کہنا بالکل درست ہے، میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں تاکہ وزن بھی صحیح رہے:
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
ہے دل میں بسا عشقِ طیبہ کی باتیں
ہے یادوں میں بستہ مدینہ کے رستے
ہے دل پر لکھا حرفِ توبہ کی باتیں
نبی کی زباں پر دعا کی حکایت
درودوں کی محفل، عقبیٰ کی باتیں
ہے طیبہ کی عظمت، شفاعت کی ضامن
ہے روشن حیات اور عقبیٰ کی باتیں
صحابہ کی جرأت، حسینؓ اور حسنؓ کی
ہے عشقِ محمد، صحابہ کی باتیں
محمد کی سیرت، ہے دنیا کے حق میں
ہدایت کی نعمت، ہے طوبیٰ کی باتیں
سراپا دعا ہے، ہر اک دل ہے شاداں
زباں پر ہے ہر آن طیبہ کی باتیں
٭٭
محترم ادریس آزاد
نعت کے تجربات
چیٹ جی پی ٹی کی لکھی ہوئی پہلی نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و الہ و سلم
………….
یہ عشقِ پاک مصطفیٰؐ، دلوں میں جب اتر گیا
بشر بشر سنور گیا، جگر جگر نکھر گیا
خدا کے بعد مصطفیٰؐ، عظیم نام محترم
خدا کے بعد مصطفیٰؐ، کا ذکر معتبر گیا
جہاں بھی آپؐ نے کیا، خدا کا ذکر بے مثال
وہیں پہ ظلمتوں کا، شامِ غم بکھر بکھر گیا
وہ ذاتِ پاکِ مصطفیٰؐ، ہے رشک کل جہاں کا
مگر نظر نظر کو چھو لیا، جگر جگر سنور گیا
ہزار شکر ہے خدا، کے ہم نبیؐ کے امتی
جہاں جہاں بھی آپؐ ہیں، اُدھر اُدھر سفر گیا
نہیں ہے کوئی بھی بشر کہ آپ سا ہو با ہنر
مگر جہاں بھی آپؐ ہوں، نگر نگر نِکھر گیا
شرر شرر جو ظلم تھا، کدھر گیا، کدھر گیا؟
جمال حق کے نُور کا ، اِدھر اُدھر بکھر گیا
وہ ذاتِ پاک ہے جگر، جمالِ مصطفیٰؐ جہاں
جہاں میں آپ آ گئے جہان بھی سنور گیا
وہاں وہاں نظر پڑی، جہاں پہ نورِ مصطفیٰؐ
نکھر گیا وہیں شجر، جگر جگر نکھر گیا
کرم کا فیض جاری تھا، قدم قدم پہ آپؐ کے
حسین نُور چھا گیا، سفر سفر نکھر گیا
جہاں کہیں بھی آپؐ نے، بسایا شہرِ عشق کا
وہیں وہیں نگر نگر، بشر بشر نکھر گیا
جہاں کہیں بھی آپؐ نے، کیا ہے ذکرِ رب کا
وہاں پہ شرک کا شرر بھی مر گیا
جہاں بھی آپؐ کا کرم، وہاں پہ روشنی بکھر
جہاں جہاں گزر گئے، اُدھر اُدھر سحر گیا
بحر میں درست غزل کے تجربات
پہلے تجربے میں یہ غزل سامنے آئی:
غموں کی دنیا میں مسکرانا، خوشی کے لمحوں میں اشک بہنا
تیرے فسانوں کو دل میں رکھنا، ترے خیالوں میں رات کاٹنا
محبتوں کا یہ سلسلہ ہے، یہ درد دل میں بسا ہوا ہے
نگاہیں مل کر یہ کہہ رہی ہیں، کسی کی باتوں میں ہم نہ آنا
زمانے بھر کی یہ گردشیں ہیں، یہ دل کی حالت بدل رہی ہیں
ہمارے دل کا یہ حال دیکھو، کسی کی دنیا میں ہم نہ جانا
ہوا کے جھونکے یہ گنگنا کر، محبتوں کا پیام دے کر
یہ کہہ رہے ہیں کہ ساتھ چلنا، کسی کی باتوں میں ہم نہ آنا
کتاب پڑھ کر خیال آیا، کہ جیسے تم نے کچھ کہا تھا
شراب پی کر یہ یاد آیا، کہ تیری باتوں میں ہم نہ آئیں
بعد میں مزید تجربات کئے گئے، ایک اور تجربہ:
طرح مصرع:
بہت چراغ جلاؤ گے روشنی کے لیے
قافیہ:
روشنی، زندگی، تازگی، بے کلی، شاعری، دلبری
ردیف
کے لیے
اس طرحی مصرعے پر انحراف ادبی فورم کے لئے فی البدیہہ طرحی مشاعرے کے لیے غزل کہو۔
ChatGPT
غبارِ دل کو ہٹاؤ گے زندگی کے لیے
چراغِ عشق جلاؤ گے روشنی کے لیے
گزر رہے ہیں یہ لمحے بھی بے کلی کے ساتھ
تڑپ رہی ہے مری روح زندگی کے لیے
کوئی کہے کہ یہ اشعار ہیں محبت کے
میں کہہ رہا ہوں انہیں صرف شاعری کے لیے
نظر جھکی ہے تو کچھ راز دل کے کھلتے ہیں
چمن میں پھول کھلاؤ تو دلبری کے لیے
یہ عشق کھیل نہیں ہے، یہ راہ مشکل ہے
یہی تمہاری ضرورت ہے زندگی کے لیے
نہ چھوڑ پیچھا غموں کا، یہ راز ہیں روشن
ہر ایک درد ضروری ہے تازگی کے لیے
ہزار شکوے کریں، لاکھ بے کلی ہو مگر
تمہاری یاد ہی کافی ہے دلبری کے لیے
خفا نہ ہو کہ یہ اشعار بے اثر ہیں ذرا
میں دل کا خون بہاتا ہوں شاعری کے لیے
ایک اور کامیاب تجربہ:
نہیں نہیں میں اکیلا تو دل گرفتہ نہ تھا
شجر بھی بیٹھا تھا مجھ سے کمر لگائے ہوئے
یہ جو اوپر میں نے لکھا ہے یہ میرا اپنا شعر ہے۔ اس شعر کی بحر یہ ہے،
مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
قافیہ یہ ہے،
کمر، شجر، جگر، نظر، وغیرہ
ردیف ہے،
لگائے ہوئے۔
کیا تم میرے اس شعر کو لے کر ایک غزل لکھ سکتے ہو؟ یعنی اس شعر کے ساتھ مزید شعر لگا کر غزل مکمل کر سکتے ہو؟
ChatGPT
بالکل، آپ کے دیے گئے شعر کو لے کر میں ایک مکمل غزل پیش کرتا ہوں:
نہیں نہیں میں اکیلا تو دل گرفتہ نہ تھا
شجر بھی بیٹھا تھا مجھ سے کمر لگائے ہوئے
یہ اشک آنکھوں سے بہہ کر بھی رہ گئے بے نام
ترا خیال تھا دل میں اثر لگائے ہوئے
گزر رہے تھے وہ لمحے بھی کتنا آہستہ
کہ جیسے وقت تھا خود سے جگر لگائے ہوئے
تری جدائی میں دل کا یہ حال ہو گا کبھی
نہ سوچتا تھا میں غم کا ہنر لگائے ہوئے
ہوا کی سرسراہٹ میں تھی تیری خوشبو بھی
یہ شام آئی تھی مجھ کو خبر لگائے ہوئے
غمِ فراق میں تنہائی ساتھ لے آئی
کہ جیسے یاد تھی تیری کمر لگائے ہوئے
(محمد عمر کا ادریس آزاد کے تجربات پر اظہار خیال:
محترم ادریس آزاد صاحب شاعری کو لے کر چیٹ جی پی ٹی پر نت نئے تجربات کر رہے ہیں اور حیران کن طور پر اکثر شاعری با وزن بھی ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے اور لوگوں نے بھی یہ تجربات کیے لیکن ان کے نتائج ویسے اچھے نہیں آ رہے۔ ادھر ایک معتبر شاعر نے کمنٹ کیا تھا کہ ادریس صاحب چیٹ جی پی ٹی کی دی ہوئی غزل کی نوک پلک سنوارتے ہیں، چیٹ جی پی ٹی اس قابل نہیں کہ وہ اتنی اچھی غزلیں لکھ سکے۔ دراصل بات یہ ہے کہ ادریس آزاد صاحب چیٹ جی پی ٹی کے ایڈوانس ورژن چیٹ جی پی ٹی 4 یا چیٹ جی پی ٹی پلس کا استعمال کر رہے ہیں جو AI CHAT GPT کا paid ورژن ہے اور جس کی ماہانہ سبسکرپشن چارجز 20 امریکی ڈالرز ہے۔ چیٹ جی پی ٹی پلس نتائج اور ایکوریسی کے اعتبار سے نارمل GPT 3.5 سے ہزاروں گنا بہتر ہے جس میں غلطیوں کی گنجائش بہت کم ہے۔ اس کی پرفارمینس کہیں بہتر ہے۔
لیکن بہر حال جیسا ادریس آزاد صاحب کہہ رہے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ AI سافٹ ویئرز اگلے کئی سال میں بہت حد تک شعراء کو ارریلیوینٹ کر دے گی۔ اور جو لوگ اب پیسے دیکر غزلیں لکھواتے ہیں ان کے لیے جی پی ٹی کی پیڈ سبسکرپشن کونسی بڑی بات ہے۔)
ادریس آزاد کا ہی نثری نظم کا تجربہ:
پیاری چیٹ جی پی ٹی! اردو میں ایک ایسی نثری نظم لکھ دو جس میں کتاب، بخار، آلو، چمچ، مچھر، رات، کنویں، آسمان اور اونٹ کا ذکر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم: روتی ہوئی رات کا سپنا
رات کی تاریکی میں، کتاب کی جلد پر چمچ کی چمک تھی
بخار کی تپش میں آلو کے ذائقے کا خیال آیا
اونٹ کی گردن کنویں کے پانی کی طرح لمبی
مچھر کی بھنبھناہٹ آسمان کی خاموشی میں گونج رہی تھی
بخار میں لرزتی رات، چمچ سے مچھر کو مارنے کی کوشش
آلو کا ذائقہ زبان پر چھایا ہوا
کنویں کی گہرائی میں اونٹ کا عکس دکھائی دیا
کتاب کی سطروں میں چھپے آسمان کی وسعت
بخار کی حالت میں، آلو کا ذائقہ مزیدار لگنے لگا
اونٹ کے قدم رات کی خاموشی میں گونجتے
کتاب کی کہانیاں چمچ کی نوک پر رقص کرتی
بخار سے جلتے جسم میں، مچھر کی بھنبھناہٹ سے بیزار
کنویں کے کنارے بیٹھا، آسمان کو تک رہا تھا
کتاب کے صفحات میں آلو کی تصویر
بخار کی شدت میں، چمچ کا وزن
مچھر کی پرواز، رات کی تنہائی میں
اونٹ کی آہٹ، کنویں کی گہرائی
اور آسمان کی نیلاہٹ
مچھر کی بھنبھناہٹ سے پریشان
بخار میں جلتے جسم کے ساتھ
کتاب کے صفحات پلٹتے ہوئے
چمچ اور آلو کی کہانی
کنویں کے کنارے بیٹھا
آسمان میں اونٹ کا عکس دیکھ رہا تھا
شاعرہ چیٹ جی پی ٹی۔
پیاری چیٹ جی پی ٹی۔ مجھے اردو میں ایک پیاری سی نثری نظم لکھ کر دو، جس میں بادلوں کا ذکر ہو۔
نثری نظم:
جب آسمان پر بادل چھا جاتے ہیں
وہ سفید، نرم و ملائم بادل جو کبھی کبھی گہرے سیاہ بھی ہو جاتے ہیں
یوں لگتا ہے جیسے آسمان نے چادر اوڑھ لی ہو
ان بادلوں میں مجھے شکلیں نظر آتی ہیں
جیسے کوئی خواب ہو، جو آسمان پر بکھر گیا ہو۔
کبھی مجھے ان بادلوں میں پرانے قصے کہانیاں دکھائی دیتے ہیں
ایک بادل شیر کی شکل اختیار کر لیتا ہے
تو دوسرا ایک چھوٹے بچے کی
کچھ بادلوں میں مجھے اپنے پیارے چہرے نظر آتے ہیں
جو دور آسمان میں کہیں گم ہو گئے ہیں
کبھی یہ بادل ایک محل کی مانند دکھائی دیتے ہیں
تو کبھی ایک دیو ہیکل پرندے کی شکل میں۔
جب میں بادلوں کو غور سے دیکھتا ہوں
تو یوں لگتا ہے جیسے وہ مجھ سے باتیں کر رہے ہوں
اپنی کہانیاں سنا رہے ہوں
ان بادلوں میں مجھے کبھی کبھی وہ خواب نظر آتے ہیں
جو میں نے بچپن میں دیکھے تھے
وہ قصے جو میں نے اپنے بڑوں سے سنے تھے۔
یہ بادل مجھے یاد دلاتے ہیں کہ ہر چیز میں خوبصورتی چھپی ہوتی ہے
بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے
یہ بادل مجھے سکھاتے ہیں کہ خواب دیکھنے اور ان میں کھو جانے میں کوئی برائی نہیں
جب بادل چھٹ جاتے ہیں
تو دل میں ایک عجیب سی اداسی چھا جاتی ہے
مگر میں جانتا ہوں کہ یہ بادل پھر آئیں گے
اپنی نئی کہانیاں لے کر
اپنے نئے خواب لے کر
شاعرہ چیٹ جی پی ٹی
ظفر سید:
حضرت چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا کہ پاکستان کی ٹاپ ٹین کتابیں کون سی ہیں۔ جواب میں موصوف فرماتے ہیں:
شاہنامہ فردوسی ابو القاسم فردوسی
شاہنامہ فردوسی فارسی ادب کا ایک عظیم شاہکار ہے جس میں ایران کی تاریخ اور اساطیری کہانیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ: فارسی میں لکھی گئی ہے، مگر اس کا اردو ترجمہ بھی مقبول ہے اور یہ کتاب پاکستانی قارئین میں بھی مقبولیت رکھتی ہے۔
اقبال کا فلسفہ خودی: علامہ محمد اقبال
یہ کتاب علامہ اقبال کے فلسفہ خودی پر مبنی ہے۔ اس میں اقبال نے خودی کے تصور کو بیان کیا ہے اور مسلمانوں کو اپنی پہچان اور وقار پر زور دیا ہے۔ یہ کتاب ہر پاکستانی کے لیے اہمیت کی حامل ہے۔
جادو کی ہنڈیا: اشفاق احمد
اشفاق احمد کا یہ افسانوی مجموعہ پاکستانی ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس میں انہوں نے روزمرہ زندگی کی کہانیوں کو بڑے دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔
بانو: راجندر سنگھ بیدی
یہ کتاب بانو کی کہانی پر مبنی ہے، جو کہ تقسیم ہند کے دوران پیش آنے والے حالات اور واقعات پر روشنی ڈالتی ہے۔ راجندر سنگھ بیدی نے اس ناول میں انسانی جذبات کو بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔
زاویہ: اشفاق احمد
اشفاق احمد کا زاویہ ایک منفرد کتاب ہے جس میں ان کے مختلف لیکچرز اور ٹی وی پروگرامز کے اقتباسات شامل ہیں۔ یہ کتاب روحانی اور اخلاقی موضوعات پر مبنی ہے۔
امر بیل: عمیرہ احمد
عمیرہ احمد کا یہ ناول پاکستانی نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔ اس میں انہوں نے محبت، سیاست اور معاشرتی مسائل کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔
اے غزال شب: مشتاق احمد یوسفی
یہ کتاب مشتاق احمد یوسفی کے مزاحیہ مضامین پر مبنی ہے۔ یوسفی صاحب کے انداز بیاں نے اس کتاب کو ادب میں ایک منفرد مقام دیا ہے۔
دیوان غالب: مرزا غالب
مرزا غالب کا دیوان اردو شاعری کا ایک لازوال شاہکار ہے۔ غالب کی شاعری میں عشق، فلسفہ اور زندگی کی گہری باتیں ملتی ہیں۔
داستان ایمان فروشوں کی: عنایت اللہ التمش
یہ کتاب تاریخی ناولوں پر مبنی ہے اور پاکستان کی تحریک آزادی کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ عنایت اللہ التمش نے اس میں تاریخ کو بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے۔
راکھ: مستنصر حسین تارڑ
مستنصر حسین تارڑ کا یہ ناول ایک محبت کی کہانی پر مبنی ہے جو کہ کشمیر کے پس منظر میں لکھی گئی ہے۔ تارڑ صاحب کی نثر اور منظر کشی اس ناول کو خاص بناتی ہے۔
یہ کتابیں نہ صرف علمی اور ادبی لحاظ سے اہم ہیں بلکہ پاکستانی ثقافت اور تاریخ کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کرتی ہیں۔
٭ادریس بابر اعوان
تازہ غزل مع انگریزی ترجمہ جو ہمارے ایک دوست پروفیسر مظہر عباس بھٹی صاحب نے چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے کیا۔ حیران کن نہایت قلیل گنجائش کے ساتھ
سب کا احساس چل رہا ہے یہاں
یعنی کچھ خاص چل رہا ہے یہاں
آپ نے جیت طے بھی کر لی ہے
ابھی تو ٹاس چل رہا ہے یہاں
کچھ نہ کچھ ٹھیک ہونے والا ہے
جتنا بکواس چل رہا ہے یہاں
شہر میں اِس قدر ہے سناٹا
کوئی اجلاس چل رہا ہے یہاں!
ابھی ہونٹوں کے رنگ پھینکے ہیں
ابھی ارداس چل رہا ہے یہاں
بے حسی یہ بتا رہی ہے مجھے
وقت حساس چل رہا ہے یہاں
الیاس بابر اعوان
۱۸ مئی ۲۰۲۴
Here, everyone feels a certain sway, Meaning, something special’s in the play.
You’ve clinched the victory, it’s true, But here, the toss is still underway.
Something’s bound to set itself right, As much nonsense as there is in sight.
The city resonates in such a way, As if a gathering’s in full array!
The hues upon the lips just thrown, Yet melancholy’s path still known.
Numbness tells me as I stand, Time’s in a sensitive hand.
Elias Babar Awan
18th May 2024
یہ ساری ’تخلیقات‘ فیس بک سے ماخوذ ہیں
٭٭٭
مصنوعی ذہانت سے لکھا گیا کالم ۔۔۔ یاسر پیرزادہ
آج میں نے سوچا ہے کہ اگر مصنوعی ذہانت کی مدد سے تقریر لکھی جا سکتی ہے تو کالم کیوں نہیں لکھا جا سکتا؟
یہی بات ذہن میں رکھ کر چیٹ جی پی ٹی کو حکم دیا کہ ایک عدد ہلکا پھلکا کالم تو لکھ کر دکھاؤ۔ لیکن وہ جو آتشؔ نے کہا ہے نا کہ ’بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا‘ تو چیٹ جی پی ٹی کا بھی شور کچھ زیادہ ہی ہے۔
اس سے کام لینے میں کافی سر کھپانا پڑتا ہے، کم از کم کالم والے معاملے میں تو یہی ہوا۔ میری ہدایت پر جس قسم کا ڈرافٹ چیٹ جی پی ٹی سے برآمد ہوا، اس کا ایک نمونہ پیش خدمت ہے:
’سلام، پیارے قارئین! آج ہم عام آدمی کی دنیا کا سفر کریں گے، شاندار دنیا کا، ٹھیک ہے، بس اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں۔ سنبھل کر بیٹھ جائیں کیونکہ ہم روزمرہ کی پراسرار بھول بھلیوں کو اس انداز میں آشکار کریں گے کہ شاید آپ کو اپنی حقیقت پر بھی شک ہونے لگے۔ میں یہاں بیٹھا ہوں، اپنے باورچی خانے میں، یہاں میرا ناشتہ رکھا ہے جس کے ارد گرد چیونٹیاں رقص کرتی ہوئی گزر رہی ہیں۔ ایسے میں آپ مجھ سے ان عام شہریوں کی ناقابل یقین کہانیاں سنیں گے جو ہمارے درمیان چلتے پھرتے ہیں مگر وہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے ناواقف ہیں۔
’آئیے ہم اپنے ایڈونچر کا آغاز باب کی دلچسپ کہانی کے ساتھ کریں، وہ شخص جس نے گاڑی پارک کرنے کے فن میں مہارت حاصل کی۔ جی ہاں، آپ نے صحیح پڑھا ہے۔ باب، جو دن کے وقت ایک خوش مزاج اکاؤنٹنٹ ہے مگر رات کو پارکنگ کے ماہر میں بدل جاتا ہے۔ وہ اپنی گاڑی اس عمدہ انداز میں کھڑی کرتا ہے کہ اگر کوئی پیشہ ور ڈرائیور دیکھ لے تو حیران رہ جائے، یہ ایک ماورائی تجربے سے کم نہیں۔ آگے بڑھو، سپر ہیروز، مسٹر باب ہمارے شہر میں ہیں۔۔۔‘
لاحول ولا قوة۔ واضح رہے کہ لاحول میں نے پڑھی ہے، چیٹ جی پی ٹی نے نہیں! تاہم اس ناکام تجربے کے باوجود میں نے ہار نہیں مانی اور چیٹ جی پی ٹی کو سمجھایا کہ اخباری کالم کیا ہوتا ہے۔
پاکستان کا منظر نامہ کیسا ہے، یہاں کس قسم کے موضوعات پر لکھا جاتا ہے وغیرہ۔ اس پر چیٹ جی پی ٹی نے کہا کہ اچھا، اب سمجھ میں آیا، میں غلط فہمی کی معافی چاہتا ہوں اور دوبارہ کوشش کرتا ہوں تاکہ آپ کو مطمئن کر سکوں۔ میں نے کہا کرو کوشش۔ اس دوسری کوشش کا نتیجہ ملاحظہ فرمائیے:
’پیارے قارئین، حفاظتی بند باندھ لیں کیونکہ ہم طوفانی قسم کے سیاسی منظر نامے کی سیر پر نکلنے لگے ہیں۔ اس دائرے میں جہاں طاقتور اور کمزور کا ٹاکرا ہوتا ہے اور معمولی سیاسی چالوں کو اکثر چائے کی پیالی میں طوفان سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کسی مزاحیہ ڈرامے سے کم نہیں۔ آئیے ایک ایسی دنیا کا تصور کریں جہاں سیاسی فیصلے بورڈ رومز میں نہیں بلکہ چائے کے پیالی پر کیے جاتے ہیں۔ ہماری کہانی کا آغاز مرکزی کردار، چائے والا خان سے ہوتا ہے، جو کہ چائے کی پتیوں کے نمونوں کے ذریعے سیاسی نتائج کی پیش گوئی کرنے کی غیر معمولی مہارت کے ساتھ ساتھ ایک سمجھدار گلی فروش بھی ہے۔
’اب آپ کو تجزیہ کاروں اور دانشوروں کی ضرورت نہیں کیونکہ خان کی چائے کی پتیوں میں سیاسی جماعتوں کا مستقبل بتانے کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ اس کا کڑک چائے کا سٹال سیاسی گفتگو کا مرکز ہے، جہاں سیاست دان اسمبلی کی رکنیت کے لیے نہیں بلکہ خان کے قریب نشست حاصل کرنے کے لیے لڑتے ہیں۔‘
مزید لاحول ولا قوة۔ اگر آپ میں سے کسی کا خیال ہے کہ یہ تحریر قبول صورت ہے تو میں واضح کر دوں کہ اصل ڈرافٹ کا کوئی سر پیر نہیں تھا، خاکسار نے تیر تُکے سے کام چلا کر اسے پڑھنے کے قابل بنایا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کی جانب سے ’سستی‘ کی شکایات پر تحقیقات
ایلون مسک کا ’طنز سے محبت کرنے والا چیٹ بوٹ‘
چیٹ جی پی ٹی ’دیکھنے، سننے اور بولنے کے قابل بن گیا
بے شک مصنوعی ذہانت کی وجہ سے مستقبل میں بہت ساری نوکریاں ختم ہونے کا امکان ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ چیٹ جی پی ٹی جیسی چیزوں کی وجہ سے انسان بالکل ہی عضو معطل بن کر رہ جائے گا۔
ہم سن رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے شاعری کی جا سکے گی اور گانوں کی دھنیں بھی بنائی جا سکیں گی۔ اسی طرح کاپی رائٹنگ کے لیے بھی مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لایا جا رہا ہے اور بھی بہت سے کام ہیں جن پر پہلے انسانوں کی اجارہ داری تھی مگر اب ان پر چیٹ جی پی ٹی کا قبضہ ہو چکا ہے لیکن کیا مصنوعی ذہانت کی مدد سے کی جانے والی مصوری اور شاعری ہمیں قابل قبول ہو گی اور کیا ایسی شاعری اور مصوری پر اسی طرح تنقیدی مضامین لکھے جائیں گے جیسے موزارٹ اور ریمبراں پر لکھے جاتے تھے؟ میرے پاس مستقبل میں جھانکنے کا کوئی ذریعہ تو نہیں مگر پھر بھی مجھے یوں لگتا ہے کہ مصنوعی فنون لطیفہ کو زیادہ پذیرائی نہیں ملے گی۔
آرٹ انسانی جذبات کے اظہار کا نام ہے، کوئی مشین اگر ان جذبات کا اظہار کرے گی تو وہ اظہار کھوکھلا اور جعلی ہو گا، مگر یہ سب اندازے اور قیاس آرائیاں ہیں، اگر چیٹ جی پی ٹی میر اور غالب کے انداز میں شعر کہنا شروع کر دے تو اس بات سے کیا فرق پڑے گا کہ ان شعروں کا خالق کوئی انسان ہے یا مشین، ہم نے تو فقط اچھی شاعری پر جھومنا ہے، سو جھوم لیں گے۔
بالکل اسی طرح جیسے آج کل کی فلموں میں حیرت انگیز مناظر کرومے کی مدد سے نہایت آسانی کے ساتھ فلمائے جاتے ہیں، کہیں دکھایا جاتا ہے کہ کوئی بندہ چٹان سے پھسل کر سمندر میں گر گیا ہے اور کہیں کوئی ٹرین کے نیچے کچلا گیا ہے، ہمیں اچھی طرح علم ہوتا ہے کہ یہ سب کیمرہ ٹِرک ہے مگر اس کے باوجود ہم بے حد دلچسپی کے ساتھ یہ فلمیں دیکھتے ہیں اور پروا نہیں کرتے کہ یہ سب کچھ مشینوں کی جعل سازی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔
اسی مثال کو چیٹ جی پی ٹی پر منطبق کریں، اگر مشینی شاعری مسحور کُن ہو گی تو کیا ہم محض اس لیے نہیں سنیں گے کہ یہ چیٹ جی پی ٹی نے کی ہے کسی انسان نے نہیں؟
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت کیا گُل کھلاتی ہے، فی الحال تو میں اس بات پر مسرور ہوں کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے کم از کم کالم نگاروں کی نوکری کو کوئی خطرہ نہیں کیونکہ جس قسم کا بے معنی کالم چیٹ جی پی ٹی نے لکھ کر دکھایا ہے، اس قسم کا بے ربط کالم تو وہ کالم نگار بھی نہیں لکھتے جنہیں پڑھنا کسی عذاب سے کم نہیں۔
اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کالم نگاروں کے نام آپ کو بتاؤں تو یہ نہیں ہو سکتا، اس کے لیے آپ کو مجھ سے علیحدگی میں وقت لینا پڑے گا کیونکہ ان کالم نگاروں کے نام آپ کو چیٹ جی پی ٹی بھی نہیں بتا سکتی!
https: //www.independenturdu.com/node/158121
٭٭٭
ایک نظم اور اس کا مشینی تجزیہ ۔۔۔ محمد خرم یاسین
ٹوٹتی کشتیاں! ۔۔۔ محمد خرم یاسین
فیلِ علم پہ سوار جوں ہی میں سلطنت ادراک و حکمت پہنچا
آخری صفوں میں کھڑاک اجنبی
کاندھوں سے مجھے بڑے اشتیاق سے تاکتا
دل میں آن بیٹھا
فکر۔۔۔ چائے کی کیتلی میں جا چھپی
اور کرب۔۔۔ پیالی میں اُنڈل گیا
جہاں سے اس نے دل کی جانب سفر کیا اور ہر انگ میں انگارے بھر دیے
جس شام۔۔۔ اجنبی اپنی پیالی لیے،
میری پیالی کے قریب آ بیٹھا
اور استفسار کیا ’’اداس کیوں ہو؟ غم کس بات کا ہے؟‘‘
میں نے سر سے چپلیں اتاریں، پہنیں اور
صحرا کی جانب دوڑ لگا دی!
تشریح: اے آئی
اس نظم میں شاعر اپنے اندر کی بے چینی اور اداسی کا اظہار کر رہا ہے۔ وہ بتا رہا ہے کہ جب وہ علم کی سلطنت میں پہنچا تو اسے وہاں ایک اجنبی نظر آیا۔ اجنبی نے اسے دیکھ کر بڑے اشتیاق سے تاکا۔ یہ دیکھ کر شاعر کے دل میں فکر اور کرب پیدا ہو گیا۔ فکر نے چائے کی کیتلی میں جا کر چھپ لی اور کرب نے پیالی میں اُنڈل گیا۔ پیالی میں سے کرب نے دل کی جانب سفر کیا اور ہر انگ میں انگارے بھر دیے۔
ایک شام اجنبی اپنی پیالی لیے شاعر کی پیالی کے قریب آ بیٹھا اور پوچھا کہ ’’اداس کیوں ہو؟ غم کس بات کا ہے؟‘‘۔ شاعر نے جواب دیا کہ ’’میں اپنے اندر کی بے چینی اور اداسی کی وجہ سے اداس ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیا کروں۔‘‘
شاعر اس نظم میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی انسان اندر سے بے چین اور اداس رہ سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا دل ایک وسیع سمندر ہے جسے علم اور حکمت سے نہیں بھرا جا سکتا۔ انسان کو اپنے دل کی بے چینی کو دور کرنے کے لیے کسی اور چیز کی تلاش کرنی چاہیے، جیسے کہ عشق، محبت، یا روحانیت۔
اس نظم میں شاعر نے صحرا کی طرف دوڑنے کا ذکر کیا ہے۔ یہ صحرا ایک ایسی جگہ ہے جہاں انسان اپنی بے چینی کو دور کر سکتا ہے۔ صحرا میں انسان تنہائی میں اپنے آپ کو تلاش کر سکتا ہے۔
اس نظم کو کئی طرح سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک طرح سے اسے ایک تصوف والی نظم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے اندر کی بے چینی کو ایک ایسی کیفیت کے طور پر بیان کرتا ہے جو اسے علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر کی روحانی تشنگی کو نہیں ختم کر پا رہا ہے۔
ایک اور طرح سے اس نظم کو ایک سماجی نظم کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نظم میں شاعر اپنے دور کی بے چینی اور اداسی کا اظہار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ علم اور حکمت حاصل کرنے کے باوجود بھی لوگ اندر سے بے چین اور اداس رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مقصد کو نہیں پا سک رہے ہیں۔
٭٭٭
مشینی نظمیں
فیس بک پر ادریس آزاد نے چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے لکھی جانے والی نظموں کا ایک مقابلہ منعقد کیا تھا، اس میں اول، دوم اور سوم آنے والی نظمیں
اول انعام: اسد رضا
عنوان: نقل مکانی
نقل مکانی ۔۔۔ اسد رضا
مجھے نئے گھر میں کیا لے کر جانا چاہیے؟
یہ میز؟ یہ کرسی؟
یہ کتابیں، جو میں نے سالہا سال اکٹھی کیں،
ہر صفحہ، ہر کہانی، کسی اور کا قصہ ہے۔
یہ دوستوں کے بھیجے گئے کارڈز،
خطوط، جو شاید ہی کسی نے لکھے ہوں،
کیا یہ سب ماضی کی کوئی بھول ہے؟
یہ منگنی کی لوٹائی گئی انگوٹھی،
ٹوٹے وعدے کی یادگار، جیسے اودیسوس کا ادھورا سفر،
کیا اس نے مجھے ٹھیک چھوڑا تھا؟
یہ میز، یہ لیپ ٹاپ،
جہاں میں بیٹھ کر لکھتا اور پڑھتا تھا،
کیا یہ بھی میری اپنی تحریریں تھیں؟
یا کسی اور کے خیالات کی قید؟
یہ مذہبی کتابیں، جن میں سیدھا چلنے کی تلقین ہے،
جبکہ میرا ڈی این اے ہی ٹیڑھے دھاگے سے بُنا ہے۔
یہ موبائل، جس پر میں فیس بک سکرول کرتا ہوں،
ہر پوسٹ، ہر تصویر، جیسے کسی اور کی دنیا ہو۔
یہ گلدان، جس میں نقلی پھول لگے ہیں،
کیا یہ بھی مایا کا ایک پردہ ہے؟
یہ ٹی وی، جس پر ہمہ وقت سیاسی بکواس جاری رہتی ہے،
مکڑی نے اس پر جالا بنا لیا ہے،
کیا ان چیزوں کا میرے ساتھ کوئی تعلق ہے؟
ہر گزرتے دن، ہر شے سے بچھڑنے کا فیصلہ،
کیا یہ کسی مرقعہ کی مانند ہے، یا دیوانگی کی حد؟
یہ انگوٹھی، جو کبھی محبت کا نشان تھی،
اب فقط ایک بوجھ، جیسے کہ ہاملٹ کا بھوت۔
یہ کتابیں، جو علم کا خزانہ تھیں،
اب فقط کاغذ کا بوجھ، جیسے کہ ایکٹرون کا پتھر۔
یہ گلدان، جس میں کبھی تازہ پھول ہوتے تھے،
اب نقلی پھولوں کا بوجھ، جیسے کہ سکندر کی فتوحات کا بوجھ۔
کیا میرا اپنا نئے گھر میں جانا ضروری ہے؟
یا میں بھی ایک افلاطونی غار کی قید میں ہوں؟
کیا میں اپنی ہی پرچھائیں ہوں؟
یا حقیقت کی تلاش میں بھٹکا ہوا ایک مسافر؟
یہ سب کچھ چھوڑ کر، کیا واقعی کچھ باقی ہے؟
میری اپنی ذات بھی کیا کچھ ہے؟
آئینے میں اپنا عکس، کیا واقعی میں ہوں؟
یا یہ بھی ایک سراب ہے، جس کا کوئی مطلب نہیں؟
آخرکار، یہ رسی، یہ پھندہ،
کیا یہ واقعی آزادی ہے؟
یا یہ صرف میرے پروں کی کترن ہے؟
کیا میرا اپنا نئے گھر میں جانا ضروری ہے؟
اب کسی مکان میں کسی انسان کی ضرورت نہیں۔
٭٭٭
دوسرا انعام: صفیہ کوثر
عنوان: بلا عنوان
بلا عنوان ۔۔۔ صفیہ کوثر
خوابوں کی دھند میں، جہاں حواس کی چادر ہر حقیقت کو چھپاتی ہے،
ہم ایک نادیدہ حقیقت کا سامنا کرتے ہیں، جو اکثر نظر سے اوجھل رہتی ہے
دل کی گہرائیوں میں، ایک کشمکش جاری ہے، ہر خیال ایک معمہ کی طرح ابھرتا ہے،
جو ہماری داخلی تلاش اور عدم یقین کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ معمہ، گہرے سمندر کی طرح، ایک مدفون کہانی سناتا ہے۔
ہر لفظ، ہر تصور، ایک طویل تاریخی حقیقت کو سمیٹتا ہے،
جو وقت کی تہوں میں جڑی ہوئی ہے
زندگی کا یہ سفر، ایک گہرے سمندر کی مانند ہے،
جہاں ہم محض مسافر ہیں، کبھی منزل پر نہیں پہنچتے،
مگر ہر قدم پر ایک نئی حقیقت کا انکشاف کرتے ہیں۔
ہماری جستجو، ہماری محنت، ہمیں ہمیشہ اپنے آپ کے قریب لے آتی ہے،
جو کبھی مکمل طور پر واضح نہیں ہوتی، مگر ہمیشہ دل کے قریب ہوتی ہے
یہ گہرائی، یہ مایوسی، یہ امیدیں، سب مل کر ایک پیچیدہ حقیقت کو تخلیق کرتی ہیں۔
ہم ان خیالات میں گم ہو جاتے ہیں، جو دل کی گہرائیوں کو بیان کرتے ہیں،
اور ہر لمحہ ایک نامعلوم حقیقت کی تلاش میں بکھر جاتا ہے۔
ہماری ذات، ہمارے خیالات، اور خوابوں کی گہرائی میں چھپی سچائیاں، ایک ایسی حقیقت تخلیق کرتی ہیں،
جو کبھی مکمل طور پر سمجھنا ممکن نہیں۔
یہ حقیقت ایک نامعلوم گہرائی ہے، جو ہمارے وجود کے ہر زاویے میں بکھری ہوئی ہے،
اور ہم ہر لمحہ اسے تلاش کرتے رہتے ہیں
٭٭٭
تیسرا انعام: طوبیٰ وحید
عنوان:
پی ایچ ڈی کی طالبہ کی داستان ۔۔۔ طوبیٰ وحید
اندھیری راہوں میں تنہا چلتی ہے،
خوابوں کے جگنوؤں کا پیچھا کرتی ہے۔
خواب بھی ہیں، حقیقت بھی، امیدیں بھی،
دل میں اٹھتے سوال، خوف کی زنجیر بھی۔
کبھی اڑتی ہے خیالوں کے پروں پر،
کبھی الجھتی ہے خود سے، اپنے ہی زخموں میں۔
رہنما کے طعنے، کبھی حوصلہ، کبھی طیش،
یہ راہ، ایک جدوجہد، ایک مسلسل کوشش۔
خود سے لڑتی، اپنے وجود کی جنگ،
آنے والے کل کی فکر، بس ایک پل کا سنگ۔
آگے بڑھنے کی امید، دل میں بسا کر،
صبر کی چادر اوڑھ کر، جیتی ہے یہ سفر۔
کل کی روشنی، آج کی تاریکی میں چھپی،
یہی تو ہے پی ایچ ڈی کی زندگی، ایک کہانی انوکھی
٭٭٭
غزلیں
غزلیں ۔۔۔ رؤف خیرؔ
میں خاک نشینوں سے کہوں کیا کہ فلک ہوں
اندھوں کو بھلا کیسے بتاؤں کہ دھنک ہوں
بہروں سے کہوں کیسے کہ نغمہ ہوں دھمک ہوں
بے شامّہ ناکوں کے لیے عطر، مہک ہوں
میں حامیِ ایقان ہوں، میں ماحیِ شک ہوں
جو منزل ِ مقصود کو جائے وہ سڑک ہوں
کرتا ہو ں چکا چوند بہ ہر حال سخن سے
میں رعد ہوں، بجلی ہوں، چمک اور دمک ہوں
حق گوئی و بے باکی تو گھٹی میں پڑی ہے
میں حرفِ پس و پیش نہیں ہوں، نہ جھجک ہوں
اللہ نے محتاج کسی کا نہیں رکھا
میں اپنی جگہ فوج ہوں آپ اپنی کمک ہوں
کل خیرؔ کوئی یاد بھی رکھّے کہ نہ رکھّے
خوش گوہوں میں اول ہی سے اور آج تلک ہوں
٭٭٭
جانے بنا نکاتِ زباں و بیاں چلے
ایسے ہیں وہ جہاز جو بے بادباں چلے
دیکھو فریب کھاتے نہیں یار بار بار
اُس بے وفا سے ہاتھ ملا نے کہاں چلے
پیچھے چلے زمان و مکاں کے نہ ہم کبھی
پیچھے قلندروں کے زمان و مکاں چلے
ہم سے الجھ کے ہو گئے بے نام و بے نشاں
ہم جب سیاہ ذہنوں میں آتش بہ جاں چلے
تو رکھ رہا ہے حرف ہمارے ہی مال پر
ہم تو یہ چاہتے تھے کہ تیری دکاں چلے
لے دے کے پھر خرابہ آباد رہ گیا
سب خیر چھوڑ چھاڑ کے شاہ جہاں چلے
محفل میں آپ جیسے جہاں سامعین ہوں
پھر کیوں نہ خیرؔ شعر ہمارا وہاں چلے
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ راجیش ریڈی
اِس دن کے منتظر تھے جو، وہ یار کیا ہوئے
مر بھی چکا میں، میرے عزا دار کیا ہوئے
سوئے ہوؤں کو کرتے تھے بیدار، کیا ہوئے
بستی میں تھے جو سر پھرے دو چار، کیا ہوئے
اُس پار سے میں آیا ہوں دریا میں ڈوب کر
مجھ کو بلا رہے تھے جو اِس پار، کیا ہوئے
کرتا رہوں میں خود سے ہی کب تک مکالمہ
باقی مری کہانی کے کردار کیا ہوئے
پھر زندگی نے ہم کو کہیں کا نہیں رکھا
اک بار زندگی کے طلبگار کیا ہوئے
گھر کے بڑوں۔ بزرگوں کو سمجھانے لگ گئے
بچّے ذرا سا پڑھ کے سمجھدار کیا ہوئے
٭٭٭
دنیا کو ریشہ۔ ریشہ اُدھیڑیں، رفو کریں
آ بیٹھ تھوڑی دیر ذرا گفتگو کریں
جس کا وجود ہی نہ ہو دونوں جہان میں
اُس شئے کی آرزو ہی نہیں جستجو کریں
دنیا میں اک زمانے سے ہوتا رہا ہے جو
دنیا یہ چاہتی ہے وہی ہو بہ ہو کریں
ان کی یہ ضد کہ ایک تکلف بنا رہے
اپنی تڑپ کہ آپ کو تم، تم کو تو کریں
ان کی نظر میں آئے گا کس دن ہمارا غم
آخر ہم اپنے اشکوں کو کب تک لہو کریں
دل تھا کسی نے توڑ دیا کھیل۔ کھیل میں
اتنی ذرا سی بات پہ کیا ہاؤ-ہُو کریں
دل پھر بضد ہے پھر اسی کوچے میں جائیں ہم
پھر ایک بار وہ ہمیں بے آبرو کریں
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ اسلم عمادی
گلی میں پھر اتر گئی ہے دیکھ رات ، سامنے تو آ
مثال شمع بن چکی ہے دل کی بات، سامنے تو آ
نگر نگر میں جنگلوں کا ایسے راج عام ہے
بدن چرا رہی ہے اب یہاں حیات، سامنے تو آ
اگر چہ ہم میں صبر و ضبط تھا ، مگر ترے لئے
یہ سن کہ ہم نے مان لی ہے تجھ سے مات، سامنے تو آ
یہیں کہیں پہ تو‘ـ چھپا ہے مسئلوں کے درمیاں
لگائے بیٹھا کس لئے ہے، اب یہ گھات ،سامنے تو آ
یزید بن کے دُور سے فساد کر رہا ہے ، کیوں
مقابلہ ہے حق سے، یاں لبِ فرات، سامنے تو آ
ہر ایک شئے سے آ رہی ہے ، تیری دل ربا مہک
جھلک رہی ہیں بزم میں تری صفات، سامنے تو آ
تو‘ مجھ میں ہے کہ میں ترا شریک ہوں، نفس، نفس
کہ جیسے مجھ میں بس گئی ہے تیری ذات ،سامنے تو آ
اشارتوں، کنایوں، استعاروں سے نہ کھیل یوں
تو آج کر لے اسلم اپنی خاص بات ، سامنے تو آ
٭٭٭
تیری محفل میں ملے ایسے بھی چہرے ہم کو
جن کے اطوار مناسب نہیں لگتے ہم کو
جو تری بزم میں سجدے میں پڑے رہتے ہیں
بغض کی بو ہی ملی ان کی ادا سے ہم کو
اس دریچہ سے اٹھا چاند ، تو موسم جاگا
پھول روشن نظر آنے لگے پھر سے ہم کو
اس دریچہ سے ہی وابستہ ہے شوقِ دیدار
عین ممکن ہے کہ تو خود نظر آئے ہم کو
وہی گیسو، وہی عارض ، وہی روشن سی جبیں
موہ لیتے ہیں سدا آپ کے جلوے ہم کو
ٹوٹتے خوابوں نے یہ حال کیا ہے اپنا
اب تو صحرا بھی دکھتے ہیں سفینے ہم کو
دور حاضر کی سیاست ، کہ عدالت، کہ اصول
سب کے پہلو میں نظر آتے ہیں دھوکے ہم کو
اب تو مصنوعی سا لگتا ہے جہاں کا ماحول
ہر جگہ ملتے ہیں اب کھیل تماشے ہم کو
کبھی اس شہر میں الفت کا اجالا تھا رواں
اب تو ہیں پیش ہر اک رہ پہ اندھیرے ہمکو
تھے وطن میں کبھی مانوس سبھی دوست، احباب
نام سے کوئی یہاں اب تو پکارے ہم کو
بس یہی حرف دعا نقش ہے لب پر اسلم
پھر افق پر نظر آ جائیں اجالے ہم کو
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ خاور حسین
ایک بدلی جو مرے دشت پہ چھائی ہوئی ہے
اس نے بس پیاس کی شدت ہی بڑھائی ہوئی ہے
ہمسفر تیز نہ چلنا کہ سرِ راہ وفا
میں نے احساس کی گٹھڑی بھی اٹھائی ہوئی ہے
تیرے ہونٹوں کا تکلم، مرے سازینہ فروش
دل کی دھڑکن بھی اسی دھن پہ بنائی ہوئی ہے
تیرے حق میں یہی بہتر ہے کہ میں چپ ہی رہوں
اس لئے تجھ سے کوئی بات چھپائی ہوئی ہے
چشم وا ہی رہے، ہونٹوں پہ مگر قفل رہے
یہ عجب رسم ہے جو شہر میں آئی ہوئی ہے
تو نے جو بات چھپا رکھی ہے اب تک ہم سے
تیری آنکھوں نے جہاں بھر کو بتائی ہوئی ہے
٭٭٭
عشق رستے میں کبھی ایسی گھڑی آتی ہے
اپنے مضبوط ارادوں پہ ہنسی آتی ہے
یہ رہِ کرب و بلا ہے سو مرے ساتھ یہاں
دوست وہ آئے جسے ہم سفری آتی ہے
پہلے میں ڈھونڈتا رہتا تھا محبت کا جواز
اب مجھے ڈھونڈنے والوں پہ ہنسی آتی ہے
اِس طرح آتی ہے ساحل پہ وہ آہستہ خرام
جیسے اک ناؤ چراغوں سے بھری آتی ہے
قیدِ تنہائی میں زنجیر چھنکنے کی صدا
ایسی آتی ہے کہ جوں خوش خبری آتی ہے
کرچیاں بکھری پڑی ہیں مرے چاروں جانب
میں سمجھتا تھا مجھے شیشہ گری آتی ہے
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ ڈاکٹر ثمیر کبیر
چاہت سے کسی کو تری انکار نہیں ہے
ہر دل میں مگر جرات اظہار نہیں ہے
صحرا کا سفر کاٹ کے لوٹا تو یہ دیکھا
شہروں میں بھی اب سایہ دیوار نہیں ہے
دیکھا نہ کرو سب کو مروت کی نظر سے
ہر شخص عنایت کا طلبگار نہیں ہے
آنے میں جھجک ہو گی نہ جانے میں تکلّف
اس گھر میں کہیں بھی در و دیوار نہیں ہے
اک تم ہی نہیں خواب میں ڈوبے ہوئے اے دوست
ہر جاگنے والا یہاں بیدار نہیں ہے
٭٭٭
رکھا تو ہے سنبھال کے پایا ہوا سا کچھ
لیکن ابھی بھی دل میں ہے کھویا ہوا سا کچھ
یہ کس دیار غیر میں ہے کارواں مرا
محسوس کر رہا ہوں میں بھٹکا ہوا سا کچھ
بیٹھا تو ہوں سمیٹ کے میں اپنے آپ کو
پر تیری رہگزر پہ ہوں بکھرا ہوا سا کچھ
کب تک سنبھال پاؤ گے رشتوں کی ڈور کو
سلجھا ہوا سا کچھ ہے تو الجھا ہوا سا کچھ
خاموشیوں کی عادت بیجا ہے اس قدر
پتہ بھی کھڑکھڑائے تو دھڑکا ہوا سا کچھ
ہم نے تمہارے نام پہ تحریر کر تو دی
سوچا ہوا سا کچھ ہے تو لکھا ہوا سا کچھ
آنکھوں میں اشک آئے تھے ہم نے چھپا لئے
ہنستا ہوا سا کچھ ہے تو روتا ہوا سا کچھ
زلفوں کے اس حصار سے باہر نکل ثمیر
زلفوں کے اس حصار میں پھنستا ہوا سا کچھ
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ خورشید بھارتی
گماں بجا ہے مگر اعتبار مت کرنا
چمکتی ریت کو پانی شمار مت کرنا
کوئی جو اچھا ملے مجھ سے اس کے ہو جانا
تجھے قسم ہے دکھاوے کا پیار مت کرنا
تمام جھیل کے پانی کو پی گیا سورج
پرندے پیاسے ہیں ان کا شکار مت کرنا
میں روشنی کی بلندی کو چھونے نکلا ہوں
دیا سنبھالے مرا انتظار مت کرنا
حسین لوگ بڑے بے وفا نکلتے ہیں
حسین لوگوں پہ تم اعتبار مت کرنا
ملیں گے مطلبی بھی زندگی کی راہوں میں
ہر ایک شخص پہ تم جاں نثار مت کرنا
مزاج لہروں کا خورشید آج ٹھیک نہیں
کسی بھی حال میں دریا کو پار مت کرنا
٭٭٭
بسی ہوئی ہے خلش ملگجے اجالوں میں
کٹے گی آج کی شب بھی ترے خیالوں میں
یہ زندگی بھی کوئی امتحان لگتی ہے
ہر ایک شخص ہے الجھا ہوا سوالوں میں
جو تیرے چہرے کو پڑھ کر نصیب ہوتا ہے
وہ لطف ہی نہیں ملتا مجھے رسالوں میں
کبھی جو ذکر چھڑے نامراد لوگوں کا
ہمارا نام بھی لے لینا تم حوالوں میں
تمام لوگوں کی نظریں تمہی پہ ٹھہریں گی
بس ایک پھول سجا لینا اپنے بالوں میں
٭٭٭
غزلیں ۔۔۔ دیوی ناگرانی
ان بْجھی پیاس، روح کی ہے غزل
خشک ہونٹوں کی تشنگی ہے غزل
نرم احساس مجھ کو دیتی ہے
دھوپ میں چاندنی لگی ہے غزل
اک عبادت سے کم نہِیں ہرگز
بندگی سی مجھے لگی ہے غزل
بولتا ہے ہر ایک لفظ اس کا
گفتگو یوں بھی کر رہی ہے غزل
مہراباں اس قدر ہوئی مجھ پر
میری پہچان بن گئی ہے غزل
اس میں ہِندوستاں کی خوشبو ہے
اپنی دھرتی سے جب جڑی ہے غزل
اس کا شرنگار کیا کروں دیوی
سادگی میں بھی سج رہی ہے غزل
٭٭٭
اپنی پہچان پا گئی، یارو
میری ہستی ہی جب مٹی، یارو
ساتھ میں تھا ہجوم سوچوں کا
بھیڑ سے میں گھری رہی، یارو
بن گئی ایک خوشنما ٹیکا
دھول ماتھے سے جب لگی، یارو
میں جو ڈوبی کبھی خیالوں میں
اک غزل مجھ سے ہو گئی، یارو
بادلوں میں چھپا لیا چہرا
شرم سی چاند کو لگی، یارو
دیکھ کر عکس، آئینہ چونکا
تھی یہ دیوی کہاں چھپی، یارو
٭٭٭
افسانے
صبح نو ۔۔۔ وسیم عقیل شاہ
آفس سے بری ہو کر، گردن جھکائے یہاں وہاں دن گزار لینے کے بعد وہ گھر پہنچا، پھر جب سورج نے آنکھیں موند لیں اور آسمان تاروں کی چادر اوڑھ کر گہری نیند سو گیا، تو وہ اپنے ہالے کی روشنی میں تنہا جاگتا رہا صبح کو اس سوال سے اس کی آنکھ کھلی کہ، ’آخر آنکھ لگی کب تھی؟‘
اس نے بستر پر پڑے ہی پڑے ہاتھ سے کچھ ٹٹولا کچھ نہ پا کر اسی جگہ اٹھ کر بیٹھ گیا اس کی نظر سامنے دیوار پر قطار سے آویزاں آرائشی فریمز پر پڑی، جس میں مذہبی طرز کی تصاویر اور تحریریں رقم تھیں اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی ہنگر میں ٹنگا گاؤن، کچھ دوسرے کپڑے اور ایک نیا سا نرسری اسکول بیگ اسکول بیگ کے ٹھیک نیچے فرش پر ایک گڑیا بے حال پڑی تھی دائیں طرف پلائی ووڈ کی ایک میز تھی جس پر کئی ساری چیزیں ایک دوسرے میں الجھی ہوئی نظر آ رہی تھیں غرض کہ ہر چیز بے ترتیب اور بکھری بکھری سی تھی کمرے کا یہ بکھرا بکھرا سا منظر یقیناً اس کے لیے ذہنی تناؤ کا باعث تھا لیکن کمرے کی ہر شئے اسے اپنے پن کا انوکھا سا احساس دلا رہی تھی اس کے چہرے پر ہلکا سا تبسم نمودار ہوا وہ مسکراتے ہوئے زیر لب منمنایا، لیکن ایک بار پھر چونک کر کچھ ٹٹولنے کے لیے ہاتھ کو زحمت دینے لگا اسی لمحے اسے کسی کے اپنے قریب ہونے کا احساس ہوا اس نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ اس کی ماں اس کے پاس کھڑی تھی اور بڑی ہی شفقت سے اسے کچھ کہہ رہی تھی ماں کا مامتا بھرا مقدس احساس اسے عجیب خوشگوار کیفیت سے سرشار کر گیا ماں کے جانے کے کچھ دیر بعد اس کی چار سالہ بیٹی دوڑتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی اور خرگوش کی طرح اچھل کر اس کی گود میں بیٹھ گئی بچی اپنی توتلی زبان میں دیر تک اسے کچھ سمجھاتی رہی بچی کا معصومانہ انداز اور پرندوں کی سی چہکار سے اس کے دل میں مسرت کے سو دیپ جل اٹھے اسے یہ بات عجیب مگر بے حد خوش کن لگی کہ اس کی ننھی سی بیٹی اتنی پیاری اور اتنی ساری باتیں کر لیتی ہیں بچی نے فرش پر اپنی بے حال پڑی گڑیا کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور دروازے سے باہر چلی گئی
اس نے محسوس کیا کہ روز کی طرح آج اسے کسی قسم کا ذہنی تناؤ نہیں تھا، بیدار ہوتے ہی وہ اپنے اندر انوکھی سی قلبی مسرت محسوس کر رہا تھا البتہ ایک بے چینی ضرور تھی، کچھ تو کمی تھی جو بار بار اسے اپنے نہ ہونے کا احساس دلا رہی تھی اسی ادھیڑ بن میں وہ کمرے سے باہر جانے کے لیے پلنگ سے اترا اور دروازے کا رخ کیا اس کمرے کے بغل میں ایک اور کمرہ تھا جس پر ایک سرخ رنگ کا پردہ جھول رہا تھا دائیں طرف کچن تھا جہاں سے ہلکا ہلکا گرم بھپکا اٹھ رہا تھا اور جس جگہ وہ کھڑا تھا وہ اس مکان کا ہال تھا وہ ابھی ہال میں آیا ہی تھا کہ معاً دھاڑ سے گھر کا صدر دروازہ کھلا اس کا دس برس کا گول مٹول بیٹا ہاتھوں میں فٹ بال لیے اندر داخل ہوا اور سلام کرنے کے بعد اس کی طرف مسکرا کر دیکھتے ہوئے سرخ پردے والے کمرے میں جا گھسا بیٹے کو دیکھ کر وہ اس طرح خوش ہوا جیسے مہینوں بعد اسے دیکھ رہا ہو بیٹے کے کمرے میں داخل ہو جانے کے بعد بھی دیر تک اس کے چہرے پر خوشی مسکراہٹ بن کر سجی رہی کچھ دیر بعد بیٹا ہاتھ میں موبائل فون لیے ہال میں آیا اور صوفے پر بیٹھ کر فون میں منہمک ہو گیا بیٹے کو یوں دیکھ کر اسے لگا کسی نے اس کے ذہن پر زور سے دستک دی اسے کچھ یاد آنے لگا، مگر دھندلا سا اس نے دماغ پر زور دیا ’’کچھ تو ہے جو مس ہو رہا ہے اسی درمیان کچن سے کھٹر پٹر کی آواز آئی تو وہ اس طرف متوجہ ہوا اگلے ہی پل اس کی خوبصورت بیوی ڈوپٹے سے پیشانی پوچھتی ہوئی باہر نکلی اسے دیکھتے ہی وہ ایکدم سے گویا ساکت ہو گیا بیوی کے چہرے کی تازگی، تیکھے نقش نگار اور سَڈول جسم کا لبھاؤ اسے بے قابو کر گیا ایک غیر مرئی قوت اسے بیوی کے قریب لے آئی یک لخت اس نے مضبوطی سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا بیوی نے پہلے نرم نرم سا احتجاج کیا، پھر جلدی ہی سل سل کرتی مچھلی کی طرح ہاتھ سے پھسل گئی اور پرے ہٹ کر خود کو سمیٹنے لگی وہ پھر سے چونک پڑا کہ یہ اس کی اپنی ہی بیوی تو ہے، آج اتنی پر کشش کیسے لگ رہی ہے اسی اثنا بیوی کی فون کی رنگ بجی جو اس کے بائیں ہاتھ میں تھا فون کی گھنٹی کی آواز سنتے ہی اس کی کیفیت تبدیل ہو گئی ‘کچھ تو ہے جو مس ہو رہا ہے ‘
’’عجیب بے ہودگی ہے دکھائی نہیں دیتا گھر میں ممّی ہیں، بچے ہیں
بیوی کی آواز پر وہ گویا نیند سے جاگا، بیوی کے لہجے میں کچھ حیا بھی تھی اور کچھ ناراضی بھی
’’پاپا سنڈے ہے نا آج، آج تو لیے چلو پلیز… ‘‘
بیٹے نے موبائل فون سے سر اٹھاتے ہوئے پر اشتیاق لہجے میں کہا
ہاں ہاں پاپا، پلیج چلو نا گاردن چلتے ہیں
بیٹی بھی کہیں سے ہال میں آ گئی اور اس نے بھی چہکتے ہوئے اس کے پیر کھینچے
اس ادھیڑ بن میں بچوں کا یہ پر جوش اِصرار اسے بھلا لگا اور ابھی وہ اس احساس کی مٹھاس کو اپنے اندر سمو بھی نہ پایا تھا کہ بیوی طنزیہ انداز میں بڑ بڑائی:
’’ہفتہ بھر آفس، آفس اور آفس سے موبائل، موبائل ….؟ اس کے علاوہ کچھ ہے بھی کہ نہیں زندگی میں ….؟ ‘‘
یہ کہہ کر وہ براہ راست اس سے مخاطب ہوئی:
’’گھڑی دیکھی ہے آپ نے؟ بارہ بجے صبح ہو رہی ہے آپ کی، ذرا اپنے موبائل میں گھڑی بھی دیکھ لیا کیجیے ‘‘
اب کے وہ گویا ہل سا گیا، اس کے چہرے کے الجھے خطوط سلجھ گئے، گویا سارا عقدہ اس پر کھل گیا ہو ابھی آ کر بات کرتا ہوں یہ کہہ کر وہ بڑی سرعت سے اپنے کمرے کی طرف دوڑا کمرے میں پہنچ کر ہانپتے ہوئے بستر کو اتھل پتھل کرنے لگا، میز پر رکھی چیزوں کو مزید بکھیر کے رکھ دیا آخر پلنگ کے نیچے جھانکنے کے لیے جھکا اور جھک کر جب اٹھا تو اس کے چہرے پر یک گونہ اطمینان اور ہاتھ میں اپنا موبائل فون تھا اس نے موبائل فون کو الٹ پلٹ کر دیکھا، رات کو نیند میں موبائل پلنگ کے نیچے گر پڑا تھا اور شاید سوئچ آف ہو گیا تھا وہ کچھ دیر تک بند موبائل فون کو غور سے دیکھتا رہا، پھر کچھ سوچ کر فون کو آن کیے بغیر ہی تکیے کے نیچے رکھ دیا اور مڑ کر ہال کی طرف چل پڑا، جہاں اس کے بیوی بچے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
٭٭٭
ایک خط ۔۔۔ گل اسلام
سمانہ گاؤں ریاست پٹیالہ انڈیا سے آج سے کئی سال پہلے ایک خاتون جس کا نام اوشا تھا اس نے پوسٹ آفس خوشاب کے پتے پر ایک خط بھیجا تھا۔ معلوم نہیں وہ خط اب کہاں ہو گا ؟ مجھے ایک دوست کی وساطت سے اس خط کا مضمون معلوم ہوا تو اپنے الفاظ میں اسے اوشا کی زبانی آپ تک پہنچا رہا ہوں۔
محترم پوسٹ ماسٹر صاحب
آداب عرض
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ خط آپ کو کیوں لکھ رہی ہوں؟ اور آپ سے میرا کیا واسطہ ہے۔ جی تو سنیے آپ کے پاس بہت سے ہرکارے (ڈاکیے) ہیں جو خوشاب کے مختلف محلوں میں دنیا بھر سے آئی ہوئی ڈاک پہنچاتے ہیں۔ ان ہرکاروں میں سے ایک ہرکارا بڑا خوش قسمت ہے جو روز اس دربار کی زیارت کر کے آتا ہے جس کی زیارت کو تا عمر میری نگاہیں ترستی رہیں گی۔ محلے سے مراد گلی ملکہ والی ہے اور دربار سے مراد اس محلے میں واقع میرا وہ گھر ہے جس کی خوشبو کے جھونکے ہر ساعت میرے دل پر دستک دیتے ہیں۔ اپنے ہرکارے سے کہیے یا خود تشریف لے جائیے۔ آپ ملکہ والی گلی میں داخل ہوئے۔ دائیں طرف سے مکان گنیے۔ جب آپ دسویں دروازے پر پہنچیں گے تو اپنے قدموں کو روک لیجئے۔ ہولے ہولے بڑے پیار سے قدم اٹھائیے، اگلا گھر اوشا کا گھر ہے۔ ہائے یہ کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہےکہ اوشا سے خوشاب شہر اور یہ گھر چھوٹ گیا ہے۔ اوشا اب خوشاب میں نہیں ہے۔ اب خوشاب اوشا میں ہے۔ پوسٹ ماسٹر صاحب آگے کا خط اس گھر کی نئی مالکن کے نام ہے۔ آپ دروازے پر دستک دیجئے۔ اس گھر کی مالکن تک میرا خط پہنچائیے۔ آپ کی بڑی مہربانی، آپ کی نوازش کہ آپ نے میرا خط اس گھر تک پہنچایا۔
میری بہن،
کاش میں تم سے ملی ہوتی کاش میں نے تم کو دیکھا ہوتا۔ شاید دنیا میں مجھے کسی دوسرے شخص سے ملنے کی اتنی تڑپ نہ ہو جتنی تم سے ہے۔ جس گھر میں تم رہ رہی ہو، یقین جانو، تم بڑی خوش قسمت ہو کہ تم کو رہنے کے لیے اوشا کا گھر ملا۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آتا کہ خوشاب مجھ سے چھوٹ گیا ہے۔ صبح کو جب بھی جاگ آتی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میں خوشاب میں ہوں۔ پھر دھیرے دھیرے حقیقت کھلتی ہے کہ میں خوشاب سے بہت دور سمانہ میں ہوں۔ درمیان میں نہ جانے کتنے دریا ہیں، نہ جانے کتنے پہاڑ ہیں، صحرا، شہر اور آبادیاں ہیں۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وقت ہمیں ایسا پلٹا دے گا۔ بہت جی کرتا ہے کہ پر لگ جائیں اور میں۔۔۔۔۔۔۔
شاید اب تو عمر بھر یہ ارمان پورا نہ ہو۔ عمر بھر اسی کسک اور حسرت سے جینا پڑے گا۔
میں اپنا دکھڑا لے کر بیٹھ گئی، بہنا تم بھی نہ جانے کس دیس سے اور کتنی کٹھنائی سہ کر اوشا کے گھر پہنچی ہو گی۔ شاید میری طرح یہ اجنبی گھر تمہیں بھی ڈستا ہو ، شاید تم بھی راتوں کو اٹھ اٹھ کر فریادیں کرتی ہوں، شاید تمہارا بھی ہر پل بے قراری میں گزرتا ہو۔ میری بہنا، تم بھی میری طرح مجبور ہو گی۔ میں اپنے لیے کچھ نہیں کر سکتی تو تمہارے لیے کیا کر سکتی ہوں۔ ہاں مجھے تم سے ہمدردی ضرور رہے گی اور میری دعا ہو گی کہ تمہارا دل اوشا کے گھر میں لگ جائے۔
بہنا! اتنا تو تمہیں پتہ چل گیا ہو گا کہ اوشا نے یہ خط تمھیں کسی غرض کی بنا پر لکھا ہے۔ تمہاری محرومیاں اور بے بسیاں اپنی جگہ، کچھ پل کے لیے اوشا کے دل کا حال سن لو۔ بہنا یہ گھر مجھے بہت پیارا ہے۔ میری تمنا ہے کہ اس گھر میں تمہیں ڈھیر ساری خوشیاں ملیں۔ تمہارے سر کا سائیں سلامت رہے۔ تمہارے بچوں کی خیر ہو۔ اگر ہو سکے تو اس گھر سے محبت کرنا۔ نچلی منزل میں تین کمرے اور ایک کچن ہے۔ دائیں طرف کے کمرے کی ایک کھڑکی کچن کی طرف کھلتی ہے۔ اس کمرے کو اپنا مسکن بنانا۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ آپ کے لیے کچن کی آمد و رفت آسان ہو گی۔ دوسرا باہر کا صدر دروازہ جب کھٹکھٹایا جاتا ہے تو اپ کو دستک آسانی سے سنائی دے گی۔ اس کمرے میں ملکیت کے عناصر بہت زیادہ ہیں۔ درمیان کا کمرہ بچوں کو اور بائیں جانب کا کمرہ بزرگ یا دوسری خواتین کے لیے خاص کر دیجئے گا۔ کچن میں کسی کی قسم کی تبدیلی مت کیجیے گا۔ برآمدے کے آگے انگور کی بیل لگی ہوئی تھی۔ اگر نامساعد حالات سے وہ فنا ہو گئی ہو تو دوسری بیل منگوا لیجے۔ آنگن میں میرے سر تاج کبھی کبھی کلہاڑی سے لکڑیاں چیرتے تھے۔ میرا اکثر ان سے اس بات پر جھگڑا ہوتا۔ اس وجہ سے آنگن کے کچھ ٹائل خراب ہو گئے تھے۔ مجھے امید ہے آپ نے آنگن کے ٹائل بدلوا لیے ہوں گے۔ اوپر والی چھت کو آپ اپنا دوسرا گھر سمجھیں۔ اگر کبھی صاحب سے لڑائی یا جھگڑا ہو جائے تو اور کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ آنکھ بچا کر اوپر چلی جائیے۔ ہو سکتا ہے انہیں تمہیں منانا ہو۔ اب نچلی منزل میں وہ سب کے سامنے تمہیں تھوڑی منا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر آپ کے گھر میں افراد زیادہ ہیں تو آپ اوپر والی چھت کے دو کمرے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ جنوب کی طرف کی پڑوسیوں سے ملحق دیوار تھوڑی سی اونچی کروا لیجیے۔
گرمیوں میں رات کو اگر اوپر والی چھت پر سونا ہو تو شام سے پہلے پانی کا چھڑکاؤ ضرور کیجئے گا۔ مجھے امید ہے آپ کے دائیں بائیں اور سامنے والے پڑوسی سب ہی بہت اچھے ہوں گے۔ دن اور رات میں ایک آدھ مرتبہ ان سے سلام دعا ضرور کیجئے گا۔ اوشا کی روح چونکہ ابھی تک وہیں ہے اس لیے اس سے بھی ملتی جلتی رہیے گا۔ اس سے شاید اوشا کو کچھ قرار سا آجائے۔ سال کے بعد ہم اپنے گھر کی چونا صفائی کرتے تھے۔ مجھے دروازوں کے لیے ہرا رنگ پسند تھا اور صاحب کو گلابی۔ تو طے یہ ہوا تھا کہ ایک سال دروازے ہرے رہیں گے اور اگلے سال ان پر گلابی پینٹ ہو گا۔ کمروں کے اندر ہلکا سبز رنگ کی مٹی کا برش دیا جاتا۔ تمام کمروں میں برتنوں کی لیے کانس اور باورچی خانے میں ایک بہت بڑا نعمت خانہ موجود تھا۔ نعمت خانہ کی جالی بہت مضبوط تھی۔ مجھے امید ہے اس نعمت خانے کو سو سال تک کچھ نہیں ہونے والا۔ اگر آپ کے پاس بجلی کا فالتو پنکھا ہو تو نعمت خانے کی بائیں جانب کی جالی کی طرف سے سخت گرمیوں میں لگا دیجئے گا۔
صبح صبح ایک دو آنے اپنے گھر اور بچوں کا صدقہ ضرور اتاریے گا۔
دعا ہے کہ سرحدوں کے تنازعے ختم ہوں اور ہم ایک دوسرے کے پاس جا کر رہ سکیں۔ بتائے دیتی ہوں اگر خوش قسمتی سے کہیں ایسا موقع آئے تو میں مہمان بن کر چھت پر نہیں ٹھہروں گی۔ اپنے کمرے میں ہی ٹھہروں گی۔ مجھے امید ہے چند دن کے لیے آپ مجھے برداشت کر لیں گی۔
ہجرت بہت بڑا عذاب ہے۔ یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جو اس درد سے گزرا ہو۔ بہت سی قربانیاں دینا پڑتی ہیں۔
اوشا۔۔۔
٭٭٭
ٹانگ کی بوٹی ۔۔۔ شکیل خورشید
’’یہ مرغی صبح تک بچنے والی نہیں، مولوی صاحب سے چھری پھروا لو‘‘
پڑوس والے قاضی صاحب نے بیمار مرغی کی حالت دیکھتے ہوئے کہا تو کُکو کو بیک وقت مرغی کی ممکنہ فوتگی پر افسوس اور گھر میں مرغی کا سالن پکنے کی امید پر ایک گونہ خوشی بھی محسوس ہوئی۔
لاہور کے مضافاتی علاقے میں رہن سہن شہری اور دیہاتی طرزِ معاشرت کا ملا جلا مزاج لئے ہوئے تھا۔ لوئر مڈل کلاس کے گھر میں مرغی کا سالن پکنے کی تین ہی صورتیں ہوا کرتی تھیں۔ مہمان کی مہمانداری کے لئے، بیمار کی تیمار داری کے لئے یا پھر مرغی کی بیماری کے سبب۔ کُکو بارہ افراد کے کنبے میں سب سے چھوٹا تھا۔ ابا، امی، دو بھائی، چار بہنیں، ایک دادی، ایک چچا اور ایک ماموں۔ ایک مرغی کا سالن تقسیم کے کس کلئے کے تحت بارہ پلیٹوں میں پورا پڑتا تھا، اس کا جواب اس کی تیسری جماعت کی ریاضی کی کتاب میں نہیں لکھا تھا۔ البتہ ریاضی کے اس لاینحل سوال سے مدنیت کا ایک اصول ضرور اخذ ہوتا تھا، وہ یہ کہ مرغی کے سالن کی عوام میں ٹانگ کی بوٹی ایک اشرافیہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ اپنی ہڈی کی ساخت کی بدولت یہ بوٹی مرغی کے دوسرے حصوں کی طرح بغدے کے پے درپے واروں سے قدرے محفوظ رہتی اور نتیجتاً باقی بوٹیوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ گوشت کی حامل ہوتی۔ اپنی اسی فربہی کی بدولت ٹانگ کی بوٹی مرغی کے سالن میں اشرافیہ کا درجہ پاتی تھی۔
طبقاتی تمدن کے حساب سے سالن کی یہ اشرافیہ کھانے کے حقدار بھی اشرافیہ ہی ٹھہرتے تھے۔ کھانے کی تقسیم کار ماں کے نزدیک درجہ بدرجہ یہ اشرافیہ مہمان، بیمار، گھر کے بزرگ اور لاڈلے بچے قرار پاتے تھے۔ ماں کے لئے تو سارے بچے ایک سمان لاڈلے ہوتے ہوں گے لیکن جب معاملہ سات بچوں اور دو ٹانگوں کی تقسیم کا ہو تو آخری استحقاق اکثر حصہ بقدر جثہ ہی ٹھہرتا تھا۔
****
مہمانوں کے آگے سالن کا ڈونگا پڑا تھا، اور کُکو کی نظریں اس میں تیرتی سالن کی اشرافیہ پر جمی تھیں۔ مہمان خاتون نے بچہ سمجھ کر ڈونگا اس کے آگے کر دیا۔
’’پہلے آپ ڈال لو بیٹا‘‘ کُکو نے بے یقینی کے عالم میں ماں کی طرف دیکھا۔ نظروں ہی نظروں میں تنبیہ نما پیغام رسانی ہوئی اور کُکو نے خاموشی سے شوربے اور ایک چھوٹی بوٹی پر قناعت کر لی۔
’’بیٹا ٹانگ کی بوٹی لے لو ناں‘‘
’’نہیں اسے پسند نہیں، آپ لیجیئے ناں‘‘ کُکو سے پہلے اس کی ماں بول پڑیں۔
****
کُکو کو یاد نہیں تھا اس دن ذبح ہونے والی قریب المرگ مرغی کی ٹانگ کس لاڈلے کے حصے میں آئی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے کبھی ٹانگ کی بوٹی نہ ملی ہو، البتہ اس کے شعور، لا شعور یا تحت الشعور میں کہیں نہ کہیں مرغی کی ٹانگ کی تمنا رکھنا جیسے ایک لالچ، طمع، حرص یا ندیدے پن کا مظہر بن چکا تھا۔
وقت کے ساتھ ساتھ گھر کے حالات بدلنے لگے تھے۔ کُکو بڑا ہو کر اچھی تعلیم مکمل کر کے آفیسر گریڈ کی ملازمت کرنے لگا تھا۔ گھر کے طور طریقے بدلے تھے، لیکن کفایت شعاری اب بھی لازمی تھی۔ البتہ اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ اس کے بچوں میں کوئی احساسِ محرومی نہ رہے۔
’’ماما، ٹانگ کی بوٹی!!!!‘‘ فراز نے ضد کی، بیوی کچھ بولنے لگی تو کُکو نے ٹوکا، دے دو بھئی، دو ہی تو بچے ہیں ہمارے، جھگڑا کس بات کا، ایک ایک دونوں کو دے دو۔
’’اور آپ؟‘‘
’’میں کیا ساری عمر ٹانگ کی بوٹی کھاتا آیا ہوں جو مجھے عادت ہو گی‘‘
****
بچے بڑے ہو رہے تھے اور ساتھ ساتھ گھر میں روپے پیسے کی ریل پیل بھی ہو رہی تھی۔ لوئر مڈل کلاس کے کنبے سے نکلا ہوا کُکو اب اپر مڈل کلاس سے نکل کر ایک خوشحال طبقے میں داخل ہونے کو پر تول رہا تھا۔
مال سے ماہانہ گروسری کرتے ہوئے چکن شاپ سے چکن آرڈر کیا تو کاؤنٹر والے نے پوچھا
’’ سر آٹھ پیس کر یا بارہ؟‘‘
پہلی دفعہ اس غیر متوقع سوال پر گڑبڑاتے ہوئے اس نے کہا
’’پتہ نہیں، بھئی جتنے لوگ عموماً کرواتے ہیں اتنے ہی کر دو‘‘
’’سر آٹھ ٹھیک رہتے ہیں، بارہ میں تو کچھ بھی نہیں بچتا‘‘
کُکو کے ذہن میں بچپن کا منظر ابھر آیا، ایک مرغی کا سالن اور بارہ افراد کی تقسیم۔ لیکن اب گھر میں مرغی کا سالن نہیں پکتا تھا۔ چکن قورمہ بنتا تھا۔ بلکہ اکثر بچے بروسٹ آرڈر کر لیتے تھے۔ بچوں کے نزدیک لیگ پیس یا بریسٹ پیس میں چوائس کا تعلق ٹیسٹ سے تھا سٹیٹس سے نہیں۔
’’پاپا!، بروسٹ منگوا رہے ہیں، کون سا پیس لیں گے؟‘‘ منصور نے پوچھا
’’کچھ بھی کر لو‘‘
بل کُکو نے ہی دینا تھا، اور اب اس کے لئے یہ بل کوئی معنی نہیں رکھتا تھا لیکن اب بھی اپنے لئے لیگ پیس کی فرمائش کرتے ہوئے جھجکتا تھا۔ جیسے یہ کوئی ندیدہ پن ہو۔
****
کُکو کو احساس نہیں ہوا کہ کب اس نے بولنا چھوڑ دیا تھا
ریٹائرمنٹ ہوئی تو بولنے کی ضرورت کم ہو گئی۔ شریکِ زندگی رخصت ہوئی تو بولنے کی خواہش بھی کم ہو گئی۔ بچے اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوئے تو بولنے کے مواقع بھی محدود ہو گئے۔ اپنی گفتگو میں ربط کی کمی محسوس ہوئی تو اس نے چپ کا روزہ رکھنے میں عافیت جانی۔ یہ اختیاری خاموشی کب خاموشی کے جبر میں بدل گئی، اس کا احساس کُکو کو بڑی دیر سے ہوا۔
آج گھر میں سب اکٹھے ہو رہے تھے۔ فراز کئی سال بعد بیوی بچوں سمیت قطر سے پاکستان آیا تھا۔ منصور بھی اپنی پاکستان نژاد جرمن بیوی کو پاکستان دکھانے لایا ہوا تھا۔ کھانے کی میز پر آج بھی بارہ افراد جمع تھے کُکو، دو بیٹے دو بہوئیں، چار پوتے دو پوتیاں اور کُکو کا کیئر ٹیکر۔ میز پر چار پانچ قسم کی ڈشز سجی تھیں۔ کُکو کی نظریں روسٹ چکن کے ٹانگ کے بڑے بڑے پیسز پر جمی تھیں۔
فراز نے اپنی بیگم سے کہا ’’پاپا کو پلیٹ میں کھانا نکال دو‘‘
ضعف تھا یا بیزاری، اب زبان سے بڑھ کر کُکو کے ہاتھوں تک بھی آ چکی تھی۔
’’دیکھنا لیگ پیس مت ڈالنا، پاپا کو پسند نہیں، میں نے انہیں کبھی کھاتے نہیں دیکھا‘‘
٭٭٭
مضامین
مرزا خلیل احمد بیگ کا اسلوبیاتی نظریۂ تنقید (’’اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے‘‘ کے حوالے سے) ۔۔۔ ڈاکٹر عامر سہیل
مرزا خلیل احمد بیگ کا شمار اردو زبان و ادب کے ان معدودے چند اسلوبیاتی نقادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی مسلسل کاوشوں کی بدولت اسلوب (ادبی حوالے سے) اور اسلوبیات (لسانی صفات کے اعتبار سے) کے مابین واضح حد فاصل قائم کرتے ہوئے ’اسلوبیاتی دبستان تنقید‘ کے خد و خال متعین کیے۔ مرزا صاحب سے قبل محترم مسعود حسین خان نے اسلوبیاتی تنقید کا جامع ماڈل پیش کیا اور اس تنقیدی روش کی معروضیت اور سائنسی? منہاج پر روشنی ڈالی۔ ہمارے عہد میں اسلوبیاتی تنقید کا ایک جامع و مانع تصور مرزا خلیل احمد بیگ کے مضامین اور مقالات میں ملتا ہے جو بعد ازاں کتابی صورت میں مرتب ہوئے اور بعنوان ’اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے ہمارے سامنے آئے۔ یہ وقیع کتاب قومی کونسل برائے اردو زبان، نئی دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کی اور اس کا اڈیشن دیکھتے ہی دیکھتے ختم ہو گیا (پاکستان میں اس کتاب کا اڈیشن موجود ہے اور گرم کیک کی طرح بک رہا ہے) یہ کتاب۵۰۰ صفحات پر مشتمل ہے اور اس حوالے سے لائق توجہ ہے کہ اس میں ۳۱ مضامین و مقالات شامل ہیں جن میں اسلوبیات کی عمومی تفہیم، نظریاتی حدود و ثغور، مغربی اور مشرقی نظریہ سازوں کا تعارف اور نظم و نثر کے اسلوبیاتی تجزیات پیش کیے گئے ہیں۔
اس کتاب کو در حقیقت اسلوبیات کا تربیتی کورس سمجھنا چاہیے کیوں کہ یہاں اس نئے تنقیدی ڈسپلن کو جس عمدگی اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے اُسے سامنے رکھتے ہوئے اسلوبیات کے نہ صرف بنیادی تصورات واضح ہو جاتے ہیں بلکہ اس کی اطلاقی صورتوں کا جامع و مانع نمونے ہماری رہنمائی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان صفات کو پیش نظر اس کتاب کی تعریف لفظوں میں ممکن نہیں سکتی۔
مرزا صاحب کا اپنا اسلوب بہت سلیس، سادہ، دل کش اور منطقیانہ ہے، وہ اپنے ہر دعوے کی بنیاد مضبوط دلیل پر رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کا مقالہ ’بیدی کی زبان‘ خاصے کی چیز ہے۔ ان کے علاوہ وہ مضامین بھی خصوصی توجہ کے حامل ہیں جن میں ابو الکلام آزاد کی نثر اور اکبر الہ آبادی کی لغات مغربی کا بے لاگ تجزیہ ملتا ہے۔ مرزا خلیل احمد بیگ کی اسلوبیات کے حوالے سے اردو اور انگریزی میں اور کتابیں بھی موجود ہیں جن میں اس نئے ڈسپلن کو مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر استوار کیا گیا ہے اور بلا شبہ ان کتابوں نے ہمارے ادب کو تنقیدی اعتبار سے ثروت مند بنایا ہے۔ زیر نظر مضمون میں صرف ان کی اردو کتاب (اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے) کے پاکستانی ایڈیشن کو مدِ نظر رکھا گیا ہے تاکہ اس کتاب کی جْملہ صفات اور اسلوبیاتی تنقید کی مبادیات پر تسلی سے بات ہو سکے۔
یہ نکتہ خاطر نشان رہے کہ اسلوبیات کا اصل کام کسی مصنف کے لسانی امتیازات کو نشان زد کرنا ہے لیکن یہ محض لسانی مطالعہ نہیں ہے کیوں اس میں مصنف کی انفرادیت تک پہنچنے کی ٹھوس کوشش کی جاتی ہے اور اس کوشش میں تخلیق کار کے لسانی امکانات اور خصائص کو سامنے لایا جاتا ہے۔ اس تجزیاتی عمل کے دوران زبان کا کلی تصور پس منظر میں فعال رہتا ہے اور تخلیق کار کی لسانی انفرادیت کا مرحلہ بھی بخیر و خوبی طے پاتا چلا جاتا ہے۔ اردو ادب میں یہ شعبہ چوں کہ قدرے نیا ہے اس وجہ سے اس میں کبھی کبھار کچھ خلط مبحث بھی پیدا ہونے لگتے ہیں، مثلاً اسلوبیاتی تنقید کو عمومی لسانی تنقید سمجھ لیا جانا ایک ایسا عام مغالطہ ہے جس کی وجہ سے تنقید کا یہ جدید طریق کار اپنی واضح شناخت قائم نہیں کر پاتا اور اس کے بارے میں غلط فہمیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے اس مغالطے سے بچنے کے لیے لکھا ہے:
’’زبان کا صرف لسانیاتی تجزیہ اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کہلا سکتا۔ اسلوبیاتی تجزیے کی بنیاد لسانیاتی تجزیے پر ضرور قائم ہے، لیکن خالص لسانیاتی تجزیے کو اسلوبیاتی تجزیہ نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس میں لسانیاتی تجزیے کے علاوہ اسلوبی خصائص کی شناخت بھی ضروری ہوتی اور اسلوبی خصائص کا تعین اسی وقت ہو سکتا ہے جب فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کیا جائے۔ لہٰذا اسلوبیاتی تنقید کو صرف لسانیاتی تنقید سمجھ لینا کافی نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ہر اسلوبیاتی تجزیہ، لسانیاتی تجزیہ بھی ہوتا ہے۔ کچھ اہلِ علم اسلوبیاتی سے صرف لسانی تجزیہ ہی مراد لیتے ہیں۔ اسلوبیاتی تنقید کی مکمل شکل و صورت یہ ہو گی۔۔۔۔۔۔ لسانیاتی تجزیہ +اسلوبیاتی خصائص کی شناخت=اسلوبیاتی تنقید۔‘‘ (۱)
گویا اسلوبیاتی نقاد کا اصل کام یا منصب کسی فن پارے میں موجود لسانیاتی نظام کو گرفت میں لانا ہے۔ اسلوبیاتی تنقید کسی ادب پارے کا مجموعی تعارف یا تجزیہ پیش نہیں کرتی بلکہ صرف اس کی لسانی جہتوں کی عقدہ کشائی کرتی ہے۔ اس کا کام فکر و نظر کے صغرے کبرے تلاش کرنا نہیں ہوتا اور نہ ہی سماجی اور ثقافتی معاملات میں اس کی کوئی مداخلت سامنے آتی ہے۔
اسلوبیاتی تنقید کا منصب تخلیقی متن میں لسانی صفات کی تلاش و جستجو ہے۔ یہاں لفظ کی صوتی اور معنیاتی سطحوں کا تجزیہ اور مطالعہ کیا جاتا ہے۔ متن میں اظہار کے قرینے چوں کہ جملوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں لہٰذا جملوں کی نحوی اور قواعدی ساخت کا عمل بھی اسی تنقید کی حدود میں شامل ہے۔ اگر معاملہ شعری تنقید کا ہو تو پھر اس میں بحروں کے تجزیات کے علاوہ حروف کی آوازیں، صوتی ارکان، حروفِ علت، مصمتہ، مصوتہ، کھلے رکن، پابند رکن، ردیف، قوافی، شعری صنف، الفاظ کی تکرار اور تضاد کی صورتوں کا بھی عمیق تجزیہ کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا اسلوبیاتی طریق تنقید پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسلوبیاتی تنقید مصنف کے اسلوب میں مضمر آوازوں کی تکرار، لفظوں کی ترتیب اور جملوں کے منفرد نظام کو موضوع بناتی ہے، تا کہ عام بول چال کی زبان سے مصنف کی زبان یا اسلوب کا انحراف یا امتیاز سامنے آ سکے‘‘ (۲)
محولہ بالا بیان سے یہ اصول اخذ کرنا آسان ہے کہ اسلوبیاتی تنقید کا تعلق متن کے مواد اور موضوع سے نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں بات کرنے کے لیے قاری یا ناقد کو اقداری فیصلوں کا پابند ہونا پڑتا ہے۔ بلکہ متن کی ظاہری اور معروضی شکل یعنی اسلوب سے ہوتا ہے اور یہی وہ اصل شئے ہے جو مواد اور موضوع کو ادبی حدود میں داخل کر کے اس میں ادبیت پیدا کرتی ہے۔ اسلوب کے دو پہلو ہیں، ان میں سے ایک کا تعلق ادب کے ساتھ بنتا ہے اور دوسرا لسانیات سے جا ملتا ہے۔ اسلوب کی تشکیل میں ایسے بے شمار عناصر موجود ہوتے ہیں جن کا مطالعہ معروضی پیمانوں کی مدد سے بآسانی کیا جا سکتا ہے اور انھی کو بنیاد مان کر کسی مصنف کی انفرادیت قائم کی جا سکتی ہے۔
ہر بولنے یا لکھنے والا شخص زبان کے استعمال میں ایک ’’لسانی انتخاب‘‘ کے عمل سے گزرتا ہے اب یہ اسلوبیات کا وظیفہ ہے کہ وہ اس لسانی انتخاب کا معروضی مطالعہ کرے اور اس لسانی انفرادیت کو ظاہر کر دے جو ایک مصنف کو دوسرے سے ممتاز و ممیز بناتا ہے روایتی اسلوب کے مسائل نسبتاً آسان اور عام فہم ہیں لیکن اسلوبیات (Stylistics) کے تمام مسائل اپنے اندر تفہیم اور برتاؤ کی گہری تکنیکی پیچیدگی رکھتے ہیں۔ ادبی اسلوبیات میں متن کا صرف لسانی تجزیہ پیش کرنا مقصود ہوتا ہے تاہم اس میں جمالیات کے مباحث بھی ایک خاص حد تک شامل ہو جاتے ہیں۔
مرزا خلیل احمد بیگ نے اسلوبیات کے حوالے سے جو اجتہادی کام کیا اس میں ادبی اسلوب کا بھی کچھ حصہ شامل نظر آتا ہے۔ ان سے قبل کسی اور اسلوبیاتی نقاد نے اس قسم کی کسی گنجائش پر بات نہیں کی تھی۔ لیکن یہ خصوصی مطالعہ اصل میں کسی لسانی یا اسلوبیاتی پہلو کو ہی نمایاں کرنے کی کی خاطر عمل میں آتا ہے۔ ادب کا لسانی جائزہ محض ایک میکانکی عمل نہیں ہوتا بلکہ اس میں زبان کے ان تمام عوامل اور اجزائے ترکیبی کا کھوج لگایا جاتا ہے جو ایک مصنف کے اسلوب میں بنیادی تعارف کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ادب کا ہر اسلوبیاتی جائزہ سماجی لسانیات سے بھی حسب ضرورت مدد لیتا ہے تا کہ اسلوب میں موجود سماجی محرکات کو بھی منکشف کیا جا سکے۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے ان اہم نکات کی وضاحت کرتے ہوئے بار بار ہمیں یہ باور کرایا کہ اسلوبیات کی بنیاد چوں کہ لسانیات پر استوار ہے اس لیے لسانیات میں شامل تمام دیگر مضامین بھی کسی نہ کسی حوالے سے اسلوبیات کے دائرہ اثر میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ایسے تمام سماجی علوم و فنون (مثلاً عمرانیات، علم الانسان، نفسیات اور سیاسیات وغیرہ) جو انسان کے فکری اور عملی جہات سے منسلک ہیں ان کا ایک واضح عکس ہمیں اسلوبیات میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ تنقید اور بالخصوص اسلوبیاتی تنقید ایک ایسی علمی اور تخلیقی سرگرمی ہے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ نئے اضافے ہوتے رہتے ہیں۔
ان اضافوں کا اصل مقصد یہی ہوتا ہے کہ متن کی دنیا کو زیادہ سے زیادہ سمجھا اور پرکھا جا سکے۔ تنقید کے روایتی دبستانوں میں متن کی تفہیم کا بڑا ذریعہ ذاتی پسند و ناپسند، ذوق اور مزاج ہوا کرتے تھے۔ اس قسم کی تنقید بالعموم یک رخی ہوتی اور ہر نقاد اپنی سہولت کے مطابق فیصلے صادر کرتا تھا۔ اس دور کی تنقید کا ایک نمایاں کمزور پہلو یہ تھا کہ اگر کسی بڑے ناقد نے کسی تصنیف یا صاحب تصنیف کے بارے میں جو رائے قائم کر دی پھر وہ حتمی متصور ہوتی تھی اور بعد میں آنے والوں کے لیے اس رائے کا احترام فرائض میں شامل ہو جاتا تھا۔ یہ طریق ہائے تنقید آہستہ آہستہ اپنی ساکھ کم کرتے گئے اور ان کی جگہ تنقید کے ایسے نئے نظریات متعارف ہونا شروع ہوئے جن کی مدد سے متن کی اہمیت اور اس کی تفہیم میں سہولت پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ اسلوبیات کا جدید دبستان تنقید کے اسی جامع تصور کی ایک توسیع ہے۔ اس میں متن کا مطالعہ، تخلیق کار کے اسلوب کا توضیحی اشاریہ کچھ اس انداز سے مرتب کرتا ہے کہ اس میں اسلوب کی صوتی، صرفی، لغوی، نحوی، قواعدی اور معنیاتی صفات روشن ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اسلوبیات نے ادب اور لسانیات کے درمیان ہم رشتگی کا گہرا شعور عطا کیا ہے۔
تنقید کا یہ انداز نظر خالص منطقی اور معروضی ہوتا ہے تاہم اس میں کسی حد تک تاثراتی اور جمالیاتی زاویے بھی شامل سمجھے جا سکتے ہیں۔ اسلوبیات کے جدید مفہوم، طریقِ کار اور تجزیات کے حوالے سے نظری مباحث کا سلسلہ جس شد و مد سے جاری و ساری ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے اردو نقاد تنقید کے نئے عالمی مباحث میں کس قدر دل چسپی رکھتے ہیں۔ جدید دنیا کا تصور اب ایک قریۂ آفاقی کی صورت کیا جانے لگا ہے جس کی وجہ سے فکر و نظر کی دنیا میں بھی ہل چل مچ گئی ہے کیوں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے کئی مصنوعی حد بندیوں کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مرزا خلیل احمد بیگ نے اسلوبیاتی تنقید پر جو قابلِ قدر کام کیا اس کی وجہ سے اردو زبان و ادب میں اسلوبیاتی تنقید بڑی تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔
جدید تنقیدی رجحانات نے متن کی تفہیم اور تجزیے کی جو نئی راہیں دریافت کی ہیں ان میں مرزا خلیل احمد بیگ صاحب کا بڑا نمایاں حصہ ہے جس کی وجہ سے معاصر تنقیدی منظر نامے میں انھیں خاص امتیاز حاصل ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوا ہے کہ مرزا صاحب کی اسلوبیاتی تنقید کا انتہائی اہم حصہ ان کی تصنیف اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے کئی حوالوں سے ایک جامع اور مستند اسلوبیاتی دستاویز ہے جس میں ادبی تنقید، لسانیات اور اسلوبیات، اسلوب کے روایتی تصورات، اسلوبیاتی تنقید، اہم نظریہ ساز اسلوبیاتی نقاد، اہم نثر نگاروں کے اسلوبیاتی تجزیات، شعری متون کے اسلوبیاتی مطالعات اور اہم لسانیاتی اور اسلوبیاتی اصطلاحات کی وضاحت و صراحت شامل ہے۔
مرزا صاحب گزشتہ چار دہائیوں (یا شاید اس سے بھی زائد) سے اس موضوع پر مسلسل لکھتے چلے آر ہے ہیں اور اس ڈسپلن کی تفہیم کے لیے ایسے ایسے نادر اطلاقی نمونے فراہم کیے ہیں کہ عامی و عالم دونوں اس سے استفادے کی راہیں نکال سکتے ہیں۔ وہ بذات خود لسانیات اور اسلوبیات کے حوالے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے ہیں جس میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (لسانیات میں ایم اے اور پی ایچ ڈی یہاں سے مکمل کی) بعد ازاں دکن کالج، پونا کے Advance Summer Institute in Linguistics میں شرکت کا موقع ملا۔ اس کے بعد امریکہ کی معروف یونیورسٹی آف ناکس وِل (University of Knozville) میں سے تحصیل علم کا بھرپور موقع ملا جس کی بدولت آپ نے اس نئے ڈسپلن میں قابلِ قدر اضافے کیے۔ آپ کی تربیت میں جہاں مسعود حسین خان کا بڑا اہم کردار رہا وہاں غیر ملکی اساتذۂ کرام سے بھی آپ نے مقدور بھر کسبِ فیض کیا۔ ان تمام مراحل سے گزر کر آپ نے اسلوبیات کے خصوص میں جو کام کیا ہے وہ اردو زبان و ادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ آپ نے اپنی کتاب میں اسلوبیات پر بات کرنے سے پہلے لسانیات کی تاریخ اور اس کے ارتقا پر جو معلومات بہم پہنچائی اس کی مدد سے اسلوبیات کی تفہیم میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے۔ آپ نے ایک اہم تاریخی صداقت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’ادبی تواریخ کے مطالعے اور لسانیات کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ادبی مطالعہ و تنقید اور لسانیات کے درمیان کشیدگی کی جو صورتِ حال اب ہے وہ پہلے کبھی نہ تھی۔ ادب و لسانیات کے درمیان نہ تو اس طرح کے اختلافات موجود تھے اور نہ ان کے مطالعے میں دو رنگی (Dichotomy) پائی جاتی تھی۔ دونوں علوم کے ماہرین مل جل کر کام کرتے تھے۔ علمی میدانوں میں اس ہم آہنگی کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ زبان و ادب کے مطالعے میں بہت سی باتیں مشترک تھیں اور ان کے بیشتر مسائل ایک دوسرے کے ساتھ Overlap کرتے تھے۔ انگریزی مطالعہ و تنقید کے میدان میں اس باہمی اشتراک اور ہم کاری کی توثیق آر. ڈبلیو چیمبرز (.R.W Chambers) اور سی ایس لیوس (C.S. Lewis) جیسے عظیم اسکالرز کے علمی کارناموں سے ہوتی ہے جو ادبی مطالعہ و تنقید اور علم السنہ دونوں میں دسترس رکھتے تھے۔‘‘ (۳)
یہ کلیدی نکتہ عموماً ہماری نظروں سے اوجھل رہتا ہے جس کی وجہ سے ادب اور لسانیات میں مغائرت کا احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ماضی میں محققین اور ناقدین دونوں کے ہاں ادب اور زبان یا لسانیات میں یکجائی کا تصور عام تھا۔ حافظ محمود شیرانی جیسے نابغہ روز محقق اپنی ہر تحقیق میں لسانیاتی پہلوؤں کو بالخصوص مد نظر رکھتے تھے۔ تاہم بیسویں صدی میں جیسے جیسے علوم میں وسعت آتی گئی اور ان کے باہمی افتراقات کے تحت الگ الگ ڈسپلن بنانے کا چلن عام ہوا تب سے ادب، لسانیات اور اسلوبیات کے دائرہ کار بھی اپنی اپنی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئے۔ یہ تبدیلی بھی کئی لحاظ سے فاہدہ مند ہی رہی کیوں کہ ہر شعبے کو اپنی منفرد خصوصیات کی بدولت الگ کرنے سے ماہرین کا نیا طبقہ سامنے آنا شروع ہوا جس نے لسانیات اور اسلوبیات کو وسعت آشنا کیا۔ یہ تمام مباحث ہمارے ہاں انگریزی کے توسط سے متعارف ہوئے جن پر بات کرتے ہوئے مرزا خلیل احمد بیگ لکھتے ہیں:
’’انگریزی میں اسلوبیات کے آغاز و ارتقا، اس کی سمت و رفتار، اور ادبی مطالعہ و تنقید کے میدان میں مغربی عالموں کے کارناموں اور خدمات میں مڈلٹن مرے کی The problem of style (آکسفرڈ، 1922)، لوکس کی Style (لندن، 1955) ہر برٹ ریڈ کی English Prose Style (لندن، 1928) ، بیٹسن کی English poetry and English Language (آکسفرڈ، 1934) اور رینی کی The elements of Style (لندن 1915) اور اس قبیل کی بعض دوسری تصانیف کا حوالہ نہیں پیش کیا گیا ہے کہ یہ تمام کتابیں خالص ادبی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں۔۔۔۔ اور مطالعۂ اسلوب کے ادبی موقف کو سمجھنے میں ان کتابوں سے بڑی مدد مل سکتی ہے‘‘ (۴)
انگریزی میں ہمیں جو حوصلہ افزا صورتِ حال دکھائی دیتی ہے وہ اردو میں نظر نہیں آتی کیوں کہ یہاں ایک طویل مدت تک اسلوب کی حکمرانی رہی ہے جس کے اثرات تا حال دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود مرزا صاحب نے ان معدودے چند اسلوبیاتی نقادوں کا تذکرہ شامل کیا ہے جن کی وجہ سے اردو میں لسانیات اور اسلوبیات کی راہیں ہموار ہوئیں، ان میں ان شا اللہ خان انشا (دریائے لطافت) سر سید احمد خان (قواعد صرف و نحوِ زبانِ اردو) مولوی عبدالحق، وحید الدین سلیم، سید محی الدین قادری زور، پنڈت برجموہن دتاریہ کیفی، عبدالستار صدیقی، عبدالقادر سروری، مسعود حسن رضوی ادیب، سید احتشام حسین، شوکت سبزواری، اور سہیل بخاری کے نام شامل ہیں۔ اگرچہ مرزا صاحب نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اردو میں بھی اسلوب پر لکھا گیا ہے لیکن یہاں بھی انداز فکر زیادہ تر ادبی ہی رہا ہے۔ اردو میں نئی تبدیلی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مرزا صاحب نے دکن کالج، پونا کے لسانیاتی سمر سکول کی افادیت کو سامنے لایا کیوں کہ یہی وہ اہم سنگ میل نے جس نے آگے چل کر لسانی اور اسلوبیاتی طریقِ کار کو اپنایا۔ بیسویں صدی کی پانچویں اور چھٹی دہائی میں
جن ادبی اکابرین نے اس حوالے سے باقاعدگی دکھائی ان میں مسعود حسین خان، گیان چند جین، گوپی چند نارنگ، عبدالستار دلوی، مغنی تبسم، عبدالغفار شکیل، ان کے بعد آنے والی نسل میں حامد اللہ ندوی سے لے کر علی رفاد فتیحی اور پھر مرزا خلیل احمد بیگ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔ ان لسانیاتی، توضیحی اور اسلوبیاتی مطالعے کی نمایاں خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے مرزا صاحب نے لکھا ہے:
’’ادب کا لسانیاتی یا دوسرے لفظوں میں زبان کے حوالے سے مطالعہ کرتے وقت سائنسی اور معروضی طریقِ کار اختیار کیا جاتا ہے اور صرف ادبی فن پارے ہی کو خود مکتفی مان کر اور اس کی مخصوص صوتی، لغوی، اور نحوی ترتیب و تنظیم کے حوالے اور تجزیئے سے اس کے تاثر کی توجیہ کی جاتی ہے اور نتائج مرتب کیے جاتے ہیں۔ ادبی فن پارے کے بارے میں تاثراتی یا اقداری فیصلوں سے قطعاً گریز کیا جاتا ہے اور فن کار کی داخلی و خارجی ماحول اور اس کی ذات کو غیر اہم تصور کرتے ہوئے صرف فن پارے ہی پر ساری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔‘‘ (۵)
گویا یہ ایک طرف روایتی تنقید کی توسیع ہے اور دوسری جانب ہئیتی طریقِ تنقید میں نئی روح پھونکنے کا عمل بھی ہے۔ روایتی تنقید نے متن کے داخلی مظاہر سے زیادہ مصنف اور اس کے ماحول کو توجہ دی ہے جس کی وجہ سے متن کی جلوہ گری کہیں سماجی و سیاسی پس منظر میں دب کر رہ جاتی تھی۔ لسانیاتی اور اسلوبیاتی تنقید نے متن مرکز اظہارات کو عام کیا تاکہ متن اور مصنف دونوں کے ساتھ انصاف کیا جا سکے۔
اردو اسلوبیات میں چوں کہ شعری تجزیات زیادہ ہوئے ہیں اس لیے لوگوں کا یہ عمومی تاثر قائم ہو گیا کہ یہ طریقِ تنقید صرف شاعری تک محدود ہے۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے اس تاثر کو زائل کرنے کی خاطر اور اسلوبیات کی ہمہ گیریت کو نمایاں کرنے کے لیے نثری فن پاروں کے عمدہ تجزیات پیش کر دیئے ہیں جس کی وجہ سے اسلوبیات میں اب نظم و نثر کا بہترین توازن دکھائی دیتا ہے۔ اس خصوص میں ان کے مضامین ابو الکلام کی نثر، نیاز فتح پوری: لسانی مزاج اور تشکیلِ اسلوب، رشید احمد صدیقی کا اسلوب: مرکباتِ عطفی کا مطالعہ و تجزیہ، رشید احمد صدیقی کا طنزیہ و مزاحیہ اسلوب، ذاکر حسین: زبان اور اسلوب، بیدی کی زبان اور معاصر اردو افسانہ: زبان اور اسلوب انتہائی وقعت کے حامل ہیں۔ ان نثر نگاروں پر بات کرتے ہوئے زبان کے تنیوں اہم اسالیب کا تذکرہ بھی ہوا جس میں اطلاعی ((Informative، ہدایتی (Directive) اور اظہاری (Expressive) اسالیب شامل ہیں۔ مرزا خلیل احمد بیگ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لسانیاتی اور اسلوبیاتی نتائج مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ قارئین کو اپنے اخذ کردہ نکات کے بارے میں آگاہ بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے قاری کی ادبی تربیت بھی ہوتی چلی جاتی ہے۔ نیاز فتح پوری والے مضمون میں آپ لکھتے ہیں:
’’کسی شخص کا لسانی مزاج نہ تو پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے اور نہ خلقی و موروثی ہوتا ہے، تو پہلے ہے۔ بلکہ یہ کلیتہً اکتسابی اور ماحول کا زائیدہ ہوتا ہے جس کی تحصیل پہلے غیر رسمی پھر رسمی (جب وہ پڑھنا لکھنا سیکھتا ہے) طور پر عمل میں آتی ہے۔ کسی شخص کے لسانی مزاج کی تشکیل میں اس کا عہد، معاشرہ، تہذیب، ماحول، علمی و ادبی روایات، تعلیمی پس منظر، گرد و پیش کے افراد، نیز ثانوی زبانیں (جو وہ شعوری طور پر سیکھتا ہے) اہم رول ادا کرتی ہیں۔‘‘ (۶)
یہ بحث بہت دل چسپ اور معلومات افزا ہے کیوں کہ یہاں انسانی شخصیت اور اس کے لسانی مزاج کو اسلوبیاتی ارتقا کے ساتھ جوڑ کر سمجھانے کی سعی ملتی ہے۔ آگے چل کر یہ لسانی عمل، علمِ نفسیات، سماجیات اور انسانیات کے زیر اثر اپنے باقی مدارج طے کرتا نظر آتا ہے۔ سماج کا کون سا واقعہ یا نفسیات کا کون سا پہلو کس وقت اسلوب پر اثر انداز ہوتا ہے اس کا کھوج لگانا از حد مشکل ہے۔ انسانی رویوں میں تغیر و تبدل کے جملہ عناصر اسلوب نگارش کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقی دنیا کے سنگین مسائل اور مثالیت پسندی اسلوب کی ارضیت کو مستحکم کرنے کے بڑے اہم ذرائع ہیں اور کم و بیش ہر تخلیق کار کو ان تجربات سے گزر کر آگے نکلنا ہوتا ہے۔ یہ کہنا بھی اپنی جگہ درست ہے کہ اسلوب میں پیدا ہونے والی تہہ داری، تاثیر، برجستگی، ارفعیت، ذومعنویت، درد مندی، تاثیر اور تخلیقی حسن ارتقائی عمل سے نکلنے کے بعد ایک کُل کی شکل میں اسلوب اور اسلوبیات دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مرزا خلیل احمد بیگ نے اردو ادب میں جس سلیقے اور علمی رکھ رکھاؤ کے ساتھ اسلوبیات کے نظری، عملی، تشریحی یا توضیحی مباحث کے ساتھ ساتھ نقد الانتقاد کے حوالے سے کافی و شافی مواد فراہم کیا اس سے یہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ مرزا صاحب جہاں اپنے موضوع کے تخلیقی مظاہر سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہاں نقد و نظر کے جملہ مسائل پر بھی ان کی خاص توجہ ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اسلوبیاتی کام پر جامعات کی سطح پر اس نوعیت کا تنقیدی/ تحقیقی کام کرایا جائے جو نہ صرف ان کے تجزیاتی محاکموں کی مزید گرہ کشائی کرے بلکہ اسی اسلوبیاتی منہاج کو مزید وسعت آشنا بھی کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱) مرزا خلیل احمد بیگ، اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، بھٹی سنز پبلشرز، لاہور، ص۱۳۶، طبع۲۰۱۸ء
۲) وزیر آغا، تنقید اور جدید اردو تنقید، انجمن ترقی اردوپاکستان، کراچی، ۱۹۸۹،ص ۹۵
۳) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ص۲
۴) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ص۱۳
۵) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ص۱۴
۶) اسلوبیاتی تنقید: نظری بنیادیں اور تجزیے، ۲۳۷
٭٭٭
رشید افروز ’نصاب‘ کے آئینے میں ۔۔۔ محمد اسد اللہ
شاعری انسانی احساسات و جذبات کی فنکارانہ صورت گری کا ایک اہم، انوکھا اور موثر ذریعہ ہے۔ ہمارے احساسات پر وارد ہونے والے خوشگوار یا ناگوار لمحوں کو شاعری خوبصورت الفاظ کی شکل عطا کرتی ہے اس طرح کہ ہماری ذات کا لمس بھی اس میں شامل ہوتا ہے۔ غیر معمولی انداز میں بدلتی ہوئی زندگی اور اس کی پرچھائیوں کو ادب میں جدیدیت کی تحریک نے ایک الگ انداز میں پیش کیا ہے۔ نئی بات کے لئے نیا اور انوکھا لب و لہجہ اپنایا، یہ تحریک ادب اور خاص طور پر شاعری میں اظہار کے نئے اسباب بروئے کار لائی۔ جدید شاعروں میں بیشتر تخلیق کار ایسے تھے جنھوں نے اہم موضوعات اور رویوں کی منظر کشی کی، اور ایسے شعرا بھی تھے جنھوں نے اجنبی و نامانوس آوازوں کو لفظوں میں قید کر کے اپنی ہنر مندی کا ثبوت فراہم کیا۔ اس قسم کے شعرا میں ایک اہم نام رشید افروز بھی ہے۔
رشید افروز یکم اکتوبر ۱۹۴۵ء کو احمد آباد میں پیدا ہوئے۔ ایم کام؛ ایم۔ اے اورایل ایل بی کی اسناد حاصل کی ہیں روزگار کا سلسلہ ۱۹۶۰ء میں جنرل اسٹور سے سکول میں تعلیم کے زمانے سے کیا۔ نومبر ۱۹۶۴ء مادری درسگاہ انجمنِ اسلام ہائی اسکول، احمد آباد میں بحیثیت مدرس ریاضی مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۰ء تک تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد بینک آف بڑودہ میں ملازمت اختیار کی اور سینیئر مینیجر کی حیثیت سے ۲۰۰۱ء میں سبک دوش ہوئے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ نفی ۱۹۸۰ء میں منظرِ عام پر آ یا۔ اور دوسرا مجموعہ نصاب ۲۰۲۱ء میں شائع ہو اجس میں ان کی ۱۹۶۶ء سے ۲۰۲۰ء تک کی شاعری کا انتخاب موجود ہے۔۔ رشید افروز نے ڈاکٹر محمود ابو سعود کی شاہکار کتاب’ اسلامی معیشت کے افکار و اصول‘ اور عبد المجید عزیز الزندانی کی اہم کتاب ’طریقۃ الایمان‘ کا گجراتی میں ترجمہ بھی کیا ہے۔
رشید افروز کے مجموعۂ کلام ’نِصاب‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ یقیناً یہ ان کے احساسات کی ترجمانی ہے، احساس کا یہ رنگ زیادہ گہرا نہیں، کیفیت بہت واضح نہیں مگر جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں ہماری زندگی میں بھی یہ سب کہیں نہ کہیں رو نما ضرور ہوتا ہے اسی لیے ان کا کہا ہمارے دل کو چھو لیتا ہے۔ رشید افروز بنیادی طور پر جدید شاعر ہیں۔ ان کی پہلی غزل ماہنامہ شب خون، شمارہ ۸؍جنوری ؍۱۹۶۷ میں شائع ہوئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ انھوں نے ابتدا ہی سے اپنے سفر کا راستہ اور منزل طے کر لی تھی۔ ان کے کلام میں جدید شاعری کے اہم موضوعات موجود ہیں۔ ان کی شاعری کے متعلق اظہارِ خیال کرتے ہوئے وارث علوی لکھتے ہیں۔
’رشید افروز کی ہر شعری تخلیق کے پسِ پشت ایک ذاتی تجربے کی توانائی ہے۔۔۔۔، وہ اپنی ذات کو اپنے شعر سے ایک مخصوص اور محفوظ فاصلے پر رکھنے کے جمالیاتی اصول سے واقف بھی ہیں اور عمل پیرا بھی۔ اس نظر سے دیکھئے تو رشید افروز کی وہ نظمیں اور اشعار جو بادی النظر میں محض خیال آ رائی، تک بندی یا مرقع تراشی کے حامل معلوم ہوتے ہیں ان کے پیچھے بھی ذاتی تجربے کا کرب اور ایک بیدار سماجی شعور کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ (ماہنامہ تحریک۔ دہلی: شمارہ، ستمبر۱۹۶۹ء)
رشید افروز کی شاعری ان کے معاصرین سے قدرے مختلف ہے۔ ا س کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ان کے ہاں ابہام، پیچیدگی اور بے جا طوالت نہیں ہے۔ وہ پر کشش انداز میں اپنی وارداتِ قلبی کو فنکارانہ شکل عطا کرتے ہیں۔ ان کے پہلے شعری مجموعے نفی‘ (اشاعت ۱۹۸۰) کے متعلق عبید صدیقی لکھتے ہیں:
’رشید افروز کی شاعری ماحول کی جبریت کے خلاف ردِ عمل، اقدار اور انسانی رابطوں اور رشتوں کی شکست و ریخت کا نوحہ ہے۔ ان کی شاعری کا نمایاں وصف عصری حقائق کے عرفان سے حاصل شدہ تازگی اور تنوع ہے۔ رشید افروز جذبہ اور فکر کی تہذیب کے فن سے زیادہ بہتر طور پر واقف ہیں۔‘ (۱۹۸۰)
رشید افروز کی شاعری جہاں اپنے عہد کا قبیح چہرہ دکھاتی ہے وہیں اس میں مثبت قدروں کا رنگ بھی نمایاں ہے۔ ابتدائی صفحات میں حمد، مناجات، مدحتِ امامِ کوثر کے علاوہ تخلیق، عرفان، در گزر، اور تو چاہے جیسی نظمیں بھی ہیں جن میں خالق کائنات کا یقین شاعر کے لیے زندگی کا ایک بڑا سہارا ثابت ہوتا ہے۔
جب مدد کے لیے موجود کہیں کوئی نہ تھا
دل نے امید جگائی، مرے مولا! تو ہے
خود کو دیکھوں تو دکھائی نہیں دیتا کچھ بھی
تجھ کو سوچوں تو ہر اک شے میں سمایا تو ہے (حمد)
رگِ دل ہی تیرا مقام ہے، مری جاں میں تیرا قیام ہے
ترے ذکر سے مجھے کام ہے، مرے روز و شب کو سنوار دے (مناجات)
آج
اشکِ ندامت نے
دل کی سیاہی مٹا دی
میں حیران ہوں
اب خدا اور مرے درمیاں
فاصلہ ہے نہ دیوار ہے۔ (عرفان)
پرانی بات ہے لیکن ابھی احساس زندہ ہے
کہ اس ویران گھر سے شور اٹھتا دیکھ لیتا ہوں
ان خوش رنگ مناظر کے باوجود مجموعی طور پر شاعر نے اپنے عہد کے تاریک گوشوں اور دلخراش احساسات ہی کو غزلوں اور نظموں میں نمایاں کیا ہے۔
جاگی ہوئی آنکھوں میں کوئی خواب نہیں ہے
بس اتنی تمنا ہے ذرا دیر سلا دے
بارہا میں نے جسے کچلا ہے
ہر قدم پر وہی سایہ دیکھوں
خوف کی زنجیر میں جکڑے ہوئے
بزدلوں کے ہاتھ میں تلوار تھی
میں نے اپنے ہاتھوں میں
دریا قید کیا تھا
ریت کہاں سے آئی؟ (شکست)
یہ سچ ہے۔۔۔ کہ
اس رات کے بعد
پھر دن نکل آئے گا
مگر اس نئے دن کے ہاتھوں میں
سورج بھی ہو
یہ ضروری نہیں۔ (احتمال)
رشید افروز نے اپنی چھوٹی چھوٹی الجھنوں اور احساسات کے لطیف ارتعاش کو بھی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے، اس طرح کہ ہم ان نظموں اور اشعار کو پڑھتے ہوئے محسوس کرتے ہیں کہ اسی قسم کی لہریں تو ہمارے اندر بھی گزرتی رہتی ہیں۔ نئے دور کا انسان جن داخلی مسائل سے دوچار ہے ان کا بیان بھی رشید افروز کی شاعری کو قابلِ مطالعہ بناتا ہے۔
نئے جہاں کا نصاب لکھوں
ورق ورق اضطراب لکھوں
سبز پتوں پہ چمکتی ہوئی شبنم نے کہا
رات ڈھل جائے تو ہر رنگ نیا لگتا ہے
شہر امید کی بستیاں لٹ گئیں
خاک اگلتے ہیں اب آرزو کے کھنڈر
میں نے سورج سے اجالے کی تمنا کی تھی
میرے تاریک مقدر کو سحر بھی نہ ملی
حرفِ غزل کو درد میں ڈھلتے ہوئے بھی دیکھ
شہر سخن کی شمع پگھلتے ہوئے بھی دیکھ
ہم اپنی بے گناہی کی سزا سے بچ نہیں سکتے
یزیدِ وقت کے لشکر میں سب پیاسے لہو کے ہیں
وحشتیں، تاریکیاں، رسوائیاں، بربادیاں
ہائے امیدوں کی بستی اور پھر اتنی اجاڑ
رشید افروز کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے گویا یہ کتابِ زندگی کی پڑھنے اور سمجھنے کی ایک شاعرانہ سعی ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کے ہاتھوں نے شاعر کی احساسات کی لوح پر رقم کیا ہے۔ یہ انفرادی نقوش سہی مگر یہی وہ نصاب ہے جو اس عہد کے افراد کے لیے مقرر کیا گیا ہے کیونکہ زندگی کی تلخیاں اور فرد کی تنہائی کی صورتِ حال کم و بیش ہر جگہ وہی ہے اسی لیے ہمیں یہ نصاب اپنا سا لگتا ہے۔
اس شعری مجموعے میں بنیادی خیال خواب ہے جو مختلف حوالوں سے رشید افروز کی کئی نظموں میں وارد ہوا ہے اس سے مراد نا آ سودہ خواہشات، خوابوں کی شکست و ریخت اور زندگی کا وہ ادھورا پن جو اندرونی اضطراب کی شکل میں نمایاں ہوا ہے اور کہیں زخم بن کر روح کی گہرائی میں اتر گیا ہے۔ اپنی پسندیدہ زندگی کے خواب پورے نہ ہونے پر شاعر مایوسی، تشکیک اور بیزاری کا شکار ہوا ہے۔ اس کی مختلف تصویریں ان نظموں میں نمایاں ہیں۔ مختلف نظموں کے یہ مصرعے ملاحظہ فر مائیں۔
میں حقیقت کی دنیا میں
لوہے سے لڑتے ہوئے
انگنت خواب بنتا رہا (خوابوں کی امانت)
سنہرے ہرن کے تعاقب میں
اندھے سفر کی کہانی تھی یا خواب تھا (وہ دن خواب تھے یا کہانی)
جو خواب ہم نے سجائے
دھواں دھواں نکلے (سحر ہونے تک)
اسے جھیل سی گہری آنکھوں میں
خوابوں کی دنیا سجانے کا موقع ملے۔ (چاند اور تم)
رات خواب میں دیکھا
ڈوبتا ہوا ساحل
وہ ایک موڑ جہاں فاصلے تمام ہوئے
اس ایک موڑ پہ ہر خواب بے نشاں نکلا
منحرف خواب سے آنکھیں ہیں سحر ہونے تک
چاند پھر جھیل کے اُس پار اتر جائے گا
آج پھر ہم کو نگاہوں سے گزرنا ہو گا
رات بیدار ہے خوابوں کی پذیرائی میں
جاگ اٹّھا ہوں، مگر آنکھوں میں ہے
نیند کا احساس، خوابوں کا دھواں
شاعر اپنے سے باہر بھی ان خوابوں کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتا ہے۔ نظم ’فلیٹ نمبر 701‘ ایک خوبصورت عمارت ڈریم ہاؤس کی ساتویں منزل پر رہنے والے دو عمر رسیدہ والدین کی زندگی کا المیہ ہے جن کا بیٹا اور بہو امریکہ میں رہتے ہیں۔ ویکیشن میں کم سن بچے جب گھر آتے ہیں، اداسی کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔
رشید افروز کے ہاں سفر کی اس اذیت کو بھی بیان کیا گیا ہے جہاں نا رسائی اور منزلِ مراد نہ ملنے کا غم اسے زندگی کی بے معنویت کا احساس دلاتا ہے۔
میں دریا ہوں
اپنی رو میں بہتے بہتے
رستہ بھول گیا ہوں (تو جو چاہے)
صداؤں کی یلغار نے
شہ سواروں کو تاریک راہوں میں گم کر دیا (سفر شرط ہے)
تمام عمر یونہی، خاک چھانتے گزری
یہ آرزو ہی رہی آسماں بناؤں گا
یہاں کچھ بھی نہیں، شاید وہاں بھی کچھ نہ ہو گا
مگر اس پار جانے کا ارادہ کر لیا ہے
جس بات کا خدشہ تھا، وہی بات ہوئی ہے
گھر دور، بہت دور، ہے جب رات ہوئی ہے
سفر جاری ہے جب دن ڈھل چکا ہے
نہ جانے فاصلہ کیوں بڑھ گیا ہے
غروب ہوتے ہوئے آفتاب سے پہلے
فصیل ٹوٹ گئی، ہر طرف غبار اٹھا
گرفت چھوٹ گئی پہلے حدّ امکاں تک
پھر انتہا یہ ہوئی، اپنا اعتبار اٹھا
میں کامیاب ہو نہ سکا، اس لڑائی میں
دشمن کو ہر شکست سے پہلے کمک ملی
کس نے جانا تھا، اک ایسا مرحلہ بھی آئے گا
عمر بھر جو کچھ کیا، سب خاک میں مل جائے گا
گم شدہ پہچان کے اندھے کنویں میں قید ہوں
اب مجھے آواز دے کر اپنی پلکیں نم نہ کر
وہ کبھی وجہِ سکوں، راحتِ جاں سب کچھ تھا
رفتہ رفتہ اسی ہمدرد نے بیزار کیا
ہمارے درمیاں کیا کچھ نہیں تھا
مگر افسوس! اب کچھ بھی نہیں ہے
اندھیرا اس قدر گہرا نہیں تھا
چراغوں میں لہو کم ہو گیا ہے
مرے بدن پہ جہاں زخم پھوٹ نکلا ہے
اسی مقام کو پتھر سمجھ رہا تھا میں
شاخ سے گرتے پتوں نے
مٹی سے مانگا سہیوگ
روز بستر پہ خیال آتا ہے
آنکھ لگ جائے تو شب کچھ بھی نہیں
پاؤں آہستہ نکالو باہر
گھر بکھر جائے، عجب کچھ بھی نہیں
دو کر دار حقیقی تھے
باقی سب افسانہ تھا
رشید افروز کی شاعری سہل ممتنع کی عمدہ مثالیں پیش کرتی ہے۔ جدیدیت کے اہم موضوعات کو انھوں نے بخوبی برتا ہے۔ رشید افروز کا مجموعہ نصاب جو ان کے کلام کا ایک انتخاب بھی ہے انھیں ان کے معاصر شعرا میں ایک امتیازی مقام عطا کرتا ہے۔
٭٭٭
خواب اور حقیقت کے تصادم کا استعارہ: کہانی انکل ۔۔۔ ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی
مرسلہ غضنفر
(ڈاکٹر محمد فرقان سنبھلی نے اپنی حیات میں مضمون بھیجا تھا پڑھنے کے لیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کسی رسالے میں ان کی موجودگی میں شائع ہوا یا نہیں۔ ایک دن میری ایک فائل میں یہ مضمون اچانک نظر آ گیا۔ پڑھا تو مجھے اچھا لگا۔ اچھی چیز یا اچھی خبر کو شیئر کرنے کو جی چاہتا ہے۔ چنانچہ میں مرحوم فرقان سنبھلی کی یہ تحریر احباب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ بہت کم عمر میں ڈاکٹر فرقان سنبھلی نے اپنی ایک پہچان بنا لی تھی۔ وہ اردو ادب کو بہت کچھ دے سکتے تھے مگر اللہ نے انھیں بہت جلد اپنے پاس بلا لیا۔ خدا انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فر مائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غضنفر)
کہانی انکل بڑا ہی دلچسپ کردار ہے، وہ بچوں کو صرف دلچسپ کہانیاں ہی نہیں سناتا، بلکہ انتظامیہ کے اختراع کردہ ظلم، قہر اور استحصال کا قوی ’کاؤنٹر ٹیکسٹ‘ بھی تیار کرتا ہے۔ اس کے خلاف احتجاج اور مسلسل جد و جہد کا نیا استعارہ بھی تشکیل دیتا ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ کتابیں زندگی کی جد و جہد کا رہ نما عنصر ہو سکتی ہیں لیکن پیڑ تو حالات سے پیدا ہونے والے تجربات کے کھاد پانی سے ہی پھلتا پھولتا ہے۔ ناول در اصل نو کہانیوں کا ’کولاژ‘ ہے یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ حقیقت کی نو پرتیں ہیں جو باری باری سے موقع و محل مناسبت سے ابھرتی پلٹتی ہیں۔ آپ اسے نو پردوں (حالانکہ سات پردوں ہی کی روایت رہی ہے، ویسے وقت کے لحاظ سے دو پردوں کا اضافہ غیر واجب نہیں مانا جانا چاہیے) کے پیچھے پوشیدہ حقیقت کو باہر لانے کی جان لیوا کوشش بھی مان سکتے ہیں۔
خونخوار درندہ ہمیشہ اپنی اصل شکل میں نہیں رہتا۔ بلکہ زیادہ وقت تو ’حاتمی نقاب‘ میں ہی خود کو چھپائے رہتا ہے۔ اس سے شکار میں سہولت ہوتی ہے۔ یہ اصلی روپ میں تبھی آتا ہے جب یا تو اسے شکار کرنا ہوتا ہے یا پھر اسے اس بات کا پختہ یقین ہو جائے کہ اب وہ تمام کوششوں کے بعد بھی اپنی اصلیت کو چھپائے رکھنے میں ناکام ہی رہے گا۔ ایسے حالات میں درندہ پاگلوں کی طرح برتاؤ کرتا ہے۔ اس کا ارادہ محض شکار نہیں ہوتا، اس کا ارادہ سب کچھ تہس نہس کر دینے والا ہوتا ہے۔ سامنے جو بھی آئے اس کو نوچنا، کھسوٹتا، مارنا لوٹنا۔ بس یہی ایک مقصد ہوتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ مرگی جیسی ہی ایک بالکل علیحدہ اور بے حد خوفناک قسم کی یہ غیر انسانی بیماری اسے دبوچ لیتی ہے اور اس کی گرفت میں آ جانے کے بعد وہ صرف اپنے مفاد کے لیے قتل اور لوٹ مار نہیں کرتا، بلکہ اپنے وجود پر آئے خطرے کو ٹالنے کی کوشش میں وحشت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
آج کے اس مابعد جدید دور میں سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت کسی سے مخفی نہیں رہی۔ یورپ میں نازی باد، پھاسی واد اور دو عالمی جنگوں کے پس منظر میں حقیقت کا جو گوشہ مخفی رہ گیا تھا وہ اب بازار اور قدرتی وسائل پر تسلط قائم کرنے کی مچی ہوڑ اور سسٹم کی بے ایمانیوں کی شکل میں سامنے آنے لگا ہے۔ عام آدمی کی آڑ میں خاص آدمیوں کی غلامی، جمہوریت کی آڑ میں سرمایہ داری نظام اور اس کی تقویت کے لیے اٹھائے جا رہے تمام اقدامات اس کی مثال ہیں۔ نکسل ازم اور دہشت گردی کی اوٹ میں ملک کو ’پولس اسٹیٹ‘ میں تبدیل کرنے کی سازشیں رچی جا رہی ہیں۔ ہندوستان کے وسائل پر آنکھیں گڑائے مٹھی بھر ’قارون‘ یہ جانتے ہیں کہ ملک میں امن و امان کا ماحول ان کے منصوبوں پر پانی پھیر سکتا ہے لہٰذا مذہب اور دھرم کی آڑ میں پھاسی ازم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ غریب آدی واسی لڑکیوں اور عورتوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے۔ لالچ کے سامنے خود سپردگی نہیں کرنے والوں کو سبق سکھائے جا رہے ہیں۔ بھوگ کا نیا ارتھ شاستر تخلیق کیا جا رہا ہے۔
کہانی انکل کو پڑھنے ہوئے بار بار اُدے پرکاش کی طویل کہانی ’’پیلی چھتری والی لڑکی‘‘ کی یاد آتی ہے۔
’’اس طاقتور بھوگی لونڈے نے ایک نیا نظریہ دیا تھا جسے ہندوستان کے وزیر خزانہ نے مان لیا تھا اور خود اس کے پرس میں جم کر گھس گیا تھا۔ وہ نظریہ یہ تھا کہ اس آدمی کو کھانے سے مت روکو۔ کھاتے کھاتے جیسے اس کا پیٹ بھرنے لگے گا وہ جھوٹن اپنی پلیٹ سے باہر گرانے لگے گا۔ اسے کروڑوں بھوکے لوگ کھا سکتے ہیں۔ کانٹی نینٹل، مقوی جھوٹن۔ اس آدمی کو سیکس کرنے سے مت روکو، ویاگرا کھا کھا کر وہ سیکس کرتے کرتے لڑکیوں کو اپنے بستر سے نیچے گرانے لگے گا، تب کروڑوں ناشاد ملکی لڑکے ان لڑکیوں کو پیار کر سکتے ہیں۔ ان سے اپنا گھر خاندان بسا سکتے ہیں۔‘‘
مطلب صاف ہے امیروں کے لیے غریبوں کا ہونا ضروری ہے۔ اگر سبھی کے پاس دولت اور وسائل ہوں گے تو پھر ٹھاٹ باٹ کی اہمیت نہیں رہ پائے گی۔ امیر اپنا جھوٹن پھر کس کو تقسیم کریں گے؟ یہ غریبوں کا احتجاج یا پھر بہتر زندگی کا خواب خطرناک ہی مانا جائے گا۔ نا انصافی کا احتجاج اور حق کی لڑائی کو ناکام کرنے کے لیے کئی طرح کے فریب دیے جائیں گے۔ مذہب اس کا بڑا اور کار آمد ہتھیار ہے۔ 1953 میں ہی سوامی سجتا نند سرسوتی نے اس حقیقت کو محسوس کر لیا تھا ’’غریبوں کو چوسنے کے لیے امیروں کی ایک تنظیم ہو سکتی ہے ہوتی ہی ہے اور سدا سے ہوتی ہی آئی ہے تو پھر غریبوں کی ایک تنظیم اپنی حفاظت کے لیے کیوں نہیں ہونی چاہیے؟‘‘ لیکن بات ایسی ہے نہیں۔ غریبوں میں تو تنظیم ہے ہی نہیں اور اگر کوئی اس کے لیے کوشش کرے تو وہی تصادم اور کلاس، کی جنگ کا رونا رویا جاتا ہے اور نفرت پھیلانے کی کوشش کی دہائی دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خبردار ایسا مت کرو، نہیں تو مذہب خطرے میں پڑ جائے گا اور قومیت منتشر ہو جائے گی۔ جب امیر لوگ منظم ہو کر سیکڑوں طرح سے غریبوں کا اور مزدوروں کا استحصال کریں تو یہ مذہب سمجھا جائے اور مذہب کے ٹھیکیداروں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگے گی لیکن اسی ایک استحصال اور لوٹ کو بند کرنے کے لیے اپنے گھر کی رکھوالی کے لیے جب غریبوں کو منظم کرنے کی بات ہو تو مذہب کے خطرے کی گھنٹی بج جائے۔ یہی ہے اس نرالی دنیا کا نرالا تماشا۔ یعنی ملک کی ترقی، عوام کی ترقی نہیں ہے۔ جدید سیاق میں سرمایہ داروں کی ترقی ہی ملک کی ترقی ہے۔ عوام اگر اپنی عقل اور ہنر سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی کرے تو نظام ایسا نہیں ہونے دے گا۔ راہ میں روڑے اٹکائے جائیں گے۔
غضنفر کے ’کہانی انکل‘ کا آغاز زندگی کی اسی جد و جہد کی داستان ہے۔ ہوٹل اور کتاب کی دکان کے ذریعہ بہتر روزی روزگار کی امیدیں مذہب کی نذر ہو گئیں۔ آگ کی لپٹوں نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا۔ ’’سُکرات، مارکس، لینن، کبیر، غالب، گاندھی، نہرو وغیرہ بھی‘‘۔ سرمایہ داری نظام کے خیالات سے پرانی دشمنی رہی ہے۔ خیالات کسی بھی ’کلوزڈ سسٹم‘ کے لیے خطرے کی گھنٹی رہے ہیں کیونکہ یہ اس کی پوری پول پٹی کھول دیتے ہیں۔ ایسے میں کوئی استحصالی نظام کو پنپنے یا پھیلنے پھولنے کیسے دے سکتا ہے؟ وہاں، ایک مسئلہ تو ہے کہ اگر نظام نے سیدھی مداخلت کی تو عوام میں اس کا بھروسہ مشتبہ ہو جائے گا۔ لہٰذا اس سے نپٹنے کے لیے مذہب کی آڑ سب سے بے خطا اسلحہ ہے۔
ادب اقتدار-سماج کا آئینہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ہم نوّے کی دہائی کو نہیں بھول سکتے، جب پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت نے عالمی بازار کے دباؤ میں غیر ملکی سرمائے کے لیے ملک کا دروازہ کھولا تھا اور یہی وہ وقت بھی تھا جب پوری بے حیائی کے ساتھ مذہب کو سیاسی جامہ پہنانے کی کوششیں شروع ہوئی تھیں۔ لال کرشن آڈوانی نے رام مندر کے لیے رتھ یارا نکالی تھی اور آزادی کے بعد پہلی بار بڑے پیمانے پر جگہ جگہ فسادات کا نیا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مسجد کا ڈھانچہ گرایا گیا اور پنجاب کشمیر میں پیدا ہوئی دہشت گردی اچانک قوی مرض میں تبدیل ہو گئی۔
’’گھر آنگن کا ساز و سامان فروخت کر کے پھیری لگانا شروع کیا تو کسی نے اس پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا اور کسی نے اسے دہشت گرد ٹھہرایا۔ تفتیش میں پولس نے اتنا پریشان کیا کہ تنگ آ کر اسے پھیری سے بھی منھ موڑنا پڑا۔‘‘
ناول نگار غضنفر کی نظر اپنے وقت پر ہے۔ وہ پوری شدت کے ساتھ ملک کے بدلتے سیاسی اور سماجی حالات کو محسوس کرتے ہیں۔
جس نواُدار واد کی بنیاد نرسمہا راؤ کے زمانہ میں ڈالی گئی تھی ابھی حال ہی میں اس کا کلائی میکس سامنے آیا، جب من موہن سنگھ نے تمام مخالفت اور خطروں کو درکنار کر تھوک بازار میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو منظوری دے کر ملک کو ترقی پذیر بنانے اور عام آدمی کی زندگی کے ایک بار سنور جانے کے بڑے بڑے دعوے کیے۔ شمالی ہندوستان سے زیادہ جنوبی ہندوستان میں شاپنگ مال کھلے۔ یہاں تک کہ سبزیاں بھی ایر کنڈیشنڈ دکانوں کی زینت بن گئیں۔ ابتدائی دور میں لاگت سے کم قیمت پر چیزیں فروخت کی گئیں۔ جب ریہڑی اور منڈی والوں کی کمر ٹوٹ گئی اور انھوں نے اپنے ہاتھ کھینچ لیے تو اب ریٹیل میں اتری وہی بڑی کمپنیاں صارفین سے من موافق قیمت وصول کر رہی ہیں۔
کہانی انکل کے کپڑے کی دوکان کا حشر بھی یہی ہوا۔ ’’کلاتھ مارکیٹ کے گھاگھ تاجروں نے قیمتیں اتنی کم کر دیں کہ خریداری ایک دم ٹھپ ہو گئی۔‘‘
سرمایہ دارانہ نظام کی سب سے بڑی خصوصیت ہے کم لاگت میں زیادہ منافع کمانا۔ جدید مشینوں اور بڑے کارخانوں سے ہی یہ ممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں پہلے جہاں سو لوگوں سے کام لیا جاتا تھا وہاں اب بمشکل دس لوگوں میں ہی کام نکل جاتا ہے۔ سہولت پسند سماج نے اپنے مفاد کے لیے جس بد عنوانی کو پالا پوسا تھا وہ بھی اب ’سُرسا‘ کے منھ کی طرح خطرناک روپ لے چکا ہے۔ ایسے میں لیاقت یا قابلیت کا کوئی خاص مطلب نہیں رہ گیا ہے۔
’’اور تیزی سے لائٹر جلا کر اس کی لو پر ڈگریوں کا بنڈل رکھ دیا۔‘‘
بڑھتی بے روزگاری، بدعنوانی، اور نوجوانوں میں بڑھتی بے چینی اور غصہ، اَنّا تحریک کے دوران صاف نظر آیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ سسٹم مسلسل بے پردہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی اصلی شکل و صورت اب لوگوں کی نظروں میں اترنے لگی ہے۔
یہ سچ ہے کہ انسان کتابوں سے کم، تجربے سے زیادہ سیکھتا ہے، کہانی انکل کا کردار اس کی گواہی دیتا ہے۔ تعلیمی دور میں دیکھے گئے تمام خواب ایک ایک کر بے دم ہوتے جاتے ہیں۔ وہ اب خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت سے رو برو ہو رہا ہے۔ اب اس کے سامنے دنیاوی محاورے اپنا مفہوم بدل رہے ہیں۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگا ہے کہ جنھیں دنیا حیرت کا لقب دیتی رہی ہے، ان میں در اصل حیرت جیسی کوئی بات ہی نہیں۔ ’’قاتل کو انعام دیا گیا‘‘، سرپرست تحفظ کا گھلا گھونٹ رہا تھا، آنکھ والا ٹھوکر کھا رہا تھا‘‘ سفید سیاہ تھا، یعنی جنھیں اب تک ہم تجربے کی کمی کی وجہ سے حیرت انگیز گردانتے رہے تھے وہ تو دنیاوی حقیقتیں تھیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کسی کی لیاقت اس کے کام آ گئی، ایک مصنف کے طور پر غضنفر کی نگاہ کافی وسیع اور گہری ہے۔ موجودہ نظام کا بالکل سیدھے سادے الفاظ کی مدد سے وہ نیا استعارہ تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ایک الگ قسم کی تشکیل ہے۔ خواب اب چہروں پر مسکراہٹ نہیں لاتے۔ وہ بے طرح ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہیں اور اب ان کی کرچیں حوصلوں میں چبھن اور درد کی وجہ بن رہی ہیں۔
نظام میں جو برائیاں ہیں وہ کہانی انکل کو آگے نہیں بڑھنے دیتیں۔ وہ کامیابی کے لیے بار بار کوششیں کرتا ہے۔ بار بار راہ بدلتا ہے۔ لگن، محنت اور قابلیت کے دم پر وہ کامیابی کی سیڑھیاں بھی چڑھنے لگتا ہے لیکن یہی کامیابی اس کو نظام مخالف ثابت کر دیتی ہے۔ اسے بار بار اجاڑا جانا اور اس کا بار بار زندگی کو پٹری پر واپس لے آنا، کہانی انکل کے حوصلے کا ہی نتیجہ ہے۔
پریم چند کے ناول گؤدان کا ہیرو ’ہوری‘ کا استحصال کے باوجود زمیندار رائے صاحب کے یہاں جاتا، ان کی جی حضوری کرنا، اس کے بیٹے گوبر کو سخت ناپسند ہے، وہ اپنے باپ سے اس کی شکایت بھی کرتا ہے۔ تب ہوری کہتا ہے کہ ’’بیٹا جس پیر کے نیچے گردن ہو اس کو سہلانے میں ہی بھلائی ہے۔ کہانی انکل کی ابتدائی کوششوں کا مفہوم بھی یہی ہے۔ وہ سسٹم سے سیدھے سیدھے دو دو ہاتھ کرنے کے موڈ میں نہیں ہے؟ اس کی کوشش یہی ہے کہ وہ امن و امان کے ساتھ روٹی جٹائے اور اپنے بیوی بچوں کی ڈھنگ سے پرورش کرے لیکن عام آدمی کا پیٹ اگر بھر گیا تو وہ پھر غلام نہیں رہ سکتا۔ غلامی کے لیے غریبی ضروری ہے۔ کہانی انکل بار بار سرمایہ لگاتا ہے۔ جب منافع ہونے لگتا ہے تو سسٹم کسی نہ کسی بہانے اس کی دکان بند کروا دیتا ہے اور وہ بار بار غیر یقینی مستقبل کے دورا ہے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے میں کہانی انکل ایک ایسا طریقہ اختیار کرتا ہے جس میں نہ تو سرمایہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی خاص جگہ کی۔ وہ اب کہانی سنانے کو اپنا پیشہ بناتا ہے اور نئی نسل کو بالکل نئے طریقے سے کہانیوں کے ذریعہ زندگی کی تلخ سچائیوں سے رو برو کراتا ہے حالانکہ ناول میں ایک جگہ پر مصنف کی مداخلت صاف نظر آتی ہے جب کہانی کی پیچیدگی کے مسئلے پر کہانی انکل اپنی فکر کا اظہار کرتا ہے۔ ’’اس نے اپنی لکھی ہوئی کہانیوں پر نظر دوڑائی تو وہاں بھی کوئی کہانی نہیں دکھائی دی۔ وہ ساری کہانیاں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے لکھی گئی تھیں جن کی باتیں مشکل، پیچیدہ اور فلسفیانہ تھیں۔ ان کی زبان بھی پیچیدہ اور فلسفیانہ تھی۔‘‘ فکر بھلے ہی کہانی انکل کی ہو لیکن یہ بدقسمتی ہندوستانی ادب کے ساتھ شروع سے ہی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہانیاں معاشرے پر اپنا ویسا اثر چھوڑنے میں ناکام رہی ہیں جیسا کہ وہ چھوڑ سکتی تھیں۔ بشرط یہ کہ اس کی زبان اور اس کے مفہوم پیچیدہ نہیں ہوتے۔
کہانی انکل کا مقصد بالکل واضح ہے۔ اب وہ سسٹم سے بچ کر نہیں بلکہ دو دو ہاتھ کرتے ہوئے اس سے متصادم ہو کر آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ پختہ عمر کے لوگوں میں وہ حوصلہ اور ویسی قوت نہیں بچی ہے کہ ان سے کرانتی کی امید رکھی جائے۔ ایسے لوگ تصادم کے ’ہراول‘ نہیں بن سکتے۔ اس کو تو نئی نسل ہی ممکن بنا سکتی ہے۔ لہٰذا وہ ملک کے مستقبل یعنی بچوں میں امید پاتا ہے اور انھیں سچ اور حوصلے کا درس دینے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ ان میں برائی اور نا انصافی کے خلاف ان کے اندر آگ بھرتا ہے۔ اچھائی اور انصاف کے بیج بوتا ہے۔ اظہار کی آزادی کیا ہوتی ہے؟ جدید جمہوریت میں اس آزادی کا عام آدمی کے لیے کیا مطلب ہے؟ یہ وہ اچھی طرح جانتا ہے۔ لہٰذا اس کی کہانیوں میں پینچ تنتر کی کہانیوں جیسے کردار آتے ہیں۔ وہ میٹافر، بمبوں علامتوں میں نظام کی قلعی کھولتا ہے۔ جمہوری ملک میں جیلوں (کانجی ہاؤس) کی افادیت کیا ہے؟ وہ کچھ یوں عیاں ہوتا ہے۔ ’’گاؤں والوں نے کانجی ہاؤس کے ایک ایک کونے میں جھانک کر دیکھا، مگر انھیں کہیں بھی کوئی سائڈ نہ ملا۔ وہاں تو ایسے جانور بند تھے جو بہت ہی پہلے کمزور اور دبلے پتلے تھے۔ جن کے پیٹ اندر تک دھنسے ہوئے تھے اور پسلیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ یہ جو کمزور جانور ہیں وہ در حقیقت عام آدمی کی ہی علامت ہیں جبکہ سانڈ پر بھو گروہ کی لٹھیت۔
کہانی انکل ہر بار بچوں کو ایک الگ طرح کی کہانی سناتا ہے۔ واقعات بدلتے ہیں۔ کبھی سماج، کبھی اخلاقیات، کبھی سائنس تو کبھی شعور یعنی علم کی جیت کی راہ ہموار کرتا ہے۔ کہانیوں کا بچوں پر اثر بھی ہوتا ہے۔ بچوں میں کہانی انکل کی مقبولیت بھی بڑھتی ہے، استحصال کبھی بھی اپنی اصلیت ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ گدھوں کے سینگ کی کہانی اسی سچ کو اجاگر کرتی ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں عام آدمی میں عام آدمی کی فلاح کے نام پر آئے دن ان کی زندگی کو مشکل بنانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ پہلے عام آدمی کا خیر خواہ بننا، اس پر احسان جتانا اور پھر اس کا استعمال کرنا۔ میں آپ سے ایک چھوٹا سا کام چاہتا ہوں۔ دوسروں کے دکھوں کو دور کرنے کے لیے میں نے دواؤں کا ایک کارخانہ لگایا ہے، پر میری دوائیں دکھیوں تک پہنچ نہیں پاتیں۔ جس سے میرے دل پر بہت بوجھ رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے بوجھ کو کم کر دیں۔ گدھوں کے سر پر غیر ضروری سینگ اگا کر سرمایہ دار انھیں اپنا بندھوا مزدور بنا لیتے ہیں۔ اس بات کا بہت بعد میں انھیں احساس ہوتا ہے۔ کیا یہی حال ہمارا نہیں ہے؟
غضنفر ایک یوٹوپیا تخلیق کرتے ہیں۔ جہاں گدھا بھی گھوڑا بن سکتا ہے۔ غلامی کی زندگی جینے کو مجبور آدمی بھی اپنا سر بلند کر سکتا ہے۔
’’کچھ دیر بعد اچانک اس نے گدھے میں تبدیلی محسوس کی۔ دھیرے دھیرے گدھا پھولنے لگا، اس کا جسم بڑھنے لگا، پیٹ کے گڈھے بھر گئے۔ جھکی ہوئی کمر سیدھی ہو گئی۔ قد اونچا ہو گیا۔ لمبائی بڑھ گئی، بدن کس گیا۔ کھال چکنی ہو کر چمچمانے لگی۔‘‘
سرمایہ دارانہ نظام کس طرح دھیرے دھیرے عام انسان کا خون چوس رہا ہے؟ سسٹم سے کس طرح سہارا مل رہا ہے؟ یہ حقیقت فقیری سنگ ریزے کے طور پر ہمارے سامنے آتی ہے۔ کیا ہمارے لیڈران مداری کے کردار میں نہیں ہیں۔ کیا وہ جمہوریت کا تماشا نہیں دکھا رہے؟ مجمع لگائے کھڑی بھیڑ کو بیوقوف نہیں بنا رہے؟
کہانی انکل کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ کسی کہانی کو اس کے انجام تک لے جانے کے خواہشمند نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ایسے ’ایکسٹریم‘ پر کہانی کو لے جاتے ہیں، جہاں پر بچوں کا دماغ خود ہی اختتام کی تلاش میں مشغول ہو جاتا ہے۔ یعنی کہانی انکل بچوں میں سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیت ہے اس کو نکھارنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ اپنے اس مقصد میں وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔
’’تالیوں کے شور پر کہانی انکل کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس کی آنکھوں میں تالیوں بجاتے ہوئے ننھے منّے ہاتھوں کے علاوہ بہت سارے نظارے ابھرتے چلے گئے جن میں بھنچی ہوئی مٹھیاں بھی تھیں۔‘‘ یہ بھنچی ہوئی مٹھیاں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ کہانی انکل اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ نظام کے پیدا کردہ استحصال کے خلاف ان میں بیداری پنپ رہی ہے اور یہی سسٹم کے لیے خطرناک ہے۔
کہانی انکل کی شہرت ایک قصے سے نکل کر پورے صوبے میں پھیلتی ہے اور یہاں پر ایک بار پھر انھیں نظام کے غصے کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کہانی انکل کو بچوں سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کمیشن کہانیوں کو ضبط کرنے کی حمایت میں ہے لیکن کہانیاں تو بچوں کے ذہن میں جذب ہو چکی ہیں۔ ایسے میں اب کہانی انکل کی کہانی سنانے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اسے گرفتار کیا جاتا ہے لیکن نئی روشنی سے لبریز نسل سسٹم کے اس ظلم کی پر زور مخالفت کرتی ہے۔ ’’غصے میں بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ بچوں کا جلوس تھانے پہنچ کر اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے لگا۔‘‘ کہانی انکل کی شہرت ایک قصے سے نکل کر پورے صوبے میں پھیلتی ہے اور یہاں پر ایک بار پھر انھیں نظام کے غصے کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ کہانی انکل کو بچوں سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کمیشن کہانیوں کو ضبط کرنے کی حمایت میں ہے لیکن کہانیاں تو بچوں کے ذہن میں جذب ہو چکی ہیں۔ ایسے میں اب کہانی انکل کی کہانی سنانے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ اسے گرفتار کیا جاتا ہے لیکن نئی روشنی سے لبریز نسل سسٹم کے اس ظلم کی پر زور مخالفت کرتی ہے۔ ’’غصے میں بچے سڑکوں پر نکل آئے۔ بچوں کا جلوس تھانے پہنچ کر اس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے لگا۔ اس کی رہائی کے لیے آسمان چیر دینے والے نعرے لگنے لگے۔ آوازوں کا شور دفتروں کے کمروں میں گھس کر گونجنے گرجنے لگا۔ ٹریفک رک گیا۔ کام کاج ٹھپ ہو گیا۔ اور اس طرح کہانی انکل کو الزامات سے بری کر جیل سے رہا کر دیا گیا۔‘‘ ناول کے اس حصے کو پڑھتے وقت آپ کے ذہن میں بار بار ایمرجنسی کا دور لوٹ آتا ہے۔
کہانی انکل کو بھلے ہی جم غفیر کی حمایت حاصل ہو لیکن سسٹم اتنی آسانی سے ہار نہیں مانتا۔ خاص طور پر تب، جبکہ کہانیوں کا بچوں پر اثر ہو رہا ہے۔ اب بچے صرف کہانیاں سن کر کھلکھلاتے یا خوف زدہ ہی نہیں ہوتے بلکہ اب لڑائی کے لیے خود کو بالکل تیار پاتے ہیں۔
’’ہمارے گاؤں میں راکشش آیا تو ہم بھی اس کو مار گرائیں گے۔‘‘
کہنے کی ضرورت نہیں کہ کہانی جاری تھی۔ حالات بدل رہے تھے۔ زمین انگڑائی لے رہی تھی۔ آسمان کسمسا رہا تھا۔ ہواؤں کی سمت بدل رہی تھی۔ فضائیں سنبھل رہی تھیں۔ چاند
’’کہانی وہ بھی کہتی ہے جو کہا نہیں گیا۔ وہ بھی سناتی ہے جو سنا نہیں گیا۔ وہ بھی دکھاتی ہے جو دیکھا نہیں گیا۔ وہ بھی سناتی ہے جو سنائی نہیں دیتا۔‘‘
جب ایڈمنسٹریشن (انتظامیہ) کہانی انکل کی زبان پر لگام لگانے میں ناکام رہتا ہے تو جھٹکے سے کہانی انکل کی زبان کاٹ دی جاتی ہے۔ جیسا کہ لگتا ہے اب کہانی ختم ہو گئی لیکن نہیں کہانی کی یہیں سے شروعات ہوتی ہے۔ اب کہانی انکل کہانیاں نہیں سنا سکتے۔ لیکن انھوں نے جس نسل کو تیار کیا ہے وہ اب کہانی انکل کی مہم کو آگے لے جانے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ ہر گلی، ہر گھر میں کہانی انکل نظر آنے لگے ہیں۔ نظام نے جن لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے جو نظام کی غلط پالیسیوں کے پالنے والے ہیں خود ان کے گھروں میں بھی کہانی انکل سانس لیتے ہیں۔ یہی کہانی انکل کی جیت ہے۔
کہانی انکل ایک ہی وقت ہماری روایتی قصہ گوئی والی طرز کو زندہ رکھنے اور علامتوں کے آرام دہ استعمال کے ساتھ ہی بچوں میں تجسس کو بھی پیدا کرتے ہیں۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بچوں کے ذہنی ارتقاء کے لیے ان کے اندر تجسس کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ہم جس دور میں جی رہے ہیں وہ میڈیا کرانتی کا دور ہے۔ یہاں سب کچھ دکھا دینے کا چلن ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ اب بچوں میں تخیل کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ فرد واحد پر خاندان اور دنیاوی آپادھاپی نے ماں باپ کو اتنا مصروف کر دیا ہے کہ وہ بچوں کے لیے کم ہی وقت نکال پاتے ہیں، اب نانی دادی بھی کہانیاں نہیں سنا پاتیں۔ ایسے میں کہانی انکل بچوں کو ایک نئی لیک (طرح) پر لے جانے کی کوشش بھی ہے۔
٭٭٭
اردو ہے جس کا نام
رومن اردو کیا ہے؟ ۔۔۔ سہیل احمد صدیقی
ممکن ہے کہ یہ عنوان جدید دور میں خصوصاً نوجوان قارئین کو عجیب لگے کہ بھئی سب کو پتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں اکثریت اس بنیادی نکتے سے آگاہ نہیں کہ دنیا بھر میں لسانی مسائل ایک زبان سے دوسری زبان تک مختلف ہو سکتے ہیں، مگر یہ مسئلہ اب تقریباً ہر بڑی زبان کو درپیش ہے کہ اصل رسم الخط اور بولی ٹھولی کو، کسی بھی وقتی یا عارضی دِقّت کے سبب، پس پُشت ڈال کر انگریزی سے مِلا کر (یعنی Mixکر کے) بولا اور لکھا جا رہا ہے، جسے عموماً Minglish کہا جاتا ہے یعنی انگریزی کا وہ رُوپ [Version] جو کسی مقامی زبان سے مل کر بنا ہو اور معیاری انگریزی سے مختلف ہو (English mixed with a local language)۔ بعض ممالک یا علاقوں میں اسے اپنے مقامی اثرات کے سبب، کچھ اور نام بھی دیا جاتا ہے جیسے ہانگ کانگ، مَکاؤ، گوانگ دونگ اور گُوانگ چی [Hong Kong, Macau, Guangdong and Guangxi]کے چینی علاقوں میں روایتی کینٹونیز کے زیرِ اثر [Cantonese-influenced Englis]، یا اُس سے مخلوط، کھچڑی انگریزی کو Chinglish کہتے ہیں۔ تھائی لینڈ کے عوام انگریزی پر اپنی زبان کی یوں چھاپ لگاتے ہیں کہ اُن کی انگریزی کو Tinglish کہا جاتا ہے۔ مالٹا میں مقامی زبان مالٹیز کے اختلاط سے انگریزی کی وہ شکل بنی کہ اسے مِنگلش کے علاوہ کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے: Maltenglish, also known as Manglish, Minglish, Maltese English, Pepè or Maltingliz۔ اس سے قطع نظر، امریکی انگلش کے ایک مقامی لہجے Appalachian English کو اَمیرکِش [Amerikish] کہا جاتا ہے، مگر اس میں ویسی تبدیلیاں نہیں جیسی ہم پاکستانی یا ہندوستانی کرتے ہیں۔ ہندوستانی خواندہ افراد ویسے بھی فرنگی کی زبان میں من پسند تبدیلیاں کرتے ہیں اور بہت کچھ کر چکے ہیں۔ اُن کی زبان British-Indian-English یا مختصراً Binglish کہلاتی ہے۔ پاکستانی انگریزی میں بھی تحقیق کا بہت سا مواد موجود ہے، مگر ابھی اُسے کوئی نام نہیں دیا گیا۔
جب ایک زمانے میں ہندوستانی ٹی وی چینل ’زی ٹی وی‘ کی نشریات کا آغاز ہوا اور مقامی زبان یعنی اردو۔ یا۔ ہندی/ہندوستانی میں زبردستی انگریزی الفاظ اور فقرے ٹھونس کر بولے جانے لگے تو اُسے ذرائع ابلاغ نے Zinglish اور Hinglish کا نام دیا۔ ان عنوانات کے تحت مختصر مضمون اور مراسلے بھی خلیجی ممالک کے انگریزی اخبارات کی زینت بنے۔ اب کچھ سال سے مراٹھی +انگریزی کو کھچڑی زبان کے طور پر Minglish کہا جانے لگا ہے۔
اب ایمانداری سے جائزہ لیں تو ہماری زبان بھی اردو سے زیادہ ایسی انگریزی زدہ، مخلوط زبان ہو چکی ہے جسے ماضی میں Urdish اور Minglish کہا جاتا تھا، پھر خاکسار نے اسے Burgerish کا نام دیا اور بعض حضرات اسے Paklish/Pinglish کہنا پسند کرتے ہیں۔
اس ساری تفصیل سے قطع نظر جب کہیں کسی جگہ، کسی ملک میں ایک سے زائد قومیں مل جُل کر رہتی ہیں اور اُن کے بیچ زبان کا معاملہ شعوری یا غیرشعوری اختلاط کے طفیل دیگر سے مختلف ہو جاتا ہے، ایک نئی بولی جنم لیتی ہے تو اُسے ’خیول‘ یا کریول کہتے ہیں۔ زباں فہمی کے کسی مضمون میں خِیول۔ یا۔ کریول [Creole] کا ذکر مختصراً کر چکاہوں، ماریشس کے باب میں قدرے تفصیل بھی لکھی تھی۔ اس کی تعریف یہاں مزید تفصیل سے دُہراتا ہوں تاکہ مفہوم واضح ہو سکے:
A creole is a language that comes from a simplified version of another language, or the mix of two or more languages. In Haiti, people speak a creole that’s mostly based on French. When a new language is a variation on one or more older languages, you can call it a creole.
مفہوم یہ ہے کہ خِیول یا کریول کسی دوسری زبان کا ایک سادہ سا بہروپ یا دو (یا زائد) زبانوں کے ملاپ سے معرض وجود میں آنے والی بولی ہے۔ ہَئیتی کے لوگ فرینچ زدہ خِیول بولتے ہیں۔ مزید وضاحت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی ایک یا زیادہ قدیم زبانوں کے تغیر سے یہ بولی بنتی ہے۔ یہ اصطلاح پہلے پہل فرینچ سیاح مِیشیل ژاژولے [Michel Jajolet, sieur de la Courbe] نے 1685ء میں استعمال کی تھی، جب وہ اپنے سفر نامے میں سینی گال (افریقہ) میں پُرتَگِیز کے زیر اَثر بولی جانے والی زبان کی نشان دہی کر رہا تھا۔ یہ اصطلاح اٹھارویں صدی تک کسی دوسری زبان کے لیے استعمال نہیں ہوئی، نیز 1825ء کے بعد تک اس کا وسیع استعمال انگریزی زبان میں بھی نہیں تھا، جبکہ اس کی جگہ ’پاتوئی‘ [patois] مستعمل تھی۔ مزید معلوم ہوا کہ اصل اصطلاح در حقیقت امریکاز میں موجود اسپین اور پرتگال کی نوآبادیات میں وضع کی گئی اور سولہویں صدی تک اس کا اطلاق اصل ہِسپانوی، پُرتگِیز اور اَفریقی نژاد لوگوں سے اِنہی کی مخلوط نسل کو الگ کرنے کے لیے ہوتا تھا۔ اس بنیاد کے بعد وہی ذکر آتا ہے (محولہ بالا) کہ سترہویں صدی کے آغاز میں پہلے فرینچ، پھر انگریزی میں یہ اصطلاح امریکی اور بحر ہند کی نوآبادیات میں پیدا ہونے والے افریقی یا یورپی نژاد لوگوں کے لیے استعمال ہوئی۔ یہی اصطلاح وسیع تناظُر میں انہی خطوں میں پائے جانے والے پودوں، جانوروں اور رسم و رواج کے لیے بھی استعمال ہونے لگی تھی۔ (بحوالہ انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا)۔ ملائیشیا میں قومی زبان مالے یا ملائی اور انگریزی کے ملاپ سے بننے والی خیول کو Manglish کہا جاتا ہے۔
اوپر کی یہ تمام گفتگو بظاہر ہمارے عنوان سے تعلق نہیں رکھتی، مگر توجہ طلب بات یہ ہے کہ جب کوئی زبان یا کچھ زبانیں اس طرح کسی علاقے، شہر یا ملک کے باشندوں کی مقامی بولی ٹھولی پر اثر اَنداز ہوتی ہیں کہ وہ ایک نئی بولی بولنے لگتے ہیں جو کہیں کہیں ترقی کر کے باقاعدہ (رسم الخط، قواعدِ صَرف و نحو کے ساتھ) زبان بن جاتی ہے تو اُسے کچھ اور نام دینا پڑتا ہے۔
کچھ عرصے قبل بزم زباں فہمی کے فاضل، بزرگ رُکن ڈاکٹر محمد اَکرم چودھری صاحب نے عربی کی ایسی ہی مخلوط بولی کی نشان دہی کر کے ہمیں حیران پریشان کر دیا تھا۔ خاکسار نے اُن سے گزارش کی تھی کہ براہ کرم اس موضوع پر کوئی مبسوط نگارش عنایت فرمائیں۔ اس سے قبل مجھے فارسی اور فرینچ میں ایسی ہلکی پھلکی مثالیں دیکھنے کو ملیں، بنگلہ، پشتو، سندھی، بلوچی، پنجابی اور بروشسکی میں بھی ایسی مثالیں دیکھنے میں آئیں کہ انگریزی اور کہیں کہیں اردو کے اختلاط سے کوئی مِلواں یا کھچڑی بولی بولی جا رہی ہے۔ ان سبھی زبانوں نے حسبِ ضرورت یا جدید بننے کی خواہش میں انگریزی کے الفاظ اور فقرے بے حساب اپنا لیے ہیں۔ (فارسی کی متعدد قدیم و جدید شاخوں سے کماحقہ‘ واقفیت نہ ہونے کے باوجود، بندہ یہی سمجھتا ہے کہ مخلوط بولی بولنا، شہری ایرانیوں کی اپنی رَوِش ہے)۔ بروشسکی میں ایسے الفاظ کی ایک فہرست راقم نے اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے ’ہم رِکاب‘ [The Fellow Rider] میں شایع کی تھی۔
یہاں اصل نکتہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ مخلوط بولی اور سب سے زیادہ رومن رسم الخط کا استعمال ہمارے یہاں اردو کے ضمن میں ہو رہا ہے۔ بربِنائے ضرورت کوئی مخلوط بولی بولنے کا شعوری اقدام یقیناً مستحسن نہ ہوتے ہوئے بھی قبول کر لیا جاتا ہے، مگر اِسے معیاری زبان یا جُداگانہ زبان کا درجہ ہرگز نہیں دیا جاتا۔ ہمارے خطے میں دینی، علمی، ادبی و لسانی زوال کا یہ عالَم ہے کہ ہم نے پہلے اِنگریز کے زیرِ اثر، اردو کوم ٹانے کی کوشش یا مہم کا شعوری، غیر شعوری طور پر حصہ بننا گوارا کیا، پھر اپنی ہی مادری زبان، رابطے کی سب سے بڑی اور آسان زبان کو اِس طرح نقصان پہنچایا جیسے دودھ دوہنے کے بعد گائے یا بھینس بیکار ہو گئی اور اُسے طرح طرح سے اذیت پہنچا کر ٹھکانے لگانا مقصود ہو۔ آج پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں مقیم اردو گو اور اُردو داں طبقہ بجائے زبان سیکھنے سکھانے کے، رومن رسم الخط اپنا کر یہ سمجھ رہا ہے کہ بس یہی شارٹ کٹ ہے، اسی طرح لکھو اور یہ سمجھ لو کہ دنیا بھر میں ہماری زبان سمجھ لی گئی ہے۔ نوبت بہ ایں جا رَسید (نوبت یہاں تک پہنچ گئی) کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ رومن کیا ہے۔ انھیں باقاعدہ بتانا پڑتا ہے کہ جناب رومن رسم الخط ہی نہیں، ایک زبان بھی ہے یا تھی جسے لاطینی [Latin] بھی کہتے ہیں اور جو عہدِ جدید میں مُردہ زبانوں [Dead languages] میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی زندہ اور جاری شکل ہے اِطالوی [Italian] جو علمی و ادبی اعتبار سے بہت ہلکی یا خالی خالی ہے۔ رومن رسم الخط میں انگریزی سمیت دنیا کی متعدد زبانیں لکھی جاتی ہیں، مشرقی زبانوں میں تُرکی بھی اسے اپنائے ہوئے ہے۔
ایک مرتبہ پھر اپنی قوم کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اردو اپنے رسم الخط کی بجائے رومن میں لکھنا، ہماری نہیں، غیر ملکیوں کی (وہ بھی عارضی یا وقتی) ضرورت یا مجبوری ہو سکتی ہے۔ ماضی میں جھانکیں تو معلوم ہو گا کہ غیر مُنقَسِم ہندوستان میں دَر آنے والے پُرتگیز، ولندیزی (ڈچ) ، المانوی (جرمن) ، فرینچ اور اِنگریز عربی، فارسی و ترکی کے ساتھ ساتھ یا ان کے بعد اردو سیکھنے میں کوئی دِقّت محسوس نہیں کرتے تھے، البتہ ہر قوم اور ہر طبقے میں غبی [Dull]، کُند ذہن اور کمزور طالب علم بھی ہوتے ہیں جو کوئی زبان کُجا، کوئی بھی بات سیکھنے میں دیگر کی نسبت، زیادہ وقت لگاتے ہیں یا سِرے سے سیکھتے ہی نہیں۔ ایسے ہی کچھ لوگوں نے اُردو یا ہندوستانی زبان سیکھنے (اور اِنہی جیسوں کو سکھانے) کے لیے رومن رسم الخط کا سہارا لیا ہو گا۔ ہمیں پرانی کتب میں انگریزوں ہی کی مثالیں ملتی ہیں، مگر وہ اِن تمام اقوام کے آخر میں آئے تھے، جبکہ جرمن کوئی بڑی تعداد میں نہیں آئے، محض امتثال امر کے لیے نام لیا۔ سوال یہ ہے کہ قومی زبان بولنے اور جاننے والے افراد کی بہت بڑی تعداد جب اُردو کو مادری یا قریب قریب مادری زبان کے طور پر جانتی ہے، اس کا استعمال رابطے کے لیے کرتی ہے تو لکھائی سیکھنے میں کونسی قباحت ہے؟ اور سیدھی سادی زبان بولنے یا بولنا سیکھنے میں کونسے ہاتھی گھوڑے جوتنے پڑتے ہیں؟
کل تک چند مخصوص ’نودَولتیہ‘ عُرف ’برگر‘ یا نام نہاد ’اشرافیہ‘[Elite class] کا مسئلہ تھا کہ اگر اُردو سیکھ لی اور صحیح بول لی تو غضب ہو جائے گا، نوکروں اور ’اُردو میڈیم بد تمیز‘ لوگوں یا سبزی پھل والوں سے بولنے کے لیے اُلٹی سیدھی بولی بولنا کافی ہے ……مگر افسو س، صد اَفسوس!
اور پرانے لوگوں کی طرح کہوں تو ’ہیہات، ہیہات‘! ’حَیف، صد حَیف‘…آج ہم جیسے ’غریب عوام‘ کے گھروں اور اردگرد کے مکانوں میں بھی ایسے ہی ’نمونے بڑی تعداد میں پیدا ہو چکے ہیں جو آسان سے آسان بات کا مطلب ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھتے ہیں اور گنتی بھی، بھلے ہی سو تک نہ آتی ہو، نواسی کا مطلب ایٹی نائن سمجھ کر ہی کام چلاتے ہیں، لکھنا تو اُنہیں آتا ہی نہیں۔ ابھی چند لمحے پہلے، افغان جمعدار لڑکا گھر کا کُوڑا چننے آیا تو اُس کی ایک غلط حرکت پر ڈانٹا اور جواب میں سُنا: Shit۔ اب بھلے ہی اُس کو مطلب نہ معلوم ہو۔ ہمارے یہاں کام کے لیے آنے والی بلوچ نژاد پنجابی ماسی کی لڑکی بھی (کچھ ہماری ’گھریلو سرکار‘ کی ’غیر رَسمی‘ ٹیوشن کے طفیل اور کچھ خود آموزش سے) ایسے ایسے انگریزی الفاظ بولنے لگی ہے کہ ہم حیران ہو جاتے ہیں۔ اب اس باب میں افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ لوگ اپنا کام چلانے کے لیے اُلٹی سیدھی رومن اُردو لکھ تو لیتے ہیں، مگر اُنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ صحیح بھی لکھا ہے یا کچھ اور مطلب تو نہیں نکلے گا۔ خاکسار کو ماضی میں ایم ایس این میسنجر اور یا ہو میسنجر پر (محض اتفاقاً کسی لڑکی ہی سے) رومن اردو میں بات چیت عُرف Chat کرتے ہوئے یہ تلخ تجربہ ہو چکا ہے کہ مخاطب کو سیدھا سادا اُردو لفظ، فہم کی کمی کی وجہ سے گالی محسوس ہوا۔ اُن دنوں اردو ٹائپنگ عام نہیں تھی۔
آئیے رومن اردو کی کچھ ’خطرناک‘ مثالیں یہاں دیکھتے ہیں:
ا)۔ تم اُسے چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟
Tum usai/usay chod/chhod/chor/chhor/chhorr kyoon/kyooN nahi daitai/daytay?
ب)۔ وہ تو چھَڑا چھانٹ ہے، اُس کا کیا بھروسا؟
Wo/woh tou chada/chhada/chara/charra chant/chaant/chaaNt hai. Uss ka kya bhraosa?
ج)۔ تمہیں میری چوٹ کا ذرا بھی خیال نہیں؟
Tumhein/TumheiN meri chot/chout/choutt ka zara bhee Khayal nahi?
د)۔ متعدد حروف خصوصاً حرف دال، ذال اور ڈال کے اختلافات کو رومن اردو میں کسی بھی طرح صحیح پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اب ذرا دِل پر ہاتھ رکھ کر یہ عبارت تمام اِمکانات کے ساتھ پڑھیں یا کسی ’رومن زدہ‘ سے پڑھوا لیں اور پوچھیں کہ کونسی عبارت صحیح لگی اور مطلب کیا سمجھ میں آیا۔ رومن رسم الخط کی شان میں اور اس کے مضر اَثرات کی بابت بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ میں مختصراً یہی کہتا ہوں کہ رومن رسم الخط میں ہماری صوتیات کو سمونے اور بالکل ویسا ہی پیش کرنے کی ہرگز اہلیت نہیں جو ہمارے نستعلیق یا نسخ میں ہے۔
ان نکات پر غور کرنے کے بعد کوئی بھی ذی شعور ہرگز اس بات پر آمادہ نہیں ہو گا کہ اردو کا اپنا رسم الخط ترک کر کے رومن اختیار کرے جس میں لفظ کچھ سے کچھ اور معانی یکسر تبدیل ہو جائیں۔
جہاں ایک طرف انگریزی۔ زدہ مخلوط بولی ٹھولی کا رِواج یا فیشن دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، وہیں بعض جگہ اُردو کے چاہنے والے بھی اپنے مقامی لب و لہجے کی اردو سے ہمیں خوش کر دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ایک نجی ادارے نے فیس بُک پر خالص بنگلہ لہجے میں اردو کے چھوٹے چھوٹے کلِپ بنا کر چلائے، بہت حیرت زا مسرت ہوئی۔
٭٭٭
طنز و مزاح
پکڑے جاتے ہیں ہم اس کے لکھے پر ناحق ۔۔۔ احمد صفی
مرزا نوشہ کے زمانے میں یہ کمبخت موبائیل فون ایجاد ہو گیا ہوتا تو یقیناً وہ اپنا مشہور مصرع ایسے ہی بدل دیتے جیسے ہم نے بدلا اور شاید اس ناحق پکڑے جانے پر ایسا نالہ ان کے لب پر آتا کہ دوسرا مصرع شعر ہی کو دیوان سے خارج کروا دیتا۔۔۔
اب بھلا بتائیے اگر آپ اپنے کسی سن رسیدہ اور علیل بزرگ کو سالگرہ پر یہ پیغام دیں ’’بہت سی دواؤں کے ساتھ سالگرہ مبارک۔۔۔‘‘ تو کیا وہ آپ کو پلٹ کر دعا دیں گے؟ اب ان کی خدمت میں عرصہ دو سال سے عرض گزار رہا ہوں کہ حضور میں نے ’دعاؤں‘ لکھا تھا جو سب کو لکھا کرتا ہوں۔۔۔ مگر کم بخت موبائیل کی خود تصحیحی سافٹ وئیر نے از خود نوٹس لے کر لفظ بدل دیا۔ مگر بزرگوار ناراض ہی ہیں اور تمام مشترکہ جاننے والوں سے اس بدتمیزی کا ذکر کر چکے ہیں۔۔۔ وہ تو شکر ہے کہ بوجہ رعشہ اسکرین شاٹ نہیں لے سکتے ورنہ ہمارے میسیج کا اسکرین شاٹ بطور ثبوت، وائرل بھی ہو چکا ہوتا۔۔۔
ارے یہ موبائیل صرف ہمارے ساتھ ہی یہ نہیں کیا کرتا بلکہ بڑے بڑوں کو اکثر شرمندہ کرا دیتا ہے۔۔ ایک روز ہماری کمپنی کے صدر کا میسیج انگریزی میں کچھ اس طرح ہمارے فون پر نازل ہوا۔۔۔ ’’میں سیکسی کے ساتھ بیٹھا ہوں فوراً مطلع کرو کہ یہ آگ کیسے بجھائی جائے گی۔‘‘ ہم پہلے ہی ایک ایمرجنسی سے نمٹ رہے تھے گھبرا گئے کہ ان کو کیا ہو گیا کس قسم کے مشورے مانگ رہے ہیں۔۔۔ لا حول ولا۔۔۔ یہ تو بعد کو پتہ چلا کہ ہم جس سرکاری پاور پلانٹ پر لگی آگ کو کنٹرول کرنے میں مدد دے رہے تھے وہ اسی کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔ وزارت توانائی کے وفاقی ’سیکریٹری‘ کے پاس طلبی ہوئی تھی اور وہیں سے رابطہ کیا تھا۔ اب سمجھ لیجیے انہوں نے کیا لکھا ہو گا۔۔۔
عیادت ایک فریضہ ہے جو کسی کے بیمار ہونے پر ادا کیا جاتا ہے۔۔۔ مگر ہم نے طے کر لیا ہے کہ یہ فریضہ ہرگز بذریعۂ فون انجام نہ دیا جائے۔۔۔ ہم اب تک ان خاتون سے چھپتے پھر رہے ہیں جن کی علالت پر ہم نے یہ پیغام بھیجا، ’’آپ کی ذلالت کا سن کر بہت افسوس ہوا۔۔۔ اللہ آپ کو جلد ٹھیک کرے، آمین۔‘‘ اب اگر رشتہ سسرالی ہو اور آپ صحتمندی کے زمانے میں ویسے ہی موصوفہ کے ناقد رہے ہوں تو خود ہی اندازہ لگا لیجیے موبائیل کی اس ’ذلالت‘ کا اثر گھر میں کس قدر دور رس اور طویل دورانیے کا رہا ہو گا۔۔۔ اللہ معاف کرے۔
فون پر دعا دینے سے بھی اب ہم کتراتے ہیں۔۔۔ رمضان کے خاتمے پر اس قسم کا پیغام آپ کو ہماری طرف سے ملے تو کیا آپ کو خوشی ہو گی، ’’آپ کے اعمال یقیناً آخرت میں آپ کے لیے باعثِ زحمت ہوں گے۔۔۔ آپ کو ضرور ان کا بدلہ ملے گا۔‘‘ جن حضرت تک یہ میسیج اس گدھے موبائیل نے پہنچایا انہوں نے عید کے دن گلے ملنے سے انکار کر دیا اور بچوں کو عیدی نہ دے کر ان کا دل بھی توڑا۔
ہم نے ایک دوست کے سامنے جب فون کی شکایت کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا، ’’میاں احمد صفی، سارا قصور فون ہی کا نہیں ہے۔۔۔ ذرا اس کا سائز دیکھو اور پھر اپنی موٹی موٹی انگلیاں دیکھو۔۔۔ یقیناً دباتے کچھ ہو گے اور دبتا کچھ اور ہو گا۔۔۔ اب ہم کبھی انگلیوں کو تکتے اور کبھی ان سے ہونے والی غارتگری کا سوچتے:
انگلیاں ’سگار‘ اپنی، فون خونچکاں اپنا
پھر اسی شریف آدمی نے میسیج بھیجنے کے بعد بھی تصحیح کر سکنے والے آپشنز کا بیان شروع کر دیا۔۔۔ ہم نے کہا ارے بھائی، لاکھ نئے آپشن آ جائیں کہ آپ فون پر لکھے ہوئے کو میسیج بھیجنے کے بعد درست کر سکیں مگر پھر بھی ہماری اپنی سافٹ وئیر جو اب اپڈیٹ کے قابل بھی نہیں، ہمیشہ بھیجنے سے پہلے نظر ثانی سے روک ہی دے گی۔ ویسے بھی یہ نظرِ ثانی والا کام بھی عقدِ ثانی ہی کی طرح ہے جو ہم اپنے کسی لاشعوری خوف کے تحت کبھی کر ہی نہیں سکتے۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اب ہم اکثر بیٹھے سوچا کرتے ہیں کہ کس ستم ظریف نے اس بدبخت شے کا نام اسمارٹ فون رکھ ڈالا ہے۔۔۔ استغفر اللہ
٭٭٭
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید