اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


فکر و خیال ۔۔۔ رشید سندیلوی

نثر پر ادبی مضامین وغیرہ کا مجموعہ

فکر و خیال

از قلم

رشید سندیلوی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

 

 

فکر و خیال

 

 

نثر پر مضامین، تبصرے، خاکے

 

رشید سندیلوی

 

 

کتاب۔۔  ’اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان‘، مصنف۔  فرحت عباس شاہ

 

فرحت عباس شاہ کی کتاب ’اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان‘ اردو تنقید کی دنیا میں ایک اہم اور منفرد کارنامہ ہے۔  یہ کتاب اردو تنقید میں موجود روایتی یکسانیت، بوریت اور تنقید کے فرسودہ انداز سے آگے بڑھتے ہوئے ایک نیا اور عمدہ تنقیدی نظریہ پیش کرتی ہے۔

اردو تنقید کا میدان ہمیشہ سے ہی مغربی نظریات اور طریقوں کی تقلید کرتا رہا ہے۔  مولانا حالی سے لے کر موجودہ دور تک، اردو تنقید میں کوئی خاطرخواہ نیا پن یا جدت نہیں دکھائی دی۔  مختلف مغربی نظریات جیسے ساختیات، پس ساختیات، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت وغیرہ کو اپنانے کے باوجود، اردو ادب میں ان نظریات کا عملی اور حقیقی اثر کم ہی نظر آتا ہے۔

’اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان‘ ان مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے تنقید کا ایک نیا زاویہ پیش کرتی ہے۔  فرحت عباس شاہ کی اس کتاب میں تنقیدی تھیوریز کو اردو ادب کی اپنی روایت، فکر اور اسلوب کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔  یہ کتاب تنقید اور تخلیق کے درمیان گہرے رشتے کی نشاندہی کرتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ ایک مضبوط تنقیدی دبستان ادب کی تخلیق میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

فرحت عباس شاہ نے مغربی تنقیدی نظریات کی افادیت اور ان کی اردو ادب پر کمزور تاثیر کا جائزہ لیا ہے۔  انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مغربی نظریات کو بلا چوں و چرا قبول کرنے کے بجائے، انہیں اردو ادب کی روایت اور ثقافت کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔

کتاب میں فرحت عباس شاہ نے ایک نئے تنقیدی دبستان کا تعارف کرایا ہے جو ادراکی تنقید پر مبنی ہے۔  یہ دبستان ادب کے فکری اور اسلوبی پہلوؤں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے اور اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک بڑی فکر ہمیشہ ایک بڑے اسلوب کے ساتھ آتی ہے۔

کتاب میں مختلف ادبی شخصیات جیسے ڈاکٹر شاہد اشرف، نذیر ساگر، ڈاکٹر عامر سہیل، اور پروفیسر خالد سہیل کی آرا شامل ہیں جو اس کی افادیت اور اہمیت کو مزید بڑھاتی ہیں۔  ان آرا کی روشنی میں فرحت عباس شاہ کی تنقیدی تھیوری کو سمجھنا اور بھی آسان اور بامعنی ہو جاتا ہے۔

فرحت عباس شاہ کی تنقیدی تھیوری تخلیق کار اور تخلیق پارے کی روح کو دوبارہ اہمیت دیتی ہے۔  ان کے مطابق، تنقید کا مقصد ادب کو معاشرتی اور فکری طور پر با مقصد اور مفید بنانا ہے۔

کتاب میں مختلف موضوعات اور ابو اب شامل ہیں جو اردو تنقید کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہیں۔  ان میں علّامہ اقبال، ن۔ م۔  راشد، فیض احمد فیض، مجید امجد، میراجی، منیر نیازی، خالد احمد، جون ایلیا، منصور آفاق، علی نواز شاہ اور شفیق احمد خان جیسے شعرا اور ادبا کے بارے میں فرحت عباس شاہ کے تنقیدی نظریات شامل ہیں۔

’اردو کا ادراکی تنقیدی دبستان‘ فرحت عباس شاہ کا ایک اہم کارنامہ ہے جو اردو تنقید کو ایک نیا اور منفرد زاویہ فراہم کرتا ہے۔  یہ کتاب محنت، وسیع مطالعے اور گہرے ادراک کا نتیجہ ہے اور اردو ادب کے شائقین کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔  فرحت عباس شاہ کی یہ کاوش اردو تنقید کے میدان میں ایک نئی روشنی اور نئی راہیں کھولتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

تنہائی کے سو سال: ایک شاہکار ناول

 

’تنہائی کے سو سال‘ (One Hundred Years of Solitude) ایک مشہور ہسپانوی زبان کا ناول ہے، جسے کولمبین مصنف گابریل گارسیا مارکیز نے 1967 میں لکھا۔ یہ ناول نہ صرف لاطینی امریکی ادب میں بلکہ دنیا بھر کے ادبی حلقوں میں اپنی منفرد اہمیت رکھتا ہے۔ گارسیا مارکیز نے اس ناول کے ذریعے جادوئی حقیقت نگاری (Magical Realism) کو ایک نئی جہت دی، جہاں حقیقی دنیا کے مسائل اور خیالات کو تخیلاتی اور جادوئی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

’تنہائی کے سو سال‘ کی کہانی ایک خیالی گاؤں ’ماکوندو‘ اور اس کے بانی خاندان، بوندیا خاندان، کے گرد گھومتی ہے۔ ناول سات نسلوں پر مشتمل خاندان کی داستان ہے، جس میں ان کے عروج و زوال، خوشیاں اور غم، جنگیں اور امن، محبت اور تنہائی کے لمحات بیان کیے گئے ہیں۔ ہر نسل میں کردار تنہائی کی مختلف شکلوں سے نبرد آزما ہوتے ہیں، جو آخر کار ان کے زوال کا سبب بنتی ہیں۔

ناول کا مرکزی موضوع تنہائی ہے۔ ہر کردار اپنی ذات میں قید محسوس کرتا ہے، چاہے وہ محبت، اقتدار، یا خاندانی تعلقات کے ذریعے اس قید سے نکلنے کی کوشش کرے۔ یہ تنہائی نسل در نسل منتقل ہوتی ہے اور آخر کار خاندان کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔

ناول میں لاطینی امریکہ کی تاریخ اور سماجی حالات کو تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نوآبادیاتی دور، سیاسی کشمکش، اور ثقافتی تبدیلیاں کہانی کے پس منظر میں چلتی ہیں، جو ماکوندو کے کرداروں کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں۔

گارسیا مارکیز نے حقیقی دنیا کے مسائل کو جادوئی انداز میں پیش کیا ہے۔ مثلاً، کردار ہوا میں اُڑتے ہیں، بارشیں برسوں تک جاری رہتی ہیں، اور ماضی و حال ایک دوسرے میں گھل مل جاتے ہیں۔ یہ انداز ناول کو منفرد اور دلچسپ بناتا ہے۔

’تنہائی کے سو سال‘ نے عالمی ادب میں گابریل گارسیا مارکیز کو ایک نمایاں مقام دیا۔ یہ ناول جادوئی حقیقت نگاری کی بہترین مثال ہے اور اسے کئی زبانوں میں ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ 1982 میں مارکیز کو ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا، جس میں اس ناول کا بڑا کردار تھا۔

’تنہائی کے سو سال‘ ایک ایسا شاہکار ہے جو انسانی جذبات، تعلقات، اور تاریخ کی گہرائیوں کو بیان کرتا ہے۔ یہ ناول نہ صرف ایک خاندان کی کہانی ہے بلکہ یہ انسانی وجود کی تنہائی اور اس کی جدوجہد کی علامت ہے۔ ادب کے شوقین افراد کے لیے یہ ایک لازمی مطالعہ ہے، جو سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ تنہائی اور محبت کے درمیان زندگی کا توازن کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

ناول: جین آئیر

 

میں نے جب گریجویشن کی سٹڈی شروع کی تو اس وقت انگریزی کے نصاب میں شارلٹ برونٹے کا ناول ’جین ائیر‘ شامل تھا ۔ میں نے اپنے مطالعے کا آغاز اسی ناول سے کیا۔ سب سے پہلے ناول کا اردو ترجمہ پڑھا اور اس کے بعد متن ۔۔۔  اس ناول میں ایک خاص طرح کی پر اسراریت تھی جو دلچسپی پیدا کرتی تھی۔۔۔

شارلٹ برونٹے کا شاہکار ناول ’جین آئیر‘ اپنی مضبوط نسوانی کردار نگاری، سماجی مسائل کی عکاسی، اور جذباتی شدت کی وجہ سے ادب کی تاریخ میں منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ ناول ایک یتیم لڑکی، جین آئیر، کی کہانی ہے جو زندگی کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی شناخت، عزتِ نفس، اور آزادی کی جستجو میں مصروف رہتی ہے۔ جین آئیر کا مضبوط اور آزاد سوچ رکھنے والا کردار اس وقت کے سماجی معیاروں کو چیلنج کرتا ہے۔ برونٹے نے اس ناول کے ذریعے خواتین کی خود مختاری، طبقاتی امتیاز، اخلاقی اقدار، اور انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

کہانی جین آئیر نامی یتیم بچی سے شروع ہوتی ہے جو اپنی سخت گیر خالہ اور ان کے ظالم بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ بعد ازاں، وہ ایک بورڈنگ اسکول، لووڈ، میں تعلیم حاصل کرتی ہے، جہاں زندگی مزید کٹھن ہوتی ہے۔ جین اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد تھورن فیلڈ ہال میں ایک گورننس کے طور پر ملازمت اختیار کرتی ہے اور وہاں کے پراسرار مالک، مسٹر روچسٹر، سے ملتی ہے۔ جین اور روچسٹر کے درمیان محبت پروان چڑھتی ہے، لیکن یہ محبت انکشافات، اخلاقی آزمائشوں، اور قربانیوں سے گزرتی ہے۔

ناول میں محبت اور مساوات، خواتین کی آزادی، سماجی امتیاز، اخلاقیات، اور خود مختاری جیسے موضوعات شامل ہیں۔ جین اور روچسٹر کا رشتہ ان دونوں کے جذبات اور اخلاقی اقدار پر مبنی ہے، جو طبقاتی فرق کو نظرانداز کرتا ہے۔ جین آئیر ایک آزاد خیال اور مضبوط کردار کی حامل عورت ہے جو اپنی عزتِ نفس کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہے۔ یہ ناول اس وقت کے طبقاتی نظام اور خواتین کے حقوق کی کمی پر شدید تنقید کرتا ہے۔ جین آئیر کی زندگی کی جدوجہد اخلاقی اصولوں اور خودداری کی مثال ہے۔

’جین آئیر‘ ایک ایسی داستان ہے جو آج بھی قارئین کے دلوں پر اثر کرتی ہے۔ اس کا اندازِ بیان پُراثر اور کردار نگاری حقیقت کے قریب ہے۔ جین آئیر کا کردار خواتین کے حقوق اور آزادی کا علمبردار ہے، جو اس وقت کے روایتی سماج کے لیے ایک انقلابی پیغام تھا۔ برونٹے نے اس ناول میں انسانی نفسیات، محبت، اور اخلاقیات کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ یہ ناول ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو اپنے جذبات اور اصولوں کے لیے دنیا کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوتی ہے۔

’جین آئیر‘ نہ صرف ایک محبت کی داستان ہے بلکہ ایک انقلابی بیانیہ بھی ہے جو انسان کے اندر کے سچ اور سماجی جبر کے درمیان توازن پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ لازوال شاہکار ادب، سماج، اور انسانی جذبات کے مطالعے کے لیے ہمیشہ اہم رہے گا۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ہر دور کے قارئین کے دلوں کو چھوتی رہے گی۔

٭٭٭

 

 

 

گیارہ منٹ ۔۔۔۔ ایک فحش اور منہ پھٹ ناول 

 

ناول گیارہ منٹ (Eleven Minutes)، برازیلی مصنف پاؤلو کوئلہو (Paulo Coelho) کا مشہور ناول ہے، جو پہلی بار 2003 میں شائع ہوا۔ یہ ناول محبت، جنسی تعلقات، اور انسانی خواہشات کے پیچیدہ پہلوؤں پر مبنی ہے۔

ناول کی مرکزی کردار ماریا، برازیل کے ایک چھوٹے گاؤں کی رہائشی ہے، جو ایک بہتر زندگی کی تلاش میں یورپ جاتی ہے۔ وہ اپنی معصومیت اور خوابوں کے ساتھ جنیوا، سوئٹزرلینڈ پہنچتی ہے۔ وہاں قسمت اسے ایک ایسی دنیا میں دھکیل دیتی ہے جو اس کے خوابوں کے بالکل برعکس ہے۔

ماریا اتفاقاً ایک نائٹ کلب میں نوکری کر لیتی ہے، اور جلد ہی وہ جسم فروشی کی دنیا میں داخل ہو جاتی ہے۔ ابتدا میں وہ اس کام سے اجتناب کرتی ہے، لیکن جلدی اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ اسے مالی آزادی اور زندگی کا تجربہ دے سکتا ہے۔

جسم فروشی کے دوران ماریا محبت اور جنسی تعلقات کے درمیان فرق کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ محبت کو ایک جذباتی تعلق کے طور پر دیکھتی ہے جبکہ جسمانی تعلق کو محض ایک ضرورت۔ ماریا کی ملاقات ایک نوجوان آرٹسٹ رالف ہارٹ سے ہوتی ہے، جو اسے زندگی کے نئے معنی سمجھاتا ہے۔

یہ کہانی محبت، روحانیت، اور جسمانی تعلقات کے مابین توازن کو تلاش کرنے کا ایک سفر ہے۔ آخر میں، ماریا کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ آیا وہ جسمانی آزادی کے ساتھ اپنی زندگی جاری رکھے یا رالف کے ساتھ محبت کو ترجیح دے۔

ناول کا عنوان ’گیارہ منٹ‘ مرکزی تھیم کی طرف اشارہ کرتا ہے، یعنی جنسی تعلق کی جسمانی مدت اور اس کی زندگی میں اہمیت۔ ماریا اپنے تجربات کے دوران مشاہدہ کرتی ہے کہ جنسی عمل، جس میں عموماً اوسطاً گیارہ منٹ لگتے ہیں، لوگوں کے لیے ایک وقتی تسکین کا ذریعہ بن جاتا ہے، لیکن اکثر وہ اس کے جذباتی اور روحانی پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ماریا کے لیے یہ احساس اس بات کی علامت بن جاتا ہے کہ جنسی تعلق، جو بظاہر ایک مختصر دورانیے کی جسمانی ضرورت ہے، زندگی میں بہت گہرے اثرات چھوڑ سکتا ہے۔ وہ سوال کرتی ہے کہ کیا یہ عمل محض ایک جسمانی فعل ہے یا اس میں محبت، قربت، اور جذباتی بندھن کا پہلو بھی شامل ہو سکتا ہے؟

یہی ’گیارہ منٹ‘ ماریا کی زندگی کے تضادات کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ وہ دیکھتی ہے کہ بہت سے لوگ جنسی تعلق کو صرف جسمانی تسکین کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ اس کے لیے یہ ایک گہری اور جذباتی معنویت رکھتا ہے۔

ماریا یہ جاننے کی کوشش کرتی ہے کہ انسان کے لیے اس مختصر عمل کی اتنی بڑی کشش کیوں ہے، اور کیا یہ محبت کے بغیر حقیقی اطمینان فراہم کر سکتا ہے۔

گیارہ منٹ ناول کا استعارہ بن جاتا ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مختصر جسمانی عمل کی اہمیت کو ہم کیسے دیکھتے ہیں اور یہ ہماری روح، جذبات، اور زندگی کے بڑے معنوں سے کیسے جڑا ہوا ہے۔

ناول یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ انسانی تعلقات میں جسمانی پہلو کا مقام کیا ہے، اور کیا یہ محبت اور روحانی تعلق کے بغیر مکمل ہو سکتا ہے

پاؤلو کوئلہو نے اس ناول میں جرأت مندی کے ساتھ ایک متنازع موضوع کو پیش کیا ہے۔ ناول اس سوال کو اٹھاتا ہے کہ جسمانی تعلقات اور محبت کے درمیان کیا فرق ہے اور ان دونوں کی انسانی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔

ماریا کی کہانی یہ ظاہر کرتی ہے کہ زندگی میں کچھ تجربات ہمیں اپنی ذات کی گہرائیوں تک لے جاتے ہیں اور ہمارے تصورات کو چیلنج کرتے ہیں۔ ناول یہ بھی دکھاتا ہے کہ محبت صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی اور جذباتی تعلق بھی ہے۔

پاؤلو کوئلہو نے بڑی خوبصورتی سے محبت، جنسی تعلقات، اور خود شناسی کے موضوعات کو آپس میں جوڑا ہے۔ تاہم، کچھ قارئین کو کہانی کے بعض پہلو بے حد حساس یا متنازع محسوس ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اس کے کھلے انداز اور حقیقت پسندی کی وجہ سے۔ مجھے ناول کے ’منہ پھٹ‘ اظہار پر اعتراض ہے ۔جنسی اعمال کے لئے  کھلے انداز کی بجائے مخفی یا استعاراتی زبان اختیار کرنی چاہیے تھی۔۔۔ میں تو اس قسم کے لٹریچر کو تہذیب کے خلاف سمجھتا ہوں ۔۔۔ لیکن میرے اختلاف یا اعتراض کے بر عکس دنیائے ادب کا  یہ کامیاب ترین ناول ہے۔

٭٭٭

 

 

 

راکھ ہوتی منزلیں: ادھورے خوابوں کے کٹہرے میں ایک عمیق تخلیق

 

کہانی لکھنا محض الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ خوابوں، جذبات اور حقیقتوں کو ایک نئے زاویے سے پیش کرنے کا عمل ہے۔ احمد محسود کا پہلا ناول ’راکھ ہوتی منزلیں‘ بھی ایسی ہی ایک تخلیق ہے، جو محبت، جدوجہد اور معاشرتی ناانصافیوں کی داستان سناتا ہے۔ یہ ناول ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتا ہے جہاں فرد نہ صرف اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے تگ و دو کرتا ہے بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں کے ساتھ بھی نبرد آزما رہتا ہے۔

ادھورے خواب اور جذبات کی کربناک عکاسی

ناول کی بنیاد ان ادھورے خوابوں پر رکھی گئی ہے، جو حقیقت کی زمین پر پاؤں رکھنے سے پہلے ہی چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ کہانی کے کردار، خاص طور پر کامران اور عائشہ، اپنے خوابوں اور محبت کے ذریعے  اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے، یہ خواب سماجی اور سیاسی مسائل کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی بے بسی کا منظر پیش کرتے ہیں۔

محبت کی داستان، جو ناول کے آغاز میں سادہ اور دلکش لگتی ہے، جوں جوں آگے بڑھتی ہے، اس کے تانے بانے محرومی، جبر اور ناانصافی کے ساتھ جڑتے جاتے ہیں۔ عائشہ اور کامران کی محبت، جو ایک روشن امید کی علامت ہے، وزیرستان کے تاریک حالات میں بھی اپنی روشنی بکھیرنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن آخر کار، یہ روشنی بھی ان حالات کے بوجھ تلے دھندلا جاتی ہے، اور کہانی ادھورے خوابوں کی ایک کربناک تصویر بن کر سامنے آتی ہے۔

احمد محسود نے وزیرستان کی ثقافت اور سماج کو اس مہارت سے پیش کیا ہے کہ قاری اس دنیا کو اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس کرتا ہے۔ ’خئ‘ اور ’غگ‘ جیسی رسومات، قبیلائی دشمنیاں، اور محرومی کی زنجیریں اس علاقے کی حقیقتوں کو واضح کرتی ہیں۔ ناول اس خطے کی وہ تصویر دکھاتا ہے جو اکثر پوشیدہ رہتی ہے، جہاں ایک طرف محبت اور خواب ہیں تو دوسری طرف جبر، ناانصافی اور سماجی دباؤ۔

ناول کے کردار، جو ابتدا میں مضبوط اور جاندار دکھائی دیتے ہیں، کہانی کے آخر میں مظلومیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کردار اپنی کہانی کے مصنف کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی محرومیوں پر سوال اٹھا رہے ہوں۔ محبت میں بیوہ ہونے والی عائشہ اپنے خوابوں کی کرچیاں دکھاتی ہے، ایک اور کردار اپنی ناکامیوں کا شکوہ کرتا ہے، اور ایک جوان لڑکی اپنی اتری ہوئی مہندی دیکھ کر پکار اٹھتی ہے کہ اس کے ہاتھوں میں رنگ کیوں نہ آنے دیا گیا۔

مصنف ان سوالات کا جواب ایک گہرے فلسفیانہ جملے سے دیتا ہے:

’’میرے پیارو… تمہیں کیا معلوم امر ہونا کسے کہتے ہیں؟‘‘

یہ جملہ ان تمام ادھورے خوابوں اور دکھوں کو ایک گہرے مقصد کا حصہ قرار دیتا ہے، جو قاری کو زندگی کی تلخ حقیقتوں پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

مصنف کی زبان کی سادگی اور بیان کی گہرائی قاری کو کہانی کے ساتھ جڑے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ لیکن کہانی کا اختتام پری پلان ،  عجلت اور تصنع سے ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ غیر متوقع لگتا ہے۔ یہ تیزی شاید ان ادھورے خوابوں کی عکاسی کرتی ہے جو زندگی میں کبھی مکمل نہیں ہو پاتے۔

’راکھ ہوتی منزلیں‘ صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسا آئینہ ہے جو دکھاتا ہے کہ زندگی صرف خوشیوں کی نہیں، بلکہ ان قربانیوں اور چیلنجز کی داستان ہے جو انسان کو امر کر دیتی ہیں۔ یہ ناول محبت، جبر، محرومی، اور جدوجہد کے مختلف رنگوں کو ایک ایسی تخلیق میں سمو دیتا ہے جو  دل میں گہری چھاپ چھوڑ جاتی ہے۔ احمد محسود کی یہ تخلیق اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے، اور قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ادھورے خواب بھی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں؟

٭٭٭

 

 

 

 

دشتِ سوس: جمیلہ ہاشمی

 

جمیلہ ہاشمی 1934 میں برطانوی ہندوستان کے تاریخی شہر امرتسر میں پیدا ہوئیں، تاہم بعض مستند حوالوں کے مطابق ان کی ولادت 17 نومبر 1929 کو گوجرہ میں ہوئی۔ ان کے والد کا نام برکت علی تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ہندوستان میں مکمل کی، جہاں سے میٹرک اور ایف اے کے امتحانات پاس کیے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان 1947 میں ساہیوال منتقل ہوا، اور پھر اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے وہ لاہور چلی آئیں، جہاں 1952 میں ایف سی کالج سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔

18 اگست 1959 کو ان کی شادی بہاولپور کی معروف خانقاہ شریف کے سجادہ نشین اور پنجاب اسمبلی کے رکن سردار احمد اویسی سے ہوئی، جو ایک بڑے زمیندار اور کئی نسلوں سے گدی نشین خاندان کے فرد تھے۔ ازدواجی زندگی کے بعد جمیلہ ہاشمی خانقاہ شریف کی روحانی اور ثقافتی فضا میں رچ بس گئیں، تاہم ان کی ادبی شناخت اس سے پہلے ہی مستحکم ہو چکی تھی۔

ادب سے ان کی وابستگی بچپن سے تھی، اور وہ شادی سے قبل ہی تخلیقی سفر کا آغاز کر چکی تھیں۔ ان کا پہلا ناول ’تلاشِ بہاراں‘ 1954-55 میں مکمل ہوا، تاہم یہ 1961 میں شائع ہوا۔ ان کے ادبی سفر کو اس وقت نئی جہت ملی جب 1960 میں انہوں نے ڈھاکہ میں منعقدہ رائٹرز گلڈ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی، اور 1961 میں ’تلاشِ بہاراں‘ پر ایک اعزاز بھی حاصل کیا۔

1983 تک جمیلہ ہاشمی کئی شاہکار تخلیقات پیش کر چکی تھیں، جن میں ’آتشِ رفتہ‘، ’روہی‘،’چہرہ بہ چہرہ‘ اور سب سے زیادہ شہرت پانے والا ناول ’دشتِ سوس‘ شامل ہیں۔

زندگی کے آخری ایام میں جمیلہ ہاشمی دل گرفتگی کا شکار ہوئیں اور 9 جنوری 1988 کو ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔ اگلے ہی دن، 10 جنوری 1988 کو وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں، لیکن ان کا تخلیقی ورثہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔

’دشتِ سوس‘ جمیلہ ہاشمی کا ایک عظیم ناول ہے جو تصوف، تاریخ اور انسانی جدوجہد کے گہرے موضوعات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ ناول منصور حلاج کی زندگی، ان کے فلسفے اور ان پر ہونے والے مظالم کی کہانی بیان کرتا ہے۔ جمیلہ ہاشمی نے نہایت مہارت اور فنکارانہ نزاکت کے ساتھ عشق، تصوف اور قربانی کے جذبات کو الفاظ میں ڈھالا ہے، جس سے یہ ناول محض ایک کہانی نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی سفر میں ڈھل جاتا ہے۔

ناول کی کہانی منصور حلاج کے گرد گھومتی ہے، جو ایک ایسے صوفی تھے جن کا پیغام محبت، حق اور وحدت الوجود پر مبنی تھا۔ ان کا معروف نعرہ ’انا الحق‘ (میں حق ہوں) اس وقت کے مذہبی اور سیاسی حلقوں کے لیے ناقابلِ قبول تھا، جس کے نتیجے میں انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ ناول میں نہ صرف منصور حلاج کی فکری اور روحانی جدوجہد کو نہایت موثر انداز میں بیان کیا گیا ہے، بلکہ اس دور کے سماجی، مذہبی اور سیاسی حالات کی عکاسی بھی کی گئی ہے، جہاں حق گوئی کی راہ میں اذیتوں کا سامنا ناگزیر تھا۔

’دشتِ سوس‘ میں عشقِ حقیقی ایک مرکزی موضوع کے طور پر ابھرتا ہے۔ منصور حلاج کا عشق محض دنیاوی محبت تک محدود نہ تھا، بلکہ وہ خدا کی ذات میں فنا ہو جانے کا متلاشی تھا۔ یہی عشق انہیں ہر قسم کی آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے پر آمادہ کرتا ہے، اور ان کی قربانی عشقِ حقیقی کی معراج بن جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، ناول حق اور باطل کے تصادم کی کہانی بھی بیان کرتا ہے، جہاں طاقت کے نشے میں بدمست مذہبی اور سیاسی قوتیں سچائی کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ جمیلہ ہاشمی نے یہ دکھایا ہے کہ تاریخ ہمیشہ سچ بولنے والوں کے لیے بے رحم رہی ہے، اور منصور حلاج بھی اسی جدوجہد کے ایک درخشاں کردار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

ناول میں جبر اور استبداد کی گہری جھلکیاں نظر آتی ہیں، جہاں مذہب کے نام پر طاقت کے کھیل کھیلے جاتے ہیں اور سچ کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں کی منافقت کو بے نقاب کرتے ہوئے، جمیلہ ہاشمی نے یہ واضح کیا ہے کہ طاقت کے پجاری ہمیشہ اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے رہتے ہیں۔ تاہم، منصور حلاج کی شخصیت ایک ایسے فرد کے طور پر ابھرتی ہے جو مصلحت پسندی کے بجائے سچائی کے راستے کا انتخاب کرتا ہے، چاہے اس کی قیمت جان دے کر ہی کیوں نہ چکانی پڑے۔

جمیلہ ہاشمی کا اسلوب نہایت شائستہ، بلیغ اور پُر اثر ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر شاعرانہ لطافت سے بھرپور ہے، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ وہ تاریخی واقعات، فلسفیانہ مباحث اور جذباتی کیفیات کو انتہائی مہارت اور نفاست سے بیان کرتی ہیں، جس سے کہانی کا اثر کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ ان کے الفاظ قاری کے ذہن پر ایک دیرپا تاثر چھوڑتے ہیں اور غور و فکر پر مجبور کر دیتے ہیں۔

’دشتِ سوس‘ محض ایک تاریخی ناول نہیں، بلکہ ایک روحانی اور فکری تجربہ ہے، جو قاری کو تصوف، عشقِ حقیقی اور سچائی کی تلاش کے گہرے اسرار میں لے جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی شاہکار تخلیق ہے جو اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور سچ کی راہ کے مسافروں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جمیلہ ہاشمی نے اس ناول کے ذریعے اردو فکشن کو ایک ایسی تخلیق دی ہے جو وقت کی گرد میں کھونے والی نہیں۔

٭٭٭

 

 

عبداللہ حسین کی ناول نگاری

 

عبداللہ حسین اردو ادب کے ایک ممتاز ناول نگار ہیں جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔  ان کی ناول نگاری کی دنیا کو ایک نئے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش نے انہیں اردو ادب کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا۔

عبداللہ حسین کا ادبی سفر 1963ء میں شائع ہونے والے اپنے پہلے ناول ’اداس نسلیں ‘ سے شروع ہوا۔  یہ ناول اردو ادب میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا اور اسے پاکستانی ادب کا ایک عظیم شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔  ناول میں برصغیر کی تاریخ، تحریکِ آزادی، اور تقسیمِ ہند کے پس منظر میں ایک خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے۔  اس ناول نے عبداللہ حسین کو فوری شہرت دی اور انہیں آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔

’اداس نسلیں ‘ کے بعد 1982 ء میں ان کا دوسرا ناول ’باگھ‘ شائع ہوا۔  یہ ناول ایک گاؤں کے زمیندار خاندان کی کہانی ہے جو سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کے دوران اپنی جڑیں مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے۔  اس ناول میں عبداللہ حسین نے پاکستان کے دیہی معاشرت کے تضادات اور طبقات کے تصادم کو خوبصورت انداز میں پیش کیا۔

ان کا تیسرا ناول ‘نادار لوگ‘ 1996 ء میں منظر عام پر آیا، جس میں انہوں نے شہری زندگی کی تلخیوں اور مشقتوں کو اجاگر کیا۔  اس ناول میں جدید معاشرتی مسائل کو بڑی حساسیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

عبداللہ حسین نے انگریزی زبان میں بھی طبع آزمائی کی، اور Emigre Journeys  (2000 ء) اور  The Afghan Girl جیسے ناولز لکھے، جو ان کی ادبی وسعت اور تخلیقی قوت کی گواہی دیتے ہیں۔

عبداللہ حسین نے ناولٹ بھی تحریر کیے جن میں ’قید‘ (1989 ء) اور ’رات‘ (1994 ء) شامل ہیں۔  ان مختصر ناولوں میں بھی ان کی زبان و بیان کی روانی اور موضوعات کی گہرائی نظر آتی ہے۔

افسانوی ادب میں ان کی تصانیف ’نشیب‘ (1981 ء) اور ’فریب‘ (2012 ء) قابل ذکر ہیں۔  ان افسانوں میں عبداللہ حسین نے انسانی نفسیات کے مختلف پہلوؤں کو بہترین انداز میں اجاگر کیا ہے۔

عبداللہ حسین کے ناولوں میں گہرے انسانی جذبات، معاشرتی تضادات، اور تاریخی تناظر کا بہترین امتزاج پایا جاتا ہے۔  ان کے کردار حقیقت کے قریب تر ہیں اور ان کی کہانیاں زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کا عکس پیش کرتی ہیں۔  ان کی تحریر میں سادگی کے ساتھ گہرائی ہے جو قاری کو متاثر کرتی ہے اور سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

ان کے ناولوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معاشرتی اور تاریخی پس منظر میں انسانی تجربات اور جذبات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ وہ قاری کے دل میں اتر جاتے ہیں۔  ان کا قلم زندگی کی حقیقتوں کو بے نقاب کرتا ہے اور انہیں ایک نئے زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

عبداللہ حسین کی ناول نگاری اردو ادب کا ایک اہم باب ہے جس نے ناول کی صنف میں نئے تجربات اور رجحانات کو جنم دیا۔  ان کے ناول، ناولٹ اور افسانے آج بھی قارئین کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی ادبی اہمیت کبھی کم نہیں ہوئی۔  ان کی تخلیقات نے اردو ادب کو ایک نئی سمت دی اور آنے والے ناول نگاروں کے لیے ایک روشن مثال قائم کی۔

٭٭٭

 

 

 

جانگلوس : شوکت صدیقی

 

شوکت صدیقی 20 مارچ 1923 کو لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لکھنؤ سے حاصل کی اور بعد میں لکھنؤ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1950 میں کراچی منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے صحافت کے شعبے میں قدم رکھا اور کئی اخبارات میں بطور مدیر کام کیا، جن میں روزنامہ جنگ اور روزنامہ مساوات  شامل ہیں۔

وہ ایک نمایاں ترقی پسند ادیب تھے، جن کی تحریریں سماجی ناانصافی، سیاسی بدعنوانی اور پسے ہوئے طبقے کے مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔ ان کا سب سے مشہور ناول ’خدا کی بستی‘ ہے، جو پاکستان کے نچلے طبقے کی مشکلات کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ناول بے حد مقبول ہوا اور اس پر ایک مشہور ٹی وی ڈرامہ بھی بنایا گیا۔ ان کے دیگر معروف ناولوں میں ’چارہ گر‘، ’کمین گاہ‘ اور ’سوشیلسٹ‘ شامل ہیں، جن میں سیاسی اور سماجی مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔

انہیں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ ان کی تخلیقات پاکستان اور بھارت میں بے حد مقبول ہوئیں اور کئی زبانوں میں ترجمہ بھی ہوئیں۔ 18 دسمبر 2006 کو کراچی میں ان کا انتقال ہوا، لیکن ان کی تحریریں آج بھی قارئین کو متاثر کرتی ہیں اور انہیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔

شوکت صدیقی کا ناول ’جانگلوس‘ اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا ناول ہے جو دیہی اور شہری زندگی کے تضادات، جاگیردارانہ استحصال، پولیس گردی، عدالتی ناانصافی، اور انسانی بقا کی جدوجہد کو انتہائی موثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ شوکت صدیقی کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے فن کے ذریعے سماجی حقیقت نگاری کو نہایت جاندار طریقے سے پیش کیا۔ ان کا مشہور ناول ’خدا کی بستی‘ ہو یا ’جانگلوس‘، دونوں میں وہی حقیقت نگاری، بے باک مشاہدہ اور استحصالی قوتوں کے خلاف ایک خاموش بغاوت نظر آتی ہے۔

’جانگلوس‘ ایک طویل اور پیچیدہ ناول ہے جس کی کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں، لالی اور رحیم داد، کے گرد گھومتی ہے۔ یہ دونوں جیل سے فرار ہو کر اپنی زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ ان کا سامنا معاشرے کے مختلف طبقوں سے ہوتا ہے، جہاں ہر کوئی اپنے مفاد کے لیے دوسروں کا استحصال کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار، پولیس، اور با اثر افراد سبھی اپنے مفادات کے لیے کمزوروں کو روندتے ہیں۔ لالی اور رحیم داد کے تجربات کے ذریعے شوکت صدیقی نے ایک ایسا سماجی نقشہ کھینچا ہے جس میں ظلم، بغاوت، اور بقا کی جنگ واضح نظر آتی ہے۔

ناول میں جاگیردارانہ نظام کی جڑیں گہری دکھائی گئی ہیں، جہاں عام آدمی کے لیے جینے کا حق بھی مشکل بنا دیا جاتا ہے۔ شوکت صدیقی نے ان کرداروں کو محض کہانی کے تسلسل کے لیے نہیں تراشا، بلکہ ان کے ذریعے پورے سماج کی نبض پر ہاتھ رکھا ہے۔ لالی ایک بہادر اور بے خوف شخص ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کی ہمت رکھتا ہے، جبکہ رحیم داد چالاک اور موقع شناس ہے، جو حالات کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے۔ دونوں کا سفر ناول کے مختلف حصوں میں ان کی شخصیتوں میں آنے والی تبدیلیوں کو نمایاں کرتا ہے۔

کہانی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ناول کے مختلف مراحل میں قاری کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود بھی کرداروں کے ساتھ سفر کر رہا ہو۔ ہر موڑ پر نئے مسائل اور نئی چالاکیوں کا سامنا ہوتا ہے۔ شوکت صدیقی نے دیہی زندگی کی تلخیوں کو نہایت باریکی سے بیان کیا ہے۔ وہ طبقہ جو جاگیرداروں کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہا ہے، ہمیشہ دباؤ اور استحصال کا شکار رہتا ہے۔ ناول میں پولیس اور عدالتی نظام کی بدعنوانی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے، جہاں انصاف صرف ان کے لیے ہوتا ہے جو طاقت اور دولت رکھتے ہیں، جبکہ کمزور اور بے سہارا لوگ ہمیشہ ظلم کی چکی میں پسے جاتے ہیں۔

شوکت صدیقی کا اسلوب بے حد سادہ مگر پر اثر ہے۔ وہ غیر ضروری طوالت سے گریز کرتے ہوئے کہانی کو مکالموں اور مناظر کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں۔ ان کا بیانیہ ایسا ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود ان کرداروں کے درمیان موجود ہو۔ دیہی زندگی کے مخصوص لہجے، محاورے اور مکالمے ناول کو حقیقت کے مزید قریب لے آتے ہیں۔ کرداروں کی نفسیات، ان کے خواب، ان کی مشکلات، اور ان کی مجبوریوں کو اتنے گہرے انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر کردار اپنی پوری جزئیات کے ساتھ قاری کے ذہن میں اتر جاتا ہے۔

ناول میں صرف منفی پہلو ہی اجاگر نہیں کیے گئے بلکہ اس میں انسانی جدوجہد، بغاوت اور بقا کی امید بھی موجود ہے۔ لالی اور رحیم داد کی کہانی دراصل ان تمام لوگوں کی کہانی ہے جو اپنے حالات سے لڑنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، مگر نظام کی جکڑ بندیوں سے نکلنا ان کے لیے آسان نہیں ہوتا۔ ’جانگلوس‘ کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ طاقتور طبقے کس طرح کمزوروں کا استحصال کرتے ہیں، اور اس استحصال سے نکلنے کے لیے جدوجہد کرنا کتنا ضروری ہے۔

یہ ناول صرف ایک کہانی نہیں بلکہ ایک سماجی اور تاریخی دستاویز بھی ہے جو پاکستان کے دیہی اور شہری زندگی کی تلخ حقیقتوں کو بیان کرتا ہے۔ اس میں طبقاتی کشمکش، انسانی فطرت کے مختلف رنگ، محبت، نفرت، لالچ، خوف، امید اور بغاوت جیسے عناصر کو انتہائی خوبصورتی سے سمویا گیا ہے۔ شوکت صدیقی نے نہایت مہارت کے ساتھ کرداروں اور واقعات کے ذریعے اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ کس طرح طاقت اور اقتدار کا کھیل ہمیشہ کمزوروں کو روند کر آگے بڑھتا ہے۔

’جانگلوس‘ اردو ادب کے ان ناولوں میں شامل ہے جو وقت کے ساتھ مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ آج بھی اس ناول کے موضوعات اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے اس کے لکھے جانے کے وقت تھے۔ جاگیردارانہ نظام اور استحصالی قوتیں آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں، اور عام آدمی کی جدوجہد بھی ویسی ہی ہے جیسی ناول میں دکھائی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ناول آج بھی قارئین کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور انہیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا واقعی ہمارے معاشرے میں کمزور کے لیے کوئی جگہ ہے؟ یا ہمیشہ طاقتور ہی حکمرانی کرے گا؟

یہ ناول ہمیں ایک آئینہ دکھاتا ہے، جہاں ہم اپنے معاشرے کی حقیقتوں کو بے نقاب ہوتا دیکھتے ہیں۔ شوکت صدیقی کا یہ شاہکار اردو ادب کے افق پر ہمیشہ روشن رہے گا، کیونکہ اس میں انسانی نفسیات، جدوجہد اور استحصال کے ایسے پہلو موجود ہیں جو ہر دور میں حقیقت بن کر سامنے آتے رہیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

بازی گر : شکیل عادل زادہ

 

شکیل عادل زادہ کا نام اردو ادب میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی تخلیق ’بازی گر‘ اردو کی مشہور قسط وار کہانیوں میں شمار ہوتی ہے، جو سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہوتی رہی۔ یہ کہانی اپنے منفرد اسلوب، سنسنی خیز واقعات اور جاندار کرداروں کی وجہ سے قارئین کے دلوں میں گھر کر گئی اور آج بھی اپنی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔

کہانی کا مرکزی کردار بابر زماں خان ہے، جو ایک پراسرار، ذہین اور جرات مند شخصیت کا مالک ہے۔ اس کا کردار ایک ایسی کشش رکھتا ہے جو قاری کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ کہانی میں کورا کا کردار بھی بہت اہم ہے، جو ایک دلچسپ مگر پیچیدہ کردار کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان چلنے والا کھیل اور واقعات کی پیچیدگی کہانی کو مزید سنسنی خیز بنا دیتی ہے۔

’بازی گر‘ میں ایک اور جاندار اور یادگار کردار بٹھل کا  ہے ۔ وہ  پاڑے کا استاد ہے۔ اس کردار کی زبان، انداز اور شخصیت کہانی میں حقیقت کا رنگ بھرتی ہے اور اسے مزید دلچسپ بنا دیتی ہے۔ شکیل عادل زادہ کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ کرداروں کو غیر معمولی حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کرتے ہیں، جس سے وہ محض خیالی کردار نہیں لگتے بلکہ جیتے جاگتے محسوس ہوتے ہیں۔

’بازی گر‘ کی سب سے بڑی انفرادیت اس کا بے مثال اسلوب ہے۔ اس کہانی میں زبان انتہائی رواں اور سلیس ہے، لیکن اس میں ایک ایسی ادبی چمک بھی موجود ہے جو قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ ہر جملے میں ایسا سحر اور ایسی روانی ہے کہ قاری بے اختیار اگلی سطر پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کہانی میں تجسس اور مہم جوئی کا عنصر اتنا گہرا ہے کہ ہر قسط کے بعد قارئین بے چینی سے اگلی قسط کا انتظار کرتے تھے۔

یہ کہانی اپنی سنسنی خیزی، کرداروں کی گہرائی اور دلچسپ واقعات کی وجہ سے ایک ادبی شاہکار کا درجہ رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے ’بازی گر‘ مکمل کتابی صورت میں شائع نہ ہو سکی، لیکن اس کے باوجود اس کے مداحوں کی تعداد میں کبھی کمی نہیں آئی۔ آج بھی جب اس کہانی کا ذکر ہوتا ہے تو وہی پرانا جوش اور تجسس لوٹ آتا ہے جو اس کے اولین قارئین نے محسوس کیا تھا۔ ’بازی گر‘ صرف ایک کہانی نہیں، بلکہ اردو ادب کی ایک زندہ روایت ہے، جو کئی نسلوں تک یاد رکھی جائے گی۔

٭٭٭

 

 

 

نسیم حجازی: ایک عہد ساز ناول نگار

 

نسیم حجازی کا شمار برصغیر کے ان عظیم ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخی ناولوں کے ذریعے نوجوان نسل میں اسلامی تاریخ، قومی غیرت اور جذبہ حریت کو بیدار کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کا اصل نام محمد شریف تھا اور وہ 1914 میں متحدہ ہندوستان کے علاقے سوجان پور ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ہجرت کر کے پاکستان آ گئے ۔نسیم حجازی نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے شعبے سے کیا اور ہفت روزہ تنظیم کوئٹہ، روزنامہ حیات کراچی، روزنامہ زمانہ کراچی، روزنامہ تعمیر راولپنڈی اور روزنامہ کوہستان راولپنڈی سے وابستہ رہے۔ انھوں نے بلوچستان اور شمالی سندھ میں تحریک پاکستان کو مقبول عام بنانے میں تحریری جہاد کیا اور بلوچستان کو پاکستان کا حصہ بنانے میں فعال کردار ادا کیا۔

نسیم حجازی بنیادی طور پر تاریخی ناول نگار تھے۔ ان کے ناول اسلامی تاریخ کے سنہری ادوار، مسلم امہ کی عظمت، مسلمانوں کی شاندار فتوحات اور زوال کے اسباب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں جوش، جذبہ، ولولہ اور ایک مخصوص نظریاتی رنگ پایا جاتا ہے۔

انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں تاریخ کا شعور اجاگر کیا اور انہیں اپنے ماضی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ ان کے ناولوں میں فنی محاسن کے ساتھ ساتھ مقصدیت اور اصلاحی پہلو بھی نمایاں ہیں۔ وہ الفاظ کے چناؤ اور جملوں کی ساخت میں سادگی اور روانی کو برقرار رکھتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے ناول عام قاری کے لیے بھی دل چسپی کا باعث بنتے ہیں۔

نسیم حجازی نے متعدد تاریخی ناول تحریر کیے، جن میں سے کئی آج بھی نوجوانوں میں بے حد مقبول ہیں۔ ان کے چند مشہور ناول درج ذیل ہیں:

  1. محمد بن قاسم – یہ ناول برصغیر میں اسلام کی آمد اور محمد بن قاسم کی فتوحات پر مبنی ہے۔
  2. داستانِ مجاہد – یہ ناول مسلمانوں کے زوال اور اندرونی غداروں کے کردار کو بے نقاب کرتا ہے۔
  3. اور تلوار ٹوٹ گئی – اس ناول میں سقوط غرناطہ کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ دکھایا گیا ہے کہ مسلمان اپنے داخلی انتشار کی وجہ سے کیسے زوال پذیر ہوئے۔
  4. آخری چٹان – یہ ناول سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور پر مبنی ہے اور مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی بیان کرتا ہے۔
  5. یوسف بن تاشفین – اندلس میں مسلمانوں کے سنہری دور اور یوسف بن تاشفین کی قیادت پر مبنی ہے۔
  6. گمشدہ قافلے – اس میں برصغیر کی تحریک آزادی اور 1857 کی جنگ آزادی کے حالات کو بیان کیا گیا ہے۔
  7. شاہین – اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے اسباب اور وہاں کی سیاسی صورت حال کو پیش کرتا ہے۔

نسیم حجازی کے ناولوں نے برصغیر کے مسلمانوں بالخصوص پاکستان کی نوجوان نسل پر گہرا اثر ڈالا۔ ان کی تحریریں تحریک پاکستان کے دور میں بھی مشعل راہ ثابت ہوئیں اور بعد ازاں پاکستان میں اسلامی اور قومی شعور بیدار کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ ان کے ناول پڑھنے والوں میں اسلامی تاریخ کے بارے میں تجسس پیدا کرتے ہیں اور انہیں اپنی عظمت رفتہ سے آگاہ کرتے ہیں۔

ان کی تحریروں نے کئی نسلوں پر اثر ڈالا، اور کئی نوجوان ان کی تحریروں سے متاثر ہو کر قومی اور اسلامی حمیت کے جذبے سے سرشار ہوئے۔

اگرچہ نسیم حجازی کے ناولوں کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی، لیکن بعض ناقدین ان پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے ناول حقیقت سے زیادہ جذباتیت پر مبنی ہوتے ہیں اور تاریخی حوالوں میں مبالغہ آرائی محسوس کی جا سکتی ہے۔ کچھ ناقدین کے مطابق، وہ مسلمانوں کی عظمت کو حد سے زیادہ رومانوی انداز میں پیش کرتے ہیں اور ان کے زوال کے اسباب کا مکمل تجزیہ کرنے کی بجائے صرف غداری اور بیرونی سازشوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔

نسیم حجازی اردو ادب کے ایک منفرد اور اثر انگیز ناول نگار تھے جنہوں نے تاریخ کو کہانی کے روپ میں پیش کر کے نوجوان نسل میں اسلامی اور قومی تشخص اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ ان کے ناول آج بھی پاکستان اور دیگر اردو بولنے والے علاقوں میں شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ ان کی تحریروں نے نہ صرف اردو ادب میں اپنا مقام بنایا بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی فکری تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا۔

نسیم حجازی 2 مارچ 1996 کو راولپنڈی میں انتقال کر گئے انہیں اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کے تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور نئی نسل کو ماضی سے جوڑے رکھنے میں معاون ثابت ہو رہی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

میو سپوت، مؤلف و مصنف:  نواب ناظم میو گھ

 

یہ کتاب میرے اوائل عمر کے دوست راؤ غلام محمد میو کی زندگی کی جد و جہد پر مبنی ہے۔  نواب ناظم نے بڑے خلوص اور محنت سے اس کتاب کو تحریر کیا ہے اور اس میں راؤ غلام محمد میو کی ذاتی زندگی اور میو برادری کی بہتری کے لیے ان کی بے مثال اور انتھک کوششوں کو اجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔  مصنف اپنی کاوش میں مکمل طور پر کامیاب رہے ہیں۔

راؤ غلام محمد میو سے میری پہلی ملاقات 1979  میں راولپنڈی میں ہوئی۔  یہ ملاقات ان کے برادر نسبتی کریم بخش کے توسط سے ہوئی، جو اُس وقت انگلش لٹریچر میں ماسٹرز مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی تلاش میں تھے۔  میری اور کریم بخش کی دوستی میونسپل لائبریری میں ہوئی، جہاں انہوں نے راؤ غلام محمد میو کا ذکر کیا۔  میرا تعلق سندیلیانوالی (چک نمبر 762گ ب) سے تھا جبکہ غلام محمد کا تعلق چک نمبر 756گ ب سے تھا۔  ہمارے گاؤں کے میو اساتذہ، ماسٹر عبد الحمید اور شمس صاحب، ہمارے استاد رہ چکے تھے۔  اس طرح غلام محمد سے دوستی کی بنیاد رکھی گئی، اور تھوڑے عرصے بعد ہم روم میٹ بن گئے۔  اُس وقت راؤ غلام محمد قدیر ریسرچ لیبارٹری میں ملازمت کر رہے تھے۔

راؤ غلام محمد میو ابتدا ہی سے با کردار اور با ہمت شخصیت کے مالک تھے۔  انہوں نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی برادری کی فلاح و بہبود کے لیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔  انہوں نے میو برادری کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم قائم کیا اور اس تنظیم کی رجسٹریشن کے لیے سخت محنت کی، جس میں وہ کامیاب رہے۔  غلام محمد نے میو برادری کے نوجوانوں کے لیے پاکستان اور بیرون ملک ملازمت کے مواقع تلاش کیے۔  ساتھ ہی انہوں نے میواتی زبان کی ترویج کے لیے مشاعروں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے اپنی برادری کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا۔  یہ کتاب ان کی انتھک جد و جہد کی کہانی بیان کرتی ہے۔  مصنف نواب ناظم میو کو میں اس کامیاب کاوش پر خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

٭٭٭

 

 

جنت کی تلاش:  رحیم گل

 

رحیم گل کا ناول ’جنت کی تلاش‘ اردو ادب میں بہت اہم ہے جو انسانی نفسیات، سماجی رویوں، اور زندگی کی معنویت پر گہری روشنی ڈالتا ہے۔  پہلی بار 1981 ء میں شائع ہونے والا یہ ناول مصنف کے دیگر تخلیقات میں سب سے زیادہ پذیرائی حاصل کرنے والا کام ہے۔  ناول کے مرکزی کردار، امتل اور وسیم، اپنی پیچیدہ شخصیت اور تجربات کے ذریعے قارئین کو زندگی کے متنوع پہلوؤں سے روشناس کراتے ہیں۔

جنت کی تلاش کا مرکزی موضوع انسان کی وہ داخلی کیفیت ہے جو اسے زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے اور اپنی زندگی کا مقصد تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے۔  ناول کے کرداروں کے ذریعے مصنف نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا حقیقی سکون دنیاوی آسائشوں، محبت، یا تجربات میں چھپا ہوا ہے، یا یہ انسان کی داخلی کیفیت اور خود شناسی سے جڑا ہوا ہے؟

ناول میں امتل کا کردار ایک ایسی عورت کا ہے جو زندگی کے ہر پہلو کو آزمانے کے باوجود سکون حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔  وہ اپنی ذات میں ایک بغاوت ہے، جو دنیا کے روایتی اصولوں کو خاطر میں نہیں لاتی۔  امتل کے دو اہم ساتھی، اس کا بھائی اور وسیم، اس کی زندگی میں مختلف کردار ادا کرتے ہیں۔  بھائی ایک بے پناہ محبت کرنے والا محافظ ہے، جبکہ وسیم ایک ایسا شخص ہے جو اپنی محبت کے ذریعے امتل کو تسکین دینا چاہتا ہے۔

امتل کی زندگی مختلف تجربات کا مجموعہ ہے۔  وہ محبت، جنس، سیاحت، اور گھریلو زندگی کے ہر پہلو کو آزما چکی ہے، لیکن ہر تجربہ اسے مزید مایوس اور خالی کر دیتا ہے۔  ناول کے مطابق، اس کی دو ناکام خودکشی کی کوششیں اس کے اندرونی خلفشار اور زندگی سے گہری مایوسی کی عکاسی کرتی ہیں۔

رحیم گل نے اس ناول میں انسان کی نفسیات، محبت، اور معاشرتی رکاوٹوں کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے۔  ان کا یہ کام نہ صرف اردو ادب کا ایک شاہکار ہے بلکہ ایک فلسفیانہ سوال بھی پیش کرتا ہے:  کیا انسان اس دنیا میں جنت تلاش کر سکتا ہے؟ یا جنت ایک خیالی تصور ہے جو صرف ایک خواب کی مانند ہے؟

’جنت کی تلاش‘ ایک ایسا ناول ہے جو قاری کو اپنی زندگی، خوشی، اور مقصد پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔  امتل کے تجربات اور وسیم کی محبت کے ذریعے یہ واضح ہوتا ہے کہ حقیقی سکون بیرونی دنیا میں نہیں بلکہ انسان کی داخلی دنیا میں پوشیدہ ہے۔  رحیم گل کا یہ ناول ان کی ادبی پہچان ہے اور ہمیشہ اردو ادب میں ایک نمایاں حیثیت رکھے گا۔

٭٭٭

 

 

 

منشا یاد:  اردو ادب کے منفرد افسانہ نگار

 

محمد منشا یاد اردو ادب کے افسانوی افق پر ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔  ان کا اصل نام محمد منشا تھا، لیکن ادبی دنیا میں منشا یاد کے نام سے جانے گئے۔  ان کی پیدائش 5 ستمبر 1937 ء کو برطانوی ہندوستان کے ایک گاؤں ٹھٹہ نشتراں (موجودہ فاروق آباد، ضلع شیخوپورہ، پاکستان) میں ہوئی۔  منشا یاد نے سول انجینئرنگ میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، مگر ان کی پہچان ان کے افسانوی تخلیقات کی بدولت ہوئی۔

منشا یاد نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1955 ء میں کیا جب ان کا پہلا افسانہ شائع ہوا۔  ان کا اسلوب سادہ مگر پر اثر ہے جس میں علامتیں اور استعارے اس مہارت سے استعمال ہوتے ہیں کہ قاری پر فوری اثر انداز ہوتے ہیں۔  ان کی تخلیقات میں زندگی کی سچائیوں، انسانی نفسیات، اور معاشرتی تضادات کی عکاسی ملتی ہے۔  ان کے کچھ مشہور افسانوں میں ’خواب سراب‘، ’دُور کی آواز‘، ’درخت آدمی‘، ’وقت سمندر‘، ’ماس اور مٹی‘، ’بند مٹھی میں جگنو‘، ’خلا اندر خلا‘، اور ’کچی پکی قبریں‘ شامل ہیں۔

منشا یاد نے افسانہ نگاری کے ساتھ ڈراما اور ناول نگاری میں بھی نمایاں کام کیا۔  ان کے ناولوں اور ڈراموں کو مقبولیت حاصل ہوئی، جن میں ’بندھن‘، ’جنون آواز‘، ’پورے چاند کی رات‘، اور ’راہیں‘ شامل ہیں۔  خاص طور پر ان کا پنجابی ناول ’ٹاواں ٹاواں تارا‘ جسے قومی ٹی وی چینل پر ’راہیں‘ کے نام سے ڈرامے کی شکل دی گئی، اپنی انفرادیت کے باعث ایک شہرت یافتہ کام ثابت ہوا۔

منشا یاد کی اہم تخلیقات میں افسانوی مجموعے اور ناول شامل ہیں۔  ان کے افسانوی مجموعوں میں ’بند مٹھی میں جگنو‘ (1975 ء)، ’ماس اور مٹی‘ (1980 ء)، ’خلا اندر خلا‘ (1983 ء)، ’وقت سمندر‘ (1986 ء)، ’وگدا پانی‘ (1987 ء)، ’درخت آدمی‘ (1990 ء)، ’دور کی آواز‘ (1994 ء)، ’تماشا‘ (1998 ء)، اور ’خواب سرائے‘ (2005 ء) شامل ہیں۔

ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 2004 ء میں تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازا۔  اس کے علاوہ 2006 ء میں بابا فرید ادبی ایوارڈ اور 2010 ء میں عالمی فروغ ادب ایوارڈ بھی ملا۔  ان کے افسانوی مجموعے مختلف مرتبین کی کاوشوں سے کئی بار شائع ہوئے، جن میں خاور نقوی، امجد اسلام امجد، اور ڈاکٹر اقبال آفاقی شامل ہیں۔

محمد منشا یاد 15 اکتوبر 2011 ء کو اسلام آباد میں انتقال کر گئے اور وہیں آسودہ خاک ہوئے۔  ان کی زندگی اور کام، اردو ادب کے افسانوی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں اور انہیں اردو افسانے کا ایک لازوال کردار بنایا ہے۔

٭٭٭

 

 

مرزا شبیر بیگ ساجد۔  ایک عمدہ کہانی نویس

 

مرزا شبیر بیگ ساجد پاکستان کے ممتاز کہانی نویسوں میں شامل تھے۔  1940  میں پیدا ہونے والے ساجد نے اپنی کہانیوں کے ذریعے پاکستانی معاشرت کے حقیقی مسائل، سماجی پیچیدگیوں، اور زندگی کے اصل رنگوں کو انتہائی خوبصورتی سے اجاگر کیا۔  ان کی کہانیوں میں غربت، نا انصافی، انسانی رویے، اور زندگی کے وہ مسائل پیش کیے گئے جن سے ہم آج بھی نبرد آزما ہیں۔  میری نظر میں، ساجد کی کہانیوں کا مقصد محض تفریح فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ قارئین کو زندگی کے حقیقی مسائل سے روشناس کرانا بھی تھا۔

مرزا شبیر بیگ ساجد کی ادبی زندگی میں ماہنامہ ’سلام عرض‘ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔  اس رسالے کے ذریعے انہوں نے بے شمار سچی کہانیاں قارئین کے سامنے پیش کیں جو حقیقت پر مبنی اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کا احاطہ کرتی تھیں۔  ساجد کی کہانیوں میں روایتی داستان گوئی اور جدید موضوعات کا حسین امتزاج ملتا ہے، جو ان کی تحریروں کو منفرد بناتا ہے۔  ان کی مقبولیت نے انہیں اردو ادب میں ایک اہم مقام دلایا۔

ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ان کی کہانیوں پر تحقیقی مقالہ ’مرزا شبیر بیگ ساجد کی کہانیوں کا فکری و فنی مطالعہ‘ کے عنوان سے ایم فل کی سطح پر لکھا گیا۔  اس مقالے میں ان کے تخلیقی انداز اور کہانی نویسی کے فن میں مہارت کو اجاگر کیا گیا۔

ملتان کے معروف کہانی نویس نور احمد غازی سے میری قلمی دوستی نے مجھے کہانی نویسی کی طرف راغب کیا۔  ان کی ترغیب پر میں نے اپنی پہلی کہانی ’ریت کا گھر‘ لکھ کر ماہنامہ ’سلام عرض‘ کے دفتر بھیجی۔  کچھ دن بعد مجھے ایڈیٹر مرزا شبیر بیگ ساجد کا خط ملا، جس میں انہوں نے کہانی کی تعریف کی اور مزید کہانیوں کی فرمائش کی۔  یوں میرے اور مرزا صاحب کے درمیان ادبی تعلقات قائم ہوئے، اور میں نے ’سلام عرض‘ میں کئی کہانیاں شائع کرائیں۔

مرزا شبیر بیگ ساجد سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔  وہ اکثر اسلام آباد میں میرے پاس آتے اور میں اپنے آبائی گاؤں جاتے ہوئے ان کے راہوالی کے گھر میں ملاقات کے لیے رک جاتا۔  ان کی رہنمائی سے میرے لکھنے کے انداز میں وسعت آئی، اور میں نے دو طویل کہانیاں ’غلام گردش‘ اور ’ابلیس‘ تحریر کیں، جو ’سلام عرض‘ میں شائع ہوئیں۔

1983  سے 1990  تک میرا اور مرزا صاحب کا ادبی تعلق مضبوط رہا۔  جب انہوں نے ’سلام عرض‘ کی ادارت سے استعفیٰ دیا تو مجھے اعزازی مدیر مقرر کیا گیا۔  میں نے کچھ شمارے شائع کیے، مگر جلد ہی رسالے کی اشاعت بند ہو گئی، اور میرا مرزا صاحب سے رابطہ رفتہ رفتہ ختم ہوتا گیا۔  پھر ہم اپنے اپنے مسائل میں مصروف ہو گئے، اور رابطے کی کوئی سبیل نہ نکلی۔

25 دسمبر 2023  کو وہ ایک حادثے کا شکار ہو گئے اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔  ان کی ادبی خدمات اور کہانی نویسی کا منفرد انداز آج بھی اردو ادب میں مقبول ہے۔  ان کی کہانیاں قارئین کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ’اجالے لہو کے‘ ان کی کہانیوں کا منفرد مجموعہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

راجہ گدھ کا تجزیہ

 

بانو قدسیہ کا ناول ’راجہ گدھ‘ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔  اس ناول کی کہانی انسانی نفسیات، روحانیت، اور اخلاقی اقدار کے گہرے مسائل کو بیان کرتی ہے۔  ’راجہ گدھ‘ کا مرکزی موضوع حلال اور حرام کے اثرات ہیں، اور اس میں انسانی فطرت کی مختلف پیچیدگیاں اور جذبات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔

کہانی کا مرکزی کردار قیوم ہے، جو یونیورسٹی کا ایک طالب علم ہے۔  قیوم کی زندگی میں کئی مشکلات اور پریشانیاں ہیں، جن کا سامنا کرتے ہوئے وہ اپنی اخلاقی حدود کو پار کرتا ہے۔  ناول میں قیوم کی زندگی کے مختلف مراحل کو دکھایا گیا ہے، جہاں وہ اپنی محبت، شکست، اور اپنی ذات کی تلاش میں مختلف تجربات سے گزرتا ہے۔  بانو قدسیہ نے قیوم کی شخصیت کو بڑی محنت اور باریکی سے تعمیر کیا ہے، جو قاری کو بار بار سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

ناول کا ایک اہم پہلو گدھ کی علامت ہے، جو ناول کے عنوان میں بھی شامل ہے۔  گدھ کو حرام خور کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔  یہ پرندہ مردار کھانے کی وجہ سے بدنام ہے اور اسی وجہ سے بانو قدسیہ نے اس کو انسانی اخلاقیات اور حرام کے اثرات کی نمائندگی کے لئے استعمال کیا ہے۔  ناول میں بار بار یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ حرام اور حلال کا انسان کی زندگی پر کیا اثر ہوتا ہے، اور یہ کس طرح اس کی روح کو متاثر کرتا ہے۔

بانو قدسیہ نے اپنے اس ناول میں تصوف اور روحانیت کو بھی بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔  تصوف کے نظریات، اور ان کے ذریعے روح کی پاکیزگی اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوششوں کو نہایت باریکی سے بیان کیا گیا ہے۔  ناول میں مختلف کرداروں کے ذریعے ان نظریات کو عملی شکل دی گئی ہے، جو کہانی کو مزید دلچسپ اور معنی خیز بناتے ہیں۔

’راجہ گدھ‘ میں محبت، جذبات، اور انسانی رشتوں کی نزاکتوں کو بھی بڑی خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔  قیوم اور سیمی کی محبت کی کہانی، ان کی جدائی، اور اس کے بعد کی مشکلات نے ناول کو جذباتی اور دلگداز بنا دیا ہے۔  بانو قدسیہ نے محبت کی مختلف شکلوں اور اس کے اثرات کو بڑی گہرائی سے بیان کیا ہے، جو قاری کو متاثر کرتی ہے۔

مجموعی طور پر، ’راجہ گدھ‘ ایک ایسی کہانی ہے جو انسانی فطرت، اخلاقیات، اور روحانیت کے گہرے مسائل کو بیان کرتی ہے۔  بانو قدسیہ نے اس ناول میں اپنے منفرد انداز اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ہے، جو اسے اردو ادب کے شاہکاروں میں شامل کرتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ایک عورت ہزار دیوانے

 

ناول ’ایک عورت ہزار دیوانے‘ کرشن چندر کی ایک طاقتور تخلیق ہے جو عورت کی مظلومیت اور سماجی نا برابری پر روشنی ڈالتا ہے۔  کہانی کا مرکزی کردار، لاچی، ایک خود دار خانہ بدوش لڑکی ہے جو اپنے معاشرتی حالات اور مردوں کی ہوس کا سامنا کرتی ہے۔

لاچی کا تعلق ایک ایسے قبیلے سے ہے جہاں مرد جوے اور شراب میں سب کچھ ہار جاتے ہیں۔  اس کے والد نے اپنی بیوی کو جوے میں ہار دیا، اور لاچی کو چاچا مامن نے اپنے فائدے کے لیے حاصل کر لیا۔  کرشن چندر نے پٹھانوں کو سود خور دکھانے کی تنقید کی ہے، اور ناول میں مردوں کی عورتوں کے ساتھ سلوک کو خاص طور پر اجاگر کیا ہے۔

کہانی میں مختلف کردار، جیسے اسٹیشن ماسٹر رسک لال، پنجابی وارڈر دلدار خان، حاجی عبدالسلام، اور میر چندانی، لاچی کے ساتھ ان کی خواہشات اور ہوس کی بناء پر برتاؤ کرتے ہیں۔  ان کے رویے بتاتے ہیں کہ مردوں کی نظر میں عورت محض ایک جسم ہے، جسے ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

چیچک کے مرض کے بعد لاچی کی حالت بدل جاتی ہے اور مردوں کے رویے بھی بدل جاتے ہیں۔  جو لوگ پہلے اس کے دیوانے تھے، اب اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں، اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والے ظلم و ستم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ناول عورت کی مظلومیت اور مردوں کی ہوس کی تصویر کشی کے ذریعے ایک گہرے سماجی پیغام کو اجاگر کرتا ہے کہ مردوں کی نظر میں عورت کی حیثیت اور قدر کیا ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

آگ کا دریا

 

 

آگ کا دریا نامور ناول نگار قرۃ العین حیدر کا تحریر کردہ ہے یہ پہلی دفعہ 1959  ء میں شائع ہوا۔  اس میں دو تین کہانیاں بیان کی گئی ہیں ہندوستان کی تقسیم، دو قومی نظریہ اور قدیم ہندوستانی تاریخ وغیرہ نہایت ہی پھیکے اور غیر دلچسپ انداز میں ناول میں سموئی گئی ہے۔  ناول کی فضا اکھڑی اکھڑی ہے جس سے احساس ہوتا ہے کہ ناول کے کچھ صفحات بیچ سے غائب ہیں جس سے اکتاہٹ اور بوریت پیدا ہوتی ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ مصنفہ نے ناول کے قارئین کو مشقت میں ڈال کر کوئی بدلہ لیا ہے۔  اس ناول کے ہیرو گوتم کی عمر پینسٹھ ساتھ سے زیادہ ہو چکی ہے جسے مصنوعی طور پر زندہ رکھا گیا ہے۔  ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کا نئے سرے سے تجزیہ کیا جائے۔

اس ناول کی ہر نقاد نے تعریف کی ہے لیکن اس میں کئی ٹیکنیکل مسائل ہیں اور دلچسپی کی کمی ہے جس کی بدولت اسے شوق سے پڑھنا مشکل ہے۔  اس کی ساخت میں ایسی پیچیدگی ہے جو قاری سے مشقت لیتی ہے۔  ہر کوئی اسے نہیں پڑھ سکتا۔  جس نے بھی پڑھنا ہے اپنے اوپر جبر کر کے پڑھنا ہے۔  میں ایک زمانے تک اسے ناکام ناول سمجھتا رہا اور آج بھی اپنی رائے نہیں بدل سکا۔

٭٭٭

 

 

ابن صفی: اردو ادب کے عظیم ناول نگار

 

ابن صفی، جن کا اصل نام اسرار احمد تھا، اردو ادب کی دنیا میں ایک ایسا نام ہیں جسے جاسوسی ادب کا بادشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کی شخصیت، تخلیقی صلاحیت اور بے مثال ادبی خدمات نے اردو ادب کو ایک نئی جہت عطا کی۔ 26 جولائی 1928ء کو الہ آباد کے ایک گاؤں نارا میں پیدا ہونے والے ابن صفی نے اپنی زندگی میں اردو زبان کو وہ ورثہ دیا جو آج بھی لاکھوں قارئین کو مسحور کیے ہوئے ہے۔

 

ابتدائی زندگی اور تعلیم

 

ابن صفی کے والد صفی اللہ اور والدہ نذیرا بی بی (نضیراء بی بی) کے ہاں پیدا ہونے والے اسرار احمد نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ میٹرک الہ آباد کے ڈی اے وی اسکول سے کیا اور انٹرمیڈیٹ ایوننگ کرسچن کالج سے مکمل کیا۔ 1947ء میں الہ آباد یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا لیکن تقسیمِ ہند کے واقعات نے ان کی تعلیم متاثر کی۔ تاہم، جامعہ آگرہ سے انہوں نے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

 

پاکستان ہجرت اور عملی زندگی

 

ابن صفی اگست 1952ء میں اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان ہجرت کر گئے، جہاں کراچی میں لالوکھیت کے علاقے میں رہائش اختیار کی۔ ان کے والد پہلے ہی 1947ء میں پاکستان منتقل ہو چکے تھے۔ پاکستان میں انہوں نے ابتدا میں اسکول ٹیچر کے طور پر خدمات انجام دیں لیکن ان کا اصل شوق اور قابلیت ادب کے میدان میں تھی۔

 

ادبی سفر کا آغاز

 

ابن صفی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز شاعری اور کہانی نویسی سے کیا۔ 1948ء میں ماہنامہ ’نکہت‘ سے ان کی کہانیاں شائع ہونا شروع ہوئیں۔ ان کے قلمی ناموں میں ’طغرل فرغان‘ اور ’سنکی سولجر‘ شامل تھے۔ 1952ء میں ان کے پہلے جاسوسی ناول ’دلیر مجرم‘ نے اردو ادب کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس ناول کے دو مرکزی کردار انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید راتوں رات قارئین کے دلوں میں گھر کر گئے۔

1955ء میں انہوں نے عمران سیریز کا آغاز کیا۔ سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ تھا، جس میں علی عمران کے کردار نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کی۔ یہ کردار ان کی ادبی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ثابت ہوا، جس نے اردو ادب میں جاسوسی ناولوں کی ایک نئی روایت قائم کی۔

 

اسرار پبلیکیشنز کا قیام

 

ابن صفی نے اپنی تخلیقات کو مزید فروغ دینے کے لیے 1957ء میں اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ادارہ قائم کیا۔ ان کے ناول ’ٹھنڈی آگ‘ نے اس ادارے کے تحت مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ اس دوران وہ کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہو گئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے باقی ایام بسر کیے۔

 

ادبی ورثہ اور مقبولیت

 

ابن صفی نے اپنی زندگی میں مجموعی طور پر 253 ناول تحریر کیے، جن میں 245 مکمل طور پر ان کے خود کے تخلیقی خیالات کا نتیجہ تھے۔ ان کی تخلیقات میں دلچسپ پلاٹ، انوکھے کردار، اور حیرت انگیز تجسس نے قارئین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔ ان کے ناولوں نے یہ ثابت کیا کہ ادب محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ فکری اور ذہنی تربیت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

 

بیماری اور وفات

 

1960ء میں ابن صفی کو ذہنی بیماری شیزوفرینیا کا سامنا کرنا پڑا، لیکن 1963ء میں وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔ 1979ء میں انہیں لبلبے کے سرطان کا سامنا ہوا۔ اس جان لیوا بیماری کے باوجود وہ اپنے قارئین کے لیے لکھتے رہے۔ 26 جولائی 1980ء کو، اپنی 52ویں سالگرہ کے دن، وہ کراچی میں انتقال کر گئے۔ انہیں پاپوش نگر قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

 

ناول نگاری میں جدت اور تنوع

 

ابن صفی، اردو ادب میں ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے اپنے منفرد طرز تحریر اور تخلیقی سوچ کے ذریعے نہ صرف قارئین کو محظوظ کیا بلکہ انہیں سائنسی انداز فکر اپنانے پر بھی مجبور کیا۔ ان کا ہر ناول ایک نئی تخیلاتی دنیا کی بنیاد رکھتا تھا۔

ابن صفی ایک آرٹس گریجویٹ تھے، لیکن ان کی تخلیقی قوت کسی سائنسدان سے کم نہ تھی۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں محیرالعقول مشینوں اور سائنسی آلات کا ذکر کیا، جنہیں بعد میں سائنس نے حقیقت کا روپ دیا۔ جیسے کہ ناول ’چاندنی کا دھواں‘ میں ابن صفی نے فضا میں تصاویر دکھانے والے ٹی وی کا ذکر کیا، جو آج کے ہولوگرام ٹیکنالوجی سے مشابہ ہے۔

ابن صفی کے تخلیقی تخیلات محض کہانیوں تک محدود نہ تھے بلکہ وہ سائنسی ایجادات کی پیش گوئی کرتے نظر آتے ہیں۔ ناول ’طوفان کا اغوا‘ میں فولادمی نامی روبوٹ کا تذکرہ ملتا ہے، جو بعد میں روس میں حقیقت بن کر سامنے آیا۔ اسی طرح، ’جنگل کی آگ‘ میں کلوننگ کی ابتدائی شکل کا ذکر کیا گیا، جو جدید سائنس کی ایک اہم کامیابی ہے۔

ابن صفی نے اردو ادب کو سسپنس، جاسوسی اور سائنس فکشن کے منفرد امتزاج سے روشناس کروایا۔ ان کے ناولوں میں مافوق الفطرت عناصر کی بجائے سائنسی توجیہات پیش کی گئیں، جو قارئین کو حقیقت پسندی کی طرف مائل کرتی ہیں۔ ان کی کہانیوں میں پیش کردہ آلات، جیسے شناختی آلات، کنفیشن چیئر، اور اڑن طشتریاں، اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ جدید سائنسی ترقی کو بہت پہلے محسوس کر چکے تھے۔

ابن صفی کے ناول محض تفریح کے ذرائع نہیں بلکہ ان میں علمی اور تخیلاتی عناصر بھی موجود ہیں۔ ان کے کردار، مقامات اور کہانیاں اتنی جاندار ہیں کہ ان میں قاری کو حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ ناول ’ایڈلاوا‘ میں اٹلی کی جھیل کومو کی تفصیلات اتنی درست ہیں کہ جو قارئین بعد میں وہاں گئے، انہوں نے منظر کو ویسا ہی پایا جیسا ابن صفی نے بیان کیا تھا۔

ابن صفی نے اردو ادب میں ایک نئی سمت متعارف کروائی۔ ان کے ناولوں نے نہ صرف قارئین کو تفریح فراہم کی بلکہ انہیں سوچنے، سیکھنے اور تخلیق کے نئے دروازے کھولنے کی ترغیب دی۔ ان کی تخلیقات کا اثر عالمی ادب اور سائنسی ترقی پر بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ابن صفی کی تخیلاتی پرواز، حقیقت سے جڑنے کی ان کی کوشش اور سائنسی افکار کی ترویج اردو ادب کو ایک نئی بلندی پر لے گئی۔ ان کی تخلیقات آج بھی نئے پڑھنے والوں کو متاثر کرتی ہیں اور ان کے تخلیقی ذہن کی گواہی دیتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اردو ادب کے آسمان پر ایک روشن ستارے کی مانند چمک رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

اگاتھا کرسٹی: جاسوسی ادب کی بے تاج ملکہ

 

اگاتھا کرسٹی کا شمار دنیا کے مقبول ترین ادیبوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے جاسوسی اور کرائم ناول کو ایک نئی جہت دی۔ ان کی کہانیوں نے نہ صرف قارئین کو حیرت میں مبتلا کیا بلکہ ادب کی دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔ ان کا پورا نام اگاتھا میری کلیرسا کرسٹی تھا Agatha Mary Clarissa Christi ، اور وہ 15 ستمبر 1890 کو برطانیہ کے شہر ڈیون میں پیدا ہوئیں۔

اگاتھا کرسٹی ایک خوشحال خاندان میں پیدا ہوئیں اور ان کی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ انہوں نے کم عمری میں لکھنا شروع کیا اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت جلد ہی کہانیوں میں مہارت حاصل کر لی۔ ان کی زندگی کے ابتدائی سال سادگی اور خاندانی روایات کے درمیان گزرے، لیکن ان کے اندر موجود تخلیقی جوہر نے انہیں مختلف اور منفرد بنا دیا۔

اگاتھا نے 1920 میں اپنے پہلے ناول ’دی میسٹیریئس افیئر ایٹ اسٹائلز‘ The Mysterious Affair at Styles کے ذریعے ادبی دنیا میں قدم رکھا۔ اس ناول میں ان کے مشہور کردار ہرکیول پویئرو پہلی بار سامنے آئے۔ یہ کردار ایک ذہین لیکن عجیب و غریب بیلجین جاسوس تھا، جو بعد میں ان کے کئی مشہور ناولوں کا حصہ بنا۔

اگاتھا کرسٹی نے اپنے کیریئر میں 87 سے زائد ناول، 19 ڈرامے، اور کئی مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کے ناول دنیا کی 103 زبانوں میں ترجمہ کیے گئے اور تقریباً 30 کروڑ سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں، جو انہیں تاریخ کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی مصنفہ بناتے ہیں۔

ان کے مشہور ناولوں میں  ’اینڈ دین دیئر ور نن‘ And Then There Were None، ’مرڈر آن دی اورینٹ ایکسپریس‘ Murder on the Orient Express ’دی مرڈر آف راجر ایکروئیڈ‘ The Murder of Roger Ackroyd شامل ہیں۔ ان کی سب سے مشہور کتاب ’اینڈ دین دیئر ور نن‘ دنیا بھر میں 10 کروڑ سے زیادہ کی تعداد میں فروخت ہوئی۔

1914 میں اگاتھا کرسٹی نے آرچی بالڈ کرسٹی سے شادی کی، لیکن یہ شادی 1928 میں ختم ہو گئی۔ بعد میں، 1930 میں انہوں نے آثار قدیمہ کے ماہر میکس میلووان سے شادی کی۔ میکس کی تحقیق نے اگاتھا کو مشرق وسطیٰ کی قدیم تہذیبوں سے روشناس کرایا، اور ان کے کئی ناول ان تہذیبوں کی جھلک پیش کرتے ہیں۔

اگاتھا کرسٹی 1960 میں اپنے شوہر کے ساتھ پاکستان آئیں۔ اس دورے کے دوران، انہوں نے موئن جو دڑو، لاہور، اور کراچی جیسے مقامات کی سیاحت کی۔ پاکستانی صحافیوں کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کا تخلیقی عمل کہانی کے اختتام سے شروع ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، وہ اپنا ناول تین ماہ میں مکمل کرتی ہیں اور خود ٹائپ کرتی ہیں۔

اگاتھا کرسٹی کے تخلیق کردہ کردار ہرکیول پویئرو اور مس مارپل جاسوسی ادب کے شاہکار ہیں۔ ہرکیول پویئرو Hercule Poirot ایک ذہین اور تجزیہ کار جاسوس ہے، جس کی توجہ ہر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل پر مرکوز ہوتی ہے۔ مس مارپل Miss Marple ایک معمر خاتون ہے جو اپنی ذہانت اور تجربے سے جرائم کو حل کرتی ہے۔

اگاتھا کرسٹی کی کہانیاں قاری کو آخری لمحے تک تجسس میں مبتلا رکھتی ہیں۔ ان کا اسلوب سادہ لیکن پر اثر ہے، اور ان کی کہانیوں میں جرم، نفسیات، اور انسانی رویوں کی گہری عکاسی ہوتی ہے۔ ان کے ناولوں کی خاص بات یہ ہے کہ قاری آخری صفحے تک قاتل کا اندازہ نہیں لگا پاتا۔

آگاتھا کرسٹی کے ناولوں پر مبنی دنیا بھر میں 45 سے زائد فلمیں بنائی جا چکی ہیں، جن میں ’مرڈر آن دی اوریئنٹ ایکسپریس‘ جیسی مشہور فلم بھی شامل ہے۔ یہ فلم 2017 میں ریلیز ہوئی اور اسے تقریباً 4 کروڑ 80 لاکھ افراد نے دیکھا، جو ان کی کہانیوں کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کرسٹی نے ڈرامے بھی لکھے۔ ان کا مشہور ڈرامہ ’دی ماؤس ٹریپ‘ دنیا کی سب سے طویل چلنے والی تھیٹر پروڈکشن ہے، جو 1952 سے مسلسل پیش کی جا رہی ہے۔

سنہ 2019 میں، ان کے ڈراموں کی دنیا بھر میں 700 سے زائد پروڈکشنز ہوئیں، جن میں 7 ہزار سے زیادہ فنکاروں نے حصہ لیا۔ یہ اعداد و شمار ان کی لازوال مقبولیت کو ظاہر کرتے ہیں۔

اگاتھا کرسٹی نے اپنی زندگی کا آخری حصہ سکون کے ساتھ گزارا۔ 12 جنوری 1976 کو وہ 85 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں، لیکن ان کا تخلیقی ورثہ آج بھی زندہ ہے۔ ان کے ناول اور کردار آج بھی قارئین کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔

اگاتھا کرسٹی نے اپنے منفرد اسلوب اور تخلیقی کہانیوں کے ذریعے جاسوسی ادب کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف ادب کے طلبا کے لیے مشعلِ راہ ہیں بلکہ وہ دنیا بھر کے قارئین کے لیے ایک ناقابل فراموش تجربہ بھی ہیں۔ ان کے کردار، کہانیاں، اور کہانی سنانے کا انداز ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

٭٭٭

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید