اہم

اعجاز عبید ۲۰۰۶ء سے اردو تحریر یعنی یونیکوڈ کو فروغ دینے کی نیت سے اردو کی مفت دینی اور ادبی برقی کتب فراہم کرتے رہے ہیں۔ کچھ ڈومین (250 فری ڈاٹ کام، 4 ٹی ڈاٹ کام ) اب مرحوم ہو چکے، لیکن کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام کو مکمل طور پر کتابیں ڈاٹ اردو لائبریری ڈاٹ آرگ پر شفٹ کیا گیا جہاں وہ اب بھی برقرار ہے۔ اس عرصے میں ۲۰۱۳ء میں سیف قاضی نے بزم اردو ڈاٹ نیٹ پورٹل بنایا، اور پھر اپ ڈیٹس اس میں جاری رہیں۔ لیکن کیونکہ وہاں مکمل کتب پوسٹ کی جاتی تھیں، اس لئے ڈاٹا بیس ضخیم ہوتا گیا اور مسائل بڑھتے گئے۔ اب اردو ویب انتظامیہ کی کوششیں کامیاب ہو گئی ہیں اور لائبریری فعال ہو گئی ہے۔ اب دونوں ویب گاہوں کا فارمیٹ یکساں رہے گا، یعنی مکمل کتب، جیسا کہ بزم اردو لائبریری میں پوسٹ کی جاتی تھیں، اب نہیں کی جائیں گی، اور صرف کچھ متن نمونے کے طور پر شامل ہو گا۔ کتابیں دونوں ویب گاہوں پر انہیں تینوں شکلوں میں ڈاؤن لوڈ کے لئے دستیاب کی جائیں گی ۔۔۔ ورڈ (زپ فائل کی صورت)، ای پب اور کنڈل فائلوں کے روپ میں۔

کتابیں مہر نستعلیق فونٹ میں بنائی گئی ہیں، قارئین یہاں سے اسے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:

مہر نستعلیق ویب فونٹ

کاپی رائٹ سے آزاد یا اجازت نامہ کے ساتھ اپنی کتب ان پیج فائل یا یونی کوڈ سادہ ٹیکسٹ فائل /ورڈ فائل کی شکل میں ارسال کی جائیں۔ شکریہ

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔


نقطۂ نظر ۔۔۔ رشید سندیلوی

شاعری پر مضامین، تبصرے اور تجزیوں کا مجموعہ

نقطۂ نظر

از قلم

رشید سندیلوی

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

 

…. مکمل کتاب پڑھیں

 

 

نقطۂ نظر

 

شاعری پر ادبی مضامین  اور تبصرے

 

 

رشید سندیلوی

 

 

کچھ اپنے بارے میں

 

میرا نام رشید احمد اور قلمی نام رشید سندیلوی ہے میں یکم جنوری 1959  کو ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کے قصبہ سندیلیانوالی میں پیدا ہوا۔ میرے والدِ گرامی جناب غلام غوث غم ایک صوفی منش اردو پنجابی کے شاعر تھے ان کی ابتدائی تربیت اپنے والد محترم محمد عبداللہ جو تحصیلدار تھے، کی وفات کے بعد اپنے چچا محترم جناب حضرت غلام محمد المعروف امام جلوی/جلوآنوی کے زیر سایہ ہوئی۔ میں نے میٹرک 1974  میں ڈی سی ہائی سکول سندیلیانوالی سے کیا 1977  میں انٹر کی تعلیم گورنمنٹ ڈگری کالج فرید آباد چک نمبر 333  گ ب سے حاصل کی۔  بی-اے 1981  اور اردو میں ایم-اے 1983 میں پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا۔ ملازمت کا آغاز 31  مئی 1979  سے ایجوکیشن بورڈ راولپنڈی سے ہوا۔  بعد ازاں 20 اپریل 1982  میں اے جی پی آر آفس اسلام آباد میں بحیثیت سینئر آڈیٹر تعیناتی ہوئی۔  31  جنوری 1987 میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوا۔  اللہ تعالیٰ نے تین بیٹے اور ایک بیٹی سے نوازا۔ شروع میں شاعری کی بعد ازاں کہانیاں لکھنے کا شوق ہوا جو ماہ نامہ ’سلام عرض‘ میں شائع ہوتی رہیں۔ دو سلسلہ وار کہانیاں ’غلام گردش‘ اور ’ابلیس‘ بھی ’سلام عرض‘ کی زینت بنیں۔  مرزا شبیر بیگ ساجد کے بعد میں اس پرچے کا اعزازی مدیر مقرر ہوا۔ 23 دسمبر 2007  کو میرے والد محترم رحلت فرما گئے۔ 31 دسمبر 2018  کو ملازمت سے ریٹائر ہوا۔  یکم مارچ 2021  میں کرونا میں مبتلا ہوا اور جولائی 2021  میں شفا یابی ہوئی تب میری شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

٭٭٭

 

 

 

میں، رفیق سندیلوی اور ان کی شاعری

 

گلدان میں آنکھیں رفیق سندیلوی کا پانچواں شعری مجموعہ ہے اس سے قبل ان کے چار شعری مجموعے ’سبز آنکھوں میں تیر‘ ،’گرز‘ ،’ایک رات کا ذکر‘ اور ’غار میں بیٹھا شخص‘ بالترتیب 1986 , 1987 , 1988  اور 2007  شائع ہو چکے ہیں۔ پہلے مجموعے میں غزلیں اور نظمیں شامل تھیں دوسرا اور تیسرا مجموعہ غزلیات پر مشتمل تھا اور چوتھا مجموعہ نظموں پر محیط ہے۔ اب دلاور علی آزر نے پہلے تیسرے مجموعوں سے اور نئی غزلیات کا انتخاب مرتب کیا ہے اس انتخاب میں 93 غزلیں ہیں جبکہ شاعر کے جملہ کلام کے لئے کلیات درکار ہے۔

شعری تخلیقات کے علاوہ ’امتزاجی تنقید کی شعریات‘ 2003ء  اور ’پاکستان میں اردو ہائیکو‘ 2007ء  مشہور کتابیں ہیں۔

رفیق سندیلوی جناب غلام غوث غم کے گھر یکم دسمبر 1961  میں پیدا ہوئے۔ غم صاحب اردو اور پنجابی کے عمدہ شاعر تھے ان کی ابتدائی تربیت اپنے والد گرامی محمد عبداللہ جو تحصیلدار تھے کی وفات کے بعد اپنے چچا محترم حضرت غلام محمد المعروف امام جلوی کے زیر سایہ ہوئی جو جید عالم اور مرد کامل تھے انہوں نے بے شمار کتابیں لکھیں جن میں ’حروف مقطعات‘ ’سہ حرفی‘ اور ’دیوان عشق‘ بہت مشہور ہیں۔ رفیق سندیلوی کا شعری ذوق اپنے والد گرامی کی صحبت میں پروان چڑھا۔  گریجویشن کے وقت ان کے شعری ذوق کا یہ عالم تھا کہ انہیں اساتذہ اور جدید شعرا کی بے شمار غزلیں ازبر تھیں۔  یہاں یہ بتاتا چلوں کہ رفیق سندیلوی میرے چھوٹے بھائی ہیں۔  میں 31 مئی 1979  میں راولپنڈی ایجوکیشن بورڈ میں ملازم ہوا بعد ازاں وہ بھی راولپنڈی ایجوکیشن بورڈ میں بھرتی ہو گئے یہاں انہیں حفیظ باجوہ اور لیاقت علی طینی جیسے علم دوستوں کی رفاقت حاصل ہوئی۔  20 اپریل 1982  میں میں اکاؤنٹنٹ جنرل پاکستان ریونیو اسلام آباد میں بطور سینئر آڈیٹر ملازم ہو گیا اسی طرح رفیق بھی راولپنڈی ایجوکیشن بورڈ چھوڑ کر اے جی پی آر میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔  یہاں انہیں ادبی فضا میسر آئی یہیں پر گوشۂ ادب فعال تھی۔  طارق نعیم، ازہر درانی، شجاع رفیق، شجاعت حسین بزم، وفا چشتی، اقبال چشتی، ناصر عقیل، شکیل اختر، انجم خلیق، اختر شیخ اور مجتبیٰ حیدر شیرازی اس بزم کے روحِ رواں تھے۔ بعد میں میں اور رفیق سندیلوی بھی اس تنظیم میں شامل ہو گئے۔  رفیق سندیلوی نے اپنا پہلا مشاعرہ کمیونٹی سنٹر اسلام آباد میں پڑھا جو رشید قیصرانی کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا اور جس کے مہمان خصوصی جناب ضمیر جعفری تھے۔  اس مشاعرے میں انہوں نے ایک پنجابی غزل اور ایک اردو نظم سنائی تھی۔  داد کا یہ عالم تھا کہ کان پڑتی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔  مشاعرے کے بعد رشید قیصرانی اور ضمیر جعفری نے رفیق سندیلوی کو گلے لگا لیا تھا۔  اس مشاعرے کے چند اشعار یہاں درج ہیں:

نکے نکے کماں کاراں وچ اڑی پاندا رہیا

میں کدے گھلیا تے میرا دل کدے جاندا رہیا

بھولڑا بندہ سی میں تے شہر دا منصف مزاج

میرے کولوں ورقیاں تے جرم لکھوندا رہیا

اس کامیاب مشاعرے کے بعد رفیق سندیلوی شد و مد سے لکھنے لگے اور راولپنڈی اسلام آباد کے مشاعروں میں حصہ لینے لگے جس مشاعرے میں غزل پڑھتے ڈھیروں داد سمیٹتے اور وہ مشاعرہ ہٹ ہو جاتا۔ انہیں دنوں انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ غزل ’کھا جائیں نہ چیلیں ہی بیابان میں آنکھیں‘ تخلیق کی اس غزل کو جناب منو بھائی نے اپنے کالم ’گریبان‘ میں شائع کر کے وائرل کر دیا۔  اس غزل کا ایک شعر تو اتنا مقبول ہوا کہ یونیورسٹی اور کالج کے مباحث اور بیت بازی میں بار بار دہرایا جانے لگا اور بیت بازی کی کتابوں میں شامل ہوا:

نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی

جو نسل دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں

کچھ عرصہ بعد میں رفیق سندیلوی کے ساتھ ملتان اپنے قلمی دوست نور احمد غازی سے ملنے گیا جو ماہ نامہ ’سلام عرض‘ میں کہانیاں لکھا کرتے تھے ان دنوں ان کی کہانی ’قص حیات‘ سلسلہ وار چھپ رہی تھی انہی کی ایما پر میں نے بھی کہانیاں لکھنی شروع کیں۔۔  اور دو بڑی کہانیاں ’غلام گردش‘ اور ’ابلیس‘ لکھنے میں کامیاب ہوا جو ایک عرصہ تک ’سلام عرض‘ میں سلسلہ وار شائع ہوتی رہیں۔  مرزا شبیر بیگ ساجد ان دنوں اس پرچے کے ایڈیٹر تھے۔  بہت عرصہ بعد مرزا صاحب نے ’سلام عرض‘ کی ایڈیٹری چھوڑ دی تو میں اس پرچے کا اعزازی ایڈیٹر مقرر ہوا۔  ذکر ہو رہا تھا نور احمد غازی صاحب اور ملتان کا۔  غازی صاحب نے ملتان کے شعرا سے ملاقاتیں کروائیں۔  پروفیسر حسین سحر، رضی الدین رضی، ممتاز اطہر اور دوسرے معروف شعرا نے رفیق سندیلوی کے اعزاز میں مشاعرے کا اہتمام کیا۔  اس مشاعرے میں رفیق سندیلوی نے اپنی ایک دھوم مچانے والی غزل پڑھی:

اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا

وہ اندھا داؤ پر اب کے مری آنکھیں لگا دے گا

فصیلِ سنگ کی تعمیر پر جتنا بھی پہرہ ہو

کسی کونے میں کوئی کانچ کی اینٹیں لگا دے گا

میں اس زرخیز موسم میں بھی خالی ہاتھ لوٹا تو

وہ کھیتوں میں قلم کر کے میری بانہیں لگا دے گا

اس غزل کو بہت پسند کیا گیا۔

میں نے 1983  میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم-اے اردو کا امتحان پاس کیا۔ دوران ملازمت رفیق سندیلوی نے بھی ایم-اے اردو کی تیاری شروع کی۔ پاکستانی فلموں پر مضمون لکھنے کے لئے ہم نے ایک سائیکل خریدا رفیق سائیکل چلاتے تھے میں ڈنڈے پر بیٹھتا تھا یوں راولپنڈی کے مختلف سینماؤں پر فلمیں دیکھ کر ان پر تبصرے کرتے تھے۔  لیکن افسوس کہ اس سال اس موضوع پر سوال نہ آیا۔  امتحان کی تیاری کے دوران وہ شدید بیمار پڑ گئے اور ان کا پڑھنا موقوف ہو گیا میں انہیں اٹھا کر واش روم لے جاتا تھا اور ان کے سرہانے بیٹھ کر منتخب کتابیں اونچی آواز میں پڑھا کرتا تھا امتحان کے دن قریب آ گئے اور اللہ کے فضل و کرم سے وہ اس قابل ہو گئے کہ لاغری کے باوجود پیپر دے سکیں۔  اصغر مال کالج سنٹر بنا۔  میں پیپر دلانے کے لئے ان کے ساتھ جایا کرتا تھا یہیں مجتبیٰ حیدر شیرازی بھی سیاسیات کے پیپر دے رہے تھے وہ تین چار سوالات کا جواب دے کر جلد آ جاتے تھے جبکہ رفیق پیپر ختم ہونے پر ہی کمرۂ امتحان سے باہر آتے تھے۔  شیرازی نے بتایا تھا کہ رفیق سندیلوی بہت زیادہ اضافی پیپر لیتے ہیں اس سال یہی ٹاپ کریں گے۔ اور مجتبیٰ حیدر شیرازی کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔  پاکستان ٹی وی سنٹر سے جب ان کی کامیابی اور یونیورسٹی ٹاپ کرنے کی خبر نشر ہوئی تو میں اس طرح رونے لگا جیسے کسی عزیز کی موت واقع ہو گئی ہو۔ ہم ان دنوں اکٹھے رہا کرتے تھے جہاں بھی جانا ہوتا تھا اکٹھے جاتے تھے، ایک طرح کے کپڑے، ایک طرح کا کھانا، ایک طرح کا مطالعہ۔ میں بھی شاعری کرتا تھا لیکن میں نے شاعری ترک کر دی۔ ہماری محبت زبان زد عام ہو گئی تھی۔  اسلام آباد کے ادبی حلقوں میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ سندیلوی برادران مل کر غزل کہتے ہیں اور رفیق سندیلوی پڑھ دیتے ہیں یہ حقیقت نہیں تھی۔ میں مشورے کی حد تک معاونت کرتا تھا کیونکہ مجھ میں شعر کہنے کی زیادہ اہلیت نہیں تھی۔  شاعری کی دیوی رفیق سندیلوی پر ہر وقت مہربان رہتی تھی۔ شاعری ان پر اترتی تھی۔ کہیں جاتے ہوئے آتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے ان پر شعر اترتے رہتے تھے زیادہ تر میں ان کے اشعار نوٹ کرتا تھا۔ وہ کہتے تھے، میں لکھتا تھا۔  ’گرز‘ جس کی غزلوں کی ایک زمین تھی وہ چند دنوں میں تخلیق ہوئی۔ اسی طرح ان کی معروف کتاب ’ایک رات کا ذکر‘ بھی صرف پندرہ دنوں میں طلوع ہوئی۔ اس زمانے کے زبان زد عام ہونے والے ان کے چند اشعار دیکھیں:

مہار دل کی کہیں اور موڑ دیتا ہوں

جو مجھ کو پیارا لگے اس کو چھوڑ دیتا ہوں

 

خوں بہا مانگ رہا ہوں تو یہ میرا حق ہے

شہر کے ہر نئے مقتول کا میں بھائی ہوں

 

فضا میں قتل ہوا ہے کسی پرندے کا

لہو کی باس رچی ہے ہوا کے جھونکوں میں

 

بس واقعہ اتنا ہے کہ حق مانگا گیا تھا

اور گرم سلاخوں سے ہمیں داغا گیا تھا

 

نہ پوچھ حال مرے زشت رو قبیلے کا

ذرا سا حسن ملا بن گئے خدا چہرے

 

سوچو تو بے جواز تھیں کھیڑوں سے نفرتیں

کیدو نے سارے خواب بکھیرے تھے ہیر کے

 

عجب نہیں کہ یہ رسمِ حنا بھی اٹھ جائے

حنوط کر کے رکھو دلہنوں کے پیلے ہاتھ

 

یونیورسٹی ٹاپ کرنے کی وجہ سے انہیں سرور شہید گوجر خان کالج میں اردو کی لیکچرار شپ ایڈہاک پر مل گئی۔ جس دن وہ کالج پڑھانے گئے وہ کالج میں ان کا پہلا دن تھا۔ ان کے شاگردوں کو یاد ہو گا جب انہوں نے اپنے پہلے لیکچر میں کہا تھا کہ کالج میں آج ان کا پہلا دن ہے۔ انہوں نے ٹھیک کہا تھا انہوں نے کسی کالج یونیورسٹی سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی، سب کچھ اپنے بل بوتے پر کیا تھا۔

سعودی عرب میں میرے ایک دوست حاجی ندیم رفیق سندیلوی کے مداح تھے۔ انہوں نے ان کے پہلے مجموعے ’سبز آنکھوں میں تیر‘ کی اشاعت کے لئے مالی معاونت کی۔ فروری 1986  میں یہ مجموعہ منظر عام پر آیا اور سارے کا سارا ادبی حلقوں میں بانٹ دیا گیا۔ اس مجموعے پر بڑے بڑے جغادری ادبا اور شعرا نے لکھا۔  کانگریس لائبریری نے اس کی مائیکرو فک فلم بنا کر سکولوں اور کالجوں کو مہیا کی یوں اس مجموعہ کی مقبولیت دور دور تک پہنچ گئی۔ شاعری کے علاوہ انہوں نے مضامین کا سلسلہ بھی شروع کیا اور بے شمار مضامین لکھے۔ ایک مضمون میری فرمائش پر بھی تخلیق کیا۔  ہم نے ڈائجسٹوں کا بے تحاشا مطالعہ کیا تھا، خصوصاً   ڈائجسٹوں کی سلسلہ وار کہانیاں سالوں کی ریاضت سے پڑھی تھیں۔  بازی گر۔ امبر بیل۔  صدیوں کا بیٹا۔ نروان کی تلاش۔ اقابلا وغیرہ۔ میں چاہتا تھا کہ وہ اس پر بھی کچھ لکھیں جب میرا اصرار بڑھا تو انہوں نے یہ مضمون جس کا عنوان تھا ’ڈائجسٹوں کے ادب کا مسئلہ‘ ٹیپ ریکارڈر پر ایک نشست میں ریکارڈ کر دیا، جسے میں سن کر لکھتا رہا ،یہ مضمون جب ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کو بذریعہ ڈاک بھیجا تو وہ حیران رہ گئے اور ’اوراق‘ کے اگلے شمارے میں شائع کر دیا۔  بہت عرصے بعد جب ’امبر بیل‘ کتابی شکل میں چھپی تو انوار صدیقی جو اس کہانی کے مصنف تھے، انہوں نے پیش لفظ میں رفیق سندیلوی کے اس مضمون سے ایک پیرا گراف شامل کیا۔  ’بازی گر‘ سے یاد آیا کہ ایک دن ادبی اکادمی اسلام آباد کے زیرِ انتظام ادیبوں کی کانفرنس تھی۔ میں بھی رفیق کے ساتھ شریک ہوا۔ وہاں پتہ چلا کہ کراچی سے شکیل عادل زادہ صاحب آئے ہوئے ہیں۔ رفیق نے اپنا تعارف کروایا تو انہوں نے ان کو سینے سے لگا لیا۔ رفیق نے ’بازی گر‘ پر چند باتیں کیں تو بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے رفیق کو ’سب رنگ‘ کے لئے سلسلہ وار کہانی لکھنے کی دعوت دی اور ہر طرح کی مراعات دینے کی حامی بھری۔  رفیق نے وعدہ بھی کر لیا۔ اس ملاقات کے بعد انہوں نے ’کپال‘ نامی کہانی کا آغاز کیا۔ میں نے اس کے پہلے تیس صفحات کا جب مطالعہ کیا تو دنگ رہ گیا۔  وہی اسلوب وہی زبان و بیان وہی فصاحت و بلاغت جو ’’سب رنگ‘‘ کا خاصا تھا۔  میں نے اس کہانی کی بہت حوصلہ افزائی کی، لیکن وہ دیگر مصروفیات کے سبب اس مشن کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔

گوجر خان کالج سے وہ اسلام آباد ماڈل کالج ایف ایٹ فور میں بطور اردو کے استاد منتخب ہو گئے۔ یہاں سے ایف پی ایس سی کو فیس کر کے فیڈرل گورنمنٹ کے کالج میں بطور لکچرار تعیناتی ہوئی۔  ایف پی ایس سی کا انٹرویو پروفیسر نظیر صدیقی نے لیا تھا اور زیادہ تر سوالات ان کی اپنی کتاب ’سبز آنکھوں میں تیر‘ اور نظیر صدیقی کے اپنے مضمون پر ہوئے تھے جو انہوں نے ’راجہ گدھ‘ پر لکھا تھا، جس کا جواب رفیق نے تحریر کیا تھا۔  اس انٹرویو بھی انہوں نے اپنا موقف ترک نہ کیا اور نظیر صدیقی نے اختلاف رائے کے باوجود ان کی تقرری کی سفارش کر دی۔ جنوری 87 میں میری شادی ہوئی تب تک ہم اکٹھے تھے۔ 19 نومبر 1988  کو ہمارے بڑے چچا، جنہیں ہم بابا وڈا کہا کرتے تھے، اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ ان کے آخری دیدار کے لئے ہم اپنے آبائی گاؤں جا رہے تھے۔ خاندان کا ہر فرد رو رہا تھا۔ رفیق کی زبان سے اس وقت ویگن میں ایک عظیم نظم ٹپک گئی:

کسی نے سر سے مرے آسماں اتار لیا

نگاہ دھول ہوئی ہاتھ کپکپانے لگے

مرے وجود کی دیوار گر پڑی مجھ پر

وہ مرگ جس کی خبر سن کے رک گئی ہے ہوا

وہ سانحہ کہ سمندر کا تیز رو پانی

کئی ہزار قدم ساحلوں سے دور ہٹا

سحر کا وقت ہے اور میرے خاندان کے لوگ

گڑے ہوئے ہیں غموں کی عمیق دلدل میں

ہم ایسے وقت میں بچھڑے ہیں اپنے پیارے سے

درخت پتوں سے خالی فلک ستارے سے

کسی ہتھیلی پہ رکھا نہیں چراغِ وفا

کسی نے سر سے مرے آسماں اتار لیا

اس نظم کا آغاز ذاتی غم سے ہوتا ہے لیکن آخر میں نظم آفاقی غم میں ڈھل جاتی ہے۔  اس نظم کا ہر لفظ درد و الم میں ڈوبا ہوا تھا۔

پھر زندگی کا نیا دور شروع ہوا وقت اپنی چال چلنے لگا۔ ہم ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔  وہ مجھ سے جدائی کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ میرے بغیر تو وہ ماچس کی ایک ڈبیہ بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ یہی وہ قوام تھا جس کے شیرے سے وہ عظیم نظم تخلیق ہوئی جو ’برادہ اڑ رہا ہے‘ کے نام سے پہچانی جاتی ہے جس نے ایک عالم کو اپنے حصار میں لیا ہوا ہے اور برادہ ایک زمانے سے اڑ رہا ہے۔

یکم مارچ 2021  کو میں کرونا میں مبتلا ہو کر شفا انٹر نیشنل ہسپتال میں داخل ہوا تو بیگم بہنوں اور رشتہ داروں نے دعا کا سلسلہ شروع کیا۔ میرے بڑے بیٹے زین رشید نے جو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں میری بڑی خدمت کی اور چھوٹے بیٹے حسنین رشید انجینئر نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نیز میری بیگم اور بیٹی مروا رشید کی آواز نے میرا حوصلہ بلند رکھا۔ رفیق سندیلوی ہسپتال میں مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ ادبی دوستوں نے بھی بے تحاشا دعائیں مانگیں۔ اس موقعہ پر رفیق نے ’برادہ اڑ رہا ہے‘ ری پوسٹ کر کے دعاؤں کی اپیل کی تو متذکرہ نظم ایک بار پھر لوگوں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ اس نظم میں آکسیجن کی نلکی رفیق کے نتھنوں میں لگی تھی جبکہ اب اس نلکی کا ہدف میں تھا۔  اس نظم کی اسراریت تب قارئین پر کھلی بڑے بھر پور تبصرے ہوئے اور دعائیں مانگی گئیں۔ اور مولا کریم نے مجھے زندگی لوٹا دی۔  یہاں نظم کا متن نقل کر رہا ہوں:

بُرادہ اُڑ رہا ہے:  رفیق سندیلوی

 

تِرمِرے سے ناچتے ہیں

دیدۂ نمناک میں

برّاق سائے رینگتے ہیں

راہداری میں

بُرادہ اُڑ رہا ہے

ناک کے نتھنے میں

نلکی آکسیجن کی لگی ہے

گوشۂ لب رال سے لتھڑا ہے

ہچکی سی بندھی ہے

اِک غشی ہے

میرا حاضِر میرے غائب سے جُدا ہے

کیا بتاؤں، ماجرا کیا ہے !

 

زمانوں قبل، ہم دونوں کا رستہ

پوٹلی میں، ماں کے ہاتھوں کا پکا کھانا

کتابیں اور بستہ ایک تھے

کڑیوں کے رخنوں میں

ہمارے ساتھ چڑیاں

رات دن بسرام کرتی تھیں

ہماری مُشترک چہکار تھی

درزی سے کپڑے ایک جیسے سِل کے آتے

ایک سے جوتے پہنتے

بوندا باندی میں اکٹّھے ہی نہاتے

ہم جدھر جاتے، ہمیشہ ساتھ جاتے

رات جب ڈھلتی

تو سُنتے تھے کہانی

صحن میں رکھّے ہُوئے مٹکے کا پانی

پیڑ کی چھتری

ستاروں سے مزیّن آسماں

ہانڈی کی خوش بُو

اور وریدوں کا لہو

المختصر خوابوں کی دُنیا ایک تھی

اِک دوسرے کا حاضِر و غائب تھے

ہم جُڑواں تھے

اَعضا و  عناصِر میں دُوئی نا پید تھی

سینے سے سینہ

دِل سے دِل

ماتھے سے ما تھا منسلک تھا!

 

کیا بتاؤں

کس طرح بجلی لپک کر، تار سے نکلی

کنارے اپنا دریا چھوڑ کر رُخصت ہُوئے

تکلے کا دھاگا کس طرح ٹوٹا

سرہانے خواب جو رکھّے تھے

کب بدلے گئے

زینہ کدھر کو مُڑ گیا

وہ کون سا ساماں تھا

جس کے پھینکنے پر

دل تو راضی تھا

مگر جس کے اُٹھانے سے کمر دُکھتی نہ تھی

کس درد کی پرچھائیں تھی

جو مظہر و شے سے نکلنا چاہتی تھی

دھُند جو دیوار کے دونوں طرف تھی

اُس کا قصّہ کیا سُناؤں !

 

کیا بتاؤں

وقت نے جب تختۂ آہن پہ رکھ کر

تیز رَو آرا چلایا تھا

ہمیں ٹکڑوں میں کاٹا تھا

اُسی دن سے بُرادہ اُڑ رہا ہے

پیڑ کے سُوکھے تنے سے

چھت کی کڑیوں سے

کتابوں اور خوابوں سے

بُرادہ اُڑ رہا ہے

میرا حاضِر میرے غائب سے جُدا ہے !!

 

(بڑے بھائی رشید احمد کے لئے صحتِ کاملہ کی دُعاؤں کے ساتھ)

اب ہم 87-88 کے دور میں واپس چلتے ہیں۔ اب ہم دونوں الگ الگ رہتے تھے، لیکن محبت اسی طرح برقرار رہی۔ ایک دوسرے کا احترام رہا ۔پھر اکتوبر 1989  میں میرے ایک دوست کی بیٹی سے ان کی شادی ہو گئی۔ وہ ہوش مند شخص ثابت ہوئے کھبی بھی جون ایلیا نہیں بنے۔ گھر کے معاملات، سرکاری معاملات اور ادبی معاملات بہت احسن انداز میں چلائے۔

23 دسمبر 2007  میں ہمارے والد گرامی جناب غلام غوث غم وفات پا گئے جس رات وہ فوت ہوئے، میں اور میری بیٹی انہیں ملنے کے لئے گاؤں جا رہے تھے لیکن ملاقات قسمت میں نہیں تھی۔  اسی دن میں بشمول رفیق اور دوسرے بھائیوں نے والد ماجد کے سرہانے کے نیچے چند کاغذ دیکھے۔ ان پر ٹیڑھی میڑھی لکیریں تھیں۔ لکھا تھا۔ جمعرات۔  خون خرابہ۔  افراتفری۔  اس وقت تو کچھ سمجھ نہ آیا لیکن 27 دسمبر جمعرات کو بے نظیر کا قتل ہو گیا اور ملک بھر میں خون خرابہ اور افراتفری کے مناظر دیکھے گئے۔  والد محترم کی وفات کے اثرات ہم دونوں بھائیوں پر دیر تک رہے۔ بلکہ ہنوز موجود ہیں۔ ان کی وفات پر رفیق سندیلوی نے ایک پر تاثیر نظم ’یہ دن اپنے پیاروں کی قبروں پہ رونے کا دن ہے‘ لکھی جو ان کی نظموں کی کتاب ’غار میں بیٹھا شخص‘ 2007  میں شامل ہوئی۔

رفیق سندیلوی کا ادبی سفر جاری رہا۔ انہوں نے تنقید لکھی، تحقیق کی، اعلیٰ پائے کے ادبی مضامین تحریر کئے۔  اکادمی ادبیات کے بے شمار پرچوں کے مدیر رہے۔  ایف پی ایس سی کے تحت اردو لیکچرارز کے انٹرویوز لئے۔  حلقہ ارباب ذوق کی محافل میں ادبی اصناف پر بے لاگ تبصرے کئے۔ کبھی ریا اور انا کو بیچ میں نہ آنے دیا۔

احمد ندیم قاسمی بھی ان سے پیار کرتے تھے اور ڈاکٹر وزیر آغا بھی سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ ایک دفعہ رفیق نے ڈاکٹر وزیر آغا پر مضمون لکھا جو کسی جریدے میں چھپ کر ڈاکٹر صاحب کی نظروں سے گزرا تو انہوں نے خط لکھا کہ اپنی ذات سے قطع نظر اگر کوئی مجھے بہترین مضمون کے انتخاب کا کہے تو میں یہ مضمون اٹھا لوں گا۔

مصلحت اور ریا کاری سے رفیق سندیلوی ہمیشہ دور رہے۔ ایک دفعہ نیشنل بک فاؤنڈیشن نے کسی خاتون کی کتاب کے ریویو کا کام رفیق سندیلوی کو سونپا۔ اس کتاب کو فاؤنڈیشن بچوں کے لئے چھاپنا چاہتی تھی۔ ان کے پی ایچ ڈی کے نگران ڈاکٹر نثار نے سفارش کی تھی کہ اس کتاب کے محاسن بیان کئے جائیں تاکہ یہ سرکاری خرچے پر چھپ جاتے۔ لیکن رفیق سندیلوی نے اپنی پی ایچ ڈی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کتاب کے معائب کی فہرست حکام کو پیش کر دی، تب نیشنل بک فاؤنڈیشن نے متذکرہ کتاب چھاپنے سے انکار کر دیا۔  اس کا خمیازہ انہیں اس طرح بھگتنا پڑا کہ جب انہوں نے اپنے مقالے کی تکمیل کے لئے کچھ وقت مانگا تو ڈاکٹر نثار نے مزید وقت دینے سے انکار کر دیا اور یوں انہیں ذہنی کوفت اور لاکھوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔ تب انہیں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کی بجائے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنی پڑی۔

ڈاکٹر بشیر سیفی، پروفیسر نظیر صدیقی، ڈاکٹر وحید قریشی، ڈاکٹر جمیل جالبی، پروفیسر احسان اکبر ان کی ادبی صلاحیتوں کو سراہتے تھے۔  پروفیسر رؤف امیر مرحوم اور بے شمار جدید غزل لکھنے والے ان سے ملنے آتے تھے۔  رفیق سندیلوی نے ادبی گروہ بندیوں کی نفی کی کبھی مشاعروں اور شہرت کے پیچھے نہیں بھاگے۔ انہوں نے غزل کے مجموعے ’ایک رات کا ذکر‘ میں غزل کو ایک نیا ٹرینڈ دیا اور ادبی حلقے کو حیران کر دیا۔  اس کتاب پر ڈاکٹر وزیر آغا نے دو لاجواب مضامین لکھے۔ آگے چل کر جناب شاہد ماکلی نے اس ٹرینڈ کو مستقل اپنی غزل کا حصہ بنایا۔ اس مجموعے کے بعد نظم نگاروں نے رفیق سندیلوی کو نظم کی طرف کھینچ لیا اور انہوں نے غزل سے مکمل طور پر کنارا کشی اختیار کر لی۔ وہ نظم کی وادیوں میں کھو گئے۔ اس یاترا میں بڑی بڑی نادر اور متحرک نظمیں ان کے ہاتھ لکیں۔  خصوصاً   ’اسی آگ میں‘ ، ’مگر وہ نہ آیا‘، ’سمے ہو گیا‘، ’سواری اونٹ کی ہے‘ اور ’برادہ اڑ رہا ہے‘ وغیرہ۔

میں نے انہیں غزل کی طرف دوبارہ راغب کرنے کے جتن کئے۔ ان کے نام سے فیس بک پر نئی id ’رفیق سندیلوی اردو غزل‘ بنائی اور ان کی غزلیں پوسٹ کرنا شروع کیں۔ غزل پرستوں نے بہت سراہا۔  اتنی محبت دی کہ رفیق سندیلوی حیران رہ گئے۔ تب وہ غزل کی زلفیں دوبارہ سنوارنے لگے اور عاشقان غزل کا ایک بڑا حلقہ ان کا مداح بن گیا۔  وہ اب تندہی سے غزل کہنے لگے۔ میرا مشن مکمل ہو چکا تھا۔ ایسے میں جناب دلاور علی آزر کی حسنِ انتخاب ان کی غزلوں پر پڑی۔  انہوں نے غزلوں کا انتخاب کر ڈالا اور گوہر پبلیکشنز نے جون 2021  میں اس انتخاب کو ’گلدان میں آنکھیں‘ کے نام سے شائع کر دیا۔ نمونے کے طور پر اس کتاب کی پہلی اور آخری عزل پیش ہے:

مٹتی ہوئی تہذیب سے نفرت نہ کیا کر

چوپال پہ بوڑھوں کی کہانی بھی سنا کر

معلوم ہُوا ہے یہ پرندوں کی زبانی

تھم جائے گا طوفان درختوں کو گرا کر

پیتل کے کٹورے بھی نہیں اپنے گھروں میں

خیرات میں چاندی کا تقاضا نہ کیا کر

ممکن ہے گریبانوں میں خنجر بھی چھُپے ہوں

تُو شہرِ اماں میں بھی نہ بے خوف پھرا کر

کیا خوب لڑکپن تھا کہ ساون کے دنوں میں

تسکین ملا کرتی تھی بارش میں نہا کر

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تُو میرے لیے اپنے خدا سے نہ دُعا کر

ترتیب ترے حُسن کی مٹ جائے گی اک دن

دیوانے کی باتوں کو نہ بے ربط کہا کر

تحریر کا یہ آخری رشہ بھی گیا ٹوٹ

کتنا ہوں مَیں تنہا ترے مکتوب جلا کر

آتی ہیں بہت رات کو رونے کی صدائیں

ہمسائے کا احوال کبھی پوچھ لیا کر

وہ قحطِ ضیا ہے کہ مرے شہر کے کچھ لوگ

جگنو کو لئے پھرتے ہیں مٹھی میں دبا کر

*

اُڑتے ہُوئے جگنو کو ستارا نہیں لکھّا

مَیں نے کبھی دیوار پہ نعرا نہیں لکھّا

اِک بار جسے ذہن کے کاغذ سے مِٹا دوں

وہ نام کبھی مَیں نے دوبارا نہیں لکھّا

القاب مُجھے اُس نے بھی خط میں نہیں لکھّے

مَیں نے بھی اُسے جان سے پیارا نہیں لکھّا

مُڑ جائے گی یہ پھُولوں بھری بیل کہیں اور

کھڑکی کے مقّدر میں نظارہ نہیں لکھّا

ہم لوگ جو دھرتی کے لئے قتل ہُوئے تھے

کتبوں پہ بھی اب نام ہمارا نہیں لکھا

 

یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ رفیق سندیلوی کی غزل و نظم پر مختلف یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام جاری ہے اور اب تک ایم – اے لیول اور ایم- فل لیول کے دو مقالات لکھے جا چکے ہیں۔ بے شمار مقالات جو ادبی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں ان کے علاؤہ ہیں۔

آخر میں یہ عرض کروں گا کہ رفیق سندیلوی نے ادبی شو بازی کی بجائے دیوانہ وار کام کیا ہے۔ شاعری کی کتابیں لکھیں۔ ایم فل کیا، پی ایچ ڈی کی گریڈ 19 کے لئے ایک بار پھر ایف پی ایس سی کا سامنا کیا۔ گریڈ 21 میں پرموٹ ہو کر اسلام ماڈل کالج جی سکس تھری میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے بعد ازاں اسلام آباد ماڈل کالج ایف سیون تھری میں بحیثیت پرنسپل فرائض سر انجام دیتے ہوئے 30 نومبر 2021  کو ریٹائر ہو گئے جبکہ میں 31 دسمبر 2018  کو اے جی پی ار سے ریٹائر ہو چکا ہوں۔  اللہ انہیں صحت اور زندگی عطا فرمائے میری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں اور رہیں گی مگر برادہ تو ہمیشہ اڑتا رہے گا

***

 

 

 

ایک بڑی نظم کا تجزیہ

 

آج رفیق سندیلوی کی شہرہ آفاق نظم ’سواری اونٹ کی ہے‘ کا تجزیہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔  سب سے پہلے نظم کا متن دیکھیں:

 

سواری اُونٹ کی ہے

اَور مَیں شہر شکستہ کی

کسی سنساں گلی میں سر جھکائے

ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر

اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں

جس کی چوکھٹ پر

ہزاروں سال سے

اِک غم زَدہ عورت

مرے وعدے کی رسّی

ریشۂ دل سے بنی

مضبوط رسّی سے بندھی ہے

آنسوؤں سے تر نگاہوں میں

کسی کہنہ ستارے کی چمک لے کر

مرے خاکستری ملبوس کی

مخصوص خوشبو سونگھنے کو

اَور بھورے اُونٹ کی

دُکھ سے لبالب بَلبلاہَٹ

سننے کو تیار بیٹھی ہے

 

وُ ہی سیلن زدہ اُوطاق کا گوشہ

جہاں مَیں ایک شب اُس کو

لرَزتے ،سَنسناتے، زہر والے

چوبی تیروں کی گھنی بارش میں

بے بس اور اکیلا چھوڑ آیا تھا

مجھے سب یاد ہے قصّہ

برس کر اَبر بالکل تھم چکا تھا

اور خلا میں چاند

یوں لگتا تھا جیسے

تخت پر نو عمر شہزادہ ہو کوئی

یوں ہَوا چہرے کو مَس کر کے گزرتی تھی

کہ جیسے ریشمیں کپڑا ہو کوئی

اپنے ٹھنڈے اور گیلے خول کے اَندر

گلی سوئی ہوئی تھی

دَم بہ خوُد سارے مکاں

ایسے نظر آتے تھے

جیسے نرم اور باریک کاغذ کے بنے ہوں

موم کے تَرشے ہوئے ہوں

اِک بڑی تصویر میں

جیسے اَزل سے ایستادہ ہوں

وُ ہی سیلن زدہ اُوطاق کا گوشہ

جہاں مہتاب کی بُرّاق کرنیں

اُس کے لانبے اور کھلے بالوں میں اُڑسے

تازہ تر انجیر کے پتے روشن کر رہی تھیں

اُس کی گہری گندمِی کُہنی کا بوسہ یاد ہے مجھ کو

نہیں بھولا ابھی تک

سارا قصّہ یاد ہے مجھ کو

اُسی شب

مَیں نے جب اِک لمحۂ پُر سوز میں

تلوار‘ اُس کے پاؤں میں رکھ دی تھی

اور پھر یہ کہا تھا:

’’میرا وعدہ ہے

یہ میرا جسم اور اِس جسم کی حاکم

یہ میری باطنی طاقت

قیامت اور

قیامت سے بھی آگے

سر حدِ امکاں سے لا امکاں تلک

تیری وفا کا ساتھ دے گی

وقت سُنتا ہے

گواہی کے لئے

آکاش پر یہ چاند

قدموں میں پڑی یہ تیغ

اور بالوں میں یہ اِنجیر کا پتّا ہی کافی ہے

 

خداوندا! وہ کیسا مرحلہ تھا

اَب یہ کیسا مرحلہ ہے !

ایک سُنسانی کا عالم ہے

گلی چپ ہے

کسی ذی روح کی آہٹ نہیں آتی

یہ کیسی ساعتِ منحوس ہے

جس میں ابھی تک

کوئی ننھا سا پرندہ یا پتنگا

یا کوئی موہوم چیونٹی ہی نہیں گزری

کسی بھی مرد و زن کی

مَیں نے صورت ہی نہیں دیکھی

سواری اُونٹ کی ہے

اَور مَیں شہر شکستہ کی

کسی سنساں گلی میں سَر جھکائے

ہاتھ میں بد رنگ چمڑے کی مہاریں تھام کر

اُس گھر کی جانب جا رہا ہوں

یا کسی محشر

خموشی کے کسی محشر کی جانب جا رہا ہوں

ہچکیوں اور سسکیوں کے بعد کا محشر

کوئی منظر

کوئی منظر کہ جس میں اِک گلی ہے

ایک بھورا اُونٹ ہے

اور ایک بُزدِل شخص کی ڈھِیلی رفاقت ہے

سفر نا مختتم

جیسے اَبد تک کی کوئی لمبی مسافت ہے !

 

سواری اُونٹ کی

یا کاٹھ کے اَعصاب کی ہے

آزمائش اِک انوکھے خواب کی ہے

پتلیاں ساکت ہیں

سایہ اُونٹ کا ہلتا نہیں

آئینۂ آثار میں

ساری شبیہیں گم ہوئی ہیں

اُس کے ہونے کا نشاں ملتا نہیں

کب سے گلی میں ہوں

کہاں ہے وُہ مری پیاری

مری سیلن زدہ اُوطاق والی

وُہ سُریلی گھنٹیوں والی

زمینوں ، پانیوں اور اَنفَس و آفاق والی

کس قدر آنکھوں نے کوشش کی

مگر رونا نہیں آتا

سبب کیا ہے

گلی کا آخری کونا نہیں آتا

گلی کو حکم ہو،  اَب ختم ہو جائے

مَیں بھُورے اور بوڑھے اُونٹ پر بیٹھے ہوئے

پیری کے دِن گنتا ہوں

شاید اِس گلی میں رہنے والا

کوئی اُس کے عہد کا زَنبوُر ہی گزرے

مَیں اُس کی بارگہ میں

دست بستہ،  معذرت کی بھیک مانگوں

سَر ندامت سے جھکاؤں

اور اُس زَنبوُر کے صدقے

کسی دِن اَپنے بوڑھے جسم کو

اور اُونٹ کو لے کر

گلی کی آخری حد پار کر جاؤں

 

نظم کی ابتدا ایک غیر یقینی اور پراسرار کیفیت سے ہوتی ہے۔  ’یا کاٹھ کے اعصاب کی ہے / آزمائش اِک انوکھے خواب کی ہے‘ جیسے مصرعے قاری کو الجھن میں ڈال دیتے ہیں، لیکن یہی الجھن نظم کے موضوع کی پیچیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔  شاعر یہاں زندگی کے بھاری پن کو ظاہر کرتا ہے، جہاں اعصاب مفلوج اور خواب غیر یقینی ہیں۔  یہ خواب شاید زندگی کی وہ تمنائیں ہیں جو کبھی پوری نہیں ہو سکیں، اور اب وہ ایک بوجھ بن چکی ہیں۔

نظم کے دوسرے حصے میں شاعر ماضی کی خوشبو کو یاد کرتا ہے، لیکن یہ یادیں دھندلا چکی ہیں۔  ’سیلن زدہ اوطاق‘ اور ’سُریلی گھنٹیوں والی‘ جیسے الفاظ ماضی کی خوبصورتی اور سادگی کو بیان کرتے ہیں، لیکن ان میں ایک مرجھائی ہوئی کیفیت ہے۔  یہ ماضی کی خوشیوں کی کھو جانے والی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔  زمین، پانی، اور آفاق کا ذکر شاعر کے وجودی تجربات اور ان کے ماحول سے گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے، لیکن یہ تعلق بھی وقت کی رفتار میں تحلیل ہو چکا ہے۔

رفیق سندیلوی کی نظم ’سواری اونٹ کی ہے‘ انسانی احساسات کی گہرائی اور جذبات کی پیچیدگی کا ایک منفرد بیان ہے، جو وعدوں، ماضی کی یادوں، اور وقت کی بے رحم مسافت کو اجاگر کرتی ہے۔  نظم کا بنیادی ماحول ایک شکستہ شہر کی سنسان گلیوں میں پروان چڑھتا ہے، جہاں شاعر اپنے ماضی کے بھاری بوجھ کے ساتھ ایک خاموش اور تھکے ہوئے سفر پر گامزن ہے۔  یہ گلی محض ایک جگہ نہیں بلکہ ایک داخلی کیفیت کی علامت ہے، جو شاعر کی تنہائی اور جذباتی خالی پن کو نمایاں کرتی ہے۔  شاعر کے ہاتھ میں تھامی ہوئی ’بد رنگ چمڑے کی مہاریں‘ اور اس کا جھکا ہوا سر زندگی کے بوجھ اور ندامت کی علامتی عکاسی کرتے ہیں۔

نظم میں اونٹ کی موجودگی ایک منفرد علامت کے طور پر سامنے آتی ہے۔  اونٹ، جو عموماً صبر و تحمل اور صحرائی مسافتوں کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، یہاں شاعر کی تھکاوٹ اور داخلی کشمکش کا آئینہ دار ہے۔  یہ اونٹ شاعر کے جذباتی بوجھ اور ماضی کے وعدوں کی شکستگی کا استعارہ بنتا ہے۔  نظم کے مختلف حصوں میں اونٹ کو شاعر کی داخلی کیفیت اور وقت کے سفر کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔  شاعر کے ماضی کی یادیں اور وعدے نظم کا مرکز ہیں۔  ایک موقع پر شاعر یاد کرتا ہے کہ اس نے ایک عورت سے وعدہ کیا تھا کہ وہ قیامت تک اس کی وفاداری نبھائے گا۔  یہ وعدہ شاعر کی محبت اور عہد کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے، لیکن اس وعدے کی شکستگی اور شاعر کی ندامت نظم کی اصل روح ہے۔  شاعر اپنے محبوبہ کی تصویر کو زندہ کرتا ہے، جس کے ’لانبے اور کھلے بالوں میں تازہ انجیر کے پتے‘ روشنی بکھیر رہے ہیں۔  یہ تصویر ماضی کی خوبصورتی اور محبت کی شدت کو ظاہر کرتی ہے، لیکن یہ یادیں شاعر کی موجودہ حالت میں درد اور اداسی کو بڑھا دیتی ہیں۔

نظم میں ماضی اور حال کا تضاد نہایت عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔  ماضی کی خوبصورت یادیں اور حال کی بے بسی ایک دوسرے کے متضاد ہیں، جو شاعر کی اندرونی کشمکش کو واضح کرتے ہیں۔  شاعر اپنے وعدوں کی شکستگی پر پچھتا رہا ہے اور محبوبہ یا اس کے کسی نمائندے سے معافی مانگنے کی خواہش رکھتا ہے۔  یہ ندامت انسانی غلطیوں کے اثرات اور ان کے ساتھ جینے کی جد و جہد کو بیان کرتی ہے۔

گلی نظم کا ایک اہم عنصر ہے، جو ایک طویل اور بے مقصد مسافت کی علامت ہے۔  شاعر گلی کو وقت اور زندگی کے سفر کی طرح بیان کرتا ہے، جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی۔  ’گلی کا آخری کونا نہیں آتا‘ شاعر کی مایوسی اور ندامت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔  گلی کا منظر خاموشی، تنہائی، اور زندگی کی بے معنویت کو اجاگر کرتا ہے، جس میں شاعر اپنے بوڑھے اونٹ کے ساتھ سفر کر رہا ہے، جیسے وقت کے ہاتھوں قید ہو۔

رفیق سندیلوی نے نظم میں انتہائی سادہ مگر گہرے علامتی الفاظ استعمال کیے ہیں۔  ’سیلن زدہ اوطاق‘، ’بد رنگ چمڑے کی مہاریں‘، اور ’بھورا اونٹ‘ جیسی تصویری زبان نظم کی گہرائی کو بڑھاتی ہے۔  شاعر کی شعری زبان ماضی اور حال کے تجربات کو نہایت خوبصورتی سے جوڑتی ہے، اور اس میں موجود داخلی کشمکش زندگی کے پیچیدہ پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

نظم کا اختتام ایک خاموش تسلیم کے ساتھ ہوتا ہے، جہاں شاعر زندگی کی حقیقتوں اور ان کے انجام کو قبول کرنے کی بات کرتا ہے۔  ’کسی دن اپنے بوڑھے جسم کو / اور اُونٹ کو لے کر / گلی کی آخری حد پار کر جاؤں‘ شاعر کے اُس حتمی سفر کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے، جو موت کی طرف ہے۔  یہاں موت کو ایک مایوسی کے بجائے ایک آرام دہ انجام کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو زندگی کے تمام دردوں اور تھکن کا خاتمہ ہے

’سواری اونٹ کی ہے‘ ایک گہرے جذباتی اور فکری سفر کی عکاسی ہے۔  یہ نظم انسانی وعدوں کی شکستگی، یادوں کی گہرائی، اور وقت کے بے رحم تسلسل کو نمایاں کرتی ہے۔  شاعر نے زندگی کی مایوسیوں، ندامتوں، اور امیدوں کو نہایت گہرائی سے بیان کیا ہے۔  یہ نظم وقت، محبت، اور انسانی وجود کے پیچیدہ تعلقات کو ایک خوبصورت اور مؤثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ضمیر قیس کا ’طلسم‘

 

طلسم۔  ہمارے محبوب شاعر جناب ضمیر قیس کا دوسرا شعری مجموعہ ہے پہلا مجموعہ ’عمود‘ ارباب ذوق سے قبولیت کی سند پا چکا ہے۔ ’طلسم‘ اردو شاعری میں کچھ نیا لے کر طلوع ہوا ہے۔  اس کا پیش لفظ اردو کے معروف شاعر و نقاد جناب ڈاکٹر رفیق سندیلوی نے لکھا ہے۔  اس پیش لفظ سے طلسم کی شاعری کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔  ڈاکٹر صاحب نے ضمیر قیس کو از سر نو دریافت کیا ہے اور ان کے ادبی مرتبے کا تعین کیا ہے۔  میرے خیال میں غزل کی دنیا میں ضمیر قیس کا فقید المثال کام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا انہوں نے غزل کی روایت کو فنی اور معروضی حد تک برقرار رکھا ہے لیکن ٹریٹمنٹ اور ساخت کے اعتبار سے غزل کی زمین میں نئی گل کاریاں اور جدید انداز فکر کے گل بوٹے اگائے ہیں۔  زبان کی از سر نو شکیل کی جد و جہد نمایاں نظر آتی ہے۔  نئے مرکبات نئی تشکیلات مرتب کی ہیں اور غزل کو مکمل طور پر نئی معرفت عطا کی ہے مجھے لگتا ہے آگے چل کر غزل کا یہی ڈکشن معتبر ٹھہرے گا۔ خدا کرے کہ یہ تغزل یہ اسلوب یہ انداز سلامت رہے اور قبولیت کی سند پائے۔

اس طرف بھی کسی کھڑکی میں تجسس تھا کوئی

بے سبب پردۂ امکان اٹھایا میں نے

موج تو خیر توجہ نہ کبھی کھینچ سکی

کشتیوں سے بھی مگر دھیان ہٹایا میں نے

٭٭٭

مگر میں ہل کی مرمت کا کام سیکھوں گا

اگرچہ ربط دُعا سے بحال ہوتا ہے

٭٭٭

مرا ارتقا یہی ہل چلاتی مشین ہے یہی پیڑ ہیں

میں مثال اپنی قدامتوں کی میں خیال عصرِ جدید کا

٭٭٭

میں خود سرنگ سے نکلا ہوں بے سراغ ضمیر

تلاش ختم نہیں کی سرنگ نے میری

٭٭٭

٭٭٭

 

 

’گلدان میں آنکھیں‘ – رفیق سندیلوی کی شاعری کا ایک شاہکار

 

اردو ادب کے آسمان پر رفیق سندیلوی کی شاعری ایک روشن ستارے کی مانند چمکتی ہے۔  ان کی تخلیقات میں انسانی جذبات، محبت، درد، اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کی گہرائیوں کا اظہار ملتا ہے۔  ان کا شعری مجموعہ ’گلدان میں آنکھیں‘ اس کی ایک شاندار مثال ہے، جو نہ صرف قارئین کو متاثر کرتا ہے بلکہ ان کی روح کو بھی جھنجھوڑتا ہے۔

’گلدان میں آنکھیں‘ میں رفیق سندیلوی نے اپنے منفرد اسلوب اور گہرے خیالات کے ذریعے قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جانے کی کوشش کی ہے۔  اس کتاب میں شامل اشعار نے اردو شاعری میں ایک نیا رنگ بھرا ہے۔  ہر غزل اپنے اندر تلذذ و تفکر کا ارتفاع لیے ہوئے ہے، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

رفیق سندیلوی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کی زبان کی آرائش سادگی اور روانی ہے۔  وہ الفاظ کے جادوگر ہیں، جو عام فہم زبان میں گہرے مفاہیم پیش کرتے ہیں۔  ان کی شاعری میں موجود جذبات اور خیالات قاری کو نہ صرف محظوظ کرتے ہیں بلکہ انہیں زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔

’گلدان میں آنکھیں‘ میں رفیق سندیلوی نے محبت، جدائی، خود شناسی، انسان، فطرت اور روحانیت جیسے موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔  ان کی شاعری میں محبت کی لطافت اور زندگی کے درد و الم کا ادراک دونوں ملتے ہیں۔  وہ انسانی تجربات کو نہایت فنکارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں، جس سے قاری ان کی شاعری میں خود کو محسوس کرنے لگتا ہے۔

رفیق سندیلوی کی شاعری کی ایک اور خصوصیت ان کی گہری بصیرت ہے۔  وہ انسانی جذبات اور حالات کو گہرائی سے سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے اشعار میں بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں۔  ان کی شاعری میں موجود فلسفیانہ پہلو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔  ’گلدان میں آنکھیں‘ میں انہوں نے معاشرتی مسائل، اخلاقی قدروں، اور انسانی نفسیات کو اپنے اشعار میں جگہ دی ہے، جو ان کے گہرے فکری اور فلسفیانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔

رفیق سندیلوی کی شاعری میں ایک مخصوص موسیقیت بھی ہے، جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔  ان کے اشعار کا صوتی آہنگ اور لفظوں کی ترتیب ایک دھن کی مانند محسوس ہوتی ہے، جو قاری کے دل و دماغ پر نقش ہو جاتی ہے۔  ’گلدان میں آنکھیں‘ کی شاعری میں یہ موسیقیت اور روانی بھرپور انداز میں موجود ہے، جو قاری کو بار بار پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔

اس کتاب کی اشاعت اردو ادب کے لئے ایک اہم سنگ میل ہے۔  ’گلدان میں آنکھیں‘ نے نہ صرف رفیق سندیلوی کی شاعری کی مقبولیت میں اضافہ کیا ہے بلکہ اردو شاعری کو بھی ایک نیا افق عطا کیا ہے۔  ان کی شاعری نے نوجوان نسل کے شاعروں کو بھی متاثر کیا ہے اور انہیں نئی راہیں دکھائی ہیں۔

مجموعی طور پر، ’گلدان میں آنکھیں‘ رفیق سندیلوی کی شاعری کا ایک شاہکار ہے، جو اردو ادب میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔  یہ کتاب نہ صرف شاعری کے شائقین کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہے بلکہ ادب کے طلباء اور محققین کے لئے بھی ایک اہم حوالہ ہے۔  رفیق سندیلوی کی اس تخلیق نے اردو شاعری کو نئی جہتیں عطا کی ہیں اور ان کی شاعری کی خوبصورتی اور گہرائی کو ہمیشہ کے لئے امر کر دیا ہے۔

چند اشعار دیکھیں

۔

مانگے ہوئے سورج سے تو بہتر ہے اندھیرا

تو میرے لئے اپنے خدا سے نہ دعا کر

۔

یہ میرا ظرف کہ میں نے اثاثۂ شب سے

بس ایک خواب لیا چند شمع دان لئے

۔

رفت و آمد کا تسلسل اور خالی راستا

میں ہی تھا جاتے ہوئے اور میں ہی تھا آتے ہوئے

۔

درِ جہات پہ دستک ہی دے کے دیکھتا ہوں

انہی حدوں ہی کے اندر ہو کیا پتا موجود

۔

قریب تر ہے وہ ساعت کہ میں بھی دیکھوں گا

یہ جسم و جان کے حصے جدا جدا کر کے

۔

اندھیری شب میں تغیر پذیر تھی ہر شے

بس ایک جسم ہی تھا جس پہ انحصار کیا

۔

نظر ملا کے اٹھا کے سر میں نے بات کی تھی

کہ اب کی بار انکسار میں نے نہیں کیا تھا

۔

سزائے موت ہی دے دو جلا وطن نہ کرو

دیارِ غیر میں مجھ سے جیا نہ جائے گا

۔

ہمیشہ میں نے تجھے سرسری ہی دیکھا ہے

حجاب اٹھاؤں گا اور آنکھ بھر کے دیکھوں گا

۔

دور کُرے پر شور مچا تھا آندھی کا

بادل کان میں انگلی ڈالے پھرتا تھا

۔

جہاں گرتا رہا ہے بے حسی کا سرد پانی

اسی مٹی کے خلیوں سے کوئی باغی بنے گا

۔

اس اعتکافِ تمنا کی سرد رات کے بعد

میں جل مروں جو کبھی آگ تک جلائی ہو

۔

یہ غیب کی آواز نہ آتی تو میں کرتا

تردیدِ فسوں کاری و انکارِ طلسمات

۔

نابینا جنم لیتی ہے اولاد بھی اس کی

جو نسل دیا کرتی ہے تاوان میں آنکھیں

.

ہم لوگ جو دھرتی کے لئے قتل ہوئے تھے

کتبوں پہ بھی اب نام ہمارا نہیں لکھا

۔

یہ کیا کہ بس ایک آدمی کی روانگی سے

یہ وقت تھم جائے گا زمانہ نہیں رہے گا

۔

یہ تعارف ہے ہمارے عہد کے انسان کا

کالروں میں پھول رکھنا دل میں پتھر سوچنا

۔

فریبِ مظہر و شے سے رہا ہوں میں محفوظ

مجھے ازل ہی سے گوشہ نشیں بنایا گیا

۔

سوچو تو بے جواز تھیں کھیڑوں سے نفرتیں

کیدو نے سارے خواب بکھیرے تھے ہیر کے

۔

ابھی تو طے نہ ہوا تھا مرا سفر آدھا

وہ لے گیا ہے مرا جسم کاٹ کر آدھا

۔

بظاہر سب کے سوکھے جسم جل تھل ہو گئے تھے

مگر وہ اک فریبِ آب تھا بارش نہیں تھی

۔

میں اس کے لمس کی آواز چھو کے کیا کرتا

کہ میری انگلیاں گوں گی تھیں ہاتھ بہرے تھے

۔

داستاں میں جس طرح مرنا ہے طے مر جاؤں گا

کون زہر آلود خنجر سے بچائے گا مجھے

۔

سواروں میں اگر تم سب غذا تقسیم کر دو گے

تو پھر جنگی اصولوں کو پیادہ بھول سکتا ہے

۔

مجھے گھیرے میں لے رکھا ہے اشیاء و مظاہر نے

کبھی موقع ملے تو اس کڑے کو توڑ کر دیکھوں

۔

کسی تعلقِ شے کے سبب ہی ہر شے میں

عجب طرح کی چمک ہے عجیب جھلمل ہے

۔

شہرِ تقدیس لوٹنے آئے

سینکڑوں گھڑ سوار ننگے سر

۔

فصیلِ سنگ کی تعمیر پر جتنا بھی پہرہ ہو

کسی کونے میں کوئی کانچ کی اینٹیں لگا دے گا

۔

تو مستحق ہی نہیں میرے ساتھ چلنے کا

کہ تیرے زادِ سفر میں انا کی ڈھال نہیں

۔

آندھی کی طرح چھایا نہیں آسمان پر

کمتر ہوا کا ساتھ ہے اور دھول ہوں ابھی

۔

نہ پوچھ حال مرے زشت رو قبیلے کا

ذرا سا حسن ملا بن گئے خدا چہرے

۔

فاقوں سے چھوٹے چھوٹے بچے بلک رہے تھے

اترے جو رزق لینے میرے نگر پرندے

۔

بچے نے ذرا بھینچ کے جب کھول دی مٹھی

اک سبز کرن چھوڑ گیا ہاتھ میں جگنو

۔

منظر جہاں کھڑے تھے وہیں پر کھڑے رہے

بارود کی طرح سے مری آنکھ پھٹ گئی

۔

جس کی اینٹوں میں تعصب کا لہو شامل ہو

وہ عمارت کبھی تعمیر نہیں ہو سکتی

۔

لگا دی اس نے مرے قہقہوں پہ پابندی

وہ خود اداس تھا تیور ملول اس کے تھے

۔

ہم نے کبھی پروں کو منقش نہیں کیا

جتنے بھی رنگ آئے ہیں قدرت سے آئے ہیں

۔

تم کیا جانو تم تو درد کی اس دیوار کے پیچھے تھے

کیسے دن کاٹا تھا میں نے کیسے رات گزاری تھی

۔

خدا کا شکر کہ فالج زدہ زمانے میں

میں مرتعش ہوں مری پور پور زندہ ہے

۔

عجب نہیں کہ یہ رسمِ حنا بھی اٹھ جائے

حنوط کر کے رکھو دلہنوں کے پیلے ہاتھ

٭٭٭

 

 

 

ضمیر قیس:  ایک منفرد اردو شاعر

 

ضمیر قیس اردو کے معتبر اور جدید شعرا میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے نمایاں مقام حاصل کیا۔  ان کی اولین کتاب ’عمود‘ نے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کی۔  بعد ازاں، ان کی دوسری کتاب ’طلسم‘ شائع ہوئی جسے اہلِ علم نے بے حد سراہا میں اسے شعری دھماکہ تصور کرتا ہوں۔

ضمیر قیس کی تخلیقات میں روایت اور جدت کا خوبصورت امتزاج ملتا ہے۔  ان کے اشعار میں فلسفہ، انسانی تجربات اور جذبات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو گہرائی کا احساس ہوتا ہے۔

’عمود‘ ان کی ابتدائی تخلیقات کا مجموعہ ہے، جس میں ان کی شعری صلاحیتوں کی جھلک نظر آتی ہے۔  اس کتاب میں موجود فکری گہرائی اور جذبات کی سچائی نے انہیں قارئین اور نقادوں میں مقبول بنا دیا۔

ضمیر قیس کی دوسری کتاب ’طلسم‘ ان کے شعری سفر میں اہم سنگ میل ثابت ہوئی۔  ڈاکٹر رفیق سندیلوی نے دیباچے میں ان کی شاعری کو سراہتے ہوئے انہیں منفرد شاعر قرار دیا۔  انہوں نے ضمیر قیس کے اشعار کی فنی اور فکری پہلوؤں کا تفصیل سے جائزہ لیا اور ان کی تخلیقات کی تعریف کی۔

ضمیر قیس کی شاعری میں عشق و محبت، زندگی کے مسائل، روحانی تجربات، اور جدید مسائل جیسے موضوعات کے علاؤہ پیکر تراشی، تخیل سازی اور لفظی تجسیم کاری بے ساختہ نظر آتی ہے کہیں بھی شعری اشکال مبہم اور تجرید زدہ نہیں ہوتے۔  ان کے اشعار نئے جہانوں کی صورت گری کرتے نظر آتے ہیں ان کا اظہار کا پیرایہ لطیف اور سبک ہے، زندگی کے مسائل اور مشکلات کا ذکر بھی ملتا ہے، لیکن ان کی تراش کردہ کوئی بھی سر زمین حیرت اور طلسم سے خالی نہیں

ضمیر قیس کی شاعری کی خصوصیات میں فکری گہرائی، جدت، نئے جہانوں کی تلاش اور ماڈرن سائینسی زبان شامل ہے۔  انہوں نے اپنے موضوعات کو جدید انداز، نئے رنگوں اور منفرد جہتوں میں پیش کیا ہے۔  مختصر، طویل اور طویل ترین بحروں کے انتخاب سے ان کی عظمت اور فنا فی الشعر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔  ’عمود‘ اور ’طلسم’اردو ادب کے قارئین کے لیے خزانہ ہیں اور ان کی شاعری ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

طلسم کی زنبیل سے چند نوادرات:

۔

میں نقش تھا مرے رنگوں کو چھو لیا کس نے

یہ کس کی آگ میں جل جل کے صندلیں بنا میں

مگر یہ حادثہ دونوں کو راس آیا ہے

بنا رہا تھا وہ اک شکلِ بے جبیں، بنا میں

۔

اب یہ کہتے ہوئے وحشت بھی نہیں ہوتی ہے

کام کی چیز محبت بھی نہیں ہوتی ہے

دکھ تو ہوتا ہی نہیں تم کو مری حالت پر

ہاں مگر کیا کبھی حیرت بھی نہیں ہوتی ہے

اس نے چوکھٹ پہ بٹھا رکھا ہے کافی ہے ضمیر

ہر کسی کو یہ سہولت بھی نہیں ہوتی ہے

۔

بات کو سمجھنے کا زاویہ بھی ہوتا ہے

سوچنے کا اک مطلب دیکھنا بھی ہوتا ہے

زندگی کی بھٹی میں پک رہی ہے اکتاہٹ

روز کچھ پرانا بھی کچھ نیا بھی ہوتا ہے

پوچھتا نہیں کوئی حال تک ہمارا بھی

کھڑ KOکیاں بھی ہیں گھر میں آئنہ بھی ہوتا ہے

۔

سرد سا کمرہ ہے اور ویرانیوں کا درد ہے

بس خدا ہی جان سکتا ہے یہ کیسا درد ہے

بانٹ تو اک دوسرے سے ہم بھی لیتے ہیں مگر

میرا اپنا درد، تنہائی کا اپنا درد ہے

آخری بس کو گئے تو چار گھنٹے ہو گئے

بھائی صاحب آپ کا شاید یہ پہلا درد ہے

مدّتوں میں یاد آتے ہیں کسی کو ہم ضمیر

خشک قبروں کا ہمارا ایک جیسا درد ہے

۔

تنہائی کو رحل بنایا، حیرت کو فانوس کیا

پہلی بار خدا کو ہم نے یاد نہیں محسوس کیا

بے تابی کے زہر میں گھولا صبر کی میٹھی بوندوں کو

تب جا کر سمجھے کیوں رب نے نبیوں کو مبعوث کیا

کہتے ہیں اک ساتھ زمیں پر اترے تھے انساں اور پھول

اک نے شبنم اوڑھی اک نے مٹی کو ملبوس کیا

۔

خواب رو پوش نظارے سے بھی ہو جاتا ہے

حوصلہ ٹوٹتے تارے سے بھی ہو جاتا ہے

ہم نے اک آسرے پر عمر گنوا دی تو کھلا

جسم لاچار سہارے سے بھی ہو جاتا ہے

کشتیاں جشن مناتی ہیں کہ جاری ہے سفر

آدمی دور کنارے سے بھی ہو جاتا ہے

اینٹیں ملبے سے سلامت بھی نکل آتی ہیں

کچھ نہ کچھ نفع، خسارے سے بھی ہو جاتا ہے

اس نے کہہ کر بھی تکلّف ہی کیا جاؤ ضمیر

ورنہ یہ کام اشارے سے بھی ہو جاتا ہے

۔

آشنائی کا اثاثہ بھی بہت ہوتا ہے

بھیڑ میں ایک شناسا بھی بہت ہوتا ہے

تم کو تفصیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں

دکھ بڑا ہو تو خلاصہ بھی بہت ہوتا ہے

سوکھ جاتے ہیں تعلق کے یہ تالاب ضمیر

جن دنوں آدمی پیاسا بھی بہت ہوتا ہے

۔

یہ بارِ گراں کب کسی گوتم نے اٹھایا

نیزوں کی صدا آئی تو سر ہم نے اٹھایا

۔

روز اک نقش نیا، شکل نئی بنتی تھی

سو مری آئنہ خانے سے بڑی بنتی تھی

جو نہیں بنتی تھی اک روز بنی وہ تصویر

پھر جو تصویر بناتا تھا، وہی بنتی تھی

اب گھڑی جیسے بناتی ہے ہمیں، بنتے ہیں

پہلے ہم جیسے بناتے تھے گھڑی، بنتی تھی

جب پڑی ہم کو ضرورت، نہ پڑی ہم پہ ضمیر

روشنی ویسے تو ہمدرد بڑی بنتی تھی

٭٭٭

 

 

 

نثری نظم:  اردو شاعری کا ایک روشن امکان

 

شاعری انسانی جذبات، احساسات، اور خیالات کی ترجمانی کا ایک لازوال ذریعہ ہے جو زمانوں کی قید سے آزاد اور وسعت میں لا متناہی ہے۔  اس میں نغمگی، ردھم، اور اظہار کے رنگ وقت اور ماحول کے ساتھ بدلتے رہے ہیں۔  اردو شاعری کے سفر میں نثری نظم کو ایک منفرد مقام حاصل ہے، جو ایک آزاد اور جدید تخلیقی اظہار کی شکل ہے۔

نثری نظم کا آغاز کسی مخصوص دور یا شاعر سے جوڑنا درست نہیں ہو گا کیونکہ یہ ایک فطری اظہار ہے جو شعری بحور اور صنفی قیود سے آزاد ہو کر خیال کی نغمگی تلاش کرتا ہے۔  اگرچہ اردو شاعری میں نثری نظم کی ابتدا کو بیسویں صدی کے وسط میں باقاعدہ شکل ملی، اس کی جڑیں قدیم اظہار کی صورتوں میں موجود ہیں۔

میرا جی، ن م راشد، اور آفتاب اقبال جیسے شعرا نے نثری نظم کے ابتدائی نقوش اجاگر کیے۔  میرا جی کے ادبی جریدے ’خیال’ میں شائع ہونے والی نظموں نے نثری نظم کی بنیاد رکھی۔  نثری نظم کی پہلی جھلک ان کے کام میں دیکھی گئی، جو مغرب کی ادبی تحریکوں اور مشرق کی وجدانی روایتوں کا امتزاج تھا۔  اسی طرح، احمد ہمیش، سارہ شگفتہ اور افضال احمد سید جیسے شعرا نے نثری نظم کو وہ بلندی عطا کی جو آج بھی متاثر کن ہے۔

نثری نظم شاعری کے اس فطری حسن کو اجاگر کرتی ہے جو بحور یا عروض کے دائرے میں قید نہیں۔  یہ خیال، احساس، اور وجدانی تجربے کی موسیقیت پر مبنی ہوتی ہے۔  جیسا کہ مولانا رومی نے کہا:

شعر می گویم بہ از آبِ حیات

من ندانم فاعلاتن فاعلات

یہ شعر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ شاعری کی اصل روح اس کے اظہار میں ہے، نہ کہ صرف تکنیکی اصولوں میں۔  نثری نظم میں خیالات اپنی مکمل آزادی کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں، جو قاری کو زندگی کی گہرائیوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتے ہیں

اردو ادب میں نثری نظم نے اپنی اہمیت اور تخلیقی وسعت کو ثابت کیا ہے۔  سارہ شگفتہ کی نظمیں، جنہیں دنیا بھر میں سراہا گیا، اس صنف کی جدت اور وسعت کا بہترین نمونہ ہیں۔  ان کے علاوہ افضال احمد سید کی ’دو زبانوں میں سزائے موت‘ جیسی تصنیف اور قمر جمیل کی تخلیقات نے نثری نظم کو ایک مستحکم ادبی صنف کے طور پر پیش کیا۔

نثری نظم کو اکثر اس کے ’نا شاعروں‘ کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔  تاہم، یہ تنقید کسی حد تک بے بنیاد ہے۔  ہر صنف میں کمزور تخلیقات کا ہونا ایک فطری عمل ہے۔  غزل یا آزاد نظم میں بھی ایسے نمونے موجود ہیں جو کم معیار کے حامل ہیں، لیکن اس سے ان اصناف کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔

دورِ حاضر میں نثری نظم دنیا بھر کی شاعری میں ایک روشن امکان کے طور پر ابھری ہے۔  اس کی وسعت اور اظہار کی آزادی اسے ایک منفرد حیثیت عطا کرتی ہے۔  نثری نظم نہ صرف شاعری کی خوبصورتی میں اضافہ کرتی ہے بلکہ انسانی تجربات اور جذبات کو بیان کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے۔

نثری نظم اردو شاعری کا ایک لازوال اور اہم حصہ ہے۔  یہ صنف شاعری کے دائرے کو وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کو ایک منفرد تخلیقی تجربہ فراہم کرتی ہے۔  اس کی مخالفت کرنا در اصل شاعری کی فطری وسعت کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔  نثری نظم، اپنے تمام امکانات کے ساتھ، مستقبل میں بھی اردو ادب کو مزید نکھارنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔  عصرِ حاضر میں یوسف خالد، فرحت عباس شاہ، طاہر راجپوت اور راقم الحروف (رشید سندیلوی) سمیت بے شمار شاعر نثری نظم کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور رات دن اس کے حسن میں اضافہ کرنے کے جتن کر رہے ہیں۔

نثری نظم کی مثالیں:

 

  1. زندگی ایک خواب ہے

نثری نظم۔ زاہد ڈار

زندگی ایک خواب ہے

میرے لیے محبت کا طویل اور اذیت ناک خواب

میں دنیا کے ہنگاموں سے غافل ہوں

انسانوں کا شور میری ذات کی سرحدوں پر رک جاتا ہے

اندر آنا منع ہے

میرے دل کا دروازہ بند ہے

میرا کوئی گھر نہیں

میں اپنے پاگل پن کے ریگستان میں بھٹک رہا ہوں

میں اپنے اندر سفر کر رہا ہوں

میں باہر نہیں نکل سکتا

میں اپنی خواہش کے مطابق عمل نہیں کر سکتا

میں برزخ میں ہوں

جنت اور جہنم باہر ہیں

میرے لیے باہر صرف ایک عورت ہے

دنیا میرے لیے نہیں ہے

میں اپنی تنہائی میں قید ہوں

حقیقت سے بے خبر اور غافل

ایک عورت کے خیال میں کھویا ہوا

محبت کے طویل اور اذیت ناک خواب میں مبتلا

یہ مسلسل جاں کنی کی حالت

کیا یہ زندگی ہے

۔۔

  1. صبح ہونے کو ہے

نثری نظم۔۔  یوسف خالد

رات کا پچھلا پہر ہے

خامشی احساس کی راہداریوں میں چہل قدمی کر رہی ہے

نیم خوابیدہ لفظوں کے ہونٹوں پر

ایک بے صوت کہانی آواز میں ڈھلنے کا

جتن کر رہی ہے

سناٹا پسپا نہیں ہو رہا

نیند مجھ سے خفا ہو کر

کمرے سے باہر نکل گئی ہے

میں اس کے تعاقب میں باہر نکلا ہوں تو کھلے آسمان نے مجھے اپنی بانہوں میں لے لیا ہے

میں خامشی کو چہل قدمی کرتے دیکھ رہا ہوں

تاروں بھرے آسمان میں ہر سو کہانیاں

نئی سحر کے استقبال کی تیاریاں کر رہی ہیں

مجھے اپنی کہانی کو لفظوں سے ہم رشتہ کرنے کی فکر لاحق ہے

کہانی کے تمام کردار نیند سے بیدار ہو چکے ہیں

صبح ہونے کو ہے

خامشی کے قدم بوجھل ہو رہے ہیں

ننھی چڑیوں نے گیت گانے شروع کر دیے ہیں

بے صوتی کا تسلط ختم ہو رہا ہے

میں لفظوں کی بارگاہ میں ہوں

میری ریاضت رائگاں نہیں ہے

۔۔۔۔۔

  1. چائے خانہ

نثری نظم۔۔  رشید سندیلوی

چائے خانہ ایک چھوٹا سا عالم ہے

جہاں زندگی کی تیز رفتاری تھم جاتی ہے

دھوئیں کے مرغولے، چائے کی مہک

اور دوستوں کی ہنسی

سب مل کر ایک خوشگوار محفل بناتے ہیں

کبھی ایک پیالی چائے کے گرد بیٹھ کر

آنسوؤں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں

کبھی خوابوں کی تعبیر پر بات ہوتی ہے

یہاں ہر چہرے پر ایک سکون ہے

دھوپ کی کرنیں جب چائے کی پیالی میں

رقص کرتی ہیں تو دل کی دھڑکن بڑھ جاتی ہے

چائے خانہ صرف ایک جگہ نہیں

یہ خوابوں کا ایک جزیرہ ہے

جہاں لمحے رکتے ہیں

چائے کی چسکی کے ساتھ

زندگی کی تلخیوں کو بھلایا جاتا ہے

یہاں ہر کوئی اپنی کہانی کا ہیرو ہے

اور چائے ایک دل کا دوست

جو درد کو کم کرتا ہے

اور خوشیوں کو بڑھاتا ہے

چائے خانہ کی زندگی میں

محبت اور دوستی کی چاشنی ہے

یہاں ہر پیالی میں ایک امید ہے

کہ کل کا دن بہتر ہو گا

اور چائے کی مہک

ہمیشہ دل کو بہلائے گی

٭٭٭

 

 

 

ندیم ملک کی تازہ غزل اور تجزیہ

 

غزل:

کچھ بھی ہوتا نہیں شہر میں خوامخواہ تم بھی مر جاؤ گی میں بھی مر جاؤں گا

آخری بات ہے غور سے سن ذرا تم بھی مر جاؤ گی میں بھی مر جاؤں گا

اور کچھ بھی نہیں ہو گا بعد از مرگ ہو گی آہ و فغاں چار سو ایکدم

چند احباب بولیں گے جس نے سنا تم بھی مر جاؤ گی میں بھی مر جاؤں گا

حالتِ زار میں جب درختوں سے کرتا تھا میں گفتگو چار سو چار سو

خشک ہونٹوں سے پھر آئے گی یہ صدا تم بھی مر جاؤ گی میں بھی مر جاؤں گا

نا کہوں گا میں تم سے فسانۂ دل نا لکھوں گا وصال اور غم پر غزل

جب بھی موقع ملا اس نے مجھ سے کہا تم بھی مر جاؤ گی میں بھی مر جاؤں گا

آخری قسط ہے اس ڈرامائی کردار کی اور پھر میں نہیں آؤں گا

زندگی کی کہانی نہ مجھ کو سنا تم بھی مر جاؤ گی میں بھی مر جاؤں گا

(ندیم ملک)

 

 

تجزیہ

 

ندیم ملک کی یہ غزل انسانی زندگی کی ناپائیداری اور موت کی حتمیت پر گہرے فلسفیانہ خیالات پیش کرتی ہے۔  شاعر بار بار یاد دلاتا ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے، جس سے کوئی فرار ممکن نہیں۔  ’تم بھی مر جاؤ گی، میں بھی مر جاؤں گا‘ کا تکرار قاری کو وجود کی عارضیت کا احساس دلاتا ہے اور زندگی کے تمام معاملات کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔

غزل میں زندگی کی بے معنویت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔  شاعر اس بات پر زور دیتا ہے کہ دنیاوی معاملات اور جذبات وقتی ہیں اور موت کے سامنے ان کی کوئی وقعت نہیں۔  ’کچھ بھی ہوتا نہیں شہر میں خوامخواہ‘ جیسے مصرعے زندگی کی غیر مستقل پیچیدگیوں اور انسانی بے زاری کو بیان کرتے ہیں۔

محبت، دکھ، اور جدائی جیسے جذبات پر بھی شاعر نے گہری تنقید کی ہے۔  وہ کہتا ہے کہ ان جذبات کو بیان کرنا یا ان پر شاعری کرنا بے معنی ہے کیونکہ موت سب کچھ ختم کر دیتی ہے۔  اس کے علاوہ، قدرت سے مکالمے اور درختوں سے گفتگو کے ذکر کے ذریعے شاعر تنہائی اور فطرت سے جذباتی وابستگی کو بیان کرتا ہے، لیکن یہ وابستگی بھی زندگی کی بے ثباتی کو ختم نہیں کر سکتی۔

اس غزل کا اسلوب سادہ اور گہرا ہے۔  شاعر نے عام زبان میں فلسفیانہ خیالات کو بیان کیا ہے، جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔  بار بار تکرار کے ذریعے موت کی حقیقت کو مزید واضح کیا گیا ہے، جو اس غزل کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔  مجموعی طور پر یہ غزل زندگی، موت، اور انسانی جذبات کی بے ثباتی پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

نوسٹیلجیا:  نسیم شاہد

 

 

 

نظم:

نوسٹیلجیا

نئے سال کی پہلی رات

اس کی یادیں اس کے خواب

سال گزر جاتا ہے لیکن

بند نہیں ہوتا یہ باب

(نسیم شاہد)

 

تجزیہ

 

نسیم شاہد کی یہ نظم ’نوسٹیلجیا‘ ایک گہری جذباتی کیفیت کی عکاسی کرتی ہے، جو ماضی کی یادوں اور خوابوں کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔  اس نظم کا موضوع وقت کا گزرنا اور ماضی کی یادوں کا دل و دماغ پر چھایا رہنا ہے۔

نئے سال کی پہلی رات کا ذکر نظم میں وقت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔  یہ وقت کا ایک خاص موڑ ہے، جہاں پرانا سال ختم ہو رہا ہے اور نیا سال شروع ہو رہا ہے۔  لیکن شاعر کے لیے یہ تبدیلی صرف تقویمی ہے ؛ اس کے جذبات اور یادیں وقت کے اس دھارے سے آزاد ہیں۔

نظم کی مرکزی کیفیت ’نوسٹیلجیا‘ یعنی ماضی کی یادوں میں گم رہنا ہے۔  شاعر ان یادوں کو ایک ایسے باب سے تشبیہ دیتا ہے جو کبھی بند نہیں ہوتا۔  یہ دکھاتا ہے کہ ماضی کی تلخ یا میٹھی یادیں دل پر ایک دائمی اثر رکھتی ہیں اور انسان ان سے آزاد نہیں ہو سکتا۔

نظم میں ’خواب‘ کا ذکر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ شاعر کا دل ان خوابوں میں کھویا ہوا ہے جو شاید پورے نہ ہو سکے۔  خواب اور حقیقت کے درمیان یہ تضاد نظم میں ایک گہری اداسی اور مایوسی کو ظاہر کرتا ہے۔

نسیم شاہد نے بہت کم الفاظ میں جذبات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔  الفاظ کی سادگی کے باوجود ان کے پیچھے ایک گہرا درد چھپا ہوا ہے۔  ’سال گزر جاتا ہے لیکن بند نہیں ہوتا یہ باب‘ ایک ایسا خیال پیش کرتا ہے جو ہر قاری کو اپنی زندگی کی کہانی سے جوڑتا ہے۔

شاعر کا اسلوب مختصر اور جامع ہے۔  ہر مصرعے میں جذبات کا گہرا رنگ نظر آتا ہے۔  نظم کی بناوٹ اور الفاظ کے چناؤ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شاعر نے نہایت سوچ سمجھ کر ان جذبات کا اظہار کیا ہے جو عام انسانی تجربات سے جڑے ہیں۔

یہ نظم وقت کی لاتعلقی اور انسانی جذبات کی مستقل مزاجی کا بہترین عکس ہے۔  ماضی کی یادیں، خواب، اور زندگی کی مسلسل روانی اس نظم کے اہم پہلو ہیں۔  نسیم شاہد نے ’نوسٹیلجیا‘ کی حالت کو مختصر لیکن مؤثر انداز میں بیان کر کے قارئین کو اپنی زندگی کے گزرے لمحات پر غور کرنے کی دعوت دی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

رفیع رضا کی تازہ غزل اور تجزیہ

 

غزل

تیز رفتاری میں ایسے تو نہ تنہا کوئی ہو

مُڑ کے دیکھے چلے جاتا ہُوں کہ آتا کوئی ہو

………………….

سوچ ایسی کہ زمانوں میں اُڑا پھرتا ہُوں

قید ایسی کہ ترستا ہُوں کہ پنجرہ کوئی ہو

……………………..

مَیں نے مُردوں کا بھلا کا ہے اُڑانا ہے مذاق

چھیڑ کر دیکھا ہے شاید ابھی زندہ کوئی ہو

……………………

میرے ہونے کا کسی ڈھب سے پتہ چلتا رہے

سنسنی پھیلی رہے اور تماشہ کوئی ہو

…………………………

کام انوکھا ہو، نئی بات ہو جیسے یہ کلام

مَیں اگر ایسا نہیں ہُوں تو پھر ایسا کوئی ہو

………………..

کیا کسی اور کے ہونے کی طلب ہے تُجھ کو

کیا ضروری ہے یہاں میرے علاوہ کوئی ہو

…………………….

اِس لئے توڑ کے تارے نہیں لایا میرے دوست

تُو نے کہنا تھا کہ ایسا نہیں ویسا کوئی ہو

………..

سرد مِہری میں کرو یاد پرانی باتیں

کوئی چنگاری نکل آئے تو شُعلہ کوئی ہو

……………

مجھے کچھ یاد نہیں ہے میرا ہنستا چہرہ

آپکے علم میں ممکن ہے کہ ایسا کوئی ہو

………….

بد سے بدتر کی فضیلت کا زمانہ ہے حضور

کوئی پاگل ہی یہ چاہے گا کہ دانا کوئی ہو

سیدھی منطق ہے خداوند کے بارے میں مِری

ہو گا موجود اگر دیکھنے والا کوئی ہو

………….

خالقِ کون و مکاں سے بھی لیا جائے حساب

لُطف آئے جو قیامت کا یہ فتوہ کوئی ہو

…………

آگ سو رنگ کی ہو اور ہو جلتا ہُوا دِل

میری تجویز ہے یہ عشق کا جھنڈا کوئی ہو

…………

ہو بھی سکتا ہے پہنچ جائیں حقیقت کے قریب

پھر کریں کیا کہ جو پردہ پسِ پردہ کوئی ہو

…………..

روشنی جیسے چلی آتی ہے سُورج سے اِدھر

یہ بھی ممکن ہے کہیں حُسن کا دریا کوئی ہو

………….

بوجھ سینے سے اُترتا ہُوا لگتا ہے مجھے

ایسے لگتا ہے کہیں پھُوٹ کے رویا کوئی ہو

……………..

مجھے کیا مان رہے ہیں مجھے کچھ نہ بتا

یہ ضروری تو نہیں ہوتا کہ دعویٰ کوئی ہو

 

تجزیہ

 

رفیع رضا کی یہ غزل اردو ادب میں جدید غزل کی روح کو اجاگر کرتی ہے، جہاں روایتی شاعری کی چاشنی اور جدید دور کے خیالات کا امتزاج ملتا ہے۔  غزل کے اشعار میں انسانی زندگی کی پیچیدگیوں، جذباتی کیفیات، اور فلسفیانہ سوچ کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔  شاعر نے نہ صرف ذاتی تجربات اور احساسات کا اظہار کیا ہے بلکہ ان کو کائناتی سطح پر عمومی انسانی نفسیات اور فطرت کے ساتھ جوڑا ہے۔

یہ غزل انسان کی داخلی کیفیت اور خارجی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کی عکاسی کرتی ہے۔  شاعر کی سوچ کی وسعت زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے، لیکن وہ خود کو ایک ایسی قید میں محسوس کرتا ہے جہاں پنجرے کی موجودگی بھی ایک خواہش بن جاتی ہے۔  یہ تضاد انسان کے آزاد ہونے کی خواہش اور زندگی کی حقیقتوں کے درمیان کشمکش کا اشارہ دیتا ہے۔  شاعر محبت، وجود، اور حقیقت کے موضوعات کو ایک گہرے فلسفیانہ انداز میں بیان کرتا ہے، جس سے قاری کے دل میں غور و فکر کی تحریک پیدا ہوتی ہے۔

شاعر کا انداز تنقیدی ہے، جو معاشرتی رویوں اور انسانی کردار کے تضادات کو نمایاں کرتا ہے۔  وہ زندگی کی سطحیت اور مروجہ اقدار پر سوال اٹھاتا ہے۔  بد سے بدتر کو ترجیح دینے والے زمانے کی تصویر کشی کرتے ہوئے، شاعر انسانی شعور کی زوال پذیری پر افسوس کرتا ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ، وہ انسان کی نا پائیدار خواہشات اور ان کے نتائج کا بھی ذکر کرتا ہے، جو قاری کو اپنی ذات کا جائزہ لینے پر مجبور کرتا ہے۔

رفیع رضا کی شاعری میں ایک مخصوص طنز اور سوالیہ انداز نمایاں ہے۔  وہ خدا کے وجود اور کائنات کی تخلیق کے بارے میں ایسی بات کرتے ہیں جو عمومی روایتی شاعری سے مختلف ہے۔  ان کے اشعار خدا اور بندے کے تعلق کو ایک منطقی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، جو مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر ان کے غیر روایتی اور جرأت مندانہ رویے کو ظاہر کرتا ہے۔  شاعر کی منطق سادہ لیکن گہری ہے، جو قاری کو فکر کے نئے دریچے کھولنے پر مجبور کرتی ہے۔

اس غزل کا ایک اور اہم پہلو شاعر کا داخلی اضطراب اور جذباتی کشمکش ہے۔  وہ اپنے جذبات کی شدت کو چنگاری اور شعلے کے استعاروں میں بیان کرتے ہیں۔  شاعر کے اشعار میں جذبات کی شدت اور ان کے اظہار کا ہنر واضح طور پر جھلکتا ہے۔  وہ ماضی کی یادوں اور حال کی بے حسی کے درمیان ایک ایسا پل بناتے ہیں، جو قاری کو اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے پر مائل کرتا ہے۔

رفیع رضا کے یہ اشعار نہ صرف محبت اور جذبات کی گہرائیوں میں اترتے ہیں بلکہ انسانی وجود کے فلسفیانہ سوالات اور کائناتی حقائق کو بھی چھوتے ہیں۔  شاعر نے حقیقت کے پردے کے پیچھے چھپے رازوں کو کھوجنے کی خواہش ظاہر کی ہے، جو انسانی فطرت کی جستجو اور تلاش کا ایک خوبصورت اظہار ہے۔  یہ غزل ایک ایسے سفر کی عکاسی کرتی ہے جو انسان کے اندر سے شروع ہوتا ہے اور کائنات کی وسعتوں تک پھیلتا ہے۔

بوجھ سینے سے اترتا ہوا لگتا ہے مجھے

ایسے لگتا ہے کہیں پھوٹ کے رویا کوئی ہو

٭٭٭

 

 

 

 

 

شہاب اللہ شہاب کی شاعری

 

2023  میں میری غزلوں کی پہلی کتاب ’حیرت‘ اور شہاب اللہ شہاب کی کتاب ’اجالا ہونے والا ہے‘ اکٹھی شائع ہوئیں۔  دونوں کتابوں کے ناشر سیوا پبلیکشنز لاہور والے تھے۔  کتابیں تیار ہونے کے بعد بلٹی کر دی گئیں۔  جب میں نے کتابوں کا بنڈل کھولا تو حیران رہ گیا اس میں ’حیرت‘ کی بجائے ’اجالا ہونے والا ہے‘ کی کتابیں مسکرا رہی تھیں۔  مجھے بہت دھچکا لگا۔  کیوں کہ متذکرہ ادارے نے کتابوں کے کرٹںن پر ہمارے پتے غلط لکھ دیے تھے۔  میری کتابیں مردان چلی گئیں اور شہاب صاحب کی کتابیں اسلام آباد میرے گھر آ گئیں۔  اس طرح شہاب اللہ شہاب اور میری دوستی کا آغاز ہوا۔  کل انہوں نے اپنی شاعری پر رائے طلب کی تو مجھے اپنی کوتاہی کا احساس ہوا۔  یہ سطریں مجھے دو سال پہلے لکھنا چاہئے تھیں۔  میں ان سے دلی معذرت چاہتا ہوں۔

شہاب اللہ شہاب اردو ادب کے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ادبی دنیا میں مقام حاصل کیا ہے۔  ان کا شعری مجموعہ ’اجالا ہونے والا ہے‘ نہ صرف ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا ایک دلکش اظہار ہے بلکہ اردو ادب میں ایک نئی امید اور مثبت تبدیلی کی علامت بھی ہے۔  اس مجموعے میں انسانی جذبات، محبت، جد و جہد، اور رشتوں کی گہرائی کو بڑی سادگی اور گہرائی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔  عنوان ہی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ یہ شاعری زندگی کی مشکلات کے باوجود روشنی اور امید کی جستجو کا درس دیتی ہے۔

’اجالا ہونے والا ہے‘ جدید رجحانات کی نمائندگی کرتے ہوئے نہ صرف اردو شاعری کے لیے ایک اضافہ ہے بلکہ یہ نوجوان شاعروں کے لیے ایک تحریک بھی بن سکتا ہے، جو اپنے خیالات کو تخلیقی اظہار میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔  اس مجموعے کی شاعری زندگی کی حقیقتوں کو بڑے دلنشین انداز میں پیش کرتے ہوئے قاری کے دل و دماغ کو چھو لینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔  یہ شاعری نہ صرف ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کرے گی بلکہ انسانی جذبات کی گہرائی کو بھی نئے زاویے سے اجاگر کرے گی۔  شہاب اللہ شہاب کے اشعار میں جو روشنی اور امید جھلکتی ہے، وہ ہمیں یہ یقین دلاتی ہے کہ ہر اندھیری رات کے بعد ایک نیا اجالا ضرور طلوع ہوتا ہے۔  یہ مجموعہ اردو ادب میں ایک نیا باب کھولتے ہوئے قاری کو امید، محبت، اور جد و جہد کا پیغام دیتا ہے۔  چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

 

جن کے مکان کچے ہوں اُن کے لئے شہاب

بارش عذابِ جاں کے سوا اور کچھ نہیں

۔

ملنے کا شہاؔب اُس کا ارادہ تو نہیں تھا

رسماً ہی ملا مجھ سے ٬ کہا عید مبارک

۔

خامشی سے بہہ رہا ہے جس طرح آب رواں

زندگی اپنی شہاؔب ایسے گذرتی ہی رہی

۔

میں مصلحت کے ہاتھوں سے مجبور ہوں مگر

وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ میں اُس سے ڈر گیا

۔

چھپ کر رقیب بیٹھے ہیں یاروں کے روپ میں

محفل میں نام لے کے بلایا نہ کیجئے

۔

خالق یہ تری شان کے شایان نہیں ہے

ہر شخص کے اعمال کو میزان میں رکھنا

۔

کھویا ہوا شہاؔب ہوں میں اپنی ذات میں

آئے نہ کوئی بھی مجھے اب ڈھونڈتا ہوا

۔

گمنام تھا شہاؔب مگر اب نہیں رہا

سارے جہاں میں عشق نے مشہور کر دیا

۔

اڑنا ہے جتنا اڑ لے مگر اتنا یاد رکھ

تھک ہار کے کبھی تو زمیں پر بھی آئے گا

٭٭٭

 

 

 

یہ دریا اور ہے کوئی از اعجاز روشن

 

 

جناب اعجاز روشن صاحب کی غزلوں کا مجموعہ ’یہ دریا اور ہے کوئی‘ ابھی ابھی موصول ہوا ہے 180 صفحات کا یہ مجموعہ اردو شاعری میں خوبصورت اضافہ ہے۔ اس کے فلیپ قمر رضا شہزاد، افضل خان اور محترم سعود عثمانی صاحب نے تحریر کئے ہیں جبکہ پیش لفظ جناب اکرم کنجاہی اور مضمون محترم پروفیسر محمود پاشا نے لکھا ہے۔  اعجاز روشن صاحب مطالعہ کے شوقین ہیں اور شعر و ادب پر گہری نگاہ رکھتے ہیں میں ان کی نثر کا عاشق تھا اور اعلیٰ تبصرہ نگار کی حیثیت سے جانتا تھا لیکن وہ خوب صورت اور رواں دواں غزل کہتے ہیں اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا متذکرہ کتاب کا مطالعہ کر کے ان کی شعری استعداد کا اندازہ ہوا وہ روایت سے جڑے ہوئے ہیں اور جدید غزل کی روح سے آشنا ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتی ہیں۔  وہ پہلی خواندگی میں مجھے میر تقی میر اور ناصر کاظمی کے پرتو محسوس ہوئے ہیں میں اردو غزل میں ان کا شاندار استقبال کرتا ہوں

ان کی ایک غزل بطور نمونہ کلام پیش ہے

رنگ خوابوں کے مٹا دیتی ہے

فکر پتھر کا بنا دیتی ہے

خواہشِ زر بھی ہے وہ زہر کہ جو

عمر مفلس کی بڑھا دیتی ہے

دوپہر کی یہ جھلستی ہوئی شام

گم ہواؤں کا پتہ دیتی ہے

بے رخی مجھ سے جہاں والوں کی

زخم تیرے بھی جگا دیتی ہے

زیست تیرا یہ چلن کیسا ہے

ہارنے پر بھی سزا دیتی ہے

بات جو ہم نہ کبھی کہہ پائیں

دل میں اک حشر اٹھا دیتی ہے

جب خلا شاعری کا بھرتا ہوں

پھر نیا ایک خلا دیتی ہے

جس نے لوٹا اسی سے پھر روشن

سادگی آس لگا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

دو کتابیں:  رضی الدین رضی

 

ملتان سے محترم رضی الدین رضی صاحب کی دو کتابیں ’کالم کہانیاں خاکے‘ اور ’دن بدلیں گے جاناں‘ آج موصول ہوئی ہیں۔ اول الذکر کتاب ان کے کالموں کہانیوں اور خاکوں پر مشتمل ہے ان تحریروں میں مصنف نے مزاح کی چاشنی کا بطورِ خاص اہتمام کیا ہے جس کی وجہ سے ہر تحریر خوبصورت اور خوش گوار ہو گئی ہے۔  طنز و مزاح کے یہ مضامین بہت دلچسپ اور مسرت انگیز ہیں کہ یہ ایک نشست میں آسانی سے پڑھے جاتے ہیں۔  ان کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اجنبیت یا نا مانوسیت کا احساس نہیں ہوا ان مضامین سے سجاد حیدر یلدرم اور پطرس بخاری کی یاد تازہ ہو گئی۔  ان مضامین کے مطالعہ سے پہلے میں رضی الدین رضی کی شاعری سے واقف تھا لیکن اب میں ان کے مزاح نوشت کا بھی قائل ہو گیا ہوں

دوسری کتاب رضی الدین رضی کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’دن بدلیں گے جاناں‘ ہے۔ یہ مجموعہ پہلی دفعہ 1995  میں شائع ہوا تھا اس کا دوسرا ایڈیشن نومبر 2024  میں اشاعت پذیر ہوا ہے۔  اس مجموعے کا دیباچہ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا تھا جبکہ مضمون ڈاکٹر عرش صدیقی نے تحریر کیا تھا۔  رضی الدین رضی بہت عمدہ شاعر ہیں صحافی ہونے کے ناطے ان کا اظہار جاندار اور واضح ہے وہ کہیں بھی غزل ہو یا نظم ابہام یا تجرید میں بات نہیں کرتے ان کے اشعار برجستہ واضح اور صاف ہیں۔  شاعری میں وہی شاعر کامیاب ہے جو ابلاغی سطح پر بر ملا اظہار کا داعی ہے۔  اردو کے جتنے اشعار زبانِ زدِ عام ہو چکے ہیں وہ سب ہی متذکرہ محاسن سے لیس ہیں۔  مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ رضی الدین رضی کا ابلاغ زور دار ہے اور وہ سخن نوائی میں کامیاب ہیں۔

چند اشعار ملاحظہ فرمائیں

دیکھیں فصیلِ خامشی میں کب پڑے دراڑ

گلیوں میں ایک شور سا ہم نے سنا تو ہے

۔

تم نے بھی سب چراغ ہواؤں میں رکھ دئیے

رکھے ہوئے ہیں میں نے بھی جگنو سنبھال کر

۔

ایک ننھی فاختہ شاخوں پہ تڑپی اور پھر

یوں ہوا کہ شہر کے سارے شجر سہمے رہے

۔

اتنی آوازوں میں گم ہو جائے گی میری صدا

بس تمہاری بزم میں یہ سوچ کر میں چپ رہا

۔

حسن کا انداز اتنا دلربا پہلے نہ تھا

میں نے دیکھی اس کی چشمِ تر تو اندازہ ہوا

۔

دل کو پھر خود سے تو بیزار نہیں کر سکتے

ہم کسی اور سے اب پیار نہیں کر سکتے

#############################

ایک شعر کی تفہیم

وہیں سے زہر کی شیشی بھی گھُورتی ہے مجھے

دَوا نکال کے کھاتا ہُوں جس دراز سے مَیں

رفیع رضا

یہ شعر رفیع رضا کے گہرے خیالات اور متضاد احساسات کو ظاہر کرتا ہے۔  شاعر ایک دراز کا ذکر کرتا ہے جہاں سے وہ دوا نکال کر کھاتا ہے، جو زندگی کی بقا اور صحت کی علامت ہے۔  لیکن اسی دراز میں زہر کی شیشی بھی موجود ہے، جو موت اور تباہی کی علامت ہے۔

شاعر اس شعر کے ذریعے زندگی کے دوہرے پہلوؤں کو بیان کر رہا ہے۔  ایک طرف زندگی کا علاج اور بقا ہے، جو دوا کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اور دوسری طرف زندگی کے خاتمے کا امکان، جو زہر کی صورت میں موجود ہے۔  یہ دراز در اصل انسانی دل یا زندگی کی علامت بھی ہو سکتی ہے، جہاں امید اور مایوسی دونوں بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔

یہ شعر انسانی زندگی کے ان مشکل لمحات کو بیان کرتا ہے جب زندگی اور موت، امید اور مایوسی، خوشی اور غم کے درمیان توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔  شاعر کی گہری نظر ان تضادات کو بخوبی اجاگر کرتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شیشے میں:  شہر یار اختر علی خیال

 

شہریار اختر علی کی غزلیں روایت اور جدت کے امتزاج کی عمدہ مثال ہیں۔  ان کی غزلوں کے پہلے مجموعے ’شیشے میں‘ موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے۔  ان کی شاعری کے بارے میں مشہور نقاد رفیق سندیلوی کے خیالات ان کی تخلیقی وسعت اور فکری گہرائی کو سمجھنے میں نہایت معاون ہیں۔

رفیق سندیلوی لکھتے ہیں:

’شہریار اختر علی کی غزل میں بنیادی طور پر روایتی غزل کا منظر نامہ ہی غالب دکھائی دیتا ہے تاہم اس کے اندرون سے جدید غزل کے موضوعات و اثرات بھی جگہ بناتے ہوئے نظر آتے ہیں بلکہ کہیں کہیں تو ما بعدِ جدید فکر کا ہلکا سا چھینٹا بھی اپنے نم کا احساس دلاتا ہوا گزر جاتا ہے۔‘

شہریار اختر علی کی غزلوں کا پہلا تاثر ان کی روایتی بنیادوں کو ظاہر کرتا ہے۔  ان کے اشعار میں کلاسیکی غزل کی فضا محسوس ہوتی ہے، جو میر، غالب اور اقبال کے فکری دھاروں سے متاثر ہے۔  عشق، ہجر، وصال، فطرت کی منظر نگاری اور داخلی کیفیات کو انہوں نے نہایت لطیف انداز میں پیش کیا ہے۔  ان کی غزل کا یہ پہلو قاری کو اردو غزل کی روایتی دلکشی اور موسیقیت سے جڑے رہنے پر مجبور کرتا ہے۔

تاہم، شہریار اختر علی کی غزل صرف روایت تک محدود نہیں رہتی۔  ان کی شاعری میں جدید زندگی کے مسائل، سماجی پیچیدگیاں، اور انسان کی تنہائی جیسے موضوعات بھی ابھرتے ہیں۔  یہ وہ خصوصیات ہیں جو ان کی غزل کو ایک نیا ذائقہ عطا کرتی ہیں اور انہیں ہم عصر شاعروں سے منسلک کرتی ہیں۔  ان کے اشعار میں انسان کے اندرونی خلاء اور عصرِ حاضر کے فکری الجھنوں کو بیان کرنے کی کوشش نمایاں ہے۔

شہریار اختر علی کی شاعری میں ما بعدِ جدید فکر کی جھلک ان کے منفرد اندازِ اظہار میں ملتی ہے۔  یہ جھلکیاں کہیں اشعار کے استعاروں میں نظر آتی ہیں اور کہیں ان کی زبان کے مخصوص مزاج میں۔  وہ قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور ہر بار ایک نیا مفہوم پیدا کرتے ہیں۔  ان کی یہ خصوصیت ان کی شاعری کو تہہ دار بناتی ہے۔

شہریار اختر علی کی غزلوں میں روایتی اور جدید رجحانات کی ہم آہنگی بھی قابلِ دید ہے۔  وہ روایت کے دامن کو تھامے ہوئے جدیدیت کے چیلنجز کو قبول کرتے ہیں اور اپنے قارئین کو ایک ایسے فکری سفر پر لے جاتے ہیں جہاں روایتی شاعری کا حسن اور جدید فکر کی گہرائی دونوں کا امتزاج موجود ہے۔  رفیق سندیلوی کا تجزیہ نہ صرف ان کے فن کی عمدگی کو واضح کرتا ہے بلکہ ان کی شاعری کے دائرہ اثر کو بھی نمایاں کرتا ہے۔  ’شیشے میں‘ بلاشبہ اردو غزل کے ادب میں ایک اہم اضافہ ہے .

کتاب ہذا سے ایک غزل ملاحظہ فرمائیں:

ساری تاویلیں غلط ہیں استعارے خام ہیں

راہ بے منزل ہے رستوں کے اشارے خام ہیں

اک خلائے بے کنار تیرگی ہے کائنات

روشنی دھوکا ہے سیارے ستارے خام ہیں

خامشی کا بحر ہے خود سے تکلم میں مگن

اور اس میں بہہ رہے لفظوں کے دھارے خام ہیں

ان گنت اسلوب سے کھلتا ہے پر کھلتا نہیں

اور اس مفہوم پر قائم اجارے خام ہیں

نا خدا بہرِ خدا امیدِ ساحل مت دلا

یہ فقط حدِ نظر ہے اور کنارے خام ہیں

ایک لا موجودگی طاری ہے ہر جانب خیال

اور جو موجود ہیں سارے کے سارے خام ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

آنکھ سے آسمان جاتا ہے:  طارق نعیم

 

طارق نعیم بھائی کی کلیات ’آنکھ سے آسمان جاتا ہے‘ ابھی ابھی موصول ہوئی ہے۔  طارق نعیم میرے دیرینہ دوست اور اردو کے بہترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔  انہوں نے اپنی زندگی شعر و ادب کے لیے وقف کر رکھی ہے۔  اسلام آباد کی کوئی ادبی یا شعری نشست ان کی موجودگی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔  وہ اردو غزل کے ایک شاندار شاعر ہیں، اور میں تو ابتدا ہی سے ان کی شاعری کا مداح ہوں۔

گوشۂ ادب کے ابتدائی سالوں میں انہوں نے اس تنظیم کی ترقی کے لیے بے حد جد و جہد کی۔  ان کی کلیات اعلیٰ معیار کی غزلوں اور اشعار سے بھرپور ہے۔  اس پر میں پہلے بھی مختصر طور پر لکھ چکا ہوں اور آئندہ اس پر ایک تفصیلی مضمون لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

جب میں اپنی کتاب ’نشتر‘ مرتب کر رہا تھا تو ان کے ایک شعر کے انتخاب کے لیے ان کی تمام ابتدائی غزلوں کا مطالعہ کیا تھا، اور ان کا یہ شعر منتخب کیا تھا:

’کسی نے چاند کی تعریف مجھ سے پوچھی ہے

میرا خیال ہے تیری مثال دی جائے‘

یہ ان کے ابتدائی زمانے کا شعر ہے، لیکن جمالیات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔  طارق نعیم اس مقام سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں، اور ان کی شاعری آج بھی ترقی کی نئی منازل طے کر رہی ہے۔

طارق نعیم بھائی کی کلیات ’آنکھ سے آسمان جاتا ہے‘ ابھی ابھی موصول ہوئی ہے۔  طارق نعیم میرے دیرینہ دوست اور اردو کے بہترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔  انہوں نے اپنی زندگی شعر و ادب کے لیے وقف کر رکھی ہے۔  اسلام آباد کی کوئی ادبی یا شعری نشست ان کی موجودگی کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔  وہ اردو غزل کے ایک شاندار شاعر ہیں، اور میں تو ابتدا ہی سے ان کی شاعری کا مداح ہوں۔

گوشۂ ادب کے ابتدائی سالوں میں انہوں نے اس تنظیم کی ترقی کے لیے بے حد جد و جہد کی۔  ان کی کلیات اعلیٰ معیار کی غزلوں اور اشعار سے بھرپور ہے۔  اس پر میں پہلے بھی مختصر طور پر لکھ کر جب میں اپنی کتاب ’نشتر‘ مرتب کر رہا تھا تو ان کے ایک شعر کے انتخاب کے لیے ان کی تمام ابتدائی غزلوں کا مطالعہ کیا تھا، اور ان کا یہ شعر منتخب کیا تھا:

’کسی نے چاند کی تعریف مجھ سے پوچھی ہے

میرا خیال ہے تیری مثال دی جائے‘

یہ ان کے ابتدائی زمانے کا شعر ہے، لیکن جمالیات کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔  طارق نعیم اس مقام سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں، اور ان کی شاعری آج بھی ترقی کی نئی منازل طے کر رہی ہے۔

طارق نعیم اردو ادب کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے جدید لب و لہجہ میں شاعری کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔  ان کی کلیات ’آنکھ سے آسمان جاتا ہے‘ میں شامل ان کے تین شعری مجموعے – ’دیے میں جلتی رات‘، ’وقت کا انتظار کون کرے‘ اور ’رکی ہو شاموں کی راہداریاں‘ – ان کے فکری و فنی پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔

طارق نعیم کی شاعری میں اردو غزل اور نظم کے روایتی موضوعات کے ساتھ جدید خیالات کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔  ان کی شاعری میں ایک گہرا فلسفیانہ انداز اور عمیق مشاہدات کا عنصر شامل ہے، جو زندگی کے مختلف پہلوؤں کو منفرد انداز میں اجاگر کرتا ہے۔  ان کے کلام میں انسان کی داخلی کیفیات، تنہائی، کرب، محبت، وقت کے مفہوم اور عصری مسائل کی عکاسی ملتی ہے، جس سے ان کی شاعری قاری کے دل کو چھو لیتی ہے۔

  1. دیے میں جلتی رات: اس مجموعے میں طارق نعیم نے زندگی کی کٹھنائیوں اور امید کے پیغام کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں ایسے موضوعات کو سمویا گیا ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
  2. وقت کا انتظار کون کرے: یہ مجموعہ وقت کی بے رحمی اور انسان کی مجبوریوں کو بیان کرتا ہے۔ طارق نعیم نے انتظار اور وقت کے گزرنے کے موضوع کو انتہائی دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔
  3. رکی ہو شاموں کی راہداریاں: اس مجموعے میں شام کے وقت کی تنہائی اور اس کے سحر کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری میں ایک سحر انگیز کیفیت ہے جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

طارق نعیم اسلام آباد کے ادبی حلقے میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں اور ان کے کلام کو وہاں خاصی پذیرائی حاصل ہے۔  ان کی شاعری امید اور رجائیت کے پہلو لئے ہوئے ہے جو ان کی شناخت کو مزید واضح کرتی ہے۔

طارق نعیم کی شاعری جدید اردو ادب میں ایک قیمتی اضافہ ہے، جس میں موجود لب و لہجہ، تخلیقی گہرائی اور زندگی کی گہری تشریح انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتی ہے۔  ’آنکھ سے آسمان جاتا ہے‘ جیسی کلیات اردو شاعری کے افق پر ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے جس کی روشنی ہمیشہ قائم رہے گی۔

’دیے میں جلتی رات‘ سے ایک غزل کا انتخاب

قفس سے خود ہی پرندہ رہا کیا میں نے

پھر اس کے بعد یہ سوچا کہ کیا کیا میں نے

اڑان بھر کا لگا آسماں مجھے یک دم

بدن سے جونہی پروں کو جدا کیا میں نے

وہ اور بھی کسی چشمِ کماں کی زد پر تھا

کچھ اس لئے بھی نشانہ خطا کیا میں نے

جو درد تو نے دیا تیرے اختیار میں تھا

وہ ضبط جو مرے بس میں نہ تھا کیا میں نے

پھر اس کے بعد یہ دل کا دیا نہیں سنبھلا

بس ایک بار ہی ذکرِ ہوا کیا میں نے

وہ آنکھیں مانگنے آیا تو مری آنکھ کھلی

اسے خراج میں کیا کیا ادا کیا میں نے

سو یہ زمیں ہے وہ ہے آسماں جدھر جاؤ

بس اپنے آپ سے تجھ کو رہا کیا میں نے

وہی ہوا کہ جو طارق نعیم ہونا تھا

چراغ جب بھی سپردِ ہوا کیا میں نے

٭٭٭

 

 

 

کاغذی انسان۔  از طاہر راجپوت

 

’کاغذی انسان‘ ابھی ابھی ملی ہے۔  یہ وہ نظمیں ہیں جو ہم فیس بک پر پڑھ چکے ہیں۔ اس کتاب میں انہوں نے میرا اقتباس بھی شامل کیا جو ان کی نظموں کے جملہ محاسن کا احاطہ کرتا ہے۔

طاہر راجپوت نثری نظم کے میدان میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔  ان کی نثری نظموں کا مجموعہ ’کاغذی انسان‘ اردو ادب میں جدت کا بہترین نمونہ ہے، جس میں 87 نظمیں شامل ہیں۔  یہ مجموعہ جدید اردو شاعری کی گہرائی اور فنی جمالیات کو بخوبی پیش کرتا ہے۔  نثری نظم کے لئے ان کی خدمات اور اس صنف کے فروغ میں ان کا کردار بے مثال ہے۔  نہ صرف انہوں نے خود نثری نظمیں تخلیق کیں بلکہ دوسروں کو بھی اس صنف کی طرف راغب کیا۔

ان کی شاعری میں انسان اور اس کے گرد موجود کائنات کے عناصر کی بھرپور عکاسی ملتی ہے۔  طاہر راجپوت کے کلام میں طبعیات، ما بعد الطبیعیات، نفسیات، تاریخ اور خلا جیسے موضوعات کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔  ان کے کلام میں زندگی کے فلسفیانہ پہلوؤں کو بھی خوبصورتی سے سمویا گیا ہے، جو قاری کو غور و فکر پر اکساتی ہیں۔  ان کی نثری نظمیں انسان کی اندرونی کیفیات کو زبان دیتی ہیں اور اس کے گرد و پیش کے عناصر کو ایک حسین آئینے میں منعکس کرتی ہیں۔

طاہر راجپوت نے جس طرح اپنے فن کو پروان چڑھایا ہے، ان کی شاعری میں موجود معانی اور تشبیہوں کا مجموعہ ان کی فکر کی گہرائی اور وسعت کی نشاندہی کرتا ہے۔  ان کے اس سفر میں کامیاب تخلیقی جد و جہد نے اردو ادب کو نثری نظم کی صنف میں اہم مقام دلایا۔  میں یہاں ان کی نظم ’کاغذی انسان‘ کا تجزیہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

 

متن:

’کاغذی انسان‘

 

پھڑپھڑاتے ہوے تم ہنستے ہو

تم ایک قیدی پرندے ہو

ویسے تم ہنستے کیوں ہو؟

تم ایک کاغذ کی طرح خالی

اور ایک اخبار کی طرح ننگے ہو

ننگے

تم ردی کے ساتھ بک کیوں نہیں جاتے؟

خالی ہاتھوں سے تم کیا تھامو گے

ننگے ہونٹوں سے کس کو چومو گے؟

تم کانوں کے پاس سے سفید

اور آنکھوں کے گرد سیاہ ہو رہے ہو

تم کیوں بدل رہے ہو؟

ہنسو

تا کہ دھوپ تم پہ نہ پڑ سکے

پھڑپھڑاؤ

تا کہ مکھیاں تم پہ نہ بیٹھ سکیں

چلتے چلتے

تم زمین سے باہر نکل آئے ہو

کہیں بیٹھ جاؤ!!

تا کہ تم پہ پیپر ویٹ کی طرح تنہائی رکھی جا سکے، ،

 

تجزیہ:

طاہر راجپوت کی نثری نظم ’کاغذی انسان‘ ایک گہرائی میں ڈوبی ہوئی تمثیل ہے جو انسانی وجود کی کمزوریوں اور خامیوں کو بے نقاب کرتی ہے۔  نظم میں ’کاغذی انسان‘ کا تصور ایک ایسی تشبیہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بظاہر زندہ ہے مگر اندر سے خالی ہے۔  یہ نظم ایک ایسے انسان کا استعارہ ہے جو اپنی زندگی میں بامعنی پہلوؤں سے خالی ہے اور سطحی وجود میں مقید ہے۔

نظم کی ابتدائی سطور میں شاعر کاغذی انسان کو ’قیدی پرندے‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔  ’پھڑپھڑاتے ہوئے‘ اور ’ہنستے‘ ہوئے کا تصور اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انسان خود کو آزاد محسوس کرنا چاہتا ہے مگر حقیقت میں وہ قید ہے۔  وہ ہنستا ہے، مگر یہ ہنسی ایک کھوکھلے پن کا اظہار ہے۔  یہاں شاعر انسانی زندگی میں مصنوعی مسکراہٹ اور اندرونی تنہائی کو نمایاں کرتا ہے۔

شاعر ’خالی کاغذ‘ اور ’ننگے اخبار‘ کے ذریعے اس انسان کی باطنی کیفیت کو واضح کرتا ہے، جس کا وجود تو ہے مگر اس میں مواد کی کمی ہے۔  ’تم ردی کے ساتھ بک کیوں نہیں جاتے؟‘ یہ سوال اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس بے مقصد زندگی کا کوئی حقیقی مقام نہیں ہے اور یہ محض ایک فضولیت ہے۔

شاعر نے انسانی جسم کی علامات جیسے ’کانوں کے پاس سفید‘ اور ’آنکھوں کے گرد سیاہ‘ ہونے کو بڑھاپے اور گزرتے وقت کی طرف اشارہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔  یہ جسمانی تغیرات ایک اندرونی تبدیلی کی علامت ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ انسان زندگی کی معنویت کو کھو چکا ہے اور وقت کے ساتھ بدل رہا ہے مگر بے مقصد طور پر۔

نظم کا اختتام ’پیپر ویٹ کی طرح تنہائی‘ کے ذکر پر ہوتا ہے۔  یہ ایک گہرے معنوی انداز میں انسان کی انفرادی بے مائے گی اور تنہائی کو ظاہر کرتا ہے۔  شاعر کاغذی انسان کو مشورہ دیتا ہے کہ وہ ایک جگہ ٹھہر جائے تاکہ اس پر تنہائی کا بوجھ ڈال دیا جائے، جو ایک پیپر ویٹ کی طرح اسے زمین پر قائم رکھ سکے۔  اس تنہائی کا بوجھ در اصل زندگی کے بامعنی پہلوؤں کی عدم موجودگی کی عکاسی ہے۔

’کاغذی انسان‘ محض ایک نظم نہیں بلکہ زندگی کے کھوکھلے پن اور اس کی بے وقعتی کا استعارہ ہے۔  طاہر راجپوت نے نثری نظم کی صنف میں انسانی نفسیات اور معاشرتی حقیقتوں کو جس مہارت سے بیان کیا ہے، وہ اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔  یہ نظم قاری کو اس کے اندر کی خالی کیفیت کا سامنا کراتی ہے اور اسے غور و فکر پر مجبور کرتی ہے کہ آیا وہ بھی ایک ’کاغذی انسان‘ کی مانند تو نہیں؟

٭٭٭

 

 

 

درِ امکاں پہ دستک۔  یوسف خالد

 

بہت ہی پیارے شاعر جناب یوسف خالد کی نثری نظموں کا مجموعہ ’درِ امکاں پہ دستک‘ موصول ہوا ہے۔  ان کی نظمیں ہر چند نثری ہیں لیکن ان میں بلا کا آہنگ و توازن اور شعری بہاؤ نظر آتا ہے جس سے اکثر نثری نظم لکھنے والے تہی ہیں۔  شعریت اور رچاؤ ان کی نظموں کا خاصا ہے۔  میں ان کی نظم رقص کرتے رہو کا تجزیہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جو نثری نظم کے جملہ گن یا محاسن اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

نظم کا متن:

 

رقص کرتے رہو

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

 

ابھی لوٹا ہوں

ایک ایسے سفر سے واپسی ہو ئی ہے

جہاں راستوں کی بھیڑ میں

بے سمتی کا جنگل اگا ہوا تھا

مسافر کے مقدر میں تھکن اور رائے گانی کے احساس کے سوا کچھ نہ تھا

پر پیچ راستوں میں سمتیں گم ہو گئی تھیں

فاصلہ طے ہوتا تھا مگر کم نہیں ہوتا تھا

ایک حیرت مسلسل پیچھا کرتی تھی

شاید یہ دائرے کا سفر تھا

ہر قدم پہلے سے اٹھائے گئے قدموں پر پڑتا تھا

ہر نئی صبح قدم بہ قدم

ایک نئی صبح تک کا سفر کرتی

اور پھر گزشتہ صبح کے تعاقب میں نکل کھڑی ہوتی

مسافر کسی حیرت کدے میں تھا

دائرے کا سرا نہیں ملتا تھا

سرا ملتا تو سفر مکمل ہوتا

تھکن سے چور مسافر کی آنکھ لگی

تو اس پر کھلا

کہ حاصل کا تصور وہم ہے

جستجو اور سفر ہی اصلِ حیات ہے

دائرہ ٹوٹا تو سفر رک جائے گا

رقص تھم جائے گا

انتشار اور ٹکراؤ سب کچھ ختم کر دے گا

دائرے کو ٹوٹنے نہ دو

رقص کرتے رہو

 

نظم کا تجزیہ:

یوسف خالد کی نظم ’رقص کرتے رہو‘ زندگی کی فلسفیانہ اور وجودیاتی فکر کو بہت خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔  یہ نظم انسانی زندگی کے مسلسل سفر، جد و جہد، اور ایک دائرے میں چلتے رہنے کے فلسفے پر مبنی ہے۔  شاعر نے یہاں دائرے کو ایک علامت کے طور پر استعمال کیا ہے، جو زندگی کے نہ ختم ہونے والے سفر اور دائمی جستجو کو بیان کرتا ہے۔

نظم کی ابتدا میں شاعر ایک طویل اور مشکل سفر سے واپسی کی کیفیت بیان کرتا ہے۔  یہ سفر محض جسمانی نہیں بلکہ ایک ذہنی اور روحانی سفر بھی ہے، جس میں ’راستوں کی بھیڑ‘ اور ’بے سمتی کا جنگل‘ زندگی کی پیچیدگیوں، مشکلات اور انسان کے منتشر خیالات کی عکاسی کرتا ہے۔  اس بے سمتی میں انسان تھک جاتا ہے، لیکن اسے راستہ نہیں ملتا، اور تھکن کے باوجود منزل قریب نہیں ہوتی۔

نظم میں بار بار ’دائرے‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔  دائرہ انسانی زندگی کی ایک ایسی علامت ہے جس میں وہ بار بار انہی راستوں پر چلتا ہے اور اسی طرح کے تجربات سے گزرتا ہے۔  شاعر کہتا ہے کہ ’ہر قدم پہلے سے اٹھائے گئے قدموں پر پڑتا تھا‘، یعنی زندگی میں اکثر وہی حالات اور مسائل دوبارہ سامنے آتے ہیں۔  شاعر کا یہ بیان کہ ’فاصلہ طے ہوتا تھا مگر کم نہیں ہوتا تھا‘ زندگی کی ان رکاوٹوں اور الجھنوں کی جانب اشارہ کرتا ہے جنہیں ہم جتنا بھی دور کرنے کی کوشش کریں، وہ ہمارے سامنے ہی رہتی ہیں۔

شاعر نے زندگی کی جستجو کو حیرت کے ساتھ جوڑا ہے۔  ’ایک حیرت مسلسل پیچھا کرتی تھی‘ کی لائن سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کا سفر ہر لمحہ نئے سوالات، نئے تجربات اور ایک نئی حیرت پیدا کرتا ہے۔  یہ حیرت ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آیا ہمارا سفر واقعی کسی مقام پر پہنچے گا یا ہم محض ایک دائرے میں گھوم رہے ہیں۔

نظم کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جہاں شاعر کو یہ ادراک ہوتا ہے کہ ’حاصل کا تصور وہم ہے، جستجو اور سفر ہی اصلِ حیات ہے‘۔  شاعر یہاں زندگی کے ایک بڑے فلسفے کی طرف اشارہ کر رہا ہے، کہ اصل میں کسی بھی حتمی مقصد یا حاصل کا کوئی وجود نہیں ہے۔  ہماری تمام کوششیں اور جستجو محض ایک عمل ہے، اور یہی عمل اصل زندگی ہے۔  یہاں شاعر ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر ہم کسی خاص منزل یا انجام کو مقصد بنا لیں تو ہماری زندگی کی حرارت اور دلچسپی ختم ہو جائے گی۔

آخری حصہ میں شاعر نے زندگی کو ایک رقص سے تشبیہ دی ہے۔  رقص ایک مسلسل حرکت ہے، ایک ایسی کیفیت ہے جس میں جذبات، رفتار اور روانی شامل ہوتی ہے۔  شاعر کہتا ہے کہ اگر دائرہ ٹوٹ جائے تو ’رقص تھم جائے گا‘۔  یہاں دائرہ ٹوٹنے سے مراد زندگی کی حرکت کا رک جانا ہے۔  شاعر نے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ زندگی کے اس رقص کو جاری رکھنا چاہیے، چاہے اس میں کتنی ہی مشکلات، پیچیدگیاں اور تھکن کیوں نہ ہو۔

رقص کرتے رہو ایک مثبت پیغام پر اختتام پذیر ہوتی ہے۔  شاعر ہمیں بتاتا ہے کہ زندگی کا حسن اور اس کا مقصد اسی میں ہے کہ ہم اپنی جد و جہد کو جاری رکھیں، اپنی جستجو کو زندہ رکھیں، اور اپنی زندگی کو ایک رقص کی مانند محسوس کریں۔  اس نظم میں شاعر نے زندگی کو ایک ایسا سفر قرار دیا ہے جو دائمی ہے اور جس کی خوبصورتی اس میں ہے کہ ہم اس سفر سے لطف اندوز ہوں، نہ کہ کسی انجام یا حصول کے خواب میں گم ہو جائیں۔

یہ نظم ہمیں زندگی کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے، جہاں ہمیں اپنی جستجو اور کوشش کو ایک رقص کی طرح خوش دلی سے جاری رکھنا ہے۔

٭٭٭

 

 

نام کتاب۔۔  احد، شاعر۔۔۔  شاہ روم خان ولی

 

 

شاہ روم خان ولی کی کتاب ’احد‘ ادب کی دنیا میں ایک خوبصورت اضافہ ہے، جس میں شاعر نے اپنے تخلیقی سفر کو خدا کی حمد و ثناء کے رنگ میں ڈھال دیا ہے۔  یہ مجموعہ صرف شعری انداز نہیں بلکہ شاعر کے قلبی جذبات کا مظہر ہے۔  شاہ روم خان ولی نے شہرت و ناموری کی خواہش کو پس پشت ڈال کر اپنی تخلیقات کو عبادت کا رنگ دیا ہے۔  ان کی شاعری میں ایک ایسا انکسار ہے جو کسی سچے بندے کے دل میں خدا کے سامنے عجز و نیاز کی صورت میں نمودار ہوتا ہے۔

’احد‘ کی خاصیت یہ ہے کہ شاعر نے اسے محض رسمی تعریف و توصیف کے بجائے، اپنی حقیقی دعاؤں اور التجاؤں کا رنگ دیا ہے۔  اس میں ولی صاحب نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اور اس تعلق کو ایک مکالمہ کی شکل دی ہے۔  وہ اپنی حمد میں اپنی ذات کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی سچائی کو پیش کرتے ہیں۔  خدا کی حمد و ثناء میں ان کا لب و لہجہ دعائیہ، عجز و انکساری سے بھرپور اور جذبہ محبت سے لبریز ہے۔

کتاب ’احد‘ میں شاہ روم خان ولی نے خدا کی مختلف صفات کا ذکر بڑے ہی منفرد انداز میں کیا ہے۔  وہ خدا کی رحمت، عظمت، قدرت اور بخشش کو ایسے پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ قاری پر ایک روحانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔  ان کے اشعار میں جہاں ایک دلی سکون اور طمانیت محسوس ہوتی ہے، وہیں یہ اشعار خدا کے حضور ایک انسان کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں۔  ولی صاحب کی حمد میں ایک عام انسان کی مشکلات، اس کے دکھ اور اس کی تمنائیں شامل ہیں جو کہ اس کے اللہ سے قریبی تعلق کو اجاگر کرتی ہیں۔

شاہ روم خان ولی نے خدا کی عظمت کو بیان کرنے کے لیے بڑی خوبصورتی سے الفاظ کا انتخاب کیا ہے، اور ہر شعر میں خلوص اور سچائی جھلکتی ہے۔  ان کی شاعری نہایت دلکش اور سادہ ہے، جو کہ قاری کو بنا کسی تکلف کے اللہ کے قریب لے جاتی ہے۔  ولی صاحب نے خدا کی حمد کو اپنے دل کی آواز بنا دیا ہے اور ہر شعر میں عجز و نیاز کی جھلک نمایاں ہے۔

’احد‘ کو ایک حمدیہ مجموعہ ہونے کے ناطے ایک منفرد مقام حاصل ہے کیونکہ ولی صاحب نے خدا سے مکالمہ کرتے ہوئے اپنی مشکلات، پریشانیوں اور معاشرتی نا انصافیوں کو بھی اس انداز سے بیان کیا ہے کہ یہ اشعار ایک عام انسان کے جذبات کی عکاسی بن گئے ہیں۔  انہوں نے اپنی ذات کو خدا کے سامنے پیش کر کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کو بھی شعری رنگ میں ڈھال دیا ہے، جس سے ان کی شاعری میں ایک دلی تعلق اور گہرائی کا عنصر شامل ہو گیا ہے۔

’احد‘ کا یہ مجموعہ یقیناً شاہ روم خان ولی کو ادبی دنیا میں مزید بلند مقام عطا کرے گا۔  ان کی یہ کاوش ان کے لیے دنیا میں عزت و احترام کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی ان کے لیے نجات اور بخشش کا سبب بن سکتی ہے۔  اس کتاب کو ادب کے قارئین کے لیے خاص طور پر اس لیے بھی اہم قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ دل کو چھونے والی شاعری اور خدا کی محبت میں ڈوبے ہوئے اشعار پر مشتمل ہے۔

شاہ روم خان ولی کی ’احد‘ ادب میں ایک نایاب اضافہ ہے، جو اپنی انفرادیت، گہرائی اور روحانی احساسات کی بنا پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔  یہ کتاب نہ صرف ادب کا قیمتی حصہ ہے بلکہ اس کے ذریعے شاعر نے اپنے دل کی سچائیوں کو خدا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

احد سے ایک نظم کا انتخاب دیکھیں

ابد آثار ہے تیری خدائی

 

ابد آثار ہیں مالک

تری قدرتِ کامل کے کرشموں سے

جلوہ آرائی کرتے مناظر

یہ ایٹم سا اک ناچیز ذرہ

اور اس ذرے میں کائنات کے پہلو بہ پہلو ایک مرکز

جو درجنوں اجزاء سے مرکب ہے

اور اس مرکز کے بہر طرف

الیکٹران اور اس جیسے کتنے ہی

غیر مرئی اجزاء یوں گردش کر رہے ہیں

کہ جیسے نظامِ شمسی کے سیارے

سورج کے گرد

اور ایک خلیہ ہے

جو جاندار اشیاء کے جسم کی اکائی ہے

مگر پوری خدائی ہے

مگر کرداروں کا لامحدود سلسلہ ہے

بتایا جا رہا ہے

ہزاروں ’کیریکٹر‘ ہیں

جو اک خلیۂ ناچیز سے منسلک ییں

اور وراثت اگلی نسلوں تک منتقل کر رہے ہیں

ابد آثار ہیں مالک

یہ سب مظاہر

یہ اک زنجیرِ کشش میں باہم جڑے اجسام

یہ زندگی

یہ موت

یہ خواہشات کے بیکراں سمندر

کہ جن میں اٹھتے مد و جزر

ہنگامہ پرور ہیں ازل سے

خدایا!!

ان گنت کہکشاؤں اور ستاروں کے خدا

میرے لفظوں کو حرمت کر دے عطا

اگر کچھ بھی نہیں بے معنی کائنات میں تیری

اگر میں بھی اکائی ہوں

کروڑوں خلیات اور ایٹموں سے

اگر مجھ کو بھی بنایا گیا ہے

یقیناً کوئی مقصد بھی رکھا گیا ہے

مجھے تفہیمِ تخلیقِ جسم و جاں دے

ابد آثار دنیائیں ہیں تیری

مجھے بھی شعورِ زندگی عطا کر

بخش دے اشیاء کی ’وجہ کن‘ کا ادراک

خدایا

خدایا

خدایا

سراپا التماس و دعا ہوں

اشرفِ تخلیق ہوں تو کیونکر

خسارے میں رہا ہوں

مجھے رازِ درونِ ’کن‘ عطا کر

مجھے جو لوگ خاکِ راہ یا گردِ سفر کہتے نہیں تھکتے

انہیں بتلاؤں

کہ حرف و صوت و آہنگ کا تقدس کس کو کہتے ہیں

جو انسانوں کی بقاء سے جڑا ہے

رشتۂ محبت

اسے لفظوں کا لبادہ کیسے دینا ہے

الٰہی!!

سر بسر عجز ہوں

سراپا التجا ہوں

بشر ہوں

اور شعورِ راستی مانگتا ہوں

٭٭٭

 

 

 

رفیع رضا کا ایک شعر

 

ہم آر پار بھی جاویں تو کوئی روک نہ ہو

پر آئینے میں کہاں ایسا راستہ ہووے

رفیع رضا کا یہ شعر گہری فلسفیانہ اور روحانی معانی کا حامل ہے جس میں وہ انسان کے اندرونی سفر اور خود شناسی کی مشکلات کو بیان کرتے ہیں۔  شاعر نے اس شعر میں آئینے کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے اور آر پار دیکھنے کے عمل کو دنیاوی اور باطنی سفر کے تناظر میں پیش کیا ہے۔  آئینہ اور راستہ، دونوں استعارے مل کر شاعر کے خیالات کو ایک خاص معنی دیتے ہیں۔

شاعر کہتا ہے کہ اگر ہم زندگی میں آر پار دیکھنے کا ارادہ بھی کر لیں، یعنی ہر شے کی حقیقت کو سمجھنا چاہیں اور رکاوٹوں سے آزاد ہو جائیں، تو شاید دنیاوی معاملات میں یہ ممکن بھی ہو، مگر آئینے میں، یعنی انسان کے اپنے اندر یہ راستہ واضح نہیں ہوتا۔  شاعر یہاں آئینے کو باطن، خود شناسی، یا انسان کی اندرونی کیفیت کے طور پر پیش کر رہا ہے، جہاں سب کچھ اتنا واضح اور آسان نہیں ہوتا۔

آئینہ ہمیشہ سچائی اور حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، مگر یہاں شاعر کے مطابق آئینہ وہ حقیقت نہیں دکھاتا جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔  آئینے میں راستہ نظر نہیں آتا، کیونکہ انسان کے اندرونی خیالات، جذبات، اور باطنی کیفیتیں اتنی آسانی سے سمجھ میں آنے والی نہیں ہوتیں۔  انسان جب اپنی ذات کی گہرائیوں میں اترتا ہے تو اسے وہاں مختلف اور پیچیدہ سوالات، تضادات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رفیع رضا اس شعر میں یہ بیان کرتے ہیں کہ ہم زندگی میں آسان اور سیدھا راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اپنے اندر جھانکنے کا راستہ ہمیشہ پیچیدہ اور غیر واضح ہوتا ہے۔  خود شناسی کا سفر ایک ایسا راستہ ہے جس میں ہر قدم پر نئے چیلنجز، خوف، اور شکوک و شبہات کا سامنا ہوتا ہے۔  شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ باہر کی دنیا میں تو شاید ہم اپنی مرضی کے مطابق اپنی راہیں چن سکتے ہیں، مگر اپنے اندر جھانک کر سچائی کو دیکھنا کبھی آسان نہیں ہوتا۔

شاعر کا یہ شعر روحانی سفر اور انسانی خودی کو بھی بیان کرتا ہے، جس میں ایک انسان کو اپنی ذات کے آر پار دیکھنے کی خواہش ہوتی ہے۔  مگر اندرونی دنیا میں ایسا سیدھا اور صاف راستہ نہیں ملتا جو انسان کو بآسانی اپنی حقیقت تک پہنچا سکے۔  آئینے میں راستہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنی اندرونی حقیقت کی تلاش میں طرح طرح کی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آئینے کی دنیا میں حقیقت اور سراب کا فرق کبھی واضح نہیں ہوتا۔  شاعر اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ہم اکثر خود کو دھوکے میں رکھتے ہیں کہ شاید ہم اپنے آپ کو جانتے ہیں، لیکن جب اندرونی دنیا کی طرف سفر کرتے ہیں تو ہمیں اپنی کمزوریاں، خواہشات اور ناتمام حقیقتیں نظر آتی ہیں۔  اس طرح کا سفر ایک نفسیاتی و روحانی تلاش ہے، جس میں قدم قدم پر نئے سوالات اور خدشات انسان کا راستہ روک لیتے ہیں۔

رفیع رضا نے اس شعر میں آئینے کو بطور استعارہ استعمال کرتے ہوئے انسانی ذات اور روحانی سفر کی مشکلات کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔  آئینہ انسان کے باطن کو دکھاتا ہے مگر اس کی حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے۔  دنیا میں آر پار دیکھنے کی خواہش تو ممکن ہے، مگر اپنی ذات کے اندر جھانکنا اور سچائی کو قبول کرنا ایک کٹھن راستہ ہے، جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

اسلم راہی کی کلیات ’سفینۂ خواب‘:  ایک جائزہ

 

 

اسلم راہی کی کلیات ’سفینۂ خواب‘ اردو شاعری کے منظر نامے میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔  یہ کتاب ان کے تخلیقی سفر کی مکمل عکاسی کرتی ہے اور اردو شاعری میں ایک نئے انداز، ایک نئی سوچ، اور ایک منفرد طرزِ احساس کا مظہر ہے۔  ’سفینۂ خواب‘ کو اسلم راہی کے کلام کا خلاصہ بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ اس میں انہوں نے زندگی کے مختلف پہلوؤں اور خوابوں کو ایک گہرے اور معنی خیز انداز میں بیان کیا ہے۔

 

زبان و بیان کا حسن

اسلم راہی کی شاعری کی سب سے بڑی خوبی ان کی زبان کا نکھار اور مٹھاس ہے۔  ان کی شاعری میں الفاظ کا انتخاب نہایت شائستہ اور نپا تُلا ہوتا ہے، جس سے ان کی نظموں اور غزلوں میں ایک دلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔  ’سفینۂ خواب‘ میں اسلم راہی نے قدیم اور جدید اسالیب کو خوبصورتی سے یکجا کیا ہے، جس سے ان کی شاعری نہ صرف رواں اور دلنشین ہوتی ہے بلکہ قاری کو زبان کی لطافت اور مٹھاس کا بھرپور احساس بھی دلاتی ہے۔

 

فکری گہرائی اور موضوعات

’سفینۂ خواب‘ میں پیش کردہ اشعار صرف جذبات کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ وہ گہرے فلسفیانہ اور فکری موضوعات پر مبنی ہیں۔  اسلم راہی نے زندگی کے بنیادی سوالات، جیسے حقیقت اور خواب، موت اور زندگی، محبت اور ہجر کو نہایت باریک بینی سے بیان کیا ہے۔  ان کے اشعار میں ایک عجیب سی گہرائی اور فلسفیانہ رنگ جھلکتا ہے، جو قاری کو نہ صرف متاثر کرتا ہے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔  ان کے کلام میں داخلی اور خارجی دنیا کے مختلف پہلوؤں کو ایک متوازن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

 

عصرِ حاضر کی ترجمانی

’سفینۂ خواب‘ اسلم راہی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت ہے، جو عصرِ حاضر کی روح کی ترجمانی کرتی ہے۔  اسلم راہی نے اپنی شاعری میں معاشرتی، سیاسی اور انسانی مسائل کو جدید تناظر میں پیش کیا ہے۔  وہ اپنے اشعار میں موجودہ دور کے چیلنجز اور انسانی جذبات کو بیان کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔  ان کی شاعری میں وہ خواب جھلکتے ہیں جو ایک بہتر دنیا اور انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں، اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے وہ قاری کو اپنے ساتھ ایک فکری سفر پر لے جاتے ہیں۔

 

محبت اور جذبات کی لطافت

اسلم راہی کی شاعری میں محبت کا موضوع ایک اہم مقام رکھتا ہے، اور ’سفینۂ خواب‘ میں ان کے کلام میں محبت، ہجر، وصل، اور انسانی جذبات کی لطافت کو انتہائی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔  ان کے اشعار میں ایک خاص قسم کی نرمی اور احساسات کی گہرائی ہوتی ہے، جو قاری کو اپنے جذبات سے جوڑ دیتی ہے۔  محبت کے مختلف رنگ اور اس کے پیچیدہ جذبات ان کی شاعری میں انتہائی دلکش انداز میں بیان کیے گئے ہیں، جو قاری کے دل کو چھو لیتے ہیں۔

 

کلام کی پختگی

’سفینۂ خواب‘ میں اسلم راہی کے کلام کی پختگی واضح طور پر جھلکتی ہے۔  ان کے اشعار میں ایک خاص حسن، تسلسل اور فکری پختگی موجود ہے، جو ان کے تخلیقی سفر کے ارتقاء کی نشاندہی کرتی ہے۔  وہ مختلف موضوعات کو اس مہارت سے سمیٹتے ہیں کہ ہر شعر قاری کے ذہن میں ایک تصویر باندھ دیتا ہے۔  ان کا ہر شعر ایک منفرد پیغام دیتا ہے اور ان کی سوچ کی گہرائی اور وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔

 

نتیجہ

’سفینۂ خواب‘ اسلم راہی کی شاعری کا ایک شاہکار مجموعہ ہے، جو نہ صرف ان کے تخلیقی سفر کی جھلک پیش کرتا ہے بلکہ اردو شاعری کے قارئین کے لیے ایک قیمتی خزانہ بھی ہے۔  یہ کلیات زبان کی مٹھاس، فکر کی گہرائی، اور عصرِ حاضر کی نمائندگی کا حسین امتزاج ہے۔  اس کتاب کے مطالعے سے قاری کو ایک نیا زاویہ نظر ملتا ہے اور وہ خوابوں کی دنیا میں ایک خوبصورت سفر پر نکلتا ہے۔  اسلم راہی کی یہ کلیات اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، اور یہ کتاب ہر عاشقِ اردو کے کتب خانے کا لازمی حصہ ہونی چاہیے۔

 

چند اشعار دیکھیں

اب کے برس خرابیِ موسم نہ پوچھیے

وہ لو چلی کہ خلقِ خدا چیخنے لگی

۔

اک تری تصویر ہو بس روبرو کوئی نہ ہو

گفتگو ہوتی رہے پیہم تری تصویر سے

۔

گھٹن کچھ اور بھی ایسا نہ ہو کہ بڑھ جائے

کواڑ کھول کے رکھنا ہوا ضروری ہے

۔

نہ جانے کتنی ہی باتیں ہیں اس سے کہنے کو

پر اس کے سامنے کچھ بھی کہا نہ جائے گا

۔

بارش ہوئی تو پاس کی دیوار گر پڑی

کل رات مجھ غریب کے خستہ مکان پر

۔

جس معرضِ حالات میں ہم ارضِ وطن کو

اب دیکھ رہے ہیں کبھی ایسا نہیں دیکھا

۔

میں یہی سوچ کے ساحل سے پلٹ آیا ہوں

جو تہی آب ہیں وہ کیا مجھے گوہر دیں گے

۔

یہ الگ بات کہ ملتی نہیں سب کو تعبیر

ورنہ ہر شخص نے اک خواب سجا رکھا ہے

۔

شہباز مجھ میں ہیں مری پرواز کے لئے

تم اپنے بال و پر کی ہوائیں مجھے نہ دو

۔

سورج آخر کس رستے سے آئے گا

روزن میں جب دھوپ بھی کالی ہوتی ہے

۔

ساون سے ایک بوند بھی پانی نہیں ملا

پانی کے اشتباہ میں کائی ملی مجھے

۔

وزن نہیں کر پاتے شاید اپنی باتوں کا

اہلِ سیاست بچوں جیسی باتیں کرتے ہیں

۔

اکیلا ہوں میں اپنی انجمن میں

کوئی میرا نمائندہ نہیں ہے

۔

جو قد ہے آپ کا سو وہی قد ہے آپ کا

اوروں کو اپنے سائے سے ناپا نہ کیجئے

۔

شہرِ زنداں میں کوئی بات نئی بات نہیں

کل ملی تھی جو خبر آج کے اخبار کی ہے

٭٭٭

 

 

 

ابتسام۔  اکرم جاذب کا نیا مجموعہ

 

اکرم جاذب کا نیا شعری مجموعہ ابتسام ابھی ابھی موصول ہوا۔  اس کا نام پڑھ کر خدائے سخن میر تقی میر کا ایک شعر یاد آ گیا

زنجیر پا ہے اس کی تری زلف غالباً

مدت ہوئی نسیم نہیں کرتی ابتسام

ابتسام کے معانی ہیں شگفتگی، تبسم اور مسکراہٹ۔  پر آشوب اور مایوسی کی فضا میں جب ہر طرف پژمردگی اور قنوطیت نظر آتی ہے ایسے میں مسکراتا اور رجائیت سے بھرپور اکرم جاذب کا نیا شعری مجموعہ *ابتسام* اردو ادب میں ایک تازہ اور خوشگوار اضافہ ہے، جو ان کے ادبی سفر کی تازہ جہتوں کو نمایاں کرتا ہے۔  اس مجموعے میں اکرم جاذب نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو نہایت سلیقے اور گہرائی سے بیان کیا ہے۔  ان کی شاعری میں موجود جذبہ، فکر اور تجربے کا امتزاج متاثر کن ہے

*ابتسام* میں شامل غزلوں میں جذباتی کیفیتوں کا بیان، انسانی رشتوں کی پیچیدگیاں، زند کی کا رجائی پہلو، امید کی قوت اور زندگی کے فلسفیانہ پہلوؤں کا عکاس ہے۔  اکرم جاذب کے الفاظ کا چناؤ اور تراکیب کی سادگی کے باوجود معنوی گہرائی، ان کی شاعری کا جزو اعظم ہے، جو قاری کے لئے نیک فال ہے۔  مجموعی طور پر، *ابتسام* اردو شاعری کے شائقین کے لیے ایک لاجواب تحفہ ہے، جو انہیں ایک نیا فکری اور جذباتی تجربہ فراہم کرتا ہے اور قنوطیت کے دور میں امید کی کرن دکھاتا ہے۔

ایک غزل دیکھیں

تازہ کرنے میں زمانہ نہیں ہونے دوں گا

اب کے میں زخم پرانا نہیں ہونے دوں گا

خانۂ ویرانی دریچے نئے وا کرتی ہے

جانے والے کو روانہ نہیں ہونے دوں گا

آڑے آنے نہیں دیتے ہیں ملاقات میں جسم

کارگر کوئی بہانہ نہیں ہونے دوں گا

مصرع ء تر کے لیے اشک بہاؤں گا نہیں

کبھی خالی یہ خزانہ نہیں ہونے دوں گا

دوسرا کوئی ہدف آپ چنیں یا نہ چنیں

دل کو ہر بار نشانہ نہیں ہونے دوں گا

ژندہ رہنے کے لئے آپ ضروری نہ رہیں

خود کو اتنا بھی توانا نہیں ہونے دوں گا

صورتِ شعر کھلاؤں گا سمن اور گلاب

اپنے خوابوں کو فسانہ نہیں ہونے دوں گا

آپ سرشار رہے ہیں مری دیوانگی سے

دلِ ناداں کو میں دانا نہیں ہونے دوں گا

٭٭٭

 

 

 

فرحانہ عنبر کی شاعری:  ایک مطالعہ

 

 

اردو شاعری کی روایت میں، جہاں کلاسیکی اور جدیدیت کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، وہاں فرحانہ عنبر کا نام ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔  انہوں نے غزل کی صنف میں اپنی شاعری کو نہ صرف روایتی موضوعات جیسے عشق و محبت، غم اور تصوف سے مالا مال کیا بلکہ نئے موضوعات کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے شامل کیا۔

فرحانہ عنبر کا اصل نام فرحانہ ہے اور وہ ’عنبر‘ کے تخلص سے شاعری کرتی ہیں۔  ان کی پیدائش 18 اگست 1981  کو گوجرانوالہ میں ہوئی، جہاں ان کا ادبی ماحول میں پرورش پانا یقینی طور پر ان کی شاعری پر گہرا اثر ڈالنے کا باعث بنا۔  ان کے دادا، نصیر احمد ناصر، خود بھی ایک شاعر تھے، اور ان کی والدہ تدریس کے شعبے سے وابستہ تھیں۔  اس ادبی پس منظر نے عنبر کو شاعری کی طرف مائل کیا اور انہیں اپنے احساسات اور خیالات کو اشعار میں ڈھالنے کا موقع فراہم کیا۔

فرحانہ عنبر کی شاعری کا ایک نمایاں پہلو ان کی غزلوں میں پایا جانے والا موضوعاتی تنوع ہے۔  اگرچہ اردو غزل کو عموماً حسن و عشق اور ہجر و وصال کے جذبات کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے، لیکن عنبر نے ان موضوعات کو ایک نئے زاویے سے پیش کیا۔  ان کے اشعار میں زندگی کی مشکلات سے لڑنے کا عزم اور سماجی مسائل کا بیان بھی ملتا ہے، جو ان کی شاعری کو مزید پر اثر بناتا ہے۔

عنبر کی شاعری میں عشق کی وہی گہرائی اور شدت پائی جاتی ہے جو کلاسیکی اردو غزل کا خاصہ ہے، لیکن ان کا انداز بیان منفرد ہے۔  وہ اپنے محبوب کی موجودگی کو کائنات کے ذرے ذرے میں محسوس کرتی ہیں اور ان کی شاعری میں یہ جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔  ان کے اشعار میں خواب بھی ایک اہم موضوع کے طور پر نظر آتے ہیں، جہاں وہ اپنے خوابوں کے ذریعے حقیقت کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز کرتی ہیں۔

ان کی شاعری میں ترقی پسندانہ لہجہ بھی دکھائی دیتا ہے، جہاں غربت، طبقاتی کشمکش، اور معاشرتی مسائل کا ذکر ملتا ہے۔  عنبر کی شاعری میں ذاتی اور سماجی غم کا بیان ملتا ہے، اور ان کے اشعار میں دعائیہ انداز بھی پایا جاتا ہے، جو ان کی شاعری کو ایک خاص روحانیت عطا کرتا ہے۔

فرحانہ عنبر کی شاعری نے اردو غزل کی روایت میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔  ان کی غزلیں ایک طرف روایتی موضوعات کی خوبصورتی کو زندہ رکھتی ہیں، اور دوسری طرف انہیں جدید اور نئے موضوعات سے مزین کرتی ہیں۔  ان کی شاعری میں پایا جانے والا تنوع اور انفرادیت انہیں اردو ادب کے نمایاں شاعروں میں شامل کرتی ہے۔

ایک غزل دیکھیں

پھر پسینہ جبین سے نکلا

سانپ جب آستین سے نکلا

لڑتے لڑتے ہی مر گئے سارے

جب خزانہ زمین سے نکلا

سلسلہ اپنی خوش نمائی کا

آپ سے اک حسین سے نکلا

مجھ کو حیرت نہیں ہوئی کچھ بھی

دوست جب حاسدین سے نکلا

دھند پھر چھٹ گئی مناظر سے

خوف جب ناظرین سے نکلا

لوگ شک کر رہے تھے غیروں پر

گھر کا قصہ مکین سے نکلا

منزلیں پاس آ گئیں چل کر

جب مسافر یقین سے نکلا

لفظ شہرت کا اصل معنی تو

ایک گوشہ‌ نشین سے نکلا

راز دونوں کے تھا جو سینوں میں

آج کیسے وہ تین سے نکلا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نقشِ خاک۔  احسان گھمن

 

احسان گھمن کا شمار جدید اردو شاعری کے نمایاں ناموں میں ہوتا ہے۔  2 مارچ 1981  میں گجرات کے مضافاتی قصبے جلالپور جٹاں میں پیدا ہونے والے احسان گھمن نے اپنی شاعری میں دیہی زندگی کی سادگی اور مٹی کی خوشبو کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔  شعبہ صحت سے وابستہ ہونے کے باوجود، ان کا ادبی سفر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔

ان کا پہلا مجموعہ کلام ’نقش خاک‘ 81 غزلیات پر مشتمل ہے۔  اس کتاب کا فلیپ مشہور شعرا قمر رضا شہزاد اور افضل گوہر نے لکھا ہے جبکہ بیک پر عباس تابش کا تبصرہ شامل ہے۔  عباس تابش کے مطابق، احسان گھمن کی شاعری اپنی مٹی سے جڑی ہوئی ہے اور وہ کئی نئے جہانوں کی تخلیق کر رہے ہیں۔  قمر رضا شہزاد نے انہیں ایک ایسے تخلیق کار کے طور پر سراہا ہے جو شہروں سے دور رہ کر غزل کے پھول کھلا رہے ہیں۔

احسان گھمن کی شاعری میں ندرت اور اچھوتا پن نمایاں ہے جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کی عکاسی کرتا ہے۔  ان کے اشعار میں تخیل اور الفاظ کے تال میل سے طلسماتی مناظر کی تخلیق ہوتی ہے۔  ان کے کلام میں جدید شاعری کے رجحانات اور شعر کی جدید کرافٹ کا بھرپور استعمال نظر آتا ہے۔

افضل گوہر کے مطابق، احسان گھمن کی شاعری میں سماجی مسائل کے ادراک اور بیان میں نیا پن پایا جاتا ہے۔  ان کے اشعار دل میں اتر جانے اور دیر تک ذہن میں رہنے کی خصوصیت رکھتے ہیں۔  ان کی غزلوں میں دیہی زندگی کی سادگی اور زمینی حقائق کی جھلک ملتی ہے، جس سے ان کے کلام میں ایک طلسماتی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

احسان گھمن کی شاعری جدید اردو ادب میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔  ان کا کلام دیہات کی سادگی اور مٹی کی خوشبو سے معطر ہے، جو قارئین کے دلوں میں گھر کر جاتی ہے۔  انہوں نے ثابت کیا ہے کہ مضافات میں بھی خوبصورت ادب تخلیق ہو رہا ہے جو اپنے اثرات سے قارئین کو متاثر کر رہا ہے۔  ان کی شاعری پڑھتے ہوئے قاری ایک نئے جہان میں داخل ہو جاتا ہے جہاں ہر منظر اپنی منفرد خوبصورتی اور معنی رکھتا ہے۔

 

چند اشعار

۔۔۔۔۔

گود میں پنچھی تو شاخوں پہ ثمر رکھتے ہیں

یہ شجر ماں کی طرح دستِ ہنر رکھتے ہیں

۔۔۔۔

یہ ضروری تو نہیں ہجرت پرندے ہی کریں

دھوپ جس کو بھی لگی وہ سائباں میں آ گیا

۔۔۔۔

ستارہ کوئی بھی باہر نہیں نکل سکتا

یہ کائنات کسی حاشیے میں گھومتی ہے

۔۔۔۔۔۔

میں اس لئے بھی شجر کاٹتا نہیں احسان

کہ تیز دھوپ میں میرا مکان جلتا ہے

۔۔۔

میرے دشمن تو ٹوٹ جائے گا

حوصلہ رکھ دیا چٹانوں پر

۔۔۔۔

آ گئی میری زمیں پر کون سے سورج کی دھوپ

بھاگتے جاتے ہیں سارے سائبانوں کی طرف

۔۔۔۔

سروں پہ دھوپ پڑی ہے تو یاد آیا ہمیں

کوئی درخت زمیں پر لگانا چاہئیے تھا

۔۔۔

جہاں پہ ابرِ رواں کا بتا کے لائے ہو

وہاں تو پیڑ کی چھاؤں بھی ملنے والی نہیں

۔۔۔

ایسا جڑا ہوا ہوں ترے آسمان سے

رشتہ نہیں ہو جیسے مرا خاک دان سے

۔۔۔۔

کچھ سلیقہ ہو اگر دیکھنے کا

قطرہ قلزم سے بڑا لگتا ہے

۔۔۔۔

دیکھتے کیا جہان سے آ گے

کچھ نہیں آسمان سے آ گے

۔۔۔۔

تم نے تو کہہ دیا ہے کہ بستی جلی نہیں

لیکن یہاں پہ ایک بھی تتلی بچی نہیں

۔۔۔

چھپا لیے در و دیوار تازہ بیلوں سے

کچھ ایسے نقشہ مکاں کا بدل دیا ہم نے

۔۔۔

اس بار یوں ہوا کہ بیاباں کی دھوپ میں

میرے ہر ایک پیڑ کا سایا جھلس گیا

۔۔۔

قریب یوں ہی نہیں آ کے بولتی ہے مرے

یہ زندگی تو بڑے راز کھولتی ہے مرے

٭٭٭

 

 

سمے کا دھارا از یوسف خالد

 

یوسف خالد اردو شاعری میں ایک منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔  ان کی شاعری کا اسلوب الفاظ اور جذبات کی خوبصورت جادوگری ہے، جو قاری کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے۔  یوسف خالد کی نثری نظموں کی کتاب ’سمے کا دھارا‘ ان کے تخلیقی سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے، جس میں فکری اور جمالیاتی اعتبار سے قابلِ تحسین نظمیں شامل ہیں۔

یوسف خالد کی شاعری میں مستقبل کے امکانات کی تلاش اور ماضی کی بازگشت دونوں شامل ہیں۔  ان کی نظموں میں سادگی اور پرکاری کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے، جس سے ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کی تازگی اور جاذبیت پیدا ہوتی ہے۔  ان کی نظموں میں محبت، فطرت، اور کائنات کی خوبصورتی کی عکاسی کی گئی ہے، جس سے قاری ہمیشہ مزید پڑھنے کی خواہش رکھتا ہے۔  ان کی شاعری میں رجائیت پسندی کا رنگ نمایاں ہے، اور کہیں کہیں صوفیانہ جھلک بھی محسوس ہوتی ہے۔

یوسف خالد کی نظموں میں ’چیتر‘، ’حصار’، ’موسمِ گل‘، ’قوتِ نمو‘، ’آواز اور روشنی‘، اور ’بساط‘ جیسی نظمیں شامل ہیں۔  یہ نظمیں ان کی فکری اور جمالیاتی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتی ہیں۔

یوسف خالد کی نظموں میں احساس اور جذبے کو فکر اور تدبر سے ہم آہنگ کر کے ترفع عطا کیا گیا ہے۔  ان کی نظموں میں سادگی میں پُرکاری موجود ہے، جو ان کے اسلوب کو منفرد بناتی ہے۔  ان کی شاعری میں وہ ابہام اور گنجلک پن نہیں پایا جاتا جو جدید شعرا کے ہاں موجود ہوتا ہے، بلکہ ان کی سادگی میں بھی ایک گہرائی اور معنویت پائی جاتی ہے۔

یوسف خالد کی شاعری میں لفظوں کی حرمت کو مجروح نہیں کیا جاتا، بلکہ ان کی توقیر قائم رکھی جاتی ہے۔  وہ محبوب کے حسن کو کچھ اس انداز سے مصور کرتے ہیں کہ وہ کسی جادو سے کم نہیں ہوتا۔  ان کی نظمیں عالمِ لاہوت سے اترا ہوا تحفہ یا باہمی احساس میں بانٹی ہوئی خوشبو محسوس ہوتی ہیں۔

یوسف خالد کی شاعری کا مجموعی جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کا تخلیقی سفر جاری ہے اور ان کی نثری نظمیں اپنی خوشبو سے شاعری کے ماحول کو معطر کرتی رہیں گی۔  ان کی نظموں کی برجستگی، فکر کی نفاست، اور اسلوب کی تازہ کاری سے نئی نظموں کی کونپلیں پھوٹتی رہیں گی۔

یوسف خالد کی شاعری نہ صرف ادبی حلقوں میں بلکہ عام قارئین میں بھی مقبول ہے۔  ان کی نظموں کا مطالعہ ایک منفرد تجربہ فراہم کرتا ہے جو قاری کو زندگی اور کائنات کے مختلف پہلوؤں سے روشناس کرواتا ہے۔

یوسف خالد کی شاعری کی جمالیاتی اور فکری خوبصورتی ان کے قاری کو ہمیشہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور ان کی نظموں کی خوشبو ان کے تخلیقی سفر کی مزیدار داستان بیان کرتی ہے۔  ان کا اسلوب اور طرز فکر اردو شاعری کے منظر نامے میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

کربِ زیست:  جاوید جدون

 

جاوید جدون ہمارے عہد کے نمایاں شاعروں میں سے ہیں۔  ان کی شاعری میں زندگی کے تلخ حقائق، انسانی جذبات اور مشاہدات کی گہرائی پائی جاتی ہے۔  ان کا شعری مجموعہ ’کرب زیست‘ ان کے اس فن کا عمدہ نمونہ ہے۔  جاوید جدون کی شاعری میں ہمیں ایک مخصوص گہرائی اور تفکر ملتا ہے۔  ان کے اشعار میں زندگی کے تلخ حقائق، معاشرتی مسائل اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔  وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں اور ان اثرات کو اپنی شاعری میں بیان کرتے ہیں۔  ’کرب زیست‘ میں جاوید جدون نے اپنے خیالات کو مختلف رنگوں میں پیش کیا ہے۔  ان کے اشعار میں ہمیں موجودہ زمانے کے وہی مسائل نظر آئیں گے جن سے ہم نبرد آزما ہیں .

جاوید جدون کی شاعری۔  روحِ عصر کی ترجمان ہے۔  وہ اپنے اشعار میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں۔

جاوید جدون کی شاعری کی ایک بڑی خصوصیت ان کے اظہار کی بے باکی ہے۔  ان کے اشعار میں ہمیں للکار اور جرات کی نمو ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اشعار قارئین کو متاثر کرتے ہیں۔

جاوید جدون کا شعری مجموعہ ’کرب زیست‘ میرے نزدیک نیم باغیانہ جذبات کا مرقع ہے۔  ان کی شاعری میں زندگی کی حقیقتیں، انسانی جذبات اور معاشرتی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے۔  ان کے اشعار قاری کو گہرائی سے سوچنے پر مجبور کرتے ہیں اور ان کے دل میں ایک نیا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔  ’کرب زیست‘ میں شامل اشعار ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔  ان کی شاعری کا ہر شعر زندگی کے حسن و قبح کا عکاس ہے وہ محبت کے ساتھ ساتھ سیاست اور انسان کے دوغلے پن کو بھی مہارت سے اپنی شاعری کے کینوس پر تصویر کرتے ہیں اس طرح وہ قاری کے دل و دماغ میں ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

اس کتاب سے چند اشعار دیکھیں

دیوار کو تھامو گے تو گرنے سے بچے گی

یہ کس نے کہا سایۂ دیوار کو پکڑو گے

۔

ارے چِلا نہ یوں ہم پر ذرا آواز دھیمی رکھ

ہمیں آتا ہے تالو سے زباں کو کھینچ کر لانا

۔

آج پھر نیند نے آنکھوں سے بغاوت کر دی

پھر ترے خواب کے امکاں سے لڑا کوئی

۔

مجھ کو زیاں سے مت ڈرا اے صاحبِ عدو

کُرتا ہے میرا ایک ہی وہ بھی پھٹا ہوا

۔

ترسیں گے کڑی دھوپ میں سائے کو کسی دن

وہ لوگ جو اشجار گرانے میں لگے ہیں

۔

یہ محبت تو مرے سر کی ہے دستار میاں

یہ ترے پاؤں کی زنجیر نہیں ہو سکتی

۔

باطل سے لڑ کے پا چکا ہوں دائمی حیات

مورکھ سمجھ رہے ہیں کہ مارا گیا ہوں میں

۔

سچ ہی نکلا مرا دعویٰ کہ نہیں تجھ سی حسیں

تجھ کو دیکھا جو بٹھا کر تری تصویر کے ساتھ

۔

کیا تم کو بتائیں گے شجر وہ جو کھڑے ہیں

آندھی کی تباہی خس و خاشاک سے پوچھو

۔

کبھی اٹھا کے میں چلتا ہوں راستے سر پر

کبھی لیے ہوئے چلتی ہے رہگزر مجھ کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

نصیر احمد ناصر کی ایک نظم کا تجزیہ

 

 

متن

خواب جہاں رستے بن جاتے ہیں

 

میرے خواب دیکھتے ہوئے

تمہاری آنکھیں

ڈوبتی شام کی طرح

خوبصورت اور اداس لگتی ہیں

میری موجودگی کے لمس میں بھیگے ہوئے

تمہارے ہونٹ

مٹیالے بادلوں سے نکلتی ہوئی

قوس قزح جیسے لگتے ہیں

میری بانہوں کے جنگل میں

تم درخت بن جاتی ہو

گھنی بارشوں کی آواز

اور پرندوں کی پھڑپھڑاہٹیں

تمہاری شاخوں سے ٹپکنے لگتی ہیں

میری قربت اوڑھے ہوئے تمہارا جسم

رات کے کسی کنارے سے

چاند کی طرح طلوع ہونے لگتا ہے

اور گھاٹیاں سفید پھولوں سے بھر جاتی ہیں

میری باتوں کے سناٹے میں

تمہارے لفظ رستہ بھول جاتے ہیں

اور تم رونے لگتی ہو

میرے ساتھ چلتے ہوئے

تمہارا ہاتھ، میرے ہاتھ میں رہتا ہے

اور میں تم سے بہت دور نکل جاتا ہوں

تمہاری تلاش میں

خواب جہاں رستے بن جاتے ہیں

 

تجزیہ

نصیر احمد ناصر کی نظم ’خواب جہاں رستے بن جاتے ہیں‘ محبت اور خوابوں کی پیچیدہ دنیا کی عکاسی کرتی ہے۔  یہ نظم دلکش اور خوبصورت تشبیہوں اور استعارات سے بھری ہوئی ہے، جو قاری کو ایک جادوئی اور خوابناک ماحول میں لے جاتی ہے۔

نظم کا آغاز شاعر کی خواب دیکھنے کی کیفیت سے ہوتا ہے۔  ’میرے خواب دیکھتے ہوئے، تمہاری آنکھیں‘ شاعر کی نظر میں معشوق کی آنکھوں کو شام کی خوبصورتی اور اداسی سے تشبیہ دی گئی ہے۔

’میری موجودگی کے لمس میں بھیگے ہوئے، تمہارے ہونٹ‘ یہاں شاعر معشوق کے ہونٹوں کو قوس قزح سے تشبیہ دیتے ہیں جو مٹیالے بادلوں سے نکلتی ہے۔  اس تشبیہ سے شاعر معشوق کی خوبصورتی اور تازگی کو بیان کرتا ہے۔

’میری بانہوں کے جنگل میں، تم درخت بن جاتی ہو‘ شاعر معشوق کی موجودگی کو جنگل اور بارش کی آوازوں سے جوڑتا ہے، جو شاعر کی بانہوں میں ایک قدرتی مناظر کی شکل اختیار کرتی ہے۔

’میری قربت اوڑھے ہوئے تمہارا جسم، رات کے کسی کنارے سے، چاند کی طرح طلوع ہونے لگتا ہے‘ اس مصرعے میں شاعر نے معشوق کی قربت کو چاند کی روشنی سے تشبیہ دی ہے، جو رات کی خاموشی میں ایک خوابناک منظر پیش کرتا ہے۔

’میری باتوں کے سناٹے میں، تمہارے لفظ رستہ بھول جاتے ہیں‘ شاعر کے الفاظ کے سناٹے میں معشوق کے لفظوں کا گم ہو جانا، ان کی محبت کی گہرائی اور پیچیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

’اور میں تم سے بہت دور نکل جاتا ہوں، تمہاری تلاش میں‘ یہ مصرع شاعر کی محبت اور جستجو کو بیان کرتا ہے، جو خوابوں کی دنیا میں گم ہو کر بھی معشوق کی تلاش میں ہے۔

نصیر احمد ناصر کی یہ نظم محبت، خواب، اور قدرت کی خوبصورتی کو خوبصورت انداز میں پیش کرتی ہے۔  ان کے الفاظ کا چناؤ اور تشبیہیں قاری کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتی ہیں جہاں خواب اور حقیقت کے درمیان کی لکیر مدھم ہو جاتی ہے۔  نظم کی ہر سطر ایک نئی تصویر بناتی ہے، جو قاری کو جذبات کی گہرائی میں لے جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

حسن عباس رضا کی شاعری

 

حسن عباس رضا نے کوچۂ شعر میں اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ آوارہ گردی میں گزارا، اور انہیں بہت سے الزامات اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر ان کا دل ہر داغ سے خالی ہے جز ندامت کے۔  ان کا جنم ۲۰ نومبر ۱۹۵۱  کو راولپنڈی کے ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے میں ہوا۔  ان کے والد، صوفی محمد زمان، ایک فرشتہ صفت، ہمدرد اور نیک انسان تھے، جبکہ ان کی والدہ کا نام زینب بی بی تھا۔  حسن عباس رضا کے والد نے فارسی اور اردو کی تعلیم میں ہزاروں طلباء کو درس دیا، جس کا اثر حسن عباس رضا کی تربیت پر بھی پڑا۔

حسن عباس رضا نے اسلامیہ ہائی سکول، راولپنڈی سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی، جس کے بعد گورنمنٹ کمرشل کالج سے ڈی کام، اور پھر پرائیویٹ بی اے اور ایم اے کیا۔  ان کے مطابق شاعری ان پر سکول کے زمانے ہی میں مہربان ہوئی تھی، اور پہلا شعر ۱۹۷۲  میں لکھا۔  انہوں نے فیض احمد فیض کی نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘ پڑھ کر ہی شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔

حسن عباس رضا نے محکمہ تعلیم پنجاب سے سرکاری ملازمت کا آغاز کیا، اور بعد میں احمد فراز کی دعوت پر اکیڈمی آف لیٹرز میں شامل ہو گئے۔  وہاں انہوں نے چھ برس تک فرائض سرانجام دیے۔  ان کے ادبی میگزین ’’خیابان‘‘ کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی اور انہیں گرفتار کیا گیا، مگر وہ پھر بھی اپنے کام میں مصروف رہے۔

ان کے اہم شعری مجموعے ’خواب عذاب ہوئے‘ (۱۹۸۵ )، ’نیند مسافر‘ (۱۹۹۵ )، اور ’تاوان‘ (۲۰۰۴ ) ہیں۔  ان کی شاعری میں ہجرت کے کرب اور درد کو بیان کیا گیا ہے، اور ان کی نظمیں اور غزلیں اس درد کو بخوبی اجاگر کرتی ہیں۔  ان کی شاعری میں درد مندی، عصری شعور، اور محبت کے موضوعات نمایاں ہیں۔

۲۰۰۰  میں حسن عباس رضا کو امریکہ جانا پڑا، جہاں انہوں نے نیویارک میں قیام کیا۔  ان کی شاعری میں ہجرت کے کرب اور درد کو بیان کیا گیا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں درد مندی، عصری شعور، اور محبت کے موضوعات نمایاں ہیں۔

حسن عباس رضا کی شاعری میں ایک منفرد رنگ ہے، جس میں روایتی اور جدید خیالات کا امتزاج پایا جاتا ہے۔  ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات نے ان کی شاعری کو ایک نیا موڑ دیا ہے، جس کے باعث ان کی تخلیقات اردو ادب میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔  ان کی زندگی کے تلخ و شیریں تجربات نے ان کی شاعری میں گہرائی اور وزن پیدا کیا ہے۔

حسن عباس رضا کی شاعری میں عشق کی نازکی، ہجر کی کرب، اور زندگی کی حقیقتیں سبھی ملتی ہیں۔  ان کے الفاظ میں ایک خاص قسم کی سچائی اور خلوص ہے، جو ان کی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔  ان کے اشعار میں محبت کی لطافت اور درد کی گہرائی کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔  ان کی شاعری نہ صرف ایک عہد کی داستان ہے بلکہ ایک انسان کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کی بھی ترجمان ہے۔

حسن عباس رضا کی شاعری ایک منفرد انداز رکھتی ہے، جس میں کلاسیکی اور جدید دونوں عناصر کا امتزاج ہے۔  ان کی غزلیں اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں، اور ان کے اشعار دلوں کو چھو لیتے ہیں۔  ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کی جاذبیت اور دلکشی ہے، جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

حسن عباس رضا کی شاعری کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زندگی کی تلخیوں اور شیریں لمحوں کا حسین امتزاج ملتا ہے۔  ان کی شاعری میں وہ احساسات اور جذبات موجود ہیں جو انسان کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔  ان کی شاعری میں ایک خاص قسم کا رومانوی رنگ ہے، جو قاری کو ایک نئی دنیا میں لے جاتا ہے۔ ان کے اشعار دور سے پہچانے جاتے ہیں۔

چند اشعار دیکھیں

۔

ہم دونوں مستانوں کی اک خواہش ملتی جلتی ہے

مجھ کو شہزادی، اُس کو شہزادے اچھے لگتے ہیں

۔

سیلابِ غمِ ہجر اُتر جائے تو ملنا

جب صبر ترا حد سے گزر جائے، تو ملنا

ہم ایسے مقّدر کے سکندر بھی نہیں ہیں !

پھر بھی جو کوئی شام سنور جائے تو ملنا

۔

قمار خانۂ جاں میں ہارنا کچھ تو !

سو، ہم نے زندگی ہاری ہے، کیا کِیا جائے

برہنہ پا ہی نہیں ہُوں حسنؔ بہ نوکِ سناں

مرے تو سر پہ آری ہے، کیا کِیا جائے

۔

ڈسے گا بے بسی کا ناگ جانے اور کب تک

نہ جانے اور کتنے دن یہ نقشہ دیکھنا ہے

۔

حسن عباس رضا ہمارے عہد کا اثاثہ ہیں شاعری کے ساتھ ساتھ انہیں موسیقی سے بھی بہت دلچسپی ہے وقت کے مشہور گلوکاروں سے ان کا تعلق رہا ہے۔  میڈم نور جہاں سے تو ان کی پکی دوستی تھی۔  موسیقی کا یہ شوق صرف سننے کی حد تک نہیں وہ خود بھی بہت اچھا گاتے ہیں۔  اللہ ان کی عمر دراز فرمائے آمین

٭٭٭

 

 

 

 عابد رضا کی شاعری:  ’روزنِ سیاہ‘

 

عابد رضا کا اولین شعری مجموعہ ’روزنِ سیاہ‘ ان دنوں ادبی حلقوں میں زبردست توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔  ان کی شاعری کی سحر انگیز کیفیت اور مسحور کن جذبات سے بھرپور انداز نے قارئین کو ششدر کر دیا ہے۔  عابد رضا کی شاعری کا جمالیاتی کینوس قاری کو کئی مختلف جہانوں کی سیر کراتا ہے، اور ہر شعر ایک نئی حیرت انگیزی کی لذت سے روشناس کراتا ہے۔

عابد کی شاعری وقت اور مقام کی قید سے آزاد ہے۔  ان کے اشعار کی گہرائی اور معانی کی پرتیں قاری کو بارہا متعجب کرتی ہیں۔  ایسی شاعری جو ہر دور اور ہر زمانے کی عکاسی کر سکے، ہمیشہ زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔  عابد کی شاعری بھی اسی معیار کی ہے، جو زمان و مکان کی حدود سے بلند ہو کر قاری کے دل و دماغ پر حکمرانی کرتی ہے۔  ان کی شاعری میں قدیم اور جدید کا حسین امتزاج ان کو دیگر شعرا سے ممتاز بناتا ہے۔

عابد رضا کی شاعری کا ایک اہم پہلو ان کا سائنسی مظاہر کو شعری انداز میں پیش کرنا ہے۔  ان کی شاعری میں سائنس جیسے غیر رومانوی موضوعات بھی ایک روحانی اور وجدانی پیرہن میں ڈھل کر قاری کے دل کو چھو لیتے ہیں۔  ان کے اشعار میں سائنس اور وجدان کا دلکش امتزاج قاری کو ایک منفرد مسرت سے نوازتا ہے۔

ان کی غزلیں پڑھتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک طلسماتی دنیا میں داخل ہو گیا ہو۔  عابد کے اشعار میں احساسات کی شدت، جذبات کی بھرپور عکاسی اور فطرت کے مناظر اس قدر خوبصورتی سے پیش کیے گئے ہیں کہ قاری بے خود ہو جاتا ہے۔  عابد رضا کی شاعری میں انقلابی اور جدیدیت کے عناصر بھی شامل ہیں۔  ان کی غزلیں پڑھتے ہوئے قاری کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ ایک تاریخی اور جدید منظر نامے میں محو ہو گیا ہو۔  عابد کی شاعری میں مصنوعی ذہانت، مشینوں کے دل اور سائنس کے کمالات جیسے موضوعات بھی شامل ہیں، جو ان کی انفرادیت کو مزید واضح کرتے ہیں۔

عابد رضا کی شاعری میں ایک خاص جادو اور سحر ہے، جو قاری کو اپنے ساتھ ایک طویل اور دلکش سفر پر لے جاتا ہے۔  ان کے اشعار میں پوشیدہ گہرائی اور معنی آفرینی قاری کو بارہا متعجب کرتی ہے۔  عابد رضا کی شاعری کا یہ منفرد انداز اور ان کی انفرادیت انہیں اردو ادب میں ایک ممتاز اور نمایاں مقام دلاتی ہے۔

 

نمونہ کلام

 

افرنگ میں جب میرِ سخن شیکسپیئر تھا

ہم پر جرس ناقۂِ لیلیٰ کا اثر تھا

میداں میں جری اترے کئی میرے مقابل

شاید مری دستار میں سرخاب کا پر تھا

پامال تھا جلتی ہوئی ریتی پہ کوئی جسم

اور طشتِ طِلائی میں کسی اور کا سر تھا

اک عمر ستاروں کے تعاقب میں گزاری

کہتے ہیں خلا زاد بھی سیارہ بدر تھا

یک جنبش انگشت سے بدلے کئی منظر

کیا پردۂِ سیماب پہ جادو کا اثر تھا

جس وقت یہاں دشتِ عدم ہوتا تھا ایجاد

ہم لوگ نہ تھے، قریۂِ موجود مگر تھا؟

اک حرف بھی لکھ پایا نہ قرطاس بقا پر

میں چشمِ فنا خیز میں اک لقمۂ تر تھا

٭٭٭

 

 

طاہر راجپوت۔  نثری نظم نگار

 

طاہر راجپوت اردو شاعری میں نثری نظم کے معروف شاعر ہیں۔  ان کی نثری نظم کی خصوصیات اور ان کا ادبی مقام مندرجہ ذیل ہے:

نثری نظم کی خصوصیات:

  1. آزاد نظم: نثری نظم، جو کہ آزاد نظم کی ایک شکل ہے، میں روایتی قافیہ، وزن، اور بحر کی پابندیاں نہیں ہوتیں۔ یہ شاعری کی ایک ایسی شکل ہے جو آزادی اور تخلیقی اظہار پر زور دیتی ہے۔
  2. جدیدیت: طاہر راجپوت کی نثری نظم میں جدیدیت اور تجزیاتی انداز کا غلبہ ہے۔ ان کی شاعری میں زبان اور موضوعات میں جدت دیکھنے کو ملتی ہے، جو قارئین کو نئے تجربات فراہم کرتی ہے۔
  3. بناوٹ: طاہر راجپوت کی نثری نظم میں جملوں کی بناوٹ اور الفاظ کا چناؤ بہت اہم ہوتا ہے۔ ان کی نظموں میں نثر کی طرح کے جملے اور خیالات کو شاعرانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
  4. موضو عاتی تنوع: ان کی شاعری میں مختلف موضوعات جیسے انسانی جذبات، فلسفے، سماجی مسائل، اور ذاتی تجربات پر توجہ دی جاتی ہے۔ وہ عام طور پر اپنی نظموں میں گہرائی اور پیچیدگی کو شامل کرتے ہیں۔

ادبی مقام:

  1. تخلیقی آزادی: طاہر راجپوت نے نثری نظم کے میدان میں تخلیقی آزادی اور اظہار کی نئی راہیں متعارف کرائیں۔ ان کی نظموں میں آزادی کی تلاش اور فرد کی داخلی حالتوں کی گہرائی کو اجاگر کیا گیا ہے۔
  2. تنقیدی پذیرائی: ان کی نثری نظم نے اردو ادب میں تنقیدی پذیرائی حاصل کی ہے اور ان کے کام کو جدید اردو شاعری کے اہم حصے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔
  3. ادبی اثر: طاہر راجپوت کی نثری نظم نے اردو ادب میں ایک نئے نظریے کو متعارف کرایا ہے، جس نے دیگر شاعروں اور ادیبوں پر بھی اثر ڈالا ہے۔ ان کے کلام نے نثری نظم کی روایت کو نئی سمت دی ہے اور اس کی پذیرائی میں اضافہ کیا ہے۔

ادبی خدمات:

طاہر راجپوت نے اپنی شاعری کے ذریعے اردو ادب میں نثری نظم کی صنف کو فروغ دیا ہے اور اسے ایک نئی شناخت دی ہے۔  ان کی نظموں میں شامل مختلف موضوعات اور نئے تجربات نے انہیں اردو ادب میں ایک اہم مقام دلایا ہے۔

طاہر راجپوت کی نثری نظم اردو شاعری میں ایک اہم مقام رکھتی ہے اور اس نے ادب کے جدید رجحانات کو نیا موڑ دیا ہے۔  ان کی تخلیقات نے نثری نظم کو ایک نئی جہت فراہم کی ہے اور ان کے کام کی تحقیق اور مطالعہ اردو ادب کے طلباء اور محققین کے لیے اہم ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

اکرم جاذب ایک روشن ستارہ

 

اکرم جاذب معاصر غزل کے ایک روشن ستارہ ہیں جن کی شاعری میں ایک منفرد تازگی اور گہرائی موجود ہے۔  ان کی غزلوں میں خیالات کی وسعت اور جذبے کی گہرائی نمایاں ہے، جو ان کے اشعار کو جامدیت سے دور رکھتی ہے۔  اکرم جاذب کا کلام زبان کی شفافیت اور تغزل کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ جدت و روایت کے امتزاج کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔  ان کی شاعری میں ایک قدرتی روانی اور بے ساختگی ہے جو ان کے اشعار کو زندگی کی گہری حقیقتوں سے منسلک کرتی ہے۔  اکرم جاذب اپنے منفرد تخلیقی باطن کی بدولت عصر حاضر کی غزل میں ایک نمایاں مقام حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہیں۔  ان کی شاعری نہ صرف فنی لحاظ سے معیاری ہے بلکہ اس میں زندگی کی گہری حقیقتیں اور انسانی جذبات کی عکاسی بھی بخوبی ہوتی ہے۔  ان کی منفرد تخلیقی سوچ اور جدت پسندانہ رویہ انہیں دیگر معاصر شعراء سے ممتاز بناتا ہے۔

 

نمونہ کلام

شجر سے کچا ثمر توڑ کر بہت رویا

میں جلد باز چمن چھوڑ کر بہت رویا

کھلونے خواب کے بیزار کرنے لگ گئے تھے

پھر اس کے بعد انہیں توڑ کر بہت رویا

جو قدردان نہ تھے ان کے سامنے اپنے

دکھوں کے آبلے میں پھوڑ کر بہت رویا

کہیں بھی جاتا مجھے لے کے راستہ لیکن

دوبارہ اس کی طرف موڑ کر بہت رویا

شکستِ دل پہ نہیں آنکھ نم ہوئی جاذب

مگر یہ کرچیاں میں جوڑ کر بہت رویا

٭٭٭

 

 

 

کومل جوئیہ کی شاعری

 

کومل جوئیہ کی شاعری میں گہرائی اور تخلیقی رنگینی کا امتزاج ہے۔  ان کا سفر شاعری کی دنیا میں ایک دلچسپ اور معیاری ترقی کی کہانی ہے۔  ان کے دونوں شعری مجموعے ان کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں۔

کومل جوئیہ کا پہلا شعری مجموعہ ’ایسا لگتا ہے تجھ کو کھو دوں گی‘ 2013 ء میں شائع ہوا۔  یہ مجموعہ شاعری کی دنیا میں ان کی پہلی بڑی قدم داری ہے، جس نے ادب کی دنیا میں ان کی شناخت کو مستحکم کیا۔  اس مجموعے میں کومل جوئیہ نے جذبات کی پیچیدگی اور انسانی تجربات کو بڑی مہارت سے بیان کیا ہے۔  ان کی شاعری میں ایک نئی جھلک اور تازگی محسوس ہوتی ہے، جو ان کے تخلیقی شعور کی عکاسی کرتی ہے۔

کومل جوئیہ کا دوسرا شعری مجموعہ ’ہاتھ پہ آئی دستک‘ 2022 ء میں منظر عام پر آیا۔  یہ مجموعہ ان کی شاعری کی ترقی اور گہرائی کو نمایاں کرتا ہے۔  اس مجموعے میں، کومل جوئیہ نے اپنی شاعری میں نئی جہتیں تلاش کی ہیں اور انسانی جذبات، زندگی کی پیچیدگیوں، اور محبت کی گہرائی کو نئے انداز میں پیش کیا ہے۔  اس مجموعے میں ان کی شاعری کی ہر لائن میں ایک خاص نوعیت کی حساسیت اور سوچ پائی جاتی ہے، جو قارئین کو دل سے محسوس ہوتی ہے۔

کومل جوئیہ کی شاعری کا تخلیقی اسلوب معیاری اور منفرد ہے۔  ان کی شاعری میں لفظوں کی خوبصورتی، خیال کی گہرائی، اور جذبات کی سچائی کا امتزاج پایا جاتا ہے۔  ان کی شاعری میں محبت، تنہائی، اور زندگی کی پیچیدگیوں کے مختلف پہلوؤں کو ایک نئی زبان اور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔  ان کا اسلوب نہ صرف سادہ اور دلنشین ہے بلکہ وہ انسانی تجربات کی مختلف پرتوں کو بھی نمایاں کرتا ہے۔

کومل جوئیہ کی شاعری اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔  ان کے دونوں شعری مجموعے ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور شاعرانہ مہارت کی عکاسی کرتے ہیں۔  ’ایسا لگتا ہے تجھ کو کھو دوں گی‘ اور ’ہاتھ پہ آئی دستک‘ دونوں مجموعے ان کے ادب میں منفرد مقام کو اجاگر کرتے ہیں اور قارئین کو ایک نئے اور دلکش ادبی تجربے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔  ان کی شاعری نہ صرف جمالیاتی طور پر دلکش ہے بلکہ وہ انسانی جذبات اور تجربات کی عکاسی بھی کرتی ہے۔

نمونہ کلام:

غزل

سب چراغوں کی ہدایات کا مطلب سمجھے

چاند روٹھا تو سیہ رات کا مطلب سمجھے

اس پہ اترے تھے محبت کے صحیفے لیکن

ایک کافر کہاں تورات کا مطلب سمجھے۔۔

کون رہ رہ کے وفاوں کو نبھانا سیکھے۔۔

کون فرسودہ روایات کا مطلب سمجھے۔۔

اس سے پہلے تو دعاوں پہ یقیں تھا کم کم

تو نے چھوڑا تو مناجات کا مطلب سمجھے

جب وہ بھر بھر کے لٹاتا رہا اوروں پہ خلوص

ہم تہی دست عنایات کا مطلب سمجھے۔۔

اب کسی اور طرف بات گھمانے والے۔۔۔۔

میں سمجھتی ہوں تری بات کا مطلب، سمجھے

تجھ کو بھی چھوڑ کے جائے ترا اپنا کوئی

تو بھی اک روز مکافات کا مطلب سمجھے

٭٭٭

 

 

مشغلہ۔ زاہد آفاق

 

زاہد آفاق صاحب بہت منجھے ہوئے شاعر ہیں ان کا کلام استادانہ کمال رکھتا ہے وہ مشکل اور پیچیدہ مضامین بھی نہایت آسانی و روانی سے کہ جاتے ہیں ان کی غزلیں غنائیت ترنم اور موسیقیت کا حسن سموئے ہوئے ہیں

’مشغلہ‘ ان کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو اردو شاعری میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔  زاہد آفاق نے اپنی شاعری میں نہ صرف کلاسیکی روایت کو زندہ رکھا بلکہ جدید دور کے تقاضوں اور مسائل کو بھی اپنی تخلیقات کا حصہ بنایا ہے۔  ان کی شاعری میں الفاظ کا چناؤ، جذبات کی شدت، اور معانی کی گہرائی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔

زاہد آفاق کی شاعری میں کلاسیکی ادب کی جھلک نظر آتی ہے، جہاں الفاظ کی نفاست اور خیالات کی بلندی نمایاں ہیں۔  لیکن وہ صرف ماضی کے گُن گانے والے شاعر نہیں ہیں ؛ ان کی شاعری میں جدید عہد کے تقاضے اور مسائل بھی شامل ہیں۔  ’مشغلہ‘ کے اشعار اس بات کا ثبوت ہیں کہ شاعر نے اپنے عہد کی صورتحال کا نہایت باریکی سے مشاہدہ کیا ہے اور اسے اپنے کلام میں پیش کیا ہے۔

مثال کے طور پر:

’دستار کو گرنے نہ دیا تھام کے رکھا

قیمت لگی دربار میں جب سر سے زیادہ‘

یہ شعر نہ صرف سماجی حالات کی تصویر کشی کرتا ہے بلکہ انسان کے عزتِ نفس اور خود داری کی حفاظت کا پیغام بھی دیتا ہے۔

’مشغلہ‘ میں زاہد آفاق نے مختلف موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔  ان کی شاعری میں عشق و محبت کے معاملات بھی ہیں اور سماجی ناہمواریوں پر تنقید بھی۔  کہیں وہ انسانی تعلقات کی نزاکتوں کو بیان کرتے ہیں تو کہیں وقت کے جبر اور نظام کی نا انصافیوں پر اپنی رائے دیتے ہیں۔

’تمہارے عہد میں جاری ہوا ہے یہ فرمان

زبان کاٹ دو اس کی جو بولنا چاہے‘

یہ شعر شاعر کے اس شعور کا مظہر ہے جو آزادیِ اظہار کے حق اور جبر کے خلاف ہے۔

زاہد آفاق کے اشعار میں فنی مہارت اور گہرائی کا اظہار ہوتا ہے۔  وہ ایک سچے فنکار کی طرح اپنے جذبات و خیالات کو الفاظ میں ڈھالتے ہیں۔  ان کا کلام نہ صرف جمالیاتی پہلو رکھتا ہے بلکہ فکری گہرائی اور معنوی وسعت بھی پیش کرتا ہے۔

مثال کے طور پر:

’اک ذرا پاؤں کی زنجیر جو ہل جاتی ہے

اپنا لہجہ ہی بدل لیتا ہے زنداں کا سکوت‘

یہ شعر نہایت مہارت کے ساتھ انسان کی جد و جہد اور آزادی کی خواہش کو بیان کرتا ہے۔

زاہد آفاق کی کتاب ’مشغلہ‘ ان کے تخلیقی سفر کا ایک اہم سنگ میل ہے۔  اس مجموعے میں ان کے وہ اشعار شامل ہیں جو مختلف گلوکاروں نے گائے ہیں، جیسے میڈم نور جہاں، استاد اسد امانت علی خان، اور غلام علی خان۔  ان اشعار میں صرف موسیقی کی لَے ہی نہیں بلکہ الفاظ کی گہرائی اور جذبات کی شدت بھی شامل ہے۔

’مشغلہ‘ زاہد آفاق کے فکری، جذباتی، اور فنی سفر کی جھلک پیش کرتی ہے۔  ان کی شاعری نہ صرف اردو ادب کے قارئین کو متاثر کرتی ہے بلکہ ان کی تخلیقات سماجی مسائل کو سمجھنے اور ان پر غور کرنے کی دعوت بھی دیتی ہیں۔  زاہد آفاق کو ’مشغلہ‘ کی اشاعت پر دلی مبارکباد۔  یہ کتاب یقینی طور پر اردو شاعری میں ایک یادگار حیثیت رکھتی ہے۔

ایک غزل دیکھیں

یہ مشغلہ ہے کسی کا نہ جانے کیا چاہے

نہ فاصلوں کو مٹائے نہ فیصلہ چاہے

مری بساط ہی کیا میں ہوں برگِ آوارہ

اڑا کے لے چلے مجھ کو جدھر ہوا چاہے

جو اصل چہرہ دکھاتا ہے ترجماں بن کر

اس آئنے کی طرف کون دیکھنا چاہے

تمہارے عہد میں جاری ہوا ہے یہ فرمان

زبان کاٹ دو اس کی جو بولنا چاہے

ہزاروں ڈوبنے والے بچا لئے میں نے

اب اس کو کیسے بچاؤں جو ڈوبنا چاہے

ہمارا دل بھی تو اک آبگینہ ہے آفاق

ذرا سی ٹھیس لگے اور ٹوٹنا چاہے

٭٭٭

 

 

 

آدمی اور لا وجود۔  گل جہان

 

معروف شاعر جناب گل جہان صاحب کے دو شعری مجموعے موصول ہوئے ہیں۔  سرسری مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ گل جہان کی شاعری سلاست و سادگی اور پختہ کاری کی شاندار مثال ہے۔  ان کے اشعار سے ایک پختہ شاعر کی غمازی ہوتی ہے وہ تازہ کار ہیں اور لفظ کی اہمیت سے واقف ہیں مجھے یقین ہے کہ ان کا کام قبولیت کی سند پائے گا۔

لائٹ آف تو کر دیتا ہوں کمرے کی

ایک دیا سا مجھ میں جلتا رہتا ہے

۔

بہا کے اشک تری یاد کے فصیلوں پر

میں منظروں میں نئے ذائقے ملاؤں گا

۔

یہ فون کان پہ رکھنا مری ضرورت تھی

تمہاری یاد سے بچ کر مجھے گزرنا تھا

۔

عدو کی کارگزاری تو رن کا حصہ تھی

گلہ شکست کو لیکن مری تھکان سے تھا

۔

گل جہان ایک ژندہ اور متحرک شاعر کا قلب رکھتے ہیں اور زمانے کے نرم و گرم کا گہرا شعور رکھتے ہیں ان کے مجموعے اردو شاعری میں عمدہ اضافہ ہیں۔

٭٭٭

 

 

رقصِ ہوا :  سعید راجہ

 

سعید راجہ صاحب راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ ہماری کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور بھلا ہو بھی کیسے؟ نہ میں مشاعروں میں جاتا ہوں نہ ادبی محفلوں میں شرکت کرتا ہوں۔ ویسے بھی میرا شعری سفر محض تین چار سال پر محیط ہے—اتنی کم مدت میں کون کسی کو جاننے کی کوشش کرتا ہے؟

سعید راجہ صاحب سے میرا تعلق 2023 میں قائم ہوا جب میرا پہلا شعری مجموعہ حیرت برقی کتابوں کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔ انہوں نے اس مجموعے کو نگاہِ استحسان سے دیکھا اور اس کے محاسن پر ایک خوبصورت مضمون تحریر کیا۔ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی اور میرے دوسرے شعری مجموعے معمول پر بھی مضمون لکھا جو میں نے اس کتاب کے دیباچے میں شامل کیا۔

راجہ صاحب نے میرے مضامین کو بھی پسند کیا مگر کبھی یہ تقاضا نہیں کیا کہ میں ان کی شاعری پر کچھ لکھوں۔ وہ ہمیشہ بے نیازی کا مظاہرہ کرتے رہے اور میں بھی ان پر کچھ نہ لکھ سکا۔ تاہم  مجھے اپنی کوتاہی کا شدت سے احساس ہے کہ میں نے ان کے بارے میں کیوں نہیں لکھا؟ چنانچہ کسی تاخیر کے بغیر آج میں ان کے شعری مجموعے "رقصِ ہوا” پر چند کلمات پیش کر رہا ہوں۔

سعید راجہ کی شاعری میں ایک گہرا روحانی اور فکری پہلو نظر آتا ہے  جو انہیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کی شاعری کسی سطح پر تعلقات یا محض رومانوی اظہار کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک بے چین روح کی آہٹ اور اُس کی تلاش کا اظہار ہے۔ سعید راجہ کے لیے شاعری صرف الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ یہ ایک داخلی سفر ہے جو ہمیشہ اچھے سے اچھے کی تلاش میں رہتا ہے۔ ان کا یہ عشق محض ظاہری نہیں بلکہ باطن کا گہرا اور پیچیدہ تعلق ہے۔

راجہ صاحب نے اپنی شاعری میں انسان کی اخلاقی اور روحانی جہتوں کا گہرا جائزہ لیا ہے۔ وہ کسی بھی سطح پر قاری کو مصنوعی طریقوں سے متوجہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ان کا یہ سلیقہ انہیں ایک منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں فطری انداز میں خودی کی تلاش، محبت کی پیچیدگیاں، اور داخلی کشمکش جھلکتی ہے۔

ایک اور اہم پہلو ان کی شاعری کا یہ ہے کہ وہ کبھی بھی اپنے اشعار میں کسی قسم کے سستے شارٹ کٹس استعمال نہیں کرتے۔ ان کا ہر شعر ایک نیا کائناتی تجربہ پیش کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں وقت گزرنے کے ساتھ ایک نکھار آیا ہے اور ان کے شعری سلیقے میں وسعت پیدا ہوئی ہے جس کا اظہار ان کے مجموعے میں مختلف بحروں کے استعمال سے ہوتا ہے۔

ان  کی شاعری میں انسان کے اندر کی سرگوشیاں اور آوازیں اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا یہ رویہ انہیں صاحبِ واردات  بناتا ہے جو اپنی دنیا کی حقیقتوں کا سامنا کرتا ہے اور انہیں اشعار میں ڈھالتا ہے۔ ان کی شاعری میں ہر درد، ہر یاد اور ہر لمحہ ایک نئے معنی اور نئے رنگ میں ڈھلتا ہے۔

چند اشعار کا انتخاب:

کچھ اس طرح مرا باہر خفا ہوا مجھ سے

اک اجنبی مرے اندر کلام کرنے لگا

۔

رقص میں ہیں ریشمی یادوں کے جھونکے

رنج آتش دان میں رکھا ہوا ہے

۔

اک تارِ محبت سے بندھے آتے ہیں سارے

یاروں کو صدا دے کے بلانا نہیں پڑتا

۔

دشت میں رہنا آپ کے بس کی بات نہیں ہے

آپ ذرا سی خاک اڑا کر جا سکتے ہیں

۔

مری مشکلیں اور بھی بڑھ گئی ہیں

مری آنکھ کو دیکھنا آ گیا ہے

۔

ہمیں کوئی بتائے اس کا مصرف

ہمارے پاس اک پل فالتو ہے

۔

میں مکمل نہیں بکھروں گا کبھی

یہ ہنر تجھ کو پتا ہے میرا

۔

یہ اشعار سعید صاحب کی شاعری کی گہری نوعیت اور ان کے داخلی سفر کی جھلک پیش کرتے ہیں جہاں وہ اپنی دنیا کی حقیقتوں کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ ان کو اشعار کے ذریعے دنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

اکبر حمیدی۔  ایک ہشت پہلو ادبی شخصیت

 

 

اکبر حمیدی اردو ادب کی ان شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کو ادب کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔  10 اپریل 1935  کو پیدا ہونے والے اکبر حمیدی کا ادبی سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس میں انہوں نے شاعری، انشائیہ نگاری، خاکہ نگاری، تنقیدی مضامین اور بچوں کے ادب سمیت کئی اصناف میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔  ان کی پچیس سے زائد کتابیں شائع ہوئیں، جن میں آٹھ شعری مجموعے، انشائیوں کے پانچ مجموعے، خاکوں کے دو مجموعے، تنقیدی مضامین پر مشتمل دو کتابیں، ریڈیو کالموں کا ایک مجموعہ، اور ان کی خود نوشت سوانح شامل ہیں۔

اکبر حمیدی کی شاعری ایک منفرد انداز کی حامل ہے، جس میں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلنے والا احتجاج، مذہبی رواداری کی تاکید اور زندگی کے رنگوں سے لطف اندوز ہونے کی مختلف کیفیات ملتی ہیں۔  ان کی شاعری نہ صرف خوبصورتی اور جذبات سے مزین ہے بلکہ اس میں فکری گہرائی بھی پائی جاتی ہے۔  پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور معاشرتی نا انصافیوں پر ان کا کرب ان کی نظموں اور غزلوں میں نمایاں ہے۔  ان کے اشعار زندگی کے مسائل اور انسانی اقدار کو ایک ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں جو قاری کے دل پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔

انشائیہ نگاری کے میدان میں اکبر حمیدی نے اپنی الگ راہ اپنائی۔  ان کے انشائیوں میں سنجیدگی اور مزاح کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے، جو قارئین کو نہ صرف محظوظ کرتا ہے بلکہ غور و فکر پر بھی مجبور کرتا ہے۔  سرگودھا اسکول کی حمایت کے باوجود، انہوں نے اس صنف میں اپنی جداگانہ پہچان بنائی اور انشائیہ نگاری کو ایک نیا زاویہ عطا کیا۔

خاکہ نگاری میں اکبر حمیدی نے ایک منفرد روایت قائم کی۔  انہوں نے نہ صرف ادبی اور معروف شخصیات کے خاکے لکھے بلکہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے خاکے بھی تخلیق کیے، جو قاری کے لیے ایک جذباتی اور دلکش تجربہ بن جاتے ہیں۔  ان کے خاکے حقیقت اور تخیل کا حسین امتزاج ہیں، جن میں کرداروں کی زندگی کے مختلف پہلو بڑی خوبصورتی سے اجاگر کیے گئے ہیں۔

بچوں کے ادب کے میدان میں بھی اکبر حمیدی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔  انہوں نے بچوں کے لیے پانچ کتابیں لکھیں، جن میں ایک یونیسکو کے زیر اہتمام شائع ہوئی۔  ان کی کہانیاں اور نظمیں بچوں کے ذہنوں کو نہ صرف تفریح فراہم کرتی ہیں بلکہ ان میں اخلاقی تربیت کے عناصر بھی موجود ہوتے ہیں، جو بچوں کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اکبر حمیدی کی زندگی میں ان کے فن کی تعریف اور پذیرائی کرنے والوں میں سید ضمیر جعفری، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر رفیق سندیلوی، شہزاد احمد، اور دیگر معروف ادبی شخصیات شامل تھیں۔  ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو سراہا گیا، لیکن بدقسمتی سے ان کی گراں قدر خدمات کے باوجود انہیں وہ مقام نہ مل سکا جس کے وہ حقدار تھے۔  یہ اردو ادب کے قارئین اور ناقدین کی طرف سے ایک واضح نا انصافی تھی۔

اکبر حمیدی 13 دسمبر 2011  کو اس دنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کا کام آج بھی ان کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔  ان کی شاعری، خاکے، اور انشائیے اردو ادب کا ایک انمول حصہ ہیں، جو آنے والی نسلوں کو تخلیقی سوچ، محبت، اور انسانی اقدار کا درس دیتے رہیں گے۔  اکبر حمیدی کا فن نہ صرف ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے بلکہ اردو ادب کی تاریخ میں ان کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔

نمونۂ کلام

رات آئی ہے بچوں کو پڑھانے میں لگا ہوں

خود جو نہ بنا، ان کو بنانے میں لگا ہوں

بہت مشکل ہے ان حالوں میں جینا

مگر میں زندگی پر تُل گیا ہوں

کہیں بھی رہ در و دیوار جگمگا کے رکھ

اگر چراغ ہے چھوٹا تو لو بڑھا کے رکھ

ہماری جنگ اندھیروں سے ہے ہوا سے نہیں

دیا جلا کے نہ یوں سامنے ہوا کے رکھ

کچھ سال تو آئین بنانے میں لگے ہیں

باقی کے ترامیم کرانے میں لگے ہیں

کب تلک وقت ٹالنا ہو گا

راستا تو نکالنا ہو گا

اگلی نسلوں کو کفر سازی کے

چکروں سے نکالنا ہو گا

ہم اچھا وقت نہیں لا سکے نئی نسلو!

مگر تمہارے لیے اچھے خواب لے آئے

فرازِ کوہ سے پیہم صدائیں آتی ہیں

میں اس کی ہوں جو مجھے دیو سے چھڑا لے جائے

٭٭٭

 

 

امداد آکاش سے مختصر ملاقات

 

 

کل شام محترم امداد آکاش صاحب کے گھر اسلام آباد میں، ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ موصوف اپنی بے باکی اور صاف گوئی کی وجہ سے ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ انسانیت سے محبت ان کا اصول ہے، اور ان کے قریبی دوست کبھی کبھار انہیں نیم دہریہ‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔

جب میں آئی نائن میں رہائش پذیر تھا اور محترم لیاقت طینی کی مشہور زمانہ الصفہ اکیڈمی میں کام کرتا تھا، تو اکثر آئی ٹین میں ان کی اولڈ بک شاپ پر ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ لیکن آئی نائن سے نقل مکانی کے بعد یہ ملاقاتوں کا سلسلہ رک گیا۔

چند دن پہلے میں نے ان سے میسنجر پر رابطہ کیا، تو انہوں نے محبت بھرے انداز میں آئی ایٹ فور میں اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ چونکہ میرے قریبی عزیز بھی اسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں، اس لیے میں نے فوراً دعوت قبول کی اور ان سے ملاقات کے لیے روانہ ہو گیا۔

امداد آکاش صاحب ہمیشہ کی طرح محبت اور گرم جوشی سے ملے، اور ان سے ملاقات کر کے میں خوشی سے جھوم اٹھا۔ دورانِ گفتگو میں نے انہیں کورونا کے دوران اپنی مصروفیات اور اپنی شاعری کے متعلق بتایا۔ اس کے ساتھ اپنی تینوں کتابیں انہیں پیش کیں۔ ان کا اندازِ پذیرائی بے حد شاندار تھا۔ انہوں نے کتابیں کھڑے ہو کر وصول کیں، اور ان کے اس عزت افزائی کے انداز نے میری آنکھیں نم کر دیں۔

امداد آکاش نہ صرف ایک منفرد شاعر ہیں بلکہ محبت کرنے والے عظیم انسان بھی ہیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد میں ان کے گھر سے واپس روانہ ہوا، لیکن ان کا یہ شعر میرے دل و دماغ میں گونجتا رہا:

میں جی رہا ہوں تو اس میں کیا ہے کمال میرا

کسی کے فیضان ہی نے زندہ رکھا ہوا ہے

٭٭٭

 

 

لمحوں کا زہر : نواب ناظم  

 

نومبر 2024 کی بات ہے کہ میرے دیرینہ دوست غلام محمد میو، فارن ٹور سے واپسی پر میرے گھر تشریف لائے۔ میں نے انہیں اپنی نئی کتاب ’معکوس‘ پیش کی۔ وہ بہت خوش ہوئے اور فوراً اپنی گاڑی سے اپنی تصنیف ’میو سپوت‘ اٹھا کر میرے حوالے کر دی۔ میں نے اس پر خوشی کا اظہار کیا۔ اس کتاب کے ذریعے مجھے پہلی بار نواب ناظم کے بارے میں جاننے کا موقع ملا، جنہوں نے میرے دوست غلام محمد میو پر یہ کتاب تحریر کی تھی۔ میں کتاب کی طرزِ تحریر سے متاثر ہوا اور اس پر ایک مختصر تبصرہ لکھ کر فیس بک پر پوسٹ کر دیا۔

اگلے دن نواب ناظم صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور میرے تبصرے کی درخواست کی، جو میں نے انہیں بھیج دیا۔ اگلے دن یہ تبصرہ روزنامہ سسٹم اور روزنامہ باڈر لائن میں شائع ہو گیا۔ نواب صاحب لاہور کے مذکورہ اخبارات کے ایڈیٹر ہیں۔ اس طرح ان سے میرا تعلق قائم ہوا۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے اپنی سات کتابیں بھیجیں، جن میں ان کے دو شعری مجموعے بھی شامل تھے۔ ان کی تخلیقات دیکھ کر ان کے ادبی قد کاٹھ کا اندازہ ہوا۔ اب میں ان کے پہلے شعری مجموعے ’لمحوں کا زہر‘ پر تبصرہ کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

نواب ناظم کا شعری مجموعہ ’لمحوں کا زہر‘ ان کی فکری بالیدگی، جذباتی شدت اور فنی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مجموعہ ان کے گہرے مشاہدے، زندگی کے نشیب و فراز کے تجربات اور انسانی جذبات کے لطیف احساسات کو شاعری کی صورت میں قاری کے سامنے پیش کرتا ہے۔ نواب ناظم کی صحافتی بصیرت اور ادبی مہارت ان کے اشعار میں نمایاں نظر آتی ہے، جس سے ان کی شاعری کو ایک خاص معنویت اور گہرائی حاصل ہوتی ہے۔

یہ مجموعہ مختلف اصنافِ سخن کا حسین امتزاج ہے، جس میں مناجات، نعتیں، غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ آغاز مناجات سے ہوتا ہے، جس میں شاعر کا عجز، دعا کی تاثیر اور روحانی سکون جھلکتا ہے۔ اس کے بعد عشقِ مصطفیٰ ﷺ میں ڈوبی ہوئی نعتیہ شاعری سامنے آتی ہے، جو عقیدت اور والہانہ محبت کا عکس ہے۔ ان نعتوں کے الفاظ میں سادگی، سچائی اور گہری روحانی وابستگی نمایاں ہے، جو قاری کے دل میں محبت رسول ﷺ کے جذبات کو مزید مہمیز دیتی ہے۔

نواب ناظم کی غزلوں میں انفرادیت اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ روایتی غزل کی کلاسیکی چمک دمک کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دور کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔ ان کی غزلیں محض جذبات و احساسات کا بیان نہیں بلکہ زندگی کی سچائیوں کا آئینہ ہیں۔ ان کے اشعار میں سماج کی ناہمواریوں، انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں اور داخلی جذبات کی عکاسی بخوبی ملتی ہے۔

نظموں کی بات کی جائے تو نواب ناظم کے اس مجموعے میں کئی خوبصورت اور متاثر کن نظمیں شامل ہیں۔ ان نظموں میں ایک فکری گہرائی اور جذباتی شدت محسوس کی جا سکتی ہے۔ وہ الفاظ کے برتاؤ میں نہایت مہارت رکھتے ہیں اور شاعری میں معنویت کے ساتھ ساتھ حسن اور چاشنی کا بھی بھرپور خیال رکھتے ہیں۔ ان کی نظموں میں زندگی کی حقیقتوں، امید و ناامیدی، روشنی و تاریکی، عشق و محبت اور انسانی نفسیات جیسے موضوعات نمایاں ہیں۔

ان کے کلام کا سب سے نمایاں پہلو سادگی اور روانی ہے۔ مشکل الفاظ یا پیچیدہ ترکیبات سے گریز کرتے ہوئے وہ اپنی شاعری کو عام فہم رکھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اس میں گہرائی اور اثر انگیزی برقرار رہتی ہے۔ ان کی شاعری میں داخلی کرب، درد، احتجاج، معاشرتی ناہمواریوں پر تنقید اور اصلاح کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے ہاں زبان کی چاشنی، بیان کی روانی اور خیالات کی پختگی ایک خوبصورت امتزاج کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔

یہ مجموعہ محض شاعری کی کتاب نہیں بلکہ ایک عہد کی ترجمانی ہے، جس میں نواب ناظم نے اپنے محسوسات، تجربات اور مشاہدات کو شعری قالب میں ڈھال کر قاری تک پہنچایا ہے۔ ’لمحوں کا زہر‘ نواب ناظم کے فکری ارتقا، ان کے جمالیاتی ذوق اور فن پر عبور کا بہترین نمونہ ہے، جو اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہو سکتا ہے۔

نواب ناظم صاحب علامہ ذوقی مظفر نگری کے شاگردِ رشید ہیں۔ انہوں نے نواب صاحب کے ادبی ذوق کو جلا بخشی اور ان کے فیوض و برکات سے نواب ناظم کی شاعری میں پختگی اور مہارت پیدا ہوئی۔ شاعری اس وقت تک اپنا دریچہ وا نہیں کرتی جب تک فنی مہارت جزو جاں نہیں بن جاتی۔ خدا داد صلاحیتیں اپنی جگہ ہیں لیکن زبان و بیان اور بحر و اوزان کے علم کے بغیر مکمل اور پورا شعر کہنا محال ہے۔ علامہ صاحب نے انہیں زبان و بیان اور بحور و اوزان میں تاک کر دیا۔ نواب ناظم صاحب اپنے اظہارِ تشکر میں اعتراف کرتے ہیں: ’’استاد محترم علامہ ذوقی مظفر نگری صاحب جن کی شفقت و محبت نے میرے ادبی شعور کو جلا بخشی اور مجھے شعرا کرام کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔ استادِ محترم کا تا حیات مقروض رہوں گا۔‘‘

نواب ناظم صاحب نے مشکل تراکیب، مبہم علامتوں اور دقیق استعاروں سے اجتناب کرتے ہوئے سادہ و سلیس زبان کا استعمال کیا ہے، جس سے ان کی شاعری عام فہم اور پر کشش بن گئی ہے۔ وہ مسلسل تگ و دو سے اس اسلوب کو پانے کے قریب پہنچ گئے ہیں جو ان کی پہچان ہو گا۔ جناب عابد حسین عابد اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’یہ ہمارا ترقی پسند تحریک کا فطری اتحادی ہے۔ فکر اور شعور کا راستہ کبھی کمزور نہیں پڑتا۔ جس دن لوگوں کی بڑی تعداد نے اس فکر سے رشتہ استوار کر لیا، کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دیا، اس دن ہم اس سماج کو بدلنے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘  نواب ناظم کی شاعری اسی سماجی تبدیلی کی خواہش کے گرد گھومتی ہے۔ ان کا شعری فلسفہ شعر برائے شعر نہیں بلکہ اپنے اندر عام انسان کی خوشحالی اور تبدیلی کا خواہاں ہے۔

نواب ناظم نے شاعری کسی حجرے یا غار میں بیٹھ کر نہیں کی۔ انہوں نے اپنی صحافیانہ زندگی سے بہت کچھ سیکھا، استاد ذوقی سے استفادہ کیا، تکیہ املی والا اور انار کلی کے مشاعروں سے نظم و غزل کے گیسو سنوارے اور مختلف اساتذہ سے زانوئے تلمذ حاصل کر کے اپنی شاعری کی آبیاری کی۔ انہوں نے تقریباً مروجہ تمام اصناف میں سخن آرائی کی۔ نامور شاعر باقی احمد پوری نواب ناظم صاحب کی شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’ردیف و قوافی کی بعض بندشیں خود خیالات کو کھینچ کر شاعر کے نوکِ قلم تک لے آتی ہیں اور ان سے مفر ممکن نہیں ہوتا۔ چھوٹی بحروں میں شاعر کا جوہر کھلتا ہے۔ نواب ناظم نے بھی کامیابی سے چھوٹی بحروں میں بولتے ہوئے مصرعے اور گنگناتے ہوئے شعر کہے ہیں۔ وہ صحافی بھی ہیں اور سیاسی ماحول پر بھی ان کی گہری نظر ہے، اس لیے ان کی شاعری میں یہ رنگ بھی جھلکتا ہے۔‘‘

میں ذاتی طور پر نواب ناظم کی شعری استعداد سے متاثر ہوا ہوں۔ وہ کسی کے خیالات کی جگالی نہیں کرتے، جو بھی کہتے ہیں اپنا کہتے ہیں اور سادگی و سلاست سے کہتے ہیں۔ ان کا لہجہ نہایت دھیما اور لطیف ہے۔ موسیقیت و گداز بھی ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ میں نے ان کے اشعار میں میر صاحب جیسی کاٹ دیکھی ہے اور برجستگی بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ بھرتی اور بے معنی اشعار نظر نہیں آتے۔ میں تو ان کو غزل کا کامیاب شاعر سمجھتا ہوں۔ جناب اسلم کولسری صاحب نے ان کے بارے میں درست فرمایا ہے: ’’نواب ناظم کی شاعری سادگی، انتہائی درد مندی اور سلاست سے مملو ہے۔ وطن سے محبت ان کی شاعری کو سیراب کرتی ہے تو اہل وطن کے دکھ زخموں کے گلاب بن کر اس میں مہکتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی نظم ہو یا غزل، یہ اوصاف ہر جگہ نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اشعار دل سے نکلنے اور دل میں جا بیٹھنے کی تاثیر رکھتے ہیں۔‘‘

نواب ناظم کی شاعری اردو ادب کے گلستان میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ مجھے ان کی شاعری کا مستقبل درخشاں نظر آتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے درد مند اشعار کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔

 

غزلوں کے چند اشعار:

دم لبوں پر کیوں نہ ہو مزدور کے

مفلسی ہے اور ہے مہنگا اناج

راہزن لوٹتے ہیں لوگوں کو

اور مجھے رہبری نے لوٹا ہے

کیسے ہم کٹنے سے پیڑ بچا لیتے

اپنے پاس تو کاغذ کی شمشیریں تھیں

مرنا بھی اب غریب کو دشوار کیوں نہ ہو

کم بخت اب تو زہر بھی مہنگا ہے شہر میں

کارواں کس طرح پاتے منزلِ نو کا سراغ

راہرو اچھے تھے لیکن راہبر اچھے نہ تھے

آئینوں کا لباس تھا تن پر

پتھروں سے کلام کیا کرتے

میلے تو حادثوں کے لگائے ہیں سینکڑوں

جنسِ نشاطِ زیست کو ارزاں نہ کر سکے

مشہور ہے دنیا میں تو یہ بات الگ ہے

ناظم کبھی لپٹا نہیں شہرت کی پری سے

جس کو تم حادثہ سمجھتے ہو

میری راہوں کی دھول ہوتا ہے

یوں ہے اب دست و گریباں آدمی سے آدمی

جیسے شہرِ زندگی کا ضابطہ کوئی نہیں

جلتا رہا ہوں جس کے لئے غم کی دھوپ میں

کم بخت وہ بھی چھاؤں کے بستر پہ سو گیا

غزل کے ساتھ ساتھ انہوں نے نظم نگاری پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔ ان کی نظمیں سیاسی شعور کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ وطن کی محبت میں سرشار نظر آتے ہیں۔ انہوں نے معراج خالد، علامہ ذوقی مظفر نگری، احسان دانش، شاعرِ مشرق، تحریکِ پاکستان، جشن آزادی اور قائدِ اعظم پر بڑی جاندار نظمیں لکھی ہیں۔ اس سے ان کے سیاسی میلانات اور وطن پرستی کی غمازی ہوتی ہے۔

آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!

٭٭٭

 

 

پنجابی بولیاں

 

بولیاں پنجابی زبان کی ایک منفرد اور دلکش شعری صنف ہیں، جو صدیوں سے پنجابی ثقافت کا حصہ رہی ہیں۔  یہ چھوٹے، مختصر اور پر اثر اشعار ہوتے ہیں، جنہیں عام طور پر گانے یا سنانے کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔  بولیوں کا انداز سادہ، مگر ان کا مفہوم گہرا اور جذباتی ہوتا ہے، جو سننے والے کے دل میں اتر جاتا ہے۔

بولیاں عام طور پر ایک مصرعے پر مشتمل ہوتی ہیں، جو مختصر ہونے کے باوجود مکمل کہانی یا جذبات بیان کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔  ان میں محبت، دکھ، خوشی، جدائی، فخر، یا مٹی سے محبت جیسے گہرے جذبات کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔  عوامی زبان میں کہی جانے والی یہ بولیاں دیہاتی یا شہری زندگی کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتی ہیں۔  ان میں عام بول چال کی پنجابی زبان استعمال ہوتی ہے، اور دیسی آلات موسیقی، جیسے ڈھول، طبلہ اور چمٹا، کے ساتھ ان کا گانا مقبول ہے۔

محبت کی بولیوں میں محبت اور رومانس کے جذبات کو بیان کیا جاتا ہے، جیسے:

’میں کچے بانس دی پوڑی،

تو ہولے ہولے چڑھ منڈیا۔‘

دکھ اور جدائی کی بولیوں میں جدائی، ہجر یا کسی اپنے کے بچھڑنے کا درد بیان ہوتا ہے:

’ساہواں نالے وسدا دکھ،

نالے وسدی یاد پرانی۔‘

مزاحیہ بولیوں میں ہلکا پھلکا مزاح اور زندگی کی عام باتوں پر طنز کیا جاتا ہے۔  ثقافتی اور روایتی بولیوں میں پنجابی ثقافت، رسم و رواج، اور تہواروں کو بیان کیا جاتا ہے۔

بولیاں پنجابی زبان کی نہ صرف خوبصورتی کو بڑھاتی ہیں بلکہ یہ لوگوں کے جذبات اور خیالات کو بھی منفرد انداز میں پیش کرتی ہیں۔  یہ دیہاتی میلوں، شادی بیا ہوں اور دیگر تقریبات میں اہم حیثیت رکھتی ہیں اور لوگوں کے دلوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہیں۔

آج کے دور میں، بولیوں کو گانے اور شاعری کے ذریعے نئی نسل کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے، جو پنجابی ثقافت کے فروغ میں مددگار ثابت ہو رہا ہے۔  کئی پنجابی گلوکار اور فنکار بولیوں کو اپنی موسیقی میں شامل کر کے انہیں زندہ رکھ رہے ہیں۔

پنجابی بولیاں ہماری ثقافتی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔  ان میں نہ صرف ہماری زبان کی سادگی اور خوبصورتی جھلکتی ہے بلکہ ہماری تاریخ، روایات اور جذبات بھی محفوظ ہیں۔  ان کا تحفظ اور فروغ پنجابی ثقافت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

یعقوب آسی صاحب لکھتے ہیں: ​

بولی پنجابی لوک شاعری کی بہت قدیم اور مقبول صنف ہے۔  اس کا صرف ایک مصرع ہوتا ہے، جس کا ایک مخصوص وزن ہے۔  اس وزن سے ہٹ جائے تو اس کو بولی نہیں کہا جا سکتا۔  عام خیال یہی ہے کہ یہ صنف پنجاب میں زمانہ قدیم سے مقبول ہے۔  پنجاب کی مٹی میں گندھی ہوئی اور سرسوں کی مہک سے لدی اور ہوئی یہ صنف اپنے اندر نہ صرف بے پناہ ثقافتی رچاؤ رکھتی ہے بلکہ کومل جذبات کے اظہار کا ایک خوبصورت وسیلہ بھی ہے۔

اردو عروض میں اس کا قریب ترین وزن فعلن (چھ بار) یعنی بارہ سبب کے برابر بنتا ہے۔  تاہم اس میں دو تین باتوں کو دھیان میں رکھنا ہو گا:

(1) معنی اور بُنَت دونوں اعتبار سے بولی کے دو حصے ہیں۔  پہلا حصہ سات سبب کا ہے۔  اس میں شعر کے مصرعے کی طرح مضمون کا ایک حصہ آتا ہے۔  دوسرا حصہ پانچ سبب کا ہے، معانی کے اعتبار سے اس کو شعر کا دوسرا مصرع سمجھ لیا جائے۔

(2) ہر حصہ سبب خفیف (ہجائے بلند) پر ختم ہو گا۔  عروض میں وسرام کی گنجائش نہیں ہے، اس کو حذف کر دیا گیا ہے۔

(3) بولی میں حرکات و سکنات کی ترتیب میں سخت پابندی لازم نہیں۔  تاہم ایک سے زیادہ سبب ثقیل (دو سے زیادہ ہجائے کوتاہ) متواتر نہ آئیں۔  بولی کا اختتام سبب خفیف پر ہونا چاہئے

ذیل میں طاہرہ سرأ کی کتاب ’’بولدی مٹی‘‘ سے پنجابی بولیوں کا انتخاب پیش کیا جا رہا ہے:

تیرا لہور پیا لشکاں مارے، پِنڈاں وچ بھُکھ نچدی ( زاہد وفا)

مُلاں دیس تے قبضہ کیتا، اسیں پردیس ٹُر گئے (راجہ محمد احمد)

کاں چھڈ گئے بنیرے اُتے بولنا، توے تے زنگال ویکھ کے ( سمیع اللہ عرفی)

ساڈے داج نہ پورے ہوئے، ڈولیاںنوں گھُن لگ گئے (فقیر بخت)

ماڑے گھر وچ موت جد آؤندی، بالاںنوں فروٹ لبھدا ( ضیا صابری)

کسے پاسیوں وی مینہ نہ وسیا، اکھیاں نے لک بنھ لئے (اظہر عباس)

ساڈی چِٹی ننگی بھکھ نہیوں دِسدی، پتھراںچ دین والیا؟ (تصدق بھٹی)

انج بدلے دلاں دے جانی، موسماں نے کن پھڑ لئے (ارشاد سندھو)

اساں سفنے کراؤنے ساوے، توں رت لے کے آ جا بالما ( افضل ساحر)

اسیں تھانیاں کچہریاں رل گئے، سجناں نے صلح کر لئی (افضل عباس)

نی توں سانبھ سانبھ رکھنی ایں چٹھیاں، جے کسے تیری اکھ پڑھ لئی (افضل عباس)

نی میں اگلی سیٹ تے بہنا، پچھے بھیڑا شیشہ ویکھدا ( امجد حسین)

دھی کندھاں نال لگ کے روئی، بوہے دی وی اکھ بھج گئی ( انجم سلیمی)

اساں قبراںنوں دتیاں سلامیاں، جیوندیاں دے گل گھُٹ کے (انور فکر)

میرا لکھاں دا وِکدا تکیہ، جے ہنجواں دا مُل پیندا ( انور مسعود)

تیرا شہر گریڈاں والا، سانوں کسے کیہ پُچھنا (انور مسعود)

سانوں تیریاں سہیلیاں نے دسیا، نی تیرے کول دو سِماں نیں ( جاوید اقبال پنچھی)

مینوں ویکھ کے کچیچیاں آون، چن تینوں کیوں تکدا ( خضر محسن)

پُت جم لئے ماں نے سنیارے، کن بُچے لئی پھِردی (خلیل او جلہ)

ماہی اک واری میرے ول ویکھے، میں گھڑیاں چوں سیل کڈھ لاں ( سائل نظامی)

دن لنگھیا تے شاماں ہوئیاں، اسی بیٹھے کم سوچدے (سعد اللہ شاہ)

پیو مرن تے دنیا دس دی، کس بھا و کدی اے (شبیر حسین بٹ)

ماہی پیر ویڑھے وچ رکھیا، ٹُٹ پینی رات ڈھل گئی ( صغرا صدف)

جنج ویڑھے وچ آن کھلوتی، پٹولیاںچ لُکدی پھِراں ( طاہرہ سرأ)

اوہنے واج سہیلیاںنوں ماری، ملاں دی نماز ٹُٹ گئی (عارف شاد)

تیری ہک تے بٹن پئے سہکن، پھریں توں تریہہ ونڈدی( علی اختر)

ہن ڈاہ کے مصلیٰ بہہ گئی، پنڈنوں سودائی کر کے ( عمر حیات کیفی )

میرے مامے دا پتر تے نہیں لگدا، میں کاہنوں اوہدا پکھ ماردی (صوفیہ بیدار)

ماں لوکاںنوں اُلاہمے دیوے، دھی مِس کالاں ماردی ( فرہاد اقبال)

اساں کیس نہ کچہریوں چُکیا، گھر دی وی تھاں وِک گئی (فرہاد اقبال)

کھوہ گیڑ دےنوں ساہ نہ آوے، جے گادھی اُتے یار بیٹھدا (قمرالزماں )

گوہیا پتھدی پئی آکھے مینوں، وے بھورا جنی بانہہ ٹنگ دے (کامران جیون)

تیرا لگیا دبئی دا ویزا، جدائیاں دے مُڈھ بجھ گئے (کرنل محمد الیاس)

بال پُچھدے رہے تیرا عید تے، وڈیاں کمائیاں والیا ( گوہر وریاہ)

تیری اکھ نے تماشا کیتا، پوہ وچ بیر پک گئے (محمد خان ناصر)

نکی عمرے کماون ٹریا، کھڈاؤنیاں دے ناں بھُل گئے ( مرتضیٰ قمر)

میرے گھر والی ہوندی جے موبائل، میں سائلنٹ اُتے لا چھڈ دا ( مُرلی چوہان)

روٹی لبھ کے کُوڑے وچوں کھادی، تیرے اُتے تھوہ حاکما ( مظہر مشتاق)

کئی کت کت بڈھیاں ہوئیاں، اجے وی نہ داج بنیا ( منور شکیل)

جِس منگویں عینک لائی، دوجیاںنوں راہ دسدا ( یعقوب آسی)

تیرے ہر ویلے وجے رہندے باراں، سوئی کِتے اڑی ہوئی اے ( اشفاق ورک)

اوہدی مولوی نے چالی دن کھادی، جو فاقیاں دے نال مریا (ہمراز ساہی)

٭٭٭

 

 

 

سلیم بیتاب

 

سلیم بیتاب ایک پاکستانی شاعر تھے۔  ان کی پیدائش اپریل 1940  میں جالندھر میں ہوئی اور وہ 20 جولائی 1974  کو وفات پا گئے۔  سلیم بیتاب کا خاندان پاکستان بننے کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آ گیا۔  انہوں نے ابتدائی تعلیم خوش پور، لائل پور سے حاصل کی اور پھر اسلامیہ کالج لائل پور سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی اورئینٹل کالج سے ایم اے اردو کیا۔  شاعری کا شوق انہیں تعلیم کے زمانے میں ہی ہو گیا تھا اور انہوں نے کئی مشاعروں میں انعامات جیتے۔

سلیم بیتاب نے اسلامیہ کالج لائل پور میں لیکچرر کے طور پر کام کیا۔  ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’لمحوں کی زنجیر‘‘ 1973  میں شائع ہوا، اور ان کی وفات کے بعد دوسرا مجموعہ ’’ہوا کی دستک‘‘ ان کے شاگرد اور دوست اعجاز وقار کی کوششوں سے شائع ہوا۔  احمد ندیم قاسمی اور منیر نیازی جیسے بڑے شعرا نے بھی ان کے فن کی تعریف کی۔  سلیم بیتاب کی شاعری میں معاشرتی مسائل اور انسانی رشتوں کی تلخیوں کا عکس نمایاں ہے۔

چند اشعار

آج بیتابؔ فصیلوں کی ضرورت کیا ہے ​

شہر کو شہر کے لوگوں سے بچایا جائے

گرفت اس کی، نہ میری تھی اڑتے لمحوں پر

وہی ہوا ہے جو انجام کار ہونا تھا

وہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے

یہ دیکھنے کو کئی بار رک گیا ہوں میں

میں نے تو یونہی راکھ میں پھیری تھیں انگلیاں

دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

0000

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل

یہاں کتب ورڈ، ای پب اور کنڈل فائلوں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ صفحے کا سائز بھی خصوصی طور پر چھوٹا رکھا گیا ہے تاکہ اگر قارئین پرنٹ بھی کرنا چاہیں تو صفحات کو پورٹریٹ موڈ میں کتاب کے دو صفحات ایک ہی کاغذ کے صفحے پر پرنٹ کر سکیں۔
ویب گاہ کی تعمیر و تشکیل: محمد عظیم الدین اور اعجاز عبید